Super User

Super User

پاکستان کی فوج ملک کے دفاع کے تیارپاکستانی فوج کے کمانڈر نے اعلان کیا ہے کہ فوج ملک کو درپیش کسی بھی خطرے کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہے, ڈاؤن نیوز سائٹ کے مطابق پاکستانی فوج کے کمانڈر جنرل راحیل شریف نے کہا ہے کہ پاکستان کی فوج اپنے ملک کے دفاع کے لئے تیار ہے انہوں نے مزید کہا ہے کہ پاکستان کی فوج اپنے وطن کی حفاظت کے لئے جانفشانی کرنے کو تیار ہے۔

جنرل راحیل شریف نے فوج سے کہا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کونہایت ہی دقت کے ساتھ انجام دیں انھوں نے سخت مشکلات میں فوج کی کوششوں کی قدردانی کی ۔

Saturday, 28 June 2014 10:14

روزہ کا فلسفہ کیا ہے؟

روزہ کا فلسفہ کیا ہے؟

روزہ کے مختلف پہلو ہیں اور انسان کے اندر مادی و معنوی لحاظ سے بہت زیادہ تاثیر رکھتا ہے، جن میں سے سب سے اہم ”اخلاقی پہلو“ اور ”تربیتی فلسفہ“ ہے۔

روزہ کاسب سے اہم فائدہ یہ ہے کہ روزہ کے ذریعہ انسان کی روح ”لطیف“،اور اس کی ”قوّت ارادی“ مضبوط ہوتی ہے اور خواہشات میں ”اعتدال“ پیدا ہوتا ہے۔

روزہ دار کو چاہئے کہ روزہ کے عالم میں بھوک اور پیاس کو برداشت کرتے ہوئے جنسی لذت سے بھی چشم پوشی کرے، اور عملی طور پر یہ ثابت کر دکھائے کہ وہ جانوروں کی طرح کسی چراگاہ اور گھاس پھوس کا اسیر نہیںہے، سرکش نفس کی لگام اس کے ہاتھ میں ہے اور ہوا وہوس اور شہوت و خواہشات اس کے کنٹرول میں ہے۔

در اصل روزہ کا سب سے بڑا فلسفہ یہی روحانی اور معنوی اثر ہے، جس انسان کے پاس کھانے پینے کی مختلف چیزیں موجود ہو ں جب اوراس کو بھوک یا پیاس لگتی ہے تو وہ فوراً کھاپی لےتا ہے، بالکل ان درختوں کے مانند جو کسی نہر کے قریب ہوتے ہیں اور ہر وقت پانی سے سیراب ہوتے رہتے ہیں وہ نازپرور ہوتے ہیں یہ حوادث کا مقابلہ بہت کم کرتے ہیں ان میں باقی رہنے کی صلاحیت کم ہوتی ہے اگر انھیں چند دن تک پانی نہ ملے تو پژمردہ ہوکر خشک ہوجاتے ہیں۔

لیکن جنگل،بیابان اورپہاڑوں میں اگنے والے درخت ہمیشہ سخت طوفان، تمازت آفتاب اور کڑاکے کی سردیوں کا مقابلہ کرنے کے عادی ہوتے ہیں اور طرح طرح کی محرومیوں سے دست و گریباں رہتے ہیں، لہٰذا ایسے درخت بادوام اور مستحکم ہوتے ہیں!!

روزہ بھی انسان کی روح و جان کے ساتھ یہی سلوک کرتا ہے، یہ وقتی پابندیوں کے ذریعہ انسان میں قوت ِدفاع اور قوت ارادی پیدا کرتا ہے اور اسے سخت حوادث کے مقابلہ میں طاقت عطا کرتا ہے، چونکہ روزہ سرکش خواہشات اور انسانی جذبات پر کنٹرول کرتا ہے لہٰذا اس کے ذریعہ انسان کے دل پر نور و ضیا کی بارش ہوتی ہے، خلاصہ یہ کہ روزہ انسان کو عالم حیوانیت سے بلند کرکے فرشتوں کی صف میں لے جاکر کھڑا کردیتا ہے، <لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ>(1)، (شاید تم پرہیزگار بن جاؤ) اس آیہٴ شر یفہ میںروزہ کے واجب ہونے کا فلسفہ بیان ہوا ہے۔

اس مشہور و معروف حدیث میں بھی اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے، ارشاد ہوتا ہے: ”الصُّومُ جُنَّةٌ مِنَ النَّارِ“(2) (روزہ جہنم کی آگ سے بچانے کے لئے ایک ڈھال ہے)۔

ایک اور حدیث حضرت علی علیہ السلام سے منقول ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) سے سوال کیا گیا کہ ہم کون سا کام کریں جس کی وجہ سے شیطان ہم سے دور رہے؟ تو آنحضرت (ص) نے فرمایا:روزہ؛ شیطان کا منہ کالا کردیتا ہے، راہ خدا میں خرچ کرنے سے اس کی کمر ٹوٹ جاتی ہے خدا کے لئے محبت و دوستی نیز عملِ صالح کی پابندی سے اس کی دم کٹ جاتی ہے اور توبہ و استغفار سے اس کے دل کی بھی رگ کٹ جاتی ہے۔(3)

