Super User

Super User

 مرکز اسلامی امریکہ، ایک مسجد ہے ، جو ریاست میشیگان کے بڑے شہر ڈیٹرویٹ کے شہر ڈیٹر بورن میں واقع ہے۔ یہ مسجد سنہ 2005ء میں افتتاح ہوئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ مسجد شمالی امریکہ میں سب سے بڑی مسجد ہے۔ یہ مسجد شہر ڈیربورن کے مسلمانوں کی ہے۔

مرکز اسلامی امریکہ سنہ 1963ء میں مرحوم محمد جواد شیری کے توسط سے تاسیس ہوا ہے اور سنہ 1994ء میں ان کی وفات تک وہ خود اس مرکز کے رئیس تھے۔

اس مسجد کی انتظامیہ کے اراکین کے کہنے کے مطابق یہ مسجد شمالی امریکہ کی سب سے بڑی دینی عمارت شمار ہوتی ہے۔

مسجد، مرکز اسلامی امریکہ کا گنبد 45میٹر بلند ہے اور اس کے دو میناروں میں سے ہر ایک کی لمبائی 30 میٹر ہے۔

 مسجد مرکز اسلامی امریکہ تین ہزار افراد کی ظرفیت کا ایک اسلامی ثقافتی مجتمع ہے اس کی مساحت 11148 مربع میٹر ہے۔ یہ مرکز  ایک کتاب خانہ،  ایک میٹنگ ہال، کانفرنس ہال اور مہد اطفال پر مشتمل ہے۔

   اس مرکز اسلامی کی تعمیرکا کام،من جملہ ان کئی منصوبوں میں سے ایک تھا، جو امریکہ کی ریاست میشیگان میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر تاسیس کئے جارہے ہیں۔

 اس مسجد کی معماری، شمالی امریکہ کی سب سے بڑی مسجد کے عنوان سے انتہائی خوبصورت اور جذّاب ہے۔ مرکز اسلامی امریکہ، شہر ڈیر بورن کی اثر گزار ترین عمارتوں میں شمار ہوتا ہے۔

۲۰۱۵/۰۶/۰۴ -رہبر معظم انقلاب  اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای نے رہبر کبیر انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رہ) کے حرم مطہر میں  ایران کے وفادار عوام کے ایک عظیم اور بےمثال اجتماع سے خطاب میں حضرت امام خمینی (رہ) کے مکتب کو ایرانی قوم کے لئے پرامید نقشہ راہ قراردیا اور حضرت امام خمینی (رہ) کی شخصیت کے بارے میں تحریف کا سنجیدگی کے ساتھ مقابلہ کرنے پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: اس عظیم انسان کی  شخصیت کے بارے میں تحریف کا مقابلہ صرف ان کے مستند اصول کا مطالعہ کرنے کے ذریعہ ممکن ہے، حضرت امام خمینی(رہ)  کے اصولوں میں ، خالص اسلام  محمدی کا اثبات، امریکی اسلام کی نفی، اللہ تعالی کے وعدے پر اعتقاد ، مستکبرین پر عدم اعتماد ، عوامی طاقت و عزم پر اعتماد ، حکومتی تمرکز کی مخالفت ، محرومین کی سنجیدہ حمایت ، اشرافیت کی مخالفت ، دنیا کے مظلومین کی حمایت ،بین الاقوامی منہ زور طاقتوں کی آشکارا مخالفت، استقلال کی حمایت ، تسلط قبول کرنے کی مخالفت  اور قومی اتحاد پر تاکید جیسے اصول شامل ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حضرت امام خمینی (رہ) کی 26 ویں برسی کے موقع پر اپنے خطاب کے آغاز میں  پندرہ شعبان حضرت ولی عصر (عج) کی ولادت باسعادت اور منجی آخرالزمان کے موضوع  پر تمام ابراہیمی ادیان کے اتفاق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: تمام اسلامی مذاہب اس منجی کو پیغمبر اسلام (ص) کی اولاد اور مہدی (عج) کے نام سے پہچانتے ہیں، شیعہ مذہب کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اس عظیم ہستی کو مشخص اور معین طور پر معرفی کرتے ہیں اور امام مہدی (عج) کو گیارہویں امام حضرت امام حسن عسکری (ع) کا فرزند مانتےاور اسےمختلف دلائل کے ذریعہ ثابت کرتے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امید آفرینی کو مہدی موعود (عج) کے ظہور پر اعتقاد کو سب سے بڑی خاصیت قراردیتے ہوئے فرمایا: اس گہرے اور نجات بخش  اعتقاد کی یہ شمع فروزاں  شیعوں کو ظلم و تاریکی کے تمام ادوار میں مستقبل کے بارے میں پرامید اور پر تحرک بناتی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس کے بعد اپنے آج کے خطاب کے اہم موضوع یعنی امام خمینی (رہ) کی شخصیت کے بارے میں تحریف کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: بعض افراد حضرت امام (رہ) کو اپنے دور میں محصور کرنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ ایسا نہیں ہے بلکہ حضرت امام (رہ) ایرانی قوم کی عظیم اور تاریخ ساز حرکت کے مظہر ہیں اور قدرتی طور پر ان کی شخصیت کے بارے میں تحریف سے اس عظیم حرکت کو بیشمار حظرات پہنچنے کا خدشہ ہے لہذا اس سلسلے میں مکمل طور پر ہوشیار رہنا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حضرت امام خمینی (رہ) کے سیاسی، فکری اور سماجی مکتب کو پیشرفت، اقتدار اور عدالت جیسے اعلی اہداف کے حصول کے لئے ایرانی قوم کا روڈ میپ قراردیتے ہوئے فرمایا: بیشک حضرت امام (رہ) کی صحیح اور درست شناخت کے بغیر یہ نقشہ راہ متوقف ہوجائے گا اور آگے کی سمت نہیں بڑھ پائے گا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حضرت امام خمینی (رہ) کے ممتاز عرفانی، فلسفی اور فقہی  پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا اور انھیں  آیات قرآنی کے مضمون کا عملی مظہر قراردیا جو اللہ تعالی کی راہ کے حقیقی مجاہدوں کی تعریف میں ہیں جنھوں نے اللہ تعالی کی راہ میں حقیقی معنی میں حق جہاد ادا کیا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ایرانی قوم کے عظيم الشان امام (رہ) نے عالم اسلام اور ایرانی تاریخ میں  بے مثال انقلاب برپا کیا،  شہنشاہیت کے غلط اور بوسیدہ نظام کوسرنگوں کرکے صدر اسلام کے بعد اسلامی احکام پر مشتمل پہلی اسلامی حکومت تشکیل دی  اور اس طرح اپنے تمام وجود کے ساتھ اللہ تعالی کی راہ میں جہاد کا حق ادا کیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اندرونی اور معنوی جہاد کو حضرت امام (رہ) کے سیاسی ، فکری اور سماجی  جہاد کی تکمیل قراردیا اور حضرت امام (رہ) کے مکتب کے پہلوؤں کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: وہ فکری منظومہ  جس نے اس عظیم انقلاب کو برپا کیا وہ  توحیدی جہان بینی  پر استوار تھا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فکری بالیدگی کو حضرت امام خمینی (رہ) کی دوسری خصوصیت قراردیتے ہوئے فرمایا: حضرت امام (رہ) اپنے منسجم منظومہ فکری  تکیہ کرکے ایرانی معاشرے اور عالمی معاشرے کے لئے راہ حل پیش کرتے تھے  اور قومیں  ان کے راہ حل کی قدر و قیمت  کا احساس کرتی تھیں  اور مکتب امام (رہ) کو قوموں کے درمیان فروغ ملنے کی ایک وجہ یہی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نےمکتب  امام خمینی (رہ) کی دیگرخصوصیات میں تحرک ، فکری بالیدگی  اور زندہ دلی کو شمار کرتے ہوئے فرمایا: امام (رہ) دنیا کے دوسرے نظریہ پردازوں اور مفکرین کی طرح نہیں تھے کہ جو عام محفلوں میں اچھے بیانات جاری کرتے ہیں لیکن عمل کے میدان میں بے بس ہوجاتے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایرانی قوم میں امید ، نشاط ، جذبہ کی موجودگی اور حرکت کو  مکتب امام (رہ) اور امام کی پیروی کے مبارک نتاچ میں شمار کرتے ہوئے فرمایا: ایرانی قوم کا ابھی اپنے اہداف تک پہنچنے میں کافی فاصلہ ہے  لیکن اہم بات یہ ہے کہ ایرانی قوم عزم و ہمت  و امید اور حوصلہ کے ساتھ  اس تابناک راستے پر گامزن ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس شرق آفریں راستے پر درست حرکت کو حضرت امام خمینی (رہ)  اور ان کے اصولوں کی صحیح شناخت سے وابستہ قراردیتے ہوئے فرمایا: حضرت امام (رہ) کی شخصیت کے بارے میں تحریف ، در حقیقت امام (رہ) کے راستے کی تحریف اور ایرانی قوم کو صراط مستقیم سے منحرف کرنے کی ایک کوشش ہے اور اگر راہ امام (رہ) گم ہوگیا یا اسے فراموش کردیا گیا یا خدانخواستہ اسے جان بوجھ کر الگ کردیا گیا  تو اس صورت میں ایرانی قوم کو زوردار طمانچے کا ساما کرنا پڑےگا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے علاقہ کے ایک بڑے ملک کے عنوان سے  ایران کے بارے میں عالمی منہ زور اور تسلط پسند  طاقتوں کی طمع  کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: عالمی منہ زور طاقتیں اس وقت اس طمع سے دست بردار ہوجائیں گی جب وہ ایران کی ترقی، پیشرفت اور طاقت کو دیکھ کر مایوس ہوں گی۔

