
سلیمانی
زندگی میں برکت کے حصول کا راز، توسّلِ سیدہ فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا)
زندگی میں برکت، سکون اور کامیابی کے متلاشی افراد اکثر مختلف راستے اور نسخے اپناتے ہیں۔ کوئی شخص مال و دولت کو زندگی کی کامیابی کا معیار سمجھتا ہے تو کوئی شہرت اور عہدے کو؛ لیکن جب ہم اسلامی تعلیمات کا گہرائی سے جائزہ لیتے ہیں، تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ حقیقی برکت اللہ کی قربت اور اس کے محبوب بندوں کے توسّل میں پنہاں ہے۔ شیخ عباس قمی جیسے جلیل القدر علماء کی زندگی ہمیں اس حقیقت کی بہترین مثال فراہم کرتی ہے۔ شیخ عباس قمی کو اسلامی دنیا میں دعاؤں اور زیارتوں کے مجموعے "مفاتیح الجنان" کے مصنف کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ آپ کی اس کتاب کو جو غیر معمولی مقبولیت اور قبولیت ملی، اس کی وجہ محض کتاب کی علمی حیثیت یا دعاؤں کی ترتیب نہیں بلکہ ایک روحانی و معنوی وابستگی تھی۔ شیخ عباس قمی نے خود اس راز کو یوں بیان کیا کہ جب انہوں نے "مفاتیح الجنان" کی تالیف کا آغاز کیا، تو دل میں یہ نیت کی کہ اس کتاب کا تمام تر ثواب سیدہ فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کی خدمت میں ہدیہ کریں گے۔ اسی اخلاص اور عقیدت کی برکت تھی کہ یہ کتاب نہ صرف اسلامی دنیا کے گھروں میں بلکہ قلوب میں بھی جگہ بنا گئی۔
یہاں ہمیں ایران کے صدر شہید ابراہیم رئیسی کا واقعہ بھی یاد آتا ہے۔ انہوں نے کئی مواقع پر اس بات کا اعتراف کیا کہ جب بھی وہ مشکلات میں گھر جاتے تھے تو سیدہ فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے ساتھ توسّل کرتے تھے اور یوں ان کی مشکلات حیرت انگیز طور پر حل ہو جایا کرتی تھیں۔ یہ واقعہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اہل بیت علیہم السلام کا توسّل نہ صرف روحانی طاقت کا ذریعہ ہے بلکہ دنیاوی مشکلات سے نجات پانے کا مجرب نسخہ بھی ہے۔ یہاں سے ہمیں ایک عظیم درس ملتا ہے کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری زندگیوں میں برکت ہو، ہمیں بھی اپنے اعمال کو سیدہ فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے وسیلے سے اللہ کی بارگاہ میں پیش کرنا چاہیئے۔ اہل بیت علیہم السلام کا توسّل، خصوصاً سیدہ فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا)، وہ ذریعہ ہے، جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نہ صرف ہمارے اعمال میں برکت عطا کرتا ہے بلکہ دنیاوی اور اُخروی کامیابیوں کا دروازہ بھی کھولتا ہے۔
شیخ عباس قمی نے توسّل کی ایک خاص صورت کا بھی ذکر کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اگر کوئی شخص چاہتا ہے کہ اس کی زندگی میں برکت ہو، تو اسے روزانہ کی بنیاد پر سیدہ فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کی "صلوات خاصہ" کو پڑھتے رہنا چاہیئے۔ یہ صلوات ایک ایسا تحفہ ہے، جو نہ صرف دنیاوی مشکلات سے نجات دلانے میں مددگار ہے بلکہ روحانی و معنوی ارتقاء کا ذریعہ بھی بنتا ہے۔ صلوات خاصہ کی تلاوت کے ذریعے ہم اپنی حاجات کو اللہ کے حضور پیش کرسکتے ہیں، کیونکہ یہ صلوات اللہ کے محبوب بندوں کا وسیلہ بن کر ہماری دعا کو قبولیت کی سرحدوں تک پہنچاتی ہے۔ آج کے دور میں جہاں مادیت پرستی اور دنیاوی کامیابی کے پیچھے دوڑ ہماری زندگیوں میں بے سکونی اور اضطراب کو جنم دے رہی ہے، ہمیں چاہیئے کہ ہم اہل بیت علیہم السلام کے وسیلے سے اپنی زندگیوں کو برکت سے مزیّن کریں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جو بھی شخص اخلاص کے ساتھ سیدہ فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ سے رجوع کرتا ہے، وہ نہ صرف دنیاوی مشکلات سے نجات پاتا ہے بلکہ روحانی و معنوی فیوض و برکات سے بھی مالامال ہوتا ہے۔
