سلیمانی

سلیمانی

 پاکستان پروفیسر برائے بین الاقوامی تعلقات نے ایران سے متعلق امریکی نقطہ نظر اور جوہری معاہدے کیخلاف صیہونی ریاست کی مداخلت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایسا لگتا ہے ویانا مذاکرات مثبت سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل ایران جوہری معاہدے کیخلاف اپنی تمام تر تخریب کاری کے باوجود تہران کیخلاف واشنگٹن کی پابندیوں کی ناکامی سے مایوس ہے۔

رپورٹ کے مطابق، پنجاب اسٹیٹ یونیورسٹی کی فیکلٹی آف پولیٹکس اینڈ انٹرنیشنل ریلیشنز کے سابق صدر" رشید احمد خان" نے اردو زبان کے اخبار "دنیا" میں شائع ہونے والے "ایران جوہری مذاکرات: کامیابی کا چنس" کے عنوان سے ایک مضمون میں کہا ہے کہ ویانا مذاکرات میں پیشرفت خوش آئند ہے، لیکن جوہری معاہدے کیخلاف سابق امریکی انتظامیہ کے اقدامات اور ٹرمپ کی یکطرفہ دستبرداری نے معاہدے کے فریقین بشمول تہران اور واشنگٹن کے درمیان اعتماد کی فضا کو بُری طرح متاثر کیا ہے۔

انہوں نے باراک اوباما کے دور میں جوہری مذاکرات کی کامیابی، ایران مخالف پابندیوں کے خاتمے اور پھر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایران سے متعل میں جارحانہ رویہ، جوہری معاہدے سے علیحدگی اور اقتصادی پابندیوں کے دوبارہ نفاذ کا ذکر کرتے ہوئے مزید کہا کہ اسرائیل کا خیال تھا کہ پابندیاں ایران کی ترقی راہ میں رکاوٹیں حائل کریں گے لیکن اس کے برعکس اسلامی جمہوریہ نے کبھی دباؤ اور پابندیوں کے سامنے سر نہیں جھکایا اور اپنی ایٹمی سرگرمیاں جاری رکھی۔

پاکستانی تجزیہ کار نے مزید کہا کہ  ایرانی ضمانت کی تلاش میں ہیں، خاص طور پر امریکہ کی طرف سے ایک مضبوط  ضمانت، کہ اگر جوہری معاہدے کو بحال کرنا ہے، تو مغرب کو واشنگٹن کے ساتھ مل کر یہ عہد کرنا ہوگا کہ ٹرمپ کے زمانے کی طرح کے اقدامات نہیں دہرائے جائیں گے او ایران کیخلاف تمام غیر قانونی پابندیاں ہٹائی جائیں۔

انہوں نے اپنے مضمون میں ناجائزصہیونی ریاست کیجانب سے ایران جوہری معاہدے کی بحالی کی راہ میں روڑے اٹکانے، خطے میں اشتعال انگیز کارروائیوں اور علاقائی اور بین الاقوامی مساوات میں تہران کو تنہا کرنے کی کوشش کی طرف بھی اشارہ کیا اور کہا کہ تل ابیب کو اب امریکی پابندیوں کی فضولیت کا احساس ہے اور وہ ایران کیخلاف ان پابندیوں کے غیر موثر ہونے سے مایوس ہے۔

رشید احمد خان نے کہا کہ ایران کو گھٹنے ٹیکنے کی امریکہ اور اسرائیل کی کوشش مکمل طور پر ناکام ہوگئی، اس کے برعکس تہران نے یورینیم کی پیداوار سمیت اپنی جوہری صلاحیتوں میں اضافہ کیا۔

اس کا خیال ہے کہ جوبائیڈن جوہری معاہدے کی بحالی کی سخت کوشش کر رہا ہے کیونکہ دوسرا مقصد تہران کے تئیں بیجنگ اور ماسکو کے تعمیری موقف اور امریکہ کی طرف سے جوہری معاہدے کی خلاف ورزی اور خطے میں امن و استحکام کی ضرورت کے حوالے سے اس ملک کا مشترکہ نقطہ نظر ہے۔

پاکستانی پروفیسر نے ایران جوہری معاہدے کی بحالی کو علاقائی سلامتی اور عالمی نظام کے لیے ایک بہت اہم واقعہ قرار دیتے ہوئے مزید کہا کہ ویانا مذاکرات کے نتیجہ خیز ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہیں اور اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ افغانستان سے امریکیوں کے انخلاء کے واقعہ کے بعد جوہری معاہدے کی بحالی؛ خطے کا دوسرا بڑا واقعہ ہوگا جس کا عالمی مساوات پر بڑا اثر پڑے گا۔

