سلیمانی
سعودی عرب میں آزادی اظہار کے 53 قیدیوں کی پھانسی کا خطرہ/ سزا پانے والوں میں 8 بچے بھی شامل
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، سعودی لیکس نامی ویب سائٹ نے خبر دی ہے کہ انسانی حقوق کی تنظیم یورپ-سعودی عرب نے ایک بیان میں اعلان کیا ہے کہ سعودی عرب میں آزادی اظہار رائے کے 15 قیدیوں کو سزائے موت سنائی گئی ہے جس سے سعودی عرب میں سزائے موت پانے والے افراد کی تعداد 53 ہوگئی ہے۔
بیان میں آزادی اظہار کے لئے سرگرم سعودی شہریوں کے قتل عام کے حوالے سے خبردار کرتے ہوئے اعلان کیا گیا ہے کہ سزائے موت پانے والوں میں کم از کم 8 سعودی بچے بھی شامل ہیں۔
مذکورہ بین الاقوامی تنظیم نے تمام علاقائی اور بین الاقوامی اداروں اور قوتوں سے کہا ہے کہ وہ سعودی عرب میں سزائے موت پانے والوں کی مدد کریں اور ان غیر منصفانہ سزاؤں پر عمل درآمد کو رکوائیں۔
واضح رہے کہ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں نے اس سے قبل سعودی عرب میں انسانی حقوق کی ابتر حالت کے بارے میں خبردار کیا تھا اور اعلان کیا تھا کہ محمد بن سلمان کچھ دکھاوے کی آزادیوں کی پیشکش کر کے اس ملک میں انسانی حقوق کی نامناسب حالت سے توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ایران میں ہنگاموں کے ذریعے سیاسی تبدیلی میں امریکہ کی ناکامی
امریکہ میں جو بائیڈن حکومت پر اس بات کیلئے شدید دباو ڈالا جا رہا ہے کہ وہ ایران میں ہنگاموں کی اس طرح حمایت کرے، جس کا نتیجہ حکمفرما سیاسی نظام میں تبدیلی کی صورت میں ظاہر ہو۔ دوسری طرف بائیڈن حکومت میں شامل امریکی حکام اس بات کا اظہار کر رہے ہیں کہ وہ بھی "یہی چاہتے ہیں" لیکن ایسا ہونا بہت ہی دور از امکان ہے اور وہ اس بارے میں بات کرنا بھی نہیں چاہتے۔ وائٹ ہاوس مسلسل مختلف لابیز کی جانب سے اس دباو کا سامنا کر رہا ہے کہ ایران میں انجام پانے والے ہنگاموں کا دائرہ مزید شہروں تک بڑھا دیا جائے اور امریکی حکومت اعلانیہ طور پر ان ہنگاموں اور ان میں ملوث عناصر کی حمایت کا اعلان کرے۔ لیکن امریکی حکمران اپنی حمایت کی سطح بڑھانے میں ہچکچا رہے ہیں، کیونکہ انہیں کامیابی کی کوئی امید دکھائی نہیں دیتی۔
اگرچہ امریکہ کی روایتی سیاست تہران میں حکومت کو کمزور کرنے پر استوار ہے، لیکن اس کے باوجود جب وہ ایران میں زمینی حقائق کا جائزہ لیتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ موجودہ ہنگامے اور ان کے پس پردہ عوامل سے کسی بڑی کامیابی کی امید رکھنا بیہودہ ہے۔ کچھ دن پہلے امریکی صدر جو بائیڈن نے ایران میں جاری ہنگاموں کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے ایران کے خلاف کچھ نئی پابندیوں کا اعلان کیا تھا۔ سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ ایران میں ہنگاموں کی حمایت میں اس سے آگے نہیں بڑھے گا۔ وائٹ ہاوس سے قریب تصور کی جانے والی تجزیاتی ویب سائٹ پولیٹیکیو نے حال ہی میں ایک رپورٹ شائع کی ہے، جس میں اس بات کی جانب اشارہ کیا گیا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن مختلف حلقوں کی جانب سے دباو کے باوجود کھلم کھلا ایران میں سیاسی تبدیلی کی حمایت کا اعلان نہیں کریں گے۔
