
سلیمانی
قدس حاج قاسم کی توجہ میں تھا
لبنان کی حزب اللہ موومنٹ کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل شیخ نعیم قاسم نے سردار حاج قاسم سلیمانی کی شہادت کی دوسری برسی کے موقع پر خطے اور اس کی اقوام کی کامیابیوں کے بارے میں گفتگو کی۔
فارس نیوز ایجنسی کو انٹرویو دیتے ہوئے شیخ قاسم نے کہا کہ شہید سلیمانی کی کامیابیاں بہت زیادہ ہیں، جب انہوں نے مشن سنبھالا تو وسیع تبدیلیاں ہوئیں۔ اتنا کہنا کافی ہے کہ پہلا اہم نتیجہ 2000 میں مقبوضہ لبنانی علاقوں کی فتح اور آزادی تھا، اور اس طرح اسرائیلی فوجیں ذلت کے ساتھ جنوبی لبنان سے نکل گئیں۔اور اس کے بعد ہم نے تین فتوحات دیکھیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ تحریک انصار اللہ یمن کی غیرمعمولی طاقت میں پیشرفت ہوئی ہے اور یہ تحریک وسیع پیمانے پر یمن میں کامیاب ہوئی، 2011 میں شام ناکام ہو جاتا اور تین مہینوں میں ختم ہو جاتا ، لیکن شہید قاسم سلیمانی نے جو کیا وہ شام میں شاندار مزاحمت اور محاذ آرائی کی تصدیق کرنا تھا، اس کے علاوہ عراق کی حمایت اور الحشد الشعبی کو قائم کرنا اور داعش کو عراق اور شام سے نکال باہر کرنا تھا۔ اور شہید قاسم نے لبنان میں حزب اللہ کی بھرپور حمایت کی اور لبنان میں حزب اللہ کو نہیں بھولیں ، یہ تحریک 2006 میں صیہونی حکومت کی جارحیت کے خلاف جیتنے میں کامیاب ہوئی تھی اور اس جنگ کے آپریشن روم میں شہید قاسم سلیمانی موجود تھے، اور یہ تمام کامیابیاں، شہید سلیمانی کی کاوشوں اور جہاد کا نتیجہ تھا۔
شیخ قاسم نے اس سوال کے جواب میں کہ شہید حاج قاسم سلیمانی کا نام کس چیز کی یاد دلاتا ہے؟ انہوں نے کہا: شہید حاج قاسم سلیمانی ایک ایسا نام تھا جو خطے اور دنیا کے افق پر چمکا، ان کا نام مجھے ان عظیم ناموں کی یاد دلاتا ہے جو رسول خدا (ص) اور امام حسین (ع) کے ساتھ تھے اور سب سے زیادہ حیرت انگیز۔ مشکل اور مشکل لمحات میں بہادری کی مہاکاوی محاذ آرائی اور جدوجہد کا پتہ چلا۔
انہوں نے مزید کہا کہ شہید قاسم سلیمانی کارکردگی اور جامعیت کے لحاظ سے خطے اور دنیا کی توجہ کے لحاظ سے ایک بے مثال رول ماڈل تھے، خاص طور پر چونکہ سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے ساتھ ان کا خاص اور مضبوط رشتہ تھا۔
شہیدوں کا خون کبھی رائیگاں نہیں جاتا۔
شیخ قاسم نے مزاحمتی محاذ پر شہید حاج قاسم کے خون کے اثرات کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں تاکید کی کہ شہداء کا خون کبھی رائیگاں اور فراموش نہیں ہوتا اور اس کا سب سے بڑا ثبوت شہادت امام حسینؑ کا خون ہے۔ جس نے زندگی، طاقت اور امید پیدا کی اور آج ہم ان فتوحات کا جشن منا رہے ہیں اور اسلامی ایران اور پورے خطے کے لیے یہ الہی کامیابی شہادت امام حسین (ع) کی برکات میں سے ہے اور حج قاسم کی شہادت کی برکات میں سے ہے۔ یہ سیاق و سباق اور ان کی شہادت تمام مجاہدین اور تمام قائدین کے لیے اس تخلیق کردہ راستے کو جاری رکھنے کی تحریک ہے۔
شیخ نعیم قاسم نے اس بات پر بھی زور دیا کہ حاج قاسم سلیمانی کی شہادت مزاحمت کو اس راستے کو جاری رکھنے کی تحریک دے گی، ان کی شہادت کے اثرات آنے والے سالوں میں ثابت ہوں گے اور اب ان کی شہادت کے دو سال بعد ہم مزاحمت کی مزید مزاحمت کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی شہادت مزاحمت کی ترقی اور وسعت کا باعث بنی۔
قدس حاج قاسم کی توجہ میں تھا۔
لبنان کی حزب اللہ تحریک کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل نے اس سوال کے جواب میں کہ سردار سلیمانی کو کس چیز کی زیادہ فکر تھی؟ انہوں نے کہا کہ حج قاسم کی توجہ میں مسئلہ قدس تھا، وہ قدس فورس کے کمانڈر تھے اور خطے میں ان کی تمام کوششیں اور مزاحمت کا محور قدس اور فلسطین کے محور کے گرد تھا کیونکہ قدس فتح کا محور ہے۔ اپنے ملکوں سے غیر ملکیوں کی آزادی اور بے دخلی، یروشلم پر قبضے کا تسلسل خطے کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے، شہید سلیمانی نے فلسطین کی ہر ممکن مدد کی۔ فلسطین اور بیت المقدس کی مدد درحقیقت پورے خطے کی ان اقوام کی مدد کرنا ہے جو اس خطے میں استکباری امریکہ اور اس کے ایجنٹ صیہونی حکومت کے انجام سے محفوظ نہیں ہیں۔
شیخ قاسم نے افغانستان اور عراق سے امریکی افواج کے انخلاء کو بھی حاج قاسم سلیمانی کی شہادت کے نتائج اور اثرات میں سے ایک قرار دیا اور کہا کہ ہم نے حاج قاسم کی شہادت کے بعد افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلاء کو دیکھا۔
جنرل سلیمانی کے قتل میں ملوثین کیخلاف قرارداد جاری کرنے کا مطالبہ
ایرانی صدر برائے آئینی قانون کے نفاذ اور مواصلات کے امور نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر کے نام میں ایک خط میں سرکاری اہلکاروں اور سفارت کاروں کے قتل میں ملوثین کی استثنی کو بین الاقوامی امن کو خطرے میں ڈالنا قرار دیتے ہوئے جنرل سلیمانی کے قتل میں ملوثین کیخلاف قرارداد جاری کرنے کا مطالبہ کیا۔
نائب ایرانی صدر برائے آئینی قانون کے نفاذ اور مواصلات کے امور نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے نام میں خط کا متن درج ذیل ہے؛
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی؛
جناب چیئرمین اور معزز نمائندگان؛
احترام کے ساتھ،
عراق میں سفارتی مشن انجام دینے والے اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت کے اعلی عہدیدار جنرل قاسم سلیمانی کو قتل کرنے کے ناقابلِ یقین جرم سے دو سال گزر چکے ہیں۔
اس پرتشدد بین الاقوامی جرم کی براہ راست ذمہ داری کو بعد میں اس وقت کے امریکی کی حکومت نے قبول کی تھی۔
امریکہ کی حکومت کی طرف سے یہ خطرناک اقدام، اس وقت سامنے آیا ہے جب اقوام متحدہ کا چارٹر؛ جنگ کے بعد کے عرصے میں ایک بنیادی دستاویز اور بین الاقوامی اتفاق رائے کے سلسلے کے طور پر، حکومتوں کو ایسے کاموں میں ملوث ہونے سے منع کرتا ہے جو بین الاقوامی امن اور سلامتی کے لیے نقصان دہ ہوں۔
بدقسمتی سے، اب کئی سالوں سے، حکومتوں کی اجتماعی زندگی میں ایک ایسے بدقسمت رجحان کا ظہور ہوا ہے جسے امریکہ کی حکومت کی انتہائی یکطرفہ پسندی کہا جاتا ہے، جو کسی بھی بین الاقوامی چارٹر اور بین الاقوامی اصولوں اور ضوابط کی خلاف ورزی کا حق محفوظ رکھتی ہے۔
بین الاقوامی قانون؛ ماورائے عدالت پھانسیوں، حکومتی اور سفارتی اہلکاروں کے قتل، انسانیت کے خلاف جرائم، انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں، بشمول زندگی کا حق، طاقت کے استعمال کے حق کی خلاف ورزی، اور انسانی قانون کے اصولوں کی خلاف ورزیوں پر سختی سے پابندی لگاتا ہے۔
جس طرح دوسری جنگ عظیم کا آغاز ایک دہشت گردانہ حملے سے ہوا تھا، اسی طرح عالمی برادری کے اراکین کی طرف سے اٹھائے گئے حالیہ اقدامات میں سے کوئی بھی بین الاقوامی اقدار پر مبنی بین الاقوامی امن و سلامتی کو افراتفری کے ہنگامہ خیز دور میں لا سکتا ہے۔
اب، اقوام متحدہ کا چارٹر ایک بار پھر لیگ آف نیشنز کے چارٹر کے آخری ایام میں ہونے کے دہانے پر ہے؛ اس طرح کہ موجودہ اشتعال انگیز صورتحال کا تسلسل چارٹر کے جسم پر ایک آزاد تیر لا کر اکیسویں صدی کے مصیبت زدہ انسان کو راکھ اور خون سے نگل سکتا ہے۔
