
سلیمانی
امام علی نقی (ع) کی زندگی پر اجمالی نظر
اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیُذۡہِبَ عَنۡکُمُ الرِّجۡسَ اَہۡلَ الۡبَیۡتِ وَ یُطَہِّرَکُمۡ تَطۡہِیۡرًا. اللہ کا ارادہ بس یہی ہے ہر طرح کی ناپاکی کو اہل بیت ! آپ سے دور رکھے اور آپ کو ایسے پاکیزہ رکھے جیسے پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔
آئمہ معصومین علیھم السلام کی حیات طیبہ کا مطالعہ درحقیقت دراصل دین کی صحیح سمجھ اور راہ حق میں کی جانے والی کوششوں کے بارے میں ہے چونکہ ہم ہر میدان میں چاہے وہ اعتقادی، فقہی اخلاقی یا سیاسی ہو ہر میدان میں انکے ہمیشہ رہ جانے والے اثرات ہیں۔
ہمارا مقصد یہ ہے کہ امام علی نقی علیہ السلام کی حیات طیبہ کا جائزہ لیں اور تاریخ کی ان بے مثال اور تاریخ کی درخشاں حقیقت سے اپنی بساط کے مطابق روشنی ڈالیں امام کے بارے میں آگاہی حاصل کریں۔آپ کو امام ھادی بھی کہا جاتا ہے۔
آپ کی ولادت با سعادت مدینے کے ایک محلہ صربا میں 15 ذی الحجہ 212ھ کو ہوئی۔آپ کی والدہ کا نام سمانہ خاتون تھا۔
آپکی تربیت اپنے والد گرامی امام محمد تقی (جواد) علیہ السلام کے ذریعے ہوئی انہی کے سایہ میں بڑے ہوئے۔
امام جواد علیہ السلام کو لوگ اپنا پیشوا و رہبر مانتے تھے حالانکہ اس زمانے میں سیاسی طور پر ولایت علی اور اہل بیت کی مکمل طور پر مخالفت تھی لیکن کسی کی جرات نہیں تھی کہ امام کی منزلت و مرتبت لوگوں کی نظر میں کم کر سکے۔
عباسی خلیفہ مامون کی بنی عباس کے سرکردہ افراد کے سامنے امام کی حمایت میں سخت گفتگو کرنا تاریخی دریچوں کو واضح طور پر نمایاں کرتی ہے۔
مامون نے جب اپنی بیٹی کی شادی امام جواد علیہ السلام سے کرنے کا ارادہ کیا جب امام کی عمر فقط 9 سال تھی تو بنی عباس میں ہلچل مچ گئی اور وہ مامون پر اعتراض کرنے لگے۔
امام ھادی علیہ السلام کی ذاتی خصوصیات
امام ھادی علیہ السلام مقدس سلسلہ امامت کی ایک کڑی ہیں۔آپ علیہ السلام بندگی اور عبودیت کا ایک بہترین نمونہ ہیں آپ روشن فکر اور آزادی کیلئے لڑنے والے مجاہدین اور ظالم کے خلاف قیام کرنے والوں کیلئے بہترین نمونہ تھے۔
جن علماء و دانشمندوں نے آپ کے بارے میں لکھا انہوں نے آپکی سیرت طیبہ اور آپ کی علمی فضائل اور برکات پر ضرور روشنی ڈالی۔
ابو عبداللہ جنید نے امام کے بارے میں کہا:
بخدا آپ اپنے زمانے کے زمین پر بہترین مرد اور افضل ترین شخصیت تھے۔
امام علیہ السلام کا سخت ترین دشمن بھی صحیح طور پر آپ کی عظمت اور بلند قدر و منزلت کا معترف تھا۔ یہ بات اس کے وہ خط ہیں جو اس نے امام کر لکھے۔
یہاں اختیار کیلئے فقط ان خطوں کا حوالہ ذکر کئے دیتا ہوں تا کہ اگر کوئی ملاحظہ کرنا چاہتا ہو تو پڑھ سکتے ہیں۔
(شذرات الذہب جلد ۳ ص۱۲۹ نقل از امام ھادی مصنفہ علی محمد دخیل)
امام ھادی کے چند القابات:
نقی، عالم، فقیہ، امین، طیب
اعلام الوری
امام کی اور بھی بہت سی فضیلتیں اور خصوصیات ذکر ہوئی ہیں تمام کو یہاں ذکر کرنا ممکن نہیں۔
امام کی سیاسی جدوجہد
امام علیہ السلام یہ جانتے تھے کہ معاشرہ کسی قسم کی مسلح جھڑپ کا متقاضی نہیں ہے اسی لیے امام نے اس سلسلے میں کوئی کوشش نہیں کی لیکن اس کے باوجود عباسی خلفاء ان سے سیاسی رہبری کے اعتبار سے خوف کرتے تھے۔
وقت کے ظالم اور متکبر حکمراں جو فساد کی جڑ اور اپنی عیاشیوں میں ڈوبے ہوئے تھے انہیں لوگوں کی پروہ نا تھی۔
بر خلاف اس کے امام کا رابطہ لوگوں سے رہتا امام کا لوگوں کی نظر میں بڑا مقام و مرتبہ تھا۔امام ہمیشہ علوی تحریکوں کی حمایت کرتے اور سیاسی و نظریاتی تحریکوں میں نشونما میں مدد کرتے تھے۔
یہی وجہ تھی کہ حکمران امام کی اس مقبولیت سے خائف تھے۔امام کی سیاسی زندگی کا آغاز محمد بن ابن ہارون الرشید کی حکومت کے آخری ایام تھے۔
معتصم نے (جو کہ آئمہ کرام سے خوف محسوس کرتا تھا) 225 ہجری میں امام کو مدینہ سے بغداد بلا لیا۔اور سکونت اختیار کرنے پر مجبور کیا گیا۔
امام ھادی علیہ السلام مشکل دور میں اپنے والد گرامی کے زیر سایہ زندگی گزار رہے تھے کہ سایہ پدر نا رہا اور مشکل دور میں اکیلے ہی اب دور امامت میں مشکل حالات کو برداشت کرنا تھا۔
امام ہادی علیہ السّلام اور متوکل عباسی
واثق کی موت کے بعد 232 ہجری کو متوکل عباسی تخت نشین ہوا۔یہ علویوں کا شدید دشمن تھا۔
اس نے امام حسین علیہ السلام کی ضریح مبارک کو گرانا
اجتماعی و سماجی حیثیت کو ختم کرنا
تحقیر کرنا
علویوں کا اقتصادی بائکاٹ
بیت المال کے وظیفے روکنا
امام ھادی پر سخت دباؤ
امام کے قتل کی سازش
اسکے علاؤہ اور بھی نا قابل فراموش جرائم ہیں جو اس نے انجام دیے۔نیز اس نے امام علی علیہ السلام کے روزے پر جانے والوں کیلئے سخت سزا رکھی ہوئی تھی۔
امام ہادی ع سامرہ میں
یہاں پر متوکل نے مختلف حربے استعمال کر کے امام کو ستایا
کبھی امام کو شھید کرنے کی کوشش کی جاتی
کبھی گھر کی تلاشی
کبھی تہمت لگا کر محل میں لے جاتے
اور بھی بہت کچھ
لیکن ہمیشہ امام کو خدا نے ان سب سے محفوظ رکھا اور دشمن پر برتری دی۔
علوی تحریکیں
تمام مسلمانوں پر اور بلخصوص آل ابو طالب پر جب مصیبتوں کا دباؤ شدید ہوا تو ان کی جانب سے مسلح تحریکیں شروع ہو گئیں اور بہت اور بھی عوامل متوکل کی حکومت کے خلاف مہیا ہو گئے خود ارباب اختیار میں بھی پھوٹ پڑھ گئی جو اندرون نظام تھے متوکل کے قتل کے بھی یہی عوامل بنے۔
متوکل کا انجام
متوکل نے کھلم کھلا آل ابو طالب کی مخالفت کی اور بہت برے طریقے سے پیش آتا رہا بلآخر حکومت میں پھوٹ پڑ گئی اور محل کے اندر ہی جب وہ شراب کے نشے میں مست تھا قاتلانہ حملے میں مارا گیا حملے میں اس کا بیٹا منتصر بھی شریک تھا قتل کے بعد منتصر کی بیعت کی ہوئی۔
منتصر کا آل ابو طالب کے ساتھ رویہ
اس نے علویوں کے ساتھ بہت اچھا رویہ رکھا اور ان کے اموال و املاک اور فدک کو واپس کر دیا اور لوگوں کو حکم دیا کہ امام علی علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کے حرموں کی زیارت کیلئے جائیں اور رہائش کی اجازت بھی دی منتصر نے 248 میں وفات پائی۔
آخری باتجو بھی امام علیہ السلام کی زندگی کا مطالعہ کرے وہ بخوبی جان لے گا کہ امام ہمیشہ حکومت کی طرف سے تکلیفیں سختیاں اور قید و بند کی مشکلات سے دو چار رہے۔
امام کو اپنے نانا کے شہر سے نکل کر سامرہ جانے پر مجبور کیا گیا تاکہ آپ معاشرتی و سیاسی سرگرمیاں نا کر سکیں۔یوں امام کا ایک لمبا عرصہ عباسی دارالخلافہ سامراء میں گزرا۔
امام ہادی علیہ السلام سامراء میں 10 سال اور چند ماہ ٹھہرے اور خلیفہ معتز کی خلافت میں 41 سال عمر شریف پانے کے بعد 3 رجب المرجب 254 ہجری کو شہادت پائی آپ کا مزار مبارک سامراء میں ہے۔
فرزند رسول حضرت امام علی نقی علیہ السلام
حضرت امام محمد تقی(ع) شیعوں کے نویں امام ہیں آپؑ کی والدہ ماجدہ حضرت سبیکہ(س) اورآپؑ کے والد بزرگوار حضرت امام علی بن موسیٰ الرضا علیہ السلام ہیں آپؑ کی کنیت ابوجعفر ثانی اور مشہور القاب جواد، ابن الرضا اور تقیؑ ہیں۔
مؤرخین کے مطابق آپ کی ولادت باسعادت سنہ ۱۹۵ ہجری میں مدینہ منورہ میں ہوئی، لیکن آپؑ کی ولادت کے دن اور مہینے کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔
مورخین نے آپ (ع) کی تاریخ ولادت شب جمعہ 19 رمضان المبارک کی شب، بیان کی ہے اور بعض دوسروں نے لکھا ہے کہ امام (ع) پندرہ رمضان المبارک کو پیدا ہوئے. تا ہم شیخ طوسی کتاب "المصباح" میں لکھتے ہیں کہ حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کا یوم ولادت 10 رجب المرجب سنہ 195 ہجری ہے۔ (بحار الانوار، ج 50، ص 1 تا 14)
بابرکت مولود:
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی ولادت سے پہلے بعض واقفیہ یہ کہتے تھے کہ حضرت علی بن موسیٰ رضا (ع) کی نسل باقی نہیں رہے گی اور ان کے بعد ان کی نسل میں سلسلہ امامت منقطع ہو جائے گا۔ یہی سبب ہے جس وقت امام محمد تقیؑ کی ولادت ہوئی حضرت امام رضاؑ نے فرمایا: ’’ هذا المولود الذي لم يولد مولود أعظم بركة على شيعتنا منه‘‘(یہ وہ مولود ہے جس سے زیادہ بابرکت مولود ہمارے شیعوں کے لئے اب تک دنیا میں نہیں آیا)۔ (کلینی، الکافی، ج1 ص321)
ابن اسباط اور عباد بن اسمعیل نیز ابویحیٰ صنعانی کہتے ہیں:’’ إنا لعند الرضا عليه السلام بمنى إذ جبئ بأبي جعفر عليه السلام قلنا: هذا المولود المبارك ؟ قال: نعم، هذا المولود الذي لم يولد في الاسلام أعظم بركة منه ‘‘ ( ہم حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے ساتھ تھے جب ابو جعفر کو ان کے پاس لایا گیا۔ ہم نے عرض کیا: کیا وہ بابرکت مولود یہی ہے؟ فرمایا: ہاں! یہی وہ مولود ہے جس سے زيادہ برکت والا اسلام میں پیدا نہیں ہوا)۔ (مجلسی، بحار الانوار، ج50، ص20و23و35۔ شیخ مفید، الارشاد ص 279۔ کلینی رازی، الكافي ج1 ص321)
ازدواج اور اولاد:
امام جوادؑ کی شادی سنہ 215 میں مامون عباسی کی بیٹی ام فضل سے ہوئی یہ شادی مامون کی درخواست پر ہوئی اس شادی سے امامؑ کی کوئی اولاد نہیں ہوئی اور آپ کی تمام اولادیں آپؑ کی دوسری زوجہ مکرمہ سمانہ مغربیہ سے ہوئیں۔( قمی، منتہی الامال، ج2، ص235)
شیخ مفید علیہ الرحمہ کی روایت کے مطابق حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی اولاد کی تعداد چار ہیں جن کے نام امام علی نقیؑ، موسیٰ مبرقعؑ،فاطمہ اور امامہ ہیں۔( مفید، الارشاد، ج2، ص284)
امامت:
کم سنی میں امامت کے حوالے سے ہونے والے اعتراضات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وصال کے بعد سے پہلی مرتبہ اہل تشیع کو ایک نئے مسئلے کا سامنا تھا اور وہ مسئلہ کم سنی میں امام جواد علیہ السلام کی امامت کا مسئلہ تھا. کیونکہ امام رضا علیہ السلام کی شہادت کے وقت حضرت امام محمد تقی علیہ السلام سات برس کے تھے اور اسی عمر میں ہی مرتبہ امامت پر فائز ہوئے. چونکہ اس سے پہلے ائمہ طاہرین علیہم السلام کے بارے میں ایسا مسئلہ پیش نہیں آیا تھا لہذا امام جواد علیہ السلام نے خود ہی کئی مرتبہ اس شبہے کا ازالہ فرمایا. ابراہیم بن محمود کہتے ہیں: ’’میں خراسان میں امام رضا علیہ السلامی کی خدمت میں حاضر تھا. اسی وقت امام (ع) کے ایک صحابی نے سوال کیا: اگر آپ کو کوئی حادثہ پیش آئے تو ہم کس سے رجوع کریں؟امام علیہ السلام نے فرمایا: میرے بیٹے محمد سے.اس وقت امام علیہ السلام کی عمر بہت کم تھی اور امام علیہ السلام نے ممکنہ شبہے کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: خداوند متعال نے حضرت عیسی علیہ السلام کو میرے محمد (محمد تقی الجواد) کی موجودہ عمر سے بھی کم عمری میں نبی بنا کر بھیجا اور ان کو ایک نئی شریعت قائم کرنے کی ذمہ داری سونپ دی جبکہ میں اپنے بیٹے کو اسلام کی مستحکم شدہ شریعت کی برپائی اور حفاظت کے لئے متعارف کررہا ہوں. (بحارالانوار، ج 50، ص 34، ح 20.)
