سلیمانی

سلیمانی


امام اول اور خلیفہ چہارم حضرت علی ابن ابیطالب علیہم السلام کی تیسری پشت اور ھدایت کے پانچویں امام، حجت خدا حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی ولادت پہلی رجب57 قمری میں مدینہ منورہ میں ہوئی، اور94 ہجری قمری میں امام علی ابن الحسین زین العابدین علیہم السلام کی شہادت کے بعد امامت تفویض ہوئی اور 114 ہجری قمری کو 18 سال کی عمر میں درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔

آپ ؑ کی والدہ

 دوسرے امام حضرت حسن بن علی علیہ السلام کی بیٹی تھیں اور والد علی بن حسین بن علی علیہم السلام تھے ،اس اعتبار سے آپ ؑ پہلے شخص ہیں جو ماں اور باپ کی طرف سے علوی ؑ فاطمی ؑ ہیں۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کا دور امویوں اور عباسیوں کے سیاسی اختلافات اور اسلام کا مختلف فرقوںمیں تقسیم ہونے کے زمانے سے مصادف تھا جس دور میں مادی اور یونانی فلسفہ اسلامی ملکوں میں داخل ہوا جس سے ایک علمی تحریک وجود میں آئی۔ جس تحریک کی بنیاد مستحکم اصولوں پر استوار تھی ۔ اس تحریک کے لئے ضروری تھا کہ دینی حقایق کو ظاہر کرے اور خرافات اور نقلی احادیث کو نکال باہر کرے ۔ ساتھ ہی زندیقوں اور مادیوں کا منطق اور استدلال کے ساتھ مقابلہ کرکے انکے کمزور خیالات کی اصلاح کرنا۔ نامور دھری اور مادہ پرست علماء کے ساتھ علمی مناظرہ و مذاکرہ کرنا تھا یہ کام امام وقت حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے بغیر کسی اور سے ممکن نہ تھا ۔ آپ علیہ السلام نے حقیقی عقاید اسلامی کی تشہیرکی راہ میں علم کے دریچوں اور درازوں کو کھول دیا اور اس علمی تحریک کو پہلی اسلای یونورسٹی کے قیام کے طور پر دیکھا جاتا ہے ۔آپ کے بارے میں امام حنبل اور امام شافعی جیسے اسلام شناس کہتے ہیں:
ابن عباد حنبلی کہتے ہیں : ابو جعفر بن محمدؑ مدینہ کے فقہا میں سے ہیں ۔آپ ؑ کو باقر کہا جاتا ہے اس لئےکہ آپ ؑ نے علم کو شکافتہ کیا اور اس کی حقیقت اور جوہر کو پہچانا ہے۔(الامام الصادق و المذاہب الاربعہ ۔ج ۔1۔ص 149)۔
محمدبن طلحہ شافعی کہتے ہیں: محمد بن علی ؑ، دانش کو شکافتہ کرنے والے اور تمام علوم کے جامع ہیں آپ کی حکمت آشکار اورعلم آپ کے ذریعہ سر بلند ہے۔آپ ؑ کے سرچشمہ و جود سے دانش عطا کرنے والا دریا پر ہے۔آپ کی حکمت کے لعل و گہر زیبا و دلپذیر ہیں۔ آپ ؑ کا دل صاف اور عمل پاکیزہ ہے۔ آپ مطمئن روح اور نیک اخلاق کے مالک ہیں۔ اپنے اوقات کو عبادت خداوندمیں بسر کرتے ہیں۔ پرہیز گاری و ورع میں ثابت قدم ہیں۔ بارگاہ پرور دگار پروردگار میں مقرب اور برگذیدہ ہونے کی علامت آپ ؑ کی پیشانی سے آشکار ہے۔آپ ؑکے حضور میں مناقب و فضائل ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ نیک خصلتوں اور شرافت نے آپ سے عزت پائی ہے۔(الامام الصادق و المذاہب الاربعہ ۔ج ۔1۔ص 149)۔

