Super User

Super User

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا اللَّـهَ ذِكْرًا كَثِيرًا

اے ایمان والو! تم اللہ کا کثرت سے ذکر کیا کرو،[33:41]

آیت اللہ باقر الصدر کا یوم شھادت

آیت اللہ باقر الصدر کا یوم شھادتآیت اللہ العظمیٰ سید باقرالصدر کا شمار گذشتہ صدی کے عظیم فلسفیوں ،مذہبی اسکالرز،اور مفکرین میں ہوتا ہے۔ آپ کی تحریروں اور قیادت نے عراقی عوام سمیت دنیا بھر کے دبے ہوئے محروم طبقوں کو متاثر کیا اور حرارت دی،آپ نے نہ صرف مذہبی عناصر کو چیلنج کیا بلکہ ان نام نہاد مذہبی عناصر کو بھی چیلنج کیا جو انقلابی اسلامی فکر کی راہ میں رکاوٹ تھے۔یہ شہید باقر الصدر ہی تھے جنہوں نے عراق میں اسلامی دعوۃ پارٹی کی بنیاد رکھی جس نے صدام کے دور میں مظلوم شیعوں کے حقوق کے لئے جدوجہد کی،بلکہ آج بھی اسی تنظیم کے افراد عراق بھر میں شیعیان عراق اور مظلوم عراقی مسلمانوں کے لئے جد وجہد کر رہے ہیں،موجودہ عراقی وزیر اعظم نوری المالکی کا تعلق بھی اسی جماعت سے ہے۔

شہید باقر الصدر بغداد کے علاقے قدیمیہ میں 1مارچ 1935ء کو پیدا ہوئے ان کی عمر جب دو سال تھی تو آپ کے والد معروف مذہبی اسکالر سید حیدر الصدر انتقال کر گئے،آپ نے پرائمری کی تعلیم قدیمیہ کے اسکول سے ہی حاصل کی اور پھر مرجع تقلید شہید باقر الصدر اور ان کے اہل خانہ نے 1945ء میں نجف اشرف کا رخ کیا جہاں انھوںنے اپنی باقی ماندہ زندگی گزار دی،انھوں نے نجف اشرف میں حوذہ علمیہ میں داخلہ لیا اور انتہائی تیزی کے ساتھ حصول علم کی منازل طے کرت چلے گئے۔آپ حیرت انگیز طور پر صرف 20سال کی عمر میں درجہ اجتہاد پر فائز ہو چکے تھے،انہی سالوں کے دوران شہید باقر الصدر کے افکارات پر مشتمل معروف کتابیں ہمارا فلسفہ ،اسلامی اقتصادیات المعروف اقتصادنا،شائع ہوئیں جو آج بھی اسلامی اور خارجی حلقوں میں ایک سند کی حامل ہیں۔شہید باقر الصدر کی کتاب اقتصادنا اسلامی اقتصادیات کے موضوع پراب تک لکھی جانے والی سب سے مفصل کتاب ہے۔

1957ء میں شہید باقر الصدر نے اسلامی دعوہ پارٹی یعنی حزب الدعوۃ کی بنیاد رکھی تاکہ بعث پارٹی کی جانب سے عراق میں لادینیت کے فروغ کو روکا جا سکے اور اسلامی افکارات کا احیاء کیا جا سکے،70ء کی دہائی کے آغاز میں ہی شہید باقر الصدر اس بات کو جان چکے تھے کہ بعثی دہشت گرد عراق کے اسلامی تشخص کے لئے خطرہ ہیں اور خطرے کے باوجود آپ نے اپنی دینی اور تعلیمی سر گرمیوں کا سلسلہ جاری رکھا ،دوسری جانب صدام کے بعثی دہشت گرد بھی شہید باقر الصدر کی اہمیت کو سمجھ چکے تھے اور وہ یہ جان چکے تھے کہ آپ کی شخصیت عراقی عوام کے لئے محبوب ترین ہے۔لہذٰا انہوں نے شہید باقر الصدر کی سرگرمیوں کو روکنے کے لئے ہر طرح کے امکانات بروئے کار لانا شروع کر دئیے۔حتیٰ کے آپ کو گرفتار کر لیا گیا۔

راہ سید الشہدا امام حسین علیہ السلام کے پیرو شہید باقر الصدر کو1971,1974.1977.اور آخری مرتبہ1979میں گرفتار کیا گیا اور شہید باقر الصدر کے کئی ساتھیوں اور رفقائے کار سمیت دعوہ پارٹی کے اہم اراکین کو ظالم صدام ملعون کے حکم پر گرفتار کر کے ان کو پھانسی دی گئی ۔

شہیدہ سیدہ آمنہ بنت الہدیٰ:

یہ 1979ء کی بات ہے جب بعثی دہشت گردوں نے شہید باقر الصدر کو نجف اشرف سے گرفتار کر لیا ،اسی وقت ایک باحجاب خاتون حرم امام علی علیہ السلام میں بھاگتے ہوئے داخل ہوئی اور لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا،اے لوگو!”کیوں تم خاموش ہو؟جب کہ تمھارے رہنما کو گرفتار کیا جا چکا ہے،کیوں تم خاموش ہو؟جب کہ تمھارے مرجع تقلید پر بیہمانہ تشدد کیا جا رہاہے،باہر نکلو اور احتجاج کرو”۔شہیدہ آمنہ بنت الہدیٰ کے ان ملکوتی اور الہیٰ الفاظ کا اثر تھا کہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ گھروں سے نکل آئے اور شہید باقر الصدر کی گرفتاری کے خلاف احتجاج شروع کر دیا،جس کے سبب صدامیوں نے انھیں اسی دن مجبوراً رہا کر دیا۔اس احتجاج نے صدامی دہشت گردوں کو ایک واضح پیغام دیا کہ لوگ صدام ملعون کی شیطانی حکومت کے خلاف قیام کے لئے تیار ہیں۔

اپنی اس مختصر زندگی میں عظیم خاتون شہیدہ آمنہ بنت الہدیٰ نے صدامی دہشت گردوں کے خلاف بلا خوف و خطر عراقی غریب عوام کے بہبود اور تعلیم کی پسماندگی کی دوری اور شعور اسلامی کی بیداری کے لئے فعال ترین کردار ادا کیا ،اپنی زندگی اور فعالیت سے تمام شعبہ ہائے زندگی کو متاثر کیا۔

شہیدہ آمنہ بنت الہدیٰ جو 1937ء میں قدیمیہ بغداد میں پیدا ہوئیں اپنے گھر کی واحد خاتون تھیں،شہیدہ آمنہ بنت الہدیٰ نے ابتدائی تعلیم اپنی والدہ سے حاصل کی اور بعد میں باقی تعلیم اپنے عظیم بھائی شہید باقر الصدر سے حاصل کی تھی،آپ اسلامی دعوہ پارٹی کی خواتین ونگ کی سربراہ تھیں،1966ء میں آپ نے الدعوۃ میگزین کا آغاز کیا تا کہ معاشرے میں شعور کی بیداری کے لئے کام کیا جا سکے ،آپ کی تحریروں نے جو خواتین میں انتہائی مقبول و معروف ہیں معاشرے کی بیداری میں اہم کردار ادا کیا۔1967ء میں آپ نے نجف اشرف ،بغداد اور دیگر مستضعف شیعہ علاقوں میں بچیوں کی تعلیم کے لئے اسکولوں کا جال بچھا دیا تھا تا کہ شیعہ بچیوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا جا سکے۔آپ نے سینکڑوں کتابیں تحریر کیں جن میں اکثر فکشنل کہانیاں ہیں جو معاشرے کے مسائل اور ان کے حل پر مشتمل ہیں۔

