
سلیمانی
امریکی حکومت خاموشی سے کیوں بند کرنا چاہتی ہے گوانتانامو جیل؟
سحر نیوز/ دنیا: ایک امریکی اخبار نے لکھا ہے کہ اس ملک کی حکومت خاموشی سے گوانتانامو جیل بند کر کے قیدیوں کو منتقل کر رہی ہے۔
فارس نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق امریکی اخبار "وال اسٹریٹ جرنل" نے انکشاف کیا ہے کہ "جو بائیڈن" کی انتظامیہ بدنام زمانہ اور خطرناک گوانتانامو جیل کو بند کرنے کے عمل کو خاموشی سے مکمل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
"رشا ٹوڈے" کی ویب سائٹ کے مطابق، اس اخبار نے لکھا ہے کہ اگرچہ اس جیل کی بندش بائیڈن کے انتخابی وعدوں میں سے ایک تھی لیکن وائٹ ہاؤس نے خفیہ طور پر اس عمل کی پیروی کی ہے تاکہ اس حوالے سے کوئی سیاسی تنازع پیدا نہ ہو۔
وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ کے مطابق امریکی حکومت اس حراستی مرکز کو بند کرنے کے قریب پہنچ رہی ہے اور قیدیوں کو دیگر امریکی جیلوں میں منتقل کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔
یہ خوفناک جیل 2002 میں کیوبا میں امریکی بحریہ کے اڈے پر دہشت گردوں کو رکھنے کے لیے بنائی گئی تھی لیکن اس کے فوراً بعد شائع ہونے والی تصاویر میں قیدیوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک دکھایا گیا تھا، جنہیں اکثر وہاں برسوں تک بغیر کسی الزام یا مقدمے کے رکھا جاتا تھا۔
جرمنی میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سربراہ نے اے ایف پی کو بتایا کہ گوانتانامو جیل کو قانونی طریقہ کار اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں بشمول تشدد اور جبری گمشدگیوں کے لیے دونوں لحاظ سے ایک "خطرناک مثال" سمجھا جاتا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے اس اہلکار نے مزید کہا کہ اس جگہ پر حراست میں لیے گئے لوگوں کو "قانون کی حکمرانی کے تحت منصفانہ عدالت" تک رسائی حاصل نہیں تھی اور انہوں نے عالمی برادری سے کہا کہ وہ اس جیل کو بند کرنے کے لیے امریکہ پر دباؤ ڈالے۔
پہلی بار گوانتانامو جیل سے قیدیوں کی منتقلی کی نگرانی کے لیے ایک سینئر امریکی سفارت کار کو مقرر کیا گیا ہے۔ وال سٹریٹ جرنل کے مطابق بائیڈن انتظامیہ نے یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ 11 ستمبر کے حملوں کے ماسٹر مائنڈ کے طور پر متعارف ہونے والے "خالد شیخ محمد" سے متعلق عدالتی طریقہ کار میں مذاکرات میں مداخلت کا ارادہ نہیں رکھتی، یہ شخص اور 36 دیگر قیدی اب بھی گوانتانامو جیل میں قید ہیں۔
کچھ عرصہ قبل امریکی حکومت نے گوانتانامو جیل میں قید سعودی قیدی "محمد القحطانی" کو رہا کر دیا تھا، جسے 11 ستمبر کے حملوں کے الزام ميں 2021 میں گرفتار کیا گیا تھا، آزادی کے بعد اسے سعودی عرب منتقل کر دیا گیا تھا۔
امریکہ میں پھر فائرنگ کا واقعہ، 14 ہلاک، متعدد زخمی
شیکاگو میں رونما ہونے والے فائرنگ کے اس واقعے کے سلسلے میں پولیس کا کہنا ہے کہ ابھی تک یہ پتہ نہیں چل سکا کہ یہ فائرنگ کس نے اور کیوں کی ہے اور مجرم کا پتہ لگانے کے لئے پولیس کی تحقیقات ابھی جاری ہیں۔
شیکاگو کے ایک اور علاقے میں ایک 21 سالہ جوان کے مارے جانے کی خبر بھی شیکاگو پولیس نے دی ہے۔