حضرت امام علی رضا علیہ السلام امام محمد تقی (ع) کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟
کلیم بن عمران کہتے ہیں: میں نے امام رضا علیہ السلام سے عرض کیا: اللہ تعالی سے التجا کریں کہ آپ کو اولاد نرینہ عطا فرمائے. امام علیہ السلام نے فرمایا: میری قسمت میں ایک ہی بیٹا ہے جو میرا وارث ہوگا.جب امام جواد علیہ السلام دنیا میں تشریف لائے تو امام رضا علیہ السلام نے اپنے اصحاب سے مخاطب ہوکر فرمایا: خداوند متعال نے مجھے ایسا فرزند عطا فرمایا ہے جو حضرت موسی علیہ السلام کی طرح دریاؤں کو شکافتہ کرنے والا ہے اور حضرت عیسی بن مریم کی طرح ہے جس کی ماں مقدس ہے اور پاک و طاہر متولد ہوا ہے۔ میرا یہ فرزند ناحق مارا جائے گا اور آسمان والے اس پر گریہ و بکاء کریں گے اور اللہ تعالی اس کے دشمن پر غضبناک ہوگا اور بہت تھوڑا عرصہ بعد اس کو دردناک عذاب سے دوچار فرمائے گا. (بحار الانوار، ج 50، ص 15، ح 19)
کرامات:
صاحب تفسیرعلامہ حسین واعظ کاشفی کا بیان ہے کہ حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی کرامات بے شمارہیں (روضة الشہدا ص ۴۳۸) میں بعض کا تذکرہ مختلف کتب سے کرتا ہوں ۔
۱ ۔ ایک شخص نے آپ کی خدمت میں حاضرہو کرعرض کیا کہ ایک مسماة (ام الحسن) نے آپ سے درخواست کی ہے کہ اپنا کوئی جامہ کہنہ دیجیے تاکہ میں اسے اپنے کفن میں رکھوں آپ نے فرمایا کہ اب جامہ کہنہ کی ضرورت نہیں ہے روای کا بیان ہے کہ میں وہ جواب لے کرجب واپس ہوا تومعلوم ہواکہ ۱۳ ۔ ۱۴ دن ہو گئے ہیں کہ وہ انتقال کرچکی ہے۔
۲ ۔ ایک شخص (امیہ بن علی) کہتا ہے کہ میں اورحماد بن عیسی ایک سفرمیں جاتے ہوئے حضرت کی خدمت میں حاضرہوئے تاکہ آپ سے رخصت ہولیں، آپ نے ارشاد فرمایا کہ تم آج اپنا سفرملتوی کردو، چنانچہ میں حسب الحکم ٹہرگیا، لیکن میراساتھی حماد بن عیسی نے کہا کہ میں نے ساراسامان سفرگھرسے نکال رکھا ہے اب اچھا نہیں معلوم ہوتا کہ سفرملتوی کردوں، یہ کہہ کروہ روانہ ہوگیا اورچلتے چلتے رات کو ایک وادی میں جا پہنچا اوروہیں قیام کیا، رات کے کسی حصہ میں عظیم الشان سیلاب آ گیا،اوروہ تمام لوگوں کے ساتھ حماد کوبھی بہا کر لے گیا (شواہدالنبوت ص ۲۰۲) ۔
فرامین:
۱۔ ’’ مَنْ خَطَبَ إلَيْكُمْ فَرَضيتُمْ دينَهُ وَ أمانَتَهُ فَزَوِّجُوهُ، إلّا تَفْعَلُوهُ تَكْنُ فِتْنَةٌ فِى الأرْضِ وَ فَسادٌ كَبير‘‘ ( جس نے تم سے [بیٹی یا بہن کا] رشتہ مانگا اور تمہیں اس کا دین پسند آیا تو وہ رشتہ قبول کرو اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو تمہارا یہ عمل روئے زمان پر عظیم برائی کا سبب بنے گا)۔
۲۔ ’’مَنْ أتَمَّ رُكُوعَهُ لَمْ تُدْخِلْهُ وَحْشَةُ الْقَبْرِ ‘‘(جو شخص اپنی نماز کا رکوع مکمل اور صحیح طور پر انجام دے وہ قبر میں وحشت سے دوچار نہ ہوگا)۔
۳۔’’إنَّ اللّهَ عَزَّ وَ جَلَّ يَخْتارُ مِنْ مالِ الْمُؤْمِنِ وَ مِنْ وُلْدِهِ أنْفَسَهُ لِيَأجُرَهُ عَلى ذلِكَ ‘‘(بے شک خداوند متعال مؤمن کے مال و اولاد میں سے بہترین مال اور فرزند منتخب کرکے لے لیتا ہے تا کہ انہیں اس کے بدلے اجر عظیم عطا فرمائے)۔
شہادت:
عباسی خلیفہ معتصم نے حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کو مدینہ سے بغداد بلوایا؛ امام علیہ السلام ۲۸ محرم الحرام سنہ ۲۲۰ کو بغداد پہنچے اور اسی سال ذیقعدہ کے مہینے اسی شہر میں شہید ہوگئے ، البتہ بعض ماخذ میں ہے کہ آپ ؑ نے پانچ یا چھ ذی الحج یا بعض میں آیا ہے کہ ذیعقدہ کی آخری تاریخ کو شہادت پائی۔
شہید قاسم سلیمانی عالمی مزاحمت کا نشان ہے
تاریخ انسانیت حریت پسندوں کی قربانیوں سے بھری پڑی ہے۔ ہر دور میں ایسے افراد موجود رہے ہیں کہ جنہوں نے آزادی اور حریت پسندی کی قیمت اپنی جان و خون کے نذرانہ سے پیش کی ہے۔ جب بھی ہم مزاحمت کے شہداء کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ان شہداء کا دائرہ وسیع ہے۔ یعنی یہ حدود و قیود سے باہر ہے۔ اسی طرح ایک بات اور بھی ہے کہ حریت پسندی کی راہ میں قربان ہونے والے صرف مسلمان شہداء ہی نہیں ہیں بلکہ غیر مسلم اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی شامل ہیں۔ یعنی جب ہم یہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ حریت پسندی اور عزت و افتخار کے دفاع کی جنگ میں جان دینے والوں کا تعلق عالمگیر ہے تو پھر عالمی مزاحمت کا تصور اجاگر ہوتا ہے۔ یعنی جہاں بھی ظلم اور استبداد ہے، وہاں مظلوم موجود ہیں اور مظلوموں میں حریت پسندی ہے اور یہ راستہ ان کو شہادت کے مقام تک لے جاتا ہے، لیکن ظالم و جابر کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کرنے دیتا۔
جیسا کہ ماہ جنوری ہے اور اس کے ابتدائی ایام عالمی مزاحمت سے تعلق رکھنے والے ایسے شہداء کے ایام ہیں کہ جن کو بغداد کے ایئرپورٹ پر دنیا کی شیطانی حکومت امریکہ نے میزائل حملوں میں شہید کر دیا تھا، یعنی شہید قاسم سلیمانی اور شہید ابو مہدی المہندس۔ شہید قاسم سلیمانی ایران کے جرنیل تھے اور وہ سرکاری مشن پر عراق پہنچے تھے، جہاں ان کو امریکی حکومت نے دہشت گردی کا نشانہ بنایا تھا۔ امریکہ نے دنیا کے تمام تر قوانین اور اقداروں کو پامال کیا اور قاسم سلیمانی اور ان کے ساتھی ابو مہدی المہندس کو شہید کر دیا۔ جب ہم عالمی مزاحمت کے تناظر میں بات کرتے ہیں اور پھر قاسم سلیمانی جیسے عظیم شہید کا تذکرہ کرتے ہیں تو ہمیں کہنا پڑتا ہے کہ شہید قاسم سلیمانی عالمی مزاحمت کا نشان ہے، یعنی وہ ہیرو ہیں اور ایک آئیکون ہیں۔ یہ بات کیوں کہی جاتی ہے۔؟ یقیناً اس میں کچھ عوامل کارفرما ہیں، جو کہ خود قاسم سلیمانی کی خدمات سے منسوب ہیں۔
جنرل قاسم سلیمانی ایک بے مثال شخصیت کا نام ہے کہ جنہوں نے پوری زندگی جہاد فی سبییل اللہ کیا اور دنیا بھر میں موجود مظلوم اور کمزور کر دیئے گئے لوگوں کو طاقتور کرنے کا بیڑہ اپنے کاندھوں پر اٹھا لیا۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمہ کے بعد جب فلسطین میں اسرائیل بنا دیا گیا اور وقت کے ساتھ ساتھ فلسطین کے اطراف میں امریکی و صیہونی تسلط بڑھتا چلا گیا کہ یہاں تک نوبت آن پہنچی کہ اسرائیلی فوجیں لبنان میں قابض تھیں، شام و اردن اور مصر کے علاقوں پر بھی اسرائیلی فوجوں کا قبضہ تھا۔ فلسطینی عوام کی کوئی آواز سننے والا نہ تھا۔ فلسطین پتھروں سے لڑتے تھے، غلیلوں سے مقابلہ کرتے تھے۔ لبنان میں اسرائیل قابض ہو کر ظلم کی طویل داستان رقم کر رہا تھا۔ ایسے حالات میں قاسم سلیمانی نے یہ ذمہ داری اپنے کاندھوں پر لی کہ مظلوموں اور کمزور بنا دیئے جانے والوں کے لئے نجات کا سامان میسر کریں۔ انہوں نے فلسطین اور لبنان میں یہ کام شروع کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اسرائیل کو لبنان سے پسپائی کا سامنا ہوا۔
یہ شہید قاسم سلیمانی ہی تھے کہ جنہوں نے اپنی بہترین حکمت عملی اور جنگی تجربات کے باعث غزہ اور مغربی کنارے جیسے علاقوں میں فلسطینی مزاحمت کو طاقتور کیا۔ ان کے خالی ہاتھوں کو ہر ضروری اسلحہ اور ٹیکنالوجی سے بھر دیا کہ جس کے ذریعہ وہ فلسطین اور اپنی ناموس کا دفاع کریں۔ فلسطینی مزاحمتی رہنمائوں نے اعتراف کیا کہ جب غزہ محاصرے میں تھا تو دنیا تماشا دیکھ رہی تھی، لیکن قاسم سلیمانی تھے کہ جنہوں نے غزہ پہنچ کر ہماری مدد کی، انہوں نے ہمیشہ فلسطینی مزاحمت کو طاقتور بنانے کے لئے اپنی جان کو خطرے میں ڈالا۔ یقیناً یہ شہید قاسم سلیمانی کی قربانیوں اور انتھک محنت کا ثمر ہے کہ آج غزہ و مغربی کنارے کی مزاحمت خود مختار ہوچکی ہے۔ آج چودہ ماہ سے فلسطینی مزاحمت نے صرف اسرائیل سے نہیں بلکہ پوری دنیا سے ٹکر لے رکھی ہے اور غاصب اسرائیل کو ہر قدم پر شکست کی دھول چٹانے میں مصروف ہے۔