بین الاقوامی امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے، بین الاقوامی انسانی حقوق کے نظام کا احترام کرنے کے لیے، بین الاقوامی تنازعات کو پرامن طریقے سے حل کرنے کے لیے، بین الاقوامی قانون کے عمومی اصولوں کو برقرار رکھنے کے لیے، بشمول مساوات کے اصول، خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے اصول، دوستانہ بین الاقوامی تعلقات کو فروغ دینے کے لیے، بین الاقوامی برادری کی یکجہتی کو برقرار رکھنے، جارحیت کے عمل کی مذمت، انسانیت کے خلاف جرائم کی مذمت اور زندگی کی دنیا میں قانون کی حکمرانی کو مستحکم کرنے کے لیے یہ تجویز دی جاتی ہے کہ سپریم اسمبلی اپنے اختیارات کے اندر تمام قانونی اقدامات کرے، جس میں حکومت کی طرف سے حکومتی اور سفارتی اہلکاروں کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے قرارداد کی منظوری بھی شامل ہے، تاکہ مستقبل میں ایسے جرائم کی روک تھام کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ بلاشبہ دہشت گردی کے جرم کے مرتکب افراد کی نافرمانی اور انہیں کسی بھی قسم کی مذمت اور عدالتی سزا سے استثنیٰ بین الاقوامی امن کو مزید ابتر حالت میں ڈال دے گا۔
نائب وزیر برائے مواصلات اور آئین کے نفاذ کے امور
اسلامی جمہوریہ ایران کے نائب صدر برائے قانونی امور
تقريب خبررسان ايجنسی
شہید سلیمانی کی دوسری برسی کی انتظامیہ کمیٹی اور اہل خانہ سے ملاقات اس عظیم خون کی برکت سے آج استقامتی محاذ پہلے کی نسبت زیادہ پرامید و با نشاط ہے
رہبر انقلاب اسلامی نے ہفتے کی صبح شہید حاج قاسم سلیمانی کی برسی کے پروگراموں کا انعقاد کرنے والی کمیٹی کے اراکین اور شہید کے اہل خانہ سے ملاقات میں صداقت و اخلاص کو مکتب سلیمانی کا خلاصہ، مظہر اور شناخت قرار دیا اور خطے کے جوانوں کیلئے شہید سلیمانی کے ایک نمونۂ عمل کی حیثیت اختیار کر جانے کا حوالہ ہوئے فرمایا: عزیز قاسم سلیمانی، ایران کی سب سے بڑی قومی اور مسلم امہ کی سب سے بڑی 'امّتی' شخصیت تھے اور ہیں۔
انھوں نے جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کو ایک قومی اور عالمی سانحہ قرار دیا اور فرمایا: "ایران بھر میں حاج قاسم کی مقبول اور ابتکار آمیز یاد اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ قوم اس عظیم شہید کی قدر کرنے میں پیش پیش ہے۔"
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے قرآن مجید کی متعدد آيتوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: "صداقت اور اخلاص مکتب سلیمانی کا نچوڑ اور بنیاد ہے جس نے ان کی زندگی اور شہادت دونوں کو با برکت بنایا اور خدا کے فضل سے ان کی شہادت کی کیفیت نے بھی خدا کے تمام بندوں اور اسلام کے دشمنوں پر حجت تمام کی۔"
آیت اللہ خامنہ ای نے سردار سلیمانی کی خدا کے ساتھ کئے گئے عہد کی پوری مخلصانہ پابندی اور وفاداری اور امام خمینیؒ، اسلام اور انقلاب کے نظریات کے ساتھ حج قاسم کے مخلصانہ رابطے کو سردار سلیمانی کی سرگرمیوں کیلئے باعثِ برکت قرار دیا اور مزید فرمایا: ملت ایران کے عزیز سردار نے اپنے اہداف کے راستے میں مجاہدت کی سختی کو تحمل کیا اور اپنی تمام عمر پوری دقت اور جانفشانی سے ایرانی قوم اور امت اسلامیہ کے تئیں اپنے فرائض کی پاسداری کرتے رہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے دانستہ یا نادانستہ طور پر "ملت اور امت" کے دشمن کے جھوٹے نظریے کی ترویج کی کوشش کرنے والوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا: شہید قاسم سلیمانی نے ثابت کیا کہ قومی ترین ہونے کے ساتھ ساتھ امتی ترین بھی بنا جاسکتا ہے۔
انھوں نے شہید جنرل سلیمانی کے جلوس جنازہ میں دسیوں لاکھ کی تعداد میں عوام کی شرکت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: یہ حقیقت اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ شہید سلیمانی، سب سے بڑا قومی چہرہ تھے اور ہیں اور اسی کے ساتھ عالم اسلام میں ان کے نام اور ان کی یاد کے روز افزوں اثر و رسوخ سے ثابت ہوتا ہے کہ عزیز سلیمانی، عالم اسلام کا سب سے بڑا 'امتی' چہرہ بھی تھے اور ہیں۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے شہید قاسم سلیمانی کو انتھک اور حیرت انگیز کوششوں اور اقدامات کا مظہر قرار دیا اور فرمایا: "ایرانی قوم کے یہ عظیم جنرل، اپنے تمام کاموں اور سرگرمیوں میں قابل تحسین شجاعت، بہادری اور ساتھ ہی عقلمندی رکھتے تھے اور دشمن اور اس کے ذرائع و وسائل کی مکمل شناخت کے ساتھ بغیر کسی ذرہ برابر خوف بغیر طاقت و تدبیر کے ساتھ مقابلے کے میدان میں آتے تھے اور حیرت انگیز کام انجام دیتے تھے۔
انھوں نے ایرانی قوم کی جانب سے جنرل سلیمانی کو دی جانے والی داد شجاعت کو، حاج قاسم کے اخلاص اور خدائی عہد کی وفاداری کے نتائج میں سے ایک قرار دیا۔
رہبر انقلاب اسلامی کے مطابق "اخلاص اور خدا کے لیے کام" شہید قاسم سلیمانی کی اہم خصوصیت اور ان کے کام میں بے مثال برکت کی بنیادی وجہ تھی، آپ نے کہا: "وہ کسی بھی کام میں نام و نمود سے بہت بچتے تھے اور دکھاوے اور بڑی بڑی باتیں کرنے سے دور رہتے تھے۔" رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ شہید سلیمانی کے جلوس جنازہ میں دسیوں لاکھ افراد کی شرکت اور عالمی سطح پر ان کے نام اور ذکر کا فروغ در اصل دنیا میں ان کے اخلاف کا پہلا انعام اور خدائی اجر تھا۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے عالم اسلام اور خطے کے جوانوں کے درمیان شہید قاسم سلیمانی کے نمونۂ عمل اور ہیرو بن جانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: آج ہمارے خطے میں جنرل سلیمانی امید، خود اعتمادی اور شجاعت کا مظہر اور فتح و استقامت کا استعارہ بن چکے ہیں، بعض لوگوں نے بالکل صحیح کہا ہے کہ "شہید" سلیمانی اپنے دشمنوں کے لیے "جنرل" سلیمانی سے زیادہ خطرناک ہیں۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا: دشمن سوچ رہے تھے کہ سلیمانی، ابو مہدی اور ان کے دیگر ساتھیوں کی شہادت سے کام ختم ہو جائے گا لیکن آج اس عزیز اور ان کے مظلومانہ خون کی برکت سے امریکا، افغانستان سے فرار ہو چکا ہے، عراق سے نکلنے کا دکھاوا کرنے اور یہ اعلان کرنے پر مجبور ہوچکا ہے کہ عراق میں اس کا کردار صرف مشاورتی ہوگا۔ البتہ ہمارے عراقی بھائيوں کو ہوشیاری سے اس معاملے پر نظر رکھنی چاہیے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا کہ یمن میں استقامت کا محاذ پیشرفت کرتا جا رہا ہے، شام میں دشمن کو دھول چٹا دی گئی، وہ مستقبل کی طرف سے پوری طرح نا امید ہو چکا ہے اور مجموعی طور پر خطے میں استکبار مخالف استقامتی محاذ، آج دو سال پہلے کے مقابلے میں زیادہ امید و نشاط کے ساتھ اور زیادہ تندہی سے کام کر رہا ہے اور آگے بڑھ رہا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے شہیدوں کے بچوں سے شہید سلیمانی کے مہر و عطوفت بھرے سلوک کی ایک مثال پیش کرتے ہوئے کہا: "وہ شہید عزیز جو شہدا کے اہل خانہ کے سامنے اس طرح پیار اور مہر و عطوفت کا مظاہرہ کرتے تھے، ملکی اور غیر ملکی شر پسند عناصر اور تخریب کاروں کے مقابلے میں اتنے ٹھوس اور سخت تھے کہ کسی علاقے میں ان کی موجودگی کی خبر ہی، دشمن کے حوصلے پست کر دیتی تھی۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارموں پر شہید سلیمانی کے سلسلے میں استعمار کی سینسر پالیسی کو، شہید کے نام تک سے ان کے خوف اور اس زبردست نمونۂ عمل کے عالمگیر ہو جانے سے ان کی خوف کی نشانی قرار دیا اور فرمایا: آج کی دنیا میں، سائبر اسپیس، استعمار کے ہاتھ میں ہے اور اس حقیقت سے سائبر اسپیس کے ملکی ذمہ داروں کو بھی چوکنا ہو جانا چاہیے کہ وہ ایسے انتظامات کریں کہ دشمن سائبر اسپیس کے میدان میں منمانی نہ کر سکے۔