شہید باقر الصدر کی گرفتاری اور شہادت:

شہید باقر الصدر کو 1979ء میں گرفتار کر لیا گیا عراق میں بے پناہ مظاہرے ہوئے ،مظاہروں میں عراقی عوام کا صدام ملعون کے خلاف شدید غم وغصہ سامنے آیا جس کے سبب یذید صفت صدام نے دس ماہ سے جاری شہید باقر الصدر اور شہیدہ آمنہ بنت الہدیٰ کی نظر بندی کو ختم کر دیا اور انھیں 5اپریل 1980ء کو رہا کر دیا گیا،لیکن چند دنوں بعد ہی 9اپریل 1980ء کو سفاک صدامیوں نے نجف اشرف شہر کی بجلی منقطع کر دی اور شہید باقر الصدر کے عزیز سید محمد الصدر کے گھر سیکیوریٹی حکام کو بھیج کر ان کے اپنے ہمراہ بعثی یذیدیوں کے ہیڈ کوارٹر بلوا لیا گیا،جہاں یذیدی صفت صدامیوں نے سید محمد الصدر کو شہید باقر الصدر اور شہیدہ آمنہ بنت الہدیٰ کی لاشیں دکھائیں،جو خون میں نہائے ہوئے تھے،اور جسم پر بیہمانہ تشدد کے نشانات تھے،شہید باقر الصدر اور ان کی بہن کو نجف اشرف میں واقعہ قبرستان دارالسلام میں اسی رات دفن کر دیا گیا۔

شہید باقر الصدر اور ان کی بہن شہیدہ آمنہ بنت الہدیٰ نے راہ سید الشہداء امام حسین علیہ السلام پر چلتے ہوئے جب دیکھا کہ وقت کا یزید لعین صدام لعین اسلام حقیقی کو مٹانے کی سازشوں میں مصروف ہے اور ظلمت بڑھتی جا رہی ہے تو آپ نے اپنے جد امجد ابا عبد اللہ الحسین علیہ السلام کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے صدام لعین کے خلاف قیام کر دیا اور اپنی جانوں کی پرواہ نہیں کی۔

تاریخ میں یہ جملہ بھی ملتا ہے کہ جب صدام لعین شہید باقر الصدر کو پھانسی لگانے کے بعد کہا کہ میں یذید کی طرح غلطی نہیں کروں گا اور پھرا س نے سیدہ آمنہ بنت الہدیٰ کو بھی پھانسی دے دی۔لیکن یذید لعین کی طرح صدام لعین بھی یہ بات بھول چکا تھا کہ ابا عبد اللہ الحسین علیہ السلام کے خون مقدس کی طرح شہید باقر الصدر اور شہیدہ آمنہ کا خون بھی اسلام کی نشو نما اور زندگی کا باعث بنے گا۔خواہ ایران میں آنے والا اسلامی انقلاب ہو یا لبنان میں ہونے والی حزب اللہ کی مقاومت ہو،یا ارض فلسطین میں چلنے والی تحریک اسلامی حماس کی جد وجہد ہو اور یا پھر عراق میں اسلامی نشاۃ ثانیہ ،یہ سب شہیدوں کے خون کی برکت ہے۔

یورپی پارلیمنٹ کی حالیہ قرارداد، مغرب کی دشمنانہ پالیسیوں کا تسلسلتہران کی مرکزی نماز جمعہ آج آیت اللہ امامی کاشانی کی امامت میں منعقد ہوئي۔ خطیب جمعہ تہران نے لاکھوں نمازیوں سے خطاب میں کہا کہ ایٹمی ٹکنالوجی میں ملت ایران کی کامیابیوں سے علاقائي اور عالمی سطح پر اس کے اعتبار میں اضافہ ہوا ہے۔

خطیب جمعہ تہران آیت اللہ امامی کاشانی نے نو اپریل کو ایٹمی ٹکنالوجی کے قومی دن قراردئیے جانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دشمنوں کی سازشوں اور رکاوٹوں کے باوجود ایرانی ماہرین اور سائنسدانوں نے انتھک کوششیں کرکے ایٹمی شعبے میں ترقی کی۔ انہوں نے کہا کہ ایٹمی شعبے میں ایران کی ترقی دشمن کے لئے ناقابل یقین تھی اور وہ ایٹمی شعبے میں اتنی تیز ترقی کو برداشت نہیں کر پارہا تھا، اسی وجہ سے اس نے ایران کے ایٹمی پروگرام کے پرامن نہ ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف طرح کے الزامات لگانا شروع کردیے۔ آیت اللہ امامی کاشانی نے کہا کہ پرامن ایٹمی ٹکنالوجی سے استفادہ کرنا ملت ایران کا حق ہے اور ملت ایران کو اس کے اس حق سے محروم کرنے کی دشمنوں کی سازشیں ناکام ہوکر رہیں گي۔ خطیب جمعہ تہران نے ایران کے خلاف یورپی پارلیمنٹ کی حالیہ قرارداد کو بے وقعت اقدام سے تعبیر کیا اور کہا کہ یہ قرارداد ایرانی اور اسلامی ثقافت کے خلاف مغرب کی دشمنانہ پالیسیوں کا تسلسل ہے۔

رہبر معظم سے جوہری ادارے کے سربراہ اور اہلکاروں کی قومی جوہری دن کی مناسبت سے ملاقات