آج اگر فلسطینی مزاحمت کے رہنمائوں سے خلاصہ پوچھا جائے تو وہ یہی کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ شہید قاسم سلیمانی کی محنت اور حکمت عملی کا نتیجہ ہے، جو انہوں نے فلسطین اور قبلہ اول کی آزادی کے لئے ترتیب دی تھی۔ اسی طرح لبنان میں ایک طاقتور مزاحمت کا رمز بھی شہید قاسم سلیمانی کی ذات ہے۔ جس کا اعتراف خود لبنان کی مزاحمت حزب اللہ کے قائدین بھی کرچکے ہیں۔ یمن کے انصار اللہ آج جو کچھ انجام دے رہے ہیں، وہ بھی شہید قاسم سلیمانی کی جنگی حکمت عملی کا ایک نمونہ ہے۔ شہید قاسم سلیمانی فلسطین کی عالمی مزاحمت کے محور کو مضبوط، طاقتور اور خود مختار بنانا چاہتے تھے اور انہوں نے اس مقصد میں کامیابی حاصل کی۔ اگرچہ آج شہید قاسم سلیمانی جسمانی طور پر ہمارے درمیان نہیں ہیں، لیکن ان کی پاکیزہ روح ہے کہ جو آج بھی عالمی مزاحمت کے اس میدان میں حریت پسندوں کی رہنمائی کر رہی ہے اور ان کے ساتھ ساتھ ہے۔
قاسم سلیمانی کو ہم عالمی مزاحمت کا نشان اور ہیرو اس لئے بھی کہتے ہیں، کیونکہ انہوں نے ظالم اور استبدادی نظام کے سامنے دیوار کھڑی کی۔ جب افغانستان میں امریکی فوجیں پہنچ چکی تھیں تو وہ ایران کے خلاف گھیرا تنگ کر رہے تھے۔ اسی طرح اگلے چند ہی سالوں میں امریکی فوجیں عراق پر قابض ہوگئیں، یہ بھی ایران کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کا اگلا منصوبہ تھا۔ یہ قاسم سلیمانی کی جنگی حکمت عملی اور تجربات تھے کہ انہوں نے اسی دور میں ہی ایک طرف غزہ کو طاقتور کرنا شروع کر دیا اور دوسری طرف یمن کو طاقتور کیا۔ اسی طرح افغانستان میں امریکی منصوبوں کی ناکامی میں بھی قاسم سلیمانی پیش پیش تھے۔ عراق سے امریکی فوجوں کا انخلاء بھی قاسم سلیمانی کی حکمت عملی اور جنگی تجربات کے باعث ممکن ہوا۔ یہاں تک کہ امریکی فوج کے اعلیٰ عہدیداروں نے قاسم سلیمانی کو پیغام بھجوایا کہ انہیں عراق سے نکلنے کا موقع دیا جائے۔ یعنی امریکی فوج نے جان لیا تھا کہ قاسم سلیمانی کا مقابلہ کرنا ناممکن ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ دنیا میں فلسطین سمیت جس خطے میں بھی ظلم، جبر اور ظالم طاقتوں کا قبضہ ہے، وہاں قاسم سلیمانی ہے۔ چاہے قاسم سلیمانی آج شہید ہوچکا ہے لیکن ان کی سوچ اور افکار سے ہزاروں قاسم سلیمانی پیدا ہوچکے ہیں، جو ظالم اور استعماری قوتوں کا راستہ روک رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قاسم سلیمانی کو آج ہم عالمی مزاحمت کا ہیرو اور نشان تصور کرتے ہیں۔ یہ بات صرف قاسم سلیمانی کے دوست ہی نہیں بلکہ یورپ میں بسنے والے حریت پسند اور انصاف پسند عوام بھی مانتے ہیں۔ آج بھی شام و لبنان اور عراق میں بسنے والے عیسائی خاندانوں کے گھروں میں اگر کسی کی تصویر لگائی جا رہی ہے تو وہ ہمارے ہیرو قاسم سلیمانی کی تصویر ہے۔ قاسم سلیمانی کسی ایک مذہب یا مسلک کے لئے نہیں تھے بلکہ انہوں نے پوری انسانیت کا دفاع کیا۔ شام اور عراق میں داعش کا خاتمہ اس کی واضح مثال ہے کہ جہاں قاسم سلیمانی نے نہ صرف مسلمانوں کا دفاع کیا بلکہ دیگر مذاہب کے پیرو کاروں کا بھی دفاع کیا۔ یہی وہ امتیاز ہے کہ جس نے قاسم سلیمانی کو عالمی مزاحمت کا نشان اور ہیرو بنا دیا ہے۔
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان
شہید حاج قاسم سلیمانی۔۔۔۔۔ علامہ اقبال کا مرد مومن
آج دنیا میں کئی پیچیدہ چیلنجز اور عالمی بحران موجود ہیں۔ اس صورت حال میں اسٹریٹجک خصوصیات کے حامل کمانڈروں کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ محسوس کی جاتی ہے۔ ایسے کمانڈر جن میں ایمان، خلوص اور انسانیت کی رہنمائی کوٹ کوٹ کر بھری ہو۔ ایسے ہی ایک کمانڈر قاسم سلیمانی تھے۔ آج حکومتوں کی اہم پریشانیوں میں سے ایک موثر اور قابل مینیجروں اور کمانڈروں کی کمی ہے۔ وہ کمانڈر جو ملک میں ترقی اور نمو کی طاقت بڑھا سکتے ہوں۔ حضرت امام علی علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں: "سب سے زیادہ رہنمائی کے حقدار وہ ہیں، جو کاموں کو انجام دینے میں سب سے زیادہ قابل اور خدا کے حکم سے مسائل کو سمجھنے میں سب سے زیادہ علم رکھنے والے ہوں۔" ایران کے اسلامی معاشرے میں انقلاب اسلامی کی فتح سے لے کر آج تک بالخصوص دفاع مقدس کے آٹھ سالہ دور میں قابل قدر کمانڈر اور منیجر و منتظم پیدا ہوئے، جنہوں نے ہمیشہ اسلامی اصولوں کو معاشرے میں نافذ کرنے کی کوشش کی۔ یہ کمانڈر سب کے لیے ایک نمونہ اور آئیڈیل بن کر سامنے آئے۔ ایسے کمانڈروں کا مکتب واضح کرنا بہت ضروری ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی ایران حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے انقلاب اسلامی کے ایک کمانڈر کی خصوصیات کے بارے میں فرمایا ہے "ایک کمانڈر کے اندر قیادت کا جوہر ہونا ضروری ہے۔ کمانڈ صرف حکم دینا نہیں ہے۔ قیادت ایک روحانی معاملہ ہے۔ قیادت اور نظم و نسق کی ایک جامع قسم جو دماغ، جذبات، عمل اور روح سے جڑی ہوئی ہے۔ وہی چیز جو مسلح افواج میں مکمل کارکردگی کا باعث بنتی ہے۔" ایک مشہور فوجی تھیوریسٹ سانتزو کا یہ بھی ماننا ہے کہ ایک اچھے کمانڈر میں "حکمت"، "انصاف پسندی"، "انسانیت"، "حوصلے" اور "فوجی طاقت اور استقامت" جیسی خصوصیات ہونی چاہئیں۔ اس کی حکمت اسے حالات و واقعات کی تبدیلیوں اور پیشرفت کو آسانی سے سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ اس کی انصاف پسندی اس کے ماتحتوں کو بروقت اور مناسب حوصلہ افزائی اور اعتماد دیتی ہے۔ اس کی انسانیت پرہیزگاری اور دوسروں کے ساتھ مشترکہ جذبات کا باعث بنتی ہے۔ اپنی بہادری اور جرأت سے وہ شکوک و شبہات کے سائے میں فتح حاصل کرتا ہے اور صحیح وقت سے صحیح فائدہ اٹھا کر اپنے ماتحت لوگوں کو سخت نظم و ضبط کا پابند بناتا ہے۔
شہید حاج قاسم سلیمانی، آج کے سب سے نمایاں فوجی اور اسٹریٹجک کمانڈروں میں سے ایک ہیں اور وہ مزاحمتی محاذ کے کمانڈروں میں ایک منفرد نمونہ تصور کئے جاتے ہیں۔ وہ نہ صرف میدان جنگ میں بلکہ سفارت کاری کے میدان میں بھی ایک بہترین رہنماء کی کامیاب مثال پیش کرنے میں کامیاب رہے۔ بہادری اور قربانی کے جذبے، ہوشیار منصوبہ بندی اور حکمت عملی، اتحاد و یکجہتی اور عوام سے قربت بالخصوص شہید سلیمانی کے خلوص نے انہیں ایک منفرد اور مثالی کمانڈر بنا دیا تھا۔ شہید سلیمانی ہمیشہ فرنٹ لائن میں رہے اور انہوں نے انتہائی مشکل حالات میں مثالی حوصلے کے ساتھ اپنی فوج کی قیادت کی۔ میدان جنگ میں ان کی موجودگی مجاہدین کے حوصلے بلند کرنے کا باعث بنتی تھی۔ ان کی کمانڈ کی ایک اور نمایاں خصوصیت مختلف قومیتوں اور مذاہب کی مزاحمتی قوتوں کے درمیان اتحاد پیدا کرنے کی صلاحیت تھی۔ قاسم سلیمانی، ایک کمانڈر کے طور پر، ہمیشہ گروپوں کے درمیان اندرونی اختلافات کو کم کرنے اور انہیں مشترکہ مقاصد کے مطابق متحد کرنے کی کوشش کرتے رہے۔
وہ نہ صرف فوجی کمانڈر تھے بلکہ ایک عاجز اور حلیم انسان بھی تھے۔ انہوں نے نمود و نمائش اور عیش و عشرت سے ہمیشہ گریز کیا اور جنگجوؤں اور عام لوگوں سے گہرا تعلق رکھا۔ اس خصوصیت کی وجہ سے لوگوں میں ان کی مقبولیت ہمیشہ قائم و دائم رہی۔ عظیم ایرانی جنرل فوجی آپریشنز کی پلاننگ اور دشمنوں سے نمٹنے میں درست اور جدید حکمت عملی استعمال کرتے تھے۔ اس حکمت عملی کی سب سے اہم مثال عراق اور شام میں دہشت گرد گروہ داعش کی شکست تھی، جو شہید قاسم سلیمانی کے انتظام، مزاحمتی قوتوں اور مقامی فوجوں کے درمیان ہم آہنگی سے حاصل ہوئی۔ ISIS یا داعش القاعدہ سے الگ ہوا ایک تکفیری گروپ ہے، جس نے عراق میں خلافت کا اعلان کیا تھا اور کچھ عرصہ قبل عراق اور شام کے کچھ حصوں پر قبضہ کرنے اور اس خطے میں عدم تحفظ اور خوف پیدا کرنے میں کامیاب ہوا تھا۔ ایران نے اس گروپ سے جنگ شروع کر دی، تاکہ سلامتی کو برقرار رکھا جائے اور خطے کو کنٹرول کیا جا سکے۔
