
سلیمانی
اسرائیل سے کوئی جھگڑا نہیں
شام میں صدر بشار اسد کی حکومت سرنگون ہو جانے کے بعد برسراقتدار آنے والے گروہ ھیئت تحریر الشام کے سربراہ احمد الشرع، جو ابو محمد الجولانی کے نام سے مشہور ہے، نے حال ہی میں انتہائی اہم بیان دیا ہے، جس میں اس نے کہا ہے کہ ہم اسرائیل کے خلاف جنگ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ اس کا یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا، جب اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم شام پر 300 کے قریب فضائی حملے کرکے اپنے بقول شام کی 80 فیصد دفاعی صلاحیتوں کو نابود کرچکی تھی۔ مزید برآں، غاصب صیہونی فوج نے گولان ہائٹس سے شام کے اندر فوجی چڑھائی بھی شروع کر رکھی ہے اور اب اسرائیلی فوج شام کے دارالحکومت دمشق سے محض 20 کلومیٹر کے فاصلے پر کھڑی ہے۔ اسرائیلی فوج نے شام کے کئی دیہاتوں اور قصبوں پر قبضہ کر لیا ہے۔
دمشق پر قبضے کے بعد ابو محمد الجولانی نے اسکائی نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا: "شام کسی نئی جنگ میں داخل نہیں ہوگا، کیونکہ شام کے شہری گذشتہ کئی سال کی جنگ سے تھک چکے ہیں۔ ہمارا ملک کسی نئی جنگ کے لیے تیار نہیں ہے۔" اس نے غاصب صیہونی رژیم کے وسیع فضائی حملوں کی جانب اشارہ کیے بغیر مزید کہا: "ہمیں اصل تشویش حزب اللہ لبنان اور اسد حکومت سے تھی۔ ان کا خاتمہ شام کے مسائل کا حل ہے۔ موجودہ صورتحال ہمیں ماضی کی جانب واپس پلٹنے کی اجازت نہیں دیتی۔" ھیئت تحریر الشام کی جانب سے یہ کمزور اور بزدلانہ موقف ایسے وقت سامنے آیا، جب اسرائیل شام کے 500 اسٹریٹجک اہمیت کے حامل مقامات پر بمباری کرچکا تھا۔ شام میں صدر بشار اسد کی حکومت ختم ہو جانے اور شدت پسند گروہوں کے برسراقتدار آجانے نے خطے کی صورتحال بہت ہی پیچیدہ کر دی ہے۔
خطے کے بہت سے سیاسی تجزیہ کار اس حقیقت سے بخوبی آگاہ تھے کہ ھیئت تحریر الشام (سابق النصرہ فرنٹ) درحقیقت داعش نامی سکے کا دوسرا رخ ہے۔ اب عوام کی جانب سے اس گروہ کے اقدامات پر ناراضگی کے اظہار اور بہت جلد عوام کا اس کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہونے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابو محمد الجولانی کے چہرے سے نقاب اتر چکا ہے اور اس کے خوبصورت نعرے اور وعدے عوامی حمایت کا باعث نہیں بن سکتے۔ اگرچہ اس نے سر پر وہ پگڑیاں باندھنا چھوڑ دی ہیں، جو اہلسنت معاشروں میں رائج ہیں اور پینٹ کوٹ پہن کر خود کو لبرل ذہنیت کا حامل اور ماڈرن ظاہر کرنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن اس نے جو وعدے کیے تھے، ان پر تاحال عمل پیرا نہیں ہوسکا۔ ھیئت تحریر الشام کا سربراہ ابو محمد الجولانی خود کو خطے کے نئے حالات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش میں مصروف ہے۔
القاعدہ جیسے اقدامات کا تکرار
احمد الشرع یا ابو محمد الجولانی ماضی میں دہشت گرد گروہ القاعدہ کے شدت پسند عناصر میں شمار کیا جاتا تھا، لیکن اب وہ اپنا ظاہری حلیہ تبدیل کرکے خود کو روشن خیال ظاہر کر رہا ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ وہ شام میں کسی خاص گروہ یا قوم کو نشانہ نہیں بنائے گا، جبکہ آگاہ ذرائع کا کہنا ہے کہ الجولانی سے وابستہ مسلح عناصر نے شام کے مختلف شہروں میں بڑے پیمانے پر علویوں کو گرفتار کر لیا ہے۔ رپورٹس کے مطابق گرفتار ہونے والے افراد کی تعداد 120 ہے اور ان میں القرداحہ، لاذقیہ اور طرطوس کے شہری شامل ہیں۔ ان رپورٹس میں مزید کہا گیا ہے کہ گرفتار ہونے والے 50 افراد کے تمام اثاثے بھی ضبط کر لیے گئے ہیں۔ ان اقدامات نے ابو محمد الجولانی کے وہ تمام وعدے مشکوک بنا دیئے ہیں، جو اس نے برسراقتدار آنے سے پہلے کیے تھے۔
داعش سے وابستہ دہشتگردوں کی سرگرمیاں
شام میں عوامی ناراضگی کی ایک اور وجہ وہاں داعش سے وابستہ تکفیری دہشت گرد عناصر کی موجودگی ہے۔ صدر بشار اسد کی حکومت ختم ہو جانے کے بعد شام میں داعش سے وابستہ دہشت گرد عناصر کی سرگرمیوں میں بھی تیزی آئی ہے۔ میڈیا ذرائع کے بقول شام کے صوبہ حمص کے مغربی اور مشرقی حصوں میں صرف چار دن میں داعش نے 100 شہریوں کو قتل کیا ہے۔ ان رپورٹس میں مزید کہا گیا ہے کہ داعش سے وابستہ تکفیری دہشت گرد عناصر نے حمص کے مغرب اور مشرق میں چند دیہاتوں پر حملہ کیا اور ان 13 افراد کو گرفتار کر لیا، جو اپنے گھروں کی جانب جا رہے تھے اور انہیں سب کے سامنے گولی مار کر قتل کر دیا۔ ان تکفیری دہشت گردوں نے اپنے مجرمانہ اقدامات کی ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر بھی شائع کی ہیں۔
دمشق میں مظاہرے
تازہ ترین رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ھیئت تحریر الشام کی جانب سے گرفتاریاں اتنے وسیع پیمانے پر انجام پا رہی ہیں کہ شام میں اس کے خلاف عوامی مظاہرے شروع ہوگئے ہیں۔ ایسے ہی کچھ مظاہرے دارالحکومت دمشق میں بھی منعقد ہوئے ہیں۔ ان مظاہروں میں ھیئت تحریر الشام کی جانب سے گرفتار کیے جانے والے شہریوں کے اہلخانہ بھی شامل تھے۔ دوسری طرف دمشق کے عوام پر شدید دباو نیز دارالحکومت میں امن و امان کی ابتر صورتحال کے باعث بھی عوام میں ابو محمد الجولانی کے خلاف شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ ان مظاہروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ شام کے عوام میں مسلح گروہوں کے خلاف شدید ناراضگی پائی جاتی ہے۔ لہذا مسلسل وعدہ خلافیوں اور عوام کے خلاف شدت پسندانہ اقدامات کے باعث سیاسی ماہرین اور تجزیہ کاران کا کہنا ہے کہ مستقبل قریب میں ھیئت تحریر الشام شدید چیلنجز اور مشکلات سے روبرو ہو جائے گا۔
تحریر: علی احمدی
شام کے واقعات امریکی و صیہونی مشترکہ منصوبے کا نتیجہ ہیں، رہبر انقلاب اسلامی
۔ آج صبح تہران میں رہبر معظمِ انقلاب، ولی امر مسلمین "سید علی خامنہ ای" سے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے ملاقات کی۔ جن سے خطاب کرتے ہوئے رہبر معظم نے کہا کہ شام میں اس وقت جو کچھ بھی ہو رہا ہے، وہ امریکہ اور صیہونی رژیم کے مشترکہ منصوبے کا نتیجہ ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ شام کا ایک ہمسایہ ملک اس منصوبے میں اپنا کردار ادا کرچکا ہے اور کر رہا ہے۔ تاہم اس سازش اور منصوبے کا اصلی عنصر امریکہ و صیہونی رژیم ہیں۔ ہمارے پاس اس بات کے بہت سارے شواہد موجود ہیں، جنہیں دیکھنے کے بعد ساری صورت حال واضح ہو جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مقاومت یا استقامتی محاذ کا مطلب یہ ہے کہ اس پر جتنا دباؤ ڈالا جائے گا، یہ اتنا ہی مضبوط ہوگا، جتنی جارحیت کا سامنا کرے گا، اتنا ہی پُرعزم ہوگا، جتنا آپ اس سے لڑیں گے، یہ اتنا ہی وسیع ہوگا۔ میں آپ سب سے کہتا ہوں کہ اللہ کی مدد سے مقاومت، ماضی کی نسبت جلد ہی سارے خطے میں پھیل جائے گی۔ مقاومت کے معنی سے بے خبر اور نادان دانشور سمجھتے ہیں کہ استقامتی فرنٹ کمزور ہوگیا ہے یا اسلامی جمہوریہ ایران کمزور ہو جائے گا۔ میں ان سے کہتا ہوں کہ اللہ کی نصرت سے ایران طاقتور ہے اور مزید طاقتور ہوگا۔
ولی امر مسلمینِ جہاں نے کہا کہ شام میں جاری شورش میں شامل باغی گروہوں کے اپنے اپنے مقاصد ہیں۔ ان میں سے بعض، شمالی شام اور بعض جنوبی شام پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ انہی کے توسط سے امریکہ چاہتا ہے کہ خطے میں اپنے قدم جمائے، لیکن یہ وقت بتائے گا کہ ان شاء اللہ ان میں سے کوئی بھی فریق اپنا ہدف حاصل نہیں کرسکے گا۔ شام کے مقبوضہ علاقے شام کے غیور نوجوانوں کے ہاتھوں ہی آزاد ہوں گے۔ آپ شک نہ کریں، یقیناً یہ امر وقوع پذیر ہوگا۔ امریکہ کو خطے میں جگہ نہیں ملے گی اور اللہ کی توفیق و مدد سے استقامتی محاذ ہی خطے سے امریکہ کو نکال باہر کرے گا۔ رہبر معظم انقلاب نے شام میں فتنہ داعش کے خلاف ایران کی موجودگی کی وجوہات کو بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ داعش یعنی بدامنی کا بم۔ داعش چاہتی تھی کہ عراق، شام اور خطے کو ناامن کرے۔ ان کا اصلی اور آخری ہدف اسلامی جمہوریہ ایران تک پہنچنا تھا۔ لیکن ہم نے داعش کا مقابلہ کیا۔ عراق اور شام میں ہماری فورسز دو وجوہات کی بناء پر وہاں کی حکومتوں کی مدد کے لئے پہنچیں۔ پہلی وجہ مقدس مقامات اور اپنے آئمہ کے مزارات کا تحفظ تھا، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ داعش دین، ایمان اور روحانیت سے عاری لوگوں کا ایک گروہ تھا۔
