
Super User
مسجد جامع یزد - ايران
مسجد جامع یزد، ۹۰۰سالہ پرانی ایک تاریخی عمارت ہے۔ یہ مسجد ايران کی خوبصورت ترین مساجد اور باشکوہ ترین معماری کے نمونوں میں شمار ھوتی ہے۔ یہ مسجد ایک سو سال کی مدت میں تاریخ کے تین ادوار میں تعمیر کی گئی ہے۔
اس مسجد کی معماری کافی وسیع اور بے مثال ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک سے کافی تعداد میں سیاح اس معماری کے بے مثال شاہ کار کو دیکھنے کے لئے ایران اور صوبہ یزد آتے ہیں۔ دنیا کے بہت سے ممالک میں مسجد جامع یزد کو اس صوبہ کی علامت بلکہ ایران کی علامت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
یہ تاریخی عمارت ، ایران کی قدیمی ترین عمارتوں میں پہلی عظیم تاریخی عمارت شمار ھوتی ہے۔
یزد کی تاریخ کی کتابوں میں آیا ہےکہ:" اس مسجد کو ساسانیوں کے آتش کدہ پر تعمیر کیا گیا ہے اور اس کی سنگ بنیاد علاء الدولہ گرشاسب نے رکھی ہے۔"
قدیم مسجد کو علاء الدولہ کالنجاء کے نواسے گرشاسب کے حکم سے چھٹی صدی ہجری قمری میں، تعمیر کیا گیا ہے۔ اس مسجد کی موجودہ عمارت کو " سید رکن الدین محمد قاضی" نے تعمیر کیا ہے۔
اس عظیم مسجد کا صدر دروازہ خوبصورت اور ۲۴ میٹر بلند ہے اور یہ اس مسجد کی ایک اور بے مثال خوبی ہے۔
اس مسجد میں ایران کی معماری کے بے مثال نمونے اس کے شبستان، اور صحن کی گچ کاری اور گنبد اور میناروں کی کاشی (ٹائیل) کاری مشاہدہ کئے جاسکتے ہیں۔
اس مسجد کا خوبصورت ترین حصہ اس کے مختلف ایوان اور گنبد ہے۔
اس کے بلند ایوان کو خوبصورت ترین کاشی (ٹائیل) کاری، اور رنگارنگ نقاشی سے سجایا گیا ہے۔
اس کے اصلی ایوان کے نیچے خط کوفی میں ۱۱۰ اسمائے الہی خوبصورت اور فن کاری کے ساتھ خطاطی کئے گئے ہیں۔
نقش و نگاری والی اینٹوں اور کتبوں سے سجائی گئی اس عمارت کو دیکھنے والے دنگ رہ جاتے ہیں۔
اس مسجد کا اصلی محراب اور گنبد خانہ میں واقع محراب، معرق ٹائیلوں سے مزین کئے گئے ہیں۔ اس پر ستارہ شکل کی ٹائیلوں سے سنہ۷۷۷ کی تاریخ اور معمار کا نام لکھا گیا ہے۔
مسجد کا گنبد بڑی اور بے ستون چھت پر قرار پایا ہے اور پھر نقش و نگاری سے سجایا گیا ہے۔ اس پر بڑی خوبصورتی سے خط کوفی میں "اللہ و محمد" لکھا گیا ہے۔
مسجد کا خوبصورت گنبد دو حصوں پر مشتمل اور آپس میں ملا ھوا ہے اور اس کو زیباترین نقش و نگاری سے سجایا گیا ہے۔ اس کے ایک طرف " الملک اللہ" کی عبارت خط کوفی میں لکھی گئی ہے۔
اس مسجد کے گنبد کے نیچے ایک حصہ قرار پایا ہے، جسے "تابستانہ" کہتے ہیں۔ اس سرد خانہ کے خوبصورت پنجرے ہیں جو چھوٹی چھوٹی اینٹیوں سے بنے ہیں۔" اس تابستان" کے اندر ایک محراب ہے جس پر خوبصورت ٹائیل کاری کی گئی ہے۔
اس مسجد کے دو میناروں کی بلندی تقریبا ۵۲ میٹر ہے اور ان کا قطر تقریبا آٹھ میٹر ہے۔ یہ دو مینار صفویوں کے دور حکومت میں اضافہ کئے گئے ہیں، لیکن ۱۳۱۳ ہجری شمسی میں مہندم ھوئے اور انھیں تعمیر نو کیا گیا۔ ان میناروں کی بلندی اور ان کی آخری نوک تک کاشی( ٹائیل) کاری بے مثال ہے اور دیکھنے والوں کے لئے قابل تعجب ہے۔
ان دو میناروں میں سے ایک مسجد کے صدر دروازہ پر ہے اور اس پر چڑھنے کے لئے دو راستے ایسے ہیں کہ اگر دو آدمی، ایک اوپر سے نیچے کی طرف اور دوسرا نیچے سے اوپر کی طرف چلیں تو وہ ایک دوسرے کو نہیں دیکھ پاتے ہیں۔
مسجد کے دوگرم خانے، صحن کے مشرقی اور مغربی ضلعوں پر واقع ہیں۔ مشرقی گرم خانہ" شبستان شاردہ" کے نام سے مشہور ہے اور اس کے مستطیل شکل کے ۴۸ ستون ہیں، جن کو شش گوشہ والی فیروزہ رنگ کی ٹائیلوں سے سجایا گیا ہے ۔ مغربی ضلع پر واقع گرم خانہ میں چند شاہ نشین ہیں جن پر روشن دان لگے ھوئے ہیں۔ اس شبستان میں محراب شکل کے طاق بنائے ھوئے ہیں۔ ان کے مرکزی حصہ میں آٹھ ضلعوں والے پتھروں کے بنے ھوئے روشن دان بنائے گئے ہیں۔
گرم خانہ کا محراب خوبصورت نقش و نگاری سے سجایا گیا ہے۔ مشرقی ضلع کا گرم خانہ مکمل طور پر بنا ہے۔ اس گرم خانہ میں بھی ستون لگے ھوئے ہیں جن کو سات رنگوں والی ٹائیلوں سے سجایا گیا ہے۔
مسجد جامع یزد کو سنہ ۱۳۱۳ہجری شمسی میں وزارت ثقافت و ہنر کی طرف سے قومی آثار کی فہرست میں درج کیا گیا ہے۔
مسجد جامع یزد کو رات کی اندھیری میں دیکھا جانے والا خوبصورت منظر۔
حزب اللہ لبنان کی امن و استحکام پر تاکید
حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصراللہ نے لبنان میں امن واستحکام اور سیکورٹی کو مضبوط بنانے پرتاکید کی ہے۔
ارنا کی رپورٹ کے مطابق سید حسن نصراللہ نے جمعہ کو بیروت میں حزب اللہ کی مرکزی کونسل کے رکن شیخ مصطفی قصیرعاملی کی یاد میں منعقدہ ایک پروگرام میں کہا کہ ملت لبنان امن واستحکام اور سیکورٹی کو مضبوط بنانے پر اصرار کرتی ہے اور اس کی پابند ہے۔
حزب اللہ لبنان کے سربراہ نے لبنان کے نئے صدر کے انتخاب کے لئے لبنانی گروہوں کی کوششوں پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ لبنانیوں کو لبنان کے مسائل کے حل کے لئے بعض بیرونی فریقوں کے معاہدے کا انتظار نہيں کرنا چاہئے۔
سید حسن نصراللہ نے لبنان میں چیلنجوں اور سیاسی اختلافات کے حل پرتاکیدکرتے ہوۓ کہا کہ قبائلی اختلافات کو ترک کرنا ہی لبنان میں امن وثبات کی بحالی کاواحد راستہ ہے۔
حزب اللہ لبنان کے سربراہ نے شام کے حالات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ حزب اللہ شام میں موجود ہے تاکہ علاقے کےخلاف کی گئی سازش کا مقابلہ کرے اور اسے ناکام بنائے۔
حزب اللہ لبنان کے سربراہ نے کہا کہ حزب اللہ دشمنوں کے مقابلے میں سرحدوں پر بھی ڈٹی ہوئی ہے۔
سیدحسن نصراللہ نے شام میں شاندار انتخابات کے انعقاد کو شامی حکومت اور قوم کے لئے ایک بڑی کامیابی سے تعبیر کیا اور کہا کہ شام کے خلاف مغرب کی دھمکیاں ناکام ہوچکی ہیں۔
