سلیمانی

سلیمانی

Wednesday, 21 April 2021 07:33

توبہ نصوح

کوئی بھی ماں نے اپنے بیٹے کو گناھگار پیدا نھیں کرتی، رحم مادر سے کوئی بچہ بھی عاصی او رخطاکار پیدا نھیںھوتا۔جب بچہ اس دنیا میں قدم رکھتا ھے تو علم و دانش اورفکر و نظر سے خالی ھوتا ھے، اور اپنے اطراف میں ھونے والے واقعات سے بالکل بے خبر رھتا ھے۔جس وقت بچہ اس دنیاکی فضا میں آتا ھے تو رونے اور ماں کا دودھ پینے کے علاوہ اور کچھ نھیں جانتا، بلکہ شروع شروع میں اس سے بھی غافل ھوتا ھے۔ لیکن آہستہ آہستہ اس میںاحساسات، خواہشیں اور شھوات پیدا ھونے لگتی ھیں، اپنے کارواں زندگی کو آگے بڑھانے کے لئے اپنے گھروالوںاور پھر باھر والوں سے سیکھتا جاتا ھے۔اسی طرح اس کی زندگی کے دوران اس کے بدن میں مختلف بیماریاں پیدا ھونے لگتی ھیں، اس کی فکر و روح، نفس اور قلب میں خطائیں ھوجاتی ھیں، اسی طرح عمل و اخلاق کے میدان میں گناھوںکا مرتکب ھونے لگتا ھے، پس معلوم یہ ھوا کہ گناہ بدن پر طاری ھونے والی ایک بیماری کی طرح عارضی چیز ھے، ذاتی نھیں ۔
انسان کے بدن کی بیماری طبیب کے تجویز کئے ھوئے نسخہ پر عمل کرنے سے ختم ھوجاتی ھے، بالکل اسی طرح اس کی باطنی بیماری یعنی فکر و روح اور نفس کی بیماری کا علاج بھی خداوندمھربان کے احکام پر عمل کرنے سے کیا جاسکتا ھے۔گناھگار جب خود کو پہچان لیتا ھے اور اپنے خالق کے بیان کردہ حلال و حرام کی معرفت حاصل کرلیتا ھے یقینااس روحانی طبیب کے نسخہ پر عمل کرتے ھوئے گناھوں سے توبہ کرنے پر آمادہ ھوجاتا ھے، اور خداوندمھربان کی ذات سے امید رکھتا ھے کہ وہ اس کو گناھوں کے دلدل سے باھرنکال دے گا اور پھر وہ اس طرح پاک ھوجاتا ھے جیسے شکم مادر سے ابھی پیدا ھواھو۔گناھگار یہ نھیں کہہ سکتا کہ میں توبہ کرنے کی طاقت نھیں رکھتا، کیونکہ جو شخص گناہ کرنے کی طاقت رکھتا ھے بے شک وہ توبہ کرنے کی طاقت بھی رکھتا ھے۔
جی ھاں، انسان کھانے پینے، آنے جانے، کہنے سننے، شادی کرنے، کاروبار میں مشغول ھونے، ورزش کرنے، زندگی گذارنے اور زورآزمائی کے مظاھرے پر قدرت رکھتا ھے، وہ اپنی خاص بیماری کی وجہ سے ڈاکٹر کے کہنے پر بعض چیزوں سے پرھیز بھی کرسگتا ھے اور بیماری کے بڑھنے کے خوف سے جس طرح کچھ چیزیں نھیں کھاتا، اسی طرح جن گناھوں میں ملوث ھے ان سے بھی تو پرھیز کرسکتا ھے، اور جن نافرمانیوں میں مبتلا ھے اس سے بھی تو رک سکتا ھے۔
خداوندعالم کی بارگاہ میں توبہ کی قدرت نہ رکھنے کا عذر و بھانہ کرنا قابل قبول نھیں ھے، اگر گناھگار توبہ کی قدرت نہ رکھتا ھوتا تو خداوندعالم کبھی بھی توبہ کی دعوت نہ دیتا۔
گناھگار کو اس حقیقت پر یقین رکھنا چاہئے کہ وہ ھر موقع و محل پر تركِ گناہ پر قادرھے، اور قرآنی نقطہ نظر سے خداوندعالم کی ذات گرامی بھی تواب و رحیم ھے، وہ انسان کی توبہ قبول کرلیتا ھے، اور انسان کے تمام گناھوں کو اپنی رحمت و مغفرت کی بنا پر بخش دیتا ھے اگرچہ تمام ریگزاروں کے برابر ھی کیوں نہ ھوں، اور اس کے سیاہ نامہ اعمال کو اپنی مغفرت کی سفیدی سے مٹادیتا ھے۔
گناھگار کو اس چیزکا علم ھونا چاہئے کہ اگر تركِ گناہ اور اپنے ظاھر و باطن کی پاکیزگی کے لئے قدم نہ اٹھائے اور گناہ و معصیت میں اضافہ کرتا رھے، تو پھر خداوندعالم بھی اس کو دردناک عذاب میں گرفتار کردیتا ھے اور سخت سے سخت عقوبت اس کے لئے مقرر فرماتاھے۔
خداوندعالم نے قرآن مجید میں خود کو اس طرح سے پہچنوایا ھے:
((غَافِرِ الذَّنْبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ شَدِیدِ الْعِقَاب))۔ 1
"وہ گناھوں کا بخشنے والا، توبہ کا قبول کرنے والا اور شدید عذاب کرنے والا ھے "۔
