
سلیمانی
اقوال حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام
(۱)
” قال الامام موسیٰ الکاظم علیه السلام:لیس منا من لم یحاسب نفسه کل یوم “ ( ۱)
ترجمہ:
حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام فرماتے ھیں :
” جو شخص ھر روز اپنے نفس کا محاسبہ نہ کرے وہ ھم میںسے نھیں ھے “۔
(۲)
قال الامام موسیٰ الکاظم علیه السلام:” ایاک ان تمنع فی طاعت الله، فتنفق مثلیه فی معصیة الله “(۲)
ترجمہ ۔
حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام فرماتے ھیں :
” اطاعت خدا میں مال خرچ کرنے سے پرھیز نہ کرو ، ورنہ دو برابر خدا کی معصیت میں خرچ ھو جائے گا “۔
(۳)
قال الامام موسیٰ الکاظم علیه السلام:” ان الزرع ینبت فی السهل و لا ینبت فی الصفا فکذالک الحکمة تعمر فی قلب المتواضع و لا تعمر فی قلب المتکبر الجبار !“ (۳)
ترجمہ ۔
حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام فرماتے ھیں :
” جس طریقے سے زراعت نرم زمین میں ھوتی ھے نہ کہ سخت زمین میں، اسی طرح سے علم و حکمت متواضع انسان کے دل میں پروان چڑھتے ھیںنہ کہ متکبر و جبار کے “۔
(۴)
قال الامام موسیٰ الکاظم علیه السلام:الموٴمن مثل کفتی المیزان کلما زید فی ایمانه زید فی بلائه “(۴)
ترجمہ:
حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام فرماتے ھیں :
” مومن ترازو کے دو پلڑوں کے مانند ھے جتنا ایمان میں اضافہ ھو گا اتنا بلا و مصیبت میں بھی اضافہ ھو گا “۔
(۵)
قال الامام موسیٰ الکاظم علیه السلام:المصیبة للصابر واحدة و للجازع اثنتان “(۵)
ترجمہ ۔
حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام فرماتے ھیں :
”صبر کرنے والوں کے لئے ایک مصیبت ھے لیکن جزع وفزع کرنے والوں کے لئے دو مصیبتیں ھیں “۔
حوالہ:
۱۔اقوال الائمہ ج۱ ص۲۱۶
۲۔ تحف العقول ص ۳۰۵
۳۔تحف العقول ص ۲۹۶
۴۔ تحف العقول ص۸۴۴
۵۔ تحف العقول ص ۷۵۴
- مؤلف:
- FAZAELHADIS.BLOGSPOT
نائجیریا کی عدالت نے شیخ ابراہیم زکزاکی اور ان کی ہمسر کو باعزت بری کردیا
نائیجریا کے عدالت عظمیٰ نے نائجیریا کی اسلامی تحریک کے سربراہ شیخ ابراہیم زکزاکی اور انکی اہلیہ زینب کو 6 سال کی سخت ترین اسیری کے بعد آج تمام مقدمات باعزت بری کرنے کا حکم دے دیا ہے۔
یاد رہے کہ نائجیریا کی حکومت شیخ زکزاکی کے 6 بیٹوں سمیت سینکڑوں شیعوں کو شہید کرچکی ہے۔ واضح رہے کہ شیخ زکزاکی کی صاحبزادی سہیلہ زکزاکی نے اس سے قبل مہر خبررساں ایجنسی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے اپنے والدین کی آزادی کے بارے میں امید کا اظہار کیا تھا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی : اس حکومت میں ، یہ بات واضح ہوگئی کہ امریکہ اور مغربی ممالک پر اعتماد کا کوئی فائدہ نہیں
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ایران کے صدرحسن روحانی اور ان کی کابینہ کے اراکین کے ساتھ آخری ملاقات میں فرمایا: اس حکومت میں ، یہ بات واضح ہوگئی کہ امریکہ اور مغربی ممالک پر اعتماد کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عید سعید غدیر کی مناسبت سے تمام مسلمانوں اور خاص طور پر ایرانی عوام کو مبارکباد پیش کی اور عوامی خدمت کو اللہ تعالی کی نعمت قراردیتے ہوئے فرمایا: اس نعمت کا شکر ادا کرنے اور انقلاب اسلامی کے اہداف تک پہنچنے کے لئے اپنی تمام توانائیوں اور صلاحیتوں سے استفادہ کرنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے واقعہ غدیر کو اسلام کے مسلّم اور ناقابل انکار واقعات میں قراردیتے ہوئے فرمایا: غدیر خم کے واقعہ کو شیعہ اور سنی علماء نے 110 صحابہ اور معتبر اسلامی اسناد کے حوالے سے نقل کیا ہے اور اہلسنت کے بعض بزرگ علماء نے بھی اس واقعہ کو اسلام کا اہم اور تارخی واقعہ قراردیا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بارہویں حکومت کے بعض اقدامات کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا: حکومت کے بعض اقدامات توقعات کے مطابق تھے لیکن بعض اقدامات توقعات کے مطابق نہیں تھے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے گیارہویں اور بارہویں حکومتوں کے تجربات کو تیرہویں حکومت کے لئے اہم قراردیتے ہوئے فرمایا: ایک اہم تجربہ جو اس حکومت میں حاصل ہوا ہے وہ یہ ہے کہ مغربی ممالک پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے کیونکہ مغربی ممالک ناقابل اعتماد ہیں وہ اپنے اہداف کی تلاش وکوشش میں ہیں اور ہمیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی تلاش و کوشش کرنی چاہیے۔ امریکہ اور مغربی ممالک پر بالکل اعتماد نہیں کرنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ملک کے اندرونی منصوبوں کو مغربی ممالک کے منصوبوں سے منسلک نہیں کرنا چاہیے جہاں ہم نے کام خود انجام دیا وہاں ہم کامیاب ہوئے اور جہاں ہم نے کام کو امریکہ اور مغربی ممالک کے ساتھ ملکر شروع کرنے کی کوشش کی ، وہاں ہمیں شکست اور ناکامی کا سامنا ہوا، لہذا تجربات کی روشنی مغربی ممالک پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے۔ امریکہ آج بھی مذاکرات میں مستقبل میں معاہدے کو نقض نہ کرنے کی ضمانت دینے کے لئے تیار نہیں ہے۔ امریکہ کی خباثت کا سلسلہ جاری ہے اور وہ عالمی قوانین اور معاہدوں کو توڑنے میں شرم محسوس نہیں کرتا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے اختتام پر کابینہ کے ارکان کو مخاطب کرتے ہوئےفرمایا: اللہ تعالی مدد فرمائے جہاں بھی آپ رہیں اپنی دینی اور انقلابی ذمہ داریوں پر عمل کرتے رہیں ۔
عید غدیر خم اور ہم
فاران؛ ہر قوم اور ہر مذہب میں ایک ایسا بڑا دن ضرور ہوتا ہے جو کسی بڑے واقعہ کی یادگار قرار پاتا ہے اس دن خاص پروگرام ہوتے ہیں ،ایسے دن کی تجلیل و ہر قوم و مذہب میں ہوتی ہے جس کے ذریعہ کسی قوم و مذہب کی تاریخ میں ایک بڑا فیصلہ کن موڑ آیا ہو دین اسلام میں بھی ایسے بہت سے یادگار واقعات ہیں جن میں یا تو کسی خاص سبب اللہ نے انہیں عید قرار دیتے ہوئے اس میں خوشی منانے اور مخصوص عبادتوں کو انجام دینے کا حکم دیا ہے یا پھر خود پروردگار نے انعام و اکرام کے طور پر اسے عید قرار دیا ہے جیسے عید سعید فطر رب العزت کی طرف سے اپنے ان بندوں کو ایک تحفہ ہے جنہوں نے پورے ایک مہینہ اللہ کی عبادت و بندگی میں گزارا اسی طرح اگر بڑے واقعہ کی مناسبت کو دیکھا جائے تو عید قربان کو عید قرار دیا گیا ہے چنانچہ روایات میں ایسے بڑے ایام اور یادگار دنوں کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے جو کسی نہ کسی سبب مالک حقیقی کے نزدیک پسندیدہ ہیں حتی ان ایام کے بارے میں ہے کہ یہ خدا کے حضور روز قیامت ویسے ہی جائیں گے جیسے عروس نو حجلہ عروسی کی طرف جاتی ہے [۱]لیکن اسلام میں جو مرتبہ عید غدیر کو حاصل ہے وہ کسی کو حاصل نہیں اور چونکہ اس دن حضور سرورکائنات نے صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امیر المومنین علیہ السلام کو اپنا جانشین و خلیفہ مقرر کیا تھا جسکی بنیاد پر اسلام ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو گیا اسی سبب اس دن کو عید قرار دیا گیا[۲] بلکہ یہ عید سب سے بڑی عید ہے اور روایات میں اس دن کو عید اکبر[۳] کہا گیا ہے اور سب سے افضل عید [۴]کے طور پر پہچنوایا گیا ہے لہذا ضروری ہے کہ اس عید کی فضیلت کو سمجھتے ہوئے یہ دیکھا جائے کہ اس عید میں ہمیں کیا کرنا چاہیے تاکہ اس عید کی عظمت کے ادراک کے ساتھ ساتھ ہم وہ سب کر سکیں جس کا اس دن ہم سے مطالبہ و تقاضا کیا گیا ہے۔
خوشی و مسرت کے ساتھ حمد و شکر الہی بجا لانے کا دن :
یہ وہ دن ہے جب ہم سے مطالبہ کیا گیا کہ خوش رہیں اور خوشی کا اظہار کریں[۵] ایک دوسرے کے ساتھ خوشیاں بانٹیں کہ پروردگار نے ہمارے اوپر احسان کیا اور نعمت ولایت کو ہمیں عطا کیا ۔ عید غدیر اتنی بڑی عید ہے کہ پروردگار کی خاص طور پر حمد بجا لانے کی روایات میں تاکید کی گئی ہے اور اسکا شکر ادا کرنے کی طرف متوجہ کیا گیا ہے کہ یقینا اگر اس نے ہمیں اس ولایت کی عظیم نعمت سے نہ نوازا ہوتا تو ہم کہاں ہوتے نہیں معلوم کس راہ پر چل رہے ہوتے کچھ پتہ نہیں اس لئے یہ دن خاص کر شکر و حمد الہی بجا لانے کا دن ہے اور شکر و حمد الہی کا ایک طریقہ روزہ رکھنا ہے جس کی اس دن بہت تاکید کی گئی ہے [۶]۔
روزہ رکھنا وہ عمل ہے جس کے لئے صرف ہم سے ہی مطالبہ نہیں ہے بلکہ انبیاء کرام و اصیاء الہی بھی اس دن روزہ رکھا کرتے تھے [۷]یہ دن انکے عمل کی تاسسی کا دن بھی ہے اسلئے کہ یہ دن ان کے لئے بھی عید کا دن تھا ۔
آسمانی عید :