رہبر معظم انقلاب نے حضرت امام خمینی (رہ) کے مکتب کے اصول کے دائرے میں رہ کر حرکت کو ایرانی قوم کی طاقت ، قدرت اور پیشرفت کا ضامن قراردیتے ہوئے فرمایا: ان مسائل کو مد نظر رکھنے کے بعد حضرت امام خمینی (رہ) کی شخصیت کے بارے میں تحریف کے خطرے کی اہمیت بڑھ جاتی ہے اور اس خطرے کے بارے میں حوزات علمیہ، یونیورسٹیوں ، مفکرین ، انقلاب اسلامی اور حضرت امام (رہ) سے محبت اور ہمدردی رکھنے والے افراد ، ممتاز شخصیات ،جوانوں ،  حضرت امام (رہ) کے قدیمی شاگردوں اور حکام کو سنجیدہ خطرے کے عنوان سے خاص توجہ مبذول کرنی چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حضرت امام خمینی (رہ) کی شخصیت کے بارے میں تحریف کے موضوع کو انقلاب اسلامی کے آغاز سے لیکر ایک طولانی موضوع قراردیتے ہوئے فرمایا: حضرت امام خمینی (رہ) کی زندگی میں اور انقلاب کے آغاز سے دشمن کی یہ تلاش و کوشش تھی کہ وہ حضرت امام (رہ) کو ایک خشک و خشن ، غیر لچکدار شخصیت اور غیر عاطفی شخصیت کے عنوان سے معرفی کرے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: حضرت امام (رہ) مستکبر طاقتوں کے مقابلے میں ٹھوس اور غیر متزلزل شخصیت کے حامل تھے اور اس کے ساتھ ہی وہ اللہ تعالی کے سامنے خاضع و خاشع  اور خلق خدا بالخصوص مستضعف طبقات  کے ساتھ مہر و محبت اور الفت  کے ساتھ پیش آتے تھے ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملک کے اندر حضرت امام (رہ) کی شخصیت کے بارے میں دانستہ یا غیر دانستہ طور پر تحریف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: حضرت امام خمینی (رہ) کی حیات میں بعض افراد کو جو بات اپنی نظر میں پسند آتی تھی اس کی نسبت حضرت امام (رہ) کی طرف دیتے تھے  حالانکہ اس کا ان کی شخصیت کے ساتھ کوئی ربط نہیں تھا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: حضرت امام خمینی (رہ) کی رحلت کے بعد اس گروپ کی تلاش جاری رہی ، یہاں تک کہ بعض افراد حضرت امام خمینی (رہ) کو ایک لیبرل شخص  معرفی کرتے تھے جو سیاسی، فکری اور ثقافتی رفتار میں کسی قید و شرط کا قائل نہیں تھے حالانکہ یہ ںظریہ بالکل غلط اور خلاف واقع ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے حضرت امام (رہ) کی شخصیت کی صحیح اور دقیق شناخت  کی راہ کو ان کے فکری مکتب اور اصولوں کے صحیح مطالعہ پر مبنی قراردیتے ہوئے فرمایا: اگر حضرت امام (رہ) کی پہچان اس روش کی بنیاد پر نہ ہو تومکن ہے بعض افراد اپنے فکری نظریہ کے مطابق حضرت امام (رہ) کی معرفی شروع کردیں ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عوام کے دلوں میں حضرت امام خمینی (رہ) کی محبت کو یادگار اور اس محبت کو محو کرنے کے سلسلے میں دشمن کی کوششوں کو ناکام قراردیتے ہوئےفرمایا: حضرت امام (رہ) کی شخصیت کی جڑیں عوام کے دلوں میں پیوست ہیں اسی بنیاد پر حضرت امام (رہ) کی شخصیت  کے بارے میں  تحریف کا معاملہ بڑا خطرناک معاملہ ہے اور امام خمینی (رہ) کے اصولوں کی شناخت اور ان کی زندگی کے مطالعہ سے اس خطرے کو دور کیا جاسکتا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حضرت امام خمینی (رہ) کے فکری نظریات اور اصولوں  کو اسلامی تحریک کے 15 سال کے عرصہ اور انقلاب اسلامی کی  کامیابی کے بعد 10 سال کے عرصہ میں ان کے گوناگوں بیانات کے ذریعہ حاصل کرنے پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: اگر ان اصولوں کو ایکدوسرے کے ساتھ  ملا کررکھا جائے تو حضرت امام خمینی (رہ) کی شخصیت کی حقیقی تصویر سامنے آجائے گی۔رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حضرت امام خمینی (رہ) کے سات نظریات اور اصولوں کی تشریح سے قبل حضرت امام (رہ) کے اصول کے سلسلے میں چند نکات پیش کئے: 1- یہ اصول مکرر اور بار بار حضرت امام (رہ) کے بیانات میں بیان اور امام (رہ) کے بیّنات کا حصہ ہوں، 2- ان اصول کا خاص انتخاب اور بیان نہیں ہونا چاہیے، 3- امام کے اصول ان سات موارد میں منحصر نہیں ہیں بلکہ صاحب نظر افراد طے شدہ دائرے کے مطابق،  امام (رہ) کے فکری مکتب سے دوسرے اصول بھی نکال سکتے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس کے بعد حضرت امام (رہ) کے فکری مکتب کے سات اصولوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: خالص محمدی (ص) اسلام کا اثبات اور امریکی اسلام کی نفی ، ان میں سے ایک اصول ہے اور حضرت امام (رہ) ہمیشہ خالص اسلام کو امریکی اسلام کے مقابلے میں قراردیتے تھے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امریکی اسلام کی دو شاخوں یعنی سیکولر اسلام اور متحجر اسلام  کی حقیقت اور ماہیت کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: حضرت امام (رہ) دین سے انسانوں کی اجتماعی رفتار اور معاشرے کی جدائی کے قائل افراد کو ہمیشہ ان افراد کے ساتھ قراردیتے تھے جونئی سوچ کے افراد کے لئے  دین پر پسماندہ اور متحجرانہ اور ناقابل فہم  نگاہ رکھتے تھے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امریکی اسلام کی دونوں شاخوں کے سلسلے میں ہمیشہ امریکہ اور عالمی منہ زور طاقتوں کی بھر پور حمایت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: آج بھی اسلامی شریعت  اور اسلامی فقہ سے بیگانہ اور منحرف  داعش اور القاعدہ  جیسے  بظاہر اسلامی گروہوں کو  امریکہ اور اسرائیل کی بھر پور حمایت حاصل ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: حضرت امام خمینی (رہ) کی نظر میں خالص اسلام ، کتاب اور سنت پر مشتمل ہے جو زمان و مکان کے شرائط اور روشن و متناسب نظریات کے ذریعہ ، اسلامی و انسانی معاشرے کی بالفعل ضرورتوں  کی شناخت ، قابل قبول علمی طریقوں سے استفادہ کے ساتھ ، دشمن کے طریقوں کو مد نظر رکھنے سے  اور حوزات علمیہ میں تکمیل شدہ طریقوں سے حاصل ہوتا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: حضرت امام (رہ) کے فکری مکتب میں درباری ملاؤں کا اسلام اور داعشی اسلام  ایک طرف اور امریکہ و اسرائیل کے بھیانک جرائم کے مقابلے میں غیر متوجہ  اور بڑی طاقتوں  کی طرف دیکھنے والے افراد کا اسلام دوسری طرف ؛ لیکن یہ دونوں اسلام ایک نقطہ پر پہنچتے ہیں اور یہ دونوں مردود ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: جو شخص خود کو حضرت امام (رہ) کا پیروہ کار سمجھتا ہے  اسے سیکولر اسلام اور متحجر اسلام کے ساتھ اپنی سرحد کو پہچاننا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اللہ تعالی کی مدد پر تکیہ، اللہ تعالی کے سچے وعدے پر اعتماد اور اس کے ساتھ  عالمی منہ زور اور مستکبرطاقتوں  پر عدم اعتماد کو حضرت امام خمینی (رہ) کے فکری اصول کی دوسری اصل قراردیتے ہوئے فرمایا: حضرت امام (رہ)  ہمیشہ اللہ تعالی کے سچے وعدے پر اعتقاد اور یقین رکھتے تھے اور اس کے مقابلے میں عالمی منہ زور اور سامراجی طاقتوں کے وعدوں پر بالکل اعتماد نہیں رکھتے تھے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: حضرت امام (رہ) کی یہ بارز خصوصیت اس بات کا موجب بن گئی تھی  کہ وہ اپنا مؤقف کسی لحاظ اور ملاحظہ کے بغیر واضح اور ٹھوس انداز میں پیش کرتے تھے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حضرت امام خمینی (رہ) کے بعض مستکبر حکمرانوں کے خطوں کے جوابات کو ادب و احترام  کو ملحوظ رکھنے کے ساتھ  ٹھوس اور واضح جوابات  دینےکی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: حضرت امام (رہ) نے اعتماد اور توکل کو ایرانی قوم کی رگوں میں خون کی طرح جاری کردیا ہے کہ یہ  قوم بھی اللہ تعالی کی مدد و نصرت پر اعتقاد اور اس پر توکل کی خوگر بن گئی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مستکبرین اور ان کے وعدوں پر حضرت امام (رہ) کے مکمل عدم اعتماد اور عدم توجہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ہم نے اس موضوع کو مکمل طور پر محسوس اور مشاہدہ کیا ہے کہ کیوں مستکبرین کے وعدوں پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا  اس لئے کہ وہ خصوصی جلسات میں ایک بات کرتے ہیں اور عمومی سطح پر اس کے خلاف عمل کرتے ہیں ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اللہ تعالی کی ذات پر اعتماد اور مستکبرین پر عدم اعتماد کو حضرت امام خمینی (رہ) کے اصول کا اہم حصہ قراردیتے ہوئے فرمایا: البتہ اس موضوع کا مطلب دنیا سے رابطہ ختم کرنا نہیں تھا  کیونکہ محترمانہ اور معمول کی حد تک رابطہ موجود تھا  لیکن مستکبروں اور ان کے حامیوں پر کسی قسم کا اعتماد نہیں تھا۔