پانچویں امام ؑ نے پانچ خلیفوں( اسلامی بادشاہوں )کا دور دیکھا:
1. ولیدبن عبد الملک 86-96ھ۔
2. سلیمان بن عبدالملک 96-99 ھ۔
3. عمر بن عبد العزیز 99-101ھ۔
4. یزید بن عبد الملک 101-105 ھ۔
5. ھشام بن عبد الملک 105-125 ھ۔
مذکورہ اسلامی ممالک کے حاکموں( خلیفوں) میں عمر بن عبد العزیز جو کہ نسبتاً انصاف پسند اور خاندان رسول اﷲ ﷺوآلہ کے ساتھ نیکی کے ساتھ رفتار کرنے والا منفرد اسلامی بادشاہ (خلیفہ) تھا جس نے معاویہ علیہ ہاویہ کی سنت یعنی” معصوم دومؑ،امام اولؑ اور خلیفہ چہارم حضرت علی ابن ابیطالب ؑکے نام 69 سال تک خطبوںمیں لعنت کہنے کی شرمسار بدعت اور گناہ کبیرہ کو ممنوع کیا ۔
پانچویں امام اور پہلی اسلامی دانشگاہ کے بانی حضرت محمد باقر علیہ السلام سے اصحاب پیغمبر اسلامﷺ میں سے جابر بن عبداﷲ انصاری اور تابعین میں سے جابر بن جعفی، کیسان سجستانی،اور فقہا میں سے ابن مبارک،زھری، اوزاعی، ابو حنیفہ، مالک، شافعی اور زیاد بن منزر نھدی آپ ؑ سے علمی استفادہ کرتے رہے۔معروف اسلامی مورخوں جیسے طبری، بلاذری، سلامی، خطیب بغدادای، ابو نعیم اصفہانی و مولفات و کتب جیسے موطا مالک ، سنن ابی داوود، مسند ابی حنیفہ، مسند مروزی، تفسیر نقاش،تفسیر زمخشری جیسے سینکڈوں کتابوں میں پانچویں امام ؑ کی دریای علم کی دُرّبی بہا باتیں جگہ جگہ نقل کی گئی ہیں اور جملہ قال محمد بن علی یا قال محمد الباقر دیکھنے کو ملتا ہے۔(ابن شھر آشوب ج 4 ص 195)۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی قایم کردہ اسلامی مرکز علم(یونیورسٹی) میں سے مایہ ناز علمی شخصیتیں فقہ، تفسیر اور دیگر علوم میں تربیت حاصل کر گئے جیسے محمد بن مسلم، ذرارہ بن اعین، ابو بصیر ، بُرید بن معاویہ عجلی، جابر بن یزید، حمران بن اعین اور ھشام بن سالم قابل ذکر ہیں۔
پانچویں امام ؑ نے دوسرے ائمہ کے مانند اپنی زندگی کو نہ صرف عبادت اور علمی مصروفیت میں بسر کی بلکہ زندگی کے دوسرے کاموں میں بھی سرگرم تھے، جبکہ کچھ سادہ لوح مسلمان جیسے محمد بن مُنکَدِر ایسے اعمال کوامام ؑ کی دنیا پرستی تصور کرتے تھے ، موصوف کہتا ہے” امام کا کھیت میں زیاد کام کرتے دیکھنے کی وجہ سے میں نے اپنے آپ سے کہا کرتا تھا کہ حضرت ؑ دنیا کے پیچھے پڑے ہیں لہٰذامیں نے سوچا کہ ایک دن انہیں ایسا کرنے سے روکنےکی نصیحت کروں گا، چنانچہ میں نے ایک دن سخت گرمی میں دیکھا کہ محمد بن علی زیادہ کام کرنیکی وجہ سے تھک چکے تھے اور پسینہ جاری تھا میں آگے بڑھا اور سلام کیا اور کہنے لگا اے فرزند رسول ﷺ آپ مال دنیاکی اتنی کیوں جستجو کرتے ہیں؟ اگر اس حال میں آپ پر موت آجائے تو کیا کرینگے، آپ ؑ نے فرمایا یہ بھترین وقت ہے کیونکہ میں کام کرتا ہوں تاکہ میں دوسروں کا محتاج نہ رہوں اور دوسروں کی کمائی سے نہ کھاوں اگرمجھ پر اس حالت میں موت آئے تومیں بہت خوش ہونگا، چونکہ میں خدا کی اطاعت و عبادت کی حالت میں تھا۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام دیگر ائمہ ھدی کے مانند تمام علوم و فنون کے استاد تھے۔ ایک دن خلیفہ ھشام بن عبد الملک نے امام ؑ کو اپنی ایک فوجی محفل میں شرکت کی دعوت دی جب امامؑ وہاں پہنچے وہاں فوجی افسران سے محفل مذین تھی کچھ فوجی افسران تیرکمانوں کو ہاتھوں میں لئے ایک مخصوص نشانے پر اپنا اپنا نشانہ سادتے تھے، چھٹے امام حضرت جعفر صادق علیہ السلام اس واقعے کو نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں :"جب ہم دربار میں پہنچے تو ھشام نے احترام کیا اور کہا آپ نذدیک تشریف لائیں اور تیر اندازی کریں میرے والد گرامی نے فرمایا میں بوڈھا ہو چکا ہوں لہٰذا مجھے رہنے دے، ھشام نے قسم کھائی میں آپ سے ہاتھ اٹھانے والا نہیں ہوں۔ میرے والد بذرگوار ؑ نے مجبور ہو کر کمان پکڑی اور نشانہ لیا تیر عین نشانہ کے وسط میں جاکر لگا آپ ؑ نے پھر تیر لیا اور نشانہ پر جاکر تیر مارا جو پہلے تیر کو دو ٹکڑے کردیئے اور اصل نشانہ پر جا لگا آپ تیر چلاتے رہے یہاں تک کہ 9 تیر ہوگئے ھشام کہنے لگا بس کریں اے ابو جعفر آپ تمام لوگوں سے تیر اندازی میں ماہر ہیں"۔
آخر میں امام محمد باقر ؑکی جابر بن جعفی کو کئے وصیت کا مختصر حصہ آپ قارئین محترم کے نذر کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہوئے امید کرتا ہوں امام کے اقوال ہمارے لئے مشعل راہ اور نمونہ عمل قرار دے۔
1. میں تمہیں پانچ چیزوں کے متعلق وصیت کترا ہوں:
2. اگر تم پر ستم ہو تو تم ستم نہ کرنا۔
3. اگرتمہارے ساتھ خیانت ہو تم خائن نہ بنو ۔
4. اگر تم کو جھٹلایا گیا تو تم غضبناک نہ ہو۔
5. اگر تمہاری تعریف ہوئی تو خوشحال نہ ہو اگر تمہاری مذمت ہوئی تو شکوہ مت کرو۔تمہارے متعلق لوگ جو کہتے ہیں اس پر غور کرو۔پس اگر واقعاً ویسے ہی ہو جیسا لوگ خیال کرتے ہیں ۔تو اس صورت میں اگر تم حق بات سے غضبناک ہوئے تو یاد رکھو خدا کی نظر سے گرگئے۔ اور خدا کی نظر سے گرنا لوگوں کہ نظر میں گرنےسے کہیں بڑی مصیبت ہے۔ لیکن اگر تم نے اپنے کولوگوں کے کہنے کے برخلاف پایا تو اس صورت میں تم نے بغیر کسی زحمت کے ثواب حاصل کیا۔
یقین جا نو! تم میرے دوستوں میں صرف اسی صورت میں ہو سکتے ہو کہ اگر تمام شہر کے لوگ تم کو برا کہیں اور تم غمغین نہ ہو، اور سب کے سب کہیں تم نیک ہو تو شادمان نہ ہو، اور لوگوں کے برائی کرنے پر خوف زدہ مت ہو، اس لئے کہ وہ جو کچھ کہیں گے اس سے تم کو کوئی نقصان نہ پہنچے گا ، اور اگر لوگ تمہاری تعریف کریں جبکہ تم قرآن کی مخالفت کر رہے ہو بھر کس چیز نے تم کو فریفتہ کر رکھا ہے؟ بندہ مومن ہمیشہ نفس سے جہاد میں مشغول رہتا ہے تا کہ خواہشات پر غالب ہو جائے اور اس امر کیلئے اہتمام کرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت امام محمد باقر ۴۱۱ھ میں خلیفہ ھشام بن عبد الملک کے حکم پر زہر دے کر شہید کردئےگئے۔آپ ؑ 57 سا ل تک وحی الہٰی کی ترجمانی کرتے رہے۔ آپ کے بعد آٹھویں معصوم اور چھٹے امام حضرت جعفر صادق ؑ آپکے جانشینی پر فائز ہوئے اور آپ ؑ کے قائم کردہ اسلامی مرکز علم کو وسعت عطا کرکے اسلام ناب محمدی ﷺ کی توضیع و تفسیر بیان فرمائی اور دینی محفل میں قال الصادق قال الصادق کی گونج سنائی دی اورامام جعفر صادق کی بتائی ہوئی اسلام کی تشریح پر چلنے والوں کو جعفری کہا گیا۔
خداوند ہمیں ان علوم کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے،(آمین)

