Super User
ایران کا دعوت نامہ واپس لیا جانا بڑی غلطی
روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے جنیوا ٹو عالمی اجلاس میں شرکت کے لئے ایران کا دعوت نامہ واپس لئے جانے کو بڑی غلطی قرار دیا ہے۔ ارنا کی رپورٹ کے مطابق ماسکو ميں سالانہ پريس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے روسي وزير خارجہ سرگئي لاورف نے کہا کہ جنيوا دو کانفرنس ميں اقوام متحدہ کي جانب سے ايران کو ديئے جانے والے دعوت نامے پر امريکہ کا منفي رويہ انتہائي حيرت انگيز ہے- انہوں نے کہا کہ امريکي وزير خارجہ اعلانيہ اور غير اعلانيہ طور پر اس اجلاس ميں ايران کي اہمیت کا اعتراف کرچکے تھے- انہوں نے کہا کہ جينوا دو اجلاس ميں ايسے تمام غير ملکی فريقوں کو شريک کيا جانا چاہيے جو اس معاملے ميں اثرانداز ہو سکتے ہيں- روسي وزير خارجہ نے کہا کہ کانفرنس کو نتيجہ خيز بنانے کے لئے خطے کے تمام ملکوں کو دعوت دي گئي تھي ليکن ايران سے دعوت نامہ واپس ليا جانا انتہائي شرمناک ہے- سرگئي لاو روف نے مزيد کہا کہ شام کے بحران سے متعلق تمام معاملات کو حکومت اور مخالفين کےدرميان اتفاق رائے سے حل کيا جانا چاہيے- انہوں نے يہ بات زور ديکر کہي کہ اقوام متحدہ کے سيکريٹري جنرل کا يہ کہنا صرف ايک بہانہ ہے کہ ايران جنيوا ايک کے فيصلے قبول کرنے پر تيار نہيں ہے- سرگئي لاوروف نے واضح کيا کہ جينوا ايک اجلاس کے بيان ميں صرف قومي ڈائلاگ شروع کرنے کي بات کي گئي تھي ليکن بعض ممالک شامي حکومت کو تبديل کرنے کي کوشش کر رہے ہيں تو پھر جينوا دو اجلاس ميں کسي بھي ملک کو بلانے کي ضرورت نہيں ہے-
اعلی حکام اور وحدت اسلامی کانفرنس کے مہمانوں سے خطاب

اعلی حکام اور وحدت اسلامی کانفرنس کے مہمانوں سے خطاب؛
وحدت اسلامی آج کی اہم ترین ضرورت
دشمنان اسلام تفرقہ ڈال کر فلسطین کر امت کے ایجنڈے سےا مسئلہ فراموش کروانا چاہتے ہیں
رپورٹ کے مطابق اسلامی جمہوری نظام کے اعلی حکام اور عالمی وحدت اسلامی کانفرنس کے شرکاء نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ اور امام جعفر بن محمد الصادق علیہما السلام کی ولادت باسعادت کے موقع پر سے رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی امام سید علی الخامنہ (حفظہ اللہ تعالی) سے ملاقات کی اور رہبر انقلاب نے اس موقع پر حاضرین سے خطاب فرمایا۔
امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) کے خطاب کا متن:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہدیۂ تبریک و تہنیت عرض کرتا ہوں، پیامبر اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے میلاد مبارک اور آپ(ص) کے فرزند ارجمند امام صادق (علیہ الصلوۃ والسلام) کی پربرکت ولادت کے موقع پر اس اجتماع میں تشریف فرما، آپ حاضرین محترم، ہفتہ وحدت کے عزیز مہمانوں اور اسلامی ممالک کے سفراء اور تمام ذمہ داران اور بزرگوار سرکاری حکام ـ جنہوں نے ملک کی بھاری ذمہ داریاں سنبھالی ہوئی ہیں ـ کو؛ نیز مبارکباد عرض کرتا ہوں ملت ایران کو اور تمام مسلمانان عالم کو، بلکہ تمام عالمی حریت پسندوں کو۔
یہ مبارک میلاد ایسی برکتوں کا سرچشمہ ہے جو صدیوں کے دوران بنی نوع انسان کے ہر فرد پر نازل ہوتی رہی ہیں؛ اور ملتوں کو، انسانوں کو اور انسانیت کو اعلی ترین انسانی، فکری اور روحانی عوالم اور شاندار تہذیب اور شاندار زندگی کے لئے روشن پیش منظر پیش کرتی رہی ہیں۔ جو کچھ اس ولادت مبارکہ کی سالگرہ کے موقع پر عالم اسلام اور مسلم امہ کے لئے اہم ہے وہ یہ ہے کہ اسلامی معاشرے کی تشکیل کے سلسلے میں رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی توقعات کو مد نظر رکھیں، اور کوشش کریں اور مجاہدت و جدوجہد کریں تاکہ یہ توقات پوری ہوجائيں؛ دنیائے اسلام کی سعادت اسی میں ہے اور بس۔ اسلام بنی نوع انسان کی آزادی کے لئے آیا، استبدادی اور ظالم مشینریوں کی قید و بند اور دباؤ سے انسان کے مختلف طبقوں کی آزادی اور انسانوں کے لئے حکومت عدل کے قیام کے لئے بھی اور انسان کی زندگی پر مسلط اور انسانی زندگی کو اس کی مصلحتوں کے برعکس سمت کھولنے والے افکار، اوہام (و خرافات) اور تصورات سے آزادی کے لئے بھی۔
امیر المؤمنین علیہ الصلاۃ والسلام نے ظہور اسلام کے دور میں عوام کی زندگی کو "فتنے کا ماحول" قرار دیا ہے اور فرمایا ہے: "فى فِتَنٍ داسَتهُم بِاَخفافِها وَ وَطِئَتهُم بِاَظلافِها" (1) فتنے سے مراد وہ غبار آلود ماحول ہے جس میں انسان کی آنکھیں کچھ دیکھنے سے عاجز ہیں؛ انسان راستہ نہيں دیکھتا، مصلحت کی تشخیص سے عاجز ہے، یہ ان لوگوں کی صورت حال تھی جو اس مصائب بھرے اور پرملال خطے میں زندگی بسر کررہے تھے۔
بڑے ممالک میں، اس زمانے کی تہذیبوں میں بھی ـ جن کے پاس حکومتیں تھیں ـ یہی صورت حال مختلف شکل میں پائی جاتی تھی۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ ہم کہہ دیں کہ ظہور اسلام کے ایام میں جزیرۃالعرب کے عوام بدبخت اور بیچارے تھے اور دوسرے خوشبخت تھے؛ نہیں، ستمگر اور ظالم حکومتیں، انسان اور انسانیت کی شان و منزلت کو نظر انداز کرنے، طاقتوں کے درمیان طاقت کے حصول کے لئے تباہ کن جنگوں کی آگ بھڑکائے جانے، نے لوگوں کی زندگی تباہ کردی تھی۔
تاریخ کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دن کی دو معروف تہذیبیں ـ یعنی ساسانی ایران کی تہذیب اور سلطنت روم کی تہذیب ـ کی صورت حال کچھ اس طرح سے تھی کہ ان معاشروں میں زندگی بسر کرنے والے عوام اور مختلف طبقات کے حال پر انسان کا دل ترس جاتا ہے؛ ان کی زندگی کی صورت حال نہایت افسوسناک ہمدردی کے قابل تھی، وہ اسیری کی زندگی گذارنے پر مجبور تھے۔ اسلام نے آکر انسان کو آزاد کردیا؛ یہ آزادی، سب سے پہلے انسان کے دل اور اس کی روح کے اندر معرض وجود میں آتی ہے؛ اور جب انسان آزادی کو محسوس کرتا ہے، جب وہ غلامی کی زنجیریں توڑنے کی ضرورت محسوس کرتا ہے، اس کی قوتیں اس احساس کے زیر اثر آتی ہیں اور اگر وہ ہمت کرے اور اٹھ کر حرکت کرے، اس کے لئے آزادی کی عملی صورت معرض وجود میں آتی ہے؛ اسلام نے انسانوں کے لئے یہ کام سرانجام دیا؛ آج بھی وہی پیغام موجود ہے پوری دنیا میں اور عالم اسلام میں۔
