سلیمانی
زیارتِ اربعین اور مَشیِ عشق: فریب کے طوفان میں وفا کا پرچم
زائرین کے تاثرات سے یہ بات نمایاں ہوتی ہے کہ نجف کی فضا میں ایک ایسی روحانی خوشبو رچی بسی ہے جو دل و جان کو مہکا دیتی ہے۔ ان مقدس فضاؤں میں قدم رکھتے ہی دل پر ایک انوکھا سکون اتر آتا ہے اور آنکھوں میں عقیدت و محبت کے چراغ روشن ہو جاتے ہیں۔ حضرت علی علیہ السلام کے روضۂ اقدس کی زیارت کے بعد جب کوئی زائر کربلا کی سمت روانہ ہوتا ہے تو اس کے دل کی دھڑکنیں ایک نئے جذبے سے دھڑکنے لگتی ہیں۔ سوشل میڈیا کی بدولت آج یہ مبارک مناظر دنیا بھر کے عاشقانِ اہل بیت علیہم السلام کے لیے بآسانی قابلِ مشاہدہ ہیں۔ اگرچہ ہمیں اب تک اس سفرِ عشق کا شرف حاصل نہیں ہوا، مگر دل کی گہرائیوں سے دعا ہے کہ ہر عاشقِ امام حسین علیہ السلام کو یہ عظیم سعادت نصیب ہو۔ کیونکہ یہ محض ایک سفر نہیں بلکہ عشق کا اعلان اور اس تاریخ کا تسلسل ہے جو صدیوں سے ایمان و قربانی کی خوشبو بکھیر رہا ہے۔
تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ نجف تا کربلا مشی کی روایت کی بنیادیں کربلا کے اولین زائر حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضوان اللہ علیہ تک جا پہنچتی ہیں۔ واقعۂ عاشورا کے چالیس دن بعد، سنہ 61 ہجری میں انہوں نے اپنے غلام عطیہ کو ساتھ لیا اور فرات کے کنارے غسل کر کے کربلا پہنچے۔ امام حسین علیہ السلام کے مزار پر گریہ و سلام عرض کیا اور یوں اربعین کی زیارت کا آغاز ہوا۔ بعد کے ادوار میں عاشقانِ حسین علیہ السلام نے اسی سنت کو زندہ رکھا، چاہے حالات کٹھن ہوں یا راستے دشوار۔ بعثی حکومت کے دور میں اس مَشی پر پابندی لگا دی گئی۔ زائرین کو گرفتار کیا جاتا، مارا پیٹا جاتا اور بعض اوقات شہید کر دیا جاتا۔ مگر محبتِ حسین (ع) کی راہ میں یہ رکاوٹیں پہاڑ کی چوٹی پر بہتے چشمے کی طرح راستہ بدل کر بھی جاری رہتی رہیں۔ زیرِ زمین راستے، خفیہ قافلے اور چھپ چھپ کر کی گئی زیارت۔ یہ سب اس بات کا اعلان تھا کہ "حسین زندہ ہیں اور ان کے عاشق بھی"۔
ایک زائر کے بقول اب جب اربعین کا وقت آتا ہے نجف کی گلیوں سے کربلا کی سرزمین تک، تقریباً 80 کلومیٹر کا یہ فاصلہ ایک سمندرِ محبت میں بدل جاتا ہے۔ لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں زائرین۔ عرب و عجم، مشرق و مغرب۔ سفر کے ہر قدم پر ایک ہی نعرہ دہراتے ہیں "لبیک یا حسین"۔ راستے میں بچھے موکب، مٹی کے فرش پر دسترخوان، کھجوریں، چائے، پانی، سب کچھ بلا معاوضہ اور بلا تکلف۔ کوئی پاؤں دبانے کو جھک رہا ہے، کوئی زخم دھونے کو، کوئی دعا دینے کو۔ یہ وہ منظر ہے جو دنیا کی کسی اور تحریک یا اجتماع میں نظر نہیں آتا۔ یہاں رنگ، نسل، زبان اور قومیت سب مٹ جاتی ہے۔ صرف ایک نسبت باقی رہتی ہے: نسبتِ حسین علیہ السلام ۔
احادیث میں آیا ہے کہ اربعین کی زیارت مؤمن کی علامت ہے۔ امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا: مؤمن کی پانچ علامات ہیں، جن میں سے ایک اربعین کی زیارت ہے۔ آیت اللہ سید علی خامنہ ای مَشی اربعین کی اہمیت کے حوالے سے فرماتے ہیں: آج کے دور میں جب اسلام دشمن اور امتِ اسلامی کے دشمن مختلف طریقوں، ذرائع، مال، سیاست اور اسلحے کے ساتھ امتِ مسلمہ کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں، خداوند متعال ناگہانی طور پر اربعین کے اس عظیم مارچ کو ایسی عظمت عطا کرتا ہے، ایسا جلوہ عطا کرتا ہے۔ یہ خدا کی عظیم نشانی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے امتِ اسلامی کی نصرت کی علامت ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ اللہ کا ارادہ امتِ اسلامی کی مدد کے لیے محکم ہو چکا ہے۔
یہ سفر جسم کو تھکا دیتا ہے مگر روح کو جلا بخشتا ہے۔ ہر قدم گویا ایک آنسو بن کر کربلا کے خیموں تک پہنچتا ہے اور ہر لمحہ دل کے صحرا میں وفا کے پھول اگاتا ہے۔ مگر آج کل ایک نیا کھیل رچایا جا رہا ہے۔ ایک ایسا کھیل جس میں سفرِ عشق کی خوشبو میں فریب کی گند چھپائی جا رہی ہے۔ معلومات کے مطابق عاشورہ اور اربعین کے دنوں میں، جب ہزاروں زائرین عقیدت کے چراغ لیے عراق کی سرزمین کا رخ کرتے ہیں، اسی ہجوم کے بیچ ایک اور قافلہ بھی ہوتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نہ نجف و کربلا کے مسافر ہوتے ہیں اور نہ امام حسین علیہ السلام کے غم میں اشک بہانے والے۔ ان کا سفر محبت کا نہیں، مجبوری کا ہوتا ہے اور ان کے قافلہ سالار "انسانی اسمگلر" کہلاتے ہیں۔
باوثوق ذرائع کے مطابق عراقی بارڈر پر ایک عجب منظر بنتا ہے۔ عقیدت مند زائرین کو ایک طرف بٹھا دیا جاتا ہے، جیسے کوئی قافلہ راہ دیکھ رہا ہو اور دوسری طرف ایک الگ لاٹ تیار کی جاتی ہے۔ یہ "ڈنکی لگانے والے" جوان۔ جیسے ہی امیگریشن کے ساتھ ڈیل کا باب مکمل ہوتا ہے، سب سے پہلے یہ لاٹ سرحد پار لے جائی جاتی ہے اور زائرین اپنے کاغذات کے ساتھ ایک دوسرے کا منہ تکنے پر مجبور رہ جاتے ہیں۔ کہنے کو تو زمینی راستوں پر پابندی زائرین کے تحفظ کے لیے ہے، مگر پردے کے پیچھے کچھ اور ہی منظر ہے۔ کچھ زبانوں پر یہ بھی گلہ ہے کہ سفر عشق کے ٹکٹ بلیک میں بیچے جا رہے ہیں اور عقیدت کی گلی میں کاروبار کی منڈی سجائی جا رہی ہے۔
یہ داستان محض چند افراد کی بددیانتی نہیں بلکہ ایک آئینہ ہے جس میں ہم سب کی غفلت جھلک رہی ہے۔ عشق کی گلیوں میں فریب کے قدموں کی چاپ سنائی دے تو لازم ہے کہ چراغ تھامے کوئی سچ کا قافلہ نکلے۔ ورنہ ڈر ہے کہ کل یہ سفرِ عشق، سفرِ پریشانی بن کر رہ جائے گا۔ دھوکے بازوں اور فریب کاروں کی روک تھام کے لیے ضروری ہے کہ حکومتی ادارے اور اینٹی کرپشن کے محکمے مؤثر اور فوری اقدامات کریں۔ عوام کو بھی چاہیئے کہ ایسے عناصر کے جال میں نہ پھنسیں جو عقیدت کے نام پر ناجائز منافع کمانے اور انسانی اسمگلنگ جیسے جرائم میں ملوث ہوں۔ خصوصاً زائرینِ امام حسین علیہ السلام کو ہوشیار رہنا چاہیئے اور اگر کسی مشتبہ شخص یا سرگرمی کا مشاہدہ ہو تو فوراً متعلقہ حکومتی ذمہ داران کو اطلاع دیں تاکہ یہ سفرِ عشق اپنی پاکیزگی اور روحانیت کے ساتھ قائم رہے اور فریب کے سائے اس کے راستے کو آلودہ نہ کر سکیں۔
یہ مَشی صرف چلنا نہیں بلکہ ایک اعلان ہے کہ یزیدیت وقت کی قید میں نہیں اور حسینیت بھی زندہ و جاوید ہے۔ یہ دنیا کو بتاتا ہے کہ مظلوم کی یاد کو مٹایا نہیں جا سکتا اور حق کا چراغ صدیوں بعد بھی اسی طرح روشن رہتا ہے جیسے 61 ہجری میں تھا۔ نجف سے کربلا تک کا یہ عاشقانہ سفر اس بات کا عملی ثبوت ہے کہ محبتِ حسین(ع) محض ایک عقیدت نہیں بلکہ ایک زندہ تحریک ہے۔ ایسی تحریک جو نہ تلوار سے دبتی ہے، نہ وقت کی گرد میں کھو جاتی ہے۔
