Super User
فلسطینی خالی ہاتھ اسرائیل کے مقابلے میں ڈٹے ہوئے ہیں
اسلامی جمہوریہ ایران کی پارلیمنٹ میں قومی سلامتی و خارجہ پالیسی کمیشن کے رکن نے غزہ کے محاصرے اور جنگ سے متاثرہ فلسطینیوں کی امداد کی ضرورت پر تاکید کی ہے۔ منصور حقیقت پور نے ایسنا کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ فلسطین کے عوام خالی ہاتھ اسرائیل کے مقابلے میں ڈٹے ہوئے ہیں اور ملت ایران، فلسطینی قوم کی مادی و معنوی مدد کے لئے تیار ہے اور اگر مصر غزہ کے باڈر پر رفح کی گذر گاہ کو کھول دے تو ایران، فلسطینیوں کو بھر پور امدار فراہم کرنے کے لئے تیار ہے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل اسلامی جمہوریۂ ایران کے نائب وزیر خارجہ " حسین امیر عبداللہیان" نے ایران کی جانب سے فلسطینی عوام کے لئے غذائی اشیاء اور دواؤں پر مشتمل امدادی سامان غزہ بھیجے جانے کا پرمٹ جاری کرنے کی مصری حکام سے درخواست کرتے ہوئے وضاحت کی کہ ستاون افراد پر مشتمل فلسطینیوں کا پہلا گروپ، جس میں شدید زخمی عورتیں اور بچے شامل ہیں مصر میں ایران کی امدادی پرواز اور علاج کے لئے فوری طورپر تہران منتقل کئے جانے کا منتظر ہے۔
غزہ میں 72گھنٹے کی جنگ بندی/ 1459 شہید اور 8400 زخمی

غزہ میں 25 دن کی بمباری کے بعد جنگ بندی کے آثار نظر آنے لگے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون اور امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری کے مطابق تمام فریقین انسانی بنیادوں پر امن معاہدے کے لیے رضامند ہوگئے ہیں، جمعہ کی صبح سے تین دن کے لیے فائر بندی کر دی جائے گی۔ غزہ میں صبح کا سورج طلوع ہوا اور اس بار بموں کی برسات نہیں ہوئی، 72 گھنٹوں تک نہ تل ابیب سے کوئی میزائل آئے گا نہ حماس راکٹوں سے جواب دے گا، عالمی طاقتوں کے دبائو پر صیہونی حکومت اور حماس اگلے 3 دن تک فائر بندی پر رضا مند ہو گئے ہیں۔ بان کی مون اور امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے مطابق فائر بندی کا آغاز فلسطین میں صبح آٹھ بجے ہوا۔ سیز فائر کے دوران غزہ میں امدادی کاموں کے علاوہ علاقہ مکینوں کو خوراک فراہم کی جائے گی، جاں بحق افراد کی تدفین بھی عمل میں آئے گی جبکہ بمباری کے نتیجے میں تباہ ہونے والی پانی کی پائپ لائنیں اور دیگر ضروری کام بھی اس دوران انجام دیے جائیں گے۔ جان کیری کے مطابق جنگ بندی کے معاہدے پر بات چیت کے لیے اسرائیلی اور فلسطینی حکام فوری طور پر قاہرہ روانہ ہو رہے ہیں۔ دوسری جانب حماس نے بھی اگلے 72 گھنٹوں کے لیے فائر بندی کے معاہدے کی تصدیق کر دی ہے۔ 25 روز میں غزہ میں 1400 سے زائد افراد صیہونی جارحیت کی نذر ہوچکے ہیں ،جبکہ 56 صیہونی فوجی حماس کی جانب سے جوابی کارروائیوں کا شکار ہوئے۔