نہج البلاغہ میں عبادت کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے حضرت امیر المومنین علیہ السلام روزہ کے بارے میں فرماتے ہیں: ”وَالصِّیَامُ إبْتَلاَءُ لإخْلاَصِ الْخَلْقِ“(4) ”خداوندعالم نے روزہ کو شریعت میں اس لئے شامل کیا تاکہ لوگوں میں اخلاقی روح کی پرورش ہوسکے“۔

پیغمبر اکرم (ص) سے ایک اور حدیث میں منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: ”ان لِلْجَنّة بَاباً یُدعی الرَّیَّان لَا یَدخُلُ فِیھَا إلاَّالصَّائِمُونَ“ (بہشت کے ایک دروازے کا نام ”ریان“ (یعنی سیراب کرنے والا) ہے جس سے صرف روزہ دار ہی داخل جنت ہوں گے۔)

شیخ صدوق علیہ الرحمہ نے معانی الاخبار میں اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے تحریر فرمایا کہ بہشت میں داخل ہونے کے لئے اس دروازہ کا انتخاب اس بنا پر ہے کہ روزہ دار کو چونکہ زیادہ تکلیف پیاس کی وجہ سے ہوتی ہے لہٰذا جب روزہ دار اس دروازے سے داخل ہوگا تو وہ ایسا سیراب ہوگا کہ اسے پھر کبھی تشنگی کا احساس نہ ہوگا۔(5)

 

روزہ کے معاشرتی اثرات

روزہ کا اجتماعی اور معاشرتی اثر کسی پر پوشیدہ نہیں ہے، روزہ انسانی معاشرہ کے لئے ایک درس مساوات ہے کیونکہ اس مذہبی فریضہ کی انجام دہی سے صاحب ثروت لوگ بھوکوں اور معاشرہ کے محروم افراد کی کیفیت کا احساس کرسکیں گے اور دوسری طرف شب و روز کی غذا میں کمی کرکے ان کی مدد کے لئے جلدی کریں گے۔

البتہ ممکن ہے کہ بھوکے اور محروم لوگوں کی توصیف کرکے خداوندعالم صاحبِ قدرت لوگوں کو ان کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہواور اگر یہ معاملہ حسّی اور عینی پہلو اختیار کرلے تو اس کاایک دوسرا اثر

ہوتا ہے ،روزہ اس اہم اجتماعی موضوع کو حسی رنگ دیتا ہے، اس مشہور حدیث میں حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ ہشام بن حکم نے روزہ کی علت اور سبب کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا:

”روزہ اس لئے واجب ہوا ہے کہ فقیر اور غنی کے درمیان مساوات قائم ہوجائے اور یہ اس وجہ سے کہ غنی بھی بھوک کا مزہ چکھ لے اور فقیر کا حق ادا کردے، کیونکہ مالدار عموماً جو کچھ چاہتے ہیں ان کے لئے فراہم ہوجاتا ہے خدا چاہتا ہے کہ اس کے بندوں کے درمیان مساوات قائم ہو اور مالداروں کو بھی بھوک اور درد و غم کااحساس ہو جائے تاکہ وہ کمزور اور بھوکے افراد پر رحم کریں۔(6)

 

روزہ کے طبی اثرات

طب کی جدید اور قدیم تحقیقات کی روشنی میں امساک (کھانے پینے سے پرہیز) بہت سی بیماریوں کے علاج کے لئے معجزانہ اثر رکھتا ہے جو قابل انکار نہیں ہے، شاید ہی کوئی حکیم ہو جس نے اپنی مبسوط تالیفات اور تصنیفات میں اس حقیقت کی طرف اشارہ نہ کیا ہو کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ بہت سی بیماریاں زیادہ کھانے سے پیدا ہوتی ہیں، اور چونکہ اضافی مواد بدن میں جذب نہیں ہوتا جس سے خطرناک اور اضافی چربی پیدا ہوتی ہے یا یہ چربی اور خون میں اضافی شوگرکا باعث بنتی ہے، عضلات کا یہ اضافی مواد در حقیقت بدن میں ایک متعفن (بدبودار) بیماری کے جراثیم کی پرورش کے لئے گندگی کا ڈھیر بن جاتا ہے، ایسے میں ان بیماریوں کا مقابلہ کرنے کے لئے بہترین راہ حل یہ ہے کہ گندگی کے ان ڈھیروں کو امساک اور روزہ کے ذریعہ ختم کیا جائے، روزہ ان اضافی غلاظتوں اور بدن میں جذب نہ ہونے والے مواد کو جلادیتا ہے، در اصل روزہ بدن کو صاف و شفاف مکان بنادیتا ہے۔