حجاب، عورت کے اسلامی اقدار اور انسانی کرامت کی علامت ہے
استاد مدرسہ علمیہ صدیقہ کبریٰ (س) شہر بہار محترمہ خدیجہ جواہری موحد نے ہفتۂ عفاف و حجاب کے موقع پر حوزہ نیوز کے نمائندہ سے گفتگو کرتے ہوئے اسلامی معاشرے کی ثقافتی شناخت کے تحفظ میں مسلمان خاتون کے کلیدی کردار کی طرف اشارہ کیا اور حجاب کے تہذیبی پہلوؤں کی وضاحت کی۔
انہوں نے کہا: حجاب، مسلمان عورت کی اسلامی اقدار، انسانی کرامت اور ثقافتی شناخت سے وابستگی کی گہری علامت ہے۔ یہ لباس نہ صرف مغرب کی ثقافتی یلغار کے مقابلے میں آزادیِ ثقافت کا اظہار ہے بلکہ عورت کی شخصیت اور سماجی مقام کی حفاظت بھی کرتا ہے۔
استاد مدرسہ علمیہ صدیقہ کبریٰ (س) شہر بہار نے کہا: حجاب، عورت کو ایک قابل احترام فرد کے طور پر متعارف کراتا ہے، اسے معاشرے میں ایک آلہ کے طور پر دیکھے جانے سے آزاد کرتا ہے اور ایک محترم شناخت رکھنے والے شخص کے طور پر متعارف کرواتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا: مسلمان خاتون جب حجاب اختیار کرتی ہے تو وہ یہ دکھاتی ہے کہ یہ ایک باوقار، باشعور اور آزاد فیصلہ ہے جو اس کے عزتِ نفس سے جنم لیتا ہے۔ باحجاب عورت، علمی، ثقافتی اور سماجی میدانوں میں فعال کردار ادا کرتے ہوئے دنیا کو یہ واضح پیغام دیتی ہے کہ عورت ہونا جنسی اظہار کا نام نہیں بلکہ عزت، وقار اور خودمختاری کا آئینہ دار بھی ہو سکتا ہے اور یہ سب کچھ کرامت پر مبنی پوشش میں جلوہ گر ہو سکتا ہے۔
وزیرخارجہ عراقچی: اگردوبارہ جارحیت کی گئی تو ہمارا جواب بہت محکم ہوگا
وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے فاکس نیوز سے انٹرویو کے بعد ٹرمپ اور دیگر امریکی عہدیداروں کی دھمکیوں کے جواب میں کہا ہے کہ ایران اچھی طرح جانتا ہے کہ حالیہ امریکی اسرائیلی جارحیت میں ہمارے ساتھ کیا ہوا ہے اور ہمارے دشمنوں پر کیا گزری ہے اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ہمارے وار کس حدتک سنسر کئے گئے اور انہیں چھپایا گیا۔
ایران کے وزیر خارجہ نے خبردار کیا ہے کہ اگر جارحیت کی تکرار کی گئی تو ہمارا جواب اتنا محکم ہوگا کہ اس کو چھپانا ممکن نہیں ہوگا۔
وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے اسی کے ساتھ کہا ہے کہ دس لاکھ ایرانیوں کو نیوکلیئر میڈیسین کی ضرورت ہے جو تہران کے تحقیقاتی ری ایکٹر میں تیار ہوتی ہیں اور یہ ری ایکٹر جو امریکا نے بنایا تھا، 20 فیصد افزودہ یورینیئم سے کام کرتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ اسی کے ساتھ ایران کو اپنے نئے ایٹمی ری ایکٹروں کا ایندھن تیار کرنے کے لئے یورینیئم کی افزودگی کی ضرورت ہے۔
پاکستانی وزیر خارجہ: اسرائیل کو تسلیم کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں
- پاکستان کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ نے ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت اور ناجائز صیہونی قبضے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام آباد کا اسرائیل کو تسلیم کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔
منگل کو ارنا کے نامہ نگار کے مطابق سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے اقوام متحدہ میں فلسطین سے متعلق بین الاقوامی کانفرنس کے بعد نیویارک میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ فلسطین کے بارے میں ہماری پالیسی واضح ہے، ہم اسرائیل (حکومت) کے قبضے کی مخالفت کرتے ہیں اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے حامی ہیں۔
انہوں نے فلسطینی ریاست کو اقوام متحدہ میں مستقل رکنیت دینے کا بھی مطالبہ کیا۔
اسرائیل کے ساتھ امریکی قیادت میں مفاہمتی منصوبے کے حوالے سے پاکستانی وزیر خارجہ نے کہا کہ اسلام آباد کا اسرائیل (حکومت) کو تسلیم کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔
انہوں نے اس سے قبل اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں فلسطین پر بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ فلسطینی زمینوں پر قبضہ ختم ہونا چاہیے۔ انہوں نے تاکید کی کہ اب آزادی، حق خود ارادیت، اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا وقت آن پہنچا ہے۔
ارنا کے مطابق، فلسطین پر بین الاقوامی کانفرنس سعودی عرب اور فرانس کی مشترکہ صدارت میں پیر کے روز نیویارک میں منعقد ہوئی۔
"مسئلہ فلسطین کے پرامن اور دو ریاستی حل کے نفاذ کے بارے میں اعلیٰ سطحی بین الاقوامی کانفرنس" کا مقصد ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت اور دیرپا امن کے امکانات کو بڑھانے کے لیے ایک مخصوص فریم ورک تشکیل دینا ہے۔
استادِ جامعہ الزہراء محترمہ شریعت ناصری کی حوزہ نیوز سے گفتگو: حضرت زینب؛ ظلم کے خلاف جہادِ تبیین کی اعلٰی نمونہ ہیں
محترمہ زہرہ شریعت ناصری نے حوزہ نیوز کے خبر نگار سے گفتگو کرتے ہوئے سورۂ نحل کی آیت 125 «ادْعُ إِلَیٰ سَبِیلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِی هِیَ أَحْسَنُ ۖ إِنَّ رَبَّکَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیلِهِ ۖ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِینَ؛ (لوگوں کو) حکمت اور نیک نصیحت کے ساتھ اپنے پروردگار کے راستے کی طرف بلاؤ اور ان سے بہترین طریقے سے بحث کرو! یقیناً تمہارا پروردگار ان لوگوں کے بارے میں زیادہ جانتا ہے جو اس کی راہ سے بہک گئے ہیں اور ان کے بارے میں بھی علم رکھتا ہے جو ہدایت یافتہ ہیں، کہا کہ جہادِ تبیین ایک مسلسل دینی ذمہ داری ہے جس میں مواد (حقیقت کی وضاحت) اور طریقہ دونوں اہم ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ نحل کی آیت 125 میں روش کو بِالْحِکْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ کے طور پر بیان کیا ہے۔
انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ قرآن کی آیات کے مطابق، حق کو چھپانا اور تحریفات کے سامنے خاموش رہنا جہادِ تبیین کے خلاف ہے، مزید کہا کہ رہبرِ انقلابِ اسلامی حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی حسینی خامنہ ای مدظلہ نے درمیانی حلقوں (عوام اور حکومت کے مابین رابطے کرنے والوں) کو اسلامی نظام کے افکار، اقدار اور ہدایات کے منتقلی کے عمل میں اہم حصہ قرار دیا ہے، جو رہبر سے عوام تک پہنچتا ہے۔