۲۰۱۴/۰۴/۰۹- رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے قومی جوہری دن کی مناسبت سے ایران کے جوہری ادارے کے سربراہ، مدیروں،دانشوروں ،سائنسدانوں اور ماہرین کے ساتھ ملاقات میں ملک کےجوہری شعبہ میں ترقیات اور نتائج کو ملک میں قومی خود اعتمادی کی تقویت اور دیگر علمی و سائنسی ترقیات کا مظہر قراردیا اور اسلامی جمہوریہ ایران و گروپ1+5 کے درمیان مذاکرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ایران کے بارے سامراجی اور دشمن محاذ کی طرف سے معاندانہ رفتار ختم کرنے کے پیش نظر مذاکرات کرنےکے سلسلے میں موافقت کی گئی تھی اور ان مذاکرات کو جاری و ساری رہنا چاہیے اور یہ بات بھی سبھی کو جان لینی چاہیے کہ جوہری تحقیق اور فروغ کے سلسلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی سرگرمیاں کسی صورت میں متوقف نہیں ہوں گي اور نہ ہی ایران کے جوہری تحقیقاتی پروگرام میں سے کسی کو بندکیا جائےگا اور اس کے ساتھ ہی ایران اور بین الاقوامی جوہری ادارے کے روابط بھی متعارف اور معمول کے مطابق ہونےچاہییں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملاقات کے آغاز میں بیس فروردین ماہ مطابق 9 اپریل قومی جوہری دن کی مناسبت سے مبارکباد پیش کی اور ملک کے سرکاری کلینڈر میں اس دن کے ثبت کو ملک کے جوہری شعبہ میں سرگرم ماہرین اور سائنسدانوں کی کاوشوں اور کوششوں کا نتیجہ قراردیا اور جوہرے ادارے کے فداکار اور مجاہد شہداء کی تجلیل کرتے ہوئے فرمایا: اگر چہ جوہری علم و دانش سے صنعت، تجارت، صحت، زراعت اور خوراک کی سکیورٹی کے سلسلے میں استفادہ کیا جاتا ہے لیکن ہمارے ملک میں جوہری علم و دانش کا سب بڑا فائدہ قومی خود اعتمادی کی تقویت پر مبنی تھا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے قوموں پر تسلط پیدا کرنے اور ان کے حقوق پامال کرنے کے سلسلے میں قدیم اور جدید استعمار کے اہم طریقوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: دشمن کے اس مکر و فریب کو جو عامل باطل کرے وہ عامل ایک قوم کی ترقی اور عظيم حرکت کا اصلی عامل ہوگا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انقلاب اسلامی کے ابتدائی دور میں ہی ایران کو پسماندہ اور کمزور ملک قرار دینے کے سلسلے میں دشمن کی کوششوں اور سازشوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: انقلاب اسلامی کے مد مقابل ، نیز ملک کی سیاسی مدیریت کو مقہور بنانے اور بلند مدت پالیسیوں پر اثر انداز ہونے کے سلسلے میں دشمن نے بہت زيادہ تلاش و کوشش کی اور یہ تلاش و کوشش دشمن کے بہت سے منصوبوں کا حصہ ہے لیکن سامراجی محاذ کو اس سلسلے میں آج تک کوئي کامیابی نصیب نہیں ہوئی اور آئندہ بھی اسے کوئي کامیابی نصیب نہیں ہوگي۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عالمی سطح پر ایران کے خلاف ماحول کو سازگار بنانے اور رائے عامہ ہموار کرنےکے لئے عام بہانہ تلاش کرنے کو انقلاب اسلامی کے مقابلے میں دشمن کا ایک اور مکر و فریب قراردیتے ہوئے فرمایا: ایران کا ایٹمی معاملہ اس کا ایک واضح نمونہ ہےجس کے بارے میں دشمن نے پروپیگنڈہ کرنے کی بہت تلاش و کوشش کی اور ایرانی نظام کے خلاف دل کھول کر جھوٹا پروپیگنڈہ کیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: حتی اب جبکہ شرعی، عقلی اور سیاسی حکم کے پیش نظر واضح ہوگیا ہے کہ ایران ایٹمی ہتھیاربنانے کی تلاش و کوشش میں نہیں ہے، پھر بھی امریکی حکام جب بھی ایران کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں تو وہ صراحت کے ساتھ ایٹمی ہتھیاروں کو بیان کرتے ہیں جبکہ انھیں خود اچھی طرح یقین ہے کہ ایران ایٹمی ہتھیاروں کی تلاش میں نہیں ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اس جھوٹے اور غلط پروپیگنڈہ سے ان کا مقصد ایران کی خلاف عالمی رائے عامہ کو باقی رکھنا ہے اور اسی بنیاد پر نئی حکومت کے پروگرام کے مطابق ایٹمی معاملے پر مذاکرات کے سلسلے میں موافقت کی گئي تاکہ عالمی سطح پر پیدا کی گئي غلط فہمی اور جھوٹے پروپیگنڈے کا مقابلہ کیا جاسکے اور فریق مقابل سے اس بہانہ کو سلب کیا جاسکےاور عالمی رائے عامہ کے لئے حقیقت بھی روشن اور مشخص ہوجائے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: البتہ مذاکرات کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایران اپنی جوہری تحقیقات سے پیچھے ہٹ جائے گا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا: اب تک جو جوہری ترقیات اور نتائج حاصل ہوئے ہیں وہ درحقیقت ایرانی قوم کے لئے بشارت اور خوشخبری ہیں کہ ایرانی قوم علم و ٹیکنالوجی کی بلند ترین چوٹیوں کو فتح کرسکتی ہے۔لہذا ملک میں جوہری حرکت کسی بھی صورت میں نہ متوقف ہوگی اور نہ ہی سست ہوگی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایرانی مذاکراتکاروں کو سفارش کرتے ہوئے فرمایا: جوہری فروغ و تحقیق کے اپنے اصولی مؤقف پر قائم رہیں اور ملک کے کسی بھی جوہری تحقیقیپروگرام کو بند یا ختم نہیں کیا جائےگا اور کسی کو اس کے بارے میں معاملہ کرنے کا بھی کوئي حق نہیں ہے اور نہ ہی کوئي ایسا کام کرےگا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے جوہری سائنسدانوں اور ماہرین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: جس راستے کو آپ نے شروع کیا ہے اس پر قدرت ، طاقت اور سنجیدگی کے ساتھ گامزن رہیں کیونکہ ملک کو اس وقت سائنس و ٹیکنالوجی اور جوہری شعبہ میں پیشرفت اور ترقی کی ضرورت ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: اگر جوہری شعبہ میں علمی حرکت اسی قدرت اور طاقت کے ساتھ جاری رہے تو سرعت کے ساتھ مختلف قسم کی ٹیکنالوجیاں حاصل ہوں گی، لہذا جوہری شعبہ میں علمی حرکت نہ متوقف ہوسکتی ہے اور نہ ہی سست ہوسکتی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملک کے جوانوں کی صلاحیتوں کے پیش نظر مختلف ٹیکنالوجیوں کے حصول کو ممکن قراردیتے ہوئے فرمایا: جس میدان میں بھی بنیادی تعمیری وسائل موجود ہوں اس میدان میں ہمارے سائنسداں اور ماہرین حیرت انگیز کارنامے انجام دینے کے لئے تیار ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسی سلسلے میں چند سال قبل تہران کے تحقیقاتی ری ایکٹر کے ایندھن کے لئےدو ممالک کے ساتھ مذاکرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اس دور میں ایندھن کی تیاری کے لئے ایک فارمولہ تیار کیا گیا لیکن امریکیوں نے اپنے دوست ممالک اور اسی طرح جنوبی امریکہ کے ایک ملک سے جو کچھ کہہ رکھا تھا اور بعض ہمارے حکام کو بھی یقین دلادیا تھا اس کے برخلاف انھوں نے اس کام میں خلل ایجاد کیا اور یہ تصور کرلیا کہ انھوں نے ایران کو مکمل طور پر مشکل میں ڈالدیا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: میں نے اس دور میں بھی پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ امریکہ اس معاملے کو حل نہیں کرنا چاہتا اور بعد میں سب نے دیکھ لیا کہ جب معاہدہ عمل کے مرحلے میں پہنچ گیا تو اس وقت امریکہ نے اسے عملی جامہ پہنانے سے روک دیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایران کے جوہری سائنسدانوں کے عزم و ولولہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اسی دور میں ہمارے سائنسدانوں اور ماہرین نے اعلان کیا کہ وہ تہران ری ایکٹر کے لئے ایٹمی ایندھن تیار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، مغربی ممالک نے مذاق اڑایا، لیکن ہمارے جوانوں نے اس کام کو طے شدہ مدت سے بھی کم عرصہ میں پایہ تکمیل تک پہنچا کر دشمنوں کو مبہوت کردیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملک کی دفاعی اور بایو ٹیکنالوجی کو ملک کے جوانوں کی صلاحیتوں اور توانائيوں کےدیگر نمونے قراردیتے ہوئے فرمایا: ایران کے جوہری ادارے کے تمام شعبوں میں اس جذبہ اور ولولہ کی حفاظت بہت ضروری ہے اور ایران کے جوہری ادارے کو اپنی تحقیقات اور علمی نتائج کے بارے میں بھی ہوشیار رہنا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایرانی حکام کو بھی سفارش کرتے ہوئے فرمایا: ایرانی حکام کو بھی ایرانی سائنسدانوں کی علمی کاوشوں اور علمی نتائج کے بارے میں دقت سے کام لینا چاہیے ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایٹمی معاملے کے فائدہ اور اخراجات کے سلسلے میں ملک کے اندر موجود بعض نظریات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ایٹمی معاملے کے بارے میں ایسے نظریات سادہ اندیشی پر مبنی اور غیر شعوری ہیں کیونکہ اگر بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ پابندیاں جوہری پروگرام اور ایٹمی تحقیقات کی وجہ سے ہیں تو انھیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ایران کے خلاف اقتصادی پابندیاں ایٹمی معاملے کے ظہور سے پہلے بھی موجود تھیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اس دور میں جب ایٹمی بہانہ نہیں تھا ایک مغربی عدالت نے ایران کے صدر کے خلاف غائبانہ مقدمہ درج کیا لیکن اب ملکی اقتدار کے باوجود وہ ایسا کرنے کی ہمت نہیں کرسکتے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: مغربی ممالک کی طرف سے پابندیاں اور دباؤ ایٹمی معاملے کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ وہ ایرانی قوم کے استقلال، اسلامی تشخص، ایمان اور اسی طرح ایرانی قوم کے درخشاں اور تابناک مستقبل کے خلاف ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: لہذا یہ جو کہا جاتا ہے کہ ایران کو ایٹمی معاملے کی وجہ سے پابندیوں اور دباؤ کا سامنا ہے صحیح بات نہیں ہےکیونکہ اگر ایٹمی معاملہ بھی نہ ہوتا تب بھی وہ کوئی دوسرا بہانہ تلاش کرلیتے۔، جیسا کہ اب بھی امریکیوں نے مذاکرات کے دوران ہی انسانی حقوق کو بہانہ بنالیا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اگر انسانی حقوق کا مسئلہ بھی حل ہوجائے تو وہ کوئی اور مسئلہ اور بہانہ تلاش کرلیں گے لہذا واحد راستہ یہی ہے کہ ہم دوسروں کے دباؤ میں نہ آئیں اور اپنی علمی و سائنسی پیشرفت و ترقی کو قدرت اور طاقت کے ساتھ جاری رکھیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مذاکرات کو جوہری دائرے کے اندر جاری رکھنے پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: ہمارے ملک کے مذاکراتکاروں کو فریق مقابل کےکسی بھی دباؤ کو قبول نہیں کرنا چاہیے اور بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی کے ساتھ روابط اور تعلقات کو بھی متعارف اور معمول کے مطابق ہونا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے جوہری ماہرین اور دانشوروں کی علمی و سائنسی کاوشوں اور نتائج کو ان کے اللہ تعالی پر ایمان و توکل اور ذمہ داری کے احساس کا مظہر قراردیتے ہوئے فرمایا: ہم اس ایمان کے نتیجے میں الہی ہدایت اور قابل توجہ پیشرفت کا مشاہدہ کررہے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے روزافزوں ترقیات و پیشرفت کو جاری رکھنے کی توقع اور امید کا اظہار کیا اور جوہری ادارہ کے موجودہ اہلکاروں منجملہ جوہری ادارے کے سربراہ ڈاکٹر صالحی اور اسی طرح گذشتہ اہلکاروں کی کوششوں اور زحمتوں کا شکریہ ادا کیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل ایران کے جوہری ادارے کے سربراہ جناب ڈاکٹر صالحی نے جوہری ادارے میں انجام پانے والے اقدامات اور جوہری پیشرفت کے بارے میں رپورٹ پیش کی۔