ان کے علاوہ روزہ سے معدہ کو اچھا خاصا آرام ملتا ہے جس سے ہاضمہ کا نظام صحیح ہوجاتا ہے، چونکہ یہ بدن انسان کی نازک ترین مشینری ہے جو سال بھر کام کرتی رہتی ہے لہٰذا اس کے لئے اتنا آرام نہایت ضروری ہے۔

یہ بات واضح ہے کہ اسلامی حکم کی رو سے روزہ دار کو اجازت نہیں ہے وہ سحری اور افطاری کی غذا میں افراط اور زیادتی سے کام لے، یہ اس لئے ہے تاکہ اس سے حفظان صحت اور علاج سے مکمل نتیجہ حاصل کیا جاسکے ورنہ ممکن ہے کہ مطلوبہ نتیجہ نہ حاصل ہوسکے۔

چنانچہ ”الکسی سوفرین“ ایک روسی دانشور لکھتا ہے:

روزہ ان بیماریوں کے علاج کے لئے خاص طور پر مفید ہے: خون کی کمی، انتڑیوں کی کمزوری، التہاب زائدہ (Appendicitis) اندرونی اور بیرونی قدیم پھوڑے، تپ دق (T.B) اسکلیروز، نقرس، استسقاء،(جلندر کی بیماری جس میں بہت زیادہ پیاس لگتی ہے اور پیٹ دن بدن بڑھتا جاتا ہے) جوڑوں کا درد، نور استنی، عرق النساء (چڈوں سے ٹخنوں تک پہنچنے والا درد)، خزاز (جلد کا گرنا) امراض چشم، شوگر، امراض جلد، امراض جگر اور دیگر بیماریاں ۔ امساک اور روز ہ کے ذریعہ علاج صرف مندرجہ بالا بیماریوں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ وہ بیماریاں جو جسمِ انسان کے اصول سے متعلق ہیں اور جسم کے خلیوں سے چمٹی ہوئی ہیں مثلاً سرطان، سفلیس، سل اور طاعون کے لئے بھی شفا بخش ہے(7)

ایک مشہور و معروف حدیث میں پیغمبر اکرم (ص)سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: ”صُومُوا تَصَحُّوا“،(8) (روزہ رکھو تاکہ صحت مند رہو)۔

پیغمبر اکرم (ص) سے ایک اور حدیث میں منقول ہے جس میں آپ نے فرمایا: ”المِعْدَةُ بَیْتُ کُلِّ دَاءٍ وَالحَمیةُ رَاسُ کُلِّ دَوَاءٍ“(9) معدہ ہر بیماری کا گھر ہے اور امساک ( روزہ) ہر مرض کی دوا ہے۔(10)


(1)سورہ بقرہ ، آیت ۱۸۳

(2) بحار الانوار ،جلد ۹۶، صفحہ ۲۵۶

(3) بحا رالانوار، جلد ۹۶، صفحہ ۲۵۵

(4)نہج البلاغہ ،کلمات قصار، کلمہ نمبر ۲۵۲

(5) بحار الانوار ، جلد ۹۶، صفحہ ۲۵۲

(6) وسائل الشیعہ ، جلد ۷، باب اول ،کتاب صوم ، صفحہ ۳

(7) روزہ روش نوین برای درمان بیماریہا، صفحہ ۶۵،طبع اول

(8) بحا رالانوار ، جلد۹۶، صفحہ ۲۵۵

(9) بحار الانوار ، جلد ۱۴ ، طبع قدیم

(10) تفسیر نمونہ ، جلد ۱، صفحہ ۶۲۸

جامع مسجد هرات - افغانستان

ہرات کی بڑی مسجد جامع، افغانستان کی تاریخی آثار میں سے ہے۔ مسجد جامع ہرات یا مسجد جمعہ ہرات قدیمی مساجد میں سے ایک مسجد ہے۔ یہ مسجد ۱۴۰۰سال پرانی ہے۔ اس کی مساحت ۴۶۷۶۰مربع میٹر ہے۔ اس کی معماری قابل قدر ہے۔ اس مسجد کو زیادہ تر تیموریوں کی حکمرانی کے دوران وسعت اور ترقی ملی ہے۔

جامع مسجد هرات - افغانستان

اس مسجد کی سلطان غیاث الدین غوری نےسنہ ۵۹۷ ھ میں منصوبہ بندی کی، لیکن اسے مکمل کرنے میں کامیاب نہیں ھوا۔ سلطان غیاث الدین غوری کا جنازہ سنہ ۱۲۰۲ عیسوی میں،اس مسجد کے شمالی ایوان کے آخر پر گنبد کے نیچے دفن کیا گیا ہے۔

جامع مسجد هرات - افغانستان

عہد تیموریان میں تعمیر کی گئی مسجد کا صرف ایک چھوٹا حصہ اس کے جنوبی دروازہ پر باقی بچا ہے۔ تیموری اپنے سلیقہ سے تزئین کرتے تھے۔ اس لئے اس مسجد کی غوری حکومت کے دوران کی گئی تزئِنات تیموریوں کے دوران کی گئی تزئینات کے نیچے دب گئی ہیں۔ البتہ ماہرینآثار قدیمہ نے ۱۹۶۴ء میں ان تزئینات کا انکشاف کیا ہے۔