یہ وہ عید ہے جس کے لئے روایات میں ملتا ہے کہ زمین سے زیادہ آسمانوں میں اس کی بات ہے[۸] یہ عید زمین پر بھلے ہی مظلوم واقع ہو لیکن آسمانوں پر اس کی شہرت کہیں زیادہ ہے، اور آسمانوں میں زمین سے زیادہ اسکی اہمیت کا ہونا اس بات کو بیان کرنے کے لئیے کافی ہے کہ اس آسمانی عید کو چھوٹے چھوٹے مسائل میں گھیر کر چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہرگز قربان نہیں کرنا چاہیے ۔
عہد و پیمان کی عید :
امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں یہ عید اتنی بڑی عید ہے کہ اس میں گشایش و وسعت حاصل ہوئی، منزلت کو اوج ملی خدا کی حجتیں روشن اور اس کے براہین و واضح ہو گئے یہ وہ دن ہے جب دین الہی کامل ہوا یہ دن عہد و پیمان کا دن ہے [۹]۔
تابندہ و روشن اور بابرکت عید :
روز غدیر عید فطر و عید اضحی و جمعہ کے دن ایسے ہی ہے جیسے ستاروں کے دیگر کواکب کے درمیان درخشاں چاند [۱۰] اتنا ہی نہیں اس دن کی اتنی فضیلت ہے کہ روایتوں کے بموجب اگر ہم اس کی اہمیت کو سمجھ لیتے تو دن میں دس بار ملائک ہم سے مصافحہ کرتے [۱۱] یعنی اس دن کی فضیلت کو سمجھنے کی بنا پر ہمارے وجود میں اتنا نکھار آ جاتا کہ ملائک بھی ہم سے مصافحہ کے خواہش مند ہوتے یہ عید اس قدر برکت کی حامل ہے کہ اس میں مومنین کی تنگیاں دور ہوتی ہیں ان کے امور حل ہوتے ہیں معاملات میں گشایش حاصل ہوتی ہے لہذا اس عید کی برکتوں کے حصول کے لءے ضروری ہے کہ اپنے ظرف وجودی کو اتنا وسیع بنائیں کہ اس کی برکات سے بھرپور استفادہ کیا جا سکے خاص کر ضروری ہے کہ اپنے اہل و عیال کے ساتھ اس دن سختی و تنگی کے ساتھ پیش نہ آئیں تاکہ خدا بھی ہمارے ساتھ وسعت و بخشش سے پیش آئے اور یہ وہ مسئلہ ہے جس کے لئیے ہم سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ اس د ن اپنے اہل و عیال کے ساتھ فراخ دلی سے پیش آو [۱۲] اس دن کی برکتوں ہی کے پیش نظر کھانا کھلانے اور دوسروں کو ہدیہ و تحفہ و تحائف دینے کی تاکید کی گئی ہے[۱۳] ایک دوسرے کی دیکھ بھال اور مومنین کی کفالت کا بھی اس دن سے گہرا تعلق ہے لہذا کوشش کرنا چاہیے کہ اس دن کسی تنگدست کا ہاتھ تھام لیا جائے کسی کی کفالت کر لی جائے[۱۴] کہ عید اکبر سے بڑھ کر اور کونسا دن لوگوں کی امداد رسی کے لئیے بہتر ہوگا کہ اس دن ایک درہم اگر اللہ کی راہ میں دیا جائے تو وہ ہزارکے برابر ہے [۱۵]۔
اپنے امام سے تجدید بیعت کا دن :
چونکہ اس عید کو تجدید بیعت و عہد کے طور پر بھی بیان کیا گیا ہے[۱۶] لہذا ضروری ہے تمام شیعان حیدر کرار اس عظیم دن جمع ہو کر اپنے آقا و مولا کے حضور تجدید بیعت کریں اور عہد کریں کہ اسی راہ پر زندگی گزاریں گے جو مولا کا راستہ ہے اور اسی راہ پر چلیں گے جسے راہ علوی کہا جاتا ہے اب یہ ہر ایک مومن کے اوپر ہے کہ وہ اپنے مولا سے کیا عہد و پیمان کرتا ہے ، زندگی کی کامیابی سے لیکر قوم و معاشرہ کی ترقی میں حصہ لینے اور بے نقص و عیب زندگی گزارنے تک کا عہد ہم اپنے مولا سے اس دن کر سکتے ہیں اور یقینا اگر ہم نے یہ عیدا کیا تو ہمارے مولا ہمیں تنہا نہیں چھوڑیں گے بلکہ ہر اس جگہ ہمارا ہاتھ تھامیں گے جہاں ہمارے پیروں میں لغزش ہو۔ راہ مولا پر چلنے کے لئے ضروری ہے کہ کمزور وضعیف طبقہ کو تنہا نہ چھوڑا جائے اور ان لوگوں پر توجہ دی جائے جو کسی بھی سبب معاشرہ میں تنہا پڑ گئے ہیں اور ضعیف و ناتواں ہیں اور شاید اسی لئیے اس دن سب سے مسکرا کر ملنے سلام کرنے اور فقیروں کی ضرورت کو پورا کرنے اور ایک دوسرے کو ہدیہ دینے پر زور دیا گیا ہے [۱۷] تجدید عہد کو یاد گار بنانے کے لئے ہی شاید یہ اہتمام بھی کیا گیا ہے کہ جب مومنین ایک دوسرے سے ملیں تو ایک دوسرے کو تہنیت و مبارکباد پیش کریں [۱۸]تاکہ جب وہ مبارکباد پیش کریں تو ان کے ذہن میں رہے کہ جس ولایت کا ہم جشن منا رہے ہیں اور اسکی تہنیت و مبارکباد پیش کر رہے ہیں اس کے ہم سے تقاضے کیا ہیں ۔
ایک دوسرے سے ملاقات اور مبارکباد دینے کا دن :
یوں تو اسلام کے اکثر و بیشتر اراکین و اعمال میں اجتماعی پہلو غالب ہے وہ نماز جماعت ہو کہ نماز جمعہ مسجد میں نماز کی فضیلت ہو کہ حج کی نورانی فضا ہر ایک جگہ خاص اہتمام ہے کہ مومنین ایک دوسرے سے ملیں اسی طرح مختلف اعیاد میں بھی ایک دوسرے سے ملاقات کو مطلوب و مناسب قرار دیا گیا ہے لیکن عید غدیر میں یہ ایک خاص اہتمام ہے کہ ایک دوسرے سے متبسم ہو کر ملنا خندہ روئی کے ساتھ گلے لگنا اور عید کی مبارک باد دینا اس دن بہت اہم جانا گیا [۱۹] بلکہ خاص کر اس دن کو یوم تبسم قرار دیا گیا ہے [۲۰] مومن کا ایک دوسرے سے ملنا اتنا فضیلت کا حامل ہے حدیث میں ہے کہ ایک مومن اگر اس دن کسی مومن کے گھر جاتا ہے تو خدا ستر انوار سے اسکی قبر کو منور کرےگا ۔ نماز روزہ اور نیکیوں کے ذریعہ قرب الہی کو حاصل کرنے کا دن قرار دے [۲۱]کر روایات نے ہمیں اس کی عظمت و فضیلت کی طرف متوجہ کیا ہے ۔
عید غدیر پر ہماری بڑی ذمہ داری :
یقینا عید غدیر کے تمام اعمال و تمام تر عبادتیں بہت اہم ہیں جنہیں ہم سب کے لئیے بجا لانا اس لئیے ضروری ہے کہ آج ہمارے پاس جو کچھ بھی دولت ایمان ہے جو کچھ بھی شعور انسانیت ہے زندہ احساس ہے سب غدیر کے طفیل ہے ایسے میں ان عبادتوں کے ساتھ ساتھ غدیر کا تقاضا ہے کہ عالم اسلام میں رونما ہونے والے واقعات کے سلسلہ سے ہم اپنی ذمہ داری کو پہچانیں اور جہاں کہیں بھی مسلمانوں کو ستایا جا رہا ہے ان پر ظلم ہو رہا ہے ہم اسکی مخالفت کریں اور مظلوموں کا ساتھ دیں آج یمن کے جو حالات ہیں جس طرح معصوم بچوں کو وہاں پر بڑی طاقتوں کی ایماء پر کچھ مسلمان حکومتیں نشانہ بنا رہی ہیں یہ سب وہ باتیں ہیں جنکے بارے میں ہمیں اپنی ذمہ داری سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم کیا کر سکتے ہیں ؟ میانمار کے روہنگیائی مسلمانوں کے جو حالات ہیں وہ سب ہم سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ کوئی تو آگے بڑھے جو انکے مسائل کی چارہ جوئی کرے ۔ سوشل میڈیا پر اپنے اپنے طریقہ سے دنیا میں ہونے والے ظلم کے خلاف لوگوں کو متحد کریں اور جہاں لوگ پریشانیوں میں گھر ے ہیں ان سب کی امداد کے سلسلہ سے ایک بیدای کی مہم چلائیں ،ہندوستان جیسے ملک میں تمام ہی ادیان و مذاہب کے صلح پسند افراد کے ساتھ مل کر دنیا کے ظالمین کے خلاف خاص کر یمن پر مسلسل بم برسانے والے بہروپیوں کے خلاف احتجاج کریں کہ یہ غدیر کا ہم سے اولین مطالبہ ہے ۔ انشاء اللہ عید اکبر کے جشن کے ساتھ ساتھ ہم دیگر اعمال و عبادتوں کی انجام دہی کے ہمراہ دنیا کے مظلوم مسلمانوں اور یمن کے معصوم بچوں اور غزہ کے محصور باشندوں کو فراموش نہیں کریں گے ۔
حواشی :
[۱] ۔ قال ابو عبد الله (ع) :اذا کان يوم القيامة زفت اربعة يام الى الله عز و جل کما تزف العروس الى خدرها :يوم الفطر و يوم الاضحى و يوم الجمعةو يوم غدير خم . ( اقبال سيد بن طاووس : .۴۶۶ )
[۲] ۔ روى زياد بن محمد قال :دخلت على ابى عبد الله (ع) فقلت :للمسلمين عيد غير يوم الجمعة والفطر والاضحى ؟
قال : نعم ، اليوم الذى نصب فيه رسول الله (ص) اميرالمؤمنين (ع) . مصباح المتهجد : .۷۳۶، قيل لابى عبد الله (ع)
للمؤمنين من الاعياد غير العيدين و الجمعة ؟قال : نعم لهم ما هو اعظم من هذا ، يوم اقيم اميرالمؤمنين (ع) فعقد له رسول الله الولية فى اعناق الرجال والنساء بغدير خم . ( وسائل الشيعه ، ۷: ۳۲۵، ح .۵ )
[۳] ۔عن الصادق(ع) قال: هو عيد الله الاکبر،و ما بعث الله نبيا الا و تعيد فى هذا اليوم و عرف حرمته و اسمه فى السماء يوم العهد المعهود و فى الارض يوم الميثاق الماخوذ و الجمع المشهود. وسائل الشيعه، ۵: ۲۲۴، ح ۱٫
[۴] ۔ يوم غدير خم افضل اعياد امتى و هو اليوم الذى امرنى الله تعالى ذکره فيه بنصب اخى على بن ابى طالب علما لامتى، يهتدون به من بعدى و هو اليوم الذى کمل الله فيه الدين و اتم على امتى فيه النعمة و رضى لهم الاسلام دينا . ( امالى صدوق : ۱۲۵، ح .۸ )
[۵] قال ابو عبد الله (ع) :انه يوم عيد و فرح و سرورو يوم صوم شکرا لله تعالى . ( وسائل الشيعه ۷: ۳۲۶، ح .۱۰ )
[۶] ۔ قال ابو عبد الله (ع) :… هو يوم عبادة و صلوة و شکر لله و حمد له ، و سرور لما من الله به عليکم من ولايتنا ، و انى احب لکم ان تصوموه . ( وسائل الشيعه ۷: ۳۲۸، ح .۱۳ )
[۷] ۔ … تذکرون الله عز ذکره فيه بالصيام والعبادة و الذکر لمحمد و آل محمد ، فان رسول الله (ص) اوصى اميرالمؤمنين ان يتخذ ذلک اليوم عيدا ، و کذلک کانت الانبياء تفعل ، کانوا يوصون أوصيائهم بذلک فيتخذونه عيدا . ( وسائل الشيعه ۷: ۳۲۷، ح .۱ )
[۸] ۔ قال الرضا (ع) : حدثنى ابى ، عن ابيه (ع) قال : إن يوم الغدير فى السماء اشهر منه فى الارض . ( مصباح المتهجد : .۷۳۷ )
[۹] ۔ امام على (ع) :إن هذا يوم عظيم الشأن ، فيه وقع الفرج ، ورفعت الدرج و وضحت الحجج و هو يوم اليضاح والافصاح من المقام الصراح ، ويوم کمال الدين و يوم العهد المعهود … ( بحارالانوار ، ۹۷: .۱۱۶ )