عوامی طاقت اور عزم پر اعتقاد اور حکومتی تمرکز کی مخالفت امام خمینی (رہ) کے فکری اصول کی تیسری قسم تھی جس کی طرف رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اشارہ کیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مختلف اقتصادی، فوجی، تعمیراتی ، تبلیغاتی اور سب سے بڑھ کر انتخابات کے مسائل میں ہمیشہ عوامی رائے اور طاقت پر حقیقی اعتقاد اور ان کے عوام پر متکی ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: انقلاب اسلامی کے بعد حضرت امام (رہ) کی زندگی کے 10 سال میں 10 انتخابات منعقد ہوئے جبکہ ان 10 سالوں میں آٹھ سال دفاع مقدس سے متعلق ہیں، حتی حضرت امام (رہ) نے ایک دن بھی انتخابات کو مؤخر کرنے کی اجازت نہیں دی ، انتخابات مقررہ وقت پر منعقد ہوئے  کیونکہ امام (رہ) حقیقی معنی میں عوام کی رائے ، ان کی تشخيص اور ان کی فکر کے احترام کے قائل تھے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: حتی بعض موارد میں ممکن تھا کہ عوام کا انتخاب و تشخیص ، امام (رہ) کی نظر کے ساتھ یکساں نہ ہو  لیکن امام (رہ) عوام کی رائے کے احترام کے قائل تھے۔

