Super User

Super User

پاکستان- ایران خوشگوار تعلقات پر تاکید

پاکستان کی وزارت خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے آج اسلام آباد میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے اپنے پڑوسی ملکوں خاص طور پر اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ اچھے اور قریبی تعلقات قائم ہيں۔ پاکستان کی وزارت خارجہ کی ترجمان نے ملک کے قبائلی علاقوں پر امریکی ڈرون حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ان حملوں کے جاری رہنے سے دونوں ملکوں کےتعلقات مزید کشیدہ ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان ان حملوں کی مخالف ہے اور ابھی تک اس کے اس موقف میں کوئی تبدیلی نہيں آئي ہے ۔ انہوں نے ان حملوں کو بین الاقوامی قوانین اور اپنے ملک کی ارضی سالمیت کی خلاف ورزی قراردیتے ہوئے ان حملوں کو فوری طور پر بند کئےجانے کا مطالبہ کیا ۔

انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ 2014 کا سال افغانستان کے لئے امن واستحکام کا سال واقع ہوگا اور اس ملک ميں جنگ ختم ہوجائے گي ۔

Saturday, 04 January 2014 11:40

" ام خلف "

کربلا کی عظیم و شجاع خواتین میں ایک " ام خلف " بھی ہیں وہ پہلی صدی ہجری کی دلیر و شجاع عورتوں میں سے ہیں آپ کی شادی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاص صحابی اور امام حسین علیہ السلام کے باوفا ساتھی مسلم بن عوسجہ سے ہوئی تھی آپ کو خداوندعالم نے ایک بیٹا "خلف" عطا فرمایاتھا جو اپنے بابا مسلم بن عوسجہ کے ہمراہ روز عاشورہ اپنے مولا و آقا حضرت امام حسین علیہ السلام کے رکاب میں شہادت کے درجے پر فائز ہوئے ۔

ام خلف محبت اہل بیت علیہم السلام سے سرشار ایک مؤمنہ خاتون تھیں اور اپنے شوہر اور بیٹے کے ساتھ کربلا کے راستے میں حضرت امام حسین علیہ السلام کے قافلے میں شامل ہوئی تھیں کربلا کے میدان میں اپنے شوہر نامدار کی شہادت کے بعد آپ نے اپنے فرزند خلف کو میدان جنگ میں بھیجا مگر امام حسین علیہ السلام نے خلف کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: کہ اگر تم میدان جنگ میں مارے گئے تو تمہاری ماں تنہا اور بے سہارا رہ جائے گی اور جنگ سے زیادہ تمہارے لئے اپنی ماں کی دیکھ بھال ضروری ہے ۔

لیکن ام خلف نے جو ہر چیز پر فرزند رسول کی نصرت ویاری کو مقدم سمجھتی تھیں، جب امام علیہ السلام کے فرمان کو سنا تو خلف سے کہا: میرے لال اپنی جان اور سلامتی پر فرزند رسول(ص) کی نصرت ویاری کو ترجیح دو اور اگر تم نے اپنی سلامتی کی فکر کی تو میں تجھ سے راضی نہ رہوں گی ۔

خلف شجاعت و بہادری کےساتھ میدان میں گئے ادھر ان کی مادر گرامی ان کی تشویق کرتے ہوئے کہہ رہیں تھیں " اے میرے لال تمہیں مبارک ہو کہ تم عنقریب آب کوثر سے سیراب ہوگے "

خلف دین اسلام اور اپنے امام وقت کا دفاع کرتے ہوئے شہادت کے درجے پر فائز ہوگئے . کوفیوں نے ان کے سر کو بدن سے جدا کرکے ان کی مادر گرامی کی طرف پھینکا اس بہادر خاتون نے اپنے لال کے سر کو آغوش میں لے کر اس کا بوسہ لیا اور خوب گریہ کیا کہ اس دلخراش منظر کو دیکھنے والے بھی گریہ وزاری میں مصروف ہوگئے۔ اور دشمن کی ظاہری کامیابی پر مذمت کی ۔

