Super User

Super User

ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں اپنی نوعیت کی منفرد '' حجاب کیمپین '' کا اہتمام کیا گیا۔ '' میں با حجاب ہوں '' نامی اس کیمپین کا اہتمام انٹرنیشنل مسلم یونٹی کونسل نے کیا تھا جس کے تحت سرینگر میں راہ چلتی باحجاب طالبات کو مختلف انعامات سے نوازا گیا اور  با حجاب رہنے پر انکی حوصلہ افزائی کی گئی۔ انٹر نیشنل مسلم یونٹی کونسل سے وابستہ خواہران نے راہ چلتی باحجاب کالج طالبات اور دیگر عورتوں کو پھول، اسٹیکر،اسکارپ اور دیگر انعامات سے بھی نوازا تاکہ اس طرح دوسری لڑکیوں میں بھی حجاب پہننے کا رحجان پیدا ہو جائے۔ یہ وادی کشمیر میں اپنی نوعیت کی پہلی و منفرد ''حجاب کمپین'' تھی جس کے ذریعے کونسل نے حجاب کی اہمیت و افادیت کے حوالے سے آگاہی فراہم کی جسکو عوام اور معزز خواتین نے سراہا اور مختلف مقامات پر اسے انجام دینے کی دعوت بھی دی۔ انٹرنیشنل مسلم یونٹی کونسل کے جنرل سیکریٹری سید جاوید عباس رضوی نے اس موقع پر ابنا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مغرب اپنی ثقافت کے ذریعہ مسلم معاشرے سے حجاب کو ختم کرکے عریانیت عام کرنا چاہتاہے، وہ اپنی سازش کے ذریعہ مسلم خواتین کا تقدس پائمال کرنے کے درپے ہے۔ انہوں نے مزید بتایا وادی کشمیر اولیاء خدا کی سرزمین ہے یہاں پر بھی کچھ عرصے سے لڑکیوں میں بے حجابی کا اثر پیدا ہونے لگا ہے جس کو توڑ کرنے کے لئے کشمیر کی مقدس سرزمین پر آئندہ بھی اسلامی حجاب کی اہمیت اور افادیت کے پیش نظر مختلف مقامات، اسکول ،کالج اور دانشگاہوں میں''حجاب کمپین'' جاری رکھی جائے گے۔ کیمپین میں شریک با حجاب طالبات کا کہنا تھا کہ حجاب کے حوالے سے آگہی فراہم کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ ہمارے مسلم معاشرے سے بے حجابی و بے پردگی کامکمل طور پر خاتمہ ہوسکے۔

حقیقت یہ ہے کہ صیہونی حکومت کے رویئے سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ یہ حکومت فلسطینی سرزمین کے مختلف علاقوں پر قبضے اور فلسطینیوں کے حقوق کی مکمل پامالی کے لئے موقع کی تلاش میں ہے۔ صیہونی حکام مغربی کنارے پر اپنا قبضہ جاری رکھنے اور اس پر مزید تسلط حاصل کرنے پر ایسی حالت میں تاکید کر رہے ہیں کہ جب یہ خطہ انیس سو سڑسٹھ سے عملی طور پر صیہونی حکومت کے قبضے میں ہے۔

مغربی کنارے پر ایسی حالت میں صیہونی حکومت کا قبضہ جاری ہے کہ جب فلسطین کے بارے میں اقوام متحدہ کی قرار دادوں منجملہ دو سو بیالیس اور تین سو اڑتیس میں مقبوضہ علاقوں سے صیہونی حکومت کی پسپائی پر تاکید کی گئی ہے۔ فلسطینیوں نے صیہونی حکومت کے توسیع پسندانہ اور تشدد آمیز اقدامات کے خلاف اپنے رد عمل کا اظہار کیا ہے۔

اکتوبر کے مہینے سے غاصب صیہونیوں کے خلاف فلسطینی عوام کے احتجاج میں شدت پیدا ہوئی ہے جس کی وجہ سے صیہونی حکومت کے تمام اندازے غلط ثابت ہوگئے ہیں اور صیہونی حکومت کو فلسطینی عوام کے احتجاجات اور اعتراضات میں پھیلاؤ کے بعد مغربی کنارے میں اپنی ریزرو فوج کے متعدد بٹالین تعینات کئے ۔ یہ ایسی حالت میں تھا کہ جب اسرائیلی فوج کا گمان تھا کہ وہ اکتوبر سے شروع ہونے والے فلسطینی انتفاضہ پر آسانی کے ساتھ قابو پا سکتی ہے۔

دریں اثناء صیہونی حکومت کے فوجی اقدامات میں آنے والی شدت کا دائرہ مغربی کنارے تک محدود نہیں ہے بلکہ صیہونی حکومت کے لڑاکا طیاروں نے حالیہ دنوں میں فلسطینی علاقوں خصوصا غزہ پٹی کے علاقے پر بارہا حملے کر کے اس علاقے میں جنگ بندی کی خلاف ورزی کی ہے۔ غزہ پٹی پر سنہ دو ہزار چودہ میں صیہونی حکومت کے حملوں کے بعد مصر کی ثالثی میں صیہونی حکومت اور فلسطین کے جہادی گروہوں کے درمیان ہونے والے جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط کئے جانے کے بعد اسرائیل غزہ پٹی پر ہر طرح کے حملے سے اجتناب کرنے کا پابند ہے۔ لیکن یہ حکومت مختلف بہانوں کے ساتھ اس معاہدے کی خلاف ورزی کرتی رہتی ہے۔

