سلیمانی
ایران کے قومی پرچم کی بے حرمتی کے بعد؛ برطانوی سفیر کو وزارت خارجہ میں طلب کر لیا گیا
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، لندن میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سفارت خانے کی عمارت پر پرتشدد گروہ کے حملے اور اسلامی جمہوریہ ایران کے قومی پرچم کی بے حرمتی کے بعد آج تہران میں برطانوی سفیر کو وزارت خارجہ میں طلب کیا گیا۔
تفصیلات کے مطابق ایرانی وزارت خارجہ کے ڈائریکٹر جنرل نے برطانوی حکومت کو سفارتی اور قونصلر تعلقات کے حوالے سے 1961 اور 1963 کے ویانا کنونشن پر مبنی اپنے وعدوں کی یاد دہانی کرائی اور اس ناخوشگوار اور افسوسناک حملے کی روک تھام میں برطانوی پولیس کی نا اہلی پر اسلامی جمہوریہ ایران کے شدید احتجاج سے آگاہ کیا گیا۔
برطانوی سفیر نے حملے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ لندن کو صورتحال سے آگاہ کریں گے اور امید کرتے ہیں کہ مستقبل میں اس طرح کے مسائل کا سامنا نہیں ہوگا۔
بلؤوں کی بساط یقینا سمیٹ دی جائے گی
آپ نے اس ملاقات میں ایرانی قوم کے مقابلے میں سامراج کی صف آرائي کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: سامراج ایرانی قوم کے مقابلے میں اپنی نظریاتی صف آرائي میں، ایران دشمنی میں شدت پیدا کرکے عوام خاص طور پر جوانوں کے ذہنوں میں مایوسی اور تعطل کی سوچ ڈالنے کے لیے اپنے تمام وسائل استعمال کر رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ سے سامراج کو اصل تکلیف یہ ہے کہ اگر اسلامی جمہوریہ پیشرفت کرے اور دنیا میں اس کا نام روشن ہو تو مغربی دنیا کی لبرل ڈیموکریسی کا نظریہ سوالوں کے گھیرے میں آ جائے گا۔
آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے سوال کیا کہ "ہم کس طرح پیشرفت کریں؟" پھر اس کے جواب میں فرمایا کہ پیشرفت کے لیے متعدد وسائل کی ضرورت ہوتی ہے لیکن پیشرفت کا سب سے اہم وسیلہ، امید ہے اور اسی لیے دشمن نے اپنی پوری طاقت و توانائي، لوگوں میں مایوسی اور تعطل کا احساس پیدا کرنے پر مرکوز کر رکھی ہے۔
انھوں نے ایران دوستی کا ایک اشاریہ، امید آفرینی کو بتایا اور کہا: جو لوگ مایوسی اور تعطل کا احساس پھیلاتے ہیں، وہ ایران کے دشمن ہیں، وہ ایران سے دوستی کا دعوی نہیں کر سکتے۔
انھوں نے لبرل ڈیموکریسی کی بیانیے کے ذریعے پوری دنیا کے مختلف ملکوں پر مغرب کا تسلط قائم کئے جانے کی طرف اشارہ کیا اور کہا: پچھلی تین صدیوں میں مغرب نے آزادی کے فقدان یا ڈیموکریسی کے فقدان کے بہانے ملکوں کے وسائل کو لوٹا اور تہی دست یورپ، بہت سے امیر ملکوں کو مٹی میں ملا کر مالامال ہو گيا۔ انھوں نے کہا کہ اس وقت ایران میں ایک نظام نے مذہب اور مذہبی جمہوریت کی بنیاد پر اپنے عوام کو حقیقی تشخص عطا کیا ہے، انھیں حقیقی حیات عطا کی ہے اور درحقیقت مغرب کے لبرل ڈیموکریسی کے نظریے کو باطل کر دیا ہے۔
انھوں نے آزادی اور جمہوریت کے نام پر مختلف ملکوں میں آزادی اور جمہوریت کے خلاف اقدام کو مغرب کا حربہ بتایا۔ انھوں نے کہا کہ افغانستان اس کا ایک واضح نمونہ ہے جس پر امریکیوں نے عوامی حکومت نہ ہونے کے بہانے فوجی حملہ کیا لیکن بیس سال تک جرائم اور لوٹ مار کے بعد وہی حکومت اقتدار میں آ گئي جس کے خلاف انھوں نے اقدام کیا تھا اور پھر امریکی وہاں سے بڑے ذلت آمیز طریقے سے باہر نکلے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ اگر اسلامی جمہوریہ، امریکا اور سامراج کے مقابلے میں گھٹنے ٹیک دیتی اور ان کی منہ زوری اور غنڈہ گردی کے سامنے سر جھکا دیتے تو اس پر دباؤ کم ہوتا لیکن وہ، اسلامی جمہوریہ پر مسلط ہو جاتے۔ انھوں نے کہا کہ ان برسوں میں جب جب دنیا میں اسلامی جمہوریہ کی طاقت کا ڈنکا بجا، تب تب اسلامی نظام کو نقصان پہنچانے کے لیے دشمن کی کوششوں میں اضافہ ہوا ہے۔
انھوں نے اپنے خطاب کے ایک حصے میں کہا کہ آج ہمارے ملک کا بنیادی چیلنج، "پیشرفت، ٹھہراؤ، ایک جگہ جم جانا اور رجعت پسندی" ہے کیونکہ ہم پیشرفت کر رہے ہیں لیکن سامراجی طاقتیں، ایران کی ترقی و پیشرفت سے طیش اور اضطراب میں آجاتی ہیں اور پیچ و تاب کھانے لگتی ہیں۔ اسی غصے اور اضطراب کی وجہ سے امریکی اور یورپی حکومتیں میدان میں آ رہی ہیں لیکن وہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں، جیسا کہ اس سے پہلے بھی وہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ پائیں تھیں، مستقبل میں بھی کچھ نہیں بگاڑ پائيں گی۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے کہا کہ ایران اور سامراج کے درمیان بنیادی جنگ میں، امریکا، فرنٹ لائن پر ہے جبکہ یورپ، امریکا کے پیچھے کھڑا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد کے برسوں میں سبھی امریکی سربراہان مملکت، اسلامی جمہوریہ ایران کے مقابلے میں کھڑے ہوئے اور انھوں نے اپنے پالتو اور کٹکھنے کتے یعنی صیہونی حکومت اور بعض علاقائي ممالک سمیت جس سے بھی ممکن ہوا مدد لی۔ انھوں نے کہا کہ ان ساری کوششوں کے باوجود، مجموعی طور پر ایرانی قوم کے دشمنوں کو منہ کی کھانی پڑی۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے ایک حصے میں، ایران کے حالیہ ہنگاموں کی اسکرپٹ لکھنے والوں کا اصل ہدف، قوم کو میدان میں لانا بتایا اور کہا: اب جب وہ عوام کو میدان میں نہیں لا سکے تو شر انگیزی پر اتر آئے ہیں تاکہ عہدیداروں اور ذمہ داروں کو تھکا دیں لیکن یہ ان کی غلط فہمی ہے کیونکہ ان کی ان شیطانی حرکتوں سے عوام، بیزار ہو جائيں گے اور ان سے مزید نفرت کرنے لگیں گے۔
