سلیمانی

سلیمانی

جنت البقیع میں داخل ہوتے ہی بائیں جانب الگ ایک تنہا قبر نظر آتی ہے، جس کے اردگرد چھوٹی سی چار دیواری بنی ہوئی ہے، اس قبر کے قریب آپ کو ایک عدد مولوی اور ایک شرطہ(پولیس والا) کھڑا ہوا نظر آئے گا اور ساتھ ہی ایک فلیکس لگا ہوا ملے گا، جس پر اردو، عربی، فارسی اور انگلش میں جنت البقیع میں موجود قبروں کی کوئی اہمیت نہ ہونے جیسے بیانات لکھے ملیں گے۔ جب اس قبر کے متعلق پوچھا جائے تو وہاں موجود مولوی صاحب آپ کو شرک و بدعت کے متعلق احادیث سنائیں گے، مزید اگر آپ قبر کے متعلق جاننے کی کوشش کریں گے تو ہوسکتا ہے کہ پاس کھڑا ہوا شرطہ آپ کو پکڑ کر قبرستان سے باہر چھوڑ آئے۔

‎اہل تشیع حضرات کو تو اس قبر کے متعلق علم ہے، لیکن اہل سنت برادران کو قطعی طور پر معلوم نہیں کہ یہ قبر کس ہستی کی ہے۔ یہ قبر مبارک جنابِ فاطمہ بنت حزام کی ہے، جن کو ام البنین بھی کہا جاتا ہے۔ یہ وہ ہستی ہیں، جو سیدہ کائنات فاطمہ سلام اللہ علیھا کے بعد زوجہ امام علیؑ بنیں اور کائنات میں وفاداری میں مشہور ہستی ابوالفضل العباسؑ کی والدہ محترمہ ہیں۔ یہ اتنی عظیم خاتون ہیں کہ جنت کے سرداروںؑ کے بھائی کی جنت ان کے قدموں میں ہے۔ جس خاتون کو خود علی المرتضیٰ ؑ نے اپنی زوجیت کے لیے چنا ہو، وہ کس شان کی مالکہ ہوں گی۔

‎جناب اُم البنینؑ کا تعلق سعودی عرب کے مشرقی شہر الاحساء سے تھا، جہاں آج بھی ان کے میکے خاندان کے افراد آباد ہیں اور اگر آپ وہاں جائیں تو نہایت آسانی سے ان کو پہچان سکتے ہیں، کیونکہ اس قبیلہ کے افراد کی نشانی ان کی بڑی بڑی آنکھیں، لمبے قد اور خوبصورتی ہے۔ ام البنینؑ کے چار بیٹے کربلا میں شہید ہوئے، جن میں عباسؑ، عثمان، عبداللہ و جعفر ہیں، لیکن سب سے زیادہ مشہور جناب عباسؑ علمدار ہوئے۔ ام البنینؑ کربلا میں موجود نہ تھیں۔ جب اسیران کربلا کا قافلہ مدینہ پہنچا تو کسی نے آپ کو آپ کے بیٹوں کی شہادت کی خبر سنائی تو آپ نے فرمایا مجھے صرف حسین بن علیؑ کے بارے میں بتاو، جب آپ کو بتایا گیا کہ حسین بن علی آپ کے چار بیٹوں سمیت کربلا میں شہید کر دیئے گئے تو اس وقت آپ نے کہا اے کاش میرے بیٹے اور جو کچھ زمین اور آسمان کے درمیان ہے، میرے حسینؑ پر فدا ہوتے اور وہ زندہ رہتے۔ سبحان اللہ جس ماں نے آلِ نبیؑ سے اتنی وفاداری نبھائی، اس ماں کا بیٹا وفا کا پیکر کیونکر نہ ہوتا۔

‎جنت البقیع کے سامنے جو مین روڈ ہے، وہاں ٹریفک کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک پُل بنا دی گئی ہے، جب یہاں پُل نہیں ہوا کرتی تھی، تب پرانی سڑک کے کنارے میں ایک چھوٹا سا باغیچہ ہوا کرتا تھا، قدیمی سعودی شیعوں کے مطابق اسے باغیچہ علی اکبؑر کہا جاتا تھا اور ان کے مطابق اہل بیتؑ کی کربلا روانگی کے وقت بنی ہاشم میں پیچھے رہ جانے والے افراد اور کربلا کے مسافروں کی آخری ملاقات یہاں ہوئی تھی اور جناب ام البنینؑ یہاں اکثر آکر بیٹھا کرتی تھیں۔ پنجاب کے مشہور ذاکر بابا نبی بخش جوئیہ مرحوم جناب ام البنینؑ کا واقعہ بہت پڑھا کرتے تھے، ان کی درد بھری آواز میں مصائب ابھی تک کانوں میں گونجتے ہیں اور دل گریہ کرتا ہے۔