اسی نے دو سمندر رواں کئے جو باہم مل جاتے ہیں، (19) اُن دونوں کے درمیان ایک آڑ ہے وہ (اپنی اپنی) حد سے تجاوز نہیں کرسکتے، (20) [الرحمن]

ربیع الاول کا مہینہ، محبتِ رسول اور اِصلاحِ اَعمال کا پیغام

کائنات ہست وبود میں خدا تعالیٰ نے بے حد وحساب عنایات واحسانات فرمائے ہیں۔ انسان پر لاتعداد انعامات و مہربانیاں فرمائی ہیں اور اسی طرح ہمیشہ فرماتا رہے گا کیونکہ وہ رحیم وکریم ہے۔

اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہزاروں نعمتیں دیں لیکن کبھی کسی پر احسان نہیں جتلایا، اس ذات رؤف الرحیم نے ہمیں پوری کائنات میں شرف و بزرگی کا تاج پہنایا اور احسنِ تقویم کے سانچے میں ڈھال کر رشکِ ملائک بنایا ۔ ہمیں ماں باپ، بہن بھائی اور بچوں جیسی نعمتوں سے نوازا۔ غرضیکہ ہزاروں ایسی عنایات جو ہمارے تصور سے ماورا ہیں اس نے ہمیں عطا فرمائیں لیکن بطور خاص کسی نعمت اور احسان کا ذکر نہیں کیا اس لئے کہ وہ تو اتنا سخی ہے کہ اسے کوئی مانے یا نہ مانے وہ سب کو اپنے کرم سے نوازتا ہے اور کسی پر اپنے احسان کو نہیں جتلاتا۔

لیکن ایک نعمت عظمیٰ ایسی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے جب حریم کبریائی سے اسے بنی نوع انسان کی طرف بھیجا اور امت مسلمہ کو اس نعمت سے سرفراز کیا تو اس پر احسان جتلاتے ہوئے فرمایا:

لَقَدْ مَنَّ اللّهُ عَلَى الْمُؤمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُواْ عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُواْ مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍo (سورۃ آل عمران 3 : 164)

ترجمہ: ”بے شک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہیں میں سے عظمت والا رسول بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے اور انھیں پاک کرتا ہے اور انھیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ وہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے“۔

درج بالا آیہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ :

امت مسلمہ پر میرا یہ احسان، انعام اور لطف وکرم ہے کہ میں نے اپنے محبوب کو تمہاری ہی جانوں میں سے تمہارے لئے پیدا کیا۔ تمہاری تقدیریں بدلنے، بگڑے ہوئے حالات سنوارنے اور شرف وتکریم سے نوازنے کیلئے تاکہ تمہیں ذلت وگمراہی کے گڑھے سے اٹھا کر عظمت وشرفِ انسانیت سے ہمکنار کر دیا جائے۔ لوگو! آگاہ ہو جاؤ کہ میرے کارخانہ قدرت میں اس سے بڑھ کر کوئی نعمت تھی ہی نہیں۔ جب میں نے وہی محبوب تمہیں دے دیا جس کی خاطر میں کائنات کو عدم سے وجود میں لایا اور اس کو انواع واقسام کی نعمتوں سے مالا مال کر دیا تو ضروری تھا کہ میں رب العالمین ہوتے ہوئے بھی اس عظیم نعمت کا احسان جتلاؤں ایسا نہ ہو کہ امت مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے بھی عام نعمت سمجھتے ہوئے اس کی قدرومنزلت سے بے نیازی کا مظاہرہ کرنے لگے۔

اب یہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کا فرض ہے کہ وہ ساری عمر اس نعمت کے حصول پر اللہ تعالیٰ کا شکرادا کرے اور خوشی منائے جیسا کہ اللہ رب العزت نے حکم دیا ہے۔

قُلْ بِفَضْلِ اللّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُواْ هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَo (يونس 10 : 58)

ترجمہ: ”آپ فرما دیں کہ اللہ کے فضل سے اس کی رحمت سے (جواُن پر نازل ہوئی) اس پر ان کو خوش ہونا چاہئے یہ تو ان چیزوں سے جو وہ جمع کر رہے ہیں کہیں بڑھ کر ہے“۔