ایک امریکی اخبار نے انکشاف کیا ہے کہ متحدہ عرب امارات میں امریکہ کے ایک بڑے سرکاری سرمایہ کاری فنڈ نے اسرائیلی ٹیکنالوجی کے شعبے میں وینچر کیپیٹل فرموں میں تقریباً 100 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔

العالم کے مطابق وال سٹریٹ جرنل نے لکھا ہے کہ ابوظہبی اور تل ابیب کے درمیان سفارتی تعلقات معمول پر آنے کے ڈیڑھ سال بعد دونوں فریقین کے حکام کے درمیان تجارت میں اضافہ ہوا ہے اور توقع ہے کہ ان کے درمیان تجارت 2000 تک پہنچ جائے گی۔  "معمول پر دستخط سے پہلے ایک سال میں اس میں 250 ملین ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔"

وال سٹریٹ جرنل نے رپورٹ کیا کہ " UAE Sovereign Wealth Funds اسرائیلی اور UAE کی ٹیکنالوجی کمپنیوں میں براہ راست سرمایہ کاری کرتے ہیں، اور یہ کمپنیاں بقیہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی ترقی میں اپنے آپ کو شراکت دار کے طور پر پیش کرتی ہیں ۔"

رپورٹ کے مطابق ابوظہبی انویسٹمنٹ کارپوریشن، جو کہ 250 بلین ڈالر کے اثاثوں کا انتظام کرتی ہے، چھ وینچر کیپیٹل فرموں میں 20 ملین ڈالر تک کی سرمایہ کاری کی ہے، جن میں سے کچھ کا صدر دفتر مقبوضہ علاقوں میں ہے۔

وال اسٹریٹ جرنل نے اس دوران نوٹ کیا کہ اسرائیلی کمپنیاں دبئی اور ابوظہبی میں نئے دفاتر میں سرمایہ کاری کرنے اور ملازمین کو تل ابیب سے منتقل کرنے کے خواہاں ہیں جہاں متحدہ عرب امارات کے سرکاری سرمایہ کاری فنڈز براہ راست اسرائیلی اور متحدہ عرب امارات کی ٹیکنالوجی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔
 
.taghribnews.
 
 
 

اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کے خصوصی نمائندے "گر پیڈرسن"، جنہوں نے تہران کا دورہ کیا، آج (ہفتہ) وزیر خارجہ کے خصوصی سیاسی امور کے سینئر مشیر "علی اصغر خاجی" سے ملاقات کی۔ 

ملاقات کے دوران شام کے بحران کی تازہ ترین پیشرفت، آئینی کمیٹی کے اجلاس، پابندیوں سے تصادم اور اس ملک کے عوام کے لیے انسانی امداد کی ترسیل پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

وزیر خارجہ کے سینئر مشیر نے کہا کہ "ایران نے ہمیشہ شام کی قومی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کو مضبوط بنانے،  شام کے مذاکرات کی حوصلہ افزائی اور ملک میں امن و استحکام کے قیام کے لیے اقوام متحدہ کی کوششوں کی حمایت کی ہے اور جاری رکھے گا۔"  

"شام کی حکومت اور عوام 10 سال سے زائد عرصے سے داعش اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے خلاف کھڑے ہیں، اور اب یہ نسبتاً استحکام کو پہنچ گیا ہے اور خطے کے ممالک کے ساتھ اس کے تعلقات بڑھ رہے ہیں، اور اقوام متحدہ اور دیگر ادارے کی ضرورت ہے"۔

انہوں نے کہا کہ علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر شام کی حکومت اور عوام کے ان حالات پر توجہ دیں اور پابندیاں ہٹانے، لوگوں کو امداد فراہم کرنے، مہاجرین کی واپسی اور ملک کی تعمیر نو کے لیے موجودہ کوششوں کو تیز کریں۔

پیڈرسن، جنہوں نے تہران میں ایک وفد کی قیادت کی، نے اقوام متحدہ کے ساتھ ساتھ آستانہ عمل کے ساتھ تعاون کے لیے ہمارے ملک کی کوششوں کی تعریف کی، جس کا مقصد شام کے بحران کے سیاسی حل کو تقویت دینا اور شام کے قومی مذاکرات کی حمایت کرنا ہے، اور اسے جاری رکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔ 