 

Sunday, 07 June 2015 06:24

سوره العاديات

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ


عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے


﴿1﴾ وَالْعَادِيَاتِ ضَبْحًا
(1) فراٹے بھرتے ہوئے تیز رفتار گھوڑوں کی قسم


﴿2﴾ فَالْمُورِيَاتِ قَدْحًا
(2) جوٹا پ مار کر چنگاریاں اُڑانے والے ہیں


﴿3﴾ فَالْمُغِيرَاتِ صُبْحًا
(3) پھر صبحدم حملہ کرنے والے ہیں


﴿4﴾ فَأَثَرْنَ بِهِ نَقْعًا
(4) پھر غبار جنگ اڑانے والے نہیں


﴿5﴾ فَوَسَطْنَ بِهِ جَمْعًا
(5) اور دشمن کی جمعیت میں در آنے والے ہیں


﴿6﴾ إِنَّ الْإِنسَانَ لِرَبِّهِ لَكَنُودٌ 
(6) بے شک انسان اپنے پروردگار کے لئے بڑا ناشکرا ہے


﴿7﴾ وَإِنَّهُ عَلَى ذَلِكَ لَشَهِيدٌ
(7) اور وہ خود بھی اس بات کا گواہ ہے


﴿8﴾ وَإِنَّهُ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيدٌ 
(8) اور وہ مال کی محبت میں بہت سخت ہے

﴿9﴾ أَفَلَا يَعْلَمُ إِذَا بُعْثِرَ مَا فِي الْقُبُورِ
(9) کیا اسے نہیں معلوم ہے کہ جب مفِدوں کو قبروں سے نکالا جائے گا

 

﴿10﴾ وَحُصِّلَ مَا فِي الصُّدُورِ
(10) اور دل کے رازوں کو ظاہر کردیا جائے گا


﴿11﴾ إِنَّ رَبَّهُم بِهِمْ يَوْمَئِذٍ لَّخَبِيرٌ
(11) تو ان کا پروردگار اس دن کے حالات سے خوب باخبر ہوگ

 

۲۰۱۵/۰۶/۰۴ -رہبر معظم انقلاب  اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای نے رہبر کبیر انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رہ) کے حرم مطہر میں  ایران کے وفادار عوام کے ایک عظیم اور بےمثال اجتماع سے خطاب میں حضرت امام خمینی (رہ) کے مکتب کو ایرانی قوم کے لئے پرامید نقشہ راہ قراردیا اور حضرت امام خمینی (رہ) کی شخصیت کے بارے میں تحریف کا سنجیدگی کے ساتھ مقابلہ کرنے پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: اس عظیم انسان کی  شخصیت کے بارے میں تحریف کا مقابلہ صرف ان کے مستند اصول کا مطالعہ کرنے کے ذریعہ ممکن ہے، حضرت امام خمینی(رہ)  کے اصولوں میں ، خالص اسلام  محمدی کا اثبات، امریکی اسلام کی نفی، اللہ تعالی کے وعدے پر اعتقاد ، مستکبرین پر عدم اعتماد ، عوامی طاقت و عزم پر اعتماد ، حکومتی تمرکز کی مخالفت ، محرومین کی سنجیدہ حمایت ، اشرافیت کی مخالفت ، دنیا کے مظلومین کی حمایت ،بین الاقوامی منہ زور طاقتوں کی آشکارا مخالفت، استقلال کی حمایت ، تسلط قبول کرنے کی مخالفت  اور قومی اتحاد پر تاکید جیسے اصول شامل ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حضرت امام خمینی (رہ) کی 26 ویں برسی کے موقع پر اپنے خطاب کے آغاز میں  پندرہ شعبان حضرت ولی عصر (عج) کی ولادت باسعادت اور منجی آخرالزمان کے موضوع  پر تمام ابراہیمی ادیان کے اتفاق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: تمام اسلامی مذاہب اس منجی کو پیغمبر اسلام (ص) کی اولاد اور مہدی (عج) کے نام سے پہچانتے ہیں، شیعہ مذہب کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اس عظیم ہستی کو مشخص اور معین طور پر معرفی کرتے ہیں اور امام مہدی (عج) کو گیارہویں امام حضرت امام حسن عسکری (ع) کا فرزند مانتےاور اسےمختلف دلائل کے ذریعہ ثابت کرتے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امید آفرینی کو مہدی موعود (عج) کے ظہور پر اعتقاد کو سب سے بڑی خاصیت قراردیتے ہوئے فرمایا: اس گہرے اور نجات بخش  اعتقاد کی یہ شمع فروزاں  شیعوں کو ظلم و تاریکی کے تمام ادوار میں مستقبل کے بارے میں پرامید اور پر تحرک بناتی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس کے بعد اپنے آج کے خطاب کے اہم موضوع یعنی امام خمینی (رہ) کی شخصیت کے بارے میں تحریف کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: بعض افراد حضرت امام (رہ) کو اپنے دور میں محصور کرنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ ایسا نہیں ہے بلکہ حضرت امام (رہ) ایرانی قوم کی عظیم اور تاریخ ساز حرکت کے مظہر ہیں اور قدرتی طور پر ان کی شخصیت کے بارے میں تحریف سے اس عظیم حرکت کو بیشمار حظرات پہنچنے کا خدشہ ہے لہذا اس سلسلے میں مکمل طور پر ہوشیار رہنا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حضرت امام خمینی (رہ) کے سیاسی، فکری اور سماجی مکتب کو پیشرفت، اقتدار اور عدالت جیسے اعلی اہداف کے حصول کے لئے ایرانی قوم کا روڈ میپ قراردیتے ہوئے فرمایا: بیشک حضرت امام (رہ) کی صحیح اور درست شناخت کے بغیر یہ نقشہ راہ متوقف ہوجائے گا اور آگے کی سمت نہیں بڑھ پائے گا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حضرت امام خمینی (رہ) کے ممتاز عرفانی، فلسفی اور فقہی  پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا اور انھیں  آیات قرآنی کے مضمون کا عملی مظہر قراردیا جو اللہ تعالی کی راہ کے حقیقی مجاہدوں کی تعریف میں ہیں جنھوں نے اللہ تعالی کی راہ میں حقیقی معنی میں حق جہاد ادا کیا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ایرانی قوم کے عظيم الشان امام (رہ) نے عالم اسلام اور ایرانی تاریخ میں  بے مثال انقلاب برپا کیا،  شہنشاہیت کے غلط اور بوسیدہ نظام کوسرنگوں کرکے صدر اسلام کے بعد اسلامی احکام پر مشتمل پہلی اسلامی حکومت تشکیل دی  اور اس طرح اپنے تمام وجود کے ساتھ اللہ تعالی کی راہ میں جہاد کا حق ادا کیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اندرونی اور معنوی جہاد کو حضرت امام (رہ) کے سیاسی ، فکری اور سماجی  جہاد کی تکمیل قراردیا اور حضرت امام (رہ) کے مکتب کے پہلوؤں کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: وہ فکری منظومہ  جس نے اس عظیم انقلاب کو برپا کیا وہ  توحیدی جہان بینی  پر استوار تھا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فکری بالیدگی کو حضرت امام خمینی (رہ) کی دوسری خصوصیت قراردیتے ہوئے فرمایا: حضرت امام (رہ) اپنے منسجم منظومہ فکری  تکیہ کرکے ایرانی معاشرے اور عالمی معاشرے کے لئے راہ حل پیش کرتے تھے  اور قومیں  ان کے راہ حل کی قدر و قیمت  کا احساس کرتی تھیں  اور مکتب امام (رہ) کو قوموں کے درمیان فروغ ملنے کی ایک وجہ یہی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نےمکتب  امام خمینی (رہ) کی دیگرخصوصیات میں تحرک ، فکری بالیدگی  اور زندہ دلی کو شمار کرتے ہوئے فرمایا: امام (رہ) دنیا کے دوسرے نظریہ پردازوں اور مفکرین کی طرح نہیں تھے کہ جو عام محفلوں میں اچھے بیانات جاری کرتے ہیں لیکن عمل کے میدان میں بے بس ہوجاتے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایرانی قوم میں امید ، نشاط ، جذبہ کی موجودگی اور حرکت کو  مکتب امام (رہ) اور امام کی پیروی کے مبارک نتاچ میں شمار کرتے ہوئے فرمایا: ایرانی قوم کا ابھی اپنے اہداف تک پہنچنے میں کافی فاصلہ ہے  لیکن اہم بات یہ ہے کہ ایرانی قوم عزم و ہمت  و امید اور حوصلہ کے ساتھ  اس تابناک راستے پر گامزن ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس شرق آفریں راستے پر درست حرکت کو حضرت امام خمینی (رہ)  اور ان کے اصولوں کی صحیح شناخت سے وابستہ قراردیتے ہوئے فرمایا: حضرت امام (رہ) کی شخصیت کے بارے میں تحریف ، در حقیقت امام (رہ) کے راستے کی تحریف اور ایرانی قوم کو صراط مستقیم سے منحرف کرنے کی ایک کوشش ہے اور اگر راہ امام (رہ) گم ہوگیا یا اسے فراموش کردیا گیا یا خدانخواستہ اسے جان بوجھ کر الگ کردیا گیا  تو اس صورت میں ایرانی قوم کو زوردار طمانچے کا ساما کرنا پڑےگا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے علاقہ کے ایک بڑے ملک کے عنوان سے  ایران کے بارے میں عالمی منہ زور اور تسلط پسند  طاقتوں کی طمع  کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: عالمی منہ زور طاقتیں اس وقت اس طمع سے دست بردار ہوجائیں گی جب وہ ایران کی ترقی، پیشرفت اور طاقت کو دیکھ کر مایوس ہوں گی۔

