
سلیمانی
امریکی اڈے یقینی طور پر شامی جوانوں کے پیروں تلے روند دیے جائیں گے، آیت اللہ سید علی خامنہ ای
شہدا کے خاندانوں سے گفتگو میں رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ عراق پر قبضہ کرنے میں امریکیوں کا مقصد، کسی کو صدام کا جانشین بنانا تھا اور امریکی وہاں رکنے کے لیے آئے تھے، لیکن جنرل قاسم سلیمانی اور ان کے ساتھیوں نے ایک سخت، پیچيدہ اور طویل عمل کے تحت اور ایک سیاسی، فوجی، تشہیراتی اور ثقافتی جنگ میں اپنے مستقبل پر عراقی عوام کی حکمرانی کی راہ میں بنیادی کردار ادا کیا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے امریکا کی ایک اور سازش یعنی داعش کی شکست کو، میدان میں الحاج قاسم سلیمانی کی موجودگی کا ایک دوسرا نتیجہ بتایا اور کہا کہ تکفیری دہشت گردی کے مقابلے میں عراقی جوان، حقیقی معنی میں درخشاں رہے، لیکن اس سازش کو ناکام بنانے میں، جس سے خطے کی موت اور حیات وابستہ تھی، قاسم سلیمانی نے اپنی جدت طرازی، شجاعت، طاقت اور جان ہتھیلی پر رکھ کر بے مثال کردار ادا کیا۔
آيت اللہ سید علی خامنہ ای نے داعش کے مقابلے میں کھڑے ہو جانے کی ضرورت کے بارے میں مرجعیت کے فتوے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس اہم فتوے کی وجہ سے ہزاروں جوان میدان میں آ گئے لیکن ان کے پاس ہتھیار نہیں تھے اور وہ منظم بھی نہیں تھے اور جنرل سلیمانی نے عراق کے بڑے مجاہدوں خاص طور پر شہید ابو مہدی کی مدد سے، جو ایک عظیم اور گرانقدر انسان تھے، ان جوانوں کو منظم کیا اور انھیں ہتھیار اور ٹریننگ دی۔ انھوں نے مزاحمتی محاذ کے احیا کو جہادی سرگرمیوں میں جنرل سلیمانی کی دائمی اسٹریٹیجی بتایا اور کہا کہ ان کی نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ وہ شام، لبنان اور عراق کے آمادہ جوانوں اور قومی فورسز سے مزاحمت کے احیا کے لیے بہترین استفادہ کرتے تھے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے مقدس مقامات کے دفاع کو جنرل قاسم سلیمانی کے جہاد اور مقابلے کے پورے عرصے کا اٹل اصول بتایا۔
شہدا کے خاندانوں سے گفتگو کرے ہوئے رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ مقدس مقامات، حضرت زینب کے روضۂ اطہر اور شام و عراق میں امیر المومنین علیہ السلام کے اصحاب کے مزارات اور خاص طور پر عالم اسلام کے سب سے بڑے حرم کے طور پر مسجد الاقصیٰ کا دفاع بہت اہم اصول تھا اور اسی وجہ سے شہید اسماعیل ہنیہ نے جنرل سلیمانی کے جلوس جنازہ کے پروگرام میں انھیں شہید قدس کا نام دیا تھا۔ انھوں نے اسلام کے دفاع کی راہ میں اپنی جان قربان کرنے کے لیے دسیوں لاکھ ایرانی جوانوں کی تیاری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دفاع حرم کے مجاہدن نے دکھا دیا کہ بدخواہوں کی بہت زیادہ سرمایہ کاری کے باوجود، مزاحمت کا پرچم بدستور لہرا رہا ہے اور دشمن، لبنان، فلسطین، شام، عراق اور ایران سے مزاحمت کے پرچم کو نہ تو اتار پایا اور نہ ہی کبھی اتار پائے گا۔
آيت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے طاقت کے عناصر کی حفاظت کو کسی بھی ملک کی قومی استقامت و قوت کو جاری رکھنے کے لیے ضروری بتایا اور کہا کہ مومن اور فداکاری کے لیے تیار جوان، کسی بھی ملک کے استحکام و قوت کے سب سے اہم عناصر ہیں اور اس طرح کے جوانوں کو میدان سے باہر نہیں نکالنا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ میدان سے مومن اور فداکار جوانوں کے باہر نکل جانے سے شام جیسے حالات اور افراتفری اور امریکا، صیہونی حکومت اور بعض دیگر جارح ملکوں کے ہاتھوں اس ملک کے علاقوں پر قبضے جیسی صورتحال پیدا ہو جائے گي۔ رہبر انقلاب اسلامی نے شام میں جارح قابضوں کی موجودگي جاری رہنے کو ناممکن بتایا اور کہا کہ شام، شام کے لوگوں کا ہے اور شام کی سرزمین پر جارحیت کرنے والے یقینی طور پر ایک دن شام کے غیور نوجوانوں کی طاقت کے مقابلے میں پسپائی پر مجبور ہو جائیں گے۔
انھوں نے شام میں پے در پے امریکی ٹھکانے بنائے جانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جارح امریکہ کو، ایک قوم کی سرزمین سے نکلنا ہی ہوگا ورنہ اسے نکال باہر کیا جائے گا، بنابریں امریکی اڈے بھی یقینی طور پر شام کے جوانوں کے پیروں تلے روند دیے جائیں گے۔ آيت اللہ خامنہ ای نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ حتمی اور آخری فتح، ایمان والی کی ہی ہوگي، کہا کہ لبنان، مزاحمت کا مظہر ہے اور اگرچہ اس نے زخم کھایا ہے لیکن وہ جھکا نہیں ہے اور آخر میں وہی فتحیاب ہوگا جس طرح سے کہ یمن بھی مزاحمت کا مظہر ہے اور وہ بھی فتحیاب ہوگا اور ان شاء اللہ جارح دشمن، جن میں سب سے اوپر لالچی اور مجرم امریکا ہے، خطے کے لوگوں کو چھوڑنے اور ذلت کے ساتھ علاقے سے باہر نکلنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ انھوں نے اپنے خطاب کے ایک دوسرے حصے میں، مکتب سلیمانی کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ یہ مکتب، اسلام اور قرآن کا ہی مکتب ہے جس کی پابندی کرتے ہوئے شہید سلیمانی، کسوٹی، مرکز اور محور میں تبدیل ہو گئے اور اگر ہم میں بھی وہی ایمان اور عمل صالح ہو تو ہم بھی سلیمانی بن سکتے ہیں اور خدا کا لطف ہمارے بھی شامل حال ہو سکتا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے دفاع حرم کے اہم موضوع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، جس کے لیے بہت زیادہ پاکیزہ خون بہایا گيا ہے، کہا کہ بعض لوگ سمجھ کی کمی اور مسائل کے صحیح تجزیے کی صلاحیت نہ ہونے کی وجہ سے یہ سوچتے اور کہتے ہیں کہ خطے کے حالیہ واقعات کی وجہ سے دفاع حرم کی راہ میں بہایا گيا خون رائيگاں چلا گيا جبکہ یہ سوچ اور اس طرح کا بیان، بہت بڑی غلطی ہے کیونکہ اگر الحاج قاسم سلیمانی اور دفاع حرم کے مجاہدین کا شجاعانہ جہاد نہ ہوتا تو آج مقامات مقدسہ چاہے وہ زینبیہ ہو اور چاہے کربلا و نجف ہو، محفوظ نہ رہتے۔ انھوں نے کہا کہ کسی وقت سامرا میں کچھ غفلت برتی گئی اور تکفیریوں نے امریکا کی مدد سے امام علی نقی اور امام حسن عسکری علیہما السلام کے روضے گنبد اور ضریح کو تباہ کر دیا اور اگر جاں بکف مومن جوان نہ ہوتے تو دیگر مقدس مقامات کا بھی اسی طرح کا افسوس ناک انجام ہوتا۔
آيت اللہ خامنہ ای نے دفاع حرم کی حقیقت کو اس مقدس مقام کے دفاع کے علاوہ اس مقام پر دفن شخصیت اور ائمہ علیہم السلام کے مکتب کا دفاع بتایا اور کہا کہ قرآنی ثقافت میں جہاں بھی جو بھی خون راہ حق میں بہتا ہے، چاہے فتح حاصل نہ بھی ہو، تب بھی وہ رائيگاں نہیں جاتا اور خداوند عالم کے نزدیک وہ گرانقدر ہے، جیسا کہ جنگ احد میں حضرت حمزہ کا خون اور سب سے بڑھ کر کربلا میں سید الشہداء علیہ السلام کا خون رائيگاں نہیں گیا۔ انھوں نے کہا کہ البتہ فتح بھی یقینی ہے اور باطل کی موجودہ جولانی کو اہمیت نہیں دینی چاہیے۔
حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے یوم ولادت خطاب 2024/12/22
بسم اللہ الرحمن الرحیم
و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفیٰ محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین.