[۱۰] ۔ قال ابو عبد الله (ع) :… و يوم غدير بين الفطر والاضحى و يوم الجمعة کالقمر بين الکوکب . ( اقبال سيد بن طاووس : .۴۶۶ )
[۱۱] ۔ والله لو عرف الناس فضل هذا اليوم بحقيقته لصافحتهم الملائکة فى کل يوم عشر مرات …و ما اعطى الله لمن عرفه ما ليحصى بعدد . ( مصباح المتهجد : .۷۳۸ )
[۱۳] ۔… و انه اليوم الذى اقام رسول الله (ص) عليا (ع) للناس علما و ابان فيه فضله و وصيه فصام شکرا لله عزوجل ذلک اليوم و انه ليوم صيام و اطعام و صلة الاخوان و فيه مرضاة الرحمن ، و مرغمة الشيطان . ( وسائل الشيعه ۷: ۳۲۸، ضمن حديث .۱۲ )، و تهابوا النعمة فى هذا اليوم ۔۔۔، امرنى رسول الله (ص) بذلک . ( وسائل الشيعه ۷: .۳۲۷ )
[۱۴] ۔ عن امير المؤمنين (ع) قال :فکيف بمن تکفل عددا من المؤمنين والمؤمنات و أنا ضمينه على الله تعالى الامان من الکفر والفقر ( وسائل الشيعه ۷: .۳۲۷ )
[۱۵] ۔… و لدرهم فيه بألف درهم لإخوانک العارفين ، فأفضل على اخوانک فى هذا اليوم و سر فيه کل مؤمن و مؤمنة . ( مصباح المتهجد : .۷۳۷ )
[۱۶] ۔ عن عمار بن حريز قال دخلت على ابى عبد الله (ع) فى يوم الثامن عشر من ذى الحجة فوجدته صائما فقال لى : هذا يوم عظيم عظم الله حرمته على المؤمنين و کمل لهم فيه الدين و تمم عليهم النعمة و جدد لهم ما أخذ عليهم من العهد و الميثاق . ( مصباح المتهجد : .۷۳۷ )
[۱۷] … اذا تلاقيتم فتصافحوا بالتسليم و تهابوا النعمة فى هذا اليوم ، و ليبلغ الحاضر الغائب ، والشاهد البين ، وليعد الغنى الفقير و القوى على الضعيف امرنى رسول الله (ص) بذلک . ( وسائل الشيعه ۷: .۳۲۷ )
[۱۸] قال على (ع) :عودوا رحمکم الله بعد انقضاء مجمعکم بالتوسعة على عيالکم ، والبر باخوانکم و الشکر لله عزوجل على ما منحکم ، و اجتمعوا يجمع الله شملکم ، و تباروا يصل الله الفتکم ، و تهانؤا نعمة الله کما هنا کم الله بالثواب فيه على أضعاف الاعياد قبله و بعده الا فى مثله … ( بحارالانوار ۹۷: .۱۱۷ )۔
[۱۹] ۔ عن على بن موسى الرضا (ع) :من زار فيه مؤمنا أدخل الله قبره سبعين نورا و وسع فى قبره و يزور قبره کل يوم سبعون ألف ملک و يبشرونه بالجنة . ( اقبال الاعمال : .۷۷۸ )
[۲۰] ۔ عن الرضا (ع) قال :… و هو يوم التهنئة يهنئ بعضکم بعضا ، فاذا لقى المؤمن أخاه يقول :« الحمد لله الذى جعلنا من المتمسکين بولية أمير المؤمنين و الائمة (ع) »و هو يوم التبسم فى وجوه الناس من اهل الايمان … ( اقبال : .۴۶۴ )
[۲۱] ۔ ينبغى لکم ان تتقربوا الى الله تعالى بالبر و الصوم و الصلوة و صلة الرحم و صلة الاخوان ، فان الانبياء عليهم السلام کانوا اذا اقاموا اوصياء هم فعلوا ذلک و امروا به . ( مصباح المتهجد : .۷۳۶ )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِينًا فَمَنِ اضْطُرَّ فِي مَخْمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِّإِثْمٍ فَإِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
-آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا ہے اور اپنی نعمتوں کو تمام کردیا ہے اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسندیدہ بنادیا ہے لہذا جو شخص بھوک میں مجبور ہوجائے اور گناہ کی طرف مائل نہ ہو تو خدا بڑا بخشنے والا مہربان ہے
3سورة المائدة
خلافت علی (ع) کے دلائل
مسلمانوں کا وہ گروہ جو خلافت و امامت کو مصو ص من اللہ قرار دیتا ہے ۔ اس سلسلہ میں انکا موقف بڑا ٹھوس اور واضح ہے ۔وہ گروہ یہ کہتا ہے کہ رسول خدا(ص) نے ہجرت کے دسویں سال حج بیت اللہ کا ارادہ کیا اور تمام عرب میں اس کی منادی کرائی گئی ۔مسلمان پورے جزیرہ عرب سے سمٹ کر حج کے لئے آئے اور اس حج کو حجۃ الوداع کہا جاتا ہے ۔
جناب رسول خدا(ص) مناسک حج سے فراغت حاصل کرنے کے بعد مدینہ واپس آرہے تھے اور جب غدیر خم پر پہنچے اور یہ مقام جحقہ کے قریب ہے اور یہاں سے ہی مصر اور عراق کی راہیں جداہوتی ہیں ۔
اس مقام پر اللہ تعالی نے اپنے حبیب پر یہ آیت نازل فرمائی :- "یا ایها الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک وان لم تفعل فما بلغت رسالته والله یعصمک من الناس ان الله لایهدی القوم الکافرین "(المائده نمبر 67)"
اے رسول ! اس حکم کو پہنچائیں جو آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اس کا کوئی پیغام ہی نہیں پہنچایا اور اللہ آپ کو لوگوں سے بچائے گا ۔ بے شک اللہ منکر قوم کو ہدایت نہیں کرتا ۔
اس آیت مجیدہ کے نزول کے بعد آپ نے اونٹوں کے پالانوں کا منبر بنوایا اور تمام لوگ جمع ہوگئے تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ دیا اور حضرت علی کے بازو کو بلند کرکے اعلان کیا :-" ان اللہ مولای و انا مولی المومنین " اللہ میرا مولا ہے اور میں اہل ایمان کا مولا ہوں پھر فرمایا :- "من کنت مولاه فعلی مولاه "(1) جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے ۔
اس کے بعد اللہ تعالی نے تکمیل دین کا اعلان کرتے ہوئے یہ آیت نازل فرمائی :- " الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا " (المائدہ)
آج میں نے تمھارے لئے تمھارے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کردی اور تمھارے لئے اسلام کو بطور دین پسند کیا ۔
جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول خدا(ص) نے شکر کرتے ہوئے کہا
"الحمد الله علی اکمال الدین واتمام النعمة ۔۔۔۔۔۔۔و الولایة لعلی " تکمیل دین اور تمام نعمت اور ولایت علی پر اللہ کی حمد ہے
۔
اس مقام پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس وقعہ کی یاد گار کے طور پر شیعہ عید غدیر کا جشن منانے لگے ۔مقریزی نے اس جشن کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
"جاننا چا ہئیے کہ اسلام کے ابتدائی ایام میں عید غدیر کے نام سے کوئی عید نہیں منائی جاتی تھی اور سلف صالحین سے بھی اس کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا ۔یہ عید سب سے پہلے سن 352 ھ میں معز الدولہ علی بن بابویہ کے دور میں عراق میں منائی گئی اور اس کی بنیاد اس حدیث پر تھی ۔جس کی روایت امام احمد نے اپنی مسند کبیر میں براء بن عازب کی زبانی کی ہے وہ کہتے ہیں :-
ہم رسول اللہ کے ساتھ ایک سفر میں تھے اور مقام غدیر خم پر پہنچے تو "الصلواۃ جامعۃ " کی منادی ہوئی اور دو درختوں کے درمیان جھاڑو دی گئی اور
حضور اکرم نے نماز ظہر آدا کی اور خطبہ دیا ۔ خطبہ کے دوران لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا :- الستم تعلمون انی اولی بالمو منین من انفسھم " کیا تمہیں اس بات کا علم نہیں ہے کہ میں مومنوں کی جان سے بھی زیادہ ان پر حق حکومت رکھتا ہوں ؟
سامعین نے کہا جی ہاں ! پھر آپ نے علی (ع) کا بازو پکڑ کر بلند فرمایا اور اعلان کیا :- من کنت مولاہ فعلی مولاه ،اللهم وال من والاه وعادمن عاداه " جس کا میں ہوں اس کا علی مولا ہے ۔اے اللہ! جو اس سے دوستی رکھے تو اس سے دوستی رکھ اور جو اس سے دشمنی رکھے تو اس سے دشمنی رکھ ۔اس کے بعد حضرت عمر ،حضرت علی (ع) کو ملے اور کہا :- ھنیا لک یا بن ابی طالب اصبحت مولی کل مومن ومومنۃ " ابو طالب کے فرزند ! تمہیں مبارک ہو تم ہر مومن مرد وعورت کے مولا بن گئے ہو ۔
غدیر خم کا مقام جحفہ سے بائیں طرف تین میل کے فاصلے پر ہے وہاں پر ایک چشمہ پھوٹتا ہے اور اس کے ارد گرد بہت سے درخت ہیں ۔
اس واقعہ کی یاد کے طور پر شیعہ اٹھارہ ذی الحجہ کو عید مناتے تھے ۔ ساری رات نمازیں پڑھتے تھے اور دن کو زوال سے قبل دورکعت نماز شکر انہ ادا کرتے تھے ۔ساری رات نمازیں پڑھتے تھے اور دن کو زوال سے قبل دو رکعت نماز شکرانہ ادا کرتے تھے اور اس دن نیا لباس پہنتے تھے اور غلام آزاد کرتے تھے اور زیادہ سے زیادہ خیرات بانٹتے اور جانور ذبح کرکے اپنی خوشی کا اظہار کیا کرتے تھے جب ۔شیعوں نے یہ عید منانی شروع کی تو اہل سنت نے ان کے مقابلہ میں پورے آٹھ دن بعد ایک عید منانی شروع کردی اور وہ بھی اپنی عید پر خوب جشن مناتے تھے اور کہتے تھے کہ اس دن رسول خدا (ص) اور حضرت ابو بکر غار میں داخل ہوئے تے (2)۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1):- تفصیلی حوالے کے لئے عبقات الانوار جلد حدیث ولایت کے مطالعہ فرمائیں
(2):-کتاب المواعظ والاعتبار۔
مؤلف: ڈاکٹر محمد تیجانی سماوی ذرائع: اقتباس از کتاب "المیہ جمعرات"
حضرت علی پیغمبر اکرم کی نگاه میں
ان الله لا یضیع اجر المحسنین- ترجمہ: بے شک اللہ احسان کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا ہے
