Super User

Super User

مولانا سمیع الحق، طالبان سے مذاکرات کرنے کیلئے تیا

اسلام آباد سے موصولہ رپورٹ کے مطابق جمیعت علماء اسلام (س) کے رہنمامولانا سمیع الحق نے اس ملک کے وزیر اعظم نواز شریف کی دعوت پر وزیراعظم ہاؤس اسلام آباد میں ون ٹو ون ملاقات کی۔ جس کے دوران وزیر اعظم نواز شریف نے شمالی وزیرستان میں جاری فوجی آپریشن اور کالعدم تحریک طالبان سے مذاکرات سے متعلق مولانا سمیع الحق کو اعتماد میں لیا جب کہ حکومت کی جانب سے کئے جانے والے اقدامات کے حوالے سے بھی آگاہ کیا گیا۔ طالبان سے مذاکرات کے لئے وزیر اعظم کی جانب سے مولانا سمیع الحق سے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کی استدعا کی گئی جس پر مولانا سمیع الحق نے انہیں مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔ ملاقات کے دوران ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے جو طالبان سے مذاکرات کرے گی جب کہ جو طالبان ہتھیار پھینک کر حکومتی رٹ تسلیم کرنا چاہتے ہیں انہیں مذاکرات کے میز پر لایا جائے گا۔

ملاقات کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے مولانا سمیع الحق کا کہنا تھا کہ اس وقت تک طالبان کا حکومت پر اعتماد بحال نہیں ہوسکتاجب تک ڈرون حملے بند نہیں ہوتے۔

واضح رہے کہ امریکی ڈرون حملے میں حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد طالبان نے حکومت کی مذاکراتی پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے امیر کالعدم تحریک طالبان کی ہلاکت کا بدلہ لینے کا اعلان کیا تھا۔

صہیونی طیاروں کی غزہ کی پٹی پر نچلی پروازیں

فلسطین میڈیا سیل کی رپورٹ کے مطابق غاصب صہیونی حکومت کے جنگی طیاروں نے آج غزہ کے علاقے میں نچلی پروازین کیں ، جس کی بنا پر اس علاقے کے عوام میں خوف و وحشت پھیل گئی۔ غاصب صہیونی حکومت کے ایف 16 جنگی طیاروں کی غزہ کے علاقے پر نچلی پروازیں ایسی صورت حال میں جاری ہیں کہ صہیونی حکومت کے فوجیوں نے آج مسلسل ساتویں روز غرب اردن میں جنین کے علاقے میں چالس ہزار کی آبادی پر مشتمل "یعبد" کالونی کا محاصرہ جاری رکھا ہوا ہے اور اس علاقے کو فوجی ممنوعہ علاقہ قرار دے رکھا ہے۔ دوسری جانب غاصب صہیونی حکومت کے فوجیوں نے غرب اردن میں آٹھ فلسطینی منجملہ تین بچوں اور الخلیل شہر میں پانچ فلسطینیوں کو گرفتار کرلیا ہے۔ یاد رہے کہ غاصب صہیونی حکومت کے جنگی طیاروں کے چند دنوں پہلے کے ہوائی حملوں میں تین فلسطینی شہید اور درجنوں زخمی ہوئے تھے۔

 

 

عیسائیوں کی نظر میں عشق حسینی کی تجلی

اس مضمون میں ہم حضرت امام حسین(‏ع) کے بارے میں عیسائی محققین اور مصنفین کے چنندہ مضامین اوراشعار کے ترجمے پیش کرنے جارہے ہيں ۔

تاریخ انسانیت ، عظیم واقعات اور رزمیہ کارناموں سے سرشار ہے ۔ ان واقعات میں بعض ایسے ہیں جو جغرافیائی ، قومی ، نسلی ، لسانی اور مذہبی تمام حدود پار کرگئے ہیں اور انہیں عالمی سطح پر اہمیت حاصل ہے اس طرح سےکہ ان واقعات نے دانشوروں ، حقیقت کے متلاشیوں اور مختلف مذاہب کے محققوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کی ہے ۔ ان جاوداں رزمیہ کارناموں میں سب سے بلندی پر واقعۂ عاشورا متجلی ہے کہ جس کی روشنی سے ہر زمانے میں تمام نسلیں مستفید ہوتی رہی ہیں ۔ حضرت امام حسین (ع) کی مسلمان ، ہندو ، سکھ ، عیسائی اور دیگر ادیان کے ماننے والوں نے اپنے اپنےادراک کے مطابق تعریف کی ہے کیوں کہ جو کام امام (ع) نے اپنی شہادت کے ذریعے انجام دیا اس نے بشریت کو اعلی انسانی اقدار سے آشنا کردیا ۔ اس درمیان عیسائیوں نے جو حضرت امام حسین (ع) سے اظہار عقیدت کیا ہے وہ قابل غور اور لائق تعریف ہيں ۔

کتاب " پدر ، پسر اور روح القدس " ، اہل بیت پیغمبر علیھم السلام کےبارے میں ایک عیسائي شاعر کے گرانبہا اشعار کا مجموعہ ہے ۔ اس کتاب کے محقق " محمد رضا زائری " کتاب کے مقدمے میں لکھتےہيں کہ ہماری احادیث اور روایات میں ذکر ہوا ہےکہ " کوئی بھی اہل بیت علیھم السلام کی مدح میں اس وقت تک شعر نہیں کہہ سکتا کہ جب تک کہ اسے غیبی مدد حاصل نہ ہو ۔ لبنان کی فرانسیسی یونیورسٹی میں اسلام اور عیسائيت کے تعلقات کی نئی راہ کے حوالے سے مطالعے اور معلومات کے حصول نے یہ موقع فراہم کردیا کہ ہم تاریخی تجربات سے مزید آشنائی حاصل کریں چنانچہ ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ عیسائي شعراء نے اگر امت کے باپ حضرت علی ( ع) اور ان کے بیٹے حضرت امام حسین (ع) کے لئے اشعار کہے ہیں اور طبع آزمائی کی ہے تو یہ بھی بلا شبہ روح القدس کی عنایت کے سبب ہے ۔

وہ اس کتاب کو " عیسائي شاعروں اور مصنفین کی کتابوں میں محبت علی کی تجلی اور عشق حسینی کا جلوہ " اور اسے پیغمبر اسلام اور ان کے اہل بیت سے ، عیسائی شاعروں اور مصنفین کی عقیدت و محبت کا مظہر قرار دیتےہیں ۔ ہم اس مرحلے میں ان اشعار ميں سے چند شعر کا ترجمہ آپ کی خدمت میں پیش کررہے ہیں ۔