امام معصوم علیہ السلام دعائے افتتاح میں خداوندعالم کی اس طرح حمد و ثنا فرماتے ھیں:
"وَاَیْقَنْتُ اَنَّكَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ فِی مَوْضِعِ الْعَفْوِوَالرَّحْمَةِ، وَاَشَدُّ المُعَاقِبِینَ فِی مَوْضِعِ النَّکالِ وَالنَّقِمَةِ"۔
"مجھے اس بات پر یقین ھے کہ تو رحمت و بخشش کے مقام میں سب سے زیادہ مھربان ھے، اور عذاب و عقاب کے مقام میں شدید ترین عذاب کرنے والاھے"۔
اسی طرح خداوندعالم نے قرآن مجید میں گناھگاروں سے خطاب فرمایا ھے:
((قُلْ یَاعِبَادِی الَّذِینَ اٴَسْرَفُوا عَلَی اٴَنْفُسِهم لاَتَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللهِ إِنَّ اللهَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا إِنَّه هوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ))۔ 2
"(اے )پیغمبر آپ پیغام پہنچا دیجئے کہ اے میرے بندو! جنھوں نے اپنے نفس پر زیادتی کی ھے رحمت خدا سے مایوس نہ ھوں، اللہ تمام گناھوں کا
معاف کرنے والا ھے اور وہ یقینا بھت زیادہ بخشنے والا اور مھربان ھے"۔
لہٰذا ایک طرف خداوندعالم کا تواب و غفور ھونا اور دوسری طرف سے گناھگار انسان کا گناھوں کے ترک کرنے پر قادر ھونا اس کے علاوہ قرآن مجید کی آیات کا گناھگار انسان کو خدا کی رحمت و مغفرت کی بشارت دیناان تمام باتوں کے باوجود ایک گناھگار کو اپنے گناھوں کے ترک کرنے میں کوئی عذر و بھانہ باقی نھیں رہنا چاہئے، اسی لئے گناھگار کے لئے توبہ کرنا عقلی اور اخلاقی لحاظ سے "واجب فوری"ھے۔
اگر گناھگار توبہ کے لئے قدم نہ بڑھائے، اپنے گزشتہ کا جبران وتلافی نہ کرے اور اپنے ظاھر و باطن کو گناہ سے پاک نہ کرے، تو عقل و شرع، وجدان اور حکمت کی نظر میں اس دنیا میں بھی محکوم و مذموم ھے، اور آخرت میں بھی خداوندعالم کے نزدیک مستحق عذاب ھے۔ ایسا شخص روز قیامت حسرت و یاس اور ندامت و پشیمانی کے ساتھ فریاد کرے گا:
(( ۔ ۔ ۔ لَوْ اٴَنَّ لِی كَرَّةً فَاٴَكُونَ مِنْ الْمُحْسِنِینَ))۔ 3
"اگر مجھے دوبارہ واپس جانے کا موقع مل جائے تو میں نیک کردار لوگوں میں سے ھو جاوٴں "۔
اس وقت خداوندعالم جواب دے گا:
((بَلَی قَدْ جَائَتْكَ آیَاتِی فَكَذَّبْتَ بِها وَاسْتَكْبَرْتَ وَكُنْتَ مِنْ الْكَافِرِینَ))۔ 3
"ھاں ھاں تیرے پاس میری آیت یں آئی تھیں تو نے انھیں جھٹلا دیا اور تکبر سے کام لیا اور کافروں میں سے ھو گیا"۔
روز قیامت گناھگار شخص کی نجات کے لئے دین و عمل کے بدلے میں کوئی چیز قبول نہ ھوگی، اور اس کی پیشانی پر سزا کی مھر لگادی جائے گی:
((وَلَوْ اٴَنَّ لِلَّذِینَ ظَلَمُوا مَا فِی الْاٴَرْضِ جَمِیعًا وَمِثْلَه مَعَه لاَفْتَدَوْا بِه مِنْ سُوءِ الْعَذَابِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَبَدَا لَهم مِنْ اللهِ مَا لَمْ یَكُونُوا یَحْتَسِبُونَ))4
"اور اگر ظلم کرنے والوں کو زمین کی تمام کائنات مل جائے اور اتنا ھی اور بھی دیدیا جائے تو بھی یہ روز قیامت کے بدترین عذاب کے بدلے میں سب دیدیں گے، لیکن ان کے لئے خدا کی طرف سے وہ سب بھر حال ظاھر ھوگا جس کا یہ وھم و گمان بھی نھیں رکھتے تھے"۔
حضرت امیر المومنین علیہ السلام دعائے کمیل میں فرماتے ھیں :
خدا کی بارگاہ میں گناھگار کے توبہ نہ کرنے میں کوئی عذر قبول نھیں کیا جائے گا، کیونکہ خدا نے گناھگار پر اپنی حجت تمام کردی ھے:
" فَلَكَ الحُجةُ عَلَيَّ فی جَمیعِ ذٰلِكَ، وَلاٰحُجَّةَ لِی فِی مٰاجَریٰ عَلَيَّ فیه قَضٰاوُٴكَ"۔
"تمام معاملات میں میرے اوپر تیری حجت تمام ھوگئی ھے اور اسے پورا کرنے میں تیری حجت باقی نھیں رھی "۔

