
سلیمانی
رہبر انقلاب اسلامی سے ترکی کے صدر کی ملاقات
ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے اب سے کچھ ہی دیر قبل تہران میں رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی ۔
ہونے والی ملاقات کی تفصیلات تھوڑی دیکر بعد۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان آستانہ عمل کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لئے گزشتہ شب تہران پہنچے اور آج صدر ایران سید ابراہیم رئیسی نے اُن کا سعدآباد کلچرل کمپلیکس میں باضابطہ استقبال کیا۔
روس، ترکی اور ایران کے صدور کی موجودگی میں سہ فریقی سربراہی اجلاس تہران میں منعقد ہوگا۔ اس اجلاس میں روسی صدر ولادیمیر پوتین، ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان اور ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی شرکت کریں گے۔
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِينًا
-آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا ہے اور اپنی نعمتوں کو تمام کردیا ہے اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسندیدہ بنادیا ہے
﴿آیه ۳ سوره مبارکه مائده ﴾
قرآن کیا کہتا ہے / ۱۹ غدیر؛ رسالت حضرت محمد(ص) جیسا اہم پیغام
ایکنا نیوز- حضرت محمد(ص) ساٹھ سال عمر شریف گزار چکے اور اور آخری حج انجام سال 632 میں انجام دیں رہے ہیں. اس سفر میں ایک لاکھ بیس ہزار کے لگ بھگ مسلمان رسول گرامی کے ہمراہ حج کی سعادت حاصل کررہے ہیں، مدینہ کی طرف واپسی کا سفر شروع ہے۔
رسول گرامی حج سے واپسی جس کو حجةالوداع (حج خداحافظی) کا عنوان دیا جاتا ہے،مدینہ کی طرف محو سفر ہے اور ذیحجہ کی اٹھارہ تاریخ جمعرات کا دن ہے کہ قافلہ غدیرخم کے علاقے میں پہنچتا ہے اچانک اس مقام پر رسول گرامی پر ایک آیت نازل ہوتی ہے کہ کچھ یوں ہے:
«يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ؛ اے پیغمبر! جو تمھارے رب کی طرف سے نازہ ہوا ہے اس کو بیان کر؛ اگر انجام نہ دیا تم نے خدا کا پیغام ہی نہیں پہنچایا۔ خدا تمھیں [آسیب و نقصان] عوام سے محفوظ رکھے گا؛ یقینا خدا کافروں کو ہدایت نہیں کرتا.»(مائده، 67)
اس آیت کی طرف توجہ کی جائے تو بہت اہمیت کی حامل ہے کہ رسول گرامی کی رسالت کی مدت 23 سال کو اشارہ کرکے کہتی ہے کہ اگر یہ کام نہ ہوا تو پوری رسالت ناقص رہے گی۔
رسالت پیغمبر کے برابر اہم کام
رسول گرامی فرمان جاری کرتا ہے کہ ایک لاکھ بیس ہزار کے قافلے میں شامل حجاج کو روکا جایے اور تمام حجاج کو یکجا کرکے روکنے کا حکم دیا جائے کہا جاتا ہے کہ اس کام میں آدھا دن لگا تاکہ آگے جان والے پیچھے آجائے اور سب ایک مقام پر یکجا ہوں۔
بڑی تعداد میں حجاج کی وجہ سے اس واقعے کو سب نے مستند طریقے سے محفوظ کرلیا اور تمام مفسّروں، محدثوں اور مورخوں نے اس آیت کو«غدیر» سے مربوط قرار دیا ہے. علّامه امینی اس واقعے کو تیس احادیث کے منابع جنمیں اہل سنت کی معروف کتاب الولایة - ابن جریر طبری، تفسیر الثعلبی، کتاب ما نزل من القرآن فی علی از ابو نعیم اصفهانی، أسباب النزول واحدی و... سے نقل کیا ہے اس واقعے کا اہم پیغام کیا تھا؟
پیام غدیر اور جانشینی علیبن ابیطالب(ع)
سب یکجا ہوئے تو نماز ظهر ادا کی گئی اور پھر آپ نے خطبہ شروع کیا: «خدائے لطیف و خبیر نے خبر دی ہے کہ میں جلد آپ سب سے جدا ہوجاونگا... لہذا دیکھو کیسے مجھ سے ثقلین(دو اہم اور قابل توجہ مسئله) بارے کیا کروگے؛ ثقل اکبر کتاب خدا (قرآن) ہے... اور ثقل دوم میری عترت (اهل بیت) ہے».
پھر سب کے سامنے على بن ابى طالب کے ہاتھ کو اٹھا کر فرمایا «مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَهَذَا عَلِيٌّ مَوْلَاهُ اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالاهُ وَ عَادِ مَنْ عَادَاهُ وَ انْصُرْ مَنْ نَصَرَهُ وَ اخْذُلْ مَنْ خَذَلَهُ؛ جس کا میں مولا ہوں یہ علی اس کا مولا ہے، علیبن ابیطالب سب کے مولا ہے، خدا انکو دوست کو دوست اور دشمن کو دشمن رکھ».
لوگ ابھی موجود تھے کہ دوبارہ جبرئیل نازل ہوئے اورسوره مائده کی تیسری آیت نازل ہوئی: «الْیوْمَ أَکمَلْتُ لَکمْ دینَکمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَیکمْ نِعْمَتی وَ رَضیتُ لَکمُ الْإِسْلامَ دیناً؛ آج دین مکمل ہوا اور میری نعمت تم پر تمام ہوئی اور میں نے اسلام کو پسندیدہ دین قرار دیا».
* عبدالحسین امینی نجفی (1902-1970) جو علامه امینی، معروف مرجع تقلید اور صاحب کتاب دائرةالمعارف 11 جلدی الغدیر ہے جو عربی زبان میں ہے. انہوں نے اس کتاب کے لکھنے کے لیے درجنوں شہروں اور هندوستان، مصر کا شام کا سفر کیا، 10 هزار کتاب کو مکمل مطالعہ کیا اور 100 هزار کتب سے استفا
آستانہ امن عمل کے ضامن ممالک کا ساتوین سربراہی اجلاس تہران میں انعقاد ہوگا
ارنا رپورٹ کے مطابق، شامی بحران کے سیاسی حل نکالنے اور جنگ بندی کے قیام کے سلسلے میں ابتدائی نشستوں کا متحارب فریقین سمیت ایران، روس اور ترکی کے نمائندوں کی شرکت سے قازقستان میں انعقاد کیا گیا اور "آستانہ امن عمل کے ضامن ممالک" کے پہلے اجلاس کا دسمبر 2017 میں ان تینوں ممالک کے صدور کی شرکت سے روسی شہر سوچی میں انعقادد کیا گیا۔
واضح رہے کہ اسی سلسلے میں ترک صدر ر"جب طیب اردوغان"، روسی صدر "ولادیمیر پیوٹین" پیر کی شام کو دورہ تہران کریں گے اور منگل کی صبح کو صدر ابراہیم رئیسی کی شرکت سے سعدآباد کے ثقافتی کمپلیکس میں ان کی استقبالیہ تقریب کا انعقاد ہوگا۔
خطے میں امریکی شرارت کے نئے آثار
امریکہ نے روس کے خلاف جنگ کے کھیل میں مختلف قسم کے اہداف کا تعین کر رکھا تھا جن میں روس کو عالمی سیاست سے نکال باہر کرنا اہم ترین اور پہلی ترجیح کا حامل مقصد تھا۔ پراکسی جنگ پر مبنی اس منصوبے کا ایک اور مقصد یورپ کو روس کے مقابل لا کھڑا کر کے اور اسے شدید بحرانی حالات سے دوچار کر اپنے ساتھ وابستہ کرنا اور اپنے اوپر اس کا انحصار قائم کرنا تھا۔ اس مقصد کے حصول کیلئے یہ کوشش کی گئی کہ روس اور یوکرائن جنگ کی بابت یورپ کو بھاری تاوان ادا کرنا پڑ جائے۔ اس طرح یورپ اور روس کے درمیان تعلقات امریکہ کی مرکزیت میں قائم مغربی نظام کے کنٹرول میں رہ سکیں گے اور یورپ بھی عالمی سطح پر چین کے خلاف جاری طاقت کی رسہ کشی میں امریکہ کو تنہا نہیں چھوڑے گا۔