انہیں مقدس مقامات و مزارات سے دشمنی تھی۔ وہ ان مقامات کو برباد کرنا چاہتے تھے اور کسی حد تک کیا بھی۔ جیسا کہ ہم نے سامراء میں دیکھا کہ انہوں نے امریکہ کی مدد سے گنبد امامین عسکریین علیہما السلام کو شہید کر دیا۔ وہ یہی کام نجف، کربلا، کاظمین اور دمشق میں کرنا چاہتے تھے۔ پس اس منظرنامے میں کوئی غیور اور محب اہل بیت ع کیسے خاموش رہ سکتا تھا۔ دوسری وجہ سلامتی کا مسئلہ تھا۔ ہمارے اعلیٰ حکام بہت جلد سمجھ گئے تھے کہ اگر اس فتنے کا راستہ نہ روکا گیا تو یہ ناسور تیزی کے ساتھ پھیل جائے گا۔ یہانتک کہ ہماری سلامتی بھی خطرے میں پڑ جائے گی۔ فتنہ داعش کی بدامنی کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کا فرمان ہے کہ "جو قوم اپنے گھر میں دشمن کے ساتھ نبردآزما ہو، وہ ذلیل و خوار ہو جائے گی، دشمن کو اپنے اندر گھسنے مت دو۔" لہٰذا ہماری فورسز، سینیئر عسکری ماہرین اور ہمارے پیارے شہید جنرل "قاسم سلیمانی" و ان کے ساتھی اس فتنے سے نبرد آزماء ہونے کے لئے پہلے عراق اور پھر شام پہنچے۔ انہوں نے عراق و شام میں نئے سرے سے فوج کو منظم کیا۔ انہیں اسلحہ دیا اور اس ملک کے اپنے جوانوں کو داعش کے خلاف کھڑا کر دیا۔ جنہوں نے داعش کی کمر توڑ کر رکھ دی۔
استکباری عناصر شام کی موجودہ صورتحال پر خوشحال ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مقاومت کی طرف دار شامی حکومت کے خاتمے کے بعد استقامتی محاذ کمزور ہوگیا ہے۔ حالانکہ وہ غلط سوچ رہے ہیں۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان حوادث سے استقامتی محاذ کمزور ہوا ہے، انہیں مقاومت اور استقامتی محاذ کا صحیح ادراک نہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ حقیقی طور پر مقاومتی محاذ کیا ہے۔ مقاومتی محاذ کوئی ہارڈویئر نہیں کہ جو ٹوٹ جائے یا پانی میں ڈوب جائے یا نابود ہو جائے۔ مقاومت ایک ایمان ہے، تفکر ہے، قلبی اور قطعی ارادہ ہے، مقاومت ایک آئیڈیالوجی ہے، مقاومت ایک مذہبی نظریہ ہے۔ یہ ایمان نہ تو دباؤ کی وجہ سے کمزور ہوتا ہے بلکہ اس کے مقابلے میں اور زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔ استقامتی محاذ سے وابستہ عناصر و افراد کا جذبہ دشمن کی خباثتوں کے نتیجے میں مزید مضبوط ہوتا ہے اور اس کا دائرہ کار وسیع تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ مقاومت یہ ہے کہ جب ہم دشمن کے گھناونے جرائم کو دیکھتے ہیں اور وہ افراد جو اس شک میں مبتلا ہوتے ہیں کہ ہمیں مزاحمت کرنی چاہیئے یا نہیں۔ تو وہ شک سے باہر نکلتے ہیں اور جان لیتے ہیں کہ ظالم و ستمگر کے مقابلے میں سینہ سپر کرنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں۔ ہمیں دشمن کے مقابلے میں کھڑا ہونا چاہیئے، مزاحمت کرنی چاہیئے۔ یہی مقاومت کا اصلی مفہوم ہے۔
اگر آپ حزب اللہ لبنان کو دیکھیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ حزب اللہ کو جس بحران کا سامنا کرنا پڑا، کیا وہ ایک مذاق تھا!؟ کیا سید حسن نصراللہ جیسی شخصیت کھو دینا حزب اللہ کے لیے کم چیلنج تھا!؟ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ سید حسن نصراللہ کی شہادت کے بعد حزب اللہ کے حملے، طاقت اور مضبوطی میں اضافہ ہوا ہے۔ نیز دشمن بھی اس بات کو سمجھتا ہے۔ دوسری جانب دشمن سوچتا تھا کہ انہوں نے اب سید حسن نصراللہ کو شہید کر دیا ہے تو وہ لبنان میں داخل ہوسکتا ہے، حزب اللہ کو پسپا کرسکتا ہے، حزب اللہ کو دریائے لیطانی تک پیچھے دھکیل دے گا، لیکن ایسا نہیں ہوا، بلکہ حزب اللہ نے کمال شجاعت کا مظاہرہ کیا اور یہاں تک کہ بات جنگ بندی تک پہنچ گئی۔ یہ مقاومت کا اثر ہے۔ جب ہم غزہ کو دیکھتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ غزہ میں صیہونی بمباری کو ایک سال اور چند مہینے ہوچکے ہیں۔ وہاں پر یحییٰ السنوار جیسی برجستہ شخصیات کو شہید کیا جا چکا ہے۔ انہیں نقصان پہنچایا گیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہاں کی عوام، دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بنی ہوئی ہے۔ دشمن سوچتا تھا کہ وہ غزہ کے عوام پر دباؤ ڈالے گا اور نتیجتاََ وہاں کی عوام حماس کے خلاف کھڑی ہو جائے گی۔ لیکن نتیجہ اس کے برخلاف آیا اور وہاں کی عوام پہلے کی نسبت زیادہ حماس کی طرف دار ہوگئی۔
شام کے مسائل کی اس تفصیل کے ساتھ سوال اٹھتا ہے کہ کیا ہم ان چند سالوں میں شام میں موجود تھے یا نہیں۔؟ جس کا جواب ہے ہاں، سب جانتے ہیں اور دوسرا حرم کے دفاع کے طور پر ہماری موجودگی بھی اس بات کو ظاہر کرتی ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ ہم نے شامی حکومت کی مدد کی۔ لیکن اس سے پہلے کہ ہم شامی حکومت کی مدد کریں، ایک نازک موڑ پر شام نے ہماری مدد کی تھی۔ جس کے بارے میں اکثر لوگ نہیں جانتے۔ ایران-عراق جنگ کے دوران جب ساری دنیا "صدام حسین" کی حمایت اور ہماری مخالفت میں اکٹھی ہوگئی اس وقت شامی حکومت حرکت میں آئی اور انہوں نے ہمارے مفاد اور صدام حسین کے خلاف ایک بہت بڑا قدم اٹھایا۔ وہ یہ کہ شام نے عراق سے یورپ کے لئے بحیرہ روم سے گزرنے والی پائپ لائن کو بند کر دیا۔ جس سے دنیا میں ایک ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔ حالانکہ شام خود بھی اپنی سرزمین سے گزرنے والی پائپ لائن کا کرایہ وصول کر رہا تھا۔ لیکن اس نے ہماری خاطر اپنے اقتصادی مفاد کو قربان کیا۔ تاہم ہم نے اس کا ازالہ بھی کیا۔ یعنی اسلامی جمہوریہ ایران نے اس خدمت کا صلہ بھی دیا۔ پہلے انہوں نے ہماری مدد کی۔ بعد میں شہید جنرل قاسم سلیمانی نے شامی جوانوں کی فوجی تربیت کا اہتمام کیا۔ انہیں مسلح و منظم کیا اور دشمن سے مقابلے کے قابل کیا۔
رہبر معظم انقلاب نے کہا کہ بد قسمتی سے شام کے بعض عسکری عہدے داروں نے مقاومت پر اعتراضات اٹھانے شروع کر دئیے۔ انہوں نے رکاوٹیں کھڑی کرنا شروع کر دیں۔ جو چیز ان کے فائدے میں تھی اس سے بے اعتنائی برتنا شروع کر دی۔ جب داعش کا فتنہ ختم ہوا تو ہماری آدھی فورسز واپس آگئیں جبکہ کچھ ہمارا کچھ حصہ وہیں باقی رہا۔ اس وقت کی صورتحال میں بھی ہماری فورسز وہاں موجود تھیں۔ لیکن جس طرح کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ اس ملک کی اصلی جنگ شام کی افواج کو لڑنا تھی۔ ہم تو ان کے اتحادی تھے۔ اگر وہاں کی فوج اپنی کمزوری دکھاتی ہے تو ہم کچھ نہیں کر سکتے اور بدقسمتی سے یہی کچھ ہوا۔ نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ جب مقابلہ کرنے کا جذبہ ماند پڑ جائے تو پھر یہی کچھ ہوتا ہے جو اس وقت شام میں ہو رہا ہے۔ اس وقت شام کو جس بحران کا سامنا ہے خدا ہی جانتا ہے کہ یہ کب تک جاری رہے گا۔ کب شام کے غیور جوانان انشاءاللہ میدان میں ائیں گے اور مزاحمت کریں گے۔ شام کے حالات اسی کمزوری کا نتیجہ ہے جس کا وہاں کی فورسز نے مظاہرہ کیا ہے۔
رہبر معظم انقلاب نے کہا کہ سب جان لیں کہ شام کی صورتحال ایسے ہی نہیں رہے گی۔ یعنی ایسا نہیں ہوگا کہ ایک گروہ دمشق پر قبضہ کر لے پھر دوسری جگہوں پر جشن منائے، ناچے گائے، لوگوں کے گھروں اور عزتوں کو پامال کرے۔ اُدھر صیہونی رژیم بھی آئے روز شام پر بمباری کرتی پھرے، ٹینکاور توپ سے حملہ آور ہو۔ صورتحال ایسی نہیں رہے گی۔ یقیناََ ایک روز شام کے غیور نوجوان کھڑے ہوں گے، ثابت قدمی دکھائیں گے، قربانی پیش کریں گے اور چاہے انہیں اپنی جان کا نذرانہ دینا پڑے لیکن بہرحال وہ کامیاب ہوں گے۔ بالکل ویسے ہی جیسے عراق کے غیور جوان کامیاب ہو چکے ہیں۔ عراق کے عظیم اور باشرف جوانوں نے شہید قاسم سلیمانی کی کمان میں دشمن کو اپنی گلیوں اور شاہراہوں سے نکال باہر کیا۔ اپنے گھروں سے بے دخل کیا۔ اگر عراقی جوان ایسا نہ کرتے تو یقیناََ امریکہ بھی عراق میں وہی کچھ کرتا جو شام میں صیہونی اور باغی گروہ انجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہار جیت انسانی زندگی کا حصہ ہے۔ استقامتی محاذ نہ تو جیت سے مغرور ہوتا ہے اور نہ ہی شکست سے مایوس۔
شام سے سب سے آخر میں انخلاء کرنے والے سپاہ پاسداران انقلاب کے اہلکار تھے، جنرل سلامی