میں سیدۂ کائنات، جگر گوشۂ پیغمبر خاتم حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے یوم ولادت با سعادت کی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ آج ہماری نشست بہت پرنور، روحانی اور شیریں تھی۔ آپ خواہران و برادران سامع نے بھی اور اشعار پڑھنے والوں اور منقبت خوانوں نے بھی واقعی اس دن کی ہم سب کی معنوی ضرورت کو پورا کر دیا۔ خدا ان شاء اللہ آپ سب کو محفوظ رکھے اور مزید توفیق عطا فرمائے۔ میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے سلسلے میں اختصار سے کچھ باتیں عرض کروں گا، مدح خوانی اور مداحوں کے مسائل کے بارے میں بھی کچھ باتیں کہوں گا اور آج کے حالات اور مسائل کے بارے میں بھی کچھ مختصر باتیں عرض کروں گا۔
خداوند عالم نے تمام انسانوں کے لیے، چاہے وہ مرد ہوں یا عورت، دو خواتین کو نمونۂ عمل قرار دیا ہے: "وَ ضَرَبَ اللَہُ مَثَلًا لِلَّذینَ آمَنُوا امرَاَتَ فِرعَون" اور اس کے بعد "وَ مَریَمَ ابنَتَ عِمران"(2) دو خواتین ہیں، جنھیں خداوند عالم نے پوری انسانیت کے لیے نمونۂ عمل اور آئيڈیل قرار دیا ہے، صرف عورتوں کے لیے نہیں، مردوں اور عورتوں، دونوں کے لیے۔ مختلف راویوں کے ذریعے شیعہ اور سنّی دونوں کے یہاں ایک روایت ہے کہ پیغمبر نے فرمایا کہ میری زہرا کی فضیلت ان دونوں خواتین سے برتر و بالاتر ہے۔(3) یہ جو کہا جاتا ہے کہ یہ نمونۂ عمل ہیں، یہ صرف فضیلت نہیں ہے، اس پر توجہ رہے، نمونۂ عمل تو ہیں ہی، اوج ہیں، رفعت ہیں، ممکن ہے کہ میں اور آپ اس اوج پر، اس چوٹی پر نہ پہنچ پائيں لیکن اس کی سمت بڑھنا تو چاہیے ہی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد، روایات کے اختلاف کی بنا پر دو مہینے یا تین مہینے بعد کی اپنی اسی مختصر سی حیات میں حضرت فاطمہ زہرا نے جو کارہائے نمایاں انجام دیے، انھیں سب نے دیکھا، وہ صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ تمام بنی نوع انسان کے لیے نمونۂ عمل ہو سکتی ہیں۔
یہ بات کہ ایک اکیلی خاتون، ایک جوان خاتون، ایک بڑے مجمع، ایک طاقت، ایک حکومت کے سامنے کھڑی ہو جائے، حق کا دفاع کرے، شجاعت کا مظاہرہ کرے، اس کی منطق، سبھی صاحبان منطق کو مطمئن کر دے، کام کو ادھورا نہ چھوڑے اور اپنی زندگي کے آخری ایام تک، کہ جب مدینے کی عورتیں ان کی عیادت کے لیے آتی ہیں، انہی حقائق کو، دین کی انہی مضبوط بنیادوں کو بیان کرے، یہ ایسی چیزی ہے جو حضرت زہرا سلام اللہ علیہا جیسی نمایاں، ممتاز اور یکتا شخصیت کے علاوہ کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ ان میں سے ہر بات آئیڈیل ہے: حق کے لیے قیام، شجاعت، کھل کر بولنا، استدلال کی طاقت، استقامت۔ یہ وہی چیز ہے جو خداوند عالم نے قرآن مجید میں فرمائي ہے کہ "اَن تَقوموا لِلَّہِ مَثنىٰ وَ فُرادىٰ"(4) اگر دو لوگ ہوئے تو خدا کے لیے اس چیز کے سامنے کھڑے ہو جاؤ اور قیام کرو جو امر خدا کے خلاف ہے، اگر دو لوگ نہ ہوئے، ایک ہی ہوئے، اکیلے ہی ہوئے تب بھی قیام کرو۔ اس آیت شریفہ کا وہ حقیقی مصداق، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ہیں۔
خوارزمی نے جو علمائے اہلسنت میں سے ہیں، ایک روایت نقل کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: اے سلمان، آنحضرت یہ بات سلمان سے کہہ رہے ہیں جو پہلے درجے کے صحابی ہیں، پیغمبر اپنی یہ بات اپنے سب سے قریبی صحابی سے بیان کرتے ہیں: فاطمہ کی محبت، سو منزلوں پر فائدہ پہنچائے گي یعنی اس دنیوی زندگي کے بعد کے مرحلے میں سو جگہوں پر تمھارے کام آئے گي، ان میں سب سے آسان منزل موت اور قبر کی ہے۔(5) فاطمہ کی یہ محبت جہاں تمھارے کام آئے گي، ان میں سب سے آسان جگہ موت اور قبر ہے۔ یہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی محبت کے بارے میں حدیث ہے۔ پہلی نظر میں اس حدیث کے معنی یہ ہیں کہ اگر تم فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے محبت رکھوگے تو یہ فضیلت تمھارے لیے ہے، یہ ٹھیک بھی ہے، یعنی اس معنی میں کوئي مشکل نہیں ہے۔ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے تمھاری محبت کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ سو جگہ تمھارے کام آئے گي لیکن جب ہم غور کرتے ہیں تو اس معنی کے ساتھ ایک دوسرا مطلب بھی پایا جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ "کسی سے فاطمہ زہرا کی محبت" کا یہ فائدہ ہے۔ یہ چیز عام بول چال میں بھی رائج ہے، کہتے ہیں فلاں کی دوستی تمھارے کام آئے گي، اس کا کیا مطلب ہے؟ یعنی تم سے ان کی شفقت، یہ بہت اہم ہے، یہ سخت ہے۔ وہ پہلا مطلب آسان ہے، جو بھی اس خورشید عالم تاب کو دیکھے، اس قمر منیر کو دیکھے، اس درخشاں ستارے کو دیکھے، ان فضائل کو دیکھے اسے محبت ہو جائے گي لیکن یہ دوسرا مطلب کہ وہ تمھیں چاہنے لگیں، یہ مشکل حصہ ہے۔
جو چیز مداحوں کی محفل کے لیے مناسب ہے وہ اسی بات کا ایک حصہ ہے: فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اس شخص کو چاہیں گي جو ان خصوصیات کو اپنی زندگي میں نمونۂ عمل بنائے۔ ان خصوصیات میں سے ایک، تبیین یا حقائق کا بیان اور حقائق کی تشریح ہے۔ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نے اس پہلے لمحے سے ہی حقائق بیان کرنا شروع کر دیا، انھوں نے ان سبھی سننے والوں اور ان سبھی لوگوں کو جو نہیں جانتے تھے یا جانتے تھے لیکن تجاہل عارفانہ کر رہے تھے یا بھول جانے والوں کو حقائق کے روبرو کر دیا۔ حقائق بیان کرنا، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا اہم ترین کام ہے۔
اہلبیت کی مداحی، حقائق بیان کرنے میں حضرت زہرا کی پیروی ہے۔ میں یہیں جملۂ معترضہ کے طور پر کہوں کہ آج ان حضرات نے جو پروگرام پیش کیا، وہ حقائق کا بیان تھا۔ یعنی اہلبیت علیہم السلام سے عقیدت کے اظہار کے ساتھ، عشق و محبت کے اظہار کے ساتھ انھوں نے حقائق کی تشریح کی، آج کے حقائق کو بیان کیا۔ حضرت فاطمہ زہرا نے بھی اس وقت کے حقائق کو بیان کیا، ان مسائل کو جو اسی دن پیش آئے تھے، اسی وقت کے مسائل تھے، آپ نے انھیں بیان کیا۔ آج کے مسائل کو بیان کرنا، ان کی تشریح کرنا ایک اہم فریضہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیغمبر اکرم کی روایت میں آيا ہے: "اِنَّ المُؤمِنَ یُجاھِدُ بِسَیفِہِ وَ لِسانِہ"(6) مومن جہاد کرتا ہے، کبھی اپنی جان سے یعنی محاذ پر جاتا ہے، کبھی اپنی تلوار سے یعنی ہتھیار سے کام لیتا ہے اور کبھی اپنی زبان سے۔ زبان سے جہاد، جہاد کی اہم قسموں میں سے ایک ہے اور کبھی کبھی اس کی اہمیت اور اس کا اثر جان سے کیے جانے والے جہاد سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔ آپ مداح حضرات جو یہاں پر موجود ہیں اور پورے ملک کے تمام مداح حضرات ان سب کے لئے یہ بات ہے: زبان سے جہاد۔
اس جہاد کے وسائل آپ کے اختیار میں ہیں۔ آپ کے پاس ایک کثیرالجہتی ہنر ہے، مدح خوانی ایک مخلوط ہنر ہے، پیرایا بھی، مواد بھی، دونوں ہنر ہیں، لفظ بھی ہنر ہے، معنی بھی ہنر ہے۔ یعنی یہاں کئي ہنر ایک دوسرے کے ساتھ ہو گئے ہیں اور انھوں نے مداحی کو وجود بخشا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ہم مداحی کی قدر سمجھیں، ہم بھی سمجھیں اور وہ خود بھی سمجھیں۔ مداحی کئي ہنروں کی آمیزش ہے، آواز کا ہنر، دھن کا ہنر، شعر کا ہنر، مجمع کو کنٹرول کرنے کا ہنر، کہ جو خود ایک بڑا ہنر ہے، لوگوں سے نظریں ملانے کا ہنر۔ آپ سائبر اسپیس میں لوگوں سے نظریں نہیں ملاتے ہیں بلکہ حقیقی محفل یا مجلس میں، حقیقی فضا میں آپ لوگوں سے بات کرتے ہیں، ان سے نظر ملا کر اپنی بات پیش کرتے ہیں، یہ خود ایک اہم ہنر ہے۔ بنابریں مداحی ایک مکمل میڈیا ہے اور چونکہ یہ ایک میڈیا ہے اس لیے یہ حقائق کے بیان کا ذریعہ ہو سکتا ہے، حقیقت کی تشریح کا ایک اہم وسیلہ۔
