سلیمانی

سلیمانی

Monday, 10 October 2022 12:52

معاہدہ توڑا نہیں جاتا

گرمی کے موسم میں ایک دن ہمارے پیغمبر حضرت محمد مصطفی دھوپ میں ایک پتھر پر بیٹھے ہوئے تھے دن بہت گرم تھا دھوپ پیغمبر اسلام کے سر اور چہرہ مبارک پر پڑ رہی تھی پیغمبر اسلام کی پیشانی سے پسینہ ٹپک رہا تھا گرمی کی شدت سے کبھی اپنی جگہ سے اٹھتے اور پھر بیٹھ جاتے اور ایک جانب نگاہ کرتے کہ گویا کسی کے انتظار میں بیٹھے ہیں پیغمبر اسلام کے اصحاب کا ایک گروہ اس نظارے کو دور سے بیٹھ کر دیکھ رہا تھا وہ جلدی سے آئے تاکہ دیکھیں کہ کیا وجہ ہے سامنے آئے سلام کیا اور کہا! یا رسول اللہ اس گرمی کے عالم میں آپ کیوں دھوپ میں بیٹھے ہوئے ہیں رسول خدا نے فرمایا! صبح کے وقت جب ہوا ٹھنڈی تھی تو میں نے ایک شخص کے ساتھ وعدہ کیا کہ میں اس کا انتظار کروں گا وہ یہاں آجائے۔ اب بہت دیر ہوگئی ہے اور میں یہاں اس کے انتظار میں بیٹھا ہوا ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ یہاں دھوپ ہے اور آپ کو تکلیف ہورہی ہے۔ وہاں سایہ کے نیچے چل کر بیٹھئے اور اس کا انتظار کیجئے پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ میں نے اس آدمی سے یہاں کا وعدہ کیا ہے میں وعدہ خلافی نہیں کرتا اور اپنے پیمان کو نہیں توڑتا جب تک وہ نہ آئے میں یہاں سے نہیں ہٹوں گا۔
پیارے بچو! ہمارے پیغمبر اسلام عہد و پیمان کو بہت اہمیت دیتے تھے اور پیمان کو توڑنا بہت بڑا گناہ سمجھتے تھے اور ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص عہدو پیمان کی وفا نہ کرے دیندار نہیں ہے اور یہ بھی فرمایا ہے کہ مسلمان اور مومن انسان ہمیشہ اپنے عہدوپیمان کا وفادار ہوتا ہے اور کبھی اپنے پیمان کو نہیں توڑتا اور یہ بھی فرماتے تھے کہ جو انسان سچا امانتدار اور خوش اخلاق ہواور اپنے عہد و پیمان کی وفا کرے تو آخرت میں مجھ سے زیادہ نزدیک ہوگا قرآن بھی تمام مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ اپنے عہدو پیمان کی وفا کریں کیونکہ قیامت کے دن عہد اور وفا کے بارے میں سوال و جواب ہوگا۔
مذاق اڑانا
دوستو! اگر آپ کا کوئی مذاق اڑائے تو آپ کی کیا حالت ہوگی۔ کیا آپ ناراض ہوں گے؟
اگر آپ درس پڑھتے وقت کوئی غلطی کریں اور دوسرے آپ کا مذاق اڑائیں اور آپ کی نقل اتاریں تو کیا آپ ناراض ہوتے ہیں کیا آپ کو یہ برا لگتا ہے کیا اسے ایک بے ادب انسان شمار کرتے ہیں دوسرے بھی آپ کی طرح مذاق اڑائے جانے پر ناراض ہوتے ہیں اور تمسخر و مذاق اڑانے والے کو دوست نہیں رکھتے اور خدا بھی مذاق اڑانے والے کو دوست نہیں رکھتا اور اسے سخت سزا دیتا ہے۔ خداوند عالم قرآن مجید میں انسانوں کو مذاق اڑانے اور مسخرہ کرنے سے منع کرتا ہے اور فرماتا ہے:
”اے انسانو! جو خدا اور روز قیامت پر ایمان رکھتے ہو خبردار تم میں سے کوئی کسی دوسرے کا مذاق نہ اڑائے کیونکہ ممکن ہے کہ اپنے سے بہتر کا مذاق اڑا رہا ہو ایک دوسرے کو برا نہ کہو اور ایک دوسرے کو برے اور بھدے(نامناسب) ناموں سے نہ بلاﺅ ایک مسلمان کے لئے برا ہے کہ وہ کسی کی توہین کرے اور اسے معمولی شمار کرے پیغمبر اسلام نے فرمایا ہے! جو شخص کسی مسلمان کا تمسخر یا مذاق اڑائے اور اس کی توہین کرے یا اسے معمولی سمجھ کر تکلیف دے تو اس کا یہ کام ایسا ہی ہے جیسے اس نے مجھ سے جنگ کی ہو۔