وہ پڑھتے تھے کہ جب منادی والے نے مدینہ منورہ میں منادی کی کہ اے مدینہ والوں کربلا والوں کا قافلہ لوٹ آیا ہے اور حسینؑ بن علؑی اپنے بیٹوں اور بھائیوں سمیت مارے گئے تو جناب ام البنینؑ جناب عباسؑ کے بیٹے عبیداللہ سے پوچھتی ہیں یہ کس حسین کی شہادت کی خبر سنائی جا رہی ہے تو عبیداللہ نے کہا دادی یہ میرے چچا اور آپ کے بیٹے حسینؑ کی شہادت کی خبر ہے تو ام البنین فرماتیں، نہیں میرے عباسؑ کے ہوتے ہوئے بھلا حسینؑ کو کون ہاتھ لگا سکتا ہے، پھر بی بی جنت البقیع میں آئیں اور جناب زہراء سلام اللہ علیھا کے قبر اقدس پر کھڑے ہوکر اتنا گریہ کیا کہ اہل مدینہ اکٹھے ہوگئے اور ساتھ گریہ کرنے لگے۔ ام البنینؑ جب تک زندہ رہیں، کربلاء والوں کی ایسی عزاداری برپا کرتی رہیں کہ اپنوں کے ساتھ ساتھ دشمن بھی رو پڑتے۔

تحریر: علی اصغر سرگودھا

ایرانی حکام، مقدسات اور مذہبی اور قومی اقدار کی توہین کرنے والے فرانسیسی میگزین کے تضحیک آمیز اقدام کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران میں تعینات فرانسیسی سفیر "نیکلاس رش" کو محکمہ خارجہ میں طلب کیا گیا۔

ایرانی محکمہ خارجہ کے ترجمان "ناصر کنعانی" نے بروز بدھ کو اس ملاقات میں اسلامی جمہوریہ ایران کے شدید احتجاج کو فرانسیسی حکام کا حوالہ کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران اپنے اسلامی، مذہبی اور قومی مقدسات اور اقدار کی توہین کو کسی بھی صورت قبول نہیں کرتا اور فرانس کو آزادی اظہار کے بہانے سے دوسرے مسلم ممالک اور اقوام کے مقدسات کی توہین کا جواز فراہم کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔

ایرانی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے پیغمبر اسلام کے مقدس مقام، قرآن کریم اور دین اسلام پر حملہ کرنے سے متعلق اس فرانسیسی میگزین کے سیاہ کارنامے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ، ایران فرانس کی حکومت کو اس نفرت انگیز، توہین آمیز اور بلا جواز اقدام کا ذمہ دار سمجھتا ہے۔

کنعانی نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران اس اقدام کا متناسب جواب دینے کو اپنا حق سمجھتا ہے۔ ایران کی وزارت خارجہ نے اس سلسلے میں فرانسیسی سفیر کو سرکاری احتجاجی نوٹ پیش کیا اور اس بات پر زور دیا کہ اسلامی جمہوریہ ایران فرانسیسی میگزین کے ناقابل قبول رویے کی مذمت میں فرانسیسی حکومت کی وضاحت اور معاوضہ کے اقدام کا منتظر ہے۔

دراین اثنا فرانسیسی سفیر نے اس بات پر زور دیا کہ وہ ایران کے نظریات اور احتجاجی نوٹ کو اپنے ملک کے حکام ک پنچہادیں گے۔

تین سال قبل 3 جنوری کی صبح سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس کے کمانڈر میجر جنرل قاسم سلیمانی اپنے ساتھی ابو مہدی المہندس اور ان کے کئی ساتھیوں کیساتھ امریکی ڈرون کے ذریعے بغداد کے ہوائی اڈے پر نشانہ بنے تھے۔  حملے کے فوراً بعد اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دہشتگردی کی اس کارروائی میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا اور اس حملے کا حکم دینے اور اس کی کمانڈ کرنے کا اعتراف کیا۔ اس رات جنرل سلیمانی کو کچھ عراقی حکام سے ملاقات اور خطے میں جاری واقعات کے بارے میں بات چیت کرنا تھی۔ اس وفد نے عراق کے وزیراعظم سے ملاقات کیلئے سرکاری دعوت پر عراق کا سفر کیا۔ جنرل سلیمانی کا قتل، نہ صرف فوج کے ایک اعلیٰ سرکاری فوجی عہدیدار کیخلاف ریاستی دہشتگردی کا ارتکاب تھا بلکہ ایک آزاد ملک کی افواج کیخلاف دہشتگردی، بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی اور جارحیت تھی۔ اس کے علاوہ، یہ ایک خطرناک چال تھی، جو دہشتگردی کیخلاف جنگ میں ایک کامیاب کمانڈر کو ختم کرنے کیساتھ ساتھ دہشتگردی کے حملے سے پیدا ہونیوالے دیگر نتائج سے پورے خطے میں امن و سلامتی کو منفی طور پر متاثر کرسکتی ہے۔

ایک اور نقطہ نظر میں، دہشتگردی کی یہ کارروائی عراق کی خودمختاری کی خلاف ورزی اور اقوام متحدہ کے دو  ارکان کیخلاف جارحانہ کارروائی کے مترادف تھی۔ اس سال اس بہادر ہیرو کے قتل کی تیسری برسی ہے۔ یہ صرف تین سال پہلے کی بات ہے، جب جنرل سلیمانی نے باضابطہ طور پر داعش کے خاتمے کا اعلان کیا اور ان کا یہ خواب اس وقت پورا ہوا، جب اس وقت یہ دہشتگرد گروہ مکمل طور پر کمزور اور خاتمے کے دہانے پر تھا۔ شہید قاسم سلیمانی نے انتہاء پسندی اور دہشتگردی کیخلاف جنگ میں جس بہادری کا مظاہرہ کیا، اس نے خطے میں داعش کا خاتمہ کر دیا بلکہ اس نے نہ صرف مشرق وسطیٰ کے پہلے سے ہی جنگ زدہ علاقہ بلکہ تمام ممالک بشمول امریکہ اور یورپ سمیت پوری دنیا کو امن و سلامتی عطا کی۔ سلیمانی نے داعش کے بحران پر ایسے حالات میں ردعمل کا اظہار کیا، جب پورا خطہ پہلے ہی داعش کے اس ظالم دہشتگرد گروہ کی لپیٹ میں آچکا تھا، جس کے نتیجے میں کچھ ممالک ٹوٹنے کے قریب تھے۔

بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اگر سلیمانی نے انتہاء پسندی اور دہشتگردی کیخلاف اقدام کو متحرک نہ کیا ہوتا تو خطے کا نقشہ آج مختلف ہوتا۔ انہوں نے ایک ایسے وقت میں انسداد دہشتگردی کی کارروائیوں کی کمان سنبھالی، جب داعش نے اسلامی خلافت کا اعلان کیا اور شہریوں اور فوجوں کیخلاف انسانی تاریخ کے سب سے گھناؤنے اور بے مثال جرائم کا ارتکاب کیا۔ یہاں ایک متضاد صورتحال سامنے آتی ہے، جہاں مختلف حالات میں داعش اور بعض دیگر دہشتگرد گروہوں کا پیدا ہونا امریکی ہتھکنڈوں کا پتہ دیتا ہے۔ ISIS کی اصلیت کے حوالے سے انتخابی کمپین میں دوسروں کے علاوہ ٹرمپ کے اعترافات اس کی واضح مثال ہیں۔ شہید سلیمانی دہشتگردی کیخلاف ایک معروف ہیرو تھے، جنہوں نے اپنی پوری زندگی دہشت گردی اور جارحیت کا مقابلہ کرنے کیلئے وقف کر رکھی تھی۔ تو معاملہ کیا ہے؟ ٹرمپ: ہم نے داعش کو بنایا۔ اس کے بعد، اسی ٹرمپ نے کہا کہ میں نے ذاتی طور پر جنرل سلیمانی پر حملے کا حکم دیا تھا۔ اس کا جواب امریکہ کے دوہرے معیار کی سیاست میں مل سکتا ہے۔ جنرل سلیمانی کا قتل بین الاقوامی قانون، انسانی حقوق اور اخلاقیات کی صریح خلاف ورزی تھی اور اس میں کوئی شک نہیں کہ مجرموں کو بین الاقوامی سطح پر اس کا ذمہ دار ٹھہرانا چاہیئے۔

بہت سے قانون دان، سفارتکار، سیاستدان اور بین الاقوامی قانون کے ماہرین واضح کرتے ہیں کہ کسی ملک کے اعلیٰ فوجی عہدیدار کا غیر قانونی قتل پورے خطے اور دنیا کے امن و سلامتی کیلئے خطرہ ہے۔ کیونکہ دہشتگردی کیخلاف جنگ کا طویل تجربہ رکھنے والے قابل کمانڈروں کی عدم موجودگی کے باعث خطے میں داعش جیسے شدت پسند گروہوں کے دوبارہ سر اٹھانے کی تشویق پائی جاتی ہے۔ مزید یہ کہ اس کیخلاف دہشتگردانہ حملہ بین الاقوامی قانون، انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی اور دوسرے ملک کی خودمختاری کیخلاف جارحیت اور ریاستی دہشتگردی کی واضح مثالوں میں سے ایک مثال سمجھی جاتی ہے، جس کا ارتکاب ایک ملک دوسرے کیخلاف کرتا ہے اور اسے باضابطہ طور پر ملک کے اعلیٰ عہدے داروں اور کیمروں کے سامنے مجرم کے اعتراف کے ذریعے قبول کیا جاتا ہے۔

تین سال گزر چکے ہیں اور اب بہت سے لوگ "سلیمانی سکول آف تھاٹ" کے بارے میں بات کرتے ہیں، وہ اس وقت ایک مقبول کمانڈر تھے اور اس وقت تاریخ سے ماورا ایک لیجنڈ شخصیت ہیں۔ ان کے حامی ان کے قتل کو اس کی کہانی کا عروج اور اس کی سرشار زندگی کا ایک ناگزیر انجام اور ہدف سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی شہادت ان لوگوں کیلئے زیادہ تباہ کن ہے، جن کیخلاف وہ لڑے اور ان لوگوں کیلئے جو ان سے محبت کرتے تھے، ان کی زندگی سے زیادہ متاثر کن ہے۔ ایک مخیر، سماجی اور شہری کارکن ہونے کے ناطے خاص طور پر ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے اور مختلف خطوں میں غربت، سیلاب اور زلزلے سے متاثرہ لوگوں کی مدد کرنے کیلئے، وہ واقعی بہت سے لوگوں کے یہاں تک کہ ان کے ناقدین کی طرف سے بھی پسند کیے گئے۔ جنازے کی تقریبات میں لوگوں کا بے ساختہ امڈ آنا اس دعوے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ وہ انسانوں کیلئے کام کرنے کیلئے پُرعزم تھے۔