آج ہمیں حقائق کے بیان اور تشریح کی ضرورت ہے۔ آج لوگوں میں شکوک و شبہات پیدا کرنا، دشمن کے بنیادی کاموں میں سے ایک ہے۔ وہ منصوبہ بندی کرتے ہیں، کچھ چیزیں خبروں میں واضح ہوتی ہیں جنھیں آپ بھی دیکھتے ہیں، کچھ چیزیں خبروں میں واضح نہیں ہوتیں اور ان کی ہمیں اطلاع ہوتی ہے۔ وہ منصوبہ بندی کرتے ہیں، پیسے خرچ کرتے ہیں تاکہ لوگوں کے ذہن کو حقیقت کی طرف سے موڑ دیں۔ اس کا جواب کس کو دینا چاہیے؟ کسے اس ٹیڑھی لائن کو سیدھا کرنا چاہیے؟ کسے حقیقت کو بیان کرنا چاہیے؟ آپ ان لوگوں میں سے ہیں جو یہ بڑا کام کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کی مداحی، آگہی بخش ہو، پہلے آگہی اور پھر امید بخش ہو یعنی مایوس کن نہ ہو اور آگے بڑھانے والی بھی ہو تب آپ نے ایک بنیادی اور بڑا کام کیا ہے جو بات کرنے اور پروپیگنڈہ کرنے کے بہت سے وسائل سے نہیں کیا جا سکتا۔ آپ دشمن کی خوف زدہ کرنے کی سازش کا مقابلہ کر سکتے ہیں، دشمن کا ایک اہم کام خوفزدہ کرنا ہے، ڈر پھیلانا ہے، آپ دشمن کے اختلاف پھیلانے کے کام کا مقابلہ کر سکتے ہیں، آپ دشمن کے مایوسی پیدا کرنے کے کام کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ دیکھیے! یہ چیزیں جو میں عرض کر رہا ہوں، ان میں سے ہر ایک، ایک بنیادی عنصر ہے، معاشرے کو بیدار کرنا اور یہی باتیں جو آپ نے یہاں کہیں کہ "ہم بیٹھے نہیں رہیں گے"، "ہم اسلام کا پرچم جولان پر لہرائیں گے"، "ہم شام کے روضۂ اطہر کا دفاع کریں گے" وغیرہ، یہ سب، ان باتوں پر منحصر ہیں، یعنی دشمن کے خوف پھیلانے کے منصوبے کا مقابلہ کرنا چاہیے، دشمن کی اختلاف پیدا کرنے کی چال کا مقابلہ کرنا چاہیے، دشمن کی مایوسی پھیلانے کی سازش کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ دشمن کا اصل وسیلہ، ڈرانا اور خوف زدہ کرنا ہے۔ آپ مضبوط ہیں، وہ آپ کی کمزوری کا پروپیگنڈہ کرتا ہے تاکہ آپ کو ڈرا دے۔ آپ کے ہاتھ مضبوط ہیں، وہ پرچار کرتا ہے کہ آپ کے ہاتھ خالی ہیں تاکہ آپ کو مایوس کر دے۔ ان باتوں پر توجہ دینا چاہیے۔
اسلام کے ابتدائي زمانے میں جنگ احد میں مسلمانوں کو چوٹ پہنچی، حمزہ سید الشہداء جیسی شخصیت شہید ہو گئی، امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام جیسی شخصیت سر سے پیر تک زخمی ہو گئي، خود پیغمبر اکرم کی ذات گرامی کو چوٹ پہنچی، کئي لوگ شہید ہو گئے۔ جب یہ لوگ مدینہ واپس پہنچے تو منافقین نے دیکھا کہ لوگوں کو ورغلانے اور اس صورتحال سے غلط فائدہ اٹھا کر زہریلے پروپیگنڈے کا اچھا موقع ہے تو انھوں نے لوگوں کے دلوں میں وسوسہ پیدا کرنا شروع کر دیا: "اِنَّ النّاسَ قَد جَمَعوا لَکُم فَاخشَوھُم"(7) انھوں نے کہا کہ سب تمھارے خلاف ایک ہو گئے، ڈرو۔ انھوں نے اس طرح کی باتیں شروع کیں۔ خداوند عالم نے اس بات کی وجہ سے وحی نازل کی۔ قرآن مجید کی آيت کہتی ہے: "اِنَّما ذٰلِکُمُ الشَّیطانُ یُخَوِّفُ اَولِیاءَہ فَلا تَخافوھُم"(8) یہ شیطان ہے جو اپنے دوستوں سے تمھیں ڈراتا ہے، ان سے نہ ڈرو۔ منافقوں اور وسوسہ ڈالنے والوں کے رخسار پر قرآن مجید نے زوردار تھپڑ رسید کیا۔ آج یہ "اِنَّما ذٰلِکُمُ الشَّیطانُ" آپ کو کہنا چاہیے، اصحاب شعر و ادب اور فکر کو بیٹھنا چاہیے، سوچنا چاہیے، سننے اور دیکھنے والوں کے لیے قابل قبول اور دلنشیں استدلال تیار کرنے چاہیے، شعر کے لباس میں، مداحی کے آہنگ کے ساتھ اور اہلبیت کی مداحی کے معتبر مقام سے اسے لوگوں تک پہنچانا چاہیے۔"اِنَّما ذٰلِکُمُ الشَّیطانُ یُخَوِّفُ اَولِیاءَہ"
آج ہمارے علاقے کی خبروں کی شہ سرخی، شام کے مسائل ہیں۔ میں تجزیہ نہیں کرنا چاہتا، دوسرے تجزیہ کریں۔ مجھے اس سلسلے میں بات کرنی ہے، کچھ نکات بیان کرنے ہیں:
پہلی بات۔ ایک ہنگامہ آرائي کرنے والے اور شر انگیز گروہ نے غیر ملکی حکومتوں کی مدد اور ان کی منصوبہ بندی سے، ان کی سازشوں سے، شام کی اندرونی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے میں کامیابی حاصل کی اور ملک کو عدم استحکام میں دھکیل دیا، انارکی کی حالت میں پہنچا دیا۔ میں نے شاید دو تین ہفتے پہلے یہیں پر ایک تقریر(9) میں کہا تھا: ملکوں پر تسلط کے لیے امریکا کی چال، ان دو چیزوں میں سے ایک ہے: یا انفرادی آمرانہ حکومت بنانا کہ جا کر اس سے سازباز کریں، بات کریں، ملک کے مفادات کو آپس میں تقسیم کریں، یا تو یہ ہوگا۔ اگر یہ نہیں ہوا تو پھر انارکی، ہنگامہ آرائی۔ شام میں یہ چیز ہنگاموں پر منتج ہوئی۔ افراتفری پیدا کر دی۔ اب وہ بزعم خود فتح محسوس کر رہے ہیں۔ امریکی، صیہونی حکومت اور جو ان کے ہمراہ ہیں۔ یہ لوگ سمجھ رہے ہیں کہ فتحیاب ہو گئے ہیں لہذا بڑی بڑی باتیں کر رہے ہیں۔ شیطان والوں کی خاصیت یہی ہے کہ جب وہ سمجھتے ہیں کہ کامیاب ہو گئے تو اپنی زبان پر سے ان کا کنٹرول ختم ہو جاتا ہے، وہ بڑبولے پن کا شکار ہو جاتے ہیں، بکواس کرنے لگتے ہیں۔ یہ لوگ آج ہرزہ سرائي کرنے لگے ہیں۔ ایک امریکی عہدیدار کے بڑبولے پن کی ایک مثال یہ ہے کہ، اس کی باتوں کا لب لباب یہ ہے، اس نے کھل کر نہیں کہا، ڈھکے چھپے الفاظ میں کہا لیکن پوری طرح سے واضح ہے کہ وہ یہی کہہ رہا ہے۔ اس نے کہا کہ جو بھی ایران میں ہنگامے کرے گا، ہم اس کی مدد کریں گے۔ احمقوں کو بلی کی طرح خواب میں چھیچھڑے دکھائی دینے لگے ہیں۔ پہلی بات یہ کہ ایرانی قوم، ہر اس شخص کو جو اس مسئلے میں امریکا کا پٹھو بننا قبول کرے گا، اپنے مضبوط پیروں تلے روند دے گي۔
دوسری بات۔ صیہونی، فتح کا دکھاوا کر رہے ہیں، فتحیاب جیسے لوگوں کا چہرہ بنا رہے ہیں، بڑی بڑی باتیں کر رہے ہیں، رجز خوانی کر رہے ہیں۔ بدبختو! تم کہاں جیتے ہو؟ کیا غزہ میں جیتے ہو؟ وہ انسان جو بم سے چالیس پینتالیس ہزار عورتوں اور بچوں کو قتل کر دے اور اپنے پہلے اعلان کردہ اہداف میں سے ایک بھی حاصل نہ کر پائے، وہ فاتح ہے؟ کیا تم حماس کو ختم کر پائے؟ کیا تم غزہ سے اپنے قیدیوں کو چھڑا پائے؟ تم نے کہا کہ ہم حزب اللہ کو ختم کر دینا چاہتے ہیں اور تم نے سید حسن نصر اللہ جیسے عظیم شخص کو شہید کر دیا، کیا تم حزب اللہ کو ختم کر پائے؟ حزب اللہ زندہ ہے، فلسطینی مزاحمت زندہ ہے، حماس زندہ ہے، جہاد اسلامی زندہ ہے، تم فاتح نہیں ہو، تمھیں شکست ہوئي ہے۔ ہاں، شام میں تمھارے آگے راستہ صاف تھا، ایک سپاہی بھی ایک بندوق کے ساتھ تمھارے سامنے نہیں تھا اور تم ٹینکوں اور فوجی وسائل کے ساتھ کچھ کلو میٹر آگے بڑھنے میں کامیاب رہے لیکن یہ فتح نہیں ہے، تمھارے سامنے کوئی رکاوٹ تھی ہی نہیں، یہ فتح نہیں ہے۔ البتہ بلاشبہہ شام کے غیور اور شجاع جوان تمھیں یہاں سے نکال باہر کریں گے۔
تیسری بات۔ مختلف پروپیگنڈوں میں - کیونکہ ان کا سامنا اسلامی جمہوریہ سے ہے - لگاتار کہہ رہے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ نے خطے میں اپنی پراکسی فورسز کو گنوا دیا! یہ بھی ایک دوسری بکواس ہے! اسلامی جمہوریہ کی کوئي پراکسی فورس نہیں ہے۔ یمن لڑ رہا ہے کیونکہ وہ باایمان ہے، حزب اللہ لڑ رہی ہے کیونکہ ایمان کی طاقت اسے میدان میں لاتی ہے، حماس اور جہاد اسلامی لڑ رہے ہیں کیونکہ ان کا عقیدہ ان سے یہ کام کرواتا ہے، یہ ہمارے پراکسی نہیں ہیں۔ اگر کسی دن ہم کارروائي کرنا چاہیں تو ہمیں پراکسی فورس کی کوئي ضرورت نہیں پڑتی۔ یمن میں، عراق میں، لبنان میں، فلسطین میں اور ان شاء اللہ مستقبل قریب میں شام میں باشرف اور باایمان مرد موجود ہیں جو خود ظلم سے لڑ رہے ہیں، جرم سے لڑ رہے ہیں، مسلط کردہ منحوس صیہونی حکومت سے لڑ رہے ہیں، ہم بھی لڑ رہے ہیں اور ان شاء اللہ اس حکومت کو خطے سے ختم کر کے رہیں گے۔
