Super User
مسجد سئول - جنوبی کوریا
جنوبی کوریا کے شہر سئول کی مرکزی مسجد نے اس شہر کے “ایتائہ وون” علاقہ میں ١۹۷٦ء میں فعالیت شروع کی ہے۔ یہ مرکزی مسجد، شہر سئول کی واحد مسجد کے عنوان سے سیاحوں کو اپنی طرف جذب کرنے والی جگہ شمار ھوتی ہے، کہ کوریا کے بہت سے باشندے ہفتہ کے آخر پر اسلام کے بارے میں تقریر سننے کے لئے اس مسجد میں حاضر ھوتے ہیں۔
اس کے علاوہ اس مسجد میں جمعہ کے دن نماز جمعہ قائم ھوتی ہے اور نماز جمعہ کے خطبے تین زبانوں، یعنی انگریزی، عربی اور کوریایی میں بیان کئے جاتے ہیں۔ تقریبا ۸۰۰ نماز گزار جمعہ کے دن ایک بجے ظہرکو نماز جمعہ میں شرکت کرنے کے لئے اس مسجد میں حاضر ھوتے ہیں، ان میں سے اکثر کوریا میں مقیم عرب، ھندستانی، پاکستانی اور ترکیہ کے باشندے ھوتے ہیں۔
سئول کی مرکزی مسجد، مسجد کے علاوہ اداری دفاتر، درس کے کلاسوں، کانفرنس ہال اور اجتماعات کے حال پر مشتمل ہے۔
اس مسجد کے طبقہ اول اور دوم میں کوریا میں غیر ملکی کام کرنے والے مسلمانوں کے لئے ہفتہ کے آخری دن عارضی سکونت کے لئے چند کمرے تعمیر کئے گئے ہیں۔
اس مسجد کے اسلامی مدرسہ کی عمارت کا نام “ شہزادہ سلطان” ہے اور یہ حصہ مسجد کی اصلی عمارت سے جدا ہے۔ اس مسجد کے دو خوبصورت میناروں نے جنوبی کوریا کے دارالخلافہ سئول کے جنوبی علاقہ کو رونق بخشی ہے۔
اس مسجد کے صدر دروازہ کو انتہایی ظرافت اور خوبصورتی کے ساتھ نیلے اور سفید ٹائیلوں سے سجایا گیا ہے۔
یہ مسجد کوریا کے دارالخلافہ سئول کے “ ہان نام دونگ، یونگسان گو“ نامی محلہ میں واقع ہے۔
حضرت عیسی علیہ السلام ،خدا کے عظیم پیغمبر
آج اس پیغمبر کا یوم ولادت ہے جس نے حضرت مریم جیسی عظیم خاتون کی آغوش عصمت میں آنکھ کھولی وہ پیغمبر جو اقوام عالم کے لئے مہربانی اور عدالت وانصاف کی بشارت دینے والا اور پیغام رساں تھا
جس نے گہوارے میں گفتگو کی اور غفلت کے شکار لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: میں خدا کا بندہ ہوں، خدانے مجھے کتاب دی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے ۔ اور جہاں بھی رہوں بابرکت قرار دیاہے اور جب تک زندہ رہوں نماز و زکوٰٰۃ کی وصیت کی ہے اور اپنی والدہ کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا بنایا ہے۔ اور ظالم وبد نصیب نہیں بنایاہے اور سلام ہے مجھ پر اس دن جب میں پیدا ہوا اور جس دن مروں گا اور جس دن دوبارہ زندہ اٹھایا جاؤں گا۔
حضرت عیسی مسیح علیہ السلام کی ولادت باسعادت کی مناسبت سے دنیا کے عدل نوازوں اور انصاف پسندوں کی خدمت میں مبارک باد پیش کررہے ہیں۔
حضرت عیسی علیہ السلام خداوند عالم کے اولوالعزم پیغمبروں میں سے ہیں اور قرآن نے بڑے احترام کے ساتھ ان کا ذکر کیا ہے ۔ آپ کی ولادت کی داستان بھی بڑی حیرت انگیز ہے اور قرآن کریم نے اس کی جانب اشارہ کیا ہے۔ حضرت عیسی علیہ السلام کو حضرت حق نے بغیر باپ کے پیداکیا آپ کی والدۂ گرامی حضرت مریم(س) کو خدائے قادر وتوانا نے شادی اور شوہر کے بغیر ماں کے عظیم مرتبہ پر فائز کیا قرآن کریم میں مریم بنت عمران کے بارے میں خدا فرماتاہے کہ وہ بڑی پرہیز گار اور پاک دامن خاتون تھیں۔
بچپن سے ہی معرفت الہی اور عبودیت و تہذیب نفس کے اس مرتبے پر فائز تھیں کہ ان کے لئے آسمانی غذائیں اور نعمتیں آتی تھیں ایک روز حضرت مریم (س) اپنے معبود سے راز ونیاز میں مشغول تھیں کہ دفعتا سید الملائکہ جبریل نازل ہوئے اور آپ کو ایک پاکیزہ بچے کی پیدائش کی بشارت دی۔خدا وند کریم نے سورۂ مریم کی سولہ سے اکیس تک کی آیات میں اس داستان کو بیان فرمایاہے ۔قرآن کریم نے حضرت عیسی (ع) اور ان پر نازل ہونے والی کتاب انجیل کی تصدیق کرتے ہوئے موجودہ مسیحیت میں رائج بعض اعتقادات کی نفی کی ہے جن میں تثلیث اور اس کے اصول و معیارات شامل ہیں۔
تثلیث کے معنی ، کسی چیز کو تین حصّوں میں تقسیم کیا جانا ہے۔موجودہ دین مسیحیت کے اعتقادات میں، تثلیث بنیادی عقیدہ ہے جو تین خداؤں یعنی باپ بیٹا اور روح القدس کی الوہیت کی بنیاد پر استوار ہے۔ نظریۂ تثلیث ، ایک سہ گانہ حقیقت کی حیثیت سے خدا کو درک کرنے اور اس کی معرفت حاصل کرنے کی تبلیغ کرتاہے ۔اس عقیدہ کی بنیاد پر خدا کی ذات یگانہ ہے لیکن تین جداگانہ ہستیوں باپ ، بیٹا روح القدس سے ملکر ایک ہے ۔یہ تینوں جداگانہ تشخص کے باوجود ایک ذات ہے اور ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں تثلیث کے عقیدے میں عیسی وہی ذات الہی ہے جو پیکر بشر میں ظاہر ہوئی ہے ۔اور حضرت مریم کے بطن مبارک میں زیور جسم سے آراستہ ہوئی ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ چاروں انجیلوں میں سے کسی میں بھی مسئلۂ تثلیث کی جانب اشارہ نہیں کیا گیاہے ۔اسی لئے مسیحی محققین کا کہناہے کہ انجیلوں میں عقیدۂ تثلیث کا سرچشمہ واضح نہیں ہے ۔ جیسا کہ بعض مورخین نے بھی لکھاہے کہ پہلے کے مسیحی تثلیث کا عقیدہ نہیں رکھتے تھے ۔عقیدۂ تثلیث تیسری صدی عیسوی کے بعد عیسائیوں کے درمیان رائج ہوا۔در حقیقت یہ بدعت، تھی جو حضرت عیسی کے بارے میں غلو اور اسی طرح مسیحیوں کے دیگر اقوام وملل میں شمولیت کے نتیجے میں مسیحیت میں شامل ہوگئی ۔خداوند کریم سورۂ مائدہ کی 77 ویں آیت میں ارشاد فرماتاہے کہ اے پیغمبر کہدو کہ اے اہل کتاب اپنے دین میں غلو اور زیادہ روی سے کام نہ لو اور حق بات کے سوا کچھ نہ کہو اور ایسوں کی پیروی نہ کرو کہ جو خود گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا ۔دین مسیحیت میں خدا کی یکتائی کی جانب اشارہ کیا گیا ہے لیکن تثلیث کےعقیدے کے ساتھ خدا کا یگانہ و یکتا ہونا ، تضاد پائے جانے کے باعث درک وفہم میں شدید مشکلات کا باعث بناہے ۔یہ نظریہ، عقیدۂ تثلیث کو راز سربستہ اور عقل وفہم کی دسترس سے بالاتر سمجھتاہے۔غیر مسیحی دانشوروں کا کہنا ہے کہ صرف نظریۂ تثلیث قابل اثبات نہیں ہے بلکہ عہد جدید کی کتاب میں بھی ایسی باتیں ملتی ہیں جو عقیدۂ تثلیث کی بیخ کنی کرتی ہیں۔ ان دانشوروں کا کہنا ہے کہ انجیل میں ایسی عبارتیں موجود ہیں اور حضرت مسیح علیہ السلام سے ایسی باتیں منقول ہیں جو مکمل طور سے عقیدۂ تثلیث کے منافی ہیں۔مثال کے طور پر انجیل یوحنّا میں آیاہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے فرمایا کہ حیات جاودانی یہ ہے کہ لوگ تجھے اس حیثیت سے کہ تو خدائے یکتاہے اور عیسی مسیح کو مبعوث کیا ہے ، پہچانیں اور معرفت حاصل کریں۔ اس بیان کے مطابق حضرت مسیح علیہ السلام معرفت خدائے واحد و یکتا اور خدا کے رسول کی حیثیت سے مسیح کی معرفت کے حصول کو حیات جاوید سے تعبیر کرتے ہیں۔ جب کہ اس بات اور عقیدۂ تثلیث میں تضاد پایاجاتاہے۔اس لئے کہ حضرت مسیح نے یہ نہیں کہا ہے کہ تین وجہ تثلیث کی جداگانہ صورت میں معرفت حاصل کرنا حیات جاوید ہے یا یہ بھی نہیں فرمایاکہ عیسی پیکر بشری میں خدا کی ہی ذات ہے بلکہ وہ اپنےکو خدا کا رسول اور فرستادہ سمجھتے تھے۔