شہید سلیمانی کی کمان میں فاطمیون ڈویژن اور زینبیون بریگیڈ سمیت مختلف فورسز داعش اور باغی افواج سے لڑنے کے لیے شام گئے اور اس دہشت گرد گروہ کو مہلک ضربیں پہنچانے میں کامیاب ہوئے۔ پھر 2014ء میں جب موصل شہر پر داعش نے قبضہ کر لیا اور عراق کا دارالحکومت بغداد تباہی کے دہانے پر چلا گیا۔ ایک بار پھر، قاسم سلیمانی نے حشد الشعبی فورسز کے ایک حصے کو منظم کرکے داعش کو عراق سے نکالنے میں موثر کردار ادا کیا۔ اس وقت عراق کے وزیراعظم حیدر العبادی نے قاسم سلیمانی کو داعش کے خلاف جنگ میں عراق کے اہم اتحادیوں میں سے ایک قرار دیا۔ رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای کے نام ایک خط، جو 30 نومبر 2017ء کو ایرانی میڈیا میں شائع ہوا، شہید حاج قاسم سلیمانی نے عراقی سرحد کے قریب واقع شامی شہروں میں سے ایک البوکمال میں داعش کے خاتمے اور شامی پرچم کو بلند کرنے کا اعلان کیا۔ آیت اللہ خامنہ ای نے داعش کی حکومت کے خاتمے کے بارے میں قاسم سلیمانی کے خط کے جواب میں فرمایا۔
"آپ نے داعش کے ناسور اور مہلک گروہ کو ختم کرکے نہ صرف خطے کے ممالک اور عالم اسلام بلکہ تمام اقوام اور انسانیت کے لیے ایک عظیم خدمت انجام دی ہے۔ رہبر معظم حاج قاسم کی شہادت کے بعد ان کے گھر تعزیت و تسلیت کے لئے تشریف لے گئے تو سوگواران سے انتہائی خوبصورت انداز میں حاج قاسم کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔ فرمایا: ”حاج قاسم متعدد بار شہادت کے بالکل قریب پہنچ گئے تھے، لیکن راہ ِخدا میں پیش قدمی، فرائض کی انجام دہی اور جہاد کی بات ہو تو وہ کسی اور چیز کی کوئی پروا نہیں کرتے تھے۔ دنیا کے خبیث ترین افراد یعنی امریکیوں کے ہاتھوں جنرل سلیمانی کی شہادت اور اس جرم پر امریکیوں کا فخر کرنا اس شجاع مجاہد کے لئے ایک بڑی خصوصیت ہے۔ ان کا جہاد بہت عظیم تھا اور اللہ تعالیٰ نے ان کی شہادت کو بھی عظیم شہادت قرار دیا، یہ عظیم نعمت الحاج قاسم کو مبارک ہو، جو اس کے سزاوار تھے۔“
جب شہید حاج قاسم کو فوجی اعزاز ”نشانِ ذوالفقار“ سے نوازا گیا تو اس وقت بھی رہبر انقلابِ اسلامی نے ان کی توصیف کے لئے نہایت خوبصورت الفاظ کا چناؤ کیا۔ آپ نے فرمایا: ”راہِ خدا میں مجاہدت کا صلہ جو ہوسکتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی راہ میں جان و مال ہتھیلی پر رکھ کر آگے بڑھنے کے عوض جوصلہ رکھا ہے، وہ بہشت ہے، رضائے پروردگار ہے۔ ہمارے اختیار میں جو چیز ہے، خواہ وہ زبانی شکریہ ہو، یا عملی اظہار تشکر ہو، یا یہ نشان عطا کرنا ہو یا جو رینک ہم دے سکتے ہیں، یہ ساری چیزیں مادی اور دنیاوی حساب کتاب کے اعتبار سے قابلِ ذکر ہیں، روحانی و الوہی حساب کتاب میں ان کی کوئی بساط نہیں ہے۔ الحمد للہ آپ سب نے یہ جدوجہد انجام دی ہے، محنت کی ہے۔ الحمد للہ۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے ان برادر عزیز جناب سلیمانی کو بھی توفیقات سے نوازا۔
بارہا، بارہا، بارہا ایسا ہوا کہ آپ نے اپنی جان خطرے میں ڈالی اور وہاں پہنچے، جو جگہ دشمن کے حملوں کی آماجگاہ بنی ہوئی تھی۔ راہ خدا میں، برائے خدا اور خالصتاً لوجہ اللہ آپ نے جہاد کیا۔ ان شاء اللہ خداوند عالم آپ کو اجر عطا فرمائے، آپ پر کرم کرے اور آپ کی زندگی کو باسعادت فرمائے اور آپ کو شہادت نصیب کرے۔ البتہ ابھی نہیں۔ ابھی تو اسلامی جمہوریہ کو برسوں آپ کی ضرورت ہے۔ لیکن بالآخر ان شاء اللہ زندگی کا سفر شہادت کی منزل پر ہو۔ آپ کو (یہ نشان) بہت بہت مبارک ہو۔“ اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج میں اعلیٰ ترین عہدہ پر فائز سربراہان کو دیا جاتا ہے، جن کے جنگی کارروائیوں کی منصوبہ بندی، حکمت عملی اور دیگر اقدامات مطلوبہ نتائج کے حامل ہوں۔ لیکن جس چیز نے شہید سلیمانی کو مقبول اور ہردلعزیز بنا دیا تھا، وہ صرف ان کی کمانڈنگ پاور نہ تھی بلکہ وہ ایک متقی شخص تھے، جنہوں نے اپنے آپ کو خدا کے لئے وقف کر رکھا تھا۔
وہ خدا کو یاد کرنے کے ہر موقع سے فائدہ اٹھاتے۔ اول وقت کی نماز کو اہمیت دی، قرآن پاک سے محبت کرتے اور اس کے احکام پر عمل کرتے۔ وہ اسلامی نظام کے قوانین کی پاسداری کرتے تھے اور نظام ولایت فقیہ کے وفادار تھے اور اپنے تمام فرائض کی ادائیگی میں پوری سنجیدگی سے کام کرتے تھے۔ صدر اسلام کے مجاہدین کی طرح فرنٹ لائن پر حاضر رہتے اور ہر وقت شہادت کے متمنی رہتے تھے۔ شہید قاسم سلیمانی جرآت،قربانی اور خلوص کی علامت ہیں۔ وہ اپنے نظم و نسق، پختہ ایمان اور بے مثال ایثار و قربانی سے دنیا کے فوجی کمانڈروں اور سیاسی رہنماؤں کے لیے نمونہ بن گئے ہیں۔ ان کی یاد اور راستہ نہ صرف ایران بلکہ آزادی اور انصاف کی خواہاں تمام اقوام کے لیے ہمیشہ مشعل راہ رہے گا۔
شہید حاج قاسم سلیمانی کو علامہ اقبال کا مرد مومن نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے۔
ہر لحظہ ہے مومن کي نئی شان، نئی آن
گفتار ميں، کردار ميں، اللہ کي برہان!
قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت
يہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
ہمسايہء جبريل اميں بندئہ خاکی
ہے اس کا نشيمن نہ بخارا نہ بدخشان
يہ راز کسي کو نہيں معلوم کہ مومن
قاري نظر آتا ہے، حقيقت ميں ہے قرآن!
قدرت کے مقاصد کا عيار اس کے ارادے
دنيا ميں بھي ميزان، قيامت ميں بھي ميزان
جس سے جگر لالہ ميں ٹھنڈک ہو، وہ شبنم
درياؤں کے دل جس سے دہل جائيں، وہ طوفان
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی
ما ملت امام حسینیم
قاسم سلیمانی ولد حسن، 11 مارچ 1957ء کو ایران کے صوبہ کرمان کے مضافات میں رابُر نامی شہر کے سلیمانی قبیلے میں متولد ہوئے۔ اور 3 جنوری 2020ء کو ان کی گاڑی پر امریکی حملے میں عراق کے رضاکار فورس حشد الشعبی کے نائب سپہ سالار ابو مہدی المہندس سمیت بعض دیگر ساتھیوں کے ساتھ بغداد میں شہید ہوئے۔لیکن دنیا سجمھ گئی کہ عصر حاضر کی عظیم طاقت، قاسم سلیمانی تھے،دنیاوالوں نے آپکی شہادت پریہ دیکھاکہ! سردار قاسم سلیمانی، ابو مہدی مہندس اور انکے ساتھیوں کی شہادت کے بعد تشیع، جنازہ عراق کے لاکھوں لوگوں نے بغداد، کاظمین، اور کربلا ونجف میں کیں، اور پھر شہید سردار کا جنازہ، ایران منتقل ہوا، پھر خود ایران کے مختلف شہروں (اهواز،مشهد،تهران،قم وکرمان) میں کروڑوں لوگوں نے آپ کی تشیع جنازہ میں شرکت کی، اس کے علاوہ تہران میں ملیونون لوگ تشیع، جنازہ میں شریک ہوئے، خبر کے مطابق ایران میں سید روحالله امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی تشیع جنازہ کے بعد سب سے بڑی تعداد میں جمعیت آپ کے جنازہ میں شریک ہوئے ہیں یہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ جسے خدا وند زندہ رکھے اس کو کوئی مٹا نہیں سکتاہے ۔
نورحق شمع الہی کو بھجاسکتا ہے کون
جسکا حامی ہوخدا اسکو مٹاسکتا ہے کون
شیعہ قوم کی تاریخ مظلومیت سے عبارت ہے ۔ شہادت سے آغاز ہوتی ہےاور ہر زمانہ میں اسی شہادت کا تسلسل بر قرارہا ہے۔ چودہ صدی پر مشتمل تاریخ کا ہر وقفہ اہل بیت کے چاہنے والوں کی مظلومیت میں گزرا ہے۔ عزاداری ہو یا مقدسات عزا کا تحفظ، شہادت کے بغیر نامکمل نظر آتاہے۔ عزاداری کے تعلق سے برصغیر میں جانے کتنے عزادار سرخروئے حق ہوئے اور اسی طرح ائمہ معصومین علیہم السلام کے مقدس مقامات کے تحفظ میں بے پناہ دلاوراپنی جان کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں۔ ۳جنوری ۲۰۲۰ اسی محافظ گروہ کا سردار قاسم سلیمانی بھی اپنی شہادت سے سرخرو ہوگئے تھے ۔شہید قاسم سلیمانی کون تھے ؟ انکی مکتب فکر کیا تھی ؟ اس کوسمجھناآج ہماری ذمہ داری ہے ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامینہ ای حفظہ اللہ کے فرمان کے مطابق : "شہید قاسم سیلمانی ایک مکتب کا نام ہے "مزید انہوں جہاں جامعیت کے ساتھ اس شہید فقید کا تعارف کروایا ہے وہاں دشمن کو بھی یہ پیغام دیا ہے شہید قاسم سیلمانی صرف جنرل ہی نھیں تھے بلکہ ایک مکتب کا نام ہے جو اپنے افکار کے ساتھ زندہ تھا اور زندہ رہے گا۔ شہید کے جانے سے اس مکتب کے پیرو کار اسے زندہ رکھیں گے۔
تلوار کی دھار سے کٹ سکتی نھیں کردار کی لو
بدن کی موت سے کر دار مر نھیں سکتا.
