سلیمانی

سلیمانی

 



تحریر: ایس ایم شاہ


ایک سوال ہمیشہ سے میرے ذہن میں کھٹکتا رہتا تھا، جس سے میرا ذہن ہمیشہ اضطراب میں رہتا تھا، میری ہمیشہ سے کوشش یہ رہتی تھی کہ کسی نہ کسی طرح اس مشکل کو حل کیے بغیر نہیں رہوں گا، اس سوال نے مجھے مختلف لائبریریوں تک پہنچا دیا، مختلف دانشوروں سے سوال کرنے پر مجبور کیا، مختلف شہروں میں پھرایا، آخر کار جب مجھے قانع کنندہ جواب ملا تب مجھے اطمینان محسوس ہوا، شاید یہ سوال آپ کے ذہن میں بھی موجزن ہو، وہ سوال تھا کہ جن بزرگان دین کو ہم اپناپیشوا مانتے ہیں، ان کی ستائش اور تعریف و تمجید کو ہم اپنا وطیرہ بنا رکھتے ہیں، کیا وہ حقیقت میں ہی ان مقامات عالیہ پر فائز ہیں یا ہمارے والدین کی تربیت کے باعث ہمارے ذہنوں میں ان کا ایک ایسا مقام بن گیا ہے؟ میں نے مختلف اسلامی کتابوں کا مطالعہ کیا، ہر جگہ ان ہستیوں کی فضیلتوں سے تاریخ کے صفحات بھرے پڑے تھے، پھر بھی میں مطمئن نہیں ہوا، شاید دینی پیشوا ہونے کی بناپر مسلم تاریخ دانوں اور سیرت نگاروں نے حقیقت کو دیکھے بغیر اپنی ذاتی عقیدت کی بنا پر ایسا کیا ہو، اس کے بعد میرے ذہن میں ایک تدبیر آئی کہ اس کا بہترین حل یہ ہے کہ میں غیرمسلموں کے آثار اور کتابوں کا ذرامطالعہ کرکے دیکھتا ہوں کہ وہ ان ہستیوں کے بارے میں کیا کہتے ہیں، کیونکہ حقیقی فضیلت وہ ہوا کرتی ہے جس کی شہادت دشمن بھی دے، میں نے حضور اکرم (ص) کے حوالے سے دیکھا ، سبھی دوست و دشمن ان کے مداح پائے، حضرت زہرا ؑ کے حوالے سے میں نے تحقیق شروع کی۔ مسیحیوں اور دوسرے غیرمسلموں کی ان کی شان میں مستقل کتابوں اور مقالوں نے ان سے میری عقیدت میں پختگی کا سامان فراہم کیا، پھر میں تمام مسلمانوں کے پیشوا حضرت علیؑ کے حوالے سے دقت نظر سے تحقیق شروع کی، ان کے حوالے سےمختلف کتابوں کا میں نے مطالعہ کیا، غیرمسلم دانشوروں اور مستشرق افراد سے ان کے حوالے سے رائے لی، "ایک مسیحی پولس سلامہ (Poul Salama) کا کہنا ہے: ہاں میں ایک مسیحی ہوں، وسعت نظر ہوں، تنگ نظر نہیں ہوں، میں خود تو مسیحی ہوں لیکن ایک ایسی شخصیت کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں جس کے بارے میں تمام مسلمانوں کا کہنا ہے کہ خدا ان سے راضی ہے، پاکیزگی اس کے ساتھ ہے، شاید خدا بھی ان کا احترام کرے، مسیحی اپنے اجتماعات میں ان کو موضوع سخن قرار دیتے ہیں اور ان کے فرامین کو اپنے لیے نمونہ عمل سمجھتے ہیں، ان کی دینداری کی پیروی کرتے ہیں، آئینہ تاریخ نے پاک و پاکیزہ اور اپنے نفس کو سرکوب کرنے والی بعض نمایاں ہستیوں کی واضح تصویر کشی کی ہے، ان میں علیؑ کو سب سے برتری حاصل ہے۔یتیموں اور فقراء  کی حالت زار دیکھ کر غم سے نڈھال ہوکر آپ کی حالت ہی غیر ہوجاتی تھی۔ اے علیؑ آپ کی شخصیت کا مقام ستاروں کے مدار سے بھی بلند و برتر ہے۔ یہ نور کی خاصیت ہے کہ پاک و پاکیزہ باقی رہتا ہے اور اور گرد و نواح کے گرد و غبار اسے داغدار اور آلودہ نہیں کرسکتے۔وہ شخص جو شخصیت کے اعتبار سے آراستہ پیراستہ ہو وہ ہرگز فقیر نہیں ہوسکتا، آپ کی نجابت و شرافت دوسروں کے غم بانٹنے کے ذریعے پروان چڑھی تھی۔ دینداری اور ایمان کی حفاظت میں جام شہادت نوش کرنے والا مسکراہٹ اور رضامندی کے ساتھ درد و الم کو قبول کرتا ہے"۔ پھر میں نے  فرانس کے میڈم ڈیلفو Madame Dyalfv)کو آپ کی خصوصیات یوں بیان کرتے پایا" حضرت علیؑ کااحترام شیعوں کے نزدیک بہت زیادہ ہےاور یہ بجا بھی ہے۔ کیونکہ اس عظیم ہستی نے اسلام کی ترویج کے لیے بہت ساری جنگوں میں اپنی فداکاری کا مظاہرہ کیا،ساتھ ہی علم، فضائل، عدالت اور دوسرے صفات حمیدہ میں بھی آپ بے نظیرتھے، آپ نے اپنے صلب سے ایک پاکیزہ نسل چھوڑی، آپ کے بچوں نے بھی آپ کی سیرت کو اپنایا، اسلام کی سربلندی کے لیے  مظلومیت کے ساتھ وہ بھی جام شہادت نوش کرگئے،حضرت علیؑ وہ باعظمت ہستی ہیں جس نے ان تمام بتوں کو توڑ ڈالا جسے عرب یکتا خدا کے شریک ٹھہراتے تھے۔اس طرح آپ توحید پرستی اور یکتا پرستی کی تبلیغ کرتے تھے، آپ ہی وہ ہستی ہیں جس کا ہر عمل اور کام مسلمانوں کے ساتھ منصفانہ ہوا کرتا تھا، آپ ہی وہ ہستی ہیں جس کی خوشخبری اور دھمکی دونوں حتمی ہوا کرتی تھیں۔ اس  کے بعدمادام دیالافوائے مسیحی اپنے آپ سے یوں مخاطب ہوتا ہے: اے میری آنکھیں!آنسوبہالو اور میری آہ و بکاء میں اسے شامل کرلو اور اولاد پیغمبر کی جنہیں مظلومیت کے ساتھ شہید کیا گیا عزاداری کرو!ان غیر مسلموں  کے کتابوں کا میں  جتنا مطالعہ کرتا گیا، ان کی غیر جانبدارنہ اظہار عقیدت نے حضرت علیؑ سے میری عقیدت میں مزید اضافہ کرتا گیا۔ میرے مطالعے کا شوق بھی بڑھتا گیا۔ پھر مجھے ایک مشہور برطانوی مستشرق جرنل سرپرسی سایکس(Journal Sir Percy Sykes)کے اظہار عقیدت اور حقیقت بیانی کو پڑھنے کا موقع ملا، "حضرت علیؑ دوسرے خلفاء کے درمیان شرافت نفس، بزرگواری اور اپنے ماتحت افراد کا خیال رکھنے کے اعتبار سے بہت مشہور تھے۔ بڑے لوگوں کی سفارشات اور خطوط آپ کی کارکردگی پر اثرانداز نہیں ہوتےتھے اور نا ہی ان کے تحفے تحائف پر آپ ترتیب اثر دیتے تھے۔ آپ کےحریف، غدار اور داغدار چہرہ معاویہ سے آپ کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ وہ تو اپنے ہدف کو پانے کے لیے بڑے بڑے جرائم کے ارتکاب سے بھی  دریغ نہیں کرتا تھا۔ساتھ ہی اپنے مقصد کو پانے کے لیے پست ترین چیزوں کا بھی سہارا لیتا تھا۔ امانتوں  کے معاملے میں حضرت علیؑ کی بہت زیادہ باریک بینی اور آپ کی ایمانداری  کے باعث لالچی عرب  آپ سے نالاں تھے۔ جنھوں نے اتنی بڑی سلطنت کو غارت کررکھا تھا۔ سچائی، پاکیزہ عمل، کامل دوستی، حقیقی عبادت و ریاضت،  اخلاص ، وارستگی اور بہت سارے صفات حمیدہ سے آراستہ ہونے کے باعث آپ کو ایک خاص حیثیت حاصل تھی۔ ایرانی جو ان کی ولایت کے قائل ہوگئے ہیں اور ان کو خدا کی طرفسے حقیقی امام اور مربی مانتے ہیں حقیقت میں بھی ان کا یہ اعتقاد بہت ہی قابل تحسین اور اہمیت کا حامل ہے۔ اگرچہ حضرت علیؑ کا مقام و رتبہ اس سے کہیں بلند و بالا ہیں" حقائق کے دریچے کھلتے گئے، میرا اشتیاق بڑھتا گیا۔ایک فرانسوی پروفیسر اسٹانسیلاس (Professor Astansylas) کاایک منفصفانہ فیصلہ میری نظروں سے گزرا، " معاویہ نے مختلف جہات سے اسلام کی مخالفت کی ہے۔ علی بن ابی طالب جو پیغمبر اسلام کے بعد سب سےباعظمت، سب سے دلیر، سب سے افضل اور عرب کے بہترین خطیب ہیں، معاویہ ان سے جنگ پر تلے آئے، اب  مسیحی میخائیل نعیمہ(Makahial Naima) نے جو علیؑ کی شجاعت کی تصویر کشی تھی وہ مزید میری دلچسپی کا سبب بنی، "حضرت علیؑ کی پہلوانی صرف میدان کارزار تک محدود نہ تھی بلکہ آپ روشن فکری، پاکیزہ وجدان، فصیح بیان، انسانیت کی گہرائی اور کمال پر فائز ہونےکے علاوہ  ایمان کی حرارت اور جذبہ ایمانی سے بھی سرشار تھے، آپ کے حوصلے بلنداور فکر وسیع تھی، آپ ظالم و جابر کے مقابلے میں ستمدیدہ اور مظلوموں کی مدد اور حمایت کرتے تھے۔ حق کے لیے آپ صاحب حق کے ساتھ فروتنی سے پیش آتے اور باطل کے خلاف آپ پہلوان ہوتے تھے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کوئی شخص جتنا بھی ذہین اور برجستہ شخصیت کے حامل اور نکتہ سنج ہی کیوں نہ ہواس کے لیے بھی ممکن نہیں کہ وہ1000 صفحات میں حضرت علیؑ کی کامل تصویر کشی کرسکے، نہ ہی  آپ کی زندگی میں جو حالات رونما ہوئے ہیں ان سب کو  مناسب انداز میں کوئ بیان کرسکتے ہیں۔ بنابریں علیؑ نے جن چیزوں کے بارے میں غور فکر کیا ہے وہ بھی بیان سے بالاتر ہے، اسی طرح عرب کے اس عظیم شخصیت نے اپنے اور اپنے خدا کے درمیان جو راز و نیاز کی باتیں کی ہیں اور جن چیزوں کو عملی جامہ پہنچایا ہے، یہ سب ایسے امور ہیں جسے نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے۔ جن چیزوں کو نوک قلم سے صفحہ قرطاس پر اتارا گیا یا زبان سے ظاہر ہواوہ سب ان امور کےشمارسے بہت ہی کم ہے"۔مجھے نہ تھکاوٹ محسوس ہورہی تھی اور نہ ہی بھوک پیاس کا احساس تھا، فضیلتوں کے باغوں کی سیر نے دنیاومافیھا سے میری توجہ کو ہٹادیا تھا، بعدازاں جب میری نظر"گیبریل ڈانگیرے" (Gabriel Dangyry) کی تحریر پر پڑی تو مجھے ایسا لطف اور ایسا کیف محسوس ہورہا تھا کہ جس کے بیان کے لیے میرے پاس ذخیرہ الفاظ نہیں،" حضرت علی ؑ میں دو ایسی ممتاز اور برجستہ خصوصیات پائی جاتی ہیں جو آج تک کسی بھی پہلوان میں جمع نہ ہوسکی۔ ایک تو یہ ہے کہ آپ ایک نامور پہلوان ہونے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے امام و پیشوا بھی تھے۔ جہاں آپ میدان جنگ میں کبھی شکست سے دوچار نہ ہونے والے کمانڈر ہیں تو الہی علوم کے عالم اور صدر اسلام کے فصیح ترین خطیبوں میں آپ کا شمار ہوتا ہے ۔ حضرت علیؑ کی دوسری منفرد خصوصیت یہ تھی کہ آپ کو اسلام کے تمام مکاتب فکر عزت و وقار کی نظر سے دیکھتے ہیں، ساتھ ہی آپ کی خواہش نہ ہوتے ہوئے بھی تمام اسلامی فرقے آپ کو اپنا مذہبی پیشوا مانتے ہیں۔ جبکہ ہمارے نامور مذہبی پیشواؤں کو اگر ایک کلیسا والے مانتے ہیں تو دوسرے اس کے انکاری ہیں۔علیؑ ایک زبردست خطیب، بہترین قلمکار، بلندپایہ قاضی تھے اور مکاتب فکرکے موسسین میں آپ پہلے درجے پر فائز ہیں۔ جس مکتب کی بنیاد آپ پر پڑی، وہ واضح و روشن اور منطقی استحکام اور ترقی و جدت کے اعتبار سے ممتاز ہے۔ علیؑ شرافت و شجاعت میں بے مثل تھے۔ آپ کی بلاغت اس قدر اعلی درجے کی ہے کہ گویا سونے کے تاروں سے ان کو جوڑا گیا ہو"۔ میرے سامنےفضیلتوں کا ایسا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر نمودار ہوا ،جن کی شمارش سے میں قاصر تھا ۔ میں نے جلدی جلدی بعض اہم شخصیات کے ایک ایک جملے کو اخذ کرنے کی کوشش کی۔" حضرت علی نے اپنی دانش سے ثابت کیا کہ وہ  ایک عظیم ذہن رکھتے ہیں اوربہادری ان کے قدم چھوتی ہے۔(سکاڈش نقاد اور مصنف تھامس کارلائل (1795-1881) "حضرت علیؑ کی فصاحت تمام زمانوں سانس لیتی  رہے گی، خطابت ہو یا تیغ زندی وہ یکتا تھے۔ برطانوی ماہر تاریخ ایڈوڈ گیبن(1737-1794)"حضرت علیؑ لڑائی میں بہادر اور تقریروں میں فصیح تھے، وہ دوستوں پر شفیق اور دشمنوں پر فراخ دل تھے۔ "(امریکی پروفیسرفلپ کے حتی1886-1978)"سادگی حضرت علیؑ کی پہچان تھی انھوں نے بچپن سے اپنا دل و جان رسول خدا کے نام کردیا تھا۔ سرویلیم مور (1905-1918)"حضرت علیؑ ہمیشہ مسلم دنیا میں شرافت اور دانشمندی میں مثال رہیں گے"۔ (برطانوی ماہر حرب جیرالڈ ڈی گورے 1897-1984)"حضرت علیؑ کا اسلام سے  مخلصانہ پن اور معاف کرنے کی فراخدلی نے ہی ان کے دشمنوں کو شکست دی"۔معروف برطانوی ماہر تعلیم دلفرڈ میڈلنگ(1930-2013)"خوش نصیب ہے وہ قوم  جس میں علیؑ جیسا عادل اور مرد شجاع پیدا ہوا۔ نبی اکرم (ص) سے انہیں وہی نسبت ہے جو حضرت موسی سے حضرت ہاروں کو تھی"۔معروف مورخ چارلس ملز(1788-1826)"خانہ خدا میں حضرت علیؑ کی ولادت ایک ایسا خاصہ ہے جو کسی اور کا مقدر نہیں"۔ برطانوی ماہر تعلیم سائمن اوکلے (1678-1720)"علیؑ ایسے صاحب فصاحت تھےعرب میں ان کی باتیں زبان زد عام ہیں،آپٖ ایسے غنی تھے مساکین کا ان کے گرد حلقہ رہتا تھا"۔ امریکی تاریخ دان واشنگٹن آئیورنگ(1783-1859)ٖ"میرے نزدیک علیؑ کو سمجھنا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے"۔بھارتی صحافی ڈی ایف کیرے(1911-1974)اس وقت میں دھنگ رہ گیا جب میں غیرمسلموں کے حضرت علیؑ سے اظہار عقیدت کو دیکھتے دیکھتے میری آنکھیں جواب دے گئیں، میرے ہاتھوں نے  کام کرنا چھوڑ دیا، میرے کانوں میں اب مزید فضائل برداشت کرنے کی طاقت نہ رہی۔ اب میں اس حقیقت تک جاپہنچا کہ اگر کائنات کی تمام درخت قلم، جن و انس لکھنے والے اور سارے سمندر سیاہی بھی بن جائےتب بھی حضرت علیؑ کی فٖضیلتوں کے سمندر کے کنارے بھی نہیں پہنچنا ممکن نہیں۔اب بھی اگر لوگ علی ؑ کو دوسرے غیر معصوموں سے فضیلت میں مقائسہ کرنے لگ جائیں تو سراسر ان کے ساتھ ناانصافی ہے، سمندر کو قطرے سے مشابہت دینے کی مانند ہے۔اب میرے سوال کا کماحقہ جواب مجھے مل گیا ہے۔ اب یہ میرے ایمان کا پختہ حصہ بن گیا ہے کہ کائنات میں حضور اکرمؐ کے بعد سب سے افضل ہستی امام علیؑ ہیں۔  
حوالہ جات:
1.    www.yjc.ir
2.    farsi.balaghah.net
3.    Dawn News pk