لیکن امریکی حکمرانوں کو شاید اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ روس اپنے پاس موجود انرجی کے کارڈ کے ذریعے مغربی دنیا کو معیشت، صنعت اور حتی غذائی مواد کے میدانوں میں انتہائی وسیع اور سنگین بحران سے روبرو کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس وقت امریکی نظام اور انرجی کے شعبے میں اس سے وابستہ مراکز منافع جمع کرنے میں مصروف ہیں جبکہ مغربی عوام کی معیشت روز بروز بدتر ہوتی جا رہی ہے اور ان کیلئے زندگی ناقابل برداشت ہو رہی ہے۔ امریکہ نے روس کو مزید بحرانوں سے روبرو کرنے کیلئے مغربی ایشیا، وسطی ایشیا اور برصغیر کو اپنی توجہ کا مرکز بنا لیا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن کا خطے کا حالیہ دورہ اسی حکمت عملی کے تناظر میں انجام پایا ہے۔ امریکہ ساتھ ساتھ اسلحہ ساز کمپنیوں کے مالکین کے ذریعے اقتصادی مفادات کے حصول کیلئے بھی کوشاں ہے۔
طالبان کو نگل کر افغانستان اور وسطی ایشیا میں اپنی فوجی مداخلت کا زمینہ فراہم کرنے کی امریکی حکمت عملی تقریباً مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ عنقریب ازبکستان میں افغانستان سے متعلق بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہونے والی ہے اور سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ امریکہ کو اس سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو گا۔ یوں داعش اور دیگر دہشت گرد گروہوں پر مشتمل امریکی کارڈ بھی تقریباً ناکارہ ہوتا جا رہا ہے۔ دوسری طرف امریکی صدر جو بائیڈن اس حقیقت سے بھی بخوبی آگاہ ہیں کہ مغربی ایشیا خطے میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات مغرب کو درپیش انرجی کے بحران میں ان کی زیادہ مدد نہیں کر سکتے بلکہ اس خطے میں اگر کوئی ملک ان کیلئے مددگار ثابت ہو سکتا ہے تو وہ عراق ہے۔ یاد رہے عراق کے تیل کی خرید و فروش مکمل طور پر امریکہ کے کنٹرول میں ہے۔
لہذا عراق کو مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے خطے میں اسرائیل کی مرکزیت میں تشکیل پانے والے بلاک کی جانب دھکیلنا اور اسے اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کرنے پر مجبور کرنا، امریکہ کیلئے سعودی عرب سے بھی کہیں زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ ان ہتھکنڈوں میں عراق کو جیوپولیٹیکل ایشوز کے ذریعے بلیک میل کرنا اور معیشت اور سکیورٹی کے شعبوں میں نت نئے بحرانوں سے روبرو کرنا شامل ہو سکتے ہیں۔ اگرچہ سعودی حکمران اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کے ساتھ اپنے خفیہ تعلقات کو منظرعام پر لانے کی جرات نہیں رکھتے لیکن انہوں نے جیوپولیٹیکل، جیوگرافیکل، انرجی، سکیورٹی اور دیگر شعبوں میں اپنی تمام تر صلاحیتیں صہیونی حکمرانوں کے سپرد کر رکھی ہیں۔ اسی طرح آل سعود رژیم غاصب صہیونی رژیم کو بھرپور انداز میں سکیورٹی اور انٹیلی جنس تعاون فراہم کرنے میں مصروف ہے۔
جو بائیڈن کے مشرق وسطی کے حالیہ دورے کا نتیجہ جنگ طلب اتحاد سازی کی صورت میں ظاہر ہو گا جس کا خاص نشانہ یمن بنے گا اور اس کا مقصد امریکہ اور اسرائیل کی اسلحہ ساز کمپنیوں کی معیشت کی بحالی ہو گی۔ عراق میں انرجی کے ذخائر امریکہ کے کنٹرول میں ہیں اور امریکہ انہیں یورپ کو درپیش انرجی کے بحران سے نمٹنے کیلئے استعمال کرے گا۔ اسی طرح عراق کو خطے میں اسرائیلی بلاک میں دھکیلنے کی کوششوں میں تیزی آئے گی۔ امریکہ مغربی ایشیا میں بھی براہ راست جنگ کا خطرہ مول لینے کیلئے تیار نہیں ہے لہذا خطے میں اپنی پٹھو عرب حکومتوں کو اسرائیل سے معاہدوں پر اکسا رہا ہے تاکہ یوں اسرائیل کی بدمعاشی اور شدت پسندی کے اخراجات ان عرب ممالک کے ذریعے پورے کئے جا سکیں۔
حقیقت یہ ہے کہ جو بائیڈن خطے اور دنیا میں امن و استحکام کی خاطر سرگرم عمل نہیں ہیں بلکہ ان کا مقصد پراکسی جنگوں اور دہشت گردانہ اقدامات کے ذریعے سکیورٹی بحران ایجاد کر کے دنیا کے مختلف حصوں میں موجود قدرتی ذخائر کی لوٹ مار اور اپنا فوجی اور سیاسی اثرورسوخ بڑھانا ہے۔ اگرچہ مغربی ایشیا، وسطی ایسیا، افغانستان اور پاکستان میں امریکہ کی پوزیشن انتہائی متزلزل ہے لیکن ہمیں کسی صورت امریکی اقدامات اور سازشوں سے غافل نہیں ہونا چاہئے۔ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے اپنی حالیہ تقریر میں امریکی اور مغربی سازشوں کو ناکام بنانے کیلئے بڑے پیمانے پر ذہانت آمیز کھیل کھیلنے پر زور دیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ حکمت عملی اسلامی مزاحمتی بلاک کی طاقت اور اثرورسوخ میں اضافے کا باعث بنے گی۔
تحریر: ہادی محمدی
غدیر کا پرچم دنیا کے 140 ممالک میں لہرایا جائیگا
ہفتۂ امامت و ولایت سے متعلق امور کی مرکزی کمیٹی کے ڈائریکٹر حسین ظریف منش نے کہا ہے کہ اس سال دنیا کے 140 ممالک میں عید غدیر اور عید مباہلہ کی تقریبات منعقد ہو رہی ہیں اور دنیا کے 140 ممالک میں ولایت و غدیر کا پرچم لہرایا جائیگا۔
عید غدیر کے موقع پر گزشتہ برسوں کی مانند جہاں دنیا بھر میں زبردست تقریبات کا انعقاد کیا جارہا ہے وہیں ایران میں بھی ملکی سطح پر عظیم الشان جشن ولایت و امامت کی تیاری عروج پر ہے۔ عید غدیر کے روز ایران میں عام تعطیل ہے۔
دارالحکومت تہران میں 18 ذی الحجہ بروز پیر کو جشن عید غدیر کے موقع پر غدیر واک کا بھی اعلان کیا گیا ہے جس کے تحت شمع ولایت کے پروانے تہران کے ولی عصر( عج) اسکوائر سے دس کلومیٹر کی مسافت طے کر کے پارک وے اسکوائر پہنچیں گے۔ یہ پروگرام شام 6 بجے سے رات 10 بجے تک منعقد ہو گا اور دس کیلو میٹر کے راستے میں ہر جگہ غدیری مہمانوں کی پذیرائی کے لئے کھانے پینے اور شربت کی سبیلوں کے علاوہ بچوں کے مخصوص اسٹالز، مذہبی و ثقافتی مصنوعات کے اسٹالز، خصوصی تحائف اور گروہی ترانوں کا اہتمام بھی کیا جائے گا۔
قابل ذکر ہے کہ غدیر واک کا اہتمام بھی اربعین حسینی واک کی طرح مخیر حضرات، مذہبی اور ثقافتی مراکز، انجمنوں اور رضاکاروں کے تعاون سے کیا جا رہا ہے۔
بایڈن سعودی عرب میں، خاشقجی کے قاتل نے کیا استقبال
بایڈن نے غاصب صیہونی حکومت کے مرکز تل ابیب سے جدہ جاتے وقت کہا کہ وہ ایسے پہلے امریکی صدر ہیں جو مقبوضہ فلسطین سے براہ راست سعودی عرب جا رہے ہیں۔
تل ابیب سے ریاض تک بایڈن کے اس سفر کا مقصد غاصب صیہونی حکومت کے ساتھ عرب ممالک کے تعلقات کی قباحت و کراہت کو کم کرنے کی ایک کوشش ہے۔ بایڈن کے اس سفر سے قبل گزشتہ روز سعودی عرب نے غاصب ریاست اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی باضابطہ بحالی کے تناظر میں صیہونیوں کی غیر فوجی پروازوں کے لئے اپنے فضائی حدود کھولنے کا اعلان کیا تھا۔
بایڈن کے دورۂ تل ابیب اور پھر اسکے بعد دورۂ جدہ پر علاقائی عوام اور فلسطین کی طرف سے منفی ردعمل سامنے آیا ہے۔
