Super User

Super User

فرزند رسول حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی شخصیت

فرزند رسول حضرت امام محمد باقر علیہ السلام اہل بیت علیہم السلام کے پاکیزہ اور نورانی سلسلے کی ایک فرد ہیں۔ آپ کی ذات عالم اسلام کی وہ عظیم علمی ذات ہے جس نے قرآن کے حقائق پہلی بار اس واضح انداز میں بیان کئے اور علوم کی پرتوں کو کھولا کہ آپ کا لقب ''باقر العلوم ''قرار پایا۔ قرآن کریم ہمیں" لقد کان لکم فی رسول اﷲ اسوۃ حسنہ" کے ذریعے خلقت کے بہترین نمونوں کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ کوئی مکتب فکر اس وقت تک پائدار نہیں ہوسکتا اگر اس میں کوئی عملی نمونہ نہ ہو۔

فرزند رسول حضرت امام محمد باقر علیہ السلام ساتویں معصوم اور پانچویں آفتاب امامت ہیں۔ ان کی زندگی تمام تر عقل و دانش سے تعبیر ہے اور اسی حوالے سے آپ کو باقر العلوم کہا جاتا ہے یعنی عقلی مشکلات کو شگافتہ کرنے والے اور معرفت کی پیچیدگیوں کو آسان کرنے والے ۔ آفتاب کی خصلت یہ ہے کہ وہ تاریکی کا پیچھا کرتا ہے اور جیسے ہی زمانہ کے افق پر جہل کے تاریک لمحات نمایاں ہوتے ہیں ان کو روشنی سے بدل دیتا ہے۔ فرزند رسول حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کا سب سے بڑا فیض ملوکیت کے ظلم و جور کے ماحول میں معرفت کے پیغام کو پھیلانا ہے۔

فرزند رسول حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی ولادت یکم رجب المرجب ٥٧ھ کو مدینے میں ہوئی، واقعہ کربلا کے وقت آپ کا سن مبارک چار سال تھا۔ یہ بھی ایک مصلحت خداوندی ہے کہ بیک وقت تین معصوم میدان کربلا میں موجود تھے۔ شاید یہ قدرت کی طرف سے اس بات کا انتظام ہے کہ روز حشرجب اس ظلم کا انصاف ہو تو دو معصوم بطور شاہد عینی موجود ہوں۔

ماں اور باپ کی جانب سے آپ کا شجرہ طیبہ پاک و پاکیزہ ہے آپ کی والدہ فاطمہ بنت امام حسن علیہ السلام ہیں ان کا امتیاز یہ ہے کہ وہ پہلی علوی خاتون ہیں جن کے بطن سے علوی فرزند کی پیدائش ہوئی اس حوالے سے آپ کو'' ابن الخیرتین'' بھی کہا جاتا ہے یعنی نیکوں کی اولاد ۔ فرزند رسول حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی دو ازواج تھیں ایک ام فروہ دختر قاسم بن محمد ابن ابی بکر اور دوسری ام حکیم دختر ولید بن مغیرہ ، ہر چند ام فروہ نسل ابو بکر سے تھیں لیکن اپنے والد قاسم کی طرف اماموں کے حق اور معصومین کی ولایت کی قائل تھیں۔ فرزند رسول حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے پانچ فرزند یعنی امام جعفر صادق علیہ السلام ، عبداﷲ، ابراہیم، عبیداﷲ اور علی اور دو بہنیں زینب اور ام سلمہ تھیں۔آپ کی شہادت ٧ ذی الحجہ ١١٤ھ میں واقع ہوئی اس وقت آپ کا سن مبارک ٥٧ سال تھا۔آپ کو ہشام بن عبدالملک نے زہر دیا اور آپ کی تدفین جنت البقیع میں ہوئی ۔