جنرل حسین سلامی نے کہا کہ کچھ لوگ یہ توقع رکھتے ہیں کہ ہم شامی فوج کے بجائے جنگ کریں۔ کیا یہ معقول ہے کہ ہم تمام آئی آر جی سی اور رضاکار فورس کو دوسرے ملک کی جنگ میں مصروف کر دیں، جب کہ اس ملک کی فوج تماشائی بنی ہو؟
انہوں نے کہا کہ ایران حقیقت میں زیادہ سے زیادہ مدد کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اب ہمیں شام کے حقائق کو قبول کرنا ہے۔ ہم حقائق کو دیکھتے ہیں اور حقائق کی بنیاد پر کام کرتے ہیں۔
جنرل سلامی نے کہا کہ حالات کے مطابق حکمت عملی تبدیل تبدیل ہوتی ہے۔ ہم ہمیشہ ایک ہی حکمت عملی سے دنیا کے بہت سے مسائل کو حل نہيں کر سکتے۔
جنرل سلامی نے مزید کہا: ہم مہینوں پہلے سے (مسلح گروہوں اور تکفیریوں کی نقل و حرکت سے) باخبر تھے۔ یہاں تک کہ ہمارے ساتھیوں نے خفیہ حربوں کے ذریعے یہ بھی پتہ لگانے میں کامیابی حاصل کر لی تھی کہ حملے کہاں کہاں سے ہونے والے ہيں اور یہ سب ہم نے شام کے سیاسی و فوجی حلقوں تک منتقل بھی کیا لیکن چونکہ وہاں عزم و ارادہ ، جنگ و مزاحمت کا جذبہ ہی نہيں تھا اس لئے وہ سب کچھ ہوا جس کا آپ لوگوں نے مشاہدہ کیا۔
جنرل سلامی نے کہا کہ تکفیری تنظیمیں، اسلامی جمہوریہ ایران کے اثر و رسوخ کے خلاف مغربی حربہ تھا۔ تکفیری نظریات کے خلاف جنگ ، ایک عظیم خدمت تھی جو اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام نے پوری انسانیت کے لئے انجام دی ہے۔
پاسداران انقلاب اسلامی کے کمانڈر نے کہا : 13 سال کے اس عرصے کے دوران ہم نے کوشش کی کہ حزب اللہ لبنان اور فلسطینی تحریکوں کا ہم پر لاجسٹک حمایت اور جغرافیائی رابطہ کی نظر سے انحصار زیادہ سے زیادہ کم ہو جائے اور وہ اپنے پیروں پر کھڑی ہو جائيں۔
عراقی مجلس اعلیٰ اسلامی کے صدر: ہم شام کے امن، استحکام، عوامی اتحاد اور فلسطین کی حمایت میں اس کے مؤثر کردار کے خواہاں ہیں
حوزہ نیوز ایجنسی کے مطابق، عراقی مجلس اعلیٰ اسلامی کے صدر شیخ ہمام حمودی نے شام کے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: شام عراق کے لیے پھیپھڑوں کی طرح ہے اور خطے کی نبض کی حیثیت رکھتا ہے۔ جب تک اس میں استحکام نہ آئے گا اس کے معاملات حل نہیں ہوں گے اور یہی وجہ ہے کہ ہم وہاں کسی بھی قسم کے ہنگامی حالات پر ہمیشہ فکر مند رہتے ہیں۔
انہوں نے کہا: ہم شام کے امن، استحکام، عوامی اتحاد، اور عرب اور اسلامی دنیا خصوصاً فلسطین کی حمایت میں اس کے مؤثر کردار کے خواہاں ہیں۔
شیخ حمودی نے کہا: ہم امید کرتے ہیں کہ شام میں سیاسی نظام کی تبدیلی ایک با شعور جمہوری تبدیلی کے لیے اہم موڑ ہوگی، جو شام اور اس کے عوام کی وحدت اور مقام کو تمام عناصر کے ساتھ محفوظ رکھے گی اور منصفانہ انتخابات کے ذریعے بین الاقوامی نگرانی میں حکومت میں مساوی شراکت داری کو یقینی بنائے گی۔
صیہونی میڈیا: تل ابیب کا " تحریر الشام گروہ " سے براہ راست رابطہ ہے
ارنا کے مطابق صیہونی نیوز سائٹ واللا نے اتوار کو لکھا ہے کہ صیہونی حکومت شام میں موجود مختلف مسلح گروہوں منجملہ تحریر الشام سے براہ راست رابطے میں ہے۔
اس صیہونی نیوز سائٹ نے لکھا ہے کہ اسرائیل اس مرحلے میں چاہتا ہے کہ مسلح افراد سرحد( شام اور مقبوضہ فلسطین کی سرحد) کے قریب نہ جائيں۔
صیہونی ذرائع ابلاغ نے اسی کے ساتھ خبر دی ہے کہ صیہونی فوج کی گوریلا اور چـھاتہ بردار بریگیڈ 98 کو شام کی سرحدوں پر بلالیا گیا ہے۔
اس سے پہلے صیہونی میڈیا ذرائع نے رپورٹ دی تھی کہ اتوار کی صبح اسرائيلی فوج کے ٹینک مقبوضہ جولان کا سرحدی حصار عبور کرکے شام کی سرحد کے اندر داخل ہوگئے ہیں
ہفتہ بسیج مستضعفین کی مناسبت سے عوامی رضاکار فورس بسیج کے اراکین سے خطاب
بسم اللہ الرّحمن الرّحیم
و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین
برادران وخواہران عزیز خوش آمدید! میں آپ پر اور ان سبھی لوگوں پر جو یہ تقریر سن رہے ہیں، درود بھیجتا ہوں۔ بسیج کے بارے میں چند جملے عرض کروں گا۔
ملک میں بسیج مستضعفین جو تشکیل دی گئی وہ بے نظیر ہے۔ کہیں بھی، دنیا کے کسی بھی ملک میں یہ ادارہ اس شکل میں نہیں تھا۔ یہ منفرد ادارہ شمار ہوتا تھا۔ میں اس کی مختلف پہلوؤں سے وضاحت پیش کروں گا۔ کسی کی تقلید میں یہ ادارہ قائم نہیں کیا گیا۔ یہ کسی کی نقل نہیں ہے۔ یہ ہماری اپنی تاریخ اور قومی ثقافت کی دین ہے۔
یہ ہماری پہلی بات ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ادارہ چونکہ کسی کی نقل اور تقلید میں تشکیل نہیں پایا ہے اس لئے باقی رہنے والا ہے۔ یہ ادارہ ختم ہونے والا نہیں ہے۔ چونکہ اس کی جڑیں خود اپنی ہیں اس لئے محکم اور باقی رہنے والا ہے۔ یہ خود اس قوم کا ادارہ ہے۔ یہ بسیج کی تاریخ اور ملّی تشخص ہے۔ یہ ایرانی ادارہ ہے۔ یہ ایک ثقافتی مرکز ہے۔ بسیج فوجی ادارہ ہونے کے ساتھ ہی ثقافتی اور سماجی مرکز ہے۔
آج بسیج سے، سب سے پہلے جو چیز ذہن میں آتی ہے وہ اس کا فوجی پہلو ہے جبکہ اس کا فوجی پہلو اپنی تمام تر اہمیتوں کے باوجود اس کے ثقافتی اور سماجی پہلو سے زیادہ نہیں ہے۔
امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے یہ ادارہ قائم کیا۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے کب یہ ادارہ قائم کیا؟ اور وہ بھی ایک انتہائی خطرے کی حالت میں۔ یہ ہمارے امام کی ایک خصوصیت تھی۔ آپ میں سے اکثر نے امام کا دور نہیں دیکھا ہے۔ ہمارے عظیم امام کی ایک خصوصیت یہی تھی۔ آپ خطرات ميں سے مواقع نکال لیا کرتے تھے۔ اس مسئلے میں بھی یہی تھا۔
چار نومبر 1979 کو امریکی جاسوسی اڈے پر یونیورسٹی طلبا کا قبضہ ہوا۔ اس زمانے کی دنیا کی سب سے بڑی طاقت امریکا نے آنکھیں دکھانا شروع کر دیا۔ دھمکیاں دی گئيں اور پابندیاں لگائی گئیں۔ ان دھمکیوں کے دوران امریکی جاسوسی اڈے پر قبضے کے تقریبا تیئیس دن بعد 26 نومبر1979 کو بسیج کی تشکیل کا فرمان صادر ہوا۔ ایسے وقت میں کہ ملک مں تازہ انقلاب آیا تھا، اپنے دفاع کا اس کے پاس کوئی سامان نہیں تھا، اس طرح کی بڑی دھمکیاں دی جا رہی تھیں، ایسے حالات میں، امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے ملک کی سماجی، ثقافتی اور فوجی زمین پر شجرہ طیبہ کا ایک پودا لگایا۔ وہ شجرہ طیبہ بسیج کا ادارہ تھا۔ آپ نے خطرات سے موقع پیدا کیا۔
ہم نےعرض کیا کہ فوجی پہلو، بسیج کے جملہ پہلوؤں میں سے ایک ہے۔ اب میں یہ کہتا ہوں کا بسیج پہلے درجے میں ایک مکتب ہے، ایک فکر ہے، ایک تفکر ہے، در واقع یہ ایک فکری اور ثقافتی ادارہ ہے۔ اب بسیج فوجی کام بھی کرتا ہے، سماجی کام بھی کرتا ہے، علمی کارنامے بھی انجام دیتا ہے لیکن اس کا سرچشمہ منطق اور فکر ہے جس نے اس کی بنیاد تشکیل دی ہے۔ اگر ہم اس منطق اور بنیاد کو جس پر بسیج استوار ہے، دو لفظوں میں بیان کرنا چاہیں تو یہ دو الفاظ قوت ایمان اور جذبہ خود اعتمادی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں آپ اس کو خدا پر یقین اور اپنے آپ پر یقین کا نام دے سکتے ہیں۔ یہ بسیج کے دو ستون ہیں۔ بسیج کی بنیاد خدا پر ایمان اور اپنے آپ پر یقین پر رکھی گئی ہے۔ آج، کل اور مستقبل میں یہ شجر(طیبہ) جتنا بھی ثمر بخش ہو، وہ انہیں دو چیزوں کی دین ہے۔ خدا پر یقین اور خود اعتمادی۔
بسیج کی خصوصیات بہت زیادہ ہیں لیکن ان کا سر چشمہ، یہی دو بنیادیں ہیں۔
بسیج میں شجاعت ہے، ایجاد اور کام شروع کرنے کی ہمت ہے، امور کی انجام دہی میں سرعت عمل ہے، اس کا نقطہ نگاہ اور ویژن بہت وسیع ہے، اسے دشمن کی شناخت ہے، مختلف نقل و حرکت اور اقدامات کے حوالے سے حساس اور ہوشیار ہے، لیکن یہ سب کچھ اور بسیج کی ساری خصوصیات، انہیں دو خصوصیات کی دین ہیں۔ اگر ہم ان پر غوروفکر کریں، تحلیل و تجزیہ کریں، جائزہ لیں تو بات بالکل واضح ہو جائے گی۔ میں یہاں اختصار کے ساتھ بیان کروں گا۔
جب ہم خدا پر یقین کی بات کرتے ہیں تو اس یقین کا نتیجہ خدا کے سامنے تسلیم و رضا ہے۔ خدا پر توکل ہے۔ خدا کے وعدے پر یقین ہے۔ خدا پر یقین کا مطلب یہ ہے۔ اول یہ کہ ہم خدا کے سامنے پوری طرح تسلیم ہیں اور دوسرے یہ کہ ہمارا توکل اس کی نصرت پر ہے۔ ہمیں اس کی مدد کی امید ہے اور تیسرے یہ کہ اللہ نے ہم سے جو وعدہ کیا ہے ہم اس پر اعتماد کرتے ہیں۔ جیسے اس کا یہ وعدہ ہے کہ " ان تنصراللہ ینصرکم (2) یہ خدا پر یقین کی بات ہے۔
خود اعتمادی کے بارے میں یہ عرض کرنا ہے کہ اپنے آپ پر یقین اور خود اعتمادی کے نتیجے میں صلاحیتیں سامنے آتی ہیں۔ ہمیں اپنی صلاحیتوں کا علم ہوتا ہے۔ اکثر ہم خود اپنی صلاحیتوں سے غافل ہوتے ہیں۔