مکتب آیت اللہ شہید مرتضی مطہری کی نگاہ میں:’’ ایک تھیوری اور جامعہ اور مکمل منصوبہ هے جسکا اصلی ہدف انسان کے لے کمال اور سعادت کی راہ کو معین کر نا ہے ‘‘شہید قاسم سیلمانی نے اپنی پاکیزہ فکر اور عمل کے ذریعے اس مکتب کی بنیاد رکھی اور مادیات کے اس دور میں ظلمت سے نکل کر نور کی طرف راہ کی راہنمایی فرمائی۔ شہید قاسم سیلمانی ایک مکتب کا نام ہے تو پھر اس کے اندر جامعیت کا عنصر بھی موجود ہونا چاہئے جو ہر دور کے عشاق کو راہنمایی کر سکے۔ جب شہید ایک مکتب اور مدرسہ ہے تو پھر جس طرح ایک مدرسہ اور مکتب میں مختلف علوم ہوتے ہیں، شہید قاسم سلیمانی کا مکتب بھی اپنے طالب کے لئے نصاب رکھتا ہے، جہاں اخلاق و معنویت، خدا کے ساتھ ارتباط ، اخلاص، یقین کامل، عزم راسخ، سعہ صدر، بردباری، عشق و محبت، شناخت دشمن، بصیرت، مقاومت، جس کی تفسیر علمی معاشرے میں رہتے پاکیزہ اور بابصیرت افراد میدان جنگ میں موجود مجاہدین اور اس کی علمی تفسیر بابصریت علماء کا وظیفہ ہے۔جب مکتب ہے تو پھر اپنے اندر اسرار و پیغام رکھتا ہے.اے دشمنان اسلام تم سمجھ رہے تھے شہید قاسم سیلمانی اور ابو مہدی المہندس کو شہید کر کے تم اپنے مقاصد میں کا میاب ہو جاو گے۔
نور خدا ہے کفر کی حالت پے خندہ زن/پھونکو ں سے یہ چراغ بجھایا نہ جاے گا۔
وعدہ الہی ہے بریدون ان یطفوا نور اللہ با فواھھم وللہ منتم نور ہ ولو کرہ الکافرون
شہید حاج قاسم سلیمانی خود فرماتے ہیں شہید ہونے کے لئے کچھ شرایط ہیں۔
پہلی شرط یہ ہے شہید بودن شرط شہیدشدن است یعنی شہید ہونے لے لئے شہیدوں والی زندگی گزارنا شرط ہے جب تک آپ کی زندگی شہیدوں والی نہیں ہوگی تب تک آپ شہادت پر فائز نہیں ہوسکتے ہیں۔
دوسری شرط ہجرت ہے یعنی انسان ہرچیز کو چھوڑکر خداوند کی را ہ میں ہجرت کرے انسان مال ودولت ، بیوی اور بچے ، والدین اور رشتہ دار ،بھائی اور بہین اور دوستوں کو جھوڑکر خدا کی راہ میں قدم بڑھائے یعنی منیت اور انانیت کو للہیت کے لئے ترک کرے ۔
تیسری شرط جہاد فی سبیل اللہ ہے شہید ہونے کی تیسری شرط یہ ہے کہ انسان مسلسل راہ خدا میں جہاد کرتے رہے تھکاوٹ ،سستی اور کاہلی نہ آنے دے ہرانسان اپنے فیلڈ میں کوشاں رہے اس میں مومنین اور مستضعفین کی مدد کرے راہ خدا سے دوری اختیار نہ کرے ہمیشہ اس راہ سے منسلک رہے ۔
چوتھی شرط یہ ہے کہ انسان استقامت اور ثابت قدمی کا ثبوت دے سختیوں کا مقابلہ کرے تمام تر چلینچنز کا سامنے کرنے کی ہمت رکھے طاقت رکھے اس راہ میں اپنی پوری عمر صرف کرے تب جاکے انسان کو شھادت مل سکتی ہے اور شہادت وہ مقام ہے جس سے بڑا کوئی اور مقام نہیں ہے پیامبر اسلام فرماتے ہرنیکی سے بڑھ کر ایک نیکی ہے یہاں تک کہ انسان راہ خدا میں شہید ہوجائے جب انسان راہ خدا میں شہید ہوتا ہے تو اس سے بڑھکر کوئی اور نیکی نہیں ہے ۔
دانشمندوں اور تحقیق کا ذوق رکھنے والوں کے لئے ایک وسیع وادی ہے، جنگی مہارت ہو یا پھر دشمن کے خلاف جنگ نرم، عرفان و معنویت کی بات ہو یا پھر اخلاص و عقیدت، ٹیبل ٹاک کی بات ہو یا دشمن کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرنے کی۔ جذبۂ شہادت ہو یا جذبۂ فداکاری، ناموس کی حفاظت کا معاملہ ہو یا انسانی جانوں کو خونخواروں سے نجات دلانے کی بات، خدا ہو یا دشمن، بے رعب و دبدبہ، یتیموں سے محبت ہو یا مصیبت زدہ افراد کی مدد، اہل تحقیق کے لئے ایک وسیع میدان ہے، یہ بابصیرت علماء اور اہل قلم کی ذمہ داری ہے کہ اس مکتب کو شفاف انداز میں آئندہ نسلوں تک پہنچائیں اور اس مکتب کو تحریف سے بچائیں۔جب مکتب کی بات ہے تو پھر مکتب روش مند اور ہدف مند ہوتا ہے، اس کا نکتۂ آغاز بھی ہے اور نکتۂ انجام بھی، ایرانیوں کے بقول اس میں رویش بھی ہے اور زایش بھی ۔ خود سازی سے شروع ہو کر معاشرہ سازی اور وحدت سے کثرت کی طرف جاری و ساری ہےآخری بات ہے جب یہ مکتب ہے تو "اصلہ ثابت و فرعھا فی السماء" کے تحت ایسا شجرہ طیبہ ہے۔ تؤتی اکلھا کل حین اس کے ثمرات اور پھل صرف ایک موسم کے لئے نہیں بلکہ ہر موسم میں پھلوں سے لدا ہوا ہے۔ باذن ربّھا اپنے رب کے اذن کے ساتھ ہر ایک کے لئے ہے، جب اس مکتب عشق کے ساتھ تعلق قائم کرتا ہے تو پھر یاد رکھتا ہوگا:
مکتب عشق کا دستور نرالا دیکھا
اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا ۔
دین اسلام کے مکتب کے علمبرادار"شهید حاج قاسم سلیمانی،شہیدحاج قاسم سلیمانیؒ، ایک ماہر دشمن شناس تھے انھوں نے زمانے کے پیجیدہ حالات میں اہم اور مہم کی ترجیحات کو بخوبی پہچانا اور انھوں نے یہ بھی سمجھ لیا کہ تمام فسادات کا منبع و سرچشمہ امریکہ اور اسرائیل ہیں۔ لہذا انہوں نے فساد کے خلاف لرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ شہید حاج قاسم سلیمانی نے یہ جانتے تھے کہ عالم اسلام کی نجات کا واحد راستہ مقاومت ہے،لہذا نہضت مقاومت پر پوری توجہ مرکوز کی اور دشمنوں کو شکست دیتے ہوئے آگے بڑھتے رہے یہاں تک کے آج یمن،عراق، شام سب متحد اور منسجم ہوچکے ہیں اور استکباری طاقتوں سے دست و پنجہ نرم کر رہے ہیں یہ جرات اور یہ ہمت انہیں کہاں سے ملی؟بلا شک شهید قاسم سلیمانی کی وجہ سے اور یہ شھید کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ شهید قاسم سلیمانی ولایت فقیہ کے مطیع تھے اسی وجہ سے وہ دلوں کے امیر بن گیے اور تمام اقوام عالم ان سے بے پناہ محبت کرتی تھی۔شاعر کہتا ہے :
مالک اشتر علی نہ رہا /زور بازروئے رھبری نہ رہا /جس سے ڈرتے تھے وقت کے دشمن ،/ہائی وہ قاسم جزی نہ رہا .
اس زمانہ کا یقینا مالک اشتر ہے تو/ ہاں ! زمانے کے علی کا باوفانوکر ہے تو
سینہء طاغوت پر اک کرارا وار ہو / غزوئ شام و یمن کا فاتح اکبر ہے تو
تم سے ہے اب کاخ استکبار کی نیندیں حرام / مشرق وسطی میں امریکہ کے آرمانوں کے شام
ہمارا فریضہ ہیکہ ہم شہید قاسم سلیمانی کے راستے کو جاری رکھیں اور ان کے مشن کو بہترین انداز میں پایہ تکمیل تک پہونچاییں جو انھوں نے ھمارے کندھوں پر رکھا ہے۔ ہمیں پہلے سے کہیں زیادہ سخت محنت اور تلاش کرنے کی ضرورت ہے ۔ آج ہمیں شھید قاسم سلیمانی کے راستے کو زیادہ سنجیدگی سے جاری رکھنا چاہیے اور ان کے بیانات گہر بار کو مشعل راہ قرار دیتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے۔
تحریر : محمد جواد حبیب کرگلی
تعلیماتِ امام محمد باقر (ع)، دور حاضر کے نوجوانوں کے لیے مشعل راہ
اسلامی تاریخ میں امام محمد باقر علیہ السلام کا دور علمی و فکری احیاء کا ایک نمایاں زمانہ تھا۔ آپ کی تعلیمات میں ایسے اصول و ضوابط موجود ہیں جو آج کے نوجوانوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ امام علیہ السلام نے ایک ایسے معاشرے کی بنیاد رکھی جو علم، کردار اور مقصد پر مبنی ہو۔
نوجوانوں کی تربیت میں امام باقر علیہ السلام کا کردار:
امام باقر علیہ السلام نوجوان نسل کو ایک ایسی شخصیت بنانا چاہتے تھے جو علم و عمل کا پیکر ہو۔ آپ نے اپنے قول و عمل کے ذریعے نوجوانوں کو ایک متوازن اور کامیاب زندگی گزارنے کے اصول سکھائے۔
1. علم کی اہمیّت
امام باقر علیہ السلام کا ایک مشہور قول ہے: "علم زندگی کی روشنی ہے اور جہالت موت کی تاریکی۔"
آپ نے نوجوانوں کو علم حاصل کرنے کی ترغیب دی اور فرمایا:"علم حاصل کرو، کیونکہ علم انسان کو حق و باطل کی پہچان دیتا ہے اور دنیا و آخرت میں کامیابی کا ذریعہ بنتا ہے۔"
آج کے نوجوانوں کو تعلیم کو صرف دنیاوی کامیابی کے لیے نہیں بلکہ شخصیت کی تعمیر اور معاشرتی خدمت کے لیے بھی استعمال کرنا چاہیے۔
2. اخلاقی تربیت
امام باقر علیہ السلام نے اخلاقی اقدار کو شخصیت کی بنیاد قرار دیا۔ آپ فرمایا کرتے تھے: "بہترین انسان وہ ہے جو دوسروں کے لیے ویسا بنے جیسا وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے۔"
نوجوانوں کو معاشرے میں صبر، دیانت داری، اور عاجزی کا مظاہرہ کرنے کی ترغیب دی گئی۔
3. وقت کی قدر
امام باقر علیہ السلام نے فرمایا:"مومن کا دن تین حصوں میں تقسیم ہونا چاہیے: ایک حصہ عبادت کے لیے، دوسرا روزی کمانے کے لیے، اور تیسرا اپنی ذات اور علم کے لیے۔"
یہ اصول نوجوانوں کو وقت کی قدر اور اس کے بہترین استعمال کی تعلیم دیتا ہے۔
4. عبادت اور روحانیت کی اہمیّت
امام باقر علیہ السلام نے روحانیت اور عبادت کو زندگی کا اہم حصہ قرار دیا۔ آپ نے نوجوانوں کو نماز، دعا اور قرآن سے جڑے رہنے کی ترغیب دی تاکہ وہ دنیوی مسائل کے باوجود اپنے روحانی سکون کو برقرار رکھ سکیں۔
5. خود اعتمادی اور خود احتسابی
امام باقر علیہ السلام نے فرمایا:"سب سے بڑا جہاد اپنے نفس کے خلاف ہے۔"
آپ نے نوجوانوں کو خود احتسابی اور اپنی اصلاح پر زور دیا تاکہ وہ دنیا کے چیلنجز کا مقابلہ کر سکیں۔
6. والدین اور بڑوں کا احترام
امام باقر علیہ السلام نے نوجوانوں کو والدین اور بڑوں کے احترام کی تعلیم دی۔ آپ نے فرمایا: "جو اپنے والدین کا احترام کرتا ہے، اللہ اس کی زندگی میں برکت دیتا ہے۔"
یہ تعلیم آج کے دور میں خاندانی نظام کو مضبوط بنانے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔
7. نوجوان اور معاشرتی ذمہ داری
امام باقر علیہ السلام نے نوجوانوں کو معاشرتی انصاف کے قیام کا درس دیا۔ آپ نے فرمایا:"وہ شخص بہترین ہے جو اپنے بھائیوں اور معاشرے کے لیے مفید ہو۔"
یہ اصول نوجوانوں کو اپنے سماجی کردار کو سمجھنے اور اسے ادا کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔
آج کے نوجوانوں کے لیے امام باقر علیہ السلام کی تعلیمات کی اہمیت:
1. تعلیم اور ٹیکنالوجی کا استعمال
علم حاصل کرنے اور جدید ٹیکنالوجی کو مثبت مقاصد کے لیے استعمال کرنے میں امام علیہ السلام کی تعلیمات رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔
2. کردار سازی
نوجوانوں کو اپنی زندگی میں اخلاق، ایمانداری، اور استقامت اپنانے کی ترغیب ملتی ہے۔
3. دین اور دنیا کا توازن
امام باقر علیہ السلام نے عبادت اور دنیوی معاملات میں توازن برقرار رکھنے کا درس دیا جو آج کے نوجوانوں کے لیے نہایت ضروری ہے۔
4. چیلنجز کا سامنا