جامعہ الزہراء (س) کے اسلامی مطالعاتی مرکز کی سربراہ نے درمیانی حلقوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ "حلقۂ میانی سے مراد وہ ادارے، گروہ اور افراد ہیں جیسے کہ حوزہ اور یونیورسٹی کے اساتذہ، انتظامی حکام، ثقافتی ادارے، علمائے کرام وغیرہ، جو رہبر انقلاب اور عوام کے درمیان رابطے کا کام کرتے ہیں اور ان کی اہم ترین ذمہ داری آگاہی فراہم کرنا (جہادِ تبیین) ہے۔ یہ افراد نظام کی کلیدی پالیسیوں کو مناسب طریقے سے عوام تک پہنچانے کا کام کرتے ہیں۔
انہوں نے درمیانی حلقوں کے فرائض پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کا کردار جہادِ تبیین میں اہم ہے، جو ایران کی سیاست کا حصہ ہے۔ رہبرِ انقلابِ اسلامی نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ درمیانی حلقوں کو شفاف، آگاہی دینے والا اور توانائی دینے والا ہونا چاہیے، تاکہ وہ انقلاب کے راستے پر بصیرت والے افراد تربیت کر سکیں۔
محترمہ شریعت ناصری نے عوام اور حکومت کے درمیانی حلقوں کا دوسرا اہم فرض انحراف اور تحریف کی روک تھام کو قرار دیا اور کہا کہ بعض اوقات درمیانی حلقوں میں کمزوری یا انحراف کی وجہ سے نظام یا رہبر کے پیغام کی درست تفہیم نہیں ہو پاتی۔ اس کے علاوہ دشمنانِ داخلی و خارجی کی جانب سے تحریفات کو بھی روکنا حلقہ میانی کی ذمہ داری ہے۔ تیسرا اہم فریضہ ملک کی ترقی میں معاونت کرنا ہے۔ اس میں اساتذہ، غیر معمولی صلاحیت کے حامل افراد، عوامی تنظیمیں، حکومت اور پارلیمنٹ شامل ہیں، جو عوام تک انقلاب کے پیغام کو پہنچانے کا کام کرتے ہیں۔ یہ افراد رہبرِ انقلاب کے فرامین کو عوام میں قابلِ فہم بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان افراد کی ایک اور ذمہ داری نفسیاتی جنگ اور افواہوں کا مقابلہ کرنا ہے۔ دشمن افواہ اور تحریفات کے ذریعے عوام کا اعتماد کمزور کرنے کی کوشش کرتا ہے، جس پر دینی و تعلیمی ماہرین کو کام کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے مواد تخلیق کرنے، آرٹس کے ذریعے پیغام پہنچانے اور نوجوانوں کو نظام کی اہمیت سے آشنا کروانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ درمیانی حلقوں کو حضرت زینب (س) کی طرح بے خوف ہو کر حقیقت کو بیان کرنا چاہیے اور انحرافات کا مقابلہ کرنا چاہیے۔
محترمہ شریعت ناصری نے دشمن کے مقابلے میں حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے کردار پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ حضرت زینب (س) کے خطبات سے یہ سبق ملتا ہے کہ براہِ راست لوگوں اور ذمہ داران سے بات کرنا بہت مؤثر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، جب حضرت زینب (س) نے کوفہ میں خطبہ دیا تو وہاں کے لوگ جو کہ عہد شکن میں معروف تھے؛ آنحضرت نے جذباتی انداز اپنایا اور سیدھا ان سے مخاطب ہو کر خطاب فرمایا، جبکہ شام کے خطبے میں مخاطب سرکاری لوگ، سفیر اور قبیلوں کے سردار تھے، اس لیے حضرت زینب (س) نے استدلالی اور منطقی انداز میں اپنی خطاب فرمایا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ کربلا کی جنگ میں ظاہری شکست ہوئی تھی، مگر حضرت زینب (س) نے اقتدار اور ہمت کے ساتھ خطبہ دیا، لہٰذا آج کربلا کی زندگی آنحضرت کی اس ثابت قدمی کا نتیجہ ہے۔ جب یزید نے اپنے اشعار میں اپنے بزرگوں کو مخاطب کر کے کہا کہ تم نہیں دیکھ سکتے کہ میں نے خاندانِ رسول (ص) سے انتقام لیا تو حضرت زینب (س) نے یزید کی شوم قسمت اور گناہوں کو بڑھانے کے لیے مہلت دینے کی روایت کو یاد دلایا۔
جامعہ الزہرا (س) کی استاد نے بیان کیا کہ حضرت زینب (س) نے عبیداللہ کے دربار میں مختلف طریقوں سے، جیسے شاعری، رونا اور مناظرے کے ذریعے گفتگو فرمائی اور بغیر اجازت بیٹھ گئیں اور جب عبیداللہ نے تمسخر کیا کہ دیکھا کہ خدا نے تیرے بھائی کے ساتھ کیا کیا؟ تو حضرت زینب (س) نے جواب دیا: ما رایت الا جمیلا" یعنی میں نے خوبصورتی کے سوا کچھ نہیں دیکھا، اس کا مطلب ہے کہ خدا کے راستے میں موت بھی خوبصورت ہے۔
انہوں نے میڈیا کے اہم موضوعات میں کردار پر بات کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا مختلف اقسام کا حامل ہے۔ بعض میڈیا ادارے اپنے قیام کے دوران ہی اہم موضوعات کو اپنے اہم عناصر میں شامل کرتے ہیں، جن میں حوزه نیوز ایجنسی شامل ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جو خبریں اور واقعات معاشرتی سطح پر رونما ہوتے ہیں، وہ بڑی حد تک درمیانی حلقوں کی پوزیشن اور ان کے میڈیا میں نشر ہونے کا نتیجہ ہوتے ہیں۔
جامعہ الزہراء (س) کے اسلامی مطالعاتی مرکز کی سربراہ نے کہا کہ نیٹ ورک سازی مختلف طبقات کے لوگوں سے رابطہ قائم کرنے کا ایک اہم طریقہ ہے اور اس میں پائیداری ضروری ہے۔ صرف روایتی طریقوں تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔ میڈیا اور تعلقات عامہ کے نئے طریقے اختیار کر کے ہی مختلف گروپوں تک پہنچا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج 12 روزہ مسلط کردہ جنگ نے نوجوانوں کے ساتھ جڑنے کا موقع فراہم کیا ہے، کیونکہ جو نوجوان پہلے حکومت کی فکروں سے دور ہو گئے تھے، وہ آج آگاہ ہو کر میدان میں آگئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ آج مختلف گروپوں کی شناخت اور ان کی ضروریات کے مطابق میڈیا کے مختلف طریقوں کا استعمال کرنا ضروری ہے۔
محترمہ شریعت ناصری نے معاشرے امید کو اجاگر کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے سخت ترین حالات میں بھی امید کا دامن تھامے رکھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ رہبرِ انقلابِ اسلامی بھی معاشرتی امید کی ترویج پر زور دیتے ہیں، کیونکہ آج کل کے بعض نوجوان، جو کہ سوشل میڈیا کی منفی فضا سے متاثر ہیں، اپنے مستقبل کے حوالے سے مایوس ہیں۔ اس میں میڈیا کی اہمیت ہے کہ وہ ایسے پروگرام تیار کرے جو معاشرتی امید کو بڑھا سکیں۔
انہوں نے کہا کہ عام حالات میں کچھ لوگ مسائل کے بارے میں بے پرواہ ہو سکتے ہیں، لیکن جب اہم واقعات رونما ہوتے ہیں تو سب لوگ ایک دوسرے کے قریب آ جاتے ہیں۔ ہمیں عقل و جذبات کا توازن رکھنے والے لوگوں کے ساتھ رابطہ کرنے کے لیے دونوں طریقوں کا استعمال کرنا چاہیے۔
بچوں کی خوشی والدین کے لئے نور بہشت کا باعث
قال رسول اللہ صلی الله علیه وآله:
مَن قَبَّلَ وَلدَهُ كَتَبَ اللّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَهُ حَسَنَةً، وَمَن فَرَّحَهُ فَرَّحَهُ اللّهُ يَومَ القِيامَةِ، وَمَن عَلَّمَهُ القُرآنَ دُعِيَ بالأبَوَينِ فَيُكسَيانِ حُلَّتَينِ يُضيءُ مِن نُورِهِما وُجُوهُ أَهلِ الجَنَّةِ.