رائے عامہ نے صیہونی حکومت کے تشدد آمیز اقدامات کے خلاف شدید نفرت کا اظہار کیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود امریکہ کی جانب سے اس غاصب حکومت کی حمایت کا سلسلہ نہ صرف جاری ہے بلکہ دونوں ممالک باہمی تعلقات میں توسیع کے بھی درپے ہیں۔ اسی تناظر میں صیہونی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو اور امریکی حکام غاصب صیہونی حکومت کی فوجی امداد میں اضافے کے طریقوں کا جائزہ لئے جانے کے بارے میں مشاورت کر رہے ہیں۔ امریکہ کی جانب سے صیہونی حکومت کی حمایت اس غاصب حکومت کے لئے گرین سگنل کے مترادف ہے۔ اس حکومت نے امریکی حمایتوں کی وجہ سے اپنے تشدد آمیز اور توسیع پسندانہ اقدامات میں شدت پیدا کر دی ہے۔

صیہونی حکومت کی ہمہ گیر حمایت کی وجہ سے امریکہ بھی اس غاصب حکومت کے مظالم میں برابر کا شریک بن چکا ہے۔ جس کی وجہ سے رائے عامہ میں دنیا کے مختلف علاقوں میں اقوام پر مظالم ڈھانے والے امریکی حکام کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوا ہے۔
امریکی رائے عامہ بھی امریکہ کے مفادات کا تعلق صیہونی حکومت کے ساتھ جوڑنے اور امریکی شہریوں کے ٹیکسوں سے اس غاصب حکومت کی حمایت میں بے تحاشا اخراجات برداشت کرنے پر مبنی امریکی حکام کے اقدامات پر معترض ہے۔

امریکہ کے مختلف شہروں میں حالیہ مہینوں خصوصا اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کے دورہ امریکہ کے موقع پر صیہونیت مخالف مظاہروں میں شدت پیدا ہونے سے اس بات کی عکاسی ہوتی ہے کہ امریکی رائے عامہ امریکہ کی جانب سے صیہونی حکومت کا ساتھ دینے سے شدید نفرت کرتی ہے۔

صیہونی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے اپنے دورۂ امریکہ کے موقع پر اسلامی جمہوریہ ایران پر دہشت گردی کا بے بنیاد الزام لگاتے ہوئے کہا کہ دہشت گرد گروہ داعش اور ایران کی زیر قیادت شیعہ اسلامی ملیشیا مشرق وسطی کو فتح کرنے کے درپے ہیں۔ نیتن یاہو نے مزید کہا کہ ایران کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں باراک اوباما اور میرے درمیان اختلاف رائے پایا جاتا ہے لیکن سمجھوتے پر دستخط ہوچکے ہیں اور اب ہمیں اس معاہدے کی خلاف ورزی نہ کئے جانے کی جانب توجہ مرکوز رکھنی چاہئے۔

ایران کے ایٹمی معاہدے پر تشویش کے علاوہ ان بیانات میں طنزیہ نکتہ یہ ہے کہ سب سے بڑے شرپسند اور دہشت گردوں کے سرغنہ نیتن یاہو نے ایران پر مشرق و مغرب میں دہشت گردگروہوں کی تشکیل کا الزام لگایا ہے اور کہا ہے کہ مغرب کو بھی اس خطرہ کا سامنا ہے۔

بلاشبہ ایٹمی معاہدہ بہت سے پہلووں کے اعتبار سے ایک موثر اور قابل توجہ واقعہ ہے۔ اس واقعے سے اختلافات کو منطقی اور پرامن مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے حامیوں کے دل خوش ہوئے جبکہ دشمنوں کے سینوں میں آگ لگ گئی۔

دریں اثناء صیہونی وزیر اعظم نیتن یاہو نے شروع سے ہی ایٹمی معاہدے کو خطرناک ظاہر کرنے کی کی کوشش کی۔ اس رویئے کو اگرچہ عوام کو فریب دینے پر مبنی اسرائیل کی پالیسی قراردیا جا سکتا ہے لیکن یہ اس مسئلے کا صرف ایک پہلو ہے اور ایران کے بارے میں نیتن یاہو کے واویلے کا دوسرا پہلو حقائق سے فرار اختیار کرنے پر مبنی ان کی گھسی پٹی پالیسی ہے۔ یہ رویہ چند وجوہات کی بناء پر نیتن یاہو کے لئے اسٹریٹیجک اہمیت کا حامل ہے۔

نیتن یاہو کے ایران مخالف بے بنیاد دعوے کی سب سے پہلی وجہ ان کی یہ تشویش ہے کہ ایران پر پڑنے والے بین الاقوامی دباؤ کا رخ اب مشرق وسطی میں واحد ایٹمی ہتھیاروں کے حامل اور این پی ٹی معاہدے پر دستخط نہ کرنے والے اسرائیل کی جانب مڑ چکا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نیتن یاہو کو اس خوف نے ایران پر بے بنیاد الزامات لگانے پر اکسایا ہے کہ مشرق وسطی کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنے کی تجویز کو عملی جامہ پہنانے کے سلسلے میں دباؤ میں مزید شدت پیدا ہو جائے گی۔ واضح رہے کہ امریکہ اور اسرائیل دونوں ہی اس تجویز کے مخالف ہیں۔