عرب ملکوں کی پارلیمان کی جانب سے اسرائیل کے اقدامات کی مذمتعرب ملکوں کي پارليمان کے سربراہ نے بيت المقدس شہر کي شناخت کو تبديل کرنے اور وہاں آبادي کا تناسب بگاڑنے کے سلسلے ميں صيہوني حکومت کے اقدامات کي مذمت کي ہے - عرب پارليمان کے سربراہ احمد بن محمد الجروان نے اردن ميں راہ قدس کے زيرعنوان منعقدہ پہلي بين الاقوامي کانفرنس کي افتتاحي تقريب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم بيت المقدس ميں آبادي کے تناسب کو بگاڑنے اور اس کي شناخت کو ختم کرنے پر مبني صيہوني حکومت کے ہر قسم کے اقدام کي مذمت کرتے ہيں – انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اسرائيل کے ان جارحانہ اقدامات کے مقابلے ميں فلسطينيوں کي مدد کريں اور بيت المقدس کے شہريوں کي پوري قوت کے ساتھ حمايت کريں- احمد بن محمد الجروان نے کہا کہ بيت المقدس کي پاسداري کا سمجھوتہ اس شہر کي اسلامي شناخت اور ماہيت کے تحفظ کے لئے ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بين الاقوامي اداروں منجملہ يونسکو اور دنيا بھر کے عيسائيوں کو چاہئے کہ وہ بيت المقدس شہر کے خلاف اسرائيل کي غاصب حکومت کے جارحانہ اقدامات کي مخالفت کا اعلان کرکے اس سلسلے ميں اپني ذمہ داريوں کو ادا کريں - راہ قدس کے زير عنوان پہلي بين الاقوامي کانفرنس مسجد الاقصي اور اسلامي ومسيحي مقدس مقامات کي ديني اہميت کو اجاگر کرنے اور ان جگہوں کو يہودي شکل دينے کے تعلق سے صيہوني حکومت کے اقدامات کوروکنے کي غرض سے اردن ميں منعقد ہوئي ہے – اس کانفرنس ميں اسي طرح اس بات کا بھي جائزہ ليا جارہا ہے کہ عرب اور اسلامي ملکوں کے ساتھ عالمي برادري کو بھي ان مسائل کے سلسلے ميں کس طرح سے متحرک بنايا جائے – يہ تين روزہ کانفرنس اردن کي پارليمنٹ کي درخواست پر منعقد ہوئي ہے –

Tuesday, 29 April 2014 10:18

اسلام میں علم کی فضیلت

اسلام میں علم کی فضیلت

اسلام میں حصول علم کو بہترین عمل قرار دیا گیا ہے ۔ خداوندمتعال نے قرآن کریم میں سب سے  پہلے پڑھنے ،علم اور کتابت سے اپنے کلام کا آغاز کیا ہے ۔ کیونکہ علم انسان کو سعادت وتکامل کاراستہ بتاتا ہے اور اسے قوی وتوانا بنادیتا ہے تاکہ وہ اپنے مستقبل کو اپنی خواہشات کے مطابق بہتر بناسکے۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ماننے والوں کو ہمیشہ علم حاصل کی ترغیب دلاتے تھے ، رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ میں آیا ہے کہ آپ جنگ بدر کے بعد ہر اس اسیرکو جو مدینہ کے دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھاتا تھا آزاد کر دیتے تھے ۔اس عمل سے اسلام اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر میں تعلیم کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے ۔آپ تمام علوم کو اہمیت دیتے تھے ، چنانچہ آپ نے اپنے بعض صحابیوں کو سریانی زبان سیکھنے کا حکم دیا ۔ معروف حدیث سے بھی جس میں آپ نے فرمایا ہے کہ علم حاصل کرو اگرچہ تمہیں چین جانا پڑے ، اسلام میں تعلیم کی  اہمیت کا پتہ چلتاہے ، حصول علم کے بارے میں آپ کی ترغیب اور تاکید سبب بناکہ مسلمانوں نے بڑی سرعت وہمت  کے ساتھ علم حاصل کیا اور جہاں بھی انھیں  علمی آثار ملتے  تھے اس کا ترجمہ کرڈالا ۔اس طریقہ سے یونانی ، ایرانی ، رومی ،مصری ،ہندی اور بہت سی دوسری تہذیبوں کے درمیان رابطے کے  علاوہ تاريخ انسانیت کے عظیم تہذيب وتمدن کو اسلامی  تہذیب وتمدن کے نام سے خلق کرلیا ۔