امریکہ میں گن کلچر عام ہے۔ رپورٹ کے مطابق ہر سال امریکہ میں فائرنگ کے واقعات میں ہزاروں لوگ مارے جاتے ہیں۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق امریکہ میں 270 سے 300 ملین اسلحے موجود ہیں یعنی تقریبا ہر امریکی شہری کے پاس کم از کم ایک اسلحہ۔
2020ء میں صرف 19384 لوگ بندوق سے فائرنگ کے نتیجے میں مارے گئے جو پچھلے سال کے مقابلے میں 35 فیصد زیادہ ہے اور ایک سال میں قتل کے بڑھتے واقعات کا ایک نیا ریکارڈ ہے۔
امریکہ میں بندوق اور چھوٹے ہتھیاروں سے قتل وغارت کے اعداد و شمار کا جب دوسرے ممالک سے موازنہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ امریکا اس فہرست میں سب سے جدا ہے اور یہاں فائرنگ سے تشددکے واقعات کی شرح پوری دنیا میں سب سے زیادہ ہے، اگرچہ امریکہ کی آبادی دنیا کی کل آبادی کا 5 فیصد ہے لیکن دنیا میں رونما ہونے والے مسلحانہ جھڑپوں، فائرنگ اور قتل و غارت کے 31 فیصد واقعات یہاں رونما ہوتے ہیں۔
اربعین مارچ پرچم اہلبیتؑ کی سربلندی کا آئینہ دار ہے، رہبر انقلاب اسلامی
رہبر انقلاب اسلامی نے اربعین مارچ کے معجز نما واقعے کو اہل بیت علیہم السلام کے اسلامی پرچم کو مزید بلند کرنے کے الہی ارادے کی علامت قرار دیا اور کہا کہ یہ تحریک کسی بھی انسانی منصوبے یا حکمت عملی کے ذریعے ممکن نہیں ہے، یہ تو دراصل خدا کی طاقت ہے جو ہمیں اس عظیم تحریک کے ذریعے یہ پیغام دے رہی ہے کہ ہمارے سامنے کی راہ واضح ہے اور اس پر آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے نوجوانوں کو، اپنی جوانی کو غنیمت سمجھنے اور ماتمی انجموں پر خاص توجہ دینے کی نصیحت کی اور فرمایا کہ انجمنوں کا بھی فرض ہے کہ وہ اہل بیت علیہم السلام کی یاد کو زندہ رکھیں اور اس کے ساتھ ہی وہ حقائق بیان کرنے کا مرکز بھی بنیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اربعین مارچ جیسے اہم واقعات کے خلاف ان بدخواہوں کی مسلسل سازشوں کا ذکر کیا جو حقائق پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں اور سب کو اپنی ذمہ داریوں سے واقفیت کی سفارش کی۔ رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ قرآن مجید کے دو بے حد اہم اور ابدی جملے یعنی حق کی نصیحت اور صبر کی سفارش، ہمیشہ کے لئے ہے اور یہ خاص طور پر عصر حاضر میں ایک بنیادی اصول ہے۔ انہوں نے صبر کے معنی، پائيداری، استقامت، نہ تھکنا اور خود کو بند گلی ميں نہ سمجھنا بتایا اور قرآن مجید اور انجمنوں کے دلدادہ نوجوانوں سے کہا کہ خود آپ لوگ بھی حق کی راہ پر چلیں اور کوشش کریں کہ یونیورسٹی سمیت مختلف مقامات کو نور خدا سے روشن کرکے، دوسروں کو بھی اس راہ پر لائيں۔
عزاداری کے اس پروگرام میں، حجت الاسلام عالی نے اپنی تقریر میں عالم بشریت کے منجی کے ظہور کے لئے اسلامی امت میں عام سطح پر آمادگی کو لازمی قرار دیا اور کہا کہ زیارت اربعین جو آج مومنوں کے درمیان اتحاد اور حق پسندوں کی یکجہتی کی علامت بن چکی ہے، اسلامی سماج کی تربیت، مومنین کے درمیان رابطے کے استحکام اور ظہور کی آمادگی کا بہت اچھا ذریعہ ہے۔ اس موقع پر محمد کاویان نے زیارت اربعین پڑھی اور میثم مطیعی نے امام حسین علیہ السلام کا مرثیہ و نوحہ پڑھا۔
امریکہ ایرانوفوبیا پھیلا کرعلاقے میں ڈرون نیٹ ورک قائم کرنے کے درپے
ایرانی پارلیمنٹ میں قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کمیشن کے نمائندے ابوالفضل عموئی نے کہا کہ امریکہ ایرانوفوبیا پھیلا کر علاقے میں اپنا ڈرون نیٹ ورک قائم کرنا چاہتا ہے۔