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
جو شخص اپنے بچے کو بوسہ دے تو اللہ اس کے لیے ایک نیکی لکھتا ہے اور جو اسے خوش کرے اللہ قیامت کے دن اسے خوش کرے گا اور جو اسے قرآن سکھائے قیامت کے دن اس کے والدین کو دو نورانی لباس پہنائے جائیں گے جن کی روشنی سے اہلِ جنت کے چہرے بھی جگمگا اٹھیں گے۔
الکافی، ج 6، ص 49
اہل سنت علماء کا اعتراف: معاویہ کی فضیلت میں کوئی صحیح حدیث موجود نہیں!
علمی نشست "اہل بیتؑ کے مقابلے میں بنو امیہ کی سیاسی جماعت" میں بنو امیہ کے فکری پس منظر اور تاریخی جرائم پر گفتگو کی گئی، نیز اس بات کا جائزہ لیا گیا کہ قرآن نے اس خاندان کو "شجرۂ ملعونہ" کیوں کہا ہے؟
حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، "اہل بیتؑ کے مقابلے میں بنی امیہ کی سیاسی جماعت" کے عنوان سے منعقد ہونے والی سلسلہ وار تخصصی نشستوں کی پہلی نشست حوزہ علمیہ قم کے جید استاد اور "جامعہ مدرسین" کے رکن آیت اللہ نجمالدین طبسی کی موجودگی میں منعقد ہوئی۔ اس نشست میں بنی امیہ کی فکری بنیادوں، ان کے عملی کردار، معاویہ کی جانب سے اسلامی مفاہیم کی تحریف اور اموی جرائم پر مبنی تحقیقی آثار کا جائزہ لیا گیا۔
آیت اللہ نجمالدین طبسی، جو "مع الرکب الحسینی" اور "صوم عاشورا؛ بین السنة النبویة و البدعة الامویة" جیسے گرانقدر کتابوں کے مؤلف ہیں، نے اس نشست میں بعض اہم نکات بیان کیے جن کا خلاصہ درج ذیل ہے:
بنی امیہ اور خاص طور پر معاویہ کا تاریخی پس منظر
آیت اللہ طبسی نے کہا: بنی امیہ کو کبھی ایک سیاسی جریان کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور کبھی فردی سطح پر ان کے کردار کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ نہ صرف یہ کہ وہ حقیقی مسلمان نہیں تھے بلکہ امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے بیانات اور بزرگ علما جیسے علامہ مجلسیؒ کی معتبر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی عربی شناخت بھی جعلی تھی۔
بعض تاریخی تحقیقات کے مطابق بنی امیہ کا اصل نسب یورپی علاقوں، خصوصاً قدیم جرمنی سے تھا اور وہ بعد میں جزیرہ العرب میں آ بسے۔ ان کی ظاہری جسمانی علامات جیسے نیلی آنکھیں (زاغ چشمیں)، جو عربوں میں نایاب تھیں، اسی غیر عربی نسب کی دلیل ہیں۔
در حقیقت "امیہ" جسے اس خاندان کا جدّ اعلیٰ مانا جاتا ہے، ایک غلام تھا جسے جزیرہ العرب لایا گیا۔ امام علی علیہ السلام اور حضرت ابوطالب علیہ السلام سے منقول ہے کہ یہ لوگ عرب نہ تھے بلکہ عربوں میں داخل کر دیے گئے تھے، گویا جیسے آج کل کوئی "جعلی شہریت" حاصل کر لے۔
یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ان کے اسلام لانے میں بھی شدید شکوک و شبہات موجود ہیں۔
معاویہ کی حقیقت اہل سنت کی کتب کی روشنی میں
علامہ طبری اپنی مشہور کتاب تاریخ طبری میں نقل کرتے ہیں کہ بعض لوگوں کا یہ کہنا تھا کہ معاویہ زمانۂ رسول (ص) میں مسلمان تھا لیکن بعد میں منافق بن گیا۔ اس کے جواب میں آیا: نہیں! بلکہ وہ رسول خدا (ص) کے زمانے میں بھی کبھی مؤمن نہیں تھا، وہ ہمیشہ منافق ہی رہا، اور نبی کریم (ص) کی وفات کے بعد اپنے کفر اور بے دینی کا کھلم کھلا اظہار کیا۔
اسی طرح عمدة القاری (صحیح بخاری کی شرح) میں ایک روایت ہے کہ نبی اکرم (ص) نے خواب میں بنی امیہ کو بندروں کی شکل میں اپنے منبر پر چڑھتے دیکھا، جس سے نبی کریم (ص) اس قدر غمگین ہوئے کہ زندگی بھر پھر کبھی مسکراتے نظر نہ آئے۔ اس واقعے کے بعد سورہ اسراء کی آیت نازل ہوئی: "وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْیَا الَّتِی أَرَیْنَاکَ إِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِی الْقُرْآنِ"
امام صادق علیہ السلام نے تصریح فرمائی کہ اس آیت میں مذکور "شجرۂ ملعونہ" سے بنی امیہ مراد ہے۔
اہل بیتؑ کا بنی امیہ سے اختلاف
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: "ہمارا بنی امیہ سے اختلاف شخصی یا خاندانی نہیں بلکہ عقیدتی اور اصولی ہے۔ ہم اللہ کی خاطر ان سے ٹکراؤ رکھتے ہیں۔"
تاریخ گواہ ہے کہ:ابوسفیان نے رسول خدا (ص) سے جنگ کی،معاویہ نے امیرالمؤمنین (ع) سے،یزید نے امام حسین (ع) کو شہید کیا،اور آخری زمانے کا سفیانی بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
قرآن بنی امیہ کو "شجرۂ ملعونہ" کہتا ہے،امام حسینؑ نے معاویہ کو طاغوت اور امیرالمؤمنینؑ نے شیطان رجیم کہا – وہ شیطان جو اللہ کی رحمت سے محروم ہے اور انسان کو چاروں طرف سے گھیر لیتا ہے۔
ایک حدیث میں آیا ہے: جب ابوسفیان اونٹ پر سوار تھا، معاویہ آگے سے اونٹ کو کھینچ رہا تھا اور یزید پیچھے سے چل رہا تھا تو نبی اکرم (ص) نے فرمایا: "اللہ کی لعنت ہو اس پر جو اونٹ کو آگے سے کھینچ رہا ہے، جو پیچھے چل رہا ہے اور جو اس پر سوار ہے!"