نیتن یاہو کی جانب سے ایران پر بے بنیاد الزام لگائے جانے کی دوسری وجہ اسرائیل کی بلیک میلنگ ہے اور یہ سلسلہ کبھی رکنے والا نہیں ہے۔ نیتن یاہو نے با رہا کہا ہےکہ ان کو ایران کے ایٹمی معاہدے پر تشویش لاحق ہے۔ اس تشویش کی بازگشت ان مسائل کی جانب ہوتی ہے جن کے بارے میں اسرائیل جوابدہ ہے ایران نہیں۔ بنابریں صیہونی حکام نے، اس استدلال کے ساتھ کہ مشترکہ جامع ایکشن پلان پرعملدرآمد اسرائیل کے لئے بہت زیادہ اخراجات کا باعث بنے گا اور اسے کٹھن صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا، امریکہ سے مزید مطالبات کئے ہیں۔

صیہونی حکام نے امریکہ سے جو مطالبات کئے ہیں ان میں براہ راست اور بلامعاوضہ سالانہ تین ارب ڈالر کی مدد کو پانچ ارب ڈالر تک بڑھانا بھی شامل ہے۔اس کے علاوہ انہوں نے مزید ہتھیاروں کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ صیہونی وزیر اعظم نیتن یاہو نے امریکی حکام سے ملاقاتوں کے دوران ایک بار پھر یہ مطالبات ان کے سامنے رکھے ہیں۔البتہ امریکہ اسرائیل کے بقا پر موقوف مغربی ایشیا میں اپنےاسٹریٹیجک مفادات کی اہمیت کی خاطر صیہونی حکومت کو یہ خراج دینے پر مجبور ہے۔

نیتن یاہو کے ایران مخالف بے بنیاد الزامات کی تیسری وجہ یورپ خصوصا امریکہ کے تسلط کے خاتمے پر نیتن یاہو کی تشویش ہے۔ صیہونی وزیر اعظم نیتن یاہو کو اس بات نے شدید تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے امریکہ کی دھمکیوں، پابندیوں اور دباؤ کے مقابلے میں استقامت سے کام لیا اور یورپ اور امریکہ کو ایران کے جائز ایٹمی حقوق تسلیم کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔

بنابریں ایٹمی معاہدہ اور مشترکہ جامع ایکشن پلان ایٹمی معاملے کے بارے میں ایک معمولی معاہدہ نہیں ہے بلکہ یہ خطے میں امریکہ اور اسرائیل کے اثر و رسوخ پر ایک کاری ضرب ہے۔ خطے میں رونما ہونے والی اس تبدیلی سے یقینا امریکہ اور اسرائیل کی جارحانہ پالیسیوں کے سامنے مشکلات کھڑی ہو جائیں گی اور خطے میں امریکہ اور اسرائیل کے اہداف کے حصول کے لئے دہشت گرد گروہ داعش کے پھیلاؤ اور اس کے کردار کی اہمیت کا بھی اسی تناظر میں جائزہ لیا جانا چاہئے۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ دہشت گرد گروہ ہی ان کے خیال خام کے مطابق اسرائیل کا مقابلہ کرنے والے ممالک پر قابو پا کر خطے میں پیچیدہ بحران پیدا کر سکتا ہے اور یہ بحران صرف امریکہ اور اسرائیل کے فائدے میں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دہشت گرد گروہ داعش امریکہ اور اسرائیل کے لئے کسی طرح کا خطرہ نہیں ہے اور اس گروہ نے خطے میں صیہونی داعشی دہشت گردی کو چھپانے کا موقع فراہم کردیا ہے۔ اور صیہونی وزیراعظم نیتن یاہو کے بیانات کا جائزہ بھی انہی وجوہات اور دلائل کے تناظر میں لیا جانا چاہئے

تہران یونیورسٹی میں مرکزی نماز جمعہ کا خطبہ دیتے ہوئے آیت اللہ امامی کاشانی نے امید ظاہر کی کہ ایران کی مذاکراتی ٹیم نے اب تک جس دانشمندی کا مظاہرہ کیا ہے،ایٹمی اتفاق رائے پر عملدرامد کے معاملے میں بھی اسی دانشمندی سے کام لے گی۔ 

آیت اللہ امامی کاشانی نے صدر ایران کے نام رہبر انقلاب اسلامی کے ہدایت نامے میں درج نو نکات کی جانب بھی اشارہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ قومی سلامتی کی اعلی کونسل اور پارلیمنٹ میں جامع مشترکہ ایکشن پلان کا جائزہ مکمل ہونے کے بعد رہبر انقلاب اسلامی نے اس پر عملدرآمد کی گہری نگرانی کئے جانے پر زور دیا ہے۔ 

تہران کے خطیب جمعہ نے یہ بات زور دے کر کہی کہ ملک میں دشمن کے نفوذ کا راستہ ہر حال میں روکا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ملکی معیشت، اخلاقیات اور سیاست کی حدود واضح ہیں اور استقامتی معیشت کا راستہ ہی ملکی ترقی و پیشرفت کا واحد ذریعہ ہے۔ 

آیت اللہ امامی کاشانی نے کہا کہ شام کے بارے میں ہونے والے ویانا مذاکرات میں ایران کو شرکت کی دعوت دیا جانا،تہران کے عالمی وقار کی نشاندھی کرتا ہے۔


