Super User
حضرت ابوالفضل العباس (ع) کا مقتل رہبر معظم حضرت خامنہ ای کے زبانی

حضرت ابوالفضل العباس کی وفاداری بھی سب سے زیادہ اسی مقام پر جلوہ گر ہوئی جب آپ شریعۂ فرات میں وارد ہوئے لیکن پانی نہیں پیا کیونکہ آپ کو بھائی حسین اور خاندان رسول کے بچے اور دیگر پیاسے یاد عام میں بھی ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے حضرت ابوالفضل العباس علیہ السلام کو پانی کآرہے تھے اور آپ ان سے پہلے پانی پینا اپنی جوانمردی کے خلاف سمجھتے تھے۔ البتہ نقل معروف جو افواہ ے لئے فرات روانہ کیا تھا لیکن میں نے جو کچھ خود ارشاد شیخ مفید اور سید ابن طاؤس کی کتاب “اللہوف جیسی معتبر کتب میں دیکھا ہے وہ اس روایت سے کسی حد تک مختلف ہے اور اس سے اس واقعے کی اہمیت میں اضافہ ہوتا ہے۔
ان معتبر کتب میں منقول ہے کہ ان آخری لمحات اور لحظات میں ان بچوں اور چھوٹی بچیوں اور اہل حرم پر پیاس کا دباؤ اتنا بڑھ گیا کہ امام حسین اور حضرت ابوالفضل علیہما السلام دونوں ساتھ پانی لانے کے لئے چلے گئے۔ ابوالفضل اکیلے نہيں گئے؛ حضرت امام حسین (ع) بھی ان کے ساتھ روانہ ہوئے اور اسی شریعۂ فرات کی طرف چلے گئے جو کہ فرات کا ایک حصہ تھا؛ اس امید سے کہ وہاں سے پانی اٹھا کر لائیں گے۔ یہ دو بہادر اور قوی بھائی پیٹھ سے پیٹھ لگا کر میدان جنگ میں لڑے۔ ایک امام حسین علیہ السلام تھے جن کی عمر اس وقت ساٹھ برس کے قریب تھی لیکن طاقت اور شجاعت کے لحاظ سے بےمثل نام آوروں میں شمار ہوتے تھے اور دوسرے حضرت عباس علیہ السلام تھے جن کی عمر 30 برس سے کچھ اوپر تھی اور انہیں اپنی منفرد خصوصیات سے پہچانا جاتا ہے۔ یہ دو بھائی کندھے سے کندھا ملا کر اور پیٹھ سے پیٹھ لگا کر دشمن کے بحر متلاطم میں صفیں کاٹ کاٹ رہے تھے تا کہ فرات کے کنارے تک پہنچ سکیں تا کہ شاید پانی لا سکیں۔ اسی اثناء میں امام حسین علیہ السلام نے محسوس کیا کہ دشمن نے آپ کے اور آپ بھائی عباس کے درمیان حائل ہوگیا ہے۔ اسی حال میں ابوالفضل پانی کے قریب پہنچ چکے ہیں۔
جیسا کہ نقل ہوا ہے حضرت عباس خیام میں پہنچانے کے لئے مشک میں پانی بھردیتے ہیں۔ یہاں ہر انسان اپنے لئے اس حق کا قائل ہوجاتا ہے کہ ایک چلو پانی اپنے خشکیدہ ہونٹوں تک بھی پہنچا دے؛ لیکن عباس نے یہاں بھی اپنی وفاداری کا ثبوت پیش کیا۔ ابوالفضل العباس نے پانی اٹھالیا اور جب ان کی نظر پانی پر پڑی تو “فذکر عطش الحسین” عباس کو امام حسین کے سوکھے ہونٹ یاد آئے؛ شاید انہیں بچیوں اور بچوں کی العطش کی صدائیں یاد آئیں، شاید پیاس کی شدت سے علی اصغر کے صدائے گریہ یاد آئی اور انھوں نے پانی پینا پسند نہیں کیا اور پانی پھینک کر دریا سے باہر نکل آئے۔ پانی سے باہر نکلتے وقت وہ حوادث پیش آتے ہیں اور امام حسین علیہ السلام اچانک بھائی کی صدا سنتے ہیں دشمن کے لشکر کے بیچ سے، جب عباس نے پکارا “يا اخا ادرك اخاك” بھائی جان اپنے بھائی کو پا لینا۔۔۔
نماز جمعہ 14 فروری 2000 یوم تاسوعا محرم الحرام 1421 ہجری۔
صحافیوں کی شہادت، بزدلانہ اقدام
اسلامی جمہوریۂ ایران کی وزارت خارجہ کی ترجمان نے المنارٹی وی چینل کے تین صحافیوں کی شہادت کے بزدلانہ اقدام کی مذمت کی ۔ ایران کی وزارت خارجہ کی ترجمان مرضیہ افخم نے آج ، المنار ٹی وی چینل کے تین صحافیوں کو شام کے شہر معلولا میں، تکفیری دہشت گردوں کے ہاتھوں شہادت کے اقدام کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس بربریت نے ایک بار پھر ، تشدد اور انتہاپسندی سے پیدا ہونے والے ٹھوس خطرات کو نمایاں کردیا ہے ۔ ترجمان دفتر خارجہ ایران نے ، تشدد اور انتہاپسندی سے عاری دنیا پر مبنی اسلامی جمہوریۂ ایران کے صدر کے منصوبے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا کے افراد کا قتل ، انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے تمام ملکوں اور متعلقہ اداروں کے درمیان باہمی تعاون کو ضروری بنا دیتا ہے ۔ المنار چینل نے اعلان کیا ہے کہ شہید حمزہ الحاج حسن کی نماز جنازہ آج بعلبک ميں ، مزاحمت کے حامیوں اور لبنان کے عوام کی ایک بڑی تعداد کی شرکت سے انجام پائے گي جبکہ حلیم علوہ کو کل شمال مشرقی لبنان کے شہر ھرمل ميں دفن کیا جائے گا ۔ واضح رہے کہ تکفیری دہشتگردوں نے شام کے مغربی شہر معلولا میں حزب اللہ کے حمایت یافتہ چینل کے تین صحافیوں کو گولی مارکر شہید کر دیا جبکہ دو زخمی بھی ہوئے ہيں ۔ المنار ٹی وی کا یہ گروپ ، مسلح عناصر کے قبضے سے معلولا کے علاقے کو ، شامی فوج کے توسط سے آزاد کرانے کی کارروائی کی کوریج کررہا تھا کہ چند مسلح عناصر نے انہیں گولی مارکر شہید کردیا ۔