اباالفضل عموئی نے میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی ایک صلاحیت ملکی طور پر ہائی کوالٹی ڈرون طیاروں کی تیاری ہے اور ہم نے دونوں حملہ آور اور جاسوسی ڈرون تیار کئے ہیں جن کے علاقے اور دنیا میں خریدار بھی موجود ہیں۔
ایرانی قومی سلامتی کمیشن کے نمائندے نے مزید کہا کہ علاقے میں اڑنے والے دشمن کے تمام ڈرون طیاروں کی مکمل نگرانی ہمارے اختیار میں ہے، سپاہ پاسدارن انقلاب اسلامی کے اینٹی ائیر کرافٹ ائیرڈیفنس سسٹم نے امریکی آر کیو 170 اور ان کے مہنگے آرکیو 4 بلیک ہاک کو آبنائے ہزمز کے نزدیک حفاظت سے اتار کر اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔
میڈیا نمائندوں سے بات کرتے ہوئے عموئی نے کہا کہ بین الاقوامی فوجی ماہرین نے ڈرون ٹیکنالوجی میں اسلامی جمہوریہ ایران کی مہارتوں کا اعتراف کیا ہے اور اس لئے دشمن اب ایران کا مقابلہ کرنے کے لئے علاقے میں اپنا ڈرون نیٹ ورک قائم کرنا چاہتا ہے۔
انہوں نے غیرملکی افواج کو مغربی ایشیاء کی سلامتی کے لئے بہت بڑا خطرہ قرار دیا اور کہا کہ علاقائی ممالک کو اچھے ہمسایوں کی طرح آپس میں تعاون کرنا چاہیے تاکہ علاقے میں دوطرفہ اور کثیرالجہتی امن اور سیکورٹی قائم ہو سکے۔
امریکی وال اسٹریٹ جرنل نے اپنے تازہ ترین تجزیہ میں لکھا کہ امریکی بحریہ مغربی ایشیا میں علاقائی ممالک اور اسرائیل کے ساتھ مل کر ڈرون نیٹ ورک قائم کرنا چاہتی ہے تاکہ اس کے ذریعے مغربی ایشیا اور سوئز کنال کے علاقے میں ایرانی فوجی نقل و حرکات پر نظر رکھی جا سکے۔
برطانیہ کا جمہوری نقاب اوڑھے سلطنتی نظام حکومت
"ملکہ دنیا سے رخصت ہو گئی اور بادشاہ تخت نشین ہو گیا اور اس نے اپنا ولیعہد متعارف کروا دیا۔" خود کو جمہوریت کا گہوارہ کہلوانے والے مغربی یورپ سے ایسی خبر سنائی دینا کچھ کچھ غیر متوقع دکھائی دیتا ہے۔ 2022ء میں ایسے وقت جب دنیا کے اکثر حصوں میں بادشاہت اور سلطنت والا نظام تقریباً بھلایا جا چکا ہے، برطانیہ جیسا ملک اب تک اس رجعت پسند سیاسی نظام کے تحت چلایا جا رہا ہے۔ زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ اس ملک کا فرمانروا، برطانیہ کے علاوہ 15 دیگر ممالک کا حکمران بھی تصور کیا جاتا ہے۔ ملکہ برطانیہ کی وفات کے بعد اگلے دس دن تک پورا برطانیہ تقریباً جام ہو جائے گا۔ اگرچہ ملکہ کی آخری رسوم پر انجام پانے والے اخراجات منظرعام پر نہیں لائے جاتے لیکن ایک اندازے کے مطابق یہ رقم 6 ارب پاونڈ لے لگ بھگ ہے۔
یہ سنگین اخراجات ایسے وقت انجام پا رہے ہیں جب برطانیہ شدید قسم کے اقتصادی بحران کی لپیٹ میں ہے اور برطانوی حکمران عوام کو اقتصادی ریاضت کی ترغیب دلا رہے ہیں۔ کئی دن تک بینک بند رہیں گے اور برطانیہ کے دیگر اقتصادی مراکز بھی تعطیل کا شکار ہو جائیں گے۔ شاید اسی وجہ سے برطانوی اخبار انڈیپنڈینٹ نے ملکہ برطانیہ کی موت کو گذشتہ ستر برس کے دوران ملک کی معیشت کیلئے نقصان دہ ترین واقعہ قرار دیا ہے۔ البتہ برطانوی عوام پر تھونپے گئے بادشاہی اور سلطنتی نظام کے اخراجات صرف ملکہ کی آخری رسوم پر آنے والے اخراجات تک محدود نہیں ہیں بلکہ ہر سال شاہی خاندان کے اخراجات کیلئے برطانوی عوام سے 100 ملین پاونڈ ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف سلطنتی نظام حکومت کی جانب سے عوام پر تھونپی گئی چیزیں صرف بھاری اخراجات تک محدود نہیں ہیں۔
