Super User

Super User

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے الجزائر کے وزیر اعظم عبدالمالک سلال اور انکے ہمراہ وفد سے ملاقات میں خطے اور بین الاقوامی بہت سارے مسائل کے بارے میں اسلامی جمہوریہ ایران اور الجزائر کی فکری ہماہنگی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ نزدیک سیاسی نقطہ نگاہ ہونے کے ساتھ ساتھ ملت ایران کی الجزائر اور اسکے عوام کے بارے میں مثبت سوچ ہے اور یہ موضوع بھی انقلاب الجزائر کے دوران استعمار کے خلاف الجزائر کے عوام کے مجاہدانہ طرز عمل کی وجہ سے ہے۔
آپ نے ملتوں کے درمیان معنوی اور قلبی تعلقات کو مختلف میدانوں میں بالخصوص اقتصادی میدان میں تعاون کے لئے انتہائی مناسب زمینہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ الجزائر اور ایران کے درمیان تعاون کی سطح انتہائی کم ہے اور ہمیں امید ہے کہ اس سفر اور مشترکہ کمیشن کے قیام کے زریعے بہت جلد اور اسی طرح نائب صدر اسحاق جہانگیری کے الجزائر کے سفر کے بعد، دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی تعاون میں خاطر خواہ اضافہ ہوجائے گا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے داعش اور خطے کے ممالک کی جانب سے ان تمام دہشتگرد گروہوں سے مقابلہ کئے جانے کہ جو اسلام کا چہرہ مخدوش کررہے ہیں کے حوالے سے الجزائر کے وزیراعظم کی بات پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ داعش اور وہ تمام دہشتگرد جو اس وقت اسلام کے نام پر پورے خطے میں پھیل گئے ہیں، انکا موضوع کوئی عادی اور فطری موضوع نہیں ہے بلکہ ان دہشتگردوں کو باقاعدہ وجود بخشا گیا ہے اور انکی حمایت کی جاتی ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے خطے کے بعض ممالک کی جانب سے دہشتگرد گروہ داعش کی حمایت کئے جانے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اور اسی طرح امریکہ اور اسلام کے دشمن ممالک کی جانب سے ان دہشتگردوں کی حمایت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا وہ اسلامی ممالک کہ جو دلسوز ہیں اور ایک دوسرے سے بہت زیادہ متفق ہیں، وہ گفتگو اور تعاون کے زریعے دہشتگردوں سے مقابلے کے لئے عملی راہ حل تک پہنچ سکیں۔
آپ نے الجزائر، شام، ایران اور بعض دوسرے ممالک پر مشتمل مزاحمت کے الائنس کہ جو اسلامی انقلاب کے آغاز میں وجود میں آیا تھا کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ بعض ممالک کہ جو امریکہ کے پیرو ہیں، وہ اس الائنس کی سرگرمیوں کی راہ میں رکاوٹ ہیں لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آج مشترکہ نظریات اور مفادات کے حامل اسلامی ممالک پر مشتمل اس طرح کے اتحاد کا موقع آن پہنچا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اگر اس طرح کو کوئی الائنس بنایا جائے، تو یہ اسلامی ممالک اسلامی دنیا کے مسائل کے سلسلے میں موثر واقع ہوسکتے ہیں اور خطے کی مشکلات کے حل کے لئے اور دہشتگردی سے مقابلے کے لئے عملی اقدامات انجام دے سکتے ہیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اس ملاقات کے اختتام پر فرمایا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ الجزائر کے صدر بوتفلیقہ جلد از جلد صحت یاب ہوجائیں گے۔
الجزائر کے وزیراعظم عبدالمالک سلال نے اس ملاقات میں  تہران میں منعقدہ گیس برآمد کرنے والے ملکوں کی کانفرنس کو کامیاب قرار دیا اور ایران کے اعلی حکام سے ملاقات اور گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایران اور الجزائر کی بعض سیاسی مسائل خاص طور پر داعش اور خطے میں موجود دوسرے دہشتگرد گروہوں کے بارے میں نقطہ نگاہ نہایت نزدیک ہے اور تہران کے مذاکرات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں امید ہے کہ اقتصادی تعلقات کی سطح موجودہ شرائط سے باہر نکل کر قابل قبول سطح تک پہنچ جائے گی۔