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا اخلاق و کردار
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اپنی والدہ گرامی حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی صفات کا واضح نمونہ تھیں جو دو سخا ، اعلیٰ فکری اور نیکی میں اپنی والدہ کی وارث اور ملکوتی صفات و اخلاق میں اپنے پدر بزرگوار کی جانشین تھیں۔ آپ اپنے شوہرنامدار حضرت علی علیہ السلام کے لئے ایک دلسوز، مہربان اور فدا کار زوجہ تھیں آپ کے قلب مبارک میں اللہ کی عبادت اور پیغمبر کی محبت کے علاوہ اور کوئی تیسرا نقش نہ تھا۔ زمانہ جاہلیت کی بت پرستی سے آپ کو سوں دور تھیں ۔ آپ نےشادی سے پہلے کی ۹ سال کی زندگی کے پانچ سال اپنی والدہ اور والد بزرگوار کے ساتھ اور ۴ سال اپنے بابا کے زیر سایہ بسر کئے اور شادی کے بعد کے دوسرے نو سال اپنے شوہر بزرگوار علی مرتضیٰ علیہ السلام کے شانہ بہ شانہ اسلامی تعلیمات کی نشر و اشاعت، اجتماعی خدمات اور خانہ داری میں گذارے ۔ آپ کا وقت بچوں کی تربیت ،گھر کی صفائی اور ذکر و عبادت خدا میں گذرتا تھا ۔ فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) اس خاتون کا نام ہے جس نے اسلام کے مکتب تربیت میں پرورش پائی تھی اور ایمان و تقویٰ آپ کے وجودکے ذرات میں گھل مل چکا تھا ۔
حضرت فاطمہ زھرا زہرا سلام اللہ علیہا نے اپنے ماں باپ کی آغوش میں تربیت پائی اور معارف و علوم الہی کو سر چشمہ نبوت سے کسب کیا۔آپ نے جو کچھ بھی ازدواجی زندگی سے پہلے سیکھا تھا اسے شادی کے بعد اپنے شوہر کے گھر میں عملی جامہ پہنایا ۔ آپ اپنے گھر کے امور اور تربیت اولاد سے متعلق مسائل پر توجہ دیتی تھیں اور جو کچھ گھر سے باہر ہوتا تھا اس سے بھی باخبر رہتی تھیں اور اپنے شوہر کے حق کا دفاع کرتی تھیں ۔لہذا آج کی خواتین کو بھی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی سیرت سے درس لے کر اپنی زندگی کو کامیاب وکامران بنانا چائیے ۔
ایران میں ٹارگٹ کلنگ سے 17 ہزار افراد شھید
اسلامی جمہوریہ ایران میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں 17 ہزار افراد شھید ہو چکے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ایران کی شہید فاؤنڈیشن میں رہبر انقلاب اسلامی کے نمائندے کے معاون حجۃ الاسلام والمسلمین "سید حبیب اللہ حسنی" نے ایران کے مشرقی صوبے خراسان جنوبی کے گورنر کے ساتھ ملاقات میں کہا کہ ایران میں ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے قتل ہونے والوں 17 ہزار شہداء کے باوجود، افسوس کے ساتھ کہنا پڑھتا ہے کہ دنیا کے بعض ممالک، غیر منصفانہ طور پر اسلامی جمہوریہ ایران پر دھشتگردی کی حمایت کا الزام عائد کرتے ہیں۔ حجۃ الاسلام والمسلمین "سید حبیب اللہ حسنی" نے مزید کہا کہ ایران کے مومن و غیور عوام اور شہداء کے اہل خانہ ، اسلامی جمہوری نظام سے دلی لگاؤ رکھتے ہیں اور وہ اپنا سب کچھ اسلامی انقلاب پر قربان کرنے کے لئے آمادہ ہیں۔ ایران کی شہید فاؤنڈیشن میں رہبر انقلاب اسلامی کے نمائندے کے معاون نے مزید کہا کہ ملت ایران نے گذشتہ تین دہائیوں میں اسلامی نظام کے خلاف دشمنوں کی تمام سازشوں کو ناکام بنایا ہے۔
آیت الله حسینی بوشهری: حوزات علمیہ اور مساجد پر خصوصی توجہ رہے
حوزات علمیہ ایران کے سربراہ آیت الله سید هاشم حسینی بوشهری نے صوبہ قم کی سپریم کونسل کے اراکین سے ملاقات میں اس بات کی تاکید کرتے ہوئے کہ غدیر اور عاشور، انقلاب اسلامی ایران بنیادیں ہیں کہا: انقلاب اسلامی ایران نے دنیا کو عظیم سبق دیا ہے ، اور اسلامی جمھوریہ ایران کی جانب سے کون سا آئڈیل پیش کیا جارہا ہے یہ دنیا کے لئے اہمیت کا حامل ہے ۔
انہوں نے مذھبی حکومت کے ادارہ کرنے میں ائمہ اطهار(ع) کے طرز عمل کی جانب اشارہ کیا اور کہا: حضرت زهرا(س) نے اس سلسلہ میں فرمایا کہ اگر حضرت علی(ع) کو حکومت کا موقع دیا گیا ہوتا تو لوگ چین و سکون اورعیش و آرام کی زندگی بسر کرتے ۔
حوزات علمیہ ایران کے سربراہ نے مذھبی حکومت کی ذمہ داریوں اور اس کے وظائف میں آبادانی کی جانب اشارہ کیا اور کہا: حضرت علی(ع) نے مالک اشتر(رہ) کے نام خط میں تحریر کیا کہ اسلام میں آبادانی کو خاص اہمیت حاصل ہے جو انسان کی مادی اور معنوی حیات میں مددگار ہے ۔
مدرسین حوزہ علمیہ قم کونسل کے رکن نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ ہماری روایات میں دنیا پر بھی توجہ کی گئی ہے کہا: انسان اپنی مادی حیات میں آخرت کے مسائل کو بھی ملحوظ نظر رکھے ۔
