
سلیمانی
سعودی عرب اور امریکہ کی یمن پر جارحیت کے نتیجے میں کینسر کے مریض بچوں میں اضافہ
سعودی عرب اور امریکہ کی یمن پر جارحیت، محاصرہ اور غیر روایتی ہتھیاروں کے استعمال کے نتیجے میں ان مریضوں کی تعداد 300 سے بڑھ کر 700 تک پہنچ گئی ہے۔
انسانی حقوق کی اس تنظیم نے زور دے کر یہ بات کہی ہے کہ خون کے کینسر میں مبتلا بچوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور سعودی عرب اور امریکہ کی یمن پر جارحیت، محاصرہ اور غیر روایتی ہتھیاروں کے استعمال کے نتیجے میں ان مریضوں کی تعداد 300 سے بڑھ کر 700 تک پہنچ گئی ہے۔ یمن کے خلاف جارحیت کے نتیجے میں کینسر کی 50 فیصد دوائیں نایاب ہو گئی ہیں جس کے باعث زیادہ تر مریض لقمۂ اجل بن رہے ہیں۔
اس تنظیم نے اعلان کیا سعودی عرب کی جارحیت اور اسکے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال کے باعث کینسر کے مریضوں کے لئے علاج کے لیے بیرون ملک سفر کرنا بھی ناممکن ہو گیا ہے، اسی لیے ہم انسانی ضروریات کے لیے صنعاء کے ہوائی اڈے کو دوبارہ کھولنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
انسانی حقوق کی اس تنظیم نے یمنی بچوں کے سلسلے میں انجام پانے والے تمام جرائم کا ذمہ دار سعودی اتحاد کو قرار دیا ہے جسے امریکہ کی مکمل حمایت اور سرپرستی حاصل ہے۔
/taghribnews.
5 فروری 2003؛ صدی کے سب سے بڑے جھوٹ کا دن/ امریکہ نے عراق کو کیسے تباہ کیا؟
مہر خبررساں ایجنسی: 5 فروری 2003 کو اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ کولن پاول سلامتی کونسل کے اجلاس میں ایک چھوٹی سی شیشے کی بوتل میں انڈے کے چھلکے پر مشتمل سفید پاؤڈر رکھ کر لائے تا کہ معاصر دنیا کی تاریخ کے سب سے بڑے جھوٹوں میں سے ایک جھوٹ سلامتی کونسل کے ممبران سامنے پیش کر سکیں!
اس اجلاس میں کولن پاول نے بڑے آب و تاب کے ساتھ تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ہم جو کچھ آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں وہ مضبوط انٹیلی جنس سرگرمیوں پر مبنی حقائق اور شواہد ہیں، جو ظاہر کرتے ہیں کہ عراق کو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں تک رسائی حاصل ہوچکی ہے!
اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ نے دعویٰ کیا کہ صدام حسین نے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے اپنے ہتھیار چھپا رکھے ہیں اور ان شواہد کی بنیاد پر جنہیں انہوں نے "یقینی اور اطمینان بخش" قرار دیا، عراق پر سلامتی کونسل کی قرارداد 1441 کی خلاف ورزی کا الزام لگایا۔
پاول جنہوں نے بعد میں اپنے اس بیان پر افسوس کا اظہار کیا، اس وقت سلامتی کونسل پر زور دے کر کہا کہ عراق اس بات کا مستحق نہیں کہ اسے ایک اور موقع دیا جائے۔
پاول نے صدام حکومت پر القاعدہ کے ساتھ روابط کا الزام لگا کر عراق پر بین الاقوامی دباؤ بڑھانے کا بھی مطالبہ کیا۔
اس امریکی جھوٹ کے لئے عراق کو انتہائی بھاری قیمت چکانی پڑی بلکہ عراق آج تک اس کی قیمت چکا رہا ہے۔ یہ جھوٹے دعوے عراق کے خلاف فوجی جارحیت کا نقطہ آغاز بنے جس نے لاکھوں بے گناہ لوگوں کا قتل عام کیا، ان کے گھروں کو تباہ کیا اور ان کے مستقبل کو خاک میں ملا دیا۔
امریکی حکومت کے لیے صدی کے جھوٹ کی رسوائی ایک ایسا سکینڈل اور انسانیت سوز جرم ہے جسے وقت گزرنے کے ساتھ کبھی بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا حالانکہ اس کے اثرات 20 سال بعد بھی آج تک برقرار ہیں۔
ماہرین کے مطابق 2003 میں عراق کے خلاف امریکی فوجی جارحیت نے خطے پر بحرانوں کے دروازے کھول دیے جس کے اثرات گزشتہ دو دہائیوں کے باوجود ختم نہیں ہوئے۔
خوشگوار گھریلو ماحول بچے کی ضرورت
والد بچوں کے لیے گھر کا ماحول کیسے خوشگوار بنا سکتا ہے
بچوں سے پیار و محبت کرنا
بچوں کو پیار کرنا، گود میں لینا، کندھوں پر بٹھانا جہاں والد کے لیے خوشی اور طمانیت کا باعث بنتا ہے وہاں بچوں کے لیے بھی ذہنی آسودگی اور والد کے ساتھ محبت میں پختگی کا ذریعہ بنتا ہے۔
گھریلو جھگڑوں سے پرہیز کرنا
گھر کے ماحول کو پرسکون بنانے کے لیے والد کو چاہیے کہ وہ گھریلو اختلافات اور ازدواجی جھگڑوں سے جس قدر ممکن ہو گریز کرے۔ اختلاف کی صورت میں بچوں کے سامنے بحث و مباحثے سے اجتناب کرے۔
خاندان کے افراد سے مثبت رویہ رکھنا
جس طرح والدین کے ساتھ اچھے تعلقات بچوں کے لیے گھر کا ماحول خوش گوار بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اسی طرح خاندان کے دوسرے افراد یعنی دادا، دادی، نانا، نانی، چچا، پھوپھی، ماموں اور خالہ وغیرہ کے ساتھ والد کا مثبت اور محبت پر مبنی رویہ بھی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ وہ تمام افراد بچوں کے لیے فطری محبت کا جذبہ رکھتے ہیں اور والد کا ایسا رویہ بچوں میں اپنے قریبی رشتہ داروں کے ساتھ محبت اور قربت پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
اسرائیلی حکومت کیخلاف مسلسل پانچویں ہفتے احتجاجی ریلیاں
