Super User
جامع مسجد ( جامیک ) کوالا لامپور- ملیشیا

مسجد جامع یا جامیک کوالا لامپور، ملیشیا کی تاریخی مساجد میں شمار ہوتی ہے اور کوالالامپور کی قدیمی ترین مسجد ہے اور اس ملک کے مسلمانوں کی پہچان شمار ہوتی ہے۔
یہ مسجد کلانگ اور گومبارک نام کےدو دریاؤں کے ٹون نامی سنگم پر واقع ہے۔ اور اس مسجد کے میناروں میں سے ہر روز بلند ہونے والی اذان کی آواز کوالالامپور کے مسلمانوں کو پانچ وقت نماز ادا کرنے کی طرف دعوت دیتی ہے۔

اس مسجد کی سنگ بنیاد سنہ 1907ء میں ڈالی گئی ہے اور 23 ستمبر سنہ 1909ء کو شاہ سلانگور نے اس کا افتتاح کیا ہے، اسی سال پہلی نماز جمعہ اس مسجد میں قائم ہوئی۔ اور اس کے بعد اس مسجد سے استفادہ کیا جارہا ہے۔

ملیشیا کی قومی مسجد کی تعمیر سے پہلے کوالالامپور کی یہ مسجد اصلی مسجد کے عنوان سے پہچانی جاتی تھی۔
اس مسجد کا معمار"آرٹون بنیسون ہابوک" تھا، جو اپنے زمانہ کا نامور معمار شمار ہوتا تھا۔ اس نے اس مسجد کا نقشہ ہندوستان میں مغلوں کی معماری ، مراکش اور اسپین کی معماری سے الہام حاصل کرکے مرتب کیا ہے۔

اس مسجد کی تعمیر میں ملیشیا کی حکومت کے بجٹ سے استفادہ کیا گیا ہے، اس میں تین گنبد تعمیر کرنا مدنظر رکھے گئے ہیں جو اصلی شبستان کو احاطہ کرتے ہیں۔

اس کا مرکزی گنبد 3/21 میٹر بلند ہے اور اس مسجد کا سب سے بڑا گنبد شمار ہوتا ہے۔

مسجد کے دوکناروں پر دومینار ہیں جو سرخ اور سفید رنگون سے مزین کئے گئے ہیں اور ان میناروں کی بلندی 8/26 میٹر ہے اور چھتری کے مانند نظر آتے ہیں۔ ان میناروں کی زیبائی نے اس مسجد کو اس شہر کی دوسری مساجد کی بہ نسبت امتیاز بخشا ہے۔

اس نقشہ سے استفادہ کرتے ہوئےمسجد میں داخل ہونے کے کناروں پر چھوٹی چھوٹی چھتریوں کی ایک بڑی تعداد بنائی گئی ہے اور ان کی تعمیر بھی ہندوستان کے شمال میں مغلوں کے اسلامی معماری سے الہام لیا گیا ہے۔

مسجد جامع کوالالامپور، ہر روز مسلمانوں کے نماز کے لئے اجتماع کے علاوہ یورپ اور ایشیاء کے بہت سے سیاح بھی اسے دیکھنے کے لئے آتے ہیں تاکہ اس مسجد کی اسلامی معماری کا مشاہدہ کریں۔
سوره الهمزة
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے
﴿1﴾ وَيْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةٍ
(1) تباہی اور بربادی ہے ہر طعنہ زن اور چغلخور کے لئے
﴿2﴾ الَّذِي جَمَعَ مَالًا وَعَدَّدَهُ
(2) جس نے مال کو جمع کیا اور خوب اس کا حساب رکھا
﴿3﴾ يَحْسَبُ أَنَّ مَالَهُ أَخْلَدَهُ
(3) اس کا خیال تھا کہ یہ مال اسے ہمیشہ باقی رکھے گا
﴿4﴾ كَلَّا لَيُنبَذَنَّ فِي الْحُطَمَةِ
(4) ہرگز نہیں اسے یقینا حطمہ میں ڈال دیا جائے گا
﴿5﴾ وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْحُطَمَةُ
(5) اور تم کیا جانو کہ حطمہ کیا شے ہے
﴿6﴾ نَارُ اللَّهِ الْمُوقَدَةُ
(6) یہ اللہ کی بھڑکائی ہوئی آگ ہے
﴿7﴾ الَّتِي تَطَّلِعُ عَلَى الْأَفْئِدَةِ
(7) جو دلوں تک چڑھ سسجائے گی
﴿8﴾ إِنَّهَا عَلَيْهِم مُّؤْصَدَةٌ
(8) وہ آگ ان کے اوپر گھیر دی جائے گی
﴿9﴾ فِي عَمَدٍ مُّمَدَّدَةٍ