انھوں نے شہید سلیمانی کو ایک لازوال اور زندۂ جاوید حقیقت قرار دیا اور فرمایا: ٹرمپ اور اس جیسے ان کے قاتل، تاریخ کے فراموش شدہ لوگوں میں ہوں گے اور تاریخ کے کوڑے دان میں گم ہو جائيں، البتہ اپنے دنیوی جرم کی قیمت چکانے کے بعد۔
رہبر انقلاب اسلامی نے شہید سلیمانی کی استقامت کے مبارک مشن کو جاری رکھنے اور اسے آگے بڑھانے میں شہید کے اہل خانہ، ان کے ساتھیوں اور دوستوں بالخصوص سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس کے کمانڈر جنرل قاآنی کی سرگرمیوں کو سراہتے ہوئے کہا: خداوند عالم نے اس کے ارادے اور اہداف کی راہ میں آگے بڑھنے والوں سے دفاع اور مدد کا وعدہ کیا ہے اور یہ امید افزا وعدہ، ایرانی قوم کے شامل حال ہوگا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل شہید کی صاحبزادی اور شہید سلیمانی فاؤنڈیشن کی سربراہ محترمہ زینب سلیمانی نے اس فاؤنڈیشن اور شہید کی دوسری برسی کی مباسبت سے تشکیل شدہ عوامی کمیٹی کی سرگرمیوں اور اٹھائے گئے اقدامات کے بارے میں رپورٹ پیش کی۔
نیز سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے کمانڈر انچیف سردار سلامی نے شہید سلیمانی کو امت اسلامیہ کے نوجوانوں کے لیے ایک زندہ، تابناک اور متاثر کن حقیقت قرار دیا اور مزید کہا: دشمن نے اس جرم کے ذریعہ مقاومت کی شمع کو بجھانے کے درپے تھا لیکن ان شہداء کے خون کے معجزے نے مزاحمت کو آگے بڑھایا اور دشمن کو مقابلے کے تمام محاذوں پر پیچھے ہٹنا پڑا۔
شہید جنرل قاسم سلیمانی اور ابو مہدی المہندس کی یاد میں دنیا کے مختلف ممالک میں تقریبات منعقد ہوئی
شہید جنرل قاسم سلیمانی اور ابو مہدی المہندس کی یاد میں تقریب جمعہ کے روز دنیا کے مختلف ممالک میں منعقد ہوئی جس میں حکام اور سیاسی اور مذہبی شخصیات نے شرکت کی۔
یہ تقریبات اس سال نئے سال کے آغاز کے موقع پر ہوئیں، بھارت میں ممبئی، ملائیشیا میں کولالمپور، پاکستان میں اسلام آباد، عراق میں بغداد، افغانستان میں کابل، شام میں دمشق، بوسنیا میں سراجیوو، لبنان میں بیروت، ڈنمارک میں کوپن ہیگن، آسٹریا میں ویانا، سویڈن میں اسٹاک ہوم اور تیونس میں تقریبات دیکھی گئیں۔
تقریب کے دوران مقررین نے سردار سلیمانی کی قربانیوں اور بہادری کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس شہید نے داعش کے خلاف جنگ اور مغربی طاقتوں کی حمایت یافتہ دہشت گرد گروہ کو شکست دے کر خطے اور انسانیت کی عظیم خدمت کی ہے۔
ان تقریبات کے دوران، جو ان ممالک میں اسلامی مذہبی مراکز اور بعض گرجا گھروں میں منعقد کی گئی تھیں، گرجا گھروں میں لوگوں نے سردار سلیمانی کی تصویر کا فریم دعائیہ کلمات اور صلیب کے آگے رکھا اور موم بتیاں روشن کیں۔
یہ تقریبات مساجد میں اور کچھ ممالک جیسے شام، عراق اور لبنان میں گرجا گھروں میں بھی منعقد کی گئیں جہاں نمازیوں نے داعش دہشتگردوں کے حملوں کے خلاف مذہبی اقلیتوں اور ان کے مقدس مقامات کی حفاظت میں جنرل سلیمانی کے کردار کو تسلیم کیا۔
بلاشبہ جنرل سلیمانی کے اقلیتوں کا دفاع عیسائیوں کے لیے منفرد نہیں ہے۔ داعش دہشت گردوں کے خلاف کردستان کے علاقے اربیل کے دفاع کرنے کا منظر، جسے سلیمانی کے افسانوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، نے کرد عوام کی تاریخی یاد کو ہمیشہ کے لیے متاثر کیا ہے۔ عراق کے ایزدیوں میں بھی یہی عقیدت اور محبت دیکھی جا سکتی ہے۔
قاسم سلیمانی کی یاد، مزاحمت کے تصور اور بین الاقوامی دہشت گردی کے خلاف جنگ کی یاد کے علاوہ، مذاہب کے درمیان مکالمے اور خطے کی اقوام کی دوستی کو مضبوط کرنے اور انسانیت اور پرہیزگاری کے پیغام کو پھیلانے اور مظلوموں کی حمایت کا موقع ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ 3 جنوری 2020 میں عراق کے دارالحکومت بغداد کے ایئرپورٹ پر امریکہ کی جانب سے راکٹ حملے کیے گئے جس کے نتیجے میں پاسداران انقلاب کے کمانڈر قدس جنرل قاسم سلیمانی سمیت عراق کی عوامی رضاکار فورس الحشد الشعبی کے ڈپٹی کمانڈر "ابومهدی المهندس" شہید ہوگئے۔
ٹرمپ نے اس ہوائی حملہ اور جنرل سلیمانی کے قتل کا حکم دیا تھا.
شہید قاسم سلیمانی افغانستان کے مجاہدین کے لیے مثالی شخصیت تھے: حسینی مزاری
اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ افغانستان کی معروف ثقافتی اور میڈیا سے تعلق رکھنے والی شخصیت سید عیسی حسینی مزاری نے افغانستان کی صورتحال میں شہید جنرل قاسم سلیمانی کے کردار کے عنوان سے ہونے والے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انھیں اسلامی انقلاب کی کوکھ سے جنم لینے والی ایک عظیم اور مثالی شخصیت و رہنما قرار دیتے ہوئے کہا کہ شہید قاسم سلیمانی افغانستان کے مجاہدین کیلئے اخلاقی اورعقیدتی اور اسی طرح مجاہدانہ زندگی گزارنے کے حوالے سے مثالی اور آئیڈیل شخصیت تھے۔
انہوں نے کہا کہ شہید جنرل قاسم سلیمانی شروع سے ہی افغانستان کے عوام کے حامی اور افغانستان کے مجاہدین کے ساتھ تھے۔
سید عیسی حسینی مزاری نے افغانستان کے عوام کے لئے شہید جنرل قاسم سلیمانی کی حمایت اور خدمات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ شہید قاسم سلیمانی نے حتی افغانستان میں امریکہ نواز حکومتوں کے دور میں بھی افغانستان کے عوام کی مدد و حمایت کی ۔
واضح رہے کہ 3 جنوری 2020 کو دہشتگرد امریکی فوجیوں نے بغداد ایئرپورٹ کے قریب سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے قدس بریگیڈ کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی اورعراق کی رضاکار فورس الحشدالشعبی کے ڈپٹی کمانڈر جنرل ابومہدی المہندس کو ان کے آٹھ ساتھیوں سمیت شہید کردیا تھا۔
ایران کے القدس بریگیڈ کے کمانڈرجنرل قاسم سلیمانی عراقی حکومت کی دعوت پراس ملک کے دورے پرتھے۔
ایران کے خلاف امریکا اور اسرائيل کی تازہ دھمکیاں اور انکی حقیقت، ایک جائزہ
ایران سے امریکا اور اسرائیل کی دشمنی اور ریشہ دوانیوں کا سلسلہ چالیس سال سے جاری ہے۔ اس درمیان انھوں نے ایران کے اندر درجنوں دہشت گردانہ کارروائیاں انجام دیں جن میں بے شمار عام شہری، سیاسی و مذہبی رہنما اور سائنسداں شہید ہوئے ۔
جہاں تک ان کی تازہ دھمکیوں کا سوال ہے تو ایران انہیں زیادہ اہمیت نہیں دیتا لیکن ان کی طرف سے غافل بھی نہیں ہے۔
اگر امریکا اور اسرائیل کو یہ یقین ہوتا کہ حملہ کرکے وہ بچ نکلیں گے اور ایران کےجوابی حملے سے محفوظ رہیں گے تو اب تک ان کا حملہ ہوبھی چکا ہوتا۔ لیکن وہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ حملہ تو وہ کر سکتے ہیں لیکن پھر جنگ ختم کرنا ان کے اختیار میں نہیں ہوگا۔
ایران نے اسرائیل کوکھلا انتباہ دے رکھا ہے کہ اگر اس نے کوئي جارحانہ حماقت کی تو اس کا چالیس برس سے جاری سلوگن " اسرائیل باید نابود شود" (اسرائیل کو صحفہ ہستی سے مٹ جانا چاہئے) عملی شکل اختیار کر لے گا۔
اس کے علاوہ ایران نے بحریہ کی طاقت پر کافی توجہ دی ہے ۔ امریکا ایران کے خلاف کوئي بھی جارحیت کرکے خلیج فارس اور آبنائے ہرمز سے محفوظ نہیں نکل سکے گا۔
جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد عین الاسد فوجی چھاؤنی پر ایرانی میزائلوں کی بارش سے ایران کی میزائل توانائي امریکیوں پر ثابت ہو چکی ہے اور وہ جانتے ہیں کہ خطے میں ان کا کوئی بھی فوجی اڈہ ایرانی میزائلوں کی رینج سے باہرنہیں ہے۔
اسی لئے امریکا اور نیٹو کی طرف سے ایران کے میزائل پروگرام کی زیادہ مخالفت کی جارہی ہے۔ ان کے لئے اصل مسئلہ ایران کا ایٹمی پروگرام نہیں بلکہ میزائل پروگرام ہے ۔