دیگر ذرائع کے مطابق اسرائیل اور حماس نے غزہ کی پٹی میں بہتر گھنٹے کی جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے منگل کو ایک مشترکہ بیان میں بتایا کہ جنگ بندی یکم اگست کو صبح آٹھ بجے مقامی وقت پر شروع ہوگی۔ بیان کے مطابق، جنگ بندی کے دوران فورسز اپنی جگہ پر رہیں گی، جس کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل کی زمینی فوج واپس نہیں جائے گی۔ بیان میں مزید بتایا گیا کہ مشرق وسطٰی کے لیے یو این کے سفیر رابرٹ شیری کو تمام فریقین سے یقین دہانیاں ملی ہیں۔ بان کی مون اور کیری کا کہنا ہے کہ "ہم تمام فریقین پر زور دیں گے کہ وہ انسانی بنیادوں پر جنگ بندی شروع ہونے تک تحمل کا مظاہرہ کریں۔ یہ سیز فائر معصوم شہریوں کو جاری تشدد سے ریلیف دینے میں انتہائی اہم ہے۔" بیان میں بتایا گیا کہ اسرائیلی اور فلسطینی وفد فوری طور پر قاہرہ جائیں گے تاکہ پائیدار جنگ بندی کے لئے مصری حکومت سے مذاکرات کئے جا سکیں۔
خیال رہے کہ آٹھ جولائی سے شروع ہونے والی صیہونی جارحیت میں اب تک 1459 فلسطینی شہید جبکہ آٹھ ہزار سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔ شہید ہونے والوں میں زیادہ تر عام شہری ہیں۔ دوسری جانب حماس کی جوابی کارروائیوں میں 56 صیہونی فوجی ہلاک جبکہ 400 زخمی ہوئے۔ اس کے علاوہ حماس کی راکٹ شیلنگ سے تین اسرائیلی شہری بھی ہلاک ہوئے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اٹھارہ لاکھ آبادی والے غزہ میں ایک چوتھائی بے گھر ہوئے، جن میں سے دو لاکھ بیس ہزار یو این کے مختلف مراکز میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ اس تنازعے میں یو این کے آٹھ ملازمین بھی اپنی جانوں سے گئے۔
غزہ کا مسئلہ عالم اسلام کا سب سے پہلا مسئلہ

تہران میں عید الفطر کی نماز رہبرانقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کی امامت میں ادا کی گئي۔ لاکھوں نمازیوں سے خطاب میں رہبرانقلاب اسلامی نے غزہ کے مسئلے کو عالم اسلام کا پہلا مسئلہ قراردیا۔
رہبرانقلاب اسلامی نے تاکید فرمائي کہ انسانیت کو اس مسئلے پر رد عمل دکھانا چاہیے۔ رہبرانقلاب اسلامی نے فرمایا کہ غزہ میں صیہونی حکومت کے اقدامات نسل کشی اور عظیم تاریخی المیہ ہے۔ آپ نے فرمایا اس مجرم حکومت اور اس کے حامیوں پر ایک عالمی عدالت میں مقدمہ چلاکر انہیں کیفر کردار تک پہنچانا چاہیے۔ آپ نے فرمایا کہ دنیا میں قوموں کو خطاب کرنے والوں اورمصلحین کو چاہیے کہ وہ صیہونی مجرموں کو سزا دئے جانے کا مطالبہ کریں خواہ وہ اقتدار میں ہوں یا اقتدار میں نہ ہوں۔ آپ نے فرمایا ان لوگوں کو بھی سزا دئے جانے کامطالبہ کیا جائے جو صیہونی حکومت کی حمایت کررہے ہیں۔
رہبرانقلاب اسلامی حضرت آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ غزہ کے عوام جو اپنے برحق ہونے پر استقامت کا ثبوت دیتے رہے ہیں ان کی طاقت و استقامت فلسطین کی طاقت و استقامت کی نشاندہی کرتی ہے اور آخر کار ملت فلسطین صیہونی دشمن پر کامیاب ہوکر رہے گي۔ رہبرانقلاب اسلامی نے فرمایا کہ دشمن اب پشیمان ہوچکا ہے اور اگر وہ غزہ پر جارحیت جاری رکھے گا تو اسکو مزید مسائل کا سامنا کرنا پڑےگا۔ آپ نے فرمایا کہ امریکہ اور دنیا کے تمام مجرمین صیہونی حکومت کو نجات دلانے کے لئے غزہ پر جنگ بندی کا معاہدہ مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ رہبرانقلاب اسلامی نے فرمایا کہ سامراج فلسطین کی تحریکوں حماس اور تحریک جہاد اسلامی کو ہتھیار ڈالنے پرمجبور کرنا چاہتے ہیں لیکن عالم اسلام کو چاہیے کہ وہ صیہونی حکومت کے مقابل ملت فلسطین کو زیادہ سے زیادہ ہتھیار فراہم کرے۔