اسلام ٹائمز۔ انصار اللہ یمن کے سربراہ سید عبدالمالک بدر الدین الحوثی نے صنعاء میں پیغمبر اکرم (ص) کے یوم ولادت باسعادت کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ظالم اور استکبار اپنے وجود کو برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں، لوگوں کو نبیوں اور رسولوں اور آسمانی تعلیمات اور دین سے دور کررہے ہیں، مذہب کے نام پر بگاڑ اور فساد پھیلاتے ہیں اور رشتوں کو حرام اور ہم جنس پرستی جیسے گھناؤنے جرائم کو پھیلاتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اچھے اعمال کا نہ ہونا اور ان کی جگہ سیاہ خیالات اور برے مقاصد زندگی کو ایک بڑی مصیبت میں بدل دیتے ہیں۔ عبدالمالک الحوثی نے کہا کہ انسانی مصائب کی بنیادی وجہ ہدایت اور الٰہی تعلیمات کے راستے سے انحراف ہے جبکہ ان تعلیمات کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا اور اس کا کوئی متبادل بھی نہیں لا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ ایک شخص جتنا زیادہ خدائی اقدار کو نظر انداز کرتا ہے اتنا ہی زیادہ تکلیف اٹھاتا ہے اور اپنے دشمنوں کی زیادتی کا شکار ہوتا ہے۔ تحریک انصار اللہ کے رہنما نے مزید کہا کہ استکبار کہ جو ہمارے زمانے میں امریکہ اور غاصب اسرائیل ہیں، اور ان کے اتحادیوں کی تمام کوششیں انسانوں کو روشنی کے راستے سے نکال کر اندھیروں کی طرف لے جانے کے لئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ رسول اللہ (ص) انسانی کمالات کی معراج پر پہنچے اور آپ (ص) سب سے بڑے رسول اور بہترین انسان تھے، رسول اللہ (ص) نے ظالموں کو کچل کر عظیم کارنامہ انجام دیا اور عربوں کو جاہلیت سے دور سے نکال کر نور کی طرف لے گئے۔ الحوثی نے کہا کہ اگر مسلمان رسول اللہ (ص) کے راستے پر چلتے تو آج انسانی معاشروں کے قائدین میں سے ہوتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں مغرب اور مغربی معاشروں کے رہنماؤں سے کہتا ہوں کہ خدا اور اس کے رسولوں کی توہین، انبیاء سے دشمنی، خدا کی کتاب کو جلانے اور خدا کی تعلیمات سے دشمنی بند کریں۔ انصار اللہ کے رہنما نے کہا کہ میں مغرب کے رہنماؤں کو دعوت دیتا ہوں کہ اقدار سے لڑنا، بدعنوانی اور برائیوں کو فروغ دینا اور قوموں میں بگاڑ پیدا کرنے کی کوشش کرنا چھوڑ دیں، میں ان سے کہتا ہوں کہ وہ اپنے ممالک کے حالات اور ان کے مسائل کے بارے میں سوچیں۔

الحوثی نے مزید کہا کہ میں مغرب کے رہنماؤں کو دنیا اور آخرت کے سنگین نتائج اور عذاب الٰہی سے خبردار کرتا ہوں اور انہیں صیہونیت کے طوق سے آزاد ہونے کی دعوت دیتا ہوں، جس نے انہیں گمراہ کیا ہوا ہے اور ان پر مکمل غلبہ حاصل کر رکھا ہے۔ انہوں نے مزید کہا ہم امت اسلامیہ کے تمام مسائل بالخصوص مسئلہ فلسطین اور مسجد اقصیٰ کے حوالے سے اپنے اصولی اور قرآنی موقف پر تاکید کرتے ہیں۔ الحوثی نے کہا کہ صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا خدا، پیغمبر اکرم (ص) اور مسلمانوں کے ساتھ خیانت اور کھلی منافقت ہے۔ انہوں نے یمن پر جارحیت پسندوں کے اتحاد سے کہا کہ وہ اپنی جارحیت کو ختم کرے اور یمن کی ناکہ بندی ختم کرے، قبضہ ختم کرے اور اس جنگ کو بند کرے۔ الحوثی نے یمنی قوم سے بھی درخواست کی کہ وہ جارحیت کا مقابلہ کرتے رہیں اور اس محاذ آرائی کو مقدس جہاد سمجھیں۔
 
 
 
Monday, 10 October 2022 12:37

لبیک یارسول اللہﷺ یعنی

ہمارے لامحدود سلام اس پر کہ جسے رب العالمین نے رحمت للعالمین بنا کر بھیجا۔ سلام  اس ہستی پر کہ جو سید الانبیأ ہیں، جو مکہ و منیٰ کے وارث ہیں۔ سلام اس پر جس نے اپنی ردا میں حجرِ اسود کو اٹھایا۔ سلام ہو اس پر جس کی بُراق سواری تھی۔ جسے راتوں رات مسجدالحرام سے مسجد اقصیٰ تک سیر کرائی گئی۔ سلام اس پر کہ جسے جبرائیل سدرۃ المنتہیٰ تک لے گئے۔ سلام اس پر کہ جو مقامِ قاب قوسین او ادنیٰ کی منزل تک جا پہنچا۔ سلام اس پر کہ جس نے آسمان کے فرشتوں کو  نماز پڑھائی۔ سلام اس پر کہ جس پر ربِّ جلیل نے وحی فرمائی۔ ان پر سلام جو طبیبِ دَوّار تھے۔ جو اپنی حکمت کو لئے ہوئے، اندھے دلوں، بہرے کانوں اور گونگی زبانوں کا علاج کرتے تھے۔ وہ ایسے طبیب کی مثل کہ جس کو انسانیت کا درد ہو اور وہ  دوا لئے غفلت زدہ اور حیرانی و پریشانی کے مارے ہوؤں کی کھوج میں لگا رہتا ہو۔ سلام ہو اس پر کہ جس نے بادشاہی میں فقیری کی۔ سلام اس پر کہ جس نے بیکسوں کی دستگیری کی۔ جو ضعیفوں کا ملجا اور یتیموں کے لئے پناہ گاہ تھے۔

سلام اس پر جس نے آکر جاہلوں کو عالم، سود خوروں کو کسب حلال، قاتلوں اور زندہ در گور کرنے والوں کو فرزند دوستی، مشرکوں کو موحِّد، فرقوں میں منقسِم لوگوں کو منسجم، خرافات زدوں کو حقیقت کے متلاشی اور ذلّت میں پڑے ہوؤں کو عزت و عظمت کی راہ دکھائی۔ "ذرّہ ریگ کو دیا تو نے طلوعِ آفتاب۔" سلام ہو ہادیِ برحق خدا کے صادق اور امین رسولﷺ پر۔ اس پر سلام جو انسانیت کے غم میں مصلوں سے اشکوں کو ترَ کرتا تھا۔ جو ظلمات میں گھرے ہوؤں کے لئے مشعلِ راہ تھا۔ جس کی امّتی امّتی کہتے کہتے، مناجات کرتے ہوئے سحر ہو جاتی تھی۔ اس پر سلام کہ جسے پھر بھی پتھر مار کر لہو لہان کر دیا جاتا، کبھی مجنون تو کبھی جادو گر کہا جاتا۔ سلام اس مکارم اخلاق کی بلندیوں پر فائز رسولﷺ پر۔ سلام اس پر جس نے ایسی حکومت کی بنیاد رکھی کہ جس میں کسی گورے کو کالے پر، کالے کو گورے پر، عجمی کو عربی پر اور عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت نہیں تھی۔ جہاں فضیلت کا معیار تقویٰ تھا۔