آپ کی تعلیمات نوجوانوں کو موجودہ دور کے اخلاقی، سماجی اور روحانی چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی طاقت دیتی ہیں۔
امام محمد باقر علیہ السلام کی تعلیمات نوجوانوں کے لیے ایک جامع رہنما ہیں جو انہیں زندگی کے ہر شعبے میں کامیاب ہونے کی ترغیب دیتی ہیں۔ علم، اخلاق، وقت کی قدر، اور روحانی تربیت کے ذریعے آپ نے نوجوان نسل کو ایک مثالی شخصیت بنانے کا درس دیا۔ آج کے نوجوان اگر ان اصولوں کو اپنائیں تو وہ نہ صرف اپنی زندگی کو بہتر بنا سکتے ہیں بلکہ امت مسلمہ کے لیے بھی ایک مثبت مثال بن سکتے ہیں۔ خداوند ہم تمام حق کے پیروکاروں کو سیرت امام باقر علیہ السلام کو سمجھنے اور اس پر سختی سے عمل پیرا ہونے توفیق عنایت فرمائے۔
تحریر : مولانا سید عمار حیدر زیدی قم
ماہ رجب الاصم
ماہ خدا ماہ رجب کی آمد آمد ہے۔ ماہ رجب بڑی عظمتوں اور فضیلتوں کا مہینہ ہے۔ یہ سال کے چار حرام مہینوں میں سے ایک ہے جس میں جنگ کرنا حرام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ماہ رجب خدا کے نزدیک بڑی عظمتوں والا مہینہ ہے، کوئی بھی مہینہ حرمت و فضیلت میں اس کا ہم رتبہ نہیں اور اس مہینے میں کافروں سے جنگ و جدال کرنا حرام ہے، جان لو کہ رجب اللہ کا مہینہ ہے ، شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے، رجب میں ایک روزہ رکھنے والے کو خدا کی عظیم خوشنودی نصیب ہوتی ہے،وہ عذاب سے دور ہو جاتا ہے اور جہنم کے دروازوں میں سے ایک دروازہ اس کے لئے بند ہوجاتا ہے۔
نیز آپؐ نے فرمایا: اللہ تبارک و تعالیٰ نے ساتویں آسمان پر ایک فرشتہ کو معین کیا ہے جس کو ‘‘داعی’’ کہتے ہیں ۔ جب ماہ رجب داخل ہوتا ہے تو فرشتہ ہر شب میں صبح تک ندا دیتا ہے‘‘طوبى لِلذّاكِرينَ! طوبى لِلطّائِعينَ’’ خوش خبری ہے اللہ کا ذکر کرنے والوں کے لئے، خوش خبری ہے اللہ کی اطاعت کرنے والوں کے لئے۔
‘‘ويَقولُ اللّهُ تَعالى : أنا جَليسُ مَن جالَسَني ، ومُطيعُ مَن أطاعَني ، وغافِرُ مَنِ استَغفَرَني ، الشَّهرُ شَهري ، وَالعَبدُ عَبدي ، وَالرَّحمَةُ رَحمَتي ، فَمَن دَعاني في هذَا الشَّهرِ أجَبتُهُ ، ومَن سَأَلَني أعطَيتُهُ ، ومَنِ استَهداني هَدَيتُهُ ، وجَعَلتُ هذَا الشَّهرَ حَبلاً بَيني وبَينَ عِبادي ؛ فَمَنِ اعتَصَمَ بِهِ وَصَلَ إلَيَ ’’
اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اس کا ہم نشین ہوں جو میری ہم نشینی کرے، میں اس کا فرمانبردار ہوں (یعنی میں اس کا خیال رکھوں گا ) جو میری اطاعت کرے، میں اسے معاف کر دوں گا جو مجھ سے مغفرت طلب کرے، مہینہ میرا مہینہ ہے، بندہ میرا بندہ ہے، رحمت میری رحمت ہے۔ جو بھی مجھ سے اس ماہ میں دعا مانگے گا میں اجابت کروں گا، جو مجھ سے سوال کرے گا میں عطا کروں گا، جو مجھ سے ہدایت چاہے گا اس کی ہدایت کروں گا، اس ماہ کو اپنے اور اپنے بندوں کے درمیان واسطہ قرار دیا ہے پس جو بھی اس سے متمسک ہو گا وہ مجھ تک پہنچ جائے گا۔
باب الحوائج امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے فرمایا : رجب عظیم مہینہ ہے اس میں نیکیاں دو برابر ہوجاتی ہیں اور گناہ ختم ہو جاتے ہیں۔ ماہ رجب میں ایک روزہ رکھنے سے جہنم کی آگ ایک سال کی مسافت تک دور ہوجاتی ہے اور جو شخص اس ماہ میں تین دن کے روزے رکھے تو اس پرجنت واجب ہوجاتی ہے۔
مذکورہ روایات کے علاوہ دیگر بہت سی روایتیں ہیں جن میں ماہ رجب کی عظمتیں اور فضیلتیں بیان ہوئی ہیں کہ اس ماہ میں بندوں کو چاہئیے زیادہ سے زیادہ اللہ کی اطاعت کریں، عبادت کریں ، اس کی بارگاہ میں دعا مانگیں اور استغفار کریں جیسا کہ حضورؐ نے فرمایا: ‘‘رجَبٌ شَهْرُ اَلاِسْتِغْفَارِ لِأُمَّتِي أَكْثِرُوا فِيهِ اَلاِسْتِغْفَارَ فَإِنَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ’’ ماه رجب میری امت کے لئے توبہ اور استغفار کا مہینہ ہے لہذا تم اس ماه میں زیاده سےزیاده استغفار کرو کہ خدا غفور و رحیم ہے۔
روایات میں ہے کہ ماہ رجب کو‘‘رجب الاصب’’ بھی کہتے ہیں کیوں کہ اس ماہ میں رحمٰن و رحیم اور ارحم الراحمین پروردگار کی رحمت کا نزول موسلا دھار ہو جاتا ہے۔ ظاہر ہے یہ مہینہ خدا کا مہینہ ہے ۔ اس میں اللہ کے رسولؑ نے اعلان توحید کیا ، دور جاہلیت کے ظلم و ستم سے تڑپتی انسانیت کو عدل الہی کا درس دیا، اس ماہ میں ہمارے حضورؐ مبعوث بہ رسالت ہوئے ۔ اس ماہ خدا میں خانہ خدا میں خدا کے اس عظیم ولی کی ولادت ہوئی جو تمام اولیاء کا سردار اور تمام اوصیاء کا رہبر ہے۔
ماہ رجب کی مناسبتیں مندرجہ ذیل ہیں۔
یکم رجب
1۔ اس ماہ کی پہلی تاریخ کو سن 57 ہجری میں امام محمد باقر علیہ السلام کی ولادت ہوئی۔ جنکو اس رسول ؐ نے سلام کہلایا جس پر اللہ اور ملائکہ درود بھیجتے ہیں ۔ جنہوں نےانسانیت دشمن اموی اور عباسی دور ظلمت میں علم نبوت کا ایسا چراغ روشن کیا کہ آج ہمارا پورا دین چاہے ہمارے عقائد ہوں ، یا احکام و اخلاق سب انہیں ‘‘قال الباقرؑ’’ و ‘‘قال الصادقؑ’’ سے ماخوذ ہیں ۔ نہ صرف فقہ جعفری بلکہ عالم اسلام کی دیگر چار فقہیں بھی انہیں کی مرہون منت ہیں کیوں کہ وہ چاروں اماموں نے بلا واسطہ یا باواسطہ حضرت باقرالعلومؑ کے سامنے زانوئے ادب تہہ کئے ہیں۔
2۔ وفات آیۃ اللہ العظمیٰ آقا حسین خوانساری رحمۃ اللہ علیہ ۔ سن 1098 ہجری
گیارہوں صدی ہجری کے معروف شیعہ عالم ، فقیہ ، متکلم، حکیم، فیلسوف، شاعر اور ادیب آیۃ اللہ العظمیٰ آقا حسین خوانساری رحمۃ اللہ علیہ کو مختلف علوم و فنون میں مہارت کے سبب ‘‘جامع الاطراف عالم ’’ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔
3۔ شہادت شہید محراب آیۃ اللہ سید محمد باقر حکیم رحمۃ اللہ علیہ ۔ سن 1424 ہجری
مرجع عالی قدر آیۃ اللہ العظمیٰ سید محسن الحکیم رحمۃ اللہ علیہ کے فرزند ارجمند فقیہ اہلبیتؑ و مجتہد آیۃ اللہ سید محمد باقر حکیم رحمۃ اللہ علیہ امیرالمومنین علیہ السلام کے روضہ مبارک میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد بم دھماکے میں شہید ہوئی۔
پہلی رجب کے اعمال میں روزہ ، غسل ، زیارت امام حسین علیہ السلام اور نماز سلمان فارسیؒ ہے۔
2؍ رجب
1۔ وفات ابو ریحان بیرونی ۔ سن 440 ہجری
عظیم مسلمان طبیب، فیلسوف، منجم، ریاضیدان
3؍ رجب
ماہ رجب کی تیسری تاریخ کو سن 252 ہجری میں ولی الہی، حجت باری امام ہادی حضرت ابوالحسن امام علی نقی علیہ السلام کی سامرا عراق میں شہادت ہوئی ۔ آپؑ نے متوکل جیسے ظالم و ستمگر اور دشمن اہلبیتؑ کے زمانے میں زیارت جامعہ کبیرہ اور زیارت غدیر تعلیم کر کے رہتی دنیا کو ائمہ ہدیٰ علیہم السلام کی عظمتوں اور فضیلتوں سے آشنا کرایا ۔ نیز اس زمانے میں جب متوکل ملعون نے متعدد بار قبر حسینؑ پر حملہ کر کے نشان قبر مٹانے کی ناکام کوشش کی اور زیارتوں پر پابندی عائد کی تو آپؑ نے لوگوں کو زیارت حسینؑ کی عظمت و اہمیت سے آگاہ کیا ، زیارت کا حکم دیا اور تشویق فرمائی۔
4؍ رجب
1۔ وفات علامہ سید محسن امین عاملی رحمۃ اللہ علیہ سن 1371 ہجری
چودہویں صدی کے معروف شیعہ عالم، فقیہ، ادیب اور مورخ تھے۔
5؍ رجب
1۔ ولادت امام علی نقی ہادی علیہ السلام سن 220 ہجری
2۔ شہادت ابن سکیتؒ سن 244 ہجری
عظیم عالم و معلم ، شاعر اور ماہر علم نحو جناب ابن سکیت رضوان اللہ تعالیٰ علیہ کو متوکل عباسی نے صرف اس جرم میں شہید کر دیا کہ آپؑ نے امیرالمومنین علیہ السلام کی توہین برداشت نہیں کی اور متوکل کو اسکی اہانت کا منھ توڑ جواب دیا۔
8؍ رجب
1۔ ولادت شیخ حر عاملی رحمۃ اللہ علیہ ۔ سن 1033 ہجری
گیارہویں صدی ہجری کے معروف شیعہ عالم ، محدث، فقیہ، متکلم جناب محمد بن حسن عاملی رحمۃ اللہ علیہ امام علی رضا علیہ السلام کے روضہ مبارک میں دفن ہیں ، آپ کی مشہور کتاب وسائل الشیعہ ہے۔
2۔ شہادت آیۃ اللہ سید عبداللہ بہبہانی رحمۃ اللہ علیہ (رہبر تحریک مشروطیت ایران) سن 1328 ہجری
3۔ وفات عالم ، عارف و استاد اخلاق آیۃ اللہ میرزا عبدالکریم حق شناس تہرانی رحمۃ اللہ علیہ۔ سن 1428 ہجری
9؍ رجب
1۔ وفات مرجع دینی ، فقیہ اہل بیت ؑ آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ محمدحسن آل یاسین کاظمینی رحمۃ اللہ علیہ ۔ سن 1308 ہجری
آپ شیخ مرتضیٰ انصاری رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد تھے اور ان کے بعد مومنین عراق کے پیشوا ہوئے۔
10؍ رجب المرجب
1۔ ولادت با سعادت شہید کربلا فرزند سید الشہداء ؑ حضرت علی اصغر علیہ السلام ۔ سن 60 ہجری
2۔ ولادت باسعادت حضرت جواد الائمہ امام محمد تقی علیہ السلام۔ سن 195 ہجری
آپ کو خاندان عصمت و طہارت کا مولود مبارک کہتے ہیں ۔ آپؑ نے اس کمسنی میں بڑے بڑے علماء و فقہاء سے مناظرے کئے اور انکو شکست قبول کرنے پر مجبور کیا۔
11؍ رجب
1۔ ولادت مرجع عالی قدر آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ حسین وحید خراسانی دام ظلہ سن 1339 ہجری
آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ حسین وحید خراسانی دام ظلہ نے بانیٔ مدرسہ حجتیہ قم مقدس آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمد حجت کوہ کمری رضوان اللہ تعالیٰ علیہ سے سند اجتہاد حاصل کیا۔ آیۃ اللہ العظمیٰ سید عبدالہادی شیرازی رحمۃ اللہ علیہ، آیۃ اللہ العظمیٰ سید محسن الحکیم رحمۃ اللہ علیہ اور استاد الفقہاء آیۃ اللہ العظمیٰ سید ابوالقاسم خوئی رحمۃ اللہ علیہ سے کسب فیض کیا ۔
آپ نےآیۃ اللہ العظمیٰ شیخ لطف اللہ صافی گلپائگانی رحمۃ اللہ علیہ اور آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ محمد فاضل لنکرانی رحمۃ اللہ علیہ کے ہمراہ محرک عزائے فاطمی آیۃ اللہ العظمیٰ میرزا جواد تبریزی رحمۃ اللہ علیہ کی تحریک عزائے فاطمی کی مکمل حمایت کی اور ان کے بعد اس تحریک کی سربراہی فرما رہے ہیں ۔ اللہ آپ کو صحت و سلامتی اور طول عمر عطا فرمائے۔
12؍رجب
1۔ وفات جناب عباس بن عبد المطلب علیہ السلام (رسول اکرمؐ کے چچا) ۔ سن 32 ہجری
2۔ جنگ جمل کے بعد امیرالمومنین علیہ السلام کوفہ تشریف لائے اور کوفہ کو دارالحکومت قرار دیا ۔ سن 36 ہجری
