سلیمانی

سلیمانی

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے پیغمبر ختمی مرتبت اور امام جعفر صادق علیہما السلام کے یوم ولادت اور ہفتۂ وحدت اسلامی کی مناسبت سے 14 اکتوبر 2022 کو اسلامی نظام کے سول و فوجی عہدیداران اور وحدت اسلامی کانفرنس کے شرکاء سے خطاب کیا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں پیغمبر اکرم، حضور کی  بعثت، آپ  کی  تعلیمات، عالم اسلام اور مسلمانوں کے مسائل اور توانائیوں پر گفتگو کی۔(1)  خطاب حسب ذیل ہے؛
     

بسم اللّہ الرّحمن الرّحیم

الحمدللّہ ربّ العالمین والصّلاۃ والسّلام علی سیّدنا محمّد و آلہ الطّاھرین و صحبہ المنتجبین و من تبعھم باحسانِ الی یوم الدین.

حاضرین محترم، ملک کے معزز عہدیداران اور ہفتۂ وحدت کے عزیز مہمانوں کو خوش آمدید عرض کرتا ہوں اور یہاں تشریف رکھنے والے آپ تمام عزیزوں، پوری ایرانی قوم اور دنیا کے شرق و غرب میں پوری امت مسلمہ کی خدمت میں رسول اعظم، پیغمبر ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور امام جعفر صادق علیہ السلام کے یوم ولادت کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ہمیں امید ہے کہ آنحضرت اور اللہ کی توجہ کی برکتیں عظیم امت مسلمہ، امت اسلامی کے لیے ان شاء اللہ ترقی و پیشرفت کا باعث ہوں گي۔

پیغمبر اکرم اور رسول اعظم کی لاثانی شخصیت میں ایک نقطۂ عروج پایا جاتا ہے اور وہ ہے بعثت۔ رسول اکرم کی شخصیت پورے عالم وجود میں ایک منفرد اور بے نظیر شخصیت ہے۔ اس شخصیت کے عروج کا نقطہ، معدن عظمت و عزت و حکمت الہی سے آنحضرت کے قلب مطہر کے رابطے کا لمحہ ہے، بعثت کا لمحہ ہے۔ یہ صحیح ہے لیکن پیغمبر کی زندگی کا ہر لمحہ یہاں تک کہ بعثت کے بعد کی زندگي کا ہر لمحہ، بعثت کی حقیقت سے متاثر اور اسی کے مطابق ہے۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ ہم فرض کر لیں کہ بعثت سے پہلے مرسل اعظم کی زندگي، ایک عام انسان کی زندگي تھی، نہیں! آنحضرت کے کام، ان کی الہی برکتیں، ان کی بابرکت ذات سے مادی دنیا میں آنے والی تبدیلیاں، یہ سب غیر معمولی ہیں، سب کی سب ان کی شخصیت کی عظمت کے مطابق ہیں کہ جو بعثت سے عبارت ہے۔ پیغمبر ختمی مرتبت کی زندگي کے ہر دور میں خداوند متعال کی عظمت کی نشانیاں دیکھی جا سکتی ہیں، یہاں تک کہ ان کی ولادت کے وقت بھی۔ ہم نے آج کے دن، پیغمبر کے روز ولادت کے طور پر جشن منایا، عید کا جشن منایا، یہاں تک کہ انسان ان کے یوم ولادت میں بھی اللہ کی نشانیاں اور اس کی برکت کے آثار، جن کا اصل منبع وہی نقطۂ عروج ہے، یعنی بعثت، دیکھ سکتا ہے۔ توحید کے آثار کو اور توحید کی عملی نشانیوں کو انسان، ان کے روز ولادت میں بھی دیکھتا ہے۔ کعبے کے اندر سے لے کر، جہاں بت سر نگوں ہوئے، طاغوتی بتوں سے مقابلے تک، اس وقت کے بڑے انسانی طاغوت، یا یہ کہ کوئی مقدس جھیل سوکھ جاتی ہے، کوئی آتش کدہ، نام نہاد مقدس آتش کدہ بجھ جاتا ہے، کسری کا طاق ٹوٹ جاتا ہے، طاق کسری کے کنگورے گر پڑتے ہیں، اس طرح کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ بنابریں آنحضرت کا یوم ولادت، کوئي معمولی دن نہیں ہے، بہت اہم دن ہے، بہت ہی بڑا دن ہے۔ ہم اس دن کو اس مناسبت سے عید کے طور پر مناتے ہیں۔

بنیادی نکتہ یہ ہے کہ عید منانا، صرف جشن و سرور اور اسی طرح کی دوسری چیزیں نہیں ہے۔ عید منانا، سبق سیکھنے کے لیے ہے۔ پیغمبر کو نمونۂ عمل قرار دینے کے لیے ہے۔ ہمیں اس چیز کی ضرورت ہے، آج انسان کو اس کی ضرورت ہے، آج امت مسلمہ کو اس کی ضرورت ہے، ہمیں سبق سیکھنا چاہیے۔ بنابریں رسول اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مبارک یوم ولادت کی یاد کو زندہ رکھنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم اس آیت کے مضمون پر عمل کر سکیں جس میں کہا گيا ہے: "لَقَد کانَ لَکُم فی رَسولِ اللہِ اُسوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِمَن کانَ یَرجُو اللہَ وَ الیَومَ الآخِرَ وَ ذَکَرَ اللہَ کَثِیرًا"(2) پیغمبر اکرم اسوۂ حسنہ ہیں، بہترین نمونہ ہیں، اسے قرآن صاف لفظوں میں کہہ رہا ہے۔ اسوہ کا کیا مطلب ہے: مطلب یہ ہے کہ وہ ہمارے لیے ایک نمونہ اور آئیڈیل ہیں اور ہمیں اس آئيڈیل کی پیروی کرنی چاہیے، وہ چوٹی پر ہیں، ہمیں اس پستی سے اس چوٹی کی طرف جانا چاہیے، آگے بڑھنا چاہیے۔ انسان کے لیے جہاں تک ممکن ہو اس چوٹی کی طرف بڑھے، اسوہ کا مطلب یہ ہے۔

خیر، اب ہم اس اسوہ، نمونے اور آئيڈیل کی پیروی کرنا چاہتے ہیں۔ جو سبق ہیں وہ ایک دو تو ہیں نہیں، سیکڑوں ہیں، پیغمبر کی انفرادی اور ذاتی زندگی، پیغمبر کی گھریلو زندگي میں، پیغمبر کی حکومت میں، اپنے دوستوں کے ساتھ، دشمنوں کے ساتھ، مومنوں کے ساتھ، کافروں کے ساتھ آپ کے برتاؤ میں اور پیغمبر کی سماجی شخصیت میں سیکڑوں اہم اور بنیادی سبق پائے جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک سبق کو میں آج بیان کرنا چاہتا ہوں اور وہ قرآن مجید کی اس آيت کا مضمون ہے جس میں کہا گيا ہے: "لَقَد جاءَکُم رَسولٌ مِّن اَنفُسِکُم عَزیزٌ عَلَیہِ ما عَنِتُّم حَریصٌ عَلَیکُم بِالمُؤمِنینَ رَؤُفٌ‌ رَّحیمٌ"(3) میں اس "عَزیزٌ عَلَیہِ ما عَنِتُّم" کے مسئلے پر روشنی ڈالوں گا۔ آيت میں کہا گيا ہے کہ پیغمبر کے لیے تمھاری تکلیف اور پریشانی شاق ہے، تکلیف دہ ہے، جب تمھیں کوئي تکلیف ہوتی ہے تو تمھاری تکلیف سے پیغمبر کو تکلیف ہوتی ہے۔ بلاشبہ یہ بات پیغمبر کے زمانے میں موجود مسلمانوں سے مختص نہیں ہے، یہ خطاب پوری تاریخ کے تمام مومنین سے ہے، یعنی اگر آج آپ فلسطین میں تکلیف اٹھا رہے ہیں، میانمار میں، دوسری مختلف جگہوں پر مسلمان تکلیف اٹھا رہے ہیں تو انھیں جان لینا چاہیے کہ یہ تکلیف، پیغمبر کی روح مطہر کو بھی تکلیف پہنچاتی ہے، یہ بہت اہم ہے۔ ہمارے رسول اکرم اس طرح کے ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی یہ حالت جو اس آيت میں بیان کی گئي ہے، دشمنوں کی حالت کے بالکل برخلاف ہے اور وہ حالت اس آيت میں بیان کی گئي ہے: "یا اَیُّھَا الَّذینَ آمَنوا لا تَتَّخِذوا بِطانَۃً مِن دونِکُم‌ لا یَالونَکُم خَبالًا وَدّوا ما عَنِتُّم"(4) یہاں دشمنوں کے لیے کہا گيا ہے: "وَدّوا ما عَنِتُّم" تمھاری تکلیف انھیں خوش کرتی ہے۔ ہم اس وقت اس طرح کے حالات میں ہیں، موجودہ دنیا میں اپنی حالت کو سمجھنے پر توجہ دیجیے۔

ایک طرف وہ پاکیزہ اور مقدس ذات ہے جو "عَزیزٌ عَلَیہِ ما عَنِتُّم" اور دوسری طرف وہ محاذ ہے جو "وَدّوا ما عَنِتُّم" ہے، وہ تمھاری تکلیفوں سے خوش ہوتے ہیں، مسرور ہوتے ہیں، تمھاری پریشانیوں پر وہ خوشی محسوس کرتے ہیں۔ فطری طور پر جب اس محاذ کی یہ کیفیت ہے تو وہ تمھیں سختی، پریشانی اور تکلیف کی طرف دھکیلنے کی کوشش کرے گا۔ ہمیں یہ کیفیت اور حالت سمجھنی چاہیے، جاننی چاہیے اور اس پر توجہ دینی چاہیے۔

اب سوال یہ ہے کہ اس زمانے میں امت اسلامی کی تکلیفوں اور مصائب کا سرچشمہ کیا ہے؟ کیوں مسلم اقوام معاشی لحاظ سے، سیاسی دباؤ کے لحاظ سے، جنگ شروع کرنے، خانہ جنگیوں، غیر قانونی قبضے، سامراج اور نیو سامراج وغیرہ کے لحاظ سے اس قدر تکلیف میں ہیں؟ مسلمانوں کی اس تکلیف اور تکلیف جھیلنے کی پوزیشن میں پہنچنے کی وجہ کیا ہے؟ اس کے بہت سے اسباب ہیں۔ علمی میدان میں پیچھے رہ جانا اس کی ایک وجہ ہے، سامراجیوں کے تسلط کے سامنے جھک جانا اس کی ایک اور وجہ ہے۔ اس کی مختلف وجوہات ہیں اور جو لوگ سیاست سے تعلق رکھتے ہیں، سیاسی و سماجی مسائل کا تجزیہ کرتے ہیں اور اسی طرح کے دوسرے افراد ہیں جنھوں نے ان میدانوں میں کام کیا ہے، انھوں نے اس سلسلے میں ہزاروں مقالے لکھے ہیں لیکن ایک وجہ جو شاید سب سے اہم ہے یا سب سے اہم اسباب میں سے ایک ہے، وہ ہے مسلمانوں کا انتشار، تفرقہ۔ ہم اپنی قدر نہیں سمجھتے، ایک دوسرے کی قدر نہیں سمجھتے، ہمارے کام میں سب سے بڑی کمی یہ ہے، ہم ایک دوسرے سے الگ ہیں، بکھرے ہوئے ہیں۔

جب ہم بکھرے ہوئے ہیں، ایک دوسرے کے بہی خواہ نہیں ہیں، کبھی کبھی ایک دوسرے کے بدخواہ تک ہو جاتے ہیں تو پھر نتیجہ یہی ہوگا۔ یہاں قرآن مجید ایک بار پھر بڑے صاف لفظوں میں کہتا ہے، واقعی انسانی زندگی کے ان مسائل میں، ہمیں ایسا کوئي اہم مقام نظر نہیں آتا جہاں قرآن مجید نے صاف الفاظ میں بات نہ کی ہو، یہاں بھی وہ کہتا ہے: "وَ اَطِیعُوا اللَہَ وَرَسُولَہُ وَ لَا تَنَازَعُوا فَتَفشَلُوا وَ تَذھَبَ رِیحُکُم"(5) جب تم آپس میں جھگڑوگے تو کمزوری پیدا ہو جائےگی، تَذھَبَ رِیحُکُم یعنی َتذھَبَ عِزّکم یعنی تمھاری عزت ختم ہو جائے گي، تمھاری ہوا اکھڑ جائے گي۔ جب تم آپس میں اختلاف کروگے تو پھر فطری طور پر پستی میں گر جاؤگے، ذلیل و خوار ہو جاؤگے، اپنے اوپر دوسروں کے تسلط کی راہ ہموار کر دوگے، بکھراؤ اور انتشار کا نتیجہ یہ ہے۔

امیر المومنین علیہ السلام نے خطبۂ قاصعہ میں، جو نہج البلاغہ کے سب سے اہم خطبات میں سے ایک ہے، اس بات کو کھل کر بیان کیا ہے۔ وہ اپنے سامعین کو تاریخ کا حوالہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھو پچھلے لوگ جب تک ایک دوسرے کے ساتھ تھے، متحد تھے تو انھوں نے کیا سربلندی حاصل کی اور کس مقام تک پہنچے لیکن جب وہ یکجہتی کی اس کیفیت سے نکل گئے "فَانظُروا اِلَى ما صاروا اِلَیہِ فی آخِرِ اُمورِھِم حینَ وَقَعَتِ الفُرقَۃُ وَ تَشَتَّتَتِ الاُلفَۃ." اس کے بعد کچھ جملے اسی مفہوم کے ہیں اور پھر آپ فرماتے ہیں جب ایسا ہو گيا، جب جدائي، انتشار اور آپسی دشمنی کا بول بالا ہو گيا "قَد خَلَعَ اللَہُ عَنھُم لِباسَ کَرامَتِہِ وَ سَلَبَھُم غَضارَۃَ نِعمَتِہ."(6) تو خداوند عالم نے عزت و کرامت کے لباس کو ان کے جسم سے اتار لیا، وہ عزت جو ان کے پاس تھی، وہ شرف جو ان کے پاس تھا، وہ نعمت جو خداوند عالم نے انھیں عطا کی تھی، وہ اختلاف اور تفرقے کے سبب ان سے لے لی گئي، چھین لی گئی۔