انھوں نے کہا کہ یقینی طور پر شیطانی حرکتوں کی بساط لپیٹ دی جائے گي اور ایرانی قوم، زیادہ قوت اور نئے جذبے کے ساتھ ملک کی پیشرفت کے میدان میں قدم بڑھائے گي۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے دھمکیوں اور خطروں کو مواقع میں تبدیل کرنے کی صلاحیت کو، ایک باایمان قوم کی فطرت کا حصہ بتایا اور حالیہ ہفتوں میں ہونے والی پیشرفت اور آگے کی جانب بڑھائے جانے والے قدموں کے کچھ نمونوں کا ذکر کیا۔ انھوں نے کہا کہ بلڈ کینسر کے علاج کے لیے ایک نئے طریقے تک ایرانی سائنسدانوں کی رسائی، تیل اور گيس نکالنے کی ایک پیشرفتہ مقامی مشین کی ایجاد، سیستان و بلوچستان کے ایک حصے میں ریلوے لائن کا افتتاح، جو شمال سے جنوب کی جانب ریلوے نیٹ ورک کا ایک اہم حصہ ہے، کئي بڑے کارخانوں کا افتتاح، ملک سے باہر پہلی ریفائنری کا افتتاح، چھے بجلی گھروں کا افتتاح، دنیا کے سب سے بڑے ٹیلی اسکوپس میں سے ایک کی رونمائي، سیٹیلائٹ کیرئیر راکٹ کو خلا میں بھیجنا اور ایک نئے میزائل کی رونمائي، یہ سب بلندی کی جانب ملک کے سفر کے نمونے ہیں اور یہ سب کچھ اس وقت انجام پایا ہے جب دشمن، ہنگاموں کے ذریعے ان میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ ان ہنگاموں کی وجہ سے ایک اور موقع یہ حاصل ہوا کہ ان سے، ہنگاموں کے ہدایتکاروں اور ایرانی قوم کی حمایت کے دعویداروں کا چہرہ پوری طرح بے نقاب ہو گيا۔ انھوں نے کہا کہ ایرانی قوم کے تمام مطالبات اور مقدسات سے دشمنی یعنی اسلام سے دشمنی، قرآن سوزی، مسجد کو نذر آتش کرنا، ایران سے دشمنی، ایران کے پرچم کو نذر آتش کرنا، قومی ترانے کی بے حرمتی جیسی حرکتوں نے ہنگاموں کے منصوبہ سازوں کے حقیقی چہرے سے نقاب الٹ دی۔ انھوں نے کہا کہ وہ دعوی کرتے ہیں کہ ایرانی قوم کے حامی ہیں جبکہ ایرانی قوم، مسلمان قوم اور قرآن اور امام حسین کی قوم ہے، تو جو لوگ امام حسین، اربعین اور اس کے ملین مارچ کی توہین کرتے ہیں، بے حیائي کا مظاہرہ کرتے ہیں، کیا وہ ایرانی قوم کے حامی ہیں؟
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اسی طرح اپنے خطاب کے ایک حصے میں صوبۂ اصفہان کی دو ٹاسک فورس کی حیثیت سے امام حسین (علیہ السلام) ڈویژن اور نجف ڈویژن کے کارناموں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: تقریبا چوبیس ہزار شہیدوں، دسیوں ہزار جنگي مجروحین، ہزاروں جنگي قیدیوں اور ایسے سرفراز گھرانوں کا وجود جنھوں نے اسلام، انقلاب اور ایران کو دو سے سات شہیدوں کا نذرانہ پیش کیا ہے، اس صوبے کے قابل فخر کارناموں کے دستاویزات اور انقلابی و جہادی تشخص کی علامتیں ہیں اور ان کی حفاظت ہر باضمیر انسان کا فرض ہے۔
انھوں نے 16 نومبر 1982 کو اصفہان میں نکلنے والے تقریبا 360 شہیدوں کے جلوس جنازہ کو یاد کرتے ہوئے کہا: خون میں ڈوبے اتنے سارے جوانوں کے لاشے ایک پورے شہر کو غم و اندوہ سے مفلوج کر سکتے تھے لیکن اصفہانیوں نے ایمان کے بھرپور جذبے کے ساتھ، اسی دن مزید جوانوں کو محاذ جنگ پر بھیجا اور امدادی اشیاء کے اپنے بڑے بڑے کارواں جنگی علاقوں کی طرف روانہ کیے
Khamenei.ir۔
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان؛ ایرانی سرکاری نشریاتی ادارے پر امریکی پابندی ایرانی عوام کے حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے
ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے جمعہ کے روز ایرانی سرکاری نشریاتی ادارے آئی آر آئی بی اور انگریزی چینل پریس ٹی وی پر امریکہ کی جانب سے لگائی جانے والی پابندی کے خلاف ٹویٹر پر اپنے رد عمل کا اظہار کیا۔
انہوں نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ دہشت گرد نیٹ ورکس اور میڈیا کو ایرانی قوم کے خلاف شرارتی کارروائیوں کی اجازت دینا اور ایران کے نقطہ نظر اور رائے کو دنیا تک پہنچنے سے روکنے کے مقصد سے آئی آر آئی بی اور پریس ٹی وی پر پابندی لگانا امریکہ کی جانب سے ایرانی قوم کے حقوق کی کھلی خلاف ورزی کا تسلسل ہے۔
ناصر کنعانی نے مزید لکھا کہ آزاد قوموں اور حکومتوں کے خلاف امریکہ کے جرائم کی کوئی انتہا نہیں ہے۔
خیال رہے کہ امریکہ کا یہ تازہ اقدام ایران کے خلاف مغربی ممالک کی دشمنانہ اور بے معنی کے تسلسل میں سامنے آیا ہے۔
دوسری جانب ایران نے فسادات کو ہوا دینے پر مغربی طاقتوں کی مذمت کی ہے اور انہیں خبردار کیا ہے کہ وہ اس معاملے پر ایران کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے باز رہیں۔
ایرانی حکام نے کہا ہے کہ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک فسادات کو ہوا دے کر اور دباؤ بڑھا کر ایران کو مذاکرات کی میز پر ایرانی قوم کے حقوق کی حمایت میں ثابت قدمی سے دستبردار ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔
امریکہ نے جمال خاشقجی کے قتل کے مقدمہ میں سعودی ولی عہد کو مستثنیٰ قرار دے دیا
مہر خبررساں ایجنسی نے رشیا ٹوڈے کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ امریکی حکومت نے سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو صحافی جمال خاشقجی کے قتل کیس میں استثنیٰ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس نے اطلاع دی ہے کہ امریکی محکمہ انصاف نے ایک قانونی مشاورتی رائے میں یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو جمال خاشقجی کے قتل کے الزامات کے معاملے میں استثنیٰ حاصل ہے۔
سعودی ولی عہد کے خلاف مقدمہ خاشقجی کی منگیتر خدیجہ چنگیز اور "ڈیموکریسی ان دی عرب ورلڈ" تنظیم نے واشنگٹن کی وفاقی عدالت میں دائر کیا تھا۔
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے وکیل "مائیکل کیلوگ" نے امریکی عدالت سے کہا کہ وہ جمال خاشقجی کے قتل کے حوالے سے بن سلمان کے نئے عہدے کی وجہ سے ان کے خلاف الزامات کو ختم کرے۔ واشنگٹن میں ڈسٹرکٹ آف کولمبیا کی فیڈرل کورٹ کو جاری کردہ ایک نوٹیفکیشن میں بن سلمان کے وکیل نے دعویٰ کیا کہ محمد بن سلمان کی سعودی وزیراعظم کے طور پر تعیناتی سے اس بات میں ذرا بھی شک باقی نہیں رہتا کہ سعودی ولی عہد کو استثنیٰ حاصل ہے۔
یاد رہے کہ خاشقجی کی منگیتر خدیجہ چنگیز نے اس خبر کے چند منٹ بعد ٹوئٹ میں لکھا کہ جمال آج پھر انتقال کر گئے۔ ہم نے سوچا کہ شاید امریکہ میں انصاف کی روشنی چمکے گی، لیکن پھر پیسہ پہلے نمبر پر آیا۔ یہ وہ دنیا ہے جسے جمال نہیں جانتا تھا اور میں بھی نہیں جانتی۔
وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان نے بھی اس مسئلہ پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک قانونی فیصلہ ہے جو وزارت خارجہ نے روایتی بین الاقوامی قانون کے قائم کردہ اصولوں کی بنیاد پر کیا ہے اور اس کا اس معاملہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
مدرسه علمیه شفیعیه اصفهان ایک نظر میں