مسلمانوں کی نظر میں علم ودین ایک دوسرے  سے جدا نہیں ہیں ، بلکہ علم دین کا ہمزاد شمار ہوتاہے اور سائنسی علوم  جیسے فزکس ، نجوم ، زمین شناسی، طب ، ریاضیات وغیرہ مسلمانوں کے علمی مراکز میں پڑھائے جاتے ہیں اور اس سلسلے میں علمی  اور دینی مراکز میں عظیم اور بڑی بڑی لائبریریاں قائم ہوئیں اور علم و دین نے لازم ملزوم کی طرح ترقی  کی ، یہ ایسی حالت میں تھا  کہ علم ودین کے رابطے کے بارے میں عیسائیت کے غلط استفادے  نے یورپ کی تاریخ کو عصر ایمان اور عصر علم کے دوحصوں میں تقسیم کردیااورعلم کو ایمان کے مقابلے میں قرار  دیدیا ، قرون وسطی میں علمی اور  فلسفی مسائل میں  نظریات پیش کرنے کا صرف کلیسا کو حق حاصل تھااور کسی بھی دانشور کو کلیسا کے نظریات کے خلاف  علمی نظریہ پیش کرنے کا حق نہیں تھا اور کلیسا کے نظریات کے خلاف علمی نظریہ کو کفر والحاد کے مساوی اوربرابر سمجھاجاتا تھا ۔ جس کے مطابق بہت سے دانشوروں کو کلیسا کے خلاف علمی نظریہ رکھنے کی وجہ سے جیلوں میں پھانسی دیدی گئی  یا پھر انھیں آگ میں جلادیا گيا۔

چنانچہ اسلام نےدینی اور تاریخی لحاظ سے کبھی بھی علم کی مخالف نہیں کی ہے بلکہ اسلام نے  اس کے برخلاف اپنے آغاز ظہور سے  علم حاصل کرنے کا حکم دیا ہے اوربہت سی آیات و روایات میں علم اور  عالم کی اہمیت کو بیان کیا گیا ہے ۔ اسلام میں علم کا مقام بہت بلند وارفع ہے اور حصول علم کو دینی فریضہ قرار دیاگیا ہے اور اسلام میں  علم کے بارے  میں کوئی محدودیت نہیں ہے ، اسلام کی نظر میں تمام نافع علوم مطلوب اور پسندیدہ ہیں ۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ علم کی تعریف نہیں کی جاسکتی ہے بنابر ایں ہر مفید اور اچھے علم کو حا صل کرلو ۔ طبق روایات علم کو کسی مخصوص شعبے سےمنحصر نہیں کیاگیا ہے بلکہ  ہر اس علم کو حاصل کرنے کی تاکید کی گئی ہے جو لوگوں کے لئے مفید ہو۔ درحقیقت مسلمانوں کا کہنا ہے کہ انسا ن کے علم میں جتنا اضافہ ہوگا خدا کے بارے میں اس کی معرفت میں بھی زیادہ اضافہ ہوگا کیونکہ اسلامی فکر میں علم اور دین کے  درمیان مکمل اتفاق پایا جاتا ہے اسلام میں علم نافع حاصل کرنے پرتاکید کی گئی ہے صرف علم دین  نہیں ہے جو آخرت کے لئے مفید ہو بلکہعلم نافع سے مراد وہ علم ہے جو انسان کے لئے مفید واقع ہو چاہے مادی نفع ہو یا معنوی اور اخروی نفع ہو ۔

سورہ مجادلہ کی گیارہویں آیت علم کی اہمیت اور علماء کی  برتری اور ان کے اعلی وبلند مقام کی وضاحت کی گئی ہے ، ارشاد ہوتا ہے کہ خدا صاحبان ایمان اور جن لوگوں کو علم دیاگیا ہے ان کے درجات کو بلند کرناچاہتا ہے اور اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے ۔

لفظ درجات کاکسی مخصوص حد کی تعیین کے بغیر مطلق استعمال ہوا ہے ۔قرآن کریم میں جس سے اس کی عظمت بزرگی کی نشاندھی ہوتی ہے ۔ اس آیت شریفہ کی تفسیر میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلیل القدر صحابی کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اے ابو ذر خدا ،ملائکہ اور انبیاء طالب علم کو دوست رکھتے ہیں اور علم کودوست نہیں رکھتامگر سعادت مند انسان ۔ بس خوش نصیب ہے قیامت کے دن وہ طالب علم جو اپنے گھر سے باہر نکلے اور علم کے ایک دروازے کو اپنے لئے کھول دے۔ خدا اس کے ہر قدم پر اس کے لئے شہدائے بدر کے ایک شہیدکا ثواب لکھتا ہے اور وہ صبح وشام خدا کی مرضی کے مطابق زندگی  گذار تا ہے اور مرنے کے بعد وہ آب کوثر سے سیراب ہوگا اور بہشت کے پھل کھائے گا اور بہشت میں حضرت خضر علیہ السلام کا دوست اور رفیق ہوگا۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ قیامت کے دن  جب پل صراط پر عالم اور عابد جمع ہوں گے تو عابد سے کہا جائے گا کہ بہشت میں داخل ہوکر اپنی عبادتوں سے بہرہ مند ہوجاؤ اور عالم سےکہا  جائے گا کہ یہاں بیٹھو اور جسے چاہو اس کی شفاعت کرو اس لئے کہ جس کی شفاعت کروگے خدا اسے قبول کرلے گا ، عالم قیامت کے دن انبیاء کرام علیہم السلام کی صف میں کھڑا ہوگا اور اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کی  جتنی شفاعت کرستکاہے  شفاعت کرے گا اس لئے کہ قیامت کے دن تین گروہ گہنگاروں کی  شفاعت کریں گے ۔ انبیاء ، علماء اور شہدا۔