(9) لمبے لمبے ستونوں کے سات
تہران کی نماز جمعہ کے خطبے
خطیب نماز جمعہ تہران آیت اللہ خاتمی نے کہا ہے کہ ایران جوہری مذاکرات کی بنیاد پر اچھا سمجھوتہ طے کئے جانے کے حق میں ہے-
تہران کی نماز جمعہ کے خطیب نے کہا کہ اچھا سمجھوتہ جب ہو گا کہ ایران کے اسلامی جمہوری نظام کی ریڈ لائنز کی رعایت کی جائے- خطیب نماز جمعہ تہران آیت اللہ احمدخاتمی نے اس جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ ایٹمی توانائی کے مسئلے میں قوم اور حکومت کے درمیان یکجہتی پائی جاتی ہے کہا کہ جوہری مسئلے میں ہمارے دشمن حکومت اور قوم کے درمیان تفرقہ پیدا نہیں کر سکتے- تہران کے خطیب نماز جمعہ نے کہا کہ دھمکیوں اور غیر منطقی اقدامات کے زیر سایہ جوہری مذاکرات انجام پانا اچھا نہیں ہے اور ممکنہ سمجھوتہ ہونے کے ساتھ ہی تمام ظالمانہ پابندیوں کو ایک ساتھ ختم کئے جانے کی ضرورت ہے- آیۃ اللہ خاتمی نے ایٹمی مذاکرات کے تعلق سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ دھمکی اور دباؤ کا دور اب ختم ہو چکا ہے اور ایران علاقائی اور عالمی سطح پر ایک تسلیم شدہ طاقت ہے اس لئے ایرانی قوم کے ساتھ سخت لب و لہجے میں یا ادب کے دائرے سے ہٹ کر کوئی گفتگو نہیں کی جاسکتی- تہران کے خطیب نماز جمعہ نے بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رح) کی چھبیسویں برسی کا ذکر کرتے ہوئے حضرت امام خمینی (رح) کو مظلوموں کا حامی قرار دیا اور کہا کہ آپ کی شناخت، آزادی و خود مختاری، قومی اتحاد اور استکبار خاص طور پر امریکہ سے نفرت کے سمبل کے طور پر ہونی چاہئیے - خطیب جمعہ تہران نے کہا کہ حضرت امام خمینی (رح) اپنی بابرکت عمر کے آخری لمحات تک امریکہ کو بڑے شیطان کے طور پر متعارف کراتے رہے-
سوره العصر
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے
﴿1﴾ وَالْعَصْرِ
(1) قسم ہے عصر کی
﴿2﴾ إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ
(2) بے شک انسان خسارہ میں ہے
﴿3﴾ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ
(3) علاوہ ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کئے اور ایک دوسرے کو حق اور صبر کی وصیت و نصیحت کی
مسئلہ فلسطینی کو اجاگر کرنے میں علما کا کردار نہایت اہم
اسلامی جمہوریہ ایران کی پارلیمنٹ مجلس شورائے اسلامی کے اسپیکر نے کہا ہے کہ موجودہ اور آئندہ نسلوں کو آگاہ اور بیدار کرنے میں علما کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
اسپیکر ڈاکٹرعلی لاریجانی نے یہ بات شام، لبنان، اور فلسطین میں، فلسطینی کاز کے لئے کام کرنے والے علما اور دانشوروں کے ساتھ ملاقات کے دوران کہی۔ ڈاکٹر علی لاریجانی نے کہا کہ فلسطینی اہداف اور امنگوں کو ذہنوں سے محو کرنے کی غرض سے کی جانے والی مذموم سازشوں سے موجودہ اور آئندہ نسلوں کو باخبر رکھنے میں علما کے کردار انتہائی اہم ہے۔ انہوں نے بانی انقلاب اسلامی امام خمینی(رح) کے افکارو نظریات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دنیا بھر کے مسلمانوں،خاص طور سے فلسطینی بھائیوں کی حمایت کرنا ایران کے اسلامی انقلاب کے بنیادی اہداف میں سرفہرست ہے۔ ڈاکٹر لاریجانی نے کہا کہ امت مسلمہ میں اتحاد و وحدت قائم کرنا اور مظلوم قوموں خاص طور پر صیہونی حکومت کی جارحیت کے مقابلے میں فلسطینی قوم کی حمایت کرنا، بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رح) کی زندگی کا اہم ترین مقصد تھا- ڈاکٹر لاریجانی نے کہا کہ امام خمینی (رح) کے اہداف و مقاصد آج رہبر انقلاب اسلامی کی عظیم الشان قیادت میں فروغ پا رہے ہیں۔ انہوں نے ایک بار پھر یہ بات زور دیکر کہی کہ اسلامی جمہوریہ ایران، غاصب صیہونی حکومت کے مقابلے میں فلسطینیوں کی تحریک مزاحمت کی حمایت جاری رکھے گا۔
کشمیر میں امام خمینی(رہ) کی برسی پر عظیم الشان کانفرنس کا انعقاد
رپورٹ کے مطابق بانی انقلاب اسلامی ایران آیت اللہ امام خمینی (رہ) کی 26 ویں برسی کے موقعہ پر ہوٹل گرینڈ ممتاز سرینگر میں اہلسنت جوانوں کی طرف سے منعقدہ اپنی نوعیت کی ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس میں کئی علمائے دین، مزاہمتی جماعتوں کے قائدین، دانشوروں، وکلاء، صحافتی برادری، ڈاکٹرس اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے معززین نے شرکت کی۔ تقریب کا اہتمام ’’لائیرس کلب کشمیر‘‘ نے ’’تحریک شباب المسلمین‘‘ اور ’’انٹرنیشنل مسلم یونٹی کونسل‘‘ کے اشتراک سے کیا گیا تھا، کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مہمان خصوصی و سینئر حریت رہنما اور جموں و کشمیر نیشنل فرنٹ کے چیئرمین نعیم احمد خان نے امام خمینی (رہ) کو عقیدت کا خراج نذر کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر کی تحریک آزادی کا انقلاب اسلامی سے ایک گہرا ربط ہے۔ انقلاب اسلامی ایران سے کشمیری نوجوانوں کے تحریکی جذبات نے ایک نئی کروٹ لی، مہمان ذی وقار سجادہ نشین عشمقام مولانا پیر ڈاکٹر سمیر صدیقی نے حضرت امام خمینی (رہ) کی شخصیات کے عرفانی پہلو کو زیر بحث لاتے ہوئے کہا کہ امام خمینی (رہ) نے اپنی ذات کو قربت خداوندی کے اس منزل تک پہنچا دیا تھا جہاں رب اپنے بندے کی مرضی اور دعا کو بہرحال قبول فرماتا ہے۔
کانفرنس کے خاص مہمان اسلامک اسٹڈیز کشمیر یونیورسٹی کے سربراہ پروفیسر حمید نسیم رفیع آبادی نے امام خمینیؒ کے نعرہ ’’لا شرقیہ لا غربیہ اسلامیہ اسلامیہ‘‘ کو ملت اسلامیہ کی تمام پریشانیوں کا حل قرار دیتے ہوئے شیعہ سنی مشترکات کو بروئے کار لانے اور اختلافات کو بالائے طاق رکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔ تحریک مزاہمت تنظیم کے سربراہ بلال صدیقی نے انقلاب اسلامی ایران کو اْمت مسلمہ کی کامیابی سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ امام خمینی (رہ) نے اپنے کردار و عمل اور ایمان باللہ سے ایرانی قوم کو ایک اعلیٰ مقصد کیلئے ہر قسم کی قربانیوں پر تیار کیا۔ حریت رہنما اور اتحاد المسلمین کے صدر مولانا مسرور عباس انصاری نے امام خمینی ؒ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ امام ؒ نے اپنی تحریک کی بنیاد فلسفہ کربلا کے اصولوں پر استوار کی اور یہی اس تحریک کی کامیابی کا اصل راز تھا، کانفرنس سے ایڈوکیٹ محمد امین بٹ نے خطاب کرتے ہوئے امام خمینیؒ کو عالم اسلام اور عالم انسانیت کا ایک رول ماڈل قرار دیا، بار ایسوسی ایشن کے سابق جنرل سیکریٹری ایڈوکیٹ جی این شاہین نے امام خمینیؒ کو ایک آفاقی شخصیت قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسی بلند قامت شخصیت کی یاد میں ہونے والی کوئی بھی تقریب انتہائی شان و شوکت سے منعقد کرنے کی ضرورت ہے اور آئندہ یہ تقریب ایک عوامی جلسے کی صورت میں منعقد کرنے کی تجویز پیش کی۔
کانفرنس سے پنڈت برادری کے ایک سماجی کارکن کمار جی وانچو نے کہا کہ امام خمینیؒ نے ہمیشہ انسانیت کی بقاء کی خاطر ظالموں کی مذمت کی، علاوہ ازیں جن شخصیات نے تقریب سے خطاب اور شرکت کی ان میں آغا سید احمد مصطفی، ایڈوکیٹ نور الامین، محمد اشرف منٹو، ڈاکٹر عابد گلزار، وسیم رضا حسینی، امداد ساقی، ایڈوکیٹ تفضل حسین، سید جاوید عباس رضوی، رمیز مخدومی، ایڈوکیٹ اویس گیلانی، امتیاز حیدر، ایڈوکیٹ یونس حجاج، ایم ایم شجاع، ایڈوکیٹ ایس ایس شبیر، فدا حسین اور 300 سے زائد افراد نے شرکت کی، تلاوت کلام پاک ہلال حسین بٹ اور نعت شریف نثار حسین راتھر نے پیش کیا، کانفرنس کے اختتام پر متفقہ طور ایک قرار داد بھی پاس کی گئی، آخر پر لائیرس کلب کشمیر کے صدر ایڈوکیٹ بابر قادری نے سبھی مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔
امام خمینی(رہ) تاریخ معاصر کے مرد مجاہد
امام خمینی(رہ) ایک ایسے عظیم انقلاب کے موجد و بانی تھے جس نے شہنشاہوں کے2500سالہ اقتدار کا یکسر خاتمہ کیا ۔ انہوں نے اپنی بے لوث و پرخلوص قیادت کے بل پر امریکہ ، روس اور دیگر عالمی طاقتوں کے اثر و رسوخ کو ختم کرکے اسلامی معاشرے کو پاک و صاف کرانے کی جدوجہد آخری دم تک جاری رکھی ....دیکھتے ہی دیکھتے سرزمین ایران کے کلمہ گو نوجوان اور بزرگ مع خواتین جن کے سینوں میں جوش وخروش اور انقلابی لہر موجزن تھی ‘ عیش وآرام چھوڑ کر سڑکوں پر نکل آئے ۔ انہوں نے شاہی لوازمات ٹھکرائے ،امام خمینی(رہ) کے فرمان کو دلوں سے لگائے ،سلطنتی نظام کے خاتمے اور اسلامی حکومت کے قیام کا نعرہ بلند کیا ۔ الغرض پرخلوص اور دیانتدارانہ قیادت کے زیر اثرخوابیدہ قوم کواسلامی انقلاب کے طلوع کی خوش خبری سننے کو ملی ۔
امام خمینی (رہ) کو ابتداء ہی سے اس بات کا احساس تھا کہ دنیا کے ایک ارب سے زیادہ مسلمانوں کی نمائندگی کرنے دو عظیم طاقتوں کے سیاسی ونظریاتی حملوں کا مقابلہ کرنے اور اسلامی مقاصد کے دفاع وتحفظ کے لئے ایرانی جیالوں کو صف اوّل میں کھڑا ہونا ہے ۔ دنیا والوں پر یہ حقیقت آشکار ہوگی کہ امام کی بے لوث اور بروقت رہنمائی میں امت نے تمام رکیک حملوں کا مقابلہ کیا ۔
۔ امام خمینی(رہ) نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں فرمایا تھا :
” یہ اسلامی تحریک کسی شخص پر قائم نہیں ہے ۔ میں آپ کے درمیان رہوں یا نہ رہوں مگر یاد رکھو کہ اتحاد ویگانگت کی ڈگر سے وابستہ تحریکی سفر جاری رکھ کے ہی آپ کو منزل ملے گی “۔