ایٹمی معاہدہ پر امریکی منافقت، ہمیں پیغام بھیج رہے ہیں اور میڈیا میں کہتے ہیں ترجیح نہیں، ایرانی وزیر خارجہ
تہران : ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے کہا ہے کہ امریکی پیغامات بھیج رہے ہیں وہ فوری ایٹمی معاہدے میں واپس آنا چاہتے ہیں جبکہ منافقانہ طور پر مغربی میڈیا کو دھوکا دے رہے ہیں کہ ایٹمی معاہدہ فی الحال ان کی ترجیح نہیں ہے۔تہران میں کابینہ کے اجلاس کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو میں حسین امیر عبداللہیان نے کہا کہ امریکی فریق کے ساتھ پیغامات کا مسلسل تبادلہ کیا جا رہا ہے آخری پیغام 72 گھنٹوں قبل ہی ملا ہے۔ انہوں نے کہاکہ امریکی بعض وزرائے خارجہ کے ذریعے معاہدے میں واپسی کے پیغامات بھیج رہے ہیں انکے ترجمان جب میڈیا سےبات کرتے ہیں تو منافقانہ انداز میں کہتے ہیں کہ ایٹمی معاہدہ ہماری ترجیح نہیں بلکہ وہ اشتعال انگیزی کی طرف اشارہ کرتے ہیں جیسا کے وہ ایران میں فسادات چاہتے ہیں۔ امیر عبد اللہیان نے مزید کہا کہ امریکی مکمل طور پر ایک واضح مقصد کی پیروی کر رہے ہیں اور وہ ہے ہم پر دباؤ ڈال رہے ہیں تاکہ ہم اپنی سرخ لکیریں عبور کر لیں۔ انہوں نے کہاکہ مذاکرات میں ہمارے لیے جو چیز اہم ہے وہ لوگوں کے قومی مفادات ہیں اور ہم مذاکرات کے ذریعے پابندیاں ہٹانے کے لیے بھرپور کوششیں جاری رکھیں گے۔
امریکہ نے ایران کے توانائی کے شعبے سے متعلق 13 کمپنیوں پر پابندی عائد کر دی
امریکی محکمہ خزانہ کے غیر ملکی اثاثہ جات کے کنٹرول کے دفتر نے جمعرات کو مقامی وقت کے مطابق ایک بیان میں دعوی کیا کہ مختلف شعبوں میں 13 کمپنیوں پر پابندیاں عائد کی گئیں جنہوں نے مشرقی ایشیا میں خریداروں کو کروڑوں ڈالر کی ایرانی پیٹرو کیمیکلز اور تیل کی مصنوعات کی فروخت میں سہولت فراہم کی۔
امریکی محکمہ خزانہ نے مزید کہا کہ آج کی کارروائی اس سال جون سے ایران کے تیل اور پیٹرو کیمیکل کے کاروبار کو نشانہ بنانے والی پابندیوں کا پانچواں دور ہے۔
نائب امریکی وزیر خزانہ برائے دہشت گردی اور مالیاتی انٹیلی جنس "برایان نلسون" نے دعوی کیا کہ آج کی کارروائی پابندیوں سے بچنے کے جدید ترین طریقوں کو ظاہر کرتی ہے جو ایران اپنے تیل اور پیٹرو کیمیکل مصنوعات کو غیر قانونی طور پر فروخت کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ امریکہ ان اداکاروں کے خلاف پابندیوں کا نفاذ جاری رکھے گا جو اس تجارت میں سہولت فراہم کرتے ہیں۔
امریکہ کی جانب سے جن کمپنیوں پر پابندی عائد کی گئی ہے وہ متحدہ عرب امارات، ہانگ کانگ، مارشل آئی لینڈز اور چین میں واقع ہیں۔ امریکی حکومت کا دعوی ہے کہ ان کمپنیوں نے پابندیاں کی فہرست میں شامل خلیج فارس کی پیٹرو کیمیکل کمپنیوں، ٹریلینز پیٹرو کیمیکلز اور نیشنل ایرانی آئل کمپنی کی جانب سے ایران کے تیل اور پیٹرو کیمیکل مصنوعات کو مشرقی ایشیا میں خریداروں تک پہنچانے میں کردار ادا کیا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف اپنی مشترکہ جنگ کے تسلسل میں امریکہ نے بدھ کے روز مقامی وقت کے مطابق اعلان کیا کہ اس نے اسلامی جمہوریہ ایران کے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی چھ حقیقی شخصیات پر پابندیاں عائد کر دی ہیں جن میں ریڈیو اور ٹیلی ویژن تنظیم کے سربراہ اور متعدد صحافی بھی شامل ہیں۔
امریکی محکمہ خزانہ کے اعلان کے مطابق پیمان جبلی، محسن برمہانی، احمد نوروزی، یوسف پورانواری، امنہ سادات ذبیح پور اور علی رضوانی کو پابندیوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ مریکی محکمہ خزانہ نے منگل کو مقامی وقت کے مطابق اعلان کیا ہے کہ اس نے ایران کیخلاف نئی پابندیوں کا نفاذ کیا ہے۔
اس امریکی ادارے نے کہا ہے کہ شاہد ایوی ایشن انڈسٹریز ریسرچ کمپنی کو اپنی پابندیوں کی فہرست میں قرار دے دیا ہے۔
امریکی محکمہ خزانہ نے دعوی کیا ہے کہ ایران پر نئی پابندیاں، ایرانی ڈرون کی تیاری اور ان کی روس کو منتقلی کا نشانہ بناتی ہیں۔
شاہد ایوی ایشن انڈسٹریز ریسرچ کمپنی، اماراتی کمپنیاں "سکس ایوی ایشن" اور "آئی جیٹ گلوبل" کو ایرانی ڈرونز کی تیاری اور منتقلی میں سہولت فراہم کرنے کے دعوے کے ساتھ اس فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔
امریکی محکمہ خزانہ نے یہ بھی اعلان کیا کہ ساتھ ہی روسی کمپنی "واگنر"، پاسداران اسلامی انقلاب کی فضائیہ اور قدس ایئر انڈسٹریز کیخلاف بھی ایگزیکٹو آرڈر نمبر 14024 کے مطابق پابندیاں لگائی گئی ہیں۔
اس امریکی ادارے کے اعلان کے مطابق دو روسی شہریوں کے نام بلیک لسٹ میں ڈالے گئے ہیں، جنہوں نے مبینہ طور پر ایرانی ڈرونز کو واگنر کمپنی کی ترسیل میں کردار ادا کیا تھا۔
واضح رہے کہ امریکہ کی قیادت میں مغرب، یوکرین جنگ میں کشیدگی میں اضافے کے ساتھ ساتھ کئی مہینوں سے ایران مخالف دعوے کر رہا ہے جسے تہران واضح طور پر مسترد کرتا ہے۔
امریکہ نے پہلے ایرانی ڈرونز کو روس میں بھیجنے کا دعوی کیا تھا اور اس کے بعد اس نے اس جنگ میں استعمال کے لیے ایران سے زمین سے زمین پر مار کرنے والے میزائلوں کی روس کو ممکنہ منتقلی کا دعوی کیا ہے۔
ایران کی جین تھراپی سے بلڈ کیسنر کے علاج میں کامیابی
ارنا رپورٹ کے مطابق، ایران میں پہلی بار محققین نے جین تھراپی طریقہ استعمال کرتے ہوئے ایک مریض میں خون کے کینسر کا علاج کرنے میں کامیابی حاصل کی۔
جین تھراپی دنیا میں کینسر کے علاج کا جدید ترین طریقہ ہے، جو ایرانی علم پر مبنی کمپنی کی کوششوں سے آخری مرحلے تک پہنچ گیا ہے۔ دنیا میں صرف دو ملٹی نیشنل کمپنیاں یہ طریقہ علاج پیش کرتی ہیں اور اس علم کو ملکی محققین کی کوششوں سے ایران میں مقامی بنایا گیا ہے۔
نائب ایرانی صدر برائے سائنس و ٹیکنالوجی کے سٹیم سیل سٹاف کے سیکرٹری "امیر علی حمیدیہ" نے جین تھراپی کے ذریعے لیوکیمیا کے علاج میں ایرانی سائنسدانوں کی کامیابی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ طب کا مستقبل؛ دوبارہ تعمیر کرنے والی طب ہے، جو کہ سیل تھراپی، جین تھراپی، اور ٹشو انجینئرنگ ہے۔ بہت سی لاعلاج اور مشکل بیماریاں جو لاعلاج معلوم ہوتی ہیں ان طریقوں کو استعمال کرکے ان مریضوں کی مشکلات کو مستقبل قریب میں حل کریں گی۔