فکری، باطنی اور روحانی صلاحیتیں تو دور کی بات ہیں، ہمیں حتی اپنی جسمانی صلاحیتوں کا بھی علم نہیں ہوتا۔
خود اعتمادی ہمیں اپنی صلاحیتوں کی طرف متوجہ کرتی ہے۔ اس کے بعد ہمیں ان صلاحیتوں کا قدر شناس بناتی ہے اور اس بات کا سبب بنتی ہے کہ ہم ان صلاحیتوں سے کام لیں۔ اس کی مثالیں بہت ہیں لیکن اس وقت میں اس بحث میں نہیں جاؤں گا۔
لیکن خدا پر یقین کے تعلق سے عرض کروں گا کہ یہ بات، بسیجی اور ایک ادارے کی حیثیت سے خود بسیج کے اندر اسی وقت سے موجود ہے جب سے یہ ادارہ تشکیل دیا گیا اور وجود میں آیا۔
یہ حقیقت کہ وعدہ الہی ہے، انسان کی آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتی ہے۔ ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے کہ"و للہ جنود السماوات والارض وکان اللہ علیما حکیما" (3) ایک اور جگہ پر ارشاد ہوتا ہے کہ"و للہ جنود السّماوات والارض و کان اللہ عزیزا حکیما۔" (4) عزیز یعنی وہ جو غالب آتا ہے اور کبھی مغلوب نہیں ہوتا۔ یہ عزیز کے معنی ہیں۔ و للہ جنود السّماوات والارض؛ عالم وجود کے یہ سبھی بے شمار اجزا، لشکر خدا ہیں۔ اگر ہم خدا کے بندے ہوں تو یہ لشکر ہماری مدد کر سکتا ہے۔ یہ لشکر ہماری مدد کو آ سکتا ہے۔ یہ سنت الہی اور فطرت کا طریقہ ہے۔ البتہ اس لشکر کی کمان ہمارے اختیار میں نہیں ہے کہ ہم جب بھی چاہیں اس لشکر الہی سے کام لے لیں۔ اس لشکر کا کمانڈر خدا ہے۔ البتہ یہ کمانڈر خاص حالات میں اور معینہ شرائط کے ساتھ ، جب ہم خود آمادہ ہوں تو اس لشکر کو ہمارے اختیار میں دے دیتا ہے۔ یہ قرآن کی بات ہے۔ یہ قرآن کی واضح اور شفاف تعبیرات ہیں۔ : ان تصبروا و تتّقوا ویاتوکم من فورھم ھذا یمدد کم ربّکم بخمسۃ الاف من الملائکۃ مسوّمین (5) اگر آپ کے اندر آمادگی پائی جائے تو خدا کے ملائکہ بھی آپ کی مدد کے لئے آ سکتے ہیں۔ ہم نے یہ نصرتیں دیکھی ہیں۔ دفاع مقدس میں بھی دیکھیں اور اس سے پہلے بھی اور اس کے بعد بھی دیکھی ہیں۔ سیاسی میدان میں بھی دیکھیں اور فوجی میدان میں بھی دیکھی ہیں۔ علمی میدان میں بھی دیکھیں اور خدائی امداد میں بھی دیکھی ہیں۔ نصرت الہی کو کب دیکھا جا سکتا ہے؟ اس وقت جب آپ کوئي کام کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ کام ناممکن ہے، وہاں یہ نصرت سامنے آتی ہے۔ یہ سب بسیج کے خدا پر یقین سے تعلق رکھتا ہے۔ ہم نے عرض کیا کہ بسیجی میں بھی اور بسیج کے ادارے میں بھی، ہر بسیجی میں خود اعتمادی، اپنی فکری، روحانی اور جسمانی توانائیوں اور صلاحیتوں کی شناخت، قوت ارادی، فیصلے کی توانائی، اپنی قدر اور دشمن کے ارادے کا تابع نہ بننے کی خصوصیت پائی جاتی ہے۔
ہمارے وجود میں ایک عنصر ایسا ہے کہ جس سے اکثر اوقات میں ہم غافل رہتے ہیں۔ وہ کیا ہے؟ وہ فیصلہ کرنے کی طاقت اور قوت ارادی ہے۔ ہمارے اندر ارادہ بھی ہے اور قوت ارادی بھی ہے۔ بعض اوقات انسان کے اندر قوت ارادی اس منزل پر پہنچ جاتی ہے کہ وہ کسی چیز کو خلق کر سکتا ہے، وجود میں لا سکتا ہے۔ یہ قوت ہمارے وجود میں موجود ہوتی ہے، ہم اس کو نہیں پہچانتے۔ اس کی قدر نہيں سمجھتے، اور اس کی تقویت نہیں کرتے۔ انسان کی اس ذاتی اور باطنی توانائی کی شناخت ایک بسیجی کی زندگی اور مکتب بسیجی کی ممتاز اور نمایاں ترین خصوصیات ميں سے ہے۔
دشمن کے ارادے کا تابع نہ ہونے اور اپنے ارادے کو غلبہ دینے کی خصوصیت کے لئے خود اعتمادی کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ آپ اپنی خصوصیات اور صلاحیتوں کو پہچان سکیں۔ یہ بات اقوام کے لئے عالمی سامراج کے منصوبوں کے منافی اور ان کے برعکس ہے۔
عالمی سامراج، یعنی دنیا کی تسلط پسند طاقتیں جو اقوام پر اپنا تسلط جمانا چاہتی ہیں، ان کا ایک بنیادی کام یہ ہے کہ وہ اقوام کی توانائیوں کا انکار کرتی ہیں اور ان کی تذلیل اور تحقیر کرتی ہیں۔ اس کا ذکر بھی قرآن میں موجود ہے۔ فرعون کے بارے میں (قرآن کریم فرماتا ہے) " فاستخفّ قومہ فاطاعوہ" (6) جبکہ وہ آج کی دنیا کے سلاطین سے زیادہ شریف تھا۔ سلطان امریکا، سلطان یورپ، یہ سب سلاطین ہی تو ہیں وہ ان سے شریف تھا۔ وہ صرف اپنے ملک کے عوام کے ساتھ یہ کام کرتا تھا۔ یہ دوسرے ملکوں کی اقوام کے ساتھ یہ کام کام کرتےہیں۔ فاستخفّ قومہ فاطاعوہ" اپنی ہی قوم کو ہلکا کیا، اس کی تحقیر کی، اپنے ہی عوام کو چھوٹا ظاہر کیا اور اس کے حقوق اور امتیازات کا انکار کیا۔ الیس لی ملک مصر وھذہ الانھار تجری من تحتی"(7) نتیجے میں لوگوں نے دیکھا کہ وہ ان سے بالاتر ہے لہذا اس کی اطاعت کی۔
سامراج کا منصوبہ یہ ہے کہ آپ کی تاریخ کا انکار کرے، آپ کے تشخص کا انکار کرے، آپ کی توانائيوں کا انکار کرے اور جب آپ اپنے تیل کو برطانیہ کی اجارہ داری سے نکال کر قومیانے کا اقدام کریں تو ملک کے اندر ان کے ایجنٹ تقریر کریں اور لکھیں کہ "یہ کیسی بات ہے! کیا ایرانی آبادان کی ریفائنری کو چلا سکتے ہیں؟ ایرانی تو مٹی کا لوٹا بھی نہیں بنا سکتے۔" اس طرح وہ اقوام کی تحقیر کرتے ہیں۔ بسیج اس قومی تحقیر کا نقطہ مقابل ہے۔ تسلط پسند طاقتیں، کسی قوم پر اپنا تسلط جمانے کے لئے اس کے ملی عقائد میں تحریف کرتی ہیں۔ اس کی تاریخ میں تحریف کرتی ہیں، اس کی شبیہ بگاڑتی ہیں اور تحقیر کرتی ہیں۔
میرے عزیزو! میرے بھائیو! میری بہنو! اور میرے بچو! طویل برسوں تک بالخصوص قاجاری اور پہلوی دور میں ایران کی تحقیر کی گئی۔ انقلاب آیا تو صفحہ پلٹ گیا۔
پہلی جںگ عظیم کے بعد پیرس میں ایک کانفرنس ہوئی جس میں متعدد ملکوں نے شرکت کی۔ یہ کانفرنس دنیا کی حالت کے بارے میں فیصلے کے لئے منعقد ہوئی تھی۔ اس کانفرنس میں شرکت کرنے والے ممالک وہ تھے جنہوں نے پہلی جنگ عظیم میں شرکت کی تھی یا اس سے انہیں نقصان پہنچا تھا۔ ایران بھی ان ملکوں میں شامل تھا جنہیں پہلی جنگ عظیم میں نقصان پہنچا تھا۔ ایران نے بھی ایک وفد اس کانفرنس میں شرکت کے لئے پیرس بھیجا لیکن ایرانی وفد کو کانفرنس میں شرکت کی اجازت نہیں دی گئی۔ اس طرح تحقیر کرتے تھے۔ ایک دور میں ایرانی قوم کی اس طرح تحقیر کی گئی ہے۔ بسیجی فکر اس کے گرد حصار کھینچتی ہے۔ بسیجی تفکر اس انتہائی خطرناک اسلحے کو ناکام بنا دیتا ہے۔ بسیجی تفکر خود اعتمادی عطا کرتا ہے۔ اس فکر سے نوجوان اپنے وجود کا احساس کرتا ہے۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ اس کے اندر توانائی ہے، یہ اس کی خود اعتمادی ہے۔ اس کے خدا پر یقین کے بارے میں بھی میں نے عرض کیا۔ وہ سمجھتا ہے کہ پورا عالم وجود لشکر خدا ہے۔ "و للہ جنود السّماوات و الارض" (8) اور اگر وہ راہ خدا میں آگے بڑھے گا تو یہ لشکر اس کی مدد کرے گا۔ آج بھی یہی ہے اور کل بھی یہی رہے گا۔ بے شک یہ بسیجی جذبہ، یہ بسیجی توانائی، یہ بسیجی کیفیت جو ہمارے ملک میں ہے اور خوش قسمتی سے بعض دیگر ملکوں میں استقامتی محاذ کے سپاہیوں میں بھی یہ جذبہ موجود ہے، یقینا یہ جذبہ امریکا، مغرب، سامراج اور غاصب صیہونی حکومت کی سبھی سیاستوں پر غلبہ حاصل کرے گا۔
دو تین باتیں بسیجی کے بارے میں۔ ایک نکتہ یہ ہے کہ حضرت امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے اس ملک میں انقلاب کی کامیابی سے پہلے، اپنی تحریک اور جدوجہد کے پندرہ برس کے دوران بسیجی فکر کے لئے حالات کو سازگار بنایا، اس کو وجود بخشا اور اس کی تقویت کی۔ یہ خصوصیات جو ہم بسیج کی بیان کرتے ہیں، ان میں سے بہت سی ایسی ہیں کہ بسیج کے ادارے کے باہر ظاہر ہوتی ہیں حتی بعض ایسی ہیں جو بسیج کی باضابطہ تشکیل سے پہلے ہی ظاہر ہو چکی تھیں۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے 1963 سے 1979 تک، تقریبا پندرہ سولہ برس اس بسیجی جذبہ، اس خود پر یقین، خدا پر یقین، اس خود اعتمادی، خدا پر اس اعتماد اور کامیابی کی اس امید اور روشن مسقبل کی ایرانی عوام کو نشاندہی اور تلقین کی اور ہمارے نوجوانوں نے جن کے اندر ظرفیت اور صلاحیت تھی، امام کے اس پیغام کو سمجھا۔ کمزوری پیدا کرنے والے ان تمام عوامل کے مقابلے میں یہ پیغام قبول کیا گیا، لہذا بتدریج اس تحریک نے پیشرفت اور ترقی کی، وسیع تر ہوئی۔ اس نے انقلاب کی شکل اختیار کی اور ایک ایسی حکومت کا خاتمہ کیا جس کو دنیا کی تقریبا سبھی طاقتوں کی حمایت حاصل تھی۔ پہلوی حکومت کی امریکی حمایت کر رہے تھے، یورپ والے حمایت کر رہے تھے، روس والے بھی حمایت کر رہے تھے، سب حمایت کر رہے تھے۔ اس کے پاس وسائل بھی بہت تھے۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے اس حکومت کا تختہ الٹ دیا، اس کو نابود اور جڑ سے ختم کر دیا جبکہ عوام کی جانب سے ایک بھی گولی نہیں چلائی گئی۔