.اس وقت اسلامی دنیا امام خمینی(رہ) کے بوئے ہوئے تحریکی پودے کو تناوردرخت کی صورت میں دیکھ رہی ہے ۔ بلاشبہ امام خمینی (رہ)کا انقلابی مشن اور ان کا لازوال پیغام آبندہ نسلوں کے لئے بھی مفید اور تعمیری ثابت ہوگا کیونکہ امام انقلاب(رہ) نے آ ج کے انسان کو یہ سبق دیا ہے کہ سیاسی ، اقتصادی اور ثقافتی قوتوں کے سامنے جھکنا ذلت ورسوائی کے مترادف ہوگا ۔
ان کی وصیت میں سے ایک جھلک پیش خدمت ہے :
” اسلامی ممالک کے غیور عوام سے میری وصیت ہے کہ آپ اس انتظار میں نہ رہیں کہ کوئی باہر سے آ کر اسلامی احکامات کے مفاد کے سلسلے میں آپ کے مقاصد میں کسی طرح کی مدد کرے ۔ آپ خود اس حیات بخش عمل کے لئے جو آزادی کو اپنے ہمراہ لاتا ہے اقدام کیجئے‘ اسلامی ممالک کے علماءاعلام اور خطبائے کرام کا فریضہ ہے کہ وہ حکومتوں کی بڑی طاقتوں کی غلامی سے آزاد ہونے اور اپنی قوم سے مفاہمت کرنے کی دعوت دیں“۔
امام خمینی(رہ) نے زمانے کو بتا دیا کہ کس طرح سے خدائے برتر وبزرگ پر بھروسہ کرکے دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت سے ٹکرایا جا سکتا ہے ۔ انہوں نے یہ بات ذہن نشین کرائی کہ جب بھی علم ودولت کا مقابلہ ہوگا ہمیشہ دولت کو احساس کمتری میں مبتلا ہونا پڑے گا اور علم کا ہرحالت میں بول بالا ہوگا۔ مرحوم کی ساری زندگی مجاہدہ حق میں گزری ۔ نیز انہوں نے اپنے زمانے میں دنیا کو سلیقہ جہاد سکھایا ۔ ان کی بابرکت شخصیت میں ایسی جاذبیت اور کشش تھی جس کی تابناکی کو ہزار پروپیگنڈے ماند نہ کرسکے ۔ ان کی خداداد مقبولیت کو ختم کرنے کے لئے مغربی طاقتوں نے امریکہ کی سرکردگی میں ایڑی چوٹی کا زورلگایا لیکن کامیابی نہیں ملی ۔
اس عظیم المرتبت ہستی نے بیسوی صدی میں وہ کام کر دکھایاا جس کی مثال تاریخ عالم میں ملنا مشکل ہے ۔
ایران کے جابر شاہ کا تختہ پلٹ دینا ان کا اتنا بڑا کارنامہ نہیں ہے جتنا ان کا دنیا کو یہ دکھا دینا کہ اسلام ایک جیتا جاگتا دین ہے جس کے ارفع وزریں اصولوں کو اپنانے سے ہر زمانے میں تمام انسانی مسائل کا حل نکل سکتا ہے۔
اسلام ہی وہ دین ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہے اور پیغمبر آخرزماں محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی وساطت سے ہمیں ملا ہے ۔ آج دنیا میں اہل دنیا مغربی اور مشرقی شکل میں منظم ہونے والے الحاد سے درد ورنج میں مبتلا ہے ۔ لہٰذا جب تک اس دنیا پر ظلم وستم ،جارحیت اور سامراج کی حکمرانی ہے ‘ امام خمینی (رہ) کے زریں افکار زندہ وپائندہ رہیں گے۔
امام خمینی(رہ) فقط ایک قوم کے قائد ورہبر نہ تھے بلکہ ایک ایسی امت کے امام تھے جس نے ساری دنیا میں دین اسلام کی سربلندی کی ذمہ داری قبول کی تھی ۔انہوں نے اپنی پوری زندگی خدا کی راہ میں صرف کردی ۔ وہ ایک عادل ،شجاع اور دانشمند تھے جو خدائے تعالیٰ کے علاوہ کسی چیز کو خاطر میں نہ لاتے تھے اور امت اسلامیہ کو اپنا مخاطب خیال کرتے تھے۔ انہوں نے اپنی پرخلوص قیادت سے امت اسلامیہ کی زندگی کو معنوی جلا بخشی !