3۔ سن 60 ہجری میں حاکم شام کی دنیا سے کوچ اور یزید پلید یتیم ہوا ۔ اگر چہ شعر علوی ‘‘لَيْسَ الْيَتِيمُ الَّذِي قَدْ مَاتَ وَالِدُهُ ۔۔۔۔ إِنَّ اليَتِيمَ يَتِيمُ الْعِلْمِ وَالأَدَبِ’’ کی روشنی میں وہ ہمیشہ یتیم و فقیر ہی رہا۔
4۔ وفات آیۃ اللہ سید محمد علی موحد ابطحی رحمۃ اللہ علیہ (مولف تہذیب المقال فی علم الرجال) سن 1433 ہجری
13؍ رجب
سن 30 عام الفیل کو صدف ولایت کفیلہ رسالت مہمان کعبہ حضرت فاطمہ بنت اسد سلام اللہ علیہا خانہ ابوطالبؑ سے نکلیں اور خانہ کعبہ کے نزدیک پہنچی۔ ماہ خدا میں کنیز خدا نے خانہ خدا کے قریب خدا سے راز و نیاز کیا تو خانہ خدا کی دیوار میں نیا در بن گیا، آپؑ اندر تشریف لے گئیں ، جہاں مولی الموحدین، سید الوصیین ، امیرالمومنین ، امام المتقین حضرت علی بن طالب علیہ الصلوٰۃ و السلام کی ولادت با سعادت ہوئی۔
14؍ رجب
1۔ مرگ معتمد عباسی (امام حسن عسکری علیہ السلام کا قاتل) سن 279 ہجری
15؍ رجب
المرجب مظلوم کربلا کی زیارت کا خاص دن ہے، اسی دن سن 10 بعثت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ کے گھر والے اور چاہنے والے تین سال بعد شعب ابو طالبؑ سے نکل کر اپنے گھر واپس آئے اور سن 2 ہجری میں حکم خدا کے مطابق عین حالت نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بیت المقدس کی جانب سے اپنا رخ خانہ کعبہ کی جانب کیا اور اس طرح عالم اسلام کا قبلہ تبدیل ہوا۔ سن 62 ہجری کو بانیٔ عزا ،محافظہ مقصد سید الشہداءؑ مبلغہ پیغام کربلا ،عقیلہ بنی ہاشم ام المصائب حضرت زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا نے اس دنیا سے کوچ فرمایا۔ روایت میں ہے کہ جب حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ جو میری اس بیٹی کی مصیبت پر گریہ کرے گا تو اس کو کیا اجر ملے گا تو حضورؐ نے فرمایا: اس کو وہی اجر ملے گا جو (امام) حسنؑ و(امام) حسینؑ پر گریہ کرنے کا اجر ہے۔
16؍ رجب
سن 30 عام الفیل ۔ مہمان کعبہ حضرت فاطمہ بنت اسد سلام اللہ علیہا اپنے فرزند مولود کعبہ امیرالمومنین علیہ السلام کے ہمراہ خانہ کعبہ کے باہر تشریف لائیں جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کا استقبال کیا۔
17؍ رجب
1۔ مرگ مامون عباسی (امام علی رضا علیہ السلام کا قاتل) سن 218 ہجری
2۔ وفات محقق بحرانی رحمۃ اللہ علیہ سن 1121ہجری
بارہویں صدی ہجری میں بحرین کے نامور شیعہ عالم ، فقیہ، محدث، ماہر علم رجال و علم کلام ، خطیب و شاعر آیۃ اللہ سلیمان بن عبداللہ ماحوزی رحمۃ اللہ علیہ نے امیرالمومنین علیہ السلام کی مدح میں فرمایا۔
اِنّی و اِن لَمْ یَطُبْ بَیْنَ الْوَریٰ عَمَلی۔ فَلَسْتُ اَنْفَکُّ مَهْما عِشْتُ عَنْ اَمَلی۔ و کَیْفَ اَقْنُطُ مِنْ عَفْوِ الاِلٰهِ و لی۔ وَسیلَةٌ عِنْدَهُ حُبُّ الاِمامِ عَلی۔
اگرچہ لوگوں میں میرا عمل اچھا نہیں ہے، لیکن میں زندگی میں ہمیشہ پر امید ہوں۔ میں خدا کی بخشش سے کیسے مایوس ہو سکتا ہوں جبکہ اس کے نزدیک میرا وسیلہ امام علی علیہ السلام سے محبت ہے۔
18؍ رجب
1۔ وفات فرزند رسولؐ جناب ابراہیم ؑ جو امام حسین علیہ السلام کا فدیہ قرار پائے۔ سن 10 ہجری
2۔ ابن عیاش کی روایت کے مطابق یوم شہادت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سن 11 ہجری
19؍ رجب
1۔ وفات آیۃ اللہ العظمیٰ سید دلدار علی نقوی غفرانمآب رحمۃ اللہ علیہ سن 1235 ہجری
20؍ رجب
1۔ وفات عمر بن عبدالعزیز ۔ سن 101 ہجری
عمر بن عبدالعزیز دوسرے اموی حکمرانوں کے برخلاف نیک تھا ۔مولا علی علیہ السلام پر سب و شتم منع کیا، فدک اولاد حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو واپس کیا اور نقل و کتابت حدیث کی پابندی ختم کی۔
22؍ رجب
1۔ نذر امام جعفر صادق علیہ السلام
2۔ جنگ خیبر میں یہودیوں کا رعب اور مقابل میں خوف و فرار۔ سن 7 ہجری
23؍ رجب
1۔ گذشتہ ایام کی طرح جنگ خیبر میں یہودیوں کا رعب اور مقابل میں خوف و فرار۔ آخر اللہ کے رسول ؐ نے فرمایا: کل میں علم (اسلام) اس کو دوں گا جو کرار ہوگا، غیر فرار ہوگا، اللہ و رسولؐ سے محبت کرتا ہو گا اور اللہ و رسولؐ اس سے محبت کرتے ہوں گے’’ اس حدیث نبوی سے جہاں غیروں کی بزدلی ثابت ہوتی ہے وہیں اللہ و رسولؐ کی محبت سے دوری بھی ثابت ہوتی ہے۔
24؍ رجب
کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علم اسلام حیدر کرار امیرالمومنین امام علی بن ابی طالب علیہ السلام کو دیا اور آپؑ نے خیبر کو فتح کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خوشی دو بالا ہو گئی جب آپؐ نے دیکھا کہ حبشہ سے جناب جعفر طیار ؑ بھی آ گئے ہیں۔
25؍ رجب
سن 183 ہجری کو 14 سال کی اسیری کے مصائب برداشت کرتے ہوئے زہر ہارونی سے قید خانہ میں امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی شہادت ہوئی۔
26؍ رجب
سن 10 بعثت وہ غم انگیز دن ہے جب اسلام کے محسن اعظم ، کفیل رسول اکرمؐ حضرت ابوطالب علیہ السلام نے اس دنیا سے رحلت فرمائی ۔ اس غم میں حضورؐ اس قدر غمگین ہوئے کہ پورے سال کو ‘‘عام الحزن’’ غموں کا سال نام دیا۔ ابن اثیر جزری نے لکھا: اہل بیت علیہم السلام کا حضرت ابوطالب علیہ السلام کے ایمان پر اجماع فرمایا اور اہل بیت علیہم السلام کا اجماع حجت ہے۔
27؍ رجب
سال کے چار با عظمت دنوں میں سے ایک ہے ۔ اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مبعوث بہ رسالت ہوئے۔ اس شب و روز کے مخصوص اعمال ہیں جو کتب اعمال اور ادعیہ میں مرقوم ہیں ۔
28؍ رجب
1۔ اسلام میں پہلی نمازجماعت سن یکم بعثت
بعثت کے بعد پہلی نماز جماعت کہ جسمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امامت کی اور امیرالمومنین علیہ السلام اور حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا نے با جماعت نماز ادا کی۔
2۔ سن 60 ہجری کونواسہ رسول ؐ جانِ مدینہ امام حسین علیہ السلام نے مدینہ کو خیرباد کہا اور اپنے سفر شہادت کا آغاز کیا۔
ماہ رجب کا آخری دن
1۔ امام ابوحنیفہ کی بغداد میں وفات ۔ سن 150 ہجری
۲۔ امام شافعی کی مصر میں وفات ۔ سن 204 ہجری
خدا ہمیں ماہ رجب کی معرفت عطا فرمائے اور اس ماہ میں اپنی بندگی کی توفیق کرامت فرمائے۔
آمین
تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی
مذاہب کے عبادت گاہوں کی تاریخ ایرانی عظمت کی نشانی
حضرت مسیح علیہ السلام کے یوم ولادت اور نئے عیسوی سال کے آغاز کی مناسبت سے ایک تقریب کا انعقاد ہوا۔ یہ تقریب بین الاقوامی اہل بیت(ع) یونیورسٹی کے بین الاقوامی کانفرنس ہال میں ہوئی، جس میں 30 سے زائد ممالک کے بین الاقوامی طلبہ اور غیر ملکی مہمانوں نے شرکت کی۔
حضرت مسیح علیہ السلام کے یوم ولادت اور نئے سال کے آغاز کی تقریب کی تصویری رپورٹ ایکنا کی ویب سائٹ پر دیکھی جا سکتی ہے۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے حجت الاسلام والمسلمین سعید جازاری معمویی، رئیس بین الاقوامی اہل بیت(ع) یونیورسٹی، نے کہا: "ہمارے رہبر اور بزرگ ہستیوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کی ولادت کے دن کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا اور مسیحی برادری سے ملاقات کی۔ ہم نے بھی اسی جذبے کے تحت، اور رہبر معظم انقلاب اسلامی کی اس دن کی اہمیت پر توجہ کے پیش نظر، اس تقریب کا اہتمام کیا ہے۔"
انہوں نے مزید کہا: "ایران 12 ہزار سالہ درخشاں تاریخ کے ساتھ ہمیشہ انسانیت، عدل، اور آسمانی اعتقادات کا حامی رہا ہے، اور یہودیت و عیسائیت کی حمایت میں ایران کی خدمات نمایاں ہیں۔"
حجت الاسلام جازاری نے کہا: "یہ ہمارے لیے فخر کی بات ہے کہ دنیا کے پہلے انسانی حقوق کے منشور کو کوروش ایرانی نے لکھا، جو عدل و انسانیت کی خدمت میں تھا۔ ایران میں یہودیت کا دوسرا اہم زیارت گاہ ہمدان میں واقع ہے، اور یعقوب نبی، دانیال نبی، اور دیگر یہودی شخصیات کی قبریں یہاں محفوظ اور قابل احترام ہیں۔"
انہوں نے مزید کہا: "دنیا کی قدیم ترین مسیحی کلیسا ایران میں موجود ہے، اور یہ تمام مذہبی مقامات ایرانی ثقافت کی عظمت اور آسمانی اعتقادات کے احترام کی دلیل ہیں۔"
انہوں نے اس بات پر زور دیا: "ایران میں مذاہب کے درمیان گفت و شنید کا پہلا رسمی مرکز ایک شیعہ رہنما کے ذریعے اصفہان میں قائم کیا گیا، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایران نے ہمیشہ مذاہب کا احترام کیا ہے اور ان کے مقام کو اہمیت دی ہے۔"
تقریب کے دوران آیت اللہ رضا رمضانی گیلانی، مجمع عالمی اہل بیت(ع) کے سیکرٹری جنرل اور مجلس خبرگان رہبری کے رکن، نے بھی خطاب کیا۔ انہوں نے کہا: "قرآن کریم نے 15 سورتوں اور 93 آیات میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر کیا ہے، اور ان کا مقام واضح کیا ہے۔ سورہ مریم ان کے نام سے منسوب ہے اور قرآن میں حضرت عیسیٰ کو کلمۃ اللہ اور ان کی پیدائش کو ایک معجزہ کہا گیا ہے۔"
آیت اللہ رمضانی نے کہا: "اگر آج ہمیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زیارت کا موقع ملتا تو ہمیں جاننا چاہیے کہ ان کے لیے سب سے اہم چیز کیا ہوتی۔ میرا خیال ہے کہ ان دونوں عظیم پیغمبروں کے لیے دو اہم امور تھے: پہلا یہ کہ معاشرے میں اللہ کی رحمت کے لیے سازگار ماحول پیدا کیا جائے، اور دوسرا ظلم کا خاتمہ کیا جائے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ 'ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے'، اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی اسی اصول پر عمل پیرا تھے۔"
انہوں نے مزید کہا: "ظلم کے خاتمے کے لیے صرف فکر کافی نہیں، بلکہ عملی اقدام ضروری ہے۔ حضرت عیسیٰ نے فرمایا کہ اگر کسی کے پاس ظالم کو روکنے کی طاقت ہو، لیکن وہ اسے نہ روکے تو وہ خود بھی ظالم ہے۔"
غاصب صیہونی حکومت کا تاریک مستقبل