امریکا کی نفسیات کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ویتنا م میں امریکا کو جو سبق ملا ہے اس کے بعد اس نے قبضہ کرنے کے لئے تو فوج اتاری ہے لیکن کسی بھی ملک میں جنگ کرنے کے لئے فوج نہیں اتاری ہے۔
دو ملک ایسے ہیں جن میں امریکا نے براہ راست فوج اتاری؛ افغانستان اور عراق۔ افغانستان میں طالبان اسی کے تیار کردہ تھے۔ طالبان کا اصل حامی پاکستان تھا جس کو امریکا کےایک ٹیلیفون نے نہ صرف خاموش کر دیا بلکہ امریکی مشن میں تعاون پر مجبور کر دیا۔
اور پھر افغانستان میں امریکی فوجیوں نے جنگ کہاں کی ؟ زمین پر تو شمالی اتحاد (North Alliance)نے کام کیا اورافغانستان کا شمالی اتحاد ایران میں تیار ہوا تھا ۔ اس کے کیمپ ایران میں تھے ۔ اس اتحاد کے جنگجوؤں کو ایران کےاندر اس کے کیمپوں میں ہی ٹریننگ ملی تھی۔
یہ بڑی دلچسپ حقیقت ہے کہ ویتنام کے بعد امریکا نے دو ملکوں میں فوج اتاری اور قبضہ کیا اور دونوں ہی ملکوں میں اس کا ساتھ ان قوتوں نے دیا جو ایران میں تیار ہوئی تھیں۔ افغانستان میں شمالی اتحاد نے امریکا کا ساتھ دیا اور جب بارہ سال تک عراق کو غیر مسلح کرنے کی مہم کے بعد امریکا نے عراق میں فوج اتاری تو شیعہ ملیشیا البدر اورعراقی کرد ملیشیا نے عراق کےاندر حالات کو سنبھالا ۔ ان دونوں کے کیمپ بھی ایران میں تھے ۔ ایران میں ہی انہیں ٹریننگ بھی ملی تھی۔
عراقی کردوں کے دو گروپ تھے۔ ایک پیٹریاٹک یونین آف کردستان جس کے لیڈر جلال طالبانی تھے اور دوسری مسعود بارزانی کی کردستان ڈیموکریٹک پارٹی تھی۔ دونوں میں سخت اختلاف تھا۔ ان میں صلح بھی ایران نے کرائی تھی۔
صدام کے سقوط کےبعد پہلے تو پال بریمر عراق کاحاکم بنا اور پھر امریکا کو اقتدا عراقیوں کو سونپنا پڑا اور انتخابات ہوئے تو پہلے الیکشن سے لیکر اب تک جتنی بھی حکومتیں بنیں سب ایران کی طرفدارتھیں۔
کرد رہنماؤں میں جلال طالبانی صدربنے اور مسعود بارزانی عراق کے کرد ریجن کےحاکم۔
حقیقت یہ ہے کہ عراق اورافغانستان دونوں ملکوں میں امریکا اور ایران کے دشمن مشترک ہوگئے تھے، عراق میں صدام اور افغانستان میں اس وقت کے طالبان ۔
اس لئے جب امریکا نے ان کے خلاف کارروائي کی تو ایران نے، مداخلت نہیں کی بلکہ خاموشی اختیار کی لیکن ایران کے اندر تیار ہونے والے افغان شمالی اتحاد اور عراق کی البدر تنظیم اور عراق کی دونوں کرد جماعتوں کے جنگجوؤں نے دونوں ملکوں میں اس وقت کی حکومتوں کو گرانے میں کردار ادا کیا۔
یہی وجہ ہے کہ اگر چہ افغانستان اورعراق دونوں ملکوں میں امریکا نے حکومتیں گرائيں لیکن امریکی نگرانی میں ہونے والے انتخابات کے بعد بننے والی دونوں ملکوں کی حکومتیں ایران کی طرفدار رہی ہیں۔
امریکا کسی ملک پر قبضہ کرنے کے لئے تو فوج اتار سکتاہے جنگ کرنے کے لئے نہیں ۔ ایران کے بارے میں وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ ایران جوابی حملہ کرنے میں ایک لمحے کی بھی تاخیر نہیں کرے گا۔ ایران بارہا واضح کرچکا ہے کہ اب مار کے بھاگ جانے کا دور چلا گیا۔
جہاں تک اسرائیل کی دھمکیوں کا سوال ہے تو وہ ایران کےحمایت یافتہ حزب اللہ اور حماس کے مقابلےمیں عاجز ہے اور ان دونوں کو شکست دینے میں ناکام رہا ہے بلکہ اُسے ان سے شرمناک شکست کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے تو ایران پر براہ راست حملہ کرنے کی جرائت وہ کیا کرے گا۔
البتہ ایران اس کی دھمکیوں کی طرف سے غافل ہرگز نہیں ہے اور غافل رہنا بھی نہیں چاہئے ۔ اس نے ابھی چند روز قبل جو فوجی مشقیں انجام دی ہیں ان میں اسرائیل کی ڈیمونا ایٹمی تنصیبات سمیت سبھی اہم اور حساس مراکز پرحملے کی مشقیں بھی انجام دی گئي ہیں جن کا واضح پیغام یہ ہے کہ پورا مقبوضہ فلسطین اور سبھی حساس اوراہم اسرائیلی مراکز اور تنصیبات ایران کے نشانے پر ہیں ۔
ایران کے خلاف امریکا اور اسرائيل کی دھمکیوں کو غیر ایرانی میڈیا نے بہت اچھالا ہے۔ ایرانی ذرائع ابلاغ نے ان کو زیادہ اہمیت نہیں دی ہے اس لئے کہ یہ دھمکیاں نئي نہیں ہیں اور ایران کے خلاف نفسیاتی جنگ کا حصہ ہیں جس میں عالمی ذرائع ابلاغ نے ہمیشہ امریکا اور اسرائیل کا ساتھ دیا ہے اس وقت بھی ان دھمکیوں کو اچھال کے در اصل اس نفسیاتی جنگ کو مہمیز کیا جا رہا ہے۔
حریر: ڈاکٹر محمد مہدی شرافت
( سینیئر چیف ایڈیٹر سحر نیوز)
شہید قاسم سلیمانی کی خون کی بدولت امریکہ افغانستان سے فرار ہوگیا
اسلامی جمہوریہ ایران کے دارالحکومت تہران میں نماز جمعہ آیت اللہ سید احمد خاتمی کی امامت میں منعقد ہوئی ، جس میں مؤمنین نے طبی دستورات کی رعایت کے ساتھ بھر پور شرکت کی ۔ خطیب نماز جمعہ نے شہید سردار قاسم سلیمانی کی دو برسی کی آمد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارا حتمی انتقام ڈونلڈ ٹرمپ کو کیفر کردار تک پہنچانا ہے ۔ اگر اسرائیلی نے ذرا سی بھی غلطی کی تو اسے معمولی میزائلوں سے تباہ کردیا جائےگا۔
شہید قاسم سلیمانی کی خون کی بدولت امریکہ افغانستان سے فرار ہوگیا
خطیب جمعہ نے افغانستان سے امریکہ کے فوجی انخلا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ شہید قاسم سلیمانی کی خون کی بدولت امریکہ افغانستان سے فرار ہوگیا، شہید قاسم سلیمانی ایرانی ہیرو ہونے کے ساتھ ساتھ اسلام کے بھی ہیرو ہیں ۔
خطیب جمعہ نے کہا کہ ہمارے دو قاسم سلیمانی ہیں ۔ ایک قاسم سلیمانی کا نام شجاعت اور مزاحمت کی رمز تھا،امریکیوں نے کہا تھا کا عراق کے شہر موصل سے داعش کی حکومت کے خاتمہ کے لئے کم سے کم 10 سال درکار ہیں ، لیکن شہید قاسم سلیمانی نے کہا کہ 3 ماہ بعد داعش کا نام عراق سے ختم ہوجائےگا اور تین ماہ کے اندر موصل میں داعش کی حکومت کا خاتمہ ہوگيا۔ ہمارے دوسرے شہید قاسم نے اپنی شہادت کے بعد دنیا میں عظیم زلزلہ پیدا کردیا اور یہ شہید قاسم سلیمانی اسلام کا ہیرو ہے۔ شہید قاسم سلیمانی کے خون کی برکت سے امریکہ افغانستان سے فرار ہونے پر مجبور ہوگيا اور ان شاءاللہ امریکہ عنقریب عراق سے بھی فرار کرنے پر مجبور ہوجائےگا ۔ عراقی پارلیمنٹ نے امریکی فوجی انخلا کے بارے میں قانون بھی منظور کررکھا ہے۔
ایران نے عین الاسد میں امریکہ کے منہ پر زوردار تھپڑ رسید کیا
خطیب جمعہ نے کہا کہ ایران نے عراق میں امریکی فوجی اڈے عین الاسد پر میزائل فائرکرکے شہید قاسم سلیمانی کے خون کا مختصر انتقام لیا اس حملے میں درجنوں امریکی فوجی ہلاک اور زخمی ہوگئے لیکن اصلی انتقام امریکہ کے سابق ڈکٹیٹر صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے لیا جائے گا جس نے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک تیسرے ملک میں مہمان ہمارے اعلی فوجی کمانڈر کو بزدلانہ حملے میں شہید کیا ۔ انھوں نے کہا کہ شہید قاسم سلیمانی کے بہیمانہ قتل میں ملوث تمام افراد کو کیفر کردار تک پہنچایا جائےگا۔
اسرائيل کو انتباہ
خطیب جمعہ نے اسرائیلی دھمکیوں کا منہ توڑ جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہماری فوجی مشقیں دفاعی نوعیت کی ہیں اگر اسرائيلی نے کسی خطا یا غلطی کا ارتکاب کیا تو اسے ایران کے معمولی میزائلوں کے ذریعہ نابود کردیا جائےگا۔
سردار سلیمانی کا خون اسلام کے لیے باعث افتخار ہے
جماعت اسلامی پاکستان کے رہنما نے قدس فورس کے شہید کمانڈر سردار قاسم سلیمانی کے قتل کو اسلام کے خلاف بہت بڑا ظلم قرار دیا ۔
سراج الحق نے کہا کہ دشمنوں نے اسلامی اقوام کے درمیان انتشار کا فائدہ اٹھایا ہے اور ہم ان سازشوں کا نتیجہ قدس فورس کے کمانڈر کے قتل جیسے واقعات میں دیکھتے ہیں۔