تل ابیب: اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نتن یاہو کی حکومت کے متنازع عدالتی اصلاحات کیخلاف مسلسل پانچویں ہفتے ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے۔ دارلحکومت تل ابیب سمیت بیس شہروں میں بڑی بڑی ریلیاں نکالی گئیں۔ تل ابیب میں بارش کے باوجود ہزاروں افراد نے متنازع عدالتی اصلاحات کیخلاف احتجاج کیا۔ مظاہرین نے انتہائی دائیں بازو کی کابینہ اور اس کے خطرناک ایجنڈے کے خلاف نعرے لگائے۔ مظاہرین نے کابینہ کو عالمی امن اور جمہوریت کے لیے خطرہ قراردیا اور وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کی پالیسیوں کی مذمت کی۔ حیفہ کے احتجاجی مظاہرے میں سابق وزیر اعظم یائر لاپڈ بھی شریک ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنے ملک کو بچائیں گے کیونکہ ہم ایک غیر جمہوری ملک میں رہنے کو تیار نہیں ہیں۔
امت واحدہ پاکستان کے وفد کی آیت اللہ محمد جواد فاضل لنکرانی سے ملاقات: ایران عالمی پابندیوں کے باوجود اسلامی حکومت کے باعث ترقی کررہا ہے
، امت واحدہ پاکستان کے 40 رکنی وفد کی ایران کے دورہ کے دوران مرکز فقہی ائمہ اطہار کے سربراہ آیت اللہ محمد جواد فاضل لنکرانی سے خصوصی ملاقات کی۔
انہوں نے اپنے خصوصی خطاب میں کہا کہ اسلام دنیا پر اس وقت تک حکمرانی نہیں کرسکتا جب تک حقیقی اور آئیڈیل اسلامی معاشرہ قائم نہ ہوجائے۔ اسلام کا حقیقی حق بھی اسی وقت ادا ہوگا جب اسلام دنیا پہ حکومت کرے۔ ایران پہ عالمی سطح پہ پابندیاں ہیں لیکن اسلامی حکومت کے باعث ایران بتدریج ترقی کررہا ہے۔یہ فقط اور فقط اسلام کے فیوض و برکات ہیں۔
انہوں نے کہا: عالمی استعمار امریکہ و اسرائیل جمہوریہ اسلامی ایران کا مخالف ہے کیونکہ یہاں حکومتِ اسلامی کا عملی قیام عمل میں لایا گیا۔ اسلامی جمہوریہ ایران ان تمام بحرانوں سے نمٹنے میں کامیاب ہو چکا ہے جن سے ملک کو شدید نقصان پہنچ سکتا تھا لیکن خوش قسمتی سے ملک دشمنیاں بالخصوص پابندیاں یکے بعد دیگرے بے اثر ہوتی جا رہی ہیں اور ملک میں امید کی راہیں کھل رہی ہیں۔
انقلاب کی سالگرہ اور ماہ رجب کے مبارک ایام کی مناسبت سے قیدیوں کی سزاؤں کی معافی اور تخفیف
حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،عدلیہ کے سربراہ نے رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کو حالیہ ہنگاموں اور اسی طرح پبلک عدالتوں، انقلابی عدالتوں اور مسلح افواج کے عدالتی ادارے سے سزا پانے والے متعدد افراد کی سزائيں معاف کرنے یا سزاؤں میں کمی کی تجویز دی تھی، جسے انھوں نے منظور کر لیا۔
عدلیہ کے سربراہ حجۃ الاسلام و المسلمین محسنی اژہ ای نے رہبر انقلاب اسلامی کو جو خط لکھا ہے، اس میں کہا گیا ہے: حالیہ ہنگاموں کے دوران، بہت سے افراد خاص طور پر نوجوان، دشمن کے پروپیگنڈوں اور بہکاوے میں آکر غلط کاموں اور جرائم کے مرتکب ہو گئے اور اپنے لیے پریشانی کا سبب بننے کے علاوہ اپنے گھر والوں اور اقرباء کے لیے بھی تشویش کا سبب بنے، اب ان میں سے زیادہ تر لوگ، غیر ملکی دشمنوں اور انقلاب و عوام مخالف عناصر کی سازش بے نقاب ہو جانے کے بعد ندامت اور پیشمانی کا اظہار کرتے ہوئے عفو و درگزر کے خواہاں ہیں۔