حوزات علمیہ ایران کے سربراہ نے حوزات علمیہ اور مساجد پر خصوصی توجہ کی تاکید کرتے ہوئے کہا: ابتدائے اسلام میں مسجدیں مسلمانوں کی مشکلات و مسائل کے حل کا مرکز تھیں اور آج بھی مسجدوں کو انہیں مقاصد کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے ۔
انہوں نے آیات و روایات کے آئینہ میں عوام کی مشکلات کے حل کو ثواب و اجر آخرت کا باعث جانا اور کہا: صوبہ قم کی سپریم کونسل کے اراکین ، عوام کی خدمت کے حوالہ سے عطا کردہ خدا کی نعمتوں کا شکر ادا کریں اور مکمل اخلاص کے ساتھ لوگوں کی خدمت کریں نیز ثقافت اهل بیت(ع) کی ترویج میں کوشاں رہیں ۔
آذربائیجان کی دفاعی ضروریات پوری کریں گے
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر دفاع نے جمہوریہ آذربائیجان کی دفاعی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے تھران کی جانب سے آمادگی کا اعلان کیا ہے۔ وزارت دفاع کے پریس نوٹ کے مطابق ایران کے وزیر دفاع جنرل "حسین دھقان" نے تھران میں جمہوریہ آذربائيجان کے وزیر دفاع "ذاکر حسن اف" کے ساتھ ملاقات میں ایران و جمہوریہ آذربائیجان کے درمیان دیرینہ تعلقات اور مشترکہ دینی و ثقافتی اقدار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اہم علاقائی و بین الاقوامی مسائل میں دونوں ملکوں کے مشترکہ مواقف اہمیت کے حامل ہیں۔ ایران کے وزیر دفاع نے ایران و آذربائیجان کی سرحدوں کو دوستی و بھائی چارے کی سرحدیں قرار دیا اور تاکید کی کہ دونوں ملکوں میں تعمیری صلاح مشورے اور باہمی رابطے، اس امر کا باعث بنیں گے کہ دونوں ملکوں کی سرحدوں میں مکمل امن و امان اور سیکیورٹی کی برقراری قائم ہو۔ آذربائیجان کے وزیر دفاع نے بھی اس ملاقات میں اسلامی جمہوریہ ایران کے دورے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایران علاقے کا ایک بڑا ملک ہے اور جمہوریہ آذربائیجان ، تھران کے ساتھ تعلقات کے فروغ کو اہمیت دیتا ہے۔ "ذاکرحسن اف" نے مزید کہا کہ ان کا ملک ایران کی پرامن جوہری سرگرمیوں کی حمایت کرتا ہے۔
حجر ابن عدی
مرج العذراء کی سرزمین وہ علاقہ ہے جسے خلیفہ دوم جناب عمر ابن خطاب کے زمانے میں " حجر ابن عدی " نے فتح کیا تھا اور وہاں کے لوگوں کو اسلام کی دعوت دی تھی اور آج بھی اس سرزمین پر ان کی بے شمار یادگاریں موجود ہیں۔ جب حکومت کے اہلکار ان کا ہاتھ باندھ کر اس سرزمین پر لائے تو انہوں نے کہا : میں سب سے پہلا مسلمان تھا جس نے اس علاقے میں تکبیر کہی تھی اور خدا کو یاد کیا تھا اور اس وقت یہ لوگ مجھے یہاں قید کرکے لائے ہیں ۔
حجر ابن عدی کا سب سے بڑا جرم ان کا محب امام اور خليفه وقت حضرت علی (ع) ہونا تھا۔اسی لۓ اس نے ایک گروہ کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ موجودہ شام کے علاقے مرج العذراء جائیں اور حجر ابن عدی اور ان کے ساتھیوں کو قتل کردیں۔ جب وه سپاہیوں نے انہیں گرفتار کیا تو ان سے کہا : اگر تم لوگ علی سے اظہار برات اور دوری اختیار کرو اور ان کی شان میں گستاخی کرو تو ہم تمہیں آزاد کردیں گے اوراگر ایسا نہیں کروگے تو تمہیں قتل کردیں گے حجرابن عدی اور ان کےساتھیوں نے کہا : تیز تلوار کےمقابلے میں صبر ورضا پر ایمان ہمارے لئے اس چیز سے بہت ہی آسان ہے جس کے بارے میں تم ہمیں دھمکیاں دے رہے ہو۔ خدا و رسول اور حضرت امام علی علیہ السلام کے دیدار پر ایمان، دوزخ میں داخل ہونے سے زیادہ محبوب تر ہے ۔اس وقت حجر ابن عدی نے کہا : کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا تھا اے حجر تم علی کی محبت میں ظلم و بربریت سے قتل کئے جاؤگے اور جب تمہارا خون زمین پر گرے گا تو اس کے نیچے سے ایک چشمہ جاری ہوگا جو تمہارے سر کے زخموں کو دھو دے گا ۔
اور پھر یکے بعد دیگرے حجر ابن عدی کے باوفا ساتھی اپنے خون میں غلطاں ہوئے اور انہوں نے شہادت کا جام پی کر اپنی پاکیزہ زندگی کے نقوش کو تاریخ کے دامن میں ہمیشہ کے لئے ثبت کردیا اور آخر میں حضرت حجر بھی شہید ہوگئے ۔