لہٰذا، ہمیں اپنی زندگیوں کو بامقصد بنانے کے لیے اہل بیت علیہم السلام خصوصاً سیدہ فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے توسّل کو اختیار کرنا چاہیئے۔ یہی وہ راستہ ہے، جو ہماری زندگیوں میں حقیقی برکت، سکون اور دائمی کامیابی کا ضامن ہے۔ آخر میں، اس برکت کی دعا اور توسّل کے لیے سیدہ فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کی صلوات خاصہ کا ذکر کیا جاتا ہے: "اللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَى الصِّدِّيقَةِ فاطِمَةَ الزَّكيَّةِ، حَبيبَةِ حَبيبِكَ وَنَبيِّكَ، وَأُمِّ أَحِبَّائِكَ وَأَصْفيائِكَ، الَّتي انْتَجَبْتَها وَفَضَّلْتَها وَاخْتَرْتَها عَلَىٰ نِساءِ الْعالَمينَ. اللّٰهُمَّ كُنِ الطَّالِبَ لَها مِمَّنْ ظَلَمَها وَاسْتَخَفَّ بِحَقِّها، وَكُنِ الثَّائِرَ اللّٰهُمَّ بِدَمِ أَولادِها. اللّٰهُمَّ وَكَما جَعَلْتَها أُمَّ أَئِمَّةِ الْهُدىٰ، وَحَليلَةَ صاحِبِ اللِّواءِ، وَالْكَريمَةَ عِنْدَ الْمَلإِ الْأَعْلىٰ، فَصَلِّ عَلَيها و عَلَىٰ أُمِّها صَلاةً تُكْرِمُ بِها وَجْهَ أَبيها مُحَمَّدٍ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيهِ وَآلِهِ وَتُقِرُّ بِها أَعْيُنَ ذُرِّيَّتِها، وَأَبْلِغْهُمْ عَنِّي فِي هٰذِهِ السَّاعَةِ أَفْضَلَ التَّحيَّةِ وَالسَّلام۔"
یہ صلوات ہر دن کی ابتدا میں پڑھی جانی چاہیئے، تاکہ اللہ کے فضل و کرم سے ہماری زندگیوں میں برکت اور کامیابی کا دروازہ ہمیشہ کے لیے کھل جائے۔ مزید برآں، اہل بیت علیہم السلام کا توسّل نہ صرف فرد کی ذاتی زندگی میں برکت اور سکون کا باعث بنتا ہے، بلکہ یہ اجتماعی مسائل کے حل اور امت کی سربلندی کا ذریعہ بھی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اسلامی تاریخ کے مختلف مراحل میں جب بھی امت مسلمہ کو چیلنجز اور مشکلات کا سامنا ہوا، اہل بیت علیہم السلام کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل کی گئی۔ آج بھی، اگر ہم اپنے معاشرتی، سیاسی اور اقتصادی مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی زندگیوں میں اہل بیت علیہم السلام کی تعلیمات اور ان کے توسّل کو زندہ کرنا ہوگا۔
یہی وہ راستہ ہے، جو ہمیں دنیاوی کامیابیوں کے ساتھ ساتھ آخرت کی فلاح کی طرف لے جاتا ہے۔ اسی طرح، جو بھی قوم اپنی زندگی کو اہل بیت علیہم السلام کی تعلیمات کے سانچے میں ڈھال لے، وہ قوم کبھی زوال پذیر نہیں ہوسکتی۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی نسلوں کو بھی اہل بیت علیہم السلام کی محبت اور ان کے وسیلے کی اہمیت سے روشناس کرائیں، تاکہ وہ ایک ایسی قوم کی صورت میں پروان چڑھیں، جو ہر طرح کی مشکلات کا مقابلہ کرسکے اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت کی مستحق ٹھہرے۔
تحریر: امداد علی گھلو
تعلیم و تربیت دینے سے مراد کیا ہے؟
حسب روایت ہم بزرگوں کے درمیان بیٹھے ان کی گفتگو سن رہے تھے۔ دورانِ گفتگو کسی بزرگ نے کہا کہ پہلے وقتوں میں جب ہم گاؤں کے بیٹھک میں شریک ہوتے تھے تو وہاں بزرگوں کی اکثریت نیک، پرہیزگار، شفیق، مہربانی ہونے کے ساتھ ساتھ خاندانی ہوتے تھے۔ ہمارے برابر میں بیٹھے ہوئے نوجوان نے پوچھا، دادا جان باقی باتیں تو ہماری سمجھ میں آئیں، مگر خاندانی لفظ سمجھنے سے قاصر ہیں؟ بزرگ نے نوجوان کی طرف دیکھا، مسکرائے، پھر بولنے لگے کہ آپ اپنے اردگرد بے چینی، بے سکون دیکھ رہے ہو، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے سماجی اداروں میں خاندانی لوگ نایاب ہوچکے ہیں۔
بزرگ نے مزید کہا اگر ان اداروں میں قدم رکھنے کے لیے خاندانی ہونا بنیادی شرائط میں ہو تو میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ ہمارے ہاں جرائم کا گراف ایک دم سے نیچے آئے گا۔ نوجوان نے پھر پوچھا، دادا جان ہمارا دین ہمیں حکم دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نذدیک کسی قوم، قبیلہ، خاندان کی حیثیت نہیں بلکہ صاحبِ تقویٰ کی اہمیت ہے؟ بزرگ کہنے لگے بالکل ہمارا دین سچا ہے اور ان کی تعلیمات حقیقت پر منبی ہے۔ میں بھی یہی کہہ رہا ہوں کہ جب کوئی بھی فرد صفاتِ حسنہ کو اپنی ذات میں بساتا ہے تو ہم اسے خاندانی کہتے ہیں۔ مثلاً