امام دہم حضرت امام علی بن محمد النقی الہادی علیہ السلام 15 ذوالحجہ سنہ 212 ہجری، مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے (1)
آپ (ع) کا نام "علی" رکھا گیا اور کنیت ابوالحسن، (2)
اور آپ (ع) کے مشہور ترین القاب "النقی اور الہادی" ہیں۔ (3)
اور آپ (ع) کو ابوالحسن ثالث اور فقیہ العسکری بھی کہا جاتا ہے۔ (4) جبکہ امیرالمؤمنین (ع) اور امام رضا (ع) ابوالحسن الاول اور ابوالحسن الثانی کہلاتے ہیں۔
آپ (ع) کے والد حضرت امام محمد تقی الجواد علیہ السلام اور آپ کی والدہ ماجدہ کا نام "سیدہ سمانہ المغربیہ" ہے۔ (5) امام ہادی علیہ السلام عباسی بادشاہ معتز کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ (٭٭)
آپ (ع) کی عمر ابھی چھ سال پانچ مہینے تھی کہ ستمگر عباسی ملوکیت نے آپ کے والد کو ایام شباب میں ہی شہید کردیا اور آپ (ع) نے بھی اپنے والد حضرت امام محمد تقی الجواد علیہ السلام کی طرح چھوٹی عمر میں امامت کا عہدہ سنبھالا (6) اور آپ کی مدت امامت 33 سال ہے۔ (7)
امام علی النقی الہادی علیہ السلام اپنی عمر کے آخری دس برسوں ـ کے دوران مسلسل متوکل عباسی کے ہاتھوں سامرا میں نظر بند رہے۔ (8) گو کہ سبط بن جوزی نے تذکرةالخواص میں لکھا ہے کہ امام علیہ السلام 20 سال اور 9 مہینے سامرا کی فوجی چھاؤنی میں نظر بند رہے۔ آپ کی شہادت بھی عباسی ملوکیت کے ہاتھوں رجب المرجب سنہ 254 کے ابتدائی ایام میں ہوئی۔ (9)
آپ (ع) شہادت کے بعد سامرا میں اپنے گھر میں ہی سپرد خاک کئے گئے۔ (10)
امام ہادی علیہ السلام اپنی حیات طیبہ کے دوران کئی عباسی بادشاہوں کے معاصر رہے۔ جن کے نام یہ ہیں: معتصم عباسی، واثق عباسی، متوکل عباسی، منتصر عباسی، مستعین عباسی اور معتز عباسی۔ (11)

 

معاشرے کے ہادی و راہنما

چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وصال کے بعد معاشرے کی ہدایت و راہنمائی کی ذمہ داری ائمہ طاہرین علیہم السلام پر عائد کی گئی ہے چنانچہ ائمہ علیہم السلام نے اپنے اپنے عصری حالات کے پیش نظر یہ ذمہ داری بطور احسن نبھا دی اور اصل و خالص محمدی اسلام کی ترویج میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ ائمہ علیہم السلام کی ذمہ داری تھی کہ لوگوں کے عقائد کو انحرافات اور ضلالتوں سے باز رکھیں اور حقیقی اسلام کو واضح کریں چنانچہ امام علی النقی الہادی علیہ السلام کو بھی اپنے زمانے میں مختلف قسم کے انحرافات کا سامنا کرنا پڑا اور انحرافات اور گمراہیوں کا مقابلہ کیا۔ آپ (ع) کے زمانے میں رائج انحرافات کی جڑیں گذشتہ ادوار میں پیوست تھیں جن کی بنیادیں ان لوگوں نے رکھی تھیں جو یا تو انسان کو مجبور محض سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ انسان اپنے افعال میں مختار نہیں ہے اور وہ عقل کو معطل کئے ہوئے تھے اور ذاتی حسن و قبح کے منکر تھے اور کہہ رہے تھے کہ کوئی چیز بھی بذات خود اچھی یا بری نہیں ہے اور ان کا عقیدہ تھا کہ خدا سے (معاذاللہ) اگر کوئی برا فعل بھی سرزد ہوجائے تو درست ہے اور اس فعل کو برا فعل نہیں کہا جاسکے گا۔ ان لوگوں کے ہاں جنگ جمل اور جنگ جمل کے دونوں فریق برحق تھے یا دوسری طرف سے وہ لوگ تھے جنہوں نے انسان کو مختار کل قرار دیا اور معاذاللہ خدا کے ہاتھ باندھ لئے۔ یا وہ لوگ جنہوں نے دین کو خرافات سے بھر دیا اور امام ہادی علیہ السلام کے دور میں یہ سارے مسائل موجود تھے اور شیعیان اہل بیت (ع) کو بھی ان مسائل کا سامنا تھا چنانچہ امام علیہ السلام نے ان تمام مسائل کا مقابلہ کیا اور ہر موقع و مناسبت سے لوگوں کے عقائد کی اصلاح کا اہتمام کیا۔

 

جبر و تفویض

علم عقائد میں افراط و تفریط کے دو سروں پر دو عقائد "جبر و تفویض" کے نام سے مشہور ہیں جو حقیقت میں باطل عقائد ہیں۔
شیخ صدوق نے عیون اخبار الرضا (جلد 1 صفحہ 114) میں اپنی سند سے امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ (ع) نے فرمایا:
برید بن عمیر شامی کہتے ہیں کہ میں "مرو" میں امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ (ع) سے عرض کیا: آپ کے جد بزرگوار امام صادق علیہ السلام سے روایت ہوئی کہ آپ (ع) نے فرمایا: نہ جبر ہے اور نہ ہی تفویض ہے بلکہ امر دو ان دو کے درمیان ہے، اس کا مطلب کیا ہے؟
امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: جو شخص گمان کرے کہ "خدا نے ہمارے افعال انجام دیئے ہیں [یعنی ہم نے جو کیا ہے وہ درحقیقت ہم نے نہیں کیا بلکہ خدا نے کئے ہیں اور ہم مجبور ہیں] اور اب ان ہی اعمال کے نتیجے میں ہمیں عذاب کا مستحق گردانے گا"، وہ جبر کا عقیدہ رکھتا ہے۔ اور جس نے گمان کیا کہ خدا نے لوگوں کے امور اور رزق وغیرہ کا اختیار اپنے اولیاء اور حجتوں کے سپرد کیا ہے [جیسا کہ آج بھی بہت سوں کا عقیدہ ہے] وہ درحقیقت تفویض [خدا کے اختیارات کی سپردگی] کا قائل ہے؛ جو جبر کا معتقد ہوا وہ کافر ہے اور جو تفویض کا معتقد ہوا وہ مشرک ہے۔
راوی کہتا ہے میں نے پوچھا: اے فرزند رسول خدا (ص) ان دو کے درمیان کوئی تیسرا راستہ ہے؟
فرمایا: یابن رسول اللہ (ص(! "امرٌ بین الامرین" سے کیا مراد ہے؟
فرمایا: یہی کہ ایک راستہ موجود ہے جس پر چل کر انسان ان چیزوں پر عمل کرتا ہے جن کا اس کو حکم دیا گیا ہے اور ان چیزوں کو ترک کردیتا ہے جن سے اس کو روکا گیا ہے۔ [یعنی انسان کو اللہ کے واجبات پر عمل کرنے اور اس کے محرمات کو ترک کرنے کا جو اختیار دیا گیا ہے یہی وہ تیسرا اور درمیانی راستہ ہے]۔
میں نے عرض کیا: یہ جو بندہ اللہ تعالی کے احکامات کی تعمیل کرتا ہے اور اس کی منہیات سے پرہیز کرتا ہے، اس میں خدا کی مشیت اور اس کے ارادے کا کوئی عمل دخل ہے؟
فرمایا: وہ جو طاعات اور عبادات ہیں ان کا ارادہ اللہ تعالی نے کیا ہے اور اس کی مشیت ان میں کچھ یوں ہے کہ خدا ہی ان کا حکم دیاتا ہے اور ان سے راضی اور خوشنود ہوتا ہے اور ان کی انجام دہی میں بندوں کی مدد کرتا ہے اور نافرمانیوں میں اللہ کا ارادہ اور اس کی مشیت کچھ یوں ہے کہ وہ ان اعمال سے نہی فرماتا ہے اور ان کی انجام دہی پر ناراض و ناخوشنود ہوجاتا ہے اور ان کی انجام دہی میں انسان کو تنہا چھوڑتا ہے اور اس کی مدد نہیں فرماتا۔

 