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے وینزویلا کے صدر نیکولس مادورو سے ملاقات میں استکبار کی سیاست کے مقابلے میں وینزویلا کی مزاحمت اور حوصلہ افزا اقدامات کی قدردانی کرتے ہوئے فرمایا کہ آج استکبار کی سیاست عظیم بلاوں کی مانند بشریت کے درپے ہیں اور آزاد ملتوں کی  پیشرفت و ترقی اور کامیابی کی تنہا راہ ارادوں کی جنگ میں استقامت اور عوام پر بھروسہ کرنا ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے لاطینی امریکہ کے علاقے میں امریکہ کی ہرس و ھوس پر مبنی سیاست کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ امریکہ اس خطے کو اپنی کالونی سمجھتا تھا لیکن وینزویلا کی بے مثال کوششوں سے اس خطے کو ایک آزاد اور مستقل شناخت کے حامل خطے میں تبدیل کردیا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے وینزویلا پر امریکی دباو کو، وینزویلا کے عوام اور حکومت کی حوصلہ افزا مزاحمت کو نابود کرنے کا امریکی ہدف قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ آجکل دنیا میں رونما ہونے والی جنگیں ارادوں کی جنگیں ہیں اور آپ استقامت، مستحکم ارادوں اور اپنے ملک میں موجود وسیع امکانات کے زریعے ان مشکلات کے مقابلے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے مغرب سے وابستہ اور ڈکٹیٹر پہلوی حکومت کے خاتمے میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ امام خمینی رح نے خالی ہاتھ لیکن عوام پر بھروسہ کرتے ہوئے اور میدان میں حاضر ہوکر امریکی اور یورپی حمایت یافتہ حکومت کا تکتہ الٹ دیا اور آزاد ملتوں اور حکومتوں کی کامیابی و کامرانی کا راز اسی نسخے سے استفادے میں پنہاں ہے۔
آپ نے دشمن کی جانب سے بے تحاشہ دباو اور پابندیوں کے باوجود اسلامی جمہوریہ ایران کی سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبوں میں حیرت انگیز علمی پیشرفت و ترقی کو گراں قدر تجربہ گردانتے ہوئے فرمایا کہ یہ تجربہ عوام پر بھروسے اور انکی ہمراہی کے زریعے حاصل ہوا ہے اور تمام مشکلات کا حل عوام کی محبت اور انکے دل جیتنے کے لئے خلوص کے ساتھ اپنے وضایف کو انجام دینا ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اسی طرح ایران اور وینزویلا کے درمیان دوطرفہ تعاون میں اضافے پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ ایران وینزویلا کی پیشرفت اور ترقی کو اپنی پیشرفت اور ترقی سمجھتا ہے۔
اس ملاقات میں ایران کے نائب صدر اسحاق جہانگیری بھی موجود تھے۔ وینزویلا کے صدر نیکولس مادورو نے رہبر انقلاب اسلامی سے دوبارہ ملاقات پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایران اور وینزویلا حقیقی دوست اور مستحکم باہمی رابطے کے حامل ممالک ہیں۔
صدر مادورو نے وینزویلا کے آنجہانی صدر ہوگو شاویز کی رہبر انقلاب اسلامی سے والہانہ عقیدت و احترام کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نے بھی آپ سے ملاقات میں بہت زیادہ رہنمائی حاصل کی ہے اور آپ کی نصیحتوں نے میرے اندر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔
وینزویلا کے صدر نے ملک کی آزادی کے لئے استقامت کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ سامراج دنیا میں فتنہ و فساد اور ناامنی اور ملکوں کی شناخت مسخ کرنے کے زریعے ملکوں کی آزادی سلب کرنے کے درپے ہے۔
صدر مادورو نے امریکہ کی سازشوں کے مقابلے میں وینزویلا کی حکومت اور عوام کی آمادگی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح آپ نے تاکید کی ہے ہم ارادوں کی اس جنگ میں عوام پر بھروسے کے زریعے دشمن کو شکست دیں گے۔
وینزویلا کے صدر نکولس مادورو نے گیس ایکسپورٹ کرنے والے ممالک کے سربراہی اجلاس کی اہمیت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دوطرفہ تعاون میں توسیع اور مشترکہ پروجیکٹس کو عملی جامہ پہنانے کے لئے جدید پلاننگ کی ضرورت ہے اور اسی طرح ہمیں چاہئے کہ اپنے تعلقات کو بالاترین سطح پر لے جائیں اور اسے مزید ارتقا دینے کی کوشش کریں۔

رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای نائیجیریا کے صدر جناب محمد بوھاری سے ملاقات میں اسلام اور مسلمانوں کی حقیقی شناخت کے دفاع کے لئے اسلامی ممالک کے درمیان باہمی تعاون کو ایک اساسی ضرورت قرار دیتے ہوئے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ دہشتگردوں سے مقابلے کا دعوی کرنے والے نام نہاد عالمی اتحادی کسی طور بھی قابل اعتماد نہیں ہیں کیونکہ داعش اور اس جیسے دہشتگرد گروہوں کو بنانے یا انکی حمایت کے پیچھے یہی تباہ کن عوامل خاص طور پر امریکہ کارفرما ہیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اسلام کے آشکار دشمنوں اور وہ دشمن کہ جو اسلام کے نام پر اسلام سے دشمنی کر رہے ہیں کو قینچی کے دو دھاریں قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی ممالک کو ان خطرناک دشمنوں کے مقابلے میں آپس میں تعاون کے زریعے اپنی شناخت اور اپنے مفادات کی حفاظت کرنی چاہئے۔
رہبر انقلاب نے ، داعش اور بوکوحرام جیسے دہشتگرد گروہوں سے مقابلے کے لئے امریکا اور مغرب سے تعاون کی امید اور مدد کی امید رکھنے کو غلط اقدام قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ موثق اور صحیح اطلاعات کے مطابق امریکی اور خطے کے بعض رجعت پسند ممالک عراق میں داعش کی براہ راست مدد کررہے ہیں اور تخریباکارنہ کردار ادا کر رہے ہیں۔
آپ نے فرمایا کہ اسلامی ممالک کے درمیان تعلقات اور رابطے دوسرے ممالک سے رابطے اور تعلقات ختم کرنے کے معنی میں نہیں ہے۔ آپ نے مزید فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے امریکہ اور غاصب صیہونی حکومت کے علاوہ دنیا کے تمام ممالک سے گہرے تعلقات ہیں لیکن ہمارا عقیدہ ہے کہ اسلامی ممالک کو ایک دوسرے کے بہت زیادہ نزدیک ہونا چاہئے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اسی طرح جناب بوہاری کے ایک متدین مسلمان کے طور پر نائیجیریا جیسے اہم ملک کا صدر منتخب ہونے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے، دونوں ملکوں کے درمیان موجود تعاون اور باہم تعلقات کے لئےموجود وسیع امکانات کا ذکر کرتے ہوئے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ ان امکانات کی شناخت کی جانی چاہئے اور ان کے بارے میں تبادلہ خیال کیا جانا چاہئے۔
اس ملاقات میں ایران کے نائب صدر اسحقا جہانگیری بھی موجود تھے۔ نائیجیریا کے صدر محمد بوہاری نے اپنے ملک اور اسلامی جمہوریہ ایران کے تعلقات کو دیرینہ اور مستحکم قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایران ایک عظیم اور پیشرفتہ ملک ہے اور اس ملک میں تعلقات اور تعاون کے لئے وسیع امکانات موجود ہیں۔
نائیجیریا کے صدر نے جی ای سی ایف کے سربراہی اجلاس میں دعوت دینے پر ایران کا کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ آج اور رہبر انقلاب سے ملاقات میں میں نے بہت زیادہ رہنمائی حاصل کی ہے اور میں اس ملاقات اور رہنمائی کا قدردان ہوں۔

رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن سے ملاقات میں دو طرفہ عالمی اور علاقائی تعاون میں توسیع اور خطے کے مسائل خاص طور پر شام کے معاملے میں روس کی موثر موجودگی کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ خطے کے بارے میں امریکہ کا طویل المیعاد منصوبہ تمام ممالک خاص طور پر ایران اور روس کے لئے نقصاندہ ہے اور اسے ہوشیاری اور قریبی تعاون کے زریعے ناکام بنایا جاسکتا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس ملاقات میں کہ جو تقریبا دو گھنٹے جاری رہی صدر پیوٹن کو موجودہ دور کی ایک برجستہ شخصیت قرار دیتے ہوئے اور ایٹمی معاملے میں روس کی کوششوں پر شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ مسئلہ ایک نتیجے تک پہنچ گیا ہے لیکن ہمیں امریکہ پر زرہ برابر بھی اعتماد نہیں ہے اور ہم آنکھیں کھلی رکھ کر نہایت سنجیدگی کے ساتھ اس مسئلے کے بارے میں امریکہ کی رفتار اور اسکے اقدامات پر نطر رکھے ہوئے ہیں۔
آپ نے دوطرفہ تعلقات کو توسیع دینے کے سلسلے میں صدر پیوٹن اور اسلامی جمہوریہ ایران کے اعلیٰ حکام کے سنجیدہ اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اقتصادی مسائل اور اس جیسے دوسرے موضوعات کے سلسلے میں دوطرفہ تعاون موجودہ سطح سے مزید توسیع پانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے سیاست اور امن و امان کے سلسلے میں تہران اور ماسکو کے باہمی تعاون ، مختلف مسائل کے بارے میں گذشتہ ڈیڑھ سال کے دوران روس کے صدر کے مواقف کو بہت اچھا اور جدت پسند قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ امریکی ہمیشہ یہ کوشش کرتے ہیں کہ اپنے رقیبوں کو پسپائی پر مجبور کردیں لیکن آپ نے انکی اس پالیسی کو ناکام بنا دیا۔
آپ نے شام کے سلسلے میں ماسکو کے اقدامات اور فیصلوں کو خطے اور دنیا میں روس اور صدر پیوٹن کی قدر و قیمت اور مقبولیت میں اضافے کا سبب قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ امریکہ اپنے طویل مدت منصوبے کے زریعے اس بات کے درپے ہے کہ وہ شام پر اپنا تسلط قائم کرے اسکے بعد خطے میں اپنے تسلط اور کنٹرول میں توسیع کرے، تاکہ مغربی ایشیا میں اپنے تاریخی عدم تسلط کے خلا کو پر کرسکے اور اسکا یہ پلان تمام ممالک خاص طور پر ایران اور روس کے لئے خطرے کا باعث ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ امریکہ اور اسکے پٹھو ممالک شام کے سلسلے میں اس کوشش میں ہیں کہ اپنے نا مکمل اہداف کو حاصل کرنے کے لئے سیاست اور مذاکرات میں فوجی اقدامات کا سہارا لیں کہ اس سلسلے میں ہوشیاری کے ساتھ اور اٹل موقف اپنا کر اس کا راستہ روکا جائے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے شام کے عوام کے منتخب کردہ اور قانونی صدر بشار اسد کو ہٹائے جانے کے امریکی دباو کو واشنگٹن کے کمزور سیاست کا حصہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ شام کے صدر بشار اسد نے عام انتخابات میں مختلف زاویوں یعنی مذہبی، سیاسی اور مختلف قوموں پر مشتمل شام کے عوام کی اکثریت کی جانب سے ووٹ حاصل کئے ہیں اور امریکہ کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ شام کے عوام کے ووٹوں اور انکے انتخاب سے صرف نطر کرے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ شام کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ شام کے عوام اور وہاں کی حکومت کو اطلاع دے کر اور انکی موافقت سے کیا جائے۔
آپ نے داعش سمیت مختلف تکفیری دہشتگرد گروہوں کو امریکہ کی جانب سے براہ راست یا بلاواسطہ  مدد کئے جانے کو بھی امریکی کمزور سیاست کا حصہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ دہشتگردوں کی مدد کرنے کی وجہ سے خطے اور دنیا کی رائے عامہ میں ناقابل اعتبار ممالک کے ساتھ امریکی تعاون اس بات کی دلیل ہے کہ امریکیوں کی ڈپلومیسی میں اخلاقی اقداریں نہیں پائی جاتیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ اسی وجہ سے ہم ایٹمی مسئلے کے علاوہ کہ البتہ اس کے بارے میں بھی خاص دلائل موجودہ ہیں،  نہ شام کے بارے میں اور نہ ہی کسی دوسرے موضوع پر امریکہ سے دوطرفہ مذاکرات نہیں کرنا چاہتے نہ ہی کبھی کریں گے۔  
رہبر انقلاب اسلامی نے شام کے مسئلے کے درست راہ حل کو ضروری اور خطے کے مستقبل کے لئے موثر قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اگر دہشتگرد کہ جنہوں نے شام میں سنگین جرائم کا ارتکاب کیا ہے نابود نہیں ہوئے، انکی تخریب کارانہ سرگرمیوں کا دائرہ وسطی ایشیا اور دوسرے علاقوں تک پھیل جائے گا۔
اس ملاقات میں روس کے صدر نے بھی رہبر انقلاب اسلامی کے گراں قدر تجربات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اور اس ملاقات پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ روس اور ایران کے درمیان دو طرفہ تعلقات خاص طور پر  ایرواسپیس، اور جدید ٹیکنالوجی کے شعبوں میں پہلے سے زیادہ توسیع اور پیشرفت ہوئی ہے اور ہمیں بہت خوشی ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ مل کر سیکورٹی کے مسائل اور خطے اور دنیا کے مسائل کے بارے میں سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں۔
صدر پیوٹن نے اسلامی جمہوریہ کو ایک آزاد، استوار اور روشن مستقبل کا حامل ملک قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کو خطے اور دنیا میں اپنا ایک قابل اعتماد اتحادی مانتے ہیں۔
روس کے صدر نے کہا کہ ہم اس بات کے پابند ہیں کہ دوسروں کے برخلاف ہم اپنے دوستوں کی پیٹھ میں خنجر نہ گھونپیں اور کبھی بھی اپنے دوستوں کے خاف کوئی اقدام انجام نہ دیں اور اگر کسی سے اختلافات بھی ہوں تو اسے بات چیت کے زریعے حل کریں۔
صدر پیوٹن نے شام کے بارے میں دونوں ممالک کے مواقف کو انتہائی نزدیک قرار دیتے ہوئے اس سلسلے میں کئے جانے والے بہت زیادہ تعاون کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہم بھی اس بات کی تاکید کرتے ہیں کہ شام کے بحران کا حل صرف سایسی ڈائیلاگ اور اس ملک کے عوام کے ووٹوں اور شام کے تمام عوام اور اقوام کی رائے کے احترام کے زریعے ہی ممکن ہے اور کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اپنے فیصلے کو شامی عوام پر مسلط کرے اور انکی جگہ حکومت کی تشکیل اور شام کے صدر کے بارے میں فیصلہ کرے۔
شام کے صدر نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح آپ نے فرمایا کہ امریکی چاہتے ہیں کہ شام کی جنگ میں حاصل نہ ہونے والے اپنے مطلوبہ اہداف کو مذاکرات کی میز پر حاصل کرنے کی کوشش کریں اور ہم اس سلسلے میں پوری طرح چوکنا ہیں۔
ولادیمیر پیوٹن نے شام میں موجود دہشتگردوں کے ٹھکانوں پر روس کے حملے جاری رہنے پر تاکید کرتے ہوئے، شام کے بحران کے حل کے لئے ماسکو اور تہران کے تعاون اور مشاورت کو نہایت ضروری قرار دیتے ہوئے کہا کہ جو لوگ دنیا میں جمہوریت کا دعوی کرتے ہیں وہ شام میں انتخابات کی مخالفت نہیں کرسکتے۔
اس ملاقات کے اختتام پر روس کے صدر نے رہبر انقلاب اسلامی کی خدمت قرآن کریم کا نہایت قدیم اور نادر نسخہ تحفے کے طور پر یش کیا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے یہ تحفہ دیئے جانے پر انکا شکریہ ادا کیا۔