حضرت علی علیہ السلام کے اسلام اور مسلمین کےلئے خدمات اور قربانیاں کسی سے پوشیدہ نہیں۔ خدا وند منان نے قرآن کریم کی متعدد آیات میں حضرت علی علیہ السلام کی عظمت بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ کی زبان مبارک سے بھی آپ ؑکے فضائل بیان ہیں ۔ ذیل میں احادیث نبویﷺ کی روشنی میں ترتیب سے، پہلے حضرت علی علیہ السلام کے وہ فضائل جو حضرتؑ کو صفت الہی سے متجلّی کرتے ہیں بیان کئے جائیں گے، پھر رسول گرامی اسلامﷺ سےمتعلق صفات بیان کی جائیں گی اور آخر میں حضرتؑ کے دیگر فضائل رسول رحمتﷺ کی زبانی بیان کیے جائیں گے۔
علی ؑ کا صفات الہی میں متجلّی ہونا:
کلام رسول گرامی اسلام ﷺ میں وہ احادیث جو صفات الہی کی تجلی علی علیہ السلام میں قرار دیتی ہیں ،درج ذیل ہیں۔
علی ؑ نور الہی:
حضرت علی ؑ کے نور الہی ہونے کے متعلق سرور کائنات سے ابن عباسؓ یوں حدیث نقل کرتے ہیں : (( سمعت رسول الله(ص) یقول لعلی ؑ خلقت انا و انت من نور الله تعالی )) ترجمہ:میں (ابن عباس) نے رسول خدا ﷺ کو علی ؑ سے فرماتے ہوئے سنا:میں اور تم(علیؑ) خداوند متعال کے نور سے پیدا ہوئے ہیں۔
اس حدیث کے مطابق رسول رحمت ﷺاور امیر المؤمنینؑ دونوں نور الہی سے وجود میں آئے ہیں؛ لہذا یہ عظیم ہستیاں عالم تشریع میں ساتھ ہونے کے علاوہ عالم تکوین وخلقت میں بھی ہم قرین ہیں۔
علی ؑ انتخاب الہی:
رسول گرامی اسلامﷺ اپنی پیاری بیٹی سے حضرت علی ؑ کے عظمت کے متعلق یوں فرماتے ہیں:
(( یا فاطمه اما ترضین ان الله عزوجل اطلع الی اهل الارض فاختار رجلین: احدهما ابو ک والآخر بعلک)) ترجمہ:اے فاطمہ (س)کیا آپ(س) راضی نہیں کہ اللہ تبارک و تعالی نے زمین والوں کی طرف توجہ کی اور دومردوں کو انتخاب کیا جن میں سے ایک آپ (س)کے بابا(رسول اللہ) اور دوسرے آپ (س)کے شوہر علی ؑ ہیں!یعنی خداوند متعال نے انسانوں میں سے ان دو ہستیوں کو چنا اور ایک کو سرکار انبیاءﷺ اور دوسرے کو سید الاوصیاءؑ قرار دیا۔
علی ؑ محبوب الہی:
حضرت علی علیہ السلام کے محبوب الہی ہونے کے متعلق،احادیث کی کتابوں میں رسول اعظم ﷺ سے مختلف احادیث منقول ہیں جن میں سے (الطائر المشوی) بھنی ہو ئی مرغی زیادہ مشہور اور تواتر سے مختلف صحابہ اور تابعین سے نقل ہوئی ہے اس واقعہ کی تفصیل یوں ہے: ایک بار رسول گرامی اسلام ﷺ کی خدمت میں ایک بھنی ہوئی مرغی ہدیہ کے طور پر لائی گئی اور وہ مرغی رسول اللہ ﷺ کے سامنے رکھی گئی حضرت ﷺنے خداوند متعال سے یوں دعا فرمائی : (( اللهم ائتنی بأحب خلقک الیک یاکل معی)) ترجمہ: خدایا میرے پاس اپنے محبوب ترین شخص کو بھیج دے تاکہ میرے ساتھ یہ کھانا کھائے۔ علی علیہ السلام آئے اور دروازے پر دستک دی ۔ رسول کے خادم انس نے پوچھا کون ہے؟ اورجواب میں کہا کہ رسول خدا ﷺ مشغول ہیں حضرت علی ؑ چلے گئے اور پھر دوبارہ تشریف لائے اور دروازے پر دستک دی انس نے پھر پوچھا اور جواب میں کہا رسول اللہ ﷺ مصروف ہیں اور حضرت علی علیہ السلام چلے گئے رسول رحمت ﷺ اپنی دعا تکرار کرتے رہے تھوڑی دیر بعد علی علیہ السلام پھر آئے اور دروازے پر دستک دینے کے ساتھ اونچی آواز میں سلام کیا،رسول ﷺنے سننے کے بعد فرمایا: اے انس دورازہ کھول دو ؛ انس نے دروازہ کھولا اور علی علیہ السلام رسول ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور رسول ﷺ نے فرمایا: اے خدایا میں نے تجھ سے مانگا تھا کہ اپنے محبوب ترین فرد کو بھیج دے جو میرے ساتھ مرغی کھائے ؛ تو نے علی ؑ کو بھیجا اے اللہ علی مجھ محمدﷺ کو بھی ساری مخلوق میں زیادہ محبوب ہیں۔ اس حدیث کے مطابق حضرت علی علیہ السلام ساری مخلوقات میں نہ صرف خداوند متعال بلکہ رسول خدا ﷺ کی بھی محبوب ترین ہستی ہیں۔
مذکورہ حدیث معمولی اختلاف کے ساتھ حدیث کی مختلف کتابوں میں منقول ہے۔
علی علیہ السلام خدا کی مضبوط رسی:
نبی مکرم اسلام ﷺ سے منقول ہے کہ میرے بعد جب فتنے کی تاریکی چھائی ہوئی ہوگی تو وہ نجات پائے گا جو مضبوط رسی کو تھامے گا اور مضبوط رسی سے مراد حضرت علی علیہ السلام ہیں۔ حدیث کی تفصیل یوں ہے: (( روی عن رسول الله انه قال ستکون بعدی فتنه مظلمة ،الناجی منها، من تمسّک بعروة الله الوثقی فقیل: یارسول الله وماالعروة الوثقی؟ قالﷺ : ولایة سیّد الوصیّین قیل :یا رسول الله ومن سیّد الوصیین؟ قال امیر المومنین قیل: ومن امیر المومنین؟ قال مولی المسلمین وامامهم بعدی قیل؟ ومن مولی المسلمین؟ قال اخی علی بن ابی طالب۔ ترجمہ: رسول اللہ (ص) سے منقول ہے :عنقریب میرے بعد شدید فتنہ بپا ہو گا ۔ اس فتنے سے وہی نجات پائے گا جو مضبوط رسی کو تھامے گا ،پوچھا گیا :مضبوط رسی سے کیا مراد ہے؟ رسول اللہ(ص) نے فرمایا ۔مضبوط رسی سےمراد سید الوصیین کی ولایت مراد ہے ۔دوبارہ سوال کیا گیا کہ سید الوصیین کون ہیں؟ حضرت(ص) نے فرمایا: جو امیر المومنین ہے وہی سید الوصیین ہے ۔پھر پوچھا گیا امیر المومنین کون ہے؟ حضرت نے فرمایا: مسلمانوں کا مولا اور میرے بعد ان کا امام ۔ سوال ہوا مسلمانوں کا مولاکون ہے؟ رسول (ص) نے فرمایا میرے بھائی علی ابن ابی طالبؑ مسلمانوں کے امام اور مولا ہیں۔
اس حدیث کے مطابق مولا علی علیہ السلام ہی خداوند کی مضبوط رسی اور مسلمانوں کے امام اور امیر المومنین ہیں۔
علیؑ تلوار الہی:
حضرت علی علیہ السلام کی شجاعت اور بہادری کے واقعات سے تاریخ اسلام بھری پڑی ہے اور حضرتؑ کے میدان جنگ کے کارناموں کو بیان کئے بغیر تاریخ اسلام ادھوری ہے جیسے کہ درج ذیل حدیث میں پیغمبر اکرم (ص) فرماتے ہیں: (( عن انس بن مالک قال: صعد رسول الله المنبر فحمد الله واثنی علیه الی ان قال :این علی ابن ابی طالب، فقام علی و قال:انا ذا یارسول الله فقال النبی(ص) ادن منی فدنا منه فضمّه الیّ صدره وقبّل ما بین عینیه وقال بأعلی صوته" یامعاشر المسلمین هذا علی بن ابی طالب۔۔۔۔هذا اسد الله فی ارضه وسیفه علی اعدائه۔۔۔۔)) ترجمہ: انس بن مالک سے منقول ہے رسول اللہ(ص) منبر پہ تشریف لے گئے اور حمد و ثنا الہی کے بعد فرمایا علی ؑ کہاں ہے؟علی ؑ کھڑے ہوئے اور فرمایا: اے رسول (ص)میں حاضر ہوں ۔ رسول(ص) نے فرمایا: میرے قریب ہو جاؤ علی علیہ السلام رسول کے قریب ہوئے اور رسول(ص) نے علیؑ کو اپنے سینے سے لگایا اور علی ؑ کی دونوں آنکھوں کے درمیان چوما اور فرمایا اے لوگوں! یہ علی ابن ابی طالبؑ ہے اور خدا کی زمین پر خدا کا شیر ہے اور خدا کے دشمنوں کے مقابلے میں خدا کی تلوار ہے۔ اس حدیث شریف سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اعظم (ص) نے غدیر کی طرح متعدد مواقع پر حضرت علی علیہ السلام کی فضلیت کا لوگوں میں اعلان فرمایا ؛ تاکہ آپ ؑ کی ولایت اور شان و منزلت کے سلسلے میں امت پر اتمام حجت ہو اور مولا کی عظمت کے بارے میں کوئی ابہام باقی نہ رہے۔
علیؑ رسول اعظمﷺ کا جلوہ :
رسول رحمت (ص) نے اپنے عہد رسالت میں متعدد مواقع پر حضرت علی ؑ کا اپنا ولی ،وصی ،دوست ،امین ،ہم نشین ،راز دار اور علمبردار کے طور پر تعارف کروایا ہے۔ذیل میں اس نوعیت کی احادیث بیان کی جا رہی ہیں:
حضرت علیؑ ختم مرتب کے پہلا ساتھی:
رسول اللہ ﷺ حضرت علی ؑ کی شان میں یوں فرماتے ہیں:
یا علی انت اول من أمن بی و صدقنی و انت اول من اعاننی علی امری و جاهد معی عدوی و انت اول من صلی معی و الناس یومئذ فی غفله الجهالة ترجمہ: اے علیؑ تم سب سے پہلے مجھ پر ایمان لائے اور میری تصدیق کی اور تم ہی نے سب سے پہلے امر رسالت میں میری مدد کی اور میرے دشمنوں کے ساتھ جہاد کیا اور تم ہی نے سب سے پہلے میرے ساتھ نماز اداء کی جبکہ لوگ اس وقت جہالت کی غفلت میں تھے۔ اس حدیث کے مطابق، اسلام کے سارے امو ر میں علی ؑ رسول رحمت ﷺ کے پہلے یار و ناصر تھے۔ اور اسلام کے سارے امور میں علی ؑ کو دوسروں پر سبقت حاصل ہے ۔
حضرت علی ؑ رسول ﷺ کے دوست:
ہر لمحہ اور ہر قدم پر رسول ﷺ کے شانہ بشانہ رہنے والے امیر المومنین ؑ کے متعلق سرور کونین ﷺ نے متعدد مقامات پر دوست اور ساتھی کے القابات بیان فرمائے ہیں جیسے کہ ذیل کے واقعہ میں عائشہ یوں کہتی ہیں: (( عن عائشة قالت: قال رسول الله وهو فی بیتها لمّا حضر الموت ادعوا لی حبیبی فدعوت له ابا بکر فنظر الیه ثم وضع راسه ثم قال : ادعوا لی حبیبی فدعوا له عمر! فلمّا نظر الیه وضع راسه ثم قال ادعوا لی حبیبی فقلت ویلکم! ادعوا له علی ابن ابی طالب فوالله مایرید غیره فلمّا راه افرج التوب الذی علیه ثم ادخله فیه فلم یزل محتضنه حتی قبض صلی الله علیه وآله وسلم و یده علیه))
ترجمہ: عائشہ سے روایت ہے رسول خداﷺ نے فرمایا (جب احتضار کے وقت رسول خدا ﷺ عائشہ کے گھر میں تھے) میرے پاس میرے دوست کو بلاؤ۔ میں (عائشہ) نے ابو بکر کو بلایا، حضور نے ابو بکرکو دیکھ کر دوبارہ سر رکھا اور پھر فرمایا میرے دوست کو میرے لئے بلاؤ عمر کو بلایا گیا۔ جب حضورﷺ نے عمر کو دیکھا تو دوبارہ سر رکھ کر فرمایا میرے دوست کو میرے لیے بلاؤ،پس میں(عائشہ) نے کہا تم لوگوں پر وای ہو علی ؑ کو ان کے لئے بلاؤ خدا کی قسم حضرتﷺ کی مرادعلیؑ کے سوا کوئی اور نہیں، جب حضور ﷺنے علی ؑ کو دیکھا تو اپنی چادر کو کھولا اور علی ؑ پیغمبر ﷺکی چادر میں داخل ہوئے اور ہم آغوش ہوئے یہاں تک کہ رسول خداﷺ کی روح عالم ملکوت کی جانب پرواز کرگئی اور حضورﷺ کا ہاتھ علی ؑ پر تھا۔