بنی نوع انسان کی آزادی کے دشمن انسانوں کے اندر آزادی کی سوچ کو مار ڈالتے ہیں اور ختم کردیتے ہیں؛ جب آزادی کی فکر نہ ہوگی؛ آزادی کی طرف پیشرفت بھی سست ہوجائے گی یا مکمل طور پر ختم ہوجائے گی۔ آج ہم مسلمانوں کی ذمہ داری یہ ہے کہ اسلام کے مد نظر آزادی تک پہنچنے کی کوشش کریں؛ مسلم اقوام کا استقلال و خودمختاری، پوری اسلامی دنیا میں عوامی حکومتوں کا قیام، قومی و ملکی فیصلوں اور اپنی قسمت کے فیصلوں میں عوام کے فرد فرد کی شراکت داری اور اسلامی شریعت کی بنیاد پر آگے کی جانب حرکت، وہی چیز ہے جو ملتوں اور قوموں کو نجات دلائے گی۔
البتہ آج مسلم قومیں محسوس کرتی ہیں کہ انہیں اس اقدام کی ضرورت ہے اور پوری اسلامی دنیا میں یہ احساس پایا جاتا ہے اور بالآخر یہ احساس نتیجہ خيز ثابت ہوگا، بلا شک۔
اگر قوموں کے ممتاز افراد ـ خواہ وہ علمی و سائنسی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں چاہے دینی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں ـ اپنے فرائص کو بحسن و خوبی نبھائیں، تو عالم اسلام کا مستقبل مطلوبہ مستقبل ہوگا؛ اس مستقبل کے سلسلے میں امیدیں موجود ہیں۔ اسی مقام پر دشمنان اسلام ـ جو اسلامی بیداری کے دشمن ہیں، اقوام عالم کی آزادی و استقلال کے مخالف ہیں ـ میدان میں اتر آتے ہیں؛ اسلامی معاشروں کو معطل رکھنے کی قسماقسم کوششیں عمل میں لائی جاتی ہیں اور ان میں سب سے زيادہ اہم اختلاف و انتشار پھیلانا ہے۔ استکباری دنیا 65 برسوں سے ـ اپنی پوری قوت کو بروئے کار لاکر ـ صہیونی ریاست کی موجودگی کو مسلم اقوام پر ٹھونسنے اور انہیں اس واقعیت (Reality) کو تسلیم کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کررہی ہے اور وہ ناکام رہی ہے۔ ہمیں (صرف) بعض ممالک اور حکومتوں کی طرف نہیں دیکھنا چاہئے جو اپنے اجنبی دوستوں کے مفاد کے لئے اپنے قومی مفادات کو پامال کرنے یا اسلامی مفادات کو بھلا دینے کے لئے بھی تیار ہیں جبکہ یہ اجنبی دوست اسلام کے دشمن ہیں؛ اقوام صہیونیوں کی (علاقے میں) موجودگی کے خلاف ہیں۔ 65 برسوں سے فلسطین کو یادوں سے نکالنے کی کوشش کررہے ہیں، مگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ حالیہ چند سالوں کے دوران ـ لبنان کی 33 روزہ جنگ میں اور غزہ کی 22 روزہ جنگ میں اور دوسری مرتبہ آٹھ روزہ جنگ میں ـ مسلم ملت اور اسلامی امہ نے ثابت کرکے دکھایا کہ وہ زندہ ہے، اور امریکہ اور دوسری مغربی قوتوں کی وسیع سرمایہ کاری کے باوجود اپنے وجود اور اپنے تشخص کو محفوظ رکھنے اور مسلط کردہ جعلی صہیونی نظام کو طمانچہ مارنے میں کامیاب ہوئی ہے؛ اور ظالم صہیونیوں کے آقاؤں، دوستوں اور حلیفوں کو ـ جو اس عرصے کے دوران اس مسلط کردہ ظالم اور جرائم پیشہ نظام کو تحفظ دینے کے لئے کوشاں رہے ہیں ـ ناکامی کا منہ دکھا چکی ہے؛ اسلامی امہ نے ثابت کرکے دکھایا کہ اس نے فلسطین کو نہیں بھلایا؛ یہ بہت اہم مسئلہ ہے؛ ان ہی حالات میں دشمن کی تمام تر توجہ اس مسئلے کی طرف مبذول کی جاتی ہے کہ اسلامی امت کو فلسطین کی یاد سے غافل کردے؛ لیکن وہ کیونکر؟ اختلاف و انتشار پھیلانے کے ذریعے، خانہ جنگیوں کے ذریعے، اسلام اور دین و شریعت کے نام پر منحرف انتہا پسندی کی ترویج کے ذریعے؛ وہ یوں کہ کچھ لوگ عام مسلمانوں اور مسلمانوں کی اکثریت کی تکفیر کا اہتمام کریں۔
ان تکفیری گروپوں کا وجود ـ جو عالم اسلام میں نمودار ہوئے ہیں ـ استکبار کے لئے اور عالم اسلام کے دشمنوں کے لئے ایک بشارت اور ایک خوشخبری ہے۔ یہی گروپ ہیں جو صہیونی ریاست کی خبیث واقعیت کو توجہ دینے کے بجائے، مسلمانوں کی توجہ کو دوسری سمت مبذول کرا دیتے ہیں۔ اور یہ وہی نقطہ ہے جو اسلام کے مطمع نظر کے بالکل برعکس ہے؛ اسلام نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ "اَشِدّاءُ عَلَى الكُفّارِ رُحَماءُ بَينَهُم"(۲) [رہیں]؛ مسلمانوں کو دین کے دشمنوں کے مقابلے میں میں سخت ہونا چاہئے اور ان کے زیر تسلط نہیں آنا چاہئے؛ "اَشِدّاءُ عَلَى الكُفّار" عینا قرآن کی آیت کریمہ ہے۔ آپس میں مہربان اور ترس والے ہوں، ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دیں، اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھیں، یہ اسلام کا حکم ہے؛ اسی اثناء میں ایک تفکر اور ایک جماعت معرض وجود میں آئے جو مسلمانوں کو تقسیم کرے مسلم اور کافر میں! بعض مسلمانوں کو کافر کی حیثیت سے نشانہ بنائے، مسلمانوں کو ایک دوسرے سے لڑا دے! کون اس حقیقت میں شک کرسکتا ہے کہ ان گروپوں کو وجود میں لانے، ان کی حمایت و پشت پناہی، انہیں مالی امداد دینا اور ان کو ہتھیاروں سے لیس کرنا اسکبار کا کام ہے اور استکباری حکومتوں کی خبیث خفیہ ایجنسیوں کا کام ہے؟ وہ بیٹھ کر اسی کام کے لئے منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ عالم اسلام کو اس مسئلے کی طرف توجہ دینی چاہئے؛ یہ ایک عظیم خطرہ ہے۔ افسوس ہے کہ بعض اسلامی حکومتیں، حقائق کو نظرانداز کرتے ہوئے ان اختلافات کو ہوا دیتی ہیں؛ وہ سمجھتے نہیں ہیں کہ ان اختلافات کو ہوا دینے کے نتیجے میں ایسی آگ بھڑک اٹھے گی جو سب کا دامن پکڑ لے گی؛ یہ استکبار کی خواہش ہے: مسلمانوں کے ایک گروپ کی جنگ دوسرے گروپ کے خلاف۔ اس جنگ کا سبب و عامل بھی وہی لوگ ہیں جو مستکبر قوتوں کے کٹھ پتلی حکمرانوں کی دولت سے فائدہ اٹھاتے ہیں؛ کہ آکر اس ملک میں اور اُس ملک میں لوگوں کے درمیان جھگڑا کھڑا کردیں؛ اور استکبار کی طرف سے اس اقدام میں حالیہ تین چار برسوں کے دوران ـ جب سے بعض اسلامی اور عرب ممالک یں اسلام بیداری کی لہریں اٹھی ہیں ـ بہت زیادہ شدت آئی ہے؛ تاکہ اسلامی بیداری کو دیوار سے لگادیں؛ اور ساتھ ہی دشمن کی تشہیری مشینریوں کے ذریعے تنکے کو پھاڑ بناتے ہوئے اسلام کو دنیا کی رائے عامہ کے سامنے بدصورت ظاہر کریں؛ جب ٹیلی ویژن چینل ایک شخص کو دکھاتے ہیں جو اسلام کے نام سے ایک انسان کا جگر چباتا ہے اور کھتا ہے؛ تو لوگ اسلام کے بارے میں کیا سوچیں گے؟ دشمنان اسلام نے منصوبہ بندی کی ہے؛ یہ ایسی چیزیں نہیں ہیں جو یکایک معرض وجود میں آئی ہوں بلکہ ایسی چیزیں ہیں جن کے لئے عرصے سے منصوبہ بندی ہوئی ہے۔ ان اقدامات کے پس پردہ پالیسی سازی ہے؛ ان کی پشت پر پیسہ ہے؛ ایسے اقدامات کے پس پردہ جاسوسی ادارے ہیں۔
مسلمانوں کو ہر اس عنصر کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہئے جو وحدت کا مخالف ہو اور وحدت کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ یہ ہم سب کے لئے بہت بھاری فریضہ ہے؛ شیعہ کو بھی یہ فریضہ قبول کرنا پڑے گا اور مختلف شعبوں کو بھی یہ فریضہ سنبھالنا پڑے گا جو اہل تشیع اور اہل سنت کے اندر پائے جاتے ہیں۔
وحدت سے مراد مشترکات کا سہارا لینا ہے، ہمارے پاس بہت سے مشترکات ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان اشتراکات اختلافی مسائل سے کہیں زیادہ ہیں؛ انہیں اشتراکات کا سہارا لینا چاہئے۔ اہم فریضہ اس حوالے سے ممتاز افراد و شخصیات پر عائد ہوتا ہے؛ خواہ وہ سیاسی شخصیات ہوں، خواہ علمی ہوں یا دینی ہوں۔ علمائے اسلام لوگوں کو فرقہ وارانہ اور مذہبی اختلافات کو ہوا دینے اور شدت بخشنے سے باز رکھیں۔ جامعات کے اساتذہ طلبہ کو آگاہ کریں اور انہیں سمجھا دیں کہ آج عالم اسلام کا اہم ترین مسئلہ وحدت کا مسئلہ ہے۔ اتجاد اہداف کے حصول کے لئے؛ سیاسی استقلال و خودمختاری کا ہدف، اسلامی جمہوریت کے قیام کا ہدف، اسلامی معاشروں میں اللہ کے احکام کے نفاذ کا ہدف؛ وہ اسلام جو آزادی اور حریت کا درس دیتا ہے، اسلام جو انسانوں کو عزت و شرف کی دعوت دیتا ہے؛ یہ آج فریضہ ہے۔
سیاسی شعبے کے ممتاز افراد بھی جان لیں کہ ان کی عزت اور ان کا شرف قوموں کے فرد فرد کے سہارے قابل حصول ہے، نہ کہ بیگانہ اور اجنبی قوتوں کے سہارے، نہ کہ ان افراد کے سہارے جو پوری طرح اسلام کے دشمن ہیں۔
کسی وقت ان علاقوں میں استکباری قوت حکومت کرتی تھی؛ امریکی پالیسی اور قبل ازاں برطانیہ یا بعض دوسرے یورپی ممالک کی پالیسیاں حکم فرما تھیں؛ اقوام نے رفتہ رفتہ اپنے آپ کو ان کی بلا واسطہ تسلط سے چھڑا لیا؛ وہ (استکباری طاقتیں) بالواسطہ تسلط کو ـ سیاسی تسلط کو، معاشی تسلط کو، ثقافتی تسلط کو ـ استعمار کے زمانے کے براہ راست تسلط کے متبادل کے طور پر، جمانا چاہتی ہیں؛ گوکہ وہ دنیا کے بعض خطوں میں براہ راست تسلط جمانے کے لئے بھی میدان میں آرہے ہیں؛ افریقہ میں آپ دیکھ رہے ہیں کہ بعض یورپی ممالک وہی پرانی بساط دوبارہ بچھانے کی کوشش کررہے ہیں؛ راہ حل، "اسلامی بیداری" ہے؛ راہ حل اسلامی ملتوں کی شان و منزلت کی پہچان ہے؛ اسلامی ملتوں کے پاس وسیع وسائل ہیں، حساس جغرافیایی محل وقع کی حامل ہیں، بہت زیادہ قابل قدر و وقعت اسلامی ورثے کی حامل ہیں، بےمثل معاشی وسائل سے سرشار ہیں؛ اگر ملتیں آگاہ ہوجائيں، اپنے آپ کو پا لیں، اپنے پیروں پر کھڑی ہوجائیں، ایک دوسرے کو دوستی کا ہاتھ دیں، یہ علاقہ ایک نمایاں اور درخشاں علاقہ بن جائے گا، اور عالم اسلام عزت و کرامت و آقائی کا دور دیکھے گا؛ یہ وہ چیزیں ہیں جو مسقبل میں انشاء اللہ واقع ہونگی؛ ان کی نشانیاں اس وقت بھی دیکھی جاسکتی ہیں: ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی، اس حساس علاقے میں اسلامی جمہوری نظام کا قیام، اسلامی جمہوری نظام کا استحکام۔
امریکہ سمیت استکاری قوتوں نے گذشتہ 35 برسوں سے اسلامی جمہوری نظام اور ملت ایران کے خلاف ہر وہ حربہ آزما لیا ہے جو وہ آزما سکتی تھیں؛ ان کی سازشوں کے برعکس، ملت ایران اور اسلامی جمہوری نظام روز بروز زیادہ طاقتور، زیادہ مستحکم، پہلے سے کہیں زيادہ صاحب قوت ہوچکا ہے اور پہلے سے کہیں زیادہ اور رسوخ حاصل کرچکا ہے، اور انشاء اللہ اس استحکام، اس استقرار اور اس قوت میں اضافہ ہوگا؛ عالم اسلام میں بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ آج نسلوں کی آگہی، اسلام اور اسلام کے مستقبل کے حوالے سے نوجوانوں کی آگہی پہلے کی نسبت کہیں زیادہ ہے اور بعض حوالوں سے ماضی کی نسبت ان کی آگہی بہت زیادہ ہے۔ البتہ دشمن اپنی کوششیں بروئے کر لاتا رہتا ہے لیکن ہم اگر زیادہ توجہ اور بصیرت سے کام لیں تو دیکھ لیں گے کہ اسلامی تحریک کی یہ لہر ان شاء اللہ رو بہ ترقی ہے۔
اللہ کی رحمت ہو ہمارے امام بزرگوار پر، جنہوں نے یہ راستہ ہمارے لئے کھول دیا؛ انھوں نے ہمیں سکھایا کہ خدا پر توکل کرنا چاہئے، خدا سے مدد مانگنی چاہئے، مستقبل کے بارے میں پرامید ہونا چاہئے اور ہم اسی راہ پر آگے بڑھے اور ان شاءاللہ اس کے بعد بھی یہی سلسلہ جاری رہے گا۔ اسلام اور مسلمانوں کی فتح و کامیابی کی امید کے ساتھ، اور اس روشن راستے میں شہید ہونے والوں کے لئے رحمت و مغفرت کے ساتھ۔
والسّلام عليكم و رحمةالله و بركاته
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱) نهج البلاغه، خطبهى دوّم۔ ترجمہ: لوگ فتنوں سے دوچار تھے جن میں دین کی رسی پھٹ گئی تھی اور یقین کے دستے سست ہوگئے تھے۔ (دستہ، قبضہ، موٹھ Handle)