عالمی سامراج کے خلاف جدوجہد کے قومی دن کے موقع پر اسکولوں اور یونیورسٹیوں کے طلبہ کی ریلیوں کا ذکر کرتے ہوئے تہران کے خطیب جمعہ نے کہا کہ یہ ریلیاں شاہی حکومت کے دور میں اسکولوں اور یونیورسٹی کے طلبہ کی سامراج مخالف تحریک اور امریکہ مردہ باد کے نعرے کا تسلسل ہیں۔

رپورٹ کے مطابق لورالائی میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے جمعیت نظریاتی کے رہنماوں نے عالم اسلام کے حکمرانوں کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کے پاس ایٹم بم سے لیکر تمام وسائل اور لاولشکر وغیرہ موجود ہیں مگر مسجد الاقصی یہودیوں کے محاصرے میں ہے اور صھیونی حکومت بیت المقدس پر قبضے کی سازشوں میں مصروف ہے ۔
مقررین کا کہنا تھا کہ مسلمان حکمران اسلام سے روگرداں اور مغرب کے آلہ کار بن گئے ہیں ۔
جمعیت کے رہنماوں نے پاکستان میں مدارس کے چھاپوں کی بھی مذمت کی اور اس سلسلے کو روکنے کا مطالبہ کیا ۔

حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ نے " انتفاضہ قدس، انتفاضہ ملت اور انقلاب امت" کے زیر عنوان منعقدہ بین الاقوامی سمینار سے خطاب میں فلسطینی عوام کی انتفاضہ قدس کی قدردانی کرتے ہوئے، اس کی حمایت کی ضرورت پر زور دیا ۔ 

انھوں نے صیہونی فوجیوں کے مقابلے میں فلسطینیوں کے معمولی ہتھیاروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی عوام اپنی تحریک انتفاضہ قدس میں جن ہتھیاروں سے کام لے رہے ہیں، صیہونی حکومت فلسطینیوں سے وہ اسلحے سلب کرنے پر قادر نہیں ہے۔

سید حسن نصراللہ نے کہا کہ بعض عناصر کے دعووں کے برخلاف فلسطین میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ فلسطینیوں کی ناامیدی اور مایوسی کی علامت نہیں بلکہ غاصب صیہونیوں کے مقابلے میں ان کی استقامت و پائیداری اور ان کے ایمان کا مظہر ہے۔ انھوں نے فلسطینی امنگوں کے تعلق سے امت اسلامیہ کے طرزعمل کو غیر موثر قرار دیا اور کہا کہ عالم اسلام اور عرب دنیا نے صیہونیوں کے حملوں کے مقابلے میں ٹھوس موقف کا مظاہرہ نہیں کیا ہے۔ 

سید حسن نصراللہ نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ اسرائیل سامراجی اور استعماری محاذ کی فرنٹ لائن ہے، کہا کہ یہ غاصب حکومت صرف صیہونی سازش کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ ایک بین الاقوامی سازشی منصوبے کی دین ہے جس کو امریکا اور دیگر مغربی طاقتوں کی حمایت حاصل رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ فلسطینی، عالمی سامراجی منصوبوں کے مقابلے میں اگلے مورچے پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ 

سید حسن نصراللہ نے کہا کہ تعجب ہے کہ افغانستان اور دیگر علاقوں میں سرگرم جنگجوؤں کی بھرپور حمایت کی جاتی ہے لیکن اس طرح کی حمایت فلسطینیوں کی نہیں کی جاتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ جو لوگ افغانستان، شام اور دیگر علاقوں میں جنگ کے لئے گئے ہیں اگر وہ سب فلسطین گئے ہوتے تو اسرائیل صفحہ ہستی سے مٹ گیا ہوتا۔

 