حضرت سکینہ
حضرت سکینہ سلام اللہ علیہا حضرت امام حسین علیہ السلام اور جناب رباب سلام اللہ علیہا کی صاحبزادی تھیں تاريخ میں آپ کا تین نام امینہ ، امنیہ اور آمنہ اور لقب سکینہ یعنی وقار و سکون درج ہے آپ ایمان کے اعلی مرتبے پر فائز تھیں۔ امام حسین علیہ السلام آپ کی توصیف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اکثر و بیشتر ایسا ہوتا ہے کہ سکینہ اپنے پورے وجود کے ساتھ جمال ازلی میں محو رہتی ہیں اور دن بھر عبادت پروردگار میں غرق ہوکر خداسے راز و نیاز کرتی ہیں ۔
حضرت سکینہ سلام اللہ علیہا اپنے کمال اخلاق اور حمیدہ صفات کی وجہ سے اپنے بابا کی نظر میں بہت زیادہ عزيز تھیں اور جب یہ درخشاں ستارہ آسمان خاندان پیغمبر پر پوری آب و تاب کے ساتھ چمکا تو امام نے ، جو انسان کے ضمیروں اور اعمال سے آگاہ ہیں سکینہ کو عظیم و خوبصورت لقب " خیرۃ النساء " سے ملقب کیا اور ان کے مقام و منزلت کو لوگوں پر واضح و آشکار کردیا ۔
حضرت سکینہ سلام اللہ علیہا نے کربلا کے دلخراش مناظر کو نہایت ہی صبرو حوصلے سے برداشت کیا آپ واقعہ کربلا کی چشم دید گواہ تھیں آپ نے اپنے بابا کی آواز استغاثہ کو سنا اور پورے وجود کے ساتھ ماں ، بہن ، پھوپھیوں اور دیگر اسیر خواتین کے درد و الم کو بخوبی درک کیا یہی نہیں بلکہ اپنے سے چھوٹے بچوں کی سرپرستی اور دلجوئی کی، حضرت سکینہ سلام اللہ علیہا جانتی تھیں کہ ان کے بابا امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے نفاذ ، بدعت اور دینی انحرافات کے خاتمہ کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے تھے یہی وجہ ہے کہ کربلا کے خونین مناظر اور نیزہ پر اپنے بابا امام حسین علیہ السلام کا سربریدہ دیکھنے کے باوجود آپ کے ثبات و عزم میں ذرہ برابر بھی تزلزل پیدا نہ ہوا لیکن جب گیارہ محرم کو اہل بیت حرم کو قیدی بنا کر لے جایا جانے لگا اور نامحرموں کی نظریں خاندان عصمت و طہارت پر پڑیں تو آپ نےبہت سعی و کوشش کی کہ ان کی ناپاک نظروں سے اپنے کو بچا لیں لہذا فرمایا : میرے بابا کے سر کو قافلے کے آگے لے جاؤ تاکہ لوگ اس کو دیکھیں اور خواتین عصمت و طہارت پر ان کی نظریں نہ پڑیں۔
امام حسین علیہ السلام کی چہیتی بیٹی سکینہ نہایت ہی شجاع و بہادر تھیں انہوں نے ظالموں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی حقانیت کو ثابت کیا حضرت سکینہ سلام اللہ علیہا کی عظمت و منزلت اور کلام کی فصاحت و بلاغت نے کسی میں اتنی جرات پیدا نہ کی جو گستاخی و توہین کرتا بلکہ ہرایک اپنی اپنی جگہ مبہوت بیٹھا رہا بالکل اسی طرح جس طرح سے آپ کی پھوپھی حضرت زينب سلام اللہ علیہا نے جب دربار یزيد میں خطبہ دیا تو تمام اہل شام مبہوت وحیران رہ گئے تھے۔ چنانچہ حضرت سکینہ نے یزيد بن معاویہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا : اے یزید ، میرے بابا کو قتل کرکے خوش نہ ہو کیونکہ وہ خدا و رسول کے مطیع وفرماں بردار تھے ، دعوت الہی کو قبول کرتے ہوئے اور شہادت کے درجے پر فائز ہوکر "سید الشہداء" بن گئے لیکن اے یزيد جان لے کہ ایک دن ایسا آئےگا کہ تجھے عدالت الہی کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا اس لئے اس دن کے جواب کی تیاری کر، لیکن تو کس طرح جواب دے سکے گا ؟
حضرت سکینہ سلام اللہ علیہا جب تک زندہ رہیں امام حسین علیہ السلام کے مشن کو عام کرتی رہیں اور ایک دن قیدخانہ شام میں اپنے بابا کو یاد کرتے کرتے خالق حقیقی سے جا ملیں اور غربت کے عالم میں بے کس و مظلوم بھائی امام سجاد علیہ السلام نے اسی زندان میں آپ کو دفن کردیا اور آج آپ کا روضہ مرجع خلائق بنا ہوا ہے ۔
جناب رباب
تاریخ اسلام کی ایک بہت ہی مشہور و معروف اور فضائل و کمالات ، وفا و صبر سے سرشار خاتون جناب رباب ہیں جو امرؤ القیس کی صاحبزادی ، حضرت امام حسین علیہ السلام کی شریک حیات اور جناب حضرت علی اصغر و جناب سکینہ کی مادر گرامی ہيں جن کا نام تاریخ کے اوراق پر سنہرے حروف میں لکھا گیا ہے ۔
تاریخ اسلام کے مشہور مورخ ہشام کلبی نے جناب رباب کے بارے میں لکھا ہے کہ آپ کا شمار بہترین اور بافضیلت خواتین میں ہوتا تھا۔ امرؤ القیس نے جو ایک نہایت مشہور و معروف شخصیت کے حامل تھے خلیفہ دوم کے زمانے میں اسلام لائے اور مستقل طور پر مدینے میں سکونت اختیار کرلی جن کی تین لڑکیاں تھیں آپ نے خاندان اہل بیت عصمت و طہارت سے بے پناہ الفت و محبت کی وجہ سے اپنی تینوں لڑکیوں کی شادی اسی گھرانے یعنی ایک بیٹی کی شادی حضرت علی علیہ السلام ، دوسری بیٹی کی شادی حضرت امام حسن علیہ السلام اور تیسری بیٹی کی شادی جن کا نام رباب تھا امام حسین علیہ السلام سے کردی جناب رباب کی دو اولادیں ہوئیں ایک حضرت سکینہ اور دوسرے حضرت علی اصغر . حضرت علی اصغر میدان کربلا میں چھ مہنیے کی عمر میں اسلام اور اپنے امام وقت کا دفاع کرتے ہوئے باپ کے ہاتھوں پر شہید ہوگئے اور جناب سکینہ سلام اللہ علیہا بھی واقعہ کربلا میں موجود تھیں اور کربلا سے کوفہ و شام پر رنج و الم راہوں میں یزيدیت کے ظلم و ستم کا نشانہ بنتی رہیں آپ کا شمار بھی عالم اسلام کی عظیم خواتین میں ہوتا ہے ۔
حضرت امام حسین علیہ السلام اور جناب رباب سلام اللہ علیہا کی محبت و الفت کا تذکرہ ہر خاص و عام کی زبان پر ہے اور آپ کی سیرت دنیا میں موجود افراد کے لئے شریک حیات کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے لئے بہترین نمونہ ہے ۔اسی طرح شوہر کی خدمت و اطاعت میں جناب رباب کا کردار قیامت تک آنے والی عورتوں کے لئے بہترین اسوہ و نمونہ ہے ۔حضرت امام حسین علیہ السلام نے جناب رباب سے اپنی الفت و محبت کا ذکر بہت سے اشعار میں کیا ہے آپ اپنے ایک شعر میں فرماتے ہیں : تمہاری قسم میں اس گھر سے بہت محبت کرتا ہوں جس میں سکینہ و رباب ہوں ۔
جناب رباب بھی حضرت امام حسین علیہ السلام سے والہانہ محبت کرتی تھیں امام علیہ السلام کی شہادت کے بعد جناب رباب نے اپنی وفاداری و خلوص کا اظہار عملی کردار اور اشعار کی زبان میں کیا ہے۔ جب اسیروں کے ہمراہ آپ دربار ابن زياد میں داخل ہوئیں اور آپ کی نظريں امام حسین علیہ السلام کے سر بریدہ پر پڑی تو آپ اسیروں کے درمیان سے نکل کر سر مبارک کی طرف گئیں اور حاکم کوفہ ابن زیاد کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سرمبارک کو اٹھا کر اپنے سینے سے لگایا اور کہا: میں ہرگز امام حسین کو فراموش نہیں کرسکتی ، ہاں یہ حسین مظلوم جنہیں دشمنوں نے کربلا کے میدان میں تین دن کا بھوکا پیاسا شہید کردیا اور ان کے سر کو نیزہ پر بلند کیا۔