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے ترکمانستان کے صدر قربان قلی بردی اف سے ملاقات میں ایران اور ترکمانستان کے قریبی تعلقات اور دو جانبہ تعاون کو توسیع دینے کے سلسلے میں موجود امکانات اور خطے میں فتنے اور سازش کو ہوا دیئے جانے کا مقابلہ کرنے کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ دہشتگرد عناصر سے مقابلے اور انکے اثر و رسوخ کو ختم کرنے کے لئے عوام کے درمیان صحیح اسلامی سرگرمیوں کا فروغ اور معتدل اور عقلانی اسلامی افکار پر مبنی تحریکوں کی تقویت کے زریعے ممکن ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اس ملاقات میں ایران اور ترکمنستان کی ملتوں کو ایسا ہمسایہ کہ جو عزیز و اقارب کی مانند ہیں قرار دیا اور آپس میں تعاون کے لئے موجود امکانات سے استفادہ کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ ضروری ہے کہ نہایت سنجیدگی کے ساتھ معاہدوں کے اجرا کے لئے موثر اور عملی اقدامات انجام دیئے جائیں۔
رہبر انقلاب نے ہمسایہ اور اسلامی ممالک کے امن و امان، فلاح و بہبود اور پیشرفت و ترقی کو اسلامی جمہوریہ ایران کے فائدے میں قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ایران اور ترکمنستان کی سرحدیں امن و امان اور صلح پر مبنی سرحدیں ہیں اور یہ بات دونوں ممالک کے آرام و آسائش کا سبب ہے اور ایران کے راستے خلیج فارس اور آزاد پانیوں تک ترکمانستان کی رسائی ترکمانستان کے لئے ایک قیمتی موقع ہے۔
آپ نے خطے کی موجودہ کشیدہ صورتحال کے باوجود ایران اور ترکمانستان میں امن و امان کی صورتحال کی جانب اشارہ کرتے ہوئے موجودہ صورتحال کے ثبات کے لئے باہمی تعاون کے فروغ پر زور دیا اور فرمایا کہ داعش اور تکفیری گروہوں کے وحشیانہ اقدامات اور دہشتگردی کے مقابلے میں کہ جو اسلام کے نام پر ان سنگین جرائم کا ارتکاب کررہے ہیں، ضروری ہے کہ عوام کو صحیح اسلامی سرگرمیوں کے امکانات فراہم کئے جائیں اور ان عناصر کے اثر و رسوخ کو ختم کرنے کے لئے معتدل اور عقلی اسلامی افکار پر مبنی تحریکوں کی تقویت کی جائے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے دہشتگرد عناصر کی جانب سے سر تن سے جدا کرنے اور انسانوں کو زندہ جلا کر مارنے جیسے وحشیانہ اقدامات کو ان عناصر کی اسلام سے مکمل بیگانگی کی علامت قرار دیتے ہوئے تاکید فرمائی کہ اسلام بھائی چارے، محبت اور ایک دوسرے کے ساتھ خیر خواہی کا مذہب ہے اور ان جرائم کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اس ملاقات میں سینئر نائب صدر اسحاق جہانگیری بھی موجود تھے۔ ترکمانستان کے صدر قربان قلی بردی محمد اف نے اپنے تہران کے سفر پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے رہبر انقلاب اسلامی سے ملاقات کو اپنے لئے باعث فخر قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایران اور ترکمانستان کے ہمیشہ اچھے اور تاریخی تعلقات رہے ہیں اور یہ دونوں ممالک ہمیشہ ایک دوسرے کی خوشی اور غم میں برابر کے شریک رہے ہیں اور آپ کی یہ گفتگو کہ یہ دونوں ممالک نہ صرف یہ کہ ایک دوسرے کے ہمسائے ہیں بلکہ عزیز و اقارب کی مانند ہیں ترکمانستان کی حکومت اور عوام کی حوصلہ افزائی کا باعث ہے۔
ترکمانستان کے صدر نے اپنے پچھلے سفر میں رہبر انقلاب اسلامی کی جانب سے کی گئی نصیحتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک دانا رہبر و لیڈر اور متفکر شخصیت کے عنوان سے آپ کی نصیحتیں ہمارے لئے نہایت قابل قدر ہیں اور آپ کی نصیحتوں پر عمل کرنے سے کافی اچھے نتائج حاصل ہوئے ہیں۔
انہوں نے باہمی تعلقات میں توسیع خاص طور پر گیس، حمل ونقل اور مواصلات کے شعبوں میں موجود امکانات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران اور ترکمانستان کے تجارت اور تعمیرات کے شعبوں میں مشترکہ پروجیکٹس کی تکمیل پورے خطے کے لئے فائدہ مند ہے۔
ترکمانستان کے صدر نے شاہراہ ریشم کی تاریخی اہمیت کو تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ بعض ممالک کی خواہش ہے کہ وہ ایران اور ترکمانستان کے زریعے سمندر تک رسائی حاصل کر سکیں۔
انہوں نے خطے کے سیاسی حالات کو ناساز قرار دیتے ہوئے اور دہشتگرد گروہ داعش کے جرائم کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ داعش اور اس جیسے دوسرے گروہوں کا اسلام سے دور دور سے کوئی تعلق نہیں ہے اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ بعض ممالک انکی مدد اور حمایت میں مشغول ہیں۔