برطانیہ کے نئے بادشاہ، چارلس، اب سے انگلیکن چرچ کے نئے سربراہ اور برطانوی مسلح افواج کے نئے چیف کمانڈر بھی ہوں گے۔ دولت مشترکہ کے اکثر ممالک جیسے کینیڈا اور آسٹریلیا میں مسلح افواج کو بادشاہ کی سلطنتی افواج کا نام دیا جائے گا۔ نوٹوں پر ان کی تصاویر لگائی جائیں گی اور نئے شہری بادشاہ سے وفاداری کا حلف اٹھا کر شہریت کا آغاز کریں گے۔ وہ برطانوی شہری جنہوں نے 1688ء میں انقلابی تحریک چلا کر بادشاہ کے اختیارات محدود کرنے کی کوشش کی تھی یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ چار صدیوں بعد بھی برطانیہ پر ملکہ یا بادشاہ کی حکومت ہو گی۔ بادشاہی نظام حکومت جمہوریت کے اس بنیادی ترین اصول سے تضاد رکھتی ہے جس کے مطابق ایک معاشرے کے تمام افراد کو برابر قرار دیا جاتا ہے۔ برطانوی نظام حکومت میں ملکہ یا بادشاہ کو حد سے زیادہ اختیارات حاصل ہیں۔
اگرچہ ملکہ یا بادشاہ کو ووٹ دینے کا حق حاصل نہیں لیکن وہ کسی بھی قانون کا پابند نہیں ہوتا۔ ٹریفک قوانین کی پابندی اس کیلئے ضروری نہیں، اس کیلئے ٹیکس ادا کرنا ضروری نہیں، اسے پاسپورٹ کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ وہ خاص اختیارات ہیں جو اسے عام شہریوں سے ممتاز کر کے جمہوری اصولوں کے سامنے سوالیہ نشان کھڑا کر دیتے ہیں۔ شاہ یا ملکہ وزیر کو معزول یا مقرر کر سکتا ہے، جنگ اور صلح کا اعلان کر سکتا ہے، عالمی معاہدے منعقد کر سکتا ہے، خارجہ پالیسی کا تعین کرتا ہے، چیف جسٹس کو مقرر کرتا ہے اور پارلیمنٹ میں منظور شدہ بل اس کے دستخط کے بعد قانون میں تبدیل ہوتے ہیں۔ اگرچہ عام طور پر برطانوی بادشاہ یا ملکہ کے بارے میں یہ تصور پایا جاتا ہے کہ اس کا عہدہ محض نمائشی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسے حکومتی سیٹ اپ میں سب سے زیادہ قانونی اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔
دنیا کے اکثر ممالک میں ریاست کے سربراہ اور انتظامی امور کے سربراہ میں فرق ہوتا ہے۔ ریاست کا سربراہ تمام مسلح افواج کا چیف کمانڈر ہوتا ہے اور پارلیمنٹ میں منظور ہونے والے بل قانون بننے کیلئے اس کے دستخط کے محتاج ہوتے ہیں جبکہ اسے پارلیمنٹ تحلیل کرنے کا اختیار بھی حاصل ہوتا ہے۔ جمہوری نظام حکومت کے حامل ممالک میں ریاست کا سربراہ بھی عوام کے ذریعے منتخب کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر جرمنی میں جہاں پارلیمانی نظام حکومت نافذ ہے، صدر ریاست کا سربراہ تصور کیا جاتا ہے اور اس کا چناو الیکشن کے ذریعے ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں عوام ریاست کے سربراہ پر براہ راست نظر رکھ سکتے ہیں اور کچھ عرصے بعد اسے تبدیل بھی کر سکتے ہیں۔ لیکن ایک بادشاہی یا سلطنتی نظام حکومت میں ریاست کا سربراہ ممکن ہے ملکہ الزبتھ دوم کی طرح ستر سال تک حکومت کرتا رہے۔