انہوں نے زور دیا: "دہشت گردانہ کارروائیوں اور یکطرفہ کارروائیوں کو روکنے کے لیے ہمیں اتحاد اور یکجہتی کی ضرورت ہے، اور ہمیں مظلوموں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔"
3 جنوری 2020 کی صبح پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے کمانڈر سردار قاسم سلیمانی، عراقی عوامی فورس (الحشد الشعبی) کے ڈپٹی کمانڈر ابو مہدی المہندس اور ان کے ساتھیوں کو شہید کر دیا گیا۔ یہ حملہ امریکی دہشت گرد صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے براہ راست حکم پر کیا گیا۔
بغداد میں امریکی دہشت گردانہ کارروائی اور مزاحمتی رہنماؤں کی شہادت کے دو ہفتے سے بھی کم عرصے کے بعد پاکستان قومی یکجہتی کونسل کے 9 رکنی وفد نے جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل اور نائب صدر لیاقت بلوچ کی سربراہی میں تعزیت کا اظہار کیا۔
مسلمانوں کے درمیان اتحاد کے لیے ایران کی کوششیں قابل تعریف ہیں
حجۃ الاسلام و المسلمین ڈاکٹر حامد شہریاری نے پیر طارق شریف زادہ، عالمی مرکز سیرت کے سربراہ سے ایرانی خانہ فرہنگ لاہور میں ملاقات کی۔
اس ملاقات میں پیر طارق شریف زادہ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا: اداره آگاہی میں اہل علم اور مذہبی محققین جن کے پاس دستاویزات ہیں وہ کام کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایران اور پاکستان کے درمیان تعلقات ثقافت اور تہذیب کے لحاظ سے بلند ہیں لیکن مذہب کے میدان میں اس سے کہیں زیادہ گہرے ہیں، انہوں نے مزید کہا: "مسلمانوں کے درمیان اتحاد کے لیے ایران کی کوششیں قابل تعریف ہیں اور اسے دوسرے ممالک کے لیے نمونہ ہونا چاہیے۔"
"میں دنیا بھر کی بہت سی یونیورسٹیوں میں کام کرتا ہوں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ سیرت نبوی کی تحقیق کیسے کی جائے تو میں اس میدان میں ایران کے کردار کی مثال دیتا ہوں۔"
پیر طارق شریف زادہ نے یہ بتاتے ہوئے کہ ہم پاکستانی یونیورسٹیوں میں سیرت نبوی کی تعلیم کے لیے ایک شعبہ شروع کرنے کے خواہاں ہیں، کہا: "ہمارے پاس یونیورسٹیوں میں اسلامی علوم کا شعبہ ہے، لیکن ہم سیرت نبوی پر تحقیق شروع کرنے کے خواہاں ہیں۔"
حجۃ الاسلام و المسلمین ڈاکٹر حامد شہریاری، مجمع جهانی تقریب مذاهب اسلامی کے سیکرٹری جنرل نے پاکستانی نوجوانوں کی پیغمبر اسلام ص کی سیرت سے واقفیت کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا: اسلامی علوم سیکھیں۔
ڈاکٹر شہریاری نے امت اسلامیہ تک پہنچنے کے اقدامات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا: یک امت اسلامیہ تک پہنچنے کے لیے عقائد کی تعلیم ضروری ہے۔
انسانیت مغربی ہیں اور ان کی اصلاح ہونی چاہیے: ہماری اپنی ثقافت ہونی چاہیے اور ہماری انسانیت کو بھی اسلامی ہونا چاہیے۔
حضرت زہراءعلیہا السلام کی عصمت قرآن و حدیث کی روشنی میں
حضرت فاطمہ زہراعلیہا السلام صنف نسواں میں اسلام کی تنہا صاحب عصمت خاتون ہیں کہ جس کی عصمت قرآن اور حدیث کی روشنی میں ثابت ہے اور ان کی پُر افتخار زندگی اس بات پر دوسری دلیل ہے۔
حضرت زہرا علیہا السلام کے دنیا میں آنے کا اہتمام جنت کی پاک غذا سے ہوا۔ رحم مادر ہی میں ماں کے لئے ایک بہترین ساتھی اور مونس شمار ہوتی تھی۔ اور دوران ولادت جن باعظمت مخدرات عصمت کو غیب سے بھیجا گیا تھا، ان سے گفتگو کی اور آپ کی محدود حیات طیبہ میں عقل کو حیران کر دینے والی سینکڑوں کرامات ظاہر ہوئیں یہ تمام باتیں اس باعظمت خاتون کی عصمت کی حکایت کرتی ہیں۔
جی ہاں ! حضرت فاطمہ علیہا السلام عالم اسلام کی خواتین کے لیے اسوہ اور نمونہ کے طور پر پہچانی جاتی ہیں دوسری عورتوں کےلیے ضروری ہے کہ ان کی پاک سیرت کو اپنے لئے نمونہ عمل قرار دیں۔ تربیت، اخلاق اور خود سازی کے عملی میدان میں ان کی پیروی کریں۔ عبادت کے طریقے اور روش، شوہرداری، بچوں کی پرورش اور لوگوں کے حقوق کے بارے میں ان کو آئیڈیل بنایا جائیں۔ان تمام کرداروں کو نبھانا چاہیے جن کو انہوں نےنبھایا ہے اور اس طرح برتاؤ کرنا چاہئے جس طرح انہوں نے کیا ہے۔
راقم اس بات پر عقیدہ رکھتاہے کہ گھر اور مشترک گھریلو زندگی کسی کا اخلاق، رفتار، ایمان تقوی اور عدالت وغیرہ پرکھنے کی بہترین جگہ شمار ہوتی ہیں حضرت زہرا علیہا السلام اپنے باپ کے ساتھ اور باپ کے گھر میں بہترین امتحان دےچکی ہیں۔اور اس طرح ’’فداھا ابوھا‘‘ اور ’’امُّ ابیھا‘‘ جیسے دسیوں القابات پیغمبر اسلام صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کی زبان مبارک سے حاصل کر کئے اور شوہر کے گھر میں اس طرح پیش آئیں کہ امیر المؤمنین علیہ السلام فرماتے ہیں ’’فاطمہ علیہا السلام نے اپنی پوری زندگی میں کوئی ایسا چھوٹا کام بھی انجام نہیں دیا جس سے میں ناراض ہو جاؤں اور کبھی میری نافرمانی نہیں کی بلکہ اپنے اخلاق اور نیک سلوک سے میرے غم اور پریشانیوں کو دور کیا۔
عصمت حضرت فاطمہ علیہا السلام پر قرآن پاک کی گواہی
خداوند عالم سورہ احزاب میں فرماتا ہے کہ: إِنَّما يُريدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهيراً (1)
بیشک خداوند عالم چاہتا ہے کہ تمام پلیدی اور گناہ کو آپ اہل بیت سے دور رکھے اور مکمل طور پر پاک و منزہ قرار دے جو پاک رکھنے کا حق ہے۔
یہ آیہ شریفہ شہادت دیتی ہے کہ اہل بیت علیہم السلام، پاک اور معصوم ہیں اور کوئی گناہ نہیں کرتے ہیں ’’الرجس‘‘ جو آیت میں آیا ہے، تمام گناہان صغیرہ اور کبیرہ کو شامل کرتا ہے جس سے اہل بیت دور ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس آیہ شریفہ میں اہل بیت سے مراد کون ہیں؟
اہل سنت کی معتبر روایات اور پیغمبر اسلام صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کی ازواج کے اظہارات اور اعترافات اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ اہل بیت سے مراد پنجتن آل عبا ہیں ان ہستیوں میں سے ایک حضرت زہرا علیہا السلام کی ذات مبارک ہے۔ پس اسی بناء پر فاطمہ زہرا علیہا السلام قرآن مجید کی گواہی کے مطابق صاحب عصمت ہیں۔
حضرت فاطمہ علیہا السلام کی عصمت پر امیر المؤمنینؑ کا استدلال
جب پیغمبر اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کی رحلت کے بعد خلیفۂ اول نے فدک کو غصب کیا تو حضرت فاطمہ علیہا السلام نے اس کے ساتھ احتجاج اور مناظرہ کیا ۔ امیر المؤمنین علیہ السلامبھی حضرت زہرا علیہا السلام کے خطبہ اور احتجاج کے بعد مسجد گئے اور ابو بکر سے سوال کیا:
حضرت علی علیہ السلام : اے ابوبکر بتاؤ ، پتہ تو چلے کیا تم نے قرآن پڑھا ہے؟
ابو بکر: جی ہا ں قرآن کو پڑھا ہے۔
حضرت علی علیہ السلام: آیہ تطہیر’’ إِنَّما يُريدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهيراً (2) پڑھواور بتاؤ کہ یہ آیت ہمارے حق میں نازل ہوئی ہے یا دوسروں کے؟
ابوبکر: یہ آیت آپ کے حق میں نازل ہوئی ہے۔
حضرت علی علیہ السلام : اگر کوئی حضرت فاطمہ علیہا السلام کے خلاف گواہی دے کہ انہوں نے خلاف شریعت کوئی عمل انجام دیا ہے تو تم اس وقت کیا کروگے؟ اس شخص کی گواہی کو قبول کروگے یا نہیں؟
ابو بکر: جی ہاں، میں اس آدمی کی گواہی کو قبول کروں گا اور حضرت فاطمہ علیہا السلام پر دوسرے لوگوں کی طرح حد جاری کروں گا۔
حضرت علی علیہ السلام : اس صورت میں تم خدا کے ہاں کافر قرار پاوگے۔
ابوبکر: کیوں؟
حضرت علی علیہ السلام : کیونکہ اس فرض کی بناء پر تم نے خدا کی گواہی کو جوخدا نے حضرت فاطمہ علیہا السلام کی طہارت پر دی ہے، رد کیا ہے اور لوگوں کی گواہی کو مقدم کیا ہے۔اسی طرح تم نے خدا اور رسول کی گوہی کو اس مورد میں نظر انداز کیا ہے اور فدک کو فاطمہ زہرا علیہا السلام سے چھین لیا ہے۔