1۔ خاندانی شخص خود بھوکا ہوگا مگر مہمان کو بھوکا نہیں سلائے گا۔
2۔ خاندانی شخص تعلیم و تربیت کے لیے اپنی رہائش، گھربار کو پیش کرے گا
3۔ خاندانی شخص خواتین کی عزت و توقیر کرے گا
4۔ خاندانی شخص غریب، یتیم، مسکین کو اپنی اولاد کی جگہ رکھ کر ان کی بنیادی ضروریات کو پورا کرے گا
5۔ خاندانی شخص ہمیشہ فساد کو ختم کرنے کی کوشش کرے گا
6۔ خاندانی شخص بزرگوں کا احترام کرے گا
7۔ خاندانی شخص انفرادی مفادات کے بجائے اجتماعی مفادات کو ترجیح دے گا
8۔ خاندانی شخص ایثاروقربانی کا عملی مظاہرہ اپنی ذات سے شروع کرے گا
9۔ خاندانی شخص غیبت، الزامات اور جھوٹی قسمیں کھانے والوں سے دور رہے گا
10۔ خاندانی شخص پروپیگنڈا کرنے والوں سے دور رہے گا
نوجوان کہنے لگے جی جی دادا جان اب ہم سمجھے گئے، ہمارا بنیادی اشکال دور ہوگیا۔ میں کافی دیر سے دادا، پوتا کی گفتگو بڑے غور سے سن رہا تھا اور میری آنکھوں کے سامنے میرے ایک دوست کی کتابِ زندگی کے ورق تیزی سے پلٹ رہے تھے۔ قصہ مختصر، ہمارے ایک دوست نہایت شریف النفس، مگر بیوی الامان الحفیظ۔ بیچارہ شوہر کہیں سے کوئی نصیحت بھرا پیغام، آنکھوں دیکھا حال، مشاہدہ، تجربہ بیوی کے سامنے بیان کرنا شروع کرے تو آدھی بات اس کے حلق میں پھنس کر رہ جاتی تھی، اس کی بنیادی وجہ اس کی بیوی کا وسوسہ، وہم ہوتا ہے۔
پچھلے دنوں وہ اپنے جذبات سے مرعوب ہوکر اپنے بچپن کے دوست کو خوشی خوشی کوئی تحفہ دیتا ہے اور گھر میں اپنی بیوی سے ذکر کرتا ہے کہ آج میں نے اپنے بچپن کے فلاں دوست کو یہ چیز تحفہ میں دی ہے، بس اتنا سننا تھا کہ بیوی آگ بگولا ہوئی اور انہیں ایسی کھری کھری سنائی کہ وہ بیچارہ اگلی صبح اپنے دوست کے گھر پہنچ گیا کہ برائے مہربانی کل میں نے جو تحفہ آپ کو دیا تھا وہ مجھے واپس کریں۔ یہی وجہ تھی کہ پرانے وقتوں میں لڑکے کا رشتہ بھیجنے سے پہلے اس کے گھر کی خواتین دلہن کے گھر کا ماحول دیکھتی تھیں، معلومات لیتی تھیں، پھر باقاعدہ طور پر مرد رشتہ لے کر جاتے تھے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ایک تربیت یافتہ عورت کئی رشتوں میں الفت و محبت پیدا کرتی ہے مگر اس کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ مخاطبین میں قبولیت کا جذبہ ہو، اگر مخاطبین بدخواں، حاسد اور دلوں میں نفرت و کدورت رکھتے ہوں تو وہ کبھی بھی اس خاتون کی صلاحیتوں سے استفادہ نہیں کریں گے۔ اس حوالے سے قرآنِ مجیدکا واضح پیغام ہے کہ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا لِّلَّذِیْنَ كَفَرُوا امْرَاَتَ نُوْحٍ وَّ امْرَاَتَ لُوْطٍؕ-كَانَتَا تَحْتَ عَبْدَیْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَیْنِ فَخَانَتٰهُمَا فَلَمْ یُغْنِیَا عَنْهُمَا مِنَ اللّٰهِ شَیْــٴًـا وَّ قِیْلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدّٰخِلِیْنَ۔ (القران، سورۃ التحریم، آیت 10)۔ ترجمہ: اللہ کافروں کی مثال دیتا ہے نوح کی عورت اور لوط کی عورت وہ ہمارے بندوں میں دو سزاوارِ قرب (مقرّب) بندوں کے نکاح میں تھیں پھر انہوں نے ان سے دغا کی تو وہ اللہ کے سامنے انہیں کچھ کام نہ آئے اور فرما دیا گیا کہ تم دونوں عورتیں جہنم میں جاؤ جانے والوں کے ساتھ۔
دوسری جگہ آیا ہے کہ وَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا امْرَاَتَ فِرْعَوْنَۘ-اِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِیْ عِنْدَكَ بَیْتًا فِی الْجَنَّةِ وَ نَجِّنِیْ مِنْ فِرْعَوْنَ وَ عَمَلِهٖ وَ نَجِّنِیْ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ۔ (القران، سورۃ التحریم، آیت 11)۔ ترجمہ: اور اللہ نے مسلمانوں کے لئے فرعون کی بیوی کو مثال بنا دیا جب اس نے عرض کی، اے میرے رب! میرے لیے اپنے پاس جنت میں ایک گھر بنا اور مجھے فرعون اور اس کے عمل سے نجات دے اور مجھے ظالم لوگوں سے نجات عطا فرما۔ حاصل کلام یہ ہے کہ ہم اپنی مصروف ترین زندگی سے کچھ لمحات نکال کر اس بات پر غور کرنا چاہیئے کہ ہمارا انجام کیا ہوگا؟ آنے والے وقتوں کے لیے کیا ہم نے کوئی ایسا کام انجام دیا ہے جس کی بنیاد پر ہمیں یہ امید ہو کہ ہماراانجام بخیر ہو؟ جبکہ ہم آئے روز اپنے عزیزوں کو، دوستوں کو، رشتہ داروں کو، جاننے والوں کو اچانک اپنی محفلوں سے، پروگراموں سے، اداروں سے، محلوں سے، گھروں سے غائب ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں۔