سلام ہو اس کارخانۂ تربیت پر کہ جس نے ایسے انسانوں کی تربیت کی کہ جو دنیا کے لئے باب العلم، نجات کی کشتی اور ہدایت کے چراغ بنے۔ اس پر سلام جس نے مردہ دلوں میں روحِ حیات پھونک دی۔ وہ بلال رضی اللہ عنہ کہ جو لوگوں کے کہنے پر بھاگتے تھے۔ یارسول اللہﷺ یہ آپ کا کرم تھا کہ وہی موذّن جب اذان کی صدا بلند کرتا تھا، تمام لوگ اس صدا پر لبیک کہتے ہوئے خانۂ خدا کا رخ کر لیتے تھے۔ خدا کی لعنت ہو ان پر جنہوں نے اُس زمانے میں اللہ کے محبوب پیامبرﷺ کو اذیتیں دیں۔ جن کی اذیتوں پر تبت یدا ابی الہب کی آیات نازل ہوئیں۔ پیغام ہے ان ذلیل، پست فطرت اور اسفل سافلین کے مصداق لوگوں پر کہ جو آج نفس کی اسیری میں مبتلا، آزادی ٔبیاں کے نام پر محسنِ انسانیت کی شان میں گستاخی کرتے ہیں۔ تم کیا ہو، تم سے پہلے کتنے ابو جہل و ابولہب اس نور کے مٹنے کی آس لیکر  فی الناّر ہوئے۔ تم نے خود اپنے آپ کو شجرۂ خبیثہ کا مصداق قرار دیا ہے۔

یہ وہ نور ہے، جس کے ِاتمام کا وعدہ خود خداوند متعال نے فرمایا ہے۔ تم نہیں رہو گے، جب تک خدائی ہے، محمد مصطفیٰﷺ کا نام باقی رہے گا۔ ایھا المسلمون! آئیں سیرت و کردار میں اس صادق و امین پیامبرﷺ کے اسوہ ٔحسنہ کو عملی کریں۔ وہ جس رحمت للعلمین نے پَرایوں کو اپنا بنایا تھا۔ ہم اپنوں کو پرایا نہ بنائیں۔ خدا ایک، رسول ایک، کلمہ ایک، قبلہ ایک، قرآن ایک، لیکن ہم کیوں ایک نہیں ہیں۔؟
منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبیﷺ، دین بھی، ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک
کیا بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟ (جوابِ شکوہ:علامہ اقبالؒ)

ہم اپنا رول ماڈل اُس مدینہ کو قرار دیں، جس کا سیاسی، اقتصادی اور معاشرتی نظام اسلامی تھا۔ لبیک یارسول اللہﷺ یعنی زبان سے بھی اور عمل سے بھی، کہ ہم ان طاغوتوں کے سامنے نہیں بلکہ الہیٰ اقدار کے سامنے سر جھکائیں گے۔ تمام اخلاقی اقدار میں دنیا کے کیلئے رول ماڈل بنیں گے۔ افسوس ہے ان نام لیوا مسلمانوں پر کہ جن کا نام تو مسلمانی ہے، لیکن آج روحِ اسلام سے خالی ہیں، جو پنجۂ یہود میں جکڑے ہوئے ہیں۔ جن کا رول ماڈل اللہ کے حبیب نہیں بلکہ مغربی تہذیب کے یہ تراشے ہوئے بُت ہیں۔ جہاں دشمنِ دیں، دشمنِ رسول اللہﷺ سے بیزاری کا اعلان کرنا ہے، وہاں یہ بھی عہد کرنا ہے کہ لبیک یارسول اللہﷺ یعنی ہماری جان، مال اور اولاد آپ کی راہ پر قربان۔ لبیک یعنی یہ اقرار کہ یہود و نصاریٰ سے بیزاری کا اعلان، یعنی اس بات کا اعلان کہ تعلیم، سیاست اور معاشرت آپﷺ کی تعلیمات کی روشنی میں ہوگی۔ علّامہ اقبال ؒ کا پیغام
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی

تحریر: مقدر عباس

افغانستان کے قصبے دشت برچی میں ہولناک دہشت گردانہ حملے کو ایک ہفتہ گزر چکا ہے۔ اس حملے میں 35 نوجوان بچے اور بچیاں شہید ہو گئی تھیں۔ یہ بچے اور بچیاں کاج تعلیمی مرکز میں یونیورسٹی کا داخلہ امتحان دینے کی غرض سے آئے تھے۔ البتہ اس سے پہلے بھی سیدالشہداء گرلز کالج اور کئی دیگر اسپتال اور تعلیمی مراکز ایسی بربریت کا شکار ہو چکے تھے۔ اسی طرح کئی مساجد اور امامبارگاہوں کو بھی انسان سوز دہشت گردی کا نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ ان تمام دہشت گردانہ اقدامات میں شہید ہونے والے افراد کی اکثریت کا تعلق اہل تشیع ہزارہ برادری سے ہے۔ دشت برچی میں رونما ہونے والا واقعہ تازہ ترین سانحہ ہے۔ یہ دہشت گردانہ حملہ کرنے والا صرف ایک دہشت گرد تھا جس نے نہتے بچوں اور بچیوں پر فائرنگ کرنے کے بعد خودکش دھماکہ کر دیا۔
 