۲) سورہ فتح، آیت 29: مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاء عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاء بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعاً سُجَّداً يَبْتَغُونَ فَضْلاً مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَاناً سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذَلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَى عَلَى سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْراً عَظِيماً۔ ترجمہ: محمد اللہ کے پیغمبر ہیں اور وہ جو ان کے ساتھی ہیں، کافروں کے مقابلے میں سخت ، آپس میں بڑے ترس والے ہیں، تم انہیں دیکھو گے رکوع اور سجود میں مصروف کہ وہ طلبگار ہیں اللہ کی طرف کے فضل وکرم اور خوشنودی کے۔ ان کی شان ان کے چہروں میں نمایاں ہے سجدے کے نشان سے۔ یہی ان کی توصیف ہے تو ریت میں اور ان کی توصیف انجیل میں اس کھیتی کی طرح ہے جس کے ادھر ادھر کونپلیں پھوٹیں۔ اس کے بعد وہ پھیلی اور اپنے قدوقامت پر کھڑی ہوئی، کہ کاشت کرنے والوں کے لئے خوش آئند ہے تا کہ غم وغصہ میں مبتلا کرے اس سے کافروں کو،اللہ کا وعدہ ہے ان سے کہ جو ان میں سے باایمان اور نیک اعمال رکھنے والے ہوں بخشش اور بڑے اجر و ثواب کا۔
حامد کرزئی، امریکہ ڈرون حملے بند کرے
افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے ایکبار پھر مطالبہ کیا ہے کہ امریکہ ان کے ملک پر ڈرون حملے بند کرے۔ انھوں نے کابل میں ایک بیان میں مطالبہ کیا ہے کہ امریکہ کو افغانستان میں رہائشی علاقوں کے خلاف فوجی کاروائی روکتے ہوئے طالبان گروہ کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے چاہیئیں۔افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے یہ مطالبہ، صوبے پروان پر امریکی حملے کے بعد اس سلسلے میں اقوام متحدہ کی تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ کے بعد کیا ہے جس میں صراحت کے ساتھ اعلان کیا گيا ہے کہ افغانستان کے صوبے پروان پر ہونے والے امریکی حملے میں عام شہری مارے گئے ہیں۔ صوبے پروان کے علاقے غور پر ہونے والے اس امریکی حملے میں کم از کم تیرہ عام شہری ہلاک ہوئے تھے جن میں بیشتر عورتیں اور بچّے شامل ہیں۔قابل ذکر ہے کہ افغانستان کے رہائشی علاقوں پر ہونے والے امریکی حملوں پر افغان حکام اور عوام نے ہمیشہ اپنی شدید مخالفت کا اظہار کرتے ہوئے ان حملوں کے فوری خاتمے اور اسی طرح سے افغانستان سے غیر ملکی فوجیوں کے انخلاء کا مطالبہ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے کابل واشنگٹن سیکیورٹی معاہدے پر دستخط کی ایک شرط افغانستان کے رہائشی علاقوں پر امریکی حملے فوری طور پر بند کئے جانا عائد کی ہے۔
امت مسلمہ کو یہ باور ہو چکا ہے کہ انہیں اتحاد کی اشد ضرورت ہے
حضرت آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے حضور ختمی مرتبت(ص) اور آسمان امامت و ولایت کے چھٹے درخشاں ستارے فرزند رسوۖل حضرت امام جعفر صادق(ع) کے یوم ولادت و باسعادت کے موقع پر اسلامی جمہوریہ ایران کے بعض حکام اور تہران میں منعقدہ سترھویں وحدت اسلامی بین الاقوامی کانفرنس کے شرکاء سے اپنے خطاب میں اس مبارک دن کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے عالم اسلام سے آنحضرت(ص) کی توقعات کو پورا کئے جانے کی ضرورت کی خواہش پر تاکید کے ساتھ فرمایا کہ اس وقت مسلمانوں کو اس بات کا پورا احساس ہوچکا ہے کہ انھیں اتحاد و وحدت کی اشد ضرورت ہے اور اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہونا چاہیئے کہ اس اتحاد و یکجہتی کی تحریک کا، بہترین نتیجہ برآمد ہوگا۔
آپ نے فرمایا کہ مسلمان قوموں کو چاہیئے کہ اپنے اندر فکری آزادی پیدا کرتے ہوئے سیاسی آزادی کے حصول کے ذریعے شریعت اسلام کے مطابق دینی عوامی حکومتوں کے قیام کے ذریعے خود کو اسلام کی منظور نظر آزادی کی منزل پر پہنچائیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ عالمی استکبار، گذشتہ پینسٹھ برسوں سے فلسطین کا نام ختم کرنے کی کوشش کررہا ہے مگر کبھی کامیاب نہیں ہوسکا اور حزب اللہ لبنان کے خلاف غاصب صیہونی حکومت کی مسلط کردہ تینتیس روزہ جنگ اور اسی طرح غزہ کے خلاف اس کی مسلط کردہ بائیس روزہ اور آٹھ روزہ جنگ میں مسلمانوں نے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ وہ ایک زندہ قوم ہے اور وہ امریکی سرمایہ کاری کے باوجود غاصب اور جعلی صیہونی حکومت کو طمانچہ لگانے میں کامیاب رہی ہے۔
آپ نے اسلامی ملکوں میں استکباری حکومتوں کی جانب سے تکفیری دہشتگردوں کیلئے جاری ہمہ جہتی حمایت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ان تکفیری گروہوں کے مقابلے میں، جو عالم اسلام کیلئے ایک بڑا خطرہ ہیں، مکمل ہوشیاری کی ضرورت ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے بیداری و آگاہی کو مسلمانوں کی سعادت کا واحد ذریعہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی ملکوں کے بے نظیر وسیع قدرتی ذرائع، ممتاز جغرافیائی پوزیشن، گرانقدر تاریخی میراث اور اقتصادی و معاشی ذرائع، اتحاد و وحدت اور یکجہتی کے زیر سایہ مسلمانوں کو عزّت و احترام اور ارتقاء کی منازل پر پہنچا سکتے ہیں۔
مسجد وکیل – شيراز ؛ ايران
مسجد وکیل شیراز، زندیوں کی عمارتوں کے مجموعہ میں، بازار وکیل اور حمام وکیل کے پاس اس شہر کے مرکز میں واقع ہے۔
یہ عمارت زندیوں کی حکمرانی کے زمانہ کی ایک زیبا اور مضبوط عمارت ہے کہ ہنر مندی اور معماری کے لحاظ سے کافی اہمیت کی حامل ہے۔ اس مسجد کو کریم خان زند کے حکم سے تعمیر کیا گیا ہے۔ اس مسجد کے دو ایوان ہیں اور اس کے علاوہ اس میں شبستان جنوبی اور شبستان مشرقی کے نام کے دو شبستان بھی ہیں۔
اس مسجد کے جنوبی شبستان میں پتھر کے ایک ہی ٹکڑے کے مار پیچ والے ۴۸ ستون ہیں، جو ایرانی معماری کا قابل دید نمونہ ہے۔