پولیٹیکیو نے امریکہ کے چھ اعلیٰ سطحی عہدیداروں سے انٹرویو لیا ہے، جنہوں نے اس مشترکہ نکتے پر زور دیا ہے کہ بائیڈن حکومت ہرگز ایرانی حکومت کو گوشنہ نشین کرنے اور اس سے جاری جوہری مذاکرات مکمل طور پر ترک کرنے کی پالیسی اختیار کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔ پولیٹیکیو نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا ہے کہ عنقریب وہ عناصر جو امریکی حکومت سے ایران میں سیاسی نظام کی تبدیلی کیلئے کھلم کھلا حمایت کی امید رکھتے ہیں، مایوسی کا شکار ہو جائیں گے۔ دو ہفتے پہلے امریکہ کے سابق صدر براک اوباما نے ایک امریکی ویب سائٹ سے انٹرویو میں کہا تھا کہ جب 2009ء میں ایران میں شدید ہنگامے شروع ہوئے تو امریکی حکام کے درمیان ان ہنگاموں کی حمایت کے بارے میں اختلاف پایا جاتا تھا۔ لیکن موجودہ حکومت اس بات پر متفق ہے کہ اسے ایران میں رجیم چینج کی کھلم کھلا حمایت نہیں کرنی چاہیئے۔
جو بائیڈن حکومت کی جانب سے ایران سے واضح مخالفت کے باوجود رجیم چینج پر مبنی پالیسی اختیار نہ کرنے کی مختلف وجوہات ہیں۔ امریکی حکام بارہا اس بات کا اعتراف کرچکے ہیں کہ وہ ایران میں سیاسی نظام میں تبدیلی کے خواہاں ہیں اور یہ ان کی دلی خواہش ہے، لیکن جب زمینی حقائق کا جائزہ لیتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ ایسا ہونا تقریباً ناممکن ہے، لہذا یہ آپشن قابل قبول نہیں ہوسکتا۔ بعض امریکی حکام نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ وہ حتی اس آپشن کے بارے میں اظہار خیال کرنا بھی پسند نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ حتی سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جنہوں نے 2015ء میں یکطرفہ طور پر ایران سے جوہری مذاکرات سے دستبرداری اختیار کی اور ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباو پر مبنی پالیسی اختیار کی، انہوں نے بھی ایران میں رجیم چینج پالیسی کی حمایت کا اعلان نہیں کیا۔
امریکی حکمرانوں کے اس اعتراف کی ایک بنیادی وجہ ایرانی عوام کی موجودہ اسلامی جمہوریہ نظام کی بھرپور حمایت اور اس سے والہانہ عقیدت ہے۔ ترکی کی آناتولی یونیورسٹی کے پروفیسر مصطفیٰ کنر اس بارے میں کہتے ہیں: "ایران میں کوئی انقلاب رونما ہونے کیلئے خاص قسم کے حالات کی ضرورت ہے، جو اس وقت موجود نہیں ہیں۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ موجود ہنگامہ آرائی کسی بھی قسم کی قیادت سے محروم ہے اور کوئی بھی محبوب لیڈر، کونسل، پارٹی یا تنظیم نہیں پائی جاتی، جو ان کی قیادت کرے۔" وہ مزید کہتے ہیں: "دوسری بات یہ ہے کہ ان ہنگاموں میں شامل ہر گروہ اور جتھہ اپنے مخصوص اہداف اور ایجنڈے کا حامل ہے۔ مزید برآں، ان مختلف اہداف اور ایجنڈوں کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم میں ڈھالنے کا بھی کوئی بندوبست نہیں پایا جاتا، لہذا ان سے کسی واحد سیاسی اقدام کی توقع رکھنا بے جا ہے۔"
موجودہ امریکی حکومت کی جانب سے ایران میں ممکنہ سیاسی تبدیلی سے مایوسی کا اظہار اس قدر شدید ہے کہ امریکہ کے بعض اندرونی شدت پسند حلقے اس پر اسلامی جمہوریہ کی حمایت کا الزام عائد کر رہے ہیں۔ ٹیکساس سے امریکی سینیٹر ٹڈ کروز جو ایران کے خلاف شدید منافرت پھیلانے میں مشہور ہے، انہوں نے حال ہی میں جو بائیڈن حکومت کے بارے میں کہا ہے: "بائیڈن حکومت حقیقی معنوں میں ایرانی رجیم کی بقاء کیلئے کوشاں ہے، کیونکہ وہ ایران سے تیل حاصل کرنا چاہتے ہیں، تاکہ یوں امریکہ میں انرجی کی مصنوعات پیدا کرنے والی کمپنیوں کو درپیش بحران حل کرسکے۔" حقیقت یہ ہے کہ ایران میں حکمفرما اسلامی جمہوریہ نظام کی جڑیں عوام کے اندر بہت مضبوط ہیں۔ یہ وہ زمینی حقیقت ہے، جس کا مشاہدہ جو بھی کرتا ہے، وہ اس نظام کی تبدیلی سے مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔
تحریر: حامد خبیری
ایران میں دہشت گردی اور مغرب کے انسانی حقوق کے دوہرے معیار
داعش سے وابستہ تکفیری دہشت گرد کی جانب سے ایک مقدس مقام میں عبادت میں مصروف عام نہتے شہریوں کو گولیوں کا نشانہ بنانے کا واقعہ اس قدر افسوسناک اور المناک تھا کہ دنیا کے مختلف ممالک کے سربراہان مملکت اس کی مذمت کئے بغیر نہ رہ سکے۔ روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے ایرانی صدر کے نام اپنے پیغام میں اس حملے کی شدید مذمت کی اور تسلیت کا اظہار کیا۔ ان کے پیغام میں کہا گیا تھا: "میں دہشت گردی کے خلاف مختلف شعبوں میں روس اور ایران کے درمیان دوطرفہ تعاون کو فروغ دینے کا خواہش مند ہوں۔" اسی طرح چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان ماو ننگ نے بھی شیراز میں دہشت گردی کے واقعے پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا: "چین کو اس حملے سے صدمہ ہوا ہے اور اس کی شدید مذمت کرتا ہے۔"
انہوں نے مزید کہا: "ہم ہر قسم کی دہشت گردی کے شدید مخالف ہیں اور دہشت گردی اور شدت پسندی کے خلاف جنگ میں ایرانی عوام اور حکومت کی حمایت کرتے ہیں۔" اخبار انڈیپنڈنٹ کے مطابق مصر حکومت نے بھی اس بارے میں ایک بیانیہ جاری کیا ہے جس میں ایران کے شہر شیراز میں اہل تشیع کے مقدس مقام پر دہشت گردانہ حملے کی مذمت کی گئی ہے۔ مصر کی وزارت خارجہ نے اس بیانیے میں دہشت گردانہ حملے میں شہید ہونے والے افراد کے اہلخانہ سے تسلیت کا اظہار کیا اور زخمیوں کی جلد از جلد شفایابی کی دعا کی۔ اس بیانیے میں دہشت گردی کی تمام اقسام کا مقابلہ کرنے عالمی سطح پر کوشش کرنے اور مہم چلانے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ اسی طرح لبنان کی وزارت خارجہ نے بھی اس حملے کی مذمت کی اور تسلیت کا اظہار کیا۔
شیراز میں حضرت شاہ چراغ کے مزار پر دہشت گردانہ حملے کی مذمت کرنے والے دیگر ممالک میں بحرین، یمن، ترکی، فلسطین کے اسلامی مزاحمتی گروہ حماس اور اسلامک جہاد، پاکستان، آذربائیجان، متحدہ عرب امارات وغیرہ شامل ہیں۔ یمن کی اعلی سیاسی کونسل کے رکن محمد علی الحوثی نے اپنے پیغام میں رہبر معظم انقلاب اور شہداء کے اہلخانہ سے تسلیت کا اظہار کیا۔ حماس اور اسلامک جہاد نے بھی اس دہشت گردانہ حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ بحرین کی وزارت خارجہ کے بیان میں آیا ہے: "بحرین شیراز میں ایک مذہبی مقام پر دہشت گردانہ حملے کی شدید مذمت کرتا ہے۔" ترکی کے وزیر خارجہ مولود چاوش اوگلو نے ٹویٹر پر اپنے پیغام میں لکھا: "ہم شیراز شہر میں اہل تشیع کی زیارتگاہ پر ظالمانہ دہشت گردی کی شدید مذمت کرتے ہیں اور شہداء کیلئے رحمت الہی جبکہ زخمیوں کیلئے شفا کے طالب ہیں۔"