تہران میں اسکولوں اور کالجوں کے طلبا کی بڑی تعداد نے منگل کو رہبر انقلاب اسلامی آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی- یہ ملاقات اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد تہران میں امریکہ کے جاسوسی کے مرکز پر ایران کے انقلابی طلبا کے قبضے کی سالگرہ کی مناسبت سے انجام پائی- یاد رہے کہ چار نومبر انیس سو اناسی کو انقلابی طلبا نے تہران میں امریکہ کے سفارتخانے پر جو جاسوسی کے مرکز میں تبدیل ہوچکا تھا قبضہ کرلیا تھا-
ایران میں یہ دن ہر سال عالمی سامراج کے خلاف جدوجہد کے دن کے نام سے منایا جاتا ہے- یہ دن بدھ کو پورے ایران میں قومی جوش و جذبے کے ساتھ منایا جائے گا لیکن ایران کے اسکولوں اور کالجوں کے طلبا نے اس مناسبت سے منگل کو ہی رہبر انقلاب اسلامی آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی- رہبر انقلاب اسلامی نے اس موقع پر اپنے خطاب میں فرمایا کہ امریکہ آج بھی ایران اسلامی کا سب سے بڑا دشمن ہے-
آپ نےفرمایا کہ ایرانی قوم کا امریکہ مردہ باد کا نعرہ بہت ہی مستحکم اور عاقلانہ بنیاد پر استوار ہے – آپ نے فرمایا کہ ظاہر ہے کہ اس نعرے کا مطلب امریکی قوم مردہ باد نہيں ہے- رہبر انقلاب اسلامی آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ اس نعرے کا مطلب امریکی پالیسیاں مردہ باد اور سامراج مردہ باد ہے اور اس نعرے کی بنیاد عاقلانہ اور محکم ہے جس کو ہر صاحب عقل قوم سمجھتی ہے- رہبر انقلاب اسلامی آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ سامراج کے خلاف جدوجہد ایک معقول اور خردمندانہ تحریک ہے جو سائینٹیفک بنیادوں اور ایرانی قوم کے تجربات پر استوار ہے- آپ نے فرمایا کہ امریکہ نے حالیہ برسوں میں یہ کام کیا ہے کہ کچھ لوگوں کو اس کام پر لگایا ہے کہ وہ یہ ظاہر کریں کہ امریکہ کل تک دشمن تھا لیکن آج دشمن نہیں ہے- آپ نے فرمایا کہ امریکہ اس طرح ایرانی قوم سے اپنی دشمنی کو چھپانا چاہتا ہے تاکہ دھوکے سے اس قوم پر وار کرسکے- 
رہبر انقلاب اسلامی نے مصدق کی تحریک کی ناکامی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ مصدق کی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے تیل کی دولت اور صنعت کو قومی تحویل ميں دینے کےبعد امریکہ پر اعتماد کرلیا اور امریکہ نے ان کی خوش فہمی اور سادہ لوحی سے فائدہ اٹھا کر ان کے خلاف بغاوت کروا دی اور ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا-
رہبر انقلاب اسلامی آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے خطاب میں طلبا کو نصیحت فرمائی کہ امریکی جاسوسی کے اڈے پر قبضے کے واقعے سے سبق حاصل کریں اور جو دستاویزات وہاں سے برآمد ہوئیں ان کا مطالعہ کریں- آپ نے فرمایا کہ یہ دستاویزات ثابت کرتی ہیں کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے عروج کے زمانے میں امریکی، اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف کس طرح کی سازش میں مصروف تھے، امریکہ کی حقیقت یہ ہے-
آپ نے فرمایا کہ امریکی، مذاکرات میں خود کوجنگ کا مخالف ظاہرکرنے کے لئےکیمرے کے سامنے آکے آنسو بہاتے ہیں یہ وہی ہیں کہ جب صیہونی حکومت نے غزہ میں سیکڑوں بچوں کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور آج بھی غرب اردن میں دوسری شکل میں حملے کر رہی تو ان کی پیشانی پر شکن تک نہیں آرہی ہے- اس حالت میں کیمرے کے سامنے ان کے رونے پر کیسے یقین کرلیا جائے؟ 

 

 

مسجد امیر چقماق، جسے یزد کی تاریخ میں مسجد جامع نو اور یا مسجد دھوک بھی کہا گیا ہے، تیموری دور میں، شاہرخ کے دربار کے مقرب اور یزد کے حاکم امیر جلال الدین چقماق شامی اور ان کی شریک حیات ستی فاطمہ کی ہمت سے یہ مسجد تعمیر کی گئ ہے۔

 مذکورہ مسجد شاہرخ میرزا تیموری کی بادشاہی میں سنہ 841ھ میں تعمیر کی گئی ہے کہ شکوہ، عظمت اور خوبصورتی کے لحاظ سے بیشک شہر یزد کی مسجد جامع کے بعد بہترین اور قابل اعتبار ترین مسجد ہے۔

یہ مسجد پہلے، شہر سے باہر تھی، حتی محمد شاہ قاچار کی سلطنت تک شہر کی دیوار موجود تھی اور یہ مسجد شہر سے باہر تھی۔

فتح علی شاہ قاچار کی حکمرانی کے دوران، حاجی حسین عطار کے توسط سے اس مسجد کے شبستان میں کچھ تغییرات انجام پائے ہیں۔

اس مسجد کا ایک ایوان، بلند صدرد روازہ اور ایک خوبصورت پیشخوان ( کاونٹر) ہے جس سے اس مسجد کو چار چاند لگ گئے ہیں۔ اس مسجد میں داخل ہونے کے دو صدر دروازے ہیں، جن میں سے ایک مشرق کی طرف اور دوسرا شمال کی طرف ہے اور دونوں دروازے بلند ایوان سے ملحق ہیں۔ اس میں کئی باشکوہ کتیبے ہیں جو خطاطی کی ہنر کے لحاظ سے کافی اہمیت کے حامل ہیں اور مسجد کی تعمیر کی تاریخ ان کتیبوں میں درج کی گئی ہے۔ مسجد کے دوشبستان ہیں، ایک گرمائی اور دوسرا سرمائی شبستان۔ اس کے گرمائی شبستان میں ایک خوبصورت ہواکش (باد گیر) لگا ہوا ہے۔

اس مسجد کا محراب خوبصورت سنگ مرمر کا بنا ہوا ہے جس کے حاشیے معرق ٹائیلوں سے مزیّن کئے گئے ہیں اور ان پتھروں پر قرآن مجید کی چند آیات کندہ کی گئی ہیں۔

مسجد کے شبستان کے دونوں طرف کئی طاق ہیں، اس کے پچھلے حصہ میں ڈالان ہیں، شبستان کو چھ ضلعوں والی ٹائیلوں سے سجایا گیا ہے۔ اس کے محراب کو لاجوردی،طلائی اور سفید رنگ کی ٹایلوں سےمزیّن کیاگیا ہے۔ شبستان کی روشنی اس کی چھت پر نصب چار پنجروں سے حاصل ہو تی ہے،اس کی دیواریں سفید چونے اورایوان لاجوردی اورسبز رنگ کی ٹایلوں اور اینٹوں سےسجائی کئی ہیں۔مسجد کے سرمائی شبستان مسجدمیں داخل ہونے کے ڈالان کے دونوں طرف واقع ہیں اور ان کی روشنی سنگ مرمر سے حاصل ہوتی ہے۔اسی طرح مسجد کا مؤذّنہ مستطیل شکل کی اینٹوں سے بنا ہوا ہے جو مسجد کے مشرقی ضلع کے صدر دروازے پر واقع ہے۔