ملاقات کے اختتام پر دونوں فریقین نے مستقبل میں مشترکہ مشاورت کو مضبوط بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔

فارس کے مطابق شام کے لیے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے خصوصی نمائندے "گیر پیڈرسن" نے بھی 27 دسمبر کو علی اصغر خاجی کے ساتھ ٹیلی فون پر بات چیت کی تھی۔

فون کال میں شام کی تازہ ترین پیش رفت پر تبادلہ خیال کیا گیا، بشمول بحران کے حل کے لیے سیاسی عمل، آئینی کمیٹی اور انسانی امداد کی ترقی۔

اس بات چیت میں فریقین نے شام کے سیاسی عمل کو جاری رکھنے کی حمایت کرتے ہوئے آئینی کمیٹی کے دائرہ کار میں بات چیت کو جاری رکھنے پر زور دیا۔

ایران کی بحریہ کے کمانڈر نے بین الاقوامی آزاد سمندروں میں ایران کی موجودگی کو قیام امن اور ایران کے اسلامی جمہوری نظام کے اقتدار کا مظہر قرار دیا ہے۔

‎ایران کی بحریہ کے کمانڈر اڈمیرل شہرام ایرانی نے کہا ہے کہ دور دراز کے آزاد سمندری علاقوں میں ایران کی بحریہ کی موجودگی کا مقصد امن و سلامتی کا قیام اور دوستی کا پیغام دینا ہے اور ایران کسی بھی علاقے میں موجودگی کی بندش کو صحیح نہیں سمجھتا۔

انھوں نے کہا کہ ایران اپنی تدابیر کے ساتھ کہیں بھی حاضر ہو سکتا ہے اور اس کی اس موجودگی کا اصل مقصد سمندر میں موجود جہازوں کی سیکورٹی کو یقینی بنانا، ان کی مدد اور اسی طرح امن و دوستی کا پیغام ارسال کرنے کے ساتھ ساتھ ایران کے اسلامی جمہوری نظام کے کی توانائیوں کا مظاہرہ کرنا ہے۔

اڈمیرل شہرام ایرانی نے کہا کہ ایران کی بحریہ ملک کی مسلح افواج کا بیرونی سرا ہے اور ہمیشہ ملک کی فضائیہ اور بری فوج کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ سمندر اور سمندری فضا میں اپنی موجودگی کے ساتھ اپنا کردار ادا کرتی رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایرانی فوج کی بحریہ اور سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی فورس کی بحریہ میں مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے اور اسی مکمل ہم آہنگی کے ساتھ کوئی بھی عمل انجام پاتا ہے۔

ایران کی بحریہ کے کمانڈر اڈمیرل شہرام ایرانی نے کہا کہ بحریہ کے دونوں شعبوں میں پائی جانے والی اسی ہم آہنگی کی بدولت دشمن ہمارے علاقے میں اب تک کوئی بھی کشیدگی پیدا کرنے اور اپنے کسی بھی ناپاک منصوبے کو عملی جامہ پہنانے اور کوئی بھی سمندری دہشت گردی کا ارتکاب کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران کے وزير خارجہ امیر عبداللہیان نے قطر میں فلسطینی تنظيم حماس کی خارجہ پالیسی کے سربراہ اور فلسطین کے سابق وزير اعظم اسماعیل ہنیہ کے ساتھ ملاقات میں فلسطینی مسلمانوں اور فلسطینی مزاحمتی تنظیموں کی حمایت جاری رکھنے کےعزم کا اظہار کیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے دوحہ میں ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان  سے ملاقات کی ۔ اس ملاقات میں ایرانی وزیر خارجہ نے فلسطین کے مسئلہ کے بارے میں ایران کے اصولی اور منطقی مؤقف کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ سامراجی طاقتوں نے اسرائیلی کی جعلی ، غاصب اور بچوں کی قاتل حکومت کو اسلامی ممالک کے وسط میں تشکیل دیا اور آج تک مغربی سامراجی طاقتیں فلسطینیوں پر ہونے والے اسرائیلی مظالم کی حمایت کررہی ہیں۔ایرانی وزیر خارجہ نے فلسطینی مسلمانوں پر اسرائيلی مظلم اور بربریت کی ایک بارے پھر مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ایران،  فلسطینی مسلمانوں کے دفاع اور ان کے جائز حقوق کے حصول کی تلاش و کوشش کا سلسلہ جاریر کھےگا اور فلسطینی مسلمانوں کو کبھی بھی تنہا نہیں چھوڑے گا۔