جب ہم اپنی زندگی میں حاصل ہونے والی چھوٹی چھوٹی خوشیوں پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں اور خوشی مناتے ہیں تو وجود محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعمت عطا ہونے پر سب سے بڑھ کر خوشی منائی جائے اور اس خوشی کے اظہار کا بہترین موقع ماہ ربیع الاوّل ہے۔

ماہِ ربیع الاوّل کی تیاریاں

ماہِ ربیع الاوّل کو ایسے منایا جائے کہ دیکھنے والا ہمارے وجود اور کردار میں خوشی محسوس کرے۔ لہٰذا ماہِ صفر میں ہی استقبال ربیع الاوّل کے پروگرام اس نہج پر ترتیب دینا شروع کر دیں۔

* عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد سے چند روز قبل اپنے گھر کی صفائی کریں اور گھر کو خوب سجائیں۔

* گھروں میں چراغاں اور جھنڈیاں لگا کرخوشی کا اظہار کریں۔

* جس رات ربیع الاوّل کا چاند نظر آئے اس رات خوشی منائیں۔ اپنے دوستوں اور عزیزواقارب کو ماہِ ربیع الاوّل پر آمد پر مبارکباد دیں۔

* یکم ربیع الاوّل سے ہی شکرانے کے نوافل کا اہتمام کریں۔

٭ روز عید کیلئے خصوصی لباس بنوائیں جیسے آپ باقی دو عیدوں پر اس کا اہتمام کرتی ہیں۔

 

* اپنے بچوں کو بھی ماہ میلاد سے قبل ہی اس ماہ کی اہمیت بتائیں اور انہیں بھی نئے کپڑے بنوا کر دیں۔

* عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مہندی اور چوڑیوں کا اہتمام کریں۔

* آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کی خوشی میں بچوں میں شیرینی بانٹیں تاکہ شعوری طور پر بچوں میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی کا احساس پیدا ہو۔