برطانیہ میں قومی علامت جیسے عناوین کا غلط استعمال اس بات کا باعث بنا ہے کہ وہاں انتہائی فرسودہ نظام حکومت نافذ ہے۔ ایسا نظام حکومت جس میں اکیسویں صدی کے باوجود خون اور وراثت کو فرمانروائی کی بنیاد بنایا گیا ہے۔ علامت، قومی سیاست کا آدھا حصہ تشکیل دیتی ہے۔ قومی ترانہ، قومی پرچم اور قومی نعرے سب علامتیں ہیں جو کسی بھی سیاسی نظام کا اہم حصہ تشکیل دیتے ہیں۔ جمہوری نظام کا یہ اصول ہے کہ یہ علامات کسی موروثی نظام پر منحصر نہیں ہونی چاہئیں۔ برطانوی نظام حکومت کی ایک اور اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ایک تدوین شدہ آئین موجود نہیں ہے اور تمام قوانین کی بنیاد بادشاہ یا ملکہ کا طرز عمل قرار پاتا ہے۔ کسی بھی ہنگامی صورتحال میں بادشاہ یا ملکہ اپنے نامحدود اختیارات بروئے کار لا سکتا ہے جیسا کہ یورپی تاریخ میں اس کی متعدد مثالیں قابل مشاہدہ ہیں۔ لہذا برطانوی نظام حکومت دراصل جمہوریت کی نقاب اوڑھے ایک فرسودہ سلطنتی نظام ہے
اربعین پیدل مارچ
ایران کی عراق کو برآمدات 14 بلین ڈالر تک جا پہنچیں۔ ایرانی ڈپٹی وزیر خارجہ
ایران کے خارجہ اقتصادی تعلقات کے ہیڈکوارٹر میں ترکمنستان میں ہونے والی ایرانی اشیاء کی نمائش اور عراق کے ساتھ تجارتی تعلقات کا جائزہ لینے کے لئے ایک اجلاس منعقد کیا گیا۔ اس اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مہدی صفاری نے کہا کہ نمائش کے انعقاد کے لئے پرائیویٹ سیکٹر اور ایرانی تجارتی ایلچی کی شرکت بہت اہم ہے۔
ایران ترکمنستان تجارتی تعلقات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے تجارتی امور میں نائب ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ ترکمنستان کو ایرانی تکنیکی اور انجینئرنگ خدمات کی فراہمی کے لئے ایک ایم او یو پر دستخط ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عراق کے ساتھ تجارتی تعلقات بہت اہمیت کے حامل ہیں اور ہم نے اس سال عراق کو تقریبا 14بلین ڈالر کی برآمدات کی ہیں۔
18 ہزار سے زائد پاکستانی زائرین سیستان و بلوچستان کی سرحدوں سے ایران میں داخل ہوگئے
زاہدان۔ ارنا- ایرانی صوبے سیستان و بلوچستان کے اربعین ہیڈکوارٹر کے ترجمان نے کہا ہے کہ اگست مہینے سے اب تک 18 ہزار 95 پاکستانی زائرین ریمدان اور میر جاوہ سرحدوں کے ذریعے اس صوبے میں داخل ہوکر وہاں سے کربلائے معلی کی زیارت کیلئے روانہ ہوگئے ہیں۔
"جواد قنبری" نے ہفتہ کے روز ارنا نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان میں سے 9 ہزار 593 افراد، دشتیاری شہر میں واقع ریمدان سرحدی گذرگاہ کے ذریعے اور 7 ہزار 226 افراد بھی میرجاوہ سرحدی گذرگاہ کے ذریعے صوبے سیستان و بلوچستان میں داخل ہوگئے ہیں اور اکثر بس کے ذریعے قم اور مشہد مقدس روانہ ہوگئے ہیں۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اب متعلقہ اداروں اور عوام کے مختلف گروہوں کے تعاون سے پاکستانی زائرین کی خدمات کی فراہمی کی جاتی ہے اور پچھلے چند مہینوں سے ریمدان اور میرجاوہ کی سرحدوں سے ایران میں 2 ہزار پاکستانی زائرین کی آمد کی منصوبہ بندی کی گئی تھی اور اور ضروری انفراسٹرکچر بالخصوص ریمدان کی سرحد پر تعمیر کیا گیا ہے۔
صوبے سیستان و بلوچستان کے اربعین ہیڈکوارٹر کے ترجمان نے کہا کہ رواں سال میں پہلی بار کیلئے ریمدان سرحد کو زائرین کے داخلے کیلئے تعین کیا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ میرجاوہ سرحدی گذرگاہ کے ذریعے آنے والے پاکستانی زائرین کی تعداد میں کورونا وائرس کے پھیلنے سے پہلے آخری داخلے کے مرحلے کے اسی عرصے کے مقابلے میں تقریباً 80 فیصد کمی آئی ہے، جس کی بڑی وجہ اس ملک کی حالیہ سیلاب ہے اور ہم ان سے گہری ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں۔