اس ملاقات میں فلسطینی تنظیم حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے بھی ایران کی طرف سے فلسطینی عوام کی بےباک اور ٹھوس مدد اور حمایت کرنے پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی ممالک کو ایران کی طرح فلسطینی مسلمانوں کی بےباک مدد کرنی چاہیے اور فلسطینی مسلمانوں پر اسرائیل کے مظالم کو روکنے اور بیت المقدس کی آزادی کے سلسلے اپنی ذمہ داریوں پر عمل کرنا چاہیے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل ایرانی وزیر خارجہ نے قطر کے وزیر خارجہ اور قطر کے بادشاہ سے ملاقات اور دوطرفہ تعلقات اور عالمی و علاقائی امور کے بارے میں تبادلہ خیال کیا۔

اسلامی جمہوریہ ایران 1389 ہجری شمسی سے دنیا کے نایاب بلڈز کی بین الاقوامی ایسوسی ایشن کا رکن ہے اور ایران وہ واحد مسلم ملک ہے جس تنظیم کا رکن ہے اور ایران کے پاس نایاب خونوں کے پروگرام موجود ہے۔

11 جنوری ایرانی کلینڈر میں نایاب بلڈز کا دن ہے اور حالیہ برسوں میں ایران ملک بھر میں نایاب خون والے لوگوں کی شناخت کرنے میں کامیاب رہا ہے اور ان افراد کے عطیہ کردہ خون کے ذخیرہ کے ساتھ ضرورت کے مطابق ایسے مریضوں کی مدد کرسکتا ہے۔

23 ممالک نایاب بلڈز کی بین الاقوامی ایسوسی ایشن کے ممبر ہیں اور ایران خون کی حفاظت اور صحت کے شعبے میں اعلی ترین بین الاقوامی معیار کا حامل ہے اور اس فیلڈ میں جدید ترین آلات سے استعمال کرتا ہے۔

وہ لوگ جو (O، A، B، AB) کے بلڈ گروپس میں نہیں ہیں تو نایاب بلڈز کے گروپوں میں شامل ہیں۔

ارنا نمائندے کے مطابق، باقری نے پہلی ملاقات میں جوہری معاہدے کے مشترکہ کمیشن کے کوارڈیٹنیر "انریکہ مورا" سے ملاقات اور گفتگو کی۔

نیز اسلامی جمہوریہ ایران کے ماہرین، پابندیاں اٹھانے کے معاملے پر گروپ 1+4 کے نمائندوں کے ساتھ بات چیت کے لیے ایک گھنٹہ قبل کوبورگ ہوٹل پہنچ گئے اور اس سطح پر ملاقاتیں جاری ہیں۔

آج کی ملاقاتیں پابندیاں اٹھانے سے متعلق مذاکرات کے آٹھویں دور کا حصہ ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ یہ مذاکرات ایک نازک اور اہم مرحلے میں پہنچ چکے ہیں۔

واضح رہے کہ مذاکرات کا حالیہ دور پیر، (27 دسمبر) کو شروع ہوا، اور مذاکراتی وفود کے مطابق، بات چیت میں پیش رفت ہوئی ہے۔ لیکن کہا جاتا ہے کہ مکالموں میں پیش رفت کے باوجود بعض غیر معمولی مطالبات اور بعض اوقات متن کو پیچھے دھکیلنے کی کوششیں بھی جاری رہتی ہیں اور یہ مکالموں کی سست روی کی ایک وجہ بھی رہی ہے؛ اس سلسلے میں چند باتوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

جبکہ دوسری طرف کو یہ بات ذہن میں رکھنی ہوگی کہ ایک طرف تو وہ میڈیا میں مسلسل "ڈیڈ لائن"، "ٹائم ٹیبل" اور "محدود وقت" سے متعلق بات نہیں کرسکتا، اور دوسری طرف مسلسل بدلتے ہوئے انداز اختیار کرکے حصول کی گئی پیش رفتوں میں نظر ثانی کا مطالبہ نہیں کرسکتا۔