اس شبستان کی مساحت تقریبا پانچ ہزار مربع میٹر ہے اور سنگ مرمر کے ایک ہی ٹکڑے سے بنا ھوا چودہ سیڑھیوں والا منبر اس شبستان کی زینت کا سبب بنا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ پتھر کریم خان زند کے حکم سے نراغہ سے لایا گیا ہے۔
مسجد کے شمال میں ایک بلند محراب نما چھت ہے، جو طاق مروارید کے نام سے مشہور ہے۔ اس چھت کے ارد گرد موٹے خط میں قرآن مجید کے ایک سورہ کو خط ثلث میں ہلالی صورت میں لکھا گیا ہے۔
یہ مسجد قدیم معماری کے مطابق ایک اجتماعی مجموعہ میں واقع ہے اور دین و دنیا کے درمیان ہم آھنگی کے ایک خوبصورت پیوند کا سبب بنی ہے۔ اس مسجد کے صحن اور شمال و جنوب کے ایوانوں میں انتہائی زیبا ٹائلیں بچھائی گئی ہیں جو سات رنگوں اور معرق کاری پر مشتمل ہیں۔
“ پیرلوتی” کے “ سفرنامہ بہ سوی اصفہان” میں مسجد وکیل کا یوں تعارف پیش کیا گیا ہے:“ آج میں خوش قسمتی سے مسجد کریم خان میں داخل ھونے میں کامیاب ھوا۔ بیشک اگر کچھ مدت تک یہاں ٹھروں اس مسجد کی تمام جگہوں میں داخل ھو جاؤں گا، جن میں داخل ھونا میرے لئے اس وقت ممنوع ہے۔ اس شہر کے لوگ میرے بارے میں انتہائی ملائم اور ہمدرد ہیں۔ مسجد کی معماری کے خطوط اور نقوش، سادہ اور بے آلائش ہیں، لیکن جگہ جگہ پر ملمع کاری اور سبز و سرخ رنگ دکھائی دیتے ہیں اور یہ تجمل افراط کی حد تک پہنچی ہے، دیوار کے کسی حصہ کو نہیں پایا جاتا ہے، جہاں پر دقت سے ملمع کاری نہ کہ گئی ھو، اس وقت میں ایک لاجروردی اور فیروزہ نما محل میں ھوں”۔
زندیہ کے مستند پروجیکٹ میں مسجد وکیل کی عمارت کی دقیق صورت میں مکمل جزئیات کے ساتھ سہ بعدی شبیہ سازی کی گئی ہے۔
ہفتہ وحدت ، حضرت امام خمینی رح کی عظیم یادگار
پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی(ص) کی ذات باعث رحمت عالمین ہے ان کا ذکر باعث رحمت ہے، ان کے میلاد کے موقع پر ان کی یاد کو قائم کرنا اور آپ (ص) کی تعلیمات کو عام کرنا نہ صرف عقیدت و فرض شناسی ہی نہیں بلکہ آپ کا ہم پر یہ حق بھی ہے کہ آپ کے پیغام امن عالم و انسانیت اور پیغام وحدت و اخوت کو عام کریں، بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رح) کے فرمان پر پیغمبراکرم ۖ کی ولادت باسعادت کے ایام میں پوری دنیا میں ہفتہ وحدت نہایت ہی شان شوکت کے ساتھ منایا جارہا ہے۔ اسلامی جمہوری ایران کو یہ فخر حاصل ہے کہ وہ رسول اسلام کے پیغام اخوة المسلمین کو عام کرتے ہوئے ہرسال میلاد النبیۖ کے موقع پر ہفتہ وحدت کا اہتمام کرتا ہے۔ اس مناسبت سے دنیا بھر میں تقریبات منعقد ہوتی ہیں۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ اسلامی امہ میں جس چیز کی سب سے زیادہ کمی ہے وہ اتحاد و وحدت ہے ، دشمنان اسلام نے بھی وحدت کو نشانہ بنا رکھا ہے اور عالمی کفر کی تمام تر مشینریاں مسلمانوں کے درمیان اختلافات کو ہوا دینے میں سرگرم ہیں۔ پاکستان ہو یا افغانستان ، عراق ہو یا شام ، لبنان ہویا دیگر کوئی اور ملک ہم دیکھتے ہیں کہ سب سے زیادہ اتحاد و وحدت کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور عالمی سامراج نے بھی مسلمانوں پر ضرب لگانے کے لئے اس راستے کو منتخب کررکھا ہے۔ لہذا اس وقت جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ اتحاد ہی ہے ، اس راہ میں کامیابی کے لئے سب سے پہلے ایک مرکز پر جمع ہونا ضروری ہے تاکہ وہاں سے کام کا آغاز کیا جائے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی سید علی خامنہ ای (مدظلہ العالی) فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی آج کی اسلامی دنیا کے تمام مسائل کا حل ہے۔ یہ بہترین موقع ہے کہ ہم ذات پیغمبراکرم ۖ کو اپنا مرکز بنائیں تاکہ مسائل و مشکلات کے راہ حل میں آسانیاں پیدا ہوں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کس طرح کی جائے جی ہاں اس کے لئے ہمیں احادیث پر نگاہ ڈالنے ہوگی اور قرآنی آیات پر تفکر کرنا ہوگا ، کیونکہ فرمان نبی ۖ اور حکم قرآن ہی کے ذریعے ہم راہ راست کی طرف قدم بڑھا سکتے ہیں۔ اس درمیان دشمن بھی اپنے سازشی منصوبوں کو مسلمانوں پر آزما رہا ہے اور اتحاد وحدت کے لئے کی جانے والی کوشیشوں کو سبوتاژ کرنے کے لئے مختلف راستوں سے اپنے حملے جاری رکھے ہوئے ہے، حتی ہم دیکھتے ہیں کہ بعض عناصر معمولی اور جزئی اختلافات کو اس طرح بڑھا چڑھا کرپیش کرتے ہیں کہ جیسے دین کی اساس و بنیاد ہی یہی ہو، جبکہ اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ تو نہایت ہی معمولی و جزئی باتیں ہیں۔ دوسری جانب دشمن اس درمیان سب سے زیادہ جہالت سے فائدہ اٹھاتا ہے اور اپنے وار وہاں آزماتا ہے جہاں جہالت کا عنصر زیادہ ہو۔ بس یہاں اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ علم کے حصول کے مواقع فراہم کیئے جائیں ، علماء اپنا کردار ادا کریں اور اپنی ذمہ داریوں پر عمل کریں۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ عوام کو گمراہ کرنے میں بھی سب سے زیادہ کردار نام نہاد و بے عمل، جاہل علماء کا ہی ہے کہ جو عوام میں گمراہ کن پروپیگنڈہ کرکے عام لوگوں کے احساسات سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ آج جو کچھ شام میں ہورہا ہے اس کا واضح ثبوت ہے۔ ہم دیکھ رہے کہ تکفیری دھشتگرد گروہ کس طرح دین و مذہب کے نام پر مسلمانوں کا خون بہا رہے ہیں بھیڑ بکریوں کے طرح انسانوں کو ذبح کیا جارہا ہے اور نام نہاد شرعی عدالتیں لگاکر دین مبین اسلام کے احکامات کو پائیمال کیا جارہا ہے۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمانوں میں دانشور طبقہ سامنے آئے اور اتحاد و وحدت کے علم کو اٹھائے اور پیغام امن و دوستی گھر گھر پہنچائے اور اس میں میڈیا کو بھی اپنی ذمہ داری ادا کرنی ہوگی کیونکہ یہ ذرائع ابلاغ کا دور ہے ، خاص طور پر مسلمان ممالک کے ذرائع ابلاغ کو حتمی طور پر اپنی ذمہ داریوں پر عمل کرنا ہوگا ، کیونکہ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ ہم سب کو آخرت میں اپنے کیئے کا جواب دینا ہوگا اور اللہ کی عدالت میں کوئی عذر و بہانہ قبول نہیں کیا جائے گا ، لہذا اللہ تعالی کی عدالت سے پہلے اپنے وجدان کی بنیاد پر فیصلہ کریں اور اتحاد و وحدت کے قیام کے لئے ہر کوئی اپنی ذمہ داریوں پر عمل اور اللہ و اس کے رسول ۖ کی خوشنودی حاصل کرے۔