تو ہمیں واقعی اس کے بارے میں سوچنا چاہیے، اتحاد بین المسلمین کے اس مسئلے کے بارے میں سوچنا چاہیے، آج دشمن ٹھیک اس کے برخلاف چاہتا ہے۔ خطے میں سرطانی خلیے کا ایک گندا بیج بو دیا گيا ہے جس کا نام ہے صیہونی حکومت تاکہ وہ اسلام دشمن مغرب کی چھاؤنی بن جائے، کیونکہ انھوں نے اس وقت وسیع و عریض عثمانی حکومت کو تقسیم کر دیا، تباہ کر دیا، کئي ملکوں میں بانٹ دیا، یہاں ان کی ایک چھاؤنی بھی ہونی چاہیے تھی تاکہ وہ مسلسل قبضہ کرتے رہیں اور اس خطے میں کسی کو اعلی اہداف حاصل نہ کرنے دیں، یہ چھاؤنی، یہی مظلوم فلسطین تھا جس میں انھوں نے آکر اس کام کے لیے خبیث، فاسد، قاتل اور بے رحم صیہونیوں کو بٹھا دیا، ایک جعلی حکومت بنا دی، ایک جعلی قوم بنا دی۔ مسلمان بھی اس طرف متوجہ تھے، اب دشمن کوشش کر رہے ہیں کہ یہ ضرر رساں وجود، یہ بڑھ چکا سرطانی خلیہ، دشمن تصور نہ کیا جائے اور خطے کے ممالک کے درمیان اور زیادہ اختلافات  پیدا کرے۔ ہر جگہ قبضہ کر رہے ہیں، صیہونی حکومت سے تعلقات معمول پر لانے کا یہ عمل، اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ کی جا رہی سب سے بڑی غداری ہے، تفرقہ ڈالنا،  اختلاف پیدا کرنا، دشمن ایسا ہی تو ہے نا؟ دشمن، مسلسل کام کر رہا ہے۔

ہمیں اس یوم ولادت سے یہ سبق حاصل کرنا چاہیے: "لَقَد کانَ لَکُم فی رَسولِ اللہِ اُسوَۃٌ حَسَنَۃٌ" اور رسول اللہ کے بارے میں ہم نے بتایا کہ ان کی کیفیت ایسی ہے۔ اسی لیے ہم نے اسلامی جمہوریہ میں اس دن کو عید کا دن قرار دیا ہے، اتحاد کا دن قرار دیا ہے، یعنی بارہ ربیع الاول سے لے کر، جو پیغمبر کے یوم ولادت کے بارے میں اہلسنت کی روایت ہے، سترہ ربیع الاول تک، جو پیغمبر کے یوم ولادت کے بارے میں شیعوں کی روایت ہے، ان دونوں کے درمیان ہم نے ایک جشن کا ہفتہ قرار دیا ہے اور اس کا نام رکھا ہے، "ہفتۂ وحدت"۔ یہ اچھا کام تھا لیکن اس نعرے کو عملی جامہ پہننا چاہیے، ہمیں اسے عملی جامہ پہنانے کی راہ میں بڑھنا چاہیے۔

شاید آپ یہ کہیں کہ "ہم ملکوں کے سربراہ تو ہیں نہیں۔" ٹھیک ہے، سربراہان مملکت کے محرکات کچھ اور ہوتے ہیں، سیاسی محرکات ہوتے ہیں، دوسرے مقاصد ہوتے ہیں لیکن کسی ملک کے مفکرین، علماء، مصنفین، شعراء، دانشور اور اہم شخصیات اس ماحول کو، دشمن کی خواہش کے برخلاف، بدل سکتی ہیں، جب ماحول بدل جائے گا تو اس نتیجے تک پہنچنا زیادہ آسان ہو جائے گا۔

اب سوال یہ ہے کہ وحدت یا اتحاد کا مطلب کیا ہے؟ وحدت سے مراد قطعی طور پر مذہبی وحدت نہیں ہے، یعنی یہ کہ وہ اس مذہب میں آ جائے اور یہ اس مذہب میں چلا جائے، صرف ایک ہی مذہب رہے، نہیں، قطعی طور پر یہ مراد نہیں ہے۔ وحدت جغرافیائي بھی نہیں ہے، اس چیز کی طرح جو انیس سو ساٹھ اور ستّر کے عشرے میں ہوئي، بعض عرب ملکوں نے اتحاد کر لیا اور اعلان کیا کہ وہ ایک ہیں، حالانکہ وہ نہیں ہو سکا اور ہو بھی نہیں سکتا، ممکن نہیں ہے، یہ بھی مراد نہیں ہے۔ وحدت سے مراد، اسلامی امت کے مفادات کی حفاظت کے لیے اتحاد ہے۔ سب سے پہلے تو ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ امت اسلامیہ کے مفادات کیا ہیں، کہاں ہیں اور پھر اقوام اس سلسلے میں ایک دوسرے سے اتفاق کریں۔ ان شاء اللہ حکومتوں کو بھی اس راستے پر لے آيا جائے، خدا ان کے دلوں کو اس راہ پر لے آئے اور وہ امت مسلمہ کے مفادات کے بارے میں اتفاق کر لیں، دیکھیں کہ آج امت کو کس چیز کی ضرورت ہے، اسے کس سے دشمنی کرنی چاہیے، کس سے کس طرح دشمنی کرنی چاہیے، کس سے دوستی کرنی چاہیے اور کس طرح دوستی کرنی چاہیے، ان ساری باتوں پر مذاکرات اور بات چیت میں اتفاق ہو جائے اور وہ اس راہ میں بڑھنے لگیں، مراد یہ ہے: سامراج کی سازشوں کے مقابلے میں مشترکہ لائحۂ عمل۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ سامراجی دنیا، ہمارے اس خطے اور ممالک کے بارے میں واضح سازشیں رکھتی ہے۔ یہ اسلامی علاقہ، ایک عظیم سرمایہ ہے، ہمارا علاقہ، اگر یہ نہ کہا جائے کہ سب سے زیادہ حساس ہے، تو کم از کم دنیا کے سب سے حساس علاقوں میں سے ایک تو ہے ہی، اگر یہ نہ کہا جائے کہ سب سے مالامال علاقہ تو کم از کم دنیا کے سب سے مالامال علاقوں میں سے ایک ہمارا علاقہ ہے، وسطی ایشیا، مغربی ایشیا اور شمالی افریقا کہ جو اسلامی خطہ ہے، بہت ہی اہم علاقہ ہے۔ سامراج اور سامراجی پالیسیوں کے پس پشت کام کرنے والی طاقتیں یعنی بین الاقوامی کمپنیاں، کارٹلز اور ٹرسٹس نے اس خطے کے بارے میں سازشیں تیار کر رکھی ہیں۔ ان کی سازشوں کے مقابلے میں ہمارے پاس مشترکہ لائحۂ عمل ہونا چاہیے، وحدت کے معنی یہ ہیں۔ ہم نے عالم اسلام کو یہ تجویز دی اور عالم اسلام سے اس کا مطالبہ کیا۔

یہاں پر ایک بنیادی نکتہ پایا جاتا ہے جس کی طرف سے غفلت نہیں برتی جانی چاہیے اور وہ یہ ہے کہ آج، روز بروز یہ بات پہلے سے زیادہ عیاں ہوتی جا رہی ہے کہ عالمی سطح پر سیاسی آرڈر تبدیل ہو رہا ہے، آج روز بروز یہ بات پہلے سے زیادہ عیاں ہوتی جا رہی ہے کہ دنیا کا سیاسی نقشہ بدل رہا ہے۔ ایک بڑی طاقت کی جانب سے – یا دو طاقتوں کی جانب سے، اس سے کوئي خاص فرق نہیں پڑتا – دیگر ملکوں اور اقوام وغیرہ پر رعب جمانے کا نظام اور یونی پولر سسٹم اپنی حیثیت کھو چکا ہے، یعنی اقوام بیدار ہو گئي ہیں۔ یک قطبی نظام، درکنار کر دیا گيا ہے اور بتدریج اپنے خاتمے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ آج آپ دنیا میں پہلے درجے کے سیاستدانوں کی زبان سے یہ بات کافی سنتے ہیں کہ ہم یک قطبی نظام کو تسلیم نہیں کرتے۔ یک قطبی نظام کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ مثال کے طور پر امریکا بیٹھ کر عراق کے لیے، یا شام کے لیے یا ایران کے لیے یا لبنان کے لیے یا کسی اور ملک کے لیے یہ پلاننگ کرے کہ "یہ کام کیجیے، یہ ہونا چاہیے، یہ نہیں ہونا چاہیے۔" کبھی کہے اور کبھی نہ کہے لیکن عملی طور پر یہی کرے۔ آج ایسا ہی ہے، وہ لوگ ملکوں کے بارے میں پلاننگ کرتے ہیں اور اپنی فورسز کو لام بند کرتے ہیں۔

تو ان کے پاس سازش ہے، سامراج کے پاس سازشیں اور چالیں ہیں لیکن یہ صورت حال بدل رہی ہے۔ ملکوں، اقوام اور مختلف علاقوں پر سامراج کا جو تسلط تھا، یہ حالت رفتہ رفتہ بدل رہی ہے، ٹھیک ویسے ہی جیسے بیسویں صدی کے اواسط میں سامراج مخالف تحریکوں کے دوران ہوا تھا، جب ملکوں نے سامراج کے خلاف لگاتار قیام کیا تھا – ایشیا میں ایک طرح سے، افریقا میں کسی اور طرح سے، لاطینی امریکا میں ایک دوسرے طریقے سے – کہ اس وقت دنیا کے سیاسی نقشے میں بڑی تبدیلی آئي تھی، آج بھی ایک بڑی تبدیلی آ رہی ہے۔ اقوام کے خلاف عالمی سامراج کا خاموشی سے کیا جانے والا یہ کام واضح طور پر رفتہ رفتہ اپنا جواز کھوتا جا رہا ہے، شروع سے ہی اسے قانونی جواز تو حاصل ہی نہیں تھا لیکن اس کے سلسلے میں اقوام کی رائے مزید واضح ہوتی جا رہی ہے۔ تو ایک نئي صورتحال سامنے آئے گی، ایک نئي دنیا وجود میں آئے گی۔ ممکن ہے کہ ہم پوری طرح سے اندازہ نہ لگا پائيں کہ یہ نئي دنیا کیسی ہوگي لیکن ہمیں پورا یقین ہے کہ تدریجی طور پر آئندہ برسوں میں ایک نئي دنیا تشکیل پائے گی۔ تو اس نئي دنیا میں امت اسلامیہ کی پوزیشن کیا ہوگي؟ یہ اہم سوال ہے۔

امت مسلمہ یعنی ڈیڑھ ارب سے زیادہ انسان، ہماری اس عظیم اور درخشاں تاریخ کے ساتھ – جی ہاں پچھلی کچھ صدیوں میں ہم علمی لحاظ سے پچھڑے ہیں لیکن اس سے پہلے علم کی چوٹی ہم مسلمانوں کے اختیار میں تھی، یہ ہمارا ورثہ ہے، ہمارے کنٹرول میں ہے – قدرتی ثروت کے ساتھ، انسانی ثروت کے ساتھ، جدیدیت کے لیے نئے محرکات کے ساتھ، ان خصوصیات کے حامل اس عالم اسلام اور امت مسلمہ کی پوزیشن کیا ہے؟ یہ جو نئي دنیا وجود میں آ رہی ہے، اس میں ہم کہاں ہوں گے؟ ہمارے قدم رکھنے اور موجودگي کا مقام کہاں ہوگا؟ یہ بہت اہم ہے، یہ وہ مسئلہ ہے جس کے بارے میں امت اسلامیہ کو سوچنا چاہیے۔ مغربی دنیا اور یورپ میں جو یہ واقعات ہو رہے ہیں، یہ عام اور معمولی حالات نہیں ہیں، یہ اہم تبدیلیوں کی عکاسی کرتے ہیں۔

ہم بہت اہم رول ادا کر سکتے ہیں۔ ہم امت مسلمہ، ہم اسلامی ممالک اور اسلامی اقوام نئي دنیا میں، جو تدریجی طور پر وجود میں آ رہی ہے، اعلی مقام حاصل کر سکتے ہیں، ایک آئیڈیل کے طور پر سامنے آ سکتے ہیں، علمبردار کے طور پر سامنے آ سکتے ہیں لیکن اس کی ایک شرط ہے، وہ شرط کیا ہے؟ اتحاد، تفرقے سے دوری، دشمن کے وسوسوں کے شر سے نجات، امریکا کے وسوسوں، صیہونیوں کے وسوسوں، کمپنیوں کے وسوسوں سے رہائي، ان وسوسوں کے شر سے رہائی جو کبھی کبھی اپنے لوگوں کی زبان سے سنائي دیتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ عالم اسلام میں، عالم اسلام کے اندر سے کچھ لوگ ان ہی لوگوں کی باتیں دوہراتے ہیں، وہی باتیں کرتے ہیں، اتحاد کے ذریعے، تفرقے سے دوری کے ذریعے، آپسی یکجہتی کے ذریعے ان کے شر سے نجات حاصل کریں، شرط یہ ہے۔ اگر ہم یہ شرط پوری کر سکے تو بلاشبہ امت مسلمہ، آئندہ دنیا میں اور دنیا کے آئندہ سیاسی جغرافیے میں اعلی مقام پر فائز ہوگي۔

کیا یہ ممکن ہے؟ کچھ لوگ ہیں جو تمام اہم مسائل میں، ان کا پہلا اقدام اور پہلا ردعمل، انکار اور مایوسی ہے: "ارے جناب یہ نہیں ہو سکتا، اس کا کوئي فائدہ نہیں ہے۔" ہم اسے نہیں مانتے، ہم کہتے ہیں کہ یہ ممکن ہے، اسلامی اقوام کے درمیان اتحاد اور وحدت ممکن ہے، لیکن اس کے لیے کچھ کام کرنے ضروری ہیں، عمل ضروری ہے۔ میں نے عرض کیا کہ ہم اسلامی ملکوں کے سیاستدانوں اور حکمرانوں سے مایوس بھی نہیں ہیں لیکن ہماری زیادہ تر امید عالم اسلام کی اہم شخصیات سے ہے، یعنی جیسا کہ ہم نے کہا، علمائے دین سے، مفکرین سے، یونیورسٹیوں کے پروفیسروں سے، روشن فکر نوجوانوں سے، دانشوروں سے، ادیبوں سے، مصنفوں سے، پرنٹ میڈیا کے ذمہ داران سے،  ہمیں ان سے امید ہے، انھیں خود مختاری محسوس کرنی چاہیے، ذمہ داری محسوس کرنی چاہیے، فرض کا احساس کرنا چاہیے۔ جب اہم شخصیات کسی راستے پر چل پڑتی ہیں تو رائے عامہ بھی اسی سمت میں بڑھنے لگتی ہے۔ جب کسی ملک میں رائے عامہ تشکیل پا جاتی ہے تو اس ملک کا انتظام چلانے کی پالیسیاں بھی اسی سمت میں بڑھنے لگتی ہیں، مجبور ہیں، ناچار ہیں۔ بنابریں یہ ایک ممکن کام ہے، یہ ہو سکتا ہے، لیکن عمل کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ دنیا میں کسی بھی چیز کا عمل کے بغیر نہ دنیوی نتیجہ نکلتا ہے نہ اخروی و الہی نتیجہ سامنے آتا ہے: "لَیسَ لِلاِنسانِ اِلّا ما سَعىٰ"(7) کوشش کرنی چاہیے، عمل کرنا چاہیے، اگر ہم عمل کریں گے تو یہ ممکن ہے۔