انسان کی زندگي ميں ایسے ایام بہت ہی شاذ ونادر ہیں کہ جن میں پوری تاریخ یکجا اور مجسم ہوجائے ۔ ان تاریخوں میں سےایک ، روز عاشورا ہے ۔ روز عاشور جن چیزوں کو مجسم کرتا ہے وہ صرف تاریخ شیعہ نہیں ہے بلکہ شہداء کی تاریخ اور تاریخ شہادت ہے جو باعث بنتی ہے کہ ان کی یادیں انسانوں کی روحوں کی گہرائیوں میں اتر جائيں اور ہر انسان علم وآگہی کے ساتھ ان سے ہمدردی اوراظہار محبت کرے ۔ امام حسین (ع) کا ایمان اور ان کے اصحاب باوفا کی وفاداری ، ظلم کے خلاف قیام اور اہل بیت کی جاں نثاری ، وہ اقدار ہیں جو کربلا میں مجسم ہو گئي ہیں ۔ کربلا کے مصائب ، زمان و مکان کی سرحدوں سےماوراء ہیں جو انسانی اقدار کی دہلیز پر دستک دیتے ہوئے ایک اعلی ترین نمونہ بن گئے ہیں ۔ اور درس کربلا صرف شیعوں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ تمام انسانیت کےلئے ہے تاکہ ہر کوئي اس سے درس حاصل کرے اور فیضیاب ہو ۔

یہ بیان ممتاز عیسائي ادیب و قانونداں اور لبنان کی سابقہ تین حکومتوں کے وزیر " ادمون رزق" کا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت امام حسین (ع) کی محبت ایک شعلہ ہے جو ہر حق پسند انسانوں کے دلوں میں شعلہ ور ہے ۔

" آہ ، واحسرتا حسین کی شجاعت و بہادری پر " یہ جناب زینب کی صدا تھی کہ جس میں اتنی للکار تھی کہ جیسے تلواریں آپس میں ٹکرا رہی ہوں ۔۔۔ غمزدہ لیکن کوہ استقامت بن کر دربار یزيد میں یزید کو للکارتے ہوئے فرماتی ہیں اے یزید تو چاہتا تھا کہ جن پر غلبہ حاصل کرلے آج وہی تجھ پر غالب آگئے ہیں تو مکر و فریب سے کام لے کر خود پسندانہ رویہ اختیار کررہا ہے ۔گناہوں کے سنگين بوجھ سانپوں کی مانند تیری گردن میں حلقہ زن ہیں ۔ تو جانوں اور ضمیروں کو خریدتا اور خود پر فخر کرتا ہے لیکن ہمیشہ یہ یاد رہے اور اسے بھول مت جانا کہ اہل بیت کی کوئي قیمت نہیں ہے ۔ تو ہرگز ہماری وحی کے نور کو بجھا نہیں سکتا اور ہمارے خاندان کے درخت کو خشک نہيں کرسکتا اس لئے کہ ہماری یادیں عاشقوں کے دلوں میں جاوداں ہیں ۔ ہم نے اس عظیم دن ميں تیرےتخت حکمرانی کو لرزہ بر اندام کردیا ۔ یاد رکھ کہ بہشت کی نعمتیں میرے لئے ہیں اور آتش جہنم اور بدبختی تیرا مقدر ہے ۔

یہ منتخب بیان ، لبنانی تاریخ تمدن اور عربی ادب کے استاد " جارج شکور" کا ہے ۔ وہ ان جملہ عیسائی دانشوروں ميں سے ہیں جن کی متعدد کتابیں اہل بیت پیغمبر علیھم السلام سے متعلق شائع ہوچکی ہیں ۔ جارج شکور کی 2001 میں کتاب " حسینی کارنامہ " اور 2007 میں کتاب " امام علی (ع) کا جہاد " کے عنوان سے شائع ہوئي ۔ شکور، معاشروں میں پھیلی بیداری اور جوانوں میں پائے جانے والے جراتمندانہ جذبے کو خون حسین (ع) کا رہین منت قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں ۔ " اے حیسن آپ لائق ستائش ہیں ، آپ نے کتاب کربلا میں اپنے خون سے جو تاریخ رقم کردی ہے ساری دنیا اس کے بارے میں شرح لکھتی رہے گي ۔ بغض وکینے میں آپ کا سر تن سے جدا کردیا گيا اورآپ اور آپ کے عزیزوں کے سروں کونیزوں پر بلند کرکے کشاں کشاں پھرایا گيا ۔ اور حسین کی عورتیں اور بچے ، جنہیں دیکھ کر خون کے آنسو بہاتے رہ گئے اور ان کا جگر کباب ہورہا تھا ۔ لیکن اے زمانہ دیکھ لے کہ کربلا کے شہداء کا خون آج بھی ٹھاٹھیں مارتے سمندر کی طرح رواں دواں ہے ۔امام حسین (ع) کی تحریک اور انقلاب جاوداں ہوگيا اور آج ان کا پیغام دلوں میں نقش ہوگيا ہے ۔ جس زمانے سے لبنان جورو جفا کی بھینٹ چڑھا ہے اور ستمگروں نے سر غرور اٹھایا ہے مکتب حسین (ع) کے پروانوں نے اپنی جانیں ہاتھوں پر لے کر جرات و بہادری کے ساتھ اپنی غصب شدہ زمینوں کو آزاد کرایا اور ببانگ دہل امام حسین کا یہ جملہ دہرایا کہ حق کبھی بھی ضائع نہیں ہوسکتا ۔

کتاب " پدر ، پسر اور روح القدس " کے ایک اور حصے میں بعض اشعار کا ترجمہ اس طرح سے ذکر کیا گيا ہے ۔