آیت اللہ امام خمینی(رہ) نے برملا ارشاد فرمایا:
” مسلمانوں کے مسائل بہت ہیں لیکن مسلمانوں کی سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ انہوں نے قرآن کریم کو ایک طرف رکھ دیا ہے اور خود دوسروں کے جھنڈوں کے نیچے جمع ہو گئے ہیں ۔ حالانکہ قرآن فرماتا ہے:تم سب اللہ کے دین پر مضبوطی سے اکھٹے ہو جاﺅ اور فرقوں میں مت بٹ جاﺅ۔ اگر مسلمانان عالم اس ایک آیت پر عمل کرتے تو ان کی تمام اجتماعی ،سیاسی ،اقتصادی غرضیکہ تمام درپیش مشکلات بغیر کسی کے دامن کوتھامے حل ہوجائیں “۔
مسلمانوں کی صفوں میں بلاتمیز مسلک وگروہ اتحاد ویکجہتی کو فروغ دینے کی غرض سے بار بار فرماتے تھے :
” شیعہ سنی اختلافات کو ہوا دینے والے مسلمان نہیں بلکہ اسلام دشمن قوتوں کے ایجنٹ ہیں جو ہم سے اسلامی قدریں چھیننا چاہتے ہیں ۔ یادرکھئے دین اسلام ہم کو اتحاد وحدت کا حکم دیتا ہے ۔ سنی ہو یا شیعہ ہوں یا کسی او رفرقہ کے پیروکار....آئیے ہم سب کلمہ گو ہر اختلاف سے کنارہ کشی اپنائے آپس میں مل کر صلح وصفائی کی زندگی بسرکریں اور اللہ کی قدرت پر بھروسہ کرکے اسلام کی قدروں کا دفاع کریں۔ اس صورت میں اللہ ہمارا مدد گار ہوگا اور کوئی قوت ہم پر غالب نہ آئے گی ۔
امام خمینی(رہ) کے چھبیسویں یوم وصال پر آئیں ہم سب مسلمان بلاتفریق مسلک ونظریہ ہر قدم پر اتفاق واخوت کا مظاہرہ کریں اور اسلام دشمن طاقتوں کی فریب کاریوں کا موثر انداز میں جواب دینے کے لئے ایک مشترکہ قیادت کی داغ بیل ڈال دیں۔ فلسطین ،عراق، شام، یمن، افغانستان، پاکستان اور کشمیر وغیرہ میں مسلمانوں کو در پیش مشکلات کا حل فقط اتحاد ویکجہتی میں ہے ۔ امام خمینی (رہ) نے بھی اپنے ارشادات میں زیادہ تر اسی اتحاد پر زور دیا ہے ۔ گروہ بندی یا فرقہ بندی سے قطع نظر انہوں نے آپسی رواداری واخوت کو فروغ دینے کی تلقین آخری دم تک کی۔غرض آیت اللہ (رہ) باہمی اتحاد درس زندگی بھر دیتے رہے
سوره التكاثر
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے
﴿1﴾ أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ
(1) تمہیں باہمی مقابلہ کثرت مال و اولاد نے غافل بنادیا
﴿2﴾ حَتَّى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ
(2) یہاں تک کہ تم نے قبروں سے ملاقات کرلی
﴿3﴾ كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ
(3) دیکھو تمہیں عنقریب معلوم ہوجائے گا
﴿4﴾ ثُمَّ كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ
(4) اور پھر خوب معلوم ہوجائے گا
﴿5﴾ كَلَّا لَوْ تَعْلَمُونَ عِلْمَ الْيَقِينِ
(5) دیکھو اگر تمہیں یقینی علم ہوجاتا
﴿6﴾ لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ
(6) کہ تم جہنمّ کو ضرور دیکھو گے
﴿7﴾ ثُمَّ لَتَرَوُنَّهَا عَيْنَ الْيَقِينِ
(7) پھر اسے اپنی آنکھوں دیکھے یقین کی طرح دیکھو گے