یہ مسجد میدان امیر چخماق کے جنوبی ضلع پر واقع ہے اور میدان کی طرف کھلنے والے دروازہ پر ایک پتھر نصب کیا گیا ہے،جس پر اس مسجد کے وقف نامہ کا متن خط نسخ میں کندہ کیا ہوا ہے۔

ستی فاطمہ کی آرام گاہ کے علاوہ ان کے شوہر اور اس مسجد کے بانی امیر چقماق کا مقبرہ بھی معماری کا ایک بے مثال نمونہ ہے۔ اس گنبد کو تیموری معماری سے الہام لے کر تعمیر کیا گیا ہے اور ایران میں منفرد نمونہ ہے۔

شمالی ڈالان کے دونوں طرف معرق ٹائیلوں کے بنے ہوئے پنجرے ہیں۔ ایوان کا صدر دروازہمعرق ٹائیلوں سے سجا ہوا ہے، جن میں کچھ کتیبے موجود ہیں، جن کی عبارت حسب ذیل ہے:

ڈالان کے اوپر دائیں جانب لفظ " اللہ" خط کوفی میں لکھا گیا ہے، اس کے داخل میں بھی اسی خط میں( دونوں اطراف میں ایک دوسرے کے مقابلے میں) سورہ حمد( فاتحہ) اور مذکورہ لفظ کے اوپر ایک سیدھے خط میں :" اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم" اور " بسم اللہ الرحمن الرحیم" لکھا گیا ہے۔ مذکورہ کتیبہ کے اوپر خط کوفی میں لفظ " محمد" لکھا گیا ہے۔

گنبد کے بیرونی حصہ پر اور اس کے ارد گرد، خط کوفی میں یہ عبارت لکھی گئی ہے:" السلطان ظل اللہ"۔ محراب کا اصلی حصہ معرق ٹائیلوں سے بنا ہوا ہے اور اس کے درمیان میں ایک خوبصورت سنگ مرمر نصب کیا گیا ہے جس کی لمبائی 38/ 2میٹر اور چوڑائی 15/1 میٹر ہے۔

سنگ مرمر کے کتیبوں کی عبارت حسب ذیل ہے:" قال اللہ تبارک و تعالی جل جلالہ وعم نوالہ اقم الصلوہ۔ ۔ ۔ مقاماً محموداً صدق اللہ وھو علی کل شیء قدیر" یہ عبارت خط نسخ میں لکھی گئی ہے۔ اس سنگ مرمر کے نیچے دونوں طرف اور درمیان میں قندیل اوربیل بوٹوں کی نقش نگاری کی گئی ہے اور اس کے اطراف میں موجود کتیبہ پر خط کوفی میں یہ عبارت لکھی گئی ہے:"قال اللہ تبارک و تعالی انما یعمر مساجداللہ من آمن باللہ والیوم الاخر واقم الصلوہ واتی الزکوة ولم یخش الا اللہ فعسی اولئک ان یکونوا من المھتدین"

مسجد کے مشرقی صدر دروازہ پرمعرق ٹائیلوں سے بناہوا خط ثلث میں ایک کتیبہ ہے، جسے صفوی دور کے مشہور اور معروف خطاط محمد الحکیم مولانا شمس الدین محمد شاہ حکیم نے لکھا ہے۔ ان ہی کے قلم سے ایک اور کتیبہ مسجد جامع کی اصلی دھیلز پر بھی موجود ہے۔

مسجد امیر چقماق یزد، رات کا ایک خوبصورت منظر

پاکستان، افغانستان اور ہندوستان کے مختلف علاقوں میں آنے والے خوفناک زلزلے کے بعد ایران کی وزارت خارجہ نے گہرے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ایران کی حکومت اور عوام کی جانب سے ان ممالک کی حکومتوں اور عوام سے اپنی ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔

ایران کی وزارت خارجہ کے تعزیتی پیغام کے ساتھ ساتھ ایران کی ہلال احمر کمیٹی کے سربراہ نے پاکستان و افغانستان کی ہلال احمر کمیٹیوں کے سربراہوں کے نام اپنے الگ الگ پیغامات میں زلزلے سے متاثرہ لوگوں کی امداد کے لئے فوری طور پر امدادی ٹیمیں روانہ کرنے کے لئے ایران کی آمادگی کا اعلان کیا ہے۔

ایران کی ہلال احمر کمیٹی کے سربراہ امیر محسن ضیائی نے پیر کے روز اپنے افغان اور پاکستانی ہم منصب کے نام علیحدہ علیحدہ پیغامات میں ان ملکوں میں زلزلے کے نتیجے میں ہونے والے جانی نقصانات پر تعزیت پیش کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران، اپنی طبی و امدادی ٹیمیں فوری طور پر پاکستان اور افغانستان روانہ کرنے کے لئے آمادہ ہے۔