* دوسری عیدوں کی طرح اس عید پر دوستوں اور رشتے داروں کوکارڈز بھیجیں۔

* ٹیلی فون اور SMS کے ذریعے دوسروں کو مبارک باد دیں۔

* ای میل کے ذریعے کارڈز کی ترسیل کی جائے۔

* ایک دوسرے کو تحائف دیں ۔

انسانیت آفریں تعلیمات کی ضرورت

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت کو، شرک ، ناانصافی ، نسلی قومی و لسانی امتیازات ، جہالت اور برائیوں سے نجات و فلاح کا نقطۂ آغاز کہی جا سکتی ہے اور صحیح معنی میں خدا کے آخری نبی نے انبیائے ما سبق کی فراموش شدہ تعلیمات کواز سر نو زندہ و تابندہ کر کے عالم بشریت کو توحید، معنویت ، عدل و انصاف اورعزت و کرامت کی طرف آگے بڑھایا ہے ۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے دلنشین پیغامات کے ذریعے انسانوں کو مخاطب کیا کہ ”خبر دار ! خدا کے سوا کسی کی پرستش نہ کرنا اور کسی کواس کا شریک قرار نہ دینا تا کہ تم کو نجات و فلاح حاصل ہو سکے “۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اس پر خلوص معنوی تبلیغ نے جہالت و خرافات کی دیواریں بڑی تیزی سے ڈھانا شروع کردیں اورلوگ جوق درجوق اسلام کے گرویدہ ہوتے چلے گئے ۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت در حقیقت انسانوں کی بیداری اورعلم و خرد کی شگوفائی کا دور ہے ۔ آج رسول اسلام کی بعثت کو صدیاں گزر چکی ہیں لیکن عصر حاضر کے ترقی یافتہ طاقتور انسانوں کو، پہلے سے بھی زیادہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے فرامین اور انسانیت آفریں تعلیمات کی ضرورت ہے ۔اس گفتگو میں ، ہم اسی موضوع کا جائزہ لیناچاہتے ہیں کہ بنیادی طور پر پیغمبر اسلام کی بعثت آج کے انسانوں کےلئے کن پیغامات کی حامل ہے۔اس کے جواب میں سب سے پہلے یہ دیکھنے کی ضرورت ہے ختمی مآب محمد مصطفیٰ ، صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انسانوں کو کس چیز کی دعوت دی ہے ؟ در اصل انسان کے یہاں بعض خواہشیں اور فطری میلانات موجود ہیں ، یہ فطری میلان خود انسان کے وجود میں ودیعت ہوئے ہیں اور ان کو ختم نہیں کیا جاسکتا ۔ مثال کے طور پر اچھائيوں کی طرف رغبت اور پسند ، تحقیق و جستجو کا جذبہ یا اولاد سے محبت وہ انسانی خصوصیات ہیں جن کو اس کی ذات سے الگ نہیں کیا جا سکتا ۔ ظاہر ہے دنیا میں آنے والا ہر وہ انسان کہ جس نے فطرت کی آواز پر لبیک کہی ہو حقیقی اور جاوداں انسان بن جائےگا کیونکہ یہ وجود انسانی خواہشات کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے اور اس کی فطری ضرورتوں کی تکمیل کرتا ہے ۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت ، انسان کی فطری ضروریات کی تکمیل کے لئے ہوئی ہے اوراس نے ایمان و معرفت ، آگہی و بیداری اور برادری و انسان دوستی کے چراغ روشن کئے ہیں ۔ لہذا رسول خدا کی بعثت کا دن انسانی زندگي میں ایک عظيم انقلاب اور تجدید حیات شمار ہوتا ہے وہ انقلاب جو انہوں نے بر پا کیا ہے انسان کوخود اپنے اوراپنے انجام دئے گئے برے اعمال کے خلاف جدو جہد پرآمادہ کرتا ہے اور جو بھی رسول خدا کے روشنی بخش پیغامات کو سنتا ہے اپنی اورکائنات کی حقیقی شناخت پیدا کرلیتا ہے اور پھر خود کو ہی عدل و انصاف کی عدالت میں کھڑا پا کر اپنے وجود میں ایک نئے انسان کی تعمیر پر مجبور ہوجاتا ہے ۔ یہ خصوصیات صرف مذہب کے ساتھ وابستہ ہیں کہ وہ آدمی کو ایک خالص مادی اور دنیوی قالب سے نکال کر سچائی اورانصاف کی معنوی دنیا تک پہنچادیتا ہے اور ایک نفس پرست کوانصاف پسند نیکوکار انسان میں تبدیل کردیتا ہے ۔ مذہب انسان کی حیات کےلامتناہی چشمے کی طرف رہنمائی کرتا ہے اوروحی دنیا کی باتیں اس کے دل و جان میں جگہ بنالیتی ہیں ۔ وحی کی باتیں انسان کو زندگي ، کیف و نشاط اور بیداری و آگہی عطا کرتی ہیں ، وحی کی باتیں ، معرفت کا چراغ ہیں جو انسان کو حقائق محض سےآشنا بنا دیتی ہیں ۔