مؤلف: آغاعبدالحسین بڈگامی

ایک لمحہ سکون!

مرد اپنی زندگی کی کشمکش میں، ایک لمحہ سکون کا محتاج ہوتا ہے تاکہ وہ اپنی راہ کو جاری رکھ سکے۔ وہ سکون کا لمحہ کونسا ہے؟ یہ وہ وقت ہے جب وہ اپنے آپ کو اپنے گھرانے کے ساتھ پیار اور شفقت سے بھرے ماحول میں پاتا ہے۔ اپنی زوجہ کے ساتھ جو اس سے پیار کرتی ہے ، اس کے شانہ بشانہ ہے اور وہ اس کے ساتھ ایکائی کا احساس کرتا ہے۔ جب وہ اپنی زوجہ کے ساتھ ہوتا ہے تو وہ سکون کا لمحہ ہے۔

 

 

 

شوہر، ایک مسکن!

اب اس کشمکش میں زوجہ بھی کچھ پریشانیوں کا سامنا کرتی ہے۔ چونکہ اس کی روح زیادہ نازک ہے ، اسے سکون ، راحت اور اعتماد پسند شخص پر انحصار کی زیادہ ضرورت ہے۔ وہ کون ہے؟ وہ اسکا شوہر ہے! اسے زندگی کی کشمکشوں سے دور ایک مسکن اور محفوظ مقام مل گیا ہے۔

 

 

 

 

 

 

ایک دوسرے کی پناہگاہ

وہ شوہر و زوجہ جو صحیح طور سے ایک ساتھ زندگی گذارتے ہیں ، ان مشکلات میں ایک دوسرے کی پناہگاہ ثابت ہوتے ہیں۔ زوجہ اپنے شوہر کی پناہ لیتی ہے اور شوہر بھی اپنی بیوی کی پناہ لیتا ہے۔

