سلیمانی
آج کا دور خمینی کا دور
2۔ علی (ع) اپنا چہرہ چھپا کر رکھتے، تاکہ پہچانے نہ جائیں، تاکہ فقیر کے ماتھے پر شرمندگی کا پسینہ نہ آئے، وہ اپنے ہاتھ سے چہرے مبارک کو ڈھانپ لیتے۔۔۔۔ علی کے اشارے پر ہوا بھی آہستہ چلتی، تاکہ ایک بچے کی نیند میں خلل نہ پڑے اور۔۔۔۔
کتاب "صوت العدل الانسانیہ" کے عیسائی مصنف جارج جردق لکھتے ہیں: "یہ سب کچھ جو علی (ع) کی فضیلت اور انسان دوستی سے مجھے حاصل ہوا ہے، وہ ناپ تول اور تعداد سے باہر ہے۔ جو ہم تک پہنچا، بہت سی مقداروں میں سے صرف ایک چھوٹا سا حصہ گویا علی (ع) کی صفات کے لامحدود سمندر کا ایک قطرہ ہے۔ اس رائے کی وضاحت کرتے ہوئے جردق نے ایک تلخ حقیقت کی طرف اشارہ کیا اور کہا: "علی کی بہت سی خوبیاں ان کے دشمنوں نے بغض کی بنا پر اور ان کے دوستوں نے تقیہ کی بنا پر فراموش کر دی ہیں۔"
3۔ ظاہری خلافت کے ابتدائی ایام میں کچھ امیر اور خواص راتوں کو آپ کے پاس گئے اور مال کو مساوی طور پر تقسیم کرنے پر شکوہ کیا؟! آپ پہلے والوں کی طرح شرفاء اور خواص کو زیادہ حصہ کیوں نہیں دیتے؟! اور حضرت علی (ع) نے فرمایا تھا: "کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں ان لوگوں پر ظلم کرکے فتح حاصل کروںو جن پر میں حکومت کرتا ہوں؟ خدا کی قسم میں یہ ظلم کبھی نہیں کروں گا۔ اگر یہ جائیداد میری ہوتی، تب بھی میں اسے لوگوں میں برابر تقسیم کر دیتا، یہ مال تو خدا کی ملکیت ہے۔" علی (ع) سخت تھے، لیکن لوگوں کے ساتھ نہیں، حکومت کے ان اہلکاروں کے ساتھ، جن کی ذمہ داری وہ خدا کے بندوں کی خدمت سمجھتے تھے اور انہیں حکم دیتے تھے کہ یہ لوگ یا تو تمہارے دینی بھائی ہیں، یا مخلوق میں تمہارے برابر ہیں۔ دوسری طرف وہ آلودہ جائیدادوں، ناجائز دولت کے مالکوں، غنڈوں اور اس قسم کے تمام لوگوں کے ساتھ سخت تھے۔ یہ وہی متاثرین اور اسراف زدہ لوگوں تھے، جو ہمارے مظلوم آقا کی سختی سے خوفزدہ تھے اور علی (ع) کے انصاف کے بارے میں اپنی بے چینی کو لوگوں کی فکر سمجھتے تھے۔
4۔ یہاں صفین کا میدان ہے۔ صفر 37 ہجری کا 9واں دن۔ کل رات ایک سخت جنگ لڑی گئی اور غروب آفتاب کے چند منٹ بعد تک، اگرچہ 93 سالہ عمار، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور علی کے وفادار دوست تھے، شہید ہوگئے، لیکن معاویہ کی فوجوں کو زبردست شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ آج کے حملے کے خوف سے وہ پوری رات سو نہیں سکے۔ علی (ع) کے ساتھی انہیں اس حد تک لے گئے کہ ان کی دہشت کی آواز کتوں کے چیخنے کے مترادف تھی اور اسی وجہ سے انہوں نے اس رات کو "لیلۃ الحریر" یعنی کتوں کے چیخنے کی رات کا نام دیا۔ تاہم، آج جنگ ایک گھنٹہ پہلے شروع ہوچکی تھی اور علی (ع) کی فوج کے کمانڈر مالک اشتر نے شام کی فوج کو تتر بتر کر دیا اور معاویہ کے خیمے کے قریب جا پہنچے، جو آج کے وائٹ ہاؤس کی طرح ہے۔ لیکن معاویہ کی فوجوں نے عمرو عاص کی چال سے قرآن کو نیزوں پر بلند کر دیا اور علی (ع) نے اس چال کے بعد مالک کو واپس بلایا، جس نے کچھ کم عقل لوگوں میں شکوک پیدا کر دیئے تھے۔ مالک پریشان ہے۔۔۔۔ اسلام کا مستقبل خوفناک ہے۔۔۔ لیکن اس نے اپنے امام کی اطاعت کو ہر چیز پر مقدم رکھا۔
5۔ چند سال پہلے کیہان میں ایک آرٹیکل میں ہم نے ذکر کیا تھا کہ "امیر مومنین (ع) کے سامنے دشمنی اور عداوت کے لیے تین دھڑے موجود تھے۔ پہلے ناکثین، جیسے طلحہ اور زبیر، جن میں سے کچھ علی کو چاہتے تھے، لیکن علی کی عدالت کو پسند نہیں کرتے تھے۔ دوسرا گروہ مارکین، خوارج، جو علی (ع) کے بغیر انصاف کی تلاش میں تھے۔ تیسرا گروہ قاسطین کا تھا، جیسے معاویہ اور اس کا گروہ۔ جو نہ علی (ع) اور نہ انصاف چاہتے تھے۔ اگرچہ ان تینوں دھڑوں نے ہمارے آقا علی (ع) کے خلاف جنگ کا جھنڈا بلند کیا، صرف اس وجہ سے کہ علی (ع) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خالص اسلام کی نمائندگی کرتے تھے اور "علوی انصاف" پر اصرار کرتے تھے، جو "پیغمبرانہ انصاف" کا حقیقی ترجمہ تھا۔
6۔ ایک نصیحت آمیز اور سبق آموز نکتہ یہ ہے کہ تاریخ کی غیر واضح اور غیر مبہم گواہی کے مطابق، ناکثین اور مارکین نے نہ صرف حضرت امیر (ع) کے دور میں بلکہ تمام ادوار میں قاسطین کی خدمت کی ہے اور قاسطین نے مارکین اور ناکثین کو استعمال کیا ہے۔ ناکثین میں سے طلحہ اور زبیر فتنہ جمل میں معاویہ کی طرف سے علی (ع) کے خلاف صف آراء ہوئے، کربلا میں شمر وہ شخص تھا، جس نے امام حسین (ع) کے خلاف سب سے زیادہ ظلم کیا، خوارج میں سے تھا! ابن ملجم مرادی قاتل علی (ع) بھی خارجی تھا۔۔ دور کیوں جائیں؟ ایران میں 88 کے فتنہ کے دوران، فتنہ کے سرغنہ اور اس واقعے کے بہت سے دوسرے اہم عوامل نے کافروں اور منافقوں کا ساتھ دیا اور امام (رہ) کی توہین سے بھی باز نہ آئے اور نہ اس فعل کی مذمت کی اور آخر کار قاسطین کے ساتھ مل گئے، جو آج جو کے دور میں امریکہ، اسرائیل اور انگلینڈ کی منحوس مثلث ہے؟! اس گروہ نے ابتداء میں فتنہ کے دوران حط امام کا پیرو ہونے کا کا دعویٰ کرتے ہوئے کھلم کھلا امام خمینی کی توہین کی، امام حسین (ع) کے مقدسات کو آگ تک لگائی اور اسطرح امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے خالص اسلام پر وار کیا، اس جنگ میں منافق، بہائی، مارکسی، شاہی سب شامل تھے۔