فلسطین لبریشن فرنٹ کے سربراہ احمد خریس نے ایران پریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بایڈن کے اس سفر سے عرب اقوام کی ویرانی و تاراجی کے سوا اور کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔
ایران کے نائب وزیر خارجہ محمد صادق فضلی نے بھی ایک ٹوئیٹ میں کہا کہ بایڈن کے اس شیطانی سفر کا تلخ نتیجہ فتنہ پروری، جنگ، برادر کُشی، خون خرابا اور سازش ہے۔
قابل ذکر ہے کہ آل سعود مخالف صحافی جمال خاشقجی کے بہیمانہ قتل کے معاملے نے بایڈن کے دورۂ جدہ پر بڑے سوالات کھڑے کر دئے ہیں۔ ماضی میں امریکی صدر جوبایڈن اپنی انتخابی مہم کے دوران خاشقجی کے بہیمانہ قتل کے سلسلے میں ریاض حکومت بالخصوص ولیعہد بن سلمان کو سخت ہدف تنقید بناتے ہوئے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات محدود کرنے کی بات کر چکے ہیں مگر اب وہ اپنے سابق موقف سے پسپائی اختیار کرنے کے بعد سعودی حکام سے دوستانہ ماحول میں ملاقات کے لئے جدہ پہنچ چکے ہیں جہاں ایئرپورٹ سے محل پہنچنے پر خود ولیعہد بن سلمان نے اُن کا استقبال کیا ہے۔
امریکہ، ترکی اور اقوام متحدہ کی مختلف تحقیقاتی رپورٹوں کے مطابق سعودی ولیعہد بن سلمان براہ راست جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث ہیں اور انہی کے حکم سے خاشقجی کو استنبول میں سعودی قونصل خانے کے اندر نہایت بہیمانہ انداز میں قتل کیا گیا۔ اس عمل کو ولیعہد بن سلمان کے بھیجے گئے ایک خصوصی ڈیتھ اسکواڈ نے انجام دیا تھا۔
جناب هاجر
گرم ہوا چل رہی تھی اور ہاجرہ کا معصوم فرزند اسماعیل پیاس کی شدت سے تڑپ رہا تھا ادھر ماں اطراف خانہ کعبہ پانی کی تلاش میں ادھر ادھر دوڑرہی تھی۔ صفا و مروہ کی پہاڑیوں کے درمیان پانی کی تلاش میں سرگرداں و حیران ہاجرہ جب بھی دور سے بیایان کی طرف دیکھتیں تو انہیں پانی کا چشمہ نظر آتا تھا لیکن جب قریب پہنچتیں تو وہ سراب نکلتا ہاجرہ سات مرتبہ پانی کی تلاش میں صفا و مروہ کی پہاڑیوں کے درمیان دوڑیں مگر انہیں پانی میسر نہ ہوا لیکن پروردگارعالم نے ان کی سعی و کوشش کو ضائع نہیں کیا بلکہ اس کا اجر انہیں عظیم طریقے سے دیا ۔جب آپ تھک ہار کر اسماعیل کے قریب پہنچیں تاکہ انہیں بہلائیں تو اچانک ان کی نگاہ اس چشمے پر پڑی جو اسماعیل کے پیروں تلے جاری تھا آپ فورا سجدہ شکر بجا لائیں اور حضرت ابراہیم کی دعا کے بارے میں سوچنے لگیں کہ انہوں نے بیایان میں چھوڑ کر جاتے وقت انہیں اور اسماعیل کو خدا کے سپرد کیا تھا اور خداسے دعا کی تھی کہ خدایا لوگوں کے قلوب کو ان کی طرف موڑ دے اور پروردگار عالم نے حضرت ابراہیم کی دعا کو قبول کرلیا تھا اور پھر یہی چشمہ آب ” زمزم ” کے نام سے مشہور ہوگیا ۔
تاریخ انسانیت میں بہت سی ایسی خواتین گذری ہیں جنہوں نے اپنی ذاتی صلاحیتوں ، تقوی و ایمان ، تہذیب نفس اور خود سازی کے ساتھ کامیاب زندگی بسر کی ہے۔انہیں عظیم و گرانقدر خواتین میں سے ایک حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شریک حیات اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی مادر گرامی جناب ہاجرہ ہیں اگر چہ ابتدائی دور میں وہ قصر میں ایک کنیز کے عنوان سے زندگی بسر کررہی تھیں لیکن عیش و عشرت کی زندگی کی خواہشمند نہ تھیں کیونکہ ان کا دل معنوی اور الہی جلوؤں سے سرشار تھا اسی لئے آپ دنیاکی زرق و برق سے بیزار تھیں وہ دنیا کی فریبی اور فانی چمک دمک کو معنوی درجات کی ترقی میں بہت بڑی رکاوٹ تصور کرتی تھیں گویا اس مادی زندگی سے نکلنے کے لئے لمحات شمار کررہی تھیں اور ایک دن ان کی امیدوں میں بہار آگئی اور ان کے نصیب جاگ اٹھے اور انہیں خلیل خدا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے گھروالوں کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا موقع فراہم ہوگیا اور پھر انہیں پیغمبر خدا حضرت ابراہیم کی شریک حیات بننے کا موقع بھی نصیب ہوا آپ اپنے شوہر نامدار کی پاکیزہ زندگي کی پیروی کرتے ہوئے ہدایت و کامرانی کی اعلی منزلوں پر فائز ہوئیں۔
جناب ہاجرہ ایک متقی و پرہیزگار ، سیاہ فام کنیز تھیں کہ جنہیں مصر کے ایک حاکم نے حضرت ابراہیم کی بیوی سارہ کو بطور تحفہ دیا تھا ۔ جناب سارہ جو بے اولاد اورحضرت ابراہیم کے وارث نہ ہونے کی بناء پر مضطرب و پریشان تھیں انہوں نے حضرت ابراہیم سے خواہش ظاہر کی کہ آپ اس متقی و پرہیزگار کنیز سے شادی کرلیں اور پھر اس طرح حضرت ابراہیم نے اپنی بیوی سارہ کی خواہش کا احترام کرکے ہاجرہ سے عقد کرلیا اب ہاجرہ ایک کنیز نہ تھیں بلکہ وہ اللہ کے خلیل ابراہیم کی شریک حیات بن چکی تھیں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بڑھاپے کا سکون و سہارا بن گئیں۔ وقت گذرتا رہا ، ہاجرہ کے یہاں ایک معصوم بچہ پیدا ہوا حضرت ابراہیم نے اس کا نام اسماعیل رکھاایک دن جناب سارہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے درخواست کی کہ ہاجرہ اور ان کے فرزند کو کسی دوسری جگہ منتقل کردیں ۔
خداوندعالم نے حضرت ابراہیم کو وحی فرمائی کہ اسماعیل اور ان کی ماں کو شام سے باہر لے جائیں حضرت ابراہیم نے کہا “خدایا میں انہیں کہاں لے جاؤں ؟” ارشاد ہوا اے ابراہیم انہیں امن و امان کی جگہ یعنی میرے حرم اور کرہ ارض کے پہلے مرکز پر لے جاؤ جسے میں نے خلق کیا ہے اور وہ مکہ ہے حضرت ابراہیم نے پیغام وحی الہی اور اس بے آب و گیاہ صحرا میں حضرت ہاجرہ نے اور اسماعیل کے محل سکونت کے بارے میں ہاجرہ کو خبر دی ہاجرہ جو اس سے پہلے سرسبز وشاداب اور بہترین آب وہوا سے سرشار سرزمین پر رہ چکی تھیں بغیر کسی چوں چرا کے مشیت الہی کے سامنے سر تسلیم خم کردیا اور خدا پر مکمل یقین و اعتماد رکھتے ہوئے شدید مصیبت و آلام کی وادی میں قدم رکھنے پر راضی ہوگئیں جب حضرت ابراہیم نے ہاجرہ میں صبر واعتماد کا مشاہدہ کیا تو ان کے خلوص و اعتماد کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے چنانچہ حضرت ابراہیم اپنے اہل وعیال کے ساتھ سرزمین مکہ پر پہنچے تو وہاں ایک درخت موجود تھا جناب ہاجرہ نے اپنی عبا اس درخت پر ڈال دی اور اپنے بچے کو اس کے سائے میں لے کر بیٹھ گئیں جب حضرت ابراہیم نےوہاں سے واپس جانے کا ارادہ کیا تو ہاجرہ نے کہا : اے ابراہیم آپ ہم لوگوں کو ایسی جگہ چھوڑ کر جارہے ہیں جہاں نہ پینے کے لئے پانی ہے اور نہ ہی کو ئی مونس و ہمدم بلکہ یہ تو ایک بے آب وگیاہ صحرا ہے ؟ ابراہیم نے کہا ” جس خدا نے ہمیں حکم دیا ہے کہ تم لوگوں کو یہاں چھوڑ دوں وہی خدا تمہاری مشکلیں آسان کردے گا ” ابراہیم نے اتنا کہہ کر دعا کے لئے ہاتھ بلند کئے اور اپنی بیوی اور معصوم بچے کو مکہ کے بے آب و گیاہ صحرا میں چھوڑ کر شام واپس چلے گئے ۔
جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کوہ ذی طوی پر پہنچے تو انہوں نے بارگاہ خداوندی میں اس طرح دعا کی ” پروردگارا میں نے اپنی ذریت میں سے بعض کو تیرے محترم مکان کے قریب بے آب وگیاہ وادی میں چھوڑ دیا ہے تا کہ نمازیں قائم کریں اب تو لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف موڑ دے اور انہیں پھلوں کا رزق عطا فرما تا کہ وہ تیرے شکر گزار بندے بن جائیں۔” ( ابراہیم :۳۷)
اب اس گرم تپتی ہوئی زمین پر صرف دو انسان موجود ہیں ایک عورت اور دوسرا چھوٹا سا بچہ، ماں اور بیٹے کو پیاس لگی۔ ماں صفا اور مروہ پہاڑوں کے درمیان پانی کی تلاش میں بھاگ دوڑ کر رہی ہیں ارشاد رب العزت ہوتا ہے۔ إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃ مِنْ شَعَائِرِ اللہ “بے شک صفا اور مروہ دونوں پہاڑیاں اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔” (بقرہ :۱۵۸)
ہاجرہ اور اسماعیل سرزمین وحی پر رہنے لگے ہاجرہ معنویت و پاکیزگی میں اس درجے پر فائز تھیں کہ ایسے حالات کا مشاہدہ کرنے کے باوجود ذرہ برابر بھی خوفزدہ نہیں ہوئیں کیونکہ آپ جانتی تھیں کہ پروردگار عالم کا وعدہ بر حق ہے اور فرشتہ وحی نے جس چیز کی خبر دی ہے کہ نسل ابراہیمی میں اضافہ ہوگا تو وہ یقینا پورا ہوگا کسی طرح رات گذری اور صبح ہوگئی اسماعیل کو شدید پیاس لگی اور ہاجرہ پانی کی تلاش میں ادھر ادھر دوڑنے لگیں لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا ادھر پروردگار عالم نے اسماعیل کے قدموں تلے چشمہ جاری کردیا جو ہزاروں برس گذرنے کے باوجود آج بھی اسی طرح جاری اور رحمت الہی کی عظیم نشانی ہے اور پھر رفتہ رفتہ پرندے ، جانور اور مختلف قبیلوں کے لوگ اس کے اطراف میں رہنے لگے اور ہاجرہ اور اسماعیل سے مانوس ہو گئے جب حضرت ابراہیم ان سے ملنے کے لئے تشریف لائے تو دیکھا کہ بہت سے لوگ وہاں آباد ہوگئے ہیں تو ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہا۔
روایات کے مطابق جب حضرت اسماعیل علیہ السلام نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو حضرت ابراہیم نے اللہ کے حکم اور ان کی مدد سے خانہ کعبہ کی تعمیر کی ۔فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اس سلسلے میں فرماتے ہیں : ابراہیم ، کعبہ کی تعمیر میں مصروف تھے اور اسماعیل کوہ ذی طوی سے پتھر لاتے تھے اور جب ابراہیم و اسماعیل کعبہ کی تعمیر کرچکے تو جناب ہاجرہ نے اپنی عبا کعبہ کی دیوار پر آویزاں کردی “
جناب ہاجرہ فضائل و کمالات کے اعلی مقام پر فائز تھیں وہ حلیم و بردبار ، متقی و پرہیزگار، مادیات سے مبرہ اور صرف خالق کائنات سے لو لگائے تھیں اسی وجہ سے آپ نے وطن اور شوہر سے دوری اور ہر طرح کی سختی و آلام کو برداشت کیا اور اپنے معصوم بیٹے اسماعیل کے ساتھ برسہا برس زندگی بسر کی ۔ہاجرہ نے پرودگار عالم کے خاص بندے اور اس کے پیغمبر کی اپنے آغوش عطوفت میں پرورش کی اس دوران حضرت ابراہیم کبھی کبھی انہیں دیکھنے آیا کرتے تھے اس کے علاوہ ان کا کوئی مونس و ہمدم بھی نہ تھا ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جناب ہاجرہ کی لیاقت و صلاحیت دیکھتے ہوئے جناب اسماعیل کی تربیت کی ذمہ داری کہ جو مشیت الہی تھی کہ انہی کی ذریت طاہرہ میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پیدا ہوں گے انہیں سپرد کردی جناب ہاجرہ نے اپنے فرزند کی تربیت و پرورش بڑے ہی اچھے طریقے سے کی ۔ حضرت اسماعیل ابھی جوانی کی تیرہویں بہار ہی میں تھے لیکن معرفت الہی میں اس قدر غرق تھے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے قربانی کے بارے میں حکم پروردگار سنایا تو اسماعیل نے حکم الہی کے سامنے سر تسلیم خم کردیا ۔خداوند عالم سورہ صافات کی آیت نمبر ایک سو دو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اسماعیل نے اپنے بابا کو مخاطب کرکے کہا: بابا آپ کو جو حکم دیا جارہا ہے اس پر عمل کریں انشاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے”
اگر اسماعیل نے امر الہی کو ہر چیز پر مقدم کیا تو یہ ان کی ماں جناب ہاجرہ کی صحیح تربیت کی بہترین دلیل ہے ۔
جناب ہاجرہ راہ خدا کی وہ عظیم مسافر ہیں جنہوں نے مصر سے فلسطین اور وہاں سے حجاز کی طرف ہجرت کی اور اس دوران بہت زیادہ اور ناقابل تحمل سختی و پریشانی سے دوچار ہوئیں یہاں تک کہ خدا پر ایمان و عقیدہ راسخ کے ساتھ اپنے بیٹے اسماعیل کے لئے پانی کی تلاش میں صفا و مروہ کی پہاڑیوں کے درمیان ان کی سعی وکوشش ، شعائر الہی کا جزء اور واجبات حج کے اعمال کا ایک اہم حصہ قرارپائی اور وہ چشمہ جو ان کے فرزند اسماعیل کے پیروں کے نیچے جاری ہوا تھا وہ لوگوں کے قلوب کے لئے شفا اور نجات دہندہ قرار پایا ۔
خلاصہ یہ کہ پروردگار کی کنیز خاص ہاجرہ اس دار فانی سے ملک جاودانی کی طرف رخصت ہوگئیں اور انہیں جوار خانہ خدا میں دفن کردیا گیا جب کہ یہ امر بھی مشیت الہی سے انجام دیا گیا تھا تاکہ قیامت تک تمام خداپرست افراد اور طواف خانہ خدا کرنے والے اس عظیم کنیز کے ایثار و جذبے اور خدا پر توکل واطمینان کو ہمیشہ یاد رکھیں اور جان لیں کہ خدا کے نزدیک بہترین شخص وہ ہے جو سب سے زيادہ متقی و پرہیزگار ہو چنانچہ پروردگارعالم سورہ حجرات کی تیرہویں آیت میں ارشاد فرماتا ہے :” تم میں سے خدا کے نزدیک زیادہ محترم وہی ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے۔”
مزاحمتی گروہوں نے جدید میڈل ایسٹ کا نقشہ بدل دیا
ایکنا انٹرنیشنل ڈیسک کے مطابق سید حسن نصر اللہ نے خطاب میں عید کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے جدید اپ ڈیٹ کے تناظر میں کہا کہ جولائی 2006 کی جنگ کے اہم نتائج میں سے ایک لبنان اور صیہونی وجود کے درمیان توازن برقرار رکھنا ہے۔
سید نصراللہ نے اسرائیلی وزیر دفاع بینی گینٹز کومخاطب کرتے ہویے کہا: آپ لبنان کو دھمکی دے رہے ہیں جب کہ آپ کی فوج ناکہ بندی ہونے کے باوجود غزہ میں چند میٹر آگے بڑھنے میں ناکام رہی ہے۔
سید نصراللہ نے صیہونی وزیرِ دفاع گانٹز کو کہا: بیروت، سیڈون اور صور پر حملہ کرنے کی آپ کی دھمکی کھوکھلی ہے۔
اھل سنت اور واقعہ غدیر
اھل سنت و الجماعت کی ان وجوھات کو بیان کریں جن کی بنا پر وہ حدیث غدیر کے امیر المومنین علیہ السلام کی امامت اور بلافصل خلافت پر
واضح اور آشکار نص ھونے کو قبول نھیں کرتے۔ اور منصفانہ طور پر یہ فیصلہ کریں کہ آیا یہ حدیث جیسا کہ شیعہ دعویدار ہیں واقعا علی علیہ السلام کی خلافت پر دلالت کرتی ہے یا نھیں؟