دنیا میں حکومتوں کے خلاف بغاوتیں ہوتی ہیں، زیادہ تر ناکام اور نا پائیدار ہوتی ہیں (لیکن) یہاں مسلحانہ جنگ نہیں ہوئی، عوام اپنے جسم و جان اور اپنے ایمان کے ساتھ آئے، میدان ميں اترے ، انھوں نے میدان پر قبضہ کیا اور حریف کو میدان سے باہر کر دیا۔
انقلاب کی کامیابی کے بعد امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے گوناگوں ضرب اور وار کو روکنے کے لئے بسیج کی دیوار کھڑی کر دی۔ دفاع مقدس سے پہلے بھی، دفاع مقدس کے دوران بھی، دفاع مقدس کے بعد بھی، فوجی میدان میں بھی، سماجی میدان میں بھی، علمی میدان میں بھی، اسلحہ سازی میں بھی اور بین الاقوامی و سیاسی میدان میں بھی (بسیج نے عظیم کارنامے انجام دیے)
توجہ فرمائيں کہ سماجی اور علمی طاقت، سیاسی طاقت وجود میں لاتی ہے۔ جو قوام اپنے اندر اپنے اتحاد، اپنے عزم، اپنی استقامت، اور میدان میں موجود اپنی قابل توجہ فعال افرادی قوت، دکھانے ميں کامیاب رہے، اپنی علمی اور سائنسی توانائی ثابت کر سکے اور اپنی سماجی توانائی دکھا سکے وہ سیاسی لحاظ سے بھی طاقتور ہو جاتی ہے، بین الاقوامی میدان میں محکم انداز ميں بول سکتی ہے اور اپنی بات آگے بڑھا سکتی ہے۔ امام (رضوان اللہ علیہ ) نے یہ کام انجام دیے۔
بسیج نے دفاع مقدس میں بھی کردار ادا کیا، ملک کو محفوظ بنانے اور اس کی سلامتی کے تحفظ میں بھی کردار ادا کیا، تعمیرات میں بھی کام کیا اور علمی وسائنسی کارنامے بھی انجام دیے۔
جن لوگوں نے یورینیئم کی بیس فیصد افزودگی کے معاملے میں جس کی ملک کو ضرورت تھی، امریکا کی خباثت آلود سازش کو ناکام بنایا وہ بسیجی تھے۔ شہید شہریاری بسیجی تھے، ہمارے ایٹمی شہدا، ملک کے بسیجی اساتذہ میں تھے۔ اس کی اپنی تفصیل ہے۔
ہمیں نیوکلیئر میڈیسن کے لئے بیس فیصد افزودہ یورینیم کی ضرورت تھی۔ ملک کو اس کی سخت ضرورت تھی۔ تھوڑی مقدار میں بیس فیصد افزودہ یورینیم موجود تھا جس کا انتظام پہلے کیا گیا تھا، وہ بھی ختم ہو رہا تھا، ہمیں خریدنا تھا لیکن کس سے؟ امریکا سے ۔ امریکیوں نے کہا کہ تمھارے پاس ساڑھے تین فیصد افزودہ یورینیئم جتنی مقدار میں ہے، ہمیں دو ہم اس کے بدلے میں بیس فیصد افزودہ یورینیئم دیں گے۔ اس وقت کے دنیا کے دو مشہور صدور نے جن کا میں اس وقت نام نہیں لینا چاہتا، ہم سے ان کے روابط اچھے تھے، انھوں نے ثالثی کی کہ یہ معاملہ طے پا جائے۔ ہمارے ملک کے حکام نے قبول کر لیا۔ دوہزار کے عشرے کا دوسرا نصف ہے، بیچ مذاکرات میں دیکھا گیا کہ امریکی دھوکا دے رہے ہیں، ہم نے سمجھ لیا کہ وہ دھوکا دے رہے ہیں، اس کا تدارک کیا گیا۔ ٹھیک اس وقت جب وہ سمجھ رہے تھے کہ بیس فیصد افزودہ یورینیئم کی ضرورت کی وجہ سے ایران جھک جائے گا، ملک کے اندر ہمارے بسیجی ایٹمی اساتذہ نے بیس فیصد افزودہ یورینیم تیار کر لیا! امریکیوں کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ کام ہو سکتا ہے۔
میں نے چند برس قبل یہیں پر کہا ہے (9) یورینیم کی افزودگی کے عمل میں سب سے مشکل مرحلہ بیس فیصد افزودگی تک پہنچنا ہے۔ اس کے بعد کے مراحل بہت آسان ہیں۔ ایسے وقت میں کہ دشمن ہمیں دھوکہ دے رہا تھا، ہمارے بسیجیوں نے، ہمارے بسیجی نوجوانوں نے اور ہمارے بسیجی سائنسدانوں نے ملک کے اندر یہ مشکل مرحلہ انجام دے دیا، بیس فیصد افزودہ یورینیم تیار کر لیا اور ہم ان سے بے نیاز ہو گئے۔
بسیجیوں نے ان میدانوں میں کام کیا ہے۔ عالمی معاملات میں بسیج نے فعال کردار ادا کیا۔ بنابریں بسیج نے فوجی مسائل میں بھی، سماجی، علمی اور سائنسی میدان ميں بھی اور بین الاقوامی سیاست کے میدان میں بھی اہم کردار ادا کیا اور کارآمد اور توانا رہی ہے۔
میں نے عرض کیا کہ ان میں سے بہت سے کارنامے خود بسیج کے ادارے کے اندر انجام نہیں دیے گئے ہیں۔ بلکہ اس ادارے سے باہر انجام پائے ہیں۔ لیکن ہمارے لئے جو چیز اہم ہے وہ بسیجی جذبہ، بسیجی مکتب اور بسیجی ثقافت ہے۔ کوشش کریں کہ اس کو ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ آپ بسیجی، آج ملک میں جہاں بھی ہیں، کارخانے میں ہیں، یونیورسٹی میں ہیں، دینی تعلیم کے مرکز میں ہیں، سائنسی تجربہ گاہوں میں ہیں، جنگ کے میدان میں ہیں، جہاں بھی ہیں، یہ جذبہ، کام کے لئے یہ آمادگی، حوادث کے تعلق سے یہ جو حساسیت ہے اس کو ہاتھ سے نہ نکلنے دیں۔ ہمیشہ تیار رہیں۔ یہ پہلا نکتہ ہے۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ آج کی دنیا ميں مختلف ملکوں میں بہت سے نوجوان ہیں جو ذہنی طور پر اپنے سامنے سارے راستے بند پاتے ہیں، وہ اپنے وجود کو بیکار سمجھتے ہیں۔ نوجوان ہے لیکن اس کا کوئی ہدف اور مقصد نہیں ہے۔ کھوکھلے پن کا احساس کرتا ہے۔ البتہ بہت سے موٹی کھال کے ہیں۔ لیکن بعض نازک ہیں، حساس ہیں، کھوکھلے پن کے احساس میں مبتلا ہیں، خود کشی زيادہ ہوتی ہے۔ آپ سنتے ہیں اور اعداد و شمار میں پڑھتے ہیں کہ دنیا میں خودکشی بڑھ گئی ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے۔ نوجوان ذہنی جمود محسوس کرتے ہیں۔ کھوکھلا پن محسوس کرتے ہیں۔ گوناگوں مشکلات اور رکاوٹوں کے مقابلے میں خود کو ناتواں سمجھتے ہیں اور یہی احساس ناتوانی انہیں کھوکھلے پن کی طرف لے جاتا ہے۔ بسیجی تفکر سارے بند راستے کھول دیتا ہے۔ بسیجی تفکر کی ایک خصوصیت یہی بند راستے کھولنے کی بسیجی ثقافت ہے جو نوجوانوں میں راستے بند ہونے کا احساس نہیں پیدا ہونے دیتی۔ کیوں؟ اس لئے کہ ہم نے جو تعریف کی ہے اس کے مطابق اس کے اندر خود اعتمادی ہوتی ہے، اپنی توانائیوں پر اس کو اعتماد ہوتا ہے اور جانتا ہے کہ اگر ہمت کرے تو کر سکتا ہے۔ دوسرے وہ تسلط پسندوں کے مطالبات و خواہشات سے مرعوب نہیں ہوتا۔ بسیجی ایسا ہی ہوتا ہے۔
اس وقت آپ دیکھیں کہ مختلف مسائل میں امریکا، صیہونی حکومت اور دوسروں کے پروپیگنڈوں نے کیسا ہنگامہ مچا رکھا ہے۔ اس صورتحال کو دیکھ کر بسیجی نوجوان کے لبوں پر طنزیہ مسکراہٹ آتی ہے اور وہ اس ہلڑ ہنگامے کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ بنابریں مرعوب بھی نہیں ہوتا۔
تیسرے بسیجی نوجوان کے سامنے ہدف اور مقصد ہوتا ہے۔ وہ بے مقصد و بے ہدف نہيں ہے اور اپنے ہدف پر یقین رکھتا ہے۔ بسیجی نوجوان کا ہدف اسلامی معاشرہ ہے۔ اس کے بعد اسلامی تمدن ہے۔ وہ اس کی طرف آگے بڑھ رہا ہے۔ بسیجی نوجوان کا مقصد عدل و انصاف کا نفاذ ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ یہ کام کر سکتا ہے اور اس راہ میں آگے بڑھتا ہے۔
بسیجی نوجوان موت سے نہیں ڈرتا۔ آپ دیکھیں کہ دفاع مقدس کے دوران آتے تھے، گریہ کرتے تھے، التماس کرتے تھے کہ محاذ پر جانے کی اجازت دی جائے۔ ان کی عمر کم ہوتی تھی۔ اجازت نہیں ملتی تھی۔ گریہ و التماس کرتے تھے۔ یہ یہی کوئی 35 سال قبل اور 40 برس پہلے کی بات ہے۔ چند برس پہلے دفاع حرم کے مسئلے میں بھی یہی صورتحال تھی۔ دفاع حرم کے دوران کتنے نوجوان مجھے خط لکھتے تھے۔ بعض ملاقات کرتے تھے کہ جناب مجھے جانے کی اجازت دے دیں۔ اجازت نہیں ملتی تھی تو کسی ایسے گروہ ميں شامل ہونے کی کوشش کرتے تھے جس کو اجازت مل چکی ہوتی تھی۔ آپ نے یہ باتیں سنی ہیں اور پڑھی ہیں۔ ان کے احوال پڑھے ہیں اور جانتے ہیں۔ بسیجی موت سے نہیں ڈرتا۔ آخری منزل شہادت ہے۔ وہ شہادت پر یقین رکھتا ہے۔ اس کا عقیدہ ہے کہ اگر اس راہ میں دنیا سے گیا تو اعلی ترین معنوی مرتبے تک پہنچ جائے گا۔ بنابریں اس کے سامنے راستہ کھلا ہوا ہے۔ وہ اپنے سامنے راستے بند نہیں پاتا۔ ایسا انسان اپنے سامنے راستے بند نہیں پاتا۔ یہی وجہ ہے کہ ایران کا بسیجی یقین رکھتا ہے کہ صیہونی حکومت ایک دن یقینا ختم ہوگی۔
ایک اور نکتہ یہ ہے کہ ملک میں بسیج کی روز افزوں تقویت ہونی چاہئے۔ بسیج کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ پرچم بسیج، عوام کے حقوق کا پرچم ہے۔ پرچم دفاع حقیقت ہے۔ یہ پرچم ہمیشہ لہراتے رہنا چاہئے۔ اس کے لئے مدد ضروری ہے، اس کی تقویت ضروری ہے۔ کس طرح تقویت کی جائے؟ اس کی گہرائی و گیرائی بڑھائی جائے۔ اس کی کیفیت اوپر لائی جائے۔ اس میں گہرائی پیدا کریں۔ تاکہ بسیجی نوجوان کے ذہن میں بسیجی ثقافت اپنی جگہ بنا سکے۔ اس کی کیفیت بھی اوپر لانا چاہئے۔ مسائل کو سطحی نقطہ نگاہ سے نہ دیکھا جائے۔ اس کے لئے کتاب کی ضرورت ہے۔ مطالعے کی ضرورت ہے۔ مباحثے کی ضرورت ہے۔ تحقیقی حلقوں کی ضرورت ہے۔ یہ کام انجام دیے جائيں۔