جامع مسجد هرات - افغانستان

زمانہ کے گزرنے کے ساتھ ساتھ تیموریوں کے دور کے آثار نابود ھوچکے تھے ۔ لیکن ۱۳۲۲ھجری شمسی میں کی گئی اس مسجد کی مرمت کے دوران مذکورہ آثار میں سے بعض کی مرمت کے دوران مذکورہ آثار میں سے بعض کی مرمت کی گئی ہے۔

جامع مسجد هرات - افغانستان

یہ مسجد، افغانستان کے قدیمی تاریخی آثار میں سے ایک ہے۔

جامع مسجد هرات - افغانستان

ہر دیکھنے والا جب پہلی بار اس مسجد کو دیکھتا ہے، پہلے ہی لمحہ میں اس عظمت والی اور خوبصورت مسجد کی دلفریب اور باشکوہ معماری کو دیکھ کر دنگ رہ جاتا ہے۔

جامع مسجد هرات - افغانستان

اس خوبصورت اور حیرت انگیزعمارت کی جگہ پر، اسلام سے کئی ہزار سال پہلے آریاؤں کا ایک چھوٹا عبادت خانہ تھا جو لکڑی کا بنا ھوا تھا۔ ہرات کے لوگوں کے دین مبین اسلام کو قبول کرنے کے بعد سنہ ۲۹ ہجری میں یہ عبادت خانہ مسجد میں تبدیل ھوا ہے۔

جامع مسجد هرات - افغانستان

اس مسجد شریف میں عالم اسلام کے بعض بڑے علماء تدریس کرتے تھے، جن میں حضرت خواجہ عبداللہ انصاری اور خواجہ محمد تاکی قابل ذکر ہیں۔

جامع مسجد هرات - افغانستان

مسجد جامع ہرات نے تاریخ کے دوران بہت سے نشیب و فراز دیکھے ہیں۔ یہ مسجد کئی بار گرانے کے بعد دوبارہ تعمیر یا مرمت کی گئی ہے۔

جامع مسجد هرات - افغانستان

سنہ ۴۱۴ہجری میں اس مسجد کا لکڑی سے بنا ھوا حصہ نظر آتش ھوا۔ تقریبا دوصدیوں کے بعد شیخ الاسلام فخرالدین رازی کی تجویز اور سلطان غیاث الدین غوری کے حکم سے اس مسجد کو پختہ اینٹوں، تزئینات اور فیروزی رنگ کی ٹائیلوں سے استفادہ کرکے موجودہ صورت میں تعمیر کیا گیا ہے۔ سلطان کی موت کے بعد اس کے بیٹے، سلطان محمود نے اس مسجد کے نا مکمل کام کو مکمل کیا۔ لہذا اس مسجد کی موجودہ عمارت تیموریوں کی معماری کے مطابق تعمیر کی گئی ہے اور حالیہ دور میں اس کی مرمت بھی کی گئی ہے جو تیموریوں کے دور کی معماری کے مشابہ ہے۔

جامع مسجد هرات - افغانستان

مغلوں کے حملہ کے نتیجہ میں مسجد خراب ھوگئی تھی۔ اس لئے سنہ۸۱۸ ھجری میں اس مسجد کی تعمیر نوکی گئ ہے اور اس مسجد کے شمال میں غیاثیہ کے نام پر ایک مدرسہ بھی تعمیر کیا گیا ہے۔

جامع مسجد هرات - افغانستان

ملک معزالدین کرت کی حکمرانی کے زمانہ میں اس مسجد کی خوبصورتی کو بڑھاوا دینے کے علاوہ صوفیوں کے لئے ایک خانقاہ بھی تعمیر کی گئی ہے۔ ایک سو سال گزرنے کے بعد (تیموری بادشاھوں کے) شاہ رخ میرزا کے زمانہ میں اس مسجد کے رواقوں اور دیواریوں کو معرق ٹائیلوں اور خوبصورت خطاطی سے سجایا گیا ہے۔

ہند و پاک اختلافات پرامن طریقے سے حل کرنے کی کوششخارجہ امور میں پاکستان کے وزیراعظم کے مشیر سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ اسلام آباد، نئی دہلی کے ساتھ پائے جانے والے اختلافات کو، پرامن طریقوں سے حل کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ ذرائع کے مطابق سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ دونوں ملکوں کی وزارت خارجہ کے عہدیدار عنقریب مسئلہ کشمیر سے متعلق مذاکرات کا عمل جاری رکھنے کے بارے میں گفتگو کریں گے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے ہندوستان کے وزیراعظم نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کرکے دونوں ملکوں کے آئندہ تعلقات کے بارے میں نئے باب کا آغاز کیا ہے۔ سرتاج عزیز نے کہا کہ پاکستان، دہشتگردي کے خلاف مہم اور علاقے میں کشیدگی کی روک تھام کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔قابل ذکر ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے حکام نے حال ہی میں دونوں ملکوں کے تعلقات کو بہتر بنانے کیلئے موثر اقدامات عمل میں لانے کے عزائم کا اعلان کیا ہے۔