حزب اللہ لبنان کے سربراہ سیدحسن نصراللہ نے اپنے بیانات میں اللہ کی راہ میں شیخ مصطفی القصیر کے جہاد اور قربانیوں کاذکرکرتے ہوئے کہا کہ مصطفی القصیر جیسےافراد کو نسلوں اور اولادوں کے لئے نمونہ عمل بناناچاہئے جس طرح ہم اپنے رہنماؤں اور شہیدکمانڈروں کو نمونہ عمل بناتے ہیں۔
واضح رہے کہ حزب اللہ لبنان کی مرکزی کونسل کے رکن شیخ مصطفی القصیرگذشتہ ہفتے طویل علالت کے بعد دارفانی سے رخصت ہوگئے۔
امریکہ، حکومت و ملت پاکستان کا اصلی دشمن
سنی تحریک پاکستان کے سربراہ نے حکومت پاکستان کو امریکہ کی سازشوں کی بابت خبردار کیا ہے۔ موصولہ اطلاعات کے مطابق ثروت اعجاز قادری نے آج کہا کہ امریکہ پاکستان کا دوست تھا نہ کبھی رہا ہے بلکہ اس نے ملت و حکومت پاکستان کے لئے ہمیشہ سے مشکلات کھڑی کرنے کی کوششیں کی ہیں اور سازشیں رچتا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان اسی وقت اپنے عوام کو تحفظ و استحکام عطا کرسکتی ہے جب وہ بیرونی ملکوں کو پاکستاں میں مداخلت کی اجازت نہ دے اور خود اپنی داخلی اور خارجی پالیسیاں وضع کرے۔ اعجاز قادری نے کہا کہ امریکہ نے ہمیشہ پاکستان کے ساتھ دوستی اور امداد کے دعوے کرکے اس کے ساتھ دشمنی کی ہے۔
اسلامی انقلاب کی کامیابی امام خمینی کی ہوشیاری کا نتیجہ
تہران کی مرکزی نماز جمعہ آیت اللہ موحدی کرمانی کی امامت میں ادا کی گئي۔ خطیب جمعہ تہران نے لاکھوں نمازیوں سے خطاب میں کہا کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی امام خمینی قدس سرہ کی ہوشیاری کا نتیجہ تھی۔
آیت اللہ موحدی کرمانی نے حضرت امام خمینی کی ہوشیاری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے عوام کی صحیح ہدایت کرکے شاہی حکومت کو جو امریکہ کی پٹھو تھی سرنگوں کردیا۔ خطیب جمعہ تہران نے انقلاب اور اسلامی جمہوریہ ایران کو آگے بڑھانے میں رہبرانقلاب اسلامی کی مدبرانہ، دلیرانہ اور آگاہانہ رہبری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ توفیق الھی ہے کہ امام خمینی کے بعد آپ اس انقلاب کے پرچمدار بنے ہیں۔ آیت اللہ موحدی کرمانی نے ظالم شاہی حکومت کے زمانے میں پندرہ خرداد کے قیام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ملت ایران نے اس دن واضح کردیا تھا کہ وہ ولی فقیہ کی تابع اور اسی کی فرمانبردار ہے۔ انہوں نے ایران اور پانچ جمع ایک کے ایٹمی مذاکرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان مذاکرات میں ملت ایران کی سربلندی جو اسے اسلام نے عطا کی ہے اور حقوق کی حفاظت ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ رہبرانقلاب اسلامی کے بقول مغرب سے کسی طرح کی امیدیں وابستہ نہيں ہونی چاہیں اور اقتصادی مسائل کو حل کرنے کے لئے داخلی توانائیوں سے استفادہ کیا جائے اور ترقی کا سفر جاری رکھنے کے لئے جوان سائنس دانوں سے کام لیا جائے۔ انہوں نے عراق کے شہر سامرا پر تکفیری گروہ داعش کے حملوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دشمن ملت عراق کو نقصان پہنچانے کے درپئے ہے لہذا ملت عراق اور حکومت کو ہوشیار رہنا چاہیے۔ آيت اللہ موحدی کرمانی نے شام میں صدارتی انتخابات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ شام کے عوام نے صدارتی انتخابات میں بھرپور شرکت کرکے سب پر واضح کردیا کہ وہ سازشوں، دہشتگردوں اور ان کے جرائم کا مقابلہ کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ شام کے انتخابات سے امریکہ اور اس کے اتحادی مایوس ہوگئے ہیں اور اب امریکیوں کی سمجھ میں آگيا ہے کہ وہ فریب دے کر شام پر مسلط نہیں ہوسکتے۔
حضرت امام خمینی(رح) عالم اسلام کے رہنما
مولوی محمد مختار مفلح
مولوی محمد مختار مفلح نے کہا کہ امام خمینی (رح) دنیا کے لئے مکمل نمونہ عمل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عالم اسلام کو امام خمینی(رح) کے افکار و نظریات کے سمجھنے کی ضرورت ہے اور یہ اس کی بڑی ذمہ داری ہے۔ مولوی مفلح نے افغان عوام کے جہاد کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ امام خمینی(رح) ملت افغانستان کے حامی تھے۔ انہوں نے امام خمینی کی راہ و روش کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ آپ ایک شجاع، مدبر، سیاست دان اور آگاہ انسان تھے اور آپ کی بے مثال شخصیت نے آپ کو آفاقی رہنما بنادیا ہے۔
حجۃ الاسلام محمد محمدی گلپائیگاني
حجۃ الاسلام والمسلمین محمد محمدی گلپائیگانی نے ایران کے صوبہ مرکزی کے شہر خمین میں ارنا کے نامہ نگار کے ساتھ گفتگو میں تاکید کی کہ حضرت امام خمینی (رح) اور آپ کا خاندان اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام کا عظیم اثاثہ ہے۔ رھبر انقلاب اسلامی کے دفتر کے سربراہ نے خمین شہر میں چشمہ آفتاب کے عنوان سے بین الاقوامی سمینار کے انعقاد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس عظیم الشان سمینار کا انعقاد، حضرت امام خمینی (رح) کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کا بہترین موقع ثابت ہوگا۔ حجۃ الاسلام المسلمین محمد محمدی گلپائیگانی نے خمین شہر کے عوام کو رھبر انقلاب اسلامی کا سلام اور پیغام پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے لئے باعث مسرت ہے کہ بانی انقلاب اسلامی کے آبائی شہر میں بین الاقوامی سیمینار چشمہ آفتاب کا انعقاد کیا گیا ہے۔
لبنانی علماء سیرت امام خمینی کے پیرو
لبنان کے اہل سنّت عالم دین نے کہا ہے کہ حضرت امام خمینی (رح) اس زمانے میں اسلام کا ایک ستون تھے اور صہیونی حکومت اور عالمی سامراج کے خلاف مقابلے میں آپ کے سیاسی مواقف تاریخ اسلام میں ہمیشہ روشن رہیں گے۔ ارنا کی رپورٹ کے مطابق جنوبی لبنان میں صیدا شہر کی القدس مسجد کے خطیب نماز جمعہ شیخ ماہر حمود نے لبنان کے عوام اور خاصطور پر علماء کے لئے حضرت امام خمینی(رح) کے رہنما ارشادات اور میراث کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ لبنان کے علماء کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ وہ حضرت امام خمینی(رح) کی سیرت اور راہ پر باقی رہیں، کیونکہ اسلامی اور عرب امّہ خاص طور پر فلسطین کا مستقبل آپ کی راہ پر چل کر ہی محفوظ رہ سکتا ہے۔ شیخ ماہر حمود نے مزید کہا کہ اس زمانے میں جب بائيں بازو کے سلسلے اسلام پسندوں سے زیادہ متحرک اور اثر و رسوخ رکھتے تھے، ایران میں امام خمینی(رح) کی قیادت میں اسلامی انقلاب کے ساتھ ہی، اسلام کی نشرو اشاعت کے کام کا آغاز ہوگیا اور بہت سے شکوک و شبھات دم توڑ گئے۔