اہلبیت علیہم السلام کی احادیث میں بھی حصول علم کے بارے میں بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان فرد پر واجب ہے ، حصول علم کے بارے میں واجب کی حد تک تاکید سے اسلام میں لوگوں سے جہالت ونادانی کے خاتمہ اور علم ودانش کے حصول کی  اہمیت کا پتہ چلتاہے کہ ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مذکورہ حدیث میں فرماتے ہیں کہ آگاہ ہوجاؤ کہ خدا اس شخص کو جو حد سےزیادہ علم حاصل کرتا ہے دوست رکھتا ہے ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس جملے سے مراد یہ ہے کہ علم  کے لئے کوئی حد نہیں ہے انسان  کبھی بھی علم کی انتہا کو نہیں پہونچ سکتاہے۔ بنابر ایں جس مقدار میں  بھی علم حاصل کیاجائے ‍ خدا اس پر راضی ہے ۔ لیکن جو لوگ  اس راہ میں زیادہ جد وجہد اور کوشش کرتے ہیں وہ خدا کی بارگاہ میں زیادہ محبوب ہیں ۔ عالم بزرگ اور مفسر قرآن علامہ محمد حسین طباطبائی سورہ مبارکہ زمر کی نويں آیت پراستناد کرتے ہوئے کہ جس میں ارشاد ہوتا ہے کہ کیا وہ لوگ جو جانتے ہیں ان کے برابر ہوجائيں گے جو نہیں جانتے ہیں ؟  کہتے ہیں کہ اس آیت میں علم کے ہونے اورنہ ہونے کے بارے میں مطلق کہاگیا ہے ۔ لیکن مفاد  آیت  کے مطابق خدا کاعلم ہے چونکہ خدا کے بارے میں علم انسان کو  کمال کی منزلوں تک پہونچادیتا ہے اور حقیقت میں نافع کے معنی یہی ہیں اور اس کا نہ ہونا نقصان دہ  ہے، چنانچہ دوسرے علوم  مال ودولت کی مانند ہیں کہ جو صرف دنیوی زندگی کے لئے سود مند ہیں جو دنیا کے فناہونے کے ساتھ فنا ہوجائيں گے ۔ پس مؤمنین کی دوقسمیں ہیں ،عالم اور غیر عالم ، پہلے  گروہ کو بر تری حاصل ہے ۔ جیساکہ سورہ علق  میں آیا ہے کہ اسحدا کانام لیکرپڑھوجس نے پیداکیا ہےجس نےانسان کوجمے ہوئے خون سے  پیداکیا  ہے،  پڑھو اور تمہارا پرودگار بڑاکریم ہے  جس نے قلم کے ذریعہ تعلیم  دی ہے اورانسان کووہ سب کچھ بتادیاہےجو اسےنہیں معلوم تھا ۔ اس آیت میں انسان  کے نازل ترین اور اعلی ترین مرتبہ وجودی کا  ذکر کیاگیا ہے ۔انسان کا اعلی اوربرترین مرتبہ عالم ہونا ہے کیونکہ خدانے اپنی کرامت کی  صفت کے بعد تعلیم  کی صفت کو اپنی  طرف منسوب کیا ہے اور دوسری طرف علقہ یعنی جمے ہوئے خون کو نازل ترین  مرتبہ وجود دی قراردیا ہے ۔ پس علم کی طرف حرکت کرنا انسان کے لئے کمال ہے ۔