میں اس کی ایک چھوٹی سی مثال پیش کرتا ہوں۔ اس کا چھوٹا سا نمونہ ہم ہیں، اسلامی جمہوریہ۔ ہم بڑی طاقتوں کے مقابلے میں ڈٹ گئے۔ کبھی یہ دنیا دو بڑی طاقتوں کے ہاتھ میں تھی: امریکا کی طاقت اور سابق سوویت یونین کی طاقت۔ دونوں طاقتیں، جو دسیوں معاملوں میں ایک دوسرے سے اختلاف رکھتی تھیں، مگر ایک بات میں اتفاق رائے رکھتی تھیں اور وہ، اسلامی جمہوریہ کی مخالفت تھی۔ امریکا اور سابق سوویت یونین، اپنے ان تمام تر اختلافات کے باوجود، اسلامی جمہوریہ کی مخالفت میں اتفاق رائے رکھتے تھے، متفق تھے۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ ان کے مقابلے میں ڈٹ گئے، جھکے نہیں، انھوں نے صاف لفظوں میں کہا: "نہ شرقی، نہ غربی" (نہ مشرق اور نہ مغرب) نہ یہ، نہ وہ۔ کامیاب ہو گئے، لوگ سوچ رہے تھے کہ ممکن نہیں ہے، سوچ رہے تھے کہ اس پودے کو جڑ سے اکھاڑ دیں، آج وہ پودا ایک تناور درخت میں بدل چکا ہے، اب وہ اسے اکھاڑنے کے بارے میں سوچ تک نہیں سکتے! ہم ڈٹ گئے اور آگے  بڑھتے گئے۔ البتہ دشواریاں ہیں، ہر چیز میں دشواری ہے، بغیر دشواری کے تو کچھ ہو ہی نہیں سکتا۔ جو لوگ جھک جاتے ہیں، ان کے لیے بھی دشواری ہے۔ دشواری صرف استقامت میں نہیں ہے، سر جھکانے کی بھی دشواریاں ہیں، اس فرق کے ساتھ کہ جب انسان استقامت کرتا ہے تو سختی اسے آگے لے جاتی ہے – ہم سختیاں اٹھاتے ہیں لیکن آگے بڑھتے ہیں – جو سر جھکا دیتا ہے وہ سختی اٹھاتا ہے اور پیچھے جاتا ہے، پیشرفت نہیں کرتا۔ بنابریں ہماری رائے میں کام کیا جا سکتا ہے، کوشش کی جا سکتی ہے، تمام تر اختلافات کے باوجود امت مسلمہ میں اسلام اور قرآن کے پیش نظر جو اتحاد ہونا چاہیے، اس کی طرف بڑھا جا سکتا ہے۔

کچھ فاصلے قومیتی ہیں، کچھ نسلی ہیں، کچھ لسانی ہیں، یہ اہم نہیں ہے، میرے خیال میں آج جس چیز پر سب سے زیادہ توجہ دی جانی چاہیے وہ مسلک کا مسئلہ ہے، شیعہ اور سنی کی بحث ہے۔ ہمیں عقیدے میں اختلاف اور مسلکی اختلاف کو تنازعے میں نہیں بدلنے دینا چاہیے، یہ نہیں ہونے دینا چاہیے۔ کچھ چیزیں ہیں جو تنازعہ پیدا کرتی ہیں، انھیں روکنا چاہیے، سنجیدگي سے روکنا چاہیے۔ آپ دیکھ ہی رہے ہیں کہ امریکی اور برطانوی سیاستداں بھی اپنی نشستوں میں شیعہ اور سنّی کی باتیں کرنے لگے ہیں، یہ بہت خطرناک چیز ہے، بہت خطرناک ہے۔ یہ لوگ جو اسلام کے مخالف ہیں، وہ نہ شیعہ کے لیے بہتر ہیں، نہ سنّی کے لیے، یہ لوگ شیعہ اور سنی کی باتیں کر رہے ہیں۔

میں نے کبھی کہا تھا "انگریز شیعہ" اور "امریکی سنّی"(8) بعض لوگوں نے سوچا یعنی دروغگوئي سے کام لے کر یہ پروپیگنڈہ کیا کہ ہم جو کہتے ہیں انگریز شیعہ اس کا مطلب ہے  برطانیہ میں رہنے والا شیعہ، نہیں، ممکن ہے کہ انگریز شیعہ خود اسلامی ملک میں ہو، یہ برطانیہ کے اشاروں پر کام کرنے کے معنی میں ہے، یعنی ٹکراؤ پیدا کرنے والا شیعہ، جھگڑا کھڑا کرنے والا سنّی، جیسے داعش، جیسے وہابی وغیرہ جو جھگڑے کھڑے کرتے رہتے ہیں یا تکفیری جو کہتے ہیں یہ کافر ہے، وہ کافر ہے۔ ان لوگوں کا نام مسلمانوں والا ہے، ممکن ہے کہ  انفرادی طور پر اسلامی احکام کی سختی سے پابندی بھی کرتے ہوں لیکن یہ دشمن کی خدمت کی راہ پر چل رہے ہیں۔

جو اختلاف پیدا کرتا ہے، وہ دشمن کی خدمت کر رہا ہے، اس میں کوئي فرق نہیں ہے، چاہے وہ جس پوزیشن پر ہو، جس عہدے پر ہو، جس ملک میں ہو۔ ہمارا یہ ماننا ہے، ہم بھرپور طریقے سے اس بات کو مانتے ہیں۔ ہم لوگوں سے نمٹے اور بھرپور طریقے سے نمٹے جو تشیع کی حمایت کے نام پر سنّی بھائيوں کے جذبات بھڑکاتے تھے، یہ چیز ہمہ گیر ہو جانی چاہیے، اس سلسلے میں اتفاق رائے پیدا ہونا چاہیے۔ البتہ دونوں طرف شدت پسند لوگ پائے جاتے ہیں، شیعوں میں بھی ایسے افراد ہیں جو اپنے عقائد کی بنیاد پر یا کسی بھی اور وجہ سے شدت پسندی سے کام لیتے ہیں، سنّیوں میں بھی ایسے لوگ ہیں جو شدت پسند ہیں، شدت پسندی پائي جاتی ہے۔ شدت پسندوں کی اس شدت پسندی کو اس کا لائسنس نہیں سمجھ لینا چاہیے کہ ہم خود مذہب پر الزام تراشی کریں، ہمارا خود کا عمل اس طرح کا رہا ہے۔

ہم نے دیکھا کہ وہابیوں نے دو سو سال پہلے، ائمہ کی قبور کو مسمار کر دیا، وہ کربلا گئے اور سید الشہداء علیہ السلام کی قبر اطہر کو مسمار کر دیا، لکڑی کی ضریح  تھی، اسے جلا دیا، حرم کے اندر آگ جلائي، کافی بنائي، کافی پی، یہ سب ہوا۔ پھر وہ لوگ نجف گئے لیکن شہر کے اندر نہیں جا سکے، مرحوم شیخ جعفر کاشف الغطاء کی وجہ سے، جن کے پاس فورس تھی اور انھوں نے دینی طلباء اور دوسروں کو لام بند کر دیا، نجف شہر کے اطراف میں فصیل تھی، اس لیے وہ لوگ نجف نہیں جا سکے، کوفے چلے گئے اور مسجد کوفہ میں، بہت سارے لوگوں کا، جو شیعہ تھے، انھوں نے قتل عام کیا۔ یہ اس بات کا سبب نہیں بنا کہ شیعہ علماء، بزرگ علماء، شیعہ مراجع کرام، اہلسنت پر الزام تراشی کریں، نہیں یہ شدت پسند لوگ تھے جنھوں نے یہ کام کیا تھا۔ خود ہمارے زمانے میں داعش گروہ، عراق میں ایک طرح سے، شام میں کسی دوسری طرح سے اور حال ہی میں افغانستان میں کسی اور طرح سے بچوں کے اسکول پر بھی رحم نہیں کرتا، بچیوں کے اسکول اور بچوں کے اسکول کو دھماکے سے اڑا دیتا ہے، گھر والوں کو ان کے بچوں کا داغ دیتا ہے، وہ لوگ یہ کام کرتے ہیں لیکن ہم کسی بھی صورت میں اور کبھی بھی اہلسنت پر الزام نہیں عائد کرتے، یہ شدت پسند لوگ ہیں۔ دوسری طرف بھی ایسا ہی ہونا چاہیے، ممکن ہے کچھ لوگ شدت پسندی سے کام لیں لیکن ان کی شدت پسندی کی وجہ سے پورے شیعہ معاشرے پر الزام تراشی نہیں کرنی چاہیے۔ اس سلسلے میں کام ہونا چاہیے، علمائے اسلام کو کام کرنا چاہیے۔

ہم اس تفرقے اور بکھراؤ کی وجہ سے چوٹ کھا رہے ہیں، فلسطین میں چوٹ کھا رہے ہیں، مختلف ملکوں میں مار کھا رہے ہیں۔ فلسطین میں صیہونی روزانہ لوگوں کو قتل کر رہے ہیں، چھوٹے بچے کا قتل کر رہے ہیں، جوان کا قتل کر رہے ہیں، نوجوان کا قتل کر رہے ہیں، ضعیفوں کو قتل کر رہے ہیں، جیلوں میں ڈال رہے ہیں، جیلوں میں ہزاروں لوگوں کو ایذائيں دے رہے ہیں، یہ سب ہو رہا ہے اور یہ سب ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔ میانمار میں اس طرح سے، دوسری جگہوں پر دوسری طرح سے، یہ سب سخت ہے، یہ امت مسلمہ کے لیے سخت ہے، عَزیزٌ عَلَیہِ ما عَنِتُّم، یہ چیزیں پیغمبر اکرم کو تکلیف پہنچاتی ہیں، ان کے لیے کچھ سوچنا چاہیے، کوشش کرنی چاہیے۔ قرآن مجید رسول اکرم سے کہتا ہے: قُل یا اَھلَ الکِتابِ تَعالَوا اِلىٰ کَلِمَۃٍ سَواءٍ بَینَنا وَ بَینَکُم، اہل کتاب، مسلمان بھی نہیں ہیں لیکن ان کا آپس میں ایک مشترکہ پہلو ہے اور وہ ہے توحید، کیونکہ توحید تو تمام ادیان میں ہے، توحید، تمام ادیان کی اساس ہے: اَلّا نَعبُدَ اِلَّا اللَہ۔ پیغمبر، اسلام اور دیگر ادیان کے درمیان پائے جانے والے اسی مشترکہ پہلو سے استفادہ کرتے ہیں، یعنی قرآن حکم دیتا ہے کہ کہہ دیجیے: تَعالَوا اِلىٰ کَلِمَۃٍ سَواءٍ بَینَنا وَ بَینَکُم اَلّا نَعبُدَ اِلَّا اللَہَ وَ لا نُشرِکَ بِہِ شَیئًا وَ لا یَتَّخِذَ بَعضُنا بَعضًا اَربابًا مِن دونِ اللَہ.(9) غیر مسلمانوں کے لیے اس طرح سے کہتا ہے! ہم مسلمانوں کے اتنے زیادہ مشترکہ پہلو ہیں: کعبہ ایک، قبلہ ایک، نماز ایک، حج ایک، عبادات ایک، پیغمبر ایک، پورے عالم اسلام میں اہلبیت سے محبت، یہ سب ہمارے مشترکہ پہلو ہیں۔ ہمیں ان مشترکہ پہلوؤں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔

خیر، ہم نے اب تک کوشش کی ہے، ہماری جتنی استطاعت اور طاقت تھی، اسے ہم نے اب تک اس سلسلے میں استعمال کیا ہے، اس کے بعد بھی ہم یہی کریں گے۔ ہم نے فلسطینی بھائيوں کی، جو سبھی اہلسنت ہیں، ہر لحاظ سے حمایت کی ہے، سیاسی لحاظ سے اور عملی پہلوؤں سے حمایت کی ہے، آگے بھی حمایت کرتے رہیں گے۔ ہمارے لیے کوئي فرق نہیں ہے، یہاں ہمارے لیے جو چیز اہم ہے وہ اسلامی راہ اور اسلامی نظام ہے۔ یہ جو استقامتی محاذ ہے، جو آج بحمد اللہ عالم اسلام میں تشکیل پایا ہے، ہم اس کی حمایت کرتے ہیں، جہاں تک ہم سے ممکن ہے، جہاں تک ہماری توانائي ہے، ہم اس کی حمایت کرتے رہیں گے، پہلے بھی کرتے رہے ہیں، آگے بھی کرتے رہیں گے۔

ہمیں امید ہے کہ ان شاء اللہ خداوند عالم ہم سب کی ہدایت کرے گا، ان شاء اللہ ہم اس راہ میں آگے بڑھ سکیں اور اس عظیم آرزو کو، جو عالم اسلام کی سر کردہ شخصیات کی بڑی آرزو رہی ہے اور قطعی طور پر نبی مکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پاکیزہ روح کی بھی آرزو ہے، یعنی وحدت اسلامی کو، ان شاء اللہ عملی جامہ پہنا سکیں۔

والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

(1) اس ملاقات کی ابتدا میں صدر مملکت حجۃ الاسلام و المسلمین سید ابراہیم رئیسی نے تقریر کی۔ چھتیسویں بین الاقوامی وحدت اسلامی کانفرنس، 12 اکتوبر 2022 سے تہران میں شروع ہوئي۔

(2) سورۂ احزاب، آیت 21، بے شک تمہارے لیے پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی ذات میں (پیروی کے لیے) بہترین نمونہ موجود ہے۔ ہر اس شخص کے لیے جو اللہ (کی بارگاہ میں حاضری) اور قیامت (کے آنے) کی امید رکھتا ہے اور اللہ کو بکثرت یاد کرتا ہے۔

(3) سورۂ توبہ، آیت 128، (اے لوگو!) تمہارے پاس (اللہ کا) ایک ایسا رسول آگیا ہے جو تم ہی میں سے ہے جس پر تمہارا زحمت میں پڑنا شاق ہے، وہ تمہاری بھلائی کا حریص ہے اور ایمان والوں کے ساتھ بڑی شفقت اور مہربانی کرنے والا ہے۔

(4) سورۂ آل عمران، آیت 118، اے ایمان والو! اپنے (لوگوں کے) سوا دوسرے ایسے لوگوں کو اپنا جگری دوست (رازدار) نہ بناؤ جو تمھیں نقصان پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ جو چیز تمھیں مصیبت و زحمت میں مبتلا کرے وہ اسے پسند کرتے ہیں۔

(5) سورۂ انفال، آیت 46، اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑا نہ کرو ورنہ تم کمزور پڑ جاؤگے اور تمھاری ہوا اکھڑ جائے گی۔

(6) نہج البلاغہ، خطبہ نمبر 192

(7) سورۂ نجم، آیت 39، اور انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔

(8) پیغمبر ختمی مرتبت اور امام جعفر صادق علیہما السلام کے یوم ولادت کے موقع پر اسلامی نظام کے عہدیداران اور وحدت اسلامی کانفرنس کے شرکاء سے خطاب۔ (17/12/2016)

 

(9) سورۂ آل عمران، آیت 64، (اے رسول!) کہہ دیجیے کہ اے اہل کتاب! آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمھارے درمیان مشترک اور یکساں ہے (اور وہ یہ کہ) ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ بنائیں اور ہم میں سے کوئی کسی کو اللہ کے سوا اپنا رب نہ بنائے۔