مختلف ملکوں کی طرف پہلی مرتبہ ایران کے تجارتی اتاشی روانہ

اسلامی جمہوریہ ایران میں تجارتی ترقی ادارے کے سربراہ نے کہا ہے کہ ایران نے مختلف ملکوں کی طرف تجارتی اتاشی روانہ کئے ہیں ۔ ابو طالب بدری نے مھر نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ایران پہلی مرتبہ یورپی ملکوں کی طرف اپنے تجارتی اتاشی روانہ کررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران نے افریقی ملکوں جیسے تیونس نائجیریا، کینیا اور بعض ایشیائي ملکوں کی طرف بھی تجارتی اتاشی روانہ کئے ہیں۔ ادھر ایران و عراق کے مشترکہ کامرس چیمبرس کے سکریٹری نے کہا ہے کہ جو کمپنیاں عراق کے لئے زیادہ سے زیادہ برآمدات بھیجیں گي انہیں انعام دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیاں تجارت میں فروغ لانے کےلئے عنقریب عالمی اجلاس کرایا جائے گا۔

فلسطینیوں پراسرائیل کی حالیہ جارحیت، اقوام متحدہ کا اظہار تشویش

پریس ٹی وی کے مطابق اقوام متحدہ کے سیاسی امور کے سربراہ جیفری فلٹ مین نے کہا ہے کہ تین نو آبادکاروں کےلاپتہ ہونے پر فلسطینیوں کے خلاف حالیہ اسرائیلی فوجی آپریشن سے اک نئی بغاوت بھڑک سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ فلسطین کے زمینی حالات انتہائی خراب ہیں اور مجھے ڈر ہے کہ کیو تیسری بغاوت بھڑک نہ سکے۔

انہوں نے اسرائیل سے تاکید کی کہ وہ بارہ جون کو مغربی کنارے میں لاپتہ ہوئے تین نو آباد کاروں کو ڈھونڈنے میں صبر و تحمل سے کام لے۔

فلٹ مین نے تل ابیب پر زور دیا کہ وہ بین الاقوامی قوانین کا خاص خیال رکھتے ہوئے بے گناہ فلسطینیوں پر ظلم کرنےسے باز رہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیلی فوجی آپریشن کے نتیجے میں ہلاکتوں کو بڑھتا ہوا گراف انتہائی تشویش ناک ہے۔

واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے سیکٹری جنرل بانکی مون نے بھی اپنے ایک تازہ بیان میں فلسطینیوں کے خلاف حالیہ اسرائیلی فوجی آپریشن اور مغربی کنارے کی ناکہ بندی پر سخت تشویش کا اظہار کیاہے۔

طاہر القادری کے خلاف تحقیقات کا آغاز

پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری کے خلاف تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے اورطاہر القادری اور انکی جماعت کے اثاثوں کی تفصیلات طلب کر لی ہیں۔اسلام آباد سے موصولہ رپورٹ کے مطابق ایف آئی اے نے طاہر القادری اور انکی جماعت پاکستان عوامی تحریک کے اثاثوں کی تفصیلات کی فراہمی کے لئے الیکشن کمیشن اف پاکستان کو خط لکھ دیا ہے جس میں استدعا کی گئی ہے کہ طاہر القادری کے تمام اثاثوں کی تفصیلات فراہم کی جائیں۔الیکشن کمیشن اف پاکستان کے ذرائع کے مطابق سال 2002 میں بطور رکن قومی اسمبلی طاہر القادری نے جن اثاثوں کی تفصیلات جمع کرائیں وہ بھی مانگی گئی ہیں۔طاہر القادری 2002 میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے جس کے کچھ عرصے بعد انہوں نے نشست چھوڑ دی تھی۔ الیکشن کمیشن حکام کے مطابق پاکستان عوامی تحریک کے اثاتوں کی تفصیلات اور طاہر القادری کے جمع کرائے گئے اثاثوں کا ریکارڈ ایف آئی اے کو فراہم کر دیا جائے گا۔الیکشن کمیشن حکام کا کہنا ہے کہ یہ کوئی خفیہ دستاویزات نہیں بلکہ کوئی بھی شہری ان دستاویزات تک رسائی کے لئے الیکشن کمیشن سے رجوع کر سکتا ہے۔