ڈاکٹر صالحی نے ملک میں بجلی کی پیداوار اور انرجی کی ضروریات اور اس کے ساتھ صنعت ، زراعت ، صحت اور دیگر مختلف شعبوں کی ضروریات کو پورا کرنے کو جوہری ادارے کی اصلی اور اسٹراٹیجک ذمہ داری قراردیتے ہوئے کہا: حالیہ برسوں میں ایٹمی ایندھن کی تیاری ایران کے جوہری ادارے کے درخشاں کارناموں میں شامل ہے۔

ڈاکٹر صالحی نےملک کی جوہری ترقیات اور مختلف شعبوں میں تحقیق اور توسعہ اور جدید ایٹمی بجلی گھروں کی تعمیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : یورینیم کے جدید وسائل کی شناخت اور ہوائی و زمینی اکتشافات جوہری ادارے کے دیگر اقدامات میں شامل ہیں۔

بوشہر سائٹ میں بجلی کےجدید یونٹوں کی تعمیر اور دارخوین کے بجلی پلانٹس کی پیشرفت دیگر موارد تھے جن کی طرف ڈاکٹر صالحی نے اشارہ کرتے ہوئے کہا: آج جوہری ٹیکنالوجی کے دن کی مناسبت سے اراک کے تحقیقاتی ری ایکٹر میں آسوٹوپ آکسیجن18 کے تعمیری یونٹ کا آغاز ہوگيا ہے۔

رہبر معظم سے آذربائیجان کے صدر الہام علی اوف کی ملاقات

۲۰۱۴/۰۴/۰۹ - رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آذربائیجان کے صدر الہام علی اوف کے ساتھ ملاقات میں دونوں ممالک کے درمیان تاریخی ، مذہبی ،ثقافتی تعلقات اور ہمسائیگي کو دونوں قوموں کے درمیان تعلقات کو فروغ دینے کے سلسلے میں مؤثر اور اہم عامل قراردیتے ہوئے فرمایا: دونوں ممالک کے درمیان ہونے والے معاہدوں کو سیاسی عزم اور سنجیدگی کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہیے اور دونوں ممالک کے مشترکہ مفادات کے مخالفین کی سازشوں کو سیاسی عزم کے ساتھ ناکام بنانے کی کوشش کرنی چاہیے اور دونوں قوموں اور دونوں حکومتوں کے باہمی روابط کو روز بروز مضبوط اور مستحکم کرنے کی تلاش و کوشش کرنی چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عوام اور ان کے عقائد کے ساتھ گہرے استحکام کو حکومتوں کی کامیابی کا ضامن قراردیتے ہوئے فرمایا: بعض مذہبی انتہا پسند گروہوں کو اسلامبی مذاہب کے درمیان اختلاف ڈالنے اور قومی اتحاد کو ختم کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایران اور آذربائیجان کے صدور کے درمیان انجام پانے والے مذاکرات اور دونوں ممالک کے مشترکہ اقتصادی کمیشن کی تشکیل کو مطلوب اور پسندیدہ اقدام قراردیتے ہوئے فرمایا: دونوں ممالک کے درمیان موجودہ تجارتی تبادلہ فریقین کے وسیع وسائل اور ظرفیتوں کے پیش نظر بہت کم ہے اس سفر کےاقتصادی اور علاقائی تعاون میں سنگ میل ثابت ہونے کی توقع کی جاتی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے طرفین کے سیاسی عزم و ارادہ اور سنجیدگی کو باہمی روابط کے فروغ کے لئے بہت ضروری قراردیتے ہوئے فرمایا: بعض ممالک منجملہ غاصب صہیونی حکومت ، ایران اور آذربائیجان کے باہمی مضبوط روابط کے فروغ سے خوشحال نہیں ہیں اور وہ اس سلسلے میں مسلسل و پیہم خلل ایجاد کررہے ہیں لیکن سیاسی عزم و پختہ ارادے کے ساتھ ان کے تخریبی اقدامات کو ناکام بنایا جاسکتا ہے۔