 

 

   کوفہ کی اہم اوربا فضیلت مساجد میں سے ایک مسجد سہلہ ہے۔ یہ مسجد بہت سے انبیاء (ع) کی منزل گاہ اور عبادت گاہ ہے، جن میں حضرت ابراہیم علیہ السلام، ادریس علیہ السلام، خضرعلیہ السلام کے مقامات قابل ذکر ہیں، اور بعض ائمہ اطہار علیہم السلام کی منزل گاہ ہے، من جملہ مقام امام صادق علیہ السلام، امام سجاد علیہ السلام وغیرہ۔

   امام حسین علیہ السلام سے نقل کیا گیا ہے کہ :" مسجد سہلہ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کا گھر تھا، جہاں سے وہ عمالقہ گئے ہیں اور وہاں پر ادریس کا گھر ہے، صخرہ (چٹان) حضراء ہے اور اس مسجد میں صور پھونکا جاتا ہے وغیرہ"

   سہلہ کے معنی ہموار زمین ہیں۔ مسجد سہلہ کے دوسرے نام یہ ہیں: مسجد سہیل، بنی ظفر اور عبدالقیس، مذکورہ مسجد ایک قدیمی ترین اور مشہورترین اسلامی مساجد میں سے ہے۔ یہ مسجد پہلی صدی ہجری میں عرب قبائل کے توسط سے کوفہ میں مسجد جامع کے شمال مغرب میں تعمیر کی گئی ہے۔ مسجد سہلہ نجف کی مشرق میں،یعنی قدیم شہر کوفہ میں واقع ہے۔ یہ مسجد امام علی علیہ السلام کی قبر مبارک کے شمال مشرق میں 10 کلومیٹر کے فاصلہ پر اور مسجد کوفہ کے شمال مغرب میں 2کلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔ روایات کے ایک مجموعہ میں مسجد سہلہ کے معنوی مقام و منزلت کا مختلف عبارتوں میں ذکر کیا گیا ہے۔

   یہ مسجد ایک غیر آباد اور بستی سے خالی زمین پر تعمیر کی گئی ہے، جس کے اطراف میں سرخ ریت ہے۔ یہ مسجد تقریباً مستطیل شکل کی ہے اور اس کی لمبائی 140 میٹر اور چوڑائی 135 میٹر ہے اور اس کی مساحت 17500 مربع میٹر ہے۔ اور اس مسجد کو احاطہ کرنے والی دیواروں کی بلندی تقریباً 22 میٹر ہے۔ اس کے چار ضلعوں کے کونوں پر باہر سے نیم دائرہ شکل کے برج بنائے گئے ہیں جو ایک دوسرے سےمساوی فاصلے پر واقع ہیں۔ مشرقی ضلع کی دیوار کے درمیان میں ایک مینار ہے جس کی بلندی 30 میٹر ہے۔ مسجد کا صدر دروازہ اس کے مشرقی ضلع کےبیچ میں، مذکورہ مینار کے نزدیک واقع ہے۔