ہر عہد اور ہر زمانے کا انسان اس جاوداں نور سے روشنی حاصل کر کے ، اپنے اندر معنویت کی نئی جوت جگاسکتا ہے اور پھر ترقی و کمال کی اعلیٰ معراج طے کر سکتا ہے ۔ قرآن کریم میں انبیاء(ع) کی بعثت کا فلسفہ ، انسان کی تعلیم و تربیت ، عدل و انصاف کی برقراری، تاریکیوں سے رہائی اور جبر و استبداد سے انسان کو آزادی دلانا بتایا گیا ہے ۔ سورۂ انفال کی 24 ویں آيت میں بھی بعثت کو زندگی اور حیات سے تعبیر کیا گيا ہے جو معاشروں کو ترقی عطا کر کے تقاضوں کی تکمیل کی راہ دکھاتی ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے اے ایمان لانے والو ! خدا اور اس کے پیغمبر کی دعوت پر لبیک کہو وہ جب بھی تم کو اس پیغام کی طرف بلائیں جو تمہارے لئے سرچشمۂ حیات ہے ۔ بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ جہالت ، تاریخ کے محض کسی خاص دور سے مخصوص ہے اور اس کو دور جہالت کا نام دیا گيا ہے اور عالم بشریت اس دورسے گزر چکاہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر وہ زمانہ جب انسان ، انسانیت کی حدوں سے دور ہوجاتا ہے اور نفسانی خواہشات کی پیروی کرنے لگتا ہے جہالت کے دائرے میں پہنچ جاتاہے اور دنیااسے اپنا اسیر بنا لیتی ہے چاہے وہ کوئی بھی دور اور زمانہ ہو اور کسی بھی نئی شکل میں کیوں نہ جلوہ گر ہوئی ہو ۔ اس وقت بھی ، دنیا جس بحران سے دوچار ہے اور افغانستان و عراق میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے جوالمیہ بر پا کیا ہے کیااس کو عصر حاضر کے انسان کی جہالت ، خود غرضي اور وحشت کے علاوہ کوئی اور نام دیا جاسکتا ہے؟ اور آيا وہ مظالم جو فلسطین کے مظلوم عوام اور بچوں پر جاری ہیں انسانی علم و تمدن کا ثمرہ کہے جا سکتے ہیں؟ یا اس کے جہل اور اقتدار طلبی کا نتیجہ ہیں !! بلاشبہ دنیا کو انسانیت و معرفت کے دائرے میں ایک نئے انقلاب اور تغییر کی ضرورت ہے ، وہ انقلاب جو چودہ سو سال قبل ، خدا کے رسول محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے شروع کیا تھا اور جس کے راہ نما پیغامات آج بھی اضطراب و بے چینی کے شکار انسان کو عدل و انصاف اوراخلاق کی راہ دکھا سکتے ہیں ۔

اس کے پیغامات میں ہمیشہ زندگي اور تازگي موجود رہی ہے ایک مسلمان عالم و دانشور کے بقول : جس طرح ایک درخت کے لئے پہلے انسان کسی مناسب زمین پر بیج ڈالتا ہے اور پھر پودا ٹہنیوں اور پتیوں میں تبدیل ہو کر جب بڑھتا ہے تو پھول اور پھل وجود میں آئے ہیں اور اس میں ویسے ہی دانے اگتے ہیں کہ جیسے بیج کی صورت میں انسان نے زمین کے حوالے کئے تھے ۔ اسی شکل میں پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیغام کاایک دائرہ ہے جو گھومتا رہتا ہے اور ہمیشہ اس سے پھول اور پھل شگوفہ آور ہوتے رہتے ہیں ۔ بہر حال پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تاریخ بعثت ہر سال اس اہم حقیقت کی یاد دلاتی ہے کہ ہر انسان کا فریضہ ہے کہ اسی روز سے اپنے اندر ایک دوسرے انسان کی تعمیر شروع کردے اور عشق خدا و رسول کے ساتھ سچائی اور معنویت کی راہ پر قدم بڑھانے کے لئے تیار ہو جائے۔

لبنان میں قومی اتحاد پر تاکیدحزب اللہ کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل نے لبنان میں قومی اتحاد پر تاکید کی ہے ۔ المنار ٹیلیویژن چینل کی رپورٹ کے مطابق حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل شیخ نعیم قاسم نے کل جنوبی بیروت ميں ہونے والے دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ضاحیہ میں دہشت گردانہ کاروائی ایک سلسلہ وار سناریو ہے کہ جس کا مناسب جواب، جلد از جلد متحدہ قومی حکومت کی تشکیل ہے ۔ شیخ نعیم قاسم نے کہا کہ صرف متحدہ قومی حکومت کی تشکیل کے ذریعے سے ہی لبنان کو تباہ ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔ در ایں اثنا لبنان کے عبوری وزیر اعظم نے بھی کل کے دھماکے کو ایک سازش سے تعبیر کیا اور کہا کہ اس جارحیت کے مرتکب افراد کا اصل مقصد ملک میں فرقہ واریت اور داخلی بحران کو ہوا دینا ہے ۔