شجرۂ ملعونہ: پوری امت کا متفقہ نظریہ
علامہ طبری، خلیفہ مأمون کے ایک خط میں لکھتے ہیں کہ امت اسلامیہ کا اس پر کوئی اختلاف نہیں کہ مذکورہ آیت "شجرہ ملعونه" بنی امیہ کے بارے میں نازل ہوئی۔
آیت اللہ طبسی نے کہا: "ایک تاریخ دان کی حیثیت سے میں کہتا ہوں کہ اگر حکومت مسلمانوں کے بجائے یہودیوں یا عیسائیوں کو دے دی جاتی، تو بھی وہ معاویہ جتنے ظلم و جنایت نہ کرتے۔"
قاضی نعمان کتاب مثالب میں لکھتے ہیں:"معاویہ نے اتنے مسلمانوں کو قتل کیا کہ اس کا شمار صرف اللہ جانتا ہے۔"
اگر نتانیاہو جیسے صہیونی مجرم نے دو سال میں ہزاروں بے گناہ فلسطینیوں کو قتل کیا، تو معاویہ نے یمن پر ایک حملے میں تیس ہزار مسلمانوں کو قتل کیا اور کئی دیگر علاقوں میں بھی قتل عام کروایا۔ یعنی اگر کسی یہودی کو اسلامی حکومت سونپی جاتی، تو بھی وہ معاویہ سے زیادہ انسانیت کا خون نہ بہاتا۔
بنی امیہ: ظلم، تکبر اور اخلاقی پستی کا مظہر
آیت اللہ طبسی نے کہا: "میں اس خاندان کی بات کر رہا ہوں جسے امام حسینؑ نے "طغاة"، یعنی طاغوتوں کا طاغوت اور امیرالمؤمنینؑ نے شیطان قرار دیا۔ یہ خاندان قتل و غارت، ظلم، تکبر، غرور، بے حیائی اور اخلاقی انحطاط کا پیکر ہے۔ کوئی اخلاقی رذیلت ایسی نہیں جس کا مظہر یہ نہ ہوں۔ان کا تشدد مشہور، اور ان کے جرائم بے شمار ہیں۔"
نہ اسرائیلی مظالم کا دفاع، نہ ظلم کے خلاف خاموشی
میرا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ اسرائیل جیسے مجرموں کی صفائی دوں خداوند ان کی جڑیں زمین سے اکھاڑ پھینکے اور ان پر ایسے لوگ مسلط کرے جو اُن پر ذرا بھی رحم نہ کریں!
لیکن جب ہم تاریخ پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ بنی امیہ جیسے خاندان کی جنایتیں اتنی ہولناک تھیں کہ آج جب ہم امریکہ اور نیتن یاہو جیسے مجرموں کے ظلم دیکھتے ہیں تو یقین آتا ہے کہ تاریخ میں بھی ایسے مظالم ممکن تھے۔
جرم کا انداز مختلف ہے، لیکن جرم باقی ہے
میں نے نہیں سنا کہ اسرائیلی فوجیوں نے کسی فلسطینی کو زندہ گرفتار کرکے ذلت آمیز کھیل یا مقابلے کا حصہ بنایا ہو۔ ہاں، وہ بمباری کرتے ہیں، ہزاروں کو شہید کرتے ہیں، لیکن بنی امیہ جیسے براہِ راست تذلیل اور زندہ مسخروں میں بدلنے جیسے مظالم شاید نہ کیے ہوں۔
کیا تاریخ خود کو دہرا رہی ہے؟
اگر آج امریکہ اور اسرائیل کے ظلم نہ ہوتے، تو شاید ہم یقین ہی نہ کرتے کہ تاریخ میں بھی ایسے ظلم ہو چکے ہیں۔ لیکن اب جب ان مظالم کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں تو ماضی کی حقیقتوں کو بھی بہتر سمجھ سکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بنی امیہ ظلم و ستم کی مکمل مثال تھے، اور آج بھی اُن کے پیروکار انہی راہوں پر گامزن ہیں۔
یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے مسلمانوں کا قتل عام رواج بنایا۔ یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے معصوم بچوں کے قتل کی قباحت مٹا دی۔
آج اگر ہزاروں فلسطینی بچے شہید ہو رہے ہیں، تو اس ظلم کی بنیاد اسی معاویہ اور اس کے قبیلے نے رکھی تھی۔
معاویہ: چار افراد کے درمیان مشکوک نسب کا بچہ!
تاریخی شواہد کے مطابق، معاویہ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس کی ولادت کے وقت چار مختلف افراد نے دعویٰ کیا کہ یہ میرا بیٹا ہے:عمارة بن ولید بن مغیرہ،مسافر بن عمرو،ابوسفیان اور ایک نامعلوم شخص جسے "صباح" کہا گیا۔
یعنی اگر آج کی زبان میں کہا جائے تو معاویہ "زنا سے پیدا ہونے والا ایک بچہ تھا، جس کے چار ممکنہ باپ تھے!"
یہ شرمناک حقیقت اس خاندان کے اندرونی فساد اور اخلاقی گراوٹ کو ظاہر کرتی ہے۔ اسی خاندانی بنیاد پر انہوں نے جنایت و ستم کی عمارت کھڑی کی، اور آج بھی ان کے وارث اسی راہ پر چل رہے ہیں۔
یہ اسلام دشمنی کہاں سے آئی؟
جب کسی کا نسب ناپاک ہو، اور خاندان حرام میں پلا بڑھا ہو، تو ایسے فرد سے کیا توقع کی جا سکتی ہے؟
یہ خاندان اسلام سے سخت عداوت رکھتا تھا۔
ابوسفیان نے اپنی زندگی کا ہر تیر اسلام کے خلاف چلایا۔
جنگِ خندق، احد اور مدینہ کا محاصرہ — سب انہی کے زیر سایہ تھا۔
کیا معاویہ مسلمان تھا؟ جھوٹ کا پردہ چاک
کچھ لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ معاویہ عمرۂ قضا یا خیبر سے پہلے مسلمان ہوا۔ لیکن یہ سب جھوٹ ہے۔ حتیٰ کہ خود معاویہ نے اپنے باپ ابوسفیان کو سرزنش کی کہ اگر تم اسلام لے آئے تو ہماری عزت خاک میں مل جائے گی!
اور یہ کہنا کہ وہ رسول خدا (ص) کے خلاف جنگوں میں شریک نہیں ہوا، سراسر جھوٹ ہے۔
تاریخ کہتی ہے: ابوسفیان کے تین بیٹے: حنظلہ، عمرو اور معاویہ جنگ بدر میں شریک ہوئے۔ ایک مارا گیا، ایک قید ہوا اور معاویہ فرار ہو گیا۔ وہ اتنی تیز بھاگا کہ آج اولمپکس میں دوڑتا تو تمغہ جیت لیتا!
معاویہ کبھی دل سے اسلام پر ایمان نہیں لایا
وہ اسلام کا کھلا دشمن تھا، اور مرتے دم تک اسلام کے خلاف سرگرم رہا۔
یہاں تک کہ جب مغیرہ بن شعبہ معاویہ سے ملا، تو واپسی پر کہا: "جب تک میں زندہ ہوں، محمد (ص) کا نام اس دنیا سے مٹا دوں گا!" (نعوذ باللہ)
معاویہ کے 'کاتبِ وحی' ہونے کا بڑا جھوٹ اور اس کے لیے جعلی فضائل کی ایجاد
یہ دعویٰ کہ معاویہ کاتبِ وحی تھا، ان بڑے جھوٹوں میں سے ایک ہے جو تاریخ پر تھوپ دیے گئے۔ اہل سنت کے معاصر عالم عبدالرحیم خطیب اپنی کتاب میں وضاحت سے لکھتے ہیں:"معاویہ ہرگز کاتبِ وحی نہیں تھا! وہ صرف کبھی کبھار عام قسم کے خطوط نبی اکرمؐ کے لیے لکھتا تھا، جس کی بنیاد پر بعض لوگوں نے غلطی سے اسے کاتبِ وحی سمجھ لیا۔"
اسی طرح عبداللہ بن عمر بھی تاکید کرتا ہے:"معاویہ اور خالد بن سعید صرف عام خطوط لکھا کرتے تھے، وحی لکھنے والے نہ تھے!"
اس کی وجہ بھی صاف ہے: اس زمانے میں لکھنے پڑھنے والے کم تھے، اور یہ چند افراد تھے جنہیں لکھنا آتا تھا۔
ابوریہ، جو مصر کے ایک معروف سنی عالم ہیں، لکھتے ہیں:"بعض لوگ معاویہ کو خوش کرنے اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے یہ جھوٹ گھڑ بیٹھے کہ وہ کاتبِ وحی تھا۔ بلکہ انہوں نے یہ بھی گھڑ لیا کہ اس نے آیت الکرسی کو سونے کی قلم سے لکھا اور جبرئیلؑ اسے آسمان سے لایا! یہ سراسر من گھڑت اور عقل سے ماوراء قصہ ہے۔"
بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ پیغمبرؐ اسلام ایسے شخص کو، جو کل تک اسلام کا دشمن تھا، اعتماد دے کر وحی لکھوانے والا بنا دیں؟!