رہبر معظم انقلاب نے حضرت امام خمینی (رہ) کے مکتب کے اصول کے دائرے میں رہ کر حرکت کو ایرانی قوم کی طاقت ، قدرت اور پیشرفت کا ضامن قراردیتے ہوئے فرمایا: ان مسائل کو مد نظر رکھنے کے بعد حضرت امام خمینی (رہ) کی شخصیت کے بارے میں تحریف کے خطرے کی اہمیت بڑھ جاتی ہے اور اس خطرے کے بارے میں حوزات علمیہ، یونیورسٹیوں ، مفکرین ، انقلاب اسلامی اور حضرت امام (رہ) سے محبت اور ہمدردی رکھنے والے افراد ، ممتاز شخصیات ،جوانوں ،  حضرت امام (رہ) کے قدیمی شاگردوں اور حکام کو سنجیدہ خطرے کے عنوان سے خاص توجہ مبذول کرنی چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حضرت امام خمینی (رہ) کی شخصیت کے بارے میں تحریف کے موضوع کو انقلاب اسلامی کے آغاز سے لیکر ایک طولانی موضوع قراردیتے ہوئے فرمایا: حضرت امام خمینی (رہ) کی زندگی میں اور انقلاب کے آغاز سے دشمن کی یہ تلاش و کوشش تھی کہ وہ حضرت امام (رہ) کو ایک خشک و خشن ، غیر لچکدار شخصیت اور غیر عاطفی شخصیت کے عنوان سے معرفی کرے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: حضرت امام (رہ) مستکبر طاقتوں کے مقابلے میں ٹھوس اور غیر متزلزل شخصیت کے حامل تھے اور اس کے ساتھ ہی وہ اللہ تعالی کے سامنے خاضع و خاشع  اور خلق خدا بالخصوص مستضعف طبقات  کے ساتھ مہر و محبت اور الفت  کے ساتھ پیش آتے تھے ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملک کے اندر حضرت امام (رہ) کی شخصیت کے بارے میں دانستہ یا غیر دانستہ طور پر تحریف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: حضرت امام خمینی (رہ) کی حیات میں بعض افراد کو جو بات اپنی نظر میں پسند آتی تھی اس کی نسبت حضرت امام (رہ) کی طرف دیتے تھے  حالانکہ اس کا ان کی شخصیت کے ساتھ کوئی ربط نہیں تھا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: حضرت امام خمینی (رہ) کی رحلت کے بعد اس گروپ کی تلاش جاری رہی ، یہاں تک کہ بعض افراد حضرت امام خمینی (رہ) کو ایک لیبرل شخص  معرفی کرتے تھے جو سیاسی، فکری اور ثقافتی رفتار میں کسی قید و شرط کا قائل نہیں تھے حالانکہ یہ ںظریہ بالکل غلط اور خلاف واقع ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے حضرت امام (رہ) کی شخصیت کی صحیح اور دقیق شناخت  کی راہ کو ان کے فکری مکتب اور اصولوں کے صحیح مطالعہ پر مبنی قراردیتے ہوئے فرمایا: اگر حضرت امام (رہ) کی پہچان اس روش کی بنیاد پر نہ ہو تومکن ہے بعض افراد اپنے فکری نظریہ کے مطابق حضرت امام (رہ) کی معرفی شروع کردیں ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عوام کے دلوں میں حضرت امام خمینی (رہ) کی محبت کو یادگار اور اس محبت کو محو کرنے کے سلسلے میں دشمن کی کوششوں کو ناکام قراردیتے ہوئےفرمایا: حضرت امام (رہ) کی شخصیت کی جڑیں عوام کے دلوں میں پیوست ہیں اسی بنیاد پر حضرت امام (رہ) کی شخصیت  کے بارے میں  تحریف کا معاملہ بڑا خطرناک معاملہ ہے اور امام خمینی (رہ) کے اصولوں کی شناخت اور ان کی زندگی کے مطالعہ سے اس خطرے کو دور کیا جاسکتا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حضرت امام خمینی (رہ) کے فکری نظریات اور اصولوں  کو اسلامی تحریک کے 15 سال کے عرصہ اور انقلاب اسلامی کی  کامیابی کے بعد 10 سال کے عرصہ میں ان کے گوناگوں بیانات کے ذریعہ حاصل کرنے پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: اگر ان اصولوں کو ایکدوسرے کے ساتھ  ملا کررکھا جائے تو حضرت امام خمینی (رہ) کی شخصیت کی حقیقی تصویر سامنے آجائے گی۔رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حضرت امام خمینی (رہ) کے سات نظریات اور اصولوں کی تشریح سے قبل حضرت امام (رہ) کے اصول کے سلسلے میں چند نکات پیش کئے: 1- یہ اصول مکرر اور بار بار حضرت امام (رہ) کے بیانات میں بیان اور امام (رہ) کے بیّنات کا حصہ ہوں، 2- ان اصول کا خاص انتخاب اور بیان نہیں ہونا چاہیے، 3- امام کے اصول ان سات موارد میں منحصر نہیں ہیں بلکہ صاحب نظر افراد طے شدہ دائرے کے مطابق،  امام (رہ) کے فکری مکتب سے دوسرے اصول بھی نکال سکتے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس کے بعد حضرت امام (رہ) کے فکری مکتب کے سات اصولوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: خالص محمدی (ص) اسلام کا اثبات اور امریکی اسلام کی نفی ، ان میں سے ایک اصول ہے اور حضرت امام (رہ) ہمیشہ خالص اسلام کو امریکی اسلام کے مقابلے میں قراردیتے تھے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امریکی اسلام کی دو شاخوں یعنی سیکولر اسلام اور متحجر اسلام  کی حقیقت اور ماہیت کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: حضرت امام (رہ) دین سے انسانوں کی اجتماعی رفتار اور معاشرے کی جدائی کے قائل افراد کو ہمیشہ ان افراد کے ساتھ قراردیتے تھے جونئی سوچ کے افراد کے لئے  دین پر پسماندہ اور متحجرانہ اور ناقابل فہم  نگاہ رکھتے تھے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امریکی اسلام کی دونوں شاخوں کے سلسلے میں ہمیشہ امریکہ اور عالمی منہ زور طاقتوں کی بھر پور حمایت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: آج بھی اسلامی شریعت  اور اسلامی فقہ سے بیگانہ اور منحرف  داعش اور القاعدہ  جیسے  بظاہر اسلامی گروہوں کو  امریکہ اور اسرائیل کی بھر پور حمایت حاصل ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: حضرت امام خمینی (رہ) کی نظر میں خالص اسلام ، کتاب اور سنت پر مشتمل ہے جو زمان و مکان کے شرائط اور روشن و متناسب نظریات کے ذریعہ ، اسلامی و انسانی معاشرے کی بالفعل ضرورتوں  کی شناخت ، قابل قبول علمی طریقوں سے استفادہ کے ساتھ ، دشمن کے طریقوں کو مد نظر رکھنے سے  اور حوزات علمیہ میں تکمیل شدہ طریقوں سے حاصل ہوتا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: حضرت امام (رہ) کے فکری مکتب میں درباری ملاؤں کا اسلام اور داعشی اسلام  ایک طرف اور امریکہ و اسرائیل کے بھیانک جرائم کے مقابلے میں غیر متوجہ  اور بڑی طاقتوں  کی طرف دیکھنے والے افراد کا اسلام دوسری طرف ؛ لیکن یہ دونوں اسلام ایک نقطہ پر پہنچتے ہیں اور یہ دونوں مردود ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: جو شخص خود کو حضرت امام (رہ) کا پیروہ کار سمجھتا ہے  اسے سیکولر اسلام اور متحجر اسلام کے ساتھ اپنی سرحد کو پہچاننا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اللہ تعالی کی مدد پر تکیہ، اللہ تعالی کے سچے وعدے پر اعتماد اور اس کے ساتھ  عالمی منہ زور اور مستکبرطاقتوں  پر عدم اعتماد کو حضرت امام خمینی (رہ) کے فکری اصول کی دوسری اصل قراردیتے ہوئے فرمایا: حضرت امام (رہ)  ہمیشہ اللہ تعالی کے سچے وعدے پر اعتقاد اور یقین رکھتے تھے اور اس کے مقابلے میں عالمی منہ زور اور سامراجی طاقتوں کے وعدوں پر بالکل اعتماد نہیں رکھتے تھے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: حضرت امام (رہ) کی یہ بارز خصوصیت اس بات کا موجب بن گئی تھی  کہ وہ اپنا مؤقف کسی لحاظ اور ملاحظہ کے بغیر واضح اور ٹھوس انداز میں پیش کرتے تھے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حضرت امام خمینی (رہ) کے بعض مستکبر حکمرانوں کے خطوں کے جوابات کو ادب و احترام  کو ملحوظ رکھنے کے ساتھ  ٹھوس اور واضح جوابات  دینےکی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: حضرت امام (رہ) نے اعتماد اور توکل کو ایرانی قوم کی رگوں میں خون کی طرح جاری کردیا ہے کہ یہ  قوم بھی اللہ تعالی کی مدد و نصرت پر اعتقاد اور اس پر توکل کی خوگر بن گئی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مستکبرین اور ان کے وعدوں پر حضرت امام (رہ) کے مکمل عدم اعتماد اور عدم توجہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ہم نے اس موضوع کو مکمل طور پر محسوس اور مشاہدہ کیا ہے کہ کیوں مستکبرین کے وعدوں پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا  اس لئے کہ وہ خصوصی جلسات میں ایک بات کرتے ہیں اور عمومی سطح پر اس کے خلاف عمل کرتے ہیں ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اللہ تعالی کی ذات پر اعتماد اور مستکبرین پر عدم اعتماد کو حضرت امام خمینی (رہ) کے اصول کا اہم حصہ قراردیتے ہوئے فرمایا: البتہ اس موضوع کا مطلب دنیا سے رابطہ ختم کرنا نہیں تھا  کیونکہ محترمانہ اور معمول کی حد تک رابطہ موجود تھا  لیکن مستکبروں اور ان کے حامیوں پر کسی قسم کا اعتماد نہیں تھا۔