پاکستان کی ہلال احمر کمیٹی کے سربراہ سعید الہی اور افغانستان کی ہلال احمر کمیٹی کی سربراہ فاطمہ گیلانی کے نام ایران کی ہلال احمر کمیٹی کے سربراہ امیر محسن ضیائی کے علیحدہ علیحدہ پیغامات میں آیا ہے کہ ایران کی ہلال احمر کمیٹی اس طرح کے افسوسناک واقعات کا مقابلہ کرنے میں ان دونوں ملکوں کی ہلال احمر کمیٹیوں کی توانائیوں سے مکمل طور پر واقف ہے تاہم ایران، ان کی امدادی کارروائیوں کی حمایت کے لئے فوری طور پر اپنی امدادی و طبی ٹیمیں روانہ کرنے کے لئے آمادہ ہے۔

۲۰۱۵/۰۸/۲۳ – رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اسلامی جمہوریہ ایران کے ادارہ حج و زیارات کے اراکین سے ملاقات میں حج کو اسلام کی بقا اور امت اسلامی کے وحدت و عظمت کا مظہر اور اسی کے ساتھ اس بزرگ اجتماعی اور انفرادی فریضے کے زریعے ملت ایران کے وحدت بخش تجربات کو دوران حج دوسروں تک منتقل کرنے کو امت مسلمہ کی ہمبستگی، ہمدلی اور اقتدار کا سبب قرار دیا۔
آپ نے تمام اسلامی عبادات کے مقابلے میں حج کی بے نظیر خصوصیات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ حج کے دو منفرد اجتماعی اور انفرادی پہلو ہیں کہ ان دونوں پہلووں کی رعیات کے زریعے حجاج کرام اور مسلمانوں کی دنیاوی اور اخروی سعادت میں خاص اثر واقع ہوتا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے خانہ خدا کی زیارت اور حج کے مناسک کو روح کی تطہیر کے لئے نے نظیر موقع، خداوند متعال سے نزدیک ہونے کا زریعہ اور توشہ عمر کی فراہمی کا زریعہ قرار دیتے ہوئے خانہ خدا کے زائرین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ حج کے ہر ہر عمل کی قدر کریں اور اپنی روح اور جان کو اس بزرگ نعمت کے سرچشمے سے پاکیزہ اور سیراب کریں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے حج کے اجتماعی پہلو نیز رنگ و نسل، مذہب و ثقافت اور ظاہری فرق کے ساتھ تمام اقوام و ملل کے مکہ اور مدینہ میں حاضر ہونے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ حج وحدت اسلامی کی حقیقی فرصت اور مظہر ہے۔
آپ نے ان لوگوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہ جو مختلف طریقوں سے قوم اور نسل جیسے مفاہیم کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں نیز امت مسلمہ کی حقیقت اور اہمیت کو کم رنگ کر رہے ہیں فرمایا کہ حج اسلامی امت کی تشکیل کا با معنی نمونہ اور ہم زبانی، ہم دلی اور مسلمانان عالم سے ہمدردی کے اظہار کا عظیم موقع ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے امت اسلامی کی عظمت کی تجلی اور ایک دوسرے کے تجربات کے تبادلے کو حج کے اجتماعی پہلو کا ایک اور اہم نکتہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ مسلمانوں کے آپس میں تجربات کو تبادلہ اور انہیں بیان کرنے سے اسلامی امت کی تقویت میں اضافہ ہوتا ہے۔
آپ نے تمام تر موضوعات میں ملت ایران کے موثر اور کارآمد تجربات من جملہ دشمن شناسی، دشمن پر اعتماد نہ کرنے اور دوست کو دشمن نہ سمجھنے جیسے موضوعات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ لوگ اپنے فہم و ادارک سے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ عالمی استکبار اور صیہونیت، ملت ایران اور امت اسلامی کے حقیقی دشمن ہیں اور اسی بنا پر تمام عظیم قومی اور مذہبی جلسوں میں وہ لوگ امریکا اور صیہونیت کے خلاف نعرے لگاتے ہیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا کہ گذشتہ ۳۶ سالوں کے دوران استکبار نے ایران کے ساتھ دشمنی کو دوسرے ممالک کی زبانی اور انکے طرز عمل کے زریعے انجام دیا ہے لیکن ملت ایران ہمیشہ اس بات کی جانب متوجہ ہے کہ یہ ممالک فریب خوردہ اور آلہ کار ہیں اور اصلی دمشن وہی امریکہ اور اسرائیل ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے بعض ممالک میں مختلف اسلامی گروہوں کی جانب سے حکومت قاٗم کرنے کے ناکام تجربے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ان لوگوں نے ملت ایران کے برخلاف دوست اور دشمن کو پہچاننے میں غلطی کی اور اسی وجہ سے نقصان اٹھایا۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے حج کے دوران اتحاد کے تجربے کو ملت ایران کی جانب سے دوسری ملتوں کو منتقل کرنے کے قابل قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ایران کے عوام نے اپنے تمام تر عقیدتی، فکری اور سیاسی اختلافات اور قوم و قبیلے کے فرق کے باوجود اپنی قومی وحدت کی حفاظت کی ہے اور وہ اس نعمت الہیٰ کی قدر و قیمت سے بخوبی واقف ہیں اور اس گرانقدر تجربے کو دوسری مسلمان ملتوں کو منتقل کیا جانا ضروری ہے۔