جب ہم پوچھتے ہیں کہ یہ کیوں غائب ہے تو فوراً جواب ملتا ہے کہ وہ اس دنیا کو خیرباد کہہ کر چلا گیا۔ جب پوچھا جاتا ہے کہ کہاں چلے گئے؟ ہر لب خاموش، آنکھوں میں آنسو، دلوں میں حسرتیں اور زبان میں ایک ہی جملہ گردش کرتا ہے کہ کاش جانے والا اتنی جلدی نہیں کرتا؟ اگر انہیں جانا ہی تھا تو کم از کم اپنے بکھرے کاموں کو سنوارتا، دوستوں، رشتہ داروں سے رخصت لیتا، خدا حافظ کہتا، اپنے سفر کے اخراجات، کپڑے، بستر، کھانا وغیرہ ساتھ رکھتا باالفاظِ دیگر اپنے لیے توشہ آخرت کا انتظام کرکے چلے جاتے۔ یہ تو ہماری خواہشات ہیں موت کا فرشتہ، موت سے غافل انسانوں کو اتنا موقع نہیں دیتا۔
فاعتبروا یااولی الابصار
تحریر: ڈاکٹر انصار مدنی
خواتین پر عدم تشدد کا عالمی دن
25 نومبر کو دنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کو خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کا عالمی دن قرار دیا گیا ہے۔ یہ دن ایسے عالم میں منایا گیا کہ دنیا کے کئی ممالک میں خواتین پر اب بھی جبر، ظلم اور تشدد روا رکھا جاتا ہے۔ غزہ جیسے جنگی علاقوں میں تو یہ صورتحال بہت ہی سنگین ہے۔ اس سال بھی خواتین کے خلاف تشدد کی ممانعت کا عالمی دن ایسے عالم میں منایا گیا ہے کہ کئی دہائیوں تک خواتین کے حقوق کے احترام کے نعرے لگانے کے بعد اب بھی کئی ممالک میں خواتین کو کم سے کم قانونی حقوق اور زندگی گزارنے کا مطلوبہ حق حاصل نہیں ہے اور اس کی سب سے بڑی مثال آج کی غزہ کی جنگ ہے۔ یہ صورتحال ہر آزاد شخص کو تکلیف دیتی ہے۔
اس سلسلے میں ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان "اسماعیل بقائی" نے ایکس چینل پر لکھا ہے "خواتین کے خلاف تشدد کی ممانعت کے عالمی دن کے موقع پر، آئیے کئی دہائیوں سے جاری وحشیانہ تشدد کی وجہ سے ہونے والے شدید تشدد کو یاد کریں۔" مقبوضہ فلسطین میں قبضے اور نوآبادیاتی نسل کشی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بقائی نے کہا ہے کہ غزہ میں خواتین اور بچیوں کے خلاف تشدد کی سطح انتہائی شدید، بے مثال اور افسوسناک ہے۔ گذشتہ سال کے دوران دسیوں ہزار فلسطینی خواتین اور بچیاں ہلاک یا زخمی ہوئیں اور اس وقت بھی کئی مائیں، خواتین اور بچیاں بھوک اور ہجرت کے خطرے سے دوچار ہیں۔
غزہ کی جنگ کے ایک سال سے زائد عرصے بعد بھی مقبوضہ فلسطین میں خواتین اور بچوں کی صورتحال تشویشناک ہے۔ خواتین کے خلاف تشدد سے متعلق اقوام متحدہ کی رپورٹر ریم السلم نے ایک رپورٹ میں تاکید کی ہے کہ بہت سے فیلڈ ورکرز کو غزہ میں فلسطینیوں کی حالت اور غزہ میں موجود دکھ اور تکلیف کو بیان کرنے کے لیے صحیح الفاظ نہیں ملے۔ اسرائیل غزہ میں خواتین اور بچوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ ہلاک ہونے والے فلسطینیوں میں 70 فیصد سے زیادہ خواتین اور بچے ہیں۔ وہ اس لئے جنگی جرائم کا شکار ہیں، کیونکہ وہ فلسطینی اور خواتین ہیں۔
غزہ کی خواتین کو مشکل حالات کا سامنا ہے، ان میں سے کئی اپنے شوہر اور بچوں کو کھو چکی ہیں۔ بہت سو کو فاقہ کشی کا خطرہ ہے، کیونکہ انسانی امداد کو داخلے کی اجازت نہیں ہے۔ غزہ میں حاملہ خواتین بمباری اور طبی سہولیات کی کمی کے باعث بچوں کو جنم دینے پر مجبور ہیں۔ وہ غیر انسانی اور توہین آمیز رویئے کا شکار ہیں۔ اقوام متحدہ کے نامہ نگاروں نے بھی فلسطینی خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ اسرائیل کے غیر انسانی اور توہین آمیز رویئے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ "الجزیرہ" چینل نے حال ہی میں غزہ پٹی کے "الشفاء" میڈیکل کمپلیکس میں زیر محاصرہ ایک فلسطینی شہری کے حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیلی فورسز نے اس میڈیکل کمپلیکس میں کئی فلسطینی خواتین کی عصمت دری کی اور پھر انہیں قتل کیا۔