اگر مصر رفح کی گذر گاہ کھول دے تو ایران فلسطین کو بھرپور امداد فراہم کرے گا
اسلامی جمہوریہ ایران کی پارلیمنٹ میں قومی سلامتی و خارجہ پالیسی کمیشن کے رکن نے غزہ کے محاصرے اور جنگ سے متاثرہ فلسطینیوں کی امداد کی ضرورت پر تاکید کی ہے۔ منصور حقیقت پور نے ایسنا کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ فلسطین کے عوام خالی ہاتھ اسرائیل کے مقابلے میں ڈٹے ہوئے ہیں اور ملت ایران، فلسطینی قوم کی مادی و معنوی مدد کے لئے تیار ہے اور اگر مصر غزہ کے باڈر پر رفح کی گذر گاہ کو کھول دے تو ایران، فلسطینیوں کو بھر پور امدار فراہم کرنے کے لئے تیار ہے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل اسلامی جمہوریۂ ایران کے نائب وزیر خارجہ " حسین امیر عبداللہیان" نے ایران کی جانب سے فلسطینی عوام کے لئے غذائی اشیاء اور دواؤں پر مشتمل امدادی سامان غزہ بھیجے جانے کا پرمٹ جاری کرنے کی مصری حکام سے درخواست کرتے ہوئے وضاحت کی کہ ستاون افراد پر مشتمل فلسطینیوں کا پہلا گروپ، جس میں شدید زخمی عورتیں اور بچے شامل ہیں مصر میں ایران کی امدادی پرواز اور علاج کے لئے فوری طورپر تہران منتقل کئے جانے کا منتظر ہے۔
نایجیریا ؛ عالمی یوم القدس پر خونی مظاہرہ

نائجیریا کی ریاست کاڈونا کے شہر زاریا میں جمعۃ الوداع کی نماز کے بعد فلسطین کے مظلوم عوام کی حمایت میں نکالی گئی ریلی پر سکیورٹی اہلکاروں نے حملہ کر دیا۔
سکیورٹی اہلکاروں نے یوم القدس کے موقع پر مسلمانوں کی طرف سے نکالی گئی ریلی پر فائرنگ کر کے ۲۴ کو شہید جبکہ ۴۰ کو زخمی کر دیا ہے۔
شہید ہونے والوں میں نائجیریا کے مسلم رہنما ’’شیخ ابراہیم زکزاکی‘‘ کے تین بیٹے بھی شامل ہیں ۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز عالمی یوم القدس کے موقع پر نائجیریا کے ۱۰ شہروں میں مظاہرے کئے گئے لیکن صرف زاریا شہر میں سکیورٹی دستوں نے مظاہرین پر حملہ کیا اور ۲۴ روزہ داروں شہید کیا ہے۔
تل ابیب کے ایٹمی پاور پلانٹ پر راکٹ حملے
تحریک جھاد اسلامی فلسطین نے تل ابیت کے ایٹمی پاور پلانٹ پر راکٹ حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ فلسطین الیوم نامی اخبار کے مطابق تحریک جھاد اسلامی کے قدس بریگیڈ نے جمعہ کی رات ایک بیان جاری کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ فلسطینی مزاحمت نے اسرائیل کے علاقے تسوراک میں واقع ایٹمی پاور پلانٹ پر راکٹ حملہ کیا۔ اس بیان میں آیا ہے کہ فلسطینی مزاحمت نے بیت حانون کے علاقے خیابان نعیم میں گھات لگا کر صہیونی فوج کے چند اہلکاروں کو گرفتار کر لیا ہے جبکہ ایک فوجی گاڑی کو بھی آر پی جی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ قسام بریگیڈ نے بھی اعلان کیا ہے کہ انہوں نے ایک اور صہیونی جنگی طیارے کو نشانہ بنایا ہے جبکہ 11 صہیونی فوجیوں کو ہلاک اور متعدد کو زخمی کر دیا ہے۔ اس طرح غاصب صہیونی حکومت کے ہلاک شدہ فوجیوں کی تعداد 80 تک جا پہنچی ہے۔