اور اسی طرح سرور کائناتﷺ علی ؑ کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں:
(یا علی انت رفیقی فی الجنة) ( اے علیؑ تم جنت میں میرے ہم نشین ہو)۔ عائشہ کی اس حدیث کے مطابق، رسول اللہ ﷺ نے اپنی حیات طیبہ کی طرح آخری لمحات میں بھی سب پر واضح کردیا کہ علیؑ سب سے زیادہ آنحضرتﷺ سے قریب ہیں۔
علی ؑ نفس اور روح رسول ﷺ:
رسول رحمت ﷺ نےعلی علیہ السلام کو بعض روایات میں اپنی جان اورنفس قرار دیا ہے جیسے کہ اس حدیث میں پڑھتے ہیں:
(( علی منی کنفسی طاعته، طاعتی و معصیته معصیتی)) ترجمہ: علی ؑمیرےنفس کی مانند ہیں ان کی اطاعت میری اطاعت اور ان کی نافرمانی میری نافرمانی ہے۔
اسی طرح دوسری حدیث میں رسول رحمت ﷺ مولا علی ؑ کو اپنی روح قرار دیتے ہیں:
(علی بن ابی طالب منی کروحی فی جسدی) ترجمہ: علی ابن ابی طالبؑ میرے بدن میں۔ میرے روح کی مانند ہے۔ اسی طرح سرور کونینﷺ علی ؑ کو اپنے بدن کےسر کی مانند قرار دیتے ہیں۔
((علی منی بمنزلة راس من جسدی)) (علیؑ کا مجھ سے واسطہ میرے سر کا جسم سے واسطے کی مانند ہے)۔ دو آخری حدیثوں کی روشنی میں یہ نتیجہ لینا بے جانہ ہو گا کہ جیسے روح اور سر کے بغیر جسم نا مکمل ہے اسی طرح سرور کائنات بھی علی ؑ کے بغیر اپنے آپ کو نا مکمل قرار دے رہے ہیں۔
علی ؑ رسول ﷺ کے امین اور راز دان:
رسول اکرم ﷺ کے مبعوث بہ رسالت ہونے سے پہلے، اہل قریش آنحضرت ﷺکو امین کہتے تھے ۔ واقعاً جسے دشمن امین کہے وہ کرامت کے بلند مرتبے پر فائز ہے اسی طرح علی علیہ السلام کا مقام بھی اظہر من الشمس ہے کیونکہ رسول رحمت ﷺ دنیا والوں کے امین جبکہ علی ؑ ان کے امین ہیں جیسا کہ درج ذیل حدیث میں رسول رحمت ﷺ کی زبانی پڑھتےہیں:
(( قال فی علی قد علمته علمی واستودعه سری وهو امینی علی امتی)) ترجمہ:رسول خداﷺ نے حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: میں نے علیؑ کو اپنا علم دیا اور ان کے پاس اپنے راز امانت رکھے اور وہ امت پر میرے امین ہیں ۔
اسی سلسلے میں حضرت سلمان فارسیؓ سے یوں روایت نقل ہوئی ہے :
(روی عن سلمان الفارسی قال قال رسول الله لکل نبی صاحب سرّ و صاحب سری علی بن ابی طالب) ترجمہ: سلمان فارسیؓ سے مروی ہے کہ سرور کائنات ﷺنے فرمایا : ہر نبی کا ایک راز دار ہوتا ہے اور میرا راز دار علی ابن ابی طالب ؑ ہیں۔ ان دو احادیث کی روشنی میں ہر صاحب خرد کے لیے واضح ہے کہ رسول اکرم ﷺ کا امین اور رازدار ہی رسول کے جانشین اور خلیفہ ہو سکتا ہے اورجب تک راز دار اور امین ہو تو کسی اور کی مسند رسول ﷺ سنبھالنے کے باری نہیں آتی ہے۔
رسول ﷺکے علم کے وارث:
رسول گرامی اسلام ﷺ نے مختلف احادیث میں حضرت علی ؑ کو اپنے علم کا وارث اور امت میں سب سے زیادہ علم رکھنےوالا قرار دیا ہے جیسا کہ رسول گرامی اسلام ﷺ فرماتے ہیں:
(( عن سلمان الفارسی قال قال رسول الله:اعلم امتی من بعدی علی ابن ابی طالب)) ترجمہ:سلمان فارسیؓ سے منقول ہے ۔ رسول خدا ﷺ نے فرمایا: امت میں میرے بعد سب سے زیادہ علم رکھنے والا علی ابن ابی طالب ؑ ہے۔ انبیاء کرام خدا وند متعال کی جانب سے علم کے خزانے ہوتے ہیں اورختمی مرتبت کے پا س تو سارے انبیاء کا علم موجود تھا۔ اس حدیث کےمطابق، رسول ﷺ کے بعد سب سے زیادہ علم حضرت علی ؑ کے پا س تھا لہذا علیؑ ہی رسول ﷺکے واقعی جانشین بن سکتے ہیں ۔
حضرت علی ؑ رسول ﷺ کے علمدار:
حضرت علی علیہ السلام کے دیگر امتیازات میں سے رسول ﷺ کا علمدار ہونا ہےجیسا کہ رسول گرامی اسلام ﷺ فرماتےہیں:
((یا ابا برزة: علی امینی غداً علی حوض وصاحب لوائی)) ترجمہ:اے ابا برزۃ علیؑ روز محشر حوض(کوثر)پر میرے امین اور میرے پرچم کے مالک ہوں گے۔ اس لواء سے مراد الحمد بھی ہو سکتا ہے اور میدان جنگ کے علم بھی ہو سکتا ہے ؛ کیونکہ علی علیہ السلام متعدد جنگوں میں اسلامی لشکر کے علم بردار تھے۔
حضرت علیؑ کے دیگر فضائل رسول ﷺ کی زبانی:
حضرت علی علیہ السلام کے بے شمار فضائل میں سے رسولﷺ کی زبانی درج ذیل فضائل قابل ذکر ہیں :
حضرت علی ؑ کو دیکھنا عبادت:
رسول گرامی اسلام ﷺ کی مشہور روایت ہے:((النظر الی علی عبادة) علیؑ کی طرف دیکھنا عبادت ہے ۔
ذکر علیؑ عبادت:
رسول رحمت ﷺ علی ؑ کے ذکر کے متعلق فرماتے ہیں: ((ذکر علی عبادة) ( علی ؑ کا ذکر کرنا عبادت ہے) ۔ جبکہ دوسری حدیث میں رسول ﷺ فرماتے ہیں کہ اپنی مجالس کو ذکر علیؑ سےمزین کریں: ((عن جابر عبد الله الانصاری قال: قال رسول الله : زیّنو مجالسکم بذکر علی ابن ابی طالب)) ترجمہ: جابر بن عبد اللہ انصاری سےمنقول ہے رسول خداﷺ نے فرمایا اپنی مجالس کو ذکر علی ابن ابی طالبؑ سے مزین کرو۔
علیؑ خیر البشر:
رسول گرامی اسلامﷺ متعدد روایات میں علیؑ کو خیر البشر قرار دیتے ہیں جیسا کہ ابن عباس سے منقول ہے:( عن ابن عباس قال: قال رسول الله : علی خیر البشر من شک فیه کفر)) ترجمہ: ابن عباسؓ سے روایت ہوئی ہے رسول خدا ﷺ نے فرمایا: علی ؑ خیر البشر ہیں جو اس میں شک کرے وہ کافر ہے۔
علیؑ ایمان اور نفاق کا معیار:
نبی مکرم اسلامﷺ حضرت علی علیہ السلام کے ایمان اور نفاق کے معیار ہونے کے متعلق یوں فرماتے ہیں:(علی لا یحبه الا مؤمن ولا یبغضه الا منافق))
ترجمہ: حضرت علیؑ سے محبت نہیں کرتا مگر مومن اور علی ؑ سے دشمنی نہیں کرتا مگر منافق، یعنی مولا علیؑ ایمان اور نفاق کو پرکھنے کےلئے معیار ہیں۔
علی ؑ قرآن کے ساتھ:
رسول رحمت ﷺ علیؑ کو قرآن کا ساتھی اور قرین قرار دیتے ہیں جیساکہ ام سلمہ بیان کرتی ہیں:
((عن ام سلمة قالت: لقد سمعت رسول الله یقول:علی مع القرآن و القرآن مع علی،لن یفترقا حتی یردا علیّ الحوض)) ترجمہ:ام سلمہ کہتی ہیں :میں نے رسول خدا ﷺ سے سنا ، حضرتﷺ فرماتے ہیں :علی ؑ قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن علیؑ کے ساتھ ۔ یہ دونوں ہرگز جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے ملیں گے۔
علیؑ حق کے ساتھ:
سر ور کائناتﷺ حضرت علیؑ کو حق قرار دیتے ہیں:
((قال الرسول الله : علی مع الحق و الحق مع علی ولن یفترقا حتی یردا علیّ الحوض یوم القیامة)) ترجمہ:رسول خداﷺ نے فرمایا: علیؑ حق کے ساتھ ہے اور حق علیؑ کے ساتھ اور یہ دونوں اکھٹے رہیں گے یہاں تک کہ مجھ سے حوض کوثر پر ملیں گے۔
علیؑ کعبے کی مانند:
رسول اکرمﷺ نے حضرت علی ؑ کو کعبے کی مانند قرار دیا ہے: (یا علی انت بمنزلة الکعبة) ( اے علیؑ تو کعبہ کی مانند ہے) ۔
علی ؑ علم کے شہر کا دروازہ:
ختمی مرتبت ﷺ اپنے آپ کو شہر علم اور حضرت علی ؑ کو اس شہر کا دروازہ قرار دیتے ہیں، جیسا کہ ابن عباس ؓسے بیان ہوا ہے :
((عن ابن عباس قال: قال رسول الله:انا مدینة العلم و علیٌّ بابها فمن اراد المدینة فلیات الباب)) ترجمہ:ابن عباسؓ سے روایت ہوئی ہے رسول ﷺ نے فرمایا ہے: میںﷺ علم کا شہر ہوں اور علیؑ اس کا دروازہ ہے جو شہر کا ارادہ کرے وہ دروازے سے آئے۔
علیؑ انبیاء کی صفات کا مجموعہ:
ہر نبی کی ایک خاص صفت ہوتی ہے جبکہ رسول ﷺ کی درج ذیل حدیث کے مطابق، علی ؑ سارے انبیاءؑ کی صفات کے مالک ہیں:
((قال رسول الله من اراد ان ینظر الی آدم فی علمه و الی ابراهیم فی حلمه و الی نوح فی فهمه و الی یحیی بن زکریا فی زهده والی موسی بن عمران ( فی بطشه ولینظر الی علی بن ابی طالب)
ترجمہ: سرور انبیاءﷺ نے فرمایا: جو چاہے کہ آدمؑ کو اس کے علم میں اور ابراہیمؑ کو اس کے حلم میں (بردباری) نوحؑ کو اس کے فہم میں اور یحییؑ بن زکریا کو اس کے زہد میں اور موسی بن عمرانؑ کو اس کے غضب میں دیکھے تو وہ علی ابن ابی طالب ؑ کو دیکھے۔
حضرت علی ؑ اولیاء کے پیشوا:
سرور انبیاء ﷺ حضرت علیؑ کے سید الاوصیاء ہونے کے متعلق فرماتے ہیں:
((عن انس بن مالک قال:قال رسول الله:ان الله عهد الیّ فی علی عهداً فقال: علی رایة الهدی و منار الایمان وامام الاولیاء و نوری جمیع من اطاعنی))
ترجمہ:انس بن مالک سے منقول ہے رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: خداوند متعال نے حضرت علی ؑ کے بارے میں مجھ سے وعدہ کیا ہے اور کہا ہے :علیؑ ہدایت کا پرچم ، ایمان کی نشانی ، اولیاء کا پیشوا اور جو میری اطاعت کرتے ہیں سب کا نور ہے۔ حضرت علی علیہ السلام کی عظمت کے متعلق رسول اکرم ﷺ کی احادیث سے فریقین ( شیعہ و اہلسنت )کی کتابیں بھری ہو ئی ہیں۔ کچھ احادیث نمونے کے طور پر پیش کی گئیں ؛ تاکہ پڑھنے والے کی رہنمائی ہو کہ حضرت علی علیہ السلام کی فضائل میں رسول خدا ﷺ سے بیان شدہ احادیث کن کن کتابوں میں دستیاب ہے خداوند متعال ہمیں توفیق دے کہ حق کو سمجھ کر اُس پر عمل پیرا ہوں۔(آمین)
والسلام علی من اتبع الهدی
............................