جمعہ کے روز سے ہی جب یہ حملہ انجام پایا ہے، عوام کی جانب سے وسیع ردعمل سامنے آیا ہے۔ اس حملے کے بعد ایک بار پھر "ہزارہ برادری کی نسل کشی" کا ایشو میڈیا میں سامنے آ گیا ہے۔ افغانستان میں مختلف قومی اور مذہبی گروہوں کی جانب سے شیعہ اقلیت کے حقوق کی پامالی اور ان پر دھونس جمانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ ان دنوں افغانستان میں جو حالات حکمفرما ہیں ان کی روشنی میں "ہزارہ کشی" کی اصطلاح رائج ہو چکی ہے۔ ان سب کا اشارہ ہزارہ برادری کو تحفظ فراہم کرنے میں موجودہ افغان حکومت کی ناکامی کی جانب ہے۔ اگرچہ دشت برچی میں رونما ہونے والے حالیہ خودکش دھماکے کی ذمہ داری کسی گروہ نے قبول نہیں کی لیکن ماضی میں اسی قصبے میں انجام پانے والے دیگر دہشت گردانہ اقدامات کی ذمہ داری تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کی شاخ امارت خراسان قبول کر چکی ہے۔
 
دشت برچی میں کاج تعلیمی مرکز پر ہونے والے اس خودکش دھماکے میں 82 بچے اور بچیاں زخمی بھی ہو گئی ہیں جن میں سے زیادہ تعداد بچیوں کی ہے۔ خون میں لت پت ان بچیوں کی تصاویر اور شہید ہونے والے بچوں اور بچیوں کی خون آلود کتابوں اور کاپیوں کی تصاویر نے اس واقعے کو اب تک زندہ رکھا ہوا ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی سوگوار فضا حاکم ہے لیکن افغانستان کی خواتین نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا اور سڑکوں پر نکل کر احتجاج بھی کر رہی ہیں۔ گذشتہ ہفتے کابل، ہرات اور مزار شریف سمیت افغانستان کے مختلف شہروں میں خواتین کی ریلیاں اور احتجاجی مظاہرے منعقد ہوئے ہیں۔ مظاہرین نے منظم منصوبہ بندی کے ذریعے ایک ہی قوم کے افراد کو دہشت گردانہ حملوں کا نشانہ بنانے کو نسل کشی قرار دیا اور اس کی شدید مذمت کی ہے۔
 
افغانستان پر طالبان کے برسراقتدار آئے ایک برس سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے اور اس تمام عرصے میں لڑکیوں کو کالج لیول پر تعلیم جاری رکھنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اسی طرح لڑکیوں کے پرائمری اسکولوں کی تعداد بھی بہت کم کر دی گئی ہے جبکہ یونیورسٹی میں بھی لڑکوں اور لڑکیوں کو علیحدہ کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح سماجی سطح پر بھی خواتین کی موجودگی اور فعالیت پر زیادہ سے زیادہ پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔ مزید برآں، گذشتہ چند دنوں سے افغانستان کے مختلف شہروں میں کاج تعلیمی مرکز پر دہشت گردانہ حملے کے خلاف نکلنے والی خواتین کی ریلیوں اور احتجاجی مظاہروں پر بھی طالبان نے حملہ کیا ہے۔ اسی طرح طالبان نے رپورٹرز کو ان مظاہروں کی کوریج دینے کی اجازت بھی نہیں دی۔
 
حملے میں شہید ہونے والی ایک بچی کی والدہ نے الجزیرہ نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اس کی بچی حال ہی میں مارشل آرٹس اور انگلش کی کلاسز میں شرکت کرنا شروع ہوئی تھی۔ ایک اور شہید ہونے والی بچی کی کاپی میں لکھا ہوا تھا کہ وہ ناول نگار بننے کا شوق رکھتی ہے۔ حملے میں زخمی ہونے والی 17 سالہ بچی مریم فاروز کہتی ہے: "میں ریاضی کا ایک سوال حل کر رہی تھی کہ اچانک فائرنگ کی آواز سنائی دی۔ ہم سب اٹھ کر کھڑے ہو گئے اور اتنے میں ہنگامہ سا برپا ہو گیا۔ ہم نے قلم اور کاپیاں چھوڑ کر وہاں سے بھاگنے کی کوشش کی۔ ہم سب اپنی جان بچانے کی کوشش میں تھے کہ اتنے میں خودکش دھماکہ ہو گیا۔"
 
دوسری طرف عالمی سطح پر بھی افغانستان میں جاری اس نسل کشی پر مجرمانہ خاموشی اور بے حسی پائی جاتی ہے۔ عالمی ذرائع ابلاغ کی نظر میں افغانستان میں کھیلی جانے والی اس خون کی ہولی کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ افغانستان کیلئے اقوام متحدہ کے خصوصی رپورٹر رچرڈ بینٹ نے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہزارہ خواتین کے تعلیمی مراکز پر حملے بند ہونے چاہئیں۔ لیکن اس حد تک موقف کا اظہار قابل قبول اور کافی نہیں ہے۔ افغانستان میں طالبان حکومت بننے کے بعد سے اب تک ہزارہ برادری سمیت اہل تشیع شہریوں پر متعدد دہشت گردانہ حملے ہو چکے ہیں جن میں سے صرف 13 کی ذمہ داری داعش کی شاخ امارت خراسان نے قبول کی ہے۔ مجموعی طور پر ان حملوں میں 700 افراد شہید اور زخمی ہوئے ہیں جبکہ عالمی سطح پر بہت کم ردعمل سامنے آیا ہے۔

تحریر: فاطمہ کریم خان

کراچی: مجلس وحدت مسلمین کے صوبائی صدر علامہ باقرعباس زیدی نے کہا ہے کہ جشن ولادت باسعادت حضرت محمد مصطفیٰ ﷺکے موقع پر ملک بھر کی طرح سندھ بھر میں بھی 12 تا 17 ربیع الاول بفرمان امام خمینی ہفتہ وحدت منایا جائیگا۔ اس سلسلے میں مشترکہ اجتماعات منعقد کر کے عظیم وحدت کا پیغام دینگے، تمام مکاتب فکر کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ ان اجتماعات میں شرکت کرکے عملی وحدت کا مظاہرہ کریں اور دشمن کی سازش کو ناکام بنا دیں،ملک کے چپے چپے میں شیعہ سنی ملکر میلاد النبی ﷺکے جلوس نکالیں،ایم ڈبلیوایم کے کارکنان سبیلیں لگائیں اور شرکائے جلوس کا استقبال کریں،انہوں نے کہا کہ پاکستان میں شیعہ، سنی متحد ہیں کوئی فرقہ واریت نہیں، چند عناصر ملک کے امن کو غارت کرنا چاہتے ہیں جنہیں ہم اپنے اتحاد سے ناکام بنا دیں گے،عالم اسلام معاشرتی مشکلات اور عالم کفر کی سازشوں سے نبردآزما ہونے کیلئے سیرت پیغمبر ختمی مرتب ﷺسے استفادہ کرے۔