جبر و تفویض کا مسئلہ اور امام ہادی علیہ السلام

شہر اہواز [جو آج ایران کے جنوبی صوبے خوزستان کا دارالحکومت ہے] کے عوام نے امام ہادی علیہ السلام کے نام ایک خط میں اپنے لئے درپیش مسائل کے سلسلے میں سوالات پوچھے جن میں جبر اور تفویض اور دین پر لوگوں کے درمیان اختلافات کی خبر دی اور چارہ کار کی درخواست کی۔
امام ہادی علیہ السلام نے اہواز کے عوام کے خط کا تفصیلی جواب دیا جو ابن شعبہ حرانی نے تحف العقول میں نقل کیا ہے۔
امام (ع) نے اس خط کی ابتداء میں مقدمے کی حیثیت سے مختلف موضوعات بیان کئے ہیں اور خط کے ضمن میں ایک بنیادی مسئلہ بیان کیا ہے جو ثقلین (قرآن و اہل بیت (ع)) سے تمسک ہے جس کو امام علیہ السلام نے مفصل انداز سے بیان کیا ہے۔ اوراس کے بعد آیات الہی اور احادیث نبوی سے استناد کرکے حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام کی ولایت اور عظمت و مقام رفیع کا اثبات کیا ہے۔ (12)
شاید یہاں یہ سوال اٹھے کہ "اس تمہید اور جبر و تفویض کی بحث کے درمیان کیا تعلق ہے؟"؛ چنانچہ امام علیہ السلام وضاحت کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: ہم نے یہ مقدمہ اور یہ امور تمہید میں ان مسائل کے ثبوت اور دلیل کے طور پر بیان کئے جو کہ جبر و تفویض کا مسئلہ اور ان دو کا درمیانی امر ہے۔ (13)
شاید امام ہادی علیہ السلام نے یہ تمہید رکھ کر جبر و تفویض کے مسئلے کو بنیادی طور حل کرنے کی کوشش فرمائی ہے کہ اگر لوگ ثقلین کا دامن تھامیں اور اس سلسلے میں رسول اللہ الاعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے احکامات پر عمل کریں تو مسلمانان عالم کسی بھی صورت میں گمراہ نہ ہونگے اور انتشار کا شکار نہ ہونگے اور کبھی منحرف نہ ہونگے۔
امام ہادی علیہ السلام اس تمہید کے بعد موضوع کی طرف آتے ہیں اور امام صادق علیہ السلام کے قول شریف "لا جَبْرَ وَلا تَفْویضَ ولكِنْ مَنْزِلَةٌ بَيْنَ الْمَنْزِلَتَيْن"؛ (14) کا حوالہ دیتے ہیں اور فرماتے ہیں:
"اِنَّ الصّادِقَ سُئِلَ هلْ اَجْبَرَ اللّه الْعِبادَ عَلَی الْمَعاصی؟ فَقالَ الصّادِقُ علیه‏السلام هوَ اَعْدَلُ مِنْ ذلِكَ۔ فَقیلَ لَهُ: فَهلْ فَوَّضَ اِلَيْهمْ؟ فَقالَ علیہ‏السلام : هوَ اَعَزُّ وَاَقْهَرُ لَهمْ مِنْ ذلِكَ"؛ (15)
امام صادق علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ کیا خدا نے انسان کو نافرمانی اور معصیت پر مجبور کیا ہے؟
امام علیہ السلام نے جواب دیا: خداوند اس سے کہیں زیادہ عادل ہے کہ ایسا عمل انجام دے۔ (16)
پوچھا گیا: کیا خداوند متعال نے انسان کو اس کے حال پہ چھوڑ رکھا ہے اور اختیار اسی کے سپرد کیا ہے؟
فرمایا: خداوند اس سے کہیں زیادہ قوی، عزیز اور مسلط ہے ہے کہ ایسا عمل انجام دے۔
امام ہادی علیہ السلام مزید فرماتے ہیں: مروی ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
"النّاسُ فِی القَدَرِ عَلی ثَلاثَةِ اَوْجُهٍ: رَجُلٌ يَزْعَمُ اَنَّ الاَْمْرَ مُفَوَّضٌ اِلَيْهِ فَقَدْ وَهنَ اللّه‏َ فی سُلْطانِهِ فَهوَ هالِكٌ وَرَجُلٌ يَزْعَمُ اَنَّ اللّه جَلَّ و عَزَّ اَجْبَرَ الْعِبادَ عَلَی الْمَعاصی وَكَلَّفَهمْ ما لا يُطیقُون فَقَدْ ظَلَمَ اللّه‏َ فی حُكْمِهِ فَهوَ هالِكٌ وَرَجُلٌ يَزْعَمُ اَنَّ اللّه‏َ كَلَّفَ الْعِبادَ ما يُطیقُونَ وَلَمْ يُكَلِّفْهُمْ مالا يُطیقُونَ فَاِذا أَحْسَنَ حَمَدَ اللّه‏َ وَاِذا أساءَ اِسْتَغْفَرَ اللّه؛ فَهذا مُسْلِمٌ بالِغٌ"؛ (17)
لوگ "قَدَر" پر اعتقاد کے حوالے سے تین گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں:
٭ کچھ کا خیال ہے کہ تمام امور و معاملات انسان کو تفویض کئے گئے ہیں؛ ان لوگوں نے خداوند متعال کو اس کے تسلط میں سست گردانا ہے، چنانچہ یہ گروہ ہلاکت اور نابودی سے دوچار ہوگیا ہے۔
٭ کچھ لوگ وہ ہیں جن کا عقیدہ ہے کہ خداوند متعال انسانوں کو گناہوں اور نافرمانی پر مجبور کرتا ہے اور ان پر ایسے افعال اور امور واجب قرار دیتا ہے جن کی وہ طاقت نہیں رکھتے! ان لوگوں نے خداوند متعال کو اس کے احکام میں ظالم اور ستمگر قرار دیا ہے چنانچہ اس عقیدے کے پیروکار بھی ہلاک ہونے والوں میں سے ہیں۔ اور
٭ تیسرا گروہ وہ ہے جس کا عقیدہ ہے کہ خداوند متعال انسان کی طاقت و اہلیت کی بنیاد پر انہیں حکم دیتا ہے اور ان کی طاقت کے دائرے سے باہر ان پر کوئی چیز واجب نہیں کرتا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اگر نیک کام انجام دیں تو اللہ کا شکر انجام دیتے ہیں اور اگر برا عمل انجام دیں تو مغفرت طلب کرتے ہیں؛ یہی وہ لوگ ہیں جو حقیقی اسلام کو پاچکے ہیں۔
اس کے بعد امام ہادی علیہ السلام مزید وضاحت کے ساتھ جبر و تفویض کے مسئلے کو بیان کرتے ہیں اور ان کے بطلان کو ثابت کرتے ہیں۔
فرماتے ہیں:
"َاَمّا الْجَبْرُ الَّذی يَلْزَمُ مَنْ دانَ بِهِ الْخَطَأَ فَهُوَ قَوْلُ مَنْ زَعَمَ أنَّ اللّه‏َ جَلَّ وَعَزَّ أجْبَرَ الْعِبادَ عَلَی الْمَعاصی وعاقَبَهُمْ عَلَيْها وَمَنْ قالَ بِهذَا الْقَوْلِ فَقَدْ ظَلَمَ اللّه فی حُكْمِهِ وَكَذَّبَهُ وَرَدَّ عَليْهِ قَوْلَهُ «وَلا يَظْلِمُ رَبُّكَ أَحَدا» (18) وَقَوْلَهُ «ذلكَ بِما قَدَّمَتْ يَداكَ وَاَنَّ اللّه لَيْسَ بِظَلاّمٍ لِلْعَبید"۔ (19) ۔۔۔؛ (20)
ترجمہ: جہاں تک جبر کا تعلق ہے ـ جس کا ارتکاب کرنے والا غلطی پر ہے ـ پس یہ اس شخص کا قول و عقیدہ ہے جو گمان کرتا ہے کہ خداوند متعال نے بندوں کو گناہ اور معصیت پر مجبور کیا ہے لیکن اسی حال میں ان کو ان ہی گناہوں اور معصیتوں کے بدلے سزا دے گا!، جس شخص کا عقیدہ یہ ہوگا اس نے اللہ تعالی کو اس کے حکم و حکومت میں ظلم کی نسبت دی ہے اور اس کو جھٹلایا ہے اور اس نے خدا کے کلام کو رد کردیا ہے جہاں ارشاد فرماتا ہے "تیرا پرورد‏گار کسی پر بھی ظلم نہیں کرتا"، نیز فرماتا ہے: "یہ ( عذاب آخرت ) اُسکی بناء پر ہے جو کچھ تُمہارے اپنے دو ہا تھوں نے آگے بھیجا ، اور بے شک اللہ اللہ بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے"۔
امام علیہ السلام تفویض کے بارے میں فرماتے ہیں:
"وَاَمَّا التَّفْویضُ الَّذی اَبْطَلَهُ الصّادِقُ علیه‏السلام وَاَخْطَأَ مَنْ دانَ بِهِ وَتَقَلَّدَه فَهوَ قَوْلُ الْقائِلِ: إنَّ اللّه جَلَّ ذِكْرُه فَوَّضَ إِلَی الْعِبادِ اخْتِیارَ أَمْرِه وَنَهْيِهِ وَأَهمَلَهمْ"؛ (21)
ترجمہ: اور جہاں تک تفویض کا تعلق ہے ـ کس کو امام صادق علیہ السلام نے باطل کردیا ہے اور اس کا معتقد غلطی پر ہے ـ خداوند متعال نے امر و نہی [اور امور و معاملات کے پورے انتظام] کو بندوں کے سپرد کیا ہے اور اس عقیدے کے حامل افراد کو اپنے حال پر چھوڑ دیا ہے۔
فرماتے ہیں:
"فَمَنْ زَعَمَ أَنَّ اللّه‏َ تَعالی فَوَّضَ اَمْرَه وَنَهيَهُ إلی عِبادِهِ فَقَدْ أَثْبَتَ عَلَيْهِ الْعَجْزَ وَأَوْجَبَ عَلَيْهِ قَبُولَ كُلِّ ما عَملُوا مِنْ خَيْرٍ وَشَرٍّ وَأَبْطَلَ أَمْرَ اللّه‏ِ وَنَهْيَهُ وَوَعْدَه وَوَعیدَه، لِعِلَّةِ مازَعَمَ اَنَّ اللّه‏َ فَوَّضَها اِلَيْهِ لاَِنَّ الْمُفَوَّضَ اِلَيْهِ يَعْمَلُ بِمَشیئَتِه، فَاِنْ شاءَ الْکفْرَ أَوِ الاْیمانَ کانَ غَيْرَ مَرْدُودٍ عَلَيْهِ وَلاَ مَحْظُورٍ۔۔۔"؛ (22)
ترجمہ: پس جس نے گمان کیا کہ خدا نے امر و نہی [اور معاشرے کے انتظامات] کا کام مکمل طور پر اپنے بندوں کے سپرد کیا ہے اور ان لوگوں نے گویا خدا کو عاجز اور بے بس قرار دیا ہے اور انھوں نے [اپنے تئیں اتنا اختیار دیا ہے] کہ اپنے ہر اچھے اور برے عمل کو قبولیت کو اللہ پر واجب قرار دیا ہے! اور اللہ کے امر و نہی اور وعدہ و وعید کو جھٹلاکر باطل قرار دیا ہے؛ کیونکہ اس کہ وہم یہ ہے کہ خداوند متعال نے یہ تمام امور ان ہی کے سپرد کئے گئے ہیں اور جس کو تمام امور سپرد کئے جاتے ہیں وہ ہر کام اپنی مرضی سے کرتا ہے۔ پس خواہ وہ کفر کو اختیار کرے خواہ ایمان کا راستہ اپنائے، اس پر کوئی رد ہے اور نہ ہی اس کے لئے کوئی رکاوٹ ہے۔
امام ہادی علیہ السلام یہ دونوں افراطی اور تفریطی نظریات کو باطل کرنے کے بعد قول حق اور صحیح نظریہ پیش کرتے ہیں جو "امرٌ بین الأمرین" سے عبارت ہے؛ فرماتے ہیں:
"لكِنْ نَقُولُ: إِنَّ اللّه‏َ جَلَّ وَعَزَّ خَلَقَ الْخَلْقَ بِقُدْرَتِه وَمَلَّكَهُمْ اِسْتِطاعَةَ تَعَبُّدِهمْ بِها، فَاَمَرَهمْ وَنَهاهُمْ بِما اَرادَ، فَقَبِلَ مِنْهُمُ اتِّباعَ أَمْرِه وَرَضِىَ بِذلِكَ لَهمْ، وَنَهاهمْ عَنْ مَعْصِيَتِهِ وَذَمّ مَنْ عَصاه وَعاقَبَهُ عَلَيْها"؛ (23)
ترجمہ: لیکن ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ: خداوند عزّ و جلّ نے انسان کو اپنی قوت سے خلق فرمایا اور ان کو اپنی پرستش اور بندگی کی اہلیت عطا فرمائی اور جن امور کے بارے میں چاہا انہیں حکم دیا یا روک دیا۔ پس اس نے اپنے اوامر کی پیروی کو اپنے بندوں سے قبول فرمایا اور اس [بندوں کی طاعت و عبادت اور فرمانبرداری] پر راضی اور خوشنود ہوا اور ان کو اپنی نافرمانی سے روک لیا اور جو بھی اس کی نافرمانی کا مرتکب ہوا اس کی ملامت کی اور نافرمانی کے بموجب سزا دی۔

 