عدلیہ کے سربراہ نے اپنے خط میں لکھا ہے: متعلقہ عہدیداروں سے مشورے اور ماہرین کے جائزے کے بعد ملزمین اور سزا یافتہ افراد کی معافی یا سزا میں کمی کی بنیادی شرطوں اور ضوابط کو دو حصوں میں تقسیم کیا گيا ہے۔
پہلے حصے میں حالیہ واقعات کے ملزمین اور سزا یافتگان کی معافی یا سزاؤں میں کمی کی شرطوں کا اعلان کرتے ہوئے کہا گيا ہے کہ مذکورہ شرطیں پائے جانے کی صورت میں ملزمین اور سزا یافتہ افراد کی فائل کو، چاہے وہ جس مرحلے میں ہو، بند کر دیا جائے گا۔
عدلیہ کے سربراہ کے خط میں حالیہ واقعات کے ملزمین اور سزا یافتہ افراد کی معافی یا سزاؤں میں کمی کی شرطوں کا اعلان کرتے ہوئے کہا گيا ہے: غیر ملکیوں کے لیے جاسوسی نہ کرنا، غیر ملکی سیکرٹ سروسز کے ایجنٹوں سے رابطہ نہ ہونا، کسی کو جان بوجھ کر قتل اور زخمی نہ کرنا، سرکاری، فوجی اور عمومی اموال کی توڑ پھوڑ نہ کرنا، انھیں نذر آتش نہ کرنا اور ان کے خلاف کسی کا مدعی نہ ہونا، مذکورہ شرطوں میں شامل ہیں۔
عدلیہ کے سربراہ کے خط کے دوسرے حصے میں پبلک عدالتوں، انقلابی عدالتوں اور مسلح افواج کے عدالتی ادارے سے سزا پانے والے افراد کے لیے بھی سزاؤں کی معافی یا ان میں کمی کی کچھ شرطوں کا اعلان کیا گيا جن میں، ان کے خلاف کسی کا مدعی نہ ہونا، ایک سال تک کی سزا پانے والوں سزا کی مدت کی معافی اس شرط کے ساتھ کہ 22 بہمن (11 فروری) تک کم از کم ایک مہینے کی سزا کاٹ چکے ہوں، ایک سے پانچ سال تک کی سزا پانے والوں کی تین چوتھائي سزا کی مدت کی معافی، اس شرط کے ساتھ کہ 22 بہمن (11 فروری) تک کم از کم سزا کا پانچواں حصہ کاٹ چکے ہوں، دس سال سے بیس سال تک سزا پانے والوں کی سزا کی آدھی مدت کی معافی، اس شرط کے ساتھ کہ 22 بہمن (11 فروری) تک کم از کم دو سال سزا کاٹ چکے ہوں اور ان تمام سزایافتگان کی باقیماندہ سزا کی معافی جن کے جرائم جان بوجھ کر نہیں کیے گئے ہیں۔
ان سزا یافتہ خواتین کے لیے خاص شرطوں کا اعلان جو قانون کے تحت اپنے بچوں کی سرپرست ہیں اور ان کی دیکھ بھال ان کے ذمے ہے اور ان سزا یافتگان کے لیے جو لاعلاج یا بہت مشکل بیماری میں مبتلا ہیں، ستر سال سے زیادہ عمر کے مرد اور ساٹھ سال سے زیادہ عمر کی خاتون سزا یافتگان اور اسی طرح ان سزایافتگان کے لیے جو جرمانہ ادا کرنے میں لاچاری کی وجہ سے جیل میں ہیں، عدلیہ کے سربراہ کے خط کے دیگر مندرجات میں شامل ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی کے نام عدلیہ کے سربراہ حجۃ الاسلام و المسلمین محسنی اژہ ای کے خط میں کچھ گروہوں کو اس معافی سے الگ رکھا گيا ہے جن میں آتشیں ہتھیار خریدنے، بیچنے