وہ نسل، مذہب، قومیت اور طرز زندگی سے بالاتر ہو کر انسانی وقار اور لوگوں کی بہتری اور فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے کے لیے پرعزم تھے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں، وہ خواتین کی کوریج کے حوالے سے مختلف طرز زندگی کا سامنا کرنے والوں کو سختی سے مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ ہماری بہنیں اور بیٹیاں اور ہمارے انسانی وسائل ہیں۔ تین سال قبل انہیں دوسرے ملک میں بے دردی اور بے رحمی سے قتل کر دیا گیا تھا۔ وقت اور تاریخ انسانی ذہن کی عدالت کے بہترین استاد اور بہترین گواہ ہیں۔ ایرانی حکام نے وعدہ کیا کہ اس جرم کے ذمہ داروں کو کھلا نہیں چھوڑا جائے گا اور اس غیر انسانی جرم کے مرتکب افراد اور معاونین نے کو انصاف کی منصفانہ عدالت میں لایا جائے گا۔ تاہم، اس وقت کے امریکی صدر کے اس گھناؤنے دہشت گردانہ اقدام کی سیاست دانوں، وکلا، ماہرین تعلیم اور رائے عامہ سمیت بہت سے لوگوں نے بڑے پیمانے پر مذمت کی تھی۔ ایران نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنی سیاسی، قانونی اور بین الاقوامی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے ملزمان اور مجرموں کیخلاف منصفانہ کارروائی کرے گا۔

گذشتہ دہائیوں کے دوران دشمنی، دہشتگردی اور شہریوں کا قتل دو عظیم اقوام ایران اور پاکستان کا مشترکہ درد رہا ہے۔ دونوں ممالک اس دکھ سے دوچار ہوئے ہیں اور کئی خاندان اپنے پیاروں سے محروم ہوچکے ہیں۔ ایران اور پاکستان کی طرح کوئی بھی قوم دہشتگردی کے طاعون کو نہیں سمجھتی۔ ان دونوں مسلم ممالک کے عوام دہشتگردی کی تباہ کاریوں اور تشویش کو محسوس کرتے ہیں اور اس راہ پر قوموں کے نوجوانوں کا بہت سا پاک خون بہا ہے۔ دونوں برادر ممالک ایران اور پاکستان میں اب تک بہت سے شہداء نے اپنی زندگیاں وقف کیں اور امن و سلامتی کے مقدس مقصد کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ موجودہ خطرے کی صورتحال جو ہم دیکھ رہے ہیں، اور اس تباہ کن امکان کیساتھ جو خطے میں بڑے پیمانے پر پھیل رہا ہے، عالم اسلام کو ایک متفقہ طرز عمل کیساتھ قدم اٹھانا چاہیئے اور اپنی غلط فہمیوں کو ایک طرف رکھ کر، جن میں زیادہ تر غیر ملکیوں کی طرف سے پھیلائیں ہوئی ہے، امن اور سلامتی کو برقرار رکھنا چاہیئے۔ اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے، اس خطے سے مقامی امن اور سلامتی کا آغاز کیا جائے۔

تحریر: سید محمد علی حسینی
(پاکستان میں ایران کے سفیر)

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، جب پوری دنیا میں نئے سال کے آمد کی صدائیں گونج رہی تھیں اس وقت ایران، عراق‌ اور شام میں لاکھوں ایسے تھےجو خاموشی سے ایک ایسے شخص کی موت پر ماتم کر رہے تھے جس نے انہیں داعش کے خوف کے بغیر ایک نئی زندگی دی تھی۔
جنرل کا شکریہ ادا کرنے والی وہ 39 ہندوستانی نرسیں بھی ہوں گی جنہیں سفاک اور خوفناک داعش کے ہاتھوں یرغمال بنایا گیا تھا۔
دنیا کو نہ صرف الحاج قاسم سلیمانی کی موت پر سوگ منانے کی ضرورت ہے، بلکہ ان کی زندگی کا جشن بھی منانا چاہئے۔
جنرل سلیمانی کی غیر متزلزل کوششوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ داعش کا روئے زمین سے صفایا ہو جائے۔ جعلی 'اسلامک اسٹیٹ' کو قائم کرنے کے شیطانی منصوبوں کو جنرل سلیمانی کی مزاحمت اور حکمت عملی نے کبھی پایہ تکمیل تک پہنچنے نہ دیا اور خطے کو ان کے ناپاک وجود سے نجات دلانے میں مدد کی۔
مغربی ایشیائی خطے پر ماہر ایک ہندوستانی کے مطابق، جس نے ایک سرکردہ ہندوستانی اخبار کو بتایا، "ہو سکتا ہے ہندوستانی حکام نے ان (جنرل سلیمانی) کے ساتھ وقتاً فوقتاً رابطے کیے ہوں تاکہ وسیع تر مغربی ایشیاء کے علاقوں میں سرحد پار دہشت گرد گروہوں کے مسئلے پر بات چیت کی جا سکے۔ سلیمانی، عراق اور شام میں آئی ایس آئی ایس کے خلاف مسلح مزاحمت کا نمایاں چہرہ تھے اور آئی ایس آئی ایس کو شکست دینے میں انہوں نے بڑا کردار ادا کیا۔
جنرل سلیمانی نے پاکستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی اور دہشت گرد گروہوں پر قابو پانے میں پاکستان کی ناکامی پر انہیں بھی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
جنرل سلیمانی کی بہادری بے مثال اور بے مقابلہ ہے۔ اب بھی کچھ سوالات ہیں جن کا جواب دنیا کو درکار ہے۔
ان کے قتل سے کس کو فائدہ ہوا؟
اور کون چاہتا تھا کہ وہ چلا جائے؟
یہ صرف داعش ہی ہے جو انہیں جاتا ہوا دیکھنا چاہتی تھی۔ تاہم، داعش کو اس قدر بے دردی سے نقصان پہنچایا گیا تھا کہ وہ ابھی تک خود کو دوبارہ منظم نہیں کر پائے ہیں۔
جنرل سلیمانی نے عراق کے فوجی سربراہ ابو مہدی مُہندِّس کے ساتھ مل کر خطے میں امن کی بحالی کو یقینی بنایا۔
30 دسمبر سے یکم جنوری 2023 کے درمیان حسینی ہاؤس، تربھے، مسجد ایرانیان (مغل مسجد)،ممبئی، شیعہ قبرستان، میرا روڈ اور زیب پیلس، یاری روڈ میں تعزیتی پروگرام منعقد کئے گئے، اس موقع پر مولانا سید قاضی عسکری صاحب نے جنرل قاسم سلیمانی، ابومہدی مُہندس اور دیگر شہداء کی شہادت کی یاد میں تقاریر کی جنہوں نے نہ صرف انسانی جانوں کی حفاظت کی بلکہ دمشق میں پیغمبر اسلام (ص) کی نواسی بی بی زینب (س) کے مزار پر داعش کے حملوں کو روکنے کے لئے اپنی جانیں بھی قربان کیں۔