اسرائیل میں غربت کے اعداد و شمار نے صیہونی حکام کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔ عبرانی اخبار معاریو نے لکھا ہے کہ اسرائیلیوں کی معیشت اور اقتصاد میں کمی نے اسرائیل کے مستقبل کو اندھیرے میں دھکیل دیا ہے اور غربت کے پھیلاؤ سے متعلق اعداد و شمار سے تل ابیب کے حکام کی نیند اڑ جانی چاہیئے۔ موصولہ رپورٹس کے مطابق اسرائیلی بچوں میں سے 30 فیصد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل کے معیارات کے مطابق صیہونی حکومت کا مستقبل تاریک ہے۔ یاد رہے کہ یہ بات عبرانی اخبار معاریو میں شائع ہوئی ہے۔ اسرائیلی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں اسرائیل کے زیر قبضہ علاقوں میں غربت کے بارے میں صیہونی تنظیم "لاتیت" کی حالیہ رپورٹ نے صیہونی ساکھ کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
اس رپورٹ میں مقبوضہ علاقوں اور اس میں بسنے والے غاصب شہریوں کی معاشی اور معاشرتی حالت کا جائزہ لیا گیا ہے، خاص طور پر اس رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ تقریباً ایک چوتھائی صیہونی آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے اور ایک بڑی تعداد غربت اور اسی طرح کے دیگر مسائل سے نمٹنے کی ناکام کوشش کر رہی ہے۔ یہ سب غزہ پر صیہونیوں کی مسلسل جارحیت اور محاصرے نیز فلسطین، لبنان، یمن، عراق اور ایران پر جاری جارحیت کی وجہ سے ہے۔ اسرائیلی عبری اخبار معاریو نے "لاتیت" کے اعداد و شمار اور اسرائیلی مرکزی ادارہ شماریات کی جانب سے فلسطینی علاقوں میں غربت کے پھیلاؤ کے بارے میں ایک تجزیاتی رپورٹ میں کہا ہے کہ اسرائیل کی ایک چوتھائی آبادی زندگی گزارنے کے اخراجات برداشت کرنے سے قاصر ہے، جبکہ ایک چوتھائی آبادی بنیادی اخراجات ادا کرنے سے بھی قاصر ہے۔
معاریو نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ بدقسمتی سے اسرائیل میں سینکڑوں ہزار خاندان انتہائی خراب معاشی حالات اور بہت کم آمدنی کے ساتھ رہتے ہیں اور یہ اعداد و شمار اور حقائق تلخ سے تلخ تر ہو رہے ہیں۔ اس عبرانی اخبار نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں غریبوں کی حالت کو "انتہائی مشکل اور انتہائی تشویشناک" قرار دیا ہے۔ اس اخبار نے اس بات پر زور دیا کہ سابقہ رپورٹوں کے مطابق 21 فیصد سے زیادہ غاصب صیہونی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ اس نے لکھا ہے کہ موجودہ حالات کے برقرار رہنے سے معیشت کی تباہی اور اس کے نتیجے میں غربت میں شدد اضافہ ہوگا۔ مصنف نے کہا ہے کہ غزہ کی جنگ کے خوفناک نتائج سامنے آئے ہیں، جن کا صیہونی حکومت کی معیشت پر گہرا اثر پڑا ہے۔ انہوں نے کہا کہ غزہ پر جارحیت جاری رکھنے سے اسرائیل دیوالیہ ہونے کے دہانے پر ہے۔ معاریو نے مزید کہا ہے کہ اب ایک ملین سے زیادہ اسرائیلی غربت میں زندگی گزار رہے ہیں اور غیر یہودی خاندانوں کے حالات انتہائی خطرناک ہیں، کیونکہ بہت سے غیر یہودی خاندان انتہائی غربت میں رہتے ہیں، جبکہ سنگل فیملی والے والدین بھی کسمپرسی سے زندگی گزار رہے ہیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اسرائیل کے 30 فیصد بچے غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل کا مستقبل تاریک ہے۔" اس عبرانی اخبار نے نیتن یاہو کی کابینہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ معیشت کی بہتری، حزب اللہ کی طرف سے تباہ کیے گئے شہروں کی تعمیر نو، غریب خاندانوں کے لیے نئے مواقع فراہم کرنے، سماجی نگہداشت کی خدمات کو بہتر بنانے، تعلیم کے شعبے پر توجہ دینے اور مہنگائی سے لڑنے کے لیے جامع پروگرام تیار کرنے کے لیے تیزی سے کام کرے۔ اگرچہ یہ مطالبات نیتن یاہو کی کابینہ کے لیے ناممکن ہیں، کیونکہ وہ اپنی سکیورٹی، فوجی اور معاشی سلامتی کے لیے متعدد خطرات سے دوچار ہے۔ خاص طور پر اس لئے بھی کہ اسرائیل کو اپنے اندرونی معاملات میں بھی بحران کا سامنا ہے، کیونکہ اس کی کابینہ سے عدم اطمینان کی وجہ سے معاشی صورتحال خراب ہوگئی ہے اور اس نے غزہ کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے میں بھی تاخیر کی ہے۔
لاتیت نامی تنظیم نے اس ماہ کے وسط میں ایک رپورٹ شائع کی، جس میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ اسرائیل میں 700،000 سے زیادہ گھرانوں میں دو ملین سے زیادہ افراد یا 22.5 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے رہ رہی ہے، کیونکہ اسرائیل میں معاشی اور معاشرتی حالات خراب ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ زندگی اور معاشی حالات کی خرابی اور صیہونی معیشت کی کمزوری ہے۔ 7 اکتوبر 2023ء سے پہلے نیتن یاہو کی کابینہ بڑے پیمانے پر سرمایہ کاروں اور تاجروں کو راغب کرنے کے بارے میں بات کر رہی تھی، لیکن غزہ میں 15 ماہ کی جنگ اور اس کے نتائج نے صورتحال کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ یہ صورتحال غاصب اسرائیل کی لاچاری اور اس کے معاشی، سکیورٹی اور فوجی ڈھانچے کی کمزوری کو ثابت کر رہی ہے۔
تحریر: الہام موزنی
شہید قاسم سلیمانی کی زبانی جنگ کا یادگار واقعہ
محور مقاومت کے سیدالشہداء شہید قاسم سلیمانی نے دفاع مقدس (ایران عراق جنگ) کے دوران ایک اہم واقعہ کے بارے میں ذکر کیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ دشمن کے حالات کا جائزہ لینے کے لئے ہم آپریشن بیت المقدس کے تیسرے یا چوتھے دن، صبح آٹھ بجے ایک بہت بڑی نہر میں داخل ہوئے، جو تقریباً دو میٹر اونچی اور دو میٹر چوڑی تھی اور مکمل طور پر بارودی سرنگوں سے اٹی ہوئی تھی، عراقیوں نے اس نہر کو بارودی سرنگوں سے بھر دیا تھا اور اس کے دونوں طرف ان کی فورسز موجود تھیں۔
شہید سلیمانی کہتے ہیں کہ ہم دن کے وقت اس میں داخل ہوئے تاکہ دشمن کو شک نہ ہو۔ میں نے برادر منصور جمشیدی سے کہا کہ خیال رکھیں کہ آپ کا پاؤں بارودی سرنگ پر نہ آئے، بیل کی دو دانت برابر کچھ جگہ ابھری ہوئی تھی، ہم انہی اونچی جگہوں پر چل رہے تھے کیونکہ وہاں بارودی سرنگوں کی موجودگی کا امکان کم تھا۔ باقی دونوں اطراف میں والمر اور دوسری قسم کی بارودی سرنگیں دبی ہوئی تھیں، ہم نے وہاں جنگی حالات کا جائزہ لیا۔ جب آدمی آگے بڑھتا ہے، تو ہر لمحہ زیادہ آگے بڑھنے کی خواہش ہوتی ہے۔
فرماتے ہیں کہ آخرکار ہمیں ایک بنکر نظر آیا۔ چونکہ سیدھی سی نہر تھی، ہم ان کا بنکر دیکھ سکتے تھے اور وہ ہمیں دیکھ سکتے تھے، ہمارے پاس کوئی اور چارہ نہیں تھا، ہم نے نہر کے اندر کنارے کے ساتھ چلتے ہوئے جھانک کر بنکر کو دیکھا، جو کہ خالی تھا، ہم نے بنکر کے اوپر چڑھ کر دیکھا تو یہ عراقیوں کی مشین گن کا بنکر تھا، مشین گن بھی موجود تھی۔ یہاں نہر کا اختتام تھا، عراقیوں کی سڑک اس نہر کے قریب سے گزرتی تھی اور ھویزه اور کرخہ نور کے دریا کے کنارے کی طرف جاتی تھی۔
فرماتے ہیں کہ عراقیوں کا ایک یو شکل کا برج تھا، جو اس بنکر سے تقریباً سو میٹر کے فاصلے پر تھا، اور تقریباً تیس سے چالیس میٹر دور عراقی اس برج کے پیچھے تھے، ہم نے دیکھا کہ کچھ عراقی فوجی مٹی کے ڈھیر پر بیٹھے باتیں کر رہے تھے، ہم نے جائزہ لیا اور دیکھا کہ یہ کاروائی کے لئے ایک بہترین نکتہ ہے۔ جب ہم واپس آئے، میں آگے چل رہا تھا اور برادر جمشیدی میرے پیچھے چل رہے تھے، ایک مقام پر ہم رک گئے تاکہ نہر کے کناروں کو دوبارہ چیک کریں اور دیکھیں کہ وہاں بارودی سرنگیں ہیں یا نہیں۔
فرماتے ہیں کہ برادر جمشیدی سہارا دیا اور میں نے اس کے ہاتھوں پر پاوں کے اوپر چڑھ کر دیکھا، ہم بات کر رہے تھے کہ اچانک ایک دھماکے کی آواز آئی، برادر جمشیدی کا پاؤں بارودی سرنگ پر چلا گیا، میں نے فوراً ان کا پاؤں باندھا اور انہیں اپنے کندھے پر اٹھا لیا۔ ہم نہر کے آخر تک چلتے رہے، لیکن میں مجھے محسوس ہوا کہ میں نہیں لے جا سکتا، ایک جگہ ملی، میں نے انہیں نہر کے کنارے بٹھا دیا۔ پھر میں جلدی سے ایک جیپ میں بیٹھا اور خود کو اپنے بیس تک پہنچایا، کیونکہ حادثے کی جگہ ہماری لائنز سے بہت دور تھی، برادران نے سوچا کہ میں بے ہوش ہو گیا ہوں، دوڑ کر مجھے پکڑا اور بستر کے پاس لے آئے، میں نے انہیں بتایا، فلاں دوست وہاں رہ گیا ہے، وہ گئے اور اسے لے آئے۔
فرماتے ہیں کہ ٹینک کے فائر سے ہمیں پتہ چلا کہ دشمن فرار کر گیا ہے، ہم نےفوراً یہ خبر قرارگاہ کو منتقل کی اور اپنے خطوط میں داخل ہو گئے۔ ہم دشمن کے تعاقب میں چلے گئے، شمال کی طرف سڑک پر، پہلا ٹرک جو اہواز کی طرف جا رہا تھا اور دارخوین کی طرف سے آیا تھا، میں اور برادر آقای بشر دوست تھے جو آج سپاہ میں خدمت کر رہے ہیں، ہم نے دستوں کو کوشک کے قریب ڈیپلائے کیا اور ہم دشمن کے تعاقب میں گئے تاکہ پتہ چلے کہ وہ کہاں ہیں، میں اور آقای پورعلی، جو کہ اطلاعات کے ذمہ دار تھے اور بہت سارے نوجوان ایک اسٹیشن اور ایک جیپ کے ساتھ دشمن کی تلاش میں سرحد تک گئے۔
فرماتے ہیں ہم سرحد تک پہنچے، اور بارڈر پر لگی علامتوں کو پہلی بار قریب سے دیکھا، میں اور ایک نوجوان، جیپ کے ساتھ ٹیلے پر کھڑے تھے، اپنے بارڈر اور عراقی سرحد کے درمیان، ہم پہلی بار بین الاقوامی سرحد دیکھ رہے تھے، اور یہ پہلا ٹرک تھا جو بارڈر تک پہنچا تھا، اسی ٹیلے پر سب کھڑے تھے، شہید راجی گاڑی کے اوپر اور پوریانی سڑک پر تھے اور میں بھی گاڑی کے پاس کھڑا تھا، دوربین سے ارد گرد جائزہ لے رہے تھے کہ دشمن کو دیکھ سکیں، اچانک میں نے دیکھا کہ دائیں طرف سے ایک چمک اور روشنی اٹھی، تب ہمیں پتہ چلا کہ ٹینک کا فائر تھا اور اس نے ہماری اسٹیشن گاڑی کو نشانہ بنایا، اب ہمیں معلوم ہوا کہ عراقی کہاں ہیں۔؟
فرماتے ہیں کہ سڑک خالی تھی اور ہر چیز سیدھی ٹینکوں کے نشانے پر تھی، ہم گاڑی میں بیٹھے اور واپس مڑے، گاڑی بھی لوگوں سے بھری ہوئی تھی، تمام ذمہ داران موجود تھے۔ ٹینک نے گولہ باری شروع کر دی، ایک گولہ گاڑی کے سامنے لگا اور دوسرا ایک ساتھ گرا، میں نے جوانوں سے کہا کہ اگلا گولہ گاڑی کے اندر آئے گا اور ایسا ہی ہوا، گولا پچھلے دروازے پر لگا، جس نے گاڑی کی چھت کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا، پچھلے ٹائر کو پھاڑ دیا اور دوسرے ٹائر کو بھی پھاڑ دیا، صرف دو جوان زخمی ہوئے، ہمارے سامنے تقریباً ۵۰۰ میٹر پر ایک موڑ تھا، یہاں ہم سیدھی فائرنگ سے محفوظ تھے۔
ترتیب و تنظیم: علی واحدی