اس ملاقات میں صدر حسن روحانی بھی موجود تھے، جمہوریہ آذربائیجان کے صدر جناب الہام علی اوف نے بھی ایران کے سفر پر خوشی و مسرت کا اظہار کیا اور دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کو بہت ہی مفید اور تعمیری قراردیتے ہوئے کہا: ایران اور آذربائیجان کے مشترکہ اقتصادی کمیشن کا کام آج ہی سے آغاز ہوگیا ہے اور یہ سفر صنعت، تجارت، روڈ و ٹرانسپورٹ ،سیاحت اور دیگر مختلف شعبوں میں باہمی روابط کے فروغ میں اہم ثابت ہوگا۔

آذربائیجان کے صدر نے مذہبی انتہا پسندی کو دونوں ممالک کے لئے مشترکہ خطرہ قراردیا اور ایران و آذربائیجان کے تاریخی، مذہبی اور ثقافتی روابط کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: آذربائیجان ایران کے ساتھ تمام شعبوں میں روابط کو فروغ دینے کا خواہاں ہے۔

آذربائیجان کے صدر نے رہبر معظم انقلاب اسلامی کی سرپرستی میں علاقہ اور عالمی سطح پر ایران کی مستقل پالیسیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ہم ایران کے اقتدار کو اپنا اقتدار سمجھتے ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان گہرے اور مضبوط روابط ،دوسروں کو منفی اثرات قائم کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

اہلسنت کی جانب سے حکومت کےمنصوبوں کی حمایتایران کے اہلسنت، حکومت کے منصوبوں کی بھرپورحمایت کرتے ہيں

جنوب مشرقی ایران میں واقع شہرزاہدان کے اہلسنت امام جمعہ نے اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت کے منصوبوں کی حمایت پرتاکید کی ہے۔

ارنا کی رپورٹ کےمطابق زاہدان کے اہلسنت امام جمعہ اور مدرسہ دارالعلوم کے سربراہ مولوی عبدالحمید اسماعیل زھی نے نماز جمعہ کے خطبے میں کہا کہ صوبہ سیستان وبلوچستان کے ہرطبقے کے عوام بالخصوص اہلسنت، حکومت کےمنصوبوں کی بھرپور حمایت کرتے ہیں اور اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت کومستحکم کرنے کےلئے اس کے منصوبوں کی ہمہ گیرحمایت کرتے ہیں۔

مولوی عبدالحمید اسماعیل زہی نے صدرمملکت ڈاکٹر حسن روحانی کے آئندہ دورہ سیستان وبلوچستان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹرحسن روحانی کا دورہ نہایت اہم ہوگا اور یقینا مختلف پہلوؤں سے نتیجہ خیزثابت ہوگا۔

آیت اللہ حکیم: پاکستان کے عوام اسلام پسند، آزادی پسند اور دین دوست ہیں

رپورٹ کے مطابق بزرگ مرجع تقلید آیت اللہ العظمٰی سید سعید الحکیم نے پاکستانی وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں پاکستان کے پیروان ولایت سے واقف ہوں، پاکستان کے عوام اسلام پسند، آزادی پسند اور دین دوست ہیں، اگرچہ شیعیان علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے خلاف تکفیری فرقہ برسرپیکار ہے لیکن پاکستان کے غیور شیعہ اور سنی مسلمان ہمیشہ ان کے عزائم کے مقابلے میں کھڑے رہے اور استقامت دکھاتے رہے۔

آیت اللہ العظمٰی سید سعیدالحکیم نے کہا کہ تاریخی طور پر سلفی تکفیری ہمیشہ اسلامی مقدسات کے خلاف متحرک رہے اور شروع سے ہی رسول پاک (ص) اور اُن کی آل پاک (ع) کے آثار کو مٹانے کے درپے رہے، لیکن مسلمانوں نے اپنے اتحاد سے اُنہیں ہمیشہ ناکام بنایا۔ اُنہوں نے کہا کہ ہمیں ان کے مقابلے کے لیے شیعہ سنی اتحاد اور بھائی چارے کو آگے بڑھانے کی ہمیشہ ضرورت رہی اور آج یہ ضرورت دوچند ہوگئی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ پاکستانی قوم کو میری طرف سے سلام کہہ دیجئے گا۔

Wednesday, 09 April 2014 06:26

قرآنی تفاسیر سے آشنائی

قرآنی تفاسیر سے آشنائی" عبداللہ بن عمر بیضاوی " ساتویں صدی ہجری کے شافعی فرقے کے فقیہ ، مفسر اور متکلم گذرے ہیں ۔ بیضاوی جنوبی ایران کے صوبے فارس کے شہر بیضا میں ایک علم پرور خاندان میں پیدا ہوئے ۔ بیضاوی کی معروف تفسیر "انوارالتنزیل و اسرارالتاویل " ہے ۔ بیضاوی کی یہ تفسیر ، تفسیر بیضاوی کےنام سے بھی مشہور ہے البتہ تفسیر بیضاوی کو "مختصر کشاف " کا بھی نام دیا گيا ہے کیوں کہ یہ تفسیر زمخشری کی تفسیر کشاف سے بہت زیادہ متاثر ہے ۔ تفسیر بیضاوی فقہی اور کلامی مسائل میں تفسیر کبیر فخر رازی سے بہت زیادہ مشابہ ہے ۔

تفسیر بیضاوی کا ماضی اور حال میں بھی قارئین نے بہت زیادہ خیر مقدم کیاہے ۔ یہ تفسیر قدیم اور جدید مفسرین کے نزدیک بھی بہت اہیمت اور خاص اثر کی حامل رہی ہے ۔ بیضاوی کی تفسیری روش نہ صرف احادیث پر مشتمل ہے اور نہ ہی صرف عقل اور تاویل سے مختص ہے بلکہ یہ سب چیزیں پوری تفسیر ميں قابل مشاہدہ ہیں ۔ انہوں نے آیات کی تفسیر میں ادبی ، تاریخی ، کلامی اور فقہی نکات کا ذکر کیا ہے ۔شیعہ علماء نے بھی تفسیر بیضاوی پر تقریبا بیس کے قریب توضیحات اور حاشیے تحریر کئے ہیں کہ جن ميں سے شیخ بہائی اور قاضی نوراللہ شوستری کے حاشیوں کی جانب اشارہ کیا جاسکتا ہے ۔

دیگر معروف مفسرین میں " جلال الدین سیوطی " صاحب تفسیر " ترجمان القرآن " ہیں۔ سیوطی اس سبب سے کہ اس کام کو بڑے حجم کا اور بار خاطر تصورکررہے تھے اس لئے یہ فیصلہ کیا کہ اس تفسیر کو جو مکمل روایات واحادیث پر مشتمل تھی خلاصہ کریں اور اس کا نام انہوں نے " الدر المنثور فی التفسیر بالماثور " رکھا ۔ سیوطی کی الدر المنثور ، صحیح بخاری ، صحیح مسلم ، سنن نسائی ، ترمذی و ابی داؤد ، مسند احمد بن حنبل ، تفاسیر طبری اور چند دیگر منابع و مآخذ کی بنیاد پر تحریر میں لائی گئی ہے ۔ سیوطی نےکہ جنہیں حدیث کی شناخت ميں بہت زیادہ تبحر حاصل تھا، اپنی کتاب میں تفسیری روایات ذکر کرنے کے بعد مذکورہ روایات کے بارے میں کوئی جائزہ اور توثیق نہيں پیش کی ہے ۔