﴿8﴾ ثُمَّ لَتُسْأَلُنَّ يَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِيمِ
(8) اور پھر تم سے اس دن نعمت کے بارے میں سوال کیا جائے گا
سوره القارعة

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے
﴿1﴾ الْقَارِعَةُ
(1) کھڑکھڑانے والی
﴿2﴾ مَا الْقَارِعَةُ
(2) اور کیسی کھڑکھڑانے والی
﴿3﴾ وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْقَارِعَةُ
(3) اور تمہیں کیا معلوم کہ وہ کیسی کھڑکھڑانے والی ہے
﴿4﴾ يَوْمَ يَكُونُ النَّاسُ كَالْفَرَاشِ الْمَبْثُوثِ
(4) جس دن لوگ بکھرے ہوئے پتنگوں کی مانند ہوجائیں گے
﴿5﴾ وَتَكُونُ الْجِبَالُ كَالْعِهْنِ الْمَنفُوشِ
(5) اور پہاڑ دھنکی ہوئی روئی کی طرح اُڑنے لگیں گے
﴿6﴾ فَأَمَّا مَن ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ
(6) تو اس دن جس کی نیکیوں کا پلّہ بھاری ہوگا
﴿7﴾ فَهُوَ فِي عِيشَةٍ رَّاضِيَةٍ
(7) وہ پسندیدہ عیش میں ہوگا
﴿8﴾ وَأَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُهُ
(8) اور جس کا پلہّ ہلکا ہوگا
﴿9﴾ فَأُمُّهُ هَاوِيَةٌ
(9) اس کا مرکز ہاویہ ہے
﴿10﴾ وَمَا أَدْرَاكَ مَا هِيَهْ
(10) اور تم کیا جانو کہ ہاویہ کیا مصیبت ہے
﴿11﴾ نَارٌ حَامِيَةٌ
(11) یہ ایک دہکی ہوئی آگ ہ
آزاد سمندروں میں پوری قوت سے موجود رہیں گے
ایران کی بحریہ، ماضی سے کہیں زیادہ قوت و اقتدار کے ساتھ اپنے مفادات کا تحفظ کر رہی ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کی بحریہ کے کمانڈر ایڈمیرل حبیب اللہ سیاری نے اتوار کے روز ہمارے نامہ نگار سے گفتگو میں کہا کہ ایران کی بحریہ، ماضی سے کہیں زیادہ قوت و اقتدار کے ساتھ اپنے مفادات کا تحفظ کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران کی بحریہ، آزاد سمندروں میں بھرپور طریقے سے موجود ہے اور سات سال قبل سمندری قزاقوں اور دہشت گردوں کے مقابلے اور ایران کے اقتصادی مفادات کے تحفظ کے مقصد سے، بحری جہازوں کی آمد و رفت کے راستوں کی حفاظت کا اقدام کیا گیا اور اس وقت سے اب تک بحریہ کا یہ مشن جاری ہے۔ ایڈمیرل حبیب اللہ سیاری نے کہا کہ ایرانی بحریہ نے اس عرصے میں باب المندب، خلیج عدن، اور بحیرہ احمر کے حساس علاقوں میں چھّبیس سو بحری جہازوں کی حفاظت کی ہے اور سمندری قزاقوں کا بھرپور طریقے سے مقابلہ کیا ہے۔ ایڈمیرل سیّاری نے کہا کہ بحریہ کی توانائی میں اضافہ، ہمارے منصوبے کا اہم حصہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران کی بحریہ ماضی سے کہیں زیادہ توانائی کے ساتھ آزاد سمندروں میں موجود رہے گی اور ایران کی سلامتی اور مفادات کے تحفظ کے لئے ایک لمحہ بھی دریغ نہیں کرے گی۔




















![جناب خدیجہ کبری[س] کی سیرت](/ur/media/k2/items/cache/ef2cbc28bb74bd18fb9aaefb55569150_XS.jpg)