مفتی اعظم شام: امام خمینی نے ہمیں طاقت عطا کی تو مغرب فرقہ واریت لے کر آیا
رپورٹ کے مطابق، تہران میں عالمی وحدت اسلامی کانفرنس جاری ہے، جس میں دسوں ممالک کے علماء اور مذہبی شخصیات شرکت کررہی ہیں۔
مفتی اعظم شام ڈاکٹر شیخ احمد بدرالدین حسون نے اس کانفرنس کے معزز مہمان کے طور پر شرکائے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا: امام خمینی (رحمۃ اللہ علیہ) نے اتحاد اور یکجہتی کو فروغ دے کر اور تفرقے اور انتشار سے پرہيز کرکے اسلامی انقلاب کو کامیابی سے ہم کنا کردیا اور ہمیں امت اسلامی کے درمیان موجودہ انتشار کے علاج اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لئے کوشش کرنی چاہئے۔
انھوں نے کہا: ہم نے ایران سے سیکھ لیا ہے کہ "فتنوں کی دیواروں کو کس طرح ڈھایا جاسکتا ہے"، ملت شام بھی 88 ممالک کے سامنے ڈٹا ہوا ہے جو اس ملک میں دہشت گرد بھجواتے ہیں اور انہیں ہمارے ملک اور قوم کے خلاف لڑنے کے لئے اسلحے سے لیس کرتے ہیں۔
انھوں نے کہا: ہم یہاں درد اور اس کا علاج بیان کرنے اور اس کا علاج ڈھونڈنے اور امت اسلامی کی وحدت و یکجہتی کے لئے یہاں آئے ہیں؛ کیونکہ ہم وہ ملک ہیں جو اپنی قوت اور اپنی موجودگی دنیا کو منوانے کے عمل سے کامیابی کے ساتھ عہدہ برآ ہوچکا ہے۔
شیخ حسون نے کہا: ایرانی قوم امت اسلامی اور عالم انسانیت کے لئے ایک خدا داد ذخیرہ ہے جو اپنے تاریخی انقلاب کے ذریعے امت مسلمہ کو ایک جگہ پر اکٹھا کرسکی ہے؛ ہم اسلامی ایران کا اقتدا کرتے ہیں اور اس سے قوت پاتے ہیں، لہذا ہمیں شر اور بدی کے محاذ کا سامنا کرنے کے لئے ایران کے محور کے گرد جمع ہوتے ہیں۔
انھوں نے مغرب کی طرف سے صدام کو اکسا کر ایران کے خلاف جنگ پر آمادہ کئے جانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: مغرب نے دنیا کے عظیم ترین وسائل سے مالامال مسلمہ امہ پر مسلط ہونا چاہا لیکن مسلمانان عالم نے اسلامی جمہوریہ ایران کا موقف اپنا کر شر کے محور کے مقابلے میں استقامت کی۔
ان کا کہنا تھا کہ ملت ایران تہذیبی اور قدیم تاریخ کا ملک ملک ہے اور اس ملت کی جڑیں تاریخ کی گہرائیوں میں پیوست ہیں چنانچہ ایران نے خود اٹھ کر صاحب حکمت قیادت کے گرد جمع ہوکر عظیم ترین کامیابیاں حاصل کیں۔
شیخ حسون نے کہا: ایرانی قوم اپنا ارادہ مغرب پر مسلط کرنے میں کامیاب ہوئی اور مغربی ممالک کی مخالفت کے باوجود ایٹمی کلب کا رکن بن گیا اور اس قدر استقامت دکھائی کہ مغرب نے جنیوا کانفرنس کے دوران، ایٹمی ٹیکنالوجی کے پرامن استعمال کے سلسلے میں ایران کے حق کو تسلیم کیا۔
جنیوا سمھجوتہ ملت اسلامیہ کی عظمت کی ٹیکٹیک
خطیب نماز جمعہ تہران حجۃ الاسلام و المسلمین کاظم صدیقی نے کہا ہے کہ ایران اور گروپ پانچ جمع ایک کے سمجھوتے کا سبب کمزور پوزیشن نہیں ہے اور یہ سمجھوتہ گروپ پانچ جمع ایک کی صداقت کی کسوٹی اور اسلامی دنیا کی عظمت و سربلندی کے لۓ ایک ٹیکٹک [Tactic] ہے۔
تہران کی مرکزی نماز جمعہ حجۃ الاسلام و المسلمین کاظم صدیقی کی امامت میں ادا کی گئي۔ حجۃ الاسلام و المسلمین کاظم صدیقی نے لاکھوں نمازیوں سے خطاب کے دوران آئندہ دنوں میں جنیوا سمجھوتے پر عملدرآمد کے آغاز کی جانب اشارہ کیا اور کہا کہ ایران کی ثابت قدم ملت نے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد تمام خطرات اور چیلنجز کو مواقع میں تبدیل کردیا ہے۔
حجۃ الاسلام و المسلمین کاظم صدیقی نے ملت ایران کی جانب سے ایران کی ایٹمی مذاکراتی ٹیم کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے تاکید کی کہ ملت ایران کبھی بھی کسی کی دھکمیوں میں نہیں آئے گي اور نہ ہی کوئي منہ زوری قبول کرے گی۔ خطیب نماز جمعہ تہران نے اس کے ساتھ ساتھ ایران کی ایٹمی مذاکرات کار ٹیم کو نصیحت کی کہ وہ ان مذاکرات کے دوران پوری احتیاط سے کام لے اور اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام کی ریڈ لائنز اور مفادات کا تحفظ کرے۔
حجۃ الاسلام و المسلمین کاظم صدیقی نے اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کی اپنے حالیہ دورے کے دوران حزب اللہ لبنان کے سینئر کمانڈر شہید عماد مغنیہ کے مزار پر حاضری کو بھی سراہا اور کہا کہ سامراجی دنیا اور اسرائیل کے خلاف لبنان کی استقامت اسلامی دنیا اور انسانیت کے لۓ باعث فخر ہے۔
خطیب نماز جمعہ تہران نے مزید کہا کہ حزب اللہ لبنان سب سے پہلا ایسا گروہ ہے جس نے اسرائیل کے ناقبل شکست ہونے کا طلسم توڑ دیا اور استقامت کا اعجاز ساری دنیا پر واضح کردیا۔
حجۃ الاسلام و المسلمین کاظم صدیقی نے حزب اللہ کے رہنماؤں کے قتل اور صبرا و شتیلا میں صیہونی حکومت کے سابق وزیر اعظم ایریل شیرون کے مظالم کی جانب اشارہ کیا اور یورپی حکام کی جانب سے اس ظالم کی موت پر کۓ جانے والے اظہار تعزیت پر افسوس کا ظاہر کیا اور کہا کہ اب وقت آگیا ہےکہ یورپ کے لوگ بیدار ہوجائيں اور جان لیں کہ ان کے رہنما کس طرح کے گروہوں اور عناصر کی حمایت کرتے ہیں۔
خطیب نماز جمعہ تہران نے ہفتۂ وحدت کی مناسبت سے مشترکات کو اسلامی دنیا کے اتحاد کی ضمانت قرار دیا اور کہا کہ سارے مسلمان خدائے واحد ، پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفی ص اور آپ کے ابدی معجزے کے طور پر قرآن کریم پر ایمان رکھتے ہیں۔
عید میلادالنبی(ص) اور ہفتہ وحدت
![]()