سب سے پہلے میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اظہار کرنا چاہتا ہوں کیونکہ ہم سب کلمہ بولتے ہیں اور ہمارا کلمہ ایک ہے اور ہم ایک لفظ پر یقین رکھتے ہیں، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، اس پر ایمان رکھتے ہیں۔ خدا کی وحدانیت اور یہ کہ ہم سب خدا کے ہیں اور خدا کی مخلوق کی اپنی کوئی چیز نہیں ہے اور یہ کہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی ہی دونوں جہانوں کی کامیابی اور فلاح کا باعث ہے، اس اقرار کی تجدید کی جائے۔

میں محب وطن یوتھ آرگنائزیشن کا سیکرٹری جنرل معراج خان کاکڑ ہوں، میں اسلامی جمہوریہ ایران کے ایوان ثقافت کا بے حد مشکور ہوں کہ انہوں نے ہمیں یہاں مدعو کیا اور ہمیں بولنے کا موقع دیا، اور میں شرکاء کا بھی بے حد مشکور ہوں۔ 

سب سے پہلے، مجھے یہ کہنا ضروری ہے کہ ہم، تنظیم اور اس کے اراکین، ایک ملک اور ایک قوم کے لیے کام کرتے ہیں۔ ایک ملک اور ایک قوم، ایک قوم کیسے بنتی ہے۔ قوم کی تعمیر کا طریقہ یہ ہے کہ ہمارے دشمن، جو اسلام پر حملہ کرنا چاہتے ہیں، سب سے پہلے ہمارے درمیان تفرقہ اور فرقہ واریت کو ہوا دیں۔ آپ کو شاید معلوم ہو کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں فرقے نہیں تھے۔ اس وقت شیعہ یا سنی کا کوئی تصور نہیں تھا، ہم سب مسلمان تھے اور اتحاد و اتفاق سے رہتے تھے۔ ہم سب کا ایک لفظ تھا لیکن اس کے بعد ہمارے مذہب پر حملہ کرنے والے ہمارے دشمن عناصر نے ہمارے درمیان فرقے پیدا کر کے ہمارے اتحاد کو تباہ کر دیا اور اس کے بعد دشمن نے فرقہ واریت اور لسانیت کی بنیاد پر تفرقہ پیدا کرنے کی بہت کوششیں کیں۔

مثال کے طور پر، فارسی بولنے والا مسلمان پشتو بولنے والے مسلمان سے بہتر ہے، یا اس کے برعکس، اور مسلمانوں کو ان مسائل کی بنیاد پر الگ کر دیا گیا تھا۔ پہلے فرقہ واریت اور پھر زبان کے فرق کی بنیاد پر تقسیم۔ انہوں نے لوگوں میں نفرت پیدا کی اور لوگ بھول گئے کہ ان کا کلمہ ایک ہے۔ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ ہم مذہب اور اسلام کو بھول گئے جس کے لیے ہم کوشش کر رہے تھے اور ہم فرقہ واریت میں پڑ گئے جہاں ایک فرقہ اچھا ہے اور دوسرا فرقہ برا ہے۔ ہم نے ایک دوسرے کے خلاف فتوے جاری کرنا شروع کر دیے۔

میں اور میری تنظیم لوگوں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ اگر کوئی سنی شیعہ کو خارج کرنے کا فتویٰ دیتا ہے تو وہ درحقیقت دشمن کی چکی میں پسنے والا اور کرائے کا دشمن ہے، اگر کوئی شیعہ کسی سنی کو خارج کرتا ہے تو وہ درحقیقت کرائے کا دشمن ہے اور ہمارے مذہب اور اسلام پر حملہ کرے گا۔ اگر کوئی اہل حدیث کسی فرقے کے خلاف فتویٰ دے کر تفرقہ پیدا کرے اور لوگوں کو جنگ پر اکسائے اور مسلمانوں کو دوسرے مسلمانوں کو قتل کرنے پر اکسائے تو یہ دراصل دشمن کا کرائے کا قاتل ہے۔ ہم ایسے لوگوں اور ان کی سوچ کے خلاف کام کر رہے ہیں اور سب سے درخواست ہے کہ ان کی بات نہ سنیں۔ وہ ہمارے مذہب اور اسلام پر حملہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ہم نے ایک ربط کے ذریعے ایران کے  اور آپ دونوں کو اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کی تجویز پیش کی۔ جیسا کہ ہم پاکستان میں کام کرتے ہیں، ہر مسلمان ہماری طرح اپنے ملک میں کام کر سکتا ہے۔ ہم فرقہ واریت، نسل پرستی اور لسانیت سے لڑنے کے لیے سخت محنت کر رہے ہیں۔ نسل پرستی کے معاملے میں وہ ایک دوسرے کے خلاف کام کرتے ہیں اور تشہیر کرتے ہیں کہ مثال کے طور پر ایک قوم کمزور ہے اور ہم بہتر ہیں، جب ایسا نہیں ہے تو ہم سب مسلمان ہیں اور ایک دوسرے پر کوئی برتری نہیں رکھتے۔ بہتر اور افضل وہ ہے جو دین اسلام اور انسانیت کے لیے کام کرے۔

میری تجویز یہ تھی کہ آپ کی صدارت کی جانب سے ایک تنظیم یا دفتر تشکیل دیا جائے اور اس دفتر کو اپنی ریاستوں کی بنیاد پر کابینہ تشکیل دی جائے، اور پھر شہر اور اضلاع اپنے لیے کابینہ تشکیل دیں اور ایک تنظیم بنائیں، اور یہ تنظیم محکمہ تعلیم میں اس کی شاخیں اور شاخیں تعلیم کی تمام شاخوں میں ہونی چاہئیں، خواہ وہ معیشت سے متعلق ہوں یا دیگر شعبوں سے ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے کام کریں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان تمام شاخوں کے اپنے افراد اور ممبران ہوں تاکہ وہ دین، اسلام اور ملک کے لیے کام کر سکیں۔