میں حسینی کارنامے کو اس سے بالا تر سمجھتا ہوں کہ اس پر آنسو بہاؤں بلکہ ایسی شہادت کہ جس نےحق کو دوبارہ زندہ کردیا اس پر خوش ہونا چاہئے اور اس کی تکریم کرنی چاہئے ۔ ان کا خون ابھی بھی ضمیروں کو بے قرار کئے ہوئے ہے ۔۔۔ اور جب مقتول حق ہے ، تو قاتل جو بھی ہو وہ کافر اور باطل کے سوا اور کچھ نہیں ہے ۔ حسین شہید کا خون ، کریم اور بخشنے والا ہے ۔ یہ خون ضائع نہیں ہوا بلکہ ہمیشہ حق اور حقیقت کی رہنمائی کے لئے روشنی بکھیر رہا ہے ۔ شہادت ایک ایسی چاشنی ہے جو ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتی سوائے ان عظیم انسانوں کے جنہوں نے قسم کھائی ہے کہ وہ ستم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے اور ظالم سےانتقام لیں گے ۔ حقیقیت بیانی وہ ہے جسے کہنے میں کوئی ہچک نہ ہو۔ آپ ہی بتائیے کیا حسین (ع) پیغمبر کی آغوش کے پررودہ نہیں تھے ؟ کیا پیغمبر کے دل میں ان کی محبت ، سب سے زیادہ نہیں تھی اور سب سے زيادہ ان ہی کو نہیں چاہتے تھے ؟ کیا انہیں جوانوں کے سید و سردار کے لقب سے نہیں نوازا کہ جن کی خوشبو سے مشام بہشت سرشار ہے ۔ کیا ان کے لبوں کے بوسے نہيں لئے اور انہیں اپنے سینے سے نہیں لگایا ۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

" پولس سلامہ " ایک اور شاعر ہیں جنہوں نے اہل بیت علیھم السلام خاص طور پر امام حسین (ع) کی مصیبت میں بہت زيادہ اشعار کہے ہیں ۔محمد رضا زائری اپنی کتاب میں امام حسین (ع) سے پولس سلامہ کی عقیدت و محبت کا ذکر کرتے ہوئے خود ان ہی کی زبانی لکھتے ہيں " میں بچپنے سے قرآن مجید اور تاریخ اسلام کا شیفتہ تھا ۔ اور جب بھی شہادت حضرت علی اور ان کے فرزند امام حسین علیھماالسلام کی بات آتی تھی تو حق کی نصرت اور باطل کے خلاف جنگ کا شعلہ میرے سینے میں روشن ہوجاتا ۔ ممکن ہے کوئی یہ اعتراض کرے کہ ایک مسیحی کو اسلام کی تاریخ بیان کرنے کا کیا حق پہنچتا ہے تو میں یہی کہوں گا کہ میں ایک عیسائي ضرور ہوں لیکن تنگ نظر عیسائی نہیں ہوں ۔ اگر علی اور آل علی کی محبت تشیع ہے اور ظلم کے خلاف قیام اور حسین اور ان کے بچوں پر جو ظلم ہوا اس پر اظہار ہمدردی کرنا ہی شیعہ ہونا ہے ، اگر شیعہ یہی ہیں تو میں اعلان کرتا ہوں کہ میں شیعہ ہوں ۔

سلامہ نے ایک منظوم کلام ميں واقعۂ کربلا ، امام حسین (ع) کی تحریک کے آغاز اور اس تحریک کے مختلف مراحل اور حضرت امام حسین (ع) کی شہادت کو تفصیل سے بیان کیا ہے وہ اس منظوم کلام کے ایک حصے میں لکھتے ہیں " ميں نے اس قدر گریہ کیا کہ میرا تکیہ آنسوؤں سے تر ہوگيا اور میرے قلم سے گریہ کی آواز بلند ہوگئي ۔ حسین تیرے غم نے مجھ مسیحی کوبھی رلادیا دیا اور آنسوؤں کے قطرے میرے آنکھوں سے جاری ہوئے اور تابندہ ہوگئے ۔ ہرگز اس شخص کی کیفیت جو دور سے آگ کا نظارہ کرتا ہے اس جیسی نہیں ہوسکتی جو خود آگ میں جل رہا ہے ۔

کتاب پدر ، پسر اور روح القدس میں اسی طرح "سلامہ" کے وہ اشعار جو انہوں نے عاشورا کے سلسلے میں کہے ہیں اورامام حسین (ع) سے مخصوص ہیں اس طرح سے ہیں " شمر چلا رہاتھا دوڑو اور اسے قتل کردو۔ بد ترین شقی زرعہ بن شریک نے تلوار کھینچی اور امام حسین (ع) کے شانے اور گردن پرایسی ضرب ماری جس سے امام (ع ) عرش زین سے فرش زمین پر آگئے شمر دوڑا تاکہ سر کو بدن سے جدا کرے اے کاش اسی وقت اس کا ہاتھ خشک ہوگيا ہوتا ، شمر نے پیغمبر کے نواسے کے سر مبارک کو تن سے جدا کیا اور پنجتن پاک کا خاتمہ کردیا۔ مظلوم امام کے بدن سے لباس بھی اتار لئے اور ان کی لاش پر گھوڑے دوڑادیئے ۔

سلامہ مزید کہتے ہيں ۔ آج عالم عرب اپنے جیالوں اور بہادروں کو پہچاننے اور پیروی کرنےکا محتاج ہے لیکن جیسی بہادری و شجاعت علی (ع) میں موجود تھی عرب کےکسی بھی بہادر میں نہیں تھی ۔ جس طرح سے کہ کوئ بھی آج تک امام حسین (ع) سے زیادہ ظالموں کے مقابلےمیں شجاعت و بہادری کا مظاہرہ نہیں کرسکا ہے ۔ اور کیوں نہ ایسا ہو کہ علی (ع) محمد (‏ص) کے پروردہ اور حسین (ع) محمد (ص) کے دل کا ٹکڑا ہیں ۔

ملک میں جاری دہشتگردی اور خودکش حملے ڈرون حملوں کا ردعمل ہیں، مولانا سمیع الحق

جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے کہا ہے کہ طالبان ملک کے آئین کے خلاف نہیں بلکہ انکا مطالبہ آئین پاکستان پر عمل درآمد کرنے کا ہے، قبائلی علاقوں میں غیر اعلانیہ آپریشن جاری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ طالبان کے ساتھ بیک ڈور مذاکرات ہونے چاہئیں، امریکی خواہشات کے مطابق وہاں آپریشن ہوا تو ملک کو ایسی آگ لگے گی جو بجھائے نہ بجھے گی، آئین کی رو سے کوئی بھی غیر مسلم ملک کا صدر یا وزیراعظم نہیں بن سکتا، بھارت لائن آف کنٹرول پر دیوار بنا رہا ہے اور بنگلہ دیش میں بھارتی سازشوں کے نتیجہ میں پاکستان کے حامیوں کو پھانسی دی جا رہی ہے جبکہ وزیراعظم نواز شریف ان سے دوستی کی باتیں کرتے ہیں، پاکستان عوامی تحریک کے آج کو ہونیوالے احتجاج کی بھرپور حمایت کرتے ہیں، دہشت گردی، مہنگائی کی ماری قوم کو احتجاج کا مکمل حق حاصل ہے، بانی پاکستان قائداعظم کو سیکولر کہنے والے ان کی توہین کر رہے ہیں۔ اس امر کا اظہار انہوں نے گذشتہ روز جامعہ مسجد کبریٰ میں جے یو آئی کی رکنیت سازی اور تنظیم نو کے حوالے سے منعقدہ اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کیا۔