سب سے پھلے ھم احادیث کی ان کتابوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں جن میں حدیث غدیر بیان ھوئی ہے۔ اس کے بعد حدیث غدیر ، اسکے بارے میں نظریات اور ان کے اشکالات بیان کرنے کی کوشش کریں گے۔
حدیث غدیر امام حنبل کی نگاہ میں
امام احمد حنبل نے اپنی مسند میں یوں بیان کیا ہے:
حدثنا عبد اللہ، حدثنی ابی، ثنا عفان، ثنا حماد بن سلمہ، انا علی بن زید، عن عدی بن ثابت ، عن البراء بن عازب، قال: کنا مع رسول اللہ( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فی سفر فنزلنا بغدیر خم فنودی فینا: الصلاۃ جامعۃ، و کسح لرسول اللہ( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)تحت شجرتین فصلی الظھر و اخذ بید علی(رضی اللہ عنہ) فقال: الستم تعلمون انی اولی بکل مومن من نفسہ؟ قالوا: بلی ، قال فاخذ بید علی فقال: من کنت مولاہ فعلی مولاہ اللھم وال من والاہ و عاد من عاداہ۔ قال فلقیہ عمر بعد ذلک فقال لہ: ھنیئا یابن ابی طالب اصبحت و امسیت مولی کل مومن و مومنۃ"۔ (۱)
براء بن عازب کا کھنا ہے: ایک سفر میں ھم رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ تھے غدیر خم کے مقام پر پھنچے ایک آواز دی گئی: الصلاۃ جامعۃ، ( نماز جماعت کے لیے تیار ھو جاو) دو درختوں کے نیچے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لیے انتظام کیا گیا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز بجا لائے اور پھر حضرت علی علیہ السلام کا ھاتھ پکڑ کر فرمایا کیا میں سب کی جان و مال کا مالک نھیں ھوں؟ سب نے کھا ھاں آپ ھماری جان و مال کے مالک ہیں۔ پھر آپ نے فرمایا جس جس کا میں مولا ھوں اس اس کے یہ علی مولا ہیں خدایا اس کو دوست رکھ جو علی کو دوست رکھےاور اس سےد شمنی رکھ جو علی سے دشمنی کرے۔ پھرعمرآپ کے گلے ملے اور کھا مبارک ھو اے ابو طالب کے بیٹے تم نے صبح وشام کی ہے اس حالت میں کہ تم ھر مومن مرد و عورت کے مولا ھو۔
یہ روایت(مسند احمد ) میں مختلف مقامات پربھت زیادہ سندوں کے ساتھ نقل ھوئی ہے۔(۲)
حافظ ابن عبداللہ نیشاپوری نے بھی مستدرک میں مختلف الفاظ میں مختلف مقامات پر حدیث غدیر کو نقل کیا ہے۔منجملہ:
حدثنا ابوالحسین محمد بن احمد بن تمیم الحنظلى ببغداد، ثنا ابوقلابة عبدالملک بن محمد الرقاشى، ثنا یحیى بن حماد، وحدثنى ابوبکر محمد بن احمد بن بالویه وابوبکر احمد بن جعفر البزاز، قالا ثنا عبدالله بن احمد بن حنبل، حدثنى ابى، ثنا یحیى بن حماد و ثنا ابونصر احمد بن سهل الفقیه ببخارى، ثنا صالح بن محمد الحافظ البغدادى، ثنا خلف بن سالم المخرمى، ثنا یحیى بن حماد، ثنا ابوعوانة، عن سلیمان الاعمش، قال ثنا حبیب بن ابى ثابت عن ابى الطفیل، عن زید بن ارقم ـ رضى اللّه عنه ـ قال: لمّا رجع رسول اللّه ـ صلى اللّه علیه وآله وسلم ـ من حجة الوداع ونزل غدیرخم امر بدوحات فقممن فقال: کانّى قد دعیت فاجبت. انى قد ترکت فیکم الثقلین احدهما اکبر من الآخر: کتاب اللّه تعالى وعترتى فانظروا کیف تخلفونى فیهما فانّهما لن یفترقا حتى یردا علىّ الحوض. ثم قال: ان اللّه ـ عزّ وجلّ ـ مولاى وانا مولى کل مؤمن. ثم اخذ بید علی ـ رضى اللّه عنه ـ فقال: من کنت مولاه فهذا ولیّه، اللهم وال من والاه وعاد من عاداه. و ذکر الحدیث بطوله. هذا حدیث صحیح على شرط الشیخین ولم یخرجاه بطوله.(۳)
اسی کتاب میں اس حدیث کے نقل کرنے کے بعد دوسری سندوں کے ساتھ اسی روایت کو تکرار کیا ہے دونوں میں صرف اتنا فرق ہے کہ جملہ" من کنت مولاہ " سے پھلے کھتے ہیں:
ثم قال: أن تعلمون انى اولى بالمؤمنین من انفسهم ثلاث مرات قالوا: نعم فقال: رسول اللّه ـ صلى اللّه علیه وآله ـ من کنت مولاه فعلى مولاه۔(۴)
حدیث غدیر سنن ابن ماجہ اور ترمذی میں
ابن ماجہ لکھتے ہیں:
حدثنا على بن محمد، ثنا ابوالحسین، اخبرنى حماد بن سلمه، عن على ابن زید بن جدعان، عن عدىّ بن ثابت، عن البراء بن عازب، قال: اقبلنا مع رسول اللّه ـ صلى اللّه علیه وآله ـ فى حجّته التى حجّ فنزل فى بعض الطریق فامر الصلاة جامعة فأخذ بید علی فقال: ألست اولى بالمؤمنین من انفسهم؟ قالوا: بلى قال: الست اولى بکل مؤمن من نفسه؟ قالوا: بلى. قال: فهذا ولىّ من أنا مولاه، اللهم وال من والاه اللهم عاد من عاداه۔(۵)
ترمذی بھی " سنن" میں اسی مضمون کے ساتھ اس حدیث کو نقل کرتے ہیں۔(۶)
اس مقالہ میں ھم شیعوں کے منابع سے حدیث کو نقل نھیں کریں گے تاکہ ھمارا مقصد جو اھلسنت کے منابع سے حدیث غدیر کا اثبات ہے پورا ھو جائے ورنہ شیعہ منابع میں تو حدیث غدیر تواتر کے ساتھ نقل ھوئی ہے۔
شیعوں کا نظریہ
شیعہ معتقد ہیں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد لوگوں کی دنیاوی اور دینی رھنمائی کا اھم مسئلہ خود لوگوں کے انتخاب پر نھیں چھوڑ دیا گیا۔ بلکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسلام کی طرف پھلی دعوت ( دعوت ذوالعشیرہ) سے لے کر اپنی زندگی کے آخری لمحہ تک جگہ جگہ اس مسئلہ کی طرف اشارہ فرمایا اور امیر المومنین علی علیہ السلام کو اپنا بلافصل خلیفہ اور جانشین مقرر فرمایا۔ حدیث غدیر انھیں روایات میں سے ایک ہے جو اس امر پر دلالت کرتی ہے۔
دوسرے مذاھب کا نظریہ
دوسرے اسلامی مذاھب شیعوں کے نظریہ کے مقابلہ میں استدلال لاتے ہیں اور معتقد ہیں کہ یہ روایت حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کو ثابت نھیں کر سکتی۔ ھم یھاں پر ان کے نظریات کے بارے میں بحث و تحقیق کرتی ہیں۔
۱۔ایک روایت سے استدلال کرنے کے لیے سب سے پھلی شرط یہ ہے کہ اس کی سند صحیح ھو دوسرے الفاظ میں، صرف اس روایت کو اس مسئلہ میں دلیل کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے جس کا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم] سے صادر ھونا یقینی ھو۔ خاص کر کے شیعہ عقیدہ کے مطابق جو مدعی ہیں کہ امامت کے مسئلہ میں ایک شخص کی روایت پر عمل کرنا کافی نھیں ہے۔ بلکہ اس مھم مسئلہ پر دلالت کرنے والی دلیل کو متواتر ھونا چاھیے۔ اس اعتبار سے بعض اھل سنت کے علماء نے حدیث غدیر کو غیر متواتر سمجھتے ھوئے اسے استدلال کے قابل نھیں سمجھا۔ جیسے قاضی عضد الدین ایجی مواقف میں کھتے ہیں:
ہم اس روایت کی صحت کا انکار کرتے ہیں اور اس کے متواتر ھونے کا دعوی، بے دلیل ہے۔ کیسے یہ روایت متواتر ہے جبکہ اکثر اصحاب نے اسے نقل نھیں کیا ہے۔(۷)