حمیدیہ نے کہا کہ اس کامیابی میں تقریباً 7 سال لگے اور جانوروں پر سیل اسٹڈیز اور پری کلینیکل اسٹڈیز پاس کرنے اور تہران یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز سے لائسنس اور ضابطہ اخلاق حاصل کرنے کے بعد پہلی بار ملک میں کسی مریض کے لیے جین تھراپی پروڈکٹ کا استعمال کیا گیا۔
انہوں نے کہا کیموتھراپی جیسے باقی علاج کی طرح، جن کی کامیابی کی شرح بتائی گئی ہے کہ ان میں سے تقریباً 60 سے 70 فیصد صحت یاب ہوئے اور ان میں سے تقریباً 30 یا 40 فیصد کی پیوند کاری کی گئی۔ ٹرانسپلانٹ شدہ 60 سے 70 فیصد مریض ٹرانسپلانٹیشن سے صحت یاب ہو جاتے ہیں۔ آج، جن لوگوں کو ٹرانسپلانٹ نہیں کیا گیا ہے، ان کے اس طریقہ کار سے صحت یاب ہونے کا 60-70 فیصد امکان ہے۔
قم کے شہیدوں پر سیمینار کے منتظمین سے رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب؛ "شہید و شہادت" مذہبی، قومی، انسانی اور اخلاقی اقدار کے مجموعے کا نام ہے
حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،رہبر انقلاب اسلامی نے صوبۂ قم کے شہیدوں پر سیمینار کے منتظمین سے ملاقات میں شہدا پر سیمیناروں کے انعقاد کی دو اہم خصوصیات کا ذکر کیا، شہدا کی یاد کو باقی رکھنا اور ان کے پیغام کو عام کرنا۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا: کانفرنس میں اور کانفرنس سے پہلے اور اس کے بعد ہم جو کام انجام دیتے ہیں ان کی بہت سی خصوصیات ہیں جن میں دو سب سے اہم ہیں: ایک یاد اور دوسری پیغام۔ شہیدوں کی یاد زندہ اور باقی رہنی چاہیے، شہیدوں کا پیغام سنا جانا چاہیے۔
آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اسی تناظر میں کہا: ہمیں شہیدوں کے پیغام کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ "یہ تو واضح سی بات ہے، شہیدوں کے پیغام کو تو سبھی جانتے ہیں، سبھی کو پتہ ہے"، نہیں، سب نہیں جانتے۔ جو نئي نئي نسلیں آ رہی ہیں، انھیں جو کچھ گزرا ہے، محرکات، افکار اور اسی طرح کی دوسری باتوں سے مطلع ہونا چاہیے۔ جو کام پیغام پر مشتمل ہوتا ہے، اس میں یہ بڑی خصوصیت ہوتی ہے۔
انہوں نے آرٹ کی زبان کو شہیدوں کی یاد اور ان کے پیغام کو منتقل کرنے کی بہترین زبان بتایا۔ انھوں نے نوجوانی میں ہی کمانڈر بننے والے شہید مہدی زین الدین کو صوبۂ قم کے سب سے نمایاں شہیدوں میں سے ایک بتایا اور کہا: میدان جنگ میں ان کی بے مثال شجاعت، تدبیر اور تعمیر اور پھر اخلاقیات کے میدان میں، دینداری کے میدان میں، مذہبی اور اسلامی احکامات کے میدان میں بھی ان کی خصوصیات کو بیان کیا جانا چاہیے اور آرٹ کی زبان کے علاوہ کسی بھی دوسری زبان میں ان چیزوں کو بیان نہیں کیا جا سکتا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے تمام شہیدوں کے پیغام کو بیان کرنے میں فن و ہنر کے استعمال کی ضرورت پر زور دیا۔ انھوں نے صوبۂ قم میں ترانہ گانے والی بچوں کی ایک ٹیم پر بعثی حکومت کے ہوائي حملے اور ان کی شہادت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس واقعے کے تمام پہلوؤں کے جائزے اور انھیں بیان کرنے کی ضرورت پر زور دیا جو اہم پیغامات کا حامل واقعہ ہے۔
آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنی تقریر کے ایک دوسرے حصے میں شہادت کو خدا سے سودا اور قومی مصلحتوں کی تکمیل بتایا۔ انھوں نے کہا: شہادت، جہاں خداوند عالم سے سودا ہے وہیں اس سے قومی مصلحتوں کی تکمیل بھی ہوتی ہے۔ اللہ کی راہ میں شہادت، قومی مصلحتوں اور قوم کے مفادات کی تکمیل کرتی ہے۔
انہوں نے قومی اقدار، شہید اور شہادت کو، قومی تشخص کو بلندی عطا کرنے والے اجزاء سے تعبیر کیا اور ایرانی قوم کی شہادت پسندی کو، دنیا میں اس کی عظمت کا سبب قرار دیا۔ انھوں نے کہا: ایرانی قوم نے اپنی اسی شہادت پسندی کی وجہ سے ان لوگوں کی نظروں میں عظمت حاصل کی ہے جن کے کانوں تک یہ بات پہنچی ہے۔ ایثار و فداکاری کی باتیں جتنی زیادہ باہر پہنچی ہیں، اتنی ہی اس قوم کی عظمت میں اضافہ ہوا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے شہادت کو تسبیح کے دھاگے کی طرح ملک کے اندر مختلف اقوام کو ایک دوسرے سے جوڑنے والا ذریعہ بتایا اور کہا: ملک کے شمالی یا مشرقی علاقے کا کوئي شہید، دیگر علاقوں کے شہیدوں کے ساتھ ایک ہی صف میں تھا، وہ سبھی ایک ہی ہدف کے لیے شہید ہوئے، اسلام کی عزت کے لیے، اسلامی جمہوریہ کی عظمت کے لیے، ایران کی تقویت کے لیے، وہ اس طرح مختلف اقوام، شہروں اور علاقوں کو ایک دوسرے سے جوڑتے تھے، یہ شہادت کی خصوصیت ہے۔
انہوں نے شاہچراغ کے سانحے جیسے واقعات کی تاریخ میں جاوداں بن جانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: انقلاب سے لے کر آج تک کا ہر واقعہ، تاریخ کا ایک روشن باب ہے، ایک ستارہ ہے۔ یہی سانحہ جو کچھ دن پہلے شاہچراغ میں ہوا، ایک لافانی ستارہ ہے، یہ تاریخ میں باقی رہے گا اور سربلندی اور فخر کا سبب بنے گا۔ ہاں کچھ لوگوں کو غم اٹھانا پڑا، ان میں سے بعض واقعات غم انگيز ہیں اور انسان کے دل کو غم و اندوہ سے بھر دیتے ہیں لیکن یہ واقعات ستارے ہیں، یہ تاریخ میں باقی رہیں گے۔
آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اس ملاقات میں اسی طرح ایرانی عوام کے قیام میں، شہر قم کے مقام و منزلت کی طرف اشارہ کیا اور اسلامی انقلاب کے شہیدوں کو قم کے پرورش یافتہ شہید بتایا۔ انھوں نے کہا: قم نے سب سے پہلے قدم بڑھائے، قم نے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی آواز پر لبیک کہا۔ کون سمجھتا تھا کہ امام خمینی سنہ 1962 اور 1963 میں کیا کہہ رہے ہیں؟ قم کے لوگ تھے جو میدان میں آ گئے۔ یہاں تک کہ جب انھیں محسوس ہوتا تھا کہ تحریک کسی حد تک کمزور پڑ گئي ہے، تب بھی، قم کے لوگ امام خمینی کے درس میں آ گئے، پھر اسلامی انقلاب کی کامیابی سے لے کر آج تک یہ لگاتار اور مسلسل امتحانات ہماری قوم کے لیے اور ہمارے عوام کے لیے موجود رہے ہیں اور اہل قم ان امتحانوں میں ہمیشہ سرخرو ہوئے ہیں۔
مکمل متن صوبۂ قم کے شہیدوں پر سیمینار کے منتظمین سے خطاب
بسم اللہ الرحمن الرحیم
و الحمد للّہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا محمّد و آلہ الطّاھرین سیّما بقیّۃ اللّہ فی الارضین.