رہبر انقلاب اسلامی سے علمی و سماجی میدانوں کی کچھ ممتاز خواتین اور نمونہ ماؤوں کی ملاقات

رہبر انقلاب اسلامی نے اس موقع پر اپنے خطاب میں کہا کہ مغرب کا سرمایہ دارانہ نظام، مردوں کے غلبے والا نظام ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں، سرمایہ، انسانیت سے اوپر ہوتا ہے۔ انسانوں کی انسانیت کو، سرمائے کی خدمت میں صرف کیا جاتا ہے۔ جو انسان زیادہ سرمایہ حاصل کرے، زیادہ سرمایہ جمع کرے، اس کی قدروقیمت زیادہ ہوتی ہے۔

انھوں نے اسی طرح کہا کہ مغربی سرمایہ داری میں معاشی، تجارتی اور اسی طرح کے امور کے بڑے عہدے مردوں کے پاس ہوتے تھے بنابریں سرمایہ دارانہ نظام میں مرد کو عورت پر ترجیح حاصل ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ بہت سے مغربی ملکوں میں اس وقت بھی ایک ہی کام کے لیے خواتین کی تنخواہ، مردوں کی نسبت کم ہے، یہ استحصال ہے۔ انیسویں اور بیسویں صدی میں عورت کی آزادی کا مسئلہ اٹھانے کے بہانے، عورتوں کو گھر سے باہر کھینچ لیا گيا اور انھیں کارخانے میں لا کر انتہائي کم اجرت پر کام کرایا گيا۔

انھوں نے کہا کہ مغرب والوں کی حد درجے کی بے غیرتی یہ ہے کہ وہ جنسی مقاصد کے لیے عورتوں کی جنسی بردہ فروشی اور ان کی جنسی تجارت کرنے کے باوجود، خواتین کے حقوق کی علمبرداری کا دعوی کرتے ہیں۔

آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا کہ بعض لوگ کہتے تھے کہ مغرب میں عورت اور مرد کے درمیان تعلقات کی آزادی سے مردوں کا دل اور آنکھیں سیر ہو جائيں گي اور پھر جنسی جرائم انجام نہیں پائيں گے۔ اب نہ صرف یہ کہ ایسا نہیں ہوا بلکہ عورتوں کے سلسلے میں بری نظر سیکڑوں گنا زیادہ بڑھ چکی ہے اور یہ چیز طرح طرح کی جنسی برائيوں اور تمام اخلاقی اور انسانی حدود کی پامالی کا سبب بھی بنی ہے۔

انھوں نے کہا کہ مغرب نے تمام اخلاقی اور انسانی حدود کو توڑ دیا ہے اور وہ ان گناہوں کو رائج کرنے اور قانونی جواز عطا کرنے کے درپے ہے جو تمام مذاہب میں حرام ہیں۔ ہم جنس پرستی وغیرہ صرف اسلام میں ہی حرام نہیں ہیں بلکہ تمام ادیان میں گناہان کبیرہ میں شامل ہیں۔ وہ انھیں قانونی درجہ دے رہے ہیں اور ذرہ برابر بھی شرمندہ نہیں ہیں۔


2 جنوری 2016ء کے دن آل سعود رژیم نے کئی سال تک آیت اللہ شیخ باقر النمر کو قید اور ٹارچر کرنے کے بعد آخرکار شہید کر دیا۔ یوں سعودی عرب کی تاریخ میں یہ بدنما داغ ہمیشہ کیلئے باقی رہ گیا۔ شیخ باقر النمر پہلی بار 2006ء میں گرفتار ہوئے۔ انہیں بحرین میں ایک بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت سے واپسی پر گرفتار کیا گیا تھا اور گرفتاری کی وجہ ان کی سعودی حکومت سے قبرستان بقیع کی تعمیر نو کرنے اور شیعہ مذہب کو سرکاری طور پر قبول کرنے کی درخواست ظاہر کی گئی تھی۔ اس کے بعد 2008ء اور 2009ء میں بھی انہیں آل سعود رژیم کو تنقید کا نشانہ بنانے کی وجہ سے گرفتار کیا گیا تھا۔ 2012ء میں جب شیخ باقر النمر نے ایک اعلی سطحی سعودی حکومتی عہدیدار کو تنقید کا نشانہ بنایا تو سکیورٹی فورسز نے ان کے گھر پر حملہ کر کے انہیں زخمی کر دیا اور گرفتار بھی کر لیا۔
 