   مسجد کے صحن کے مختلف حصوں میں کچھ محراب تعمیر کئے گئے ہیں جن کی دینی پیشواؤں کے نام پر نام گزاری کی گئی ہے، من جملہ مقام امام صادق علیہ السلام، امام سجاد علیہ السلام، امام زمانہ علیہ السلام، ابراہیم علیہ السلام، ادریس علیہ السلام، خضر علیہ السلام، یونس علیہ السلام، ہود علیہ السلام، اور مقام صالح علیہ السلام۔

   امام صادق (علیہ السلام) سے نقل کیاگیا ہے کہ:" کوئی ایسی مشکل نہیں ہے، جو اس مسجد میں دورکعت نماز بجالانے کے بعد حل نہ ہوجائے۔"

   مسجد سہیلہ کو قبیلہ بنی ظفر نے تعمیر کیا ہے۔ وہ انصار کا ایک طائفہ ہے اور امام علی علیہ السلام مسجد بنی ظفر کو مسجد کوفہ کے مانند جانتے ہیں۔

ہندوستان میں شدید بارش کے نتیجے میں مرنے والوں کی تعداد نوے سے تجاوز کرگئی

اطلاعات کے مطابق ہندوستان کی جنوبی ریاست تمل ناڈو میں ایک ہفتے کے دوران ہونے والی شدید بارش کے نتیجے میں اب تک نوے سے زیادہ افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔ بارش کی وجہ سے عام زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔

شدید بارش سے کئی اضلاع متاثر ہوئے ہیں اور کئی علاقوں میں سڑکیں ٹوٹ گئی ہیں نیز ریل پٹریاں بھی پانی میں ڈوب گئی ہیں جس کی وجہ سے کئی ٹرینیں منسوخ کردی گئیں۔ ٹرینیں منسوخ ہونے سے لوگوں کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا ہے۔

شدید بارش اور سیلاب کی وجہ سے ریاست کے متعدد علاقوں میں اسکول اور کالج بھی بند کردیئے گئے ہیں۔

ریاست کے متاثرہ علاقوں میں پھنسے لوگوں کی مدد کے لئے بری اور ہوائی فوج کے اہلکاروں کو تعینات کر دیا گیا ہے۔ تمل ناڈو کی وزیر اعلی جے للتا نے متاثرہ لوگوں کی امداد کے لئے پانچ ارب روپے مختص کرنے کا اعلان کیا ہے اور انتظامیہ سے امدادی کاموں میں تیزی لانے کی تاکید کی ہے۔

 

صیہونی حکومت کی نسل پرستانہ پالیسیاں

صیہونی کابینہ نے صیہونی باشندوں کی معکوس ہجرت بالخصوص بیرون ملک فارغ التحصیل طلبا کے مقبوضہ فلسطین میں نہ رکنے کی طرف اشارہ کئے بغیر اعلان کیا ہے کہ اسرائیل ساری دنیا کے یہودیوں کو اسرائیل آنے کی ترغیب دلانے کے لئے ایتھیوپیا کے یہودیوں کو اسرائیل لانے کی زمین ہموار کرنے کی کوششیں شروع کرنے والا ہے۔ افریقی نژاد یہودیوں کو فلاشہ کہا جاتا ہے۔ صیہونی وزیر اعظم نیتن یاھو نے فلاشہ یہودیوں کو اسرائیل لانے کے کابنیہ کے فیصلے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ اسرائیل کے یہودیوں اور عالمی یہودی برادری کو تقویت پہنچانے کی غرض سے اہم فیصلہ ہے۔

صیہونی حکومت نے ایک بار پھر ایتھیوپیا کے یہودیوں کو اسرائیل لانےکی کوششیں شروع کردی ہیں اور یہ اقدامات ایسے حالات میں ہورہے ہیں کہ مقبوضہ فلسطین میں صیہونیوں کے ہاتھوں افریقی یہودیوں کو شدید تعصب اور امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور انہیں بہت سے مسائل درپیش ہیں۔ افریقی یہودیوں نے حالیہ مہینوں میں احتجاجی مظاہرے کرکے صیہونی حکام کی امتیازی اور تعصب آمیز پالیسیوں پر شدید احتجاج کیا تھا۔ مقبوضہ فلسطین میں ایتھیوپین نژاد یہودیوں کی انجمن کی رپورٹ کے مطابق سیاہ فام یہودیوں کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ شہر کے باہر مضافات میں سکونت اختیار کریں۔

ان کی متوسط فی کس آمدنی اسرائیل کے دیگر صیہونیوں سے چالیس فیصد کم ہے اور انہیں سرکاری اداروں میں نوکری حاصل کرنے میں بھی بڑے مسائل کا سامنا ہے۔ صیہونی حکومت نے انیس سو چوراسی اور انیس سو اکانوے میں سلیمان اور موسی نامی آپریشنوں کے تحت ایتھیوپیا کے ہزاروں یہودیوں کو مقبوضہ فلسطین میں لاکر بسایا تھا۔ صیہونی حکومت نے ان لوگوں سے جھوٹے وعدے کئے تھے۔ آج ایتھیوپیا کے یہودیوں کو مقبوضہ فلسطین میں صیہونیوں کے ہاتھوں شدید ترین تعصب اور امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ سیاہ فام یہودیوں کو مشقت آمیز اور پست کاموں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ ان مسائل سے یہ لوگ بری طرح برہم ہیں۔