اور اسمگل کرنے کے جرم کے مرتکبین، چوری اور ڈاکے کے جرم کے ارتکاب کرنے والے، اسلحے کے زور پر منشیات اور ایکسٹسی ڈرگز سے متعلق جرائم کا ارتکاب کرنے والے، قحبہ خانے کھولنے والے، شراب کی اسمگلنگ کرنے والے، منظم اور پیشہ ورانہ طریقے سے مصنوعات اور کرنسی کی اسمگلنگ، ملک کے معاشی نظام کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچانے اور اس کام میں مدد کرنے والے اور ملکی اور غیر ملکی سلامتی کے خلاف جرائم کا ارتکاب کرنے والے افراد شامل ہیں۔
عباس سلیمی: قرآنی کاروان انقلاب قرآن کے مدافعین ہیں
ایکنا نیوز کے مطابق قرآنی کاروان کے پروگرام کا آغاز گذشتہ روز نامور قاری، ماہر قرآن مھدی شیخلو کی شرکت کے ساتھ آستانہ مقدس شیخ صدوق(ره) میں منعقد ہوئی۔
ایکنا نیوز- بین الاقوامی قاری عباس سلیمی نے قرآنی محافل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ قرآنی کاروان ملک کے مختلف شہروں کا دورہ کریں گے تاکہ قرآن پیغام کو عام کرسکے۔
انکا کہنا تھا کہ مذکور قرآء کی ٹیم قرآن پر ایمان اور ولایت کے طرفدار افراد پر مشتمل ہے اور وہ قرآن کے پیغامات کی اہمیت کو سمجھتے ہیں جیسے رسول گرامی (ص) فرماتے ہیں: «مَن قَرأَ القرآنَ و لَم یَعمَل بهِ حَشَرَهُ اللّه ُ یَومَ القِیامَةِ أعمى»؛ جو قرآن پڑھے اور اس پر عمل نہ کریں وہ قیامت میں نابینا محشور ہوگا، ہماری ٹیم سورہ حج کی آیت گیارہ کو درک کرتی ہے جہاں کہا گیا ہے: «وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَعْبُدُ اللَّهَ عَلَىٰ حَرْفٍ...»؛ لوگوں میں سے کچھ لوگ خدا کو صرف زبانی اور ظاہری عبادت کرتے ہیں (نه کہ باطن و حقیقت)، اور یہ لوگ استقامت کے میدان کے مرد نہیں۔
سلیمی کا کہنا تھا: قرآنی کاروان انقلاب اور قرآن کے یاور اور مدافع ہیں اور اگر کوئی قرآن کی توہین کریں تو اس کا دفاع کریں گے۔
ایرانی ماہر اور قاری کا کہنا تھا: کاروان انقلاب قرآن تمام دنیا میں یہ اعلان کرتا ہے کہ قرآنی تعلیمات کی بناء پر ہماری قرآنی آئیڈیالوجی دوستی اور امن کی بات کرتی ہے تاہم دشمنوں کے مقابل غلفت نہیں کریں گے۔/
صیہونی حکومت کے خلاف بیانات دینے پر امریکہ میں مسلمان خاتون سینیٹر کی رکنیت معطل
ریپبلکن پارٹی کی اکثریت نے ایک بل کے ذریعے الہان عمر کو کمیٹی سے الگ کر دیا اور امریکی ایوان نمائندگان میں انہیں دوسو گیارہ کے مقابلے میں دوسو اٹھارہ ووٹوں سے خارجہ امور کی پارلیمانی کمیٹی کی رکنیت سے ہٹایا گیا۔
اس سے قبل الہان عمر نے کہا تھا کہ میری قیادت اور میری آواز کو دبایا نہیں جا سکتا اور اگر میں اس پارلیمانی کمیٹی میں نہیں رہی تب بھی میری آواز سب سے اونچی اور سب سے مضبوط آواز ہوگی۔ ریپلیکن ارکان کے مطابق الہان عمر کو دوہزار انیس میں دئے گئے انکے بیان کی وجہ سے انہیں پارلیمانی کمیٹی کی رکنیت سے ہٹانے کا فیصلہ ہوا۔