اس کے بعد وہ 2 جنوری 2016ء تک آل سعود کی قید میں رہے اور آخرکار ان کا سر تن سے جدا کر دیا گیا۔ شیخ باقر النمر کی زندگی سیاسی جدوجہد سے بھرپور تھی۔ انہوں نے آل سعود رژیم کی ظالمانہ پالیسیوں کے خلاف تحریک چلائی اور خاص طور پر دو علاقوں الاحساء اور القطیف میں سرگرم عمل رہے۔ وہ واضح طور پر سلطنتی نظام حکومت اور آل سعود رژیم کی برطانیہ اور امریکہ کی غیر مشروط اطاعت کو تنقید کا نشانہ بناتے رہتے تھے۔ وہ آل سعود، آل خلیفہ اور دیگر خلیجی رژیموں کو امریکہ کی کٹھ پتلیاں قرار دیتے اور کہتے تھے: "تمام خلیجی ریاستیں امریکہ کی چھتری تلے زندگی بسر کر رہی ہیں۔ امریکی نیوی کی ففتھ ڈویژن بحرین اور دیگر عرب ممالک کے تیل کے ذخائر کی لوٹ مار کرنے کیلئے خطے میں موجود ہے۔" شیخ باقر النمر کھلم کھلا آل سعود رژیم کی کرپشن، آمریت اور ڈکٹیٹرشپ پر بھی اعتراض کرتے رہتے تھے۔
 
آیت اللہ باقر النمر سعودی حکومت کی جانب سے شہریوں خاص طور پر شیعہ مسلمانوں کی تحقیر پر شدید احتجاج کرتے تھے۔ ان کی نظر میں آل سعود رژیم شیعہ مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری سمجھتی تھی اور انہیں تمام شہری حقوق سے محروم کر رکھا تھا۔ شیخ باقر النمر نے بارہا اس بات پر زور دیا کہ وہ سعودی عرب کے شیعہ مسلمانوں کے احترام اور حقوق کی حمایت کرتے رہیں گے۔ شیخ باقر النمر ہمیشہ اپنی تقریروں میں سیاسی تبدیلیاں انجام پانے، شہریوں کی سماجی آزادی بحال ہونے، مذہبی اقلیتوں کے حقوق کا احترام اور حکومت کی جانب سے امتیازی سلوک ختم کرنے پر زور دیا کرتے تھے۔ جب سعودی حکومت نے انہیں شہید کیا تو سعودی عرب کے علاوہ دیگر اسلامی ممالک جیسے ایران، عراق، پاکستان، بحرین، یمن، لبنان وغیرہ میں بھی بڑے پیمانے پر احتجاج سامنے آیا۔
 
دنیا کی متعدد انسانی حقوق کی تنظیموں نے بارہا آل سعود رژیم کی جانب سے شیخ باقر النمر کو سزائے موت سنائے جانے کی مذمت کی تھی اور سعودی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اس پر عملدرآمد نہ کرے۔ جب سعودی حکومت نے انہیں شہید کر دیا تو 12 عرب ممالک سے 114 تنظیموں نے اس کی شدید مذمت کی۔ آل سعود رژیم کے اس اقدام نے سعودی عرب اور ایران کے تعلقات کو بھی شدید کشیدہ کر دیا تھا۔ سعودی عرب میں شیعہ مسلمانوں کی زیادہ آبادی جنوبی علاقوں جیسے القطیف اور الاحساء میں مقیم ہے۔ آل سعود ہمیشہ سے انہیں اپنی حکومت کیلئے خطرہ تصور کرتی آئی ہے۔ سعودی تاریخ میں آل سعود رژیم کے خلاف احتجاجی تحریکوں کی اکثریت بھی انہی علاقوں میں جنم لیتی رہی ہے۔ سعودی حکومت شدید مذہبی تعصب کا شکار ہے اور شیعہ مسلمانوں کو دوسرے درجہ کا شہری سمجھتی ہے۔
 
گذشتہ چند سالوں کے دوران آل سعود رژیم نے اپنے شہریوں کے خلاف ریاستی دہشت گردی اختیار کر رکھی ہے۔ یوں سعودی حکومت اپنے ہی شہریوں میں سے روشن خیال، قانون دان اور سیاسی طور پر سرگرم شخصیات کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنا رہی ہے۔ اس کی ایک اور واضح مثال جمال خاشگی کا ہولناک قتل ہے۔ وہ سعودی شہری تھے اور موجودہ حکومت کے شدید مخالف ہونے کے ناطے جلاوطنی کی حالت میں ترکی میں رہتے تھے۔ "ریاستی دہشت گردی" کا مطلب ایک حکومت کی جانب سے خاص سیاسی اہداف کے حصول کیلئے اپنے ہی شہریوں کے خلاف دہشت گردانہ اقدامات انجام دینے کو کہتے ہیں۔ معاشرے میں دہشت پھیلانے کا ایک معروف طریقہ اجتماعی سزائے موت دینا ہے۔ سعودی عرب میں ہر سال اس اقدام کا مشاہدہ کیا جاتا ہے۔ 2016ء میں بھی شیخ باقر النمر کے ہمراہ 46 دیگر افراد کے سر قلم کئے گئے تھے۔
 