سب سے پہلے تو میں قم سے تشریف لانے والے آپ تمام برادران و خواہران گرامی کو خوش آمدید کہتا ہوں اور شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے زحمت کی اور ایک بار پھر شہیدوں کے تعلق سے نہایت ضروری اور اہم سیمینار کا انعقاد کر رہے ہیں۔ ہمارے ان بھائي نے جن اقدامات کا ذکر کیا، ان کے بارے میں کچھ عرض کر دوں اس کے بعد اپنے اصلی موضوعات کی طرف آؤں گا۔
شہیدوں کی سیمینار کی دو اہم خصوصیات؛ شہدا کی یاد تازہ اور ان کا پیغام عام کرنا
یہ تمام کام اور تمام اقدامات جو آپ نے کہے کہ انجام پائے ہیں، اچھے ہیں لیکن توجہ رہے کہ ہم سیمینار میں اور سیمینار سے پہلے اور اس کے بعد جو کام انجام دیتے ہیں ان کی کئي خصوصیات ہیں جن میں سے دو سب سے زیادہ اہم ہیں: ایک یاد اور دوسری پیغام۔ شہیدوں کی یاد زندہ اور باقی رہنی چاہیے، شہیدوں کا پیغام سنا جانا چاہیے، ہم جو اقدامات کرتے ہیں اگر ان میں یہ دو باتیں نہ پائي جاتی ہوں تو کوئي فائدہ نہیں ہے۔ مثال کے طور پر شہید کا مجسمہ بنانا یا قالین وغیرہ پر اس کی تصویر بنانا، ہاں یہ ایک حد تک – گھر کے اندر رکھنے وغیرہ کی حد تک – یاد کا ایک طریقہ ہے لیکن کچھ چیزیں ہیں جو پیغام کی حامل ہو سکتی ہیں، آرٹسٹک کام، اشعار، فلمیں، کتابیں یا نشستیں، پیغام کی حامل ہو سکتی ہیں، ہمیں اس طرح کے کاموں کی ضرورت ہے، شہیدوں کے پیغام کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ "یہ تو واضح سی بات ہے، شہیدوں کے پیغام کو تو سبھی جانتے ہیں، سبھی کو پتہ ہے" نہیں! سب نہیں جانتے۔ جو نئي نئي نسلیں آ رہی ہیں، جو کچھ گزرا ہے، محرکات، افکار اور اسی طرح کی باتوں سے انھیں مطلع ہونا چاہیے۔ جو کام، پیغام کے حامل ہوتے ہیں، ان میں یہ بڑی خصوصیت ہوتی ہے، آپ جو بھی کام کرتے ہیں، ان میں اس بات کو مد نظر رکھیے۔
قم، قیام کرنے اور قیام کروانے والا شہر
آپ نے جو یہ کام شروع کیا، اسے انجام دیا اور ان شاء اللہ بہترین طریقے سے ختم بھی کریں گے، ایک بار پھر آپ کا شکریہ ادا کرنے کے بعد دو باتیں اختصار سے عرض کرنا چاہتا ہوں، ایک قم کے بارے میں اور دوسری شہادت اور شہید کے بارے میں۔ قم قیام کا بھی شہر ہے اور قیام کی ترغیب دلانے کا بھی شہر ہے، ایسا شہر ہے جس نے خود بھی قیام کیا ہے اور پورے ایران کو بھی قیام کے لیے ترغیب دلائي ہے، یہ قم کی خصوصیت ہے۔ البتہ ان خصوصیات میں ہمیں حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کے وجود اور اس شہر میں مبارک حوزۂ علمیہ (اعلی دینی تعلیمی مرکز) کی برکتوں کے اثر کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ ان کے ساتھ ہی قم کے عوام بھی ہیں جنھیں ہم نے قریب سے دیکھا ہے، ان کے کاموں کو دیکھا ہے، ان کے اخلاق کو دیکھا ہے، ان کی خصوصیات کو دیکھا ہے، واقعی قم کے عوام بہت اچھے لوگ ہیں، انھوں نے قم (قیام کرو) کے خطاب پر عمل کیا، ہر جگہ سے پہلے قیام کیا، ہر جگہ سے پہلے جدوجہد کی، ہر جگہ سے پہلے شہیدوں کا نذرانہ پیش کیا۔
انقلاب کے آغاز سے آج تک اہل قم امتحان میں سرخرو ہوئے
دوسری جگہوں کے بہت سے شہداء بھی، حقیقت میں قم کے ہی شہید ہیں، شہید مطہری بھی قم کے شہید ہیں، شہید بہشتی بھی قم کے شہید ہیں، شہید باہنر بھی قم کے شہید ہیں، یہ شہداء بھی قم کے پروردہ ہیں اور شاید ایک لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ ایران کے سبھی شہداء، قم کے شہداء ہیں۔ قم نے یہ راستہ کھولا، قم نے سب سے پہلے قدم بڑھائے، قم نے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی آواز پر لبیک کہا۔ کون سمجھتا تھا کہ امام خمینی سنہ 1962 اور 1963 میں کیا بات کہہ رہے ہیں؟ قم کے لوگ تھے جو میدان میں آ گئے، یہاں تک کہ جب انھیں محسوس ہوتا تھا کہ تحریک کسی حد تک کمزور پڑ گئي ہے، تب بھی، سنہ 1962 میں، جب تحریک کا آغاز ہوا تو قم کے لوگ امام خمینی کے درس میں آئے - میں وہاں پر تھا، مجھے یاد ہے - قم کے مؤقر کاروباری لوگ اور ان کے پیچھے پیچھے بڑی تعداد میں عام لوگ آئے اور امام خمینی کے درس میں بیٹھ گئے، جب ان کا درس ختم ہوا تو ان میں سے ایک صاحب - اگر میں بھول نہیں رہا ہوں تو مرحوم طباطبائي - کھڑے ہوئے اور امام خمینی کو مخاطب کر کے پورے جوش و ولولے سے تقریر کی اور ان سے تحریک جاری رکھنے کو کہا! درحقیقت امام خمینی سے اس کا مطالبہ کیا، امام خمینی بھی میدان میں آ گئے اور انھوں نے اسی نشست میں ٹھوس اور مکمل جواب دیا اور عملی طور پر اس تحریک میں، اس قیام میں ایک نئی روح پھونک دی، قم کے لوگ اس طرح کے ہیں۔ اس وقت قم کے جوانوں نے، یہاں تک کہ ان جوانوں نے بھی، جو شروع میں اس لائن میں نہیں تھے، ہم دیکھتے تھے کہ جب علماء کی تحریک شروع ہوئي، کس طرح اپنا رجحان دکھایا، ہمدلی دکھائي، قم کے لوگ ایسے ہیں۔ پھر انقلاب آ گيا اور انقلاب کے بعد کے واقعات، مقدس دفاع اور اس کے بعد سے لے کر اب تک کے واقعات تک، آج تک، یہ لگاتار اور مسلسل امتحانات ہماری قوم کے لیے اور ہمارے عوام کے لیے موجود ہیں اور اہل قم ان امتحانوں میں سرخرو ہوئے، بہت اچھی طرح۔
ہنر کی زبان، شہیدوں کی یاد اور ان کے پیغام کو منتقل کرنے کی بہترین زبان
البتہ کچھ اہم نکات بھی پائے جاتے ہیں اور میں تاکید کروں گا کہ ان پر زیادہ کام کیا جائے، یعنی وہی دو خصوصیات، یاد اور پیغام۔ ان اہم نکات میں سے ایک، شہید مہدی زین الدین ہیں، وہ خود بڑی اہم اور ممتاز شخصیت ہیں۔ یہ شہید، ایک نوخیز جوان، بیس پچیس سال کے سن میں ایک ٹاسک فورس کی کمان میں کیسی مہارت کا مظاہرہ کرتا ہے، میدان جنگ میں بے مثال شجاعت کا، تدبیر کا، تعمیر کا، ایثار کا مظاہرہ کرتا ہے اور پھر اخلاقیات کے میدان میں، دینداری کے میدان میں، مذہبی اور اسلامی احکامات کے میدان میں بھی اسی طرح کا مظاہرہ کرتا ہے۔ یہ چیزیں واقعی غیر معمولی ہیں، انھیں لوگوں کو بتایا جانا چاہیے، بیان کیا جانا چاہیے۔