امام علی النقی الہادی علیہ السلام اور غلات (نصیریوں) کا مسئلہ

ہر دین و مذہب اور ہر فرقے اور قوم میں ایسے افراد پائے جاسکتے ہیں جو بعض دینی تعلیمات یا اصولوں میں مبالغہ آرائی سے کام لیں یا بعض دینی شخصیات کے سلسلے میں غلو کا شکار ہوتے ہیں اور حد سے تجاوز کرتے ہیں۔ برادر مکاتب میں میں صحابیوں کی عمومی تنزیہ اور ان سب کو عادل سمجھنا اور بعض صحابہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر فوقیت دینا یا صحابہ کی شخصیت اور افعال کا دفاع کرنے کے لئے قرآن و سنت تک کی مرضی سے تأویل و تفسیر کرتے ہیں اور اگر صحاح سے رجوع کیا جائے تو ایسی حدیثوں کی بھی کوئی کمی نہیں ہے جو ان ہی مقاصد کے لئے وضع کی گئی ہیں۔
لیکن یہ بیماری دوسرے ادیان و مکاتب تک محدود نہیں ہے بلکہ پیروان اہل بیت (ع) یا شیعہ کہلانے والوں میں بہت سے افراد اس بیماری میں مبتلا ہوئے ہیں۔ یہ سلسلہ حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام کے زمانے سے جاری رہا اور ہمیشہ ایک گروہ یا چند افراد ایسے ضرور تھے جو ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی نسبت غلو کا شکار تھے اور غالیانہ انحراف میں مبتلا تھے۔
غالیوں کے یہ گروہ حضرات معصومین علیہم السلام کی تعلیمات کو یکسر نظر انداز کرکے ان کے سلسلے میں غلو آمیز آراء قائم کرتے تھے اور بعض تو ائمہ معصومین علیہم السلام کو معاذاللہ الوہیت تک کا درجہ دیتے ہیں چنانچہ غلو کی بیماری امام ہادی علیہ السلام کے زمانے میں نئی نہیں تھی بلکہ غلو بھی دوسرے انحرافی عقائد کی مانند ایک تاریخی پس منظر کا حامل تھا۔
غلو کے مرض سے دوچار لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وصال کے بعد ہر دور میں نظر آرہے ہیں۔ حتی کہ امام سجاد علیہ السلام کے زمانے میں بھی یہ لوگ حاضر تھے اور شیعیان اہل بیت (ع) کے لئے اعتقادی مسائل پیدا کررہے تھے۔
نہ غالی ہم سے ہیں اور نہ ہمارا غالیوں سے کوئی تعلق ہے
امام علی بن الحسین زین العابدین علیہ السلام غالیوں سے یوں برائت ظاہر کرتے ہیں:
"إنَّ قَوْما مِنْ شیعَتِنا سَيُحِبُّونا حَتّی يَقُولُوا فینا ما قالَتِ الْيَهودُ فی عُزَيْرٍ وَقالَتِ النَّصاری فی عیسَی ابْنِ مَرْيَمَ؛ فَلا همْ مِنّا وَلا نَحْنُ مِنْهمْ"۔ (24)
ترجمہ: ہمارے بعض دوست ہم سے اسی طرح محبت اور دوستی کا اظہار کریں گے جس طرح کہ یہودی عزیز (ع) کے بارے میں اور نصرانی عیسی (ع) کے بارے میں اظہار عقیدت کرتے ہیں نہ تو یہ لوگ (غالی) ہم سے ہیں اور نہ ہمارا ان سے کوئی تعلق ہے۔
امام سجاد علیہ السلام کے اس ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ ائمہ علیہم السلام اپنے عصری تقاضوں کے مطابق اس قسم کے انحرافات کا مقابلہ کرتے تھے اور اس قسم کے تفکرات کے سامنے مضبوط اور فیصلہ کن موقف اپناتے تھے اور ممکنہ حد تک انہیں تشیع کو بدنام نہیں کرنے دیتے تھے۔
امام سجاد علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:
"أَحِبُّونا حُبَّ الاِْسْلامِ فَوَاللّه‏ِ ما زالَ بِنا ما تَقُولُونَ حَتّی بَغَّضْتُمُونا إلَی النّاسِ"۔ (25)
ترجمہ: ہم سے اسی طرح محبت کرو جس طرح کا اسلام نے تمہیں حکم دیا ہے؛ پس خدا کی قسم! جو کچھ تم [غالی اور نصیری] ہمارے بارے میں کہتے ہو اس کے ذریعے لوگوں کو ہماری دشمنی پر آمادہ کرتے ہو۔
یہاں اس بات کی یادآوری کرانا ضروری ہے کہ غلو آمیز تفکر مختلف صورتوں میں نمودار ہوسکتا ہے۔ مرحوم علامہ محمد باقر مجلسی بحارالانوار میں لکھتے ہیں: "نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ائمہ طاہرین علیہم السلام کے بارے میں غلو کا معیار یہ ہے کہ کوئی شخص
٭ نبی (ص) یا کسی امام یا تمام ائمہ (ع) کی الوہیت [اور ربوبیت] کا قائل ہوجائے؛
٭ نبی (ص) یا کسی امام یا تمام ائمہ (ع) کو اللہ کا شریک قرار دے؛ کہ مثلاً ان کی عبادت کی جائے یا روزی رسانی میں انہیں اللہ کا شریک قرا دے یا کہا جائے کہ خداوند متعال ائمہ رسول اللہ (ص) یا ائمہ کی ذات میں حلول کر گیا ہے۔ یا وہ شخص
٭ اس بات کا قائل ہوجائے کہ رسول اللہ (ص) خدا کی وحی یا الہام کے بغیر ہی علم غیب کے حامل ہیں؛
٭ یا یہ کہ دعوی کیا جائے کہ ائمہ انبیاء ہی ہیں؟
٭ یا کہا جائے کہ بعض ائمہ کی روح بعض دوسرے ائمہ میں حلول کرچکی ہے۔
٭ یا کہا جائے کہ رسول اللہ (ص) اور ائمہ علیہم السلام کی معرفت و پہچان انسان کو ہر قسم کی عبادت اور بندگی سے بے نیاز کردیتی ہے اور اگر کوئی ان کی معرفت حاصل کرے تو ان پر کوئی عمل واجب نہ ہوگا اور نہ ہی محرمات اور گناہوں سے بچنے اور پرہیز کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ (26)
جیسا کہ آپ نے دیکھا ان امور میں سے کسی ایک کا قائل ہونا غلو کے زمرے میں آتا ہے اور جو ان امور کا قائل ہوجائے اس کو غالی بھی کہتے ہیں اور بعض لوگ انہیں نصیری بھی کہتے ہیں۔
علامہ مجلسی کہتے ہیں کہ جو غلو کی ان قسموں میں کسی ایک کا قائل ہوگا وہ کافر اور ملحد ہے اور دین سے خارج ہوچکا ہے۔ جیسا کہ عقلی دلائل، آیات امو مذکورہ روایات وغیرہ بھی اس بات کا ثبوت ہیں۔ (27)
امام علی النقی الہادی علیہ السلام کے زمانے میں غالی سرگرم تھے اور اس زمانے میں ان کے سرغنے بڑے فعال تھے جو اس گمراہ اور گمراہ کن گروپ کی قیادت کررہے تھے چنانچہ امام علیہ السلام نے اس کے سامنے خاموشی روا نہ رکھی اور مضبوط اور واضح و فیصلہ کن انداز سے ان کی مخالفت کی اور ان کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا۔ اس منحرف غالی گروہ کے سرغنے: علی بن حسکہ قمی، قاسم یقطینی، حسن بن محمد بن بابای قمی، محمد بن نُصیر فہری اور فارِس بن حاکم تھے۔ (28)
احمد بن محمد بن عیسی اور ابراہیم بن شیبہ، امام ہادی علیہ السلام کے نام الگ الگ مراسلے روانہ کرتے ہیں اور اس زمانے میں غلات کے عقائد اور رویوں و تفکرات کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور ان کے بعض عقائد بیان کرتے ہیں اور اپنے زمانے کے دو بدنام غالیوں علی بن حسکہ اور قاسم یقطینی کی شکایت کرتے ہیں اور امام علیہ السلام واضح اور دو ٹوک الفاظ میں جواب دیتے ہیں کہ:
"لَيْسَ هذا دینُنا فَاعْتَزِلْهُ"؛ (29)
ترجمہ: یہ ہمارا دین نہیں ہے چنانچہ اس سے دوری اختیار کرو۔
اور ایک مقام پر امام سجاد، امام باقر اور امام صادق علیہم السلام کی مانند غالیوں پر لعنت بھیجی:
محمد بن عیسی کہتے ہیں کہ امام ہادی علیہ السلام نے ایک مراسلے کے ضمن میں میرے لئے لکھا:
"لَعَنَ اللّه الْقاسِمَ الْيَقْطینی وَلَعَنَ اللّه‏ عَلِىَّ بْنَ حَسْكَةِ الْقُمىّ، اِنَّ شَيْطانا تَرائی لِلْقاسِمِ فَيُوحی اِلَيْهِ زُخْرُفَ الْقَولِ غُرُورا"؛ (30)
ترجمہ: اللہ تعالی قاسم یقطینی اور علی بن حسکمہ قمی پر لعنت کرے۔ ایک شیطان قاسم الیقطینی کے سامنے ظاہر ہوتا ہے اور باطل اقوال اقوال کو خوبصورت ظاہری صورت میں اس کو القاء کرتا ہے اور اس کے دل میں ڈال دیتا ہے اور اس کو دھوکا دیتا ہے۔
نصر بن صبّاح کہتے ہیں: حسن بن محمد المعروف ابن بابائے قمی، محمد بن نصیر نمیری اور فارس بن حاتم قزوینی پر امام حسن عسکری علیہ السلام نے لعنت بھیجی۔ (31)
ہم تک پہنچنے والی روایات سے معلوم ہوتا ہے غلو اور دوسرے انحرافات کے خلاف کہ امام ہادی علیہ السلام کی جدوجہد اظہار برائت اور لعن و طعن سے کہیں بڑھ کر تھی اور آپ (ع) نے بعض غالیوں کے قتل کا حکم جاری فرمایا ہے۔
محمد بن عیسی کہتے ہیں:
"إنَّ اَبَا الحَسَنِ العَسْكَرِی علیهالسلام أمَر بِقَتلِ فارِسِ بْنِ حاتم القَزْوینىّ وَضَمِنَ لِمَنْ قَتَلَهُ الجَنَّةَ فَقَتَلَهُ جُنَيْدٌ"؛ (32)
ترجمہ: امام ہادی علیہ السلام نے فارس بن حاتم قزوینی کے قتل کا حکم دیا اور اس شخص کے لئے جنت کی ضمانت دی جو اس کے قتل کرے گا چنانچہ جنید نامی شخص نے اس کو ہلاک کردیا۔

 