ابن حجر ھیثمی کا کھنا ہے: شیعہ فرقے اس بات پر متفق ہیں کہ جو چیز امامت کے اوپر دلیل کے عنوان سے پیش ھونا چاھیے اسے متواتر ھونا چاھیے۔ حالانکہ اس حدیث کا متواتر نہ ھونا معلوم ہے۔ جیسا کہ اس حدیث کی صحت کے بارے میں اختلاف پھلے گزر چکا ہے بلکہ وہ جنھوں نے اس حدیث کی صحت میں اشکال کیا ہے علماء حدیث میں سے ابو داود سجستانی، ابو حاتم رازی اور دوسرے لوگ ہیں پس یہ " خبر واحد" ہے جس کی صحت کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔(۸)
ابن حزم اور تفتازانی نے بھی یھی بات کھی ہے۔(۹)
جواب:
یہ اشکال ھر اس شخص کی نظر میں جو تھوڑی بھت تاریخ اسلام اور احادیث سے آشنائی رکھتا ہے واضح ہے کہ تعصب اور کینہ کی وجہ سے ہے۔ ورنہ حدیث غدیر کا انکار کرنا ان سوفسطائیوں کی طرح ہے جنھوں نے واقعیت کے موجود ھونے کا انکار کیا، یا ان لوگوں کی طرح ہے جنھوں نے جنگ بدر اور احد کا انکار کیا۔ جو اسلام کے مسلمات میں سے ہیں۔
ھم مختصرا یھاں پر اس روایت کے مصادر اور اس کی صحت کے اصولوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور اس کی تفصیل کوجاننے کے لیے تین تحقیقی کتابوں "الغدیر" علامہ امینی، " عبقات الانوار، علامہ میر حامد حسین اور " احقاق الحق و ملحقاتہ" شھید قاضی نور اللہ شوشتری کی طرف ارجاع دیتے ہیں۔
کتاب احقاق الحق میں علماء اھل سنت کے چودہ افراد پر مشتمل ایک فھرست نقل ھوئی ہے جن میں علامہ سیوطی، جزری، جلال الدین نیشاپوری، ترکمانی ذھبی شامل ہیں ان سب نے حدیث غدیر کے تواتر کا اعتراف کیا ہے۔(۱۰)
ابن حزم نے بھی منھاج السنہ میں یھی کھا ہے۔(۱۱)
علامہ امینی " الغدیر" میں اھل سنت کے تینتالیس بڑے اور بزرگ علماء (منجملہ: ثعلبی، واحدی، فخر رازی، سیوطی، قاضی شوکانی) کی عبارتوں کو نقل کرتے ہیں جو حدیث غدیر کے صحیح السند ھونے پر دلالت کرتی ہیں۔ (۱۲) نیز اھل سنت کے تیس بڑے مفسرین( منجملہ: ترمذی، طحاوی، حاکم نیشاپوری، قرطبی، ابن حجر عسقلانی، ابن کثیر، ترکمانی) کی عبارتوں کو ان کے ناموں کے ساتھ نقل کرتے ہیں کہ ان سب نے اس آیت "یا ایھا الرسول بلغ ما انزل الیک و ان لم تفعل۔۔۔" کے ذیل میں حدیث غدیر کو ذکر کرتے ھوئے اس آیت کو اس حدیث سے واضح ربط دیا ہے۔ (۱۳)
کتاب " احقاق الحق" میں حدیث غدیر کو اھلسنت کے پچاس معتبر مصادر اور منابع سے نقل کیا ہے۔جیسے سسن المصطفی، مسند احمد، خصائص نسائی، عقد الفرید، حلیۃ الاولیاء وغیرہ۔(۱۴)
یھاں پر ھم اھل سنت کے بعض بزرگان کے حدیث غدیر کے بارے میں اقوال کو الغدیر سے نقل کرتے ہیں:
ضیاء الدین مقبلی کا کھنا ہے: اگر حدیث غدیر قطعی اور یقینی نھیں ہے تو کچھ بھی دین اسلام میں قطعی اور یقینی نھیں ہے۔
غزالی کھتے ہیں: جمھور مسلمین کا اجماع ہے حدیث غدیر کے متن پر۔
بدخشی کھتے ہیں: حدیث غدیر صحیح حدیث ہے کوئی اس کی صحت پر شک نھیں کرتا مگر یہ کہ اس کے اندر تعصب کی آگ جل رھی ھو کہ ایسے شخص کی بات کا کوئی اعتبار نھیں۔
آلوسی کا کھنا ہے: حدیث غدیر، صحیح حدیث ہے جس کی سند میں کوئی مشکل نھیں ہے اور ھمارے نزدیک اس کی صحت ثابت ہے ۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بھی اور حضرت علی علیہ السلام سے بھی تواتر کے ساتھ نقل ھوئی ہے۔
حافظ اصفھانی کھتے ہیں: حدیث غدیر صحیح حدیث ہے کہ صحابہ میں سے سو افراد نے اسے نقل کیا ہے اور " عشرہ مبشرہ" بھی انھیں سو آدمیوں میں سے ہیں۔(۱۵)
حافظ سجستانی کا کھنا ہے کہ حدیث غدیر ایک سو بیس صحابیوں کے ذریعے نقل ھوئی ہے اور حافظ اب العلاء ھمدانی نے ایک سو پچاس افراد کو بیان کیا ہے۔(۱۶)
حافظ ابن حجر عسقلانی " تھذیب التھذیب" میں حدیث غدیر کے بعض راویوں کو بیان کرنے کے ضمن میں اس کے طرق کی طرف اشارہ کرتے ھوئے کھتے ہیں:
ابن جریر طبری نے حدیث غدیر کی اسناد کو ایک کتاب کے اندر جمع کیا ہے اور اسے صحیح السند حدیث شمار کیا ہے اور ابو العباس ابن عقدہ نے بھی اسے صحابہ میں سے ستر افراد کے ذریعے سے نقل کیا ہے۔ (۱۷)
نیز کتاب" فتح الباری بشرح صحیح البخاری" میں آیا ہے:
حدیث" من کنت مولاہ فعلی مولاہ" کو ترمذی اور نسائی نے نقل کیا ہے اور اس کے نقل کے راستے اور سندیں بھت زیادہ ہیں کہ ان سب کو ابن عقدہ نے ایک مستقل کتاب میں ذکر کیا ہے اور اس کی بھت ساری سندیں صحیح اور حسن ہیں۔ اور ھمارے لیے امام احمد حنبل سے روایت کی ہے کہ انھوں نے کھا: جو کچھ علی علیہ السلام کے فضائل کے سلسلے میں مجھ تک پھنچا ہے صحابہ میں سے کسی ایک کے بارے میں نھیں ملتا۔ (۱۸)
قندوزی حنفی حدیث غدیر کو مختلف اسناد سے نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
محمد بن جریر الطبری نے حدیث غدیر کو پچھتر طریقوں سے نقل کیا ہے اور ایک مستقل کتاب بنام " الولایۃ" اس کے بارے میں تالیف کی ہے۔ نیز ابو العباس احمد بن محمد بن سعید بن عقدہ نے ایک کتاب تالیف کی جس میں ایک سو پچاس طریقوں سے حدیث غدیر کو نقل کیا ہے۔(۱۹)
حافظ محمد بن محمد الجزری الدمشقی نے امیر المومنین علیہ السلام کے حدیث غدیر سے احتجاج کرنے کو نقل کرتے ھوئے یوں لکھاہے:
یہ حدیث حسن ہے اور یہ روایت تواتر کے ساتھ حضرت علی علیہ السلام سے نقل ھوئی ہے جیسا کہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بھی تواتر کے ساتھ نقل ھوئی ہے بھت سارے گروہ نے بھت سارے دوسرے گروھوں سے اس حدیث کو نقل کیا ہے پس جو لوگ اس حدیث کی سند کو ضعیف کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان کی باتوں کی طرف توجہ دینا فضول ہے۔ اس لیے کہ وہ علم حدیث سے بے خبرہیں۔(۲۰)
حدیث غدیر کو بخاری اور مسلم نے اپنی صحیحوں میں نقل نھیں کیا لیکن یہ چیز یعنی ان کا اپنی کتابوں میں نقل نہ کرنا ھر گز حدیث غدیر کی سند کے ضعیف ھونے پر دلالت نھیں کرتا۔ اس لیے کہ بھت ساری روایتیں جو خود بخاری اور مسلم کی نظر میں صحیح ہیں اور ان کی سندوں میں کوئی مشکل نھیں ہے انھوں نے اپنی صحیحوں میں نقل نھیں کیا۔ اسی وجہ سے ان کی کتابوں کے بعد کئی مستدرک لکھی گئیں۔ اگر تمام صحیح روایات صحیح بخاری یا صحیح مسلم میں نقل ھو جاتی تو صحاح ستہ کی ضرورت نہ تھی۔ حالانکہ آپ جانتے ہیں کہ کوئی عالم اور دانشمند اپنے پاس صحیح بخاری اور صحیح مسلم رکھنے کے بعد دوسری صحاح سے بے نیاز نھیں ھو جاتا۔
دوسری طرف سے خود بخاری اور مسلم نے بیان کیا ہے کہ جو کچھ ھم ان کتابوں میں لائے ہیں وہ صحیح ہے نہ یہ کہ جو کچھ صحیح تھا ھم نے ذکر کر دیا۔ بلکہ بھت ساری صحیح احادیث کو دوسری وجوھات کی بنا پر ذکر نھیں کیا۔(۲۱)
مذکورہ مطالب کے علاوہ، علامہ امینی (رہ) حدیث غدیر کو بخاری اور مسلم کے اساتید اور بزرگان میں سے انتیس افراد سے نقل کرتے ہیں۔(۲۲)
گفتگو کے اس حصہ کے آخر میں اس سلسلے میں کئے جانے والے ایک اشکال کو ذکر کرتے ہیں:
ابن حجر لکھتے ہیں:
حدیث غدیر، صحیح حدیث ہے کہ جس میں کسی قسم کے شک و شبہ کی کوئی گنجائش نھیں پائی جاتی۔ اور اسے ترمذی، نسائی او احمد حنبل جیسوں نے نقل کیا ہے اور بھت سارے طریقوں سے یہ حدیث نقل ھوئی ہے منجملہ اصحاب میں سے سولہ افراد نے اسے نقل کیا ہے اور احمد بن حنبل کی روایت میں آیا ہے کہ اسے تیس صحابیوں نے رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سنا اور جب امیر المومنین کی خلافت پر جھگڑا ھوا تو انھوں نے گواھی دی۔(۲۳)
پھر دوسری جگہ تکرار کرتے ھوئے کھتے ہیں:
حدیث غدیر کو تیس صحابیوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل کیا ہے اور بھت سارے اس کے نقل کے طریقے صحیح یا حسن ہیں۔(۲۴)
پس خود اشکال کرنے والوں کی نظر میں جیسے ابن حجر غیرہ کہ جنھوں نے اس حدیث کی صحت پر اشکال کیا ہے توجہ نھیں کرنا چاھیے اس لیے کہ ابن حجر خود دوسری جگہ کھتے ہیں: "ولا التفات لمن قدح فی صحتہ"۔(۲۵)( اس شخص کی بات پر کوئی توجہ نھیں کی جائے گی جو حدیث غدیر کے صحت پر شک کرے)۔
استاد محمد رضا حکیمی اپنی کتاب " حماسہ غدیر" میں اھل سنت کے ۱۵ معاصر علماء کے نام بیان کرتے ہیں جنھوں نے حدیث غدیر کو اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے ان میں سے بعض یہ ہیں: احمد زینی دحلان، محمد عبدہ مصری، عبد الحمید آلوسی، احمد فرید رفاعی، عمر فروخ۔(۲۶)
قابل توجہ ہے کہ شیعہ امامت سے مربوط روایات میں تواتر اور یقینی ھونےکو شرط سمجھتے ہیں اور حدیث غدیر شیعہ کتب روائی میں متواتر اور قطعی ہے۔ جیسا کہ بھت سارے سنی مصادر میں بھی اس کا قطعی الصدور ھونا ثابت ہے۔ اور سنی علماء کے عقیدہ کے مطابق کسی حدیث سے امامت کو ثابت کرنے کے لیے دوسرے فروع دین کی طرح اس کا صحیح السند ھونا کافی ہے اس کے تواتر کو ثابت کرنے کی کوئی ضرورت نھیں ہے۔ لھذا یہ اشکال خود بخود رفع دفع ھو جاتا ہے۔
دوسرا اشکال جو قاضی عضد الدین ایجی نے اپنی کتاب " مواقف" میں بیان کیا ہے یہ ہے کہ حضرت علی علیہ السلام غدیر کے دن پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ نھیں تھے، لکھتے ہیں:
علی علیہ السلام حجۃ الوداع میں غدیر کے دن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ھمراہ نھیں تھے بلکہ وہ یمن میں تھے۔(۲۷)
بھتر ہے اس اشکال کو بیان کرنے سے پھلے " مواقف" کی شرح لکھنے والے کی بات کو بیان کریں۔ سید شریف جرجانی نے مواقف پر شرح لکھتے ھوئے اس مقام پر بیان کیا ہے:
یہ اشکال مردود ہے اس لیے کہ حضرت علی علیہ السلام کا غائب ھونا حدیث کے صحیح ھونے کے ساتھ منافات نھیں رکھتا۔ مگر یہ کہ روایت میں یہ آیا ھو کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علی کو اپنے پاس بلایا یا ان کا ھاتھ پکڑا۔ بھت ساری روایات میں یہ جملہ نقل نھیں ھوا ہے۔(۲۸)
ابن حجر ھیثمی اس شبہ کے جواب میں لکھتے ہیں:
وہ شخص جو یہ کھتا ہے کہ حدیث غدیر صحیح نھیں ہے یا یہ اشکال کرتا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام یمن میں تھے اس کی بات غلط ہے اس لیے کہ حضرت علی علیہ السلام یمن سے واپس آچکے تھے اور حج کو انھوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ بجا لایا تھا۔(۲۹)
اگر چہ تاریخی اعتبار سے امیر المومنین کا یمن سے واپس لوٹنا اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ھمراہ حج کے ارکان کا بجا لانا مسلم ہے لیکن پھر بھی نمونہ کے طور پر چند ایک نکات کو ان لوگوں کے حوالے سے جنھوں نے اس مسئلہ کو چھیڑا ہے بیان کرتے ہیں:
طبری ( تاریخ طبری، ج۲، ص۲۰۵) ابن کثیر( البدایہ و النھایۃ ، ج۲ ص۱۸۴ اور نیز اسی جلد کے صفحہ ۱۳۲ )پر مفصل طور پر امیر المومنین کے یمن سے واپس پلٹنے کی بحث کو بیان کرتے ہیں اور آپ کی واپسی کو ثابت کرتے ہیں، ابن اثیر ( الکامل ، ج ۲ ص ۳۰۲)۔
۳: تیسرا اشکال جو زیادہ اھم اور مضبوط ہے وہ ہے کلمہ "مولا" کے بارے میں کہ یہ کلمہ مختلف معنی پر دلالت کرتا ہے جیسے ''چچا کا بیٹا''، "غلام کو آزاد کرنے والا"، "پڑوسی" " دوست" ، " اولی بالتصرف" "ولی اور سرپرست" وغیرہ۔ شیعہ حدیث غدیر کے شواھد و قرائن کو مدنظر رکھتے ھوئے یہ ثابت کرتے ہیں کہ اس حدیث میں لفظ مولا ولی، سرپرست اور اولی بالتصرف کے معنی میں ہے۔ لیکن بعض سنی علماء کلمہ مولا میں شبھہ ایجاد کرتے ھوئے کھتے ہیں کہ یھاں پر مولا دوست وغیرہ کے معنی میں ہے بظاھر یہ شبھہ فخرالدین رازی نے کتاب " نھایۃ العقول" میں ایجاد کیا اور دوسروں جیسے قاضی عضد الدین ایجی، (۳۰)] ابن حجر(۳۱) اور فضل بن روزبھان(۳۲) نے فخر رازی سے اسے نقل کیا ہے۔
قاضی عضد الدین ایجی کتاب مواقف میں لکھتے ہیں:
کلمہ " مولا" سے مراد "ناصر" ہے اس لیے کہ حدیث کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دعائیہ جملہ سے یھی معنی سمجھ میں آتے ہیں اور مولا سے مراد "اولی" نھیں ہے اس لیے کہ کبھی بھی مفعل کا وزن افعل کے معنی میں نھیں آتا ہے۔ (۳۳)
ابن حجر ھیثمی نیز کہتے ہیں:
ھم اس چیز کو قبول نہیں کرتے کہ " مولا" کے معنی وھی ھوں جو شیعہ کھتے ہیں بلکہ اس کے معنی "ناصر" کے ہیں اس لیے کہ مولا کے معنی متعدد ہیں جیسے " آزاد کرنے والا"، " امور میں تصرف کرنے والا"، " ناصر" " محبوب" ۔ ھم اور شیعہ دونوں معترف ہیں کہ اگر اس روایت میں مراد " محبوب" ھو اس کے معنی صحیح نکلیں گے اس لیے کہ علی علیہ السلام ھمارے اور ان کے محبوب ہیں ۔ لیکن یہ کہ مولا کے معنی " امام" ھوں نہ شریعت میں یہ معنی ہیں اور نہ لغت میں۔ شریعت میں یہ معنی بیان نھیں ھوئے اس کے بارے میں بحث کرنے کی ضرورت نھیں ہے یہ واضح ہے لیکن لغت میں بھی یہ معنی نھیں آئے ہیں یہ بھی لغت کی کتابوں سے معلوم ھوتا ہے کہ کسی بھی عرب لغت دان نے "مفعل" کے معنی ''افعل" بیان نھیں کئے ہیں۔(۳۴)
بعض دوسرے لوگوں کی باتیں بھی انھیں الفاظ کے ساتھ تکرار ھوئی ہیں۔
اشکال کا جواب:
اس اشکال کے جواب میں ھم یہ کھتے ہیں کہ شیعہ معتقد ہیں کہ اگر فرض کریں یہ قبول کر لیتے ہیں کہ کلمہ "مولا" چند معنی میں مشترک ہے اور عربی لغت دانوں نے بعد والے زمانے میں مولا کے معنی اولی نھیں کئے لیکن رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں اور اس حدیث کو بیان کرتے وقت مخاطبین نے ان معنی کو اس کلمہ سے سمجھا ہے۔ اس مدعی پر ھمارے پاس کئی دلیلیں ہیں:
۱: حسان بن ثابت کہ جو صدور حدیث کے وقت موجود تھے کہ جن کے ادبی مقام کا انکار کرنے والا کوئی نھیں ملتا، (۳۵) انھوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اجازت چاھی تاکہ اس واقعہ کو اپنے منظوم کلام میں بند کرے ان کے منجملہ اشعار میں سے ایک شعر یہ ہے:
فقال لہ قم یا علی فاننی
رضیتک من بعدی اماما و ھادیا