جو باتیں میں عرض کر رہا ہوں وہ سیاسی بیان نہیں بلکہ ایسے حقائق ہیں جنھیں ہم نے قریب سے محسوس کیا ہے۔ یہ جاننا آپ کے لیے بھی بہتر ہے: حزب اللہ لبنان ایک عزت دار، مضبوط، ٹھوس اور فولادی گروہ ہے جو سنہ اسّی کی دہائي میں لبنان میں ہونے والی ہنگامہ آرائیوں سے پیدا ہوا۔ وہاں پورے خطے کو تباہ کر دیا تھا، خانہ جنگي سے، ہنگامہ آرائیوں سے، بدامنی سے، بدامنی اور عدم تحفظ کے درمیان حزب اللہ وجود میں آئي اور اس نے سر ابھارا۔ ہمارے عزیز شہید سید حسن سے پہلے مرحوم سید عباس موسوی بھی تھے، دوسرے بھی تھے، وہ بھی شہید ہو گئے، ان کی شہادت نے حزب اللہ کو کمزور نہیں کیا، اگر ہم یہ یہ نہ کہیں کہ مضبوط کیا۔ آج بھی ایسا ہی ہے، کل بھی ایسا ہی ہوگا۔ خطروں کے بطن سے مواقع نکلتے ہیں، اگر ہم متوجہ رہیں، ذمہ داری محسوس کرتے رہیں، جو کچھ ہمارے دل میں ہے اور ہماری زبان پر ہے، اسے عمل کے وقت دکھائيں تو ایسا ہوگا۔
اور میری پیشگوئی ہے کہ یہ واقعہ یعنی شام میں بھی ایک مضبوط اور باشرف گروہ کے سامنے آنے کا واقعہ ہو کر رہے گا۔ شام کے جوان کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ اس کی یونیورسٹی غیر محفوظ ہے، اس کا اسکول غیر محفوظ ہے، اس کا گھر غیر محفوظ ہے، اس کی سڑک غیر محفوظ ہے، اس کی زندگي غیر محفوظ ہے، وہ کیا کرے؟ اسے عزم کی طاقت کے ساتھ ان لوگوں کے مقابلے میں جنھوں نے اس بدامنی کی سازش تیار کی ہے اور جنھوں نے اس پر کام کیا ہے، ڈٹ جانا چاہیے اور ان شاء اللہ وہ ان پر غلبہ حاصل کر کے رہے گا۔ اللہ کے لطف و کرم سے خطے کا کل، خطے کے آج سے بہتر ہوگا۔
و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
1. اس ملاقات کے آغاز میں کچھ ذاکرین اور مداحوں نے اہلبیت عصمت و طہارت علیہم السلام کے فضائل و مناقب بیان کیے اور اس سلسلے میں اشعار پڑھے۔
2. سورۂ تحریم، آيت 11 اور 12، اوراللہ اہلِ ایمان کے لیے فرعون کی بیوی (آسیہ) کی مثال پیش کرتا ہے ... اور (دوسری) مثال مریم بنت عمران کی ...
3. منجملہ، ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، جلد 3، صفحہ 323، سیوطی، در المنثور، جلد 2، صفحہ 23
4. سورۂ سبا، آيت 46، تم دو، دو اور ایک ایک ہو کر خدا کے لیے کھڑے ہو جاؤ ...
5. مقتل الحسین (علیہ السلام) جلد 1، صفحہ 100
6. تفسیر نمونہ، جلد 15، صفحہ 383
7. سورۂ آل عمران، آيت 173، ... لوگوں نے تمھارے خلاف بڑا لشکر جمع کیا ہے لہذا ان سے ڈرو۔
8. سورۂ آل عمران، آيت 175، دراصل یہ شیطان تھا جو تمھیں اپنے حوالی موالی (دوستوں) سے ڈراتا ہے اور تم ان سے نہ ڈرو ...
9. پورے ملک سے آئے بسیجیوں (رضاکاروں سے ملاقات میں خطاب، 25/11/2024)
مغربی ثقافت غزہ و لبنان جنگ میں دفن ہوچکی! از رہبر انقلاب
مغربی ثقافت کی شکست!
اس سے بھی بڑی شکست، مغربی ثقافت کی شکست ہے، مغرب والوں نے دکھا دیا کہ ان کچھ برسوں میں یا کچھ صدیوں میں جو وہ انسانی حقوق اور حقوق بشر وغیرہ کا دم بھرتے ہیں، وہ سفید جھوٹ ہے۔
مغرب کے کان پر جوں تک نہ رینگی!
اس جنگ نے اسے دکھا دیا، اسے ثابت کر دیا، دس ہزار بچے قتل کر دیے گئے، کوئي مذاق ہے؟ بچہ، معصومیت کا مظہر ہے، لطافت کا مظہر ہے، وہ بنیادی نقطہ ہے جو انسانی جذبات میں ہلچل مچا دیتا ہے، ایسے دس ہزار معصوم بچوں کو اسرائيل نے دو ٹن والے بموں اور طرح طرح کے ہتھیاروں سے مار دیا اور مغرب والوں کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔
اب کوئی مغربی تمدن کی بات نہ کرے!
مغربی سیاستداں رسوا ہو گئے، مغرب کی سیاست ذلیل ہو گئی، انھیں شکست ہو گئی، یہ ایک بڑی شکست ہے۔ اب کوئی مغربی تمدن کی بات نہ کرے! مغربی تمدن یہ ہے۔
مغربی تمدن، معصوم بچوں کا قاتل!
یہ مغربی تمدن ہے جس کے لیے اس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ اپنے لوگوں سے مختلف طریقوں سے پیسے لے اور اسے چھوٹے اور معصوم بچوں کو قتل کرنے کے لیے بھیج دے، گھرانے تباہ ہو جائيں، دسیوں ہزار بچے شہید ہو جائيں، کئی ہزار بچے یتیم ہو جائيں، یہ مغربی تمدن ہے۔
اب مغربی کلچر کا دفاع ممکن نہیں!
اب اگر کوئی مغربی کلچر پر اعتراض کرے اور اسے بے حیثیت بتائے تو کسی کو اس کی ملامت نہیں کرنی چاہیے کہ جناب آپ ایسا نہ کہیے، نہیں، مغربی کلچر یہ ہے، مغربی تمدن یہ ہے، اسی کا نتیجہ ہے۔ یہ مغرب کو ہونے والی سب سے بڑی شکست ہے۔
فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی فضیلت کے چند جلوے! از رہبر انقلاب
رسول الله کا استقبال کیلئے کھڑے ہو جانا!
مثلا پیغمبر اسلام کے بارے میں منقول ہے کہ جب حضرت زہرا سلام اللہ علیہا آپ کے گھر یا اس جگہ تشریف لاتیں جہاں آپ موجود ہوتے تھے تو آپ “قام الیها” ان کے استقبال میں کھڑے ہو جاتے تھے اور آگے بڑھ کر ان کا خیر مقدم کرتے تھے۔ یہ عظمت کی نشانی اور علامت ہے۔
تمام مکاتب اسلام میں محترم و مقدس!
آغاز اسلام سے اب تک پورا عالم اسلام جس میں شیعہ سنی دونوں شامل ہیں، حضرت صدیقہ طاہرہ سلام الله علیها کو عظمت و عقیدت کی نظر سے دیکھتا ہے، یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ ایک امت کے مختلف فرقوں اور مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے دانشور اور مفکر پوری تاریخ میں ایک محوری ہستی کی مدح سرائی کرتے رہیں مگر یہ کہ وہ ہستی واقعی بے پناہ عظمتوں کی مالک ہو۔
فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا کسی سے موازنہ ممکن نہیں!
یہ سب عظمت کی علامتیں ہی تو ہیں، اٹھارہ سالہ نوجوان خاتون کہ جس کا سن مبارک تاریخ میں حد اکثر بائیس سال بیان کیا گیا ہے۔ سوائے آل رسول اور خود حضرت پیغمبر (صلوات اللہ و سلامہ علیہم) کے کسی سے بھی آپ کی عظمت کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ آپ کا مرتبہ اور منزلت بہت عظیم ہے۔
جناب زہرا سلام اللہ علیہا کی رضا، خوشنودیِ خدا کا مرکز!
میں صرف ایک حدیث عرض کروں گا جو آپ نے بارہا سنی ہے۔ یہ ایسی حدیث ہے جس کو شیعہ اور سنی سبھی نے نقل کیا ہے۔ حدیث یہ ہے کہ “انّ اللہ لیغضب لغضب فاطمۃ و یرضی لرضاھا” حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے غضبناک ہونے پر خدا غضبناک ہوتا ہے، آپ کی رضا اور خوشی پر خدا بھی راضی ہوتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جو انسان بھی اور جو مسلمان بھی خدا کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتا ہے اس کو ایسا کام کرنا چاہئے جس سے فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) خوش ہوں۔
عہد معارف ، رہبر معظم
Some of the Virtues of Hazrat Fatima Zahra (sa)!
The Messenger of Allah Standing up to welcome her!
For example, it is narrated about the Prophet of Islam that when Hazrat Zahra (sa) visited his house or the place where he was present, he would stand up to welcome her and even step forward to welcome her. This is a sign and symbol of greatness.
Respected and Holy Personality in all Sects!
From the beginning of Islam until now, the entire Islamic world, including both Shia and Sunni, view Hazrat Fatima Zehra (sa) with greatness and devotion. It is not possible that intellectuals and thinkers belonging to different sects and schools of thought of an ummah continue to praise a pivotal figure throughout history unless that figure truly possesses immense greatness.
Fatima Zahra (sa) cannot be compared to anyone!
All these are signs of greatness, an eighteen-year-old young woman whose age in history is stated at most as twenty-two years. Her greatness cannot be compared to anyone except the family of the Prophet (saw) and the Prophet himself. Her status and position is of such greatness.