عوامی طاقت اور عزم پر اعتقاد اور حکومتی تمرکز کی مخالفت امام خمینی (رہ) کے فکری اصول کی تیسری قسم تھی جس کی طرف رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اشارہ کیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مختلف اقتصادی، فوجی، تعمیراتی ، تبلیغاتی اور سب سے بڑھ کر انتخابات کے مسائل میں ہمیشہ عوامی رائے اور طاقت پر حقیقی اعتقاد اور ان کے عوام پر متکی ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: انقلاب اسلامی کے بعد حضرت امام (رہ) کی زندگی کے 10 سال میں 10 انتخابات منعقد ہوئے جبکہ ان 10 سالوں میں آٹھ سال دفاع مقدس سے متعلق ہیں، حتی حضرت امام (رہ) نے ایک دن بھی انتخابات کو مؤخر کرنے کی اجازت نہیں دی ، انتخابات مقررہ وقت پر منعقد ہوئے  کیونکہ امام (رہ) حقیقی معنی میں عوام کی رائے ، ان کی تشخيص اور ان کی فکر کے احترام کے قائل تھے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: حتی بعض موارد میں ممکن تھا کہ عوام کا انتخاب و تشخیص ، امام (رہ) کی نظر کے ساتھ یکساں نہ ہو  لیکن امام (رہ) عوام کی رائے کے احترام کے قائل تھے۔