بندوں پر خدا کی حجت کے سلسلے میں ایک اھم روایت

"عبد الاعلیٰ مولیٰ آل سام کھتے ھیں : میں نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے سنا کہ آپ نے فرمایا: روز قیامت ایک حسین و جمیل عورت کو لایا جائے گا جس نے دنیا میں اپنے حسن و جمال کی وجہ سے گناہ ومعصیت کو اپنا شعار بنایا تھا، وہ اپنی بے گناھی ثابت کرنے کے لئے کھے گی: پالنے والے! تو نے مجھے خوبصورت پیدا کیا، لہٰذا میں اپنے حسن و جمال کی بنا پر گناھوں کی مرتکب ھوگئی، اس وقت جناب مریم (سلام اللہ علیھا) کو لایا جائے گا، اور کھا جائے گا: تو زیادہ خوبصورت ھے یا یہ باعظمت خاتون؟ ھم نے اس کو بھت زیادہ خوبصورت خلق فرمایا، لیکن پھر بھی انھوں نے اپنے کو محفوظ رکھا، برائیوں سے دور رھیں۔
اس کے بعد ایک خوبصورت مرد کو لایا جائے گاوہ بھی اپنی خوبصورتی کی بنا پر گناھوں میں غرق رھا، وہ بھی کھے گا: پالنے والے ! تو نے مجھے خوبصورت پیدا کیا، جس کی بنا پر میں نامحرم عورتوں کے ساتھ گناھوں میں ملوث رھا۔ اس وقت جناب یوسف (علیہ السلام) کو لایا جائے گا، اور کھا جائے گا: تو زیادہ خوبصورت ھے یا یہ عظیم الشان انسان، ھم نے انھیں بھی بھت خوبصورت پیدا کیا لیکن انھوں نے بھی اپنے آپ کو گناھوں سے محفوظ رکھااور فتنہ و فساد میں غرق نہ ھوئے۔
اس کے بعد ایک ایسے شخص کو لایا جائے گا، جو بلاء اور مصیبتوں میںگرفتار رہ چکا تھا اور اسی وجہ سے اس نے اپنے کو گناھوں میں غرق کرلیا تھا، وہ بھی عرض کرے گا: پالنے والے! چونکہ تونے مجھے مصیبتوں اور بلاؤں میں گرفتار کردیا تھا جس سے میرا حوصلہ اور استقامت جاتی رھی اور میں گناھوں میں غرق ھوگیا، اس وقت جناب ایوب (علیہ السلام) کو لایا جائے گااور کھا جائے گا: تمھاری مصیبتیں زیادہ ھیں یا اس عظیم انسان کی، یہ بھی مصیبتوں میں گھرے رھے، لیکن انھوں اپنے آپ کو محفوظ رکھا اور فتنہ وفساد کے گڑھے میں نہ گرے" 5

مؤلف: حسین انصاریان ذرائع: کتاب(توبہ آغوش رحمت )