ایک صدی تباہی اور فساد کا اختتام
برطانیہ کی ملکہ الزبتھ دوم اس دنیا سے رخصت ہو چکی ہیں لیکن ان کی ستر سالہ سلطنت ایسے مختلف انسان سوز اور مجرمانہ اقدامات سے بھری پڑی ہے جو ان کے یا ان کے ماتحت افراد کے حکم پر دنیا بھر کے مختلف مقامات پر انجام پاتے رہے ہیں۔ انہوں نے ایسے وقت اقتدار سنبھالا جب دنیا میں برطانیہ کو درپیش سب سے بڑا چیلنج ایران میں تیل اور گیس کے قدرتی ذخائر کو قومیانے کی تحریک تھی۔ ایرانی قوم خدا کی جانب سے عطا کردہ حق یعنی تیل اور گیس کے قدرتی ذخائر کو بوڑھی لومڑی برطانیہ کے تسلط سے آزاد کروانے کی جدوجہد میں مصروف تھی۔ ملکہ الزبتھ دوم کے اقتدار کے ابتدائی سالوں میں ہی ان کی انٹیلی جنس ایجنسی کے ایجنٹس نے امریکی حکام کے تعاون سے ایران میں عوامی مینڈیٹ کی حامل جمہوری حکومت کو گرانے کیلئے بغاوت کی منصوبہ بندی انجام دی۔
ایران میں یہ جمہوری حکومت ڈاکٹر مصدق کی سربراہی میں برسراقتدار تھی اور امریکہ اور برطانیہ کی نظر میں اس کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ ملک میں موجود تیل اور گیس کے ذخائر کو قومیانے کی کوشش کر رہے تھے۔ 19 اگست 1953ء کو انجام پانے والی اس بغاوت کے نتیجے میں ڈاکٹر مصدق کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا اور یوں برطانیہ اور امریکہ کو ایرانی تیل کے ذخائر کی لوٹ مار کرنے کیلئے مزید 25 برس کا موقع میسر ہو گیا۔ جب برطانیہ میں ملکہ الزبتھ دوم کی فرمانروائی کا دور شروع ہوا تو دوسری عالمی جنگ کے نتیجے میں برطانیہ کی معیشت تباہ حال ہو چکی تھی۔ لہذا اس نے مجبور ہو کر استعماری طاقت کا ایک حصہ امریکہ کے سپرد کر دیا۔ اگرچہ اس عرصے میں برطانیہ بتدریج اپنی کالونیاں کھوتا چلا گیا لیکن اس نے اپنا اثرورسوخ ہر گز کم نہیں ہونے دیا۔
ایسی صورتحال میں برطانیہ نے عالمی سیاست کے میدان میں درپردہ رہ کر بالواسطہ طور پر اثرورسوخ استعمال کرنے کی حکمت عملی اپنا لی۔ اگرچہ برطانیہ بظاہر سویز کے اکثر مشرقی حصوں سے دستبردار ہو گیا لیکن اس کے بعد بھی برطانیہ کی ان گذشتہ کالونیوں میں برطانوی حکومت کی مرضی کے بغیر اہم فیصلہ جات انجام نہیں پاتے تھے۔ عملی طور پر "دولت مشترکہ ممالک" یا Commonwealth countries وہ کوڈ ورڈ تھا جو ملکہ برطانیہ کے استعماری تسلط کیلئے بروئے کار لایا جاتا تھا۔ جس جگہ بھی حریت پسند انسان بوڑھی لومڑی برطانیہ کے اثرورسوخ کے مقابلے میں مزاحمت کرنے کا فیصلہ کرتے تھے انہیں ملکہ برطانیہ کی مسلح افواج کی جانب سے آہنی ہاتھ کا سامنا کرنا پڑ جاتا تھا۔ 1960ء کے عشرے میں یمن کے انقلابی عوام نے آبنائے باب المندب پر قبضہ کر لیا۔ برطانوی حکومت حرکت میں آ گئی اور انقلابی عناصر کی پکڑ دھکڑ کا کام شروع ہو گیا۔
یمن میں انقلابی تحریک کو کچلنے کیلئے ٹارچر سیل تشکیل دیے گئے۔ انقلابیوں کو برہنہ کر کے فریزر والے کمروں میں ڈال دیا جاتا تھا جس کے نتیجے میں ان کی بڑی تعداد ٹی بی کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلی گئی۔ قیدیوں کے جسم کو سگریٹ سے جلانا، انہیں برہنہ کر کے نیزے پر بٹھانا، ان سے جنسی زیادتی انجام دینا وغیرہ وہ انسان سوز جرائم تھے جو ملکہ الزبتھ دوم کی زیر نگرانی انجام پاتے تھے۔ سمندر کے اس پار کینیا وہ ملک تھا جس کی عوام نے اپنے قدرتی ذخائر پر اپنی خودمختاری قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ ابھی وہاں انقلابی تحریک کا آغاز نہیں ہوا تھا کہ برطانوی استعمار نے محض انقلاب کے خوف سے 15 لاکھ افراد کو بیگاری کے کیمپوں میں قیدی بنا دیا۔ ان کیمپوں میں کینیائی عوام سے زبردستی موت کی حد تک مزدوری کروائی جاتی تھی۔