تجسیم اور تشبیہ

بعض فرقے آج بھی خدا کے لئے جسم اور شبیہ کے قائل تھے اور بعض آج بھی ایسے ہی ہیں۔ بندہ اسی کے عشرے میں حج بیت اللہ کا شرف حاصل کیا تو کافی چیزیں بلاد الحرمین میں نظر آئیں جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ سنی مکاتب کے ہاں ان کی مثال ملتی اور نہ ہی شیعہ دنیا میں لیکن سب سے اہم بات ہمارے اس موضوع سے متعلق تھی۔
وہاں بادشاہی نظام ہے جس پر آل سعود مسلط ہے اور مذہبی ونگ وہابیت کو دیا گیا ہے اور یہ درحقیقت وہابیت اور آل سعود کے درمیان بہت پرانے معاہدے کا نتیجہ ہے اور اگر ایک طرف سے حکومت بعض خدمات حجاج کرام کو پیش کرتی ہے تو دوسری طرف سے وہابیت کے نمائندے حجاج کی بے حرمتیاں کرکے لوگوں کے دلوں کو نفرت سے بھر کر بلادالحرمین سے رخصت کردیتی۔ وہابیت اتنی سختگیریوں اور لوگوں کو متنفر کرنے کے باوجود ان کو وہابیت کی دعوت بھی دیتی ہے جو وہابیت کے عجائب میں سے ہے۔ کیونکہ دنیا کے تمام مذاہب حتی کہ غیر اسلام مکاتب میں تبلیغ کے لئے محبت کے پھول نچھاور کئے جاتے ہیں لیکن یہاں نفرت کے کانٹے بچھائے جاتے ہیں اور پھر تبلیغ کی جرأت بھی کی جاتی ہے، جو باعث حیرت ہے۔
بہر حال ہم میدان عرفات میں بیٹھے تھے کہ اتنے میں جنوب ایشیا کے بعض باشندے ـ جو بظاہر کسی وہابی مدرسے یا پھر کسی تبلیغی مرکز سے وابستہ تھے ـ کتابوں کے بڑے بڑے بستے لے کر عرفات میں پہنچے جہاں انسان احرام کی حالت میں شرعی لحاظ سے مختلف پابندیوں کا سامنا کررہا ہوتا ہے۔ انھوں نے ہر حاجی کو کئی کئی کتابیں دیں جن میں وہابی اسلام کی تعلیمات ہمیں سکھانے کی کوشش کی گئی تھی جبکہ ان ہی دنوں مکہ معظمہ میں ال سعود کے سپاہیوں نے فائرنگ کرکے چھ سو کے قریب نہتے حاجیوں کا قتل عام کیا ہوا تھا۔ بہرحال ان میں سے ایک کتاب میں نے کھولی تو اس میں لکھا ہوا تھا کہ یہاں عرفات اور اے حاجیو! خوشخبری ہو تمہیں کہ آج کے دن خدا عرفات کے اوپرپہلے آسمان پر آکر بیٹھا ہوا ہے اور وہ تمہیں دیکھ رہا ہے اور تمہارے اعمال کی نگرانی کررہا ہے۔ میں نے کئی بار یہ جملہ پڑھا حتی کہ میری غلط فہمی دور ہوگئی اور معلوم ہوا کہ وہابی اسلام کے پیروکار تجسیم کی بظاہر مخالفت کرتے ہیں لیکن باطن میں وہ تجسیم کے قائل ہیں اور ان کا خدا دنیا کے آسمانوں میں اتر کر بیٹھتا ہے۔ سوال یہ تھا کہ اگر وہ دنیا کے آسمان پن اترا کر آیا ہے تو دوسرے آسمانوں کا کیا بنے گا اور زمینوں کا کیا بنے گا کیونکہ اس وقت تو دوسری جگھوں میں خدا نہیں ہے نا۔ معاذاللہ
بہرحال تجسیم کا یہ عقیدہ ابتدائے اسلام سے تھا۔ یہ عقیدہ بھی دوسرے انحرافی عقائد کی مانند موجود تھا حتی کسی وقت یہ عقیدہ شیعیان آل محمد (ص) میں بھی رسوخ کرگیا تھا۔ اہل تشیع میں یہ عقیدہ نمودار ہوا تھا کہ خداوند متعال جسمانیت کا حامل ہے یا یہ کہ خدا کو دیکھا جاسکتا ہے یا نہیں۔
ظاہر ہے کہ شیعہ عقائد مدینۃالعلم (رسول اللہ (ص)) اور باب مدینۃالعلم (امیرالمؤمنین) اور ان کے فرزندوں کے شفاف علی سرچشمے سے منسلک ہونے کے باعث ہمیشہ انحرافات سے دور رہتے تھے اور ہمیشہ اسلام اور پیروان اہل بیت (ع) کے لئے باعث فخر و اعتزاز تھے لیکن کبھی بعض عوامل کی بنا پر ـ جن کا جائزہ لینے کے لئے ای مستقل اور مفصل تحقیق کی ضرورت ہے ـ بعض عقائد نے پیروان آل محمد (ص) میں بھی رسوخ کیا ہے جو تشیع کے اوپر تہمت و بہتان کی بنیاد بن گئے ہیں حالانکہ ان کا تشیع سے کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ دوسرے مکاتب سے تشیع میں نہیں بلکہ تشیع کے بعض پیروکاروں میں درآمد ہوئے ہیں۔ چنانچہ ہمارے ائمہ معصومین علیہم السلام اور ائمہ (ع) کی پیروی کرتے ہوئے ہمارے اکابرین نے ان انحرفات کے خلاف قیام کیا ہے اور تشیع کے مبارک چہرے سے ہر قسم کی دھول دھوتے چلے آئے ہیں۔
یہ سطحی اور درآمد شدہ انحرافات ہی اس بات کا سبب بنے ہیں کہ ہمارے علماۂء بیٹھ کر اس سلسلے میں عظیم علمی کااوشیں خلق کریں۔ مرحوم شیخ صدوق اپنی کتاب "التوحید" کو اس لئے لکھا شروع کیا کہ بعض مخالفین تشیع پر نہایت ناروا اور بہت شدید قسم کے الزمات لگا رہے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ شیعہ تشبیہ اور جبر کے قائل ہیں چنانچہ میں نے کہا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ تشیع جبر و تشبیہ کا قائل ہو! اور میں نے اللہ کا نام لیا اور قربت الہی کی نیت سے اس کتاب کو تالیف کردی جس کا نام ہے " جو تشبیہ اور جبر و تفویض کی نفی میں لکھی گئی ہے۔ (33)
چنانچہ یہ مسئلہ اتنا غیر اہم نہ تھا کہ آئمہ علیہم السلام اس کو نظرانداز کرتے کیونکہ اس طرح کے عقائد درحقیقت توحید کے بنیادی اصول سے متصادم ہیں۔
صقر بن ابی دلف امام ہادی علیہ السلام سے توحید کے بارے میں سوال پوچھتے ہیں اور امام ہادی علیہ السلام کا جواب دیتے ہیں:
"إنَّهُ لَیسَ مِنّا مَنْ زَعَمَ أنَّ اللّه‏َ عَزَّوَجَلَّ جِسْمٌ وَنَحْنُ مِنْهُ بَراءٌ فِی الدُّنْیا وَالاْخِرَةِ، يَابْنَ [أبی] دُلَفِ إنَّ الْجِسْمَ مُحْدَثٌ واللّه مُحدِثُهُ وَمُجَسِّمُهُ" (34)
ترجمہ: جو شخص گمان کرے کہ خداوند متعال جسم ہے اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ہم دنیا اور آخرت میں ان سے بیزار ہیں۔ اے ابی دلف کے فرزند! جسم مخلوق ہے اور وجود میں لایا گیا ہے اور اللہ تعالی خالق ہے اور جسم کو معرض وجود میں لانے والا۔
نیز سہل بن ابراہیم بن محمد ہمدانی سے نقل کرتے ہیں: میں نے امام ہادی علیہ السلام کے لئے لکھا کہ آپ کے محبین توحید میں اختلاف سے دوچار ہوگئے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ خداوند متعال جسم ہے اور بعض دوسرے کہتے ہیں کہ خداوند متعال صورت ہے۔
امام علیہ السلام نے اپنے دست مبارک سے لکھا:
"سُبْحانَ مَنْ لاَ يُحَدُّ وَلا يُوصَفُ، لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَی‏ءٌ وَهوَ السَّمیعُ الْعَلیم"؛ (35)
ترجمہ: پاک و منزہ ہے وہ جس کو محدود نہیں کیا جاسکتا اور [اشیاء کی مانند] اس کی حدیں معین نہیں کی جاسکتیں، کوئی شیئے بھی اس کی مانند نہیں وہ بہت زیادہ سننے والا اور بہت زیادہ دیکھنے والا ہے۔
کیا خدا کو دیکھا جاسکتا ہے؟
بعض لوگوں کے کلام سے نتیجہ لیا جاسکتا ہے کہ گویا ان کہ عقیدہ تھا کہ خداوند متعال کو دیکھا جاسکتا ہے اور انسان اپنی آنکھوں سے اس کو دیکھ سکتا ہے۔
ائمہ طاہرین علیہم السلام نے اس قسم کی سوچ کا بھی مقابلہ کیا۔
امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ (ع) نے فرمایا:
"جاءَ حِبْرٌ إلی أمیرِ الْمُؤْمِنینَ علیہ‏السلام فَقالَ: یا أَمیرَ الُؤْمِنینَ هلْ رَأَيْتَ رَبَّكَ حینَ عَبَدْتَهُ؟ فَقالَ وَيْلَكَ ما كُنْتُ اَعْبُدُ رَبّا لَمْ اَرَه۔ قالَ: وَكَيْفَ رَأَيْتَهُ؟ قالَ وَيْلَكَ لاَ تُدْرِكُهُ الْعُيُونُ فی مُشاهِدَةِ الاَْبْصارِ وَلكِنْ رَأَتْهُ الْقُلُوبُ بِحَقائِقِ الاْیمانِ"۔ (36)
ترجمہ: ایک حبر (یہودی عالم) امیرالمؤمنین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا: کیا آپ نے عبادت کے وقت خدا کو دیکھا ہے؟
امیرالمؤمنین علیہ السلام: وائے ہو تم پر! میں نے ایسے خدا کی عبادت نہیں کی ہے جس کو میں نے دیکھا نہ ہو۔
حبر: آپ نے خدا کو کس طرح دیکھا؛ (خدا کو دیکھنے کی کیفیت کیا تھی)۔
امیرالمؤمنین علیہ السلام: وائے ہو تم پر آنکھیں دیکھتے وقت اور نظر ڈالتے وقت اس کا ادراک نہیں کرسکتیں لیکن دل (قلوب) حقیقت ایمان کی مدد سے اس کا ادراک کرتے ہیں۔
احمد بن اسحق نے امام ہادی علیہ السلام کے لئے خط لکھا اور آپ (ع) سے اللہ کی رؤیت کے بارے میں پوچھا اور اس سلسلے میں لوگوں کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کی طرف اشارہ کیا تو حضرت امام ہادی علیہ السلام نے جواب میں تحریر فرمایا:
"لا یجوز الرؤیة ما لم یکن بین والمرئی هواء ینفذه البصر، فإذا انقطع الهواء وعدم الضیاء بین الرائی والمرئی لم تصح الرؤیة وکان فی ذلک الاشتباه لان الرائی متی ساوی المرئی فی السبب الموجب بینهما فی الرؤیة وجب الاشتباه وکان فی ذلک التشبیه، لان الاسباب لابد من اتصالها بالمسببات"۔ (37)
ترجمہ: رؤیت (دیکھنا) ممکن نہیں ہے جب تک دیکھنے والے اور دیکھے جانے والے کے درمیان ہوا اور فضا نہ ہو ایسی ہوا جس میں انسان کی نظریں نفوذ کریں اور جب تک دیکھنے والے اور دیکھے جانے والے کے درمیان روشنی نہ ہو تو دیکھنے کا عمل انجام نہیں پاتا [اور پھر دیکھنے والے اور دیکھے جانے والے کو ایک ایسے مقام پر متعین ہونا چاہئے جہاں وہ جگہ گھریں تا کہ دیکھنے کا عمل انجام پاسکے اور اگر دونوں ایک مقام پر جگہ گھریں تو دونوں ایک دوسرے کی مانند اور دونوں محدود ہونگے اور] اور اس عمل میں اشتباہ اور شباہت کا واقع ہونا لازم آئے گا کیونکہ جب دیکھنے والا سبب یعنی وسیلۂ رؤیت کے حوالے سے برابر ہونگے تو اس بھی اشتباہ اور شباہت کا واقع ہونا لازم آئے گا اور اسی میں تشیبہ ہے کیونکہ اسباب کے لئے مسببات کے ساتھ متصل ہونا ضروری ہے۔
یہاں امام ہادی علیہ السلام کے کلام شریف کا ماحصل ـ حق تعالی کی رؤیت کے امتناع کو ثابت کرنے کے لئے ـ قیاس استنثنائی (Exceptive Syllogism) ہے اور یوں کہ "اگر حق تعالی قابل رؤیت ہوں تو خدا اور رائی (دیکھنے والے) کے درمیان ہوا اور روشنی ہوگی کیونکہ ہوا اور روشنی رؤیت کے وسائل و شرائط ہیں پس رؤیت ان وسائل اور شرائط کے بغیر ممکن نہیں ہے جس طرح کہ یہ دوسرے وسا‏ئل اور شرائط کے بغیر بھی ناممکن ہے اور اس کے سوا رؤیت باطل ہے چنانچہ اللہ تعالی کی رؤیت کا نظریہ ناممکن ہے کیونکہ اس میں تشابہ لازم آتا ہے دیکھنے والے اور دیکھے جانے والے کے درمیان یعنی یہ کہ وہ دونوں مرئی (اور قابل رؤیت) ہیں اور دونوں رؤیت کا اسباب و وسائل میں ایک دوسرے کے برابر ہیں کہ وہ دونوں جگہ گھریں اور دونوں ایک دوسرے کے سامنے والی سمتوں میں ہوں اور ان کے درمیان ہوا اور روشنی ہو چنانچہ اس لحاظ سے ایک جسم رکھنے والے رائی اور اللہ تعالی کے درمیان تشابہ لازم آئے گا اور اللہ تعالی کے لئے جگہ گھرنے کا تصور لازم لائے گآ اور اللہ تعالی پاک و منزہ اور برتر و بالاتر ہے ان اوصاف سے۔ اور ہاں یہ کہنا بھی ممکن نہیں ہے کہ خدا کو اس سبب کے بغیر دیکھا جاسکتا ہے۔
اللہ کی عظمت و معرفت
"إلهی تاهتْ اَوْهامُ الْمُتَوَهمینَ وَقَصُرَ طُرَفُ الطّارِفینَ وَتَلاشَتْ اَوْصافُ الْواصِفینَ وَاضْمَحَلَّتْ اَقاویلُ الْمُبْطِلینَ عَنِ الدَّرَكِ لِعَجیبِ شَأْنِكَ أَوِ الْوُقُوعِ بِالْبُلُوغِ اِلی عُلُوِّكَ، فَاَنْتَ فىِ الْمَکانِ الَّذی لا يَتَناهی وَلَمْ تَقَعْ عَلَيْكَ عُيُونٌ بِاِشارَةٍ وَلا عِبارَةٍ هيْهاتَ ثُمَّ هَيْهاتَ یا اَوَّلىُّ، یا وَحدانىُّ، یا فَرْدانِىُّ، شَمَخْتَ فِی الْعُلُوِّ بِعِزِّ الْكِبْرِ، وَارْتَفَعْتَ مِنْ وَراءِ كُلِّ غَوْرَةٍ وَنَهايَةٍ بِجَبَرُوتِ الْفَخْرِ"؛ (38)
ترجمہ: بار پروردگارا! توہم کا شکار لوگوں کے گماں بھٹک گئے ہیں اور دیکھنے والوں کی نظروں کا عروج [تیرے اوصاف] تک نہیں پہنچ سکا ہے، اور توصیف کرنے والوں کی زبان عاجز ہوچکی ہے اور مبطلین [حق کو باطل کرنے کے لئے کوشاں لوگوں] کے دغوے نیست و نابود ہوگئے ہیں کیونکہ تیرا جاہ و جلال اور تیری شان و شوکت اس سے کہیں بالاتر ہے کہ انسانی عقل اس کا تصور کرسکے۔
تو جہاں ہے اس کی کوئی انتہا نہیں ہے اور کوئی آنکھ تیری طرف اشارہ نہیں کرسکتی اور تجھ کو نہیں پاسکتی اور کسی عبارت میں تیری توصیف کی اہلیت و توانائی نہیں ہے؛ کس قدر بعید ہے کس قدر بعید ہے [حواس انسانی کے ذریعے تیرا ادراک] اے پورے عالم وجود کا سرچشمہ! ای واحد و یکتا! تو اپنی عزت اور کبریائی کے لباس میں ہر قوت سے بالا تر اور ماوراء تر ہے اور ہر متفکر و مفکر کی زد سے برتر و بالاتر ہے۔ (39)

 

حوالہ جات:

٭۔ اس مجموعۂ موضوعات میں بعض اضافات کئے گئے اور اس کے بیشتر موضوعات کے بارے میں تحقیق کی گئی اور انہیں Authentic اور قابل استناد بنایا گیا۔ / مترجم
1. ارشاد، مفید، بیروت، دارالمفید، 211 من سلسلہ مؤلفات الشیخ المفید، ص297.
2. مناقب آل ابی‏طالب، ابن شہر آشوب، انتشارات ذوی‏القربی، ج1، 1379، ج4، ص432.
3. جلاء العیون، ملامحمدباقر مجلسی، انتشارات علمیہ اسلامیہ، ص568.
4. مناقب، ص432.
5. ارشاد شیخ مفید، ص432.
٭٭۔ شیخ مفید، ارشاد، ص327.
6. مناقب، ص433.
7. مناقب، ص433.
8. مناقب، ص433؛ ارشاد، ص297.
9. ارشاد، ص297.
10. اعلام الوری، طبرسی، دارالمعرفہ، ص339.
11. مناقب، ص433.
12. تحف العقول، ابن شعبہ حرّانی، مؤسسة الاعلمی للمطبوعات، صص339 ـ 338.
13. تحف العقول ، ص340.
14. تحف العقول. انسان نہ مجبور ہے نہ ہی اللہ نے اپنے اختیارات اس کو سونپ دیئے ہیں بلکہ امر ان دو کے درمیان ہے یا درمیانی رائے درست ہے۔
15. تحف العقول.
16. معنی این کلام، این است کہ اگر قائل بہ جبر شویم، باید بگوییم کہ ـ العیاذ باللّہ‏ ـ خداوند، ظالم است، در حالی کہ خود قرآن می‏فرماید: «وَلا يَظْلِمْ رَبُّكَ اَحَدا» (کہف/49).
17. تحف العقول صفحہ 371.
18. کہف/49.
19. حج/10.
20. تحف العقول صفحہ 461. اما الجبر الذی
21. تحف العقول صفحہ 463.
22. تحف العقول صفحہ 464.
23. تحف العقول صفحہ 465۔
24. اختیار معرفة الرجال، طوسی، تصحیح و تعلیق حسن مصطفوی، ص102.
25. الطبقات الکبری، ابن سعد، دار صادر، ج5، ص214. امام سجاد علیہ السلام سے تاریخ دمشق میں بھی ایک روایت نقل ہوئی ہے جو کچھ یوں ہے: أحبونا حب الإسلام ولا تحبونا حب الأصنام ! فما زال بنا حبکم حتی صار علینا شیناً )! (تاریخ دمشق:41/392) ترجمہ: ہم سے اسلامی اصولوں اور تعلیمات کی بنیاد پر محبت کرو اور ہم سے بت پرستوں کی مانند محبت نہ کرو کیونکہ تمہاری اس حد تک بڑھ گئی کہ ہمارے لئے شرم کا باعث ہوگئی۔ [یہاں بھی غلو اور محبت میں حد سے تجاوز کرنے کی مذمت مقصود ہے]۔
26. بحار الانوار، ج25، ص346.
27. بحار الانوار، ج25، ص346.
28. پیشوایی، سیرہ پیشوایان، ص603.
29. اختیار معرفة الرجال (رجال کشی)، صص518 ـ 516.
30. رجال کشی ، ص518.
31. رجال کشی ، ص520.
32. رجال کشی ، ص524.
33. رجال کشی ، صص18 ـ 17.
34. بحارالانوار جلد 3 صفحہ 291.
35۔ اصول کافی جلد 1 صفحہ: 136 روایة: 5
36. توحید، شیخ صدوق ص109، ح6.
37. التوحید ص109، ح7. اصول کافی جلد 1 ص 30 ؛حدیث 5)
38. التوحید ، ص66، ح19.
39. ترجمہ از کتاب زندگانی امام علی الہادی علیہ‏السلام ، باقر شریف قرشی، دفتر انتشارات اسلامی، ص112۔

مؤلف: حسین مطہری محب

 

حضرب امام ھادی (ع ) کی تاریخ ولادت کے بارے میں بعض مورخین نے ان کی ولادت 15 ذی الحجہ اور بعض نے 2 یا 5 رجب بتائي ھے، اسی طرح ولادت کے سال کے بارے میں بھی بعض نے 212 ھجری قمری اور بعض نے 214 ھ بیان کیا ھے(1)


رجب میں امام ھادی علیہ السلام کی پیدایش کی ایک دلیل

دعای مقدسہ ناحیہ ھے، جس میں اس جملہ کا استعمال ھوا ھے کہ: "الھم انی اسلک باالمولودین فی رجب ، محمد بن علی الثانی و ابنہ علی ابن محمد المنتجب"(2)
آپ کا نام گرامی علی اور لقب ،ھادی، نقی ۔ نجیب ،مرتضی ، ناصح ،عالم ، امین ،مؤتمن ، منتجب ، اور طیب ھیں، البتہ ھادی اور نقی معروف ترین القاب میں سے ھیں،آنحضرت کی کنیت " ابو الحسن " ھے اور یہ کنیب آنحضرت کے علاوہ دوسرے تین اماموں یعنی امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام،امام موسی ابن جعفر علیہ السلام ،امام رضا علیہ السلام کی ھے، لیکن کنیت(ابو الحسن) کا تعین اور تمیز امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے لۓ مخصوص ھے اور امام موسی بن جعفر علیہ السلام کو ابو الحسن اول ،امام رضا علیہ السلام کو ابو الحسن الثانی، اور امام علی النقی علیہ السلام کو ابو الحسن الثالث کہا جاتا ھے(3)


امام دھم کے والد گرامی کا نام

حضرت امام محمد تقی علیہ السلام اور والدہ ماجدہ کا نام سمانہ مغربیہ ھے،
امام ھادی علیہ السلام نے اپنی والدہ کے بارے میں فرمایا: میری والدہ میری نسبت عارفہ اور بھشتیوں میں سے تھی، شیطان کبھی بھی اس کے نزدیک نہیں جا سکتا اور جابروں کے مکر و فریب اس تک نہیں پہنچ سکتے، وہ اللہ کی پناہ میں ھے جو سوتا نھیں اور وہ صدیقین اور صالحین کی ماؤں کو اپنی حالت پر نھیں چھوڑتا" (4)
امام علی النقی الھادی علیہ السلام کی ولادت مدینہ منورہ کے ایک گاؤں " صریا " میں ھوئی،صریا مدینہ منورہ سے تین میل کے فاصلے پر واقع ہے کہ جسے امام موسی ابن جعفر نے آباد کیا اور کئ سالوں تک آنحضرت کی اولاد کا وطن رھا ھے


حضرت امام علی النقی علیہ سلام جو کہ ھادی اور نقی کے لقب سے معروف ہیں 3 رجب اور دوسری قول کے مطابق 25 جمادی الثانی کو سامرا میں شھید کۓ گۓ،(5)
امام علی النقی علیہ سلام نے ذیقعدہ سن 220 ھجری میں جب انکے والد گرامی" نویں امام" شھید کۓ گۓ میراث امامت کے اعتبار سے آپ امامت کے منصب پر فائز ھوۓ،
شایان ذکر ھے کہ جب امام ھادی(ع) امامت کے منصب پر فائز ھوۓ توآنحضرت کی عمر 8 سال 5 مھینے سے زیادہ نہ تھی،آپ(ع) اپنے والد کے مانند بچپن میں ہی امامت کےعظیم الھی منصب پر فائز ھوۓ،
حضرت امام علی النقی علیہ سلام کا دور امامت،6 عباسی خلیفوں( معتصم ، واثق، متوکل ،منتصر ،مستعین ، اور معتز کے ھمعصر تھا۔

 

 

امام علی النقی علیہ سلام کے ساتھ ان خلیفوں کا سلوک مختلف تھا جن میں سے کسی نے امام کے ساتھ اچھا سلوک کیا تو کسی نے حسب معمول برا ، البتہ سب کے سب خلافت کو غصب کرنے اور امامت کو چھیننے میں متفق اور ھم عقیدہ تھے،جن میں سے متوکل عباسی (دسواں عباسی خلیفہ)اھل بیت اور خاندان امامت و علوی کے نسبت سب سے زیادہ دشمنی رکھنے میں نامدار تھا اور ھر طریقے سے انکو آزار و اذیت پھچانے میں کوئی کسر باقی نھیں چھوڑی ، حد تو یہ تھی کہ ا‏ئمہ ھدی کی ھر یاد گار کو مٹانا چاھتا تھا، اماموں کی قبروں کو خراب کیا ، خاص کر قبر مطھر سید الشھدا حضرت امام حسین علیہ سلام اور اس کے اطراف کے تمام گھروں کو ویران کرنے اور وھاں کھیتی باڑی کرنے کا حکم دیا۔ (6)
متوکل نے امام کو سن 243 ھجری میں مدینہ منورہ سے نکلوا کر سامرا نقل مکانی کروائی اسطرح آنحضرت کو اپنے آبائی وطن سے دور کیا۔(7)
ان 6 عباسی خلیفوں میں سے صرف منتصر عباسی ( گیارواں عباسی خلیفہ ) نے اپنے باپ متوکل کی ھلاکت کے بعد اپنی مختصر دور خلافت میں علویوں اور خاندان امامت و رسالت کے ساتھ قدرے نیک سلوک کیا،جبکہ جو مظالم عباسی خلیفوں نے ان پر ڈھاۓ ناقابل تھا،
حضرت امام علی النقی علیہ سلام کو سامرا " عباسیوں کے دار الخلافہ" میں 11 سال ایک فوجی چھاونی میں جلا وطنی کی حالت میں رکھا گیا اور اس دوران مکمل طور پر اپنے دوستوں کے ساتھ ملاقات کرنے سے محروم رکھا گیا۔ آخر کار 3 رجب اور دوسری روایت کے مطابق 25 جمید الثانی سن 254 ھجری میں معتز عباسی کی خلافت کے دور میں خلیفہ کے بھای معتمد عباسی کے ھاتھوں زھر دے کر شھید کیا گیا،
شھادت کے وقت امام علیہ سلام کے سر ھانے انکے فرزند حضرت امام حسن عسکری علیہ سلام کے سوا کوئي نہ تھا،

حضرت امام حسن عسکری علیہ سلام  اپنے والد گرامی کی شھادت پر بہت روۓ اور گریبان چاک کیا اور آنحضرت کا خود ھی غسل دیا کفن اور دفن کیا، اور کچھ نادان اور متعصب لوگوں نے حضرت امام حسن عسکری علیہ سلام کی تنقید کی کہ انھوں نےکیوں گریبان چاک کیا؟ ، آنحضرت نے انکو جواب دیا کہ" آپ احکام خدا کے بارے میں کیا جانتے ھیں؟ حضرت موسی بن عمران علیہ سلام نے اپنے بھائی ھارون علیہ سلام کے ماتم میں گریبان چاک کیا" (8)

امام ھادی علیہ سلام کا جنازہ نھایت شان سے اٹھا، اھل بیت اطھار کے چاھنےوالوں ، فقیھوں ، قاضیوں، دبیروں اور امیروں کے علاوہ خلیفہ کے دربار کے بزرگوں نے شرکت کی اور امام کواپنے ایک حجرہ میں دفن کیا گیا،(9)
اس وقت آنحضرت کا مرقد مطھر شھر سامرا میں ھے جھاں آپ (ع) کے جوار میں آپکے فرزند حضرت امام حسن عسکری علیہ سلام ، انکی بھن حکیمہ خاتون امام جواد علیہ سلام کی بیٹی اور امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ شریف کی والدہ ماجدہ نرگس خاتون دفن ھیں،

 

 

مدارک اور ماخذ :

1 {الارشاد (شیخ مفید)، ص 635؛ کشف الغمہ ( علی ابن عیسی اریلی) ج،3، ص،23 ؛ مننتھی الامال ( شیخ عباس قمی)، ج 2 ، ص،361؛ الکافی ( شیخ کلینی) ، ج 1، ص،497؛ وقایع الایام ( شیخ عباس قمی)،ص497}
2 {مفاتیح الجنان، ماہ رجب کی چٹی دعای }
3 {منتھی الامال،ج2،ص،361؛وقایع الایام، ص 296}
4 { منتھی الامال ج2 ، ص 361 }
5 الارشاد (شیخ مفید)، ص 649؛ منتہی الآمال (شیخ عباس قمی)، ج2، ص 384.
6 منتہی الآمال، ج2، ص 383.
7_ منتہی الآمال، ج2، ، ص 377 و الارشاد، ص 646.
8_ منتھی الآمال، ج2، ص 385.
9_ نک: الارشاد، ص 635؛ کشف الغمہ (علی بن عیسی اربلی)، ج3، ص

1 – مذہب کے بارے میں تحقیق کیوں ؟

اللہ نے بہترین راستہ اختیار کرنے والوں کو بشارت دی ہے ۔

اللہ کا ارشاد گرامی ہے :

{فَبَشِّرْ عِبَادِي * الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ أُوْلَئِكَ الَّذِينَ هَدَاهُمْ اللهُ وَأُوْلَئِكَ هُمْ أُوْلُوا الاَلْبَابِ} الزمر: 17 – 18

اے پیغمبر !آپ میرے ان بندوں کو بشارت دیں کہ جو مختلف باتوں کو سنتے ہیں اور جو بات اچھی ہوتی ہے اس کا اتباع کرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جنہیں خدا نے ہدایت دی ہے اور یہی وہ لوگ ہیں جو صاحبانِ عقل ہیں۔

 فرقہ ناجیہ کا گمراہ اور باطل فرقوں سے انتخاب :

شیعہ اور اھل سنت کے ہاں نقل شدہ معتبر روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : «وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ مِلَّةً كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلَّا مِلَّةً وَاحِدَةً». میری امت ۷۳ فرقوں میں بٹ جائے گی اور ان میں ایک کے علاوہ باقی سب جہنمی ہوں گے ۔

سنن الترمذي : ج 4 ص 135 ح 2779 .

كليني کہ جو شیعوں کا بہت بڑا عالم ہیں آپ  امام باقر عليه السلام سے اپنی کتاب میں نقل کرتے ہیں کہ امت ۷۳ فرقوں میں تقسیم ہوگی : «اثْنَتَانِ وسَبْعُونَ فِرْقَةً فِي النَّارِ وفِرْقَةٌ فِي الْجَنَّةِ» ان میں سے ۷۲ فرقے جہنم میں اور ایک فرقہ جنت میں جائے گا ۔

كافي: ج8 ص224 .

لہذا رسول اللہ صلی علیہ و آلہ وسلم کے اس نورانی کلام کی رو سے ہمیں ناجی اور اھل حق فرقے کی پہچان اور اس کی پیروی کرنی چاہئے ۔

2 – شیعوں کا فرقہ ناجیہ ہونے کے بارے میں پیغمبر صلی ‌الله عليه وآله کی احادیث سے استدلال ؛

قیامت کے دن بشارت :

پیغمبر صلي الله عليه واله وسلم نے اميرالمؤمنين علي عليه السلام کی طرف اشارہ کر کے فرمایا: «وَالَّذِي نَفْسِي بِيِدِهِ إِنَّ هَذَا وشيعَتَهَ لَهُمُ الفَائِزُونَ يَوْمَ القِيَامَةِ» اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے (علي عليه السلام) اور ان کے شیعہ ہی قیامت کے دن کامیاب ہوں گے .