فلسطینی خواتین اور ان کے بچوں کو پھانسی دینے، مغربی کنارے اور مقبوضہ علاقوں میں فلسطینیوں کی جبری گرفتاری اور حراستی مراکز میں منتقلی کے بارے میں معتبر رپورٹیں بین الاقوامی نامہ نگاروں نے شائع کی ہیں۔ افغانستان جیسے دیگر ممالک میں بھی خواتین کے خلاف تشدد میں شدت آئی ہے، افغان خواتین کے سیاسی شراکت کے نیٹ ورک کی سربراہ ترنم سعیدی کہتی ہیں۔ افغان خواتین نے اس سال ایسی حالت میں 25 نومبر کا دن منایا کہ وہ بڑھتے ہوئے تشدد، سماجی تذلیل اور منظم ناانصافیوں کا سامنا کر رہی ہیں۔ یورپ اور امریکہ میں بھی خواتین تشدد اور عدم مساوات کا شکار ہیں، اسی لیے فرانس اور اٹلی میں بھی کئی خواتین نے چند روز قبل احتجاجی مظاہرے شروع کیے ہیں۔ روم، پیرس، مارسیلے اور لِل کے شہروں میں مظاہرین نے خواتین کے خلاف جنسی، جسمانی، نفسیاتی اور معاشی سمیت ہر قسم کے تشدد کے خلاف احتجاج کیا ہے۔
امریکہ میں خواتین اور لڑکیاں، خاص طور پر تارکین وطن اور رنگین فام لوگ مشکل حالات کا سامنا کرتے ہیں۔ رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ میں اوسطاً ہر تین میں سے ایک عورت گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہے۔ ہر دو میں سے ایک عورت اپنی زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر گھریلو تشدد کا سامنا کرتی ہے۔ بہرحال خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد آج بھی دنیا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے سب سے زیادہ پائے جانے والے واقعات میں سے ایک ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ اس بارے میں عالمی خاموشی اور حکومتی اداروں کی نااہلی و بے پرواہی ہے۔
تحریر: اتوسا دیناریان
لبنان اور صیہونی رجیم کے درمیان جنگ بندی پر اسلامی مزاحمت کو مبارکباد پیش کرتے ہیں، انصار اللہ
مہر خبررساں ایجنسی نے المسیرہ ٹی وی چینل کے حوالے سے بتایا ہے کہ یمن کے انصار اللہ کے دفتر سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم لبنان کے عوام اور اسلامی مزاحمت کو جنگ بندی کے قیام اور پناہ گزینوں کی ان کے گھروں کو واپسی شروع کرنے پر مبارکباد پیش کرتے ہیں۔
انصار اللہ نے تاکید کی کہ حزب اللہ نے یہ کامیابی راہ قدس میں بہائے گئے پاکیزہ خون کی بدولت حاصل کی ہے۔
لبنان کی اسلامی مزاحمت نے اپنے قائدین سے لے کر مجاہدین اور عوامی مقامات تک کو فلسطین کی حمایت کے اپنے اصولی موقف پر قربان کر دیا اور راہ قدس کی ایثار و وفا کی ایک بے مثال داستان رقم کی۔
اس بیان میں کہا گیا ہے کہ حزب اللہ طوفان الاقصیٰ کے پہلے دنوں سے ہی فلسطینی مزاحمت کے ساتھ کھڑی ہوئی، ہم لبنانی قوم کی بے مثال استقامت اور مزاحمت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جس نے میدان جنگ میں دشمن پر اپنی برتری ثابت کی، ہم دشمن کا مقابلہ کرنے میں قومی اتحاد کے کردار پر زور دیتے ہیں۔
برباد ہوئی آرزوئیں
غاصب صیہونی رژیم کی سیکورٹی کابینہ نے حزب اللہ لبنان کے خلاف مسلسل شکست کے بعد آخرکار کل رات جنگ بندی کا فیصلہ کر لیا۔ اگرچہ لبنان پر فوجی جارحیت کے آغاز میں صیہونی حکمران دعوی کر رہے تھے کہ ان کا مقصد دریائے لیتانی تک کے علاقے پر فوجی قبضہ برقرار کرنا ہے، لیکن تقریباً ڈیڑھ ماہ کی جنگ میں شدید جانی اور مالی نقصان برداشت کرنے کے بعد بھی صیہونی فوج کوئی خاص پیشقدمی نہ کر سکی اور آخرکار صیہونی رژیم جنگ بندی قبول کرنے پر مجبور ہو گئی۔ صیہونی ذرائع ابلاغ نے دعوی کیا ہے کہ لبنان اور صیہونی رژیم کے درمیان جنگ بندی آج بروز بدھ 27 نومبر 2024ء سے لاگو ہو گئی ہے۔ یہ جنگ بندی اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی قرارداد 1701 کی بنیاد پر ہوئی ہے۔ صیہونی فوج نے اعلان کیا ہے کہ وہ آئندہ 60 دنوں میں مرحلہ وار لبنان کے علاقوں سے باہر نکل جائے گی۔