جناب رباب کربلا کے دلخراش مناظر اور راہ کوفہ و شام میں پڑنے والے مصائب و آلام کو برداشت کرتے ہوئے جب رہا ہوکر مدینے پہنچیں تو امام حسین علیہ السلام سے وفا و خلوص اور سچی محبت و الفت کی بناء پر کبھی بھی سایہ میں نہ بیٹھیں بلکہ جب تک زندہ رہیں سورج کے نیچے بیٹھی رہیں اور رات کی تاریکی میں کبھی بھی چراغ روشن نہیں کیا۔
آپ نے اپنے باوفا شوہر کے غم میں بہت سے اشعار کہے ہیں جن میں سے کچھ کا ترجمہ یہ ہے :
وہ نور جس سے لوگ بہرہ مند ہوتے تھے اسے دشمنوں نے کربلا کے میدان میں خاموش کردیا اور دفن کرنے کے بجائے ان کی لاش کو کربلا کے تپتے ہوئے صحرا میں چھوڑ دیا۔ پھر امام حسین علیہ السلام کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتی ہیں اے میرے سید و سردار، آپ عظمت و شرافت کی عظیم چٹان تھے جس میں میں پناہ حاصل کرتی تھی اورآپ محبت و الفت اور دین مبین کے ساتھ میرے ہمراہ تھے آپ کی شہادت کے بعد اب کون ہے جو یتیموں اور اسیروں کی خبر گیری کرے گا ؟ خدا کی قسم آپ کے بعد میں ہرگز سائے میں نہیں بیٹھوں گی یہاں تک کہ قبر میں چلی جاؤں ،
جناب رباب امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد ایک برس سے زيادہ زندہ نہ رہیں اور حضرت کے غم میں آنسو بہاتے بہاتے اس دنیا سے عالم جاوداں کی طرف رخصت ہوگئیں ۔
جناب ام کلثوم
تاریخ اسلام کی مثالی اور عظیم خواتین میں سے ایک جلیل القدر خاتون حضرت علی علیہ السلام کی بیٹی زینب صغری سلام اللہ علیہا ہیں جنہیں ام کلثوم کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے آپ حضرت امام علی علیہ السلام اور حضرت فاطمه زہرا سلام اللہ علیہا کی چوتھی اولاد اور دوسری بیٹی ہیں آپ حضرت امام حسن ، امام حسین اور حضرت زینب علیہم السلام کے بعد شہر مدینہ میں آٹھویں صدی ہجری میں پیداہوئیں۔
حضرت ام کلثوم سلام اللہ علیہا نے انہیں عظیم شخصیتوں کے دامن میں پرورش پائی اور ان کے فضائل و کمالات اور تعلیمات سے بہت زيادہ کسب فیض کیا حضرت ام کلثوم کی شادی جناب عون بن جعفر بن ابی طالب سے ہوئی لیکن چند ہی ماہ بعد جناب عون بن جعفر کا انتقال ہوگیا تو پھر آپ کی شادی محمد بن جعفر بن ابی طالب سے ہوئی ۔
حضرت ام کلثوم سلام اللہ علیہا ایک بہادر اور عقلمند خاتون تھیں جو کربلا کے دلگداز واقعے میں مدینے سے کربلا اور وہاں سے شام تک موجود تھیں درحقیقت حضرت ام کلثوم سلام اللہ علیہا کی زندگی کے تمام اہم واقعات میں سے سب سے اہم واقعہ ، کربلا کا دلخراش واقعہ تھا جس میں آپ اپنے بھائی حضرت امام حسین علیہ السلام کے ساتھ کربلا میں موجود رہیں آپ واقعہ عاشورہ کے بعد اپنی بہن حضرت زينب سلام اللہ علیہا کے ہمراہ اسیران آل محمد کی قافلہ سالار تھیں واقعات کربلا پر مشتمل کتابوں میں آپ کے ان تمام خطبوں کا ذکر ہے جو کربلا کے دلخراش واقعے کے بعد آپ نے راہ کوفہ و شام ، بعلبک، سیبور اور نصیبین میں دیئے تھے آپ کے ان آتشیں خطبوں نے حکومت بنی امیہ کی بنیادیں ہلاکر رکھ دیں ۔
چودہویں صدی کے عظیم الشان مورخ و محدث علامہ شیخ عباس قمی تحریر کرتے ہیں : جس وقت اہل بیت علہیم السلام کے قافلے کو کوفہ میں داخل کیا گیا اس وقت کوفہ کے تمام لوگ ان قیدیوں کا تماشہ دیکھنے کے لئے گھروں سے باہر جمع تھے اور رحمدلی اور افسوس کے ساتھ بچوں کو روٹی اور خرما دے رہے تھے حضرت ام کلثوم سلام اللہ علیہا نے ان چیزوں کو بچوں کے ہاتھوں سے لیا اور بلند آواز سے ان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: اے اہل کوفہ تم لوگ اس طرح کی چیزیں دینے سے پرہیز کرو کیونکہ ہم اہل بیت رسول ہیں اور صدقہ ہم پر حرام ہے اس وقت کوفہ کی ایک ضعیفہ اس منظر کودیکھ کر زار و قطار رونے لگی حضرت ام کلثوم نے محمل سے سر نکالا اور فرمایا : اے اہل کوفہ ، تمہارے مرد ہم پر ظلم و ستم کررہے ہیں اور تمہاری عورتیں ہم پر گریہ و زاری کررہی ہیں خداوندعالم قیامت کے دن ہمارے اور تمہارے درمیان فیصلہ کرے گا ،،
حضرت ام کلثوم سلام اللہ علیہا اپنی بہن زینب سلام اللہ علیہا کا بہت زیادہ احترام کرتی تھیں نہ کبھی ان کے آگے قدم بڑھاتیں تھیں اور نہ ہی ان سے پہلے کبھی کلام کرتی تھیں لیکن جہاں پر حضرت زينب سلام اللہ علیہا بیہوش ہوجاتی تھیں آپ ان کے کلام کو مکمل پایہ تکمیل تک پہنچاتی تھیں ۔
یہ عظيم و با فضیلت خاتون جس نے حضرت علی علیہ السلام اور فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے دامن عصمت و طہارت میں پرورش پائی تھی اور شجاعت و بصیرت اور فصاحت و بلاغت کوان انوارطاہرین سے ورثے میں حاصل کیا تھا واقعہ کربلا کے چند برسوں بعد ہی اپنے خالق حقیقی کی بارگاہ میں پہنچ گئیں اور آپ کو مدینہ منورہ میں دفن کردیا گیا ۔
فلسفہ نماز کیا ہے؟
سورہ عنکبوت میں نماز کا سب سے اہم فلسفہ بیان کیا گیا ہے، ارشاد ہوتا ہے کہ نماز انسان کو برائیوں اور منکرات سے روکتی ہے: " إِنَّ الصَّلاةَ تَنْہَی عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْکَر"(1)
" (اور نماز قائم کروکہ) یقینا نماز ہر برائی اور بدکاری سے روکنے والی ہے"
حقیقت نماز چونکہ انسان کو قدرتمند روکنے والے عامل یعنی خدا اور قیامت کے اعتقاد کی یاد دلاتی ہے، لہٰذا انسان کو فحشاو منکرات سے روکتی ہے۔
جب انسان نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو پہلے تکبیر کہتا ہے، خدا کو تمام چیزوں سے بلند و بالا مانتا ہے، پھر اس کی نعمتوں کو یاد کرتا ہے، اس کی حمد و ثنا کرتا ہے، اس کو رحمن اور رحیم کے نام سے پکارتا ہے، اور پھر قیامت کو یاد کرتا ہے ، خدا کی بندگی کا اعتراف کرتا ہے، اور اسی سے مدد چاہتا ہے، صراط مستقیم پر چلنے کی درخواست کرتا ہے اور غضب خدا نازل ہونے والے اور گمراہوں کے راستہ سے خدا کی پناہ مانگتا ہے۔ (مضمون سورہ حمد )
بے شک ایسے انسان کے دل و جان میں خدا ، پاکیزگی اور تقوی کی طرف رغبت ہوتی ہے۔
خدا کے لئے رکوع کرتا ہے ، اس کے سامنے سجدہ ریز ہوجاتا ہے اس کی عظمت میں غرق ہوجاتا ہے، اور خود غرضی اور تکبر کو بھول جاتا ہے۔
خدا کی وحدانیت اور پیغمبر اکرم (ص) کی رسالت کی گواہی دیتا ہے۔
اپنے نبی پر درود و سلام بھیجتا ہے، اور خدا کی بارگاہ میں دست بدعا ہوتا ہے کہ پالنے والے! مجھے اپنے نیک اور صالح بندوں میں قرار دے۔ (تشہد و سلام کا مضمون)
چنانچہ یہ تمام چیزیں انسان کے وجود میں معنویت کی لہر پیدا کردیتی ہیں، ایک ایسی لہر جو گناہوں کا سدّ باب کرتی ہے۔
اس عمل کو انسان رات دن میں کئی مرتبہ انجام دیتا ہے جب صبح اٹھتا ہے تو خدا کی یاد میں غرق ہوجاتا ہے، دوپہر کے وقت جب انسان مادی زندگی میں غرق رہتا ہے اور اچانک موٴذن کی آواز سنتا ہے تو اپنے کاموں کو چھوڑ دیتا ہے اور خدا کی بارگاہ کا رخ کرتا ہے، یہاں تک دن کے اختتام اور رات کی شروع میں بستر استراحت پر جانے سے پہلے خدا سے راز و نیاز کرتا ہے، اور اپنے دل کو اس کے نور کا مرکز قرار دیتا ہے۔