عالمی سطح پر شیراز میں حضرت شاہ چراغ کے مزار پر دہشت گردانہ حملے کی شدید مذمت اور متاثرین کیلئے اظہار ہمدردی کے باوجود انسانی حقوق کا دفاع کرنے کے دعویدار مغربی ممالک نے اس افسوسناک واقعے پر پراسرار انداز میں چپ سادھ رکھی ہے۔ اگرچہ برطانیہ اور جرمنی نے سفیر کی حد تک اور فن لینڈ نے وزارت خارجہ کی سطح پر اس حملے کی مذمت کی ہے لیکن اکثر یورپی ممالک اور امریکہ کی جانب سے اس سانحے پر کوئی موقف سامنے نہیں آیا۔ یورپی یونین جو ہمیشہ انسانی حقوق کے دفاع اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دعوے کرتا دکھائی دیتا ہے اس المناک واقعے پر خاموش دکھائی دیتا ہے۔ یہ خاموشی ایسے وقت سامنے آئی ہے جب ایک ماہ قبل یورپی یونین کے سیکرٹری خارجہ جوزف بورل نے ایران میں ہنگاموں پر سیاست کرتے ہوئے ایرانی وزیر خارجہ کو فون کیا اور مہسا امینی کے قتل کی مذمت کی اور انارکی پھیلانے والوں کے حقوق کا احترام کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
گذشتہ چند ہفتوں کے دوران مغربی ممالک نے ایران میں ہنگاموں کی حمایت کرتے ہوئے ایران پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے الزامات عائد کئے۔ جرمنی ایران میں انارکی پھیلانے والوں کے اصلی حامیوں میں سے ایک تھا۔ اس نے اپنے ملک میں انقلاب مخالف عناصر کو مظاہروں کی کھلی چھٹی دے رکھی تھی۔ اب شیراز کے دہشت گردانہ واقعے پر مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔ امریکی حکام نے اعلانیہ طور پر ایران میں بدامنی پھیلانے والے عناصر کی حمایت کی ہے۔ جان بولٹن نے سعودی ٹی وی چینل الحدث کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہمارا فائدہ ایران میں مخالفین کی حمایت کر کے ایرانی معاشرے میں دراڑ ڈالنے میں ہے۔ امریکہ اور مغربی ممالک جو ایران میں بدامنی پھیلانے والوں کے حقوق کیلئے پریشان تھے اب شیراز میں مذہبی مقام پر عبادت میں مصروف نہتے شہریوں کے وحشیانہ قتل عام پر چپ ہیں۔ یہاں سے مغرب کے انسانی حقوق سے متعلق دوہرے معیار اور دوغلی پالیسیاں واضح ہو جاتی ہیں۔
شیراز میں شاہچراغؑ حملے کے شہداء کی نماز جنازے کی ادائیگی کے مناظر
ایران میں فسادات کے پیچھے سی آئی اے کی قیادت میں غیر ملکی جاسوس ایجنسیاں ملوث ہیں، ایرانی انٹیلیجنس
ایران کی وزارت انٹیلی جنس اور سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی انٹیلی جنس تنظیم نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا جس میں ایران میں حالیہ ہنگامہ آرائیوں اور فسادات کے مختلف پہلوؤں کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ ایک سال کی "مسلسل اور درست" انٹیلی جنس نگرانی کے ساتھ ساتھ حالیہ ہنگامہ آرائیوں اور بدامنی کے دوران حاصل کیے گئے شواہد اور دستاویزات اور بحران کے بعد کے مرحلے کے لیے دشمن کے منظرناموں سے حاصل کردہ معلومات سے فسادات اور بدامنی کی منصوبہ بندی، اس پر عمل درآمد اور اسے برقرار رکھنے میں امریکی دہشت گرد حکومت کے ہمہ جہت کردار کی بے شمار مثالوں اور ناقابل تردید حوالہ جات کا پتہ چلتا ہے۔
بیان میں حالات کو تین قسموں میں بانٹا گیا ہے اور "بدامنی سے پہلے"، "بدامنی کے دوران" اور "بدامنی کے بعد" کے حقائق پیش کرتے ہوئے اس معاملے کی مزید وضاحت کی گئی ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی حکومت نے سرکاری تحقیقات کے اعلان سے پہلے مہسا امینی کی المناک موت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک "پہلے سے منصوبہ بند" منصوبے کا آغاز کیا۔