 

پیغمبر اعظمؐ رحمت للعالمین خاتم النبین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کے موقع پر میلاد اور وحدت امت کے عنوان سے کانفرنسوں کا سلسلہ جاری ہے۔ خاص طور پر 12 ربیع الاول سے 17 ربیع الاول تک دنیا بھر میں اسی مناسبت سے ہفتہ وحدت منایا گیا۔ یاد رہے کہ ان ایام میں ہفتہ وحدت کی بنیاد اسلام کے بطل جلیل امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے رکھی تھی، تاکہ مسلمان جو الگ الگ ایام میں آپؐ کا روز ولادت مناتے ہیں، وہ پورا ہفتہ وحدت کے عنوان سے منائیں، کیونکہ آپ ہی کی ذات والا صفات امت اسلامیہ کے لیے ایک حقیقی مرکز کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس پس منظر میں ملی یکجہتی کونسل پاکستان کے زیراہتمام مثل سابق گذشتہ روز اسلام آباد میں ایک عظیم الشان وحدت کانفرنس منعقد ہوئی، جس کی میزبانی نہایت عمدگی سے کونسل کی رکن جماعت مجلس وحدت مسلمین پاکستان نے کی۔ اس کانفرنس کا عنوان تھا ’’عشق پیغمبر اعظمؐ: مرکز وحدت مسلمین۔‘‘

اس میں شک نہیں کہ جب تک عشق مصطفیٰ ؐسے دل نہ دھڑکے اور آپ کی محبت میں آنکھوں سے آنسو نہ برسیں تو لفظی عقیدہ حقیقی تاثیر مرتب نہیں کرسکتا اور یہ عشق ہی ہے، جو دلوں کو منقلب کرتا ہے اور آپؐ کے توسط سے بندے کو خدا سے جوڑتا ہے اور آپؐ کے عشق کے نتیجے میں انسان آپؐ کے ماننے والوں سے بھی محبت کرنے لگتا ہے۔ آپؐ کو رحمت للعالمین ماننے کے بعد انسان کا وجود تمام عالمین کے لیے خود خیر کا مرکز اور مصدر بن جاتا ہے۔ ملی یکجہتی کونسل پاکستان کے وجود کا مقصد ہی امت اسلامیہ کے اندر سے افتراق و انتشار کا خاتمہ، تکفیریت اور شدت پسندی کا استیصال اور امت اسلامیہ کے مختلف موتیوں کو ایک لڑی میں پرونا ہے۔ اس کونسل کی کوششوں کے نتیجے میں پاکستان میں بہت حد تک تکفیریت اور شدت پسندی کا خاتمہ ہوا ہے۔ محبت اور اخوت کی فضا عام ہوئی ہے اور اس دھرتی کے مسلمانوں نے سکھ کا سانس لیا ہے۔

اس کونسل کے پہلے صدر مولانا شاہ احمد نورانی مرحوم تھے اور ان کی رحلت کے بعد جناب قاضی حسین احمد مرحوم نے اس کے احیاء میں بنیادی کردار ادا کیا۔ قاضی صاحب مرحوم کے سانحۂ ارتحال کے بعد عبوری طور پر علامہ سید ساجد علی نقوی جو اس وقت سینیئر نائب صدر تھے، انہیں عبوری طور پر کونسل کا صدر منتخب کر لیا گیا۔ بعدازاں جناب محترم صاحبزادہ ڈاکٹر ابو الخیر محمد زبیر کو کونسل کا مرکزی صدر منتخب کیا گیا، جو جمعیت علمائے پاکستان کے بھی صدر ہیں۔ اس وقت کونسل انہی کی قیادت میں اتحاد امت کا علم لے کر اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔ ’’عشق پیغمبر اعظمؐ: مرکز وحدت مسلمین‘‘ کانفرنس کا انعقاد انہی کوششوں کا حصہ ہے۔ قاضی صاحب مرحوم کے زمانے سے لے کر آج تک کونسل ہر سال ربیع الاول میں وحدت امت کے حوالے سے کانفرنسوں کا انعقاد کرتی چلی آئی ہے۔ مختلف مواقع پر کونسل کی مختلف رکن جماعتوں نے ان کانفرنسوں کی میزبانی کا فریضہ انجام دیا ہے۔ گذشتہ سال بھی مجلس وحدت مسلمین نے یہ گراں قدر خدمت اپنے ذمے لی اور اب کے برس بھی اس نے اس عظیم وظیفہ الٰہی کی انجام دہی اپنے دوش پر اٹھا لی اور یہ کہے بغیر چارا نہیں کہ اس نے نہایت شاندار طریقے سے اس خدمت کو انجام دیا۔

کانفرنس کی صدارت ملی یکجہتی کونسل کے سیکرٹری جنرل جناب لیاقت بلوچ نے کی۔ مہمان خصوصی کانفرنس کے میزبان محترم جناب علامہ راجا ناصر عباس جعفری تھے۔ دیگر شخصیات میں جناب صاحبزادہ نورالحق قادری سابق وفاقی وزیر برائے مذہبی امور، جناب حامد رضا سربراہ سنی اتحاد کونسل، جناب خواجہ معین الدین محبوب کوریجہ سربراہ علماء مشائخ رابطہ کونسل، جناب سید ناصر شیرازی سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین، جناب عبداللہ گل چیئرمین تحریک جوانان پاکستان، جناب صاحبزادہ محمد صفدر گیلانی مرکزی سیکرٹری جنرل جمعیت علمائے پاکستان، جناب مفتی گلزار احمد نعیمی سربراہ جماعت اہل حرم پاکستان، جناب عبدالرشید ترابی صدر ملی یکجہتی کونسل آزاد جموں و کشمیر، جناب ڈاکٹر طارق سلیم صدر ملی یکجہتی کونسل پاکستان شمالی پنجاب، جناب پروفیسر حافظ محمد صدیق عابد نائب ناظم اعلیٰ جماعت اہل حدیث پاکستان، جناب طاہر رشید تنولی مرکزی جوائنٹ سیکرٹری جمعیت علمائے پاکستان، جناب سینیٹر گل نصیب مرکزی راہنماء جمعیت علمائے اسلام (شیرانی)۔

جناب نسیم علی شاہ ہاشمی رکن اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان، جناب علامہ احمد اقبال رضوی مرکزی راہنماء ایم ڈبلیو ایم، جناب قاضی شفیق صدر پاکستان عوامی تحریک پنجاب، جناب مفتی عبداللہ ایڈووکیٹ صوبائی نائب امیر جمعیت علمائے اسلام پاکستان، جناب مولانا عبدالمالک مجاہد نائب ناظم اعلیٰ متحدہ جمعیت اہل حدیث، مولانا سید عبدالحسین الحسینی رکن سپریم کونسل مجلس علمائے شیعہ، جناب علامہ سید حسنین عباس گردیزی مجلس علمائے شیعہ پاکستان، جناب ڈاکٹر محمد شیر سیالوی ڈپٹی سیکرٹری جنرل جماعت اہل حرم پاکستان، جناب محمد نصراللہ رندھاوا امیر جماعت اسلامی اسلام آباد، جناب غلام علی خان پاکستان عوامی تحریک شمالی پنجاب، جناب سید فدا احمد شاہ صوبائی راہنما جے یو آئی ایس، جناب مولانا شفاعت اللہ راہنما جمعیت علمائے اسلام (س)، جناب پروفیسر ممتاز دانش سیرت کمیٹی اسلام آباد اور جناب مولانا محمد حسیب احمد نظیری سینکئر نائب صدر جے یو پی شمالی پنجاب وغیرہ شامل ہیں۔

کانفرنس میں علماء، طلبہ، اساتذہ، وکلاء اور زندگی کے مختلف شعبوں کے نمایاں افراد نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ مختلف جماعتوں کے نمائندگان بھی شریک بزم تھے۔ خواتین و حضرات کی بہت بڑی تعداد سے تین بڑے بڑے ہال چھلک رہے تھے۔ لوگ پورے جوش و خروش کے ساتھ کانفرنس میں شریک تھے، جو مختلف مقررین کی باتوں پر تالیوں اور نعروں کے ذریعے سے اپنا ردعمل ظاہر کرتے تھے۔ نبی پاکؐ کا عشق پوری فضا پر چھایا ہوا تھا اور امت کے اتحاد کے جذبے سے ہر دل سرشار تھا۔ کانفرنس کے آخر میں مندرجہ ذیل اعلامیہ جاری کیا گیا: ’’عشق پیغمبر اعظم حضرت محمد مصطفیٰ، خاتم النبینﷺ امت مسلمہ میں اللہ کی رسی کی مانند مرکزیت رکھتا ہے اور اس کو مضبوطی سے تھامے رکھنا ہی امت اسلامیہ کی کشتی کی نجات کا ضامن ہے۔ عالم کفر کا رسول اکرمﷺ کی مقدس ہستی کو نشانہ بنانا دراصل اسی مرکزیت کو توڑنے کی سازش ہے، لیکن ان شاء اللہ اس اساس اور بنیاد پر مسلمین کی وحدت عالمی استعمار کے تمام خوابوں کو چکنا چور کر دے گی اور اغیار کے تقسیم کے ایجنڈے کو ناکام بنائے گی۔

عظیم الشان عشق پیغمبر اعظم کانفرنس ہادی برحق کے لائے ہوئے نظام کو ہی انسانیت اور اقوام کی بقاء کیلئے لازم اور ضروری سمجھتی ہے اور وطن عزیز پاکستان میں اسلام کے مقابل کسی بھی قانون کو رد کرتے ہوئے سودی نظام، کرپشن، محروم طبقات کی حق تلفی کو مسترد کرتے ہوئے عام آدمی کی فلاح و بہبود کیلئے کام کرنے کی طرف متوجہ کرتی ہے۔ کشمیر اور فلسطین پر نظریاتی موقف سے انحراف پاکستان کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں سے خیانت ہے۔ فلسطین کی آزادی اور کشمیریوں کے حق خودارادیت کی مسلسل حمایت جاری رکھیں گے اور وطن عزیز کے اسلامی ممالک سے ملنے والے تمام بارڈز کو پرامن بنا کر مضبوط اور مستحکم افغانستان اور ایران کے حامی ہیں، تاکہ پاکستان کے امن کی ضمانت دی جا سکے۔ اس امر کی بنیاد پر افغانستان کے امریکی انحلا کو کامیابی قرار دیتے ہیں اور ایران، پاکستان، افغانستان کے خلاف امریکی پابندیوں کو مسترد کرتے ہیں۔

کانفرنس دہشت گردی کے خلاف NACTA کے قوانین پر اس کی روح کے مطابق عمل کرنے کی تلقین کرتے ہوئے دہشت گردوں کے حلاف zero tolerance پالیسی پر یقین رکھتی ہے اور وطن کے خلاف اعلان جنگ کرنے والے دہشت گرد گروہوں سے مذکرات کو رد کرتے ہوئے سوات کے عوام کی بیداری کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔ وطن عزیز میں بیرونی ایجنڈے اور دبائو کے تحت مختلف ادوار میں متعارف کرائے گئے غیر اسلامی قوانین مثلاً گھریلو تشدد بل، ٹرانس جینڈر ایکٹ، وقف املاک وغیرہ میں شامل غیر اسلامی دفعات کو وفاقی شرعی عدالت کے فیصلوں کی روشنی میں ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے فوری اصلاحات کی جائیں، تاکہ اسلامی فلاحی معاشرہ کی تکمیل کے ہدف کی طرف بڑھا جا سکے۔

کانفرنس کا اعلامیہ اس تجدید عہد کو بھی سموئے ہوئے ہے کہ ملی یکجہتی کونسل وحدت اسلامی کے اس سفر کو دوام دینے کیلئے تمام اسلامی مکاتب فکر کو ساتھ ملا کر امت واحد کی تشکیل کے لیے اپنی کوشش جاری رکھے گی اور ہر عالمی و علاقائی سازش اور فرقہ واریت کے آسیب کو کبھی پنپنے نہیں دے گی۔ اللہ کریم اس کی رضا کیلئے کی جانے والی اس خالصانہ کوشش کو اپنی بارگاہ میں قبول و منظور فرمائے۔ یہ کانفرنس پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے متعلق امریکی ہرزہ سرائی کو مسترد کرتی ہے اور امریکہ کو عالمی جوہری مجرم گردانتے ہوئے ملی یکجہتی کونسل میں شامل تمام جماعتیں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا ہر قیمت پر تحفظ کرنے کا عہد کرتی ہیں۔‘‘ کانفرنس سے خطاب کرنے والے علماء اور دانشوروں کے مطالب کو اگر سمیٹ دیا جائے تو یہی اعلامیہ بنتا ہے، جو سطور بالا میں پیش کیا گیا ہے۔

’’عشق پیغمبر اعظمؐ: مرکز وحدت مسلمین‘‘ کانفرنس کے دوران میں مختلف مواقع پر ہال نعرہ تکبیر، نعرہ رسالتؐ اور نعرہ حیدری کے روایتی اور محبوب عوامی نعروں سے گونجتا رہا۔ علاوہ ازیں لبیک یارسول اللہ اور سیدی مرشدی یانبیؐ یانبیؐ کے ولولہ انگیز نعروں سے فضا سرشار رہی۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے پاکستان کی جوہری طاقت کے خلاف جو واہیات کلمات کہے ہیں، ان کے خلاف بھی مقررین اور کانفرنس کے شرکاء کے جذبات بہت برانگیختہ تھے۔ چنانچہ بار بار ’’امریکہ کا جو یار ہے، غدار ہے غدار ہے‘‘ کا نعرہ بھی لگایا گیا۔ کشمیر کے مظلوموں سے اظہار یکجہتی کے لیے ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کی گونج بھی سنائی دیتی رہی۔ اتحاد امت کے لیے جذبات مختلف انداز سے ظاہر ہوتے رہے اور اتحاد کے دشمنوں کے خلاف بھی نعرے لگتے رہے۔ چنانچہ شرکاء نے ’’تکفیریت مردہ باد‘‘ کا نعرہ بھی بارہا لگایا۔

تحریر: سید ثاقب اکبر

حوزہ نیوز کی رپورٹ کے مطابق،سربراہ حوزہ علمیہ ایران آیت اللہ علی رضا اعرافی نے 36ویں اسلامی اتحاد کانفرنس کے چوتھے ویبینار میں اتحاد کی سائنسی اور علمی بنیادوں کے بارے میں کہا: جب ہم اتحاد و وحدت کی بات کرتے ہیں اور اتحاد، ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اتحاد ایک مستحکم اتحاد ہو گا جس کی بنیاد درست سوچ اور فکر کی بنیاد پر ہو۔

انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ ظاہری اور سطحی اتحاد کسی قوم کو نہیں بنا سکتا اور نہ ہی ایک محاذ پیدا کر سکتا ہے، فرمایا: اتحاد ہمیں عظیم نظریات کی طرف لے جا سکتا ہے جن کی جڑیں علمی، فکری اور سائنسی اصولوں پر ہیں۔