لبنان سے جنگ بندی کے بعد صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو ایک بار پھر شدید تنقید کی زد میں ہے اور اندرونی حلقوں کی جانب سے شدید دباو کا شکار ہے۔ صیہونی وزیراعظم نے یہ دباو کم کرنے کے لیے اور یہودی آبادکاروں کی توجہ اندرونی مسائل سے ہٹانے کے لیے ایک بار پھر ایران کے جوہری پروگرام کے خلاف ہرزہ سرائی شروع کر دی ہے۔ قطر کے الجزیرہ نیوز چینل کے مطابق نیتن یاہو نے کہا ہے: "لبنان سے جنگ بندی کا مقصد ایران سے درپیش خطرات پر توجہ مرکوز کرنا ہے اور ہم نے ایران کو جوہری ہتھیاروں تک رسائی سے روکنے کے لیے ہر ممکنہ اقدام کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے۔" بنجمن نیتن یاہو نے غزہ اور لبنان میں اپنی کابینہ کی سیکورٹی اور سیاسی ناکامیوں کا ذکر کیے بغیر کہا: "اپنے تمام تر اہداف کے حصول تک جنگ ختم نہیں کریں گے۔" نیتن یاہو نے گذشتہ چند ماہ کے دوران بارہا کیے گئے دعوے کو ایک بار پھر دہرایا اور کہا کہ حماس کی نابودی جاری رکھیں گے۔
صیہونی ذرائع ابلاغ کے مطابق بنجمن نیتن یاہو نے مقبوضہ فلسطین کے شمالی علاقوں میں یہودی بستیوں کے میئرز سے بھی ملاقات کی ہے جو لبنان سے جنگ بندی کے شدید مخالف ہیں۔ صیہونی اخبار ٹائمز اس بارے میں لکھتا ہے کہ یہ ملاقات اس وقت انجام پائی جب ان میئرز نے لبنان سے جنگ بندی پر شدید تنقید کی۔ صیہونی کابینہ میں شامل کچھ اعلی سطحی حکام جیسے وزیر جنگ اور صیہونی فوج کا چیف آف آرمی اسٹاف بھی اس ملاقات میں موجود تھے۔ صیہونی کابینہ کی جانب سے جنگ بندی قبول کر لینے پر لبنان اور مقبوضہ فلسطین میں کافی زیادہ ردعمل سامنے آئے ہیں۔ لبنان میں نگران حکومت کے وزیراعظم نجیب میقاتی نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جلد از جلد جنگ بندی کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ انہوں نے کہا: "جنگ بندی کے اعلان کے بعد بیروت پر جارحانہ حملے صیہونی دشمن کا کینہ اور نفرت ظاہر کرتے ہیں۔"
حزب اللہ لبنان کی سیاسی کاونسل کے نائب سربراہ محمود قماطی نے جنگ بندی کے لیے امریکہ کی پیش کردہ شرائط کے بارے میں کہا تھا کہ اس میں کچھ نکات غلط ہیں جن کی اصلاح ضروری ہے کیونکہ ان کا نتیجہ لبنان کی خودمختاری متاثر ہونے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا تھا: "یہ بات ہمارے لیے ہر گز قابل قبول نہیں کہ غاصب صیہونی رژیم ہماری سرحدوں کے اندر آزادانہ فعالیت انجام دے۔" انہوں نے کہا کہ ہم نے جنگ بندی مذاکرات میں مضبوط موقف اختیار کیا ہے اور ہر گز اپنی آزادی اور خودمختاری کا سودا نہیں کریں گے۔ دوسری طرف لبنان پارلیمنٹ میں حزب اللہ لبنان کے رکن اور پارلیمانی پارٹی کے سربراہ محمد رعد نے غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے جنگ بندی کی ممکنہ خلاف ورزی کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ہم ہر ایسی پیشکش قبول کریں گے جس میں لبنان کی حاکمیت کا احترام کیا جائے گا۔
صیہونی رژیم کے داخلہ سیکورٹی کے وزیر اتمار بن غفیر نے لبنان سے جنگ بندی پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا: "اسرائیل اور لبنان کے درمیان جنگ بندی معاہدے سے جنگ کا وہ مقصد پورا نہیں ہو گا جس کے تحت اسرائیل کے شمالی حصوں سے جلاوطن یہودی آبادکاروں کی واپسی یقینی بنانا تھا۔" اتمار بن غفیر نے کہا: "لبنان سے جنگ بندی ایک تاریخی غلطی ہے۔" اسی طرح صیہونی رژیم کے اپوزیشن سربراہ یائیر لاپید نے کہا ہے کہ وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو حزب اللہ لبنان سے جنگ بندی پر مجبور ہوا ہے۔ اس نے کہا کہ حزب اللہ سے جنگ بندی ہماری رفتہ آبرو واپس نہیں لا سکتی اور غزہ سے یرغمالیوں کی آزادی اور شمالی علاقوں سے جلاوطن آبادکاروں کی واپسی ممکن نہیں بنا سکتی۔ لاپید نے مزید کہا: "اسرائیلی کابینہ جنگ بندی پر مجبور ہو گئی ہے اور فوجی میدان میں حاصل ہونے والی کامیابیوں کو سیاسی کامیابی میں تبدیل نہیں کر پائی۔"