Wednesday, 02 February 2022 20:17

جامع مسجد الجزایر

مسجد جامع الجزایر کو مسجدالحرام و مسجدالنبی(ص) کے بعد عالم اسلام کی تیسری بڑی مسجد ہونے کا اعزاز حاصل ہے جو مشرقی الجزایر میں واقع ہے۔ اس مسجد کا مینار ۲۶۷ میٹر بلند ہے اور  ۴۳ فلور پر مشتمل اس مینار میں لفٹ لگا ہوا ہے. اسلامی طرز تعمیر کی شاہکار اس مسجد کو دو ایکڑ پر تعمیر کی گیی ہے جسمیں ایک لاکھ بیس ہزار نمازیوں کی گنجایش موجود ہے اور اس کے کارپارکنگ میں دو ہزار گاڑیوں کی گنجایش موجود ہے۔/

شامی صوبوں رقہ اور الحسکہ میں کرد ملیشیا نے جسے "سیرین ڈیموکریٹک فورسز" کہا جاتا ہے درجنوں شہریوں کو اغوا کر لیا۔

" سیرین ڈیموکریٹک فورسز " کے نام سے جانی جانے والی کرد ملیشیا - جو امریکی دہشت گرد افواج سے وابستہ ہیں - نے حال ہی میں شمالی اور شمال مشرقی صوبوں رقہ اور الحسکہ میں شہریوں کے گھروں پر حملے تیز کر دیے ہیں۔

الحسکہ کے مقامی ذرائع نے شام کی سرکاری نیوز ایجنسی (SANA) کو بتایا کہ امریکہ سے منسلک کرائے کے فوجیوں نے غویران محلے میں شہریوں پر حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس طرح کہ آج صبح ان عناصر نے اجازت نہیں دی، مکین اس محلے میں داخل ہوئے۔

ان ذرائع کے مطابق امریکہ سے وابستہ عناصر نے جنوب مشرقی غویران کے رہائشیوں پر اس بہانے حملہ کیا کہ وہ الصنایا جیل سے فرار ہونے والے دہشت گردوں کی تلاش میں ہیں۔ جن دہشت گردوں کو امریکہ اور یہ عناصر فرار کر چکے ہیں۔

ذرائع نے بتایا کہ کرد عسکریت پسندوں نے الحسکہ کے مشرق میں خشمان محلے میں متعدد نوجوانوں کو اغوا کیا اور حملوں کے بعد انہیں نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا۔ ان عناصر کا مقصد میدان جنگ میں ان لوگوں کو زبردستی استعمال کرنا ہے۔

رقہ صوبے کے مقامی ذرائع نے یہ بھی اطلاع دی ہے کہ امریکہ سے وابستہ عناصر نے مغربی رقہ میں المحمودلی کیمپ پر حملہ کر کے تقریباً 40 افراد کو اغوا کر کے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا۔ دریں اثناء کرد عسکریت پسندوں نے کل کئی شہریوں کو اغوا کر لیا۔

حال ہی میں اس جیل کے سامنے دو دھماکے ہوئے، جس میں داعش کے قیدی موجود ہیں، جس کے بعد داعش کے دہشت گردوں نے گروہ کے دیگر افراد کو نکال باہر کرنے کے لیے جیل پر حملہ کیا۔ حالیہ دنوں میں کرد ملیشیا کی حملہ آور عناصر کے ساتھ جھڑپیں ہوئی ہیں۔ جیل پر کردوں کا کنٹرول تھا۔

مقامی ذرائع نے گزشتہ ہفتے بتایا تھا کہ داعش کے عناصر نے اپنے یرغمالیوں کو رہا کر دیا ہے جو کرد عناصر تھے۔ یہ عناصر جیل کے اندر جھڑپوں کے دوران یرغمال بنائے گئے تھے۔ داعش کے عناصر پر حملہ کرنے والے اور قید کیے گئے دہشت گردوں نے بھی "امریکی ضمانتوں اور ثالثی کے ساتھ ہتھیار ڈال دیے، بدلے میں جمہوری قوتوں کے یرغمالیوں کو زندہ حوالے کیا۔"

12 بہمن سنہ 1357 ہجری شمسی مطابق 1 فروری سنہ 1979 کو14 سال کی جلا وطنی کے بعد بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رح) نے ایران کی سرزمین پر قدم رکھا اور ان کو تہران میں تقریباً تیس لاکھ ایرانیوں کا استقبال کیا گیا۔ اس دن کو ایران کے سرکاری کیلنڈر میں عشرہ فجر کے آغاز کے طور پر نشان زد کیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ حضرت امام خمینی (رح) 43 سال قبل آج ہی کے دن تقریبا چودہ سال جلا وطنی کی زندگی گزارنے کے بعد ایران واپس تشریف لا‎ئے جہاں لاکھوں ایرانی عوام نے آپ کا فقیدالمثال اور تاریخی استقبال کیا۔