آیت اللہ علی رضا اعرافی نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ اسلامی اتحاد کی جڑیں عالم اسلام کے تعلیمی نظاموں میں ہونی چاہئیں، وضاحت کی: سائنسی مراکز جو میدان اور دینی سائنسی مراکز ہیں، عالم اسلام کی یونیورسٹیوں کے ساتھ ساتھ اسلامی دنیا کے تعلیمی نظام کو بھی لازمی ہونا چاہیے۔ علمبردار اور اسکاؤٹس بنیں، اسلامی تشخص کو گہرا کریں اور امت اور نوجوان نسل میں اتحاد و یکسانیت کی تحریک کریں۔

انہوں نے کہا: سائنسی، دینی اور ثقافتی اداروں کی ترویج اور پیش قدمی اس صورت میں موثر اور پائیدار ہوسکتی ہے جب ان کی جڑیں اسلامی علوم اور اسلام کے بنیادی افکار سے وابستہ ہوں۔

آیت اللہ علی رضا اعرافی نے کہا کہ امت کے اتحاد، قربت، اور ہم آہنگی اور یکسانیت کے حصول کے لیے اتحاد و یگانگت کے زمرے میں تمام اسلامی مذاہب کے فلسفے اور کلمات کی عقلی تشریح اور جواز کی ضرورت ہے، اور کہا۔ : فقہی نظام اور اسلامی مکاتب کے شرعی اور فقہ میں اس اتحاد اور ہم آہنگی کی تشریح کی گئی ہے۔

مختلف مذاہب کی اسلامی اخلاقیات میں وحدت کی جڑوں کی موجودگی اور اثر کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا: اگر ہم اسلامی رویہ کے ان تین زاویوں (ان کے مذہبی اور فلسفیانہ فکر کی سطح، ان کی فقہی اور شرعی فکر کو) بنا لیں۔ ، اور ان کی اخلاقی اور قدری سوچ) اتحاد سے ہم آہنگ ہے، دیکھتے ہیں کہ یہ اتحاد مزید گہرا ہوتا جائے گا۔

انہوں نے مزید کہا: اگر ایسا ہے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام میں مالا کے بیج اور کنگھی کے دانتوں کی طرح اکٹھے ہوئے ہیں اور ہم ایک ہو گئے ہیں۔

اس مسلمان مفکر نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ پھر ہم اپنی فقہ میں اتحاد کو مزید گہرا کر سکتے ہیں اور گہرائی دے سکتے ہیں تاکہ ہمارے فقہ کی بنیادیں اس اتحاد، یکسانیت اور ہمدردی اور صحبت کی راہیں کھولیں، انہوں نے کہا: میرے خیال میں ہماری فقہ کئی جہتوں میں ہے۔ ایک شناخت اور قومی اتحاد کے حصول کی شاہراہ کھول دی ہے۔

انہوں نے سماجی تعلقات کو شیعہ فقہ میں ایک اہم موضوع قرار دیا اور کہا: اگر ہم سماجی تعلقات کی فقہ پر پوری توجہ دیں تو ہم دیکھیں گے کہ چھوٹے اور بڑے ماحول میں انسانی تعلقات انہی اصولوں پر مبنی ہیں جو اسلام بیان کرتا ہے۔

انہوں نے وضاحت کی کہ مسلمانوں کے درمیان فقہ، سماجی تعلقات اور ایسوسی ایشن میں اہم اصول ہیں جہاں لوگ اسلام کے عمومی احکام میں شریک ہوتے ہیں، جو ہم آہنگی اور اتحاد لاتے ہیں۔

آیت اللہ علی رضا اعرافی نے اپنی تقریر کے ایک اور حصے میں اسلامی اتحاد کو مستحکم کرنے کے لیے اصول فقہ کی طرف واپسی کو امت اسلامیہ کے لیے ایک راستہ قرار دیا اور مزید کہا: اگر اس فقہ کو تمام مذاہب میں صحیح طور پر تسلیم کیا جائے اور اسے مشترکہ تناظر میں پیش کیا جائے تو اس کی راہ ہموار ہوگی۔ بہت سے لوگوں کے لیے راستہ یہ مذہبی تشدد کو بند کرتا ہے اور اسلامی دنیا میں اتحاد کی راہ ہموار کرتا ہے۔

انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ اسی طرح کے فقہی مسائل علمی اور فلسفی مسائل اور اخلاقی اور قدری مسائل میں موجود ہیں اور تاکید کی: ہماری سائنسی بنیادوں میں امت اسلامیہ کے اتحاد اور مشترکہ شناخت کے استدلال کی بنیادوں کو پہچاننا ضروری ہے۔

اس مسلمان مفکر نے مزید کہا: اگر آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم ہمارے درمیان ہوتے تو ہم سب کو ان انتشار سے بچاتے۔ بلاشبہ عالمِ اسلام کے اس ہنگامے سے رسولِ خدا کا دل مبارک ناراض ہے۔

انہوں نے عالم اسلام میں غیروں اور دنیا خوروں کے اثر و رسوخ، امت اسلامیہ کے مفادات کو لاحق خطرات، جنگ و جدل، انتشار اور اسرائیل جیسی غاصب حکومت کے ظہور کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کے قلب مبارک کی وجہ قرار دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسلامی امت کے پڑھے لکھے اور اشرافیہ کو ان تکلیفوں کا شکار نہیں ہونا چاہیے، بنیادی طور پر سوچیں۔

آیت اللہ علی رضا اعرافی نے کہا: اگر ملت اسلامیہ پر تمام اختلافات کے ساتھ اتحاد کی ہوا چلی تو یہ دنیا کی ایک عظیم اور بااثر طاقت بن جائے گی۔

Thursday, 13 October 2022 13:27

مسجد ابن طولون- قاهره

مسجد ابن طولون یا مسجد احمد بن طولون مصری شهر قاهره کی قدیم ترین مساجد میں شمار کی جاتی ہے، احمد بن طولون بانی دولت سلسلہ طولونی‌ نے سال ۸۷۷ عیسوی کو قاہرہ کے نوساز علاقے میں قایم کرنے کا حکم دیا۔ مذکور مساجد ایک صحرائی علاقے میں قایم کی گئی ہے اور مصر کی بڑی مساجد میں سے ایک ہے۔/

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، تشخیص مصلحت نظام کونسل (ایکسپیڈیئنسی ڈیسرنمنٹ کونسل) کے سربراہ اور کونسل کے نئے ٹرم کے اراکین نے بدھ کی صبح رہبر انقلاب اسلامی سے ملاقات کی۔     

اس موقع پر آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اپنی تقریر میں اس کونسل کو، اس میں موجود غیر معمولی صلاحیت کے حامل اور تجربہ کار افراد کی موجودگی اور ملک کے مسائل اور کونسل کو تفویض کی گئي ذمہ داریوں پر ہمہ گير نظر کے لحاظ سے اسلامی جمہوریہ کا بڑا اہم ادارہ قرار دیا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے حالیہ واقعات اور کچھ جگہوں پر پراگندہ ہنگاموں کی طرف اشارہ کیا اور زور دیتے ہوئے کہا کہ حالیہ واقعات میں دشمن کا رول سب کے لیے، یہاں تک کہ بعض غیر جانبدار غیر ملکی مبصرین کے لیے بھی پوری طرح واضح اور عیاں ہے۔ یہ واقعات، داخلی سطح پر اپنے آپ وجود میں نہیں آئے ہیں بلکہ پروپیگنڈہ، سوچ کو متاثر کرنے، ہیجان پیدا کرنے، ورغلانے کی کوشش یہاں تک کہ پیٹرول بم بنانے کی راہوں کی ٹریننگ جیسے دشمن کے اقدامات اس وقت پوری طرح سے واضح ہیں۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا کہ ان واقعات کے سلسلے میں ایک اہم نکتہ، دشمن کی پسپائی کی حالت اور مایوسانہ ردعمل ہے۔ انھوں نے کہا: ایرانی قوم نے بہت کم عرصے میں، بڑے نمایاں کارنامے انجام دیے جو عالمی سامراج کی پالیسیوں کے بالکل برخلاف تھے تو وہ ردعمل دکھانے پر مجبور ہو گيا اور اسی تناظر میں اس نے سازش تیار کر کے اور پیسے خرچ کر کے امریکا، یورپ اور کچھ دیگر جگہوں کے بعض سیاستدانوں سمیت بہت سے افراد کو میدان میں اتار دیا۔

انھوں نے کہا کہ ایرانی قوم کے ان عظیم کارناموں نے دکھایا دیا کہ ایرانی قوم جوش و جذبے سے بھری ہوئی، دیندار اور اقدار و مذہبی اصولوں کی پابند ہے اور ملک بھی بڑی تیزی سے آگے کی طرف گامزن ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اربعین مارچ میں جوانوں کی دسیوں لاکھ کی تعداد میں شرکت اور کورونا کی وبا کے دوران انسان دوستانہ اقدامات کو ایرانی قوم کی دینداری، ایمان اور بڑے کارناموں کا نمونہ بتایا اور کہا: دراصل حالات کا کنٹرول ایرانی قوم کے ہاتھ میں ہے اور دشمن بچکانہ اور احمقانہ ردعمل دکھانے اور ہنگامہ آرائی کے لیے سازش تیار کرنے پر مجبور ہو گيا۔

انھوں نے اسی طرح اغیار کی سازشوں کے مقابلے میں استقامت کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ جب تک ایرانی قوم، اسلام کے پرچم کو تھامے ہوئے ہے اور اسلامی نظام کے ساتھ ہے، تب تک یہ دشمنی، مختلف صورتوں میں جاری رہے گي اور اس کا واحد علاج، استقامت ہی ہے۔ شیطانوں کی سازشوں اور چالوں کے مقابلے میں ہماری استقامت، پیشرفت رک جانے کا باعث نہیں بلکہ یہ آگے بڑھنے کی راہ ہموار کرتی ہے۔

آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا کہ جو لوگ سڑکوں پر آ رہے ہیں، ان سب کو ایک ہی زمرے میں نہیں رکھا جا سکتا، ان میں سے بعض یا تو دشمن کے عناصر ہیں اور اگر دشمن کے پٹھو نہیں ہیں تب بھی اسی کی راہ پر چل رہے ہیں جبکہ بعض لوگ ہیجانی کیفیت کا شکار ہو کر اور جوش میں سڑک پر آ جاتے ہیں، اس طرح کے لوگوں کے سلسلے میں ثقافتی کام ہونا چاہیے لیکن پہلی قسم کے لوگوں کے بارے میں عدلیہ اور سیکورٹی کے ذمہ داروں کو اپنی ذمہ داری انجام دینی چاہیے۔

انھوں نے اپنی تقریر کے ایک دوسرے حصے میں، تشخیص مصلحت نظام کونسل (ایکسپیڈیئنسی ڈیسرنمنٹ کونسل) کی سب سے اہم ذمہ داری کو مصلحت کا تعین بتایا اور کہا: مصلحت کا معاملہ، نظام کے پہلے درجے کے ترجیحات میں شامل ہے اور امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے بقول یہ اتنا اہم ہے کہ اس سے غفلت کبھی کبھی اسلام کی شکست کا سبب بن جاتی ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی کا اس سلسلے میں مزید کہنا تھا کہ "مصلحت" کے معنی "حقیقت اور شریعت کے حکم" کے خلاف کام کرنا نہیں ہے۔ آپ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ صحیح تشخیص کا لازمہ، موضوع کی شناخت کے ساتھ ہی مصلحت کی بھی شناخت ہے، آپ نے کہا: مصلحت کے تعین میں اس طرح سے کام کرنا چاہیے کہ وہ پوری طرح سے قابل اعتماد و اطمینان بخش ہو۔

انھوں نے اسی طرح کہا کہ اس کونسل میں جن قوانین کا جائزہ لیا جاتا ہے، ان کا اعتبار، اس مصلحت کے جاری رہنے تک ہے اور جنرل پالیسیز کے معاملے میں بھی افراط و تفریط سے دور رہنا چاہیے کیونکہ ملک میں کسی بھی آئیڈیل مسئلے اور ہر مفید چیز کو جنرل پالیسی کے طور پر شامل کر دینا بھی درست نہیں ہے، چھوٹی چھوٹی باتوں اور حکومت اور پارلیمانی امور کی جزئيات میں دخل دینا بھی صحیح نہیں ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی کی تقریر سے پہلے، تشخیص مصلحت نظام کونسل (ایکسپیڈیئنسی ڈیسرنمنٹ کونسل) کے سربراہ آيت اللہ آملی لاریجانی نے تمام امور میں کونسل کے اراکین کی سنجیدگي اور مہارت اور اسی طرح مصلحت کے تعین کے سلسلے میں کونسل کے اقدامات اور نئے دور میں اس کے پروگراموں کے بارے میں ایک رپورٹ پیش کی۔

مدیر حوزہ علمیہ خواہران سقز "طوبی فرداد" نے 36ویں اسلامی اتحاد کانفرنس کے مجلس عامہ کے اجلاس میں کہا: ہفتہ وحدت 6 مسائل سے نمٹنے اور دو پر غور کرنے کا بہترین موقع ہے۔

سنیوں اور شیعوں کی مشترکات پر توجہ دینا، مذاہب اسلامی کے اتحاد و اتفاق کو مضبوط کرنے کے طریقوں کا جائزہ لینا، اسلامی معاشروں میں دشمنوں کے گھسنے کے طریقوں پر توجہ دینا، دشمن کے تسلط کو کچلنے کے لیے حل فراہم کرنا، ان کی قابل تعریف کوششوں کی یاد کو زندہ رکھنا۔ اتحاد کے علمبردار اور انسانی وسائل کی تربیت کے لیے حالات پیدا کرنے والے۔اتحاد کا دینے والا اور محافظ ان چیزوں میں سے ایک تھی۔

انہوں نے اپنی تقریر کے تسلسل میں تاکید کی: امن کا قیام اور تنازعات سے اجتناب اور مسلمانوں کے اتحاد کو معاشرے اور دنیا میں اسلام کی حکمرانی کی طرف راغب کرنا ان نکات میں سے ہے جن پر اتحاد کانفرنس میں غور کیا جانا چاہیے۔

طوبی فرداد نے اپنے خطاب کے آخر میں یہ بیان کیا کہ بہت سے علماء اور سائنسدانوں نے اتحاد کے حصول کے لیے بہت کوششیں کیں اور کہا: اختلاف رائے کے باوجود وہ اتحاد اور ہمدردی کو ضروری اور اہم سمجھتے تھے۔

مولوی غلام نبی توکلی، امام حمعہ اہل سنت تایباد نے 36ویں بین الاقوامی اتحاد اسلامی کانفرنس کے اجلاس میں تاکید کی:مسلمانوں کے اتحاد کے لیے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سب سے اہم محور ہیں۔

انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ پیغمبر اکرم (ص) سے زیادہ اہم کوئی محور نہیں ہے، وضاحت کی: اگر پیغمبر نہ ہوتے تو قرآن اور قبلہ نہ ہوتا۔

مولوی غلام نبی توکلی نے مزید کہا: اگر پیغمبر اسلام (ص) قطب بن جائیں تو نہ منافقین اور نہ ہی کوئی اور شخص مسلمانوں کے ساتھ دشمنی میں کچھ کر سکے گا کیونکہ وہ وحی سے متصل تھے .