The pleasure of Zahra (sa), the center of Allah’s pleasure!
I will only present one hadith that you have heard many times. This is a hadith that has been narrated by both Shia and Sunni. The hadith is that When Hazrat Fatimah Zahra (sa) is angry, God is angry, and when she is happy, God is also happy. This means that any human being or Muslim who wants to gain God’s pleasure should perform those acts which makes Fatimah Zahra (sa) happy.
زن، زندگی، آزادی، حقیقت یا فریب؟
انسانی تاریخ کے ہر دور میں شیطان اور اس کے پیروکاروں نے اپنے مقاصد کو کامیاب بنانے کے لیے فریب، دھوکہ دہی اور خوش نما نعروں کا سہارا لیا ہے۔ یہ نعرے بظاہر اصلاح، خیر خواہی اور آزادی کے راستے دکھائی دیتے ہیں؛ لیکن حقیقت میں ان کا مقصد انسانی معاشروں کو فساد، انتشار اور اخلاقی زوال کی طرف دھکیلنا ہوتا ہے۔ موجودہ دور کا مشہور نعرہ "زن، زندگی، آزادی" بھی انہی فریب کار نعروں میں سے ایک ہے، جسے مغرب اور اس کے حامیوں نے اسلامی معاشروں میں نفوذ کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ یہ نعرہ ظاہری طور پر خواتین کے حقوق، زندگی کی خوشحالی اور آزادی کی بات کرتا ہے؛ لیکن اس کے پیچھے چھپے مقاصد کو سمجھنے کے لیے ہمیں اس پر گہرائی سے غور کرنا ہوگا۔
پہلا سوال: کیا مغرب عورت کو باعزت انسان سمجھتا ہے؟
مغربی معاشرہ بظاہر خواتین کے حقوق کی حمایت کا دعویٰ کرتا ہے؛ لیکن حقیقت میں مغربی کلچر عورت کو محض ایک "جنس" کے طور پر دیکھتا ہے۔ اگر عورت کو ایک باعزت اور بااختیار انسان سمجھا جاتا تو اس کی عزت و عصمت کو سرِ بازار نیلام کرنے کی کوشش نہ کی جاتی۔ عورت کو بے پردگی پر مجبور کرنا اور باحجاب خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کرنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ مغرب کا یہ نعرہ محض ایک دھوکہ ہے۔ اسلام نے عورت کو حقیقی آزادی اور عزت بخشی ہے۔ قرآن مجید اور احادیث میں خواتین کے حقوق، ان کے مقام اور ان کی عزت کی حفاظت کو نمایاں حیثیت دی گئی ہے۔ مگر مغرب، عورت کو بے پردہ کرکے اور اس کے خاندانی رشتوں کو کمزور کرکے اسے محض ایک "استعمالی شے" کے طور پر پیش کرتا ہے۔ یہ سوچ نہ صرف عورت کی تحقیر ہے بلکہ خاندانی نظام کی تباہی کا بھی باعث بنتی ہے۔
دوسرا سوال: زندگی کا حقیقی مفہوم کیا ہے؟
زندگی کا مطلب محض جسمانی خواہشات کی تسکین نہیں، بلکہ یہ ایک امتحان ہے جس کا مقصد دنیا و آخرت کی کامیابی ہے۔ مغربی طرزِ زندگی ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ زندگی کا مقصد صرف عیش و عشرت ہے، چاہے اس کے لیے کسی بھی حد کو عبور کرنا پڑے؛ لیکن یہ سوچ انسانی مقام کو حیوانی سطح پر لے آتی ہے۔ اسلامی تعلیمات ہمیں یہ درس دیتی ہیں کہ زندگی، آخرت کی کھیتی ہے۔ یہ دنیاوی زندگی اس وقت کامیاب ہے، جب انسان اپنی عقل و شعور کا استعمال کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق اپنی زندگی گزارے۔ اسلام نہ صرف ایک متوازن طرزِ زندگی کی تعلیم دیتا ہے بلکہ اس کے ذریعے انسان کو دنیا اور آخرت دونوں میں کامیابی کے مواقع فراہم کرتا ہے۔
تیسرا سوال: آزادی کی حدود کیا ہیں؟
آزادی کا مطلب یہ نہیں کہ انسان جو چاہے کرے، بلکہ آزادی وہی ہے، جو عقل، اخلاق اور قانون کے دائرے میں ہو۔ مغرب آزادی کا نعرہ لگا کر درحقیقت بے راہ روی کو فروغ دیتا ہے۔ اگر آزادی کی کوئی حد نہ ہو تو یہ آزادی دوسروں کے حقوق کو پامال کرے گی اور معاشرتی انتشار کا باعث بنے گی۔ اسلام نے آزادی کو عقل اور شریعت کے دائرے میں محدود کیا ہے، تاکہ نہ صرف انسان خود کامیاب ہو بلکہ اس کی آزادی دوسروں کے لیے نقصان دہ ثابت نہ ہو۔ اسلام میں حقیقی آزادی وہ ہے، جو انسان کو اللہ کی اطاعت کے ذریعے روحانی معنوی بلندی پر لے جائے اور دنیاوی زندگی میں بھی کامیابی دلائے۔
نتیجہ، حقیقت یا فریب؟
"زن، زندگی، آزادی" ایک پُرکشش نعرہ ہے؛ لیکن جب اس کے حقیقی معنی اور مقاصد کا جائزہ لیا جائے تو یہ نعرہ اسلام کی تعلیمات کے مقابلے میں بالکل کھوکھلا دکھائی دیتا ہے۔ اسلام نے عورت کو عزت، زندگی کو مقصد اور آزادی کو ضابطہ فراہم کیا ہے۔ یہ نعرہ اگرچہ بظاہر حق معلوم ہوتا ہے؛ لیکن اس کے پیچھے مقاصد مغربی استعمار کی چالوں کا حصہ ہیں۔ جیسے خوارج نے "لا حکم الا لله" کا نعرہ لگا کر فساد برپا کیا، اسی طرح یہ نعرہ بھی مغربی طاقتوں کے استحصالی عزائم کا آلہ کار ہے۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ حقیقی آزادی اور عزت اسلام کے دائرے میں ممکن ہے، نہ کہ مغربی استعماری نعروں کے تحت۔ اسلامی تعلیمات کا یہ پیغام ہمیں ہر وقت یاد رکھنا چاہیئے کہ زندگی کو اللہ کی رضا کے مطابق گزارنا، رشتوں کی قدر کرنا اور انسانیت کے لیے محبت کا پیغام دینا ہی حقیقی کامیابی ہے۔ عورت کو اسلام نے جو مقام و مرتبہ دیا، وہ کسی بھی انسانی تہذیب یا قانون میں موجود نہیں۔ لہٰذا، ہمیں ان خوش نما نعروں کے پیچھے چھپے مکروہ عزائم کو پہچاننا ہوگا اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اپنی زندگیوں کو سنوارنا ہوگا۔
مغربی نعرے کے پیچھے چھپے عزائم
مغرب کا "زن، زندگی، آزادی" کا نعرہ بظاہر خواتین کے حقوق کے تحفظ کی بات کرتا ہے، لیکن اس کا مقصد عورت کو اس کی حقیقی شناخت اور مقام سے محروم کرنا ہے۔ مغربی نظام میں عورت کو مرد کے مساوی قرار دے کر اسے ذمہ داریوں کے نام پر استحصال کا شکار بنایا جاتا ہے۔ عورت کو بے پردگی اور اشتہار کی زینت بنا کر اس کی شخصیت کو مادی مفادات کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ نعرہ دراصل خاندانی نظام کو کمزور کر کے معاشرتی انتشار کو فروغ دینے کی ایک سوچی سمجھی سازش ہے۔
خاندان کی تباہی کا منصوبہ
خاندانی نظام معاشرتی ترقی کی بنیاد ہے۔ مغرب نے عورت کو آزادی کے نام پر گھر سے باہر نکال کر معاشرتی اور معاشی ذمہ داریوں کا بوجھ ڈال دیا ہے، جس سے وہ ماں، بیوی اور بیٹی کے طور پر اپنی بنیادی ذمہ داریوں سے غافل ہو گئی ہے۔ یہ عمل نسلوں کی تربیت کو متاثر کرتا ہے اور نئی نسل اخلاقی و روحانی زوال کا شکار ہو رہی ہے۔
اسلامی متبادل
اسلام نے عورت کو گھر اور معاشرے میں ایسا مقام دیا ہے جو نہ صرف اس کی شخصیت کے لیے موزوں ہے بلکہ معاشرتی ترقی کے لیے بھی لازمی ہے۔ اسلام کا تصور "زن، زندگی، آزادی" محبت، تحفظ، اور عزت پر مبنی ہے۔ عورت کا پردہ، اس کی عزت و عظمت کا محافظ ہے اور اس کی آزادی شریعت کے دائرے میں ہے جو اسے ایک مضبوط اور باعزت شخصیت بناتی ہے۔
تعلیمی اور فکری حملہ
مغربی نعرے نہ صرف معاشرتی سطح پر نقصان دہ ہیں بلکہ فکری طور پر بھی اسلامی اقدار پر حملہ آور ہیں۔ تعلیمی نظام کے ذریعے ان نعروں کو نوجوان نسل کے ذہنوں میں راسخ کیا جا رہا ہے تاکہ وہ اپنی تہذیب سے دور ہو جائیں۔ اس کے لیے اسلامی دنیا کو اپنے تعلیمی نظام کو مضبوط اور اسلامی اقدار کے مطابق بنانا ہوگا تاکہ مغربی فکری حملوں کا مؤثر جواب دیا جا سکے۔
ضرورت عمل کی
یہ وقت صرف مغرب کے نعروں کو مسترد کرنے کا نہیں بلکہ اسلامی اقدار کو عملی زندگی میں نافذ کرنے کا ہے۔ مسلمان خواتین کو اپنی اصل پہچان کو سمجھنا ہوگا اور مغربی فریب کے مقابلے میں اسلام کی دی گئی عزت و آزادی کو اپنانا ہوگا۔ اسلامی معاشرتی ڈھانچے کو مضبوط کر کے ہی ان سازشوں کا توڑ ممکن ہے۔
جہادِ تبیین، سازشی مثلث کے خلاف لازمی معرکہ