امام خمینی رح ایک مرد عارف
حضرت امام خمینی رح کے بارے میں عام طور پر جو بات ہمارے ہاں زیادہ مشہور ہے وہ یہ کہ آپ نے ایک ملوکیت اور بادشاہت کا خاتمہ کرکے ایک اسلامی اور مذہبی حکومت قائم کی۔ لوگ یہ بھی جانتے ہیں کہ آپ استعماری طاقتوں کے خلاف تھے اور استعماری طاقتوں نے آپ کی حکومت کے خاتمے کے لیے اپنے پورے وسائل بروئے کار لائے لیکن وہ اس میں ناکام ہو گئیں۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ امام خمینی رح بہت شجاع اور بہادر تھے۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ آپ نے ناجائز طور پر قائم صہیونی حکومت کے خاتمے اور فلسطینیوں کے حقوق کے حصول کے لیے بھی آواز بلند کی۔ آپ مستضعفوں اور محروموں کے حقوق کے بھی علمبردار تھے۔ آپ نے اتحاد امت کے لیے ایک زور دار آواز بلند کی۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ آپ ایک عالم اور فقیہ تھے اور آپ کی تقلید کی جاتی تھی۔ بعدازاں آپ کا دیوان بھی چھپا اور پاکستان میں بھی بہت سے لوگوں کو معلوم ہوا کہ آپ صاحب دیوان شاعر بھی تھے، لیکن ابھی تک جو پہلو کم شناختہ یا ناشناختہ ہے وہ یہ ہے کہ آپ ایک بلند پایہ عارف تھے اور شاید یہ کہنا زیادہ بہتر ہو کہ آپ کے وجود سے پھوٹنے والی تمام تر خوبیوں کا سرچشمہ یہی امر ہے کہ آپ ایک عارف باللہ اور عاشق الٰہی تھے اور اس سلسلے میں نظری اور عملی طور پر نہایت عمق اور گہرائی کے مقام پر فائز تھے۔
ہم مثال کے طور پر عرض کریں گے کہ امام خمینی رح جو نہایت شجاع تھے اور موت سے ہرگز نہ ڈرتے تھے، اس کی وجہ یہی تھی کہ وہ اپنے پروردگار پر عارفانہ ایمان رکھتے تھے۔ اس امر کو عصر حاضر کے ایک اور عارف آیت اللہ جوادی آملی جو امام خمینی رح کے شاگردوں میں سے ہیں، یوں بیان کرتے ہیں:
امام خمینی رح کی ایک واضح خصوصیت یہ تھی کہ آپ موت سے نہ ڈرتے تھے کیونکہ آپ ارادی موت کا تجربہ کرچکے تھے۔ جب کوئی شخص ارادی موت کا تجربہ کرچکا ہو اور اسے موت کا خوف نہ ہو اور موت سے اس کی کوئی چیز ضائع نہ ہوتی ہو تو پھر دیگر مسائل اس کے لیے حل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ 15خرداد (5جون ء1963) کے واقعے کے بعد اپنی جلاوطنی کے بارے میں فرماتے تھے:
یہ لوگ (حکمران) ڈرتے تھے، میں نہ ڈرتا تھا۔
یونہی 25 شوال کے واقعے میں جب پہلوی حکومت کے کارندوں نے بعض طلاب کو شہید کر دیا تو بہت سے علماء ڈر گئے، وہ کہتے تھے کہ یہ تقیہ کا وقت ہے، وہ خاموش ہوگئےو جب کہ امام نے اگلے روز حکومت سے خطاب کرتے ہوئے ایک اعلامیہ جاری کیا جس میں یہ عبارت تھی:
تمھارے ظلم نے منگولوں کا چہرہ بھی سفید کر دیا۔
جب انسان اپنی ذاتی آرزوؤں کو مار لیتا ہے اور اپنی خواہشوں کی بنیاد پر حرکت نہیں کرتا۔ اپنی ہوس کے لیے حرکت نہیں کرتا، اپنی آرزو کے لیے متحرک نہیں ہوتا بلکہ متحرک بالولایۃ ہوتا ہے تو وہ موت سے ہرگز نہیں ڈرتا۔ جب موت سے ڈر نہ ہو تو پھر ایسا ہوتا ہے جیسے امام خمینی رح تھے۔ دوسروں کو اپنی ذمے داری ادا کرنے سے جو چیز روک دیتی تھی وہ یہی موت سے خوف تھا۔ انہی دنوں میں جب امام ظلم کے خلاف سینہ سپر تھے و میں ایک مرجع کی خدمت میں حاضر ہوا کہ جو میرے اساتذہ میں سے تھے، میں نے دیکھا کہ انھوں نے علامہ مجلسی مرحوم کی (حدیث کی کتاب) بحار کھول رکھی ہے اور تقیہ کے موضوع کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ اگرچہ ممکن تھا کہ وہ جہاد، معرکے اور ایثار کے موضوع پر بات کرتے لیکن وہ جہاد کا ذکر کرتے ہوئے بھی تقیہ کے بارے میں سوچ رہے تھے و لیکن امام جہاد کی بات کرتے تھے تو جہاد کے بارے میں ہی سوچتے تھے۔ ان کا دل جہاد کے لیے بے قرار تھا۔ ان میں یہ خصوصیت تھی ان میں یہ ہنر تھا۔۔۔ امام معارف اسلامی کے ایک پہلو سے یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْب میں سے نہ تھے و بلکہ یومنون بالشھادۃ میں سے تھے۔ ہم عام طور پر مومنین بالغیب میں سے ہوتے ہیں۔۔۔ یہ جو قرآن نے فرمایا ہے یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْب یہ کم سے کم صورت کا بیان نہ کہ یہ معیار کمال ہے۔ یعنی قرآن یہ کہنا چاہتا ہے کہ اس سے پیچھے نہ رہناو وگرنہ یہ جو (امیرالمومنین حضرت علی "ع" نے) فرمایا ہے ’’لو کشف الغطا ما ازددت یقینا‘‘ یعنی اگر پردے ہٹا دیئے جائیں تو میرے یقین میں اضافہ نہیں ہوگا، یہ ایمان بالشہادۃ کا بیان ہے۔
*******
بہت سے اہل نظر کی یہ رائے ہے کہ امام خمینی رح خود محی الدین اور محی العرفان تھے۔ انھوں نے دلدادگی اور دلبری کے رموز مکتب قرآن اور اہل بیت علیہم السلام کے غیبی خزانوں سے حاصل کئے تھے۔ اس سلسلے میں ان کی کتاب سرالصلوٰۃ قابل مطالعہ ہے۔ انھوں نے اپنی ایک اور کتاب مصباح الھدایۃ میں شریعت، طریقت اور حقیقت کا باہمی تعلق ایک مرتبہ پھر واضح طور پر بیان کیا۔ بہت سے افراد کے نزدیک عرفان اور اس کے حقائق ناقابل تعلیم، ناقابل ترویج اور ناقابل انتقال ہیں، لیکن امام خمینی رح کی عرفانی خصوصیات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ نے عرفان کی ترویج کی اور اپنے خاص اسلوب سے یہ بات ثابت کی کہ عرفان اسلام کی ایک خاص شناخت کا نام نہیں بلکہ یہ قرآن کے حقائق اور انبیاء و اولیاء کا مقصود اعلٰی ہے۔ آپ اپنے عام خطابات میں بھی عرفانی مطالب کو نہایت عمدگی اور سادگی سے بیان کر دیتے تھے اور عرفانی حالت عام طور پر آپ کے وجود پر طاری ہوتی تھی۔ امام کی عرفانی خصوصیات میں سے یہ بھی ہے کہ آپ کا اس امر پر اصرار تھا اور آپ نے بارہا اس کی تصریح کی کہ روش عرفانی عقل صریح اور برہان فصیح کے مخالف نہیں ہے۔ ان امور کو آپ نے تقریر و تحریر میں واضح کیا ہے۔