اپریل 2019ء میں بھی آل سعود رژیم نے 37 شیعہ شہریوں کو ایک ساتھ قتل کر دیا تھا۔ ان پر 2011ء کے پرامن مظاہروں میں شرکت کا الزام تھا۔ ان میں سے اکثریت نوجوانوں کی تھی۔ ماضی میں بھی سعودی حکومت نے 1980ء میں ایک ہی دن 63 شہریوں کو قتل کر دیا تھا۔ ان افراد پر مسجد الحرام پر زبردستی قبضے کا الزام لگایا گیا تھا۔ حال ہی میں "سند" نامی انسانی حقوق کے ادارے نے اعلان کیا ہے کہ آل سعود رژیم کی فوجی عدالتوں نے 60 شہریوں کو سزائے موت کا حکم سنا رکھا ہے۔ ان افراد کو سیاسی اور مذہبی بنیادوں پر گرفتار کیا گیا ہے۔ ان افراد کو دو ماہ قبل ریاض کے قریب واقع "الحائر" جیل منتقل کر دیا گیا ہے۔ ڈیلی ٹیلی گراف سمیت بعض میڈیا ذرائع نے خبردار کیا ہے کہ آل سعود رژیم نئے سال کی چھٹیوں میں ان افراد کے سر قلم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

تحریر: علی احمدی

لبنان کی حزب اللہ کے اس باخبر ذریعے نے اتوار کی شب بیروت میں ارنا نیوز ایجنسی کے دفتر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ سید حسن نصر اللہ انفلوئنزا وائرس میں مبتلا ہونے کے بعد مکمل صحت مند ہیں اور ان کا علاج جاری ہے۔

اس ذریعے نے اس بات پر زور دیا کہ فلو اور ان کی آواز میں بعض مسائل کی وجہ سے ان کے لیے تقریر کرنا مشکل تھا، اس لیے جمعہ کی شام حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل کی تقریر کو منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

اس باخبر ذریعے کے مطابق، لبنان کی حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل منگل کو پاسداران  اسلامی انقلاب کی قدس فورس کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل قاسم سلیمانی اور ان کے اتحادیوں کی شہادت کی تیسری برسی کے موقع پر خطاب کریں گے۔

یہ تقریب منگل کو مقامی وقت کے مطابق 18:00 بجے (تہران کے وقت کے مطابق 19:30) بیروت میں سید الشہداء اسمبلی میں منعقد ہوگی۔

انقلاب اسلامی ایران کے دوران وہ مشہد کے رضا کامیاب نامی عالم دین سے آشنا ہوئے جنہوں نے ان کو انقلابی سرگرمیوں میں شامل کیا۔ ان کے بھائی سہراب سلیمانی کے بقول، جنرل قاسم سلیمانی، ایران میں اسلامی انقلاب کے دوران کرمان میں ہونے والے مظاہروں اور احتجاجات کے اہم منتظمین میں آپ کا شمار ہوتا تھا۔

 

جنرل قاسم سلیمانی نے 1980ءمیں سپاہ پاسدارن انقلاب اسلامی میںشمولیت اختیار کی۔ ایران عراق جنگ کے آغاز پرآپ کرمان کے دو فوجی بٹالینز کے کمانڈر تھے۔مختصر عرصے کے لئے آپ نے سپاہ قدس کے آذربایجان غربی برگیڈ کی کمان سنبھالی۔

شہید قاسم سلیمانی سنہ 1981ء کو سپاہ پاسداران کے اس وقت کے سپہ سالار، محسن رضایی کے حکم سے سپاہ قدس کے 41ویں برگیڈ ثاراللہ کے سربراہ منصوب ہوئے۔

آپ ایران عراق جنگ کے دوران مختلف آپریشنز من جملہ والفجر 8، کربلا 4 اور کربلا 5 نامی آپریشن کے کمانڈر تھے۔

شہیدقاسم سلیمانی سنہ 1998ء میں رہبر مسلمین جہاں آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی طرف سے سپاہ پاسداران انقلاب کے قدس برگیڈ کے سربراہ منصوب ہوئے۔

شہید قاسم سلیمانی کو سنہ2011ءمیں رہبر مسلمین جہاں آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی طرف سے میجر جنرل کے عہدے پر ترقی دی گئی۔

مدافع حرم اہل بیتؑ جنرل قاسم سلیمانی عراق اور شام میں داعش کے خلاف برسر پیکار کمانڈروں میں سے تھے۔آپ نے روضہ ہائے مقدس کا کامیابی سے دفاع کیا اور دشمنوں کی ناک رگڑدی۔21 ستمبر 2017 کو ایک مدافع حرم شہید کے چہلم سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے کہا تھا کہ تین ماہ کے عرصے میں روئے زمین سے داعش کی حکومت کا خاتمہ کردیا جائے گا اور دنیا نے اس بات کو سچ ہوتے دیکھا۔

 