اے ابو بکر! کیا فدک فاطمہ زہرا علیہا السلام کے ہاتھ میں نہیں تھا ؟ جو چیز ان کی ملکیت میں ہے تم کیوں اور کیسے خود ان سے اس کے متعلق شاہد اور گواہ مانگتے ہو؟چونکہ لوگ امیرالمؤمنین علیہ السلام اور ابو بکر کی گفتگو سن رہے تھے، ایک دوسرے کو دیکھنے لگے اور کہا: ’’صَدَّقَ وَاللّہ عَلِی ابن اَبِی طَالِب‘‘ خدا کی قسم، علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے سچ کہا ہے(3)
قابل توجہ بات یہ ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے آیہ تطہیر سے عصمت فاطمہ زہرا علیہا السلام پر استدلال کیا اور مہاجرین اور انصار نے بھی اسے قبول کیا اور اس کی تائید کی۔
حضرت فاطمہ علیہا السلام کی عصمت فریقین کی روایت میں
امام باقر علیہ السلام نے اس آیہ مجیدہ ’’ إِنَّما يُريدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهيراً (4)
کے بارے میں فرمایا: یہ آیت رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم، علی ابن ابی طالب، فاطمہ زہراعلیہا السلام ، امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ یہ واقعہ رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کی زوجہ امّ سلمہ کے گھر میں ہوا کہ ایک دن رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم نے علی ابن ابی طالب علیہ السلام ، ، فاطمہ زہراعلیہا السلام ، امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کو بلایا پھر خیبر سے لائی ہوئی چادر کو ان کے اوپر ڈال دیا اور خود بھی اس کے اندر داخل ہوئے اور فرمایا: اللهم هولاء اهل بيتى و عدتنى فيهم ما وعدتنى، اللهم اذہب عنهم الرجس و طهرہم تطهيرا، فقالت و أنا معهم يا رسولاللہ قال: أبشرى يا امسلمہ فانك الى خير (5)
اے اللّہ یہ میرے اہل بیت ہیں جن کے بارے میں تو نے مجھے وعدہ دیا ہے۔ اے اللّہ ان سے ہر قسم کی رجس و پلیدی کو دور فرما اور انہیں پاک اور منزہ قرار دے، اس موقع پر حضرت امّ سلمہ نے کہا: اے رسول خدا میں بھی ان کے ساتھ ہوں؟
آپ صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا: اے امّ سلمہ تمہارے لئے بشارت ہو تم خیر پر ہو۔
( لیکن تم اہل بیت علیہم السلام میں سے نہیں ہو)
حضرت فاطمہ علیہا السلام کا گذشتہ انبیاءؑ سے افضل ہونا
اس بات میں کوئی شک نہیں ہےکہ رسول خدا صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم تمام مخلوقات میں سب سے افضل ہیں اگر ان کا نور نہ ہوتا اور ان کی ہستی نہ ہوتی تو بدون شک خدا کسی بھی مخلوق کو خلق نہ کرتا۔(6)
دوسری طرف سے اہل سنت اور اہل تشیع کی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پنجتن پاک کا نور ایک تھا اور خدا کے ہاں ایک نور شمار ہوتا ہے (7)
اگرچہ پیغمبر اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کی برتری دوسروں پر مسلّم ہے۔
ایک حدیث میں نبی اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم فرماتےہیں : دنیا کی ابتداء اور انتہاء کے تمام انسانوں میں ، میں سب سے افضل ہوں اور میرے بعد علی علیہ السلام مخلوقات میں سب سے افضل ہیں ہم میں جو پہلے والے ہیں وہ آخر والے کی طرح ہیں اور جو آخر والے ہیں وہ پہلے والے کی طرح ہیں (8)
اور تیسری طرف سے رسول خدا صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کی روایت میں ہم پڑھتے ہیں کہ آپ صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا: میرے اور علی کے بعد زمین پر سب سےافضل حسن اور حسین ہیں اور ان کی مادر گرامی فاطمہ پوری دنیا کی عورتوں میں سب سے افضل ہیں۔(9)
ہم اہل بیت اطہار کی روایتوں میں پڑھتے ہیں کہ خداوند متعال نے انبیاء کو ایک دوسرے پر فضیلت دی ہے اور ان کو بھی کمال اور فضیلت کے لحاظ سے برابر خلق نہیں کیا ہے بلکہ ان میں سے کچھ اولوالعزم مشہور ہیں اور وہ باقی تمام انبیاء سے افضل ہیں لیکن اہل بیت اطہار کو خداوند عالمین نے اولوالعزم پیغمبروں سےبھی برتر و افضل قرار دیا ہے۔(10)
امام صادق علیہ السلام کی ایک روایت میں آیا ہے کہ گذشتہ تمام انبیاء فقط اس لئے بھیجے گئے تھے تاکہ ہمارے حقوق کو پہچانیں اوردوسرے تمام مخلوقات عالم سے ہمیں افضل اور برتر جانیں۔(11)
اگر مذکورہ روایتوں کو مد نظر رکھے بغیر بھی غور و فکر کریں، تو ہم اس نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں کہ تمام انبیاء الہی معصوم تھے۔ اور علی علیہ السلام ، فاطمہعلیہا السلام ، حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام ، رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّمکے علاوہ تمام انبیاء سے افضل تھے۔ پس اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پنجتن پاک تمام فضائل و کمالاتِ انبیاء مِن جُملہ درجۂ عصمت میں ان پر فضیلت رکھتے ہیں۔
دوسری طرف اہل سنت کی روایتوں کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر علی ابن ابی طالب علیہ السلام نہ ہوتے تو فاطمہ زہرا علیہا السلام کے لئےاس جہاں میں کوئی ہم رتبہ اور کفو نہ ملتا۔
بڑے بڑے علماء، دانشور اور محققین نے ’’حدیث کفو‘‘ سے استفادہ کیا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام اور حضرت فاطمہعلیہا السلام رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کے علاوہ تمام انسانوں سے افضل ہیں۔پس اس صورت میں بھی فاطمہعلیہا السلام کی عصمت ثابت ہوتی ہے کیونکہ اس حدیث سے تمسک کرنے کی صورت میں فاطمہ زہرا علیہا السلام ، حضرت علی علیہ السلام کے ہم رتبہ اور مساوی ہیں! پس کسی عاقل شخص کے لئے یہ کیسے ممکن ہے کہ دو برابر اور مساوی چیزوں کے ایک دوسرے پر مقدم اور برتری کے قائل ہو جائے۔
فاطمہ زہراعلیہا السلام کی عصمت پر ملائکہ کی گواہی
بہت ساری روایتوں سے معلوم ہوتاہے کہ جبرئیل امین اور دوسرے تمام فرشتے حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام پر نازل ہوتے تھے اور ان سے گفتگو کرتے تھے۔ اور اس گفتگو کے درمیان میں اس خاتون عصمت کے فضائل اور مناقب میں کچھ ایسے مطالب کہتے تھے جس سے ان کی عصمت ثابت ہو جاتی ہے۔ ہم ان میں سے صرف دو مورد کی طرف اشارہ کرتے ہیں رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : قال رسول اللَّه صلى اللَّه عليه و آله: «... ابنتى فاطمه، و انها لسيده نسا العالمين فقيل: يا رسولاللَّه! اهى سيده نسا عالمها؟ فقال: ذاك لمريم بنت عمران، فاما ابنتى فاطمه فهى سيده نسا العالمين من الاولين و الاخرين و انها لتقوم فى محرايها فيسلم عليها سبعون الف ملك من الملائكه المقربين و ينادونها بمانادت به الملائكه مريم فيقولون يا فاطمه! ان اللَّه اصطفيك و طهرك و اصطفيك على نسا العالمين(12)
میری بیٹی فاطمہ علیہا السلام دونوں جہاں کے عورتوں کی سردار ہیں۔
پوچھا گیا: اے رسول خدا صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم اپنے زمانے کی عورتوں کی سردار ہیں ؟
فرمایا:یہ خصوصیت مریم بنت عمران کی ہے لیکن میری بیٹی فاطمہ علیہا السلام دونوں جہاں کی اولین اور آخرین ، تمام عورتوں کی سردار ہیں اور وہ جب محراب عبادت میں کھڑی ہوتی ہیں تو ستّر ہزار مقرب فرشتے ان پر درود و سلام بھیجتے ہیں اور ان سے گفتگو کرتے تھے جس طرح حضرت مریم علیہا السلام سے گفتگو کرتے تھےاللّہ تعالی نے تمہیں منتخب کیا ہے اور پاک و منزہ قرار دیا ہے اور تمہیں دونوں جہاں کی تمام خواتین پر فضیلت اور برتری عطا کی ہے۔