اس کے علاوہ جب نماز کے مقدمات فراہم کرتا ہے تو اپنے اعضا بدن کو دھوتا ہے ان کو پاک کرتا ہے، حرام چیزیں اور غصبی چیزوں سے دوری کرتا ہے اور اپنے محبوب کی بارگاہ میں حاضر ہوجاتا ہے، یہ تمام چیزیں اس کو برائی سے روکنے کے لئے واقعاً موثر واقع ہوتی ہیں۔
لیکن نماز میں جس قدر شرائطِ کمال اور روحِ عبادت پائی جائے گی اسی مقدار میں برائیوں سے روکے گی، کبھی مکمل طور پر برائیوں سے روکتی ہے اور کبھی جزئی طور پر،(یعنی نماز کی کیفیت کے لحاظ سے انسان برائیوں سے پرہیز کرتا ہے) یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی شخص نماز پڑھے اور اس پر کوئی اثر نہ ہو، اگرچہ اس کی نماز صرف ظاہری لحاظ سے ہو یا نمازی گنہگار بھی ہو، البتہ اس طرح کی نماز کا اثر کم ہوتا ہے، کیونکہ اگر اس طرح کے لوگ اس طرح نماز نہ پڑھتے تو اس سے کہیںزیادہ گناہوں میں غرق ہوجاتے۔
واضح الفاظ میں یوں کہیں کہ فحشا و منکر سے نہی کے مختلف درجے ہوتے ہیں، نماز میں جتنی شرائط کی رعایت کی جائے گی اسی لحاظ سے وہ درجات حاصل ہوں گے۔
پیغمبر اکرم (ص) سے منقول حدیث میں وارد ہوا ہے کہ قبیلہٴ انصار کا ایک جوان آنحضرت (ص) کے ساتھ نماز ادا کررہا تھا لیکن وہ گناہوں سے آلودہ تھا، اصحاب نے پیغمبر اکرم کی خدمت میں اس کے حالات بیان کئے تو آنحضرت (ص) نے فرمایا: " إنَّ صَلاتَہُ تَنہَاہُ یَوماً" (آخر کار ایک روز اس کی یہی نماز اس کو ان برے کاموں سے پاک کردے گی)(2) نماز کا یہ اثر اس قدر اہمیت کا حامل ہے کہ بعض احادیث میں نماز کے قبول ہونے یا قبول نہ ہونے کا معیار قرار دیا گیا ہے، جیسا کہ حضرت امام صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے: " مَنْ اٴحَبَّ اٴنْ یَّعلَم اٴقْبَلَت صَلٰوتُہ اٴمْ لَم تَقْبَل؟ فَلیَنْظُر: ہَلْ مَنَعْتَ صَلٰوتَہُ عَنِ الفَحْشَاءِ وَالمُنْکِر؟ فبقدر ما منعہ قبلت منہ!" (3)(اگر کوئی یہ جاننا چا ہے کہ اس کی نماز بارگاہ الٰہی میں قبول ہوئی ، یا نہیں؟ تو اس کو دیکھنا چاہئے کہ نماز اس کو برائیوں سے روکتی ہے یا نہیں؟ جس مقدار میں برائیوں سے روکا ہے اسی مقدار میں نماز قبول ہوئی ہے)۔
اور اس کے بعد مزید ارشاد فرمایا کہ " ذکر خدا اس سے بھی بلند و بالاتر ہے" : " وَلَذِکْرُ اللهِ اٴکبَرْ"
مذکورہ جملہ کا ظاہر اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ نماز کے لئے یہ اہم ترین فلسفہ ہے، یہاں تک فحشا و منکر کی نہی سے بھی زیادہ اہم ہے اور وہ اہم فلسفہ یہ ہے کہ انسان کو خدا کی یاد دلائے کہ جو تمام خیر و سعادت کا سر چشمہ ہے، بلکہ برائیوں سے روکنے کی اصلی وجہ یہی " ذکر اللہ " ہے ، در اصل اس اثر کی برتری اور عظمت اسی وجہ سے ہے کیونکہ یہ اُس کی علت شمار ہوتا ہے۔
اصولی طور پر خدا کی یاد انسان کے لئے باعثِ حیات ہے اور اس سلسلہ میں کوئی بھی چیز اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی ، "اٴَلا بِذِکْرِ اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوب" ، " آگاہ ہوجاؤ کہ یادِ خدا دل کو اطمینان و سکون عطا کرتی ہے" ۔
حقیقت تو یہ ہے کہ تمام عبادتوں (چاہے نماز ہو یا اس کے علاوہ) کی روح یہی ذکر خدا ہے، اقوال نماز، افعال نماز، مقدمات نماز اور تعقیبات نماز سب کے سب در اصل انسان کے دل میں یادِ خدا زندہ کرتے ہیں۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ سورہ طٰہ ، آیت نمبر ۱۴/ میں نماز کے اس بنیادی فلسفہ کی طرف اشارہ ہوا ہے، جناب موسیٰ علیہ السلام سے خطاب ہوتا ہے: " اَقِمِ الصَّلاَة لِذِکْرِي " ، (میری یاد کے لئےنماز قائم کرو ) .
معاذ بن جبل سے منقول ایک حدیث میں وارد ہوا ہے کہ عذاب الٰہی سے بچانے والے اعمال میں "ذکر اللہ " سے بڑھ کر کوئی عمل نہیں ہے، سوال کیا گیا : راہ خدا میں جہاد بھی نہیں؟ جواب دیا: ہاں ، کیونکہ خداوندعالم ارشاد فرماتا ہے: (وَلذکْرِ اللهِ اٴکْبَرْ)
انسان اور معاشرہ کی تربیت میں نماز کا کرداراگرچہ نماز کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کا فلسفہ کسی پر پوشیدہ ہو لیکن قرآنی آیات اور احادیث ِمعصومین علیہم السلام میں مزید غور و فکر کرنے سے بہت ہی اہم چیزوں کی طرف رہنمائی ہوتی ہے:
۱۔ روح نماز اور نماز کا فلسفہ ذکر خدا ہی ہے ، وہی " ذکر اللہ " جو مذکورہ آیت میں بلندترین نتیجہ کے عنوان سے بیان ہوا ہے۔
البتہ ایسا ذکر جو غور و فکر کا مقدمہ، اور ایسی فکر جو عمل کا سبب بنے، جیسا کہ حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے " وَلذکْرِ اللهِ اٴکْبَر" کی تفسیر میں فرمایا: " ذکر الله عند مااحل و حرم " (4) "حلال و حرام کے وقت یاد خدا کرنا" (یعنی یاد خدا کریں اور حلال کام انجام دیں اور حرام کاموں سے پرہیز کریں) .
۲۔ نماز، گناہوں سے دوری اور خدا کی طرف سے رحمت و مغفرت حاصل ہونے کا سبب ہے، کیونکہ نماز انسان کو توبہ اور اصلاح نفس کی دعوت دیتی ہے، اسی وجہ سے ایک حدیث میں بیان ہوا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے اپنے ایک صحابی سے سوال کیا: اگر تمہارے مکان کے پاس پاک و صاف پانی کی نہر جاری ہو اور تم روزانہ پانچ مرتبہ اس میں غوطہ لگاؤ تو کیا تمہارے بدن میں گندگی اور کثافت باقی رہے گی؟
اس نے جواب دیا: نہیں (یا رسول اللہ!) ، آپ نے فرمایا: نماز بالکل اسی جاری پانی کی طرح ہے کہ جب انسان نماز پڑھتا ہے تو گنا ہوں کی گند گی دور ہو جا تی ہے اور دو نمازوں کے درمیان انجام دئے گئے گناہ پا ک ہو جا تے ہیں۔(5) گویا نمازانسان کے بدن میں گناہوں کے ذریعہ وارد ہونے والے زخموں کے لئے مرہم کا کام کرتی ہے اور انسان کے دل پر لگے ہوئے زنگ کو چھڑا دیتی ہے۔
۳۔ نماز ، آئندہ گناہوں کے لئے سدّ باب بن جا تی ہے ، کیونکہ نماز انسان میں ایمان کی روح کو مضبوط کرتی ہے اور تقویٰ کے پودے کی پرورش کرتی ہے، اور جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ "ایمان" اور " تقویٰ" گناہوں کے بالمقابل دو مضبوط دیواریں ہیں، اور یہ وہی چیز ہے جس کو مذکورہ آیت میں " نہی از فحشاء و منکر" کے نام سے بیان کیا گیا ہے، اور یہ وہی چیز ہے جس کو متعدد حدیثوںمیں پڑھتے ہیں کہ جب گنہگار لوگوں کے حالات ائمہ علیہم السلام کے سامنے بیان کئے گئے تو فرمایا: غم نہ کرو نماز ان کی اصلاح کردے گی، اور کردی۔