مسجد جامع قروہ - ايران
مسجد جامع قروہ، ابہر کے مشرق میں قروہ نامی گاؤں میں تاریخی عمارتوں میں سے ایک عمارت ہے، جو دریائے ابہر کے کنارے پر تاکستان کی طرف واقع ہے۔ یہ مسجد، مسجد جمعہ کے نام سے بھی مشہور ہے۔ یہ دورہ سلجوقی ﴿ پانچویں صدی ہجری﴾ کے آثار قدیمہ میں سے ہے۔ یہ مسجد چار محرابوں کی صورت میں تعمیر کی گئی ہے، اور ان پر گنبد واقع ہے اور اس کا ایک گنبد والا شبستان ہے اور اس کے علاوہ دو طرف خام اینٹوں اور پختہ اینٹوں کے شبستان بنے ھوئے ہیں اور ان کے اندرونی حصہ میں چونے پر نقاشی کی گئی ہے۔ یہ نقاشی نباتاتی شکل میں ہے اور اس مسجد کی معماری آل بویہ کے زمانہ کی معماری کے مانند ہے۔ اس کے محراب میں چونے کے برجستہ اور خوبصورت خط ثلت میں ایک کتبہ ہے اور اس کتبہ پر اس کی عبارت میں یہ لکھا گیا ہے کہ اس عمارت کی تعمیر ۴١۳ ہجری قمری میں شروع کی گئی ہے۔
اس عمارت کے حاشیہ پر ایک اور کتبہ ہے جو خط ثلت میں لکھا گیا ہے اور بہت ہی خوبصورت اور گراں بہا ہے۔ اس کتبہ پر اس مسجد کے مکمل ہونے کی تاریخ ۵۸۵ ہجری قمری لکھی گئی ہے۔
اس مسجد کا ایک عظیم گنبد ہے جو اینٹوں سے بنا ھوا ہے ۔ اس گنبد کے نیچے والی چھت چار گوشہ ہے اور اس کو خط کوفی میں لکھے گئے کتبہ سے مزین کیا گیا ہے۔ مسجد کے محراب کا اوپر والا حصہ آل بویہ کے زمانہ کی معماری کی صورت میں بنا ھوا ہے اور اسے محراب نما مختلف شکلوں میں مزین کیا گیا ہے۔
مسجد جامع قروہ علاقہ ابررود ﴿بڑے دریا﴾ کی ایک تاریخی اور گراں قیمت عمارت ہے۔ اس مسجد کے شبستان مسجد جامع قزوین اور کابل کے شبستانوں سے قابل موازنہ ہیں۔ مسجد جامع قروہ ایک ہزار سال پرانی مسجد ہے اور قصبہ ابہر کے مشرق میں ١۸ کیلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
یوم القدس: عالم اسلام کے اتحاد کا مظہر
فلسطین، تاریخ کے عظیم توحیدی ادیان کا گہوارہ ہے اور یہ مقدس سرزمین مسلمانوں، عیسائيوں اور یہودیوں کے درمیان ایک خاص مقام و منزلت کی حامل ہے ۔ بیت المقدس ایک ایسا شہر ہے جس کی شرافت و عظمت اور تقدس، ادیان الہی کے ساتھ پیوست ہوگیا ہے۔ کیوں کہ یہ سرزمین تاریخ کے طویل دور میں پیغمبران خدا کے ظہور اور تبلیغ کا مرکز اور توحید وخداپرستی کے نور کا سرچشمہ رہی ہے اس لئے اس کی عظمت بہت بلند وبالاہے ۔ مسلمانوں میں، اس سرزمین کے مقدس ہونے کی ایک تاریخ ہے ۔ بیت المقدس مسلمانوں کا قبلۂ اول ہے، چنانچہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعثت کے ابتدائی تیرہ برسوں میں کہ جب آپ مکہ میں زندگي گذار رہے تھے اور پھر مدینہ ہجرت کرنے کے سترہ مہینوں بعد تک آنحضرت (ص) اور سبھی مسلمان، مسجد الاقصی کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے تھے ۔ بیت المقدس، مکہ اور مدینہ کے بعد تیسرا مقدس شہر ہے ۔ یہ مقدس مقام حضرت امام علی علیہ السلام کے ارشاد کے مطابق دنیا میں بہشت کے چار قصروں، یعنی مسجدالحرام ، مسجدالنبی ، مسجد بیت المقدس، اور مسجد کوفہ میں سے ایک ہے مسجد الاقصی ایک اور لحاظ سے بھی مسلمانوں کے لئے اہمیت کا حامل ہے اور وہ، اس کا تقدس اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وہاں سے معراج پانا ہے۔ آنحضرت (ص) کو مسجدالحرام سے مسجدالاقصی لے جایا گیا تھا اور پھر وہاں سے آپ کو معراج حاصل ہوئی تھی اور آپ نے آسمانوں کی سیر کی تھی ۔ حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ مسجد الاقصی اسلامی مساجد میں ایک اہم ترین مسجد ہے اور اس میں عبادت کی فضیلت بہت زيادہ ہے ۔ اسلامی کتب میں بیت المقدس کے تقدس اور عظمت کے علاوہ وہ چیز جو موجودہ حالات میں مسئلہ فلسطین کو عالم اسلام کے لئے خاص اہمیت کا حامل بنا دیتی ہے صہیونیوں کے توسط سے، مغربی ملکوں کی حمایت سے اس پر غاصبانہ قبضہ ہونا ہے ۔ اس سرزمین پر قبضے کی داستان کا تعلق پہلی عالمی جنگ کے بعد سے ہے ۔ اس وقت کہ جب استکباری طاقتوں نے اپنے مذموم مقاصد کے لئے ایسی سرنوشت رقم کی جس کا فلسطین کے بے گناہ بچوں اور عورتوں کے قتل اور ان کا عیش و آرام چھین جانے کے سوا اور کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ نومبر 1917 عیسوی میں اس وقت کے برطانوی وزیر خارجہ آرتھر جیمز بالفورنے، برطانوی صہیونی فیڈریشن کے سربراہ لارڈ روچیلڈ کے نام ایک مراسلے میں کہ جسے بالفور اعلامیے سے شہرت حاصل ہوئی، فلسطین میں صہیونی یہودیوں کے لئے ایک حکومت کی تشکیل پر برطانیہ کی مواقفت کا اعلان کیا ۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد، فلسطین پر برطانیہ کی سرپرستی کے ساتھ ہی، اس سرزمین پر صہیونیوں کے توسط سے تدریجی قبضے کی راہ ہموار ہوگئی۔ 1948 میں صہیونی حکومت تشکیل پانے کےبعد، عرب ممالک نے اس غاصب حکومت کے ساتھ کئی جنگیں لڑیں جو ناکام رہیں ۔ آخر کار بعض عرب حکومتوں نے رفتہ رفتہ صہونی حکومت کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھا دیا ۔ اور اب یہ کہا جاسکتا ہےکہ اس وقت فلسطین کے مظلوم عوام اپنی مادر وطن کو واپس لینے کے لئے یکہ و تنہا رہ گئے ہيں اور ان کی مددو حمایت کرنے والا کوئی نہیں ہے ۔ لیکن 1979 کا سال، فلسطین کی تبدیلیوں اور دنیا کی تاریخ میں سنگ میل واقع ہوا ۔ کیوں کہ اسی سال ایران میں رہبر کبیرانقلاب حضرت امام خمینی (رح) کی قیادت میں اسلامی انقلاب کامیابی سے ہمکنار ہوا ۔ ایک ایسا انقلاب جو غاصب صہیونی حکومت اور عالمی استکبار کے ساتھ کسی ساز باز کےبغیر آیا ۔ اس انقلاب کی کامیابی کے بعد بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رح) نے مستضعفین کی مدد ونصرت کے سلسلے میں قرآنی تعلیمات کی بنیاد پر اقدام کیا اور صہیونی حکومت کے توسط سے فلسطین اور بیت المقدس پرقبضے کے خلاف، مسلمانوں میں اتحاد کے لئے ماہ رمضان المبارک کے آخری جمعے کو یوم القدس کا نام دیا۔