امام خمینی رح نے شریعت اور طریقت و حقیقت کے باہمی تعلق کو نہایت عمدگی سے بیان فرمایا ہے۔ آپ نے فصوص الحکم کی شرح بھی لکھی ہے۔ فص ایوبی میں آیۃ شریفہ ’’ وَ لَوْ اَنَّھُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰۃَ وَ الْاِنْجِیْلَ‘‘ کے ذیل میں فرماتے ہیں: کہ مراد یہ ہے کہ اگر وہ شریعت کے پیروکار ہوں، تورات و انجیل و دیگر کتب الٰہی پر عمل کریں تو ان کے لیے طریقت اور علم حقیقت کا حصول ممکن ہوجائے گا۔ یہ امر اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ طریقت و حقیقت کا مقام شریعت کے بغیر ہاتھ نہیں آتا۔ خود آپ نے اپنے الفاظ میں اس کی وضاحت یوں کی ہے:
وان الظاھر طریق الباطن، بل یفھم منہ ان الظاھر غیر منفک عن الباطن۔۔۔ومن اراد ان یصل الی الباطن من غیر طریق الظاھر۔ کبعض عوام الصوفیۃ۔ فھو علی غیر بینۃ من ربہ۔
یقیناً ظاہر باطن تک پہنچنے کا راستہ ہے بلکہ اس سے یہ سمجھ آتا ہے کہ ظاہر کو باطن سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔۔۔اور جو ظاہر کے راستے کے بغیر باطن تک پہنچنا چاہیں جیسا کہ بعض عام صوفیہ، تو اس کے پاس اپنے رب کی طرف سے کوئی دلیل نہیں۔
امام خمینی رح نے اپنی تقریروں میں دعاؤں اور مناجات کی تلاوت پر جتنا زور دیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ آپ نے اہل بیت رسالت سے منقول بعض دعاؤں کا بار بار ذکر کیا۔ آپ نے مناجات شعبانیہ، دعائے عرفہ اور دعائے کمیل کی تلاوت پر بہت زور دیا۔ آپ آئمہ اہل بیت کی ان دعاؤں کو ’’قرآن صاعد‘‘ کا نام دیتے تھے۔ آپ کی برکت سے دنیا کے بہت سے ممالک میں اجتماعی اور انفرادی طور پر مناجات کی تلاوت کا رواج پیدا ہوا۔ یہ سب بھی امام خمینی رح کے مقام عرفانی ہی کا ترشح تھا۔ بلند ترین سیاسی مقام پر ہونے کے باوجود آپ کی سادہ زیستی، آپ کا چھوٹا سا گھر، پاؤں میں معمولی سا چپل، چھوٹے سے کمرے میں جہاں ایک سادہ سا صوفہ پڑا ہوتا تھا، میں دنیا بھر سے آنے والے حکمرانوں سے ملاقات اور آپ کی نشست کے اوپر آویزاں کتبہ جس پر یہ آیت لکھی ہوتی تھی’’ کَلِمَۃُ اللّٰہِ ھِیَ الْعُلْیَا‘‘ آپ کے عشق الٰہی اور مسلک عرفان ہی کا غماز تھا۔
آپ کا دیوان اور آپ کی شاعری عشق الٰہی کے زمزموں اور نغموں سے معمور ہے۔ اس کے مطالعے سے یوں لگتا ہے کہ ایک عاشق دل باختہ ہمہ وقت اپنے محبوب سے باتیں کر رہا ہے اور اس کے وصال کے لیے بے قرار ہے، اس کی ہر ادا میں اسے حسن ہی حسن نظر آتا ہے۔ امام خمینی رح کے چند شعر ملاحظہ فرمائیں:
عاشقم عاشقم مریض تو ام
زین مرض من شفا نمیخواہم
از تو جانا جفا وفا باشد
پس دگر من وفا نمیخواہم
میں عاشق ہوں، میں عاشق ہوں اور میں تیرا مریض ہوں، میں اس مرض سے شفا کا طلبگار نہیں۔ اے محبوب تری تو جفا بھی میرے لیے وفا ہے۔ لہٰذا میں تجھ سے وفا طلب نہیں کرتا۔
جوں جوں آپ کی رحلت کا وقت قریب آتا چلا جاتا تھا، آپ کی شاعری میں ایک خاص کیفیت پیدا ہوتی چلی جاتی تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے بہار آنے کو ہے اور ایک عاشق بے قرار کی اپنے محبوب سے ملاقات اور مرحلہ وصال نزدیک آچکا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں:
بہار آمد جوانی را پس از پیری زسر گیرم
کنار یار بنشینم زعمر خود ثمر گیرم
بگلشن باز گردم با گل و گلبن در آمیزم
بطرف بوستان دلدار مہوش راببرگیرم
بہار آگئی ہے، پیری کے بعد مجھے پھر سے جوانی ملا چاہتی ہے، محبوب کے پہلو میں بیٹھوں گا اور عمر بھر کا ثمر اب حاصل کروں گا۔ گلشن کی طرف لوٹ جاؤں گا اور پھول بوٹوں سے ملاقات کروں گا۔ باغ کی طرف لوٹ جاؤں گا اور چاند جیسے دلدار کے ساتھ جا ملوں گا۔
ایک اور غزل کے دو شعر
آید آن روز کہ خاک سر کویش باشم
ترک جان کردہ و آشفتہ رویش باشم
ساغر روح فزا از کف لطفش گیرم
غافل از ہر دو جہان بستۂ مویش باشم
وہ دن آئے کہ میں تیرے کوچے کی خاک بن جاؤں، اپنی جان دے دوں اور تیرے چہرے کا دیوانہ بن جاؤں، تیرے لطف کے ہاتھ سے روح فزا ساغر لوں اور دونوں جہان سے غافل تیری زلف کا اسیر بن جاؤں۔
جنھیں امام خمینی کے عرفان، مقام عرفانی اور مسلک عرفانی سے سروکار ہو، وہ کم ازکم امام خمینی کے ان عرفانی مکتوبات کا مطالعہ ضرور کریں، جن کا اردو میں ترجمہ دستیاب ہے۔ اس حدیث عشق کے کہنے کے لیے بہت کچھ ہے، لیکن یہ کہنے سے زیادہ کسی اور چیز کی متقاضی ہے۔
تحریر: ثاقب اکبر
بشکریہ اسلام ٹائمز
ولادت امام زین العابدین (ع)
نام و نسب
اسم گرامی : علی ابن الحسین (ع)
لقب : زین العابدین
کنیت : ابو محمد
والد کا نام : حسین (ع)
والدہ کانام : شہربانو یا شاہ زناں
تاریخ ولادت : ۵ / شعبان دوسری روایت کے مطابق ۷/ شعبان ۳۸ھـ
جائے ولادت : مدینہ منورہ
مدت امامت : ۳۵/ سال
عمر : ۵۷/ سال
حضرت علی بن ابی طالب علیہ السّلام کوفہ میں مسند خلافت پر متمکن تھے جب۱۵جمادی الثانی ۳۸ھـ میں سید سجاد علیہ السّلام کی ولادت ہوئی۔
امام زین العابدین علیہ السّلام اپنے چچا حضرت امام حسن علیہ السّلام اور والد امام حسین علیہ السّلام کی تربیت کے سائے میں پروان چڑھے۔
بارہ برس کے تھے جب امام حسن علیہ السّلام کی شہادت ہوئی۔ اب امامت کی ذمہ داریاں آپ کے والد حضرت امام حسین علیہ السّلام سنبھال چکے تھے۔ شام کی حکومت پر بنی امیہ کا قبضہ تھا اور واقعات کربلا کے اسباب حسینی جہاد کی منزل کو قریب سے قریب ترلارہے تھے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب حضرت زین العابدین علیہ السّلام بلوغ کی منزلوں پر پہنچ کر حدود شباب میں قدم رکھ رہےتھے۔