رہبر معظم کی صوبہ مازندران کے دس ہزار شہداء کی یاد منانے والے اہلکاروں سے ملاقات

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے بیانات کا متن شائع ہوا جو بتاریخ 25/9/92 ہجری شمسی کو صوبہ مازندران کے دس ہزار شہیدوں کی یاد میں صوبہ مازندران کے ضلع ساری میں منعقد ہوا تھا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے صوبہ مازندران کے دس ہزار شہیدوں کی یاد منانے والے اہلکاروں کے ساتھ ملاقات میں شہداء کو اس دور کے ممتاز اور نام آورمجاہدین قراردیتے ہوئے فرمایا: تحقیقاتی اور تحریری آثار اور ذرائع ابلاغ کے ذریعہ شہیدوں کی یاد کو زندہ رکھنا اور ان کی زندگی کے بارے میں نمایاں کام انجام دینا بہت ہی پسندیدہ کام ہے اور اس سلسلے میں انجام پانے والے امور کے لئے ضروری ہے کہ وہ تحقیق اور ہنر پر استوار ہوں تاکہ دقیق ، مؤثر اور یادگار کے طور پر باقی رہیں ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دفاع مقدس کے دوران جوانوں کے عظیم کارنامہ اور حرکت کو انقلاب اسلامی کا معجزہ قراردیتے ہوئے فرمایا: دفاع مقدس ایرانی قوم کے لئے عظیم امتحان ہونے کے علاوہ مختلف علاقوں اور شخصیات کی صلاحیتوں کے نکھار اور انھیں نمایاں کرنے کا امتحان بھی تھا اور اس عظیم میدان میں ملک و قوم کی پوشیدہ اور مخفی صلاحیتیں نکھر کر سامنے آگئیں ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نےدفاع مقدس کے دوران شہیدوں منجملہ شہید باکری، شہید خرازی اور شہید باقری کی حیرت انگیز اور تعجب آور صلاحیتوں کی یاد دلاتے ہوئے فرمایا: دفاع مقدس نے ایسا راستہ ہموار کیا جس کی بدولت یہ جوانوں فوج کے اہم ، اسٹراٹیجک اور زندہ کمانڈر بن گئے اور انھوں نے اس ماہر فوج کو محاصرے میں لے لیا جس کی دنیا کی بڑی طاقتیں حمایت اور پشتپناہی کررہی تھیں ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے صوبہ مازندران کے لوگوں کی وفاداری،فداکاری، خلوص اور انقلاب اسلامی کے مختلف میدانوں میں صوبہ کے عوام کے اہم نقش و کردار اور دفاع مقدس اور ملک کی تعمیر کے دوران ان کے گرانقدر خدمات کی تعریف اور قدردانی کی۔