 فتح القدير ج 5 ص 477

حضرت علي عليه السلام کے شیعوں کو بہشت کی بشارت :

ابن مَرْدَوَيْه نے حضرت علي عليه السلام سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا : اس امت کے ۷۳ فرقے ہوں گے سب جہنم میں چلے جائیں گے سوای ایک کے «وَوَاحِدَةٌ فِي الْجَنَّةِ وَهُمْ أَنَا وَشِيْعَتِي» ایک فرقہ بہشت میں جائے گا اور وہ میں اور میرے شیعہ ہوں گے ۔   مناقب ابن مردويه ص44.

اهل بيت  نجات کی کشتی ہیں  :

حاكم نيشابوري نے رسول اكرم صلی ‌الله عليه وآله سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا : مَثَلُ أَهْلٍ بَيْتِي مَثَلُ سَفِينَةِ نُوحٍ ، مَنْ رَكِبَهَا نَجَا ، وَمَنْ تَخَلَّفَ عَنْهَا غَرِقَ» میرے اھل بیت کی مثال حضرت نوح کی کشتی کی ہے ،جو اس میں سوار ہوگا وہ نجات پائے گا، جو اس میں سوار نہیں ہوگا وہ گمراہی کے دریا میں غرق ہوگا۔

حاكم نيشابوري کہتا ہے : یہ روایت صحیح ہے اور صحیح مسلم کی شرائط کے مطابق ہے .

مستدرك ج 2 ص 343.

–قرآن و سنت سے امامت الهي اور علي عليه السلام  کی خلافت بلا فصل ہونے کے دلائل ۔

آيه ولايت:

{إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ ءَامَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَوةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَوةَ وَهُمْ رَ كِعُونَ} .

المائدة : 55.

ایمان والو بس تمہارا ولی اللہ ہے اور اس کا رسول اور وہ صاحبانِ ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوِٰ دیتے ہیں۔

  اهل سنت کے بزرگ علماء نے مجاهد سے یہ روایت نقل کی ہے {إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ} نَزَلَتْ فِي عَلي بن أبي طالب تَصَدَّقَ وَهُوَ راكِعٌ. جس وقت علی ابن ابی طالب حالت رکوع میں تھے اور آپ نے حالت رکوع میں صدقہ دیا تو یہ آیت آپ کی شان میں نازل ہوئی  تفسير الطبري ج 6 ص 390

اسی طرح  ابن ابي حاتم از عتبه بن ابي حکيم نے اسی مطالب کو نقل کیا ہے .تفسير ابن أبي حاتم ج 4 ص1162 .

ابن تيميه ان دو تفاسیر کے بارے میں کہتا ہے : تفاسيرهم متضمّنة للمنقولات التي يعتمد عليها في التفسير  طبري اور ابن ابي حاتم کی تفاسیر  ایسی تفاسیر میں سے ہیں کہ کہ جن میں ایسی احادیث اور باتیں موجود ہیں کہ جن پر قرآن کی تفسیر کے لئے اعتماد کیا جاسکتا ہے ۔

آلوسي سلفي کہتا ہے: « وغالب الأخباريّين على أنّ هذه الآية نزلت في ‌علي‌» اکثر اخباریوں کا یہ نظریہ ہے کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کے بارے نازل ہوئی ہے .تفسير روح المعاني ج6ص167.

اسی طرح آلوسی کہتا ہے: «والآية عند معظم المحدثين نزلت في علي» اکثر محدثین کا یہ نظریہ ہے کہ آیت، علي بن ابي طالب کے بارے نازل ہوئی ہے .

تفسير روح المعاني ج6ص186.

آيه ابلاغ:

{يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا اُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ} المائدة: 67.

اے پیغمبر ! آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا کہ اللہ کافروں کی ہدایت نہیں کرتا ہے۔

اھل سنت کے بڑے عالم ابن ابي حاتم نے ابو سعيد خُدْرِي سے نقل کیا ہے  : «نزلت هذه الآية . . . في علي بن أبي طالب» یہ آيه ابلاغ حضرت علی ابن ابی  طالب علیہ السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

تفسير ابن أبي حاتم ج 4 ص1172.

آلوسی کہ جو اھل سنت ہی بڑے علماء سے ہیں۔ انہوں نے عبد الله بن مسعود کی یہ روایت نقل کی ہے کہ ہم  رسول الله صلي الله عليه وآله کے زمانے میں  اس آیت کی اس طرح سے تلاوت کرتے تھے : «بَلِّغْ مَا اُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ إنّ عليّاً وليُّ المؤمنين وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ» یہ جو چیز آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل ہوئی ہے "علی مومنوں کے ولی ہیں " اس کو لوگوں تک پہنچائے اگر ایسا نہیں کیا تو گویا آپ نے رسالت کے کام کو نہیں پہنچایا۔

روح المعاني ج6 ص193

سيوطي ،شوكاني ، محمد رشيد رضا وغیرہ نے بھی اس حدیث کو نقل کیا ہے .

الدر المنثور ج2ص298 و فتح القدير ج 2 ص60 والمنار: ج 6ص463 .

آيه اکمال دين:

{أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمْ الاِسْلاَمَ دِيناً}. المائدة: 3

-آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا ہے اور اپنی نعمتوں کو تمام کردیا ہے اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسندیدہ بنادیا ہے.

خطيب بغدادي کہ جو اهل سنت کے بڑے علماء میں سے ہیں ،انہوں نے ابوهريره سے نقل کیا ہے : غدير خم کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علي بن ابي طالب علیہ السلام کے ہاتھ کو پکڑ کر فرمایا : «أَلَسْتُ وَلِيَّ المُؤْمِنِين؟» کیا میں مومنوں کے ولی اور ان کا سرپرست نہیں ہوں؟ سب نے کہا جی ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم! ۔ اس وقت آپ نے فرمایا : «مَنْ كُنْتَ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ» جس کا میں مولی ہوں علی اس کا مولا ہیں  . اس کے بعد عمر بن خطاب نے کہا  : اے ابو طالب کے فرزند مبارک ہو مبارک ہو ، آپ میرے اور سارے مسلمانوں کے ولی بن گئے  اور پھر یہ آیت نازل ہوئی "آج آپ کے دین کو ہم نے کامل کیا (اس روایت کی سند معتبر ہے )

تاريخ بغداد ج8 ص284

ابن کثير کی نقل کردہ روایت کے مطابق عمر بن خطاب نے کہا : «أَصْبَحْتَ الْيَومَ وَلِيَّ كُلِّ مُؤْمِنٍ» يا علي! آج کے بعد آپ تمام مومنوں کے ولی بن گئے.

البداية والنهاية ج 7 ص350 .

سنت اور ادله امامت الهي و خلافت بلا فصل علي عليه السلام ۔

حديث ولايت:

حاكم نيشابوری کہ جو اھل سنت کے بڑے علماء میں سے ہیں،انہوں نے  پیغمبر صلي الله عليه وآله کی یہ روایت نقل کی ہے : «إنَّ عَلِيّاً مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ وَهُوَ وَلِيُّ كُلِّ مُؤْمِنٍ بَعْدِي» علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ، علی میرے بعد تمام مومنین کے ولی ہیں ۔

یہ روایت مسلم کی شراط کے مطابق صحیح ہے اسی طرح ذھبی نے بھی اس کو صحیح قرار دیا یے .

مستدرك ج 3 ص 110

وهابي فکر والے بڑے عالم آلبانی نقل کرتا ہے کہ پیغمبر صلی الله عليه وآله نے  اميرالمؤمنين عليه السلام سے خطاب میں فرمایا : «أَنْتَ وَلِيُّ كُلِّ مُؤْمِنٍ وَمُؤْمِنَةٍ» تم میرے بعد تمام مومنین مرد اور عورتوں کے ولی ہیں. حاکم  اور ذهبي نے اس  روايت کو صحیح قرار دیا ہے  جب ان دو نے کہا ہے تو اس روایت کی سند صحیح ہے۔

السلسلة الصحيحة ، ج 5 ص263 . المستدرك ج3 ص133.

حديث الخلافة :

ابن أبي عاصم کہ جو اھل سنت کے بڑے علماء میں سے ہیں،انہوں نے پیغمبر صلی الله عليه وآله کی اس حدیث کو نقل کیا ہے کہ آپ نے اميرالمؤمنين سے خطاب میں فرمایا : «وَأنْتَ خَلِيفَتِي فِي كُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ بَعْدِي» آپ میرے بعد میرا جانشین اور تمام مومنوں کے ولی ہیں ۔

 كتاب السنة 551 .

 

وھابی عالم آلبانی نقل کرتا ہے : پیغمبر صلی الله عليه وآله نے اميرالمؤمنين سے خطاب میں فرمایا : «لَا يَنْبَغِي اَنْ اَذْهَبَ اِلَّا وَأَنْتَ خَلِيفَتِي» سزاوار نہیں ہے کہ میں جاوں مگر یہ کہ آپ میرا جانشین ہو ۔  الباني کہتا ہے کہ : حاکم اور ذهبي نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے ۔جس طرح سے ان دو نے اس کو صحیح قرار دیا ہے ،یہ صحیح ہے ۔

سلسلة الصحيحة ج 5 ص263 .

حديث امامت:

حاكم نيشابوري نے نقل کیا ہے کہ پیغمبر صلی الله عليه وآله نے فرمایا : مجھ پر وحی نازل ہوئی ہے کہ «علي إمام المتقين» علی متقین کے امام ہیں. اس روايت کی سند بھی صحیح ہے .

مستدرك حاكم ج3 ص133 .

خوارزمي کہ جو اهل سنت کے علماء میں سے ہے ،انہوں نے رسول اللہ  صلی ‌الله عليه وآله، سے نقل کیا ہے کہ آپ نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا : «أَنْتَ إِمَامُ كُلِّ مُؤْمنٍ وَمُؤْمِنَةٍ» آپ تمام مومن مردوں اور مومنہ عورتوں کے امام ہیں .  مناقب ص 61.

امام باقر عليه السلام نے آیت ولاية ، آیت ابلاغ  اور آیت  اكمال کے ذریعے سے امام علی علیہ السلام کی ولایت اور خلافت پر استدلال کیا ۔

كليني نے صحیح سند نقل کیا ہے کہ امام باقر عليه السلام نے فرمایا : اللہ نے رسول اكرم صلی الله عليه وآله کو ولايت علي عليه السلام کے اعلان کا حکم دیا ، سوره مائده آيه 55 ، {إِنَّما وَلِيُّكُمُ‏ اللَّهُ...} کو نازل کیا «وفَرَضَ وَلَايَةَ أُولِي الْأَمْرِ» اور اولی الامر کی ولایت کو ضروری قرار دیا۔

اسی طرح سوره مائده کی آيه 67 میں فرمایا  «يا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ‏ مِنْ رَبِّكَ» اس میں آپ کو یہ حکم دیا کہ آپ جو بات آپ پر وحی ہوئی ہے وہ آپ لوگوں تک پہنچائے اور  رسول اللہ صلی ‌الله عليه وآله نے بھی اللہ کے حکم کو عملی جامعہ پہنایا « فَقَامَ بِوَلَايَةِ عَلِيٍّ × يَوْمَ غَدِيرِ خُمٍّ» اور غدیر کے دن علي عليه السلام کی ولایت کا اعلان فرمایا اور یہ حکم دیا کہ اس حکم کو جو غائب ہیں ان تک پہنچائے .

پھر امام باقر عليه السلام نے فرمایا : اور اس آخری واجب کو کہ جو حضرت علي عليه السلام کی ولایت تھا، سوره مائده کی آیت نمبر ۳ کی نزول کے بعد کامل کیا ،{الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ‏ وأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي} آج آپ کے دین کو کامل کیا اور آپنی نعمتوں کو آپ پر کامل کیا «قَدْ أَكْمَلْتُ لَكُمُ الْفَرَائِضَ» در حقیقت سارے واجبات کو آپ پر مکمل کیا ۔كافي، ج1، ص 289 ح 4.

4 - اگر حضرت علي عليه السلام خليفه بلافصل ہوتے تو کیا ہوتا؟

علي عليه السلام كتاب اور  سنت پر عمل کرنے کا زمینہ فراہم کرتے :

اهل سنت کے علماء میں سے ابن شُبّه نُمَيري نے خليفه دوم سے نقل کیا ہے  ابن عباس نے نقل کیا ہے : إنَّ أَحْراهُمْ إنْ وَلِيَهَا أَنْ يَحْمِلَهُمْ عَلَى كِتَابِ اللّهِ وَسُنَّةِ نَبِيِّهِمْ صَاحِبُكَ، يَعِنِي عَلِيّاً. جو شخص مسلمان کو قرآن اور سنت کے مطابق عمل کرانے کے لئے سب سے زیادہ مناسب اور اھلیت رکھتا ہے ، وہ آپ کے  دوست علی ابن ابی طالب ہیں ،

تاريخ المدينة المنورة ج 3 ص 883.

لوگوں کو صراط مستقم کی طرف دعوت دینے کا باعث بنتے :

حنبلي فرقے کے بڑے امام ، احمد بن حنبل نے رسول اللہ صلی الله عليه وآله سے صحیح سند روایت نقل کیا ہے : واِن تُؤَمِّرُوا عَلِيًّا رضي الله عنه وَلاَ أُرَاكُمْ فَاعِلِينَ يَأْخُذُ بِكُمُ الطَّرِيقَ الْمُسْتَقِيمَ.

اگر علي کو  امير (المؤمنين) قرار دئے تو { اگرچہ میں جانتا ہوں ایسا نہیں کروگے  }  تو آپ سب لوگوں کو ہدایت کی راہ پر لے جاتے ۔

مسند أحمد ج 1 ص 537.

ابو نعيم اصفهاني کہ جو اهل سنت کے بڑے علماء میں سے ہے انہوں نے  رسول اللہ  صلی الله عليه وآله سے نقل کیا ہے : «إِنْ تَسْتَخْلِفُوا عَلِيّاً وَمَا أَرَاكُمْ فَاعِلِينَ تَجِدُوهُ هَادِياً مَهْدِيّاً ، يَحْمِلُكُمْ عَلَى الْمَحَجَّةِ الْبَيْضَاءِ». آگر علی کو اپنا خلیفہ قرار دئے آگرچہ میں جانتا ہو تم لوگ ایسا نہیں کرو گے، تو تم لوگ ان کو ہدایت کرنے والے اور اھل ہدایت پاتے یہ  تم لوگوں کو روشن اور سیدھے راستے پر چلاتے ۔

حلية الأولياء ج 1 ص 64.