آرٹ کے علاوہ کسی بھی دوسری زبان سے ان چیزوں کو بیان نہیں کیا جا سکتا، صرف آرٹ کی زبان سے ہی زندگي کی ان باریکیوں کو بیان کیا جا سکتا ہے، اب یا تو فنکارانہ تحریر ہو، یا اشعار ہوں، فلم ہو، ڈاکیومینٹری ہو یا اسی طرح کی دوسری چیزیں ہوں جن سے ان چیزوں پر کام کیا جا سکے۔ مثال کے طور پر ایک یہ ہے: ایک فوجی جوان کمانڈر یہاں ہے جس کا نام شہید امیر احمدلو ہے، قم کا ایک فوجی ہے جس کی زندگي کے آخری لمحات میں اس کے لیے پانی لایا جاتا ہے یا کوئي شخص یہ سوچتا ہے کہ اسے پانی دے تاکہ وہ پیاسا اس دنیا سے نہ جائے، مگر یہ فوجی جوان پانی نہیں پیتا، اشارے سے کہتا ہے کہ اس سپاہی کو پانی دیا جائے جو اس کے ساتھ تھا، یہ تو وہی صدر اسلام کا ماجرا ہے!(2) جسے ہم لوگوں نے بارہا منبر سے بیان کیا اور لوگوں نے سنا لیکن اس کا صحیح تصور ہمارے ذہنوں میں نہیں آ پایا۔ حقیقت میں یہی واقعہ رونما ہوا، ایک فوجی افسر نے یہ حقیقت ہمارے سامنے مجسم کی۔ کیا یہ کوئي چھوٹی چیز ہے؟ کیا یہ کوئي معمولی بات ہے؟ آرٹ کے علاوہ اسے کس زبان میں بیان کیا جا سکتا ہے؟ یہ کام کرنے کی کوشش کیجیے۔ یا ترانہ گانے والی ٹیم کے شہداء کا واقعہ جو مقدس دفاع کے زمانے کے بے نظیر واقعات میں سے ایک ہے۔ (3) بارہ، تیرہ اور چودہ سال کے کچھ بچے ترانہ گاتے ہیں، جنگي جہاز آتا ہے اور اسی ٹیم کو نشانہ بناتا ہے، فائر کرتا ہے اور وہ سبھی – سب کے سب یا تقریبا سبھی – شہید ہو جاتے ہیں۔ ان کا ترانہ کہاں ہے؟ انھوں نے کیا گایا؟ کیا کہا؟ کیا کیا؟ ان کے والدین نے کیا کیا؟ ان چیزوں کو بیان کرنے کی ضرورت ہے، ان میں پیغام ہے۔ یہ قم کی خصوصیات میں سے ہے، یہ سب مقدس دفاع کے زمانے کے قم کی نمایاں مثالیں ہیں۔ یا شہید خواتین، بتایا گيا کہ کئي سو شہید خواتین ہیں جن میں سے کچھ مجلس عزا میں شہید ہوئیں۔ یہ سب واقعی بہت اہم چیزیں ہیں۔
شاہچراغ جیسے واقعات تاریخ کے جاوداں اور قابل فخر واقعات
تو یہ قم اور انقلاب کے نزدیک سے لے کر آج تک، ان چالیس پینتالیس برسوں کے حوادث سے بھرے ہوئے اور پرافتخار دور کی خصوصیات کے بارے میں کچھ باتیں تھیں۔ ان میں سے ہر واقعہ، بجائے خود ایک دور ہے، تاریخ کا ایک روشن باب ہے، ایک ستارہ ہے۔ یہی سانحہ جو کچھ دن پہلے شاہچراغ میں ہوا(4)، ایک ستارہ ہے، لافانی ہے، یہ تاریخ میں باقی رہے گا، یہ تاریخ میں سربلندی اور فخر کا سبب بنے گا۔ ہاں کچھ لوگوں کو غم اٹھانا پڑا، ان میں سے بعض واقعات غم انگيز ہیں اور انسان کے دل کو غم و اندوہ سے بھر دیتے ہیں لیکن وہ واقعات در حقیقت ستارے ہیں، تاریخ میں باقی رہیں گے، یہ وہ واقعات ہیں جنھیں فراموش نہیں کیا جائے گا۔ ان چالیس پینتالیس برسوں میں ہمارے سامنے ایسے کتنے واقعات رونما ہوئے ہیں! یہ اس قوم کی حیات اور اس کے زندہ ہونے کی علامت ہیں۔ یہ قم کے بارے میں کچھ باتیں تھیں۔
لفظ 'شہید' دینی، قومی اور اخلاقی اقدار کا آئینہ
جہاں تک شہادت کی بات ہے تو لفظ 'شہید' ایک ایسا عنوان ہے جس سے سرسری انداز میں نہیں گزرا جا سکتا۔ لفظ شہید میں دینی، قومی اور اخلاقی اقدار کا ایک مجموعہ پوشیدہ ہے۔ جب آپ کہتے ہیں 'شہید' تو در حقیقت یہ لفظ ایک مکمل کتاب ہے، دینی اقدار کا ایک ذخیرہ ہے، اس لفظ میں قومی معارف کا ایک ذخیرہ ہے، اس لفظ میں اخلاقی تعلیمات کا ایک ذخیرہ ہے، یہ بہت اہم لفظ ہے۔ یہ جو آپ دیکھتے ہیں کہ ہمارے بعض شہید، شہادت کی عاشقانہ آرزو رکھتے تھے تو یہ اس لیے ہے کہ خداوند عالم نے ان کے دلوں میں ایک نور ڈال دیا تھا، اس نور کے ذریعے وہ ایک حقیقت کو دیکھتے تھے اور اسی وجہ سے شہادت کے عاشق تھے۔ شہید سلیمانی کہتے تھے کہ میں صحراؤں میں شہادت کی تلاش میں پھرتا ہوں، اسے تلاش کرتا ہوں۔ انھیں دھمکی دی گئی کہ ہم تمھیں قتل کر دیں گے، انھوں نے کہا کہ میں صحراؤں میں اسے تلاش کر رہا ہوں، اس کی تلاش میں میدانوں اور پہاڑوں میں گھومتا ہوں، مجھے دھمکی دے رہے ہو؟ کچھ لوگوں نے اس کتاب کی تھوڑی سی ورق گردانی کی اور اتنے سے حصے نے ہی انھیں اپنا گرویدہ بنا لیا، اتنے نے ہی انھیں اپنا شیدائی بنا لیا۔
شہید سچے ایمان اور عمل صالح کا مظہر
تو ہم نے کہا دینی، قومی اور اخلاقی اقدار کا ایک ذخیرہ۔ جہاں تک دینی مسائل کی بات ہے تو شہید سب سے پہلی بات جو انسان کو یاد دلاتا ہے، وہ اللہ کی راہ میں جہاد ہے۔ شہید نے خدا کی راہ میں قدم بڑھائے ہیں، مجاہدت کی ہے، شہادت حاصل کی ہے۔ شہید سچے ایمان کا مظہر ہے: صَدَقوا ما عاھَدُوا اللَّہَ عَلَیہِ فَمِنھُم مَن قَضىٰ نَحبَہ (5) یہ وہی "قَضىٰ نَحبَہ" ہے، صداقت کا مظہر ہے، نیک عمل کا مظہر ہے۔ خدا کی راہ میں آگے بڑھنے اور اس راہ میں اپنا پورا وجود اور اپنی پوری ہستی نچھاور کر دینے سے زیادہ نیک عمل اور کون سا ہوگا؟ سچا ایمان اور عمل صالح۔ یہ دینی پہلو ہے اور انہی مختصر سے الفاظ میں معارف کی ایک پوری دنیا نہاں ہے۔
شہید، قومی تشخص کی عظمت کا ضامن
جہاں تک قومی معارف کی بات ہے تو شہید اور شہادت ان چیزوں میں سے ہیں جو قومی تشخص کو نمایاں کرتی ہیں اور قومی تشخص کا مرتبہ بڑھاتی ہیں۔ ایرانی قوم، اسی شہادت طلبی کی وجہ سے ان لوگوں کی نظروں میں عظیم ہوئي جن کے کانوں تک یہ بات پہنچی – البتہ دشمن کے میڈیا کا شور شرابہ اور ہنگامہ، بہت سی چیزوں کو دنیا کے کانوں تک نہیں پہنچنے دیتا لیکن جن کے کانوں تک یہ بات پہنچی، ان کی تعداد بھی کم نہیں تھی، بہت سی اقوام تھیں، ان کی نظروں میں ایرانی قوم کی عظمت بڑھ گئي، کس چیز کی وجہ سے؟ شہید کی وجہ سے۔ صرف جنگ کی وجہ سے نہیں، جنگ تو بہت سی جگہوں پر ہوتی ہے، یہ اس ایثار و فداکاری کی وجہ سے ہے، جس سے شہید پیدا ہوتا ہے، ان گھرانوں کی وجہ سے ہے، شہداء کے گھرانے، یہ ماں باپ، ان کی وجہ سے ہے۔ ان کی جو بھی بات باہر پہنچی، اس نے اس قوم کی عظمت میں اضافہ کیا، تو شہید، قومی تشخص کو درخشاں بناتا ہے، نمایاں کرتا ہے، اس کا مرتبہ بڑھاتا ہے۔