جنیوا ٹو کانفرنس، ایرانی شرکت کے بغیر ناکام

تہران کے خطیب نماز جمعۂ تہران نے کہا ہےکہ شام سے متعلق جنیوا ٹو کانفرنس اسلامی جمہوریۂ ایران کی شرکت کے بغیر ناکام رہے گي ۔ تہران کے خطیب نماز جمعہ آیۃ اللہ سید احمد خاتمی نے شام کے بحران کے حل کے منعقد کی جانے والی جنیوا دو کانفرنس میں شرکت کے لئے اسلامی جمہوریۂ ایران کو دعوت نہ دیئے جانے کے سلسلے میں امریکی دباؤ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران کو اس کانفرنس میں شرکت کی کوئی خواہش نہیں ہے لیکن ایران کی شرکت کے بغیر بین الاقوامی جنیوا ٹو کانفرنس کا کوئی نتیجہ بھی نہيں نکلے گا ۔ آيۃ اللہ خاتمی نےاس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ ایران عالم اسلام کی ایک عظیم طاقت ہے اور ہر اجلاس میں اس کی موجودگي با اقتدار اور منطقی ہوتی ہے کہا کہ تسلط پسندانہ نظام کویہی بات پسند نہیں ہے ۔تہران کے خطیب نماز جمعہ نے اسی طرح عراق کے صوبۂ الانبار میں دہشت گردوں کے خلاف جاری آپریشن کے حکومت عراق کے اقدام کو سراہا اور کہا کہ علاقے ميں امریکہ کی حمایت سے تکفیری دہشت گرد گروہ بڑی بڑي جارحانہ کاروائیو ں کے مرتکب ہورہے ہيں ۔ آیۃ اللہ خاتمی نے کہا کہ امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک عالم اسلام کو نا امن دیکھنا چاہتے ہیں اور وہ علاقے میں جارحانہ اقدامات کے ذریعے اپنے شیطانی اہداف کو حاصل کرنے کے درپے ہيں ۔ تہران کے خطیب جمعہ نے علماء اہل سنت سے اپیل کی کہ وہ بھی علاقے کے ملکوں میں تکفیریوں کی دہشت گردانہ کاروائیوں کی مذمت کریں ۔ آیۃ اللہ خاتمی نے نو دی بمطابق 30 دسمبر 2009 کے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس دن ایرانی عوام نے ایک بار پھر پورے ایران ميں اسلامی جمہوریۂ ایران کے نظام اور ولایت فقیہ کے ساتھ تجدید بیعت کیا ۔

بلاول بھٹو زرداری کی کوئٹہ میں زائرین کی بس پر خودکش حملے کی شدید مذمت

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ایران سے کوئٹہ آنے والی زائرین کی بس پر خودکش حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے اور اسے غیر انسانی فعل قرار دیتے ہوئے دھماکے میں قیمتی جانوں کے ضیاع پر غم و غصہ کا اظہار کیا۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ دہشتگردانہ کارروائیوں پر صرف احتجاج کافی نہیں بلکہ حکومت خون کی ہولی کے سلسلے کو روکنے کیلئے فی الفور اقدامات کرے۔ انہوں نے سوال کیا کہ یوٹیوب پر پابندی عائد کی جا چکی ہے مگر لشکر جھنگوی کی ویب سائٹس کس طرح آزادانہ کام کر رہی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب دہشگرد ان واقعات کی ذمہ داری قبول کرچکے ہیں تو حکومت کو انکے خلاف فوری ایکشن لینا چاہئے۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اگر حکومت اب بھی دہشتگردوں کو پکڑنے میں ناکام رہی تو عوام قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیں گے جو کہ ملک کو انتشار کی طرف لے جائے گا، لہٰذا حکومت احتجاج نہیں، اقدامات کرے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ حملے میں زخمی ہونے والوں کے بروقت علاج کیلئے خصوصی اقدامات کئے جائیں۔ بلاول بھٹو زرداری نے واقعہ میں شہید افراد کی مغفرت اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کی دعا کی اور متاثرہ خاندانوں سے دلی تعزیت کا اظہار کیا۔

Saturday, 04 January 2014 04:40

مسجد گلاسکو - اسکاٹ لینڈ

مسجد گلاسکو - اسکاٹ لینڈ

مسجد گلاسکو ۔۔۔ اسلامی اور مغربی معماری کی ایک ترکیب

اسکاٹ لینڈ کے شہر گلاسکو کی مرکزی مسجد، دریائے کلاید کے جنوبی ساحل پر شہر کے مرکز میں واقع ہے۔ یہ مسجد اسلامی معماری اور اسکاٹ لینڈ کے شہر گلاسکو کی تعمیرات کی خصوصیات کی ایک ترکیب ہے، اور آج اس شہر کے ثقافتی امتیازات کے عنوان سے پہچانی جاتی ہے۔

اس مسجد کی تعمیر کا کام بارہ سال میں مکمل ھوا ہے اور یہ مسجد ١٦١۸ مربع میٹر مساحت پر پھیلی ھوئی ہے۔