بیان میں صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے گھناؤنے سعودی جرم یا غاصب اسرائیلی حکومت کے ہاتھوں صحافی شیرین ابو عاقلہ کے جان بوجھ کر قتل کو نظر انداز کرنے کی تاریخ رکھنے کے باوجود اپنے سیاسی مفادات کے لیے واشنگٹن کی جانب سے اس سانحے کے استحصال کی مذمت کی گئی ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ انٹیلی جنس شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ سی آئی اے نے اپنے اتحادی جاسوسی اداروں اور رجعت پسندانہ پراکسیز کے تعاون سے فسادات اور بدامنی شروع ہونے سے پہلے ایک وسیع منصوبہ تیار کیا تھا تاکہ ملک گیر ہنگامہ آرائیاں اور افراتفری شروع کی جائے جس کا مقصد عظیم ایرانی قوم اور ملک کی علاقائی سالمیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کرنا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ بڑھتے ہوئے غیر ملکی دباؤ کے لیے زمین ہموار کرنا بھی اس منصوبے کا حصہ تھا۔
بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ دستیاب معلومات کے مطابق سی آئی اے نے مرکزی کردار ادا کیا جبکہ برطانیہ، اسرائیلی حکومت اور سعودی عرب کے جاسوسی اداروں کے ساتھ قریبی تعاون کیا۔
بیان میں فسادات اور بدامنی کی تیاری کے سلسلے میں مذکورہ ایجنسیوں کے کچھ اقدامات کا حوالہ دیا گیا ہے جیسے کہ انسانی حقوق کی نام نہاد کانفرنسوں کا انعقاد اور ہر واقعے کو موقع کے طور پر استعمال کرتے ہوئے ایرانی حکومت کی نااہلی کو ظاہر کرنا۔
بیان میں کہا گیا کہ مذکورہ جاسوس ایجنسیوں نے کئی ممالک میں تربیتی کیمپوں کا اہتمام کیا تاکہ افراد کو ہائبرڈ اور نرم جنگ کی تربیت دی جا سکے۔ بیان میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جن افراد نے ہسپتال میں مہسا امینی کی پہلی تصویر لی اور وائرل کی، ساتھ ہی وہ جنہوں نے مخصوص تصاویر پوسٹ کر کے امینی کے اہل خانہ کو اکسایا، نے ان کورسز میں خصوصی تربیت حاصل کی تھی۔
ایرانی انٹیلی جنس اداروں نے یہ بھی کہا کہ دشمنوں نے ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے ایران کے خلاف "عالمی میڈیا جنگ" کا منصوبہ بنایا اور اس پر عمل درآمد کیا۔
ایرانی اینٹلی جنس اداروں کے مطابق ٹویٹر اور انسٹاگرام نے "جعلی خبروں" کے پھیلاؤ کو تیز کرنے کی راہ ہموار کرنے کے لیے اپنے ضابطوں کو نظر انداز کیا۔
بیان میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ ان تمام کوششوں کے باوجود، دشمن "اپنے پہلے سے طے شدہ مقاصد میں سے کوئی بھی حاصل کرنے میں ناکام رہے" کیونکہ "ایران کو تباہ کرنے کے منصوبے کو ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔"
خیال رہے کہ 22 سالہ مہسا امینی کے پولیس اسٹیشن میں گرنے اور انتہائی طبی امداد کے باوجود ہسپتال میں دم توڑنے کے بعد ایران میں فسادات پھوٹ پڑے تھے۔ ایران کی قانونی ادویات کی تنظیم کی ایک سرکاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امینی کی متنازعہ موت سر یا جسم کے دیگر اہم اعضاء پر مبینہ ضرب کے بجائے بیماری کی وجہ سے ہوئی۔
ہنگامہ آرائیوں اور فسادات نے سیکورٹی فورسز اور بے گناہ لوگوں کی درجنوں جانیں لی ہیں کیونکہ کچھ عناصر نے ملک کے نظام پر حملہ کرنے کے لیے احتجاج کو پٹڑی سے اتار دیا۔ بہت سے مغربی ممالک نے ان کارروائیوں میں بلوائیوں اور فسادیوں کی حمایت کا اظہار کیا ہے جنہیں تہران تشدد اور نفرت کو "بھڑکانے" کے اقدامات قرار دیتا ہے۔
ہنگامہ آرائی کا نشانہ دین ہے/اسلامی ایران کو شرارتوں سے ہرگز نقصان نہیں پہنچایا جاسکتا، سربراہ سپاہ