7۔ مالک غمگین ہے، وہ علی کو اپنی طاقت کے عروج پر مظلوم دیکھتا ہے۔ وہ اپنی آنکھوں سے بہتے آنسو پونچھتا ہے۔ وہ آہستہ آہستہ عمار کے پاس جاتا ہے۔ "کاش ہم علی (ع) کو ایک ایسے دور میں لے جائیں، جہاں لوگ ان کی تعریف کریں اور ان کے طریقے اور رسم و رواج کو ترجیح دیں۔" عمار نے مالک کو تسلی دی۔ "وہ دن آنے والے ہیں، جو تم چاہتے ہو۔ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایسے لوگوں کا ذکر سنا ہے، جو اپنے آباء کے صلب میں اور اپنی ماؤں کے رحموں میں ہیں اور جب وہ وقت آئے گا، جس کی تم نے تمنا کی تھی تو وہ لوگ آجائیں گے، جو لبیک کہتے ہوئے "میں" اور "ہم" سے بے پرواہ صرف اور صرف اپنے مولا کی اطاعت کا دم بھرتے ہوئے آگے بڑھیں گے، ان کا دل محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے خالص اسلام سے مربوط ہے۔ وہ علی (ع) کو اپنا امام، استاد اور رہنما مانتے ہیں۔ وہ تسلط کے نظام کی تاریکی کو توڑتے ہوئے ایک نیا منصوبہ سامنے لائیں گے۔
رسول خدا (ص) نے جس کا وعدہ کیا تھا، وہ آئے گا اور جن مجرمین نے علی (ع) کی زندگی کے خاتمے کو اس دنیا میں اسلام کا خاتمہ سمجھا تھا وہ خوف سے بلک اٹھیں گے۔ علی کے یہ مرید دشمن کا مقابلہ کریں گے۔ اپنے تمام دشمنوں کو الکفر ملهًْ واحده» کا نمونہ کہہ کر ہر طرف سے ان پر چڑھ دوڑتے ہیں۔ ایک بار پھر جمل، صفین اور نہروان کا منظر ہوگا، لیکن اس بار جمل کی طرح ناکثین سامنے ٹک نہیں سکین گے اور صفین کی طرح وہ فریب کے نیزے سے زخمی نہیں ہونگے، اور نہ نہروان جیسی صورت حال ہوگی۔ شیطان انسانوں اور جنوں کی اپنی فوجوں کو پکارے گا: تم کیوں بیٹھے ہو؟! اسلام ایک بار پھر تاریخ کی باڑ توڑ کر 1400 سال بعد میدان میں آگیا ہے۔
8۔ "خمینی کے دور کا آغاز یقیناً اسی طرح ہوا۔ جس دور کی مالک نے تمنا کی تھی اور عمار نے بشارت دی تھی اور حضرت روح اللہ نے اس زمانے کے لوگوں کے بارے میں فرمایا: "میں جرات کے ساتھ دعویٰ کرتا ہوں کہ ملت ایران اور اس کے کروڑوں لوگ رسول خدا (ص) کے دور کی قوم حجاز اور امیر المومنین (ع) کے دور کے اہل کوفہ سے بہتر ہیں۔" یہ نکتہ مصر کے مشہور ادیب اور صحافی "محمد حسنین ہیکل" سے بھی نقل ہوا ہے۔ وہ امام خمینی (رہ) سے اپنی پہلی ملاقات کے بارے میں لکھتے ہیں، جو کہ اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد تہران میں ہوئی تھی۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک صحابی کو اس طرح دیکھا کہ جیسے وہ وقت کی 1400 سالہ سرنگ سے گزر کر موجودہ دور میں پہنچ گئے ہیں، تاکہ علی (ع) کے فوجیوں کو اکٹھا کریں، جو ان کی شہادت کے بعد بکھر گئے تھے۔ بھولے ہوئے اسلام کو دوبارہ قائم کریں، عدل علی (ع) کو حکومت کی کرسی پر بٹھا دیں۔ میں خمینی کے چہرے میں یہ صلاحیت صاف دیکھ رہا ہوں۔"
9۔ میں نہیں جانتا کہ یہ کس نے کہا؟ میں نے اسے کہیں پڑھا اور سنا۔ یہ ایک دانشمندانہ جملہ ہے "اگر ہمیں امیر المومنین (ع) کی سیرت و زندگی پر پرکھا جائے اور ملامت کی جائے، تو یہ ہمارے لیے اس سے بہتر ہے کہ وہ ہمیں لبرل ازم پر پرکھیں اور ہماری حوصلہ افزائی کریں۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے جانشین نے یہ انداز اختیار کیا ہے کہ وہ 44 سال تک دنیا کی تمام چھوٹی اور بڑی طاقتوں کی کینہ توزیوں اور سازشوں کے سامنے کھڑے ہیں اور خواجہ شیراز، کے الفاظ کا مصداق بنے ہوئے ہیں یعنی ہم ’’عدم کی حد‘‘ سے ’’ عالم وجود‘‘ تک آئے ہیں۔
10۔ اب اس طرف اور دنیا کے دوسرے رخ پر ایک نظر ڈالیں۔ ہم کیا دیکھتے ہیں۔ سی آئی اے کے سابق سربراہ جیمز ویلزلی کے مطابق "اسلام ایک طاقتور قطب ہے اور خمینی اور خامنہ ای کے پرچم تلے پوری دنیا کو چیلنج کیا جا رہا ہے" اور بحر اوقیانوس کے سربراہی اجلاس میں برزینسکی کے مطابق "تاریخ ایک عظیم موڑ پر پہنچ چکی ہے۔ وہ مقام جہاں خمینی اور خامنہ ای کے رہنماء خطوط ہیں۔" (دوسری طرف حضرت خامنہ ای نے تاریخ کے عظیم موڑ کے بارے میں آگاہ کیا تھا) آج ہم نیتن یاہو کو چیخیں مارتے ہوئے دیکھتے ہیں، وہ کہہ رہا ہے: "میں مشرق وسطیٰ میں جہاں بھی دیکھتا ہوں، میں خمینی اور خامنہ ای کو خیمے لگائے دیکھتا ہوں" اور ایلون ٹوفلر افسوس کرتے ہوئے رہبر انقلاب کی اس بات کی تصدیق کر رہا ہے کہ ’’اس دور کو خمینی کا زمانہ کہنا چاہیئے۔‘‘
انقلابِ اسلامی نے عالمی استکبار کے ظلم و ستم سے نجات کا راستہ دکھایا، شیخ ابراہیم زکزاکی
حوزه نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، شیعہ اسلامی تحریک نائیجیریا کے سربراہ شیخ ابراہیم زکزاکی نے خراسان رضوی مشہد میں انقلابِ اسلامی ایران کی سالگرہ سے متعلق منعقدہ کانفرنس کے نام ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ انقلابِ اسلامی ایران کو 44 سال گزر چکے ہیں اور انقلاب اسلامی نے ان 4 دہائیوں میں دنیا پر نمایاں اثرات مرتب کئے ہیں اور اسلام کے بارے میں دنیا والوں کے نظریے کو بدل دیا ہے۔
انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ انقلابِ اسلامی سے پہلے بعض لوگوں کا خیال تھا کہ دین اسلام کا تعلق ماضی سے ہے، کہا کہ مغربی طاقتوں نے دنیا کا کنٹرول سنبھال لیا تھا لیکن انقلابِ اسلامی نے ان کی مساوات کو درہم برہم کر دیا۔
شیعہ اسلامی تحریک نائیجیریا کے رہنما نے کہا کہ انقلابِ اسلامی نے عوام کو یہ پیغام دیتے ہوئے کہ عالمی استکبار کے ظلم و ستم سے نجات کا واحد راستہ مزاحمت ہے، خوشخبری دی ہے کہ اقتدار دراصل عوام کے پاس ہے اور عوامی تحریکیں ہی استکباری مظالم پر قابو پا سکتی ہیں۔
شیخ زکزاکی نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ مغرب نے اسلام فوبیا کیلئے بہت زیادہ کوششیں کی ہیں، مزید کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے دنیا پر واضح کیا ہے کہ کس طرح ایک آزاد اسلامی معاشرہ تمام اقوام کیلئے نمونہ بن سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عالمی استکبار کا خیال تھا کہ انقلابِ اسلامی امام خمینی (رح) کی رحلت کے ساتھ ختم ہو جائے گا، لیکن آج الحمدللہ! انقلاب آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی قیادت میں جاری ہے اور عالمی سطح پر، انقلابِ اسلامی کے اثر و رسوخ اور پیشرفت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
آخر میں، شیعہ اسلامی تحریک نائیجیریا کے رہنما نے مزید کہا کہ نائیجیریا کو دین اسلام کی ترویج اور انقلاب اسلامی کے افکار کے پھیلاؤ کا سب سے مؤثر نمونہ قرار دیا جا سکتا ہے، کسی کو یقین نہیں تھا کہ انقلابِ اسلامی دنیا کے ایک بڑے حصے کو بدل سکتا ہے۔
ایرانی انسانی امداد لے جانے والے ٹرکوں کی دمشق و حلب میں داخل
صیہونی حکومت کی جانب سے اسلامی جمہوریہ ایران سے انسانی امداد لے جانے والے ٹرکوں پر بمباری کے باوجود دوسرے ٹرک دمشق اور حلب میں داخل ہوئے۔
اتوار کی رات صیہونی حکومت نے ایرانی انسانی امداد لے جانے والے ٹرکوں پر بمباری کی جو عراقی سرحد سے البوکمال کراسنگ کے ذریعے شامی علاقے کی طرف بڑھ رہے تھے۔
صیہونی حکومت کے حملوں کے باوجود خوراک اور ادویات کے دوسرے ٹرک دمشق اور حلب میں داخل ہوئے۔
عین اسی وقت جب عراق اور شام کی سرحد پر خوراک لے جانے والے ٹرک کو نشانہ بنایا گیا، عراقی سیکیورٹی ذرائع نے بغداد ڈیلی کو بتایا کہ صوبہ الانبار کے مغرب میں واقع القائم شہر کے قریب کئی دھماکوں کی آواز سنی گئی۔ شام کی سرحد) اور آوازیں سرحدی پٹی میں بمباری کی وجہ سے ہوئیں۔یہ شام میں القائم اور البوکمال کے درمیان تھا۔ اس باخبر عراقی ذریعے کے مطابق ان حملوں کے وقت ہیلی کاپٹر بھی صورتحال پر نظر رکھنے کے لیے اس علاقے پر پرواز کر رہے تھے۔
اس رپورٹ کے مطابق خوراک لے جانے والے یہ ٹرک سرکاری اور قانونی طور پر البوکمال بارڈر کراسنگ کو عبور کرنے کی کوشش کر رہے تھے جنہیں نشانہ بنایا گیا۔
taghribnews.com
قرآن کریم کی بے حرمتی میں صیہونی لابیز کا کردار
ان دنوں مغرب میں آزادی اظہار، قرآن کریم کو نذر آتش کرنے، پیغمبر اکرم ص کی شان میں گستاخی کرنے اور اسلام کے خلاف منافرت پھیلانے کا بہانہ بن چکا ہے۔ یہ آزادی "مغربی جمہوریت" کے تاج کا نگینہ سمجھی جاتی تھی اور یہ جمہوریت اکثر یورپی ممالک میں دائیں بازو کی فاشسٹ اور نسل پرست جماعتوں کے برسراقتدار آنے سے نابودی کی جانب گامزن ہے۔ سویڈن نے جو توہین آمیز اقدامات انجام دیے ہیں وہ برفیلے پہاڑ کی نوک ہے۔ مغرب کا "آزادی اظہار" صرف ان کے اپنے لئے ہے اور ہمارے لئے نہیں ہے اور وہ اس آزادی کو اپنی نسل پرستانہ پالیسیوں اور موقف سے ہم آہنگ کرتے ہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ ہم عرب یا مسلمان ہونے کے ناطے اس آزادی اظہار سے برخوردار نہیں ہو سکتے اور اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم مہاجر ہوں یا کسی عرب یا اسلامی ملک میں زندگی بسر کر رہے ہوں۔ خاص طور پر اس وقت جب ہمارے منصفانہ اہداف خصوصا فلسطینیوں کی بات آتی ہے۔
مذکورہ بالا مسئلے میں اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم اور اس کی لابیز کا بہت بڑا کردار ہے۔ خاص طور پر جب ہم دیکھتے ہیں کہ اسرائیل سے دوستانہ تعلقات برقرار کرنے کے بعد اسلامی مقدسات کی توہین پر عرب یا اسلامی ممالک کوئی موثر ردعمل ظاہر نہیں کرتے۔ ہم امریکہ، چین، فرانس اور برطانیہ اور ان کی پالیسیوں اور تاریخ پر تنقید کر سکتے ہیں لیکن مغربی دنیا میں رہتے ہوئے فلسطینی بچوں کے خلاف اسرائیل کے مجرمانہ اقدامات، فلسطینیوں کے گھر مسمار کئے جانے اور روزانہ کی بنیاد پر مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینی بچوں کے قتل عام پر تنقید نہیں کر سکتے۔ اگر ہم غاصب صیہونی رژیم کے مجرمانہ اقدمات پر تنقید کریں تو مغربی ممالک کے قانون کی روشنی میں یہ اقدام یہود دشمنی کے زمرے میں آتا ہے جس کیلئے 15 سال قید کی سزا مقرر کی گئی ہے۔ کیونکہ اسرائیل پر تنقید منافرت پیدا کرنا اور دہشت گردی کی حمایت قرار پاتی ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ جرمنی نے جنین، نابلس اور غزہ کی پٹی میں شہید ہونے والے فلسطینیوں سے اظہار ہمدردی کرنے اور غاصبانہ قبضے کے خلاف فلسطینیوں کے مزاحمت کے جائز حق کی حمایت کرنے کیلئے مظاہرون پر پابندی عائد کر رکھی ہے جبکہ جرمنی کی عدالتیں عرب صحافیوں کو اپنا کام چھوڑ دینے پر مجبور کرتی ہیں۔ برطانیہ میں بھی جو شخص حماس کا پرچم لہراتا ہے یا اس جیسا نظریہ رکھتا ہے اسے قید کی سزا سنائی جاتی ہے۔ حماس سے وابستگی تو بہت دور کی بات ہے۔ برطانیہ میں صرف حماس کی حمایت بذات خود جرم قرار پاتا ہے جس کی سزا شہریت منسوخ کر کے ملک سے نکال باہر کرنا ہے۔ فرانس میں "ہولوکاسٹ" کا انکار یا اس کے بارے میں کسی قسم کے شک کا اظہار جرم تصور ہوتا ہے۔ مغرب میں یہ سلسلہ جاری ہے اور نہیں معلوم کہاں جا کر رکے گا۔
میں بی بی سی کے ایک پروگرام میں گذشتہ برس شیطانی آیات کے مصنف سلمان رشدی پر ہونے والے حملے کے بارے میں گفتگو کیلئے شریک تھا۔ میں نے کہا کہ مسلمان اس کتاب کو اسلام کی توہین اور اسلاموفوبیا کی ترغیب کے زمرے میں قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح میں نے کہا کہ یہ کتاب آزادی اظہار کے بہانے مسلمانوں کے خلاف منافرت پھیلائے جانے کے مترادف ہے۔ اس کے بعد صہیونی لابی نے میرے اور اس پروگرام کے خلاف شدید پروپیگنڈہ شروع کر دیا۔ صیہونی لابی نے برطانوی اراکین پارلیمنٹ، صحافیوں اور اعلی سطح کے ادیبوں سمیت 10 ہزار افراد سے دستخط کروائے تاکہ میرے اور بی بی سی کے اس پروگرام کے خلاف پارلیمنٹ میں تحقیق کا آغاز کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ بی بی سی نے ایک یہودی دشمن شخص کو دعوت دی تھی جو اسرائیل اور صیہونزم سے متعلق اعتدال پسندی کا مظاہرہ نہیں کرتا۔
سویڈن کا قانون ہم جنس پرستوں کے پرچم کو نذر آتش کرنے کو جرم قرار دیتا ہے کیونکہ یہ اقدام اس ملک کے بعض شہریوں کے خلاف منافرت پھیلانے والا اور اشتعال انگیز اقدام تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن یہی ملک ایک دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے نسل پرست شہری کی جانب سے اربوں مسلمانوں کی نظر میں مقدس کتاب کو نذر آتش کئے جانے کو جرم نہیں سمجھتا اور سویڈن میں اس جیسے دسیوں ہزار افراد موجود ہیں۔ عرب حکومتوں سمیت اکثر اسلامی ممالک نے قرآن کریم کے خلاف اس توہین آمیز اقدام کی مذمت کی ہے۔ لیکن صرف مذمتی بیانیے جاری کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ اس سے ایسے توہین آمیز اقدامات نہیں رکیں گے۔ کیا فرانسیسی مجلے چارلی ہیبڈو کے خلاف بیانیے اس کی جانب سے اسلامی مقدسات کی توہین رک جانے کا باعث بنے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ ممالک قرآن کریم کو نذر آتش کرنے اور مسجد اقصی پر حملہ ور ہونے والے یہودی آبادکاروں کے خلاف کوئی اقدام انجام نہیں دیتے۔
یورپی ممالک میں دائیں بازو کی جماعتوں کے برسراقتدار آنے، عقل مند حکمرانوں کا فقدان، یورپ پر امریکی اثرورسوخ اور یوکرین جنگ کا طول پکڑ لینے جیسے عوامل سے ظاہر ہوتا ہے کہ یورپ میں اسلامی مقدسات کی توہین جاری رہے گی بلکہ اس کی شدت میں بھی اضافہ آئے گا۔ لہذا عرب اور مسلمان شہریوں کو مزید برے حالات کیلئے تیار ہو جانا چاہئے۔ ممکن ہے ان کے خلاف سخت اقدامات انجام پائیں اور حتی لاکھوں مسلمانوں کو یورپی ممالک سے نکال دیا جائے۔ مغرب میں صیہونی لابیز عدالت پر مبنی اقدار جیسے آزادی اظہار اور دوسروں کے عقائد کا احترام، کو کمزور کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ وہ اسلاموفوبیا کو فروغ دے رہی ہیں اور وہ خود ان اقدامات کی بھینٹ چڑھ جائیں گی۔ انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہولوکاسٹ کسی اسلامی مغربی ملک یا مشرق وسطی میں رونما نہیں ہوئی بلکہ یورپ کے مرکز میں رونما ہوئی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ تمام حقائق واضح ہو جائیں گے۔
تحریر: عبدالباری عطوان (چیف ایڈیٹر رای الیوم)
رہبر معظم کا قرآن پاک کی توہین پر یورپی ممالک کی مذمت
رہبر معظم آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے حالیہ دنوں میں چند یورپی ممالک میں قرآن کریم اور مقدسات کی توہین کی مذمت کرتے ہوئے اسے سامراجیت کی اسلام سے دشمنی کی علامت قرار دے دیا اور دنیا کے تمام حریت پسندوں کو توہین اور نفرت پھیلانے کی پالیسی کیخلاف مقابلہ کرنے کا مطالبہ کیا۔
اس حوالے سے رہبر معظم آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے کا ٹوئٹر پیغام درج ذیل ہے:
"آزادی اظہار کے نعرے کے ساتھ قرآن پاک کی توہین یہ ظاہر کرتی ہے کہ سامراجی حملوں کا ہدف اسلام اور قرآن پاک ہے۔ سامراجیت کی سازش کے باوجود قرآن روز بروز مقبول ہو رہا ہے اور مستقبل اسلام کا ہے؛ دنیا کے تمام آزادی پسندوں کو مقدسات کی توہین اور نفرت پھیلانے کی گھناؤنی پالیسی کے خلاف مسلمانوں کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا"۔
/taghribnews.