حالانکہ بعض مسائل کو تاخیر کا شکار کرنے کی کوشش کرنے اور فائدہ اٹھانے کے ذریعے دباؤ ڈالنے سے ایران کی مذاکراتی پوزیشن پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور جیسا کہ پہلے بھی کئی بار کہا جاچکا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران اپنی سرخ لکیروں اور اصولی مطالبات کو قربان نہیں کرے گا۔

 اسلامی جمہوریہ ایران نے ویانا مذاکرات میں شرکت پر رضامندی کے ساتھ اپنی زیادہ سے زیادہ ہمت اور بصیرت کا مظاہرہ کیا ہے اور مخالف فریقوں سے توقع رکھتا ہے کہ وہ ذمہ دارانہ رویہ اپنائیں گے اور ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کرنے کے لیے قابل اعتماد اقدامات کریں گے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج کے چیف آف اسٹاف میجر جنرل باقری نے شہید سلیمانی کی اتحاد و یکجہتی کے سلسلے میں کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم شہید قاسم سلیمانی کے راستے پر گامزن رہیں گے، شہید سلیمانی کا راستہ اتحاد اور یکجہتی کا راستہ ہے۔

جنرل باقری نے شہید سلیمانی اور شہید ابو مہدی مہندس کے بارے میں رہبر معظم انقلاب اسلامی کی بے نظیر اور شاندار تعبیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے شہید سلیمانی  اور ابو مہدی مہندس کو شخص کے عنوان سے نہیں بلکہ ایک مکتب کے عنوان سے یاد کیا ہے اور کسی فرد کے بارے میں یہ تعبیر اپنی نوعیت کی منفرد تعبیر ہے۔

میجر جنرل باقری نے کہا کہ ولی فقیہ نے شہید سلیمانی کو مکتب سلیمانی کا شاندار تمغہ عطا کیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ہمیں شہید سلیمانی کی کوششوں کو نسل بہ نسل منتقل کرنا چاہیے۔ شہید سلیمانی کی سیرت اللہ تعالی کی اطاعت اور بندگی پر استوار تھی اور شہید سلیمانی کو اہلبیت علیھم السلام سے والہانہ محبت تھی۔ شہید سلیمانی مخلص ، صادق اور بڑے بابصیر انسان تھے ۔ ولایت فقیہ اور اسلامی نظام ان کی ریڈ لائن تھے۔

میجر جنرل باقری نے کہا کہ شہید سلیمانی نے شام ، لبنان اور عراق میں اتحاد اور یکجہتی کے سلسلے میں نمایاں کارنامے انجام دیئے و بڑے صبروحوصلے کے ساتھ آگے بڑھتے تھے اور اپنے ہدف تک پہنچنے کے لئے آرام و سکون کے ساتھ حرکت کرتے تھے۔

ایران کی مسلح افواج کے چیف آف اسٹاف نے کہا کہ شہید سلیمانی کی شہادت سے قبل خطے سے امریکی فوجیوں کا انخلا ممکن نہیں تھا لیکن شہید سلیمانی کی شہادت کے بعد امریکی فوجی فوری طور پر افغانستان سے خارج ہوگئے۔ امریکی فوجی اب عراق اور شام سے بھی خارج ہونے پر مجبور ہیں ،کیونکہ خطے کے عوام میں امریکی فوجیوں کے بارے میں شدید نفرت پائی جاتی ہے
.taghribnews.
سردار  حسین پور جعفری، سردار شهرود مظفری، میجرهادی طارمی اور کیپٹن وحید زمانیان وہ چار محافظ تھے جو 3جنوری 2020 کی صبح سردار دلہہ حاج قاسم سلیمانی کے ساتھ شہید ہوئے۔


پیر کے روز IRNA کے سیاسی نمائندے کے مطابق، 4 جنوری 2020 حاج قاسم سلیمانی، "اسلام کے عظیم اور شاندار کمانڈر بن گئے اور ان کا پاک خون زمین پر انتہائی بے رحم انسانوں نے بہایا۔" تعزیتی پیغام کا یہ حصہ رہبر انقلاب اسلامی نے  مزاحمتی محاذ کے عظیم کمانڈر کی شہادت کے بعد کہا تھا، ایسی خبر جس نے تمام مساوات بدل دی اور مغربی ایشیائی خطے کو امریکی دہشت گرد حکومت کے لیے ہمیشہ کے لیے غیر محفوظ بنا دیا۔ اب ہم ایک ایسے شخص کی شہادت کی دوسری برسی پر ہیں جو اپنے جنازے کے دن تمام سیاسی اختلاف رکھنے والے ایرانیوں کو ایک تاریخی جنازے میں لے جانے کے لیے سڑکوں پر نکلا لایا، سردار قاسم سلیمانی کے ساتھ چار دیگر ایرانی محافظ  جو سب شہید ہوئے: سردار  حسین جعفری نیا، سردار شهرود مظفری، میجرهادی طارمی اور کیپٹن وحید زمانیان جن کی تاریخ اتنی مقبول نہیں تھی۔