آج کے دور میں جنگ کی نوعیت بدل چکی ہے۔ گولیوں اور بموں سے بڑھ کر ذہنوں اور دلوں پر قبضہ کرنا دشمن کے لیے زیادہ اہم ہوگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رہبر انقلاب اسلامی نے جہاد تبیین کو آج کے دور کا سب سے اہم اور امید افزا ہتھیار قرار دیا ہے۔ ان کا فرمان ہے کہ جہادِ زبان بعض اوقات جہادِ جان سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے اور یہی وہ جہاد ہے، جس کی بنیاد حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کی شخصیت سے جڑی ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے تاکید کی کہ حضرت زہراؑ ان افراد سے محبت کرتی ہیں، جو جہادِ تبیین کے راستے پر چلتے ہیں، کیونکہ ان کی زندگی کا سب سے نمایاں پہلو حقائق کو واضح کرنا اور روشنی پھیلانا تھا۔ آج کے دور میں یہ جہاد تبیین دشمن کے اس "سازشی مثلث" کے خلاف ہے، جو خوف پیدا کرنے، اختلاف ڈالنے اور مایوسی پھیلانے پر مبنی ہے۔ یہ "سازشی تکون" یعنی خوف پھیلانا، اختلاف پیدا کرنا اور ناامیدی پھیلانا، دشمن کی وہ خطرناک اسٹریٹیجی ہے، جس کے ذریعے وہ ایک اسلامی معاشرے کو اندر سے کمزور کرنا چاہتا ہے۔ دشمن کی یہ اسٹریٹیجی نہ صرف نفسیاتی جنگ کا حصہ ہے بلکہ یہ انسانی ارادے کو جکڑ کر اسے ایک کٹھ پتلی بنا دیتی ہے، جو اپنے دشمن کے اشاروں پر ناچتا ہے۔
دشمن کا پہلا ہتھیار خوف کے ذریعے سوچنے کی صلاحیت ختم کرنا ہے، جو انسانی ذہن کو مفلوج کرنے کا سب سے خطرناک ذریعہ ہے۔ جب کوئی معاشرہ یا فرد خوفزدہ ہو جاتا ہے تو اس کی سوچنے، سمجھنے اور تجزیہ کرنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ خوفزدہ شخص اپنی قوّت اور وسائل کو بھی نظر انداز کر دیتا ہے اور یہی دشمن کی سب سے بڑی کامیابی ہوتی ہے۔ آج کے میڈیا کا ایک بڑا حصہ اسی خوف کے ذریعے سوچنے کی صلاحیت کو ختم کرنے میں مصروف ہے۔ جعلی خبروں کی بھرمار، جیسے ایران پر حملے کی دھمکیاں، ایران کی دفاعی کمزوریوں کی افواہیں اور دشمن کی معمولی کامیابیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا، سب اسی مقصد کے تحت کیا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ معاشرے میں ایک "مرگِ عصبی" کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے، یعنی ایک زندہ معاشرہ اپنی طاقت کو استعمال کرنے کے قابل نہیں رہتا۔
دشمن کی دوسری اسٹریٹیجی قوّت کا اندرونی زوال ہے، جو کسی بھی معاشرے کی طاقت کو اندر سے ختم کر دیتی ہے۔ قرآن کریم میں سورۃ انفال کی آیت 46 میں واضح طور پر آیا ہے: "وَ لَا تَنَازَعُوۡا فَتَفۡشَلُوۡا وَ تَذۡہَبَ رِیۡحُکُمۡ؛"، "اور آپس میں نزاع نہ کرو، ورنہ ناکام رہو گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔" رہبر انقلاب اسلامی نے بھی اس آیت کی روشنی میں تاکید کی کہ جب اختلاف پیدا ہوتا ہے تو قوم اپنی عزت اور قوّت کھو دیتی ہے۔ آج کے دور میں دشمن اسی اختلاف کو ہوا دینے کے لیے مختلف حربے استعمال کر رہا ہے۔ حکومت اور عوام کے درمیان فاصلے پیدا کرنا، اداروں کے درمیان بداعتمادی پھیلانا اور قوم کے رہنماؤں کو آپس میں دست و گریبان کرنا دشمن کے وہ حربے ہیں، جن کے ذریعے وہ معاشرتی اور قومی وحدت کو نقصان پہنچاتا ہے۔ سازشی مثلث کا تیسرا پہلو امید کا خاتمہ اور شکست کا آغاز ہے، جو کسی بھی قوم کی طاقت کو ختم کرنے کا سب سے مؤثر ذریعہ ہے۔ دشمن جانتا ہے کہ جب کسی قوم کے دل میں مایوسی پیدا ہو جائے تو وہ خود بخود اپنی کوششوں کو ترک کر دیتی ہے، چاہے فتح کا راستہ ہی کیوں نہ قریب ہو۔
مایوسی کی فضا میں فرد یا معاشرہ اپنی کامیابیوں کو نظر انداز کرتا ہے، مشکلات کو بڑا اور دشمن کو ناقابل شکست سمجھنے لگتا ہے۔ آج، دشمن یہی حربہ استعمال کر رہا ہے۔ ایران کی سائنسی، عسکری اور بین الاقوامی کامیابیوں کو نظر انداز کرنا یا کم اہمیت دینا اور اقتصادی مشکلات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا اسی اسٹریٹیجی کا حصہ ہے۔ جب معاشرہ خود کو بے بس اور ناکام تصور کرنے لگے تو دشمن کی کوششیں کامیاب ہو جاتی ہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا کہ آج کی جنگ میدانِ جنگ میں نہیں، بلکہ ذہنوں اور دلوں میں لڑی جا رہی ہے۔ دشمن کی پوری کوشش ہے کہ افراد کے ذہنوں کو قابو میں لے کر ان کی ارادے کی طاقت کو ختم کر دے۔ یہ جنگِ شناختی کا وہ خطرناک پہلو ہے، جس کے ذریعے افراد کو غیر محسوس طریقے سے دشمن کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بنا دیا جاتا ہے۔
جب ذہن خوف، اختلاف اور مایوسی کا شکار ہو جائے تو وہ خود بخود دشمن کے منصوبوں کا حصہ بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رہبر انقلاب اسلامی نے جہادِ تبیین کو ایک اہم ترین فریضہ قرار دیا، تاکہ اس سازشی مثلث کے اثرات کو ختم کیا جا سکے۔ جہادِ تبیین، روشنی اور امید کا راستہ ہے۔ جہاد تبیین کا مقصد دشمن کے منصوبوں کو بے نقاب کرنا اور معاشرے میں شعور، ہمت اور استقامت پیدا کرنا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ہمیں منطق کی روشنی سے عوام کو آگاہ کرنا ہوگا۔ خوف کا مقابلہ شجاعت سے، اختلاف کا علاج وحدت سے اور مایوسی کو امید سے شکست دی جا سکتی ہے۔ یہ جہاد محض ایک فریضہ نہیں، بلکہ ایک ذمہ داری ہے، جو ہر فرد پر عائد ہوتی ہے۔ ان افراد سے زیادہ خطرناک کوئی نہیں، جو اپنی لاعلمی یا نیک نیتی میں دشمن کے اس سازشی تکون کو تقویت دیتے ہیں۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ہر سطح پر، ہر فورم پر اور ہر موقع پر اس جہادِ تبیین کو اپنا شعار بنائیں اور دشمن کے ان ہتھکنڈوں کو ناکام بنائیں۔
سازشی مثلث کی یہ اسٹریٹیجی، جس کا مقصد خوف، اختلاف اور مایوسی پھیلانا ہے، صرف دشمن کی چالاکی کا مظہر نہیں، بلکہ ہماری غفلت کی نشاندہی بھی کرتی ہے۔ اگر ہم جہاد تبیین کے ذریعے ان حربوں کا جواب نہ دے سکے تو یہ مثلث ہماری طاقت کو اندر سے ختم کرسکتی ہے۔ جہادِ تبیین نہ صرف دشمن کے منصوبوں کو ناکام بنا سکتا ہے، بلکہ یہ ہمارے معاشرے کو ایک مضبوط اور متحد قوم میں تبدیل کرنے کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔ آج، حضرت زہراؑ کے اسوہ پر عمل کرتے ہوئے، حقائق کو روشنی میں لانے اور دشمن کی سازشوں کو بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے۔ یہی جہاد ہماری فتح کا راستہ اور دشمن کی ناکامی کا سبب بنے گا۔
تحریر: امداد علی گھلو
شيطان كا غلبہ روكنے كا نسخہ
قائد انقلاب اسلامی نے گیارہ صفر چودہ سو بتیس ہجری قمری کو فقہ کے اجتہادی و استنباطی درس " درس خارج" سے قبل حسب معمول فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا ایک قول مع تشریح بیان کیا۔ اس روایت میں شیطان کے غلبے سے بچنے کا طریقہ بتایا گيا ہے۔ یہ قول زریں، اس کا ترجمہ اور شرح پیش خدمت ہے؛
حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ دشمن (يہاں مراد شيطان ہے) كے مقابلے ميں انسان كو استقامت اور تقويت عطا كرنے والي اور اسے دشمن كے تسلط ميں جانے اور اس سے مغلوب ہونے سے بچانے والي سب سے پہلي چيز ہے؛ "واعظ من قلبه" انسان كا ناصح قلب۔ دل اگر بيدار و متنبہ ہو تو انسان كو نصيحت كرتا رہتا ہے۔
كتاب الفقيہ ميں منقول ہے؛ "قَالَ الصَّادِقُ جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ع مَنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَاعِظٌ مِنْ قَلْبِهِ وَ زَاجِرٌ مِنْ نَفْسِهِ وَ لَمْ يَكُنْ لَهُ قَرِينٌ مُرْشِدٌ اسْتَمْكَنَ عَدُوَّهُ مِنْ عُنُقِه"شافي، صفحه ي 652