بسیج کی تقویت کا ایک پہلو یہ ہے کہ بسیج مجریہ کے اداروں کے فعال بازو کی حیثیت سے ہر جگہ موجود اور کام کے لئے تیار رہے۔ فوجی شعبے میں، علمی شعبے میں، عوامی خدمات کے شعبے میں، تعلیم و تربیت کے شعبے میں، تبلیغ اور حقائق بیان کرنے کے شعبے میں، روزگار کے مواقع ایجاد کرنے کے شعبے میں، یہ جو نمائش مجھے دکھائی گئی ہے، اس میں بہت سے کام بسیج کے ہیں۔ ان شاء اللہ پوری قوت اور شدت کے ساتھ اسی طرح جاری رہیں۔
ماضی میں بھی یہی صورتحال تھی، گزشتہ طویل برسوں کے دوران بسیج نے حکومتوں کی مدد کی ہے۔ حکومت کے فعال بازو کی حیثیت سے کام کئے ہیں۔ بعض حکومتوں نے اس کی قدر کی اور بعض نے نہیں۔ بسیج کی مدد لی لیکن اس کا شکریہ نہیں ادا کیا۔
سیاسی میدان میں بھی (ایسا ہی ہے) اس میدان میں بھی بسیج کی تقویت کی ضرورت ہے۔ بسیج کو معلوم ہونا چاہئے کہ اس علاقے کے ملکوں کے لئے امریکا کا منصوبہ دو طرح کا ہے، یا استبداد یا پھر نراجیت اور انگریزوں کے بقول یا ڈکٹیٹر شپ یا انارکی۔ امریکا نے اس علاقے کے لئے انہیں دو راستوں کو مد نظر رکھا ہے۔ جس ملک پر امریکیوں کی نگاہ ہے ، یا اس میں استبدادی حکومت ہونی چاہئے تاکہ اس کے ساتھ ان کی سودے انجام پا سکیں، جو وہ چاہیں وہ اس کی موافقت کرے اور ان کے سامنے جھکی رہے اور اگر یہ نہ ہو سکے تو پھر اس ملک میں انارکی ہونا چاہئے، لوگوں کی زندگی دشوار کر دی جائے۔ بسیج کو ان دونوں سے مقابلہ کرنا چاہئے۔ ڈکٹیٹرشپ اور استبداد لانے کی کوششوں کا بھی مقابلہ کرے اور نراجیت اور بلوے کا بھی۔
ملک میں ان دونوں میں سے کوئی ایک بات بھی ہو تو سمجھ لیں کہ دشمن کام کر رہا ہے۔ بسیج کو اس کے مقابلے پر ڈٹ جانا چاہئے۔ یہ بسیج سے متعلق مسائل تھے جو عرض کئے گئے، بسیج کے تعلق سے باتیں بہت ہیں۔ فی الحال اتنا ہی۔
چند جملے علاقے کے حالات کے بارے میں بھی عرض کروں گا۔ لبنان، فلسطین اور غزہ کے مسائل کے حوالے سے، جو کچھ ہو رہا ہے وہ آپ دیکھ اور سن رہے ہیں، خبریں آپ کے سامنے ہیں، آپ کو علم ہے، میں دو نکات عرض کروں گا۔
پہلا نکتہ یہ ہے کہ لوگوں کے گھروں پر بمباری کامیابی نہیں ہے۔ احمق یہ نہ سمجھیں کہ چونکہ لوگوں کے گھروں پر بمباری کر رہے ہیں، چونکہ اسپتالوں پر بمباری کر رہے ہیں چونکہ لوگوں کے مجمع پر بمباری کر رہے ہيں، اس لئے کامیاب ہو گئے۔ جی نہیں، دنیا میں کوئی بھی اس کو کامیابی نہیں سمجھتا۔ یہ کامیابی نہیں ہے۔ دشمن غزہ میں کامیاب نہیں ہوا ہے ، دشمن لبنان میں کامیاب نہیں ہوا ہے۔ جو کام انھوں نے کئے ہیں وہ کامیابی نہیں ہے، جنگی جرائم ہیں۔ گرفتاری کا حکم صادر ہوا ہے (10) لیکن یہ کافی نہیں ہے نتن یاہو کو پھانسی ملنی چاہئے۔ جرائم پیشہ صیہونی حکام کی پھانسی کا حکم صادر ہونا چاہئے۔ یہ پہلا نکتہ۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ لبنان، فلسطین اور غزہ میں صیہونی حکومت کے جرائم کا جو نتیجہ وہ چاہتے ہيں اس کے برعکس ہو رہا ہے۔ یعنی یہ جرائم استقامت کی تقویت کر رہے ہیں اور استقامت شدت اختیار کر رہی ہے۔ یہ بھی ایک قاعدہ کلی ہے۔ اس کے برعکس نہیں ہو سکتا۔ غیور فلسطینی نوجوان، غیور لبنانی نوجوان دیکھ رہا ہے کہ اگر میدان مجاہدت میں ہو تو خطرہ ہے میدان مجاہدت میں نہ ہو تو بھی خطرہ ہے۔ ڈاکٹر ہے، نرس ہے، مریض ہے، مزدور ہے، روزی کمانے والا ہے لیکن موت کا خطرہ، بمباری کا خطرہ اور دشمن کے خطرات ہیں۔ اس کے لئے کوئی اور راستہ نہيں بچا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جاکر مجاہدت کروں۔ اس لئے کہ وہ مجبور کر رہے ہیں۔ یہ احمق خود ہی اپنے کاموں سے استقامتی محاذ کو وسیع تر کر رہے ہیں، استقامت کی شدت بڑھا رہے ہیں۔ یہ ایک حتمی نتیجہ ہے اس کے برعکس نہیں ہو سکتا۔ میں آج کہتا ہوں کہ آج استقامتی محاذ جتنا وسیع ہے کل اس سے کئي گنا زیادہ وسیع ہوگا۔
پالنے والے تجھے محمد و آل محمد کا واسطہ، سبھی بندگان صالح کے مطلوب (امام مہدی عج اللہ فرجہ الشریف) کو جلد سے جلد بھیج دے۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ برکاتہ
1۔ اس موقع پر پہلے بریگیڈیئرغلام رضا سلیمانی (بسیج مستضعفین کے کمانڈر) نے ایک رپورٹ پیش کی ۔
2۔ سورہ محمد آیت نمبر 7 "۔۔۔ اگر خدا کی مدد کرو تو وہ تمھاری نصرت کرے گا۔"
3۔ سورہ فتح، آیت نمبر4 کا ایک حصہ"۔۔۔۔ اور زمین وآسمان کے فوجی خدا کے ہیں، اور خدا دانا اور کاموں کو ٹھیک کرنے والا ہے۔"
4۔ سورہ فتح آیت نمبر 7 " اور زمین وآسمان کے فوجی خدا کے ہیں اور خدا کو کبھی شکست نہیں دی جا سکتی اور وہ امور کو ٹھیک کرنے والا ہے"
5۔ سورہ آل عمران ، آیت نمبر 125 " ہاں اگر صبر کرو اور پرہیزگاری اختیار کرو اور وہ اسی جوش و خروش کے ساتھ تم پر حملہ کریں تو خداوند عالم پانچ ہزار علامت والے فرشتوں سے تمھاری مدد کرے گا۔
6۔ سورہ زخرف آیت نمبر 54
7 ۔سورہ زخرف آیت نمبر 51"۔۔۔۔۔ کیا مصر کی بادشاہت اور یہ نہریں جو میرے محل کے نیچے بہہ رہی ہیں میری نہیں ہیں ؟"
8۔ سورہ فتح کی آیت نمبر چار کا ایک حصہ:۔۔۔۔ "اور زمین وآسمان کے فوجی خدا کے ہیں۔۔"
9۔ نومبر 2015 میں یونیورسٹیوں، تحقیقی مراکز اور سائنس وٹیکنالوجی پارک کے سربراہوں سے ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب
10۔ بین الاقوامی فوجداری عدالت نے مہینوں کی تاخیر سے آخر کار 21 نومبر 2024 کو صیہونی حکومت کے وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو اور سابق وزیر جنگ یواف گالانٹ کی گرفتاری کا حکم صادر کر دیا۔ یہ حکم غزہ میں جنگی جرائم کے ارتکاب پر صادر کیا گیا۔
بشار الاسد کی ناکامی کا سبب
وہ سمجھتے تھے کہ اگر ایرانی افواج کے ذریعے صیہونی افواج کو لبنان سے نکالا گیا تو اس سے فلسطینیوں میں بھی انقلاب اسلامی کے اثرات پھیلیں گے، جو ان کی سیکولر تحریک کے لیے نقصان دہ ہوں گے۔ چنانچہ انہوں نے شکست گوارہ کر لی لیکن فلسطینیوں میں مذہبی اثرات کے پھیلاؤ کو گوارہ نہیں کیا۔ امام خمینی (رح) اس وقت حیات تھے۔ آپ نے یاسر عرفات کی اس شکست پر فرمایا تھا کہ ”آپ کی شکست کی وجہ یہ ہے کہ آپ کی جدوجہد محض زمین کے ایک ٹکڑے (فلسطین) کے لیے ہے، اگر آپ کامیابی چاہتے ہیں تو آپ کی جدوجہد محض ایک علاقے کی بجائے دین کے لیے ہونی چاہیئے۔“
اسرائیل کے ساتھ اوسلو امن معاہدے کے بعد یاسر عرفات کے ایران سے اختلافات پیدا ہوگئے اور پھر آنے والے وقتوں میں یاسر عرفات نے ایران کے خلاف اپنے خبث باطن کا کھل کر اظہار کرنا شروع کر دیا اور یہاں تک کہا کہ ایران فلسطین کی آزادی کے لیے غاصب صیہونی حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد کی بات اس لیے کرتا ہے، تاکہ وہ مقبوضہ فلسطین کو اسرائیل سے آزاد کروا کر اس پر خود قبضہ کرلے۔ یاسر عرفات نے اسرائیل سے جو نام نہاد امن معاہدہ کیا تھا، وہ دیرپا ثابت نہ ہوا اور پھر اسرائیل کے سامنے اپنے ہاتھوں میں زیتون کی شاخ لہرانے والا اسرائیل کے ہاتھوں زہر خوانی کا شکار ہوا۔
گردش زمانہ نے پلٹا کھایا اور پھر وہ وقت آیا، جب اہل فلسطین میں ”حماس“ کے نام سے ایک تحریک وجود میں آئی، جس نے خالص دینی بنیادوں پر اپنی جدوجہد کا آغاز کیا اور ایک دن ”طوفان اقصیٰ“ کے نام سے اقصائے عالم میں ایک طوفان پرپا کرنے میں کامیاب ہوئی۔ آج بشار الاسد کا بھی کچھ یہی معاملہ ہے۔ اگرچہ اسرائیل کے خلاف وہ تمام عرب حکام کے مقابلے میں اپنے والد کی طرح مضبوط موقف رکھتے تھے، لیکن انہوں نے بھی اپنی مملکت کو سیکولر بنیادوں پر ہی استوار کیا ہوا تھا۔ وہ دین حنیف کے اعلیٰ و ارفع اصولوں کو اپنا ضابطہ سیاست بنانے کی بجائے ”بعث پارٹی“ کے منشور پر عمل پیرا تھے اور ان کی جماعت کے اراکین اسی منشور پر حلف اٹھاتے تھے۔
اسرائیل کے مقابلے میں بشار الاسد کی حکومت دفاعی اعتبار سے نہایت کمزور تھی۔ اسرائیلی فضائیہ نے شام کی ارضی سالمیت پر وار کرنا اپنا روز کا معمول بنایا ہوا تھا۔ بشار الاسد کی فضائیہ کے طیاروں نے شاید ہی کبھی اسرائیلی بمباری کا جواب دیا ہو، ان کے لڑاکا طیارے ہمیشہ اپنے ہینگرز میں ہی پائے گئے، جو بالآخر باغیوں کے ہاتھ لگے۔ یہ ہیں وہ حقیقی اسباب جن کی بنا پر ان کی دفاعی افواج بھی یاسر عرفات کے لشکریوں کی طرح اسرائیل اور اس کے حواریوں کے سامنے مقاومت نہ دکھا سکیں اور ریت کی دیوار ثابت ہوئیں۔