دوہزار انیس میں الہان عمر نے اپنے ایک ٹوئیٹ میں لکھا تھا کہ امریکی سیاست میں جو بھی اسرائیل کی حمایت کرتا ہے وہ اصولوں کے بجائے پیسوں کیلئے کرتا ہے۔
اگرچہ الہان عمر نے اسی وقت اپنے اس ٹوئیٹ پر معافی مانگ لی تھی اور وہ ٹوئیٹ بھی ڈلیٹ کر دیا تھا مگر اسکی قیمت انہیں گزشتہ روز چکانی پڑی۔ قابل ذکر ہے کہ الہان عمر کانگریس کی واحد افریقی نژاد رکن ہونے کے ساتھ امریکی ایوان کی واحد مسلمان خاتون رکن بھی ہیں۔
قم المقدس میں جشن مولود کعبہ عظیم الشان وحدت کانفرنس کا انعقاد؛ مسلمان فرقہ بندیوں سے نکل کر امت واحدہ بن جائیں، مقریرین
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، قدیم مدرسہ علمیہ فیضیہ دارالشفاء کانفرنس ہال میں جوامع روحانیت بلتستان،سندھ، بلوچستان، خیبرپختونخواہ،گلگت،طلاب کشمیر اور جامعہ بعثت قم کے زیراہتمام جشن مولود کعبہ عظیم الشان وحدت کانفرنس کا انعقاد ہوا ۔جس میں پاکستان کے اہل سنت علمائے کرام کے 40رکنی وفد نے بطور خاص شرکت کی۔
وفد میں شامل خوش الحان معروف نعت خواں و قصیدہ خواں محمد عارف قریشی نے بارگاہِ اہلبیت میں ہدیہ عقیدت پیش کیا۔
علامہ عباس وزیری نے اپنے خطاب میں کہا کہ مولا امیر المومنینؑ عبدِ کامل تھے عبدیت کاملہ کی وجہ سے بڑے بڑے مقامات سے نوازا۔ولی اللہ اعظم اس وقت تک مقام ولایت تک پہنچ ہی نہیں سکتا جس کی عبدیت کمال پر نہ ہو۔عبد وظیفہ شناس ہوتا ہے ایسا ممکن نہیں ہے جو کام اس کے کرنے کا ہے جو اس کی ذمہ داری ہے اس میں سستی کاہلی کمی یا ضعف ہو۔اس بنا پر اگر مولا علی علیہ السلام ولی اللہ اعظم ہیں تو سب سے بڑے فرض شناس بھی ہیں۔ پیروان علیؑ کی سب سے بڑی ذمہ داری فرض شناسی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ طلاب گرامی جو حوزہ علمیہ قم میں پڑھائی میں مشغول ہیں ان کی تین اہم ذمہ داریاں ہیں ان ذمہ داریوں کی ادائیگی میں جو جتنا بہتر ہوگا وہ اتنا بہتر شیعہ علی ہوگا۔سب سے پہلی ذمہ داری تحصیلِ تعلیم ہے جس کے لیے وہ یہاں آئے ہیں۔ ان کے لیے مناسب نہیں کہ حصولِ علم میں سستی کریں وقت ضائع کریں۔جن جن علوم سے ان کو مزین ہونا چاہیے وقت ضائع کیے بغیر اور مادی امور میں مشغول ہوئے بغیر ان علوم کی تحصیل میں کوشاں رہے یہ علما جب پلٹ کر اپنے ملک جائیں گے اور ضروری علوم سے بہرہ مند نہ ہوں تو ہدایت کے بجائے گمراہی پھیلائیں گے۔ دوسری ذمہ داری اپنے اور اپنے معبود کے درمیان ارتباط کو مضبوط کریں اپنے تمام کاموں کو اسکی رضا کے لیے بجالانے کی بھرپور کوشش کریں۔ اگر انسان خدا کے لیے کام نہ کرے بلکہ اپنے نفس کی رضا کے لیے کام کرے تو یہ بندگی نہیں سرکشی ہے طغیان گری ہے۔
انہوں نے کہاکہ ایسا عالم خدا کے لیے کام کرنے کے بجائے طاغوت کے لیے کام کرتا ہے۔خود نمائی اور خود خواہی میں مبتلا ہوتا ہے۔اور نہیں میں ہی ٹھیک ہوں۔اس بیماری میں مبتلا ہوتا ہے۔