 ایران میں آپ کے اس تاریخی آمد کے ساتھ ہی اسلامی انقلاب کی کامیابی کا راستہ ہموار ہو گیا۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ شاید ہی تاریخ کے کسی دور میں عوام نے کسی محبوب رہنما کا اس طرح استقبال کیا ہو۔ امام خمینی (رح) نے تہران کے مہرآباد ایئر رپورٹ پر مختصر تقریر میں قوم کا شکریہ ادا کیا اور انقلاب اسلامی کے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کےلئے قبرستان بہشت زہرا تشریف لے گئے جہاں انہوں نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ میں اس قوم کے تعاون اور حمایت سے حکومت قائم کروں گا۔
امام کی واپسی اور عوامی بغاوت کے پھیلنے اور شاہ کے ایران سے نکل جانے کے ساتھ ہی ایران میں عوام کے مظاہرے روز بروز پرتشدد اور پر عزم ہوتے گئے۔

آزادی، آزادی اور اسلامی جمہوریہ کا نعرہ امام خمینی کی قیادت میں چلنے والی انقلابی تحریک میں عوام کا بنیادی مطالبہ تھا۔

امام خمینی (رح) 4 نومبر 1965 سے 1 فروری 1980 یعنی تقریباً چودہ سال جلاوطنی میں رہے اور 1966 میں آپ کو پہلے ترکی اور کچھ عرصہ بعد عراق جلاوطن کیا گیا، آپ نے نوفل لوشاتو نامی گاؤں میں وقت گزارا۔

روایت ہے کہ امام خمینی نے 16 جنوری 1979 کو شاہ کی ایران سے رخصتی کے بعد بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے نام ایک مختصر پیغام میں اعلان کیا کہ شاہ کا ایران سے نکلنا مجرمانہ حکومت کے خاتمے کی طرف پہلا قدم ہے۔ پہلوی حکومت جو 50 سال تک جاری رہی، جو جدوجہد کے سائے میں رونما ہوئی، ایرانی عوام کی بہادری اور میں اس فتح پر عوام کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے اعلان کیا کہ وہ "مناسب وقت پر" ایران واپس آئیں گے۔

جب کہ انقلاب کی پرواز 26 فروری کو امام خمینی کو فرانس سے ایران لانے والی تھی، ملک کی ایوی ایشن اتھارٹی نے اعلان کیا کہ خراب موسم اور مرئیت کی کمی کی وجہ سے تمام پروازیں منسوخ کر دی گئی ہیں۔

ہوائی اڈوں کی بندش اور بختیار کی حکومت کی جانب سے ملک میں داخلے کو روکنے کی خبر کے بعد عوام نے اپنے مظاہروں اور مارچ کے ذریعے حکومتی کارروائی کے خلاف احتجاج کیا۔ تینوں افواج کے تمام افسران نے تہران، اصفہان، کرمانشاہ، دزفول، ہمدان اور بوشہر میں اپنے اڈوں پر ہڑتال کی اور پھر مظاہرین کی صفوں میں شامل ہو گئے۔ تہران میں مظاہرین مہرآباد ایئرپورٹ پر نکل آیا۔

مختلف علاقوں میں شوٹنگ ایک لمحے کے لیے بھی نہیں رکی۔ خبر رساں ایجنسیوں نے رپورٹ کیا کہ شہر کے اسکوائر میں سے ایک میدان جنگ سے مشابہت رکھتا تھا، جس میں دارالحکومت میں تین ہزار افراد ہلاک ہوئے، اطلاعات اخبار نے لکھا کہ "تہران کے مغرب اور جنوب مغرب کو آگ کے شعلوں میں لپیٹ لیا گیا تھا۔"

ہوائی اڈوں کی بندش کے خلاف خونی دھرنوں اور مظاہروں کے بعد بختیار حکومت نے پیچھے ہٹ کر شکست تسلیم کرلی۔ بختیار نے 29 فروری کو اعلان کیا کہ مہرآباد ہوائی اڈہ آج کھل جائے گا اور امام ملک میں داخل ہونے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی۔
حکومت کے کابینہ نے 30 جنوری کو اعلان کیا کہ امام کو تہران کے مہرآباد ہوائی اڈے پر لے جانے والے طیارے کی آمد کسی پریشانی کے بغیر تھی۔ اس خبر کا اعلان کرتے ہوئے امام کے استقبال کی کمیٹی نے ایک پیغام میں اعلان کیا ہے کہ امام خمینی رحمتہ اللہ علیہ یکم فروری بروز جمعرات صبح 9 بجے تہران میں ہوں گے۔

12 بہمن سنہ 1357 ہجری شمسی مطابق 1 فروری سنہ 1979 کو14 سال کی جلا وطنی کے بعد بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رح) نے ایران کی سرزمین پر قدم رکھا، یہ دن ایران کی عصری تاریخ کے سب سے زیادہ پائیدار دنوں میں سے ایک ہے اور لوگوں کا جوش و خروش ناقابل بیان تھا۔ امام کے استقبال کی تقریب میں شرکت کے لیے بہت سے لوگ تہران پہنچے تھے۔

ہر سال، ایرانی عوام ترکی، عراق اور فرانس میں 14 سال کی جلاوطنی کے بعد امام خمینی کی واپسی کی سالگرہ مناتے ہیں اور عشرہ فجر کا آغاز ہوتا ہے۔

امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے قوم کے نام پیغام سننے کے بعد مہرآباد ہوائی اڈے پر خطاب کیا۔ انہوں نے سب سے پہلے قوم کے تمام طبقوں، جوانوں اور بوڑھوں، علماء اور تاجروں، ججوں اور وکلاء، ملازمین اور مزدوروں اور کسانوں کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا جنہوں نے فتح کی راہ پر ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا۔

انہوں نے اپنی تقریر کے ایک حصے میں محمد رضا شاہ کی ایران واپسی اور بادشاہت کو برقرار رکھنے کی کوششوں کو ناکامی قرار دیا، اور ان کی کوششوں کو بادشاہت کے تحفظ کے لیے پیڈلنگ سے تعبیر کیا۔

امام خمینی (رح) نے ان الفاظ میں فتح کا راز بیان فرمایا: ہمیں قوم کے تمام طبقات کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ یہ فتح اب تک اتحاد و اتفاق کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے۔ لفظ مسلمان، سب کا اتحاد، مسلمانوں کے ساتھ مذہبی اقلیتوں کے لفظ کا اتحاد، یونیورسٹی اور سائنسی اسکول کا اتحاد، پادریوں اور سیاسی دھڑے کا اتحاد۔ "ہم سب کو اس راز کو سمجھنا چاہیے کہ لفظ کا اتحاد ہی فتح کا راز ہے، اور ہمیں فتح کے اس راز کو کھونا نہیں چاہیے۔"

امام خمینی کی ایران واپسی کے اہم ترین نتائج

دو واقعات امام خمینی کی واپسی کے سب سے اہم نتائج میں سے ہیں، جو تیزی سے اسلامی انقلاب کی فتح کا باعث بنے: ایک عبوری حکومت کا تقرر اور فوج کی امام خمینی کی بیعت۔

امام خمینی نے 16 جنوری کو شاہ کی ملک سے رخصتی کے موقع پر اعلان کیا کہ ہم جلد ہی حکومت قائم کریں گے۔ 4 فروری کو انقلابی کونسل کی طرف سے بازرگان کے وزیر اعظم کی منظوری دی گئی۔

‎8 فروری کو ملک بھر میں سب سے بڑا مارچ ہوا جس میں لاکھوں افراد نے امام خمینی کی منتخب حکومت کی حمایت کی۔ دوسری طرف انقلاب کی دہائی میں فوج جو کہ حکومت کے انحصار کا واحد نقطہ تھی، انقلاب میں شامل ہوئی۔

فرار، نافرمانی، ہڑتال، مظاہروں میں شرکت اور آخر میں امام خمینی کی بیعت، امام کے ساتھ فوج کے تعاون کی علامت تھی جو 8 فروری کو اپنے عروج پر پہنچ گئی۔

نتیجے کے طور پر، حکومت بغیر کسی حمایت کے تیزی سے ٹوٹ گئی، اور اسلامی انقلاب 11 فروری کو اپنی حتمی فتح تک پہنچا۔

 ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے ایک پیغام جاری کرکے فقیہ اعلی مقام اور بابصیرت مرجع تقلید آیۃ اللہ العظمی الحاج شیخ لطف اللہ صافی گلپایگانی کے انتقال پر تعزیت پیش کی۔

ایرانی قائد کا تعزیتی پیغام کا متن حسب ذیل ہے:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

فقیہ عالی مقام اور بابصیرت مرجع تقلید آیۃ اللہ العظمی لطف اللہ صافی گلپایگانی رضوان اللہ علیہ کے انتقال کی افسوسناک خبر موصول ہوئی۔ وہ قم کے 'حوزۂ علمیہ' (اعلی دینی تعلیماتی مرکز) کے ستونوں اور علمی و عملی لحاظ سے اس مبارک مرکز کی سب سے نمایاں شخصیات اور سب سے پرانے علماء میں سے ایک تھے۔

موصوف، آیۃ اللہ بروجردی مرحوم کے زمانے میں اس عظیم الشان استاد کے سب سے ممتاز شاگردوں میں سے ایک، مرحوم آیۃ اللہ سید محمد رضا گلپایگانی کے زمانے میں ان کے ساتھی اور علمی مشیر اور تحریک انقلاب کے زمانے میں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے معتمد افراد میں شمار ہوتے تھے۔

مرحوم برسوں تک، نگہبان کونسل میں، اس کے کلیدی رکن شمار ہوتے تھے اور اس کے بعد بھی ہمیشہ انقلاب اور ملک کے مسائل کے بارے میں ہمدردانہ اور ذمہ دارانہ طریقے سے اپنا موقف بیان کرتے تھے۔ اکثر اپنے نظریات اور مشوروں سے حقیر کو مطلع اور بہرہ مند کیا کرتے تھے۔

مرحوم کا شعری ذوق، تاریخی حافظہ، سماجی مسائل پر عبور، اس بزرگ اور عظیم عالم دین کی شخصیت کے کچھ اور پہلو تھے۔ ان کی وفات ملک کے علمی و دینی معاشرے کے لیے باعث افسوس اور اندوہ ہے۔