مسلم ممالک ایسے اقدامات کریں تاکہ کوئی بھی قرآن کریم کی توہین کرنے کی جرات نہ کرے
سحر نیوز/ ایران: عالمی اہلبیت اسمبلی کی اعلی کونسل کے سربراہ آیت اللہ محمد حسن اختری نے بھی مسلم ممالک کی حکومتوں اور سیاستدانوں سے قرآن پاک کو نذر آتش کرنے جیسے گھناؤنے عمل کی مذمت کے علاوہ ایسے واضح عملی اقدامات کی اپیل کی ہے جس کے نتیجے میں آئندہ کسی کو بھی ایسےقابل مذمت اقدامات کی جرات تک پیدا نہ ہوسکے۔
انہوں نے کہا کہ یورپ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، دیگر انبیائے الہی اور آسمانی کتابوں اور دینی رہنماؤں کی توہین کو معمول بنا لیا ہے اور سوئیڈن کے اعلی عہدے داروں سمیت یورپی حکام بھی آزادی اظہار رائے کی آڑ میں اس نفرت انگیز اقدام کو صحیح ٹھہراتے ہیں اور اسلاموفوبیا، نسل پرستی اور منافرت کے خلاف خاموشی اختیار کرلیتے ہیں۔
یاد رہے کہ گذشتہ ہفتے ڈینمارک کے ایک نسل پرست اسلام دشمن رکن پارلیمنٹ نے اسٹاکہوم میں واقع ترکی کے سفارتخانے کے سامنے قرآن کریم کے ایک نسخے کو نذر آتش کیا تھا۔
سوئیڈن کی پولیس نے ان انتہاپسندوں کی مکمل حفاظت کے انتظامات کر رکھے تھے۔
پالوڈان کے اس اقدام اور سوئیڈن کے حکومت کی بے عملی پر تمام اسلامی ممالک اور دنیا بھر کے مسلمانوں میں غم و غصہ زور پکڑ رہا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران، پاکستان، ترکی، مصر، کویت، متحدہ عرب امارات، قطر، سعودی عرب، انڈونیشیا، اردن، مراکش سمیت متعدد اسلامی ممالک اور او آئی سی، خلیج فارس تعاون کونسل، انصاراللہ یمن، حزب اللہ لبنان، حماس، جہاد اسلامی فلسطین اور سیکڑوں دیگر اسلامی تنظیموں نے اس گھناؤنے حرکت کی مذمت کی اور اس جرم میں ملوث افراد اور ممالک کو عبرتناک سزا دینے کا مطالبہ کیا۔
مسلم امہ نے ادیان اور مذاہب کی بے حرمتی کی جانب سے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ان گھناؤنی حرکتوں کو روکا نہ گیا تو عالمی سطح پر بدامنی، تشدد اور منافرت میں مزید اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔
مسجد« حیدر» باکو
آذربایجان کی قدیم مسجد «حیدر» قفقاز کی قدیم ترین اور عظیم مساجد میں سے ایک ہے. اس مسجد کا طرز تعمیر «شیروان» کے طرز سے لیا گیا ہے جو اسلامی اور ساسانیاں دور کی مشترکہ طرز کا نچوڑ ہے۔
اس مسجد کا اندورونی حصہ ۴۲۰۰ مربع میٹر پر مشتمل ہے جہاں ۴ هزار یکجا عبادت کرسکتے ہیں. ۴ بلند مینار موجود ہیں جنکی لمبائی ۹۵ میڑ اور دو گنبد 55 جبہکہ دو گنبد 35 میڑ بلندی کے ساتھ اسلامی طرز تعمیر کی شاہکاری کا نمونہ ہے۔
شہید ابو مہدی المہندس ؒکا زندگی نامہ
مہندس فارسی میں انجینئر کو کہتے ہیں۔ انہوں نے بغداد کے پولی ٹیکنیک کالج سے سول انجینئرنگ میں ڈگری حاصل کر رکھی تھی اور اسی سبب وہ مہندس یعنی انجینئر کے نام سے معروف تھے۔ ابو مہدی ان کا لقب تھا۔ ان کا اصل نام جمال جعفر محمد اور ان کا خاندانی نام آل ابراہیم تھا۔ یوں ان کا مکمل نام جمال جعفر محمد آل ابراہیم المعروف ابو مہدی مہندس ہے۔ وہ عراقی شہری تھے اور ایران میں انہیں جمال ابراہیمی کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔
شہید ابو مہدی 1953ء میں عراق کے شہر بصرہ میں پیدا ہوئے۔ شہریت کے لحاظ سے ان کی والدہ ایرانی جبکہ ان کے والد عراقی تھے۔ 1977ء میں انہوں نے بغداد کے پولی ٹیکنیک کالج سے سول انجینرنگ میں ڈگری مکمل کی۔ 60 کی دہائی میں عراق میں دینی مرجعیت خصوصاً آیت اللہ محمد باقر الصدر کی قیادت میں حزب الدعوۃ الاسلامیہ کی بنیاد رکھی گئی۔ حزب الدعوۃ الاسلامیہ عرب دنیا میں عرب قوم پرستی کے مقابلے میں اخوان المسلمین کے بعد دوسری اسلامی تحریک تھی، جو عرب دنیا کے مسائل کو اسلامی تناظر میں دیکھتی تھیں۔