10 مارچ سنہ 2019ء کو رہبر معظم آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی طرف سے جنرل قاسم سلیمانی کو ایران کے سب سے اعلی فوجی اعزاز نشان ذوالفقار سے نوازا گیا۔ اسلامی جمہوری ایران کے فوجی اعزاز دینے سے مربوط قانون کے مطابق یہ نشان ان کمانڈروں کو اور فوجی آفیسروں کو دیا جاتا ہے جن کی حکمت عملی مختلف فوجی آپریشنز میں نتیجہ خیز ثابت ہوں۔ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد جنرل سلیمانی پہلے شخص ہیں جنہوں نے یہ نشان حاصل کیا ہ 

  •  
    جنوری 2019 کوبزدلوں اور دہشتگردوں کے سالار امریکہ نے بزدلانہ کاروائی کرتے ہوئے بغداد ایئر پورٹ پر ڈرون حملے میں آپ کو شہید کردیا۔ آپ کے ساتھ حشد الشعبی کے مرکزی رہنما ابو مہدی مہندس اور دیگر رفقاء 
  •  بھی شہادت پائی۔
  • شیعہ نیوز

پاکستان میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سفارت خانے نے پیر کے روز اپنے جاری کردہ ایک بیان میں کہا کہ مجرم امریکی حکومت کی ریاستی دہشت گردی اور بین الاقوامی قوانین کے خلاف منافقانہ رویے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ جنرل سلیمانی کا قتل ایک اسٹریٹجک غلطی اور عالمی امن اور سلامتی کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔

اس بیان میں آیا ہے کہ اقوام متحدہ کےایک رکن ملک کے اعلیٰ فوجی کمانڈر کے خلاف دہشت گردانہ اقدام  بین الاقوامی قوانین اور جنیوا کنونشنز کی صریح خلاف ورزی ہے۔ یہ کارروائی ایک مجرمانہ اور جارحانہ اقدام تصور کیا جاتا ہے، اور  دنیا اور خطے کے امن و سلامتی کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔ امریکہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ میں سب سے بڑے اور تجربہ کار کمانڈر کے قتل کے ساتھ تکفیریوں اور داعش جیسے دہشت گرد گروہوں کے خلاف جنگ کے راستے کو کمزور کرنے کی کوشش کی ہے۔

تہران، ارنا – قائد اسلامی انقلاب نے مزاحمتی محاذ کی بحالی کو شہید جنرل سلیمانی کا عظیم کارنامہ قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ جنرل سلیمانی نے مزاحمت کو مادی اور روحانی کے لحاظ سے مضبوط کرتے ہوئے ناجائز صہیونی ریاست، امریکہ اور دوسرے استکباری ممالک کے خلاف اس کو محفوظ، لیس اور بحال کردیا۔

ان خیالات کا اظہار حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اتوار کے روز شہید جنرل سلیمانی کی شہادت کی تیسری برسی کے موقع پر ان کے اہل خانہ اور یادگاری ہیڈکوارٹر کے اراکین کے ساتھ ایک ملاقات کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

قائد اسلامی انقلاب نے لبنان کی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کے سکریٹری جنرل سید حسن نصراللہ جو ایک مثالی انسان ہیں، کی شہید جنرل سلیمانی کی جد و جہد کے بارے میں شہادت کو اس شہید کے مزاحمتی محاذ کی بحالی کے عظیم کارنامہ کی اہمیت کو سمجھنے کے لئے ایک بڑا باب قرار دے دیا۔
ایرانی سپریم لیڈر نے صہیونیوں کے خلاف فلسطینیوں کی ترقی اور عراق، شام اور یمن میں مزاحمت کی کامیابیوں کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ شہید جنرل سلیمانی نے دفاع مقدس کے دوران کے تجربات سے استعمال اور اپنے اتحادیوں کے مشوروں کے ساتھ ان ممالک کے اندرونی صلاحیتوں پر انحصار کے ذریعہ مزاحمت کو مضبوط کردیا۔
رہبر معظم انقلاب نے داعش دہشت گرد گروپ کا خاتمہ اور اس کی جڑوں کی تباہی کو شہید جنرل سلیمانی کے عظیم کاموں میں سے ایک قرار دے دیا اور فرمایا کہ یہ شہید اس مسئلے کے حل میں کامیاب ہوگئے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے جنرل اسماعیل قاآنی کی اعلی کارکردگیوں کو سراہتے ہو‎ئے فرمایا کہ اللہ کا شکر ہے کہ بہت ہی مسائل میں شہید جنرل سلیمانی کی خالی جگہ پر ہو چکی ہے۔
انہوں نے مزید فرمایا کہ مزاحمتی محاذ اپنے خود کو اسلامی جمہوریہ کی اسٹریٹجک گہرائی اور اسلام کے بازوؤں کو سمجھتے ہیں اور یہ تحریک اسی سمت جاری رہے گی۔
قائد اسلامی انقلاب نے جنرل سلیمانی کی یادگاری تقریب میں عوام کی پرجوش شرکت کو اس جنرل کے خلوص کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ رواں سال بھی گزشتہ سالوں کی طرح عوام کی موجودگی بہت ہی پرجوش ہے اور اللہ تعالی کی مدد سے شہید جنرل سلیمانی کی تعریف کی تقریبات کے سلسلے میں کوئی مسئلہ اور کمی موجود نہیں ہے۔