۴۔ نماز؛ انسان کو خواب غفلت سے بیدار کردیتی ہے، راہ حق پر چلنے والوں کی سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ وہ اپنی غرض خلقت کو بھول جاتے ہیں اور مادی دنیا اور زودگزر لذتوں میں غرق ہوجاتے ہیں ، لیکن نماز چونکہ تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر اور شب و روز میں پانچ بار پڑھی جاتی ہے ، مسلسل انسان کو متو جہ اور متنبہ کرتی رہتی ہے اور اس کو غرض خلقت یاد دلاتی رہتی ہے، اور اس دنیا میں اسے اس کی حیثیت سے آگاہ کرتی رہتی ہے، یہ انسان کے پاس ایک عظیم نعمت الٰہی ہے کہ شب و روز پانچ مرتبہ اس کو بھر پور طریقہ پر ہوشیار کرتی ہے۔
۵۔ نماز ؛ خود پسندی اور تکبر کو ختم کرتی رہتی ہے کیونکہ انسان ۲۴ گھنٹوں میں ۱۷/ رکعت نماز پڑھتا ہے اور ہر رکعت میں دو بار اپنی پیشانی کو خدا کی بارگاہ میں رکھتا ہے، اور خدا کی عظمت کے مقابل اپنے کو ایک ذرہ شمار کرتا ہے بلکہ خدا کی عظمت کے مقابل اپنے کو صفر شمار کرتا ہے۔ نماز غرور و خود خواہی کے پردوں کو چاک کردیتی ہے ، تکبر اور برتری کو ختم کردیتی ہے۔
اسی وجہ سے حضرت امام علی علیہ السلام نے اپنی اس مشہور و معروف حدیث میں بیان فرمایا ہے کہ جس میں عبادت کے فلسفہ کو بیان کیا ہے اور ایمان کے بعد سب سے پہلی عبادت کو " نماز" قرار دیتے ہوئے اس مطلب کو واضح فرمایا ہے: " فَرضَ الله الإیمَان تَطھِیْراً مِنَ الشِّرکِ وَالصَّلٰوة تَنْزِیْھاً عَنِ الکِبْرِ"(6) خداوندعالم نے انسان کے لئے ایمان کو شرک سے پاک کرنے کے لئے واجب قرار دیا ہے اور نماز کو غرورو تکبر سے پاک کرنے کے لئے (واجب قرار دیا ہے)
۶۔ نماز ؛ انسان کے لئے معنوی تکامل اور فضائل اخلاقی کی پرورش کا ذریعہ ہے، کیونکہ یہی نماز انسان کو مادہ کی محدودیت اور عالم طبیعت کی چہار دیواری سے باہر نکال کر عالم ملکوت کی طرف دعوت دیتی ہے، جس سے انسان فرشتوں کا ہم صدا اور ہمراز ہوجاتا ہے، اور انسان اپنے کو بغیر کسی واسطہ کے خدا کے حضور میں پاتا ہے اور اس سے گفتگو کرتا ہوا نظر آتا ہے۔
ہر روز اس عمل کی تکرار خداوندعالم کے صفات جیسے رحمانیت اور رحیمیت اور اس کی عظمت کے پیش نظرخصوصاً سورہ حمد کے بعد دوسرے سوروں سے مدد لیتے ہوئے جو نیکیوں اور خوبیوں کی طرف دعوت دیتے ہیں، یہ سب چیزیں انسان میں اخلاقی فضائل کی پرورش کے لئے بہترین اور موثرہیں۔
لہٰذا حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے نماز کے فلسفہ کو اس طرح بیان کیا:" الصَّلاٰةُ قُربَانُ کُلَّ تَقِي " ، (نماز ہر پرہیزگار کے لئے خدا سے تقرب کا وسیلہ ہے) (7)
۷۔ نماز انسان کے دوسرے اعمال کو (بھی) روح اور اہمیت عطا کرتی ہے اس لئے کہ نماز سے اخلاص پیدا ہوتا ہے، کیونکہ نماز خلوص نیت، نیک گفتار اور مخلصانہ اعمال کا مجموعہ ہے، ہر روز یہ عمل انسان کے اندر دوسرے اعمال کا بیج ڈالتا ہے اور روح اخلاص کو مضبوط کرتا ہے۔
لہٰذا ایک مشہور و معروف حدیث میں بیان ہوا ہے کہ حضرت امیر ا لمومنین علی علیہ السلام نے اس وقت اپنی وصیت میں فرمایا جب آپ ابن ملجم کی تلوار سے زخمی ہوچکے تھے اور آپ کا آخری وقت تھا، فرماتے ہیں:
" الله الله فِي الصَّلٰوةِ فَإنَّھَا عَمُودُ دِینِکُمْ " (8)
" خدا را ! خدا را! میں تم کو نماز کی سفارش کرتا ہوں کیونکہ یہی تمہارے دین کا ستون ہے"۔
ہم لوگ اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ جب کسی خیمہ کا ستون ٹوٹ جائے یا گرجائے تو اطراف کی رسّیوں اور کیلوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا ہے خواہ کتنی ہی مضبوط کیوں نہ ہوں، اسی طرح جب نماز کے ذریعہ خدا سے بندوں کا رابطہ ختم ہوجائے تو دوسرے اعمال کا اثر بھی ختم ہوجاتا ہے۔
حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقول ایک حدیث میں بیان ہوا ہے: " اٴوَّلُ مَا یُحاسِبُ بِہِ العَبْدَ الصَّلٰوة فَإنْ قُبِلَتْ قَبلَ سَائرُ عَمَلِہِ ، وَاِنْ رُدَّت رُدَّ عَلَیْہِ سَائرُ عَمَلِہُ " (روز قیامت بندوں میں جس چیز کا سب سے پہلے حساب ہوگا وہ نماز ہے، اگر نماز قبول ہوگئی تو دوسرے اعمال بھی قبول ہوجائیں گے اور اگر نماز ردّ ہوگئی تو دوسرے اعمال بھی ردّ ہوجائیں گے!)
شاید اس کی دلیل یہ ہو کہ نماز خالق و مخلوق کے درمیان ایک راز ہے اگر صحیح طور پر بجالائی جائے تو انسان کے اندر نیت ،اخلاص اور قرب الٰہی پیدا ہوتا ہے جو دوسرے اعمال قبول ہونے کا ذریعہ ہے، ورنہ دوسرے اعمال کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور وہ اپنا اعتبار کھو دیتے ہیں۔
۸۔نماز میں پائے جانے والے مطالب اور مضمون سے قطع نظراگر اس کے شرائط پر توجہ کریں تو وہ بھی اصلاح اور پاکیزگی کی دعوت دیتے ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ نمازی کی جگہ، نماز ی کے کپڑے، جس فرش پر نماز پڑھتا ہے، جس پانی سے وضو یا غسل کیا ہے، جس جگہ وضو یا غسل کیا ہے ، یہ تمام چیزیں غصبی نہیں ہونی چاہئے اور ان کے حوالے سے کسی دوسرے پر ظلم اور تجاوز نہ کیا گیا ہو، جو شخص ظلم و ستم ، سود خوری ، غصب ، ناپ تول میں کمی ، رشوت خوری اور حرام روزی وغیرہ جیسی چیزوں سے آلودہ ہو تو ایسا شخص نماز کے مقدمات کس طرح فراہم کرسکتا ہے ؟ لہٰذا ہر روز پانچ مرتبہ اس نماز کی تکرار دوسروں کے حقوق کی رعایت کی دعوت دیتی ہے۔
۹۔ نماز صحیح ہونے کے شرائط کے علاوہ ، شرائطِ قبول یا بالفاظ دیگر شرائطِ کمال بھی پائے جاتے ہیں جن کی رعایت خود بہت سے گناہوں کو ترک کرنے کا سبب بنتی ہے۔
فقہ اور حدیث کی کتابوں میں بہت سی چیزوں کو " موانع نماز" کے عنوان سے ذکر کیا گیا ہے جن میں سے ایک مسئلہ شراب پینا ہے، روایات میں بیان ہوا ہے کہ " لا تُقبّل صلوٰة شَاربُ الخَمْر اٴرْبعِینَ یَوماً إلاَّ اٴنْ یَتُوبَ"(9) " شراب پینے والے کی نماز، چالیس دن تک قبول نہیں ہوتی، مگر یہ کہ توبہ کرلے"۔
متعدد روایات میں بیان ہوا ہے کہ جن لوگوں کی نماز قبول نہیں ہوتی ان میں سے ایک ظالم افراد کا رہبر ہے ۔ (10)
بعض دوسری روایات میں تصریح کی گئی ہے کہ جو شخص زکوٰة ادا نہیں کرتا اس کی نماز قبول نہیں ہے، اسی طرح دوسری روایات میں بیان ہوا ہے کہ حرام لقمہ کھانے والے یا خود پسندی کرنے والے کی نماز قبول نہیں ہوتی۔ لہٰذا ان تمام احادیث کے پیش نظر یہ بات معلوم ہوجاتی ہے کہ ان تمام شرائط کا فراہم کرنا انسان کی اصلاح کے لئے بہت مفید ہے۔
۱۰۔ نماز کے ذریعہ انسان میں نظم و نسق کی روح طاقتور ہوتی ہے کیونکہ نماز معین وقت پر پڑھی جاتی ہے ، یعنی اگر انسان نماز کو وقت سے پہلے یا وقت کے بعد پڑھے تو اس کی نماز باطل ہوجاتی ہے ، اسی طرح نماز کے دیگر آداب و احکام جیسے نیت ، قیام ، قعود ، رکوع اور سجود وغیرہ کی رعایت سے انسان کے لئے دوسرے کاموں میں بھی نظم کا لحاظ کرنا آسان ہوجاتا ہے۔
نماز کے یہ تمام فائدے اس وقت ہیں جب نماز جماعت سے نہ پڑھی جائے اور اگر نماز کے ساتھ جماعت کی فضیلت کا اضافہ بھی کردیا جائے (کیونکہ نماز کی روح ، جماعت ہے) تو پھر
بے شمار برکتیں نازل ہوتی ہیں ، جس کی تفصیل یہاں بیان نہیں کی جاسکتی ، کم و بیش اکثر مومنین نماز جماعت کی فضیلت سے آگاہ ہیں۔