شہید، ایثار و شجاعت کا مظہر
لفظ 'شہید' میں اخلاقی اور انسانی اقدار پوشیدہ ہیں – دین سے قطع نظر کرتے ہوئے – جیسے ایثار۔ شہادت، ایثار کی مظہر ہے۔ کوئي دوسروں کے آرام کے لیے اپنی جان قربان کر دیتا ہے، سیکورٹی کا پاسباں شہید اپنی جان دے دیتا ہے تاکہ دوسرے امن و امان کے ساتھ زندگي گزار سکیں۔ مقدس دفاع کا شہید اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتا ہے تاکہ خبیث اور ظالم دشمن، اپنے پختہ عزائم کو عملی جامہ نہ پہنا سکے – اس نے کہا تھا کہ تہران تک جاؤں گا اور ایرانی قوم کو ذلیل کر کے رہوں گا – شہید ایسا ہوتا ہے۔ ہم اور آپ اپنے گھروں میں بیٹھے ہوئے ہیں اور وہ وہاں لڑ رہا ہے تاکہ ہم آرام سے رہیں، دشمن ہمارے پاس نہ آنے پائے۔ یہ ایثار، ایک اعلی اخلاقی صفت ہے، کسی بھی دین و مذہب اور مذہبی عقیدے سے قطع نظر، انسان اسے اہمیت دیتے ہیں۔ شہادت، سے شجاعت کا پتہ چلتا ہے۔ بنابریں لفظ 'شہادت' ان تمام اخلاقی اقدار کا مجسمہ ہے۔
شہادت، خدا سے سودا اور قومی مصلحتوں کی پاسبانی
بنابریں شہادت ایک طرف تو خدا سے سودا ہے، وہ صدق جو ہے وہ خدا سے سودا ہے: اِنَّ اللَّہَ اشتَرىٰ مِنَ المُؤمِنينَ اَنفُسَھُم وَ اَموالَھُم بِاَنَّ لَھُمُ الجَنَّۃ.(6) جہاں تک مجھے یاد ہے، امیرالمومنین علیہ السلام اور امام زین العابدین علیہ السلام سے منقول ہے کہ تم لوگوں کی جان کی قیمت بہت زیادہ ہے، اسے جنت کے علاوہ کسی اور چیز کے بدلے مت بیچو۔(7) یہ جان بڑی قیمتی ہے، تمھارے وجود کی قیمت بہت زیادہ ہے، اسے صرف بہشت کے عوض بیچو، جان خدا کی ہے، خدا ہی اس کا خریدار ہے۔ اِنَّ اللَّہَ اشتَرىٰ مِنَ المُؤمِنينَ اَنفُسَھُم وَ اَموالَھُم بِاَنَّ لَھُمُ الجَنَّۃ۔ تو شہادت ایک طرف خدا سے سودا ہے اور دوسری طرف قومی مصلحتوں کی پاسبانی کرنے والی ہے، اسی تشخص کی تقویت جسے ہم نے عرض کیا۔ اللہ کی راہ میں شہادت، قومی مصلحتوں کو اور قوم کے مفادات کو یقینی بناتی ہے۔
شہادت؛ ہمدلی کا عنصر اور ملک کے مختلف شعبوں کو جوڑنے والی کڑی
شہادت، ہمدلی پیدا کر سکتی ہے۔ آپ خود ہمارے ملک کو دیکھیے، ہمارا ملک مختلف قومیتوں کا ایک مجموعہ ہے نا، مختلف زبانیں، مختلف قومیں: ہمارے یہاں فارس ہیں، ترک ہیں، عرب ہیں، لر ہیں، بختیاری ہیں، مختلف اقوام ہیں، تسبیح کے ایک دھاگے نے ان سب کو آپس میں جوڑ رکھا ہے اور تسبیح کے اس دھاگے کا ایک حصہ، یہی شہادت ہے۔ آپ کسی بھی شہر میں چلے جائيے، یہی نظر آئے گا کہ کسی شہید یا کچھ شہیدوں کے نام اس شہر میں نمایاں ہیں۔ فرض کیجیے کہ آپ اس ملک کے شمال میں، اس ملک کے جنوب میں، ملک کے مشرق میں، ملک کے مغرب میں، جس شہر میں بھی جائيے، کچھ شہیدوں کے نام ہیں جو نمایاں نظر آتے ہیں۔ ممکن ہے ان شہروں کو ایک دوسرے کی بہت زیادہ خبر نہ ہو لیکن ان کے شہید ایک جگہ، ایک ہدف کے ساتھ اور ایک ہی صف میں لڑتے ہوئے شہید ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک شہید جس کا تعلق ملک کے جنوبی حصے سے ہے، اس شہید کے ساتھ، جو شمال یا مشرق کا ہے، ایک ہی صف میں تھا، وہ ایک ہی ہدف کے لیے شہید ہوئے، اسلام کی عزت کے لیے، اسلامی جمہوریہ کی عظمت کے لیے، ایران کی تقویت کے لیے، وہ ان چیزوں کے لیے شہید ہوئے، ایک واحد ہدف کے لیے شہید ہوئے۔ یہ چیز، ان قوموں کو، ان شہروں کو، ان علاقوں کو ایک دوسرے سے جوڑتی ہے، ایک دوسرے سے متصل کرتی ہے، یہ شہادت کی خصوصیت ہے۔ وہ دینی پہلو، خدا سے سودا ہے، یہ قومی پہلو، ملک کے مختلف شعبوں کو ایک دوسرے سے جوڑنے والا ہے جبکہ وہ اخلاقی پہلو، اس ملک کی اخلاقی خصوصیات کی یاد دہانی کراتا ہے۔
نئی نسل کے لیے فن و ہنر کے ڈھانچے میں جنگ کے خزانے کی گنجائش سے استفادے کی سفارش
اپنی تقریر کے ابتدائي حصے میں جو بات میں نے کہی تھی اب اسی کے تسلسل میں صرف ایک نصیحت کرنا چاہتا ہوں۔ یہ چیزیں رکی نہ رہ جائیں۔ کبھی میں نے کہا تھا کہ جنگ ایک خزانہ ہے(8) واقعی ایسا ہی ہے۔ میں شہیدوں سے متعلق کتابیں، زیادہ پڑھتا ہوں، ہر ایک پڑھتا ہوں، گویا ان سے انسان کو ایک نئي چیز سمجھ میں آتی ہے۔ میں پڑھتا رہتا ہوں، دسیوں سال سے، سنہ 80 کے عشرے سے اب تک ان کتابوں کو پڑھتا آ رہا ہوں۔ ان میں سے ہر ایک کتاب، جو کسی شہید کی سوانح حیات ہے، انسان کے سامنے ایک نیا صفحہ کھول دیتی ہے اور انسان کو دکھاتی ہے، چاہے وہ خود شہید کے بارے میں ہو، چاہے ان والدین کے بارے میں ہو، یہ بہادر مائيں، یہ درگذر کرنے والے باپ۔ ان والدین کا ہم پر بڑا حق ہے! ہمارے عزیز شہداء کے کچھ والدین اس نشست میں بھی موجود ہیں۔
یہ باتیں پہنچائي جانی چاہیے اور میں نے عرض کیا کہ ان میں سے بیشتر کو یعنی شاید نوے فیصد کو منتقل کرنے کے لیے آرٹ کی زبان کی ضرورت ہے۔ البتہ میں یہ نہیں کہتا کہ تاریخ، کتابیں اور دوسری چیزیں نہ لکھیں، کیوں نہیں، لکھیں! لکھی جانی چاہیے لیکن وہ چیز جس میں اس بات کی گنجائش ہے کہ وہ اس شہادت، شہید، مقدس دفاع، ایثار اور ایسی ہی دوسری باتوں کو پوری تفصیلات اور گہرائي سے دوسروں تک پہنچا سکے، وہ فن و ہنر ہے۔ مثال کے طور پر فرض کیجیے، میں نے ترانہ گانے والی اس ٹیم کا ذکر کیا، تو ٹھیک ہے، اس کے لیے ڈاکیومینٹری بنائيے، اس ٹیم کے لیے ایک ڈاکیومینٹری بنائیے، ان کی نقل تیار کیجیے تاکہ لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں، وہ جو واقعہ ہوا تھا، اسے لوگوں کو دکھائيے۔ جب میں کہتا ہوں کہ "لوگوں" کو دکھائيے، تو ہم پرانے لوگوں نے یہ چیزیں دیکھی ہیں لیکن آپ میں سے بہت سوں نے جو یہاں بیٹھے ہیں، ہمارے نوجوانوں نے، نئي نسل نے نہیں دیکھا ہے، انھیں دکھانا چاہیے، جو کچھ ہوا تھا اسے یہ قریب سے دیکھیں۔ شہداء کی انہی سوانح حیات میں، ان تفصیلات کو دیکھیے۔ آرٹسٹک کاموں کے لیے کتنی زیادہ گنجائش ہے، ڈاکیومینٹری فلمیں بنانے کے لیے، فیچر فلمیں بنانے کے لیے، سیریلز بنانے کے لیے، نظم اور شعر کے لیے! بحمد اللہ ہمارے یہاں اچھے شاعر ہیں، قم میں آپ کے یہاں بھی اچھے شعراء ہیں، وہ شعر کہیں، اچھے شعر کہیں تاکہ یہ یادیں باقی رہیں۔