عاشقان رسول کی جانب سے ہندوستان سمیت دنیا کے گوشہ و کنارمیں گزشتہ روز نماز مغرب کے ساتھ ہی خاتم النبین، سید المرسلین آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کی خوشیاں منانے کا سلسلہ شروع ہوا۔اس موقع پرپاکستان کے ہر چھوٹے بڑے شہروں قصبے اور گلیوں، کوچے، بازار اور چوراہوں پر سبز پرچموں کی بہار ہے جبکہ اہم عمارات، مارکیٹوں، بازاروں اور چوراہوں کو برقی قمقموں اور آرائشی سامان کے ذریعے انتہائی خوبصورتی سے سجایا گیا ہے،اس کے علاوہ گھروں میں چراغاں کیا گیا ہے، مساجد میں رسول اللہ کی سیرت مبارکہ اور سنتوں کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی جارہی ہے، کئی مقامات پر محافل نعت و سلام کی تقاریب منعقد کی جارہی ہیں جس میں رسول اللہ کی شان میں نذرانہ عقیدت کے پھول نچھاور کئے جارہے ہیں اور ہفتہ وحدت کی اہمیت پر روشنی ڈالی جا رہی ہے۔
پاکستان میں اس مرتبہ عید میلادالنبی(ص) کے جلوسوں میں مسلمانوں اور علماء کرام کی بڑے پیمانے پر شرکت،استقبالیہ کیمپ اور جلوس کے راستوں پر سبیلیں لگانے جیسے اقدامات نے اس ملک میں اتحاد و وحدت کی ایک مثالی فضا بنا دی تھی۔
عید میلادالنبی(ص) کے موقع پرامن وامان کی مخدوش صورتحال کے باعث پاکستان بھر میں سیکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کئے گئے تھے۔ وفاقی وزارت داخلہ کی جانب سے جاری کردہ سیکیورٹی الرٹ کے مطابق کراچی، لاہور، اسلام آباد، پشاور اور کوئٹہ سمیت ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں موبائل فون سروس بند کردی گئی تھی۔
رسول خدا (ص) کی ولادت با سعادت ہر چند ماہ ربیع الاول میں ہوئی تاہم اہلسنت12ربیع الاول اورشیعہ 17ربیع الاول کو عید میلادالنبی(ص) کا جشن مناتے ہیں لیکن بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے مسلمانوں کے درمیان اتحاد واتفاق کیلئے12 ربیع الاول سے17ربیع الاول تک کے ایام کو ہفتہ وحدت کا نام دیا۔اوراس کے بعد سے دنیا بھر میں ہفتہ وحدت کے موقع پر مختلف قسم کی تقریبات منعقد ہوتی ہیں۔ اور مسلمانوں کے مابین اتحاد و وحدت پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔ اور اسی سلسلسے میں بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ مسلمان رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات بابرکت کو اپنے اتحاد کا محور قراردیں۔
حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ اپنی پوری زندگی درس وحدت دیتے رہے اور لوگوں کو اسلامی اتحاد کی طرف بلاتے رہے اور آخری سانسیں بھی اسلامی اتحاد کی بقاء کی فکر میں لیتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے بعد رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سیدعلی خامنہ ای نے بھی امام خمینی کی پیروی میں مسلمانوں کو اتحاد کی تلقین کا فریضہ انجام دیاآپ نے اتحاد اسلامی کے لئے وہ کارنامے انجام دئیے جس کی وجہ سے آج خود آپ کی شخصیت رمز وحدت کے طور پر دنیا میں ابھر کر سامنے آئی ہے ۔
بارہ سے سترہ ربیع الاول تک کے ایام یعنی ہفتۂ وحدت میں پورے عالم اسلام میں مختلف پروگرام منعقد کئیے جاتے ہیں اور اس پورے ہفتے میں عید میلادالنبی (ص) کے سلسلے میں جشن اور تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ اسی حوالے سے تہران میں ہر سال عالمی وحدت کانفرنس کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے۔اس موضوع پرہندوستان کے اہلسنت عالم دین مفتی عبدالباطن کہتے ہیں۔
اللہ تعالی نے مسلمانوں کے درمیان بھائی چارے اوراتحاد کو الہی نعمت سے تعبیر کیا ہے اور ان کو تفرقے اور فرقہ واریت سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد پروردگار ہوتا ہے کہ اللہ کی نعمت کو یاد کرو کہ جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے پھر اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کی اور تم اس کی نعمت سے بھائی بھائی بن گۓ۔
ایسے وقت میں جب اسلام کے بارے میں اسلام دشمن طاقتیں فرقہ واریت اورمذہبی تعصبات کو ہوا دے کر شیعہ، سنی اختلافات سے اپنے مذموم اھداف حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔ آج پاکستان، افغانستان، شام اورعراق سمیت کئی ممالک میں وہابیت اورانتھا پسندی کے نام پر مسلمانوں کا قتل عام ہورہا ہے اور جسطرح انفرادی اور اجتماعی سطح پر دین اسلام اور مسلمانوں کو دہشتگرد کے طورپر متعارف کرایا جارہا ہے اس میں بنیادی کرداران طاقتوں کا ہے جنہوں نے پہلے مرحلے میں اسلام کے اندر فرقہ واریت کو فروغ دیا ہے اور بعد میں اسلام کی من مانی تشریح کرکے سامراجی اھداف کو پروان چڑھایا ۔ آج مغربی طاقتیں مسلمان ملکوں میں بالخصوص شام، پاکستان، عراق اوربحرین میں فرقہ واریت نیز لڑاواورتقسیم کرو کے سامراجی فارمولے کے تحت خطے میں اپنا اثرونفوذ بڑھانے کی کوشش کررہی ہیں۔ ایسی صورت حال میں ہفتہ وحدت منانا اوراسلامی وحدت کے لئے غوروفکر کرنا اسکی حقیقی تعلیمات کو فروغ دینے میں نہایت اہم کردارادا کرسکتا ہے۔
مسلمان ممالک میں قدرتی ذخائر کی کمی نہیں ہے۔اوراغیار ہمارے ہی ذخائر سے ہمیں دبوچنے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے۔ جغرافیائی لحاظ سے بھی اسلامی ممالک بڑی اہمیت کا حامل ہیں، تیل اور گیس کی دریافتوں نے اس کی سیاسی اہمیت کے نئے دروازے کھول دیئے اس پس منظر میں اگر مسلم دنیا اسلامی اقدار و اخوت کی بنیاد پر متحّد ہو گئی ہوتی، تواس کو سیاسی استحکام حاصل ہوا ہوتا اورعلمی پیش رفت میں ماضی کی طرح اس خطہ کا حصہ قابل تقلید ہوتا،اوراس صورت میں کسی بھی غیرملکی طاقت کو یہ جرات نہ ہوتی کہ وہ اسلامی ممالک پراپنا تسلط قائم کرتا۔