 

تہران کے خطیب نماز جمعہ نے ایٹمی معاملے میں ایرانی قوم کے جوہری حقوق کے تحفظ کی ضرورت پر تاکید کی ہے-

تہران کی مرکزی نماز جمعہ آیت اللہ محمد امامی کاشانی کی اقتدا میں ادا کی گئی- آیت اللہ محمد امامی کاشانی نے نمازیوں کی کثیر تعداد سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی نظام چونکہ ایک معنوی نظام ہے اس لئے یہ دوسرے تمام نظاموں پر برتری رکھتا ہے- آیت اللہ محمد امامی کاشانی نے اسلامی نظام حکومت اور دنیا کے دوسرے نظام ہائے حکومت کے درمیان پائے جانے والے فرق کو بیان کیا- انھوں نے اسلامی نظام کی اہمیت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ کے بانی امام خمینی رح کی سیرت، بہت ہی گرانقدر اہمیت کی حامل ہے- خطیب نماز جمعہ تہران نے کہا کہ ہمارے معاشرے اور جوان نسل کو امام خمینی رح کی سیرت کو اپنے لئے مشعل راہ قرار دینا چاہئے- خطیب نماز جمعہ نے اغیار کے ساتھ بانی انقلاب اسلامی امام خمینی رح کے برتاؤ نیز اسلامی دنیا، اتحاد بین المسلمین، اقتصاد، عوام کی زندگی اور دشمن کی پہچان کے بارے میں امام خمینی رح کے نظریات کی جانب اشارہ کیا اور اس سلسلے میں امام خمینی رح کی روش کو آپ کی سیرت کا حصہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ امام خمینی رح کی سیرت میں ہرگز تحریف نہیں کی جا سکتی- آیت اللہ محمد امامی کاشانی نے مزید کہا کہ امام خمینی رح کی وفات کے بعد رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای، اسلامی جمہوریہ ایران کے لئے ایک نعمت ہیں اور اسلامی نظام اور اسلامی معاشرے کے لئے ان کی ولایت بہت اہمیت کی حامل ہے- آیت اللہ محمد امامی کاشانی نے اسلامی نظام میں ولایت فقیہ کے مقام کی اہمیت پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ اس مسئلے کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے والے اسلامی نظام کے دشمن ہیں- آیت اللہ محمد امامی کاشانی نے ایران کے ایٹمی معاملے کے حل کی امید کا اظہار کرتے ہوئے ایرانی قوم کے ایٹمی حقوق کے تحفظ کے لئے ایٹمی مذاکراتی ٹیم کی ہوشیاری کی ضرورت پر تاکید کی-

 

Tuesday, 02 June 2015 10:01

سوره الزلزلة

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ


عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے


﴿1﴾ إِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَهَا
(1) جب زمین اپنی لرزش سے ہلائی جائے گی 

﴿2﴾ وَأَخْرَجَتِ الْأَرْضُ أَثْقَالَهَا

(2) اور زمین اپنا بوجھ نکال دے گی

﴿3﴾ وَقَالَ الْإِنسَانُ مَا لَهَا 

(3) اور انسان کہے گا کہ اسے کیا ہو گیا ہے؟ 

﴿4﴾ يَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَهَا
(4) اس دن وہ اپنے حالات بیان کرے گی 

﴿5﴾ بِأَنَّ رَبَّكَ أَوْحَى لَهَا
(5) کیونکہ آپ کے رب نے اسے ایسا کرنے کا حکم دیا تھا 

﴿6﴾ يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتَاتًا لِّيُرَوْا أَعْمَالَهُمْ
(6) اس دن لوگ گروہ گروہ ہو کر نکل آئیں گے تاکہ انہیں ان کے اعمال دکھائے جائیں 

﴿7﴾ فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ 
(7) پس جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہو گی وہ اسے دیکھ لے گا 

﴿8﴾ وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ
(8) اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہو گی وہ اسے دیکھ لے گا 

 

Tuesday, 02 June 2015 09:59

سوره البينة

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے


﴿1﴾ لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِينَ مُنفَكِّينَ حَتَّى تَأْتِيَهُمُ الْبَيِّنَةُ 
(1) اہل کتاب کے کفاّر اور دیگر مشرکین اپنے کفر سے الگ ہونے والے نہیں تھے جب تک کہ ان کے پاس کِھلی دلیل نہ آجاتی


﴿2﴾ رَسُولٌ مِّنَ اللَّهِ يَتْلُو صُحُفًا مُّطَهَّرَةً
(2) اللہ کی طرف کا نمائندہ جو پاکیزہ صحفیوں کی تلاوت کرے


﴿3﴾ فِيهَا كُتُبٌ قَيِّمَةٌ
(3) جن میں قیمتی اور مضبوط باتیں لکھی ہوئی ہیں


﴿4﴾ وَمَا تَفَرَّقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ إِلَّا مِن بَعْدِ مَا جَاءتْهُمُ الْبَيِّنَةُ 
(4) اور یہ اہل کتاب متفرق نہیں ہوئے مگر اس وقت جب ان کے پاس کِھلی ہوئی دلیل آگئی


﴿5﴾ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاء وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ وَذَلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ
(5) اور انہیں صرف اس بات کا حکم دیا گیا تھا کہ خدا کی عبادت کریں اور اس عبادت کو اسی کے لئے خالص رکھیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰہ ادا کریں اور یہی سچاّ اور مستحکم دین ہے


﴿6﴾ إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِينَ فِي نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا أُوْلَئِكَ هُمْ شَرُّ الْبَرِيَّةِ
(6) بے شک اہل کتاب میں جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ہے اور دیگر مشرکین سب جہنمّ میں ہمیشہ رہنے والے ہیں اور یہی بدترین خلائق ہیں