منابع :
1 ۔سورہ توبہ،آیہ 120۔
2۔الجوینی ،فرائد السمطین ،ج۱،ص۴۰۔
3۔النیشاپوری،حاکم،المستدرک علی الصحیحین ،ج۳،ص۱۴۰۔
4۔ ترمذی، صحیح ترمذی، ج۱۳،ص۱۷۰؛ابن اثیر ،جامع الاصول،ج۹،ص۴۷۱۔
5 ۔ ترمذی، صحیح ترمذی، ج۱۳،ص۱۷۰؛ابن اثیر ،جامع الاصول،ج۹،ص۴۷۱۔
6 ۔ مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار ج۳۷، ص۳۰۸۔
7۔ طبری،محب ذخائر العقبی،ص۹۲۔
8۔ عیون اخبار الرضا،ج۱،ص۳۰۳۔
9 ۔حنفی،مناقب خوارزمی،ص۶۷۔ابن شہر آشوب،مناقب ، ج۱،ص۲۳۶۔
10۔ بغدادی، خطیب،تاریخ بغداد، ج۱۲،ص۲۶۸۔
11۔ صدوق ،الخصال،ص۴۹۶،امالی صدوق ص۱۴۹۔
11۔ بدخشی،مفتاح النجاشی،ص۴۳۔
13۔ کنز العمال ج۱۱،ص۶۳۸،نمبر۳۳۰۶۲۔
14۔بحار الانوار ج۳۶،ص۱۴۵۔
15۔دیلمی،فردوس الاخبار،ج۲،ص۴۰۳۔
16 ۔ شافعی،جوینی، فرائد السمطین،ج۱،ص۹۷؛کنز العمال ج۱۱،ص۶۱۴،نمبر ۳۲۹۷۸۔
17۔ عسقلانی ۔ابن حجر،لسان المیزان،ج۶،ص۲۳۷۔
18۔موحد،محمد ابراہیم،الامام علی فی الاحادیث النبویہ،ص۱۳۴۔
19۔ الصواعق المحرقہ،ج۲،ص۳۶۰۔
20۔ کنز العمال،ج۱۱،ص۶۰۱،نمبر،۳۲۸۹۴۔
21۔بحار الانوار ،ج۳۸،ص۱۹۹۔
22۔کنز العمال،ج۶،ص۱۵۹۔
23۔ الطبرانی،معجم الکبیر، ج۲۳،نمبر ۸۸۵۔
24۔حاکم نیشاپوری،مستدرک ،حاکم ،ج۳،ص۱۲۴۔
25۔بغدادی،خطیب،تاریخ بغداد،ج۱۴،ص۳۲۱۔
26۔اسد الغابۃ۔ج۴،ص۳۱۔
27۔حاکم نیشاپوری،مستدرک الصحیحین،ج۳،ص۱۲۶۔
28۔ابن کثیر، البدایۃ والنھایۃ،ج۷،ص۳۵۶۔
29۔عسقلانی،ابن حجر، لسان المیزان،ج۶،ص۲۳۷۔
مؤلف: تحریر : محمد عارف حیدر
ایران نے ثابت کردیا ہے کہ وہ قابل اعتماد ہمسایہ ملک ہے
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق قطر کے وزير خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمن آل ثآنی تہران کے دورے پر ہیں ، جہاں اس نے ایران کے نئے صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی کے ساتھ ملاقات اورگفتگو کی ۔ اس ملاقات میں آیت اللہ رئیسی نے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کو ایران کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں قراردیا۔
ایران کے نئے صدر نے قطر کو ایران کا برادر اور دوست ملک قراردیتے ہوئے کہا کہ قطر ایران کا ہمسایہ ملک ہے اور ایران ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستانہ اور برادرانہ تعلقات کو مضبوط بنانے کی پالیسی پرگامزن ہے ۔ آیت اللہ رئیسی نے کہا کہ ایران نے ثابت کردیا ہے کہ وہ ہمسایہ ممالک کے لئے بہترین اور قابل اعتماد ہے۔
آیت اللہ رئیسی نے کہا کہ ایران ہمسایہ ممالک کی سلامتی، ترقی و پیشرفت کا خواہاں ہے۔ قطر کے وزیر خآرجہ نے بھی اس ملاقات میں آیت اللہ رئیسی کو ایران کا صدر منتخب ہونے پر مبارکباد پیش کی۔ قطر کے بادشاہ کا سلام بھی پیش کیا اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مضبوط اور مستحکم بنانے پر زوردیا۔
پندرہ دن آسمانی، عید قربان تا عید مباہلہ
ایام غدیر
ہر ایک انسان کا ہر دور میں کوئی شخص رول ماڈل ہوتا ہے، ہر دور میں ہر انسان کا ہر دن سے گہرا تعلق ہوتا ہے، انسان زندگی کے ہر پہلو میں اپنے پسندیدہ شخص کو دیکھ کر زندگی گزارنے کی پوری کوشش کرتا ہے، تاکہ اپنی پسندیدہ شخصیت کے معیار کے مطابق زندگی بسر کرسکے۔ اسی طرح انسان کا ہر دن بھی اس کی زندگی میں خاص اہمیت کا حامل ہوتا ہے، جو دن جس مناسبت سے مخصوص کیا جائے، اس دن کے آنے پر انسان خاص انداز میں وہ دن مناتا ہے، تاکہ اس دن کی اہمیت لوگوں کے سامنے واضح ہو جائے۔ آجکل کے معاشرے میں کچھ ایام ملکی طور پر منائے جاتے ہیں، جیسا کہ ماں کا دن، استاد کا دن، مزدور کا دن وغیرہ۔ ہم جن ایام اور شخصیات کی بات کرنے لگے ہیں، وہ کوئی عام ایام اور کوئی عام انسان نہیں ہیں، جن دنوں کی بات ہم کرنے جا رہے ہیں، ان دنوں کو عالم اسلام میں منانے کا حکم خداوند متعال نے خود دیا ہے۔١ جن ہستیوں کے بارے میں گفتگو کریں گے، ان کے بارے میں قرآن پاک میں بہت واضح کئی بار ذکر کیا گیا ہے، ان عظیم ہستیوں کو انسان اگر زندگی کے ہر پہلو میں دیکھے تو اس کے لیے باعث فخر ہوگا، ان ہستیوں کی گفتار میں ہمیشہ سچائی ملے گی۔
دس ذوالحجہ (١)
عید قربان
مسلمانوں کی بڑی عید ہے، اس دن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خدا کے حکم پر اپنے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کو قربانی کے لیے آمادہ کیا اور ان کے گلے پر چھری چلائی، تاکہ خداوند عالم کے حکم کی تعمیل ہوسکے، لیکن حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ دنبہ آسمان سے نازل ہوا اور ان کی جگہ ذبح ہوا۔ وحی نازل ہوئی، اے ابراہیم علیہ السلام، آپ امتحان میں کامیاب ہوگئے۔ اسی وجہ سے سے مسلمان اللہ کے نبی کی سنت کی یاد تازہ کرتے ہوئے قربانی کرتے ہیں۔1
دس ذوالحجہ (٢)
حضرت ابو طالب علیہ السلام کی عظیم دعوت
تاریخ میں دس ذوالحجہ کے روز ایک اور واقعہ رونما ہوا، بہت کم لوگ اس واقعے سے آشنا ہیں۔ اس دن بہت بڑی قربانی کا اہتمام کیا گیا، اس عظیم انسان کی خاطر جس کا مقام پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بعد خدا کے نزدیک بلند ہے۔ حضرت امیر المومنین علیہ السلام 13 رجب المرجب کو خانہ کعبہ میں تشریف لائے تو کچھ سالوں کے بعد حضرت ابو طالب علیہ السلام نے اپنے فرزند کے عقیقے کا اہتمام کیا، جس کے بارے میں اگر تاریخ کی ورق گردانی کی جائے تو ملتا ہے کہ اس سے بڑھ کر نہ کسی کا عقیقہ کیا، نہ ہی قربانی کی گئی۔ حضرت ابو طالب علیہ السلام نے حضرت علی علیہ السلام کے عقیقے کے لیے جو جانور ذبح کئے تھے، ان کی تعداد کچھ یوں ہے، 300 اونٹ 1000 گائے اور بکرے، تاکہ خداوند عالم کی بارگاہ میں اس بابرکت فرزند جو وصی رسول علیہ السلام ہے، حقیقی ولایت اور امامت کے حقدار ہیں، خدا کا شکرانہ ادا کیا جا سکے۔ اس سارے اہتمام کی یہ شرط تھی کہ طواف کعبہ کرنے والے حجاج کو دعوت دی جائے، جو کہ خدا کے خاص مہمان تھے، اس لحاظ سے یہ دعوت بہت عظیم تھی۔2
دس ذوالحجہ (٣)
مشرکین سے برائت کا اعلان
فتح مکہ کے ایک سال بعد 9 ھجری سورہ برائت کی آیات نازل ہوئیں (مشرکین سے بیزاری)۔ مشرکین کو دو کاموں کا حکم دیا گیا۔ اسلام لے آئیں یا مکہ سے اور حج بیت اللہ کے مراسم سے خارج ہو جائیں۔ یہ پیغام توحیدی تھا اور مکہ مکرمہ میں کفار اور مشرکین کے درمیان جا کر بیان کرنا تھا۔ لوگوں نے رائے دی کہ حضرت ابو بکر کو بھیجا جائے، تاکہ مکہ والوں کے سامنے ان آیات کو بیان کیا جائے، چونکہ جنگوں میں کوئی بھی مشرک ابوبکر کے ہاتھوں زخمی نہیں ہوا تھا، اسی لیے مشرکین مکہ ان سے کینہ نہیں رکھتے تھے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابوبکر کو بلایا اور سورہ برائت کی آیات ان کے سپرد کیں اور حکم دیا کہ ان آیات کو حج بیت اللہ ادا کرنے والوں کے سامنے بیان کرو، لیکن زیادہ وقت نہ گزرا تھا کہ جبرائیل رسول اللہ کی خدمت میں آئے اور عرض کیا کہ اے محمد! اس کام کو خود انجام دیں یا کسی ایسے شخص کے ذمے لگائیں، جو آپ جیسا انجام دے سکے۔3
یہ کام کسی دوسرے سے صحیح انجام نہیں دیا جائے گا، یعنی لوگوں کو جان لینا چاہیئے کہ حکومت اسلامی کی بنیاد اور مشرکین و کفار سے برائت کا اعلان ہر کسی کا کام نہیں۔ بلا فاصلہ رسول خدا نے حضرت علی علیہ السلام کو سورہ برائت کی آیات کا اعلان کرنے کے لیے مکہ کی طرف بھیج دیا۔ حضرت علی نے رسول اکرم کے حکم کے مطابق آیات کو ابوبکر سے لیا اور خود حج بیت اللہ کے مراسم میں شرکت کرنے کے لیے مکہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ شجاعت اور دلیری کے ساتھ مشرکین کے درمیان کھڑے ہو کر کئی بار ان آیات کو بلند آواز کے ساتھ بیان کرتے رہے۔ ابوبکر راستے سے مدینہ روانہ ہوگئے اور یہ واقعہ دس ذوالحجہ کو پیش آیا تھا۔ حضرت علی علیہ السلام 11، 12، اور 13 ذوالحجہ کو اسی طرح ان آیات کو معانی کے ساتھ بیان فرماتے رہے۔
حضرت علی علیہ السلام اس سارے واقعے کو اس طرح بیان فرماتے ہیں، جس وقت مکہ میں آیا، تاکہ سورہ برائت کی آیات کو مشرکین کے سامنے پڑھوں، کوئی بھی مکہ میں نہیں تھا۔4 و 5 وہ سب جو مجھے ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتے تھے، حتی کہ میرا جسم اگر کہیں تھوڑی سی خطا کرتا تو مجھے سزا دینے کے لئے آمادہ تھے، اس حد تک کہ جان و مال اور خاندان کو ختم کرنے کے لیے تیار تھے، تاکہ مجھے تکلیف دے سکیں۔ اس خطرناک حالت میں آیات قرآن کو ابلاغ کیا۔ میرے آیات سنانے کے بعد سب نے مجھے سخت جواب دیئے اور مردوں اور عورتوں نے میرے ساتھ دشمنی کا اظہار کیا، لیکن میں نے بہترین انداز میں ان سوالوں کے جواب دیئے۔6
دس ذوالحجہ (٤)
حدیث ثقلین کا اجمالی تعارف
پیامبر اکرم مختلف جگہوں اور اوقات میں بیان فرماتے رہے ہیں، حدیث ثقلین کو جگہ جگہ واضح فرمایا، ان میں سے آپ کا سفر حج اور روز عید قربان اور 11 ذوالحجہ وغیرہ اور غدیر خم 10 ھجری یعنی حجۃ الوداع ہے۔ کافی اصحاب نے اس کو نقل کیا ہے۔ اس حدیث مبارکہ کا راویان اور سند کے اعتبار سے کسی نے انکار نہیں کیا۔ سب مسلمان اس کو نقل کرتے ہیں۔ متن حدیث مبارکہ ..إِنِّی تَارِک فِیکمْ أَمْرَینِ إِنْ أَخَذْتُمْ بِهِمَا لَنْ تَضِلُّوا- کتَابَ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ أَهْلَ بَیتِی عِتْرَتِی أَیهَا النَّاسُ اسْمَعُوا وَ قَدْ بَلَّغْتُ إِنَّکمْ سَتَرِدُونَ عَلَیَّ الْحَوْضَ فَأَسْأَلُکمْ عَمَّا فَعَلْتُمْ فِی الثَّقَلَینِ وَ الثَّقَلَانِ کتَابُ اللَّهِ جَلَّ ذِکرُهُ وَ أَهْلُ بَیتِی..