حتیٰ کہ اگر ہم مان بھی لیں کہ وہ عام خطوط لکھتا تھا، تو کیا آپ ایک بھی ایسی آیت دکھا سکتے ہیں جسے معاویہ نے لکھا ہو؟
اور اگر مان بھی لیں کہ وہ "کاتبِ وحی" تھا، تو عبداللہ بن ابی سرح بھی کاتبِ وحی تھا، لیکن وہ بعد میں مرتد ہو کر کفارِ مکہ کا ساتھ دینے لگا۔
لہٰذا، کاتبِ وحی ہونا کوئی فضیلت نہیں، جیسا کہ بعض لوگ یہ جھوٹ گھڑ کر معاویہ کی عظمت دکھانا چاہتے ہیں، حتیٰ کہ وہ پیغمبرؐ پر بھی جھوٹ باندھنے سے گریز نہیں کرتے!
میں اہل سنت کے کئی علماء کے حوالے سے کہتا ہوں:"ہمارے پاس معاویہ کے فضائل میں ایک بھی صحیح حدیث موجود نہیں!"
یہاں تک کہ خود ابن تیمیہ، جو معاویہ کے زبردست حامی ہیں، اعتراف کرتے ہیں:"بعض لوگوں نے معاویہ کے لیے فضائل گھڑ لیے اور ان احادیث کو نبی اکرمؐ کی طرف جھوٹ باندھا۔"
مشہور محدث امام ذہبی اپنی کتاب سیر اعلام النبلاء میں لکھتے ہیں:"نبی اکرمؐ سے جو بھی روایات معاویہ کے فضائل میں نقل کی گئی ہیں، وہ سب جعلی ہیں!"
اور ابن حجر عسقلانی (شارح صحیح بخاری) عمدۃ القاری میں صاف لکھتے ہیں:"معاویہ کے فضائل میں ایک بھی صحیح، معتبر اور سند والی حدیث موجود نہیں!"
لہٰذا، ان دعوؤں کی کوئی بنیاد نہیں، اور سچ یہ ہے کہ تاریخ معاویہ اور اس کے خاندان کا اصل چہرہ بے نقاب کرتی ہے۔
معاویہ کے جعلی فضائل کی تلخ حقیقت اور اہل سنت علما کے اعترافات
اسحاق مراغی اور نسائی بھی اسی مؤقف کی تائید کرتے ہیں۔
شوکانی، جو پہلے زیدی تھے اور بعد میں سنی ہوئے، اپنی کتاب الفوائد المجموعہ میں صاف لکھتے ہیں:"تمام محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ معاویہ کے کسی بھی فضیلت پر مبنی روایت کی سند صحیح نہیں!"
ابن حجر، اسحاق سوسی کے بارے میں لکھتے ہیں: "یہ وہ جاہل اور نادان شخص ہے جس نے ایسی موضوع اور جھوٹی احادیث گھڑی ہیں، جنہیں سننا بھی گوارا نہیں، تاکہ معاویہ کی فضیلت ظاہر کی جا سکے!"
عبداللہ بن احمد بن حنبل کہتے ہیں: میں نے اپنے والد (امام احمد بن حنبل) سے پوچھا: علیؑ اور معاویہ کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
والد نے تھوڑی دیر سوچا اور کہا: "کیا کہوں؟ علیؑ کے بہت دشمن تھے، انہوں نے اس میں کوئی نقص نکالنے کی کوشش کی، مگر کچھ نہ پایا۔ پھر وہ معاویہ کی طرف گئے، جو علیؑ سے جنگ آزما تھا، اور اس کے لیے فضائل گھڑنے لگے تاکہ اپنے بغضِ علیؑ کو ظاہر کر سکیں!"
حیرت کی بات یہ ہے کہ صحیح بخاری میں "باب فضائل علیؑ" واضح طور پر موجود ہے،لیکن جب بات معاویہ کی آتی ہے تو صرف "باب ذکر معاویہ" موجود ہے یعنی صرف اس کا نام لیا گیا ہے،کوئی ایک بھی حدیث اس کے فضائل میں ذکر نہیں کی گئی!
اگر ہم اس موضوع میں مزید گہرائی میں جائیں تو بحث طویل ہو جائے گی۔
مطالعے کے لیے سفارش
میں تمام قارئین کو سفارش کرتا ہوں کہ کتاب "امیر معاویہ را بشناسیم" کا مطالعہ کریں۔
یہ کتاب سادہ فارسی زبان میں ہے اور ترجمہ شدہ بھی ہے۔اس میں معاویہ کی جنایتوں کی حقیقتوں کو بیان کیا گیا ہے۔
نتیجہ: معاویہ، شر و فتنہ کا پیکر
معاویہ ایسا شخص تھا جو نہ اصولوں کا پابند تھا، نہ دین کا۔ اگر آپ آج کے دور میں اس کی مثال ڈھونڈ نا چاہیں تو نیتن یاہو، ٹرمپ، اور صہیونی رہنماؤں سے دی جا سکتی ہے۔ وہ بیس سال حکومت میں رہا اور بے شمار ظلم کیے۔
خداوند اسلام کو ان ظاہری مسلمانوں اور باطنی منافقوں کے شر سے محفوظ رکھے۔
غریب آبادی: آئی اے ای اے کی ٹیکنیکل ٹیم ایران کا دورہ کرے گی
نائب وزیر خارجہ کاظم غریب آبادی نے بدھ کو امریکا کے ابلاغیاتی اداروں کے نمائندوں کے ساتھ بات چیت میں بتایا کہ آئی اے ای اے کی ایک ٹیکنیکل ٹیم ایران کے ساتھ تعاون کے طریقہ کار کے بارے میں گفتگو کے لئے دو تین ہفتے میں ایران کا دورہ کرے گی لیکن یہ ٹیم ایران کی ایٹمی تنصیبات کا معائنہ نہیں کرے گی۔
انھوں نے کہا کہ ایران کا محکمہ ایٹمی توانائی، امریکا اور اسرائیل کے حملوں میں ایٹمی تنصیبات کو پہنچنے والے نقصانات کا جائزہ لے رہا ہے۔
غریب آبادی نے جمعے کو تین یورپی ملکوں کے ساتھ ایران کے مذاکرات کے بارے میں بتایا کہ یورپی ٹرائیکا کے نمائندوں نے چند روز قبل وزیر خارجہ عباس عراقچی کو ٹیلیفون کرکے بتایا کہ وہ مذاکرات کے ذریعے موجودہ صورتحال کی راہ حل میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
انھوں نے امریکا کے ساتھ مذاکرات کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ چھٹے دور کے مذاکرات کے لئے حالات کو سازگار بنانے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ اس بات کی ضمانت ہونی چاہئے کہ مذاکرات کے دوران ایران پر حملہ نہیں ہوگا اور سب سے بڑھ کردونوں کو اس بات پر اتفاق کرنا ہوگا کہ مذاکرات دونوں کی جیت اور فائدے کی بنیاد پر ہوں گے۔
انھوں نے ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ ہم نے این پی ٹی سے نکلنے کا فیصلہ نہیں کیا ہے، ہم اس کے پابند ہیں، لیکن نئے حالات میں اس پر کس طرح عمل کیا جائے، اس پر ایران اور آئی اے ای اے کے درمیان مذاکرات کی ضرورت ہے۔
نائب وزیرخارجہ کاظم غریب آبادی نے کہا کہ ہماری پارلیمنٹ نے قانون پاس کرکے آئی اے ای اے کے ساتھ سبھی طرح کا تعاون معطل کردیا ہےاور اس کی بحالی کے لئے دو شرطیں معین کی ہیں، ایٹمی تنصیبات کی سیکورٹی اور کارکنوں کا تحفظ ۔
انھوں نے ایران کی ایٹمی پالیسیوں کے بارے میں کہا کہ جہانتک یورینیئم کی افزودگی کا سوال ہے تو ایران اپنی ضرورت کے مطابق افزودگی انجام دے گا اور ہمارے اندر یہ توانائی رہنی چاہئے کہ ہمیں جس چیز کی بھی ضرورت ہو، انجام دے سکیں۔
ایران کے نائب وزیر خارجہ نے اسنیب بیک میکانزم کے بارے میں کہا کہ اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں بچی ہے۔ سات برس سے جے سی پی او اے پر عمل نہیں ہوا ہے، امریکا کے نکل جانے کے بعد یورپ والوں نے اپنے عہد اور وعدوں پر عمل نہیں کیا،اب وہ کیا دعوی کرنا چاہتے ہیں؟ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ایران نے اس معاہدے پر عمل نہیں کیا؟ کیا انھوں نے خود اس پر عمل کیا ہے جو ایران سے یہ مطالبہ کریں کہ وہ عمل کرے؟