ایک کانفرنس منعقد کریں اور فرقہ واریت، نسل پرستی اور لسانی مسائل سے لڑنے کے لیے میٹنگز جیسے دیگر طریقے استعمال کریں۔ ہمارے دشمن ہماری زندگی کی تمام شاخوں میں گھس چکے ہیں اور دین اور ملک پر حملہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور دشمن کی کوششوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں زندگی کے تمام شعبوں میں لوگوں کو اتحاد اور اسلام کا درس دیتے ہوئے داخل ہونا چاہیے اور ان کا تعارف کرانا چاہیے۔ اسلام کی روح تاکہ ہم دشمن کے پروپیگنڈے اور کوششوں کو روک سکیں۔ یہ واحد طریقہ ہے جس سے آپ اپنے دین اور ملک کو بچا سکتے ہیں۔ میں تمام اسلامی ممالک کو اس معاملے کی دعوت دیتا ہوں۔

بین الاقوامی اسلامی کانفرنس جو اس وقت جاری ہے، میں اس کانفرنس کے منتظمین کا بے حد مشکور ہوں، جو مسلمانوں کے اتحاد و یکجہتی کے لیے اس بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کر رہے ہیں، جو 12 ربیع الاول سے 17 ربیع الاول تک جاری رہے گی۔ اوول یہ ایک بہت اچھا خیال اور عمل ہے، اور جس شخص نے یہ تجویز کیا ہے وہ بہترین سوچ اور بہترین بصیرت رکھتا ہے۔ تمام ممالک کے تمام مسلمان بھائیوں کو میری نصیحت یہ ہے کہ جہاں کہیں مسلمانوں کے درمیان تفرقہ اور دوری پیدا کرنے کی بات ہو اور جہاں دوسروں کی تکفیر کی بات ہو وہاں جذباتی ہو کر کام نہ کریں اور نہایت سوچ سمجھ کر لوگوں کو ان تک پہنچایا جائے۔ اتحاد اس نے پڑھا اور ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ خنجر لے کر کسی کی گردن ماریں۔ ان حرکتوں کو روکنا چاہیے۔ کیونکہ اس معاملے میں ہم نے دشمن کے ایجنڈے پر عمل کیا ہے۔ تم اپنی زبان سے دشمن کے پروپیگنڈے اور کوششوں کا مقابلہ کرو، تمہاری زبان تمہاری تلوار سے زیادہ غالب آئے گی۔ اگر کوئی شخص گمراہ ہو گیا ہو، اگر تم اسے اپنی زبان سے بار بار رہنمائی کرو انشاء اللہ ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہوں گے اور دشمن اور دشمن کا مقصد ان شاء اللہ ناکام ہوگا۔
 

تقریب نیوز ایجنسی کے نامہ نگار کے مطابق 36ویں بین الاقوامی اسلامی اتحاد کانفرنس کی پریس کانفرنس بعنوان "اسلامی اتحاد، امن اور عالم اسلام میں تقسیم و تصادم سے بچاؤ، انتظامی حل اور آپریشنل اقدامات" تھی۔ اس پریس کانفرنس میں تقریب مذہب اسلامی کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر حمید شہریاری نے شرکت کی۔مذاہب اسلامی کا عالمی اجتماع کل صبح 10 بجے جامعہ اسلامیہ میں واقع شیخ الاسلام شہداء مموستا کانفرنس ہال میں میڈیا کی موجودگی میں منعقد ہوگا۔

واضح رہے کہ 36ویں بین الاقوامی اسلامی اتحاد کانفرنس 9 اکتوبر سے 14 اکتوبر 2022 تک منعقد ہوگی۔

بین الاقوامی اتحاد اسلامی کانفرنس 12 اکتوبر سے بذات خود شروع ہوگی جس میں کانفرنس کے شرکاء کی سپریم لیڈر سے ملاقات، امام خمینی (رہ) کے روضہ مبارک کی زیارت جیسے پروگرام شامل ہیں۔ اور امام راحل کے نظریات کے ساتھ معاہدے کی تجدید، نماز جمعہ میں شرکت وغیرہ کا سلسلہ 14 اکتوبر تک جاری رہے گا۔

نیز، بین الاقوامی اسلامی اتحاد کانفرنس 17 اکتوبر سے 14 اکتوبر تک متعدد ویبینرز کی شکل میں منعقد کی جائے گی۔
 
.taghribnews.
 
 
 
لبنانی پارلیمنٹ کے اسپیکر نبیہ بری نے 36ویں اسلامی اتحاد کانفرنس کے ویبینار کے دوران لبنانی الاسلامیہ کے رکن خلیل حمدان کے ذریعہ پڑھے گئے ایک پیغام کے دوران کہا کہ امل موومنٹ نے حجت الاسلام و المسلمین ڈاکٹر حمید شهریاری، دبیرکل مجمع تقریب کو  سراہتے ہوئے کہا: اسلامی اتحاد کانفرنس کے انعقاد سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران اب بھی اتحاد کو قائم اور مستحکم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا: "اتحاد کلمہ" وہی نعرہ ہے جس پر امام خمینی (رح) نے ہمیشہ مختلف مواقع پر تاکید کی ہے۔ یہ موقف آج بھی رہبر انقلاب اسلامی ایران کی تقاریر، خطبوں اور رہنما اصولوں میں جاری ہے اور خارجہ پالیسی میں اسلامی جمہوریہ کے حکام کی روش ظالم حکومتوں کا مقابلہ کرنے اور مختلف میدانوں میں استکباری لوگوں کا مقابلہ کرنے پر مبنی ہے۔ 