یورپ یونین کے سیکرٹری خارجہ جوزپ بوریل نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیل پر جنگ بندی کی پابندی کرنے کے لیے دباو ڈالیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اور فرانس نے اسرائیلی حکمرانوں کو سیکورٹی ایشوز پر مکمل یقین دہانی کروائی ہے لہذا اب ان کے پاس لبنان سے جنگ بندی نہ کرنے کا کوئی بہانہ باقی نہیں بچا۔ جوزپ بوریل نے کہ کہ جنگ بندی معاہدے کا مسودہ امریکہ نے تیار کیا ہے اور جنگ بندی کمیٹی کی سربراہی بھی امریکہ کے ہاتھ میں ہو گی جبکہ فرانس بھی لبنان کی درخواست پر اس کمیٹی میں شامل ہو گا۔ صیہونی رژیم ٹی وی کے چینل 12 نے جنگ بندی کی شرائط کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اسرائیل سے عمل کی آزادی چھین لی گئی ہے۔ اس چینل کے مطابق جنگ بندی معاہدے میں حزب اللہ کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزی کی صورت میں اسرائیل کو فری ہینڈ نہیں دیا گیا جو قابل قبول نہیں ہے۔
تحریر: محمد افضلی
حضرت حجر بن عدی رضوان اللہ تعالی علیہ کا مرقد
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلیل القدر صحابی حضرت حجر (حا کو ضمہ اور جیم کو ساکن کے ساتھ) بن عدی الکندی کا مقبرہ شہر دمشق کے شمال مشرق میں واقع مرج عذراء شہر میں موجود ہے۔ اور یہ دمشق سے ۳۰کلومیٹر کے فاصلہ پر حمص کی طرف جانے والی سڑک کے دائیں جانب واقع ہے۔ یہ غوطہ دمشق ( دمشق کا وہ خوبصورت مقام جو باغات، میوہ جات، اور پھولوں کی کثرت کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے) کا ایک چھوٹا سا قریہ ہے۔ اسے عذاراء بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس کے باشندے دشمنوں کے شرو اور مکروفریب سے محفوظ رہے۔
اس خوبصورت وادی میں بھورے رنگ کے میناروں کے ساتھ ایک بلندوبالا گنبد دیکھائی دیتا ہے جو درحقیقت حجر بن عدی اور آپ کے باعظمت ساتھیوں کی قبور ہیں، اس مقبرہ کا صحن بہت ہی خوبصورت اور وسیع ہے جس کی چاروں اطراف اور تمام دیواریں قیمتی تحائف سے مزین ہیں، اس کی زمین قیمتی اور خوبصورت قالینوں اور جائےنمازوں سے ڈھکی ہوئی ہے۔
مزاحمتی محاذ کے قائدین کی شہادت کے آثار از رہبر انقلاب
شہیدوں کی راہ جاری رہے گی!
استقامتی محاذ کے علمبردار اور مظلوموں کے بہادر محافظ کی شخصیت کا اثر ان کی شھادت کے بعد مزید پھیلے گا۔
جدوجہد میں تیزی آئے گی!
خطے کی اقوام اور مجاہد فی سبیل اللہ افراد ان کی شھادت کے پیغام یعنی اللہ پر زیادہ سے زیادہ توکل، زیادہ مضبوط اتحاد، صیہونی دشمن کی شکست اور اس کی نابودی تک بنا کسی تردد کے زیادہ طاقت سے جدوجہد کو جاری رکھیں گے۔
مومنین کا آپس میں اتحاد، کامیابی کی ضمانت!
آپس میں لگاؤ، ھمدلی اور تعاون پر مبنی مسلمانوں میں دوستی، اللہ کی طرف سے حکیمانہ و کریمانہ مدد کا باعث بنتی ہے جس کے نتیجے میں دشمنوں پر کامیابی ملے گی اور اس راہ میں آنے والے موانع برطرف ہوں گے۔
ذکر و شکر، روحانی زندگی کے دو اہم ستون
یاد خدا سے غافل نہ ہوں!
ذکر یعنی یاد خدا، یاد خدا سے غافل نہ ہوں۔ دعا ومناجات اور تلاوت قرآن سے دور نہ ہوں۔ میں ہمیشہ قرآن سے انسیت کی تاکید کرتا ہوں۔ قرآن کی معرفت حاصل کریں۔ اس سے آپ کو اس عظیم راہ میں بہت مدد ملے گی۔
شکر یعنی نعمتِ خدا کی شناخت!
شکر یعنی خدا کی نعمتوں کو پہچانیں اور انہیں فراموش نہ کریں۔ آپ کو خدا سے عظیم نعمتیں ملی ہیں۔ ایک ایسے نظام کی نعمت جس نے ظلم، سامراج، زور زبرستی، اور بین الاقوامی جرائم پیشہ گروہوں کے خلاف جدوجہد کا بیڑا اٹھایا ہے۔ یہ عظیم ترین نعمت ہے۔ اس کے علاوہ دیگر نعمتیں بھی ہیں۔
معصومینؑ کی دعاؤں میں ذکر و شکر!
مختلف دعاؤں میں یہ جملہ آیا ہے کہ:“لاتجعلنی ناسیا لذکرک فیما اولیتنی ولا غافلا لاحسانک فیما اعطیتنی”۔ (اے خدا جو کچھ مجھے عطا کیا ہے یا مجھ پر احسان کیا ہے اس میں اپنے ذکر و شکر سے عادل نہ کر)۔احسان الہی سے غلفت نہ کریں؛ خدا کی نعمتوں اور مہربانیوں سے غافل نہ ہوں۔
عہد بندگی ، رہبر معظم
اسلامی اور مغربی ثقافت میں خواتین کی آزادی کا تقابلی جائزہ
اسلامی ثقافت میں مثالی خاتون!