علم سے متعلق احادیث میں مرد اورعورت دونوں شامل ہیں ،البتہ بعض روایات میں عورتوں کے لئے حصول علم کے وجوب کی خاص طورپر  وضاحت کی گئی ہے   چنانچہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ علم کاحاصل کرنا مرد وعورت دونوں پر واجب ہے ، انبیاء  کرام علیہم السلام کی  نظر میں علم کا حاصل کرنا کسی  خاص گروہ یا نسل سے  مخصوص نہیں ہے ۔بلکہ ہرانسان  کو  چاہئیے کہ وہ جہالت ونادانی سے دور ہونے کے لئے علم کے حصول کے لئے قدم اٹھائے ،  قرآن کریم کی بہت سی آیات میں  خدا لوگوں کو تعلیم حاصل کرنے اور کائنات کے اسرار ورموز کی شناخت کی دعوت دے کر  لوگوں کے سامنے معرفت کے نئے دریچے کھولنا چاہتا ہے ۔ خدا نے شناخت ومعرفت کو ایک اہم اور ضروری ذمہ داری قرار دیا ہے  چنانچہ اس نے انبیاء کرام علیہم السلام کے ذریعہ انسان کی تعلیم کو ان کی بعثت کا مقصد قرار دیا ہے ۔  اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ دعوت اس  وقت دی گئ کہ جب جہالت ونادانی کے بادل سعودی معاشرے پر چھا ئے ہوئے تھے اور لوگ گہرے اور عمیق خواب غفلت میں پڑے ہوئے تھے

مسجد جامع اصفہان- ايران

مسجد جامع یا مسجد جمعہ اصفہان، ایران کے اہم ترین اور قدیمی ترین مذہبی مراکز میں شمار ھوتی ہے۔ آثار قدیمہ کی تحقیق کے مطابق معلوم ھوتا ہے کہ ممکن ہے یہ جگہ اس شہر میں اسلام پہچنے سے پہلے اہم مذہبی مرکز تھا اور اصفہان کے آتش کدوں میں سے ایک آتش کدہ کے عنوان سے اس سے استفادہ کیا جاتا تھا۔

مسجد جامع اصفہان- ايران

مسجد جامع کا شمالی ایوان

اس مسجد کے شمالی علاقہ میں دورہ ساسانیان کے کچھ آثار قدیمہ کے انکشاف سے اس امر کی تائید ھوتی ہے کہ یہ تاریخی عمارت قبل از اسلام سے متعلق ہے۔ مسجد کے تغییرات کی تاریخ کے بارے میں کچھ اختلافات نظر پائے جاتے ہیں، لیکن معلوم ھوتا ہے اس مسجد کی عمارت قرون اولیہ ہجری اور بنی عباسیوں کے زمانہ سے متعلق ہے کہ تیسری صدی ہجری میں اس کا محراب خراب ھوا ہےاور اس کے قبلہ کی سمت صحیح کی گئی ہے۔

اس مسجد کی معماری کا قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ اس مسجد کے مختلف حصے تقریبا دوہزار سال کے دوران تشکیل پائے ہیں اور ان سالوں کے دوران مسلسل ان کی مرمت اور تعمیر نو کی جاتی رہی ہے اور اس کی آخری مرمت اور تعمیر نو عراق کی بعثی حکومت کی طرف سے ایران پر ٹھونسی گئی آٹھ سالہ جنگ کے دوران عراقی جہازوں کی بمباری کی وجہ سے اس مسجد کو نقصان پہنچنے کی وجہ سے انجام پائی ہے۔

مسجد جامع اصفہان- ايران

اس مسجد کے پہلی محراب میں مختلف زمانوں میں، خاص کر آل بویہ کے زمانہ سے صفویوں کے دور تک بنیادی تبدیلیاں رونما ھوئی ہیں۔

مسجد جامع اصفہان- ايران

مسجد جامع کی کاشی ﴿ ٹائیل﴾ کاری

اس مسجد کی سب سے اہم تعمیر و ترقی آل بویہ اور صفویوں کے زمانہ میں انجام پائی ہے۔ اس مسجد کی معماری شیوہ رازی کے مطابق ہے۔

مسجد جامع اصفہان- ايران

مسجد جامع کے کونڈے﴿ سنگاب﴾ اور سقا خانے:

اصفہان کی مسجد جامع میں چار کونڈے ہیں:

١۔ ایوان درویش کا کونڈا:

مسجد کے شمالی ایوان میں، جسے ایوان درویش بھی کہتے ہیں، پارسی پتھر کا بنا ھوا ایک کونڈا ہے۔ یہ کونڈا، پہلے علامہ مجلسی کے مقبرہ کے پاس تھا اور اس کے بعد موجودہ جگہ پر منتقل کیا گیا ہے۔ اس کونڈے کے دہان کا قطر 115 سنٹی میٹر ہے، لیکن ٹوٹنے کی وجہ سے اس کا ایک حصہ نابود ھو چکا ہے۔ اس کونڈے کے بدن پر تحریر کیا گیا کتبہ فارسی اور عربی میں اور خط ثلث میں ہے۔ اس کونڈے کے دہان پر پانچ جام گاہ تھے، اس کونڈے کے ایک حصہ کے ٹوٹنے کی وجہ سے ان میں سے صرف دو جام گاہ باقی بچے ہیں۔ اس کونڈے کے بدن پر جو کشیدہ کاری کی گئی ہے وہ بھی کٹاو کی وجہ سے کسی حد تک نابود ھو چکی ہے۔