مسجد گلاسکو - اسکاٹ لینڈ

گلاسکو کی اس سب سے بڑی مسجد کی تعمیر کا کام ١۹۸۳ عیسوی میں مکمل ھوا اور اتحاد یہ عرب کے جنرل سیکریٹری، عبداللہ عمر نسیف نے اس کا با ضابطہ افتتاح کیا۔ اس مسجد میں عام پروگراموں کے لئے کئی ہال ہیں، جن میں ورزش کا ہال، سہولیات کا مرکز، کانفرنس ہال، کتاب خانہ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ اس مسجد میں مسلمانوں کے لئے تعلیم و تربیت اور سماجی امور کے پروگرام چلانے کے لئے سہولیات بھی فراہم ہیں۔

اس مسجد کی تعمیر پر تقریبا تیس لاکھ پونڈ کا خرچہ آیا ہے۔ اس مسجد کا بیرونی احاطہ اسلامی طرز کی ٹائیلوں سے سجایا گیا ہے، جو ایک جانب باغ کی طرف اور دوسری جانب محراب نما کھڑکیوں سے ملحق ھوتا ہے۔ اس مسجد کے صدر دروازہ کو نقاشی شدہ محراب نما شیشوں سے مزین کیا گیا ہے۔ اگر ہم اس مسجد پر باہر سے نظر ڈالیں، تو اس کا کنکریٹ کا نیا مینار اس کے امتیازات، میں شمار ھوتا ہے۔

مسجد گلاسکو - اسکاٹ لینڈ

گلاسکو کی اس مرکزی مسجد کی عمارت، رجینٹ پارک لندن کی مسجد سے بڑی ہے اور مجموعی طور پر شہر گلاسکو کی نمایاں زیبائی اور امتیازات میں شمار ھوتی ہے۔

مسجد گلاسکو - اسکاٹ لینڈ

ملکی اور غیر ملکی طالب علموں کے گروہ، مختلف تنظیموں کے گروہ، مسلمان، اسلام کی شناخت پیدا کرنے کا شوق رکھنے والے افراد اس مسجد کو دیکھنے کے لئے روزانہ جوق در جوق آتے ہیں۔

نماز قائم کرنے کے ہال کے اوپر نصب کیا گیا اس مسجد کا شیشون سے مزین کیاگیا گنبد، دن کو قدرتی نور کو بخوبی منعکس کرتا ہے اور یہ منظر دیکھنے کے قابل ھوتا ہے۔

اس مسجد کی اسلامی معماری کو سرخ ریت کے استعمال سے چار چاند لگ گئے ہیں اور یہ سرخ ریت گلاسکو کے شہر کی دوسری عمارتوں میں بھی استعمال ھوتی ہے۔

اس مسجد کی عمارت، شہر گلاسکو کی دوسری ١۳ مسجدوں میں سب سے بڑی عمارت ہے۔ اس میں بیک وقت ۲۵۰۰ افراد نماز پڑھ سکتے ہیں۔

مسجد گلاسکو - اسکاٹ لینڈ

اس مسجد کے ساتھ ہی مرکز اسلامی کی عمارت ہے جو ۲۰۰۴ء میں تعمیر کی گئی ہے اور مسجد میں اضافہ کی گئی ہے۔ اس مرکز میں مسلمانوں کے لئے ثقافتی، دینی، فلاح و بہبود اور اجتماعی امور سے متعلق سہولیات فراہم کئے جاتے ہیں۔ یہ مرکز اسلامی معاشرہ کے مرکزی ادارہ کے عنوان سے فعالیت کرتا ہے اور مغربی اسکاٹ لینڈ میں سب سے بڑا دینی مرکز ہے۔

اس مرکز کی فعالیتیں اور خدمات صرف مسلمانوں کے عمر رسیدہ افراد، بوڑھوں، جوانوں، اور بچوں تک ہی محدود نہیں ہیں، بلکہ یہ مرکز اسلام کے بارے میں غیر مسلموں میں پیدا کی جانے واکی غلط فہمیوں کو دور کرنے کے سلسلہ میں بھی خدمات انجام دیتا ہے۔ اس مرکز نے اپنی فعالیتوں کو اس علاقہ میں رہنے والوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے متمرکز کیا ہے۔