بد قسمتی سے مسلمانوں کے فرقوں اور مسلکوں کے درمیان نفرت و تفرقہ کے نتیجہ میں مغربی طاقتوں کو مسلم بلاک کے اندرانتشار پھیلانے کا موقعہ ملا، اُن کی کوششیں امّت مسلمہ کو پارہ پارہ کر نے پر مرکوز رہیں، جن کے پیچھے ان کے رذیّل مفادات و مقاصد کار فرما تھے،
آج جب امت مسلمہ عدم اتحاد و وحدت کی شکار ہو رہی ہے، ایسے میں بعض استعماری و استکباری زرخرید و نام نہاد مسلمانوں کی طرف سے امت واحدہ کے ساتھ خیانت ہورہی ہے۔ امت کے سنجیدہ طبقات، باشعور شخصیات اور مخلص افراد کو ایسے خائنوں کو خود سے اور اپنے معاشرے سے الگ کرنا ہو گا، حقیقت یہ ہے کہ فکری ارتقاء اور اسوہ رسول (ص) میں حسن تدبر کا مشاہدہ کرکے متفقہ سیرت سے استفادہ کرکے آج اور ہر دور کے مسلمان، رنگ و نسل، زبان اور قومیت کی دیواروں کو گرا کرایک مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرکے اپنے مسائل حل کرسکتے ہیں، ورنہ عام طور پرمشرکانہ جاہلیت اور جماعتی عصبیت کی جھوٹی جلوہ نمائیوں سے انتشار کا مرض بڑھتا ہی جائے گا، اتحاد ہی سب سے بڑی طاقت ہے اور وحدت ہی واحد راستہ ہے جو امت مسلمہ کو اپنا کھویا ہوا مقام واپس دلوا سکتا ہے ۔ عالمی سطح پر مسلمانوں کو زبردست چیلنجوں کا سامنا ہےاوراسلام دشمن طاقتیں مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے کی سازشیں تیار کر رہی ہیں اورانہیں نیست ونابود کرنے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں، مسلم اتحاد واتفاق وقت کا تقاضہ ہے کہ مختلف تنظیمی، جماعتی اور مسلکی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر مسلمانوں کے مسائل حل کرنے کی ضرورت ہے ۔
عالم اسلام کو درپیش تمام اندورنی اور بیرونی مسائل کی جڑ اتحاد کا فقدان ہے۔ اگر مسلمان جسد واحد کی طرح ہوتے اور ایک دوسرے کے خلاف مسلکی اور جزوی اختلافات کو محاذ جنگ نہ بناتے تو دنیائے کفروالحاد اورہنود ویہود کی جرات نہ ہوتی کہ مسلمانوں کو دہشت گرد بنا کر پیش کریں۔
اگرعالم اسلام رواداری اوراخوت کےعظیم الہٰی حکم پرعمل کرتے تو نہ مسئلہ فلسطین پیش آتا نہ مسلمانوں کا اسطرح خون بہتا، نہ شام و عراق و افغانستان اور پاکستان خاک وخون میں غلطاں ہوتا یہ سب مسلمانوں کے باہمی اختلافات کے سبب ہے۔
بہرحال جس طرح ابھی ہندوستان کے اہلسنت عالم دین مفتی عبدالباطن نے اپنی گفتگو میں کہا کہ ہفتہ وحدت اورعید میلادالنبی(ص) کا پیغام یہ ہے کہ تمام مسلمانان عالم حضور پاک (ص ) کی سیرت پرعمل پیرا ہوکراورحبل المتین کو تھام کرتمام اسلام کے دشمنوں سے نبرد آزما ہو سکتے ہیں اور دنیا میں امن و امان اور اخلاقی اقدار کا بول بالا کر سکتے ہیں
عید میلاد النبی اور ہفتہ وحدت کے موقع پر علامہ ساجد نقوی کا پیغام
علامہ سید ساجد علی نقوی نے عید میلا دالنبی اور ہفتہ وحدت کے موقع پر عالم ارسال کردہ پیغام میں کہا: پیغمبر اکرم ص کی زندگی کا نمایاں پہلو یہ ہے کہ آپ عالم اسلام کے اتحاد کا مرکز اور نبی وحدت ہیں آپ کی حیات مبارکہ ہمیں اخوت، بھائی چاری، وحدت اور محبت کا درس دیتی ہے آپ نے ہمیشہ مختلف النسل اور مختلف قبائل سے تعلق رکھنے والے صحابہ کرام کے درمیان محبت، اخوت اور بھائی چارے کو فروغ دیا۔
انہوں نے مزید کہا: انحضرت نے ہر قسم کے لسانی، علاقائی، فروعی اور جزوی و ذاتی اختلافات و تعصبات کی نفی کی اور انہیں نظر انداز کرنے کا حکم فرمایا ۔
شیعہ علماء کونسل کے سربراہ علامہ سید ساجد علی نقوی نے دور حاضر میں سیرت نبوی کے اس پہلو کو خاص طور پر اجاگر کرنے کی ضرورت پر تاکید کرتے ہوئے کہا: یہ سنت الہیہٰ ہے کہ خداوند کریم اپنے انبیاء و مرسلین اور آئمہ و صالحین کو بھجوا کر انسانوں کو ظلمتوں اور تاریکیوں سے نکال کر نور اور روشنی کی طرف لاناہے اور انہیں ہدایت جیسی عظیم اور اعلی و ارفع نعمت سے سرفراز فرماناہے۔
انہوں نے مزید کہا: اسی تناظر میں خداوند تعالی نے خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی کو رحمت اللعالمین اور خاتم المرسلین بناکر انسانوں کے درمیان بھجوایا تاکہ انسانیت کو ظلم و ناانصافی اور جہالت و گمراہی کی اتھاہ گہرائیوں سے نکال کر ہدایت و حکمت اور عدل و مساوات کی کمال بلندیوں تک پہنچادے لہذا حضور اکرم کی آمد سے خدا کا وعدہ یقینی طور پر پورا ہوا اور کائنات ہدایت کے نور سے منور ہوئے۔
سربراہ علامہ سید ساجد علی نقوی نے یہ کہتے ہوئے کہ ایک طرف امت مسلمہ کی خوش بختی کا پہلو یہ ہے کہ انہیں سرور کائنات جیسی ہستی کے ساتھ منسلک ہونے اور ان کی سیرت و سنت سے استفادہ کرنے کے مواقع نصیب ہوئی۔ دوسری طرف امت مسلمہ کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ سیرت رسول پر مکمل طور پر عمل پیرا نہیں کہا: ذاتی و اجتماعی سطح پر مختلف برائیوں، گناہوں، کوتاہیوں اور انتشار و افتراق کا شکار ہے۔
انہوں نے قرآنی احکامات اور اسلامی تعلیمات کو پس پشت ڈال دیئے جانے کی جانب اشارہ کیا اور کہا: عید میلاد النبی اور ہفتہ وحدت ہمیں اس بات کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ ہم ان مبارک ایام میں اپنے داخلی، خارجی، مقامی اور عالمی مسائل کے حل کے لئے اتحاد و اخوت کے ساتھ پیغمبر اکرم کی سیرت سے صحیح استفادہ کریں اور تمام اسلامی مکاتب اور مسالک کے عقائد کا احترام کرتے ہوئے باہم مل کر سینکڑوں مشترکات کو بنیاد بناکر اجتماعی پروگرام کریں۔
علامہ سید ساجد علی نقوی نے باہمی محبت و رواداری کو فروغ دینے، نفرتوں، بغض و عداوت اور عناد کا خاتمہ کرنے، فروعی مسائل اور فرقہ وارانہ تنازعات اور تعصبات کو ہوا دینے سے گریز ، مشترکات پر جمع ہوکر عملی وحدت کا مظاہرہ کی تاکید تاکہ پاکستان سمیت پورا عالم اسلام سیرت پیغمبر گرامی کی روشنی میں ہدایت پر عمل پیرا ہوسکے۔ شیعہ علماء کونسل کے




















![جناب خدیجہ کبری[س] کی سیرت](/ur/media/k2/items/cache/ef2cbc28bb74bd18fb9aaefb55569150_XS.jpg)