(٣بصائر الدرجات، ج ١، ص ٤١٣)
(٤ تقویم غدیر، ص ٢٢،٢٣)
(فضائل صحابہ، ص ٤٥)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
1۔ (خصال، ج ١، ص ٤٣٣)
2۔ (امالی طوسی، ص ٧٠٩)
3۔ (سنن ترمذی، ج ٢، ص ١٨٣)
4۔ (خصال ٢، ص ١٢٨)
5۔ تقویم غدیر ٢٠
6۔ (خصال ٢ ص ١٢٨)
7۔ (٣بصائر الدرجات ج ١ ص ٤١٣)
(فضائل صحابہ ص ٤٥)
تحریر: ظہیر عباس
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
حج اتحاد بین المسلمین کا عملی نمونہ
مقدمہ:
اسلام کی تمام تعلیمات اور احکام خواہ وہ عبادی ہوں یا اجتماعی، سب کے گونا گوں آثار اور فلسفے بیان کئے گئے ہیں۔ اسلام شناس افراد ہر دور میں ان تعلیمات کی آفاقیت اور ان کے ہماری زندگی پر اثرات سے بحث کرتے آئے ہیں۔ مثلاً اسلام کے عملی احکام نماز، روزہ، زکواۃ، خمس ، حج اور دیگر اعمال اگر ایک طرف ان میں عبادی پہلو ہیں تو دوسری طرف ان میں امت مسلمہ کے لئے اتحاد و اتفاق کا بصیرت افروز درس پنہاں ہے۔ ان ہی مہم اور وسیع انسانی زندگی پر اثرات کے حامل اعمال میں سے ایک حج ہے، جو کہ بہت سی خصوصیات کا حامل ہے۔ نماز جماعت اور حج بیت اللہ اتحاد امت کا مثالی نمونہ ہیں، حج دنیا بھر سے حجاز مقدس میں آئے ہوئے مسلمانوں کی ہم رنگی اور ہم آہنگی کے ساتھ امت کی وحدت کا بہترین اظہار ہے۔ زیر نظر مضمون میں حج کے اسی پہلو سے متعلق ان زاویوں سے گفتگو کی گئی ہے۔
1۔ اتحاد کی اہمیت اسلام کی نگاہ میں
2۔ حج کا اجتماعی پہلو قرآن سنت کی روشنی میں
3۔ حج کے اعمال میں وحدت کے آثار
1۔ اتحاد کی اہمیت اسلام کی نگاہ میں:
اسلام کی تعلیمات میں سے ایک اجتماعی حکم اتحاد ہے، اسلام مسلمانوں کے اتحاد و اتفاق کی طرف بساط سے زیادہ توجہ رکھتا ہے اور اسلامی وحدت، اسلام کے منجملہ عظیم اہداف میں سے ایک ہدف شمار ہوتی ہے۔ اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن فرماتا ہے: ’’واعتصمو ابحبل اللہ جمیعا ولاتفرقوا۔‘‘ اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ نہ ڈالو۔(۱) اور دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے: ’’ولاتکونوا کالذین تفرقوا واختلفوا من بعد ماجآء ہم البینات۔‘‘ اور تم ان لوگوں کی طرح نہ ہونا، جو واضح دلائل آنے کے بعد بٹ گئے اور اختلاف کا شکار ہوئے۔(۲) یہ دونوں آیات مسلمانوں کی آپس میں اخوت اور اتحاد و ہم بستگی پر محکم دلیل ہیں، جن میں ہر قسم کے تفرقے اور اختلاف سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی پیغمبر اکرمؐ اور ائمہ معصومین کی احادیث اور ان کی عملی سیرت بھی اس بات کی گواہ ہیں کہ انہوں نے مسلمانوں کے آپس میں اتحاد کو بہت ہی اہمیت دی ہے۔ احادیث میں تمام مسلمانوں کو ایک جسم کی مانند قرار دیا اور امور مسلمین سے غفلت برتنے والوں کو دائرہ اسلام سے خارج شمار کیا گیا ہے۔
یہاں اس موضوع کی مناسبت سے پیغمبرؐ کی ایک حدیث نقل کرنے پر اکتفا کرتے ہیں، آپ ؐنے فرمایا: ’’ایہا الناس ان ربکم واحد واباکم واحد کلکم لآدم وآدم من تراب ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم ولیس لعربی علی عجمی فضل الا بالتقوی۔‘‘ اے لوگو! تمہارا پروردگار ایک، تمہارا باپ ایک ہے، تم سب فرزند آدم ہو اور آدم خاک سے ہیں، بے شک تم میں سے محترم وہی ہے، جو زیادہ پرہیزگار ہے، عرب کو عجم پر فضیلت حاصل نہیں مگر تقویٰ کے ذریعے۔(۳) یہ جملے وحدت و یگانگی اور ہم بستگی کی عام دعوت ہیں، جن کو پیغمبر ؐنے آخری حج کے موقع پر ارشاد فرمایا۔ کیوں اس مقام کو اس اعلان کے لئے منتخب کیا، اس لئے کہ عرصہ قیامت تک جو اعمال حج برپا ہیں، لوگ آئیں اور اپنے عظیم پیغمبر ؐ کی وصیت کو یاد کریں اور اس سے آگاہ ہوں اور اختلاف و تفرقہ میں نہ پڑیں۔ یہاں دوستی و برادری کے عنوان سے ایک دوسرے سے صمیمیت کے ساتھ ہاتھ ملائیں، اختلاف و موانع کو ختم کریں۔ مادی و معنوی عہد و پیمان اور مبادلات کے ذریعے آپس میں تحریری فرمان (agrement) برقرار کریں۔
2۔ حج کا اجتماعی پہلو قرآن سنت کی روشنی میں:
حج کے ارکان و مناسک اور اس سلسلے میں حاجی کے اوپر عائد ذمہ داریوں پر نظر کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ حج صرف اللہ سے انسان کا معنوی رابطہ ہی نہیں بلکہ اس میں امت مسلمہ کے مسائل، ان کا حل اور کفر و استکبار کے خلاف اظہار نفرت اور آپس میں تعاون و ہمکاری کی طرف بہت توجہ دی گئی ہے۔ سرزمین وحی کا یہ سالانہ اجتماع ایک بیش قیمت موقع ہے، اس میں اسلامی دینا کو درپیش مشکلات و مسائل کو بیان کیا جاسکتا ہے۔ باطل کے مقابلے میں حق کی تقویت کی راہیں تلاش کی جاسکتی ہیں۔ اسلامی فرقوں کے پیروکار و خصوصاً علماء باہمی تبادلہ خیال کے ذریعے ایک دوسرے کے بارے میں غلط فہمیوں کو دور کیا جاسکتا ہے اور امت واحدہ کی تشکیل کی طرف قدم بڑھائے جاسکتے ہیں۔
حج کا سب سے اہم فائدہ اتحاد امت:
’’واذن فی الناس بالحج یاتوک رجالا وعلی کل ضامر یاتین من کل فج عمیق۔لیشہدوا منافع لہم ویذکروا اسم اللہ فی ایام معلومات علی مارزقہم من بہیمۃ الانعام فکلوا منہاواطعموالبائس الفقیر۔‘‘ اور لوگوں میں حج کے لئے اعلان کرو کہ لوگ آپ کے پاس دور دراز راستوں سے پیدل چل کر اور کمزور اونٹوں پر سوار ہو کر آئیں، تاکہ وہ ان فوائد کا مشاہدہ کریں، جو انہیں حاصل ہیں اور خاص دنوں میں اللہ کا نام لو ان جانوروں پر جو اللہ نے انہیں عنایت کیے ہیں، پس ان سے تم لوگ خود بھی کھاؤ اور مفلوک الحال ضرورت مندوں کو بھی کھلاؤ۔(۴) اس آیت میں ’’لیشہدوا‘‘ اس مقصد کی علت ہے۔ یہ آیہ بطور صراحت اعلان کر رہی ہے کہ حج دنیوی اور اخروی منافع پر مشتمل ہے اور مسلمانوں کو چاہیئے کہ اس سے فائدہ اٹھائیں، اس کا سب سے اہم فائدہ یہ ہے کہ مختلف ممالک سے آئیں اور ایک دوسرے سے آشنا ہوں اور ایک دوسرے کے مسائل، مشکلات اور کمزوریوں سے آگاہ ہوں اور ان کو دور کرنے کے لئے ایک دوسرے سے تعاون کریں۔ یعنی ہر فائدہ شامل ہے، لیکن ان میں سے سب سے بنیادی فائدہ مسلمانوں کی قدرت و شان و شوکت کا عملی اظہار ہے، جس سے ان میں ایک ہی امت کا تصور ابھرتا ہے اور ایک ہی مرکز سے اپنے اخوت و بھائی چارگی اور آپس میں ہمدردی کا احساس اپنے اندر پیدا کرتے ہیں اور ہر قسم کے اختلافات کا عملاً انکار ہوتا ہے۔
مسلمانوں کا آپس میں تعاون:
’’وتعاونوا علی البر والتقوی ولاتعاونوا علی الاثم والعدوان۔‘‘ نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور زیادتی (کے کاموں) میں ایک دوسرے سے تعاون نہ کیا کرو۔(۵) یہ آیت بھی احکام حج کے بارے میں نازل ہوئی ہے، جہاں مسلمانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ہر قسم کے نیک کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور ہر قسم کی برائی سے روکنے کا حکم دیا گیا ہے۔ حج ایک اہم موقع ہے، جہاں مسلمان پوری دنیا کو امن و محبت کا گہوا رہ بنانے کے لئے ایک عالمی منشور مرتب کریں اور اس منشور کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ہر سال حکمت عملی حج کے مبارک ایام میں ہی بنائیں اور تمام مسلمانوں کو اپنی زبان میں وہ منشور پیش کریں اور مسلمان علماء و دانشوروں کو اس سلسلے میں ایک بھاری ذمہ داری سونپ دیں، تاکہ ہر ایک علاقے، شہر اور ملک میں اس کو اجراء کرنے اور اس کو ہر فرد تک پہنچانے کی کوشش کریں، جس طرح پیغمبر نے حجۃ الوداع میں ایک عالمی منشور مسلمانوں کو پیش کیا اور حاظرین کی ذمہ داری لگائی کہ وہ یہ پیغام غائبین تک پہنچائیں۔
استکبار جہاں کیخلاف اتحاد کا عملی اظہار:
’’وآذان من اللہ ورسولہ الی الناس یوم الحج الاکبران اللہ بریء من المشرکین ورسولہ فان تبتم فہو خیر لکم۔‘‘ اور اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے حج اکبر کے دن لوگوں کے لئے اعلان ہے کہ اللہ اور اس کا رسول بھی مشرکین سے بیزار ہیں اور پس اگر تم توبہ کر لو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔(۶) اسلام دشمن عناصر اور مشرکین سے اظہار نفرت کا بہترین موقع حج ہے، کیونکہ اس میں دنیا کے تمام مسلمان جمع ہو کر ایک باعظمت اجتماع برپا کرتے ہیں اور ایسا اجتماع دوسرے کسی فریضے میں ممکن نہیں اور یہ اجتماع مسلمانوں کا مشترکہ اور متحد طور پر خدا و رسول کے دشمنوں سے اظہار نفرت اور برائت کے لئے بہت اہم فرصت ہے۔ جس میں اجتماعی طور پر اسلام دشمن اور استکبار جہاں کے خلاف مشترکہ حکمت عملی مرتب کرسکتے ہیں۔
سیرت پیغمبر ؐ اور ائمہؑ:
حجۃ الوداع جو پیغمبرؐ کا پہلا اور آخری حج تھا، جسے آپ نے فتح مکہ کے بعد اپنے اصحاب کے ہمراہ بجا لایا، اس حج کی خصوصیت اس حقیقت کو عیاں کرتی ہے کہ پیغمبرؐ نے اعمال حج کی شکل میں اسلام کی طاقت، مسلمانوں کی عظمت و قیادت کی اہمیت کو دنیا کے سامنے پیش کیا اور تجلی روح توحید کو، اتحاد و ہمبستگی، استحکام و استواری، یکجہتی و ہمدلی، اخلاص و طہارت نفس اور تمام کام صرف خدا کے لئے انجام دئیے جانے میں بتایا، پیغمبر اسلامؐ نے اس حج میں تمام مسلمانوں کو یہ سبق دیا کہ کس طرح بکھرے ہوئے افراد سے ایک متحدہ طاقت وجود میں لائی جاسکتی ہے، صحیح و سالم قیادت کے سائے میں اہداف و مقاصد کو متحد کیا جاسکتا ہے۔ آپ نے اس حج میں مکہ و منیٰ اور عرفات کی میدانوں میں خطبات دیئے، اس میں سب سے بنیادی نکتہ مسلمانوں کے آپس کی اخوت و بھائی چارگی اور ایک دوسرے پر عائد ہونے والے حقوق اور فرائض کو ذکر کیا ہے۔
حج اور قیادت امت:
حج کے دوران مسلمانوں نے اپنی آنکھوں سے پیغمبر ؐ کی قیادت کا مشاہدہ کیا اور اعمال حج کی بجاآوری میں اور اس کے اہداف تک پہنچنے میں آپ کی قیادت کے کردار کو اچھی طرح درک کیا اور آپؐ نے اس عظیم اجتماع کے اختتام پر اپنے بعد ایک الہیٰ قیادت کا اعلان کیا اور اس کی اہمیت اس قدر ہے کہ امت کو متحد رکھنے اور ایک منزل اور ایک ہی ہدف کے حصول کے لئے ایک صالح قیادت ضروری ہے، کیونکہ قائد کے بغیر نہ حرم کی حرمت باقی رہے گی، نہ عرفات کی معرفت حاصل ہوگی، نہ مشعر میں شعور ہوگا، نہ منیٰ میں ایثار و فداکاری نظر آئے گی، نہ زمزم میں زندگی کی علامت ہوگی، نہ صفا میں صدق و صفا ہوگا اور پیغمبرؐ کا یہ عمل مسلمانوں کے لئے پیغام دیتا ہے کہ امت اپنے اس عظیم اجتماع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک صالح قیادت کا انتخاب کرے۔
حضرت علی ؑ حج سے متعلق اپنے کلمات میں بعض اسلامی قوانین کے فلسفہ کے بیان کے ضمن میں فرماتے ہیں: ’’والحج تقویۃ للدین۔‘‘ یعنی فلسفہ حج تقویت دین ہے۔(۷) حج کا مقصد یہ ہے کہ حلقہ بگوشانِ اسلام اطراف و اکناف عالم سے سمٹ کر ایک مرکز پر جمع ہوں، تاکہ اس عالمی اجتماع سے اسلام کی عظمت کا مظاہرہ ہو اور اللہ کی پرستش و عبادت کا ولولہ تازہ اور آپس میں روابط کے قائم کرنے کا موقع حاصل ہو۔ حج کے اجتماع سے مسلمانوں کے روابط مستحکم ہوتے ہیں، مزید مسلمانوں کا ایمان قوی ہوتا ہے، اس وسیلہ سے اسلام زیادہ قدرت مند ہوتا ہے۔ ایک اور حدیث میں وارد ہوا ہے: ’’لایزال الدین قائما ماقامت الکعبہ۔‘‘ جب تک کعبہ قائم و دائم ہے، اسلام بھی قائم و دائم ہے۔ یعنی جب تک حج زندہ و پائندہ ہے، اسلام بھی زندہ و باقی ہے۔ کعبہ اسلام کا مقدس پرچم ہے، مسلمانوں کی وحدت اور استقلال کا رمز و راز ہے۔
یہیں سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ اسلام کا مقصد یہ نہیں تھا کہ لوگ بغیر سمجھے بوجھے مکہ جائیں اور صرف ایک قسم کی خود بخود بغیر سمجھے بوجھے عبادتیں اور اعمال بجا لائیں، بلکہ اصل مقصد یہ ہے کہ کعبہ کے پرچم تلے یعنی وہی گھر جو پہلی مرتبہ لوگوں کے درمیان خدائے یگانہ کی عبادت کے لئے بنایا گیا تھا، ایک قوم و ملت کی صورت میں ہم عزم، ہم رزم اور ہم بزم ہونے کے لئے جمع ہوں۔ اسلام کا اصل اور بنیادی شعار ’’توحید‘‘ ہے، کعبہ مرکز توحید ہے۔(۸) اس کے علاوہ ائمہ ؑ نے حج کے ایام میں امت کی بیداری، احیاء اسلام اور ظالموں سے مقابلہ اور امت کے اتحاد کی دعوت دی ہے، ان میں وہ عظیم خطبہ جو امام حسین ؑ نے منیٰ کی میدان میں اصحاب و تابعین کے درمیان حج کے دوران ارشاد فرمایا۔
ہشام بن حکم امام صادق ؑکے اصحاب میں سے ہیں، کہتے ہیں: میں نے امام ؑ سے فلسفہ حج اور طواف کعبہ کے بارے میں سوال کیا تو امام ؑ نے فرمایا: ’’خداوند عالم نے ان تمام بندوں کو پیدا کیا۔۔ اور دین و دنیا کی مصلحت کے پیش نظر ان کے لئے احکام مقرر کئے، ان میں مشرق و مغرب سے (حج کے لئے) آنے والے لوگوں کے لئے واجب قرار دیا، تاکہ مسلمان ایک دوسرے کو اچھی طرح پہچان لیں اور اس کے حالات سے باخبر ہوں، ہر گروہ ایک شہر سے دوسرے شہر میں تجارتی سامان منتقل کرے اور پیغمبر ؐ کی احادیث و آثار کی معرفت حاصل ہو اور حجاج ان کو ذہن نشین کر لیں، ان کو کبھی فراموش نہ کریں(دوسروں تک پہنچائیں)(۹) امام ؑ کی یہ حدیث بتاتی ہے کہ حج کے علمی، اقتصادی پہلو ہیں اور موسم حج مسلمانان جہاں کے درمیان ایک نقطہ اتصال ہے، جس کے ذریعے ایک دوسرے کے حالات، دنیا کے حالات، پیغمبر کے آثار سے آگہی جو علماء و مفکرین کے ذریعے شرق و غرب میں نشر ہوتے ہیں۔
3۔ اعمالِ حج میں وحدت کے آثار:
اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے، ان میں سے ایک حج ہے۔ حج اسلام کی وہ عظیم عبادی و سیاسی عبادت ہے، جس میں پورا عالم اسلام دنیا کے کونے کونے سے سمٹ کر ایک نقطہ پر جمع ہوتا ہے۔ تمام مسلمان ایک ہی رنگ، ایک ہی لباس پہنتے ہیں، سب ایک ہی لباس میں تلبیہ کہتے ہیں، ایک ہی روش پر طواف اور سعی بجا لاتے ہیں، تقصیر کرتے ہیں، عرفات، مزدلفہ اور منیٰ کے مناسک بجا لاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت قاہرہ کے ذریعے سب کو ایک کر دیا ہے۔ اب یہاں سے مسلمانوں کا فریضہ شروع ہوتا ہے، جنہیں اللہ نے ایک انداز میں ایک محور پر جمع کر دیا ہو، ان کے دل بھی ایک دوسرے سے مل جانے چاہئیں اور ایک دوسرے کے لئے دھڑکنا چاہئیں، انہیں احساس ہونا چاہیئے کہ عالم اسلام میں جہاں مسلمان مشکلات کا شکار ہوں، گویا انہیں کے بھائی ہیں، جس دن حج کی اس روح کو مسلمانوں نے درک کر لیا، اس دن نہ صرف یہ زندہ عبادت ہو جائے بلکہ اللہ کی قدرت کے سایہ میں ہم بڑی طاقت سے بڑی طاقت بن جائیں گے۔(۱۰)
مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ حج کے اس پہلو کے احیاء کے لئے جدوجہد کریں اور حج کو صرف ایک رسم سے نکال کر اس روح اور حقیقت کو زندہ کریں اور عملاً مسلمانوں کے عالمی اتحاد کیلئے حج کے پلیٹ فارم کو موثر بنائے اور ان اوقات کو غنیمت شمار کرتے ہوئے عالم اسلام کے علماء، مفکرین، دانشور حج کے اس اہم پہلو پر اپنی توجہ کو مبذول کریں، تاکہ حج مسلمانوں کی تمام مشکلات و مسائل حل کرنے اور عالم استعمار کے خلاف امت کے اتحاد کا حقیقی مرکز بن سکے اور ان ایام میں ہر قسم کے ظلم و ستم اور اسلام کے خلاف ہونے والی سازشوں کا تدارک کیا جاسکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مصادر و مراجع:
٭۔ البلاغ القرآن، شیخ محسن علی نجفی
۱۔ آل عمران، آیت۔۱۰۳
۲۔ آل عمران۔ ۱۰۵
۳۔ حج، ص۳۳ از شہید مطہری، ناشر مسجد جمکران قم
۴۔ الحج، ۲۷۔۲۸
۵۔ المائدہ۔۲
۶۔ التوبہ۔۳
۷۔ نہج البلاغہ،کلمات قصار نمبر۔۲۵۲ از مفتی جعفر حسین
۸۔ حج، ص ۳۷ از شہید مطہری
۹۔ ۱۱۰سوال و جواب، ناصر مکارم شیرازی
۱۰۔ سہ ماہی شعور اتحاد شمار ۔۵۔ستمبر، اکتوبر، نومبر۔ ۲۰۰۸ء
تحریر: سکندر علی بہشتی