ایسا انسان شیعان علی کو امت پیغمبر کو متحد کرنے کے بجائے اشتراق کا باعث بنتا ہے۔ تیسری ذمہ داری زمان شناس ہونا ہے۔ دوست اور دشمن کی پہچان نہ رکھتا ہو ہوشیار نہ ایسا تقدس اور پارسائی نقصان کا باعث بن جاتا ہے۔
تقریب کے آخر میں متنازعہ بل کے تناظر میں خاکہ پیش کیا گیا۔مولانا مقدر عباس نے منقبت خوانی کی اور مولانا نذر حافی نے شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔
مدیر کل مجمع تقریب مذاہب اسلامی آیت اللہ حمید شہریاری کا کہنا تھا شہید سردار نے اسلام کا تحفظ کیا۔عیسائی ،کرد اور یزد بھی شہید حاج کے شکرگزار نظر آتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان فرقہ بندیوں سے نکل کر امت واحدہ بن جائیں۔
آیت اطعام
إِنَّ الْأَبْرَارَ يَشْرَبُونَ مِن كَأْسٍ كَانَ مِزَاجُهَا كَافُورًا ﴿٥﴾ عَيْنًا يَشْرَبُ بِهَا عِبَادُ اللَّـهِ يُفَجِّرُونَهَا تَفْجِيرًا ﴿٦﴾ يُوفُونَ بِالنَّذْرِ وَيَخَافُونَ يَوْمًا كَانَ شَرُّهُ مُسْتَطِيرًا ﴿٧﴾ وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَىٰ حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا ﴿٨﴾ إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّـهِ لَا نُرِيدُ مِنكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا ﴿٩﴾
|
بلاشبہ نیکوکار (جنت میں شرابِ طہور کے) ایسے جام پئیں گے جن میں (آبِ کافور) کی آمیزش ہوگی۔ (5) یعنی وہ ایک چشمہ ہے جس سے اللہ کے (خاص) بندے پئیں گے اور جدھر جائیں گے ادھر بہا کرلے جائیں گے۔ (6) یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی نذریں (منتیں) پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی سختی عام ہوگی۔ (7) اور وہ اس (اللہ) کی محبت میں مسکین، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں۔ (8) (اور کہتے ہیں کہ) ہم تمہیں صرف اللہ کی خوشنودی کیلئے کھلاتے ہیں نہ تم سے کوئی جزا چاہتے ہیں اورنہ شکریہ۔ (9)
|
شان نزول
اخلاقبعض اہل سنت مفسرین کی نگاہ میں آیت اطعام اہل بیتؑ کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ علامہ امینی نے کتاب الغدیر میں اہل سنت کے 34 علماء کا نام لکھا ہے جنہوں نے متواتر طور پر تائید کی ہیں کہ یہ آیات اہل بیتؑ کی شان اور امام علیؑ، فاطمہ(س) اور حسنینؑ کے فضائل بیان کرتی ہیں۔ شیعہ علماء کی نگاہ میں اس سورہ کی اٹھارویں آیت (یا پورا سورہ انسان) اہل بیتؑ کی شان میں نازل ہوئی ہے.[2] |
ابن تیمیہ (وہابیوں کا رہبر) معتقد ہے کہ یہ سورہ مکہ میں نازل ہوئی اور اہل بیتؑ سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ [3] لیکن اہل سنت کے اکثر علماء اس کی بات کے مخالف ہیں اور اسے رد کرنے کے لئے جواب بھی دئیے ہیں۔[4]
نزول کا واقعہ