شام میں کیا ہوا، اب کیا ہوگا؟
پتا چلا ہے کہ یوکرین میں جنگ چھیڑنے کے بعد روس نے بھی شام سے اپنے فوجی اور ساز و سامان نکالنا شروع کر دیا تھا۔ ویگنر گروپ کو بھی واپس بلا لیا گیا تھا۔ اس کے نتیجے میں شامی فوج کی پوزیشن بہت کمزور ہوگئی تھی۔ اب پہلا منظرنامہ یہ ہوسکتا ہے کہ اپوزیشن کے دھڑے دمشق پر قبضہ کرکے فوج کو شکست دے کر شدت پسند اسلامی حکومت قائم کر لیں۔ ایک ممکنہ منظرنامہ یہ بھی ہے کہ شام کی حکومت اپوزیشن کے دھڑوں کو شکست دے کر وہی صورتحال پیدا کر دے، جو 2016ء میں تھی۔ تیسری ممکن صورت یہ ہوسکتی ہے کہ شام کو تین چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ مرکزی حکومت دمشق میں ہو۔ حلب میں اسلامی حکومت قائم ہو اور باقی علاقوں پر ایک کرد حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے۔ سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کی رپورٹ کے مطابق چند روزہ لڑائی میں 800 سے زائد افراد ہلاک اور 3 لاکھ سے زائد شہری بے گھر ہوچکے ہیں۔
اب بھی گذشتہ شب کی اطلاعات ہیں کہ اسرائیلی طیاروں نے دمشق میں فوجی ہیڈکوارٹرز پر حملے کئے ہیں۔ دمشق کے ہوٹلز میں مقیم پاکستانی زائرین نے اس حوالے سے اطلاع دی کہ رات طیاروں کی گھن گرج اور دھماکوں کی آوازیں سنائی دیتی رہیں، جبکہ گلیوں میں بھی شہری جشن مناتے ہوئے ہوائی فائرنگ کرتے رہے۔ معزول شامی صدر بشار الاسد بھی منظر عام پر آچکے ہیں اور انہوں نے روس میں سیاسی پناہ لی ہوئی ہے۔ پہلے کہا جا رہا تھا کہ ان کا طیارہ ریڈار سے غائب ہوگیا ہے۔ کچھ اطلاعات تھیں کہ انہیں اسرائیل نے نشانہ بنا دیا ہے۔ لیکن اب ساری گرد بیٹھنے کے بعد بشار الاسد کے روس میں سیاسی پناہ لینے کی خبریں سامنے آئی ہیں۔ بشار الاسد کو ناکامی کیوں ہوئی؟ یہ وہ سوال ہے جو ہر زبان پر ہے۔ اس کی وجہ یہ پتہ چلی ہے کہ آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے بشارالاسد کو کچھ خطرناک منصوبوں سے آگاہ کیا تھا۔ لیکن بشارالاسد نے اس پر توجہ نہ دی اور یوں اسی جال میں پھنس گئے، جس کا اشارہ آیت اللہ خامنہ ای نے دیا تھا۔
شنید ہے کہ آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے بشارالاسد کو 21 مئی 2024ء کو ہی متنبہ کر دیا تھا کہ مغرب نے شام کیلئے خفیہ نقشہ بنایا ہوا ہے، مغربی ممالک اور اس خطے میں ان کے جانشینوں نے اس ملک کے سیاسی نظام کو اکھاڑ پھینکنے اور شام کیخلاف جنگ کے ذریعے شام کو علاقائی مساوات سے دور کرنے کا منصوبہ بنایا، لیکن وہ کامیاب نہیں ہوئے اور اب وہ دوسرے طریقے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جن میں ایسے وعدے بھی شامل ہیں، جو کبھی پورے نہیں ہوںگے۔ آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے کہا تھا کہ وہ شام کو علاقائی معاملات سے ہٹانے کیلئے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ بشار الاسد کو جب جنگ کے ذریعے تسلیم نہیں کروا سکے، تو اسے عرب لیگ کا دھوکہ دے کر تنہائی سے نکالنے کا دھوکہ دیا گیا۔ بشار الاسد اس دھوکے میں آکر محور مقاومت کیساتھ ہمکاری کرنے میں لیت و لعل کرچکا تھا۔ آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے اسے سمجھایا تھا کہ یہ جو عرب لیگ کا وعدہ دیا گیا ہے، یہ درحقیقت محورِ مقاومت سے دور کرنے کیلئے جھانسہ دیا جا رہا ہے۔
لیکن لگتا ہے کہ بشار الاسد نے اس پیغام کو سنجیدہ نہیں لیا تھا۔ عربوں پر اعتماد کرکے اپنی ہی قبر کھود لی اور آج نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ بشار الاسد نے اپوزیشن گروہ کیساتھ باقاعدہ ڈیل کی ہے اور ڈیل کرکے ہی اسے راستہ دیا گیا کہ وہ محفوظ طریقے سے شام چھوڑ دیں، باقی معاملات وزیراعظم کے سپرد کر دیئے گئے اور وزیراعظم کو ہدایت کی گئی کہ وہ انتقال اقتدار کے معاملات نمٹائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ بشار الاسد کی دمشق سے روانگی سے قبل وزیراعظم نے فوری اپنا ویڈیو پیغام جاری کر دیا اور کہا کہ وہ شام کے شہری ہیں اور شام نہیں چھوڑیں گے، البتہ اپوزیشن گروہ کو اقتدار کی منتقلی کے بعد بھی وہ شام میں ہی رہیں گے۔ ادھر روس کے وزیر خارجہ نے بیان دیا کہ ہم شام میں ہونیوالے ڈرامائی واقعات کو انتہائی تشویش کیساتھ دیکھ رہے ہیں۔ بشارالاسد اور شامی عرب جمہوریہ میں مسلح تصادم کے متعدد شرکاء کے درمیان مذاکرات کے نتیجے میں انہوں نے صدارتی عہدہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور پُرامن طریقے سے اقتدار کی منتقلی کی ہدایات دیتے ہوئے ملک چھوڑ دیا۔
روس نے ان مذاکرات میں حصہ نہیں لیا۔ اس کیساتھ ہی، ہم تمام فریقین سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ تشدد کے استعمال کو ترک کریں اور حکمرانی کے تمام مسائل کو سیاسی طریقوں سے حل کریں۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں روسی فیڈریشن شامی اپوزیشن کے تمام گروپوں سے رابطے میں ہے۔ ہم شامی معاشرے کی تمام قوتوں کی رائے کا احترام کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متفقہ طور پر منظور کردہ قرارداد 2254 کی بنیاد پر ایک جامع سیاسی عمل کے قیام کی کوششوں کی حمایت کرتے ہیں۔ روسی وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم توقع کرتے ہیں کہ اقوام متحدہ اور تمام دلچسپی رکھنے والے ان طریقوں کو مدنظر رکھیں گے، بشمول شام کیلئے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے خصوصی نمائندے، جارج پیڈرسن کے اقدام کے نفاذ کے تناظر میں، فوری طور پر بین شامی جامع مذاکرات کو منظم کرنے کیلئے، ساتھ ہی شام میں اپنے شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کیلئے تمام ضروری اقدامات کئے جا رہے ہیں۔
شام میں روسی فوجی اڈے ہائی الرٹ ہیں۔ فی الحال ان کی سلامتی کو کوئی سنگین خطرہ نہیں۔ ادھر امریکہ نے بھی شام میں اپنی مداخلت کا کھلا اعتراف کر لیا ہے۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے روزویلٹ روم میں خطاب میں اعتراف کیا کہ انہوں نے شام کیلئے تین جہتی پالیسی کا احاطہ کیا، جس میں اتحادیوں کیلئے امداد، سفارت کاری اور فوجی قوت کا استعمال شامل ہے۔ دوسری جانب ایران نے بھی شام کی صورتحال پر اپنے ردعمل میں واضح کیا ہے کہ شامی صدر نے ایران سے کوئی مدد طلب نہیں کی تھی۔ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کا کہنا ہے کہ معزول شامی صدر بشار الاسد نے ایران کو مداخلت کیلئے نہیں تھا، کیونکہ اپوزیشن گروہ دمشق کی جانب تیزی سے بڑھ رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ذمہ داری بنیادی طور پر شامی فوج کی تھی، یہ ہماری ذمہ داری نہیں تھی اور نہ ہم نے کبھی اسے اپنا فرض سمجھا۔ عباس عراقچی نے کہا کہ حیرت انگیز طور پر شامی فوج دمشق کی جانب اپوزیشن گروہوں کی پیش قدمی روکنے میں ناکام رہی۔
مبصرین کے مطابق بشارالاسد دل چھوڑ چکے تھے اور اپوزیشن گروہ کیساتھ مذاکرات میں اپنے اقتدار کی بازی ہار بیٹھے تھے، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ایران، چین اور روس سمیت کسی بھی اتحادی سے مدد طلب نہیں کی۔ اس کے علاوہ بشار الاسد کو یہ بھی یقین ہوگیا تھا کہ وہ ’’عربوں کی چال‘‘ میں پھنس گئے ہیں اور انہیں اب آگے کوئی راستہ دکھائی نہیں دیا تو انہوں نے اقتدار کے ایوانوں سے نکلنے میں ہی عافیت سمجھی۔ اب شام میں کیا ہوگا؟ اس سوال پر ہر صاحبِ فکر پریشان ہے۔ اس حوالے سے جو اطلاعات موصول ہوئی ہیں، ان کے مطابق شام کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ کردوں کو الگ سے ایک علاقہ دیدیا جائے گا۔ ایک حصہ مرکز ہوگا، جس میں حکومت قائم کی جائے گی، جبکہ تیسرا حصہ اپوزیشن مسلح گروہ جو اکثریت میں ہیں، ان کیلئے ایک الگ اسلامی ریاست بنا دی جائے گی۔ یوں لڑائیوں کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوسکتا ہے۔ تاہم ہمسایہ ممالک اور ایران ’’تیل دیکھو، اور تیل کی دھار دیکھو‘‘ کے مصداق صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں اور ممکن ہے کہ نئی عبوری حکومت کیساتھ بھی ایران اپنے تعلقات بنانے میں کامیاب ہو جائے۔
اسرائیل کا تکفیری عناصر کی آڑ میں پناہ!!