گیارہویں صدی ہجری کے معروف مفسرین میں سے " ملا محسن فیض کاشانی " کی جانب اشارہ کیا جاسکتا ہے ۔ عارف ، حکیم ، محدث اور معروف مفسر فیض کاشانی کی پیدائش 1007 ہجری قمری ميں ہوئی ۔ فیض کاشانی اپنی عمر کے آغاز میں شہر قم میں رہائش پذیر تھے پھر انہوں نے قم سے شیراز کا سفر کیا اور علم حدیث کو سید ماجد بحرانی اور فلسفہ و عرفان کو حکیم و عارف صدرالمتالہین سے سیکھا ۔ اس عظیم شخصیت نے اپنی عمر بابرکت میں بہت زیادہ تالیفات انجام دی ہیں اور اسی سبب سے ،کثرت تالیف سے معروف ہيں ۔ تفسیر صافی ، فیض کاشانی کی تفسیر ہے ۔ یہ تفسیر روایت و احادیث اورعرفانی مسائل پر مشتمل ہے ۔ اس تفسیر کے بارہ مقدمات ہیں جو قرآنی علوم کے بارے ميں ہیں منجملہ ان ميں سے قرآن سے تمسک کی فضیلت ، اہل بیت اطہار علیھم السلام کے نزدیک قرآنی علوم ، متشابہات اور تاویل آيات کے باب میں تحقیق ، اور قرآن کی تفسیر بالرائے جیسے گرانبہا مطالب ہیں ۔ تفسیر صافی کا زیادہ تر حصہ تفسیر بیضاوی سے ماخوذ ہے ۔ البتہ فیض اپنی تفسیر ميں جدت عمل لائے ہیں جیسا کہ ہر آیت سے مربوط روایات کو اسی آيت کے ذیل میں بیان کیا ہے ۔ فیض کاشانی 1091 ميں اس دار فانی سے کوچ کرگئے ۔

لیکن عصر حاضر میں بھی بہت ایسے عظیم مفسر پیدا ہوئے ہيں کہ جن ميں سے ایک تعداد، ایرانی مفسرین کی بھی ہے ۔ قابل ذکر بات یہ ہےکہ ایرانی مسلمانوں نے قدیم زمانوں سے لے کر اب تک ، تفسیر آيات الہی کی نسبت انتہائی شوق و اخلاص اور ایمان کا مظاہرہ کیا ہے ۔ منجملہ ان ایرانی مفسرین میں سے ایک ، علامہ سید محمد حسین طباطبائی ہيں ۔ علامہ طباطبائی 1321 ہجری قمری میں پیدا ہوئے جن کا شمار عظیم مفسرین قرآن میں ہوتا ہے ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ تفسیر کی تدوین کے آغاز سے لے کر چودہویں صدی تک تفسیریں تحریر کئے جانے کی روش میں کوئی نمایاں روش یا تبدیلی کا مشاہدہ نہيں کیا گيا ۔ اگرچہ ہر تفسیر کو مختلف پہلوؤں اور زاویوں سے لکھا گیا ہے تاہم چودھویں صدی ميں تفسیر لکھنے کی روش ميں اہم تبدیلی رونما ہوئی اور اس نئی روش کے خالق علامہ طباطبائی ہیں ۔ سید محمد حسین طباطبائی کی مشہور تفسیر "المیزان" ہے ۔ علامہ اپنی تفسیر کے مقدمے ميں اس طرح سے فرماتے ہیں : میں نے اس مقصد سے کہ اہل بیت اطہار کی روش پر تفسیر لکھی ہو صرف مندرجہ ذیل مسائل کو بیان کیا ہے ۔1 ۔ وہ معارف جو خداوند عالم کے اسماء اور صفات پروردگار کے ناموں سے متعلق ہیں ۔ 2 ۔ وہ معارف جو خداوند عالم کے افعال اور اس کے ارادہ و مشیت ، ہدایت و گمراہی ، قضا و قدر ، جبر و تفویض وغیرہ سے مربوط ہيں 3 ۔ وہ معارف جو ان واسطوں کے بارے ميں ہيں جو خدا اور انسان کے درمیان قائم ہیں اور بعض مفاہیم جیسے پردہ ، لوح و قلم ، عرش ، آسمان و زمین اور ملائکہ اور شیاطین وغیرہ پر مشتمل ہيں ۔ 4 ۔ وہ معارف جو دنیا میں انسانوں سے اور اسی طرح دنیا کے بعد کے عوالم یعنی عالم برزخ اور قیامت سے متعلق ہیں ۔ 5 ۔ اور آخر کار نیک اخلاق ، بندگي کی راہ ميں اولیاء الہی کے درجات ، اسلام ، ایمان ، احسان اور اخلاص وغیرہ جیسے مسائل کو بیان کیا ہے ۔

تفسیر المیزان کا ماضی کی تفسیروں کی روش کے لحاظ سے ایک اہم امتیاز یہ ہے کہ ماضی کی تفسیروں ميں اس طرح سے معمول رہا ہے کہ ایک آيت کے بارے میں دو تین معنی بیان کئے جاتے اور مختلف امکانات کو نقل کیا جاتا رہا ہے لیکن آخر یہ واضح نہیں ہوپاتا تھا کہ مصنف نے کس معنی کو ترجیح دی ہے اور اپنے مقصود کو بیان کیا ہے ۔ لیکن المیزان نے قرآن کی قرآن سے تفسیر کی روش کے ذریعے، آيت کے چند معانی میں سے ایک معنی کو آیات کی مدد سے ترجیح دی ہے اور آیت کے مقصود کو واضح کیا ہے ۔ یہ امتیاز ، ایک مضبوط تفسیری روش کا آئینہ دار ہے ۔ کہ جس کا علامہ طباطبائی نے انتخاب کیا اور قرآنی تفسیر کو تفسیر بالرائے کی آفت سے دور رکھا ہے ۔ علامہ نے دینی اور قرآنی اصطلاحات جیسے دعا کی قبولیت ، توحید ، توبہ اور جہاد کی آیات کی مدد سے وضاحت کی ہے ۔ علامہ، قرآنی آیات کو روایات کا صحیح معیار قرار دیتے ہیں لہذا جب اہل بیت اطہار علیھم السلام سے منسوب روایات کا، آیات قرآن سے موازنہ کرتے ہیں تو جتنی بھی روایات اس سلسلے میں نقل کی گئی ہيں ان کا جائزہ لیتے ہيں اوراگر وہ آیات کے ساتھ سازگار نہ ہوں تو انہیں بیان کرنے سے گریزکرتے ہيں ۔

تفسیر المیزان ، شیعہ تفسیروں ميں ایک انتہائی اہم اور جامع تفسیر ہے جو شیعہ امامیہ کے نزدیک ، حالیہ صدی کی ایک اہم ترین تفسیر ہے ۔ یہ تفسیر علامہ طباطبائی کی بیس سالہ پیہم کوششوں کا نتیجہ ہے ۔ اس وقت تفسیر المیزان بیس جلدوں میں شائع ہوچکی ہے اور ان تمام بیس جلدوں کا، عربی زبان سے فارسی ميں ترجمہ کیا گيا ہے ۔ علامہ طباطبائی 1402 ہجری قمری میں انتقال کرگئے ۔