انہوں نے مزید کہا: "عیسائیوں میں بہت سے اختلافات ہیں، لیکن انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور مریم (ص) کو مرکزی حیثیت دی ہے، اور ہمیں بھی پیغمبر اکرم (ص) کو دنیا کی عظیم ترین شخصیت کے طور پر رکھنا چاہیے۔

مولوی توکلی نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے خانہ خدا میں 360 بت تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے یہ بت ختم ہو گئے اور مکہ خوبصورت اور پاکیزہ ہو گیا۔ 
http://www.taghribnews
 
شنگھائی تعاون تنظیم کی بنیاد چین، روس، کرغزستان، تاجکستان، ازبکستان اور قازقستان نے جون 2001ء میں رکھی تھی۔ اس تنظیم کی تشکیل اس مذاکراتی سلسلے کا نتیجہ تھا جو 26 اپریل 1996ء میں چین، روس، قازقستان، کرغزستان اور تاجکستان کے درمیان شروع ہوا اور اس کا مقصد اپنی اپنی سرحدوں کو محفوظ بنانا اور باہمی اعتماد قائم کرنا تھا۔ چونکہ پہلی نشست چین کے شہر شنگھائی میں منعقد ہوئی لہذا اس تنظیم کا نام شنگھائی تعاون تنظیم رکھ دیا گیا۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے آغاز سے ہی اس تنظیم میں شمولیت کی کوششیں شروع کر دیں جن کے نتیجے میں 2005ء میں ایران کو ناظر کی حیثیت سے اس تنظیم کے اجلاس میں شرکت کی اجازت دے دی گئی۔ اسی سال پاکستان، انڈیا اور افغانستان کو بھی ناظر رکن کی حیثیت سے تنظیم کے اجلاس میں شرکت کا موقع دیا گیا۔
 
2017ء میں پاکستان اور انڈیا کو اس تنظیم کی مستقل رکنیت عطا کر دی گئی جبکہ 16 ستمبر 2022ء کے دن ایران کو بھی مستقل رکن کے طور پر قبول کر لیا گیا۔ یوں اس وقت شنگھائی تعاون تنظیم 9 مستقل اراکین پر مشتمل ہے یعنی ایران، پاکستان، انڈیا، چین، روس، قازقستان، کرغزستان، تاجکستان اور ازبکستان۔ دوسری طرف تین ممالک افغانستان، بیلارس اور منگولیہ ناظر رکن جبکہ چھ ممالک آذربائیجان، آرمینیا، کیمبوج، نیپال، ترکی اور سری لنگا مذاکرات میں شریک کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم میں مستقل رکنیت اسلامی جمہوریہ ایران کیلئے مختلف پہلووں سے انتہائی اہم تصور کی جاتی ہے۔ امریکہ اور اس کی اتحادی مغربی طاقتوں نے گذشتہ چالیس برس سے ایران کے خلاف شدید ترین پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ دوسری طرف خطے اور دنیا کے بدلتے سیاسی حالات کے تناظر میں بھی یہ رکنیت اہم ہے۔
 
1)۔ امریکی اثرورسوخ کا مقابلہ کرنے کیلئے غیر فوجی تنظیم
شنگھائی تعاون تنظیم کی تشکیل کا مقصد فوجی میدان کے علاوہ سکیورٹی، اقتصادی اور ثقافتی میدانوں میں باہمی تعاون کو فروغ دے کر خطے میں امریکی اثرورسوخ کا مقابلہ کرنا تھا۔ یہ ایسی چند محدود تنظیموں میں سے ایک ہے جس کی تشکیل، مدیریت، فیصلہ سازی اور اراکین میں مغربی ممالک کا کوئی عمل دخل شامل نہیں ہے۔ اس تنظیم کا بنیادی مقصد ہی مغرب اور اس سے وابستہ اداروں جیسے نیٹو کا مقابلہ کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس تنظیم نے 2005ء میں امریکہ کی جانب سے رکنیت کی درخواست مسترد کر دی تھی۔ یہ چیز سکیورٹی، سیاسی اور اقتصادی میدانوں میں مغربی طاقتوں کا مقابلہ کرنے سے متعلق اس تنظیم کے رکن ممالک کی وسیع نگاہ کو ظاہر کرتی ہے۔
 
2)۔ دنیا میں سب سے زیادہ انرجی پیدا کرنے اور استعمال کرنے والے ممالک
شنگھائی تعاون کونسل کے رکن اور ناظر ممالک دنیا میں انرجی پیدا کرنے اور استعمال کرنے کے لحاظ سے پہلے نمبر پر ہیں۔ لہذا یہ تنظیم دنیا بھر میں انرجی کی برآمدات اور درآمدات کیلئے رکن ممالک کے درمیان گہرا تعاون قائم کر سکتی ہے جبکہ دوسری طرف عالمی سطح پر انرجی کی قیمت اور منڈی پر بھی بہت زیادہ اثرانداز ہو سکتی ہے۔ ایران بھی شنگھائی تعاون تنظیم کے مستقل رکن کی حیثیت سے تیل اور گیس کی برآمد سے متعلق بہت زیادہ فائدے حاصل کر سکتا ہے۔ اس تنظیم کے ذریعے ایران بہت آسانی سے اپنا تیل اور گیس عالمی منڈی میں فروخت کر کے زرمبادلہ کما سکتا ہے۔ البتہ امریکہ اور اس کے اتحادی مغربی ممالک کی جانب سے عائد کردہ اقتصادی پابندیاں کچھ حد تک رکاوٹ ضرور بن سکتی ہیں۔
 
3)۔ دنیا کی نصف آبادی پر مشتمل شنگھائی تعاون تنظیم
شنگھائی تعاون تنظیم میں شامل ممالک کی مجموعی آبادی دنیا کی نصف آبادی پر مشتمل ہے۔ اسی طرح ان ممالک کا کل رقبہ دنیا میں موجود خشکی کا ایک چوتھائی حصہ ہے۔ یہ امور اقتصادی لحاظ سے عالمی سطح پر بہت بڑی منڈی تشکیل دیتے ہیں جس کی بدولت رکن ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون کے وسیع افق ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ اگلے مرحلے میں آبادی اور رقبے کی یہ صلاحیت عالمی سطح پر موجود طاقت کی مساواتیں تبدیل کر کے طاقت کا توازن برقرار کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو شنگھائی تعاون تنظیم میں ایران کی مستقل رکنیت اس کی تیل کے علاوہ دیگر مصنوعات کی برآمدات کیلئے بہت مفید ثابت ہو سکتی ہے۔ اس وقت مشرقی ایشیائی اور وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ ایران کی تجارت بہت کم سطح پر ہے۔
 
4)۔ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں ایران کی رکنیت کی تسہیل
شنگھائی تعاون تنظیم میں ایران کی رکنیت کا ایک اور بڑا فائدہ عالمی تجارت کی تنظیم ڈبلیو ٹی او میں مستقل رکنیت کی راہ ہموار ہو جانا ہے۔ ایران گذشتہ طویل عرصے سے اس تنظیم میں شامل ہونا چاہتا ہے جبکہ اب تک اسے صرف ناظر کی حیثیت سے ڈبلیو ٹی او کے اجلاس میں شرکت کی اجازت دی گئی ہے۔ اس تنظیم کی مستقل رکنیت حاصل کرنے میں ایک طرف امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک رکاوٹ بنے ہوئے ہیں جبکہ دوسری طرف ڈبلیو ٹی او کے کچھ قوانین ایران میں موجود اقتصادی ڈھانچے سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اب جبکہ ایران شنگھائی تعاون کونسل کا مستقل رکن بن چکا ہے یقیناً اس کا اقتصادی انفرااسٹرکچر بھی ترقی کرے گا اور دھیرے دھیرے ڈبلیو ٹی او میں رکنیت کا زمینہ بھی فراہم ہو جائے گا۔ 
 
 
 

، ایرانی پارلیمنٹ کے اسپیکر محمد باقر قالیباف نے پارلیمنٹ کے اجلاس کی رسمی کاروائی شروع ہونے سے پہلے اپنے خطاب میں دنیا بھر کے مسلمانوں میلاد النبی ﴿ص﴾ کی مناسبت سے مبارکباد پیش کی اور کہا کہ میں آج کے دن کی مناسبت سے تمام اہل سنت برادران سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں کو ہفتہ وحدت کے آغاز کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ کہ ہفتہ وحدت تمام شعبوں میں شیعہ سنی کے درمیان ہمدردی اور ایک دوسرے کے دوش بدوش آگے بڑھنے کے عینی مظاہرے کی علامت ہے۔

قالیباف نے مزید کہا کہ ملک میں سنی اور شیعہ دونوں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ ہر موڑ پر جہاں باہر نکلنے، جانثاری اور شہید قربان کی ضرورت پڑی ایران کو روز بروز مضبوط بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس کا عملی مظاہرہ ہم نے آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگے کے دوران مقدس دفاع میں بھی دیکھا اور دیگر اندرونی حالات اور مواقع پر۔

انہوں نے کہا کہ ہماری کامیابی کا راز بھی مختلف فرقوں میں یکجہتی اور اتحاد میں میں ہے۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ رہبر معظم کے بقول جو برطانوی شیعہ یا امریکی سنی ہیں، دونوں ایک ہی قینچی کے دھارے شمار ہوتے ہیں اور اس طرح کام کرتے ہیں کہ مسلمانوں کو آپس میں لڑوا سکیں۔

ایرانی اسپیکر نے مزید کہا کہ مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کرنے والے صہیونی حکومت اور امریکہ کی چکی گھوما رہے ہیں جبکہ وہ ہمارے قسم خوردہ دشمن ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آج مسلمانوں کا اتحاد قرآن کریم کی اصل تعلیمات اور بنیادی احکامات میں سے ہے اور پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ اور قرآن کریم کے سائے میں ہم دین کے تمام دشمنوں سے برائت کے خواہاں ہیں۔ خدا کے احکامات کی تکمیل کے لیے ایک ناقابل تردید شرط کافروں، مشرکوں اور منافقوں سے برائت اور بے زاری کا اظہار کرنا ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رہبر انقلاب اسلامی نے 11 ستمبر 2022 کو اسپورٹس کے شعبے کے شہداء پر دوسرے قومی سیمینار کے منتظمین سے ملاقات کی تھی اور اس ملاقات میں انھوں نے جو تقریر کی تھی وہ آج پیر 10 اکتوبر 2022 کو اس سیمینار میں نشر کی گئي۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اس تقریر میں کھیل اور کھلاڑیوں کے اخلاقیات اور سماج میں ان کے اثرات کے بارے میں اہم گفتگو کی۔

خطاب حسب ذیل ہے:

بسم ‌اللّہ الرّحمن الرّحیم. و الحمد للّہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا محمّد و آلہ الطّاھرین سیّما بقیّۃاللّہ فی الارضین.

اس کانفرنس کا انعقاد کرنے والوں اور "لال مستطیل" فلم بنانے والوں کا شکریہ

آپ کا خیر  مقدم ہے عزیزو! اور جو یہ رپورٹیں دی گئيں، آپ اپنے ساتھ اچھی خبریں بھی لائے ہیں۔ میں اس کے لیے بہت شکر گزار ہوں کہ آپ یہ بڑا اور اہم سیمینار منعقد کر رہے ہیں۔ امید ہے کہ آپ کی یہ کوششیں اور اور سچی نیت، جو پورے گروپ میں دکھائي دیتی ہے، ان شاء اللہ خداوند عالم کی توجہ اور حضرت بقیۃ اللہ ارواحنا فداہ کی تائيد حاصل کرے گي۔ اسی طرح میں ان عزیز بھائيوں کا بھی شکر گزار ہوں جنھوں نے اپنے میڈل مجھے عطا کیے۔ میں "لال مستطیل"(2) فلم بنانے والوں کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں، حالانکہ میں نے فلم نہیں دیکھی ہے، لیکن سنا ہے، بحمد اللہ اسے بنانے والے یہاں تشریف رکھتے ہیں۔ یہ کام ہونا ہی چاہیے، یعنی فن و ہنر کا پروڈکشن اور ان حقائق کا بیان جسے آپ نے بتایا، بہت اہم ہے، اسے انجام پانا چاہیے۔ ان دو حضرات نے یہ کام کیا اور میں نے سنا ہے کہ ٹیلی ویژن پر بھی کچھ شہید چیمپینز کے بارے میں بعض پروڈکشنز آئے ہیں۔ بہرحال یہ کام، بہت اہم ہے اور اسے جاری رہنا چاہیے۔

اسپورٹس، ذیلی نہیں بلکہ مرکزی حیثیت کا حامل کام

میں آج دو باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں: ایک بات، شہیدوں، شہادت اور اسپورٹس کے عزیز شہیدوں کے اس پرشکوہ قافلے کے بارے میں اور دوسری بات خود ورزش اور اسپورٹس کے بارے میں۔ ورزش اور اسپورٹس کا معاملہ، ایسا معاملہ ہے جسے حاشیے پر نہیں رکھا جانا چاہیے، بلکہ اصل اور مرکزی موضوع کی حیثیت سے اس پر توجہ دی جانی چاہیے، میں اس سلسلے میں کچھ جملے عرض کروں گا۔

شہیدوں کے زندہ ہونے کے بارے میں قرآن مجید کی صراحت

شہیدوں کے بارے میں قرآن مجید میں دو جگہوں پر واضح الفاظ میں کہا گيا ہے کہ شہید مردہ نہیں، زندہ ہیں۔ یہ بات پوری صراحت سے کہی گئي ہے۔ ایک جگہ سورۂ بقرہ میں کہا گيا ہے: وَ لا تَقولوا لِمَن يُقتَلُ فی سَبيلِ اللَّہِ اَمواتٌ بَل اَحياء(3) یہ لوگ جو خدا کی راہ میں مارے جاتے ہیں، انھیں مردہ نہ کہو، یہ زندہ ہیں۔ اس سے زیادہ واضح اور صاف بات کیا ہو سکتی ہے؟ دوسری جگہ سورۂ آل عمران میں کہا گيا ہے: وَ لا تَحسَبَنَّ الَّذينَ قُتِلوا فی سَبيلِ اللَّہِ اَمواتًا بَل اَحياء(4) صراحت کے ساتھ کہا گيا ہے۔ رہی یہ بات کہ شہیدوں کی حیات کس طرح کی ہے؟ تو یہ ایک الگ موضوع ہے، یقینی طور پر وہ ہماری مادی زندگي سے الگ ہے، برزخی زندگي سے الگ ہے کہ بہت سے دوسرے لوگوں کی روح بھی برزخ میں ایک معنی میں زندہ ہوتی ہے، فعال ہوتی ہے، یہ بھی نہیں ہے، وہ زندگي ایک تیسری چیز ہے اور بہرحال ایک اہم حقیقت ہے، جسے قرآن مجید پوری صراحت سے کہہ رہا ہے۔