اسلامی اتحاد کا موجب بنتے :

حاكم نيشابوري نے رسول اللہ صلی الله عليه وآله سے نقل کیا ہے کہ علي عليه السلام سے فرمایا : «أَنْتَ تُبَيِّنُ لِأُمَّتِي مَا اخْتَلَفُوا فِيهِ بَعْدِي». تم ای علی میرے بعد، جو فتنہ اور اختلاف ہوگا، تم اس کو صاف اور روشن کرو گے.

 آپ میرے بعد میری امت کو اس چیز کو بیان کریں گے جس میں وہ لوگ اختلاف کرئے ۔ یہ روایت صحیح اور صحیح بخاری اور مسلم کی شرائط کے مطابق صحیح ہے ۔

المستدرك: ج 3 ص 122.

ایک اور حدیث میں آپ نے فرمایا : «وَأَهْلُ بَيْتِي أَمَانٌ لِأُمَّتِي مِنَ الْاِخْتِلافِ» میرے اھل بيت امت کے لئے اختلافات سے آمن اور  امنیت  کا باعث ہے اور جو بھی قبیلہ ان سے اختلاف کرئے وہ شیطان کے گروہ سے ہے۔

یہ حدیث بھی صحیح ہے ۔

مستدرك ج 3 ص 149.

لوگوں کی دنیوی زندگی میں آسائش اور رفاہ کا باعث :

حضرت صديقه طاهره سلام اللہ علیہا نے اپنے مشہور خطبے میں ارشاد فرمایا : «يَالَلّهِ لَوْ تَكَافَؤُا عَلِي زِمَامٍ نَبَذَهُ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وآله ...لَفُتِحَتْ عَلَيْهِمْ بَرِكَاتٌ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ» اللہ کی قسم ! اگر زمام خلافت کو اسی کے حوالے کرتے جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے معین فرمایا تھا تو زمین اور آسمان کی برکتوں کے دروازے ان پر کھل جاتے .

بلاغات النساء، ص24 .

سلمان نے فرمایا : «لَوْ بَايَعُوا عَلِيّاً لَأَكَلُوا مِنْ فَوقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ» اگر علی کی بیعت کرتے تو آسمان اور زمین کی برکتوں سے استفادہ کرتے ۔

أنساب الأشراف ج 2 ص 274. مصنف ابن أبي شيبة ج 7 ص 443.

حضرت امير عليه السلام نے فرمایا : «وَلَو أَنَّ الْأُمَّةَ مُنْذُ قَبَضَ اللهُ نَبِيَّهُ، اِتَّبَعُونِي وَأَطَاعُونِي لَأَكَلُوا مِنْ فَوقِهِمْ وَمِنْ تَحْتَ أَرْجُلِهِم رَغَداً إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ». اگر امت پیغمبر صلی الله عليه وآله کی رحلت کے وقت میری اتباع اور اطاعت کرتے تو زمین اور آسمان کی نعمتوں سے فائدہ اٹھاتے اور قیامت تک خوش اور آسائش کے ساتھ زندگی گزارتے۔ .

كتاب سليم بن قيس ج 1 ص 658 و احتجاج طبرسي ج 1 ص 223.

اخروی زندگی میں سعادت کے ضامن :

عبد الرزاق صنعاني نے عبد الله بن مسعود کے توسط سے  رسول اكرم صلی الله عليه وآله سے نقل کیا ہے : «أَمَا وَالَّذِي نَفْسِي بيده، لَئِنْ أَطَاعُوهُ لَيَدْخُلَنَّ الْجَنَّةَ أَجْمَعِينَ أَكْتَعِينَ». اگر لوگ میرے بعد علي عليه السلام کی اطاعت کرئے تو سب کے سب ایک ساتھ جنت میں داخل ہوجاتے ۔

المصنف، ج 11، ص 317.

 اسلامی جمہوریہ ایران کی بحری جنگی کشتی سہند روس کی بندگاہ "سینٹ پیٹرزبرگ" پہنچ گئی ہے، جہاں وہ روس میں منعقد ہونے والی بحری پریڈ میں شرکت کرےگی۔

۔ یہ پریڈ روسی بحریہ کی تشکیل کی سالگرہ کی مناسبت سے منعقد کی جارہی ہے۔ ایران کی دوسری بحری کشتی مکران  پریڈ کی جگہ سے 25 میل کی دوری پر مستقر رہےگی۔ کیونکہ پریڈ کی جگہ پانی کی گہرائی کم ہے۔

پاکستان کے زیرانتظآم آزاد کشمیرمیں انتخابات کے لیے پولنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ اطلاعات کے مطابق آزاد کشمیر میں قانون ساز اسمبلی کی 45 نشستوں کے لیے 32 لاکھ سے زائد ووٹرز حق رائے دہی استعمال کر رہے ہیں جب کہ انتخابات میں 742 امیدوار حصہ لے رہے ہیں، پی ٹی آئی، ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان سخت مقابلے کی توقع ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی نے المنار کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ حزب اللہ لبنان کی اجرائی کونسل کے سربراہ سید ہاشم صفی الدین  نے کہا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران ، لبنان پر اسرائیل کی مسلط کردہ  33 روزہ جنگ میں لبنانی  مزاحمت کا سب سے بڑا حامی تھا۔ اطلاعات کے مطابق حزب اللہ کی اجرائی کونسل کے سربراہ نے کہا کہ ایران نے 33 روزہ جنگ میں لبنانی مزاحمت کی حمایت میں اہم کردار ادا کیا۔ انھوں نے کہا کہ شہید میجر جنرل سلیمانی نے 33 روزہ جنگ میں لبنان کی بھر پور حمایت کی ۔ انھوں نے اس جنگ میں اسرائیلیوں کو شکست دینے کے سلسلے میں شاندار کردار ادا کیا ۔ سید ہاشم صفی الدین نے کہا کہ جب میں نے حاج قاسم سلیمانی کو ٹیلیفون کیا تو انھوں نے جواب دیا کہ میں لبنانی عوام کے ساتھ ہوں اور ان کا یہ جملہ میرے لئے بہت ہی مؤثر تھا۔ سید ہاشم صفی الدین نے کہا کہ حاج قاسم نے کہا کہ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے لبنانی مزاحمت کی حمایت کے سلسلے میں تمام امکانات اور وسائل سے استفادہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس طرح 33 روزہ جنگ میں اسلامی جمہوریہ ایران نے اسرائیل کو شکست سے دوچار کرنے میں بنیادی اور اساسی کردار ادا کیا۔

افغانستان امن و سلامتی کے جس بحران سے دوچار ہے، اس کے بارے میں کسی طرح کی پیشنگوئی ایک مشکل امر ہے۔ افغانستان میں سرگرم عمل اندرونی اور بیرونی کھلاڑیوں یا آج کی اصطلاح میں اسٹیک ہولڈروں نے صورت حال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ اس وقت افغانستان کے بارے میں تجزیہ کا اہم منبع فریقین کے بیانات ہیں۔ دوسری طرف بیانات میں محسوس تبدیلی خود ایک معمہ ہے۔ افغانستان کے اس وقت کے بڑے اور طاقتور فریق طالبان اپنے ماضی کے بیانیئے میں گرفتار ہیں، مرکزی قیادت اور مقامی قیادت میں موقف اور حکمت عملی کے حوالے سے نمایاں فرق محسوس ہو رہا ہے۔ تجزیہ نگار بھی مجبور ہیں کہ ان بدلتے روئیوں اور بیانیوں میں حقیقیت کو تلاش کرے۔ مثال کے طور پر روس کا موقف ایک طرف یہ ہے کہ طالبان ایران اور ہندوستان کو ساتھ لیکر چلیں تو دوسری طرف افغانستان میں روسی مندوب زامیر کوپوولوف نے کہا ہے کہ غیر ملکی افواج کے انخلا کے آخری مراحل میں پہنچنے کے ساتھ ہی بڑے پیمانے پر حملہ کرنے والی طالبان بیس برسوں کے بعد کسی بھی تصفیہ تک پہنچنے کے لیے تیار ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں موقف ہی میں نہیں ان کے خیالات کے بدلنے کی بات کر رہا ہوں۔ میں محسوس کرتا اور دیکھ رہا ہوں کہ وہ سیاسی تصفیہ کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ بیس سالوں کے بعد بہت سے طالبان رہنماء یقیناً جنگ سے تھک چکے ہیں۔ انہیں احساس ہے کہ موجودہ تعطل سے نکلنے کے لیے سیاسی حل تلاش کرنا ضروری ہے۔ اسی دوران انہوں نے زور دے کر کہا طالبان کے چھوٹے گروہ مگر زیادہ "انتہاء پسند" جنگجو لڑائی روکنے کے لیے راضی نہیں ہیں۔ دوسری جانب طالبان کا کہنا ہے کہ وہ اقتدار پر قبضہ نہیں کرنا چاہتے، لیکن وہ اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ جب تک کابل میں نئی حکومت کی تشکیل نہیں ہو جاتی اور صدر اشرف غنی کا عہدہ ختم نہیں ہو جاتا، تب تک افغانستان میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔

طالبان کے  مرکزی ترجمان سہیل شاہین نے ایک انٹرویو میں طالبان کے موقف کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب اشرف غنی کی حکومت ختم ہوگی اور دونوں فریقین کے درمیان قابل قبول گفتگو کے بعد نئی حکومت تشکیل پائے گی، تب وہ مسلحانہ جدوجہد روکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ہم اقتدار پر قبضے میں یقین نہيں رکھتے، کیونکہ ماضی میں افغانستان میں اکیلے حکومت کرنے والے گروہ کی حکومت نہیں چل سکی، اسی لئے ہم اس کا اعادہ نہیں کرنا چاہتے۔ طالبان کے مرکزی ترجمان کا بیان اپنی جگہ، تاہم طالبان کے زیر قبضہ اضلاع سے بار بار ایسی مستند رپورٹس موصول ہوتی رہی ہیں کہ انہوں نے خواتین پر سخت پابندیاں عائد کر دی ہیں، حتیٰ کہ اسکولوں میں آگ لگا دی۔ ایک لرزہ خیز ویڈیو سامنے بھی آئی ہے، جس میں یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ شمالی افغانستان میں طالبان نے گرفتار کیے گئے کمانڈوز کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔

طالبان کے مرکزی ترجمان سہیل شاہین نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ کچھ طالبان کمانڈروں نے جابرانہ اور سخت رویئے کے خلاف قیادت کے احکامات کو نظرانداز کیا ہے اور ان میں سے متعدد کو طالبان کے ایک فوجی ٹریبونل کے سامنے پیش بھی کیا گیا ہے اور انہیں سزا دی گئی ہے، تاہم انہوں نے سزاؤں کی تفصیلات فراہم نہیں کیں۔ یاد رہے کہ افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا، چین کا لداخ میں گھسنا، بھارت کے طالبان کے ساتھ ناکام رابطے، طالبان کا ترکی کو کابل میں اپنی موجودگی کو محدود رکھنے کا مشورہ، پاکستان کا اپنی سرحدوں پر باڑ لگا کر مزید گشت بڑھانا، دوحا مذاکرات کا جاری رہنا، امریکہ کا پاکستان، ازبکستان و افغانستان پر مشتمل نیا ورکنگ گروپ تشکیل دینا اور روس کا اس سارے عمل میں خاموش کردار ادا کرنا خطے میں جاری نئی کشیدگی کا ایک واضح پیغام ہے۔ امریکہ خطے بالخصوص افغانستان کو اپنے مخالفین بالخصوص ایران و چین کو پلیٹ میں رکھ کر ہرگز نہیں پیش کرے گا، امریکہ کا بی پلان یقینی ہوگا، اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کے خدوخال کب سامنے آتے ہیں۔ امریکہ شکست خوردہ ہے، لیکن وہ اتنی آسانی سے خطے میں موجود اپنے مفادات کو نظرانداز نہیں کرسکتا۔

تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

ارنا کی رپورٹ کے مطابق کراچی میں تعینات ایرانی قونصل جنرل حسن نوریان نے کراچی میں ڈی جی پی ایم ایس اے ریئر ایڈمرل محمد شعیب سے ہونے والی ملاقات میں ان سے سمندری سلامتی کے شعبے میں تعاون پر تبادلہ خیال اور اس کا جائزہ لیا۔

اس ملاقات میں انہوں نے میری ٹائم سیکورٹی کے شعبے میں تعاون بڑھانے پر بھی زور دیا۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے قونصل جنرل نے دوطرفہ تعاون ، امداد و نجات، سمندری تحفظ اور ماہی گیروں کی کشتیوں اور ان کے عملے کی واپسی جیسے امور پر تاکید کی۔

اس ملاقات میں، پاکستان کی میری ٹائم سیکورٹی ایجنسی اور ایران کی بارڈر سیکورٹی فورس کے درمیان مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کیے جانے پر زور دیا گیا جس کا مسودہ سفارتی ذرائع سے پہلے ہی تیار کیا جاچکا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے 23 جولائی بروز جمعہ ایرانی کورونا کی ویکسین کی دوسری ڈوز لگوا کر ساری غلط فہمیوں پر لگام لگا دی۔ انقلاب اسلامی کے دشمنوں نے ملکی ساختہ کورونا ویکسین کے خلاف جم کر پروپیگینڈے کئے اور عوام کو اس سے دور رہنے اور نہ لگوانے کا صلاح و مشورہ تک دے ڈالا لیکن رہبر انقلاب اسلامی نے ایک بار پھر اپنے اقدام سے دشمنوں کی ساری سازشوں پر پانی پھیر دیا۔