قرآن میں انسان کی تشبیہ حیوان سے

پروردگار متعال نے انسانوں کی خلقت کچھ اس طرح سے کی ہے کہ وہ فطرتا اور اپنے باطن میں حقیقت کی شناخت کا طالب ہے ۔ اور پیہم اپنی اس گمشدہ شے کی تلاش میں رہتا اور اس سلسلے میں مختلف سوالات اور موضوعات اس کے ذہن میں وجود میں آتے ہیں ۔ اسی بناء پر انسان نے علوم ومعارف میں اب تک نمایا ں پیشرفت کی ہے اور انسان مختلف علوم و فلسفے اور خاص علوم میں مہارت حاصل کرنے کے ساتھ ہی علم کی ایجاد کر رہا ہے ۔ اور اس طرح سے جدید انکشافات اور ایجادات انسان کی زندگي کا خاصہ بن گئے ہیں ۔ حقیقت پسندی، ایک فطری اور باطنی رجحان اور میلان ہے جو ہر انسان کے باطن میں موجود ہے جسے کبھی تجسس کی فطرت سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے ۔ اس رجحان کو ہم جو بھی نام دیں حقیقت میں انسان کے وجود کا ہی ایک حصہ ہے جو انسان کی سرشت اور اسکے وجود کی گہرائی میں موجود ہے ۔ انسانیت اور کمال انسانی کا یہ تقاضا ہے کہ حقائق کی جستجو اور ان کا ادراک کرے اور اگر اس کام ميں وہ کوتاہی کرے گا تو در حقیقت اس نے اپنی انسانیت کو نقصان پہنچایاہے اور اس طرح سے وہ حیوانیت کی حد بلکہ اس سے بھی زیادہ گرجائے گا ۔ خداوند عالم سورۂ فرقان کی آيت 44 میں اس سلسلے میں ایک مثال پیش کرتاہے اور ارشاد فرماتا ہے کیا آپ یہ گمان کرتے ہیں کہ ان کی اکثریت کچھ سنتی اور سمجھتی ہے ہرگز نہیں یہ سب جانوروں جیسے ہیں بلکہ ان سے بھی کچھ زیادہ ہی گم کردۂ راہ ہیں ۔ یہ مثال ان کفار و مشرکین کے بارے میں ہے جو پیغمبر اسلام (ص) سے دشمتی برتتے تھے اور اپنے باطل عقیدوں پر اس طرح سے اصرار کرتے اور اس پر ڈٹے رہتے ، اور اپنی خواہشات نفسانی کے تابع تھے کہ ان سے قوت ادراک سلب ہوگئی تھی ۔ اسی بناء پر خداوند عالم نے ان کی تشبیہ جانوروں بلکہ جانوروں سےبھی بدتر شی سے دی ہے ۔

اس آيت سے ما قبل کی آيات ، پیغمبر اسلام (ص ) پر کفار کے بیہودہ اور نازیبا الزامات اور تنقیدوں سے متعلق ہیں درحقیقت ان آیات میں خداوندعالم کی جانب سے انسان کو جانوروں سے تشبیہ دیئے جانے کی وجہ کو بیان کیا گیا ہے ۔ جیسا کہ گذشتہ پیغمبروں اور رسولوں کے مقابلے میں مستکبروں اور خواہشات نفسانی کے پیروکاروں کا رد عمل، ان پیغمبروں کا تمسخر اور مذاق اڑانا تھا اور یہ مسئلہ مختلف مواقع پر اور مختلف پیغمروں کے ساتھ پیش آيا ، مثلا فرعون کہ جو خدائی کا دعویدار تھا حضرت موسی (ع) کا مذاق اڑاتے ہوئے کہتاہے " جو پیغمبر تمہاری جانب بھیجا گیا ہے وہ مسلم طور پر دیوانہ ہے " ۔ دوسری جانب حضرت محمد (ص) کے خلاف کفار کا تمسخر اور مذاق اڑانے کا انداز یہ تھا کہ وہ کہتے تھے کہ یہ پیغمبر اسلام ، وہی پیغمبر ہے کہ جسے خداوند عالم نے پیغمبر کے طور پر انتخاب کیا ہے ؟ اور کہتے تھے کہ وہ اگر خدا کا رسول ہے تو کیوں وہ دیگر انسانوں کی مانند کھانا کھاتا ، راستہ چلتا ، باتیں کرتا اور لباس پہنتا ہے اور مختصر یہ کہ ديگر انسانوں اوراس میں کوئی فرق نہيں ہے جبکہ ان کی نظر میں خدا کے رسول کو فرشتوں میں سے ہونا چاہئے تھا ۔ اس قول کا باطل ہونا واضح ہے کیوں کہ رسول خدا کو چاہئے کہ اسی قوم اور افراد میں سے ہو کہ جن کے درمیان اسے تبلیغ کے لئے بھیجا گيا ہے تاکہ وہ ان کے درد و رنج کو سمجھ سکے اور ان کی مشکلات کا مناسب حل نکال سکے جبکہ اگر پیغمبر فرشتوں میں سے ہوتے تو انسانوں کی مشکلات اور تکالیف کو درک اور محسوس نہیں کرسکتے تھے ۔اور پھر اگر پیغمبر فرشتوں میں سے ہوتے تو کوئی بھی انسان ان کی بات پر توجہ نہیں دیتا اور اس وقت وہ یہ اعتراض کرتا کہ یہ فرشتہ جو اس طرح کی باتیں کررہا ہے تو یہ باتیں تو اسی جیسے فرشتوں کے لئے اچھی ہیں کہ جو شہوت نہیں رکھتے اور عصمت کے حامل ہیں ۔ لیکن ہم کہ جو معصوم نہیں ہیں اور شہوت و خواہشات نفسانی میں مبتلا ہیں ، ہم تو ان کی طرح عمل نہیں کرسکتے لیکن اگر اللہ کا رسول ، انسانوں ميں سے ہی ہوگا تو ان کا یہ بہانہ ختم ہوجائے گا ۔ اس طرح سے خداوند عالم نے کفارکی بہانے بازیوں کا ذکر کیا ہے اور پھر کفار کی صفات کی بنیاد پر ان کو جانوروں اور چوپایوں سے تشبیہ دی ہے ۔

درحقیقت انسان کی نفسانی خواہشات نے کفار کے دلوں پر ایک پردہ ڈال دیا ہے ۔ اس طرح سے کہ وہ حقائق کو درک کرنے سے عاجز ہے ۔ بت پرستی ، نفس پرستی ، دولت پرستی ، مقام پرستی اور اسی جیسی چیزیں ، ایسے حجاب کا باعث بنتی ہیں جو کفار کے ادراک میں مانع بنتی ہیں اور یہ وہ موانع اور رکاوٹیں ہیں جو عذاب الہی کے ذریعے ہی برطرف ہوتی ہیں ۔ بہر صورت ، جب خدا کا عذاب نازل ہوتا ہے تو اس وقت غرور و جہل کے پردے ہٹ جاتے ہیں اور اس وقت کفار یہ سمجھتے ہیں کہ کتنی گہری گمراہی میں وہ گرفتار تھے ۔

خداوند عالم اس آيت میں مشرکین کو خطاب کرتے ہوئے فرما رہا ہے حق کی آواز اور خداوند عالم کی نشانیوں سے پوری دنیا لبریز ہے اور ہر سمت اس کی نشانیاں ہيں لیکن حق کی آواز سننے کے لئے ، سنائی دینے والے کانوں اور حق کے آثار کا مشاہدہ کرنے کے لئے ، دیکھنے والی آنکھوں اور عقل کی ضرورت ہے جس سے کفار محروم ہیں ۔چنانچہ اگر سورج کی روشنی پوری دنیا پر چھاجائے پھر بھی نابینا انسان کچھ بھی دیکھ نہیں سکتا ہے ۔ اسی طرح اگر ایک بہرہ انسان جو سمندر کے ساحل کے کنارے پر کھڑا ہو اور اس کی تلاطم خیز موجوں کو دیکھ بھی رہا ہو ، پھر بھی وہ ان موجوں کی لہروں کی آواز نہیں سن سکتا ۔ کفار بھی ایسے ہی ہیں ، نہ وہ حق کو دیکھتے ہيں نہ ہی حق کی آواز سن سکتے ہیں بلکہ وہ جانوروں کی مانند ہیں اور اس سے بھی پست تر ہیں ۔ اس بناء پر مشرکین حق کی آواز سننے سے عاجز اور ان کے ادراک سے ناتواں ہيں جس طرح سے کہ جانور یہ صفات نہيں رکھتے ۔