ہم فلسفہٴ نماز اور اسرارِ نماز کے سلسلہ میں اپنی گفتگو کو حضرت امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام کی ایک بہترین حدیث پر ختم کرتے ہیں:
امام علیہ السلام نے اس خط کے جواب میں اس طرح فرمایا جس میں فلسفہ نماز کے بارے میں سوال کیا گیا تھا:
نماز کو اس لئے واجب قرار دیا گیا ہے کہ اس میںخداوندعالم کی ربوبیت کا اقرار پایا جاتا ہے، اس میں شرک و بت پرستی کا مقابلہ ہوتا ہے ، خدا کی بارگاہ میں مکمل خضوع و خشوع پایا جاتا ہے، انسان اپنے گناہوں کا اقرار کرتا ہے اورخداوندعالم سے اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرتا ہے ، انسان ہر روز عظمت ِپروردگار کے سامنے اپنی پیشانی کو خم کرتا ہے۔
اور نماز کا مقصد یہ ہے کہ انسان ہمیشہ ہوشیار اور متوجہ رہے انسان کے دل پر، بھول چوک کی گرد و غبار نہ بیٹھے ، مست اور مغرور نہ ہو، خاشع اور خاضع رہے ، انسان دین و دنیا کی نعمتوں کو حاصل کرنے کے لئے کوشش کرے۔
جب انسان ہر روز نماز کے ذریعہ ذکر خدا کرتا ہے تویہ سبب بنتا ہے کہ وہ اپنے مولا و آقا ، مدبر اور خالق کو نہ بھولے اور اس پر سرکشی اور غلبہ کرنے کا تصور تک نہ کرے۔
خداوندعالم پر توجہ رکھنا اور خود کو اس کے سامنے حاضر سمجھنا ؛ انسان کو گناہوں سے دور رکھتا ہے اور مختلف برائیوں سے روکتا ہے۔ (11)(12)
**********************************
(1) سورہٴ عنکبوت ، آیت ۴۵
(3،2) مجمع البیان، سورہٴ عنکبوت ، آیت نمبر ۴۵ کے ذیل میں
(4) بحا الانوار ، جلد ۸۲، صفحہ ۲۰۰
(5) وسائل الشیعہ ، جلد ۳، صفحہ ۷ (باب ۲ / از ابواب اعداد الفرائض حدیث۳)
(6) نہج البلاغہ ، کلمات قصار، نمبر ۲۵۲
(7) نہج البلاغہ ، کلمات قصار ، نمبر ۱۳۶
(8) نہج البلاغہ ، خطوط (مکتبوب)(وصیت )۴۷
(9) بحار الانوار ، جلد۸۴، صفحہ ۳۱۷ و۳۲۰
(10) بحار الانوار، جلد۸۴، صفحہ ۳۱۸
(11) وسائل الشیعہ ، جلد ۳، صفحہ ۴
(12) تفسیر نمونہ ، جلد۱۶، صفحہ ۲۸۴
فاتح شام و کوفہ کا کربلا میں ورود
انسانی تاریخ میں ابتدا سے آج تک حق وباطل کے درمیان بہت سی جنگیں ہوئی ہیں لیکن ان تمام جنگوں میں وہ معرکہ اور واقعہ اپنی جگہ پر بے مثل ہے جو کربلا کے میدان میں رونما ہوا، یہ معرکہ اس اعتبار سے بھی بے مثال ہے کہ اس میں تلواروں پر خون کی دھاروں نے، برچھیوں پر سینوں نے اور تیروں پر گلوں نے فتح وکامیابی حاصل کی، اس طرح اس جنگ کا مظلوم آج تک محترم فاتح اور ہر انصاف پسند انسان کی آنکھوں کا تارا ہے جب کہ ظالم ابد تک کے لئے شکست خوردہ اور انسانیت کی نگاہ میں قابل نفرت ہے۔
اس معرکہ میں یزید جیسے فاسق وفاجر حاکم سلطنت کے مقابل خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چھوٹے نواسے سید الشھدا امام حسین علیہ السلام نے اس کی بیعت سے انکار کرتے ہوئے اعلان کیا: ”ہم اہل بیت نبوت ہیں ہم رسالت کے معدن ہیں، ہمارے گھروں میں فرشتوں کی آمد ورفت رہی ہے، خدا نے ہم سے ہی دنیا کا آغاز کیا ہے اور ہم ہی پر اس کائنات کا خاتمہ کرنے والا ہے جب کہ یزید فاسق وفاجر ہے، شراب پیتا ہے، محترم اور بے گناہ انسانوں کا خون بہاتا ہے اور کھلم کھلا گناہ اور برائیاں کرتا ہے لہٰذا میرے جیسے لوگ اس جیسے کی بیعت نہیں کرتے“ اس طرح امام حسین علیہ السلام نے اس اعلان کے ذریعے اپنے ساتھ ماضی اور مستقبل کے تمام حق پسند انسانوں اور ایمان وحقانیت کا پرچم بلند کرنے والوں کی حیثتوں کو واضح کرکے کسی بھی عہد میں ان کے باطل کے آگے نہ جھکنے کا اعلان کردیا۔
بظاہر اس کی بڑی سخت سزا امام حسین علیہ السلام کو دی گئی، آپ کوفہ والوں کی دعوت پر مکہ سے عراق کی طرف روانہ ہوئے، لیکن ابن زیاد جو یزید کی جانب سے کوفہ کا نیا گورنر مقرر ہوا تھا، اس کی سفاکانہ چالوں، شدت پسندی اور مال و دولت اور منصب کی لالچ اور وعدوں کو فریب نیز اس کی طرف سے پھیلائے جانے والے عام خوف وہراس نے اہل کوفہ سے تاریخ کی وہ سب سے بڑی غلطی کرائی جس کے برے اثرات عراق پر آج تک باقی ہیں، دنیا بھی اس کے مکروہ نتائج سے اب تک سرگرداں ہے اور مستقبل میں بھی خدا جانے کب تک اس کا شکار رہے ۔
اہل کوفہ کی اکثریت نے نواسہ رسول امام حسین علیہ السلام سے بے وفائی کی اور شام کے لشکر کے علاوہ آپ کو قتل کرنے کے لئے کربلا پہنچ گئے امام مظلوم نے اپنے ہمراہ کوئی لشکر نہیں لیا بلکہ اپنے چند باوفا ساتھیوں ، اپنے بھائیوں، بھتیجوں اور بھانجوں کے ہمراہ قربانی دی، قربانی کی حکمت کی اپنی مظلومانہ روش کو اختیار کیا جواب میں ظالم اور سفاک وجری ہوگئے اور انہوں نے تین دن تک آپ پر پانی بند کرکے انتھائی درندگی کے ساتھ آپ اور آپ کے ساتھیوں اور اہل خاندان کو شہید کرڈالا، اس طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان نام نھاد امتیوں نے رسول اسلام کی چشم مبارک کے بند ہونے کے چند ہی برسوں بعد آپ کے خاندان کو بڑی درندگی کے ساتھ قتل کردیا بلکہ آنحضرت کی عظمت وحرمت کو بھی امام حسین علیہ السلام کی لاش کے ہمراہ کربلا میں گھوڑوں کی ٹاپوں سے پامال کرڈالا۔
قتل حسین مظلوم کے بعد ان کے خیموں میں آگ لگائی گئی، اور نواسہ رسول اسلام کے گھر کو بڑی بے باکی کے ساتھ لوٹ لیا گیا، رسول زادیوں کے سروں سے چادریں اتار لی گئیں اور امام حسین علیہ السلام کے بیمار بیٹے امام زین العابدین علیہ السلام جو اس معرکہ میں بچ گئے تھے ان کے ہاتھوں اور پیروں میں ہتھکڑیاں اور بیڑیاں اور گلے میں طوق پہنایا گیا، اور انھیں سربرہنہ رسول زادیوں کے ھمراہ کربلا سے اسیر کرکے کوفہ اور وہاں سے شام لے جایا گیا۔
ان مقامات پر اگرچہ امام زین العابدین علیہ السلام بظاہر قیدی تھے لیکن اس کے باوجود اپنی مظلومیت کے ہمراہ اپنے بابا امام حسین علیہ السلام کی بے مثال قربانی اور ان کی مظلومیت اور ان کی حقانیت کا ہر موقع پر اعلان کرتے رہے اور فریضہ امامت کو ادا کرتے رہے، جس کی صرف ایک جھلک یہاں ذکر کر رہے ہیں کہ جب آپ کو اور ایک ہی رسی میں تمام اہل حرم کو باندھ کر یزید لعین کے دربار میں جہاں سات سو کرسی نشینوں کا مجمع تھا، لایا گیا تو آپ نے یزید سے خطاب کرکے فرمایا: اے یزید یہ بتا اگر اس وقت حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تیرے دربار میں آجائیں تو وہ کہاں بیٹھنا پسند کریں گے، تیرے پاس، یا اپنی ان اولاد کے پاس جنھیں تو نے اس طرح رسیوں میں جکڑ کر خاک پر بٹھارکھا ہے؟
لیکن مظلومیت کے اس اسیر شدہ قافلہ کی قیادت و سرداری جس شخصیت کے ہاتھوں میں تھی وہ کربلا کی شیر دل خاتون اور علی جیسے شجاع انسان کی بہادر بیٹی جناب زینب تھیں،اگرچہ آپ کا دل کربلا کے دردناک واقعہ سے ٹکڑے ٹکڑے تھا او راپنی نگاہوں کے سامنے عزیزوں کا اتنہائی سفاکانہ قتل اور اپنے عزیز ترین بھائی یعنی حسین کا گلا شمر لعین کے ہاتھوں کٹتے ہوئے دیکھ کر آپ کی آنکھیں خون کے آنسو رو رہی تھیں اور خاص طور سے آپ کی بے پردگی نے آپ کو نیم جاں بنارکھا تھا، اس کے باوجود آپ نے خاندان رسالت کی مظلومیت، اپنے بھائی حسین کی حقانیت اور بنی امیہ کے ظلم وستم کو آشکار کرنے کے کسی بھی موقع کو ہاتھ سے جانے نہ دیا۔