مولانا سمیع الحق نے کہا کہ امریکہ میں نائن الیون کا واقعہ رونما ہونے کے بعد ہماری تمام حکومتیں غیر ملکی تسلط میں چلی گئیں، وزیراعظم نواز شریف نے بھی انتخابی مہم کے دوران اعلان کیا تھا کہ ملک کو غیر ملکی تسلط سے آزاد کرائیں گے لیکن اب موجودہ حکومت بھی امریکی ایجنڈے کو چھوڑنے کے بجائے ان کی طرف جا رہی ہے۔ حکومت سے لوگوں کی امیدیں ختم ہوگئی، حکومت سے لوگ مایوس ہوچکے۔ بلاول بھٹو زرداری کہتے ہیں کہ وہ ملک کا وزیراعظم کسی غیر مسلم کو دیکھنا چاہتے ہیں حالانکہ یہ آئین سے انحراف ہے کیونکہ آئین کی رو سے کوئی بھی غیر مسلم ملک کا صدر یا وزیراعظم نہیں بن سکتا۔ مولانا سمیع الحق نے کہا کہ ملک میں سب سے بڑا مسئلہ پاکستانی طالبان کا ہے، امریکہ نہیں چاہتا کہ پاکستان میں امن قائم ہو۔ آل پارٹیز کانفرنس میں بھی امریکی جنگ سے نکلنے اور مذاکرات کا فیصلہ کیا گیا، اس کے باوجود قبائلی علاقوں میں غیر اعلانیہ آپریشن جاری ہے، اگر آپریشن نہ ہو رہا ہوتا تو اب تک طالبان سے مذاکرات شروع ہوچکے ہوتے، طالبان سے مذاکرات ہونے چاہئیں اور اس سے پہلے انہیں تحفظ دیا جائے کہ امریکہ ڈرون حملہ نہیں کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں جاری دہشتگردی اور خودکش حملے ڈرون حملوں کا ردعمل ہیں، امریکہ سے دوٹوک بات کریں کہ ہم مذاکرات کر رہے ہیں کوئی ڈرون حملہ نہیں ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ جمعیت علماء اسلام ملک اور قوم کو امریکی غلامی دے نجات دلانے کے لئے ایک بڑی قوت کے طور پر اپناکردار اداکرے گی، اور اس سلسلے میں جمعیت کی رکنیت سازی کا عمل جاری ہے۔ نجی ٹی وی کے مطابق مولانا سمیع الحق نے کہا ہے کہ مذہبی ہم آہنگی اور ضابطہ اخلاق کا نفاذ حکومت کی ذمہ داری ہے۔ ہم نے عہد کیا ہے کہ 17 نکات پر کاربند رہیں گے۔ طالبان مذاکرات کیلئے تیار ہیں، حکومت سنجیدہ کوششیں نہیں کر رہی ہے۔

لاہور میں امریکی قونصل خانے کی توسیع خطرے کی گھنٹی ہے

طالبان کے حمایتی ملک و قوم کے دشمن ہیں، سمیع الحق طالبان کو سرنڈر کرنیکا مشورہ دیں، حامد رضا

چیئرمین سنی اتحاد کونسل کا کہنا تھا کہ ملک کی نظریاتی اساس ہی قومی بقا کی ضمانت ہے، سمیع الحق قوم کو طالبان سے ڈرانے کی بجائے انہیں ہتھیار پھینکنے اور آئین و قانون کو ماننے پر قائل کریں۔

طالبان کے حمایتی ملک و قوم کے دشمن ہیں، سمیع الحق طالبان کو سرنڈر کرنیکا مشورہ دیں، حامد رضا سنی اتحاد کونسل پاکستان کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا نے اعلان کیا ہے کہ سنی اتحاد کونسل 4 جنوری کو ’’یومِ حمایتِ ممتاز قادری‘‘ منائے گی۔ اس موقع پر ملک بھر میں ممتاز قادری کی رہائی کے لیے ریلیاں نکالی جائیں گی اور اجتماعات منعقد کیے جائیں گے۔ ملک کی نظریاتی اساس ہی قومی بقا کی ضمانت ہے، طالبان کے حمایتی ملک و قوم کے دشمن ہیں۔ سمیع الحق قوم کو طالبان سے ڈرانے کی بجائے انہیں ہتھیار پھینکنے اور آئین و قانون کو ماننے پر قائل کریں۔ لاہور میں امریکی قونصل خانے کی توسیع خطرے کی گھنٹی ہے۔ حکمرانوں نے ملک کو غربت کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ بجلی و گیس کی لوڈشیڈنگ عذاب بن چکی ہے۔ بلدیاتی الیکشن کو ٹال مٹول کی پالیسی سے مذاق بنا دیا گیا ہے۔ بلوچستان میں بیرونی مداخلت بدامنی کا سبب ہے۔

مولانا سمیع الحق کا بیان شہداء کے خون سے غداری ہے، ایم ڈبلیو ایم

ترجمان ایم ڈبلیو ایم کا کہنا ہے کہ مولانا سمیع الحق نے خودکش حملے کرنیوالے دہشتگردوں کو فدایان کہہ کر ان ظالموں کی بربریت کا نشانہ بننے والوں کے خانوادگان کے زخموں پر نمک پاشی کی ہے۔

مولانا سمیع الحق کا بیان شہداء کے خون سے غداری ہے، ایم ڈبلیو ایم

مجلس وحدت مسلمین کے ترجمان نے مولانا سمیع الحق کی طرف سے خودکش دہشت گردوں کو فدایان کہنے کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے اسے شہدائے پاکستان جو ان ظالموں کی بربریت کا نشانہ بنے، کے پاکیزہ لہو سے غداری اور شہداء کے خانوادگان کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف قرار دیا ہے۔ طالبان اور دہشت گردوں کی نرسری لگانے والوں کا کھلے عام ایسا بیان ملکی سالمیت کیلئے سنگین خطرے سے کم نہیں، پاکستان میں دہشت گردی کی اصل جڑ وہی مدارس ہیں جہاں ان کی تربیت ہوتی ہے اور دہشت گرد مولانا صاحب کو اپنا باپ بھی مانتے ہیں۔ ترجمان مجلس وحدت مسلمین کا کہنا تھا کہ پاکستان میں دہشت گردوں کیخلاف 5 جنوری کو مجلس وحدت مسلمین، سنی اتحاد کونسل اور وائس آف شہدائے پاکستان کا اسلام آباد میں ہونے والا اجتماع ریفرنڈم ثابت ہوگا، ہمیں قائداعظم اور علامہ اقبال کا پاکستان چاہیے دہشت گردوں اور قیام پاکستان کے دشمنوں کا ملک نہیں۔