امریکی وزارت قانون نے ٹرمپ کو اطلاع دی ہے کہ اپسٹین اسکینڈل میں ان کا نام شامل ہے
امریکی میڈیا ذرائع کے مطابق امریکا کی اٹارنی جنرل، پام بونڈی امریکی صدر ٹرمپ کو مئی میں ہی اطلاع دے چکی ہیں کہ جفری اپسٹین کے جنسی جرائم اور مالی بدعنوانی کے مقدمات میں ان کا نام بھی شامل ہے
ارنا کے مطابق امریکی اٹارنی جنرل پام بونڈی اور ان کے معاونین نے ٹرمپ کو بتایا ہے کہ وزارت قانون، جفری اپسٹین کے جنسی جرائم کی تحقیقات سے متعلق مزید دستاویزات منظر عام پر نہیں لانا چاہتی کیونکہ ان ميں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی تفصیلات اور ان جرائم کی بھینٹ چڑھنے والوں کی ذاتی اطلاعات شامل ہيں۔
وائٹ ہاؤس نے اس حوالے سے وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ کو جعلی قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔
ایران کے خلاف اسرائیلی شطرنج کا کھیل ناکام ہوگیا
مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: پروفیسر لانا راوندی روسی اکیڈمی آف سائنسز کے شعبہ مشرق وسطی کی سربراہ اور سینیئر محققہ نے مهر نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے اسرائیل اور امریکا کی جانب سے ایران پر کی جانے والی جارحیت کے وسیع پہلوؤں کا تجزیہ پیش کیا۔ ان کے مطابق تل ابیب کو امید تھی کہ وہ ایران میں نظام کی تبدیلی کا تجرباتی منصوبہ بہت جلد کامیاب کر لے گا، لیکن ان کا سارا منصوبہ خاک میں مل گیا۔
ذیل میں اس روسی خاتون محقق کا تفصیلی انٹرویو پیش کیا جا رہا ہے:
مہر نیوز: آپ کے خیال میں وہ کون سا عامل تھا جس نے صہیونی حکومت کو ایران پر حملہ کرنے پر آمادہ کیا؟
لانا راوندی: میرے خیال میں کوئی بھی غیرجانبدار مبصر اس نتیجے تک پہنچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے اخلاقی، قانونی اور سفارتی اقدار کو پار کردیا ہے۔ انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ امریکا کی طاقت پر بھروسہ کرتے ہوئے وہ پڑوسی ممالک کی سرزمین پر قبضہ کریں اور جو بھی شخص یا قوت ان کے منصوبوں کے لیے رکاوٹ بنے، سرنگوں کر دیں اور یقینا اس میں اسلامی جمہوری ایران بھی شامل ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ مہذب ممالک بھی اسرائیل کے اس عمل کا ساتھ دے رہے ہیں اور ایک واضح جارحیت کو دفاع اور ضرورت جیسے الفاظ میں توجیہہ فراہم کرتے ہیں۔ جب کہ دوسری جانب فلسطینی عوام کے خلاف انتہائی وسیع پیمانے پر جرائم کا ارتکاب کیا جا رہا ہے۔ نیتن یاہو کو نہ صرف اپنی حکومت کے انتہا پسند عناصر کی حمایت حاصل ہے بلکہ اسرائیلی معاشرے کے ایک بڑے حصے کی بھی پشت پناہی حاصل ہے، جو طویل عرصے سے ایران کو تباہ کرنے کا خواب دیکھتے رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے مقصد کے حصول کے لیے بہت منظم طریقہ اختیار کیا ہے۔ فضائی بمباری، زمینی کارروائیاں، اور حزب اللہ و ایران کی حامی جماعتوں کے خلاف کارروائیاں یہاں تک کہ انہوں نے شام میں تکفیری عناصر کے اقتدار میں آنے کی راہ بھی ہموار کی۔
نتن یاہو نے جب غزہ میں ۶۰ فیصد سے زیادہ مکانات کو تباہ کر دیا اور حماس کو کمزور کر لیا تو اس کے بعد انہوں نے ایران کی حکومت کے خلاف براہ راست کارروائی کا فیصلہ کیا۔ اس اقدام میں ایک خودمختار ملک کی سرزمین پر حملہ کیا گیا، تہران کے رہائشی علاقوں پر بمباری کی گئی، اور سیکڑوں بےگناہ شہری شہید ہوئے۔ اگرچہ وہ ظاہری طور پر جمہوریت اور انسانی حقوق جیسے نعرے استعمال کرتے ہیں، لیکن ان کا اصل مقصد ایران میں ایک ایسی حکومت قائم کرنا ہے جو اسرائیلی ریاست کے سیاہ عزائم کو عملی جامہ پہنا سکے یعنی وہ جو چاہے اپنے ہمسایوں کے ساتھ کرے۔
نیتن یاہو کو امید تھی کہ وہ یہ کام تیزی سے مکمل کر لیں گے، لیکن یہ تجربہ ناکام ہو گیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آگے کیا ہوتا ہے۔ البتہ جو بات یقینی ہے وہ یہ کہ وہ گروہ جو ایران میں نظام کی تبدیلی کا یہ تجرباتی منصوبہ لے کر آگے بڑھا تھا، وہ اتنی آسانی سے شکست کو تسلیم نہیں کرے گا۔
مہر نیوز: جنگ کے آغاز پر بین الاقوامی برادری اور بڑی طاقتوں کی ابتدائی ردعمل کس حد تک مؤثر تھا؟
لانا راوندی: کیا اس بات پر تعجب ہونا چاہیے کہ امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین نے مکمل طور پر اسرائیل کی حمایت کی؟ کم از کم ان کے حکومتی رہنماؤں نے تو ایسا ہی کیا۔ یورپی یونین کے اہم ممالک کے سربراہان، مثلاً جرمن چانسلر فریڈرک مَرتس، نے واضح طور پر اس بات کا خیر مقدم کیا کہ اسرائیل اچانک حملے اور سلسلہ وار سیاسی ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے مغرب کا گندا کام سرانجام دے رہا ہے۔
توقع کے مطابق روس اور چین نے اسرائیلی جارحیت کی شدید مذمت کی۔ ایران کے ہمسایہ ممالک جیسے آرمینیا، ترکی اور پاکستان بھی ان کی مذمت میں شامل ہوگئے۔ تاہم شامی حکام نے خاموشی اختیار کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بعض شامی صحافی، جو حکومتی حلقوں سے قریب سمجھے جاتے ہیں، درحقیقت اسرائیل کی حمایت میں سامنے آئے۔ انہوں نے اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ ایران پر مزید حملے کرے۔ یہی نہیں، ان صحافیوں نے گزشتہ خزاں میں حزب اللہ کے خلاف اسرائیل کی جنگ میں بھی اسرائیل کی کامیابی کی امید ظاہر کی اور جنوبی لبنان پر اسرائیلی بمباری کے دوران عام شہریوں کے قتل عام کے واضح شواہد کو جھٹلانے کی کوشش کی۔
دوسری جانب قطر نے زیادہ محتاط اور تعمیری موقف اختیار کیا۔ قطر نے سفارتی طور پر فعال کردار ادا کیا اور مغرب و ایران، دونوں سے اپنے تعلقات برقرار رکھے۔ قطری حکام نے روس اور چین کے ساتھ مل کر جھڑپوں کو روکنے میں مدد فراہم کی۔