اہل سنت مفسر زمخشری لکھتا ہے: "ابن عباس سے نقل ہوا ہے کہ امام حسنؑ اور امام حسینؑ بیمار ہوئے۔ رسول خداؐ کچھ اصحاب کے ہمراہ ان دونوں کی عیادت کے لئے تشریف لائے اور حضرت علیؑ سے فرمایا: اے ابوالحسن بہتر ہے کہ اپنے فرزندوں کی تندرستی کے لئے نذر کرو۔ حضرت علیؑ، حضرت فاطمہ(س)اور فضہ نے نذر کی کہ اگر ان دونوں کو شفا مل گئی تو تین دن روزے رکھیں گے۔ دونوں کو شفا مل گئی۔ حضرت علیؑ نے تین من جو قرض لیا۔ فاطمہ(س) نے اس کے تیسرے حصے کو پیس لیا اور روٹی بنائی۔ افطار کے وقت سائل دروازے پر آیا اور کہا: اے اہل بیت محمدؐ میں مسلمان مسکین ہوں، مجھے کچھ کھانے کو دیں تا کہ اللہ تعالیٰ آپکو جنتی مائدہ عطا کرے۔ اہل بیتؑ نے کھانا اٹھا کے اسے دیا اور خود پانی سے روزہ افطار کیا۔ اس کے دوسرے دن بھی روزہ رکھا اور جب افطار کا وقت ہوا اور کھانا حاضر کیا تو دروازے پر ایک یتیم آیا۔ اس بار بھی انہوں نے اپنا کھانا اسے دے دیا۔ تیسرے دن پھر روزہ رکھا اور افطار کے وقت، ایک قیدی آیا، پھر آپ نے اپنا کھانا اسے دے دیا۔ جب صبح ہوئی تو علیؑ حسنینؑ کے ساتھ حضورؐ کے پاس حاضر ہوئے۔ آپؐ نے جب ان کو دیکھا کہ وہ بھوک سے کانپ رہے ہیں، فرمایا: آپ کی حالت دیکھ کر میری حالت ناگوار ہو گئی ہے۔ یہ فرما کر اٹھے اور حضرت علیؑ کے ہمراہ ان کے گھر کی طرف چل دئیے وہاں پر فاطمہ(س) کو دیکھا کہ مصلیٰ عبادت پر کھڑی ہیں اور بھوک کی وجہ سے ان کا پیٹ کمر سے ملا ہوا ہے اور آنکھوں کے نیچے حلقے بنے ہوئے ہیں۔ یہ دیکھ کر پریشان ہو گئے۔ اس وقت جبرئیلؑ نازل ہوئے اور کہا کہ اللہ تعالیٰ آپکو ایسے اہل بیتؑ کی مبارکباد دیتے ہیں اور اس کے ساتھ اس سورہ کو قرائت کیا"[5]
بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ واقعہ تین دن نہیں بلکہ ایک دن پیش آیا ہے، اور کہتے ہیں کہ یہ آیت حضرت علیؑ کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ حضرت علیؑ نے ایک یہودی کے لئے کام کیا اور اس کے بدلے اس سے کچھ جو دریافت کئے۔ جو گھر لائے اور جو کے ایک حصے کو پیس کر روٹی تیار کی، جب روٹی تیار ہو گئی، تو ایک مسکین دروازے پر آیا، آپؑ نے یہ روٹی اسے دے دی۔ پھر جو کے دوسرے حصے کو پیس لیا اور جب روٹی تیار ہو گئی، تو ایک یتیم نے سوال کیا تو آپؑ نے یہ روٹی اسے دے دی اور تیسری بار جب روٹی تیار ہوئی تو مشرکین کا ایک قیدی آیا آپؑ نے روٹی اسے دے دی۔[6]
حوالہ جات
- ↑ رجوع کریں: روحانی نیا، فروغ غدیر، ۱۳۸۶ش، ص۱۴۶؛ انصاری، اہل البیت علیہم السلام، ۱۴۲۴ق، ص۱۷۳؛ دیلمی، ارشاد القلوب، ۱۳۳۸ش، ج۲، ص۱۳۶.
- ↑ مکارم شیرازی، برگزیدہ تفسیر نمونہ، ۱۳۸۷ش، ج۵، ص۳۵۰.
- ↑ ابن تیمیہ، منہاج السنۃ النبویہ، ۱۴۰۶، ج۷، ص۱۷۴-۱۸۶.
- ↑ ابراہیمیان، «بررسی و نقد دیدگاه ابن تیمیہ درباره شأن نزول سوره هل اتی»، ص۱۶۰-۱۶۲.
- ↑ زمخشری، الکشاف، ۱۴۱۵ق، ج۴، ص۶۷۰.
- ↑ بغوی، معالم التنزیل، ۱۴۲۰ق، ج۵، ص۱۹۱-۱۹۲.