1. (ورہٴ موٴمن (غافر)آيت 3۔ 
2. سورہٴ زمر آيت 53۔ 
3. سورہٴ زمر آيت، 58۔ 
4. سورہٴ زمر آيت، 59۔ 
5. سورہٴ زمر آيت، 47۔ 

:ایران کی سپاہ قدس کے کمانڈر جنرل اسماعیل قاآنی نے اصفہان میں شہید جنرل سید محمد حجازی کی تشییع جنازہ کے موقع پر کہا کہ آج استقامتی محاذ ایران سے لے کر لبنان ، شام ، فلسطین اور یمن تک پھیلا ہوا ہے اور محاذ استقامت  کے سپوت و جیالے جنھوں نے اس مکتب سے درس لیا ہے سبھی غاصب صیہونی حکومت کے مقابلے میں ایک بنیادی اقدام انجام دے رہے ہیں اور استقامت کا یہ راستہ امام زمانہ عج کی حکومت قائم ہونے تک جاری رہے گا۔
 سپاہ قدس کے کمانڈر نے زور دے کر کہا کہ یہ وہ راستہ ہے جس میں فتح و کامیابی کا وعدہ خود اللہ تعالی نے دیا ہے اور ہم پورے عزم و کامیابی کے ساتھ آگے کی جانب بڑھتے رہیں گے اور صرف اس وقت رکیں گے جب امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی عالمی حکومت تشکیل پاجائے۔
 جنرل اسماعیل قاآنی نے استقامتی محاذ کو مضبوط بنانے کے لئے شہید جنرل حجازی کی کوششوں کی جانب اشارہ کیا اور کہا کہ مقدس دفاع میں اہواز کی منتظران شہادت چھاؤنی سے لے کر کردستان کی بلند و بالا چوٹیوں اور قدس فوجی ہیڈکوارٹر تک ہر جگہ مثالی شخصیات اور آئیڈیل انسان موجود رہے ہیں جن میں سے ایک شہید حجازی تھے۔  
سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے شعبہ رابطہ عامہ نے اتوار کی رات ایک بیان جاری کر کے اعلان کیا تھا کہ سپاہ قدس کے ڈپٹی کمانڈر جنرل محمد حجازی جو صدام کی بعثی حکومت کے شیمیائی حملے سے متاثر تھے حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے درجہ شہادت پر فائز  ہوگئے ۔
 سپاہ قدس کے ڈپٹی کمانڈر جنرل سید محمد حجازی کی تشیع جنازہ منگل کو ایس او پیز کا خیال رکھتے ہوئے اصفہان کے کیڈٹ کالج کی کھلی فضاؤں میں انجام پائی ۔
اس موقع پر عسکری و سیاسی شخصیات  بھی موجود  تھیں  ۔
شہید جنرل حجازی سپاہ پاسداران کے ایک عظیم المرتبہ کمانڈر تھے آپ نے حزب اللہ لبنان اور استقامتی محاذ کو مضبوط بنانے میں نہایت نمایاں کردار کیا ہے ۔

ولایت پورٹل:عرب 48 ویب سائٹ  کی رپورٹ کے مطابق مقبوضہ بیت المقدس میں صہیونیوں سے وابستہ بلدیاتی عہدیداروں نے آج (منگل) کو قابض حکومت کے سکیورٹی اہلکاروں کے ساتھ مل کر ایک فلسطینی کو زیر تعمیر مکان منہدم کرنے پر مجبور کیا، رپورٹ کے مطابق اسرائیلی ایجنٹوں نے آج صبح امجد مسلم جعابیص نامی ایک فلسطینی کو البشیر کے علاقے میں اپنامکان منہدم کرنے پر مجبور کیا۔
 اس دوران ، صیہونیوں کا مقابلہ کرنےوالے پانچ فلسطینی نوجوان کو گرفتار کرلیا گیا،واضح رہے کہ  مقبوضہ بیت المقدس کی بلدیہ مکان تعمیر کرنے کی اجازت نہ لینے کے بہانے فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کررہی ہے جسے فلسطینیوں نے یہودی آبادکاری اور اپنی زمین پر قبضہ کرنے کا اقدام قرار دیا ہے ۔
 اسی دوران فلسطینی میڈیا کے مطابق  رمضان کے آغاز سے اب تک یروشلم کے 270 رہائشی مظاہروں کے دوران زخمی ہوئے ہیں اور 30 سے زائد فلسطینیوں کو حراست میں لیا گیا ہےجبکہ عرب 48 کے مطابق  1967 سے صہیونیوں نے مقبوضہ بیت المقدس میں 2 ہزار سے زائد فلسطینی مکانات کو تباہ کردیا ہے،تاہم صیہونیوں کی اس طرح کی درندگی پر اقوام متحدہ سمیت پوری عالمی برادری مجرمانہ طورپر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے دوسرے کچھ شیخ نشین عرب ریاستوں کے حکمرانوں نےفلسطینیوں کے حقوق کو پائمال کرتے ہوئے پوری عالم اسلام کی جانب سے لعنت کا طوق اپنے گلے میں ڈال کر صیہونیوں کے ساتھ تعلقات بحال کر لیے ہیں جن میں بحرین ،سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پیش پیش ہیں،ان کے اس اقدام سے صیہونی کی مزید ہمت بڑھ گئی ہے اور ہر طرح سے فلسطینیوں کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ انھیں معلوم ہے کہ عرب ہمارے ساتھ ہیں اور باقی ہمیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔

اے معبود! مجھے اس مہینے میں توفیق عطا کر کہ یتیموں پر مہربان رہوں، اور لوگوں کو کھانا کھلاتا رہوں، اور بزرگوں کی مصاحبت کی توفیق عطا کر، اے آرزومندوں کی پناہ گاہ۔

 اے معبود! اس مہینے کے دوران اس کے روزے اور شب زندہ داری میں میری مدد فرما، اور مجھے اس مہینے کے گناہوں اور لغزشوں سے دور رکھ، اور اپنا ذکر اور اپنی یاد کی توفیق جاری رکھنے کی توفیق عطا فرما، اپنی توفیق کے واسطے اے گمراہوں کے ہادی و  راہنما۔

 اے معبود! مجھے اس مہینے میں اپنی نافرمانی کے قریب جانے کی وجہ سے نظراندار کرکے تنہا نہ فرما اور مجھے اپنے انتقام کے تازیانوں سے مضروب نہ کر، اور اپنے غضب کے اسباب و موجبات سے دور رکھ، اپنے فضل و عطا اور احسان کے واسطے، اے راغبوں کی رغبت کی انتہا ۔

سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے رابطہ عامہ نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سپاہ قدس کے سربراہ کے جانشین جنرل سید محمد حسین زادہ حجازی کا دل کا دورہ پڑنے سے انتقال ہوگیا ہے۔ سپاہ نے اپنے بیان میں سپاہ کے مختلف شعبوں میں مرحوم جنرل حجازی کی شاندار خدمات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنرل حجازی کی سپاہ میں مخلصانہ ، ہمدردانہ اور مؤمنانہ خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ جنرل حجازی دفاع مقدس کے بعد سپاہ اور رضاکار فورس میں اہم عہدوں پر فائز رہے اور انھوں نے سپاہ میں گرانقدر خدمات انجام دیں۔ شہید میجر جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد سپاہ قدس کے سربراہ جنرل اسماعیل قاآنی کی تجویز پر سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے سربراہ میجر جنرل حسین سلامی نے جنرل حجازی کو سپاہ قدس کے سربراہ کا جانشین مقرر کیا تھا۔ اللہ تعالی مرحوم پر اپنی رحمت واسعہ نازل فرمائے۔

 امریکا کی ریاست منی سوٹا میں پولیس اہلکار کے ہاتھوں سیاہ فام کے قتل کیخلاف پرتشدد مظاہرے کیے گئے۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق مظاہرین نے گاڑیوں اور اسٹورز کو آگ لگا دی گئی، کئی افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ادھر ٹیکساس میں بھی پولیس کی مبینہ فائرنگ سے ڈرائیور اور مسافر ہلاک ہو گئے جبکہ ایک شہری زخمی ہو گیا۔

عادی سازی با اسرائیل یعنی سادہ الفاظ میں یوں سمجھ لیجیے کہ انبیاء علیہم السلام کی سرزمین مقدس پر قائم کی جانے والی صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا یا پھر اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنا۔ ریاستی سطح پر ان تعلقات کو سفارتی تعلقات کہا جاتا ہے کہ جس کے بعد آپس میں تجارت اور دفاع سمیت متعدد ریاست کے شعبہ جات میں دو طرفہ تعاون اور امداد کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ یہاں یقیناً نوجوانوں کے اذہان میں یہ سوال ضرور جنم لیتا ہو گا کہ آخر اسرائیل کے ساتھ تعلقات یا عادی سازی کی اس قدر مخالفت کیوں کی جاتی ہے۔؟ اس سوال کا سب سے آسان جواب یہ ہے کہ ہمیں یہ بات جان لینی چاہیئے کہ حقیقت میں اسرائیل کیا ہے۔؟ اسرائیل ایک ایسی ناجائز ریاست کا نام ہے، جو انبیاء علیہم السلام کی سرزمین مقدس فلسطین پر 1948ء میں غاصبانہ تسلط حاصل کرکے امریکی و برطانوی آشیر باد کے ذریعے مسلط ہوئی ہے۔ اسرائیل ایک ایسی ریاست کا نام ہرگز نہیں کہ جسے دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ تشبیہ دیا جا سکے۔

اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم نہ کرنے کی بات اس لئے بھی زیادہ کی جاتی ہے کہ ایک ایسی ناجائز ریاست جس کا وجود ہی غاصبانہ ہے اور اپنے قیام کے روز اول سے ہی نہ صرف فلسطین کے عوام کا قتل عام کرنے میں مصروف عمل ہے بلکہ فلسطین کے باہر کئی ایک ممالک میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں براہ راست ملوث ہے۔ اسرائیل کے بانیان کا یہ خواب ہے کہ وہ ایک عظیم تر اسرائیل قائم کریں کہ جس کی سرحدیں نیل سے فرات تک ہوں۔ اس کے لئے بنائے جانے والے نقشوں میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ بہرحال سادہ سا جواب یہ ہے کہ کیا کسی چور اور ڈاکو کہ جو آپ کے بھائی کے گھر میں زبردستی گھس گیا ہو اور آپ کے بھائی اور ان کے تمام اہل و عیال کو نکال باہر کیا ہو تو کیا اس چور اور ڈاکو کے ساتھ آپ دوستانہ تعلقات بنا کر زندگی گزارنا پسند کریں گے۔؟ یہی چور اور ڈاکو اسرائیل ہے، جو ہمارے بھائیوں یعنی فلسطینیوں کے گھر میں گھس چکا اور انہیں نکال باہر کیا ہے۔ لہذا اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات اور سفارتی تعلقات کا مطلب یہ ہوا کہ اسرائیل کے تمام غلط اور مجرمانہ اقدامات کو بھی تسلیم کیا گیا ہے۔

مسئلہ فلسطین ایک ایسا انسانی مسئلہ ہے کہ جو دنیا میں سب سے اولین درجہ کی اہمیت رکھتا ہے۔ فلسطین کے عوام کے ساتھ دنیا کی بڑی طاقتوں نے مشترکہ طور پر نا انصافی کی ہے۔ ان کی زمینوں پر اسرائیل کو قابض کیا گیا ہے۔ فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کیا گیا ہے۔ سب سے بڑھ کر مسلمانوں کا قبلہ اول جو مسلم امہ کے مابین اتحاد کی علامت سمجھا جاتا ہے، آج بھی صہیونیوں کی بدترین سازشوں کا نشانہ بن رہا ہے۔ قبلہ اول بیت المقدس وہ مقام ہے کہ جہاں شب معراج پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفیٰ (ص) مسجد الحرام سے یہاں تشریف لائے تھے اور یہاں اس مقام پر آپ (ص) نے انبیاء علیہم السلام کی امامت فرمائی۔ اب آئے روز صہیونی قبلہ اول کا تقدس پائمال کر رہے ہیں۔ شعائر اللہ کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ انبیاء علیہم السلام کے مقدس مقامات کی بے حرمتی کی جا رہی ہے۔

فلسطینی عوام کو بے دردی سے قتل و غارت کا نشانہ بنانے کا عمل گذشتہ ایک سو سالوں سے جاری ہے۔ کئی ایک جنگیں مسلط کی گئی ہیں۔ اسرائیل نے پڑوسی ممالک کی زمینوں پر بھی غاصبانہ تسلط قائم کر لیا ہے۔ داعش جیسے فتنہ کو اسرائیل ہی نے جنم دیا تاکہ خطے کو آگ و خون میں غلطاں کرکے اپنے ناپاک عزائم حاصل کرے۔ ان تمام تر معاملات اور وجوہات کے باوجود دنیا بھر کے مسلمانوں کے مابین مسجد اقصیٰ یعنی قبلہ اول بیت المقدس اور فلسطین باہمی اتحاد و یکجہتی کا مظہر رہا ہے۔ دنیا میں چاہے مسلمانوں میں آپس کے کچھ بھی اختلافات موجود ہوں، لیکن جب بھی بات انبیاء علیہم السلام کی مقدس سرزمین فلسطین کی ہو یا قبلہ اول بیت المقدس کی بات ہو تو مسلم امہ کے عوام متحد اور یکجا نظر آتے ہیں۔ اس کی کئی ایک مثالیں دنیا کے ممالک میں موجود ہیں کہ فلسطین و القدس کے پرچم تلے مسلمان اقوام آپس میں متحد و یکجا نظر آتی ہیں۔ اس قسم کے مشاہدات موجودہ دور میں ہمیں خود پاکستان کی سرزمین پر بھی مشاہدے میں آئے ہیں۔