ترجمہ و تشريح: حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ دشمن (يہاں مراد شيطان ہے) كے مقابلے ميں انسان كو استقامت اور تقويت عطا كرنے والي اور اسے دشمن كے تسلط ميں جانے اور اس سے مغلوب ہونے سے بچانے والي سب سے پہلي چيز ہے؛ "واعظ من قلبه" انسان كا ناصح قلب۔ دل اگر بيدار و متنبہ ہو تو انسان كو نصيحت كرتا رہتا ہے۔ انسان كے دل كو اپني نصيحت پر آمادہ كرنے اور اپني ذات كے لئے واعظ بنانے ميں صحيفہ سجاديہ اور ديگر كتب ميں منقول دعاؤں اور اسي طرح صبح كي بيداري كا بہت اہم كردار ہے۔ يہ چيزيں انسان كے دل كو اس كے لئے ناصح اور واعظ بنا ديتي ہيں۔ تو پہلي چيز ہے ناصح قلب۔ دوسري چيز ہے؛ "زاجر من نفسہ" يعني انسان كے اندر كوئي روكنے والا، منع كرنے والا اور خبردار كرنے والا ہو۔ اگر يہ دونوں چيزيں نہ ہوں اور " ولم يكن لہ قرين مرشد" رہنمائي كرنے والا كوئي ساتهي بهي نہ ہو جو اس كي رہنمائي اور مدد كر سكے، كہ جو شيطان كے غلبے سے بچانے والي تيسري چيز ہے، (تو عين ممكن ہے كہ اس پر شيطان غالب آ جائے)۔ اگر انسان كے اندر كوئي طاقت ايسي نہيں ہے جو اس كي ہدايت كرے، اس كے نفس كو قابو ميں ركهے تو اسے كسي دوست اور ہمنوا كي شديد ضرورت ہے۔ ايسا ہمنوا جس كے بارے ميں ارشاد ہوا ہے كہ " من يذكركم اللہ رويته" جس كا ديدار تمہيں اللہ كي ياد دلائے۔ اگر وہ شخص ايسے دوست سے بهي محروم ہے تو "استمكن عدوہ من عنقه" اس نے خود كو اپنے دشمن كا مطيع بنا ليا ہے، اپنے اوپر دشمن كو مسلط كر ليا ہے۔ دشمن سے مراد شيطان ہے۔ تو يہ چيزيں ضروري ہيں۔ انسان كا ضمير اسے نصيحت ديتا ہے۔ كسي بهي انسان كے لئے بہترين ناصح خود اس كا ضمير ہے كيونكہ انسان كبهي اپنے ضمير كي بات كا برا نہيں مانتا۔ اگر كسي اور نے نصيحت كي اور لہجہ ذرا سا سخت اور تند ہوا تو انسان برا مان جاتا ہے ليكن جب انسان كا ضمير نصيحت كرتا ہے، ملامت كرتا ہے، خود كو ناسزا كہتا ہے، سرزنش كرتا ہے تو يہ چيز بہت موثر واقع ہوتي ہے۔ يہ نصيحت اور موعظہ بہت ضروري ہے۔ اس كے ساته ساته ہي يا اس خصوصيت كے فقدان كي صورت ميں ايسے دوست اور ہمدرد كا ہونا ضروري ہے جو انسان كي مدد كرے۔
حضرت ام البنین علیہا السلام، حضرت علی علیہ السلام کی باوفا شریک حیات
حضرت ام البنین سلام اللہ علیہا تاریخ اسلام کی نمایاں اور قابلِ احترام خواتین میں سے ہیں، جن کا کردار سانحۂ کربلا میں نہایت مؤثر رہا۔ اگرچہ وہ کربلا کے میدان میں موجود نہ تھیں، لیکن ان کے چار بیٹوں کی قربانی، ادب، شجاعت اور وفاداری نے ان کا نام ہمیشہ کے لیے تاریخ میں زندہ کر دیا۔ ان صفات کا مظاہرہ ان کی بہترین تربیت کا ثبوت ہے جو ان کی والدہ، حضرت ام البنین، کی شخصیت سے جھلکتی ہے۔ اسی وجہ سے حضرت ام البنین علیہا السلام مسلمان خواتین کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ حضرت ام البنین (ع) کے فضائل اور خوبیوں کا ذکر ہمیشہ ان کے فرزند حضرت عباس علیہ السلام کے نام کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ حضرت عباس علیہ السلام جو کربلا کے علمدار تھے اور جن کے مقام پر روزِ قیامت شہداء رشک کریں گے، اپنی شجاعت، ادب اور وفاداری میں اپنے والد حضرت علی علیہ السلام اور والدہ حضرت ام البنین علیہا السلام کے وارث تھے۔
نسب اور خاندان
تاریخی منابع کے مطابق، حضرت ام البنین علیہا السلام کی ولادت مدینہ کے جنوب میں رہنے والے طائفۂ ہوازن کے مشہور قبیلے بنی کلاب میں ہوئی۔ آپ کے والد ابوالمجل حزام بن خالد اور والدہ ثمامہ بنت سہیل بن عامر دونوں کا تعلق عرب کے معروف اور بہادر خاندانوں سے تھا۔ بنی کلاب اپنے وقت میں شجاعت، سخاوت اور دیگر اعلی صفات کی وجہ سے مشہور تھے۔ حضرت ام البنین علیہا السلام نے انہی اعلی اخلاقی اور نسبی صفات کو وراثت میں پایا۔
حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام کی شہادت کے بعد حضرت علی علیہ السلام نے اپنے بھائی عقیل بن ابی طالب جو کہ عرب قبائل کے نسب اور خصوصیات سے گہری واقفیت رکھتے تھے، سے درخواست کی کہ میرے لیے ایسی عورت تلاش کرو جو دلیر اور بہادر نسل سے ہو تاکہ وہ ایسا بیٹا جنم دے جو شجاعت اور وفاداری میں نمایاں ہو۔
عقیل نے حضرت علی علیہ السلام کو ام البنین کلابیہ کے انتخاب کا مشورہ دیا کیونکہ ان کے نسب میں ایسی صفات پائی جاتی تھیں۔ حضرت علی علیہ السلام نے اس تجویز کو قبول کیا اور یوں یہ مبارک نکاح عمل میں آیا۔
حضرت ام البنین علیہا السلام کا خواب
حضرت ام البنین علیہا السلام فرماتی ہیں کہ رشتہ ہونے سے پہلے میں نے ایک خواب دیکھا کہ میں ایک سرسبز اور گھنے باغ میں بیٹھی ہوں۔ وہاں بہتے ہوئے نہریں اور بے شمار پھل موجود تھے۔ آسمان پر چمکتا ہوا چاند اور ستارے روشن تھے اور میں انہیں دیکھ رہی تھی۔ میں اللہ کی تخلیق کی عظمت اور بغیر ستون کے کھڑے آسمان، چاند کی روشنی اور ستاروں کے بارے میں غور و فکر کر رہی تھی۔ اسی دوران اچانک چاند آسمان سے زمین پر اترا اور میری گود میں آ گیا۔ اس چاند سے ایک ایسی روشنی نکل رہی تھی جو آنکھوں کو خیرہ کر رہی تھی۔ میں حیرت اور تعجب میں مبتلا تھی کہ اسی وقت چار روشن ستارے اور میری گود میں آ گرے۔
حضرت ام البنین علیہا السلام کے والد حزام بن خالد نے اپنی قوم کے خوابوں کی تعبیر کرنے والے عالم سے اس خواب کی تعبیر پوچھی۔ معبر نے کہا یہ خواب کسی کو مت بتائیں اور یقین رکھیں کہ آپ کی بیٹی کے لیے عرب و عجم کے کسی بڑے شخص کا رشتہ آئے گا، اور اللہ تعالیٰ اسے چار بیٹے عطا کرے گا۔
جب حضرت علی علیہ السلام کے بھائی حضرت عقیل علیہ السلام جو قبائل عرب کے نسب شناس تھے، خواستگاری کے لیے حزام بن خالد کے پاس آئے، تو حزام نے اپنی بیٹی کے خواب کو یاد کرتے ہوئے انہیں خوشخبری دی اور کہا: میری بیٹی! یقیناً اللہ تعالیٰ نے تمہارے خواب کو حقیقت میں بدل دیا ہے۔ دنیا اور آخرت کی خوش بختی کی بشارت ہو! پھر حزام نے اپنی اہلیہ ثمامہ سے مشورہ کیا اور کہا کہ کیا تم ہماری بیٹی فاطمہ (ام البنین) کو امیرالمومنین علی علیہ السلام کے نکاح کے لائق سمجھتی ہو؟ جان لو کہ ان کا گھر وحی، نبوت، علم، حکمت، ادب اور اخلاق کا مرکز ہے۔ اگر تم اپنی بیٹی کو اس گھر کے لائق سمجھتی ہو تو ہم اس مبارک رشتے کو قبول کریں گے۔
تاریخ میں لکھا گیا ہے کہ حضرت ام البنین سلام اللہ علیہا نے جب حضرت علی علیہ السلام کے گھر میں قدم رکھا تو انہوں نے امام علی علیہ السلام سے درخواست کی کہ انہیں ان کے اصل نام فاطمہ کے بجائے "ام البنین” کے لقب سے پکارا جائے۔ یہ اس لیے کہ امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام اپنی والدہ حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام کا نام سن کر اپنی والدہ کی یاد میں غمگین نہ ہوں اور ان کے دلوں میں یتیمی کا درد تازہ نہ ہو۔
کردار اور تربیت
حضرت ام البنین علیہ السلام نے نہ صرف حضرت علی علیہ السلام کی بہترین زوجہ ہونے کا حق ادا کیا بلکہ حضرت امام حسن علیہ السلام، حضرت امام حسین علیہ السلام اور بی بی زینب علیہا السلام کے لیے ایک شفیق اور محبت کرنے والی ماں کی حیثیت سے بھی اپنی مثال قائم کی۔ اپنے بیٹوں کو امام حسین علیہ السلام کے مشن کے لیے قربان کر دینا ان کی وفاداری اور ایمان کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔
حضرت ام البنین علیہا السلام کی زندگی ہمیں ایثار، شجاعت، اور اہلِ بیت سے وفاداری کا درس دیتی ہے، اور ان کا کردار آج بھی مسلم خواتین کے لیے مشعلِ راہ ہے۔
حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کی حضرت ام البنین علیہا السلام سے خواستگاری کا واقعہ اسلامی تاریخ کا ایک خوبصورت واقعہ ہے جو اس عظیم خاتون کی شرافت، ایمان اور بلند مقام کو واضح کرتا ہے۔
حضرت ام البنین علیہا السلام کے بیٹے
حضرت ام البنین علیہا السلام کے امام علی علیہ السلام سے چار بیٹے تھے: حضرت عباس علیہ السلام، عبد اللہ، عثمان اور جعفر۔ ان سب میں سب سے بڑے حضرت عباس علیہ السلام تھے، جو 4 شعبان 26 ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ یہ تمام فرزند حضرت علی علیہ السلام اور حضرت ام البنین علیہا السلام کی مثالی تربیت کے باعث بلند اوصاف کے حامل تھے۔ ان چاروں جوانوں نے سب سے پہلے اپنے والد حضرت علی علیہ السلام کے اوصاف اور اخلاق کو اپنایا۔ اس کے بعد اپنی والدہ حضرت ام البنین علیہا السلام سے ادب، ایثار، وفا اور قربانی کی اعلی قدریں سیکھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک رشادت، نجابت، شرافت، جوانمردی اور اخلاق کے اعلی ترین درجے پر فائز تھا۔
جب امیر المومنین علیہ السلام شہید ہوئے، تو حضرت عباس علیہ السلام کی عمر تقریباً 14 سال تھی اور ان کے باقی بھائی ان سے بھی کم عمر کے تھے۔ لیکن ان کی وفاداری اور قربانی کربلا کے میدان میں تاریخ کا ناقابلِ فراموش باب بن گئی۔ حضرت ام البنین سلام اللہ علیہا کی امام حسین علیہ السلام سے بے پناہ محبت اور سانحۂ کربلا کے بعد ان کے صبر و استقامت کی کہانی تاریخ اسلام کے دردناک مگر قابلِ فخر واقعات میں شامل ہے۔
مجھے میرے حسین علیہ السلام کی خبر دو!