میں ان کے معزز اہل خانہ، ان کے محترم بچوں اور اسی طرح معزز مراجع تقلید، حوزۂ علمیہ کے علمائے کرام، ان کے مقلدوں اور چاہنے والوں بالخصوص قم اورگلپایگان میں ان کے عقیدت مندوں کی خدمت میں تعزیت پیش کرتا ہوں اور مرحوم کے لیے خداوند عالم سے رحمت و مغفرت کی دعا کرتا ہوں۔

سید علی خامنہ ای

 تقريب خبررسان ايجنسی 

اسرائیلی صدر اسحاق ہرزوگ نے ​​ابوظہبی کے ولی عہد شہزادہ محمد بن زاید سے ملاقات میں یمن کے مظلوم عوام کے خلاف متحدہ عرب امارات کی جارحیت کے جواب میں متحدہ عرب امارات پر یمنی مسلح افواج کے حالیہ حملوں کی مذمت کی۔  

بن زاید نے متحدہ عرب امارات کے فوجی ٹھکانوں پر یمنی مسلح افواج کے حملوں کے بارے میں صیہونی حکومت کے مؤقف پر بھی شکریہ ادا کیا اور اسے علاقائی استحکام اور امن کے لیے خطرات کے ذرائع کے بارے میں مشترکہ نقطہ نظر کی علامت قرار دیا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان تعلقات مضبوطی کے ساتھ جاری ہیں اور دونوں فریقین اس کو مضبوط کرنے کے لیے مشترکہ اور مضبوط ارادہ رکھتے ہیں۔

سعودی عرب میں بدعنوانی کے پھیلاؤ کے بعد، سعودی صارفین اور ناقدین نے ایک بار پھر ملک میں "ریاض سیزن" کے جشن کے حاشیے کے خلاف احتجاج کیا۔

بہت سے سعودی صارفین اور کارکنوں نے ایک بار پھر سعودی عرب میں " ریاض سیزن " کے جشن کے دوران کیے گئے غیر معمولی اقدامات کے خلاف احتجاج کیا ہے۔

سعودی کارکنوں نے مخلوط تہواروں میں ناچنے جیسی اشتعال انگیز کارروائیوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے سعودی حکام کے لیے بڑا دھچکا قرار دیا ہے۔

ریاض سیزن کے آغاز پر سخت تنقید ہوئی ہے، بہت سے ناقدین اور صارفین نے اسے پیسے کا ضیاع اور مذہب اور رسم و رواج سے بیگانگی قرار دیا ہے۔

ایک سعودی صارف نے آپ سے ریاض سیزن بند کرنے کی درخواست کی۔ اس میلے میں جو کچھ ہوا وہ ہمارے ملک میں توقع سے بعید تھا اور یہ کرپشن ہے۔

ایک صارف نے ٹوئٹر پر لکھا: ریاض سیزن کا جشن مذہب اور رسم و رواج سے بیگانگی کے سوا کچھ نہیں۔

ریاض سیزن پہلی بار 2019 میں منایا گیا تھا اور اس میں پرجوش شوز، جوا، گیمز، وائلڈ لائف، ریستوراں اور کنسرٹ کیفے جیسی سرگرمیاں شامل ہیں۔ ریاض سیزن کا یہ دوسرا جشن ہے اور گزشتہ سال کورونا وائرس کے پھیلنے کی وجہ سے منسوخ کر دیا گیا تھا۔

مخالفین اور مخالفین نے بارہا ایسی تقریبات کا مطالبہ کیا ہے، سعودی ولی عہد محمد بن سلمان پر خصوصی توجہ دی ہے اور ویژن 2030 کے اہداف کے مطابق، ایک ایسے ملک میں مذہب کو ختم کرنے کا ایک آلہ ہے جو اہم ترین اسلامی مقدس مقامات کی میزبانی کرتا ہے اور اسے اپنا بادشاہ بناتا ہے۔ دونوں مزارات کے متولی کو شریفین کا نام دیا گیا ہے۔

اس جشن کی نوعیت اور بہت سے دوسرے لوگوں نے سعودی عرب کے مذہبی حلقوں، مخالفین اور ناقدین کو ناراض اور حیران کر دیا ہے۔ وہ تقریبات جن میں کیرول اور مخلوط اور غیر روایتی ڈھانچے کے ساتھ ساتھ شراب نوشی اور جوئے کے مقابلے ہوتے ہیں۔

اب ریاض سیزن کا جشن ہر قسم کے غیر اسلامی اور حرام کاموں سے جڑا ہوا ہے۔ لیکن سعودی حکام اسے بہت زیادہ تشہیر کے ساتھ روکے ہوئے ہیں۔