ان تمام مسائل کے باوجود ایتھیوپیا کے یہودیوں کو مقبوضہ فلسطین لانے کی صیہونی حکومت کی کوششیں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ قدس کی غاصب حکومت کے پاس یہودیوں بالخصوص جوانوں کی معکوس مہاجرت کی بنا پر دنیا کے مختلف علاقوں سے یہودیوں کو جھوٹے وعدوں اور طرح طرح کے ہتھکنڈوں کے ذریعے مقبوضہ فلسطین میں لاکر بسانے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ مقبوضہ فلسطین میں سماجی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ اس سرزمین کے اقتصادی، سیکورٹی اور سماجی بحران اور صیہونی حکومت کے جھوٹے وعدے اس بات کا سبب بنے ہیں کہ صیہونی حکومت معکوس مہاجرت کا سامنا کرے۔

دراصل صیہونی حکومت جھوٹے وعدے کرکے دیگر ملکوں کے یہودیوں کو مقبوضہ فلسطین آنے کی ترغیب دلاتی ہے، یہ لوگ جب مقبوضہ فلسطین آتے ہیں تو انہیں احساس ہوتا ہے کہ صیہونی حکومت نے ان سے جھوٹ کہا تھا اور بے بنیاد وعدے کئے تھے۔ اس کےعلاوہ ان کے ساتھ نسل پرستانہ رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔ واضح رہے صیہونی حکومت کی ان مکارانہ چالوں سے اب تک اس غاصب حکومت کو یہودی آباد کی اکثریت بنانے میں کوئی مدد نہیں ملی ہے اور وہ آبادی کے بحران سے نہیں نکل سکی ہے۔

اس سلسلے میں امریکن سوشلوجیکل ایسوسی ایشن کہ جس کے ہزاروں ارکان ہیں، اسرائیل کے ساتھ اپنا تعاون ختم کرنے کا جائزہ لے رہی ہے۔

صیہونی حکومت کے ٹی وی چینل دس نے اعلان کیا ہے کہ امریکن سوشلوجیکل ایسوسی ایشن آئندہ جمعہ کے روز اسرائیل کے ساتھ اپنا تعاون ختم کرنے کے بارے میں حتمی فیصلہ کرنے کے لیے ایک کانفرنس منعقد کرے گی۔

اس چینل کا مزید کہنا تھا کہ امریکن سوشلوجیکل ایسوسی ایشن کا اسرائیل کے ساتھ تعاون ختم کرنا اسرائیل کا سب سے بڑا یونیورسٹی بائیکاٹ ہو گا۔ 

اسرائیل کی نیوز سائٹ واللا نے بھی اعلان کیا ہے کہ فلسطینیوں نے دریائے اردن کے مغربی کنارے اور قدس کی صیہونی کالونیوں میں بنی ہوئی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کے لیے لاطینی امریکہ میں وسیع پیمانے پر مہم شروع کر رکھی ہے۔

یہ ایسے وقت میں ہے کہ جب یورپی یونین نے بھی باضابطہ طور پر غرب اردن اور قدس کی صیہونی کالونیوں کی مصنوعات پر علامت لگانے کا کام شروع کر دیا ہے کہ جس کی وجہ سے یورپی ممالک اس مصنوعات کا بائیکاٹ کر رہے ہیں۔ 

حالیہ ہفتوں کے دوران فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے جرائم میں اضافے کی بھی کہ جس میں دسیوں فلسطینی شہید اور تقریبا دس ہزار زخمی ہو چکے ہیں، اقوام متحدہ کے قانونی امور کے ماہرین نے شدید مذمت کی ہے۔

اس سلسلے میں فلسطینی علاقوں میں انسانی حقوق کے امور میں اقوام متحدہ کے خصوصی رپورٹر مکارم وبسونو Makarim Wibisono اور اندھی پھانسیوں کے امور مین اقوام متحدہ کے مشیر کرسٹوف ہینز Christof Heyns نے اپنی رپورٹ میں فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے جرائم میں شدت آنے کے بارے میں خبردار کیا ہے۔ 

صیہونی حکومت پر بڑھتی ہوئی عالمی تنقید اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ صیہونی حکومت کے ناجائز قیام کو ساٹھ سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے بعد یہ حکومت مختلف قسم کے حربے اور ہتھکنڈے استعمال کرنے کے باوجود اپنی تشکیل کو قانونی جواز نہیں دے سکی ہے اور اس حکومت کو پہلے سے زیادہ عالمی نفرت کا سامنا ہے اور عالمی رائے عامہ مختلف طریقوں سے ناجائز صیہونی حکومت کے بارے میں اپنی نفرت کا اظہار کرتی ہے۔ 

فلسطینی عوام کے خلاف صیہونی حکومت کے جرائم نے پوری دنیا کے لوگوں کے دلوں کو مجروح کر دیا ہے کہ جس کی وجہ سے اس کے خلاف عالمی سطح پر احتجاج کیا جا رہا ہے۔

جوں جوں دنیا والوں کو مظلوم فلسطینی عوام کے خلاف صیہونی حکومت کے وحشیانہ جرائم کے بارے میں زیادہ معلومات حاصل ہو رہی ہیں، اسرائیل کی پالیسیوں پر تنقید اور ان کی مخالفت بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ 

صیہونی حکومت کے خلاف پابندیاں عائد کرنے اور اس کا بائیکاٹ کرنے پر بین الاقوامی تاکید کا مطلب یہ ہے کہ صیہونی حکومت کی توسیع پسندی کے بارے میں دنیا والوں کا رویہ تبدیل ہو رہا ہے اور اب ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے اور عالمی سطح پر صیہونی حکومت کے خلاف اقدامات شروع ہو رہے ہیں۔ جس پر غاصب صیہونی حکومت کے حکام میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ 