سانحۂ کربلا کے بعد جب بشیر امام سجاد علیہ السلام کے نمائندہ کی حیثیت سے مدینہ پہنچا تو حضرت ام البنین علیہا السلام اس کے استقبال کے لیے آئیں۔ انہوں نے فوراً پوچھا: امام حسین علیہ السلام کے بارے میں کیا خبر ہے؟
بشیر نے کہا: آپ کے بیٹے عباس علیہ السلام شہید ہو گئے ہیں۔
یہ سن کر حضرت ام البنین علیہا السلام نے دوبارہ کہا: "بشیر! میرے امام حسین علیہ السلام کے بارے میں بتاؤ!”
بشیر نے بتایا کہ ان کے دیگر بیٹے بھی کربلا میں شہید ہو گئے ہیں، لیکن حضرت ام البنین علیہا السلام نے پھر بھی یہی کہا: "بشیر! مجھے میرے حسین علیہ السلام کے بارے میں بتاؤ!”
جب بشیر نے امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی خبر دی، تو حضرت ام البنین علیہا السلام نے بلند آواز میں نالہ و فریاد کی۔
سانحۂ کربلا کے بعد، حضرت ام البنین علیہا السلام نے بی بی زینب علیہا السلام کے ساتھ یزید کی حکومت کے خلاف احتجاج میں بھرپور کردار ادا کیا۔ وہ روزانہ اپنے بیٹے حضرت عباس علیہ السلام کے فرزند کو لے کر قبرستان بقیع جاتی تھیں اور وہاں چار قبریں کھینچ کر اپنے شہید بیٹوں کے لیے مرثیے پڑھتی تھیں۔ ان کی مرثیہ خوانی اتنی سوزناک تھی کہ مدینہ کے لوگ ان کے گرد جمع ہو جاتے تھے اور گریہ کرتے تھے۔ حتی کہ سخت دل دشمن، جیسے مروان بن حکم بھی ان کے مرثیوں کو سن کر رو پڑتا تھا۔
حضرت ام البنین علیہا السلام کے مرثیے اور عزاداری کا سلسلہ ان کے وصال تک جاری رہا۔ ان کی محبت اور وفاداری نہ صرف امام حسین علیہ السلام اور ان کے اہلِ بیت کے لیے ایک لازوال مثال ہے، بلکہ یہ مظلوموں کی حمایت اور حق کے لیے قیام کا درس بھی دیتی ہے۔
آپ کی وفات
بعض محققین کے مطابق حضرت ام البنین علیہا السلام کی وفات 13 جمادی الثانی 64 ہجری قمری کو ہوئی۔ زیادہ تر مورخین کا خیال ہے کہ ان کی وفات طبیعی تھی اور کوئی خاص وجہ یا حادثہ اس کے پیچھے نہیں تھا۔ جبکہ بعض مورخین کا کہنا ہے کہ ام البنین علیہا السلام کی شہادت بنی امیہ کے مظالم کا نتیجہ تھی۔ ان کے دلگداز مرثیے، جو کربلا کے مظالم کو آشکار کرتے اور بنی امیہ کی حکومت کے خلاف لوگوں کو بیدار کرتے تھے، ممکنہ طور پر ان کی موت کا سبب بنے۔ بعض روایات کے مطابق انہیں زہر آلود شہد کے ذریعے شہید کیا گیا۔
حضرت ام البنین علیہا السلام کو قبرستان بقیع میں دفن کیا گیا، جہاں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعض قریبی رشتہ دار خواتین کے ساتھ آرام فرما رہی ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی سے خواتین کی ملاقات
حضرت زہرا (س) مسلم خواتین کے لئے ابدی رول ماڈل ہیں، اسرائیل کا خاتمہ ہوگا، رہبر معظم
رہبر انقلاب اسلامی نے منگل کے روز ایران کے مختلف علاقوں سے آئی خواتین سے ملاقات میں کہا کہ امریکہ، صیہونی حکومت اور ان کے بعض اتحادیوں کا یہ خیال کہ مزاحمت ختم ہو جائے گی سراسر غلط ہے، جو مٹے گا وہ اسرائیل ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے یوم ولادت اور یوم خواتین کے قومی دن کی مناسبت سے ایک تقریب میں خطاب کے دوران شام میں صیہونی حکومت کی سرگرمیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ صیہونی حکومت اس خیال خام میں ہے کہ وہ شام کے راستے حزب اللہ کو گھیرنے کی تیاری کر رہی ہے، لیکن جس کا قلع قمع کیا جائے گا وہ اسرائیل ہے۔
رہبر انقلاب نے مزاحمتی فرنٹ کے کمزور ہونے کے دشمنوں کے پروپگنڈوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ، صیہونی حکومت اور ان کے بعض اتحادیوں کا یہ خیال کہ مزاحمت ختم ہو جائے گی سراسر غلط ہے۔
انہوں نے کہا کہ سید حسن نصر اللہ اور سنوار کا جسد خاکی چلا گیا، لیکن ان کے خیالات باقی ہیں اور ان کا راستہ جاری ہے۔ غزہ پر آئے دن حملے ہو رہے ہیں اور لوگ شہید ہو رہے ہیں۔ پھر بھی غزہ کے لوگ سر اٹھائے کھڑے ہيں اور استقامت کر رہے ہيں۔ لبنان میں استقامت جاری ہے۔
رہبر انقلاب نے کہا کہ سماجی تعلقات کے حساب سے مرد و خواتین کے لئے کچھ پابندیاں ہيں۔ یہ وہ خصوصیات ہيں جن پر اسلام نے توجہ دی ہے۔ آج مغرب میں جو بے بند و باری ہے وہ بھی ہمیشہ سے نہيں تھی، بلکہ یہ نئی صورت حال ہے، شاید دو یا تین صدی سے یہ سب ہے ورنہ ہم جب کچھ کتابیں پڑھتے ہيں ، اٹھارہویں صدی یا انیسویں صدی کے ناول اور کتابیں پڑھتے ہيں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ ان میں بہت سے ایسے تحفظات تھے خواتین کے بارے میں جن کا آج مغرب میں نام و نشان نہيں ہے۔ اسلام نے ان تحفظات پر توجہ دی ہے، حجاب ، عفت، نظر، یہ سب وہ چیزيں ہيں جن پر اسلام نے توجہ دی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ دنیا کے ہر گوشہ میں ہر دھڑا ایک الگ جذبے کے تحت خواتین کے مسائل پر بات کرتا ہے۔ خواتین کے امور میں بھی دنیا کے سرمایہ کار ، سیاست داں ، جو خود سرمایہ کاروں کے سہارے ہوتے ہيں، وہ ، زندگی کے تمام امور کی طرح ، خواتین کے امور میں بھی مداخلت کرتے ہيں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے کہا: اس کے پیچھے جذبہ کیا ہے؟ اس کا مقصد سیاسی و استعماری مقصد کا حصول ہے۔ وہ اس طرح کے مسائل اس لئے اٹھاتے ہيں تاکہ زیادہ مداخلت، زیادہ لوٹ مار اور علاقے میں زیادہ اثر و رسوخ کا انہيں موقع ملے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ تقریبا ایک صدی قبل خواتین کی مالی خودمختاری اور آزادی کا معاملہ پیش کیا گيا۔ بظاہر اچھی چیز نظر آئی، خواتین مالی لحاظ سے اپنے پیروں پر کھڑی ہوں، یا آزادی حاصل ہو یہ سب اچھی باتیں ہیں لیکن اس کے اندر کیا تھا ؟ اس کے اندر یہ تھا کہ ان کے کارخانوں کو مزدوروں کی ضرورت تھی، مرد مزدور کافی نہيں تھے، وہ خواتین کو بھی مزدوری کے لئے لانا چاہتے تھے لیکن مردوں سے کم مزدوری پر۔ اس مقصد کو انہوں نے ایک انسان دوستانہ اور خواتین کی مالی خود مختاری جیسے نعروں کے پیچھے پوشیدہ کیا تاکہ اس طرح سے خواتین کو گھر سے باہر لا سکیں۔