اسی زمانہ میں جب کہ امام حسین علیہ السّلام مدینہ میں خاموشی کی زندگی بسر کررہے تھے حضرت نے اپنے فرزند سید سجاد علیہ السّلام کی شادی اپنی بھتیجی ـ حضرت امام حسن علیہ السّلام کی صاحبزادی ـ کے ساتھ کردی جن کے بطن سے امام محمدباقر علیہ السّلام کی ولادت ہوئی اور اس طرح امام حسین علیہ السّلام نے اپنے بعد کے لئے سلسلۂ امامت کے باقی رہنے کا ساماںّ خود اپنی زندگی میں فراہم کردیا۔
۶۰ھ میں سید سجاد علیہ السّلام ۲۲ سال کے تھے جب حضرت امام حسین علیہ السّلام کو عراق کا سفر درپیش ہوا اور سید سجاد علیہ السّلام بھی ساتھ تھے۔
یہ نہیں کہا جاسکتا کہ راستے ہی میں یا کربلا پہنچنے کے بعد کہاں بیمار ہوئے اور دس محرم ۶۱ھ کوامام حسین علیہ السّلام کی شہادت کے موقع پر اس قدر بیمار تھے کہ اٹھنا بیٹھنا مشکل تھا اور یقین ہے کہ ساتویں سے پانی بند ہونے کے بعد پھر سید سجاد علیہ السّلام کے لئے بھی پانی کاایک قطرہ ملنا ناممکن ہوگیاتھا۔
ایک ایسے بیمار کے لئے یہ تکلیف برداشت سے باہر تھی۔ عاشور کے دن کے اکثر حصے میں آپ غشی کے عالم میں رہے اسی لئے کربلا کے جہاد میں اس طرح شریک نہ ہوسکے جس طرح ان کے بھائی شریک ہوئے۔ قدرت کو سیّد سجاد کاامتحان دوسری طرح لینا تھا۔ وہ حسین علیہ السّلام کے بعد لٹے ہوئے قیدیوں کے قافلہ کے سالار بننے والے تھے۔ادھر امام حسین علیہ السّلام شہید ہوئے ادھر ظالم دشمنوں نے خیام اہلیبیت کی طرف رخ کردیا اور لوٹنا شروع کردیا۔ اس وقت کااہل حرم کااضطراب، خیام میں تہلکہ اور پھران ہی خیموں میں آگ کے بھڑکتے ہوئے شعلے! اس وقت سیّد سجاد علیہ السّلام کاکیا عالم تھا ، اس کے اظہار کے لئے کسی زبان یاقلم کو الفاظ ملنا غیر ممکن ہیں مگر کیا کہنا زین العابدین علیہ السّلام کی عبادت کا،کہ انھوں نے اس بیماری، اس مصیبت اور اس آفت میں بھی عبادت کی شان میں فرق نہ آنے دیا۔آپ نے گیارھویں محرم کی شب کو نماز فریضہ کے بعد سجدۂ معبود میں خاک پر سررکھ دیا اور پوری رات سجدۂشکر میں گزار دی۔ سجدہ میں یہ کلمات زبان پر تھے:لاالٰہ الاَّ اللهُ حقّاًحقاً لاَالٰهَ الا اللہ ایماناً وَّصِدقًالاالھٰ الاّ الله تعبدًاورقاً(یعنی کوئی معبود نہیں سوائے الله کے جو حق ہے یقیناً حق ہے , کوئی معبود نہیں سوائے ایک الله کے۔ایمان اور سچائی کی روسے کوئی معبود نہیں سوائے ایک الله کے۔ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں ہے،میں اسکی گواہی دیتا ہوں بندگی اور نیاز مندی کے ساتھ۔
گیارہ محرم کو فوج دشمن کے سالار ابن سعد نے ا پنے کشتوں کوجمع کیااور ان پر نماز پڑھ کر دفن کیا مگر حسین علیہ السّلام اور ان کے ساتھیوں کی لاشوں کواسی طرح بے گوروکفن زمین گرمِ کربلا پر دھوپ میں چھوڑدیا , یہ موقع سید سجاد علیہ السّلام کے لئے انتہائی تکلیف کا تھا، وہ اس مقتل سے گزر رہے تھے تو یہ حالت تھی کہ قریب تھا کہ روح جسم سے جدا ہوجائے۔ انہیں اس کا صدمہ تھا کہ وہ اپنے باپ اور دوسرے عزیزوں کو دفن نہ کرسکے وہ تو دشمنوں کے اسیر تھے اور کربلا سے کوفہ لے جائے جارہےتھے۔ پھر کتنا دل کو بے چین کرنے والا تھا وہ منظر جب خاندانِ رسول کالُٹا ہوا قافلہ دربار ابنِ زیاد میں پہنچا۔ سید سجاد علیہ السّلام محسوس کررہے تھے کہ یہ وہی کوفہ ہے جہاں ایک وقت علی ابن ابی طالب علیہ السّلام حاکم تھے اور زینب وامِ کلثوم شاہزادیاں۔ آج اسی کوفہ میں ظالم ابن زیاد تختِ حکومت پر بیٹھا ہے اور رسول کاخاندان مقیّد کھڑا ہے۔ سید سجاد علیہ السّلام ایک بلند انسان کی طرح انتہائی صدمہ اور تکلیف کے باوجود بھی ایک کوهِ وقار بنے ہوئے خاموش کھڑے تھے۔ ابن زیاد نے اس خاموشی کو توڑا یہ پوچھ کر کہ تمہارا نام کیا ہے ? امام علیہ السّلام نے جواب دیاکہ علی بن الحسین۔,, وہ کہنے لگا:کیا الله نے علی ابن الحسین کو قتل نہیں کیا؟(1),, امام نے جواب دیا۔»وہ میرے ایک بھائی علی تھے جنہیں لوگوں نے قتل کردیا۔,, وہ سرکش جاہل کہنے لگا۔''نہیں! بلکہ الله نے قتل کیا"
امام نے یہ آیت پڑھی کہ "اَللهُ يَتَوَفیّ الانفُسَ حِینَ مَوتِھَا" یعنی الله ہی موت کے وقت قبضِ روح کرتا ہے اور الله کاقبض روح کرنا یہ الگ بات ہے جو سب کے لئے ہے۔اس پر ابن زیاد کو غصہ آگیا اور کہا۔ تم میں اب بھی مجھ کو جواب دینے اور میری بات رد کرنے کی جراَت ہے اور فوراً قتل کا حکم دیا۔ یہ سننا تھا کہ حضرت زینب دوڑ کر اپنے بھتیجے سے لپٹ گئیں اور کہا کہ مجھ کو بھی اس کے ساتھ قتل کیاجائے۔ سیّد سجاد علیہ السّلام نے کہا کہ پھوپھی رہنے دیجئے اور مجھے ابن زیاد کا جواب دینے دیجئے۔ ابن زیاد تو یہ سمجھا تھا کہ کربلا میں ال محمد کے بہتے ہوئے خون کودیکھ کرسیّد سجاد علیہ السّلام کے دل میں موت کاڈر سما گیا ہوگا اور وہ قتل کی دھمکی سے سہم جائیں گے مگر بہادر حسین علیہ السّلام کے بہادر فرزند نے تیور بدل کر کہاکہ ابن زیاد تو مجھے موت سے ڈراتا ہے؟ کیا ابھی تک تجھے نہیں معلوم کہ قتل ہونا ہماری عادت ہے اور شہادت ہمای فضیلت ہے۔ یہ وہ پر زور الفاظ تھے جنہوں نے ظالم کے سر کو جھکادیا , حکم قتل ختم ہوگیا او رثابت ہوگیا کہ حسین علیہ السّلام کی شہادت سے ان کی اولاد و اہل حرم پر کوئی خوف نہیںچھایا بلکہ قاتل اس خاندان کے صبر واستقلال کو دیکھ کر خوفزدہ ہوچکے ہیں۔ کوفہ کے بعد یہ قافلہ دمشق کی طرف روانہ ہوا جس دن دمشق میں داخلہ تھا اس دن وہاں کے بازارخاص اہتمام سے سجائے گئے تھے ، تمام شہر میں ائینہ بندی کی گئی تھی اور لوگ آپس میں عید مل رہے تھے۔ اس وقت حسین علیہ السّلام کے اہل حرم جو تکلیف محسوس کررہے تھے اس کا کون اندازہ کرسکتا ہے , ایسے وقت انسان کے ہوش وحواس بجانہیںرہتے مگر وہ سید سجاد علیہ السّلام تھے جو ہر موقع پر ہدایت واصلاح او رحسینی مشن کی تبلیغ کرتے جاتے تھے , جس وقت یہ قافلہ بازارسے گزر رہا تھا اموی حکومت کے ایک ہوا خواہ نے حضرت سجاد سے طنزیہ پوچھا۔ اے فرزندِ حسین کس کی فتح ہوئی؟ آپ نے جواب میں فرمایا۔ تم کو اگر معلوم کرنا ہے کہ کس کی فتح ہوئی تو جب نماز کا وقت آئے اور اذان و اقامت کہی جائے اس وقت سمجھ لینا کہ کس کی فتح ہوئی۔ ا سی طرح اس وقت جب یہ قافلہ مسجدِ دمش کے دروازے پر پہنچا تو ایک بوڑھا سامنے آیا اور اس نے قیدیوں کودیکھ کر کہا کہ شکر ہے اس خدا کا جس نے تم کو تباہ وبرباد کیااو رملک کو تمہارے مردوں سے خالی اور پر امن بنایا۔ اور خلیفہ وقت یزید کا تم پر غلبہ فرمایا۔ ان اسیروں کے قافلہ سالار حضرت سجاد علیہ السّلام سمجھ گئے کہ یہ ہم لوگوں سے واقف نہیں۔» فرمایا کہ اے شیخ کیا تم نے یہ آیت قرآن پڑھی ہے"قل لااسئلکم علیہ اجرالاالمودةفی القربیٰ "کہہ دو اے رسول! کہ میں سوائے اپنے اہلبیت کی محبت کے تم سے اس تبلیغ رسالت پر کوئی معاوضہ نہیں مانگتا۔ بوڑھے نے کہا ہاں یہ آیت میں نے پڑھی ہے , فرمایا وہ رسول کے اہل بیت ہم ہی ہیں جن کی محبت تم پر فرض ہے۔ یوں ہی خمس والی آیت میں جو ذوی القربیٰ کالفظ ہے اور آیہ تطہیر میں اہلبیت کالفظ ہے یہ سب آپ نے اس کو یاد دلایا۔ بوڑھا یہ سن کر تھوڑی دیر حیرت سے خاموش رہا پھر کہا کہ خد اکی قسم تم لوگ وہی ہو ؟ سیّد سجاد علیہ السّلام نے فرمایا۔ ہاں قسم بخدا ہم وہی اہلبیت اور قرابتداررسول ہیں۔ یہ سُن کر بوڑھا شیخ رونے لگا۔ عمامہ سر سے پھینک دیا۔ سر آسمان کی طرف بلند کیا اور کہا۔خداونداگواہ رہنا کہ میں آل محمدکے ہر دشمن سے بیزار ہوں۔ پھر امام علیہ السّلام سے عرض کیا۔,, کیا میری توبہ قبول ہوسکتی ہے ؟ فرمایا, اگر توبہ کرو تو قبول ہوگی اور ہمارے ساتھ ہوگے۔ اس نے عرض کیا کہ میں اس جرم سے توبہ کرتا ہوں جو میں نے واقف نہ ہونے کی وجہ سے آپ کی شان میں گستاخی کی۔
کوفہ میں دربار ابن زیاد میں اور پھر بازارِ کوفہ میں اور پھر دمشق میں یزید کے سامنے سید سجاد علیہ السّلام اور دیگر اہلِ حرم کی دلیرانہ گفتگو، خطبے اور احتجاج وہ تھے جنہوںنے دنیا کو شہادت حسین علیہ السّلام کامقصد بتایا اور اس طرح امام زین العابدین علیہ السّلام نے اس مشن کوپورا کیا جسے امام حسین علیہ السّلام انجام دے رہے تھے۔
قید شام سے رہائی کے بعد امام زین العابدین علیہ السّلام مع اہل حرم مدینہ گئے اور خاموش زندگی گزارنا شروع کی مگر مدینہ میں اب یزید کے خلاف جذبات بھڑک چکے تھے , ان لوگوں نے کوشش کی کہ امام زین العابدین علیہ السّلام کو اپنے ساتھ شریک کریں مگر امام علیہ السّلام ان کی نیت اور ان کے ارادوں کی حالت کو خوب جانتے تھے , آپ نے ان کا ساتھ دینا منظور نہیں فرمایا۔ اس لئے مدینہ پر جب یزید کی فوج نے چڑھائی کی تو امام زین العابدین علیہ السّلام کوبلاوجہ کوئی نقصان پہنچانے کی کوشش نہیں کی گئی مگر آپ کے روحانی صدمہ کے لئے یہ کافی تھا کہ رسول الله کی مسجد میں تین روز تک گھوڑے بندھے رہے سینکڑوں مسلمان شہید ہوئے اور سینکڑوں شریف عورتوں کی فوج یزید کے ہاتھوں عصمت دری ہوئی , یہ مصیبت آپ کے لئے نہایت ناگوار تھی مگر آپ نے صبرواستقلال کو ہاتھ سے جانے نہ دیا , ایسے موقع پر جب کہ شہادتِ حسین علیہ السّلام سے ہر طرف انقلاب برپا تھا اور مختلف جماعتیں خون حسین علیہ السّلام کابدلہ لینے کے لئے کھڑی ہوئی تھیں , حضرت امام زین العابدین علیہ السّلام کااس ہنگامہ سے الگ رہ کر صرف عبادت اور تعلیماتِ الٰہی کی اشاعت میں مصروف رہنا ایک بڑا حیرت ناک ضبطِ نفس کا نمونہ تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سلیمان ابن صرد خزاعی یامختار ابن ابی عبیدہ ثقفی جنہوں نے قاتلانِ حسین علیہ السّلام سے انتقام لیا, امام زین العابدین علیہ السّلام کے دل میں ان کے ساتھ ہمدردی کاجذبہ موجود تھا۔ آپ نے مختار کے لئے دعائے خیر فرمائی ہے اور آپ نے برابر لوگوں سے دریافت فرمایا ہے کہ کون کون قاتل حسین علیہ السّلام قتل کیئےگئے۔ مختار نے ان قاتلوں کو ان کے جرائم کی سزا دے کر سید سجاد علیہ السّلام کے زخمی دل پرا یک بڑا مرہم لگا دیا مگر آپ کا طرزِ عمل اتنا غیر متعلق اور محتاط رہا کہ آپ پر حکومت وقت کی طرف سے ان اقدامات کی کوئی ذمہ داری کبھی عائد نہ ہوسکی آپ کی پوری زندگی کادور الِ محمد اور ان کے شیعوں کے لئے پر اشوب رہا۔ یزیدکے تھوڑے ہی زمانہ کے بعد حجاج ابن یوسف ثقفی کے ذریعہ حکومت کاچُن چُن کر الِ رسول کے دوستوں کو قتل کرنا، حکومت کی طرف سے ہر ایک نقل وحرکت بلکہ گفتگو پر بھی خفیہ افراد کامقرر ہونا، اس صورت میں کہاں ممکن تھا کہ آپ ہدایت خلق کے فرائض کو آزادی کے ساتھ انجام دے سکتے مگر آپ اپنی خاموش زندگی سے دنیا کو رسول الله کی سیرت سے روشناس کر رہے تھے۔
واقعہ کربلا کے بعد 43برس امام العابدین علیہ السّلام نے انتہائی ناگوار حالات میں بڑے صبروضبط اور استقلال سے گزارے۔ اس تمام مدت میں آپ دنیا کے شور وشر سے علٰیحدہ صرف دومشغلوں میں رات دن بسر کرتے تھے۔ ایک عبادت خدا دوسرے اپنے باپ پر گریہ , یہی آپ کی مجلسیں تھیں جو زندگی بھر جاری رہیں۔ آپ جتنا اپنے والد بزرگوار کے مصائب کو یاد کرکے روئے ہیں دنیا میں اتنا کسی نے گریہ نہیں کیا , ہر ہر وقت پر آپ کو حسین علیہ السّلام کی مصیبتیں یاد آتی تھیں۔ جب کھانا سامنے آتا تھا تب روتے تھے۔ جب پانی سامنے آتا تھا تب روتے تھے , حسین علیہ السّلام کی بھوک وپیاس یاد آجاتی تھی تو اکثر اس شدت سے گریہ وزاری فرماتے تھے اور اتنی دیر تک رونے میں مصروف رہتے تھے کہ گھر کے دوسرے لوگ گھبراجاتے تھے۔ اور انہیں آپ کی زندگی کے لئے خطرہ محسوس ہونے لگتا تھا۔ایک مرتبہ کسی نے پوچھا کہ آخر کب تک رویئے گا تو آپ نے فرمایا کہ یعقوب نبی کے بارہ بیٹے تھے۔ ا یک فرزند غائب ہوگیا تو وہ اس قدر روئے کہ آنکھیں جاتی رہیں۔ میرے سامنے تو اٹھارہ عزیزواقارب جن کے مثل ونظیر دنیا میں موجود نہیں، قتل ہوگئے ہیں۔ میں کیسے نہ روؤں۔