پیغمبر اسلام (ص) کے عظیم صحابی حجر ابن عدی جوانی کے دور ہی سے شجاعت و بہادری جیسی صفت سے مزین تھے اور جس دن سے وہ اسلام لائےتھے اسی دن سے مشرکوں اور کافروں سے بر سر پیکار تھے آپ حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کے دوران فتح شام ، سرزمین مدائن اوراسلام کی اہم جنگوں میں بڑی شجاعت ودلیری کے ساتھ اسلام کا دفاع کرتے رہے اور مرج العذراء علاقے کے وہ سب سے پہلے مسلمان شہید تھے جنہوں نے مصلی شہادت پر پہنچنے کے باوجود دورکعت نماز پڑھنے کا ارادہ کیا تاکہ عظمت پرودگار کے حضور میں راز ونیاز کرکے اپنی روح کو بالیدگی بخشیں ۔چنانچہ آپ نے مصلی شہادت پر دو رکعت نماز پڑھنے کی مہلت طلب کی ۔ دشمنوں کی نظرمیں ان کی نماز طولانی ہونے لگی تو انہوں نےکہا : تم نے نماز کو بہت طول دیدیا ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ موت سے ڈر گئے ؟ حضرت حجر نے نہایت دلیری سے کہا یقین کرو کہ میری زندگی کی یہ سب سے کم وقت میں پڑھی جانے والی نماز تھی جو میں نے ابھی پڑھی ہے بالآخر حجر ابن عدی شہادت کے درجے پر فائز ہوگئے اور جہاد کے سنگین بوجھ کو سرحد شہادت یعنی آخری منزل تک پہنچادیا۔
حجر ابن عدی کو شہید کرنے کے بعد امیر شام کو بہت سی مشکلات سے دوچار ہونا پڑا اور جب حج کے ارادے سے مدینہ گئے تو ام المومنین عائشہ سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی لیکن جناب عائشہ نے دو دلیلوں کی بنیاد پر ملنے سے انکار کردیا پہلے یہ کہ انہوں نے ان کے بھائی محمد ابن ابو بکر کو کیوں شہید کیا دوسرے یہ کہ اس نے حجر ابن عدی کو کیوں شہید کیا ۔امیر شام نے حضرت عائشہ سے معافی مانگی لیکن انہوں نے ملاقات کی اجازت نہ دی مگر جب اصرار زيادہ بڑھا تو جناب عائشہ نے ملاقات کی اجازت دے دی اور پھر پیغمبر اسلام (ص) کی یہ حدیث پڑھ کر اسے سنائی کہ پیغمبر (ص) نے فرمایاتھا کہ " سرزمین مرج العذراء پر ایک گروہ قتل ہوگا جن کے قتل سے پروردگار عالم اور اہل آسمان بہت زيادہ غضبناک ہوں گے " کہتے ہیں کہ امیر شام زندگی کے آخری لمحے تک اس دلخراش منظر کو یاد کرتا رہا اور حجر ابن عدی کے قتل پر اظہار پشیمانی کرتارہا ۔
داخلی جھڑپیں لبنان کے مفاد میں نہیں
لبنان کے مفتی اعظم نے اس ملک میں مسلحانہ جھڑپوں اور جنگ کے نتائج کے حوالے سے خبر دار کیا ہے۔ لبنان کی سرکاری خبر رساں ایجینسی کی رپورٹ کے مطابق لبنان کے مفتی اعظم شیخ "محمد رشید قبانی" نے آج اس ملک میں داخلی جنگ کے وقوع پذیر ہونے کی 39 ویں برسی کی مناسبت سے اپنے ایک پیغام میں لبنان میں جاری مسلحانہ جھڑپوں اور داخلی جنگ کے نتائج کی بابت خبردار کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ لبنانی گروہوں کے درمیان تعمیری صلاح مشورے کا جاری رہنا ، عوام کے درمیان اتحاد و یکجہتی کے عمل کی تقویت کا باعث بن سکتا ہے۔ شیخ "محمد رشید قبانی" نے عوام میں وحدت کی تقویت ، باہمی و سیاسی اختلافات دور رہنے کا مطالبہ کرتے ہوئے تاکید کی داخلی جھڑپیں ملک میں تباہی و بربادی اور لبنان کے عوام کے نقصان کے علاوہ کچھ نہیں لاسکتیں۔ واضح رہے کہ آج لبنان میں داخلی جنگ کے آغاز کی 39 ویں برسی ہے اور لبنانی عوام نے 1975 سے لیکر1990 تک داخلی جنگ کے سبب سخت ترین حالات کا سامنا کیا ہے
امام علي (ع) مسجد اور مرکز اسلامی ہمبرگ
مسجد امام علی ﴿ع﴾ اور مرکز اسلامی ہمبرگ
{ إِنّما يَعْمُرُ مَساجِدَ اللّهِ مَنْ آمَنَ بِاللّهِ وَ الْيَوْمِ اْلآخِرِ وَ أَقامَ الصّلاةَ وَ آتَى الزّكاةَ وَ لَمْ يَخْشَ إِلاّ اللّهَ فَعَسى أُولئِكَ أَنْ يَكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدينَ }
“ خدا کی مساجد کو وہ لوگ تعمیر کرتے ہیں، جنھوں نے خدا اور قیامت کے دن پر ایمان لایا ھو، نماز قائم کرتے ہیں، زکوة دیتے ہیں اور خدا کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتے ہیں۔ امید ہے یہ ہدایت پانے والوں میں سے ھوں”۔
مسجد، دین مقدس اسلام کا دفاعی مورچہ ہے، اور پوری تاریخ میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ ﴿ص﴾ کے با وفا صحابیوں نے اس کا دفاع کیا ہے۔ مسجد کے کافی رول ہیں ان میں سے اہم رول اس کا عبادت کا مرکز ھونا اور مسلمانوں کے درمیان رابطہ بر قرار کرنے کی جگہ ہے۔ جس طرح ستارے آسمان کی زینت کا سبب ہیں، اسی طرح مساجد بھی زمین کی زینت ہیں اور مساجد میں مؤمنین کے دلوں میں خدا کا نور چمکتا ہے اور انھیں مستفید کرتا ہے۔ چنانچہ رسول خدا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے:“ المساجد انوار اللہ”، “ مسجدیں خدا کا نور ہیں”۔
یورپ کی بڑی اور مشہور مساجدوں میں سے ایک مسجد امام علی علیہ السلام اور مرکز اسلامی ہمبرگ ہے، جس کو مرجع عالی قدر مرحوم آیت اللہ العظمی بروجردی کی ہمت اور مؤمنین کی مدد سے تعمیر کیا گیا ہے۔
یہ باشکوہ مسجد اور اسلامی مرکز مسلمانوں کے مختلف گروہوں اور قومون کی عبادت اور اسلام کی ترویج کی جگہ ہے۔ یہ اسلامی مرکز مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلموں کی توجہ کا سبب بنا ہے اور مختلف ممالک سے آنے والے سیاح اس کو دیکھنے کے لئے آتے ہیں۔ یورپ کے بہت سے مسلمانوں، خاص کر جرمنی کے لوگوں کے لئے اسلامی مرکز ھمبرگ کا نام جانا پہچانا ہے اور شاید بعض افراد دور دراز علاقوں سے کئی بار آکر اس مسجد اور مرکز اسلامی کو دیکھنے میں کامیاب ھوئے ھوں گے۔