۲۔ ایوان صاحب کا کونڈا:

مسجد جامع اصفہان کے جنوبی ایوان کا نام، ایوان صاحب ہے اور اس ایوان پر ایک سادہ پتھر کا کونڈا ہے۔ یہ کونڈا ایک چکور حوض میں واقع ہے اور اس کے دہان پر پانچ جام گاہ بنائے گئے ہیں۔ اس کونڈے کے باہر والے حصہ پر ایک کتبہ ہے، جس پر خط ثلث میں چہاردہ معصومین پر درود و سلام مکتوب ہے اور اس کونڈے کے اوپر والے حصہ پر چھوٹے برجوں کی نقاشی اور اس کے نچلے حصہ پر بڑے برجوں کی نقاشی کی گئی ہے۔

۳و۴۔ دو چھوٹی کونڈیاں:

مسجد جامع اصفہان میں دو چھوٹی کونڈیاں بھی ہیں، ان میں سے ایک اس کے صحن میں موجود حوض کے پاس ہے اور دوسری کونڈی ایوان استاد ﴿ مغربی ایوان﴾ کے سامنے ہے۔

پروفیسر آرٹریوپ ﴿ آثار قدیمہ کے باہر﴾ لکھتا ہے: “ میں جب اس دن جامع مسجد اصفہان دیکھنے کے لئے گیا اور اس کے گنبد کے نیچے پہنچا، تو میں نے محسوس کیا کہ میرے تمام وجود کو اس مسجد اور اس کے گنبد نے تسخیر کیا ہے، کیونکہ اس گنبد کے نیچے ایرانیوں کی شاہکار اور لافانی فن کاری کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے اور اس مسجد اور اس کے گنبد کی عظمت کا اعتقاد پیدا کیا جاسکتا ہے ۔ اس کے بعد میں، کئی بار مسجد جامع اصفہان دیکھنے کے لئے گیا اور اس مسجد کے گنبد کو دیکھنے کے بعد اس کی تحسین کے لئے زبان کھولی اور ایران و اصفہان کے بارے میں میری دلچسپی اور محبت ہیں روزافزون اضافہ ھوتا رہا، اسی لئے میں چاہتا ھوں کہ مرنے کے بعد میرے جسد کو اس مقدس سر زمین میں دفن کیا جائے”۔

مسجد جامع اصفہان- ايران

عالمی میراث میں اندراج:

اس تاریخی مسجد اور اثار قدیمہ کو یونسیکو کے36ویں اجلاس میں عالمی میراث کے عنوان سے اندراج کیا گیا ہے۔

مسجد جامع اصفہان- ايران

محمد شاہ قاچار کے زمانہ مین مسجد جامع اصفہان

وسطی افریقہ: مسلمانوں کے ملک بدر کیئے جانے کی شدید مخالفتوسطی افریقہ میں صحت اور فلاح و بہبود کے وزیر نے ملک کے دارالحکومت میں باقی ماندہ مسلمانوں کو وسطی افریقہ سے نکال باہر کرنے کی شدید مخالفت کی ہے۔ مصر سے شائع ہونے والے اخبار "المصری الیوم" کی نیوز ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق وسطی افریقہ کے صحت و فلاح و بہبود کے وزیر نے پناہ گزینوں کی عالمی تنظیم کے عہدیداروں سے کہا ہے کہ حکومت مسلمانوں کو ملک سے بے دخل کرنے کی مخالف ہے۔ وسطی افریقہ کے دارالحکومت "بانگی" میں مسلمانوں کی سب سے بڑے آبادی والے علاقے سے مسلمانوں کا اخراج انتہاپسند عیسائیوں اور فرانسیسی فوج کے درمیان گذشتہ ہفتے ہونے والی جھڑپوں کے ساتھ ہی شروع ہوا ہے۔ ان جھڑپوں میں درجنوں افراد ہلاک و زخمی ہوئے تھے۔واضح رہے کہ وسطی افریقہ میں مسلمانوں کی نسل کشی کو روکنے کے بہانے اس علاقے میں فرانسیسی فوج کی موجودگی کے باوجود، مسلمان سب سے زیادہ تشدد کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔

تکفیریوں کے نظریات اسلام دشمن نظریات سے زیادہ خطرناکمصر کی جامعۃ الازھر کے سربراہ نے ایک مرتبہ پھر عرب ملکوں میں تکفیریوں کی جانب سے تشدد کی تازہ لہر کے حوالے سے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ تکفیریوں کے نظریات اسلام کے دشمنوں کے نظریات سے زیادہ خطرناک ہیں۔ فارس نیوز کی رپورٹ کے مطابق شیخ الازھر "احمد الطیّب" نے بعض عرب اور اسلامی ملکوں میں تکفیری نظریات کے بڑھتے ہوئے رحجان پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ نظریات گمراہ کن ہیں اور نوجوانوں کے لئے نہایت ہی خطرناک ہیں، کیونکہ اسلام کے نام میں قتل عام کیا جارہا ہے اور تشدد کو ہوا دی جارہی ہے۔ مصر کی جامعۃ الازھر کے سربراہ نے ایک ٹی وی پروگرام میں کہا کہ مصر کی پولیس اور فوج پر حملوں کے جو فتوے تکفیریوں کی جانب سے دیئے جارہے ہیں اور تکفیری عناصر مصر کی سیکیورٹی فورسز کے اہل کاروں کے قتل کو جائز سمجھتے ہیں۔ شیخ الازھر "احمد الطیّب" نے مزید کہا کہ تکفیری گروہ کے نظریات کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

رہبر معظم کا سنندج کے امام جمعہ ماموستا مجتہدی کے انتقال پر تعزيتی پیغام

۲۰۱۴/۰۴/۲۶ - رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے خبرگان کونسل کے نمائندے اور سنندج میں اہل سنت کے امام جمعہ جناب ماموستا مجتہدی کے انتقال پر تعزیتی پیغام ارسال کیا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی کے پیغام کا متن حسب ذیل ہے:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مصلح و فاضل عالم دین جناب ماموستا حسام الدین مجتہدی کی رحلت پر مرحوم کے محترم خاندان، پسماندگان اور کردستان کے انقلابی اور مؤمن عوام کو تعزيت پیش کرتا ہوں۔ مرحوم ماموستا مجتہدی رحمہ اللہ علیہ شافعی مسلک کے ممتاز عالم دین ، خبرگان کونسل میں نمائندے اور سنندج میں اہلسنت کے امام جمعہ تھے۔

مرحوم نے علاقہ میں بہت سے شاگردوں کی تربیت کی اور گرانقدر خدمات انجام دیں اور وہ مسلمانوں کے درمیان انقلاب اسلامی کے اتحاد پر مبنی پیغام کے ہمیشہ وفادار رہے ، مرحوم ، اسلامی فرقوں کے درمیان اتحاد کے جذبے کے ساتھ خدمات انجام دیتے رہے ۔

میں اللہ تعالی کی بارگاہ سے مرحوم کے لئے رحمت و مغفرت کا طلبگار ہوں۔

سید علی خامنہ ای

6/ اردیبہشت/ 1393

رہبر معظم کا آیت اللہ ملکوتی کی رحلت پر تعزيتی پیغام

۲۰۱۴/۰۴/۲۴- رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے عالم جلیل القدر آیت اللہ ملکوتی کی رحلت پر اپنے تعزیتی پیغام میں مرحوم کے اہل خانہ، شاگردوں ، ارادتمندوں اور اسی طرح آذربائیجان کے عوام کو تعزیت اور تسلیت پیش کی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی کے پیغام کا متن حسب ذیل ہے:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

عالم جلیل القدر مرحوم آیت اللہ آقائ حاج شیخ مسلم ملکوتی رضوان اللہ علیہ کی دردناک رحلت پر مرحوم کے معزز و محترم خاندان، شاگردوں، ان کے ارادتمندوں، آذربائیجان کے عوام نیز قم کے حوزہ علمیہ ، مراجع عظام اور علماء کرام کو تعزیت و تسلیت پیش کرتا ہوں ۔ مرحوم حوزات علمیہ کے مایہ ناز اور قابل فخر عالم دین تھے اور انقلاب و اسلامی نظام کے سلسلے میں ان کی طولانی مجاہدت اور خدمات ہمیشہ تاریخ میں زندہ رہیں گي۔