ایران: نئے ایٹمی بجلی گھروں کا معاہدہاسلامی جمہوریہ ایران کے ایٹمی ادارے کے ترجمان نے کہا ہے کہ ایٹمی ادارے کے سربراہ علی اکبر صالحی عنقریب ماسکو کا دورہ کریں گے۔ ترجمان نے کہا کہ علی اکبر صالحی ماسکو کے دورے میں ایران میں نئے ایٹمی بجلي گھر بنانے کے معاہدے پر دستخط کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ روس ایٹم کے مینجنگ ڈائریکٹر نیکولائي اسپاسکی نے تہران کا دورہ کیا اور نئے ایٹمی بجلی گھروں کی تعمیر کے بارے میں ایرانی حکام سے گفتگو کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران کے ایٹمی ادارے کے سربراہ علی اکبر صالحی عنقریب ماسکو کا دورہ کرکے نئے ایٹمی بجلی گھروں کی تعمیر کے سلسلے میں تجارتی معاہدوں پر دستخط کریں گے۔ کمالوندی نے کہا کہ روس ایٹم کے سربراہ نے گذشتہ روز تہران میں ایرانی حکام کے ساتھ نئے ایٹمی بجلی گھروں کے فنی اور تکنیکی مسائل کا جائزہ لیا ہے اور اس اجلاس میں یہ طے پایا ہے کہ آئندہ ہفتوں میں معاہدے کا مسودہ تیار کر لیا جائے گا اور اسے حتمی شکل دیدی جائے گي۔ روس ایٹم کے سربراہ آج ایران کے نائب وزیر خارجہ اور سینئر مذاکرات کار عباس عراقچی سے ملاقات کریں گے۔

سری لنکا میں مذہبی اختلافات پر مبنی اجتماعات پر پابندیسری لنکا کی پولیس نے مذہبی اختلافات پر منتج ہونے والے اجتماعات اور سیمیناروں پر پابندی عائد کردی ہے۔ فرانس پریس کی رپورٹ کے مطابق سری لنکا کی پولیس کے ترجمان آجیت روہانا نے کہا ہے کہ اب کے بعد آئین کے مطابق آزادی اظہار کی پابندی کے لۓ ایسے اجتماعات اور سیمیناروں کی اجازت نہیں دی جائے گي جو فرقہ ورانہ اختلافات کا باعث بنتے ہیں۔ واضح رہے کہ گزشتہ چند دنوں کے دوران انتہا پسند بڈھسٹوں نے سری لنکا کے مختلف علاقوں میں مسلمانوں پر حملے کر کے ان میں سے دسیوں افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے جبکہ متعدد مسلمانوں کو زخمی بھی کردیا ہے۔ ان انتہا پسند بڈھسٹوں نے مسلمانوں کے بہت سے رہائشی مکانات ، دوکانوں اور مذہبی مقامات کو نذر آتش بھی کردیا ہے۔ سری لنکا کے اخبارات و جرائد نے تشدد کے ان واقعات کی روک تھام کے سلسلے میں پولیس کی کاکردگی کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

رہبر معظم سے عدلیہ کے سربراہ ،اعلی ججوں اور اہلکاروں کی ملاقات

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے عدلیہ کے سربراہ ، اعلی صوبائی ججوں ، سرکاری وکلاء اور اعلی حکام کے ساتھ ملاقات میں عدلیہ میں آیت اللہ لاریجانی کے نئے پانچ سالہ دور کے لئے چھ اصلی ترجیحات بیان کرنے کے ضمن میں ملک کے عام مفادات اور بڑے مسائل میں تینوں قوا کے سربراہان کے درمیان باہمی تعاون، اتحاد اور یکجہتی کو بہت ہی ضروری اور اہم قراردیا اور امریکہ اور مغربی تسلط پسند طاقتوں کے فتنہ پرور اور شرانگيز ہاتھوں کو عراق کے حالیہ واقعات کے پس پردہ قراردیا اور اسلامی جمہوریہ ایران کی طرف سے عراق میں ہر قسم کی امریکی مداخلت کی شدید مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ایران کا اس بات پر اعتقاد ہے کہ عراقی عوام ، عراقی حکومت اور عراق کے دینی مراجع عراق کے موجودہ فتنہ اور بحران کو ختم کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس ملاقات میں شہدائے ہفتم تیر بالخصوص شہید آیت اللہ بہشتی اور اسی طرح شہید آیت اللہ قدوسی کی یاد تازہ کرتے ہوئے انھیں خراج تحسین پیش کیا اور عدلیہ کو دیگر اداروں کی نسبت اسلامی نظام کے تمام اداروں کی طرف سے حق اور عدل و انصاف کے قیام کا ضامن قراردیتے ہوئے فرمایا: اسی بنیاد پر عدلیہ سے توقعات بہت زیادہ ہیں اور عدلیہ کے سربراہ جو ایک عالم، فاضل ، متدین ، مجتہد، خوش فکر، انقلابی ، مسائل سے آگاہ اور شجاع انسان ہیں ان کی ممتاز توانائیوں اور صلاحیتوں کے پیش نظر اہداف اور توقعات تک پہنچنا ممکن ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے گذشتہ پانچ سال میں عدلیہ کے سربراہ اور عدلیہ کے اعلی حکام کی کوششوں کی تعریف کرتے ہوئے نئے دور کے لئے چھ اصلی ترجیحات کو بیان کیا۔