اس مسجد کا آلستر نامی خوبصورت جھیل کے کنارے پر واقع ھونا اور مشرقی معماری کی دلکش عمارت، اس امر کا سبب بنی ہے کہ شہر ھمبرگ میں تازہ داخل ھونے والے افراد اور مختلف ممالک کے سیاح، اس مرکز کو شہر کی دیکھنے کے قابل دینی عمارت کے عنوان سے دیکھنے کے لئے آئیں۔ سالہا سال سے جرمنی کے سیاحت سے متعلق موسسات کی طرف سے شائع کئے جانے والے بروشروں میں شہر ھمبرگ کی قابل دید تاریخی عمارتوں کے عنوان سے اس مسجد کا نام درج ھوتا ہے۔
مسجد اور مرکز کی تعمیر کی تاریخ:
یکم اکتوبر 1957ء میں پہلی بار اس مسجد کے لئے زمین کا ایک ٹکڑا خریدا گیا اور اسے اندراج کیا گیا۔ جس کا رقبہ3744.4مربع میٹر تھا۔
فروری 1960 عیسوی میں اس مسجد کی تعمیر کے سلسلہ میں پہلی گینتی مارنے سے 1963ء کے اواخر تک کام میں کبھی کبھی وقفوں کے باوجود عمارت کا ڈھانچہ کھڑا کیا گیا۔ لیکن ان ہی دنوں حضرت آیت اللہ العظمی بروجردی وفات پا گئے۔
1963عیسوی کے اواخر میں مسجد کی تعمیر کا کام کچھ مدت کے لئے رک گیا۔ عمارت تعمیر کرنے کی کمیٹی کو بجٹ ختم ھونے کی وجہ سے جرمنی کے بینکوں سے قرض لینا پڑا۔
1965عیسوی میں مراجع تقلید کی تائید سے شہید آیت اللہ ڈاکٹر بہشتی، اس مسجد کے امام جماعت کے عنوان سے منصوب ھوئے۔ وہ ایک فعال عالم دین اور دانشور تھے۔ انھوں نے یہ عہدہ سنبھالتے ہی اس مسجد اور مرکز اسلامی کی بنیادی تعمیرات کو سرعت بخشی۔
1966ء اور 1967عیسوی کے سالوں کے دوران مسجد کا اندرونی ایک حصہ اور مسجد کی دیواروں پر باہر سے ٹائیل لگانے کا کام مکمل کیا گیا اور اس سلسلہ میں ایران اور جرمنی کے مسلمانوں نے مالی مدد کی۔
آیت اللہ ڈاکٹر بہشتی کے دوسرے اہم کارناموں میں سے یہ تھا کہ انھوں نے مسجد کے ساتھ ایک اسلامی اور ثقافتی مؤسسہ کی بنیاد ڈالی تاکہ مختلف مذاہب اور فرقوں کے مسلمانوں کے لئے اسلامی اور ثقافتی سرگرمیاں انجام دینے کا موقع فراہم ھوجائے۔ اس طرح شہید بہشتی کی کوششوں کے نتیجہ میں 8 فروری 1966عیسوی کو “ مرکز ھمبرگ” کا قانونی طور پر اندراج کیا گیا اور اس مرکز نے جرمنی اور دوسرے یورپی ممالک کی سطح پر اپنی سرگرمیاں شروع کیں۔
1970عیسوی میں آیت اللہ بہشتی کے ایران لوٹنے کی مختصر مدت کے بعد ایران کی ظالم شاہی حکومت کے اشاروں پر جرمنی میں“ ملی بینک ” میں اس مسجد کی تعمیر کے بارے میں حساب کو بند کیا گیا اور اس طرح اس بینک نے مسجد اور مرکز کے کام کو جاری رکھنے کے لئے رقومات ادا کرنے سے انکار کیا۔ یہ اقدام اس مسجد اور مرکز کی سرگرمیوں کو مزید ضرر پہنچنے کا سبب بنا۔ لیکن بعض ہمدرد مسلمانوں کی انتھک کوششوں کے نتیجہ میں، اس مسجد کے مالی مشکلات کافی حد تک حل ھوگئے، اور1969عیسوی سے 1979عیسوی تک کی مدت کے دوران اس مسجد اور مرکز کے اہم کام من جملہ تقریروں کا ہال، مسجد کی بیرونی دیواروں کی زیبائی کا کام اور اس کا تہ خانہ مکمل کیا گیا۔
مسجد ھمبرگ کی عمارت:
مسجد ھمبرگ کی عمارت اس کے دو اہم حصوں پر مشتمل ہے: مسجد کا اصلی حصہ ایک دائرہ کی شکل میں ہے، کہ اس پر ایک بڑا گنبد قرار پایا ہے، جس کی بلندی 18میٹر اور قطر 13.5میٹر ہے۔ یہ گنبد سیمٹ کا بنا ھوا ہے اور اس پر تانبے کی تہ لگائی گئی ہے، اور اس کا رنگ سبز ہے اور اس نے مسجد کو ایک خاص زیبائی بخشی ہے۔
مسجد کی اندرونی دیواروں کو فیروزی رنگ کی ٹائیلوں سے مزین کیا گیا ہے۔ ان دیواروں پر خوشنما خط ثلث میں سورہ جمعہ اور سورہ اسراء کی چند ایات اور ان کا جرمنی زبان میں ترجمہ لکھا گیا ہے اس مسجد کے ٹائیل لگانے کا کام شہر مقدس مشہد کے ماہر استادوں نے انجام دیا ہے۔ مسجد کے قبلہ کی طرف ایک خوبصورت محراب ہے، جسے اینٹوں اور ٹائیلوں سے بنایا گیا ہے اور اس محراب کو بھی مشہد مقدس کے ماہر استادوں نے دوسال کی مدت میں تعمیر کیا ہے۔
محراب کے اوپر سورہ انعام کی آیت نمبر 162کی انتہائی خوبصورت انداز میں خطاطی کی گئی ہے۔ مسجد کے شبستان میں روزمرہ نماز جماعت، نماز جمعہ اور نماز عید الفطر اور نماز عیدقربان بجالائی جاتی ہے۔