آپ نے بعض ممالک میں مذہبی، سیاسی حتی گروہی بنیادوں پر جنگ و جدل و وحدت جیسی نعمت کی قدر نہ کرنے کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ خداوند متعال کی کسی بھی ملت سے رشتے داری نہیں ہے اور اگر لوگ اتحاد اور ہمدلی کی قدر و قیمت کو نہیں سمجھیں گے تو خداوند متعال انہیں اختلافات، جنگ وجدل اور خونریزی جیسی بلاوں میں مبتلا کردے گا۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اسلام، ایران اور اسلامی نظام کے خلاف عالمی ستمگروں کی سازشوں کی ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ لوگ شیعیت اور ایران کے خلاف نہیں بلکہ قرآن کے خلاف سازشیں کرتے ہیں کیونکہ وہ یہ بات جانتے ہیں کہ قرآن اور اسلام ملتوں کی بیداری کا مرکز ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے مستکبرین کی جانب سے مسلمانوں کے درمیان اثر و رسوخ پیدا کرنے اور انہیں نقصان پہچانے کے طریقوں تک رساٗی حاصل کرنے کی مسلسل کوششوں کیا جنب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ استکبار کی جانب سے بے دریغ مالی امداد کی وجہ سے امریکہ، یورپ، مقبوضہ فلسطین اور اس سے وابستہ دوسرے ممالک میں دسیوں ایسے مراکز اور فکری اور سیاسی ادارے کام کر رہے ہیں کہ جو اسلام اور شیعیت کے بارے میں مطالعہ اور تحقیق میں مشغول ہیں تاکہ امت مسلمہ میں موجود بیداری اور اقتدار آفرین عوامل کی شناسائی کی جائے اور ان سے مقابلے کو عملیاتی کیا جائے۔
آپ نے فرمایا کہ عالمی غنڈے اسلام کے نام پر شدت پسندی اور فرقہ واریت کے پروگرام کو سنجیدگی کے ساتھ آگے بڑھا رہے ہیں اور اس کوشش میں ہیں کہ دین مبین اسلام کو بدنام کریں، ملتوں کو آپس میں لڑوائیں حتیٰ ایک قوم میں جنگ وجدل کے زریعے اسلامی امت کو کمزور کر سکیں لیکن حج کے ایام میں ملت ایران کے دشمن کو پہچاننے اور وحدت بخش تجربات کو دوسری قوموں کو منتقل کرنے سے اس طرح کی سازشوں سے بچا جا سکتا ہے۔
رہبر انقلاب نے مزید فرمایا کہ البتہ حج کے ایام میں ملتوں کے درمیان اپنے تجربات کے بارے میں تبادلہ خیال کے بھی مخالفین موجود ہیں لیکن بہرحال اس کا راستہ ڈھونڈنا چاہئے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اپنی گفتگو کے آخری حصے میں ایک بار پھر حج کے انفرادی اور اجتماعی زاویوں کی جانب توجہ کرنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ حجاج محترم پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے معطر شہر میں سانس لینے کے بے نظیر موقع کو اور مکہ معظمہ اور خانہ خدا میں عبادی اور مشتاقانہ حضور کو بازار میں گھومنے پھرنے اور خریداری کرنے میں ضایع کردیں اور پھر پوری زندگی مسجدالحرام اور مسجد النبی میں اس بے نظیر  اور با نشاط فرصت سے استفادہ نہ کرنے کا قلق اس کے دل میں رہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی گفتگو میں حج کے اجرا کے لئے کوشش کرنے کو زیبا ترین اور با شکوہ ترین ذمہ داری قرار دیتے ہوئے حج کمیٹی کے اراکین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایا کہ اپنی تمام تر توانائیوں کو حج کے صحیح اجرا کے لئے استعمال کریں۔
رہبر انقلاب اسلامی کی گفتگو سے قبل نمائندہ ولی فقیہ اور ایرانی زائرین کے سرپرست حجت الاسلام و المسلمین قاضی عسکر نے عشرہ کرامت کی مناسبت سے مبارکباد پیش کرتے ہوئے اس سال حج کو " معنویت، بصیرت اور ہمدلی کا حج" قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ حج کی عالی حکمت عملی اور اسٹریٹجی، انسانی علم و دانش میں ارتقاء، زائرین اور علما کے کاروانوں کی با معرفت تربیت، علمی نشستوں کا انعقاد اور زائرین اور حج کے منتظمین کی ظرفیت سے صحیح استفادہ کرنا حج کے مراسم کے انعقاد کے اہم پہلووں میں سے ہے۔
نمائندہ ولی فقیہ اور زائرین کے سرپرست نے کہا کہ اس سال حج کو ملت ایران کی عزت وکرامت کے تحفظ کے ضمن میں پوری دنیا کے مسلمانوں کی وحدت کے مرکز میں تبدیل ہو جانا چاہئے۔
حج و زیارات آرگنائزیشن کے سربراہ جناب اوحدی نے بھی اس آرگنائزیشن کی سرگرمیوں کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے زائرین کی جانب سے حج کے لئے نام لکھوانے کے عمل کو آسان کرنے، باسٹھ فیصد زائرین کی براہ راست مدینہ منورہ بذریعہ ہوائی جہاز بھیجنے، کھانے پینے میں تنوع، زائرین کی ضرورت کی اشیاء کی ملک میں داخلی سطح پر فراہمی، تمام تر خدمات کی قیمت میں کمی اور حج سے متعلق تمام تر پروگرام کی جدید ٹیکنالوجی کے زریعے اطلاع رسانی کواس سال حج کے لئے حج و زیارات آرگنائزیشن کے عملی اقدامات قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سال ہمارے ملک سے ۶۴ ہزار زائرین کے ۴۵۵ کاروانوں کی صورت میں حج پر جانے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس ملاقات سے پہلے حج سے متعلق کتابوں اور تصاویر کی نمایش کا دیدار بھی کیا۔