شہید محمد باقر الصدر کے نزدیک اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، جس کا سیاسی، معاشی، اخلاقی اور سماجی نظام عرب دنیا سمیت عالم اسلام کے مسائل کا واحد حل ہے۔ شہید ابو مہدی نے اپنی سماجی فعالیت کا آغاز شہید محمد باقر الصدر کی قیادت میں تشکیل پانے والی اس اسلامی تحریک میں شمولیت کے ساتھ کیا اور یہ اس وقت کی بات ہے، جب آپ بغداد میں زیر تعلیم تھے۔ 80 کی دہائی میں عراق پر حاکم بعث پارٹی نے جب حزب الدعوۃ الاسلامیہ کے عوام میں اثر و رسوخ سے خائف ہو کر عرب دنیا کی اس اہم اسلامی تحریک کو سرکوب کرنے کی ٹھانی اور حزب الدعوہ کی قیادت کے خلاف کریک ڈاون شروع کیا تو پہلے مرحلے میں حزب الدعوہ کی قیادت کو گرفتار کرکے پھانسی دے دی گئی۔ 1975ء میں حزب الدعوۃ الاسلامیه کے درجنوں قائدین کو سزائے موت دے دی گئی۔ دوسرے مرحلے میں حزب الدعوہ کے کارکنوں کو پکڑ کر عقوبت خانوں میں بند کیا اور تختہ دار پر لٹکایا جانے لگا۔ شہید ابو مہدی اس زمانے کے بارے میں کہتے ہیں 1980ء تک حزب الدعوۃ الاسلامیہ سے وابستہ میرے 95 فیصد دوستوں کو سزائے موت ہوچکی تھی۔
1980ء میں جب بعثی رجیم نے محمد باقر الصدر کو ان کے گھر سے گرفتار کرکے شہید کر دیا تو شہید ابو مہدی مہندس عراق سے کویت چلے گئے، جہاں انہوں نے اسلامی مزاحمت کے عظیم کردار شہید مصطفیٰ بدرالدین کے ساتھ ملکر ظلم و استبداد کے خلاف جدوجہد کا نئے سرے سے آغاز کیا۔ کویت میں قائم امریکی اور فرانسوی سفارت خانوں پر بمب حملے ہوئے تو کویت میں مقیم مصطفیٰ بدرالدین سمیت متعدد عراقی مہاجرین کو گرفتار کر لیا گیا۔ شہید ابو مہدی کویت سے ایران منتقل ہوگئے۔ بعدازاں ایک کویتی عدالت نے شہید ابو مہدی کی غیر موجودگی میں انہیں ان سفارت خانوں پر حملے کے الزام میں سزائے موت بھی سنائی تھی، جس کے بارے خود شہید ابو مہدی کا کہنا ہے کہ وہ کویتی سرزمین پر امریکہ مخالف کسی مسلح کارروائی میں ہرگز شریک نہیں تھے۔ ایران میں قیام کے دوران شہید ابو مہدی نے اعلیٰ تعلیم مکمل کر لی۔ انہوں نے بین الاقوامی تعلقات میں پہلے ایم فل تو بعدازاں پی ایچ ڈی مکمل کی۔
پی ایچ ڈی ڈاکٹر بن جانے کے باوجود شہید ابو مہدی کو تا دمِ شہادت انجینئر (مہندس) کے لقب سے ہی جانا جاتا رہا۔ ایران میں قیام کے دوران شہید ابو مہدی ایران میں مقیم عراقی حریت پسندوں کی اہم سیاسی جماعت مجلس اعلاء کے رکن بھی رہے۔ مجلس اعلاء نے بعد میں عراقی سیاست میں بہت بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ نوے کی دہائی میں عراق میں بعثی رجیم کے مظالم کے خلاف مزاحمت کی غرض سے مسلح جدوجہد وجود میں آئی تو شہید ابو مہدی البدر کے رہنما کے طور پر سامنے آئے۔ شہید ابو مہدی بھی عراق کے متعدد دیگر مزاحمتی اور سیاسی رہنماؤں کی طرح عراق میں صدام کے سقوط کے بعد عراق واپس پلٹے تو شہید ابو مہدی نے نئی سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا۔ 2003ء میں عراق واپس جاتے ہی شہید ابو مہدی نے خود کو البدر سے علیحدہ کرکے کتائب حزب اللہ کی بنیاد رکھی۔ شہید ابو مہدی 2005ء میں عراقی صوبے بابل سے پارلیمنٹ کے رکن بھی منتخب ہوئے، لیکن بعدازاں امریکہ کی جانب سے پابندیوں کے سبب انہیں پارلیمانی نشست سے استعفیٰ دے کر عراق ترک کرکے ایک دفعہ دوبارہ ایران آنا پڑا۔
2011ء میں شہید ابو مہدی دوبارہ عراق گئے اور سیاسی فعالیت کو ازسرنو شروع کیا۔ ان کی قیادت میں بننے والا سیاسی اتحاد الوطنی آج بھی عراقی پارلیمان کا ایک اہم اتحاد ہے۔ 2014ء میں داعش نے عراق کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر لیا تو عراق کی دینی مرجعیت آیت اللہ سیستانی کے حکم پر عوامی رضاکار فورس وجود میں آئی۔ اس فورس کی تشکیل میں شہید ابو مہدی اور ان کی مزاحمتی تحریک کتائب حزب اللہ کا کردار انتہائی اہم تھا۔ کتائب حزب اللہ نے حشد الشعبی کی 45ویں اور 46ویں بریگیڈ کی تشکیل کو مکمل کیا جبکہ 47ویں بریگیڈ میں بھی ایک بڑا حصہ کتائب کی افرادی قوت کا ہے۔ داعش کے خلاف جہاد شہید ابو مہدی کی چار عشروں پر محیط جہادی زندگی کا ایک نیا دور تھا۔ وہ حشد الشعبی کے نائب سربراہ بنائے گئے، لیکن ان کا کنٹرول روم بغداد کے کسی محفوظ اور پوش علاقے کا کوئی عسکری اڈہ نہیں بلکہ اگلے مورچوں پر کھڑے ٹینک اور مورچے تھا۔ شہید ابو مہدی بطور ایک فوجی جنرل میڈلز اور ستارے سینے پر سجانے کی بجائے اگلے مورچوں پر اپنے سپاہیوں کے ساتھ شانہ بشانے لڑنے کو اپنے لیے بڑا اعزاز سمجھتے تھے۔ سامراء، کاظمین، کربلا اور نجف کے مزاراتِ آل رسول کی حفاظت کے علاؤہ آمرلی، جرف الصخر، اربیل اور موصل کی آزادی کے کامیاب آپریشنز میں بھی شہید ابو مہدی کا بنیادی کردار ہے۔