آپ نے اگست 1979 میں ماہ رمضان المبارک میں یہ اہم پیغام دیا . میں عرصۂ دراز سے غاصب اسرائیل کے خطرے سے مسلمانوں کو آگاہ کرتا آرہا ہوں۔ میں تمام مسلمانان عالم اور اسلامی حکومتوں سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ اس غاصب حکومت اور اس کے حامیوں کی نکیل ہاتھ میں رکھنے کے لئے متحد ہوجائیں اور تمام مسلمانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ ماہ رمضان المبارک کے آخری جمعے کو یوم القدس قرار دیں اور مسلمانوں کے قانونی حقوق کی حمایت ميں،مسلمانوں میں عالمی سطح پر اتحاد کا اعلان کریں۔ خداوند عالم سے کفار پر مسلمانوں کی کامیابی کا خواہاں ہوں۔حضرت امام خمینی (رح) کا یہ اہم اور تاریخی اقدام، اولا تو مسئلۂ فلسطین کو زندہ رکھنے اور صہیونزم کے خطرے کی جانب اسلامی حکومتوں اور مسلمانوں کی توجہ مبذول کرانے کے مقصد سے تھا اور دوسرے، بعض عرب حکومتوں کی خیانت کے مقابلے میں اسلامی غیرت اور بصیرت کو اجاگر کرنے کے لئے تھا۔ حقیقت میں بانی انقلاب اسلامی کی جانب سے یوم القدس کے اعلان، اور تمام اسلامی ملکوں میں اسے اہمیت دیئے جانے کے سبب فلسطین کا مسئلہ، عالم اسلام کے ایک اہم مسئلے میں تبدیل ہوگیا ۔ حضرت امام خمینی قدس سرہ الشریف نے فرمایا قدس کا دن ایک عالمی دن ہے،ایسا دن نہیں جو صرف قدس سے مخصوص ہو، مستکبرین سے مستضعفین کے مقابلے کا دن ہے ایک ایسا دن ہے کہ جس دن مستضعفین کو مسلح ہونا چاہئے تاکہ استکبار کی ناک زمین پر رگڑ دیں ۔ یوم القدس ایک ایسا دن ہے کہ جس دن مستضعف قوموں کی تقدیر کا فیصلہ ہو اور مستکبرین کے مقابلے میں مستضعف قومیں اپنے وجود کا اعلان کریں ۔امام خمینی (رح) نے اسی ابتدا سے ہی اسلامی تشخص اور اسرائیل کے ساتھ جہاد کے اعتقادی پہلو کو، فلسطین کے مظلوم عوام کو آمادہ کرنے، اور پوری امت مسلمہ سے فلسطینوں کی حمایت حاصل کرنے کے لئے سب سے زیادہ کارساز روش قرار دیا اور اس کے علاوہ نیشنلسٹ اور غیر اسلامی نظریات کو قدس کی آزادی کے لئے انحراف سے تعبیر کیا۔
فلسطین کے مسئلے پر حضرت امام خمینی (رح) کی تاکید عالم اسلام کے لئے اس مسئلے کی اہمیت کے پیش نظر ہے ۔ صہیونیزم کی فکر، دین یہود کی تعلیمات سے جدا ایک فکر، اور اس آسمانی دین سے منحرف ایک فرقہ ہے ۔ یہ فکر اور اس سے وجود ميں آنے والا اسرائیل، مسلمانوں کی صفوں میں پھوٹ ڈالنے اور مشرق وسطی پر تسلط کے لئے،استعمار کا ساختہ پرداختہ ہے۔ حضرت امام خمینی (رح) فرماتے ہيں اسرائیل مغرب اور مشرق کی استعماری حکومتوں کی ہم آہنگي اور ہم فکری سے وجود ميں آیا اور آج اسے تمام استعماری طاقتوں کی حمایت و پشپناہی حاصل ہے ۔ برطانیہ اور امریکہ، اسرائیل کو مہلک ہتھیاروں سے مسلح کرکے اور اسے فوجی اور سیاسی لحاظ سے مضبوط بنانے کے ذریعے مسلمانوں اور عربوں کے خلاف جارحانہ کاروائیاں انجام دینے پر اسے ورغلاتے رہتے ہیں ۔ صہیونی حکومت مسلمانوں ميں اختلاف پیدا کرنے کی کوشش کے ذریعے مشرق وسطی میں اپنی دائمی بقاء کے لئے ایک پرامن ٹھکانے کے درپے ہے ۔ کیوں کہ اسرائیل نے اپنے وجود کے وقت سے ہی مشرق وسطی میں لڑاؤ حکومت کرو کی پالیسی اختیار رکھی ہے ۔ اسی لئے آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ مشرق وسطی میں تکفیری گروہ کس طرح سے شام اورعراق میں اپنے ہی مسلمان بھائیوں کا بدترین حالت میں قتل عام کررہے ہیں لیکن غاصب اور جارح اسرائیل کے خلاف کوئی موقف نہیں اپنا رہے ہيں ۔ یہ کیا اندھیر ہے کہ جو اسلامی احکام پر عملدرآمد کے مدعی ہیں وہی اسلام کے سب سے واضح اصول یعنی مسلمانوں اور مستضعفوں کی حمایت کو ذرا بھی اہمیت نہیں دے رہے ہیں۔ یہ تمام چیزيں اس بات کی غماز ہیں کہ تکفیریوں کی جارحیت، عالمی استکبار اور صہیونی امنگوں سے ہم آہنگ ہے اور ان جارحانہ کاروائیوں کا براہ راست فائدہ اسرائیل کو پہنچ رہا ہے جبکہ بعض رپورٹوں اور خبروں سے تکفیری گروہوں اور صہیونی حکومت کے ساتھ تعاون کی بھی نشاندہی ہوتی ہے۔ لیکن وہ چیز جو امت مسلمہ کے درمیان نا اتفاقی پیدا کرنے اور فلسطین پر قبضہ جاری رہنے کے لئے صہیونی حکومت کی سازشوں کو ملیا میٹ کردیتی ہے، مسلمانوں کا باہمی اتحاد ہے۔ لہذا یہ غاصب اور کھوکھلی حکومت اپنی طاقت کے مظاہرے کے لئے گاہے بگاہے بے گناہ اور نہتے فلسطینیوں پر بموں اورمیزائیلوں کی بوچھار کردیتی ہے۔ یہ نا اہل اور ناجائز حکومت، بچوں اور مظلوموں کا خون بہا کر یہ سمجھتی ہے کہ وہ اپنی ان وحشیانہ کاروائیوں سے مسلم قوموں اور مجاہدوں کے دلوں پر خوف و دہشت طاری کردے گي۔ لیکن جتنا زیادہ خون بہہ رہا ہے مزاحمتی حلقوں کے حوصلے اور بلند ہورہے ہیں اور مسلمانوں میں مزید اتحاد بڑھتا جارہا ہے ۔ یہاں تک کہ امریکہ کے مشرق قریب کی تحقیقاتی مرکز نے "آخری زمانے میں اسرائیل" کے حوالے سے ایک رپورٹ ميں لکھا ہے کہ 2025 ميں اسرائيل کا وجود ختم ہوجائے گا ۔ اس لحاظ سے کہ مسلمانوں میں اتحاد ہی ، صہیونزم اور عالمی استکبار کے اہداف کے مقابلے میں کامیابی کا واحد راز ہے، امام خمینی (رح) نے اپنی سیاسی بصیرت کے ذریعے عالمی یوم القدس کا اعلان کردیا۔ ایک ایسا دن جو مسلمانوں کے درمیان اتحاد کے مستحکم ہونے کا باعث بناہے۔ پاکستان کے دانشور پرویز شفیع کہتے ہیں ۔ قدس کا دن نہ صرف فلسطینی امنگوں کے لئے اہمیت کا حامل ہے بلکہ مسلمانوں میں اتحاد کے حوالے سے اس کی خاص اہمیت، ہے ۔ حضرت امام خیمنی (رح) وہ پہلے شخص ہیں کہ جنہوں نے یوم القدس کی بنیاد رکھی کیوں کہ قدس کی آزادی کا مسئلہ، عالم اسلام کے ان معدودے چند مسائل میں سے ایک ہے کہ جس پر سنی شیعہ سب کا اتفاق ہے ۔ اسرائیل ہرگز امن کے عمل کو نتیجہ خیز ہونے دینا نہيں چاہتا ۔ اس لئے مسلمانوں کے لئے واحد راستہ جوبچتا ہے، مزاحمت کا راستہ ہے لہذا اگر مسلمان اس روش پر ثابت قدم رہيں تو یہ تمام مسلمانوں کے فائدے میں ہوگا ۔ لیکن اس سال روز قدس ایسی حالت میں منایا جا رہا ہے کہ غزہ کے عوام اپنی سحر اور افطار بموں اور گولوں کی بارش میں کررہے ہیں اور ہر لمحہ اپنے عزیزوں، دلبندوں اور بے گناہ بچوں کی جدائی کا مشاہدہ کررہے ہيں ۔ اس درمیان ایسے میں جبکہ انسانی حقوق کے جھوٹے دعویدار اور بہت سی عرب حکومتیں، غزہ کے عوام کے قتل عام کی نظارہ گر ہیں غزہ کےمظلوم عوام ، بیدار دل مسلمانوں سے آس لگائے ہوئے ہيں ۔ بلا شبہ اس سال یوم القدس کی ریلی اور عظیم جلسے اور جلوسوں میں مسلمانوں کا اتحاد اور صہیونیوں کے مظالم پر ان کا غم و غصہ حالیہ واقعات کے سبب ایک خاص اہمیت کا حامل ہے ۔ ایسے میں جبکہ صہیونی حکومت تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے، یوم قدس میں مسلمانوں کی بھرپور شرکت اس ظالم حکومت پر ایک اور کاری ضرب لگائے گي اور اس غاصب حکومت کے علاقائی اورغیر علاقائی حامیوں پر ثابت کردے گی کہ مسلمانوں میں اتحاد و یکجہتی کی قوت، تمام ہتھیاروں اور بموں سے زیادہ ہے جو اس غاصب حکومت کو سرنگوں کردے گی ۔