اہل کوفہ نے جب آل محمد کی اس بے کس بیبیوں کی سربرہنہ اسیری نیز حسین اور ان کی اولاد اور انصار کے کٹے ہوئے سروں کو نیزوں پر بلند دیکھا تو رونے لگے اس وقت جناب زینب نے ان کے سوئے ہوئے ضمیروں کو جھنجھوڑتے ہوئے فرمایا: اب تم رورہے ہو، اے اہل کوفہ تمھیں ہمیشہ رونا نصیب ہو پہلے تم نے ہی میرے بھائی کو خط لکھ کر بلایا اور جب وہ آئے تو ان کے ساتھ دغا کی اور انھیں کربلا میں تین دن کا بھوکا پیاسا قتل کرڈالا، ان کے عزیزوں کو تہہ تیغ کیا اور ان کے بچو ں اور خواتین کو اسیر کرکے بازاروں اور درباورں میں پھرا رہے ہو او رو بھی رہے ہو۔
جب کوفہ اور شام کے بازاروں میں ان اسیروں کی طرف صدقہ کے خرمے پھینکے جارہے تھے تو اس وقت آپ ان نادانوں سے اپنا تعارف کراتے ہوئے فرماتی تھیں: ہماری طرف صدقے کے خرمے نہ پھیکو، ہم آل محمد ہیں اور ہم پر صدقہ حرام ہے۔
اپنے بیمار بھتیجے امام زین العابدین علیہ السلام کے ساتھ ساتھ آپ نے بھی قرآنی آیات اور احادیث رسول اکرم (ص) سے استدلال کرتے ہوئے یزید کے دربار میں ایسی تقریر فرمائی جس نے یزید کو اس کے ہمنواؤں کے سامنے اس طرح بے نقاب کردیا کہ وہ یزید جو اہل حرم کو پہلے دن اپنے دربار میں دیکھ کر غرور کے عالم میں وہ اشعار پڑھنے لگا تھا جس کا مطلب تھا کہ ”بنی ھاشم نے حکومت کے لئے ایک کھیل کھیلا تھا ورنہ نہ تو کوئی وحی آئی اور نہ کوئی رسول آیا اے کاش بدر میں قتل ہونے والے میرے بزرگ زندہ ہوتے اور دیکھتے کہ میں نے بنی ہاشم سے ان کے قتل کا کیسا سخت انتقام لیا ہے“ اب وہی یزید جناب زینب کے خطبوں کے سامنے بغلیں جھانکنے لگا اور اپنا الزام ابن زیاد اور شمر کے سر ڈالنے لگا، جناب زینب کے آتشیں خطبوں اور ان کی مظلومانہ فریاد نے چند دونوں میں ہی حقیقت کھول کر رکھ دی اور اہل شام کو یزید کی کرتوتوں کا پتہ چل گیا، کہ خلیفۃ المسلیمن بن کر وہ باغیوں کے قتل کا مرتکب ہوا ہے وہ کوئی خارجی نہیں بلکہ ان کے رسول کا نواسہ اور ان کی پارہ جگر فاطمہ زہرا کا بیٹا ہے اور یہ قیدی خود آنحضرت کے بچے ہیں جن کے ساتھ اس نے یہ بدسلوکی کی ہے۔ شام کی بدلتی ہوئی فضا نے یزید کو مجبور کردیا کہ وہ جلد از جلد اہل حرم کو رہا کردے اور یہ جناب زینب کی سب سے پہلی کامیابی تھی کہ آپ نے رہائی کے فوراً بعد خود یزید کے گھر یعنی شام میں اپنے بھائی کی صف عزا بچھائی اور وہ اربعین کا دن تھا جب یہ دکھیا بہن اپنے بھائی کا چھلم کرنے کربلا پہنچی تھی اور اپنے بھائی کی قبر پر روتے ہوئے شام کی فتح کا اعلان کیا تھا۔
ہمارا راستہ شہادت و مزاحمت کا راستہ، سید حسن نصر اللہ
حزب اللہ لبنان کے سیکریٹری جنرل نے دشمنوں کے خلاف مزاحمت کی متعدد کامیابیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ مزاحمت کی کامیابیوں نے سازشکارانہ منصوبوں کو علاقے میں ناکام بنادیا ہے اور نئی راہوں کو کھولا ہے۔ العالم کی رپورٹ کے مطابق حزب اللہ لبنان کے سیکریٹری جنرل " سید حسن نصراللہ " نے جنوبی بیروت میں سیدالشھداء کمپلکس میں مزاحمت کے ایک اعلی کمانڈر شہید " حسان اللقیس " کو خراج عقیدت پیش کرنے کے حوالے سے منعقدہ مراسم میں مزاحمت کے شہداء و ان کے کارناموں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ شہید " حسان اللقیس " مزاحمت کے ایک اعلی کمانڈر اور عاشق شہادت تھے اور مزاحمت کے درخشاں سپوت تھے۔ ان شہداء کی ذمہ داریوں کی ماہیت کس اس طرح کی تھی کہ ان کی معارفی کا امکان نہ تھا اور یہ لوگ شہادت سے قبل ہی ناآشنا باقی رہ گئے۔ حزب اللہ لبنان کے سیکریٹری جنرل " سید حسن نصراللہ " نے مزاحمت کے اعلی کمانڈر کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے منعقدہ مراسم میں شرکت پر لوگوں کا شکریہ ادا کیا اور تمام حاضرین کو اس شہادت پر تسلیت پیش کی اور کہا کہ ان شہداء نے دن رات مزاحمت کے راستے میں خدمت کی تھی اور ان شہداء کے اہل خانہ نے بھی اس حوالے سے مزاحمت کے راستے میں جاں فشانی کی ہے۔ حزب اللہ لبنان کے سربراہ نے اپنے خطاب میں کہ مختلف ٹی وی چینلوں منجملہ العالم پر براہ راست نشر ہوا کہا کہ امید ہے کہ ایک دن ایسا آئے کہ کھل کر شہداء خاصطور پر مزاحمت کے کمانڈروں کے کارنامے اور ان کی شخصیت کے بارے میں بات کی جائے۔ " سید حسن نصراللہ " نے شہید " حسان اللقیس " کی شخصیت کے بارے میں کہا کہ وہ عاشق شہادت تھے اور مزاحمت کے عظیم سپوت تھے اور ان کی شہادت کے حوالے سے تحقیقات کا عمل جاری ہے۔ حزب اللہ لبنان کے سربراہ نے مزید کہا کہ دشمن برسوں سے برین وار کی بات کررہا ہے اور مزاحمت کا ایک عظیم برین شہید " حسان اللقیس " تھے اور شہید " حسان " ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ دشمن کے ساتھ جنگ ختم نہیں ہوئی ہے اور شہید " حسان " سب کو دوست رکھتے تھے۔ " سید حسن نصراللہ " نے تاکید کی شہید " حسان اللقیس " کی دانشمندی ہی کی وجہ سے صہیونی دشمن نے انہیں نشانہ بنایا ہے اور صہیونی ذرائع ابلاغ و میڈیا کے ذریعے سامنے آنے والی رپورٹوں سے نشاندہی ہوتی ہے کہ دشمن نے اس قتل کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔ حزب اللہ لبنان کے سربراہ " سید حسن نصراللہ " نے کہا کہ ہم نے دشمن پر اپنی کامیابیوں ، مزاحمت کی ضرورت ، مزاحمت کے مقام و منزلت کی بقا اور دشمن کے ساتھ مقابلے کے لئے آمادگی کی قیمت ادا کی ہے اور کررہے ہیں اور مزاحمت کی کامیابیوں نے سازشی منصوبوں اور تسلیم ہونے کو جڑ سے ختم کردیا ہے اور نئی راہوں کو کھولا ہے۔ حزب اللہ لبنان کے سربراہ " سید حسن نصراللہ " نے اس موقع پر کہا کہ حزب اللہ کی کوشش دشمن کے مقابلے میں ملک کا دفاع کرنا اور کرامت و اقدار کا تحفظ ہے اور ہمارے وہ کمانڈر کے جو قتل کردیئے گئے ہیں ، دشمن کے ساتھ ہونے والے معرکہ کے مرکزی کردار تھے۔ حزب اللہ کے سربراہ نے کہا کہ مزاحمت کی کامیابیوں نے سازشی منصوبوں کی بیخ کنی کی ہے اور علاقے میں نئے روشن افق کھولے ہیں۔ " سید حسن نصراللہ " نے مزید کہا کہ شام میں ہمارے شہداء کی تعداد کے بارے میں شائع ہونے والے اعداد و شمار جھوٹ پر مبنی اور مزاحمت کے خلاف نفسیاتی جنگ کا حصہ ہیں اور اندرونی لحاظ سے بھی حزب اللہ لبنان کے خلاف جنگ کا ، لبنان کے سیاسی مسائل سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اس بات کو ہوا دینا ، مزاحمت کو نقصان پہنچانے کے لئے ہے۔ حزب اللہ لبنان کے سربراہ نے کہا کہ ہمارا راستہ شہادت و مزاحمت کا راستہ ہے اور ہم اس راہ میں مزید شہداء پیش کرنے کے لئے آمادہ ہیں اور مزاحمت میں کشیدگی کی فضاء دیکھا نے کے لئے دشمن کی کوشیشیں خام خیالی اور ایک خواب کے علاوہ اور کچھ نہیں ہیں۔ " سید حسن نصراللہ " نے مزید کہا کہ ابھی عام رضاکار کو دعوت دینے کا وقت نہیں آیا ہے اور مستقبل میں بھی اس کی ضرورت کا احساس نہیں کیا جارہا ہے۔ حزب اللہ لبنان کے سربراہ نے تاکید کی کہ قاتلوں کو کیفرے کردار تک ضرور پہنچایا جائے گا اور شہداء کے خون کو رائیگاں جانے نہیں دینگے اور جن لوگوں نے ہمارے بھائیوں کو شہید کیا ہے وہ ہرگز امان میں نہیں رئینگے۔ " سید حسن نصراللہ " نے وضاحت کی کہ شہید " حسان اللقیس " کے خون کا انتقام دنیا کے ہر کونے میں ہو لیا جائے گا۔ حزب اللہ لبنان کے سربراہ نے لبنان کے سابق وزیر اعظم " سعد حریری " کی قیادت میں 14 مارچ گروہ کے بیان کو ایک خطرناک قرار دیا اور کہا کہ طرابلس میں جو بیان جاری ہوا ہے اس میں ہم کو تکفیری ، انحصار پسند ،دہماکوں کا عامل اور قاتل قرار دیا گیا ہے۔ " سید حسن نصراللہ " نے وضاحت کی کہ طرابلس کے بیانیہ کا مقصد و ہدف حزب اللہ کے خلاف اعلان جنگ کرنا ہے ، لیکن حزب اللہ کا مقابلہ اسرائیل کے ساتھ ہے نہ کہ اندرونی سیاسی دشمنوں کے ساتھ ، البتہ حزب اللہ اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دے گی کہ کوئی اس کے ساتھ کھیلے۔ حزب اللہ لبنان کے سربراہ " سید حسن نصراللہ " نے لبنان کے مقابل سیاسی گروہوں سے مطالبہ کیا کہ دوستی کے لئے واپسی کے دروازے کھلے رکھیں۔ حزب اللہ کے سربراہ نے طرابلس و صیدا شہروں میں رونما ہونے والے حالیہ واقعات اور لبنان فوجیوں پر حملے کے حوالے سے کہا کہ کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ لبنانی فوج پر حملوں کے خطرے کو کم اہمیت ظاہر کرے اور ہم لبنانی فوج کی مکمل حمایت کرتے ہیں ، کیونکہ یہ وہ واحد ادارہ ہے کہ جو ابھی تک قومی اتفاق رائے اور احترام کا حامل ہے اور ہم نے ہمیشہ فوج کی حمایت کی ہے اور اس کو جاری رکھیں گے۔ حزب اللہ لبنان کے سربراہ نے مزید کہا کہ ابھی بھی ہم ، متحدہ قومی حکومت کی تشکیل کے خواہاں ہیں اور غیر جانبدار حکومت کی دعوت دہوکہ دہی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے ، کیونکہ لبنان میں غیرجانبداری کا کوئی وجود نہیں ہے۔ "سیدحسن نصراللہ" نے مزید کہا کہ اس خطرناک مرحلے میں لبنان کی تنہا راہ نجات " متحدہ قومی حکومت " ہے۔ حزب اللہ لبنان کے سربراہ نے کہا کہ میری نظر میں کوئی بھی یہ نہیں چاہتا کہ اس ملک کی صدارت میں کوئی خلاء پیدا ہو۔ "سیدحسن نصراللہ" نے مزید کہا کہ حقیقی حاکمیت یہ ہے کہ صدر کو بغیر بیرونی دباؤ کے منتخب کریں اور ہم سیاسی خلاء کے اصولی طور پر مخالف ہیں اور ہماری تمام تر کوشش یہ رہے گی کہ صدر کا انتخاب اپنے معینہ وقت پر انجام پائے۔ حزب اللہ لبنان کے سیکریٹری جنرل نے شام میں تکفیری سلسلوں کو نہ صرف اقلیتوں بلکہ تمام لوگوں کے لئے خطرہ قراردیا اور کہا کہ شام میں رونما ہونے والی تبدیلیاں ، ملت شام ، لبنان ، علاقے اور مسئلہ فلسطین کے لئے بڑا خطرہ ہیں۔ " سید حسن نصراللہ " نے تاکید کی کہ شام میں حزب اللہ کی موجودگی کو تمام مشکلات سے ربط دینا غیر منطقی بات ہے اور دباؤ ، شام کے حوالے سے حزب اللہ کے موقف میں کسی قسم کی تبدیلی پیدا نہیں کرسکتا، کیونکہ یہ جنگ ، موجودیت کی جنگ ہے۔ حزب اللہ لبنان کے سربراہ نے وضاحت کی ہمارا شہداء ہماری عزت و غیرت ہیں ، لہذا جس کسی نے بھی ان کی توہین کی گویا اس نے ہماری عزت و غیرت کی توہین کی ہے۔ حزب اللہ لبنان کے سیکریٹری جنرل " سید حسن نصراللہ " نے کہا کہ شام میں ہماری موجودگی ، لبنان میں حکومت یا تشکیل حکومت کا مسئلہ نہیں ہے ، بلکہ یہ موضوع اس سے کہی زیادہ گہرا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بعض عوامل غم غصہ ، کینہ و دشمنی اور شکست کی وجہ سے یہ چاہتے ہیں کہ ملک کو بارود کے ڈھیر کی طرف لے جائیں۔ اس درمیان خطرناک و نئے مسائل بھی موجود ہیں کہ ہم سب کو اس مرحلے میں نہایت ہی دقت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
غاصب صہیونی حکومت، حسان اللقیس کے قتل کی ذمہ دار
حزب اللہ لبنان کے سربراہ نے غاصب صہیونی حکومت کو اپنے ایک اعلی کمانڈر کے حالیہ قتل کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ تسنیم نیوز کی رپورٹ کےمطابق " سید حسن نصراللہ " نے آج حزب اللہ کے شہداء کو خراج عقیدت پیش کیئے جانے کے حوالے سے منعقدہ مراسم میں خطاب کرتے ہوئے کہ کہ " حسان اللقیس " کی شہادت کے حوالے سے ابھی تک جتنے بھی شواہد ہاتھ آئے ہیں اس سے نشاندہی ہوتی ہے کہ اس قتل میں صہیونی حکومت کا ہاتھ ہے اور یہ بات ٹھوس و مستند دستاویزات کی بنیاد پر کہی جارہی ہے۔ حزب اللہ لبنان کے سربراہ " سید حسن نصراللہ " نے کہا کہ " شہید حسان اللقیس" مزاحمت کا ایک عظیم متفکر تھا اور صہیونی حکومت بھی مزاحمت کے ان متفکروں کی جنگ کا اعتراف کرچکی ہے۔ واضح رہے کہ حزب اللہ کے اعلی کمانڈر " حسان اللقیس " کو تین دسمبر2013 کو جنوبی بیروت میں ان کے گھر کے سامنے فائرنگ کا نشانہ بنا کرشہید کردیا گیا تھا۔ دوسری جانب صہیونی ذرائع ابلاغ اور صہیونی حکومت کی جاسوسی کی تنظیم نے اشارتا اس قتل کا اعتراف بھی کیا ہے ، لیکن صہیونی حکومت نے حزب اللہ کے انتقام کے خوف سے ہمیشہ کی مانند اس دھشتگردانہ اقدام کو مسترد کیا ہے۔
سری لنکا: مساجد میں نمازپڑھنے پرپابندی
سری لنکا کی اسلامی کونسل اوراسلامک انفارمیشن سنٹرکے سربراہ محمد امین نے کہا ہے کہ مسلمانوں کو مساجد میں نمازپڑھنے سے روکنے کے اقدام کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور اس ملک میں مسلمان اقلیتوں کے حقوق پرڈاکہ ڈالنے کے مترادف قراردیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا ہے کہ ملک میں ایسا کوئی قانون موجود نہیں ہے کہ جس کے ذریعے مساجد کوبدھوں کے امورکی وزارت میں درج کیا جائے بلکہ مساجد، سری لنکا کی وزارت مذہبی امور اورمحکمہ اوقاف سے وابستہ دو میں سے کسی ایک انسٹی ٹیوٹ میں درج کیا جاتا ہے لہذا مسلمانوں کومساجد میں نمازنہ پڑھنے کے اقدام کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
سری لنکا کی اسلامی کونسل کے سربراہ نے کہا ہے کہ ان نسل پرستانہ اقدامات کے پیچھے ایک شدت پسند بدھ مت پادری کا ہاتھ ہے لہذا مسلمانوں کو اس قسم کے مسائل کے حل کے لیے مربوطہ حکام سے گفتگو کرنی چاہیے۔
یادرہے کہ چند روزپہلے سری لنکا کی پولیس نے مسلمانوں کو "دہیولا" شہرکی بعض مساجد میں نمازپڑھنے کی اجازت نہیں دی تھی۔




















![جناب خدیجہ کبری[س] کی سیرت](/ur/media/k2/items/cache/ef2cbc28bb74bd18fb9aaefb55569150_XS.jpg)