عہدہ سنبھالنے کے بعد سے، نوجوان سعودی ولی عہد نے سعودی عرب میں بنیادی تبدیلی لانے اور غیر اسلامائزیشن کے لیے سخت محنت کی ہے ، جس سے ملک کو بدعنوانی کی طرف لے جایا گیا، شراب کی فروخت، مخلوط تقریبات کا انعقاد، امریکی گلوکاروں کو مدعو کیا گیا اور سینکڑوں علماء کو گرفتار کیا گیا۔ خطبات اس کی واضح مثالیں ہیں۔

آل سعود اپنی لاپرواہ پالیسیوں سے سعودی نوجوانوں کو ہٹانے اور سعودی عرب میں بدعنوانی اور انحطاط پھیلانے کے لیے تفریحی شعبے میں بھاری مالیاتی سرمایہ کاری کرتا ہے۔اس کے علاوہ سعودی ولی عہد سعودی عرب میں انسانی حقوق اور آزادیوں کی خلاف ورزی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ کمیونٹی جو اس نے حال ہی میں بنائی ہے۔

ریاض سیزن فیسٹیول، جس کا مقصد سعودی عرب میں سیاحت کو بڑھانا ہے، مارچ 2022 تک چلے گا۔

تقريب خبررسان ايجنسی 

ابوظہبی کے دورے کے دوران اسرائیلی رہنما نے متحدہ عرب امارات کے ولی عہد سے ملاقات کی۔

اسرائیلی صدر اسحاق ہرزوگ نے متحدہ عرب امارات کے دورے کے دوران ابوظہبی کے ولی عہد شہزادہ محمد بن زاید سے ملاقات کی ۔

جیسا کہ معمول کے معاہدے کے بعد صیہونی حکومت اور متحدہ عرب امارات کے حکام کی نقل و حرکت اور دوروں کا سلسلہ جاری ہے، صیہونی حکومت کے سربراہ نے (آج) اتوار کو ابوظہبی گئے اور متحدہ عرب امارات کے حکام سے ملاقات کی۔

اسرائیلی میڈیا اور خبر رساں ذرائع کے مطابق چند گھنٹے قبل ابوظہبی ایئرپورٹ پر متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ نے استقبال کرنے والے اسرائیلی صدر اسحاق ہرزوگ نے ​​ابوظہبی کے ولی عہد محمد بن زاید سے دو طرفہ ملاقات بھی کی۔

تل ابیب سے متحدہ عرب امارات کے لیے روانہ ہونے سے پہلے، ہرزوگ نے ​​ٹویٹ کیا کہ ان کا عرب خلیجی ریاست کا دورہ "تاریخی" تھا اور انھوں نے ابوظہبی کے ولی عہد شہزادہ محمد بن زاید کو دورے کی دعوت دینے پر شکریہ ادا کیا۔

یروشلم میں قابض حکومت کے اس اعلیٰ عہدیدار کا متحدہ عرب امارات کا دورہ اور اس ملک کے عہدیداروں جیسا کہ ابوظہبی کے ولی عہد محمد بن زاید کا استقبال ایک ایسی صورتحال میں ہوا جب دونوں فریقین کی ملاقات 25 ستمبر کو ہوئی تھی۔ ، 2016 اس وقت، امریکہ نے تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے۔

"فلسطینی مزاحمتی کمیٹیاں" تنظیم نے آج بروز اتوار اسرائیلی صدر اسحاق ہرزوگ کے متحدہ عرب امارات کے دورے کو فلسطینی عوام کے لیے خنجر سے تعبیر کیا ہے۔

فلسطینی اتھارٹی نے ایک بیان جاری کیا جس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ یہ سفر اور ساتھ ہی ساتھ امت اسلامیہ کی تاریخ میں ایک خنجر گھونپنا، صیہونی حکومت کو فلسطینی عوام کے خلاف مزید جرائم کے ارتکاب کو قانونی جواز فراہم کرنا اور اس کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ صیہونی حکومت ان دوروں کو معمول پر لانے کی نیت سے سرزمین فلسطین پر جابرانہ قبضے کو جائز قرار دینے کے لیے استعمال کر رہی ہے... عرب اور اسلامی اقوام کو معمول پر آنے کی مخالفت میں آواز اٹھانی چاہیے۔ نارملائزیشن جو کہ مسئلہ فلسطین، یروشلم اور مسجد اقصیٰ کے ساتھ غداری ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے عشرہ فجر انقلاب اسلامی کی آمد کے موقع پر حضرت امام خمینی (رہ) کے حرم مطہر پر حاضر ہو کر انھیں خراج عقیدت پیش کیا۔

اطلاعات کے مطابق رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انقلاب اسلامی کی کامیابی کی 43 سالگرہ کے موقع پر حرم مطہر حضرت امام خمینی (رہ) میں حاضر ہوکر نماز ادا کی اور فاتحہ خوانی کی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے شہید بہشتی، شہید رجائی، شہید باہنر اور شہدائے ہفتم تیر کے مزاروں پر بھی حاضر ہوکر فاتحہ خوانی کی اور انھیں خراج عقیدت پیش کیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے گلزار شہداء میں بھی حاضر ہوکر فاتحہ خوانی کی اور اسلامی جمہوریہ ایران کا دفاع کرنے پر شہداء کو خراج تحسین پیش کیا۔