ہندوستان کے دار الحکومت میں عالمی یوم القدس کے مراسم
پوری دنیا کی طرح ہندوستان میں بھی عالمی یوم القدس کے موقع پر جگہ جگہ جلوس اور ریلیاں نکالی گئی جن میں ناپاک اسرائیل اور غدار امریکہ کے خلاف نعرے لگائے گئے جبکہ فلسطین کے مظلوم عوام کے ساتھ اظہار ہمدردی پیش کیا گیا۔
اطلاعات کے مطابق ہندوستان کے دار الحکومت دہلی کی سنی جامع مسجد میں جمعۃ الوداع اور یوم قدس کے موقع پر ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے امریکہ مردہ باد اور اسرائیل مردہ باد کے نعرے لگا کر صہیونی حکومت کی نسبت اپنی نفرت اور فلسطینیوں کے تئیں اپنی ہمدردی کا اظہار کیا۔
دہلی کی جامع مسجد کے خطیب نے اس موقع پر ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ ہم ہندوستان کے باخبر شہری آج اس لیے ایک ساتھ جمع ہوئے ہیں تاکہ صہیونی حکومت کے ذریعے فلسطین اور مسجد الاقصیٰ پر ناجائز قبضے کے خلاف آواز بلند کریں اور فلسطینی عوام پر اسرائیل کی طرف سے ہونے والے جارحانہ حملوں کی مذمت کریں۔
انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ ہم بغیر تفریق مذہب و ملت سب اکٹھے ہو کر جرائم پیشہ صہیونی حکومت کے خلاف اپنی آواز کو پوری دنیا تک پہنچانا چاہتے ہیں اور اس بے انصافی کے خلاف اٹھنا چاہتے ہیں۔
قدس اسلامی دنیا کا اصلی مسئلہ
حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصراللہ نے قدس کو اسلامی دنیا کا اصلی مسئلہ قرار دیا ہے۔ لبنان کے المنار ٹی وی چینل کی رپورٹ کے مطابق سید حسن نصراللہ نے جمعے کے دن جنوبی بیروت میں عالمی یوم القدس کی مناسبت سے نکالے جانے والے جلوس میں شرکت کے بعد کہا کہ عالمی یوم القدس مسلمانوں کو اصلی مسئلے کی یاد دلاتا ہے تاکہ قدس ہمیشہ یاد رہے۔ حسن نصراللہ نے غزہ پٹی پر صیہونی حکومت کے حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ جب حضرت امام خمینی رح نے اس دن کو عالمی یوم القدس کا نام دیا تھا اس وقت مسئلہ قدس کے اسلامی ، الہی اور اس کے تقدس کی یاد تازہ ہوتی تھی اور ہرسال اس دن کی اہمیت اور اسے زندہ رکھے جانے کی ضرورت زیادہ نمایاں ہوتی جارہی ہے۔ حزب اللہ لبنان کے سربراہ نے مزید کہا کہ صیہونی حکومت نے فلسطین کی نابودی کے لۓ طویل المیعاد منصوبے بنا رکھے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطین کو ملت اسلامیہ کے ایک مرکزی مسئلے کے طور پر باقی رہنا چاہۓ۔ سید حسن نصراللہ نے کہا کہ بعض عرب ممالک فلسطین اور قدس کے مسئلے کی اہمیت سے غافل ہوچکے ہیں۔




















![جناب خدیجہ کبری[س] کی سیرت](/ur/media/k2/items/cache/ef2cbc28bb74bd18fb9aaefb55569150_XS.jpg)