مہر خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق سپاہ پاسداران انقلاب کے کمانڈر جنرل حسین سلامی نے ہفتہ کے روز حضرت شاہ چراغ کے حرم پر دہشت گردی کے واقعہ میں شہید ہونے والوں کی نماز جنازہ کی میں شرکت اور عوامی اجتماع سے خطاب کیا۔
جنرل سلامی نے کہا کہ رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای جہاد کے مرکز میں کھڑے ہیں اور ایران کے عوام نے ہر قسم کی دشمنی کے مقابلے میں امام خامنہ ای کو تنہا نہیں چھوڑا اور اپنے امام کی پشت پناہی کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے اس واقعے کے شہداء نے ایک خاص اور عظیم مقصد کے لیے اپنی پیاری جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔
سردار سلامی نے اس بات پر زور دیا کہ اگر اسلامی ایران کے عوام امام حسین (ع)کے زمانے میں ہوتے تو کسی کو بھی فرزند رسول (ع) کی توہین کی اجازت نہ دیتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج ایران کے عوام کو امام کے برحق نائب کی حفاظت اور حمایت کرنی چاہیے اور دشمن کو ایرانیوں کے چہرے سیاہ ظاہر کرنے اجازت نہیں دینی چاہیے۔
انہوں نے شیراز حملے کے شہداء کی نماز جنازہ میں شاندار شرکت پر ایرانی عوام کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ آج کا واقعہ حقیقی ایران کو ظاہر کرتا ہے جو شاندار اسلامی انقلاب کی نمائندگی کرتا ہے اور چند فریب خوردہ عناصر کی شرارتوں سے اسے کبھی نقصان نہیں پہنچے گا۔انہوں نے زور دے کر کہا کہ امریکہ اپنی منصوبہ بندیوں، سازشوں اور فتنہ انگیزیوں کے ذریعے ایرانی عوام کا دین اور مذہب چھیننے کی کوشش کر رہا ہے۔
انہوں نے دشمنوں کی سازشوں کے فریب میں نہ آنے اور انہیں ناکام بنانے پر ایرانی عوام کی بھی تعریف کی۔
میجر جنرل سلامی نے مزید کہا کہ ہماری سرزمین پر ان دنوں اور راتوں میں جو سازشیں چل رہی ہیں، وہ امریکہ، برطانیہ، سعودی عرب اور صیہونی حکومت کے گٹھ جوڑ کا نتیجہ ہے۔
فلسطین کی مزاحمتی تنظیموں کا ایران سے اعلان یکجہتی
فلسطین کی مزاحتمی تنظیموں کے مشترکہ کمیٹی کے جاری کردہ بیان میں ،شیرازشہرمیں واقع شاہ چراغ کے روضے پر دہشت گردانہ حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس طرح کے گھناونے فعل کا ارتکاب اور اس کا حکم دینے والوں کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ فلسطین کی مزاحمتی تنظیموں کی مشترکہ کمیٹی ایران کی سلامتی کو نشانہ بنانے والے ہر اقدام کی مذمت کرتی ہے اور مشکل کی اس گھڑی میں اپنے ایرانی بھائیوں کے ساتھ کھڑی ہے۔
بیان میں دہشت گردی کے مقابلے میں ایران کی حکومت اور عوام سے مکمل یکجہتی کا اعلان کیا گیا ہے۔
کابل میں ایک اور مسجد دہشت گردانہ حملے کا نشانہ بنی، 7 زخمی
طالبان کی وزارت داخلہ کے ترجمان عبدالنافع تکور نے بتایا ہے کہ یہ دہشت گردانہ حملہ شیخ محمد روحانی نام کی مسجد میں ہوا ہے جو کہ کابل کے پانچویں ڈسٹرکٹ میں واقع ہے۔ عبدالنافع تکور نے بتایا ہے کہ اس حملے میں سات لوگ زخمی ہوئے ہیں تاہم مقامی ذرائع نے دس لوگوں کے زخمی ہونے کی اطلاع دی ہے۔
یاد رہے کہ اگست دو ہزار اکیس میں جب طالبان نے اقتدار پر قبضہ کیا تھا تو داعش سمیت مختلف دہشت گرد گروہوں اور عناصر کے حملوں کو روکنے کا عہد کیا تھا تاہم اب تک یہ وعدہ پورا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔
پچھلے مہینوں کے دوران داعش نے کابل سمیت افغانستان کے مختلف شہروں میں انتہائی خوفناک دہشت گردانہ حملے کرکے سیکڑوں افغان شہریوں کو خاک و خون میں غلطاں کردیا ہے۔
داعش کی طرف سے خاص طور پر شیعہ مسلمانوں کے مقدس مقامات اور اسی طرح تعلیمی مراکز کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔
ایران اور یوکرین کے وزرائے خارجہ کے مابین ٹیلی فون پر رابطہ
سحر نیوز/ ایران: وزیرخارجہ حسین امیر عبداللہیان نے اپنے یوکرینی ہم منصب دیمتری کولبا سے ٹیلی فون پر بات چیت کی اور جنگ یوکرین میں ایرانی ڈرون طیاروں کے استعمال کے دعو ے کو سختی کے ساتھ مسترد کردیا۔
وزیر خارجہ نے ایک بار پھر یہ بات زور دے کرکہی کہ ایران کی خارجہ پالیسی مکمل طور سے واضح اور واحد معیار پر استوار ہے اور تہران یوکرین سمیت دنیا کے کسی بھی خطے میں جنگ کا حامی نہیں ۔
انہوں نے اپنے یوکرینی ہم منصب کو نصیحت کی کہ وہ بعض انتہا پسند مغربی سیاستدانوں کے بیانات سے ہرگز متاثر نہ ہوں ۔
ایران کے وزیر خارجہ نے کہا کہ تہران ، دونوں ملکوں کے فوجی ماہرین کے درمیان براہ راست بات چیت اور مشترکہ تحقیقات کے لیے آمادہ ہے۔
یوکرین کے وزیر خارجہ دی متری کولبا نے اس موقع جنگ یوکرین کے بارے میں ایران کے موقف کو سراہتے ہوئے کہا کہ کی ایف دونوں ملکوں کے فوجی ماہرین کے درمیان براہ راست بات چیت کی پیشکش کا خیر مقدم کرتا ہے۔
ایران میں اہل سنت عالم دین و امام جمعہ شہر سیریک : انقلاب اسلامی اور ولایت فقیہ کا دفاع اہل سنت کے لیے باعث افتخار ہے، مولوی شیخ علی ماہیگیر
حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، شہر سیریک کے اہلسنت امام جمعہ شیخ علی ماہیگیر نے ولایت فقیہ اور ایران کی حمایت میں بندر عباس میں شیعہ سنی طلبہ اور علماء کے اجتماع میں ایران میں حالیہ بلوائیوں کے حملوں اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے کہا: حضرت احمد موسی شاہچراغ (ع) کے حرم میں دہشت گردی کے المناک واقعہ نے ہر ایرانی کے دل کو رنجیدہ کردیا ہے جس پر میں ولی امر اور ملت ایران کی خدمت میں تعزیت عرض کرتا ہوں۔
انہوں نے مزید کہا: دشمن کے پروپیگنڈے کے برخلاف ہمارے ملک کے اہلسنت گزشتہ چار دہائیوں سے مقاومتی (مزاحمتی) محاذ کا ناقابل انکار حصہ ہیں۔
شہر سیریک کے اہل سنت امام جمعہ نے کہا: اہل سنت نے انقلاب اسلامی کے آغاز سے لے کر اب تک مسلط کردہ جنگ سمیت ملکی تمام بحرانوں میں اپنا مؤثر کردار ادا کیا ہے اور یہ چیز جماعت اہلسنت کے لیے افتخار کا باعث ہے۔
شیخ علی ماہیگیر نے کہا: میں ولی امر اور پائیدار ایران کی حمایت کو اپنی عقلی اور شرعی ذمہ داری سمجھتا ہوں اور امام راحل بانیٔ انقلاب اسلامی کے بیانات سے الہام لیتے ہوئے ولایت فقیہ کی حمایت کو ولایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حمایت قرار دیتا ہوں۔
انہوں نے کہا: ولایت فقیہ وہ عظیم میراث ہے کہ جس کا دفاع اور حمایت ضروری ہے تاکہ ہم اسلامی اہداف کو حاصل کرسکیں۔
اہل سنت کے اس امام جمعہ نے کہا: دشمن مضبوط اور طاقتور ایران سے خائف ہے۔
انہوں نے کہا: اسلامی سرزمین قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ دشمن مسلمانوں کے درمیان اختلافات ایجاد کر کے ان وسائل کو اپنے کنٹرول میں لینا چاہتا ہے۔






























































![جناب خدیجہ کبری[س] کی سیرت](/ur/media/k2/items/cache/ef2cbc28bb74bd18fb9aaefb55569150_XS.jpg)