انسان اور جانور کے درمیان اصلی فرق ، مطالب اور مضامین کا درک کرنا ہے ۔ حیوان میں کسی مسئلے کو درک کرنے کی صلاحیت نہیں پائی جاتی ہے کیوں کہ ان میں عقل و فہم نہیں ہوتی اور ان کے سارے کام ، غریزے اور ان کے شعور کے تحت ہیں ۔ اس بناء پر کفار کی تشبیہ جانوروں اور چوپایوں سے دینے کا سب یہ ہے کہ کفار، کائنات کو وجود میں لانے خدا کے بارے میں ادراک اور شعور کی قوت و صلاحیت نہیں رکھتے اور اسی وجہ سے وہ نور حقیقت کی تجلی کو نہيں دیکھ سکتے ۔ دوسری جانب حیوان میں ذمہ داری کا احساس نہيں ہوتا ہے ۔ حیوان اپنے مالک کے کھیت اور دوسرے کے کھیت میں تشخیص نہیں دے سکتا وہ حلال وحرام کو نہیں سمجھ سکتا اور ان مسائل کے مقابلے میں خود کو ذمہ دار نہيں سمجھتا ۔ اس بناء پر عدم ذمہ داری کا احساس ، اس کے عدم ادراک کی علامت ہے ۔ کفار بھی حیوانوں کی مانند کسی ذمہ داری کا احساس نہيں کرتے ۔ دوسری جانب حیوانات ، منطق کے تابع نہیں ہیں اور استدلال کو نہيں سجھ سکتے اسی طرح کفار بھی ، مختلف مسائل کے بارے میں قرآن کے سادہ بیان اور قوی و مستحکم دلائل کے باوجود مختلف امور خاص طور پر توحید ، نبوت اور قیامت کو درک کرنے سے عاجز ہیں اور صرف اپنی ہی بات پر اڑے رہتے ہيں اور اسی کی تکرار کرتے ہيں ۔ اسی طرح حیوانات ، مستقبل پر نظر نہیں رکھتے اور وہ کبھی اپنے نفع اور نقصان کو نہيں پہچانتے اسی بناء پر کبھی وہ خطرناک راستوں پر نکل جاتے ہیں اور غیر منطقی اور غیر عاقلانہ کام انجام دیتے ہیں کیوں کہ وہ محاسبہ نہیں کرسکتے ۔ کفار و مشرکین بھی اسی طرح سے ہیں اور وہ اپنی راہ سعادت کو حاصل نہیں کرپاتے ۔ وہ یہ نہیں سمجھتے ہیں کہ بتوں کی عبادت ، اور نفسانی خواہشات کی پیروی ان کے فائدے میں نہیں ہے اور عزت و سعادت اور فلاح و نجات توحید کے سائے ميں ہے ۔ مشرکین ان باتوں کو نہیں سمجھتے اسی لحاظ سے مشرکوں اور حیوانوں میں تشبیہ دی گئی ہے ۔

اگر چوپائے کچھ نہيں سمجھتے اور حقائق کے مقابلے میں سننے والے کان اور دیکھنے والی آنکھیں یا بالفاظ دیگر بصیرت و بصارت سے عاری ہیں تو اس کی دلیل ، عدم استعداد ہے ۔ لیکن اس سے زیادہ وہ انسان ، بیچارہ ہے کہ جس میں سعادت و کامیابی تک رسائی کا مادّہ پوشیدہ ہے اور خدا نے اس قدر اسے استعداد عطا کی ہے کہ وہ روی زمین پر خدا کاخلیفہ اور نمائندہ قرار پاسکتا ہے ۔ لیکن اس کا کام اس منزل پر پہنچ جاتا ہے کہ وہ حیوانیت کی حد سے بھی گذر جاتا ہے اور اپنی پوشیدہ صلاحیتوں اور استعداد کو تباہ کردیتا ہے ۔ البتہ ظاہر ہے کہ قرآن کافروں کے عدم ادراک اور حیوانوں سےان کا موازنہ کرتے ہوئے جو کچھ فرمارہا ہے وہ دنیوی مسائل کے بارے ميں نہيں ہے ۔ لوگ چاہے بی دین ہوں یا دیندار ، دنیوی امور کے بارے میں غور و فکر کرتے ہیں اور اپنے مستقبل کے بارے ميں سوچتے ہیں ۔ یہاں تک کہ جو بعض دانشور اور مفکرین خداوند عالم پر اعتقاد نہيں رکھتے اور وہ سائنس و ٹکنالوجی میں سب سے پیش قدم بھی رہے ہیں پھر بھی ان کی یہ فکر اور ان کا علم ، محض ان کی دنیاوی زندگي کے بہتر گذارنے کے لئے تھا۔ اور ایسے افراد اخروی زندگي کو درک کرنے اور خدا کی نشانیوں کو دیکھنے اور سمجھنے سے قاصر اور عاجز رہے ہیں اور انہوں نے اپنی آخرت کے بدلے ، عذاب آور زندگي خریدلی ہے ۔

یہ عرائص جو پیش کی گئيں ان سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ انسان اگر اپنے حقیقی مقام ومنزلت تک رسائی کا خواہاں ہے اور اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کرناچاہتا ہے اور حقیقی سعادت حاصل کرنا چاہتا ہےتو اسے چاہئے کہ پروردگار کی اطاعت اور اس پرایمان کی سمت قدم بڑھائے اور حضرت امام علی (‏ع) کے فرمان کے مطابق " اگر عزت اور شان وشوکت کے طلبگار ہوتو گناہ کی تاریکی سے نکل کر خدا کی عزت آفریں اطاعت کی سمت قدم اٹھاؤ "۔

عمار حکیم، سید مقتدی صدر سیاست میں واپس آئیںمجلس اعلائے اسلامی عراق کے سربراہ سید عمار حکیم نے معروف سیاسی رہنما مقتدی صدر سے اپیل کی ہے کہ سیاست میں واپس آجائيں۔ عمار حکیم نے کہا ہے کہ سید مقتدی صدر کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرکے سیاسی میدان میں دوبارہ آجانا چاہیئے۔ سید عمار حکیم نے مقتدی صدر کو ایک نہایت اہم سیاسی رہنما قرار دیا اور کہا کہ ملک میں سیاسی، عوامی اور قانونی سازی نیز اجرائي سطح پر ان کی موجودگي کا نہایت گہرا اثر مرتب ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مقتدی صدر کو اپنے ملک و ملت کے تعلق سے اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے اپنے سیاسی فیصلے پر نظر ثانی کرنا چاہیئے۔واضح رہے کہ صدر گروہ کے لیڈر مقتدی صدر نے کچھ دنوں قبل سیاست سے علیحدگي کا اعلان کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ وہ شہید سید محمد باقرالصدر اور سید محمد صادق الصدر کے خاندانوں کی شان کو محفوظ رکھنے کےلئے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کررہے ہیں۔