عالمی استعمار اور اس کے شیطانی چیلے چاہے وہ براہ راست اسرائیل کی صورت میں ہوں یا یورپی و مغربی سامراج کی صورت میں ہوں، مسلم امہ کے مابین مسئلہ فلسطین سے متعلق پائے جانے والے اتفاق اور اتحاد سے خائف رہتے ہیں، کیونکہ مسلمان اقوام کا اتحاد اور وحدت ہی ایک ایسا ہتھیار ہے کہ جو دنیا کی ظالم و استکباری قوتوں کی ناک کو زمین پر رگڑ رہا ہے۔ اسلام و مسلمین کے دشمنوں نے گذشتہ چند سالوں میں متعدد مرتبہ جنگ کے میدانوں میں شکست کھانے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ مسلمانوں کے اتحاد اور وحدت کو پارہ پارہ کیا جائے تاکہ مغربی استعمار غاصب اسرائیل کے تحفظ سے متعلق کئے گئے وعدوں کو یقینی بنانے کے لئے اسرائیل کو یقین دلوا سکے۔

تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاءونڈیشن پاکستان

بدھ 14 اپریل کے دن ولی امر مسلمین امام خامنہ ای مدظلہ العالی نے تہران میں قرآن کریم سے متعلقہ سرگرمیاں انجام دینے والے افراد سے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے بعض اہم نکات کی جانب اشارہ کیا ہے۔ تحریر حاضر میں چند چیدہ چیدہ نکات قارئین کی خدمت میں پیش کئے جا رہے ہیں۔
1)۔ مختلف قرآنی موضوعات میں ہدایت پر مبنی موضوع کی اہمیت اور مقام
خداوند متعال نے ماہ مبارک رمضان کی اہمیت کو اجاگر کرنے کیلئے کئی چیزوں کی جانب اشارہ کیا ہے جن میں سے ایک اس مبارک مہینے میں قرآن کریم کا نازل ہونا ہے۔ سورہ بقرہ کی آیت 185 میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے: "شَهرُ رَمَضانَ الَّذی اُنزِلَ فیهِ القُرءان ۔۔۔" (رمضان ایسا مہینہ ہے جس میں قرآن نازل ہوا)۔ یہ شاید ماہ مبارک رمضان کا اہم ترین طرہ امتیاز ہے۔
 
دوسری طرف قرآن کریم کی بھی ہزاروں فضیلتیں پائی جاتی ہیں جن میں سے اکثر ایسی ہیں جنہیں ہماری عقل درک کرنے سے قاصر ہے۔ لیکن خداوند متعال نے ان تمام خصوصیات میں سے "ہدایت عطا کرنے" کی خصوصیت بیان کی ہے۔ سورہ بقرہ کی اسی آیت میں ارشاد ہوتا ہے: "۔۔۔۔ هُدًی لِلنّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِنَ الهُدیٰ وَ الفُرقان" (انسانوں کیلئے ہدایت اور ہدایت کی واضح دلیلوں کا حامل اور حق اور باطل کے درمیان فرق ظاہر کرنے والا ہے)۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ خصوصیات بہت زیادہ اہمیت اور اعلی مقام رکھتی ہے۔ خود قرآن کریم کا آغاز بھی ہدایت سے ہوتا ہے جیسا کہ سورہ حمد میں پڑھتے ہیں: "اِهدِنَا الصِّراطَ المُستَقیم" (خدایا ہمیں سیدھے راستے کی جانب ہدایت فرما)۔ اسی طرح سورہ بقرہ کے آغاز میں فرمایا: "ذٰلِکَ الکِتٰبُ لارَیبَ فیهِ هُدًی لِلمُتَّقین" (یہ ایسی کتاب ہے جس میں کوئی شک و شبہ نہیں اور متقین کیلئے ہدایت ہے)۔
 