شہید اور شہادت کی یاد اور اس کا پیغام پوری طاقت سے بھرپور انداز میں منتقل کیا جائے
بہرحال آپ کا کام گرانقدر ہے، میں سراہتا ہوں اور امید ہے کہ ان شاء اللہ وہ سبھی لوگ جن کا دل اسلام کے لیے، انقلاب کے لیے، اس قوم کے لیے، ان جوانوں کے لیے، نوخیز نسل کے لیے، ہمارے بچوں کے لیے، ہمارے پیارے ایران کے لیے دھڑکتا ہے، ان سے جتنا ممکن ہو، جتنی ان میں طاقت ہے، جتنی ان میں صلاحیت ہے، اس سلسلے میں کام کریں، کوشش کریں، شہید اور شہادت کے موضوع کو ان کی یاد اور پیغام کے ساتھ جاری رکھیں۔
ہم حضرت احمد ابن موسی (شاہچراغ) علیہ السلام کے روضۂ اطہر کے پیارے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں، ان کے اہل خانہ اور پسماندگان کو دل کی گہرائيوں سے تعزیت پیش کرتے ہیں، مبارکباد بھی پیش کرتے ہیں - کیونکہ ان شاء اللہ خداوند عالم کے قریب ان کا مقام بہت بلند ہے - خداوند عالم سے آپ کی توفیقات کے لیے دعاگو ہیں، خداوند متعال امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی پاکیزہ روح کو بھی اپنی رحمت اور لطف سے نوازے کہ وہی تھے جنھوں نے ہم سب کے لیے یہ راستہ کھولا۔
والسّلام علیکم و رحمۃ اللّہ و برکاتہ
(1) اس ملاقات میں پہلے حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کے روضۂ اطہر کے متولی اور اس سیمینار کی پالیسی ساز کونسل کے سربراہ حجت الاسلام و المسلمین سید محمد سعیدی گلپایگانی، صوبۂ قم کے گورنر اور سیمینار کے سربراہ جناب سید محمد تقی شاہچراغی، علی ابن ابی طالب بریگیڈ کے کمانڈر سیکنڈ بريگيڈیراور سیمینار کے سیکریٹری جنرل محمد رضا موحد نے رپورٹیں پیش کیں۔
(2) ایسا ہی واقعہ اسلام اور روم کے لشکروں کے درمیان ہونے والی جنگ، جنگ موتہ میں پیش آيا تھا۔
(3) قطب راوندی اسکول کے ترانہ گروپ کے اسٹوڈنٹس، 21 جنوری 1987 کو قم کے تربیت سنیما ہال میں اپنا ترانہ پیش کرنے کے بعد دشمن کی بمباری کا نشانہ بن کر شہید ہو گئے۔
(4) 26 اکتوبر 2022 کو مغرب کے وقت ایک مسلح شخص نے حضرت احمد ابن موسی (شاہچراغ) علیہ السلام کے روضۂ اطہر میں داخل ہو کر زائرین پر فائرنگ کر دی جس میں 13 افراد شہید اور متعدد دیگر زخمی ہو گئے۔ اس واقعے کے بعد دہشت گرد گروہ داعش نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی۔
(5) سورۂ احزاب، آيت 23، اور اہل ایمان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جنھوں نے وہ عہد و پیمان سچ کر دکھایا جو انھوں نے اللہ سے کیا تھا تو ان میں سے کچھ شہید ہوئے۔
(6) سورۂ توبہ، آيت 111، بے شک اللہ نے مومنین سے ان کی جانیں اور ان کے مال اس قیمت پر خرید لیے ہیں کہ ان کے لیے بہشت ہے۔
(7) یہ روایت کتابوں میں امام موسی کاظم علیہ السلام سے منقول ہے۔
(8) استقامتی آرٹ اور ادب کے دفتر کے عہدیداروں سے ملاقات (16/7/1991)
دعا کی قبولیت کی شرایط سوره غافر کے رو سے
ایکنا نیوز- قرآن کریم کا چالیسواں سورہ «غافر» ہے جس میں 85 آیات ہیں اور یہ قرآن کے 24 ویں پارے میں ہے۔
سوره غافر مکی سورہ ہے اور ترتیب نزول کے حوالے سے قرآن کا ساٹھواں سورہ ہے جو قلب رسول گرامی اسلام(ص) پر نازل ہوا ہے۔
«غافر» کا معنی خطا چھپانے اور بخشنے والا ہے اور یہ خدا کی صفت ہے جو اس سورہ کی تیسری آیت میں ذکر کی گیی ہےاور اسی وجہ سے اس سورہ کو غافر کا نام دیا گیا ہے۔
اس سورے کا اہم موضوع کفار کا جھگڑا قرآن بارے ہے جو اس کو باطل دکھانے کی کوشش کرتا ہے اور خدا انکو عذاب کا وعدہ دیتا ہے۔
دیگر اہم موضوعات میں خدا کے بعض اہم اسماء کا ذکر ہے، اس کے بعد کفار کو دنیا و آخرت کی سزا کا ذکر ہے اور پھر حضرت موسی(ع) اور فرعون، داستان مومن آل فرعون پر بات ہوئی ہے۔
خدا کے ہونے پر دلیل، شرک کو باطل اور رسول گرامی کی دعوت کے علاوہ خدا کی بعض نعمتوں کو بیان کیا گیا ہے، اسی طرح مختلف سرزمین کی سفر کرنے تاکہ عبرت حاصل کی جاسکے پر تاکید کی گیی ہے۔
آیات ۲۸ تا ۴۵ سوره غافر میں داستان مؤمن آل فرعون پر بات کی گیی ہے. مؤمن آل فرعون کا چچا زاد اور فرعون کا وزیرخزانہ ہے جس نے طویل عرصے تک اپنے ایمان کو چھپائے رکھا، جب
حضرت موسی(ع) نے سر عام دعوت ایمان دی تو مؤمن آل فرعون نے ایمان کا ظاہر کیا اور آخر کار فرعون کے ہاتھوں شہید ہویے. انکے ہاتھ اور انگلیاں صلیب پر خشک ہوگئیں تھیں تاہم پھر بھی وہ اپنی قوم کو اشارہ کرکے کہتے کہ میری پیروی کرو تاکہ تمھیں کمال کی طرف ہدایت کرسکوں۔
اس سورہ میں قبولیت یا استحابت دعا پر اشارہ ہوا ہے اور آیت 60 سوره غافر میں کہا گیا ہے: «وَقَالَ رَبُّکمُ ادْعُونِی أَسْتَجِبْ لَکمْ: مجھے پکارو تاکہ قبول کروں».
تفاسیر میں شرایط دعا بارے کہا جاتا ہے کہ چار گروپ کی دعا قبول نہیں ہوتی، جو گھر بیٹھ کر دعا کرے کہ خدایا مجھے رزق دے۔ جو مرد بیوی سے ناراض ہو اور دعا کرے کہ خدایا مجھے ان سے چھٹکارا دے، جو اپنے مال کو فضول خرچ کرے اور پھر کہے خدایا مجھے رزق دے اور جو بغیر گواہ کے کسی کو قرض دے۔/



















![جناب خدیجہ کبری[س] کی سیرت](/ur/media/k2/items/cache/ef2cbc28bb74bd18fb9aaefb55569150_XS.jpg)