پروانہ حاج قاسم

شہید حسین پور جعفری 1345 میں کرمان میں پیدا ہوئے۔ یہ معزز شہید دفاع مقدس کے وقت سے ہی سردار سلیمانی کے ساتھ ہے اور 1976 میں اس نے سردار سلیمانی کے ساتھ IRGC کی قدس فورس میں شمولیت اختیار کی اور حالیہ برسوں میں وہ شہید سلیمانی کے معاون خصوصی رہے ہیں۔ شہید پور جعفری نے پسماندگان میں دو بیٹیاں اور دو بیٹے چھوڑے ہیں۔

شہید حسین پور جعفری کی بیٹی نفیسہ پورجعفری اپنے والد کی مختلف صفات کو بیان کرتی ہیں، جن کا ان کے دوستوں میں مزاحیہ اور سنجیدگی سے اظہار کیا گیا تھا: ان کا کہنا تھا کہ حاجی قاسم بابا حسین کو اپنا بھائی سمجھتے تھے اور ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ "حسین تتلی کی طرح میرے گرد گھومتا ہے۔"

9 سال سردار کے ساتھ

ایک اور شہید، حاج قاسم سلیمانی کے ساتھ، سردار سلیمانی کے محافظوں میں سے ایک هادی طارمی تھے۔ شہید طارمی 1979 میں پیدا ہوئے اور ان کا تعلق زنجان سے تھا۔ اس نے سردار سلیمانی کے ساتھ بہت سے سنگین مشنوں پر ساتھ دیا یہاں تک کہ وہ 3 جنوری کو امریکی ڈرون حملے میں سردار سلیمانی کے ساتھ شہید ہو گئے۔

شہید ہادی  کی اہلیہ مریم شریفی کہتی ہیں: وہ 8 یا 9 سال تک شہید سردار حاج قاسم سلیمانی کے ساتھ تھیں اور انہیں اس بات پر فخر تھا۔ اگرچہ اس نے ہمیں اپنے مشن کے بارے میں کچھ نہیں بتایا، لیکن وہ اس میں شرکت کے لیے بے تاب پایا گیا۔ ہر سال ان کے گھر سےایام  فاطمی کا ماتم شروع ہوتا تھا۔ اس نے اس سال بھی مجلس فاطمی میں سب کو اپنے گھر بلایا تھا۔ ہادی کا خیال تھا کہ جو کچھ ہوتا ہے وہ خدا کی طرف سے ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا، "اگر ہم شام اور عراق میں داعش کو گھٹنے ٹیک سکتے ہیں، تو یہ خدا کی مرضی سے ہوگی۔"
 
سردار سلیمانی پروٹیکشن ٹیم
 
سردار سلیمانی کے ساتھ ایک اور شہید شهرود مظفری‌نیا ہیں۔ ان کا تعلق اصل میں صوبہ قم کے علاقے کهک  سے تھا اور وہ سردار سلیمانی کے حفاظتی دستے میں شامل تھے۔ شہید شہرود 1978 میں تہران میں پیدا ہوئے۔
 
شہروز شہرود سردار قاسم سلیمانی کے محافظ تھے، اس شہید کے تین بیٹے، دو بیٹیاں ہے۔ ان کے بیٹے کی پیدائش  والد کی شہادت کے تین ماہ اور 18 دن بعد ہوئی۔  علیرضا کی والدہ کہتی ہیں کہ وہ ایک جملے میںان کے والد  کا خلاصہ کر سکتی ہیں: آپ کے والد ایک ہیرو تھے۔