مئی 2019ء میں اسرائیل نے عراق میں قائم حشد الشعبی کے فوجی اڈے کو نشانہ بنایا تو شہید ابو مہدی نے اسرائیل کو جہاں جواب دینے کی بات کی، وہیں امریکی و اسرائیلی جارحیت کے مقابلے کے لیے حشد الشعبی کے فضائی ونگ کی ضرورت پر بھی زور دیا اور یہ قوی احتمال تھا کہ اگر شہید ابو مہدی کچھ عرصہ مزید زندہ رہتے تو حشد الشعبی کے فضائی ونگ کی تشکیل ان کا ترجیح ایجنڈا ہوتا۔ عراق سمیت پورے خطے سے مکمل امریکی انخلاء، امریکی سامراج اور صہیونی منصوبوں کے مقابلے میں اسلامی مزاحمت کی تقویت شہید ابو مہدی المہندس کی آرزو تھی۔ اس آرزو کی تکمیل کے لیے انہوں نے اسلامی انقلاب اور نظامِ ولایت کے زیر سایہ تشکیل پانے والی اسلامی مزاحمت کے قافلے میں شمولیت اختیار کی۔ خود کو ہمشیہ اسلامی مزاحمت کا ادنیٰ سپاہی قرار دیا اور اس پر فخر محسوس کیا۔ شہید ابو مہدی اپنی آرزو جو خطے کے تمام بے نواؤں کی آرزو ہے؛ کی تکمیل کی خاطر امریکی سامراج اور صہیون ازم کے ساتھ نبرد آزما تھے،
جب امریکہ نے انہیں شہید قاسم سلیمانی کے ہمراہ گاڑی میں نشانہ بنایا اور اسلامی مزاحمت کے یہ دو عظیم مجاہد اپنے چند دیگر ساتھیوں کے ساتھ جامِ شہادت نوش کرگئے
shianews.
حزب الله کے میزائل ہمیں پناہ گاہ میں چھپنے کا موقع بھی نہیں دینگے، صیہونی تجزیہ کار
اسلام ٹائمز۔ صیہونی تجزیہ کاروں اور جرنیلوں نے لبنان کی مقاومتی تحریک "حزب اللہ" کی میزائل طاقت کو اسرائیل کے لیے ایک اسٹریٹجک اور بنیادی خطرہ قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ میزائل فلسطین کے مقبوضہ شمال میں ہمارے اتنے قریب ہیں کہ ہمیں پناہ گاہ میں چھپنے کا موقع نہیں ملے گا۔ اس بارے میں آج اتوار کے روز یروشلم پوسٹ نے صہیونی تجزیہ نگار "نیول ٹیلر" کا ایک کالم شائع کرتے ہوئے لکھا ہے کہ تل ابیب کو ایران کے جوہری پروگرام کے ساتھ ساتھ لبنان میں حزب اللہ کے میزائلوں کو اپنے لیے ایک بڑا اسٹریٹجک خطرہ سمجھنا چاہیئے۔ اس تجزیہ کار نے مزید کہا کہ حزب اللہ کی افواج نے حال ہی میں لبنان اور مقبوضہ فلسطین کی سرحد پر اپنی سرگرمیاں بڑھا دی ہیں۔ اس کے علاوہ حزب اللہ نے درجنوں مانیٹرنگ سیل بنائے، اپنے گشت میں اضافہ کیا اور عوامی سطح پر صہیونی افواج کی نقل و حرکت کی نگرانی اور رپورٹس تیار کیں۔ اس تجزیہ کار نے لکھا کہ حزب اللہ سرحد پر موجود ہے، اس لیے ہمیں ہر چیز کے لیے تیار رہنا چاہیئے، کیونکہ خطرہ بہت سنگین ہے اور شام کے ساتھ تنازعات کے دوران کوئی بھی غیر متوقع حملہ لبنان کے ساتھ ایک بڑے تنازع کا باعث بنے گا۔
اسرائیلی اخبار یروشلم پوسٹ نے صیہونی حکومت کو درپیش حزب اللہ کے خطرے کا تذکرہ کیا۔ اس حوالے سے مذکورہ اخبار نے ایک صیہونی جنرل کے بیان کا حوالے دیتے ہوئے لکھا کہ ہم جانتے ہیں کہ حزب اللہ کی رضوان بریگیڈ یہاں بارڈر پر موجود ہیں اور اگر ان کے پاس میزائل ہیں تو ہمارے پاس پناہ گاہ تک پہنچنے کیلئے بھی مناسب فرصت نہیں ہوگی۔ کیونکہ مقبوضہ فلسطین کے شمال میں صیہونی کالونی "المطلہ" لبنانی سرحد کے بہت قریب ہے۔ اس صیہونی جنرل نے مزید کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ وہ (حزب اللہ) بہت قریب ہیں۔ حزب اللہ المطلہ قصبے کو مختلف سمتوں سے اپنے میزائلوں کا نشانہ بنا سکتی ہے۔ آخر میں یروشلم پوسٹ نے لکھا کہ حزب اللہ کی افواج نے شام میں وسیع جنگی تجربہ حاصل کیا ہے، وہ بہت زیادہ مستحکم ہیں، ان کے پاس بہت زیادہ فائر پاور ہے اور وہ مشاہداتی مراکز اور جنگی فارمیشنز سے فائدہ اٹھاتی ہیں۔
"چارلی ہیبڈو" اور ایرانو فوبیا کا منصوبہ
طنزیہ میگزین "چارلی ہیبڈو" جس نے پہلے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقدس مقام کی توہین کرکے اسلامو فوبیا کے منصوبے کو آگے بڑھانے کی کوشش کی تھی، اب اس نے آزادی اظہار کے نام پر رہبر معظم انقلاب، آیت اللہ خامنہ ای کی توہین کرکے ایرانو فوبیا کے منصوبے کو آگے بڑھانے کے لئے ایک کارروائی کی ہے۔ رہبر معظم انقلاب کی توہین کو ایجنڈے میں شامل کرنے کا مقصد سیاسی لابنگ اور سامراج مخالف نظریات کو نشانہ بنانا ہے۔ فرانسیسی مزاحیہ میگزین "چارلی ہیبڈو" کا نام ذہن میں آتے ہی "تذلیل"، "توہین" اور "ہتک عزت" جیسے تصورات ذہن میں آتے ہیں، جو آزادی اظہار کے نام پر لوگوں اور ان کے عقائد کے خلاف استعمال ہوتے ہیں۔