نبی باری نے مزید کہا: اس کانفرنس کا انعقاد مختلف اسلامی مذاہب کے درمیان مختلف سطحوں پر اختلافات اور تنازعات کو پس پشت ڈالنے کی اہمیت پر تاکید ہے اور یہ اہمیت الہی رسی کو پکڑنے اور مسلمانوں کے درمیان مشترکات پر زور دینے کے سوا حاصل نہیں ہو گی۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ہمیں ایک فکری تعاون کی ضرورت ہے۔ شاید استعمار، جبر اور قبضے امت اسلامیہ کے ہمارے مسائل کا حصہ ہیں، لیکن ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہم مسلمانوں کی مشترکہ اقدار سے اخذ کرنے والے نظریات کی کمی ہے۔ خاموشی اور دشمن کے سامنے سر تسلیم خم کرنا۔جرائم ظالمانہ ہیں۔  

انہوں نے اشارہ کیا: تنازعہ صرف ان لوگوں کے درمیان ہونا چاہئے جن کا ایک دوسرے کے ساتھ کچھ بھی مشترک نہیں ہے۔ مختلف اسلامی مذاہب کے درمیان اتحاد کے حصول کے لیے ایک مستعد اور زیادہ سے زیادہ کوشش کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر اب ہمارے پاس ایسے دشمن ہیں جنہوں نے امت اسلامیہ کے بچوں کے ذہنوں کو نشانہ بنایا ہے اور امت اسلامیہ کے بچوں پر اثر انداز ہونے، حقائق کو مسخ کرنے اور ان کی یادوں کو متاثر کرنے کے لیے اپنی تمام سہولتیں اور صلاحیتیں بروئے کار لائی ہیں۔ دشمن میڈیا، معاشی اور فکری میدان میں اس میدان میں اپنے مقاصد کی تکمیل میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتا۔

لبنانی پارلیمنٹ کے اسپیکر نے مزید کہا: دشمن مزاحمت پر دہشت گردی کی حمایت اور تکفیریوں اور داعش کے جرائم پر پردہ ڈالنے جیسے الزامات لگاتے ہیں۔ گویا وہ جمہوریت کے علمبردار ہیں۔ اس ذریعے سے انہوں نے مسئلہ فلسطین کو مسخ کرنے کی کوشش کی اور صیہونی حکومت کو، جس نے اپنے قیام کے بعد سے مقبوضہ علاقوں کے اندر اور باہر بہت سے جرائم کا ارتکاب کیا ہے، ایسا ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ گویا اس حکومت کی خلاف ورزی کی گئی ہے! دوسری جانب صیہونیوں کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا ہدف بھی مسئلہ فلسطین کو تباہ کرنا ہے۔ دشمن اپنے تھنک ٹینکس، تحقیقی دفاتر اور سرکاری سیاسی عہدوں کے ذریعے امت اسلامیہ کی بصیرت اور بیداری کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

انہوں نے اشارہ کیا: امام موسی صدر نے جو خود بھی اتحاد کے داعی تھے، امت اسلامیہ کو صیہونی حکومت کے قریب ہونے سے خبردار کیا۔ یہ دعوت ان لوگوں کے لیے تھی جو شروع سے ہی صیہونیوں کے دھوکے میں تھے۔ انہوں نے دنیا کی صیہونیت کے خلاف بھی خبردار کیا۔

دشمن سے نمٹنے کے بہت سے طریقے ہیں۔ مثال کے طور پر، لبنان اور فلسطین میں اسلامی مزاحمت کا تجربہ اب بھی امید کی کرن کو ظاہر کرتا ہے جس میں کہا گیا ہے: "فتح قریب ہے اور القدس تمام عقائد اور مذاہب کے وفادار اور معزز لوگوں کے ہاتھوں آزاد ہوگا۔ " مجھے اس بات پر زور دینا چاہیے کہ آج دہشت گردی تباہی کے دہانے پر ہے۔ یہ مسئلہ بہادر شام اور وطن عزیز عراق کے ساتھ ساتھ کسی بھی دوسری جگہ پر واضح ہے جہاں تکفیر اور دہشت گردی کے خلاف آواز اٹھائی گئی ہے۔ 

انہوں نے کہا: اسلامی علماء اور مفکرین کی طرف سے اسلامی اتحاد کی دعوت دوسروں کو نظر انداز کرنے اور انہیں خارج کرنے کی دعوت نہیں ہے۔ یہ دعوت دراصل ان مشترکہ چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ہے جن سے امت اسلامیہ نمٹ رہی ہے۔ ان چیلنجوں میں سے دشمنوں کی طرف سے امت اسلامیہ کی سہولیات، صلاحیتوں اور دولت کو نشانہ بنانا ہے۔ اس لیے ہم سب کو ہر موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور اسلامی ممالک کے درمیان ارتقا کی مختلف شکلوں کو فعال کرنے پر زور دینا چاہیے۔ یہ فطری بات ہے کہ اس دوران تمام ممالک کی خصوصیات اور خصوصیات اور ان کی قومی خودمختاری کا احترام کیا جائے۔

لبنانی پارلیمنٹ کے اسپیکر نے کہا: اتحاد کا تصور صرف ایک مذہبی، فقہی اور نظریاتی تصور کے طور پر مختلف اسلامی ممالک کے درمیان تعامل، ارتقا اور تعاون کی تشکیل کے لیے کافی ہے۔ قدرتی وسائل کے انتظام اور انسانی وسائل کی ترقی میں حقیقی آزادی ایک بہت اہم مسئلہ ہے جس پر غور کیا جانا چاہیے۔ خاص کر چونکہ ہم اسلامی امت میں غریب نہیں ہیں اور ہمارے پاس بہت سے وسائل ہیں۔ ہمارا مسئلہ وسائل کی کمی نہیں بلکہ اسلامی ممالک کے فائدے کے لیے ان وسائل کو سنبھالنے کا مسئلہ ہے۔ وہ ممالک جو ہمیشہ دشمنوں کی لوٹ مار کا نشانہ بنے رہتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا: اس کے ساتھ ساتھ ہمیں امت اسلامیہ کے تمام ممالک کو مختلف اقتصادی، سیاسی اور ثقافتی میدانوں میں اپنے تشخص کے اظہار کا موقع فراہم کرنا چاہیے اور یہ مشرق کے اثرات سے آزاد ہونے سے ہی حاصل ہو گا۔ 