ستمشاہی دور میں جامعہ مدرسین قم کی سیاسی سرگرمیوں میں اس مجاہد عالم دین کا دائمی حضور اور پھر تبریز کے امام جمعہ کے عہدے پر ان کی گرانقدر خدمات، دفاع مقدس کے دوران سپاہ اسلام کے ساتھ ان کی ہمراہی و ہمگامی ان کےنمایاں کارنامے ہیں جو ان کے سوابق میں ثبت ہوگئے ہیں جو انشاء اللہ ، تاریخ اور کرام الکاتبیین کے دیوان سے کبھی محو نہیں ہوں گے۔ میں اللہ تعالی کی بارگاہ سے مرحوم کے درجات کی بلندی اور رحمت و مغفرت کا طلبگار ہوں۔

سید علی خامنہ ای

4/ اردیبہشت/ 1393

ایران کے خلاف امریکہ کی سازشیں ہمیشہ ناکام رہیں،تہران کے خطیب جمعہ نے کہا ہے کہ امریکہ، اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد سے ملت ایران کےخلاف اپنی دشمنی کاسلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔

تہران کےخطیب نماز جمعہ آیت اللہ سید احمد خاتمی نے صحرائے طبس میں امریکہ کے فوجی حملے کی سالگرہ کی مناسبت سے ایران کےخلاف امریکہ کے دشمنانہ اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ تمام دشمنیوں کےباوجود، صحرائے طبس میں امریکہ کے فوجی حملے سمیت ایران کےخلاف اس کی تمام سازشیں عوامی حمایت اور اللہ تعالی کی مدد سے ہمیشہ ناکام ہوتی رہی ہیں۔

واضح رہے کہ آج پچیس اپریل صحرائے طبس میں امریکی فوجی حملے کی سالگرہ کا دن ہے۔ آج سے چونتیس سال قبل، پانچ اردیبہشت تیرہ سوانسٹھ ہجری شمسی میں امریکہ کے کچھ جنگی طیاروں اور ہیلی کاپٹروں نے ایرانی سرزمین پر حملہ کیاتھا لیکن مکمل منصوبہ بندی کے باوجود ان کا یہ حملہ ناکام ہوگیا۔

خطیب نماز جمعہ تہران آیت اللہ سید احمد خاتمی نے بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رح) کے اس ارشاد کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ امریکہ بڑا شیطان ہے کہا کہ اسلامی جمہوری نظام کےخلاف امریکہ کی تمام سازشیں ایرانی حکام اور قوم کی ہوشیاری سے ناکام ہوگئی ہیں۔

خطیب نماز جمعہ تہران نے افغانستان ، عراق اور یوکرین میں امریکی مداخلت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ ان ملکوں سے ہزاروں کلومیٹر دور ہے لیکن دنیا کے ہرحصے میں مداخلت کرتا ہے۔

تہران کی نمازجمعہ کے خطیب نے ایران اور گروپ پانچ جمع ایک کے درمیان جنیوا معاہدے کے سلسلے میں کہا کہ کینہ پرور دشمنوں پرکوئی اعتماد نہيں ہے کیونکہ انھوں نے اس معاہدے کے بعد تین نئی پابندیاں عائد کیں اور امریکی حکام نے پندرہ بار ایران کو فوجی حملے کی دھمکی دی۔

غزہ پٹی پر صیہونی حکومت کا حملہ، کئی افراد زخمی

صیہونی حکومت کے جنگی طیاروں نے جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بیت لاحیا کے علاقےکو اپنے حملے کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں چھ افراد زخمی ہوگئے۔ بعض زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے۔ پریس ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق صیہونی فوج کا یہ حملہ بدھ کے روز تحریک حماس اور فتح کے درمیان معاہدے پر دستخط کے تھوڑے ہی دیر بعد کیاگیا۔ واضح رہے کہ فلسطین میں تحریک حماس اور تحریک فتح کے رہنماؤں نے پانچ ہفتوں کے اندر باصلاحیت افراد پر مشتمل ایک حکومت تشکیل دینے پر اتفاق کیا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ فلسطین میں غزہ پٹی کے علاقے میں میں الفتح اور حماس کے رہنماؤں کے اجلاس میں فلسطین معاہدے کے نفاذ کے طریقوں کا جائزہ لیا گیا۔فلسطین کے منتخب وزیراعظم اسماعیل ہنیہ نے غزہ میں تحریک فتح اور حماس کے وفود کی موجودگی میں بدھ کوایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ فلسطینی گروہوں کے درمیان سات سال سے جاری اختلافات ختم ہوگئے ہیں۔