اسلامی نظام میں خواتین کو سیاسی سمجھ بوجھ ہونا ضروری ہے۔ انہیں گھر کی دیکھ بھال اور خاندان کی دیکھ بھال کے فن کا علم ہونا چاہیے۔ انہیں سماجی، سیاسی، سائنسی اور خدمت کے میدانوں میں تقویٰ، پاکیزگی اور عظمت کا مجسم ہونا چاہیے۔
مغربی ثقافت اور انسان کی پستی!
آج مغربی ثقافت پر غور کریں۔ مرد یا عورت کے وقت کا ایک بڑا حصہ خواتین سے متعلق مسائل، خوبصورتی، میک اپ، فیشن، خواتین کی کشش اور مرد اور عورت کے درمیان موجود جنسی ہوس کے مسئلے کی طرف سب کی توجہ مبذول کرنے کی کوشش میں صرف ہوتا ہے۔
حجاب کی پابندی اور خواتین کی آزادی!
یہ ظاہر ہے کہ مغربی ثقافت میں عورت اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لانے سے قاصر ہے، جو غلط اور خطرناک ہے۔ انہیں اس بات پر توجہ دینی چاہیے کہ اس کے لیے پہلی شرط ان کا حجاب کی پابندی ہے۔ کیونکہ حجاب کے بغیر عورت کو وہ ذہنی سکون حاصل نہیں ہوگا جو اعلیٰ درجات تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے۔
عہد زندگی ، آیت اللہ العظمی خامنہ ای
ہم صیہونی حکومت کو جواب دینے کے اپنے حق سے دستبردار نہیں ہوئے، ایرانی وزیر خارجہ
سید عباس عراقچی نے منگل کے روز پاسداران انقلاب کے جنرل ہیڈ کوارٹر کے کمانڈروں اور عملے سے خطاب میں کہا کہ ہم نے وعدہ صادق 3 سے متعلق بتا دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایران کے خلاف اسرائیل کی حالیہ کارروائی ایران کے نقطہ نظر سے ایک نئی یلغار ہے۔ اسرائیل کے اس دعوے کے برعکس کہ اسکی کارروائیاں خود دفاعی ہیں، آپریشن وعدہ صادق 1 و 2 پچھلے حملوں پر ہماری طرف سے دفاعی ردعمل تھے۔ ہم نے عالمی برادری کو باضابطہ طور پر بتا دیا ہے کہ صیہونی حکومت کی حالیہ جارحیت ایک نئی جارحیت ہے اور وہ ہمارے جواب کا مستحق ہے۔ ہم رد عمل کا حق محفوظ رکھتے ہیں اور صحیح وقت پر اور جس طرح سے ہم مناسب سمجھیں گے جواب دیں گے۔
عراقچی نے کہا کہ پچھلے 12 مہینوں میں اور اس سے پہلے بھی، ہم بہت ہوشیاری اور تدبر سے کام لیتے رہے ہیں۔ ہمارے فیصلے جذباتی نہیں ہیں اور دشمن کی ممکنہ سازشوں سمیت تمام حالات اور امکانات پر غور کرتے ہوئے کیے گئے ہیں۔ ہم نے بروقت اور انتہائی ہوشیار اور منظم انداز میں جواب دیا اور جنگ کی آگ کو بھڑکنے سے روک دیا، برخلاف اسکے اسرائیل اس تنازع میں امریکہ کے پاؤں گھسیٹنا چاہتا ہے۔ ہم نے اس مسئلے کو سفارت کاری کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم دشمن کو حساب کتاب سے جواب دیں گے تاکہ وہ یہ نہ سمجھے کہ اگر وہ اسلامی جمہوریہ پر حملہ کریں گے تو ان کا جواب نہیں ملے گا۔ اگر ہم دشمن کو یہ تاثر دیتے ہیں تو ہم نے کسی نہ کسی طرح انہیں مزید حملہ کرنے کی دعوت دی ہے۔ یہ یقینی طور پر نہیں ہوگا۔ ہم رد عمل کا حق محفوظ رکھتے ہیں، اور یہ ردعمل صحیح وقت پر تدبیر اور حکمت کے ساتھ کیا جائے گا۔
عراغچی نے مزید کہا کہ جو چیز جنگ کے وقوع کو روکتی ہے وہ دراصل جنگ کی تیاری ہے۔ واضح رہے کہ اگر خوف کی معمولی سی علامت بھی ایسی صورت حال میں دکھائی دیتی ہے جہاں جنگ کا خطرہ ہو تو سمجھ لیں کہ جنگ آپ پر طاری ہے۔ جنگ سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنی طاقت اور تیاری کا واضح طور پر اعلان کریں اور یہ بتائیں کہ آپ لڑنے کے لیے تیار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر چھوٹی سی کمزوری ظاہر ہو جائے جو جنگ کی تیاری کی کمی کو ظاہر کرتی ہو تو تم پر جنگ مسلط کر دی جائے گی۔ دھمکیاں دینے والے دشمن درحقیقت دوسری طرف سے کمزوری کے آثار کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ اس موقع سے فائدہ اٹھائیں اور اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنائیں۔ اس لیے نازک اور خطرناک حالات میں مضبوط اور ثابت قدم رہنا بہت ضروری ہے تاکہ آپ جنگ کو ہونے سے روک سکیں۔