گنبد کے دونوں اطراف میں دو مینار ہیں، جو رسول اللہ ﴿ص﴾ کے موذن، حضرت بلال ﴿رض﴾ کی اذان اور خدا کی وحدانیت کا اعلان کرنے کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ یہ دونوں مینار بھی سیمٹ کے بنے ھوئے ہیں اور ان کو باہر سے چھوٹی چھوٹی ٹائیلوں سے سجایا گیا ہے۔ ان میناروں میں سے ہر ایک کا قطر2.20 میٹر ہے اور ان کی بلندی 18میٹرہے۔ مسجد کا صدر دروازہ مغرب کی طرف کھلتا ہے اور اس کا باہر کا حصہ خوبصورت ٹائیلوں سے سجایا گیا ہے۔ یہ صدر دروازہ مسجد کی اصلی سطح سے قدرے بلند تر ہے اور مسجد میں داخل ھونے کے لئے اس کے دونوں طرف دو سیڑھیاں لگی ھوئی ہیں۔ ان سیڑھیوں اور صدر دروازہ کے سامنے پانی کا ایک منظر دکھائی دیتا ہے، جو اس مسجد کے بیرونی منظر کو طراوت اور شادابی بخشتا ہے۔
مسجد کے اطراف میں ایک شبستان ہے، اس میں تقریروں کا بڑا ہال، کتابخانہ، اداری دفاتر، وضوخانہ، بیت الخلاء، کچن اور مرکز اسلامی کی سرگرمیوں کا دفتر ہے۔
تقریروں اور اجتماعات کا ہال مسجد کے شبستان کے کنارے پر واقع ہے اور اس میں200 کرسیاں بچھانے کی گنجائش ہے۔ اس ہال میں بر وقت ترجمہ کا سسٹم نصب کیا گیا ہے اور اس میں مذہبی اور علمی تقریریں کی جاتی ہیں اور کانفرنسیں منعقد کی جاتی ہیں۔ تقریر کرنے کی جگہ کے پیچھے قرآن مجید کے سورہ نحل کی 125ویں آیت پر مشتمل ایک کتبہ نصب کیا گیا ہے۔
بعض گناہگاروں اور کفارکے رفاہ و آسائش میں رہنے کا فلسفہ
اس پروگرام ميں ہم اس بات کا جائزہ لیں گے کہ بعض کفار اور گنہ گار افراد کیوں رفاہ و آسائش میں رہتے ہیں۔
ایک سوال جو شاید آپ کو درپیش آتا ہو یہ ہے کہ بعض کافر اورگناہگا افراد کیوں کر دنیا میں اچھی اور خوشحال زندگي گذارتے ہيں ؟ یا یہ کہ کیوں بہت سے مواقع پر کفار اور گناہگار مسلمان اور فاسق ، مومنین اور متقین سے بہتر حالت میں ہیں ؟ کیوں بہت سے معاشرے جوکلی طور پر خدا اور پیغمبر کے منکر ہيں ، زیادہ رفاہ و آسائش سے بہرہ مند ہیں ؟ کبھی اس سے بڑھ کر یہ سوال پیش آتا ہے اور بطور طعنہ کہا جاتا ہے کہ تمام عذاب اور مسائل مسلمانوں کےلئے ہی کیوں ہیں ؟ جبکہ کفار آرام و آسائش سے ہیں اور یورپی ممالک کہ جن کے پاس ایمان نام کی کوئی چیز نہیں ہے وہ ہم مسلمانوں سے زیادہ آرام و سکون سے زندگي گذار رہے ہیں ۔
البتہ اس پہلے اعتراض کا جواب واضح ہے ۔ بہت سے کفار اور گناہگار افراد ، خاص طور پر افریقہ ، ایشیاء اور جنوبی امریکہ میں مادی لحاظ سے مناسب حالات میں زندگی نہيں گذار رہے ہيں جبکہ مسلمان اور حتی بہت سے مومنین بھی ایسے ہیں جو خوشحالی اور عشرت میں زندگي گذار رہے ہیں ۔ اور تاریخ پر طائرانہ نظر ڈالنے سے بھی ہمیں یہ ملتا ہے کہ بہت سے مومنین اور حتی پیغمبروں ، جیسے حضرت داؤد ، سلیمان اور یوسف علیھم السلام ، کے پاس بھی بہت زیادہ دولت وثروت تھی لیکن وہ اپنی اصلی دولت کو، خدا پر ایمان قرار دیتے تھے ۔
لیکن ایک مجموعی جواب کے طورپر یہ کہا جاسکتا ہے کہ خداوند عالم نے دنیوی نعمتوں کو سب کے اختیار میں دیا ہے خواہ مومن ہو یا کافر ، لیکن ایمان اور عمل صالح کی جزا عالم آخرت ميں مؤمنین کے لئے ہی ہے ۔ خداوند عالم سورۂ اسراء کی آيت 18 میں فرماتا ہے جو شخص بھی دنیا کا طلبگار ہے ہم اس کے لئے جلد ہی جو چاہتے ہیں دے دیتے ہیں پھر اس کے بعد اس کےلئے جہنم ہے جس میں وہ ذلت و رسوائی کے ساتھ داخل ہوگا ۔ اور جو شخص آخرت کا چاہنے والا ہے اور اس کے لئے ویسی ہی سعی بھی کرتا ہے اور صاحب ایمان بھی ہے تو اس کی سعی یقینا مقبول قراردی جائے گی ۔
اصولی طورپر اس دنیا کا نظام ، انتخاب واختیار کی بنیاد پر قائم ہے ۔ وہ جو قرآن کی تعبیر ميں اپنے کانوں اور آنکھوں کو بند کرلیتا ہے تو اسے زور وزبردستی اور جبری طور پر خدا اور حق و کمالات کی جانب نہيں بلایا جاسکتا ۔ اسی بناء پر خداوند عالم ان افراد کو "استدراج" یعنی تدریجی سزا یا عذاب استدراج کی سنت میں گرفتار کردیتا ہے ۔ استدراج کی نوبت اس وقت آتی ہے جب انسان ، اسلام اور وحی کی تعلیمات کامنکر ہوجائے اور تمام معجزات اور دلائل کے باوجود گمراہی اور کفر کاراستہ اختیار کرلے اور حق اور مسلمات کا منکر ہوجائے ۔سورۂ قلم کی آیت 44 میں خداوند عالم ، کفارکے بارے میں پیغمبر کو خطاب کرتے ہوئے فرماتا ہے ۔ " تو اب مجھے ، میری بات کے جھٹلانے والوں کے ہمراہ چھوڑدو ، ہم عنقریب انہیں اس طرح سے گرفتار کریں گے کہ انہيں اندازہ بھی نہ ہوگا اور ہم تو اس لئے ڈھیل دے رہے ہیں کہ ہماری تدبیر مظبوط ہے" ۔ درحقیقت ان کے لئے بدترین عذاب ، یہی آسائشیں اور امکانات ہیں کہ جسے وہ نعمت سمجھ رہے ہیں وہ دھیرے دھیرے عذاب الہی کی جانب بڑھ رہے ہیں لیکن اس طرف متوجہ نہیں ہیں ۔