بیگار کیمپوں میں قید افراد کی بڑی تعداد شدید حالات کو برداشت نہ کر سکی اور زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ بڑی تعداد میں مزدوروں کو برطانوی گماشتوں نے سزائے موت دے دی۔ تاریخی دستاویزات میں بیماری کا شکار ہو کر مرنے والے افراد کی تعداد 2 ہزار ذکر کی گئی ہے جبکہ خفیہ دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ کئی لاکھ افراد کو برطانوی گماشتوں نے قتل کر دیا تھا۔ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد برطانیہ نے محسوس کیا کہ ایران اس کے اثرورسوخ سے باہر نکلتا جا رہا ہے۔ لہذا ایران کے انقلابی اور مسلمان عوام کے خلاف طرح طرح کی سازشوں کا آغاز کر دیا۔ ملکہ برطانیہ کے گماشتوں کے مجرمانہ اقدامات کا سلسلہ صرف ایشیا اور افریقہ تک محدود نہیں بلکہ برطانوی تسلط کے خلاف اٹھنے والے یورپی عوام بھی اس کے شر سے محفوظ نہیں تھے۔
1970ء سے 2000ء تک شمالی آئرلینڈ میں ملکہ برطانیہ کے سپاہیوں نے تین سو سے زائد عام شہریوں کو قتل کیا۔ یہ سب عام شہری تھے اور برطانوی فوجیوں کیلئے کسی قسم کا خطرہ نہیں تھے۔ قتل ہونے والے افراد میں کیتھولک پادری، بوڑھی خواتین، بچے اور حتی بچیاں تک شامل تھیں۔ بعد میں ان تمام برطانوی سپاہیوں کو ملکہ برطانیہ نے معاف کر دیا۔ 1955ء سے 1959ء کے درمیان جزیرہ قبرص میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر برطانوی فوجیوں نے 3 ہزار سے زائد شہریوں کو قید کر کے شدید ترین ٹارچر کا نشانہ بنایا۔ پکڑے جانے والے افراد کو کسی عدالت میں پیش نہیں کیا جاتا تھا اور ملکہ برطانیہ کے گماشتے جس پر شک کرتے اسے اٹھا کر لے جاتے تھے۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد برطانیہ امریکہ کا اسٹریٹجک اتحادی بن گیا اور مغربی ایشیا میں فوجی جارحیت کے سلسلے کا آغاز ہو گیا۔
تحریر: محمد جواد اخوان
ناجائز صہیونی ریاست انسانی حقوق کے علمبرداروں کی خاموشی کے سائے میں صحافیوں کو قتل کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے
اس سے قبل الجزیرہ کی فلسطینی نامہ نگار شیرین ابو عاقلہ 11 مئی 2022 کو مغربی کنارے کے جنین پناہ گزین کیمپ پر صہیونیوں کے حملے کی خبر کی کوریج کرتے ہوئے پریس کور کی موجودگی کے با وجود اس کے فوجیوں کی براہ راست گولی لگنے سے شہید ہو گئی تھیں۔
غفران وراسنہ نامی 31 سالہ فلسطینی خاتون جو مقامی ریڈیو اسٹیشنوں میں کام کرتی ہیں، یکم جون کو جیل سے رہائی کے بعد الخلیل کے شمال میں واقع العروب پناہ گزین کیمپ کے دروازے پر اسرائیلی فوجیوں کی فائرنگ سے شہید ہوگئیں۔
مقبوضہ فلسطین میں میڈیا کے مختلف اداروں کے صحافیوں کے قتل سے متعلق دستیاب اعدادوشمار کے مطابق 1948 میں فلسطینی علاقوں پر قبضے کے بعد سے صہیونی فوج نے تمام بین الاقوامی معیارات اور میڈیا کے کام سے متعلق کنونشنز کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے بحران کے علاقوں میں 72 صحافیوں کو قتل کیا ہے۔.