| غاصب صہیونی ریاست اسرائیل، جو ہمیشہ اپنی جارحیت اور استعماری عزائم کے ذریعے خطے پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے، آج اپنی عسکری ناکامیوں اور شکست خوردگی کے باعث نئے راستوں کی تلاش میں ہے۔ حزب اللہ اور محور مقاومت کی شاندار کامیابیوں نے اسرائیل کی عسکری برتری کے دعوؤں کو مٹی میں ملا دیا ہے۔ نتیجتاً، اسرائیل نے اپنی بقاء کی جنگ میں تکفیری گروہوں کو ایک بار پھر متحرک کر دیا ہے، تاکہ خطے میں اپنی پراکسی جنگوں کے ذریعے مقاومتی تحریکوں کو دبایا جا سکے۔
حال ہی میں شام کے مختلف علاقوں، خصوصاً مشرقی اور شمالی حلب میں، داعش اور دیگر تکفیری عناصر کی سرگرمیوں میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ان گروہوں نے نہ صرف شام کی افواج پر حملے کیے بلکہ جنوبی محاذ پر شدت پیدا کرنے کے لیے اپنی قوّتوں کو منتقل بھی کیا ہے۔ یہ تمام کاروائیاں اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ صہیونی ریاست اپنی ناکامی کے بعد ان دہشت گرد گروہوں کو ایک نئے حربے کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ اسرائیل کے ساتھ ان گروہوں کے تعلقات کوئی راز نہیں رہے، بلکہ تاریخ میں بارہا یہ ثابت ہوا ہے کہ صہیونی ریاست ان تنظیموں کو عسکری اور مالی مدد فراہم کرتی رہی ہے۔
اس وقت شام کی فضائی افواج بھرپور کوشش کر رہی ہیں کہ ان دہشت گردوں کی نقل و حرکت کو روکا جا سکے اور ان کے منصوبوں کو ناکام بنایا جا سکے؛ لیکن ان واقعات کا پس منظر یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ یہ حملے محض شام تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ ان کا اگلا ہدف عراق ہو سکتا ہے۔ داعش کی پرانی اسٹریٹیجی کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش خطے میں ایک نیا بحران پیدا کرنے کی سازش ہے، جس کا مقصد مقاومت کی قوّتوں کو تقسیم کرنا اور انہیں داخلی مسائل میں الجھانا ہے۔
تکفیری عناصر کی ان سرگرمیوں سے واضح ہوتا ہے کہ یہ گروہ نہ تو اسلام کی حقیقی روح کی نمائندگی کرتے ہیں اور نہ ہی ان کے اہداف مسلمانوں کے مفادات سے ہم آہنگ ہیں۔ ان گروہوں کو اسرائیل کی جانب سے استعمال کرنا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ صہیونی ریاست، اپنی براہ راست شکست کے بعد، اپنے مخالفین کو کمزور کرنے کے لیے متبادل حربوں کا سہارا لے رہی ہے۔ ان تکفیریوں کی جارحیت، جو مسلمانوں کے درمیان تفریق اور انتشار پھیلانے کے لیے ڈیزائن کی گئی ہے، اسرائیل کے لیے ایک اہم ہتھیار بن چکی ہے۔
یہ امر حیران کُن ہے کہ ان گروہوں کے پاس جدید ترین ہتھیار اور وسائل موجود ہیں، جنہیں وہ مسلم ممالک کی افواج اور عوام کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہی توانائیاں اور وسائل اسرائیل کے خلاف مقاومت میں استعمال ہوتے تو کیا صورت حال مختلف نہ ہوتی؟ لیکن یہاں یہ حقیقت بھی واضح ہوتی ہے کہ صہیونی استعمار کے خلاف جنگ ایک عظیم نصب العین اور گہرے نظریے کی متقاضی ہے، جو ان حیوان صفت گروہوں کے بس سے باہر ہے۔ ان کے لیے جنّت کی بشارت اسرائیل کے خلاف جہاد میں نہیں بلکہ مسلمانوں کے خون بہانے میں مضمر ہے۔
داعش اور تکفیری گروہوں کی تحریر الشام کے نام سے حالیہ سرگرمیاں اس بات کی بھی نشاندہی کرتی ہیں کہ اسرائیل خطے میں اپنی شکست کے بعد سیاسی اور عسکری میدان میں دباؤ کو کم کرنے کے لیے انہیں میدان میں لایا ہے۔ یہ عمل اس بات کا ثبوت ہے کہ صہیونی ریاست نہ صرف اپنے اندرونی مسائل، مثلاً عوامی احتجاجات اور حکومتی بحرانوں سے نمٹنے میں ناکام ہو چکی ہے بلکہ اس کی عسکری طاقت بھی حزب اللہ اور دیگر مقاومتی تنظیموں کے خلاف بے بس ہو گئی ہے۔
اس تمام صورت حال کا ایک روشن پہلو بھی ہے: محور مقاومت، خصوصاً حزب اللہ، نے نہ صرف اسرائیل بلکہ اس کے پراکسی عناصر کو بھی بے نقاب کر دیا ہے۔ ان کی قربانیاں اور عزم، جو استقامت اور حقیقی جہاد کی مثال ہیں، یہ ثابت کرتے ہیں کہ صہیونی عزائم کے خلاف کھڑا ہونا صرف انفرادی طاقت سے ممکن نہیں بلکہ اللہ پر غیر متزلزل ایمان، اجتماعی اتحاد اور مضبوط نظریے کی ضرورت ہے۔
یہی مقاومتی تحریکیں، جو صہیونی استعمار کے خلاف سینہ سپر ہیں، اس بات کا عملی ثبوت ہیں کہ دشمن کی تمام چالوں کے باوجود، خطے کے باشعور عوام اسرائیل اور اس کے آلہ کاروں کے خلاف مقاومت جاری رکھیں گے، حتیٰ کہ فلسطین اور القدس کی آزادی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو جائے۔
مزید برآں، خطے میں جاری اس صورتحال نے نہ صرف سیاسی توازن کو متاثر کیا ہے بلکہ عالمی طاقتوں کے رویوں کو بھی عیاں کر دیا ہے۔ خاص طور پر مغربی ممالک کی جانب سے ان تکفیری گروہوں کی غیر مستقیم حمایت اور ان کے خلاف کاروائی کرنے میں پس و پیش ظاہر کرتی ہے کہ ان کے اس خطے میں کیا مفادات پوشیدہ ہیں۔ امریکہ اور اس کے اتحادی، جو بظاہر دہشت گردی کے خاتمے کے دعوے کرتے ہیں، درحقیقت ایسے عناصر کی پشت پناہی کے ذریعے خطے میں اپنے سیاسی و اقتصادی مفادات کو محفوظ بنانا چاہتے ہیں۔
علاوہ ازیں، یہ بھی واضح ہوتا جا رہا ہے کہ مقاومتی تحریکوں کی کامیابیاں نہ صرف اسرائیل بلکہ ان کے بین الاقوامی حواریوں کے لیے بھی ایک بڑا دھچکا ثابت ہو رہی ہیں۔ ان کامیابیوں نے اس بات کو بھی آشکار کیا ہے کہ مزاحمت محض عسکری طاقت تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک نظریاتی اور عوامی تحریک ہے، جس کے اثرات دیرپا اور گہرے ہیں۔
یہ بھی ضروری ہے کہ امت مسلمہ ان چالوں کو سمجھتے ہوئے متحد ہو اور اپنے وسائل و طاقت کو صہیونی سازشوں کے مقابلے کے لیے منظم کرے۔ اس وقت فلسطین کی آزادی، القدس کی بازیابی، اور مقاومتی اتحاد کا استحکام صرف ایک خطے کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری امت کے مستقبل کی جنگ ہے۔ اگر اس موقع پر مسلمان اتحاد اور بیداری کا مظاہرہ کریں تو نہ صرف صہیونی ریاست کے منصوبے ناکام ہوں گے بلکہ ایک نئی تاریخ رقم ہوگی، جس میں عدل و انصاف کی حکمرانی قائم ہو سکے گی۔
مزاحمتی محاذ کی استقامت سے دشمن بند گلی میں محصور / غزہ کی حمایت جاری رہے گی، حزب اللہ
، حزب اللہ کے سربراہ حجت الاسلام شیخ نعیم قاسم نے غاصب صیہونی حکومت کے ساتھ جنگ بندی کے بعد اپنے خطاب میں کہا ہے کہ ہم شروع سے ہی جنگ مخالف تھے، لیکن غزہ کے لئے ہماری حمایت جاری رہے گی۔ اگر صیہونی حکومت نے جنگ مسلط کرنے کی کوشش کی تو ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ غاصب صیہونی حکومت کی جارحیت نہایت خطرناک اور دردناک تھی۔ شروع میں ہم سخت مشکلات کا شکار ہوگئے، لیکن تنظیم نے فوراً خود کو سنبھال لیا اور قیادت کا انتخاب کرکے دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑی ہوگئی۔
انہوں نے رہبرِ انقلابِ اسلامی حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی حسینی خامنہ ای، اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت، عوام اور سپاہ پاسدارانِ انقلاب کا خصوصی شکریہ ادا کیا کہ مشکل مواقع میں لبنانی عوام اور مقاومت کا ساتھ دیا۔
حزب اللہ کے سربراہ نے یمنی اور عراقی مقاومت کا بھی شکریہ ادا کیا۔
شیخ نعیم قاسم نے کہا کہ حزب اللہ نے غاصب اسرائیل کے اندر اہداف کو نشانہ بنایا اور دشمن کو شدید نقصان پہنچایا۔ مقبوضہ فلسطین کے شمالی علاقوں سے لاکھوں صیہونی ہجرت پر مجبور ہوگئے۔ ہماری استقامت کی وجہ سے صہیونی حکومت بند گلی میں پہنچ گئی۔ صیہونی فوج خوف و ہراس اور سیاسی رہنما حواس باختہ ہو گئے۔
انہوں نے کہا کہ ہم شروع سے ہی جنگ مخالف تھے، لیکن جنگ کے دوران اپنی طاقت کے ذریعے صیہونی حکومت کو جنگ بندی پر مجبور کیا۔ اس جنگ میں ملنے والی فتح 2006 کی فتح سے زیادہ بڑی ہے۔ ہم نے میدان میں سرخرو ہوکر جنگ بندی پر اتفاق کیا۔
حزب اللہ کے سربراہ نے کہا کہ 61 فیصد اسرائیلی اعتراف کر رہے ہیں کہ انہیں جنگ میں شکست ہوگئی ہے۔ اس جنگ میں صیہونی حکومت کو ہر محاذ پر شکست ہوگئی۔ جنگ بندی صرف ایک معاہدہ ہی نہیں، بلکہ سلامتی کونسل کی قرارداد پر عملدرآمد کا فریم ورک ہے۔ حزب اللہ اور لبنانی فوج کے درمیان اعلیٰ سطح پر ہماہنگی ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ جنگ بندی میں لبنان کی حاکمیت کو یقینی بنایا گیا ہے۔ ہم سید مقاومت شہید حسن نصر اللہ اور دیگر شہداء کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں اور ان مجاہدین کی قدردانی کرتے ہیں، جنہوں نے میدان جنگ میں جانثاری کا مظاہرہ کیا۔