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: انما سميت فاطمه محدثه لان الملائكه كانت تهبط من السما فتناديها كما تنادى مريم بنت عمران فتقول: يا فاطمه! ان اللَّه اصطفيك و طهرك و اصطفيك على نسا العالمين. فتحدثهم و يحدثونها فقالت ذات ليله: اليست المفضله على نسا العالمين مريم بنت عمران؟ فقالوا: ان مريم كانت سيده نسا عالمها و ان اللَّه عزوجل جعلك سيده نسا، عالمك و عالمها و سيده نسا الاولين و الاخرين(13)
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ فاطمہ علیہا السلام کو ’’محدثہ‘‘ کہا جاتاہے کیونکہ ان کے پاس آسمان سے ملائکہ نازل ہوتے تھے اور ان سے گفتگو کرتے تھے جس طرح حضرت مریم علیہا السلام سے گفتگو کرتے تھے اور ملائکہ حضرت فاطمہ علیہا السلام سے مخاطب ہو کر کہتے تھے کہ اے فاطمہ علیہا السلام ! بیشک اللّہ تعالی نے تمہیں منتخب کیا ہے اور پاک و صاف قرار دیا ہے اور تمہیں دونوں جہانوں کی عورتوں سے افضل قرار دیا ہے۔ حضرت فاطمہعلیہا السلام بھی ان سے گفتگو کرتی تھی اور ان کی گفتگو سنتی تھی۔ ایک دن حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام نے ملائکہ سے کہا: کیا مریم بنت عمران تمام جہاں کی عورتوں سے افضل نہیں ہے؟
ملائکہ نے جواب دیا: حضرت مریم اعلیہا السلام اپنے زمانے کی عورتوں کی سردار تھی، لیکن آپ اول و آخر تمام عورتوں کی سردار ہیں یہاں تک کہ خود حضرت مریم علیہا السلام کے زمانے کی عورتوں کی بھی سردار ہیں۔
ان احادیث کو بطور نمونہ منتخب کیا گیا ہے جن میں فاطمہ زہرا علیہا السلام کو جہاں عالَم کی تمام عورتوں کی سردار، خداوند عالَم کی منتخب اور ملائکہ و جبرئیل امین کی ہمنشین و ہم صحبت ہونا بیان کیا گیا ہے۔ اس طرح کی احادیث کو دیکھنے کے بعد کیا کسی کے لئے ممکن ہے کہ وہ عصمت زہرا علیہا السلام کے بارے میں تردید کرئے؟
حضرت فاطمہ زہراعلیہا السلام کی عصمت پر اشکال اور اس کا جواب
بعض لوگ کہتے ہیں کہ آیہ تطہیر عصمت پر دلالت نہیں کرتی ہے کیونکہ اس آیت سے پہلے والی آیات اور بعد والی آیات، رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کی زوجات کے بارے میں نازل ہوئی ہیں اور ان سے مخاطب ہیں۔ پس سیاق و سباق کی دلالت کی بناء پر، کہا جا سکتا ہے کہ آیہ مذکورہ بھی رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کی زوجات کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور وہ مخاطب ہیں اس بناء پر اگر یہ آیت عصمت پر دلالت کرتی ہے تو اس بات کا قائل ہونا پڑے گا کہ ازواج رسول بھی معصوم تھیں حالانکہ نہ کسی نے ان کو معصوم سمجھا ہے اور نہ ایسا کہا جا سکتا ہے پس نتیجتا ہم اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ یہ آیت سرے سے ہی عصمت پر دلالت نہیں کرتی ہے نہ روجات رسول صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کے بارے میں اور نہ ہی اہل بیت کی عصمت پر۔
جواب: سید عبد الحسین شرف الدین نے اس مذکورہ اشکال کو نقل کیا ہے اور چند طریقوں سے اس اشکال کا جواب دیا ہے
اول: احتمال مذکورہ نص کے مقابلے میں اجتہاد ہے کیونکہ ساری روایتوں میں جن کی تعداد تواتر کی حد تک ہے ، آیا ہے کہ آیہ تطہیر صرف، علی ابن ابی طالب علیہ السلام ، فاطمہ زہرا علیہا السلام ، امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے اور انہی ہستیوں سے مختص ہے یہاں تک کہ امّ سلمہ اس چادر میں داخل ہونا چاہی تو رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم نے سختی سے منع فرمایا۔
دوم: دوسری دلیل یہ ہے کہ اگر آیہ تطہیر رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کی زوجات کے بارے میں نازل ہوئی ہوتی تو ضروری تھا کہ ضمیر جمع مونث کی صورت میں ہوتی اور آیت یوں ہوتی: إِنَّما يُريدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهيراً ‘‘ نہ جمع مذکر کی صورت میں۔پس یہ آیت اہل بیت کی شان میں نازل ہوئی ہے۔
سوم: تیسری دلیل یہ ہے کہ فصیح عربی بولنے والوں کے ہاں یہ رواج ہے کہ اپنی گفتگو کے درمیان جملۂ معترضہ لاتے ہیں اس بناء پر کوئی مانع نہیں ہے کہ اللّہ تعالی آیت تطہیر کو ان آیتوں کے درمیان قرار دےجو زوجات رسول صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کے بارے میں نازل ہوئی ہیں تاکہ اس کی اہمیت کو واضح کرے۔ اور اس نکتہ کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اہل بیت پیغمبر صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم معصوم ہیں لہذا کئی اس سے تعرض نہیں کرسکتا، چاہے وہ زوجات پیغمبر صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم ہی کیوں نہ ہو۔
چہارم: چوتھی دلیل یہ ہے کہ بیشک قرآن مجید میں کوئی تحریف نہیں ہوئی ہے اور اس آسمانی کتاب کی آیتوں میں بھی کوئی کمی و بیشی نہیں ہوئی ہے لیکن یہ بات مسلّم نہیں ہے کہ قرآن مجید کی آیات اور سورے جس ترتیب سے نازل ہوئیں ہیں اسی طرح جمع اور تدوین ہوئیں ہوں، پس یہ احتمال بعید نہیں ہے کہ آیت تطہیر صرف اہل بیت کی شان میں الگ نازل ہوئی ہو لیکن تدوین اور قرآن مجید کی جمع آوری کےموقع پر اس آیت کو زوجات پیغیبر صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کے بارے میں نازل ہونے والی آیتوں کے ساتھ ملایا ہو۔(15)
دلیل دوم: رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت فاطمہ علیہا السلام سے فرمایا: اے میری بیٹی! تیری ناراضگی خدا کی ناراضگی اور تیری خوشنودی خدا کی خوشنودی ہے۔(16)
اس حدیث کو فریقین قبول کرتے ہیں اور اپنی اپنی کتابوںمیں ذکر کیا ہے۔ اس حدیث کے مطابق جس جس پر حضرت فاطمہ علیہا السلام ناراض ہوگی خدا بھی اس سے ناراض ہو گا۔ اور جس جس پر فاطمہ علیہا السلام راضی ہو گی خدا بھی خوشنود اور راضی ہوگا۔ اور یہ بات بھی مسلّم ہے کہ رضایت اور غضبِ خدا سچ اور حق ہونے کی بناء پر ہے خداوند عالم ہرگز کسی غلط اور خلاف حق پر خوش اور راضی نہیں ہوتا اگرچہ دوسرے لوگ اس کام سے راضی ہو جائیں اور اسی طرح کسی اچھے کام اور حق پر ہرگز ناراض نہیں ہوتا اگر چہ وہ کام دوسروں کےہاں باعث غضب ہو۔ان دو مطالب کا لازمہ یہ ہے کہ فاطمہ زہراعلیہا السلام ہر قسم کے گناہ اور خطا سے معصوم ہیں کیونکہ معصوم کی رضایت اور غضب شریعت کے عین مطابق ہوتے ہیں اور کسی بھی وقت رضائے خدا کے خلاف راضی نہیں ہوتا ہے ایسی صورت میں ہی کہا جا سکتا ہے کہ اگر فاطمہ علیہا السلام ناراض ہو جائے تو خدا ناراض ہوگا اور اگر فاطمہ علیہا السلام راضی اور خوش ہو تو خدا خوشنود ہو گا۔ لیکن اگر ان سے گناہ اور خطا سرزد ہونے کا امکان ہوتا تو ہرگز بطور کلی ایسا نہیں کہا جا سکتا تھا کہ فاطمہ کی ناراضگی خدا کی ناراضگی اور فاطمہ علیہا السلامکی خوشی خدا کی خوشی ہوگی۔ اس مطلب کو ہم مثال کے ذریعے واضح کرتے ہیں:
اگر ہم فرض کریں کہ فاطمہ علیہا السلام معصوم نہیں ہیں اور ان سے گناہ و خطا کا امکان ہے اس صورت میں امکان ہے وہ خطا یا غریزہ نفسانی کی وجہ سے خلاف حق کسی سے کوئی مطالبہ کرےا ور اس طرح ان کے درمیان نزاع ہو جائے اور طرف مقابل قبول بھی نہ کرے بلکہ اُنہیں غلطی پر قرار دے۔اس بناء پر حضرت فاطمہ علیہا السلام ناراض ہو جائے اور اپنی عدم رضایت کا اظہار بھی کر لے، کیا ایسی صورت میں کہا جا سکتا ہے کیونکہ فاطمہ علیہا السلام ناراض ہوئی ہیں پس خدا بھی ناراض ہوا ہے اگر چہ حق طرف مقابل کا ہی کیوں نہ ہوہرگز ایسی نسبت خداکی طرف نہیں دی جاسکتی۔ بس اس حدیث سےبھی حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام کی عصمت ثابت کی جا سکتی ہے
رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ فاطمہ علیہا السلام میرے جسم کا ٹکڑا ہیں جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔(17)
یہ حدیث بھی اہل تشیع اور اہل تسنّن دونوں نے نقل کی ہے اور تمام مسلمان حتی عمر اور ابوبکر بھی اس حدیث کی صحت کے قائل ہیں مذکورہ حدیث کی طرح اس حدیث سے بھی حضرت فاطمہ زہراعلیہا السلام کی عصمت پر دلالت ملتی ہےکیونکہ رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم گناہ اور خطا سے معصوم ہیں لہذا یسے کام پر ناراض ہوتے ہیں جس سے خدا ناراض ہوتا ہے اور اسی طرح ایسے کام سے راضی ہوتے ہیں جس سے خدا راضی ہوتاہے۔ پس اس صورت میں یہ کہا جاسکتاہے کہ فاطمہ زہرا علیہا السلام کی ناراضگی رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کی ناراضگی ہے اور رسول کی ناراضگی خدا کی ناراضگی ہے یہ اسی صورت میں درست ہو سکتا ہے جب فاطمہ علیہا السلام عصمت کی منزلت پر ہو۔اور احتمال گناہ و خطا ممکن نہ ہو۔ حضرت فاطمہ علیہا السلام کی عصمت پر دلالت کرنے والی احادیث میں سے ایک یہ بھی ہے کہ امام جعفر صادق نے فرمایا: فاطمہ علیہا السلام کو اس لئے فاطمہ نام رکھا گیا ہے کہ کوئی بدی اور شر ان کے وجود مبارک میں امکان پذیر نہیں ہے۔
حضرت زہرا علیہا السلام کی عصمت پر رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کی گواہی
رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کی بہت ساری احادیث جسے اہل سنت اور شیعہ دونوں نے نقل کیا ہے۔ نبی اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم نے فاطمہ علیہا السلامکو اپنا ٹکڑا کہا اور فرمایا: جو فاطمہ علیہا السلام کو دوست رکھتا ہے اس نے مجھے دوست رکھا اس کا دشمن، میرا اور خدا کا دشمن ہے۔
ایک اور حدیث میں فرمایا: فاطمہ علیہا السلام میرا ٹکڑا ہے، جو اسے تکلیف دے، اس نے مجھے تکلیف دی اور جس نے اس کو ناراض کیا اس نے مجھے اور خدا کو ناراض کیا۔
خلاصہ کچھ احادیث میں جو اہل سنت کی معتبر کتابوں میں پڑھنے کو ملتے ہیں کہ خدا کی خوشی اور ناراضگی کا معیار فاطمہ علیہا السلام ہے۔ اس کے علاوہ شیعہ اور سنی کی احادیث کی کتابوں میں دسیوں احادیث میں یہی مفہوم اور معنی موجود ہے ہم نے 26 ویں فصل میں ( حضرت زہراعلیہا السلام کی دشمنوں کی عاقبت) کچھ احادیث کو منابع کے ساتھ ذکر کیا ہے۔
وہ احادیث جو حضرت زہرا علیہا السلام کے معصومہ ہونے پر دلالت کرتی ہیں یہ کہ اگر فاطمہ علیہا السلام معصوم نہ ہو تو کیسے پیغمبر خدا صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم نے بغیر کسی شرط اور قید کے فاطمہ علیہا السلام کی خوشنودی کو خدا کی خوشنودی اور فاطمہ علیہا السلام کی ناراضگی کو خدا کی ناراضگی قرار دیا؟ کیا غیر معصوم لوگوں کی خوشی اور ناراضگی کو خدا کی خوشی اور ناراضگی( کا معیار) قرار دیا جا سکتا ہے؟
ابن ابی الحدید اس اعتراف کے بعد کہ آیہ تطہیر فاطمہ علیہا السلام کی عصمت پر دلالت کرتی ہے، لکھتا ہے:
قوله عليه السلام: فاطمة بضعة منى، من آذاها فقد آذانى، و من آذانى فقد آذى اللَّه عز و جل يدل على عصمتها، لانها، لوكانت ممن تقارف الذنوب لم يكن من يوذيها موذيا له على كل حال... (18)
فاطمہ علیہا السلام کے بارے میں نبی اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا: جس نے اسے (فاطمہ علیہا السلام ) کو دکھ دیا اس نے مجھے دکھ دیا اور جس نے مجھے اذیت دی اس نے خدا کو اذیت دی، یہ فاطمہ علیہا السلام کی عصمت پر دلیل ہے، کیوں کہ اگر فاطمہ علیہا السلام معصوم نہ ہوتی تو فاطمہ علیہا السلام کا دکھ ہر حال میں پیغمبراسلام صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کا دکھ حساب نہ ہوتا۔
بس نتیجہ یہ ہوا کہ نبی اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کے فرامین فاطمہ علیہا السلام کی عصمت پر واضح دلیل ہیں جسے شیعہ اور اہل سنت کے دانشوربھی مانتے ہیں مسلمان شعراء بھی کلام خدا اور نبی اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کو اپنے نظم میں لے آئے ہیں:
وان مريم احصنت فرجها جاءت بعيسى كبدر الدجى
فقد احصنت فاطم بعدها و جاءت بسبطى نبى الهدى (19)
حضرت مریم علیہا السلام اپنی عصمت اور پاکدامنی کے ساتھ حضرت عیسی علیہ السلام کو لے آئی جو سورج کی طرح چمکتا اور منور رہے۔ اور حضرت زہراعلیہا السلام نے بھی عصمت اور پاکی کے ساتھ زندگی کی اور دو انوار کو جو نبی اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کے آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں نبی کے حوالہ کیا۔
اسی طرح امام صادق علیہ السلامسے پوچھا گیا کہ فاطمہ علیہا السلام کو کس نے غسل دیا؟
حضرت نے فاطمہ علیہا السلام کی عصمت کی گواہی دیتے ہوئے فرمایا:
غسلها اميرالمؤمنين لانها كانت صديقة، و لم يكن ليغسلها الا صديق(20)
حضرت علی علیہ السلام نے فاطمہ علیہا السلام کو غسل دیا، کیونکہ فاطمہ علیہا السلام معصوم تھی اور معصوم کو معصوم کے علاوہ کوئی اور غسل نہیں دے سکتا۔ جیسے ہی سائل نے تعجب کیا تو امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: حضرت مریم علیہا السلام کے بارے میں بھی اسی طرح ہے کہ اس کو حضرت عیسی علیہ السلام کے علاوہ کسی اور نے غسل نہیں دیا ہے۔ ہم اس فصل کے آخر میں تمام باتوں، احادیث اہل بیت، آیہ تطہیر، امیر المؤمنین علیہ السلام کی دلائل اور اہل سنت کے بزرگ دانشمندوں کے اعتراف کی روشنی میں یہ نتیجہ لیتے ہیں کہ فاطمہ علیہا السلام دوسرے تمام معصومین کی طرح معصوم تھی۔ اور وہ رسول خدا صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم اور امیر المؤمنین علیہ السلام کے علاوہ تمام پیغمبروں اور ائمہ سے افضل ہیں۔
-----------------
منابع:
(1 و2) احزاب/ 33.
(3) ۔احتجاجات طبرسى، چاپ نجف، ج 1، ص 122- 123
(4) احزاب/ 33.
(5) نورالثقلين، ج 4، ص 270
(6) لولاك كما خلقت الافلاك و لو لا على لما خلقتك و لولا فاطمه لما خلقتكما. (عوالم، ج 11 ص 25 و 26).
(7)حضرت کہتے ہی:رسول اکرم ہمارےگھر تشریف لائے میں سو رہا تھا رسول اکرم اپنی بیٹی فاطمہ سے گفتگو کے بعد فرمایا:اے بیٹی میں اور تم حسن اور حسین اور یہ علی ایک جگہ اور ایک ہی مقام پر ہونگے۔ (فرائد السمطين، ج 2، ص 28 ش 367)
(8) بحار، ج 26، ص 316، ح 79: انا سيد الاولين و الاخرين و انت يا على! سيدالخلائق بعدى، اولنا كاخرنا و آخرنا كاولنا.
(9) بحار 26، ص 272 و، ح 14: الحسن و الحسين خير اهلالارض بعدى و بعد ابيها و امهما افضل نسا اهلالارض.
(10) بحارالانوار، ج 26، ص 199، ح 11، عن الصادق (ع): ان اللَّه فضل انلى العزم من الرسل بالعلم على الانبيا و ورثنا علمهم و فضلنا عليهم فى فضلهم...
(11) اصول كافى، ج 1، ص 437، ح 4: ما من نبى جا قط الا بمعرفه حقنا و تفضيلنا على من سوانا.
(12) عوالم، ج 11، ص 99.
(13) بحار، ج 43، ص 78، ح 65.
(14) احزاب 33
(15)ـ كتاب الكلمة الغراء فى تفضيل الزهراء تأليف سيد عبدالحسين شرفالدين ص 212.
(16)ـ قال رسولاللَّه صلّى اللَّه عليه و آله: يا فاطمة ان اللَّه يغضب لغضبك و يرضى لرضاك- ينابيع المودة ص 203 مجمع الزوائد ج 9 ص 203.
(17)ـ قال رسولاللَّه: فاطمة بعضة مني فمن اغضبها اغضبنى- صحيح بخارى ج 2 ص 302.
(18)ـ كشفالغمه ج 2 ص 89.
(19)ـ شرح نهجالبلاغة، ج 16، ص 273.
(20)ـ بحارالانوار، ج 43، ص 50.
(21)ـ بحارالانوار، ج 43، ص 184- عوالم، ج 11، ص 260- جلاءالعيون، ج 1، ص 2
مؤلف: ------ مترجم : احسان دانش ذرائع: پیشکش امام حسین فاونڈیشن