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق، اس ملک کے مختلف ذرائع ابلاغ کے صحافیوں کو ہمیشہ دو اطراف سے خطرات لاحق رہتے ہیں، جن میں سے ایک صہیونی فوج اور دوسرا انتہا پسند صہیونیوں (حریدی) کی طرف سے ہے۔
صہیونیوں کی میڈیا سرگرمیوں کے دوران صحافیوں کے لیے ایک اور خطرہ ان کی گرفتاری اور قید کے علاوہ تشدد اور دیگر قسم کے ناروا سلوک ہیں۔
فلسطینی صحافیوں کی حمایت کرنے والی کمیٹی کی جانب سے 6 ستمبر کو ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ناجائز صہیونی ریاست کی جیلوں میں تین خواتین سمیت مختلف میڈیا اداروں کے 21 صحافی قید ہیں۔
اس کمیٹی کے بیان کے مطابق، آزادی صحافت کی ضمانت دینے والے بین الاقوامی معاہدوں کے باوجود حراست میں لیے گئے صحافیوں کے خلاف نسل پرستانہ قوانین کے تحت فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلایا جاتا ہے اور انہیں ہر قسم کے جبر اور نفسیاتی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے جن میں خاندان کے دورے اور علاج شامل ہیں۔
صہیونی فوج کی جانب سے میڈیا کے صحافیوں کی مستقل نظربندی اور فوجی عدالتوں میں ان کا مقدمہ چلانے کے علاوہ صہیونی فوج مقبوضہ فلسطین میں صحافیوں کو ان کی پیشہ وارانہ سرگرمیوں کے دوران عارضی طور پر گرفتار بھی کرتی ہے۔
اس سلسلے میں صہیونی فوج نے 3 ستمبر کو الخلیل کے شمال مشرق میں تسنیم نیوز ایجنسی کے نامہ نگار منتصر نصار اور ان کی فوٹوگرافی ٹیم کو عارضی طور پر گرفتار کر لیا۔
مقبوضہ فلسطین میں فریڈم سینٹر کی ڈائریکٹر حلمی الاعرج نے صحافیوں کے قتل اور گرفتاری کے حوالے سے کہا کہ صہیونی اہلکاروں کو مقبوضہ فلسطین میں صحافیوں کے خلاف جرائم کی سزا ملنی چاہیے۔
انہوں نے ان جرائم کی دستاویز کرنے اور انہیں بین الاقوامی فوجداری عدالت میں پیش کرنے میں فلسطینی عوام کے کردار کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہا کہ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ انہوں نے جرم کیا ہو، اسرائیلی صحافیوں کو قتل کرنے کی ایک طویل تاریخ ہے۔
فلسطین میں آزادی کے مرکز کے ڈائریکٹر نے اس بات پر زور دیا کہ اقوام متحدہ سمیت تمام بین الاقوامی اداروں کو صحافیوں کے خلاف اسرائیل کے غیر قانونی اقدامات اور جنگی مجرموں کے خلاف قانونی کارروائی کے حوالے سے اپنی قانونی ذمہ داریاں پوری کرنی چاہئیں۔
الاعرجی نے کہا کہ بدقسمتی سے صہیونیوں کے تمام جرائم کے باوجود ہم بین الاقوامی برادری کی خاموشی کے ساتھ ساتھ اسرائیلی جنگی جرائم کے حوالے سے بین الاقوامی اداروں کے دوہرے معیار کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔
اسرائیل کے جرائم اور صحافیوں کے خلاف کارروائیاں ہو رہی ہیں جبکہ اس ریاست نے اس فلسطینی نژاد امریکی صحافی کے قتل کے حوالے سے ابو عاقلہ کی شہادت اور اس کے ہمہ گیر حمایتی کے طور پر امریکہ کی درخواست کے بعد کوئی وضاحت دینے سے انکار کر دیا ہے، اس معاملے پر امریکہ کی جانب سے تنقید کی گئی ہے۔
فلسطینی سیاست دان حنان عشراوی نے ٹوئٹر پر لکھا کہ واضح مبہم، غلط معلومات اور جھوٹ۔ شیریں ابو عاقلہ کے قتل کی ذمہ دار اسرائیلی فوج نے خود کو بری کرنے کا فیصلہ کیا۔
یہ اس وقت ہے جب اسرائیل نے پیر کو اعتراف کیا تھا کہ ایک فوجی نے صحافی شیرین ابو اکلے کو غلطی سے قتل کر دیا تھا۔
ہیومن رائٹس واچ کے اسرائیل اور فلسطین کے ڈائریکٹر عمر شاکر نے کہا کہ تمام شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ اسرائیلی فورسز نے ابو عاقلہ کو قتل کیا اور فوج کی رپورٹ ایک پردہ پوشی ہے۔