صیہونی حکومت کے وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے کچھ عرصہ قبل بائیکاٹ کی عالمی لہر میں اضافے پر خبردار کرتے ہوئے واضح طور پر کہا تھا کہ اسرائیل کے بائیکاٹ کی عالمی تحریک اس حکومت کے وجود کے لیے خطرہ ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے کہ جس کا مغرب کے صحافتی حلقے بھی اعتراف کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ اس سلسلے میں حال ہی میں ایسوسی ایٹڈ پریس نے اسرائیل کے بائیکاٹ کے بارے میں اپنی ایک رپورٹ میں کہ جسے ڈان پیری نے تیار کیا، لکھا ہے کہ موجودہ فضا ہمیں اس بائیکاٹ کی یاد دلاتی ہے کہ جس نے پچیس سال قبل جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت کے خاتمے میں مدد دی تھی۔ 

بین الاقوامی حالات اس وقت سیاسی، اقتصادی، قانونی اور تعلیمی شعبوں سمیت تمام شعبوں میں صیہونی حکومت کے خلاف ردعمل کا دائرہ وسیع ہونے کی عکاسی کرتے ہیں اور اس غاصب حکومت کے خلاف بڑھتی ہوئی عالمی نفرت نے صیہونی حکومت کو بین الاقوامی میدان میں الگ تھلک اور تنہا کر کے رکھ دیا ہے۔

 

پینٹاگون کے ترجمان نے کہا کہ رواں ہفتے پیش کئے جانے والے بل میں گوانتانامو بے جیل کو بند کرنے کے سلسلے میں متعدد آپشنز کو تجویز کیا گیا ہے۔ اور وزارت جنگ کے ماہرین نے اس جیل کے بعض قیدیوں کو امریکی سرزمین میں واقع جیلوں میں منتقل کرنے کے لئے مختلف علاقوں کا جائزہ لیا ہے۔

اگرچہ اس بل کی تفصیلات ابھی تک منظر عام پر نہیں آئی ہیں لیکن ری پبلیکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے امریکی سینیٹ کے تین اراکین کوری گارڈنر ، ٹیم اسکاٹ اور پٹ رابرٹز نے اس بل کی مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ وہ گوانتانامو جیل کے قیدیوں کو امریکی سرزمین میں منتقل کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

گوانتانامو جیل کو امریکہ کے سابق صدر جارج بش کے زمانے میں خلیج گوانتانامو میں جنوری سنہ دو ہزار دو میں بنایا گیا۔ اس جیل کی تعمیر کا مقصد ان افراد کو یہاں قید میں رکھنا بتایا گیا جن کو امریکی قیادت میں بین الاقوامی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران گرفتار کیا گیا۔ باراک اوباما نے سنہ دو ہزار آٹھ میں انتخابی مہم کے دوران اس جیل کو بندکرنے کا وعدہ کیا۔ اب سات سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود اس جیل میں ایک سو بائیس افراد قید ہیں اور ان پر ابھی تک مقدمہ بھی نہیں چلایا گیا ہے۔

باراک اوباما کی حکومت کے پاس اس مسئلے سے نمٹنے کے سلسلے میں معدودے چند آپشن ہیں جن میں سب سے زیادہ آسان ان افراد کو ان کے ملکوں میں واپس بھیجنا ہے۔ لیکن اس جیل کے صرف ترپن قیدی ہی ایسے ہیں جن کو ان کے ملکوں میں واپس بھیجا جا سکتا ہے ۔ جبکہ باقی قیدیوں کے بارے میں فیصلہ کرنے کے سلسلے میں وائٹ ہاؤس کو مشکلات کا سامنا ہے۔

امریکی حکومت ایسے قیدیوں کو اپنے ملک میں منتقل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے لیکن کانگریس کا پاس کردہ قانون اس آپشن کو عملی جامہ پہنانے کے سلسلے میں ایک بڑی رکاوٹ بن چکا ہے کیونکہ کانگریس کے فیصلے کے مطابق ان پر امریکی سرزمین میں مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا اور اس سے زیادہ بڑی رکاوٹ امریکی جماعتوں کا سیاسی کھیل ہے جو گوانتانامو جیل کے بارے میں فیصلے سے متعلق امریکہ کی دو بڑی جماعتوں کے باہمی مقابلے کا ذریعہ بن چکا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ تیرہ برس کا عرصہ گزرنے کے بعد موجودہ حالات میں گوانتانامو جیل کو برقرار رکھنا ماضی کی طرح زیادہ اہمیت کا حامل نہیں ہے۔ اس مسئلے کے حوالے سے وقتا فوقتا جو چیز امریکہ کے سیاسی حلقوں کی توجہ کا مرکز بنتی ہے وہ وائٹ ہاؤس اور ری پبلیکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے اراکین کانگریس کی جانب سے محاذ آرائی کا ایک نیا میدان تیار کرنا ہے ۔ گوانتانامو جیل کو بند کرنا باراک اوباما کے لئے صرف انتخابی مہم کے دوران کئے گئے اس وعدے کو عملی جامہ پہنانا ہے جو انہوں نے سات سال قبل کیا تھا اور ان کو امید ہے کہ ان کے دوسرے عہد صدارت کے آخری ایام میں یہ وعدہ پورا ہو جائے گا۔ اس کے مقابلے میں امریکہ کے ری پبلیکن پارٹی کے اراکین ڈیموکریٹ صدر کے وعدہ پر عملدرآمد کے ذریعے تقدیر ساز صدارتی انتخابات میں مخالف سیاسی جماعت کی پوزیشن مضبوط کرنے کے خواہاں نہیں ہیں۔

اس میں شک نہیں کہ امریکی جماعتوں کے اس سیاسی کھیل کی بھینٹ گوانتانامو کے وہ قیدی چڑھ رہے ہیں کہ جن میں سے بعض پر حتی باضابطہ طور پر فرد جرم بھی عائد نہیں کی گئی ہے اور وہ اپنی عمر کے کئی برس اس بدنام زمانہ جیل میں گزار چکے ہیں۔