ریلی کو روکا گیا تو حکومت کے پاس مہلت کم ہوجائیگی، علامہ طاہر القادری

انہوں نے کہا کہ ايک ہزار ارب روپے کے نوٹ چھاپ کر مہنگائی کا بوجھ عوام پر ڈالا گيا۔ قومی اداروں کي نجکاری کے نام پر حکمران طبقہ اپنے اثاثوں ميں اضافہ کر رہا ہے۔ عوام حکومتی پاليسيوں کے خلاف انتيس دسمبر کی ريلی ميں بھرپور شرکت کريں۔ منہاج القرآن کے سربراہ کا کہنا تھا کہ اس بار ان کا لانگ مارچ عوام کے حق حکمرانی کے لئے ہوگا جو اس نظام کے خلاف فائنل راونڈ ثابت ہوگا۔ علامہ طاہر القادری نے مطالبہ کيا کہ سپريم کورٹ ٹيکس نادہندہ ارکان اسمبلی کا نوٹس لے اور نجکاری روک کر قومی اثاثے بچائے جائیں۔

ایران کے ساتھ تعلقات کے فروغ پرحماس کی تاکید

فلسطین کے اطلاع رسانی کے مرکز کی رپورٹ کے مطابق حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ خالد مشعل نے کل، اسلامی جمہوریۂ ایران کے وزیرخارجہ محمد جواد ظریف کے ساتھ ٹیلیفونی گفتگو میں ان کی والدہ کے انتقال پر تعزیت پیش کی اور ایران کے ساتھ تحریک حماس کے گہرے روابط کی ضرورت پر زور دیا۔ خالد مشعل نے علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر ایران کی کامیاب ڈپلومیسی کو سراہا اور فلسطین کی اسلامی مزاحمت کے لئے، ملت ایران کی پیہم اور مضبوط حمایت کی قدردانی کی۔

اس ٹیلیفونی گفتگو میں ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے بھی فلسطینی عوام اور مزاحمت کی حمایت کے سلسلے میں ایران کے ٹھوس موقف پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ ملت ایران اور فلسطین، دونوں ہی متحدہ محاذ پر اسرائيل کے خلاف نبرد آزما ہیں۔

مسجد نصیرالملک – شیراز ؛ ايران

مسجد نصیرالملک ، شیراز کی قدیم مساجد میں سے ایک مسجد ہے جو شہر شیراز کے “ گود عربان” نامی محلہ میں، خیابان لطف علی خان زند کے جنوب میں امام زادہ شاہ چراغ کے قریب واقع ہے۔

مسجد نصیرالملک – شیراز ؛ ايران

اس عمارت کو سلسلہ قاچار کے ایک نامور شخص، میرزا حسن علی المعروف نصیرالملک کے حکم سے تعمیر کیا گیا ہے اور اس کی معماری، محمد حسن معمار نامی ایک مشہور معمار نے انجام دی ہے۔ اس مسجد کو تعمیر کرنے میں ١۲۵۵ سے ١۲٦۷شمسی﴿ ١۸۷٦ء سے ١۸۸۸ء تک﴾، یعنی بارہ سال کا عرصہ لگ گیا ہے۔

مسجد نصیرالملک – شیراز ؛ ايران

مذکورہ مسجد کا ایک وسیع و عریض صحن ہے، جو مسجد کے شمال میں واقع ہے۔ اس مسجد کا صدر دروازہ ایک بڑا محراب نما ہے جس کی چھت رنگ برنگ ٹائیلوں سے مزین کی گئی ہے۔ اس مسجد میں داخل ھونے کے دو دروازے ہیں، جو لکڑی کے بنے ھوئے ہیں۔ ان دونوں دروازوں کے اوپر سنگ مرمر پر شوریدہ شیرازی کے چند اشعار لکھے گئے ہیں، جن میں مسجد کو تعمیر کرانے والے اور اسکی تعمیر مکمل ھونے کے سال کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس مسجد کے مشرقی شبستان اور مغربی شبستان کے نام سےدو شبستان ہیں۔

مسجد نصیرالملک – شیراز ؛ ايران

مغربی شبستان کی چھت اینٹوں کی بنی ھوئی ہے اور اس پر کافی تزین کاری کا کام ھوا ہے اور زیبا ہے، اس شبستان کا محراب پتھر کے ستونوں پر قرار پایا ہے، یہ ستون مخروطی شکل کے ہیں اور ان کی تعداد بارہ اماموں کی نیت سے بارہ ہے۔ اس شبستان کی سات دھلیزیں ہیں جو لکڑی کے بنے ھوئے سات دروازوں کے ذریعہ مسجد کے صحن سے ملتی ہیں اور ان دروازوں کر رنگ برنگ شیشوں سے مزین کیا گیا ہے۔ اس شبستان کی سنگ تراشی اور تزئین کاری، مسجد وکیل شیراز کے مانند ہے۔ اس شبستان کے محراب اور دیواریں خوبصورت ٹائیلوں سے مزین کی گئی ہیں۔ اور اس کے فرش پر فیروزی رنگ کی ٹائلیں بچھائی گئی ہیں اور اس کی چھت کو پھول، پودے اور قرآن مجید کی آیات نقش کرکے سجایا گیا ہے، حقیقت میں یہ شبستان، موسم گرما کا شبستان شمار ھوتا ہے۔

مشرقی شبستان، موسم سرما کا شبستان شمارھوتا ہے، اس کے بالکل سادہ سات ستون ہیں اور یہ ساتوں ستون ایک ہی لائن میں شبستان کے بیچ میں قرار پائے ہیں۔ مشرقی شبستان کے سامنے ایک ایوان ہے جو آٹھ محرابوں کے ذریعہ صحن سے جدا ھوا ہے۔ اس شبستان میں ایک ایسا دروازہ ہے، جو ایک کنویں کی طرف کھلتا ہے۔