مہر نیوز: امریکہ جنگ کے کس مرحلے میں شامل ہوا اور اس کا مقصد کیا تھا؟
لانا راوندی: بہت سے لوگوں کے نزدیک یہ بات معروف ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ ۲۲ جون کو ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملے میں اسرائیل کے ساتھ شامل ہوئے، اگرچہ نیتن یاہو کی ٹیم نے اس سے بھی بڑے پیمانے پر امریکی شرکت کی توقع کر رکھی تھی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکہ آغاز ہی سے اسرائیلی حملے میں شامل تھا، کیونکہ اس نے اسرائیل کو عملی منصوبہ بندی میں مدد فراہم کی۔ بعض ماہرین کے مطابق اس منصوبہ بندی کا آغاز دس سال یا اس سے بھی پہلے ہو چکا تھا۔
اسرائیل نے ہمیشہ کی طرح امریکہ سے اسلحہ، مالی وسائل، انٹیلیجنس معلومات اور سفارتی تحفظ حاصل کیا۔ آخرکار وہ دونوں اتحادی ہیں، لہٰذا اس سے مختلف رویے کی توقع نہیں کی جا سکتی۔
مہر نیوز: کیا اس مداخلت سے عالمی طاقتوں کے درمیان کسی نئے اتحاد کی تشکیل ہوئی ہے؟
لانا راوندی: فی الحال اس بارے میں کوئی حتمی رائے قائم کرنا قبل از وقت ہو گا۔ ہم اب تک یہ بھی نہیں جانتے کہ دونوں طرف کتنا نقصان ہوا ہے۔ میرے خیال میں اس مرحلے پر کوئی نمایاں تبدیلی نہیں آئی کیونکہ بظاہر لڑائی ابھی ختم نہیں ہوئی۔ انتظار کرتے ہیں کہ کچھ وقت گزرے، حالات واضح ہوں اور دھول بیٹھے۔ مغرب ہمیشہ اسرائیل کا حامی رہا ہے اور ایران کی مخالفت کرتا رہا ہے۔ روس ایران کی حمایت کرتا ہے، لیکن وہ امریکہ کے ساتھ تجارتی مواقع اور یوکرین کے مسئلے کے حل کی امید بھی رکھتا ہے، اسی لیے ممکن ہے کہ وہ ٹرمپ حکومت کے ساتھ براہِ راست تصادم سے گریز کرے۔ اسی طرح چین بھی امریکہ کے ساتھ تجارتی تعلقات کو بڑھانا چاہتا ہے اور ممکن ہے کہ اسی وجہ سے وہ ایران کی حمایت کو کچھ حد تک محدود کر رہا ہو۔
مہر نیوز: کیا امریکہ کا ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ جنگ کے فوجی یا سیاسی توازن میں تبدیلی کا سبب بنا؟
لانا راوندی: ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکہ کا حملہ ایک بڑی کاروائی تھی۔ امریکی میڈیا نے اس حملے کو ایک ناقابل یقین کارنامہ قرار دیا مثلا اس کے طویل فاصلے تک پرواز، نشانے کی درستگی اور تکنیکی مہارت پر مبنی بمباری پر مبالغہ کیا گیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ کارنامہ جتنا مؤثر دکھایا گیا، اتنا مؤثر نہیں تھا اگرچہ ابھی تک تمام تفصیلات دستیاب نہیں ہیں۔ ممکن ہے کہ اس حملے نے فوجی-سیاسی توازن پر زیادہ اثر نہ ڈالا ہو۔
امریکہ کی بمباری غالباً ایک اختتامی شو سے زیادہ کچھ نہ تھی ایسا اقدام جس سے امریکہ اور اسرائیل کو یہ موقع مل جائے کہ وہ جنگ کو ختم کر دیں، اس سے پہلے کہ حالات ان کے قابو سے باہر ہوجائیں۔ اس نے مستقبل میں امریکہ اور اسرائیل کے ممکنہ حملوں پر بھی کئی سوالات کھڑے کردیے ہیں۔
مہر نیوز: آخرکار وہ کون سے عوامل تھے جنہوں نے دونوں فریقین کو جنگ بندی پر آمادہ کیا؟
لانا راوندی: اگرچہ امریکہ نے اپنے طیارہ بردار بحری بیڑے اور برطانیہ نے جنگی طیارے اسرائیل کی حفاظت کے لیے میدان میں اتار دیے تھے، پھر بھی ایرانی میزائل اسرائیل کے علاقوں کے اندر تک پہنچنے میں کامیاب ہو رہے تھے اور اسرائیل کو ایسے پیمانے پر نقصان پہنچا رہے تھے، جو اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس کے علاوہ، جنگ کی لاگت بھی بہت زیادہ تھی، اور امریکی و اسرائیلی افواج کے میزائل ذخائر ختم ہونے کے قریب تھے۔ میں نے کئی مختلف تجزیے سنے کہ اسرائیل اپنے فضائی دفاع کو کتنے دنوں تک جاری رکھ سکتا تھا، لیکن ان میں سے کوئی بھی تجزیہ چند ہفتوں سے آگے نہیں جاتا تھا۔ اس کے برعکس، ایران کے پاس میزائلوں کی کسی کمی کے آثار نہیں تھے۔ پھر لڑائی کے آخری دنوں میں ایسا محسوس ہوا کہ آگ پھیل رہی ہے۔ انصاراللہ یمن نے اعلان کیا کہ وہ امریکہ کے ساتھ اپنی سابقہ مفاہمت کو اب تسلیم نہیں کرتی۔ قطر میں واقع امریکی فوجی اڈہ ایرانی میزائلوں کی زد میں آیا اور ایران کی جانب سے آبنائے ہرمز کو بند کرنے کی دھمکی عملی جامہ پہننے کے قریب تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ، ٹرمپ بھی اس جھگڑے کو خطرناک سطح تک لے جانے کے خواہاں نہیں تھے۔ وہ جلد از جلد ایک حل چاہتے تھے۔
اسی دوران روس، چین، قطر، ترکی، آذربائیجان اور دیگر ممالک نے سفارتی طور پر جنگ کو روکنے کے لیے دباؤ ڈالا۔ تل ابیب اور واشنگٹن بھی ممکنہ طور پر اس بات سے فکرمند تھے کہ روس اور چین کے ساتھ تعلقات مزید پیچیدہ نہ ہو جائیں خاص طور پر جب کہ یہ دونوں ملک کھل کر ایران کی حمایت کر رہے تھے۔
مہر نیوز: کریملن کے نقطۂ نظر سے، کیا ماسکو نے اس تنازعے کے خاتمے میں ثالثی کا کردار ادا کیا؟
لانا راوندی: جی ہاں، روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے تجویز پیش کی کہ وہ اس تنازعے کے حل میں ثالث کا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں، تاہم روس صرف اسی صورت میں ثالثی پر آمادہ تھا جب باضابطہ طور پر اس سے درخواست کی جائے۔ وہ خود کو کسی پر مسلط کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا۔ روسی وزیر دفاع اور دیگر اعلی حکام نے ۱۳ جون کو جھڑپوں کے آغاز ہی سے ایران میں ہونے والے بھاری جانی نقصان پر افسوس اور ہمدردی کا اظہار کیا۔
روسی قیادت اور اعلی سفارت کاروں کی جانب سے اسرائیلی جارحیت کی سخت زبان میں مذمت، اور یہ اشارہ کہ اگر جنگ شدت اختیار کرے تو روس ممکنہ طور پر مداخلت کر سکتا ہے ان اقدامات نے ممکن ہے کہ نیتن یاہو کے جنگی جنون کو کم کردیا ہو۔






















![جناب خدیجہ کبری[س] کی سیرت](/ur/media/k2/items/cache/ef2cbc28bb74bd18fb9aaefb55569150_XS.jpg)