شہیدوں کی طرف سے ہمارے لیے خوشخبری: اللہ کی راہ میں جہاد کے راستے میں خوف اور غم نہیں ہے

خیر تو اس زندہ ہونے کے کچھ تقاضے ہیں، جن میں سے ایک اثر انداز ہونا ہے، بنابریں شہداء، اثر انداز ہوتے ہیں۔ چونکہ زندہ ہیں اس لیے زندوں کی زندگي میں ان کا اثر ہوتا ہے، وہ ہم پر کام کر رہے ہیں۔ یہ بات بھی قرآن مجید کی آیت میں آئي ہے، سورۂ آل عمران کی اسی آيت کے آگے کہا گيا ہے: وَ يَستَبشِرونَ بِالَّذينَ لَم يَلحَقوا بِھِم مِن خَلفِھِم اَلّا خَوفٌ عَلَيھِم وَ لا ھم يَحزَنون‏(5) اس سے کوئي فرق نہیں پڑتا کہ لفظ "علیہم" کی ضمیر کو خود شہیدوں کی طرف پلٹایا جائے یا ہماری طرف، جو اس دنیا میں ہیں، اس کا مفہوم یہ ہے کہ وہ ہم سے کہہ رہے ہیں کہ ممکن ہے کہ اللہ کی راہ میں مجاہدت میں کچھ دشواریاں ہوں، یقینا دشواریاں ہیں، لیکن اس کا انجام بہت اچھا ہے، اس راہ کے اختتام پر، اس راستے کے خاتمے پر، نہ تو خوف ہے اور نہ ہی غم و اندوہ، یہ بہت اہم ہے۔ انسان کسی مشکل کو برداشت کرتا ہے، لیکن جس راستے پر آپ چل رہے ہیں، اس کے خاتمے پر "لا خَوفٌ عَلَيھِم وَ لا ھم يَحزَنون" نہ تو خوف ہے اور نہ ہی غم، یہ دو چیزیں انسان کو تکلیف پہنچانے والی ہیں، یہ ہمارے لیے قرآن مجید کے صریحی الفاظ ہیں۔ در حقیقت شہیدوں کا یہ عظیم کارواں ہماری حوصلہ افزائي کر رہا ہے، اس مومن معاشرے کی، جو خدا کی راہ میں قدم اٹھانا چاہتا ہے اور خدا کی مرضی کے مطابق کام کرنا چاہتا ہے، شہیدوں کے اس پیغام سے، اور یہ پیغام پہنچانے والا بھی خود خدا ہے، حوصلہ افزائی ہوتی ہے، وہ سمجھ جاتا ہے کہ اس راہ میں امید کے ساتھ قدم بڑھائے جا سکتے ہیں اور آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ تو یہ حوصلہ افزائي بھی ہمیں قوت عطا کرتی ہے، آگے بڑھنے اور جدوجہد کا جذبہ دیتی ہے اور جن نمونوں کا آپ نے ذکر کیا، شاید میں اپنی گفتگو کے دوران ان کے بارے میں اشارہ کروں۔

اسلامی نظام کے دور میں، شہادت پسندی کا جذبہ اور شوق

اسلامی نظام کے دور میں ملک کی مجموعی کارکردگي اس طرح کی تھی کہ اللہ کی راہ میں جہاد اور اللہ کی راہ میں شہادت کا جذبہ پیدا ہوا، اس سے پہلے ایسا نہیں تھا۔ ہم نے انقلاب سے پہلے کے دور کو اچھی طرح سے دیکھا ہے، میری عمر کا آدھا حصہ، اسی دور میں گزرا ہے اور اس وقت بھی خداوند عالم نے مدد کی تھی جو ہم اس راہ میں قدم بڑھا رہے تھے لیکن اللہ کی راہ میں جہاد اور اللہ کی راہ میں شہادت کا یہ جذبہ، جو اسلامی نظام کے دور میں پایا جاتا ہے، اس وقت نہیں تھا۔ یہ جذبہ اور یہ کشش اس بات کا سبب بنتی ہے کہ معاشرے کے سبھی طبقوں، معاشرے کے تمام افراد میں جہاد کا شوق پیدا ہو اور جن لوگوں میں صلاحیت ہے، ذہنی و روحانی آمادگی ہے، وہ جہاد کے میدانوں میں جائيں، ان ہی میں اسپورٹس کے میدان کے شہداء اور مجاہدین بھی ہیں۔

معاشرے میں اسپورٹس سے وابستہ لوگوں کا گہرا اثر

اسپورٹس کا شعبہ، ایک بااثر طبقہ ہے، کھلاڑی بااثر ہوتا ہے، معاشرے میں اس کی شخصیت، اس کے کام، اس کے اقدام، ایک عام آدمی سے بہت الگ ہوتے ہیں، خاص کر کے وہ کھلاڑی جو مشہور ہو جاتا ہے، نمایاں ہو جاتا ہے، وہ کچھ لوگوں پر اثر ڈالتا ہے۔ اب اگر اس کھلاڑی میں، جہاد کا شوق اور جذبہ پیدا ہو جائے اور وہ جہاد کی راہ میں قدم بڑھائے تو آپ دیکھیے کہ وہ سماج پر کتنے اہم اثرات ڈال سکتا ہے، کیسا جذبہ بیدار کر سکتا ہے! بحمد اللہ یہ کام ہوا، آپ کے انہی پانچ ہزار سے کچھ زیادہ شہیدوں کی برکت سے۔ ان پانچ ہزار سے کچھ زیادہ شہیدوں میں پیشہ ورانہ کھلاڑی اور چیمپین کم نہیں تھے، شاید ان میں سے ایک ہزار سے زیادہ شہید، پیشہ ور کھلاڑی، چیمپین اور اسپورٹس کی اچھی خاصی رینکنگ رکھنے والے تھے، تمام کھیلوں میں۔ یہاں جو نمائش لگائي گئي ہے، اس میں، میں نے دیکھا کہ لکھا ہوا ہے: "اسپورٹس کے 33 شعبوں میں" بہرحال جہاں تک مجھے اطلاع ہے اور جہاں تک میں جانتا ہوں، کھیل اور اسپورٹس کے مختلف شعبوں سے لوگ جہاد کے لیے گئے۔ یہ لوگ گئے اور عالم ملکوت کے چیمپین اسٹیج (پوڈیم) پر، جو دنیا کے چیمپین اسٹیجوں سے بہت اونچا ہے، پہنچ گئے، انھوں نے خود تو یہ اعلی مقام حاصل کیا ہی، ساتھ ہی دوسروں کو بھی اپنے پیچھے بلا لیا۔

ہمارے معاشرے میں اسپورٹس کا ماحول، شہید کھلاڑیوں کی روحانیت سے متاثر

آج ہمارا کھیل اور اسپورٹس کا ماحول، اسی روحانیت اور معنویت سے متاثر ہے جو اسپورٹس کے ہمارے عزیز شہیدوں نے معاشرے میں پیدا کی ہے، یہ روحانیت، آج ہمارے کھیل اور اسپورٹس کے ماحول میں پائي جاتی ہے۔ البتہ ہر ماحول میں ہر طرح کے انسان ہوتے ہیں، روحانیت اور معنویت کے ماحول میں بھی ہر طرح کے لوگ ہیں، اسپورٹس کے ماحول میں بھی ایسا ہی ہے لیکن آج ملک میں اسپورٹس کا ماحول مجموعی طور پر گزشتہ کل سے بہت الگ ہے۔ دینداری کی جھلک، شرع کی پابندی کی جھلک، روحانیت و معنویت کی جھلک اور اسی طرح کی دوسری باتیں، جنھیں میں نے مختلف مناسبتوں سے بارہا اپنی گفتگو میں کہا ہے اور اس وقت بھی بعض لوگوں نے کہا ہے، بہت زیادہ ہیں: وہ بہادر اور باایمان خاتون جو، چیمپین کے مقام پر کھڑی ہے اور جب کوئي غیر مرد اس سے مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھاتا ہے تو وہ مصافحہ نہیں کرتی یا دسیوں لاکھ لوگوں کی نظروں کے سامنے، جن میں سے بہت سے لوگوں کی، حجاب کے خلاف اور عورت کی عفت کے خلاف کام کرنے اور بات کرنے کے لیے ٹریننگ ہوئي ہے، چادر پہن کر اور اسلامی حجاب کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے یا وہ جوان چیمپین جو اپنا میڈل، شہیدوں کے اہل خانہ کو دے دیتا ہے یا وہ باایمان کھلاڑی جو اپنے کھیل میں، چاہے کشتی ہو، ویٹ لفٹنگ ہو یا کوئي دوسرا کھیل ہو، جیت جاتا ہے تو حد سے زیادہ نخرہ دکھانے یا چیخنے چلانے کے بجائے زمین پر گر کر اللہ کا سجدہ کرتا ہے یا ائمۂ معصومین کا نام لیتا ہے۔ یہ سب بڑی اہم چیزیں ہیں۔ ہم لوگوں کو کبھی کبھی کسی چیز کی عادت ہو جاتی ہے اور اس چیز کی اہمیت اور عظمت ہماری نظر میں باقی نہیں رہتی لیکن آج کی دنیا میں، مادہ پرست اور بدعنوان دنیا میں یہ چیزیں بہت عجیب ہیں۔

کھیل کے میدان کی روحانیت، ایرانی قوم کی معنوی و اخلاقی گہرائی کی شناخت کی کسوٹی

میں عرض کرتا ہوں کہ جو لوگ ایرانی قوم کو صحیح طریقے سے پہچاننا چاہتے ہیں وہ اس بات پر توجہ دیں، یہ بہت اہم بات ہے کہ جب ہمارا کوئي جوان کھلاڑی دسیوں لاکھ لوگوں بلکہ کبھی کبھی کروڑوں لوگوں کی نظروں کے سامنے پوڈیم پر جاتا ہے تو اس طرح روحانیت و معنویت کا اظہار کرتا ہے، اللہ اور اولیائے خدا سے عقیدت کا اظہار کرتا ہے، ان چیزوں کو دیکھیے، یہ چیزیں ایرانی قوم کی شناخت اور ایرانی قوم کی معنوی، روحانی اور اخلاقی گہرائيوں کی پہچان کے لیے بہت معنی رکھتی ہیں۔ تو یہ ایک کسوٹی ہے اور بہت اہم کسوٹی ہے۔ اس سال اربعین مارچ میں، کھلاڑیوں کی جو انجمنیں گئي تھیں، ان کے بارے میں حقیر کو بڑی اچھی اچھی باتیں بتائی گئيں، جن میں سے ایک نجف میں امیر المومنین علیہ السلام سے ان کی عقیدت کا اظہار تھا، یہ بہت گرانقدر چیز ہے، یہ معنوی اور روحانی ماحول بہت اہم ہے۔ اللہ کی راہ میں مجاہدت کی برکتوں میں سے ایک یہی ہے کہ وہ روحانیت و معنویت کو سماج کے مختلف طبقوں کے اندر تک پہنچا دیتی ہے، یعنی جب آپ کھلاڑی یا اسپورٹس مینیجر، بعض دینی اور معنوی حدود کے پابند ہوں، تو صرف آپ اس سے بہرہ مند نہیں ہوتے، بہت سے لوگ آپ سے بہرہ مند ہوتے ہیں – پہلے مرحلے میں خود اسپورٹس کا ماحول اور پھر عوام کا عمومی ماحول – اور یہ کام استعداد رکھنے والے لوگوں کو معنویت کے میدان میں لے آتا ہے اور راستہ کھول دیتا ہے۔ بہرحال ایرانی قوم کے سامنے جہاد کا جو میدان ہے، وہ ہر دن ایک الگ طرح کا ہوتا ہے: کبھی وہ مقدس دفاع کی شکل میں تھا، کسی دن دفاع حرم اہل بیت کی صورت میں تھا، آج بھی جہاد کے میدان ہمارے سامنے مختلف شکلوں میں کھلے ہوئے ہیں، میرے خیال میں ان میں سے ہر ایک میں، معاشرے کے اہم اور مشہور لوگوں کی جہادی موجودگي کے بہت زیادہ اثرات ہیں اور یہ بہت گرانقدر ہے۔ تو یہ بات شہداء اور شہادت کے سلسلے میں تھی۔

جسمانی صحت اور روحانی تازگي کے لیے عمومی ورزش کی اہمیت

جہاں تک ورزش اور اسپورٹس کی بات ہے تو میں ورزش کی اہمیت کے پیش نظر اس بارے میں خصوصیت سے بات کرنا چاہتا ہوں، اجتماعی ورزش بھی اور عمومی ورزش بھی، – جس کی ہم سبھی کو سفارش کرتے ہیں – پیشہ ورانہ ورزش بھی اور چیمپین شپ والی ورزش بھی، یہ چیزیں سماجی زندگي کے ذیلی امور کا حصہ نہیں ہیں، سماجی زندگی کے اصلی امور میں شامل ہیں۔

میں نے اجتماعی ورزش کے بارے میں ہمیشہ زور دے کر رہا ہے، ایک بار پھر کہہ رہا ہوں کہ سبھی ورزش کریں۔ آج کی اس مشینی اور بہت کم تحرک والی زندگي میں، ہم ضعیفوں کو تو چھوڑیے، حقیقت میں جوانوں میں بھی تحرک نہیں ہے۔ گاڑی میں بیٹھتے ہیں، یہاں سے جاتے ہیں، وہاں اتر جاتے ہیں، لفٹ میں سوار ہو کر اوپر جاتے ہیں، کوئي تحرک نہیں ہے۔ اس طرح کے ماحول میں، ورزش کوئي مستحب کام نہیں ہے، سب کے لیے ایک واجب اور ضروری کام ہے۔ البتہ مجھ جیسے اور میری عمر کے لوگوں کے لیے ورزش کی ایک الگ قسم ہے، جوانوں کے لیے الگ ہے، ادھیڑ عمر کے لوگوں کے لیے الگ ہے، لیکن سبھی کو ورزش کرنی چاہیے، ورزش کو ترک نہیں کرنا چاہیے۔ یہ جسمانی صحت کے لیے بھی اچھا ہے – ورزش سے جسمانی صحت و سلامتی حاصل ہوتی ہے، یہ جو کبھی کبھی جوانوں کو کچھ عارضے لاحق ہو جاتے ہیں اور انسان کو تعجب ہوتا ہے کہ ایک نوجوان عارضہ قلبی یا برین ہیمریج سے گزر جاتا ہے، یہ سب اسی عدم تحرک کی وجہ سے ہے – اور ذہنی اور روحانی فرحت  و نشاط کے لیے بھی اچھا ہے۔ ورزش، فرحت بخش اور نشاط انگیز ہے، جو کام بھی آپ کر رہے ہیں، دستی کام، فکری کام، دفتری کام، علمی کام، اگر ورزش کریں تو اس کام کو بہتر طریقے سے انجام دیں گے، یعنی آپ کی ذہنی فرحت بڑھ جائے گي اور آپ اس کام کو بہتر طور پر انجام دیں گے۔ البتہ اس کے اور دوسرے فوائد بھی ہیں لیکن یہاں ہمارا مقصد انھیں بیان کرنا نہیں ہے۔