پالیسیوں کے نفاذ کے لئے مخصوص اور واضح طریقہ کار پہلی ترجیح تھی جس کی طرف رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: عدلیہ سے متعلق پالیسیوں کے نفاذ اور نگرانی کے لئے واضح اور مخصوص طریقہ کار اور منصوبہ بندی کے ساتھ ان پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ججوں اور دیگر اعلی اہلکاروں کی کار کردگی پر نگرانی اور نظارت کو عدلیہ کی دوسری اصلی ترجیح قراردیتے ہوئے فرمایا: نظارت اور نگرانی کا عمل اتنا وسیع اور سنجیدگي پر مبنی ہونا چاہیے تاکہ بعض کاموں پر اشکالات اور شکایات کم سے کم سطح تک پہنچ جائیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے احکام کے نفاذ میں عدم تاخير کو تیسری ترجیح کے عنوان سے پیش کرتے ہوئے فرمایا: احکام کے نفاذ میں طولانی تاخير بعض نقائص کا مظہر ہیں جنھیں شناخت کرکے برطرف کرنا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مقدمہ کی سماعت کے طولانی ہونے کے سلسلے میں ایک نکتہ کی یاد دلاتے ہوئے فرمایا: مقدمہ کے متوسط طور پر طولانی ہونے کے اعداد شمار میں کمی اچھی بات ہے لیکن اس بات پر توجہ رکھنی چاہیے کہ کتنے عرصہ میں کتنے مقدمات کو کتنی مدت کے اندر نمٹایا گيا اس کا اوسط جائزہ لینا چاہیے اور اگر تعداد زيادہ ہو تو اس میں کمی کرنی چاہیے۔

افراد کی تربیت ، جانشینی کی منصوبہ بندی، چوتھی ترجیح تھی جس کی طرف رہبر معظم انقلاب سلامی نے اشارہ کیا اور جرم کی روک تھام کو پانچویں ترجیح کے طور پر بیان کرتے ہوئے فرمایا: جرم کی روک تھام کا موضوع ایک عام موضوع ہے جو کسی ایک قوہ کے دائرے سے باہر ہے لہذا عدلیہ کو اس سلسلے میں دیگر اداروں کے ساتھ مضبوط اور قریبی رابطہ قائم رکھنا چاہیے اور ان کے ساتھ مشترکہ نقاط کو مضبوط ، مستحکم اور قوی بنانا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: جرم کی روک تھام مکمل طور پر ایک علمی موضوع بھی ہے لہذا اسی وجہ سے جرم کے عوامل و عناصر کی پہچان اور اس سے رونما ہونے والے خطرات کی شناخت کے لئے اس موضوع کے ماہرین اور مفکرین کے ساتھ صلاح و مشورہ اور اس سلسلے میں ان سے تعاون حاصل کرنا چاہیے۔