گویندہ : کلمہ استدراج ایک قرآنی اصطلاح ہے جس کے معنی گناہگاروں کو نعمتیں دے کر تدریجا غفلت ميں ڈال دینا یا انہيں ڈھیل دینا ہے ۔اس طرح سے کہ خدا کی مادی نعمتوں میں ڈوبا ہوا انسان ، خدا ، معنوی کمالات ، استغفار اور شکر کی نعمت سے محروم ہوجاتا ہے اور زیادہ سے زیادہ گناہ میں مبتلا ہوتا جاتا ہے ۔
لغت میں ”استدراج“ کے دومعانی ہیں: ایک یہ کہ کسی چیز کو تدریجاً اور آہستہ آہستہ لینا (کیونکہ یہ لفظ ”درجہ“ سے اخذ کیا ہے ) اسی طرح جب کسی چیز کو تدریجاً اور مرحلہ بہ مرحلہ لیں یا گرفتار کریں تو اس عمل کو استدراج کہتے ہیں) استدراج کا دوسرا معنی ہے لپیٹنا اور تہ کرنا ۔ جس طرح کاغذوں کے ایک پلندے کو لپیٹتے ہیں (یہ دونوں معانی ایک کلی اور جامع مفہوم ”انجام تدریجی“) کی ہی ترجمانی کرتے ہیں ۔
حدیث میں ہے کہ شیعب پیغمبر (ع) کے زمانے میں ایک کافر اور فاسق و فاجر شخص ان کے حضور ميں آیا اور کہا کہ شعیب تم نے جس عمل کو بھی گناہ کا نام دیا ہے ہم ، ان سب کے مرتکب ہوئے ہیں لیکن ہم پر تو کوئی بلا نازل نہیں ہوئی اس سے تو پتہ چلتا ہےکہ خدا ہمیں بہت چاہتا ہے ۔ شعیب پیغمبر نے خدا سے کہا کہ یہ بندہ تواس طرح سے کہہ رہا ہے ۔ تو جناب شعیب (ع) کو وحی ہوئی کہ اس سے کہہ دو کہ ہم جو اس کے کسی کام میں کوئی مشکل پیدا نہیں کررہے ہیں تو یہی بدترین بلاہے کیوں کہ ہم نہيں چاہتے کہ وہ ہم سے توبہ کرسکے اور ہمارا شکر کرسکے۔ ”
استدراجی سزا“ کے بارے میں آیات قرآن اور احادیث ميں بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اس کی توضیح یہ ہے کہ خدا گنہگاروں اور منہ زور سرکشوں کو ایک سنت کے مطابق فوراً سزا نہیں دیتا بلکہ نعمتوں کے دروازے ان پر کھول دیتا ہے تو وہ زیادہ سرکشی دکھاتے ہیں اور خدا کی نعمتوں کو ضرورت سے زیادہ اکٹھا کر لیتے ہیں ۔ اس کے دو مقاصد ہوتے ہیں یا تو یہ نعمتیں ان کی اصلاح اور سیدھے راستے پر آنے کا سبب بن جاتی ہیں اور اس موقع پر ان کی سزا دردناک مرحلہ پر پہنچ جاتی ہے کیونکہ جب وہ خدا کی بے شمار نعمتوں اور عنایتوں میں غرق ہوجاتے ہیں تو خدا ان سے وہ تمام نعمتیں چھین لیتا ہے اور زندگی کی بساط لپیٹ دیتا ہے ایسی سزا بہت ہی سخت ہے ۔
البتہ یہ معنی اپنی تمام خصوصیات کے ساتھ صرف لفظ استدراج میں پنہاں نہیں ہے ۔
بہر حال استدراج سے متعلق آيت میں تمام گنہگاروں کے لئے تنبیہ ہے کہ وہ عذاب الٰہی کی تاخیر کو اپنی پاکیزگی اور راستی یا پروردگار کی کمزوری پر محمول نہ کریں اور وہ عنایات اور نعمتیں جن میں وہ غرق ہیں انھیں خدا سے اپنے تقرب سے تعبیر نہ کریں ۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جو کامیابیاں اور نعمتیں انھیں ملتی ہیں ۔ پروردگار کی استدراجی سزا کا پیش خیمہ ہوتی ہیں ۔ خدا انھیں اپنی نعمتوں میں محو کردیتا ہے اور انھیں مہلت دیتا ہے انھیں بلند سے بلندتر کرتا ہے لیکن آخر کار انھیں اس طرح زمین پر پٹختا ہے کہ ان کا نام و نشان تک مٹ جاتا ہے ۔ اور ان کے تمام کاروبار زندگی اور تاریخ کو لپیٹ دیتا ہے ۔
امیرالمومنین حضرت علی (علیہ السلام) نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں ۔
وہ شخص کہ جسے خدا بے بہا نعمات اور وسائل دے اور وہ اسے استدراجی سزا نہ سمجھے تو وہ خطرے کی نشانی سے غافل ہے ۔“(۱)
نیز حضرت علی (علیہ السلام) سے کتاب ”روضہ کافی“ میں نقل ہوا ہے آپ نےفرمایا: ایک ایسا زمانہ آئے گا جس میں کوئی چیز حق سے زیادہ پوشیدہ اور باطل سے زیادہ ظاہرو آشکار اور خدا اور اس کے رسول پر جھوٹ بولنے سے زیادہ نہیں ہوگی ۔“
یہاں تک کہ آپ نے فرمایا:
”اس زمانے میں کچھ افراد ایسے ہوں گے کہ صرف قرآن کی ایک آیت سن کر (اس کی تحریف کریں گے) اور خدا کے دین سے نکل جائیں گے اور ہمیشہ وہ ایک حاکم کے دین کی طرف اور ایک شخص کی دوستی سے دوسرے کی دوستی کی طرف اور ایک حکمراں کی اطاعت سے دوسرے حکمراں کی اطاعت کی طرف اور ایک کے عہد و پیمان سے دوسرے کی طرف منتقل ہوتے رہیں گے اور آخر کار ایسے راستے سے کہ جس کی طرف ان کی توجہ نہیں ، پروردگار کی استدراجی سزا میں گرفتار ہوجائیں گے ۔
فرزند رسول خدا حضرت امام حسین (ع) استدراج کی تعریف میں فرماتے ہیں " استدراج کا معنی یہ ہےکہ خدا اپنی نعمت کو اپنے بندے پر انڈیل دیتا ہے اور دوسری طرف ، اس سے شکر کی نعمت کو سلب کرلیتا ہے ۔ اس بناء پر استدراج کے آثار ونتائج میں سے ایک ناشکری ہے البتہ اس امر پر توجہ دینا چاہئے کہ جو کوئی خدا کی نعمت سے بہرہ مند ہواور وہ خدا کا شکرگذار بھی ہو توایسا شخص استدراج کا مصداق نہیں ہے ۔ حضرت امام صادق (ع) کے ایک صحابی نے عرض کی ، میں نے خدا سے مال طلب کیا تھا اس نے مجھے روزی عطاکی ، میں نے خداسے بیٹا مانگا اس نے وہ بھی مجھے عطا کیا ، گھر کی طلب کی وہ بھی مرحمت فرمایا اس لئے میں ڈرتا ہوں کہ کہیں یہ استدراج یا تدریجی عذاب نہ ہو ، امام صادق (ع) نے فرمایا اگر یہ تمام نعمتیں، تمہاری جانب سے شکر کے ساتھ مل رہيں ہیں تو یہ استدراج میں شامل نہيں ہے ۔