مسجد نصیرالملک – شیراز ؛ ايران

اس کے علاوہ اس جگہ پر ایک چھوٹا حوض اور ایک ڈالان بھی ہے۔ عمارت کے لئے قبلہ کی سمت مشخص کرنے کے لئے دونوں شبستان معمول کے خلاف قبلہ کی امتداد میں قرار پائے ہیں۔ شمالی ڈالان پر ایک پتھر ہے، جس پر مندرجہ ذیل شعر منقش کیا گیا ہے:

غرض نقشی است کز ما بازماند کہ ھستی را نمی بینم بقایی

مگر صاحبدلی روزی بہ رحمت کند در حق استادان دعایی

مسجد نصیرالملک – شیراز ؛ ايران

اس مسجد کے دوایوان ہیں، جن کے نام شمالی ایوان اور جنوبی ایوان ہیں یہ دونوں ایوان ایک دوسرے کے مشابہ نہیں ہیں۔ شمالی ایوان، جنوبی ایوان کی بہ نسبت خوبصورت تر ہے۔ شمالی ایوان کے تین جانب تین نیم محراب ہیں اور چوتھی طرف صحن کی طرف دروازہ ہے، اسی طرح اس ایوان کے چار کمرے ہیں اور اس کی درمیانی سقف محراب نما اور زیبا ہے۔ جنوبی ایوان کے بھی دو گل دستے ہیں اور اس کے صحن میں بھی ایک مستطیل شکل کا حوض ہے اور اس کے درمیان پتھر کا بنا ہوا فوارہ ہے۔

مسجد نصیرالملک – شیراز ؛ ايران

مسجد کے شمال کی طرف ایک محراب ہے جس کا نام محراب مروارید ہے۔ اس کی پوری سقف کو اندر اور باہر سے رنگ برنگ ٹائیلوں سے مزین کیا گیا ہے اور ان پر قرآن مجید کی آیات لکھی گئی ہیں اور اس محراب کے دونوں طرف دو چھوٹے محراب نما ہیں۔ اس کے جنوب میں بھی ایک محراب ہے، جو محراب مروارید سے قدر ے پست تر ہے۔

اس کی بیرونی اور اندرونی سطح پر ٹائیل نصب کئے گئے ہیں اور اس کی سقف کو بھی شمالی محراب کی سقف کے مانند چھوٹے چھوٹے محرابوں سے سجایا گیا ہے۔

Monday, 30 December 2013 07:18

جناب " ام وھب "

جناب

جناب واقعہ کربلا میں شریک عظیم خواتین میں سے ایک جناب " ام وھب " بھی ہیں

وہ ایک بہادر خاتون تھیں جو اپنے شوہر عبد اللہ بن عمیر کلبی کے ہمراہ کربلا میں شہادت کے درجے پر فائز ہوئیں۔ قابل ذکر ہے کہ کربلا کے دلخراش واقعے میں حضرت امام حسین علیہ السلام کے قافلے میں تین ایسی شجاع و بہادر خاتون تھیں جنہوں نے یزيدیوں سے مقابلہ کیا جن میں سے دو عورتیں حضرت امام حسین علیہ السلام کے حکم سے میدان جنگ سے خارج ہوگئیں لیکن ام وھب کربلا کی جنگ میں موجود تھیں اور شہادت کے اعلی درجے پر فائز ہوئیں ۔

ام وھب کا شمار ان معدودے چند خواتین میں ہوتا ہے جو اپنے شوہر سے والہانہ عشق و محبت کے علاوہ امام وقت حضرت امام حسین علیہ السلام سے بے پناہ عقیدت رکھتی تھیں اور ان کا شمار خالص شیعوں میں ہوتا تھا اس طرح کی عظیم خواتین کا وجود نہ صرف دنیا کی تاریخ بلکہ تاریخ اسلام میں بھی بہت ہی کم دیکھنے کو ملتا ہے

روایت میں ہے کہ جب عبداللہ میدان کارزار میں گئے تو ام وہب نے ایک لکڑی اٹھائی اور ان کے پیچھے پیچھے میدان جنگ کی طرف گئیں تاکہ اپنے شوہر کی مدد اور دشمنوں سے جنگ کریں جب عبد اللہ نے ام وہب کو میدان میں دیکھا تو ان کے قریب آئے اور کہا کہ تم فورا خیمے میں واپس چلی جاؤ اور جنگ کو مردوں کے لئے چھوڑدو لیکن ام وہب نے اپنے شوہر نامدار سے کہا : میں تمہیں نہیں چھوڑ سکتی یہاں تک کہ تمہارے ساتھ اپنی جان قربان کردوں۔ حضرت امام حسین علیہ السلام جو پیار و محبت کے اس حسین منظر کا مشاہدہ کررہے تھے عبد اللہ بن عمیر کلبی کی شریک حیات ام وھب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: اے ام وہب ، خدا تجھے اجر دے ، تم خیمے میں جاکر خواتین کے ساتھ بیٹھ جاؤ ، کیونکہ خواتین پر جہاد واجب نہیں ہے۔ ام وہب نے جب امام حسین علیہ السلام کے اس فرمان کو سنا تو حکم امام کی اطاعت کرتے ہوئے خیمے میں واپس چلی گئیں لیکن خیمہ گاہ سے اپنے شوہر کی شجاعت و بہادری کا نظارہ کرتی رہیں لیکن جب عبداللہ نے جام شہادت نوش کیا تو دوڑتے ہوئے اپنے شوہر کے سرہانے پہنچ گئیں اور کہا " اے میرے سرتاج تمہیں بہشت مبارک ہو ، میں اس خدا سے جس نے تمہیں جنت کی نعمت سے سرافراز کیا ہے التجا کرتی ہوں کہ مجھے بھی تمہارے ساتھ جنت میں ہم نشیں قرار دیدے"۔

ام وہب کی شجاعت و بہادری اور حضرت امام حسین علیہ السلام اور اپنے شوہر سے ان کی وفاداری کو دیکھ کر شمر حیران و پریشان ہوگیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ابن زياد کے کچھ سپاہی لشکر حسینی میں شامل ہوجائیں اس لئے اس نے اپنے غلام رستم کو حکم دیا کہ فورا ام وہب کے سر پر ایسا گرز مارو کہ وہ ختم ہوجائیں۔ رستم نے بھی ایسا ہی کیا اور اس طرح عبد اللہ عمیر کلبی کی شجاع و بہادر شریک حیات ام وھب اپنے شوہر کی شہادت کے کچھ ہی لمحوں بعد وہ شہادت کے درجے پر فا‏ئز ہوگئیں اور اپنا مدعا حاصل کرلیا ۔