﴿7﴾ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُوْلَئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ
(7) اور بے شک جو لوگ ایمان لائے ہیں اور انہوں نے نیک اعمال کئے ہیں وہ بہترین خلائق ہیں


﴿8) جَزَاؤُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ذَلِكَ لِمَنْ خَشِيَ رَبَّهُ

(8) پروردگار کے یہاں ان کی جزائ وہ باغات ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی وہ انہی میں ہمیشہ رہنے والے ہیں خدا ان سے راضی ہے اور وہ اس سے راضی ہیں اور یہ سب اس کے لئے ہے جس کے دل میں خوف خدا ہے

 

پاکستان کے ممتاز علما نے اتحاد بین المسلمین کے سلسلے میں بانی انقلاب اسلامی امام خمینی رح کے اقدامات کو سراہا ہے-

رپورٹ کے مطابق پاکستان کے شیعہ اور سنی علما نے گلگت بلتستان میں ایک کانفرنس کے دوران کہا کہ امام خمینی رح نے اہل تشیع اور اہل سنت کے درمیان اتحاد کی ضرورت پر زور دیا اور ان کے درمیان اختلافات پیدا کرنے پر مبنی دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنا دیا- پاکستانی علما اور دانشوروں نے کہا کہ اس وقت تکفیری دہشت گرد گروہ امریکا اور صیہونی حکومت کی سرپرستی میں مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پھیلا رہے ہیں اور سعودی عرب اس سلسلے میں ان کی مدد کر رہا ہے- مقررین نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ پاکستان کی مشکلات کے حل اور دشمنوں پر غلبہ پانے کا راستہ یہ ہے کہ اسلامی انقلاب کے بانی امام خمینی رح کے فرامین کو عملی جامہ پہنایا جائے- اس رپورٹ کے مطابق اسلامی تحریک پاکستان کے سربراہ علامہ ساجد علی نقوی، مجلس وحدت المسلمین کے سیکریٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری، سنی اتحاد کونسل کے سربراہ صاحب زاده حامد رضا اور گلگت بلتستان کے امام جمعہ علامہ راحت حسین کے علاوہ پاکستان کی دوسری شیعہ اور سنی شخصیات اور علما اس کانفرنس میں شریک تھے۔

 

Sunday, 31 May 2015 10:01

سوره القدر

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ


عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے


﴿1﴾ إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ
(1) بے شک ہم نے اسے شب قدر میں نازل کیا ہے


﴿2﴾ وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ
(2) اور آپ کیا جانیں یہ شب قدر کیا چیز ہے


﴿3﴾ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ 
(3) شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے


﴿4﴾ تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِم مِّن كُلِّ أَمْرٍ
(4) اس میں ملائکہ اور روح القدس اسُن خدا کے ساتھ تمام امور کو لے کر نازل ہوتے ہیں


﴿5﴾ سَلَامٌ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ

(5) یہ رات طلوع فجر تک سلامتی ہی سلامتی ہے

 

میانمار کی حکومت نے ایک بار پھر مسلمانوں کو شہریت اور دیگربنیادی حقوق دینے سے انکار کردیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق حکومت میانمار اس ملک کے مسلمانوں کو شہریت دینے سے بدستور انکار کر رہی ہے اور ان کو بنیادی حقوق سے بھی محروم کر رکھا ہے- حکومت میانمار کی طرف سے مغربی میانمار کےمسلمانوں کو شہریت دینے سے انکار میانمار کے مسلمانوں کی غیر قانونی مہاجرت کا سب سے بڑا سبب بن گیا ہے- علاقائی اور عالمی ذرا‏ئع ابلاغ میں شائع ہونے والی رپورٹوں میں میانمار میں ہونے والی مردم شماری کے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس ملک میں آباد تیرہ لاکھ روہنگیا مسلمانوں کو مردم شماری میں شامل نہیں کیا گیا- آبادی سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے، یو این ایف پی اے، نے کہا ہے کہ میانمار کے صوبے راخین میں فرقہ وارانہ کشیدگی کے سبب دس لاکھ سے زیادہ افراد کی مردم شماری نہیں کی گئی۔ خبری ذرائع کے مطابق انتہاپسند بدھسٹوں نے دھمکی دی تھی کہ اگر روہنگیا لوگوں کو شہریت کی اجازت دی گئی تو وہ مردم شماری کا بائیکاٹ کر دیں گے- مہاجرت اور آبادی سے متعلق میانمار کی وزارت نے بھی اپنی حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ ایسے ناموں کے ساتھ اپنی شناخت کا اظہار کریں جن کو حکومت قبول نہیں کرتی- حکومت میانمار ملک کے مغرب میں رہنے والے روہنگیا مسلمانوں کو بنگلہ دیشی مہاجر قرار دیتی ہے اور ان کے شہری حقوق تسلیم نہیں کرتی- دوسری جانب تھائی لینڈ میں علاقائی ممالک کے حکام اور بعض بین الاقوامی اداروں کے ایک روزہ اجلاس میں بھی روہنگیا مسلمانوں کی ہجرت کے معاملے پر کوئی بیان جاری نہ ہوسکا- یہ اجلاس علاقے میں غیر قانونی مہاجرت کے مستقل حل کے مقصد سے منعقد ہوا تھا- اس اجلاس میں ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کے پندرہ ممالک کے علاوہ امریکا، سوئٹزرلینڈ اور اقوام متحدہ کے نمائندے شریک تھے۔ مذکورہ اجلاس میں علاقے کے اہم چیلنج میں تبدیل ہونے والے روہنگیا اور بنگلہ دیشی مہاجرین کے بحران کے حل کے طریقے تلاش کرنے کے لئے تبادلہ خیال کیا گیا- قابل ذکر ہے کہ رواں مہینے کے اوائل میں انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والوں نے ہزاروں مہاجرین کو کشتیوں میں بٹھا کر کھلے سمندر میں چھوڑ دیا تھا جن میں سے بہت سے مارے گئے ہیں۔ سمندر میں سرگرداں مہاجرین میں زیادہ تعداد میانمار کے ان مسلمانوں کی ہے جنہوں نے اپنے ملک میں امتیازی سلوک اور ظلم و تشدد کی وجہ سے اپنا گھربار چھوڑا ہے- میانمار کے مغرب میں واقع صوبہ راخین کے مسلمان دوہزار بارہ سے انتہا پسند بدھسٹوں کے حملوں اور تشدد کی وجہ سے ترک وطن پر مجبور ہوئے ہیں۔ ان بے گھر مسلمانوں میں سے بہت سے انسانی اسمگلروں کی بھینٹ چڑھ گئے اور کچھ میانمار کے ہمسایہ ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے جہاں وہ ابتر حالات میں زندگی بسر کررہے ہیں-