یوں تو یہ رونا بالکل فطری تاثرات کی تحریک سے تھا مگر اس کے ضمن میں نہایت پر امن طریقہ سے حسین علیہ السّلام کی مظلومیت اور شہادت کاتذکرہ زندہ رہا اور امام زین العابدین علیہ السّلام کے غیر معمولی گریہ کے چرچے کے ساتھ شہادت حسین علیہ السّلام کے واقعات کاتذکرہ فطری طور سے لوگوں کی زبانوں پر آتا رہا جو دوسری صورت میں اس وقت حکومت ُ وقت کے مصالح کے خلاف ہونے کی بنا پر ممنوع قرار پاجاتا۔
اتنی پر امن زندگی کے باوجود حکومت شام کو اپنے مقاصد میں حضرت علیہ السّلام کی ذات سے نقصان پہنچنے کااندیشہ ہوا ابن مروان نے اپنی حکومت کے زمانے میں آپ کو گرفتار کراکے مدینہ سے شام کی طرف بلوایا۔ اور دوتین دن آپ دمشق میں قید رہے مگر خدا کی قدرت تھی اور آپ کی روحانیت کااعجاز جس سے عبدالملک خود پشیمان ہوا اور مجبوراً حضرت زین العابدین علیہ السلام کو مدینہ واپس ہوجانے دیا۔
پیغمبر خدا کی مبارک نسل کی یہ خصوصیت تھی کہ بارہ افرد لگاتار ایک ہی طرح کے انسانی کمالات اور بہترین اخلاق واوصاف کے حامل ہوتے رہے جن میں سے ہر ایک اپنے وقت میں نوعِ انسانی کے لئے بہتر ین نمونہ تھا، چنانچہ اس سلسلہ کی چوتھی کڑی سیّد سجاد علیہ السّلام تھے جو اخلاق واوصاف میں اپنے بزرگوں کی یاد گار تھے۔ اگر ایک طرف صبر وبرداشت کا جوہر وہ تھا جو کربلا کے آئینہ میں نظر ایا تو دوسری طرف حلم اور عفو کی صفت آپ کی انتہا درجہ پر تھی۔ آپ نے ان موقعوں پر اپنے خلاف سخت کلامی کرنے والوں سے جس طرح گفتگو فرمائی ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ آپ کاحلم اس طرح نہ تھا جیسے کوئی کمزور نفس والا انسان ڈر کر اپنے کو مجبور سمجھ کر تحمل سے کام لے بلکہ آپ عفو اور درگزر کی فضیلت پر زور دیتے ہوئے اپنے عمل سے اس کی مثال پیش کرتے تھے۔ ایک شخص نے بڑی سخت کلامی کی اور بہت سے غلط الفاظ آپ کے لیئے استعمال کیے۔ حضرت علیہ السّلام نے فرمایا , جو کچہ تم نے کہا اگر وہ صحیح ہے تو خدا مجھے معاف کرے اور اگر غلط ہے تو خدا تمہیں معاف کر دے۔ اس بلند اخلاقی کے مظاہرے کاایسا اثر پڑا کہ مخالف نے سر جھکا دیا اور کہا حقیقت یہ ہے کہ جو کچہ میں نے کہا وہ غلط ہی تھا۔ ایسے ہی دوسرے موقع پرا یک شخص نے آپ کی شان میں بہت ہی نازیبا لفظ استعمال کیا۔ حضرت نے اس طرح بے توجہی فرمائی کہ جیسے سنا ہی نہیں، اس نے پکار کے کہا کہ میں آپ کو کہہ رہا ہوں۔ یہ اشارہ تھا اس حکم قران کی طرف کہ "خذالعفووامربالمعروف واعرض عن الجاھلین" یعنی عفو کو اختیار کرو اچھے کاموں کی ہدایت کرو اور جاہلوں سے بے توجہی اختیار کرو۔ ہشام ابن اسماعیل ایک شخص تھا جس سے حضرت علیہ السّلام کی نسبت کچھ ناگوار باتیں سرزد ہوئیں تھیں، یہ خبر بنی امیہ کےنیک بادشاہ عمر بن عبدالعزیز تک پہنچی۔ اسنے حضرت کو لکھا کہ میں اس شخص کو سزا دوں گا۔آپ نے فرمایا کہ میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے اس کو کوئی نقصان پہنچے۔
آپ کی فیاضی اور خدمت خلق کاجذبہ ایسا تھا کہ راتوں کو غلہ اور روٹیاں اپنی پشت پر رکہ کر غریبوں کے گھروں پر لے جاتے تھے اور تقسیم کرتے تھے۔ بہت سے لوگوں کو خبر بھی نہ ہوتی کہ وہ کہاں سے پاتے ہیں اور کون ان تک پہنچاتا ہے جب حضرت کی وفات ہوئی اس وقت انہیں پتہ چلا کہ یہ امام زین العابدین علیہ السّلام تھے۔ عمل کی ان خوبیوں کے ساتھ علمی کمال بھی آپ کاایسا تھا جو دشمنوں کو بھی سرجھکانے پر مجبور کرتا تھا اور ان کو اقرار تھا کہ آپ کے زمانے میں فقہ اور علم دین کا کوئی عالم آپ سے بڑھ کر نہیں۔ ان تمام ذاتی بلندیوں کے ساتھ آپ دنیا کو یہ سبق بھی دیتے تھے کہ بلند خاندان سے ہونے پر ناز نہیں کرنا چاہیے۔ یہاں تک کہ آپ جب کبھی مدینہ سے باہر تشریف لے جاتے تھے تو آپ نام ونسب لوگوں کو نہیں بتاتے تھے۔ کسی نے اس کاسبب پوچھا تو فرمایا , مجھے یہ اچھا نہیں معلوم ہوتا کہ میں اپنے نسب کاسلسلہ تو پیغمبر خدا(ص) تک ملاؤں اور ان کے صفات مجھ میں نہ پائے جائیں۔
آپ کی مخصوص صفت جس سے آپ زین العابدین اور سیدالساجدین مشہور ہوئے وہ عبادت ہے۔باوجود یہ کہ آپ کربلا کے ایسے بڑے حادثے کو اپنی انکھوں سے دیکھ چکے تھے۔ باپ بھائیوں اور عزیزوں کے دردناک قتل کے مناظر برابر آپ کی آنکھوں میں پھرا کرتے تھے اس حالت میں کسی دوسرے خیال کاذہن پرغالب آنا عام انسانی فطرت کے لحاظ سے بہت مشکل ہے مگر باپ کے اس غم وصدمہ پر جس نے عمر بھر سید سجاد علیہ السّلام کو رلایا اگر کوئی چیز غالب آئی تو وہ خوف خدا اور عبادت میں محویت تھی۔ یہاں تک کہ اس وقت آپ کے تصورات کی دنیا بدل جاتی تھی ، چہرہ کارنگ متغیر ہوجاتا تھا اور جسم میں لرزہ پڑجاتا تھا کوئی سبب پوچھتا تو فرماتے تھے کہ خیال کرو , مجھے کس حقیقی سلطان کی خدمت میں حاضر ہونا ہے۔
اس دور میں کہ جب دنیا کے دل پر دنیوی بادشاہوں کی عظمت کااثر تھا اور خالق کو بالکل بھول چکی تھی، سیّد سجاد علیہ السّلام ہی تھے جن کی زندگی خالق کی عظمت کااحسا س پیدا کرتی تھی۔
حضرت امام زین العابدین علیہ السّلام کو زمانہ اس کی اجازت نہیں دے سکتا تھا کہ وہ اپنے داداعلی ابن ابی طالب(ع) کی طرح خطبوں (تقریروں ) کے ذریعہ سے دُنیا کوعلوم ومعارف اور الٰہیات وغیرہ کی تعلیم دییں، نہ ان کے لئے اس کاموقع تھا کہ وہ اپنے بیٹے امام محمد باقر یااپنے پوتے جعفر صادق کی طرح شاگردوں کے مجمع میں علمی ودینی مسائل حل کریں اور دنیا کو اچھی باتوں کی تعلیم دیں۔ یہ سب باتیں وہ تھیں جو اس وقت کی فضا کے لحاظ سے غیر ممکن تھیں۔
اس لئے امام زین العابدین علیہ السّلام نے ایک تیسرا طریقہ اختیار کیا جو بالکل پر امن تھا اور جسے روکنے کادنیا کی کسی طاقت کو کوئی بہانہ نہیں مل سکتا تھا۔ وہ طریقہ یہ تھا کہ تمام دنیا والوں سے منہ موڑ کر وہ اپنے خالق سے مناجات کرتے اور دعائیں پڑھتے تھے۔ مگر یہ مناجاتیں اور دعائیں کیا تھیں ? الٰہیات کاخزانہ , معارف وحقائق کاگنجینہ، خالق اور مخلوق کے باہمی تعلق کاصحیح آئینہ۔ ان دعاؤں کا مجموعہ صحیفہ کاملہ , صحیفہ سجادیہ اور زبور آلِ محمد کے ناموں سے اس وقت تک موجود ہے۔
........................