تینوں قوا کے درمیان باہمی تعاون میں اضافہ چھٹی اور آخری ترجیح تھی جس کی طرف رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اشارہ کیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: میں ہمیشہ تینوں قوا کے سربراہان کو اس بات کی تاکید کرتا رہا ہوں کہ وہ اپنے درمیان تعاون میں اضافہ پر توجہ دیں اور یہ تعاون اداروں کے اندرونی مسائل اور ملک کے بڑے مسائل کے دو شعبوں میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: مختلف مسائل میں اسلامی نظام کے مجموعہ کی آواز یکساں طور پر سنائی دینی چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مختلف اور گوناگوں مسائل میں عدلیہ کے سربراہ آیت اللہ آملی لاریجانی کے منطقی، مدلل اور اچھے مؤقف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: تینوں قوا کے سربراہان کے درمیان باہمی تعاون اور ہمفکری کے ذریعہ حکومت کے مختلف شعبوں میں ایسے مؤقف کو فروغ دینے میں مدد مل سکتی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملکی مفادات اور مصالح کو تمام امور سے بالاتر قراردیتے ہوئے فرمایا: تینوں قوا کے سربراہان کو اپنے مشترکہ جلسات کی تعداد میں اضافہ کرنا چاہیےکیونکہ ان جلسات کے ذریعہ بعض مشکلات کو حل کرنے اور ملکی امور کی پیشرفت اور بعض شکایات کو دور کرنے میں اچھی خاصی مدد ملتی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملک کے اہم مسائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ملک کے اندر جو مشکلات موجود ہیں یا جن مشکلات کے ہونے کے بارے میں وہم ہے وہ سب قابل حل ہیں بشرطیکہ ہم اپنی قابلیت اور اندرونی صلاحیتوں پر قدرے اعتماد کریں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اسلامی نظام کے ساتھ عالمی تسلط پسندنظام کی مخالفت اور عداوت ملک کے لئے ایک اصلی چيلنج ہے اور ہمیں اس حقیقت کو سمجھنا اور درک کرنا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: اگر ہم تسلط پسند نظام کی عداوت اور دشمنی پر توجہ نہیں دیں گے تو ملک کے مسائل کے تجزيہ اور تحلیل میں اشتباہ کے مرتکب ہوں گے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نےحضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا: جو افراد دشمن کی معاندانہ رفتار کو نہیں دیکھنا چاہتے وہ ایسے افراد کے مانند ہیں جو دشمن کے سامنے اپنی آنکھ کو بند کردیتے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلامی نظام کے ساتھ تسلط پسند نظام کی دشمنی اور عداوت کی اصلی وجہ تسلط پسند نظام کی بنیادوں کے متزلزل اور کھوکھلے ہونے اور اسلامی نظام کے عدل و انصاف پر مبنی نئے پیغام کو قراردیا اور عراق کے حالیہ واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: مغربی ممالک بالخصوص امریکی حکام عراق میں فتنہ اور بحران کو جاری رکھنے کے لئے بعض جاہل ،نادان اور متعصب لوگوں سے سؤ استفادہ کررہے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: عراق کے حالیکہ واقعات کا اصلی مقصد اس ملک کے عوام کو ان نتائج سے محروم کرنا ہے جو انھوں نے امریکی مداخلت کے باوجود استقامت اور پائداری کے ذریعہ حاصل کئے ہیں جن میں سب سے اہم عوامی اور جمہوری نظام کی بالا دستی اور حکمرانی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: امریکہ عراق میں ہونے والے انتخابات میں عوام کی بھر پور شرکت سے راضی نہیں ہے اور وہ عراقی عوام کے منتخب نمائندوں کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے اور وہ عراقی عوام پر اپنے نمائندوں کو مسلط کرنے کی راہ ہموار کررہا ہے اور عراق میں جاری فتنہ امریکہ کی اسی سازش کا نتیجہ ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عراق میں جاری فتنہ کو مذہبی لڑائی میں تبدیل کرنے کے سلسلے میں امریکی حکام کے بیانات اور کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: عراق میں جاری لڑائی شیعہ اور سنی لڑائی نہیں ہے بلکہ امریکہ اور مغربی تسلط پسند طاقتیں صدام دور کے باقی ماندہ جاہل ، نادان اور متعصب سلفی وہابی تکفیریوں سے پیدل فوج کے طور پر استفادہ کرکے عراق کے امن و ثبات اور عراق کی ارضی سالمیت کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: عراق میں فتنہ پھیلانے والے عناصر ، عراق کے استقلال پر اعتقاد اور ایمان رکھنے والے سنیوں کے بھی اتنے ہی دشمن ہیں جتنے شیعوں کے دشمن ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: عراق میں اصلی جھگڑا ان لوگوں کے درمیان ہے جو یا عراق کے استقلال کے خواہاں ہیں یا عراق کو امریکی کیمپ سے ملحق کرنا چاہتے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے عراق میں جاری فتنہ کو ختم کرنے کے سلسلے میں عراقی عوام کی توانائيوں اور صلاحیتوں کو کافی قراردیتے ہوئے فرمایا: ہم عراق میں امریکہ اور دیگر ممالک کی مداخلت کے شدید خلاف ہیں اور ہم اس کی تائید نہیں کرتے ہیں کیونکہ ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ عراقی عوام ، عراقی حکومت اور عراق کے دینی مراجع ،موجودہ فتنہ کو ختم کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں اور انشاء اللہ وہ اس فتنہ کو ختم کردیں گے۔

اس ملاقات کے آغاز میں عدلیہ کے سربراہ آیت اللہ آملی لاریجانی نے گذشتہ پانچ برس میں عدلیہ کی کارکردگی کے بارے میں رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا: تہران اور قم میں در تخصصی مراکز کے قیام ، انسانی تربیت میں کمی اور کیفی لحاظ سے اضافہ ، افراد کی خدمت کے آغاز اور خدمت کے دوران تربیت ، عدلیہ کے حکام اور ججوں کی کارکردگی پر کڑی نظارت، خدمات رسانی کو بہتر بنانے کے لئےجدید ٹیکنالوجی سے استفادہ ، عدالتی پولیس کے قیام کے بل سمیت دیگر قانونی دستاویزات کی تدوین اور ترمیم عدلیہ کے اہم اقدامات میں شامل ہیں۔

آیت اللہ آملی لاریجانی نے بجٹ اور استخدام میں استقلال کو عدلیہ کے لئے اہم چيلنج قراردیا اور کم سے کم مدت میں مقدمات کی سماعت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: دیگر ممالک کی نسبت ملک میں مقدمات کی سماعت اور رسیدگی کی مدت قابل قبول ہے۔

عدلیہ کے سربراہ نے دوسرے قوا کے ساتھ تعاون کو بہتر قراردیتے ہوئے کہا: ہم عدلیہ کے استقلال کی حفاظت کے ساتھ قوہ مجریہ اور قوہ مقننہ کے ساتھ بہتر تعاون اور تعامل کی کوشش کرتے ہیں۔