آج لبنان کو صیہونی حکومت کی تیل اور گیس کی دولت کو لوٹنے کی کوششوں کا سامنا ہے لیکن وہ کسی بھی حالت میں اپنے حقوق سے دستبردار نہیں ہو گا۔ مزید برآں، اسلامی جمہوریہ ایران بہت سے دباؤ کے باوجود اپنے وسائل اور صلاحیتوں کو استعمال کرنے کے حق سے پیچھے نہیں ہٹا۔

آخر میں انہوں نے تاکید کی: وحدت کے علمبرداروں اور مشنریوں نے اپنے سفر کے راستے میں بہت زیادہ قیمتیں برداشت کیں، انہیں قید اور اذیتیں دی گئیں۔ ان میں سے کچھ کو اغوا کرکے لاپتہ بھی کیا گیا۔ مغوی اور لاپتہ افراد میں ہمیں امام سید موسیٰ صدر کا ذکر کرنا چاہیے جن کا نام تمام مذاہب میں پھیل چکا ہے۔ ہم امام موسی صدر اور ان کے دو ساتھیوں شیخ محمد یعقوب اور سید عباس بدرالدین کو لیبیا کی جیلوں سے آزاد کرانے کے لیے ایک وسیع مہم شروع کرنا چاہتے ہیں۔
.taghribnews.

تہران، ارنا – ایرانی صدر، اسپیکر اور عدلیہ کے سربراہ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ دشمن ایک متحد اور مضبوط ایران کو اپنے مفادات کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں؛ انہوں نے دشمنوں کی جانب سے ملک کے خلاف جو وسیع سازشیں تیار کی جا رہی ہیں ان کو بے نقاب اور ناکام بنانے میں ایرانی عوام کی دانشمندی اور بیداری کی تعریف کی۔

یہ بات تینوں حکام کے سربراہان علامہ سید ابراہیم رئیسی، محمد باقر قالیباف اور علامہ غلامحسین اژہ ای نے ہفتہ کے روز صدارتی دفتر ایک ملاقات کے دوران کہی۔

ایرانی حکام نے اس بات پر غور کیا کہ ملک کے استحکام اور سلامتی کا تحفظ اقتصادی اور زندگی کی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایرانی معاشرے کو اپنے تمام اجزاء اور تمام طبقات کے درمیان ہم آہنگی اور اتحاد کی ضرورت ہے اور دشمنوں کی جانب سے اسلامی جمہوریہ کے خلاف اٹھنے والی تقسیم کو ترک کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے گزشتہ دنوں اور ہفتوں کے دوران سیکورٹی کا دفاع کرنے والی افواج کی قربانیوں اور کوششوں کو سراہا اور اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ سلامتی اور استحکام ملک کے اندر معیشت سمیت تمام شعبوں میں ترقی اور خوشحالی کی بنیاد ہے۔

Friday, 07 October 2022 18:13

اخلاق کی اہمیت

تزکیہ نفس اور اخلاق کی اہمیت پر روایات اہلبیت علیہم السلام میں متعدد بار زور دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں رہبر معظم حضرت آیت اللہ العظمی سیّد علی خامنہ ای دام ظلہ فرماتے ہیں:

 

 

 

 اخلاق کا بنیادی ہدف

معنویت کا بنیادی ہدف یہ ہے کہ انسان، خدائی اخلاق کے سانچے میں ڈھل جائے۔ اخلاق، دیگر امور کے لیے مقدمہ نہیں ہے بلکہ بنیادی اصل ہے۔ دیگر امور جیسے پیامبران خدا کی حاکمیت وغیرہ مقدمہ ہیں اخلاق اللہ سے متصف ہونے کے لیے۔

 

علم کے بغیر اخلاق وبال بن جاتا ہے

آج عالمی سطح پر حاکم مختلف نظاموں کی ناکامی کا بنیادی سبب اخلاق اور معنویت سے دوری ہے۔معاصر اخلاقی بحران انسانیت کو نابودی کی طرف لے جا رہا ہے۔ انسان اس بات سے غافل ہے کہ اخلاق سے عاری علم معاشرے کے لیے وبال بن جاتا ہے۔علم اس وقت مفید بن سکتا ہے جب معاشرے کے انفرادی اور اجتماعی شعبہ ھای حیات پر اخلاق کی حاکمیت قائم ہوجائے۔

 

 

اخلاق کی اہمیت اور ضرورت

میری نگاہ میں جوانوں کے لیے اخلاقی اور معنوی اقدار، حصول علم کی نسبت زیادہ ضروری اور اہم ہیں۔ انقلاب اسلامی انہیں اقدار کی خاطر وجود میں آیا ہے۔ علم کو ہمیشہ عمل کے ساتھ ہونا چاہیے اور ہمیں چاہیے کہ اس سلسلے میں کام کریں تا کہ تعلیم یافتہ طبقے میں غرور اور تکبر کا خاتمہ ہوجائے اور معاشرے میں پائی جانے والی بد اخلاقی اور کج فکری کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جا سکے۔

 

 

تکبّر کے نقصانات

انسان کی زندگی سے سلامتی اور سکون چھین لینے والی منفی خصلتوں میں سے ایک انتہائی خطرناک خصلت تکبّر ہے۔ انسانی معاشرے کے اکثر نقصانات کا سبب قوموں کا تکبر رہا ہے۔ تکبر جیسی مہلک بیماری کو کچلنے کا واحد نسخہ اسلامی عبادات باالخصوس نماز ہے جو موئثراور کارآمد علاج ہے۔

 

 

ترجمہ و اقتباس از کتاب تعلیم و تربیت از دیدگاہ مقام معظم رہبری)

 1: کتاب تعلیم و تربیت از دیدگاہ مقام معظم رہبری، بہ کوشش امیرحسین بانکی پور فرد و احمد قماشچی، تہران، تربیت اسلامی، اول، 1380ش، ص 132-160.