اکثر افراد نعمت کو، پیسے اور سلامتی کے سوا اور کچھ نہیں سمجھتے جبکہ یہ سوچ صحیح نہیں ہے بلکہ مال و ثروت کے مقابلے میں، انسان کا عکس العمل اس بات کو واضح کرتا ہے کہ یہ نعمت ہے یا نہيں ۔ وہ شخص جو مال و ثروت اور اپنی سلامتی کو، رضائے الہی اور خدمت خلق ميں صرف کرتا ہے اور شکر خدا بھی بجا لاتا ہے تو یقینی طور پر وہ نعمت الہی سے بہرہ مند ہے لیکن اگر یہی مال اور سلامتی غرور اور اسراف کا سبب بن جائے تو وہ نہ صرف نعمت نہيں ہے بلکہ عذاب بھی بن سکتی ہے ۔ اس کے مقابلے ميں بہت سے ایسے فقیرو نادار لوگ ہوتے ہیں جو اپنی فقیری و غربت کے سبب نا شکری اور کفرکی بات زبان پر لاتے ہیں اور جہنمی ہوجاتے ہیں ۔
قرآنی اصطلاحات میں سے ایک " بلاء حسن " بھی ہے سورۂ انفال کی آیت 17 میں ارشاد ہوتا ہے " ولیبلی المؤمنین منہ بلاء حسنا " تاکہ صاحبان ایمان پر خوب اچھی طرح احسان کردے کہ وہ سب کی سننے والا اور سب کا حال جاننے والا ہے ۔ بلا کے معنی آزمائش اور آزمانے کے ہیں ۔ امتحان کا جو فلسفہ ہے اس میں اسی بات پر تاکید ہے کہ انسان ان آزمائشوں ميں اپنی صلاحیتوں ميں اضافہ کرسکتا اور اپنی استعداد کو اجاگر کرنے کے ساتھ ہی کمالات کی اعلی منازل کو طے کرسکتا ہے ۔ درحقیقت الہی آزمائشیں ، محض استعدادوں اور صلاحیتوں کا اندازہ لگانے کے لئے نہيں ہوتیں بلکہ نئی صلاحیتیوں اور توانائیوں کے ظہور اور ان ميں اضافے کا سبب ہوتی ہیں ۔ چنانچہ امیرالمؤمنین حضرت علی ابن ابیطالب (ع) فرماتے ہيں : بلا و آزمائش ، ستمگر کے لئے ادب ، سزا اور تنبیبہ ہے جبکہ مؤمنین اور پیغمبروں کے لئے آزمائش ، درجات اور مرتبے میں بلندی کے لئے ہے ۔
سختیاں اور گرفتاریاں ، ترقی وکمال کا پیش خیمہ ہیں ۔ قرآن کریم سورۂ بلد کی آیت چار میں ارشاد فرمارہا ہے ہم نے انسان کو سختی اور مشقت ميں رہنے والا بنایا ہے ۔ اس بناء پر انسان کو چاہئے کہ مشقتوں اور مصائب کو برداشت کرے اور سختیوں کے مقابلے میں استقامت کرے تاکہ کمال تک رسائی حاصل کرسکے ۔ حضرت امام صادق (ع) فرماتے ہیں مخلوقات کے درمیان سب سے شدید بلاؤں ميں پہلے انبیاء علیھم السلام اور پھر ان کے اوصیاء اور اس کے بعد انبیاء و اوصیاء جیسے کمالات کے حامل انسان گرفتار ہوتے ہيں ۔ مومن کو اس کی نیکیوں کی مقدار کےبرابر آزمائش ميں ڈالا جاتا ہے جو کوئی اپنے دین و ایمان ميں پختہ اور نیک عمل ہوگا اس کی بلائیں بھی شدید ہیں کیوں کہ خداوند عالم نے دنیا کو، مومن کے لئے جزا ، اور کافر کے لئے سزا اور عذاب کا وسیلہ قرار نہیں دیا ہے ۔ اسی بناء پر جنہیں معرفت الہی کے مراتب حاصل ہیں ان کے لئے وہ چیز جو عام انسانون کے نقطۂ نگاہ سے سخت اور ناقابل تحمل ہے ، ان کے لئے شیریں اور پسندیدہ ہے ۔ کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ یہ سختیاں اسے خدا سے نزدیک کردیں گی ۔ دنیا کی مصیبتیں نہ صرف ان کو خدا سے دور نہیں کرتیں بلکہ وہ ان مصیبتوں کو برداشت کرکے دنیا ميں بھی معنوی لذتیں حاصل کرتے ہیں اور آخرت ميں بھی معنوی اجر وپاداش کے مستحق قرار پاتے ہیں ۔
بعض مومنین کی آزمائش اور ابتلاء اس بناء پر ہے تاکہ ان کے دلوں سے زنگ دور ہوجائے اور وہ بہشت کے اعلی مقام کے مستحق اور لائق قرار پاسکیں ۔ حضرت امام محمد باقر (ع) فرماتے ہيں خداوند عالم کیوں کہ اپنے بندوں کو چاہتا اور ان سے محبت کرتا ہے اس لئے ان پر مصیبتیں اور بلائیں نازل کرتا ہے اور جب یہ بندہ خدا کو اس عالم ميں پکارتا ہے تو خدا فرماتا ہے لبیک اے میرے بندے بیشک اگر میں چاہوں تو تیری دعا جلدی بھی قبول کرلوں لیکن ميں چاہتا ہوں کہ اسے آخرت کے لئے ذخیرہ کردوں کہ جو تیرے لئے بہتر ہے ۔ امام محمد باقر(ع) اس دنیا میں مومنین کی گرفتاریوں کے بارے ميں فرماتے ہیں :خداوندعالم اپنے مومن بندے کی ، رنج وبلا کے ذریعے دلجوئی کرتا ہے ۔جس طرح سے کہ ایک انسان کسی سفر سے ہدیہ لیکر آتا ہے تو اس کے ذریعے سے اپنے گھر والوں کی دلجوئی کرتا ہے اور خدا مومن کو دنیا سے دور رکھتا ہے جس طرح سے کہ طبیب بیمار کو بعض کھانے اور پینے والی چیزوں سے پرہیز کرنے اور دوری اختیار کرنےکو کہتا ہے ۔




















![جناب خدیجہ کبری[س] کی سیرت](/ur/media/k2/items/cache/ef2cbc28bb74bd18fb9aaefb55569150_XS.jpg)