27 سال کا دولہا

3  جنوری کو ہونے والے واقعے میں چوتھا ایرانی شہید وحید زمانیان ہے۔ یہ شہید 1992 میں پیدا ہوا اور اس کا تعلق تہران شہر سے ہے اور وہ سردار سلیمانی کی حفاظتی دستوں میں سے ایک تھا۔ شہید واحد زمانیان ایک نوبیاہتا دلہا تھا جس نے 27 سال کی عمر میں چار سال تک حرم کے دفاع میں حصہ لیا اور دو سال حج قاسم کے ساتھ گزارے۔ شہید وحید  نے خطبہ نکاح کے وقت اپنی شہادت کی دعا کی تھی کیونکہ انہوں نے سنا تھا کہ اسی وقت دعا قبول ہو جائے گی۔
 تقريب خبررسان ايجنسی
ایران نے امریکی حکام کو سفارت کاری کے راستے پر گامزن رہنے کے بجائے جنگ چھیڑنے پر آمادہ کرنے کی رپورٹس جاری کرنے پر وال اسٹریٹ جرنل پر تنقید کی۔

وال اسٹریٹ جرنل نے اپنے مضمون میں دعویٰ کیا ہے کہ ویانا میں جاری مذاکرات کی ناکامی کی ممکنہ صورت میں امریکی صدر جو بائیڈن کے لیے بہتر ہوگا کہ وہ فوجی حملے کی تیاری کریں۔

ردعمل میں، اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل مشن نے کہا کہ سنگین سفارتی بات چیت کے درمیان رہنماؤں کو جنگ شروع کرنے کی ترغیب دینا بین الاقوامی قانون کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔

اقوام متحدہ میں اسلامی جمہوریہ ایران کے مستقل مشن نے اپنے عہدیدار پر لکھا کہ "رہنماؤں کو جنگ کا انتخاب کرنے کی ترغیب دینا اور مشورہ دینا، خاص طور پر جب کوئی سنجیدہ سفارتی عمل جاری ہو- جاہلانہ، دشمنی اور بین الاقوامی قانون کے اصولوں کے منافی ہے"۔

 "جو لوگ اس طرح کے لاپرواہ منصوبوں کو ڈیزائن اور ان پر عمل درآمد کرتے ہیں وہ نتائج کی ذمہ داری اٹھائیں گے۔"

ایران اور گروپ 4+1 (روس، چین، برطانیہ اور فرانس کے علاوہ جرمنی) کے درمیان امریکی پابندیوں کو ہٹانے کے لیے مذاکرات کا نیا دور 3 جنوری کو ویانا میں دوبارہ شروع ہوا۔

ویانا مذاکرات کو آگے بڑھایا جا رہا ہے کیونکہ مذاکراتی ٹیموں کی اکثریت پابندیوں کے خاتمے سے متعلق جاری مذاکرات میں حتمی معاہدے تک پہنچنے میں ہونے والی پیش رفت پر متفق ہے۔

روسی ایلچی نے کہا کہ مذاکرات کے تمام شرکاء تسلیم کرتے ہیں کہ جے سی پی او اے کی بحالی کے معاہدے کی جانب کچھ پیش رفت ہو رہی ہے۔

"اب ویانا مذاکرات میں تمام شرکاء تسلیم کرتے ہیں کہ #JCPOA کی بحالی اور پابندیوں کو ہٹانے کے معاہدے کی طرف کچھ پیش رفت ہو رہی ہے،" ویانا میں بین الاقوامی تنظیموں میں روس کے مستقل نمائندے میخائل الیانوف نے کہا، جو اس میں روسی وفد کے سربراہ ہیں۔"تاہم اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے مسلسل اضافی کوششیں ضروری ہیں،" 

اس سے قبل فرانس کے وزیر خارجہ نے جمعہ کو ویانا میں جاری مذاکرات پر مثبت لہجہ اپناتے ہوئے کہا کہ مذاکرات میں پیش رفت ہوئی ہے۔

"مجھے یقین ہے کہ ہم ایک معاہدے تک پہنچ سکتے ہیں۔ پچھلے کچھ دنوں میں بہت سی پیشرفت ہوئی ہے۔ ہم پچھلے کچھ دنوں میں ایک مثبت سمت میں جا رہے ہیں، لیکن وقت کی اہمیت ہے کیونکہ اگر ہمیں ایک معاہدہ نہیں ملتا ہے۔ فوری طور پر سمجھوتہ کرنے کے لیے کچھ نہیں ہو گا،

یہ ریمارکس ویانا میں ہونے والے مذاکرات میں ایران کے چیف مذاکرات کار علی باقری کنی کے کہنے کے بعد سامنے آئے ہیں کہ ایران معاہدے کے باقی دستخط کنندگان کے ساتھ مذاکرات "مثبت اور آگے بڑھنے والے" ہیں۔