۱۔ ابن زیاد کامقصد اس جملے سے »کیاالله نے علی ابن الحسین علیہ السّلام کو قتل نہیں کیا؟ یہ تھا کہ علی ابن احسین علیہ السّلام (علی اکبر) معاذالله بحکمِ خدا قتل ہوئے اور یه جبر کی اس عقیدی کا تسلسل تها جس کا آغاز معاویه کی حکمرانی کو جواز فراهم کرنی کی لئی هوا تها اور بعد مین یه ایک اعتقادی مکتب مین تبدیل هوا جس کو "مرجئه" اور "اشاعره" نی آگی برهایا تا هم امام علیہ السّلام نے اس کی تردید کرتے ہوئے جو کچه فرمایا اس کا مطلب یه تها که کہ ان کا قتل ہر گز حکم خدا سے نہیں بلکہ ان کو فوج یزید نے ظلم سے قتل کیا ہے , یہ دوسری بات ہے کہ مرنے والا اپنی موت سے مرے یا قتل کیا جائے ہر صورت میں قبض روح کرنے والا خدا ہے۔
مشہور اداکارہ نے اسلام قبول کر لیا
ہندوستانی اخبار ٹائمز آف انڈیا نے لکھا کہ موسیقار اے آر رحمان اور يوان شنکر کے بعد مونیکا بھی اسلام قبول کرنے والے کارواں میں شامل ہو گئیں ہيں۔ اس تامل فلم اداکارہ نے ستر سے زیادہ ہندی، مليالم، تیلگو اور کنڑ فلموں میں ہیروئن اور چائلڈ سٹار کا رول ادا کیا۔ واضح رہے کہ مونیکا کے ماں، باپ عیسائی ہیں۔ مونیکا کا کہنا ہے کہ اسلام قبول کرنے کے بعد اب وہ فلمی دنیا سے دور ہو جائیں گی اور مستقبل میں کبھی بھی اداکاری نہیں کریں گی۔ انہوں نے پریس كانفرنس سےخطاب کرتے ہوئے کہا کہ پیسے یا محبت نے نہیں بلکہ اسلامی اصولوں نے اسلام قبول کرنے کے لئے میری حوصلہ افزائی کی۔ انہوں نے کہا کہ ميں نے دوہزار دس سے اسلام کے بارے میں پڑھنا شروع کیا اور میں دوسرے لوگوں کی طرح یہ سمجھتی تھی کہ اسلام انتہا پسندی کا حامی ہے لیکن اسلام تو امن کا مذہب ہے۔ اسلام قبول کرنے والی اس ہندوستانی اداکارہ نے کہا کہ میں اپنی شادی بھی اپنے والدین کی مرضی سےکروں گی۔
رہبر معظم سے کویت کے امیر اور اس کے ہمراہ وفد نے ملاقات کی
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای نے کویت کے امیر شیخ صباح الاحمد الجابر الصباح اور اس کے ہمراہ وفد کے ساتھ ملاقات میں خلیج فارس اور اس کی سلامتی اور سکیورٹی کو بہت ہی اہم قراردیتے ہوئے فرمایا: خلیج فارس کی سلامتی اوراس کا امن علاقائی ممالک کے سالم اور اچھے روابط پر منحصرہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: یہی وجہ ہے کہ ایران خلیج فارس میں اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ ہمیشہ اچھے اور دوستانہ روابط کی تلاش و کوشش میں رہا ہے اور اب بھی اسی پالیسی پر گامزن ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا: علاقائی ممالک کی باہمی قربت، اور ان کے ایکدوسرے کے ساتھ اچھے ، سالم اور دوستانہ روابط پورے خطے کے لئے مفید ہیں لیکن اگر اس اصل کی رعایت نہ ہو اور علاقائي ممالک کے باہمی اختلاف اور دوری مشترکہ دشمنوں کی خوشحالی کا باعث بنےگی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسرائیل کی بڑھتی ہوئی خباثت کو علاقائی ممالک کے درمیان سالم تعلقات کے نہ ہونے کا نتیجہ قراردیتے ہوئے فرمایا: اسلامی جمہوریہ ایران کی علاقائي ممالک کے ساتھ رفتارہمیشہ وسیع القلبی پر مبنی رہی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے کویت اور عراق کےدرمیان باہمی روابط کے فروغ کو علاقہ کے لئے مفید قراردیتے ہوئے فرمایا: شام کے بارے میں بھی اسلامی جمہوریہ ایران شامی عوام کے فیصلے کی تائيد کرےگی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے علاقہ میں سلفی وہابی تکفیریوں کے بڑھتے ہوئے خطرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: افسوس ہے کہ بعض ممالک آئندہ لاحق ہونے والے سلفی وہابیوں کےخطرے کی جانب متوجہ نہیں ہیں اور مسلسل دہشت گرد گروہوں کی حمایت کررہے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: بعض علاقائی ممالک سلفی تکفیریوں کے بھیانک جرائم کی شام اور بعض دیگر ممالک میں حمایت کررہے ہیں لیکن مستقبل قریب میں دہشت گرد گروہ ان کے لئے بھی مصیبت کھڑی کریں گے اور سرانجام انھیں کافی اخراجات کے ساتھ دہشت گردوں کو نابود کرنا پڑےگا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے گذشتہ برسوں میں ایران کی طرف سے حساس مواقع پر کویت کی حمایت اورعلاقہ کے حالات کے بارے میں کویت کے مدبرانہ اور خیر خواہانہ مؤقف کی قدرکرتے ہوئے فرمایا: علاقہ کے مسائل کو اس قسم کے نظریات کے ذریعہ حل و فصل کیا جاسکتا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے کویت اور ایران کے اقتصادی اور تجارتی روابط کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: دونوں ممالک کے درمیان مزید اقتصادی اور تجارتی روابط کو فروغ دینے کی راہیں ہموار ہیں اور ایران و کویت کے تجارتی و اقتصادی روابط میں ایک نئے باب کا آغاز کرنا چاہیے۔
اس ملاقات میں ایران کے صدر روحانی بھی موجود تھے، کویت کے امیر شیخ صباح الاحمد الجابر الصباح نے حضرت امام حسین علیہ السلام کی ولادت باسعادت کی مناسبت سے مبارکباد پیش کی اور رہبر معظم انقلاب اسلامی کو پورے خطے کے لئے ہادی، راہنما اور مرشد قراردیتے ہوئے کہا: کویت ، ایران کے ساتھ روابط کو فروغ دینے کے لئے نئے باب کا آغاز کرنے کے لئے مکمل طور پر آمادہ ہے اور تہران میں مذاکرات کے دوران اقتصادی اور تجارتی روابط کو مزید فروغ دینے پر اتفاق ہوا ہے۔
کویت کے امیر نے علاقائی ممالک کے درمیان اتحاد و یکجہتی کے بارے میں رہبر معظم انقلاب اسلامی کی بات کی تائيد اور انتہا پسندوں کا مقابلہ کرنے پر تاکید کی اور عراق و کویت کے باہمی روابط کو اچھا اور دوستانہ قراردیا اور عراقی حکام کو کویت کا دوست قراردیا اور شام کے بحران کو شامی عوام کی امنگوں کے مطابق امن اور مذاکرات کے ذریعہ حل و فصل کرنے کی امید کا اظہار کیا۔
حماس، اسرائیل کی تباہی کی خواہشمند
غاصب صیہونی حکومت نے ایک بار پھر فلسطین کی وفاقی حکومت کو تسلیم کرنے کی سخت مخالفت کی ہے ۔
فلسطین الیوم کی ویب سائٹ کے مطابق صیہونی حکومت کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے کابینہ کے ہفتہ وار اجلاس میں یہ بات زور دے کر کہی کہ حماس ایسی تحریک ہے جو اسرائیل کی تباہی کی خواہشمند ہے لہذا عالمی برادری کو ایسی کسی بھی حکومت کو تسلیم نہیں کرنا چاہئیے جس میں حماس شامل ہو۔
صیہونی وزیر اعظم نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ اگر فلسطین کی وفاقی قومی حکومت کو تسلیم کرلیا گیا تو استقامت و مقاومت کی تحریک مضبوط ہوگی اور ساز باز کے مذاکرات کا سلسلہ کمزور ہوجائے گا ۔
واضح ہو کہ حماس اور فتح کی صلح پر اسرائیل کی غاصب حکومت سخت برہم ہے اور اس صلح کے بعد اس نے فلسطین کی خود مختار انتظامیہ سے مذاکرات کے سلسلے کو معطل کردیا ہے ۔