حال ہی میں، Charlie Hebdo نے انقلاب کے سپریم لیڈر کے لیے توہین آمیز کارٹون شائع کرنے کے مقصد سے ایک مقابلے کا انعقاد کیا۔ اس اشاعت پر بہت زیادہ تنقید کی گئی۔ مسلم کیمیونٹی کی طرف سے مغرب بالخصوص فرانس کی پالیسی کو اس حد تک تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ نے اس توہین آمیز اقدام پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے فرانس کے سفیر نکولس روشے کو وزارت خارجہ طلب کیا ہے۔ دنیا کے ایک ارب سے زیادہ مسلمان ابھی تک چارلی ہیبڈو کی جانب سے 2015ء میں پیغمبر اسلام (ص)، قرآن پاک اور دین اسلام کی توہین کے واقعہ کو نہیں بھولے ہیں۔
جب چارلی ہیبڈو نے اسلام کے عظیم پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مسلمانوں کے مقدسات کے خلاف توہین آمیز کارٹون شائع کرنا شروع کیے تو آزادی اظہار کی دعویدار حکومتوں نے نہ صرف اس فرانسیسی میگزین کی مذمت نہ کی بلکہ اس کی حمایت بھی کی۔ ایک ایسا عمل جس نے ظاہر کر دیا کہ آزادی اظہار اور انسانی حقوق جیسے قیمتی تصورات یورپی اور مغربی حکومتوں کی غلط پالیسوں کو آگے بڑھانے کا ایک ذریعہ ہیں اور عملی طور پر جب تک ان کی اپنی اقدار پر حملہ نہیں ہوتا، وہ یہ حربہ دوسرے مذاہب، قوموں اور ممالک کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ آزادی اظہار کے ہتھیار کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے والی مغرب کی سوچ اور اس کے دوہرے معیار کا مقصد مسلمانوں اور عالم اسلام سے نفرت اور بیزاری پیدا کرنا نیز مغربی معاشرے مین اسلامو فوبیا کو بڑھا وا دینا ہے۔
یاد رہے کہ چارلی ہیبڈو کے اس گستاخانہ عمل کے نتیجے میں دو مسلح افراد کے ہاتھوں اس ادارے کے 12 ارکان ہلاک اور 10 زخمی ہوئے تھے۔ یقیناً اس کے بعد سے چارلی ہیبڈو نے عالمی شہرت حاصل کی اور اس کے کارٹونوں نے دنیا کے میڈیا اور رائے عامہ کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی۔ بے شک شہرت حاصل کرنا بھی ہتک عزت اور الزامات کے ارتکاب کی ایک وجہ ہوسکتی ہے۔ قانون کی کتاب میں ایک سنہری اصول ہے کہ "ایک شخص اس وقت تک آزاد ہے، جب تک کہ وہ دوسروں کی آزادی کو نقصان نہ پہنچائے"؛ جب حکومتوں اور تنظیموں میں چارلی ہیبڈو کے نمائندے کہتے ہیں کہ ان کی آزادی کی کوئی سرحد نہیں ہے، تو وہ مکمل طور پر صحیح دائرہ چھوڑ کر جرائم کے دائرے میں داخل ہوگئے ہیں اور یہ وہ وقت ہے، جب وہ خود کو دوسروں کے حقوق اور مقدسات کی خلاف ورزی کی اجازت دیتے ہیں۔
اب یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ آزادی اظہار میں ہولوکاسٹ کیوں شامل نہیں ہے اور توہین و تذلیل کا تعلق صرف مسلمانوں اور مذہب اسلام سے ہی کیوں ہے اور یہودیت اس اصول سے مستثنیٰ کیوں ہے۔؟ 2009ء میں فرانسیسی میگزین Charlie Hebdo کے کارٹونسٹ Maurice Siné کو اس وقت اپنا استعفیٰ پیش کرنا پڑا، جب کارٹونسٹ نے فرانس کے سابق صدر نکولس سرکوزی کے بیٹے جان سرکوزی کی ایک امیر گھرانے سے تعلق رکھنے والی یہودی لڑکی جیسیکا ڈارٹی کے ساتھ شادی کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا، جس نے پیسے کی ترغیب کی وجہ سے یہودیت اختیار کی تھی۔
موریس سائین کی تنقید یہودیت کے خلاف نہیں تھی اور اس نے کسی بھی طرح سے یہودی مذہب کی توہین نہیں کی تھی، لیکن صرف یہودیت کا حوالہ دینا ہی اس کے لیے کافی تھا، لیکن اس پر مذہب سے دشمنی کا الزام لگا کر اسے عدالتی حکام کے حوالے کرکے نوکری سے برخاست کر دیا گیا۔ اس وقت چارلی ہیبڈو میگزین نے اپنے ملازم کا دفاع نہیں کیا اور "آزادی اظہار" کے جھوٹ سے اپنے کام کو درست ثابت کرنے کی کوشش نہیں کی۔
اس کے بعد اسی میگزین نے پیغمبر اسلام (ص) کے خلاف ایک توہین آمیز کارٹون شائع کیا، جس نے پوری دنیا کے مسلمانوں میں غصے کو بھڑکا دیا۔ اس میگزین نے "آزادی اظہار" کے بہانے توہین آمیز کارٹونوں کی اشاعت کو جائز قرار دیا۔ اس سلسلے میں خلاف ورزی کی سب سے واضح مثال معروف مصنف گاروژی کی ہے۔ 1998ء میں ایک فرانسیسی عدالت نے گاروژی کو ہولوکاسٹ سے انکار اور نسلی تہمت کا مجرم قرار دیا، اور 1995ء میں لکھی گئی ان کی کتاب "Myths of the Founders of Israeli Politics" کی وجہ سے انہیں چالیس ہزار ڈالر جرمانہ کیا۔
ترتیب و تنظیم: علی واحدی



















![جناب خدیجہ کبری[س] کی سیرت](/ur/media/k2/items/cache/ef2cbc28bb74bd18fb9aaefb55569150_XS.jpg)