پیشہ ورانہ اور چیمپین شپ والے کھیل، اجتماعی ورزش کی ترویج اور قومی افتخار کا باعث

جہاں تک پیشہ ورانہ اور چیمپین شپ والے کھیلوں کا تعلق ہے تو یہ بھی بہت اہم ہیں۔ چیمپین شپ والے کھیلوں کی اہمیت کا ایک پہلو یہ ہے کہ جب چیمپین شپ والا کھیل وجود میں آتا ہے تو وہ اجتماعی ورزش کی ترویج کرتا ہے؛ اس کی ایک وجہ یہ ہے۔ جب کسی کھیل کا چیمپین مشہور ہوتا ہے اور لوگوں کی نظروں کے سامنے آتا ہے تو وہ نوجوان کو ورزش کے لیے ترغیب دلاتا ہے، یہ پیشہ ورانہ اور چیمپین شپ والے کھیلوں کا ایک فائدہ ہے، البتہ صرف یہی نہیں ہے، بہت سے دوسرے فوائد بھی ہیں۔ ایک دوسرا فائدہ یہ ہے کہ چیمپین شپ والے کھیل، قومی افتخار کا باعث ہیں۔ چیمپین شپ والے کھیلوں میں جب آپ کسی عالمی ٹورنامنٹ میں حصہ لیتے ہیں اور وہاں فتح حاصل کرتے ہیں اور مشہور ہو جاتے ہیں تو پوری قوم خوشی کا احساس کرتی ہے، سربلندی محسوس کرتی ہے، یہ بہت اہم  چیز ہے۔ ان لوگوں کو جو مختلف اسپورٹس میں – چاہے وہ دنیا میں رائج انفرادی کھیل ہوں یا اجتماعی کھیل ہوں – عوام کی خوشی کا باعث بنتے ہیں، واقعی مبارکباد پیش کرنی چاہیے، ان کا شکریہ ادا کرنا چاہیے، میں ان سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں، جو لوگوں کی خوشی کا باعث بنتے ہیں، لوگوں کو خوش کرتے ہیں، انھیں سربلندی کا احساس عطا کرتے ہیں۔

عالمی اداروں میں اسپورٹس کی کامیابی اور دوسری کامیابیوں کا فرق

کھیل کے میدانوں میں حاصل ہونے والی اس کامیابی اور دوسری کامیابیوں میں ایک فرق ہے۔ بہرحال ہماری قوم اور ہر قوم، زندگي کے مختلف میدانوں میں فتوحات حاصل کرتی ہے، سیکورٹی کے میدان میں ہماری کامیابیاں ہیں، علمی و سائنسی میدانوں میں کامیابیاں ہیں، سیاسی میدانوں میں کامیابیاں ہیں، تحقیقاتی میدانوں میں ہماری کامیابیاں ہیں، مختلف طرح کے میدانوں میں ہماری کامیابیاں ہیں لیکن یہ کامیابیاں دنیا کے لوگوں کی نظروں کے سامنے نہیں ہیں۔ بعض کامیابیوں کو ہم جان بوجھ کر چھپا دیتے ہیں، کسی ملک میں کوئي سیکورٹی کے میدان میں کامیابی حاصل کرتا ہے تو وہ اسے آشکار نہیں کرتا بلکہ سیکورٹی کی کامیابیوں کو پوشیدہ رکھا جاتا ہے۔ بعض کامیابیوں کو ہم چھپاتے نہیں ہیں لیکن دشمن اسے مشکوک بناتا ہے، جیسے علمی و سائنسی کامیابیاں۔ یہ جو علمی و سائنسی کام انجام دیے گئے، عرصے تک ہمارے دشمنوں کے سکھائے ہوئے پٹھو اپنی باتوں اور تحریروں میں ان کا انکار کرتے رہے کہ جی نہیں، ایسا کچھ نہیں ہوا ہے، یعنی اسے مشکوک بنایا جا سکتا ہے۔ یا اسے تاخیر سے سمجھا جاتا ہے یا لوگوں کو اس میں دلچسپی نہیں ہوتی۔ کھیل اور اسپورٹس کے میدان کی کامیابی ایسی نہیں ہے، ایک لمحے میں ملنے والی کامیابی اور اسی لمحے اس کی خبر پہنچ جاتی ہے۔ آپ کی کامیابی کے لمحے ہی دسیوں لاکھ لوگ بلکہ کبھی کبھی کروڑوں لوگ، آپ کی کامیابی کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں، یہ بہت اہم کامیابی ہے، یہ بہت اہم ہے اور دوسری کامیابیوں کے برخلاف اسے چھپایا نہیں جا سکتا۔ ہاں کبھی کبھی کھیل میں بے ایمانی ہو جاتی ہے، معاندانہ رویہ اختیار کیا جاتاہے، اسی میدان میں کبھی کبھی دشمن، کچھ کام کر جاتے ہیں لیکن زیادہ تر وہ اس میں کامیاب نہیں ہو پاتے، عام طور پر فتح، ایک دم واضح ہوتی ہے اور آپ دیکھتے ہی ہیں کہ اس کا اثر بھی بہت زیادہ ہوتا ہے اور یہ جیت دنیا میں آپ کے دوستوں کو بھی مسرور کرتی ہے۔

کھیل کے میدان میں فنی کامیابی کے ساتھ ہی اخلاقی کامیابی

ہمارے کسی اسپورٹس ٹورنامنٹ میں، مجھے پتہ چلا - یعنی مجھے مصدقہ خبریں دی گئيں - کئي عرب مسلم ممالک میں، جن کا نام میں نہیں لینا چاہتا، لوگ اکٹھا ہوئے اور ٹیلی ویژن پر میچ دیکھنے لگے، جیسے ہی انھوں نے دیکھا کہ ایران جیت گيا تو انھوں نے سب کے سامنے سڑک پر جشن اور خوشی منانا شروع کر دیا کہ ایران نے فلاں موذی اور خبیث سیاسی طاقت کو دھول چٹا دی! ایسا ہوتا ہے نا! یہ سب کی آنکھوں کے سامنے والی فتح ہے۔ تو ایرانی کھلاڑی یہاں اپنے رویے سے، اس فنی فتح کو اخلاقی فتح میں بدل سکتا ہے۔ بنیادی نکتہ یہ ہے یعنی جب آپ نے کسی میچ میں فتح حاصل کرلی اور آپ کو فنی جیت مل گئي تو آپ اسی فنی جیت کو ایک اخلاقی کامیابی سے جوڑ سکتے ہیں، جیسے جوانمردانہ کھیل، جیسے یہی کام جو ہماری خواتین کھلاڑی کرتی ہیں یعنی اسلامی حجاب اور اسلامی حدود کی پابندی اور خود اعتمادی کا مظاہرہ۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے، اگر یہ اس فنی جیت سے زیادہ اہم نہیں ہے تو اس سے کم بھی نہیں ہے۔

غاصب صیہونی حکومت کو تسلیم نہ کرنا اور اقدار کی حفاظت، میڈل کے حصول سے زیادہ اہم

لہذا میں تاکید کے ساتھ کہتا ہوں کہ ہمارے عزیز کھلاڑیوں کو سفارش کی جائے کہ کھیل کے میدانوں میں کامیابی کے اس پہلو کو فراموش نہ کریں، اس بات کا خیال رکھیں کہ میڈل کے لیے اقدار کو پامال نہ کیا جائے۔ کبھی کبھی انسان میڈل سے محروم ہو جاتا ہے لیکن وہ فاتح ہوتا ہے۔ اگر کسی نے اس اصول کو پامال کیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے فنی اور ظاہری فتح حاصل کرنے کے لیے اس اخلاقی فتح کو پامال کر دیا۔ اگر آپ نے اس کے ساتھ میچ کھیلا تو درحقیقت اس غاصب حکومت، بچوں کا قتل کرنے والی اور اس جلاد حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کر لیا۔ بنابریں جتنا بھی فائدہ ہو، اس کی اتنی قیمت نہیں ہے کہ انسان اس کے ساتھ میچ کھیلے۔ سامراج کے سرغنہ اور ان کے پٹھو اور درحقیقت بڑی عالمی طاقتوں کے زرخرید فورا چیخنے لگتے ہیں کہ "جناب! کھیل کو سیاسی میدان کا اکھاڑا نہ بنائیے۔" بسم اللہ! آپ نے دیکھا ہی کہ خود ان لوگوں نے یوکرین کی جنگ(6) کے بعد کھیل اور اسپورٹس کے ساتھ کیا کیا! سیاسی مسئلے کے لیے بعض ملکوں کے اسپورٹس پر پابندی لگا دی(7) یعنی خود انھیں جہاں بھی ضرورت ہوتی ہے، جہاں ان کے مفادات کا تقاضا ہوتا ہے وہ بڑی آسانی سے خود اپنی ریڈ لائنز کو کراس کر جاتے ہیں اور یہی لوگ، جب ہمارا کھلاڑی صیہونی حریف سے میچ نہیں کھلیتا تو اعتراض کرتے ہیں۔

کھیل کے میدان کے باہر کے رویے میں اپنی اور قوم کی عزت و آبرو کی حفاظت

ایک اور نکتہ عرض کروں اور اپنی گفتگو کا خاتمہ کروں۔ ہمارے عزیز چیمپینز اور کھلاڑی جو کھیل کے میدانوں میں حصہ لیتے ہیں - چاہے وہ ملکی میدان ہوں یا غیر ملکی میدان ہوں - اس بات پر توجہ رکھیں کہ صرف کھیل کے میدان میں ہی کیمروں کی آنکھیں ان پر مرکوز نہیں ہیں بلکہ میدان کے باہر بھی کیمرے انھیں دیکھ رہے ہیں، رائے عامہ، مختلف آنکھیں، کبھی بری نیت والے، ان پر نظر رکھتے ہیں تاکہ ان کی کوئي اخلاقی کمزوری، کوئي کمزور رگ تلاش کر لیں اور اس کے ذریعے، اس نے میدان میں جو کامیابی حاصل کی ہے، اسے دبا دیں۔ میدان میں کامیاب ہو جاتا ہے، میدان کے باہر غلطیوں میں مبتلا ہو جاتا ہے، لہذا کھلاڑی میدان کے باہر بھی اپنے رویے کی طرف سے چوکنا رہیں اور جان لیں کہ انھیں اپنی حیثیت، اپنی عزت، اپنی آبرو کی حفاظت کرنی ہے، اپنی عزت و آبرو کی بھی اور ملک و قوم کی عزت و آبرو کی بھی۔ ہمارے چیمپینز کے سامنے بہت سارے جال بچھائے جاتے ہیں۔

مغربی اسپورٹس سیکھیں لیکن مغربی کلچر سے متاثر نہ ہوں

البتہ ہمارے زمانے میں، قدیم ایام میں کھیل اور ورزش کا ماحول، ملک میں مغربی اسپورٹس کی آمد سے پہلے، ہمیشہ مذہبی ماحول تھا، پرانے کھیل، یہ اکھاڑے اور کھیلوں کے یہ پرانے مراکز جو ہم نے دیکھے تھے، سب کے سب خدا کے نام اور ائمہ کے نام سے اور اسی طرح مذہبی اور اخلاقی پہلوؤں سے آراستہ تھے۔ مغرب والوں نے کوشش کی کہ ان نئے اور پیشرفتہ کھیلوں کو ملک میں داخل کرنے کے ساتھ ہی اپنی ثقافت کو بھی ملک میں گھسا دیں۔تو ہماری ذمہ داری کیا ہے؟ ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ وہ نیا کھیل جو اس فریق نے تیار کیا ہے، جیسے فٹبال، والیبال اور دوسرے کھیل، اجتماعی کھیل، ہم سیکھیں، ان میں پیشرفت کریں، پیشہ ورانہ طریقے سے کھیلیں لیکن اس کی ثقافت کو نہ اپنائيں، اس کھیل کو اس مغربی کلچر کے لیے ایک پل نہ بننے دیں، اپنی ثقافت کو اس پر غلبہ دلائیں۔ یہ وہ بنیادی جملہ ہے جس پر ہمیں کھیل اور اسپورٹس کے سلسلے میں بھرپور توجہ دینی چاہیے۔

بہرحال میں آپ سب کے لیے دعاگو ہوں۔ ہمارے اس عزیز جوان نے کہا کہ ہمارے لیے دعا کیجیے، میں ضرور آپ کے لیے اورآپ کی کامیابی کے لیے، آپ کی فلاح کے لیے، آپ کی سعادت کے لیے خداوند عالم سے دعا کروں گا۔ میں ان لوگوں کا بھی دل کی گہرائي سے شکریہ ادا کرتا ہوں جنھوں نے اس سلسلے میں کوشش کی - خواتین کھلاڑی، جوان کھلاڑی - اور کھیل کے میدان میں معنویت و روحانیت کا مظاہرہ کیا، ایرانی اور اسلامی تشخص کا مظاہرہ کیا، میں ان سب کے لیے خداوند عالم سے توفیق کی دعا کرتا ہوں۔ ان شاء اللہ ہمارے کھلاڑی شہیدوں اور تمام شہیدوں کی پاکیزہ ارواح ہم سے راضی رہیں اور خداوند عالم ہمیں بھی ان سے ملحق کرے۔

والسّلام علیکم و رحمۃ اللّہ و برکاتہ

(1) اس ملاقات کی ابتدا میں اسپورٹس اور نوجوانوں کے امور کے وزیر جناب سید حمید سجادی، کھلاڑیوں کی انجمن کے سربراہ جناب مہدی میر جلیلی اور ویٹ لفٹنگ کے چیمپین علی داؤدی نے رپورٹیں پیش کیں۔

(2) فلم "لال مستطیل"، جس کے ہدایتکار حسن صید خانی اور حسین صید خانی برادران اور پروڈیوسر سید علی رضا سجادپور ہیں۔ یہ فلم مقدس دفاع کے دوران ایلام کے چوار علاقے کے عوام کی بہادری اور اس علاقے کے فٹبال کے میدان پر بمباری کی حقیقی داستان پر مبنی ہے۔

(3) سورۂ بقرہ، آيت 154، اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے جاتے ہیں، انھیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں۔

(4) سورۂ آل عمران، آيت 169، اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے ہیں انھیں ہرگز مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں۔

(5) سورۂ آل عمران، آيت 170، اور اپنے پیچھے آنے والوں کے بارے میں بھی، جو ابھی ان کے پاس نہیں پہنچے، خوش اور مطمئن ہیں کہ انھیں نہ کوئی خوف ہے اور نہ ہی کوئی حزن و ملال۔

(6) روس اور یوکرین کے درمیان فوجی ٹکراؤ جو کئي مہینے سے جاری ہے۔

(7) عالمی اداروں میں مغربی ملکوں کے اثر و رسوخ اور ان کی طاقت کے باعث یوکرین کے خلاف روس سے تعاون کے جرم میں روس اور بیلاروس کے تمام کھلاڑیوں پر کسی بھی عالمی اسپورٹس ٹورنامینٹ میں حصہ لینے پر پابندی عائد کر دی گئي ہے۔