بنگلہ دیش: پولیس اور مظاہرین میں جھڑپیںبنگلہ دیش میں احتجاجی مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں جاری ہیں۔ فرانس پریس کی رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش کی سیکیورٹی فورسز نے ڈھاکہ میں احتجاجی مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے ان پر واٹر کینن اور ربڑ کی گولیوں کا استعمال کیا۔ مظاہرین نے بھی پولیس کے خلاف دیسی ساختہ بم استعمال کئے ہیں۔ ان جھڑپوں میں اب تک ایک شخص کے ہلاک ہونے کی خبریں موصول ہوئی ہیں۔ ڈھاکہ سے موصولہ رپورٹ کے مطابق پولیس کے ترجمان نے میڈیا کو بتایا ہے مظاہرین سے نمٹنے کے لئے پولیس کے گیارہ ہزار اہلکار ڈھاکہ کے مختلف علاقوں میں تعینات کئے گئے ہیں۔ پولیس نے مظاہروں کو روکنے کے لئے ایک ہزار سے زائد افراد کو مظاہرے سے ایک دن پہلے گرفتار بھی کر لیا تھا۔ بنگلہ دیش کی اپوزیشن جماعتوں نے پانچ فروری کو ہونے والے انتخابات کو ملتوی کروانے کے لئے احتجاج کی کال دی تھی۔

حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا

حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی تمام اولادوں میں حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے علاوہ حضرت فاطمہ کبری معصومہ سلام اللہ علیہا بھی عظیم فضائل و کمالات اور اعلی و ارفع مقام پر فا‏‏ئز تھیں۔

فرزند رسول حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی ولادت کو پچیس سال گذر چکے تھے کہ پہلی ذیقعدہ سن ایک سو ایکہتر ہجری قمری کو حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا مدینہ منورہ میں پیدا ہوئیں آپ اپنے والدین حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام اور جناب نجمہ خاتون کی پاکیزہ آغوش میں پروان چڑھیں ایسے گھر میں کہ جس کے تمام افراد علم و عمل سے مالامال اور تقوی و پرہیزگاری سے سرشار تھے آپ نے اپنے والد گرامی اور عظیم المرتبت بھائی کی ولایت و تربیت میں رہ کر الہی تعلیم حاصل کی اور رسول اسلام اور آپ کے اہلبیت کی احادیث پر تسلط حاصل کیا البتہ آپ کے بابا اپنی عمر کے اواخر میں ہمیشہ ہارون الرشید کے قید خانے میں رہے بالآخر قید خانے میں ہی کہ جس وقت حضرت معصومہ کی عمر دس برس تھی آپ کو شہید کردیا گیا اس کے بعد سے حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا اپنے بھائی حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی زیر تربیت رہیں ۔

حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا عبادت و زہد میں شہرہ آفاق اور فضائل و کمالات میں بلندترین مقام پر فائز تھیں آپ حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی تمام اولادوں میں حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے بعد علمی و اخلاقی کمالات میں سب سے زيادہ اعلی و ارفع مرتبے پر فائز تھیں۔ یہ حقیقتیں حضرت معصومہ کے القاب اور آپ کے بارے میں علماء و دانشوروں کے بیان کردہ صفات سے بخوبی واضح ہوجاتی ہیں۔ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے بے شمار صفات و القاب جس کی وجہ سے آپ بہت معروف ہوئیں ہیں وہ ان کے اخلاق کریمانہ پر دلالت کرتے ہیں آپ کی زيارت میں آپ کے بہت سے القابات مثلا طاہرہ، حمیدہ ، مرضیہ ، محدثہ اور شفیعہ کا ذکر ہوا ہے لیکن امام علی رضا علیہ السلام کے فرمان کے مطابق آپ کا سب سے مشہور لقب " معصومہ " ہے ۔ان میں سے ہرایک القاب و صفات آپ کی عظمت و کرامت اور اعلی مقام کے عکاس ہیں ایسی شخصیت کہ جس کی تمام رفتار و گفتار پاکیزگی ، صداقت اور دین و عرفان کے سانچے میں ڈھلی تھی آپ کے اعلی صفات کو اجاگر کررہی تھی ۔

حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا نے جو علوم و فضائل اپنے بابا اور اپنے بھائی حضرت امام علی رضا علیہ السلام سے کسب کیا تھا اس کے ذریعے معاشرے کی ہدایت و رہنمائی کرتی تھیں تاریخ میں منقول ہے کہ جب حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام مدینے میں تشریف نہیں رکھتے تھے تو حضرت معصومہ لوگوں کے سوالات کا جوابات دیا کرتی تھیں اور ان کے مشتبہ افکار کی اصلاح فرمایا کرتی تھیں ایک دن امام علیہ السلام کے کچھ چاہنے والے آپ سے ملاقات کے لئے مدینہ تشریف لائے تاکہ اپنے سوالات کا اطمینان بخش جواب حاصل کرسکیں مگر اس وقت امام کاظم علیہ السلام مدینے سے باہر سفر پر گئے ہوئے تھے ان لوگوں نے اپنے سوالات لکھ کر حضرت معصومہ کے پاس بھیجوایا اور قیام گاہ واپس چلے گئے پھر دوسرے دن بھی وہ لوگ امام علیہ السلام کی ملاقات کے لئے حاضر ہوئے لیکن امام علیہ السلام موجود نہ تھے امام کے چاہنے والوں نے اپنے سوالات واپس مانگے تاکہ پھرکبھی امام علیہ السلام سے آکر جواب معلوم کریں گے مگر ان لوگوں کو اس وقت بہت زيادہ حیرت ہوئی جب انہوں نے دیکھا کہ معصومہ سلام اللہ علیہا نے تمام سوالات کے جوابات لکھ کر ارسال کئے ہیں اور وہ جوابات بھی اتنے جامع تھے کہ وہ لوگ قانع ہوگئے جب امام علیہ السلام سفر سے واپس آئے اور اس واقعے سے باخبر ہوئے تو آپ نے باکمال افتخار فرمایا : فداھا ابوھا فداھا ابوھا تیرا باپ تجھ پر نثار ہو ،تیرا باپ تجھ پر نثار ہو۔

حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا متقی و پرہیزگار ، عالمہ اور محدثہ خاتون تھیں یہی وجہ ہے کہ شیعہ اور اہل سنت کی بہت سی کتابوں میں آپ سے نقل کردہ روایتیں موجود ہیں آپ نقل احادیث کے ذریعے لوگوں کی رہنمائی و ہدایت فرماتی تھیں۔ آپ اپنے والد ماجد اور بھائی سے جو بے شمار حدیثیں سنتی تھیں ان کو لوگوں کے سامنے بیان فرماتی تھیں اور انہی میں سے ایک وہ روایت ہے جسے آپ نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علہا سے نقل کیا ہے آپ نے فرمایا: جو شخص محمد و آل محمد کی محبت پر مرجائے وہ شہید مرا ہے ۔

فقہاء کی نظر میں آپ کا معروف لقب " کریمہ اہل بیت " ہے اہلبیت علیہم السلام کی خواتین کے درمیان یہ لقب صرف اور صرف آپ ہی کی ذات اقدس سے مخصوص ہے ۔کریمہ کے معنی بہت ہی سخی و مہربان عورت کے ہیں حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا نے قرآن کریم اور اسلام کی تعلیمات کی پیروی ميں بسر ہونے والی زندگی کو سعادتمند زندگی سے تعبیر فرمایا اور اپنی پوری زندگی ذکر خدا اور یاد خدا میں بسر کی یہی وجہ ہے کہ آپ دین اسلام کی مکمل پیروی اور راہ ہدایت پر چل کر کمال انسانی کے سب سے اعلی مرتبے پر فائز ہوئیں روایتوں میں آپ کے روضہ انور کی زيارت کی بہت زيادہ تاکید ہوئی ہے اور یہ بات خود آپ کی منزلت، شرف و فضیلت اورآپ کے علو درجات کو نمایاں کرتی ہے ائمہ معصومین علیہم السلام نے مسلمانوں کو آپ کی زيارت کی بہت زیادہ تشویق و ترغیب دلائی ہے ۔

فرزند رسول حضرت امام محمد تقی علیہ السلام سے ایک روایت نقل ہوئی ہے کہ آپ نے فرمایا : جو میری پھوپھی کی قم میں زيارت کرے گا اس پر جنت واجب ہے ۔آپ کی زیارت پر اتنا زیادہ اجر و ثواب ، جی ہاں کیونکہ حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی اولادوں میں حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے بعد کسی کے بارے میں بھی اتنی فضیلت بیان نہیں ہوئی ہے ۔

مامون کی خلافت کے آغاز سے ہی اس مکار و عیاش عباسی خلیفہ نے اپنے ظالم وستمگر آباؤ و اجداد کی مانند اہل بیت و عصمت وطہارت علیہم السلام کی روز افزوں مقبولیت کے سبب نئی چالیں اور حربے استعمال کرنا شروع کردیئے اور امام علی رضا علیہ السلام کو اپنے دارالحکومت "مرو " بلا لیا امام علیہ السلام نے مجبورا اس کی دعوت قبول کی اور اپنے اہل بیت اور اعزہ و احباب کو لئے بغیر ہی تنہا مرو چلے گئے حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے مرو جانے کے ایک برس بعد سن دو سو ایک ہجری میں حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا اپنے بھائی کی زيارت کے لئے اپنے چار بھائیوں اوربہت سے چاہنے والوں کے ہمراہ ایران کی جانب روانہ ہوئیں جب یہ مختصر سا قافلہ شہر ساوہ کے قریب پہنچا تو مامون عباسی کے حکم سے کچھ دشمنان اہل بیت نے آپ لوگوں کا راستہ روک لیا اور ان پر حملہ کرکے خاندان پیغمبر کے تقریبا تیئیس افراد کو شہید کردیا اس دلخراش واقعہ کا حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا پر اتنا زيادہ اثر ہوا کہ آپ بیمار پڑ گئیں یا ایک روایت کی بنیاد پر آپ کو زہر دیا گیا حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا نے باقی بچے ہوئے افراد سے پوچھا یہاں سے قم کتنی دور ہے ؟ لوگوں نے جواب دیا بہت ہی نزدیک ہے آپ نے فرمایا مجھے فورا قم لے چلو کیونکہ ہم نے اپنے بابا سے بارہا سنا ہے کہ قم ہمارے شیعوں کا مرکز ہے اور اس طرح مرو کی جانب جانے والا قافلہ قم کی طرف روانہ ہوگیا اور تیئیس ربیع الاول سن دو سو ایک ہجری کو قم پہنچ گیا قم میں حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی آمد کی خبر تمام لوگوں کے لئے بہت ہی مسرت بخش تھی بزرگان قم اور وہاں کے عوام حضرت کے استقبال کے لئے نکل پڑے انہوں نے محبت و عقیدت سے سرشار آپ کو اپنے جھرمٹ میں لے لیا استقبال کرنے والوں سے پہلے شہر قم کی معروف شخصیت موسی بن خزرج پہنچ گئے اور حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا سے خواہش ظاہر کی کہ اے معصومہ آپ ہمارے گھر میں قیام کیجئے آپ نے ان کی درخواست کو قبول کرلیا ۔

حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا اپنے بھائی امام علی رضا علیہ السلام کے غم جدائی اور اپنے بھائیوں کی شہادت یا ایک قول کی بناء پر آپ کو جو زہر دیا گیا تھا اس کی وجہ سے بیمار پڑگئیں اور صرف سترہ دن زندہ رہیں اور دس ربیع الثانی دوسو ایک ہجری کو اپنے بھائی کے دیدار کی تمنا دل میں لئے ہوئے غربت کے عالم میں اٹھائیس برس کی عمر میں اس دارفانی سے بقائے جاودانی کی طرف رخصت ہوگئیں اور اپنے چاہنے والوں کو گریہ و زاری میں مبتلا کردیا اور قم کے جس گھر میں آپ نے سترہ دن قیام کے دوران عبادت پروردگار اور اپنے معبود حقیقی سے راز و نیاز کیا تھا آج وہ جگہ بیت النور کے نام سے معروف اور مسلمانوں کی زیارت گاہ بنا ہوا ہے ۔

آپ کی وفات کے بعد آپ کو نہایت ہی ادب و احترام سے غسل و کفن دیا گيا اور بڑی شان و شوکت سے آپ کا جنازہ اٹھا اور اسی مقام پر جہاں آج روضہ منور ہے سپرد خاک کردیاگیا-

ہمارا سلام ہو اس عظیم خاتون پر جس نے ثانی زہرا سلام اللہ علیہا کے نقش قدم پر چل کر دین اسلام کی آبیاری کی ۔