2)۔ قرآن کریم کی ہدایت کا دائرہ انسانی زندگی کے تمام پہلووں پر حاوی
قرآن کریم کی ہدایت انسانوں کے ایک خاص گروہ کیلئے مخصوص نہیں ہے بلکہ پوری عالم بشریت کیلئے ہے۔ ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ قرآن کریم کی ہدایت انسانی زندگی کے ایک یا چند مخصوص پہلووں تک بھی محدود نہیں ہے۔ قرآن کریم انسان کی زندگی کے تمام پہلووں کیلئے ہدایت فراہم کرتا ہے۔ قرآن کریم نے انسانی زندگی کے کسی پہلو سے چشم پوشی نہیں کی۔ انسان کی روحانی ترقی سے لے کر انسانی معاشروں کی ضروریات، ان کی مدیریت، ان میں عدل و انصاف کے قیام اور انسان کے ظاہری اور باطنی دشمنوں سے مقابلے کیلئے جہاد پر تاکید کرنے، اخلاق، گھرانے کے امور، اولاد کی تربیت وغیرہ جیسے تمام موضوعات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
 
3)۔ قرآنی تعلیمات کو سمجھنے کیلئے تدبر کی ضرورت
قرآن کریم کا انداز عام انسانی کتب کی مانند نہیں کہ ایک فہرست پائی جاتی ہو اور مختلف ابواب پر مشتمل ہو۔ خداوند متعال نے قرآن کریم میں بعض جگہ ایک لفظ یا ایک اشارے کے ذریعے انسان کیلئے معرفت کے سمندر بیان کر ڈالے ہیں۔ لہذا اگر ہم قرآن کریم میں تفکر کریں، تدبر کریں اور اس کے مختلف پہلووں کا بغور جائزہ لیں تو بعض اوقات ایک لفظ سے وسیع مطالب حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ اسی طرح قرآن کریم میں جو مختلف واقعات کہانیوں کی صورت میں بیان ہوئے ہیں جن میں سے بعض انبیاء الہی کے بارے میں ہیں جبکہ بعض عام افراد کے بارے میں ہیں۔ ان تمام واقعات میں انسان کی ہدایت کا سامان موجود ہے۔ ان واقعات کے ذریعے ایسے مطالب بیان کئے گئے ہیں جو کلی ہیں اور ہر زمانے میں لاگو ہوتے ہیں۔
 
مثال کے طور پر سورہ آل عمران کی آیت 173 میں ارشاد ہوتا ہے: "الَّذینَ قالَ لَهُمُ النّاسُ اِنَّ النّاسَ قَد جَمَعوا لَکُم فَاخشَوهُم فَزادَهُم ایمانًا وَ قالوا حَسبُنَا اللهُ وَ نِعمَ الوَکیل" (وہ افراد جنہیں لوگوں نے کہا کہ لوگ تم سے جنگ کرنے کیلئے اکٹھے ہو چکے ہیں لہذا ان سے ڈریں، لیکن ان کے ایمان میں مزید اضافہ ہو گیا اور انہوں نے کہا کہ خدا ہمارے لئے کافی ہے اور وہ بہترین حمایت کرنے والا ہے)۔ یہ جنگ احد کے بعد کا واقعہ ہے۔ جب مسلمانوں کا لشکر ظاہری شکست کے بعد بہت زیادہ زخمیوں کے ہمراہ واپس آ رہا تھا۔ کچھ منافقین نے انہیں ڈرانے کی کوشش کی۔ رسول خدا ص نے صرف زخمیوں کو اپنے ساتھ لیا اور جا کر انہیں شکست دے دی۔ اس واقعہ سے حاصل ہونے والا سبق آج بھی ہمارے لئے مفید ہے۔ ہر زمانے کیلئے ہے۔
 
4)۔ تقوی، قرآن سے ہدایت حاصل کرنے کی لازمی شرط
اگرچہ قرآن کریم تک ہم سب کو رسائی حاصل ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم قرآن کریم سے بہرہ مند ہوتے ہیں؟ یا اس سے بہرہ مند ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن کریم نے تمام انسانوں کیلئے ہدایت پیش کی ہے لیکن ہم کس صورت میں اس ہدایت سے بہرہ مند ہو سکتے ہیں؟ قرآن کریم میں ارشاد خداوندی ہے: "هُدًی لِلمُتَّقین" (متقین کیلئے ہدایت ہے) ایک اور جگہ فرمایا: "هُدًی وَ رَحمَةً لِقَومٍ یُؤمِنون" (اہل ایمان کیلئے ہدایت اور رحمت ہے، سورہ اعراف)۔ ان آیات میں ہدایات کے مختلف درجات اور مراتب کی جانب اشارہ کیا گیا ہے۔ جب تقوی پایا جائے گا تو یہ ہدایت بھی ہمیں نصیب ہوتی رہے گی۔

تحریر: مصطفی ہادی