علامہ امینی نے ان اشعار کو اھل سنت کے بارہ مآخذ اور اھل تشیع کے چھبیس مآخذ سے نقل کیا ہے۔(۳۶)
قیس بن سعد بن عبادہ نے بھی اپنے اشعار کے اندر یوں کھا:
و علی امامنا و امام
لسوانا اتی بہ التنزیل
یوم قال النبی من کنت مولاہ
فھذا مولاہ خطب جلیل
علامہ امینی نے ان اشعار کو بارہ مآخذ سے نقل کیا ہے۔(۳۷)
عمر عاص نے بھی اپنے اشعار میں کھا:
و فی یوم خم رقی منیرا
یبلغ و الرکب لم یرحل
الست بکم منکم فی النفوس
باولی؟ فقالوا: بلی فافعل
فانحلہ امرۃ المومنین
من اللہ مستخلف المنحل
و قال فمن کنت مولا لہ
فھذا لہ الیوم نعم الولی
ان اشعار کو بھی علامہ امینی نے شیعہ سنی آٹھ مصادرسے نقل کیا ہے۔ (۳۸)
اس کے علاوہ علامہ امینی الغدیر میں بھت سارے شعراء اور عرب ادبا کے کلمات کو بیان کرتے ہیں جو کلمہ مولا سے امامت اور ولایت کے معنی سمجھتے پر دلالت کرتے ہیں۔(۳۹)
خود مولا علی علیہ السلام نے ایک شعر کے اندر جو معاویہ کو لکھا ہے اس بات کی تائید کے طور پر لکھا ہے:
و اوجب لی ولایتہ علیکم
رسول اللہ یوم غدیر خم
علامہ امینی نے اسے شیعوں کے گیارہ منابع اور سنیوں کے چھبیس منابع سے نقل کیا ہے۔(۴۰)
نیز اس حدیث سے ولی کے معنی سمجھنے پر بھترین دلیل حضرت ابوبکر اور عمر کا مبارک باد دینا ہے جو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خطبہ کے تمام ھونے کے بعد انھوں نے علی علیہ السلام کو مخاطب کر کے مبارک باد دی:
"بخ بخ لک یا بن ابی طالب اصبحت مولای و مولی کل مومن و مومنۃ"۔
علامہ امینی نے شیخین کی تبریک کو ساٹھ سنی مصادر سے نقل کیا ہے ( منجملہ: مسند احمد، تاریخ الامم و الملوک، تاریخ بغداد، مصنف ابن ابی شیبہ ہیں)۔ (۴۱)
سچ مچ اگر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مولا سے مراد ناصر اور محبوب ھوتی تو علی علیہ السلام کو مبارک باد دینے کی کون سی جگہ تھی؟ اس کے علاوہ بعض لوگوں کا غدیر خم کے مقام پر شدید اعتراض کرنا (جیسے حارث بن نعمان فھری) اور خدا سے عذاب کی درخواست کرنا اور اللہ کی طرف سے اس پر عذاب کا نازل ھونا یہ سب کس لیے تھا؟ صرف اس لیے کہ علی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ناصر اور محبوب ھو گئے؟ وہ تو پھلے بھی تھے بغیر کھے انھوں نے اپنی زندگی نصرت اسلام اور رسالت کے لیے وقف کر دی تھی۔
علامہ امینی نے اس واقعہ کو اھل سنت کے تیس منابع سے نقل کیا ہے جن میں الکشف و البیان، دعاۃ الھداۃ اور احکام القرآن شامل ہیں۔(۴۲)
انصاف سے بتائیں کہ کیا اگر حدیث غدیر میں مولا کے معنی ناصر اور محبوب کے ھوتے تو کیا یہ اتنے غضب اور انکار کی جگہ تھی حارث بن نعمان فھری جیسوں کو آتش غضب میں جلایا جاتا؟ اس حدیث کے علاوہ بھت ساری دوسری حدیثیں حتی قرآن کی آیتیں موجود ہیں جو صریحا امیر المومنین کی محبت اور نصرت پر دلالت کرتی ہیں کیوں جب وہ صادر ھوئی تو کسی نے اعتراض نھیں کیا؟
یہ چیز بھی ھمارے دعوے پر دلیل ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حدیث غدیر کو بیان کرنے سے خوف کھا رھے تھے اور اس مسئلہ کو تاخیر میں ڈال رھے تھے یھاں تک کہ آیہ کریمہ نازل ھوئی اور کھلے الفاظ میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حفاظت کا وعدہ دیا " واللہ یعصمک من الناس" خدا آپ کو لوگوں کے شر سے بچائے گا۔ آپ کو جو حکم دیا گیا ہےاسے انجام دیں۔
تو کیا یہ علی علیہ السلام کی محبوبیت اور ناصریت کا اعلان تھا جو منافقین کے مزاج سے سازگار نھیں تھا اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جن سے خوف کھا رھے تھے۔ واضح اور آشکار ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کی محبوب یا ناصر ھونے کے اعلان سے منافقین کی صحت پر کوئی اثر پڑنےوالا نھیں تھا اس لیے کہ روز اول سے وہ اس اعلان سے واقف تھے اور جگہ جگہ آپ کی مدد اور نصرت کے کرشمہ ملاحظہ کر چکے تھے۔ لھذا اگر دسیوں بار پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم علی علیہ السلام کے ناصر ھونے کا اعلان کردیں تو ان کی پیشانی پر کوئی بل نہ نھیں آئے گا۔ لھذا اتنے سارے شواھد و قرائن ملاحظہ کرنے کے بعد یہ کھنا کہ مولا سے مراد ناصر اور محبوب ہے انصاف سے دور اور تعصب کے نزدیک ہے۔ غدیرخم میں رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا عظیم انتظام اورانصرام یہ بتا رھا ہے کہ مسئلہ بھت حساس موڑ پر ہے اور جو بات وہ کھنے جا رھے ہیں وہ معمولی سی بات نھیں ہے وہ اسلام کے مستقبل کی تقدیر ہے۔ لھذا حدیث غدیر میں مولا سے مراد صرف اور صرف اولی بالتصرف ، ولی و سرپرست ہے۔
یھاں پر اس نکتہ کی طرف متوجہ کر دوں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنی جان کا خطرہ اور خوف نھیں تھا کہ منافق ان کی جان لے لیں گے بلکہ آپ دین میں اختلاف اور امت میں پراکندگی سے خوف کھا رھے تھے لیکن پرورگار عالم نے انھیں اطمینان دلایا کہ اعلان ولایت اختلاف سے بڑھ کر ہے اگر سلسلہ ولایت کا اعلان نھیں ھو گا تو دین خطرے میں پڑ جائے گا اس لیے کہ اس کا محافظ نھیں رھے گا۔ اور ایسا خوف کھانا کوئی عیب بھی نھیں ہے حضرت موسی علیہ السلام کے بارے میں بھی خدا فرماتا ہے: "فاوجس فی نفسہ خیفۃ موسی"۔(۴۳)
اور مزید عرض کر دوں کہ علامہ میر حامد حسین نے حدیث غدیر کو مختلف طریقوں سے نقل کیا ہے کہ بعض جگہوں میں بجائے "من کنت مولاہ" کے حدیث " من کنت اولی بہ من نفسہ فعلی ولیہ" کے الفاظ میں نقل ہوئی ہے۔(۴۴)ان الفاظ کے بعد یہ بحث کہ مولا کے معنی کیا ہے خود بخود ختم ہو جاتی ہے اس لیے کہ حدیث نے خود واضح طور پر بیان کر دیا کہ جس طریقے سے رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مسلمانوں کے نفوس پر اولویت اور حاکمیت رکھتے ہیں علی بھی ویسے ہی تصرف اور حاکمیت کا حق رکھتے ہیں۔ حموینی نے بھی اپنی کتاب " فرائد السطین" میں انہیں کلمات کے ساتھ حدیث غدیر کو نقل کیا ہے: من کنت اولی بہ من نفسہ فعلی اولی بہ من نفسہ۔ فانزل اللہ تعالی ذکرہ: الیوم اکملت لکم دینکم۔(۴۵)
اس بات پر بھی ایک نگاہ کرنا ضروری ہے کہ آیا لغت میں کلمہ مولا اولی کے معنی میں استعمال ھوتا ہے کہ نھیں؟ چلبی مواقف پر حاشیہ کے دوران قاضی عضد الدین سے نقل کرتے ھوئے لکھتے ہیں کہ:
اس اشکال کا جواب دیا جا چکا ہے کہ مولا کا " متولی"، "صاحب امر"، " اولی بالتصرف '' کے معنی میں استعمال کرنا عربی لغت کی اندر شایع ہے اور عربی لغت دانوں کے ذریعے یہ استعمال نقل ھوا ہے۔ ابو عبیدہ کا کھنا ہے " ھی مولاکم ای اولی بکم" اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے: ایما امراۃ نکحت بغیر اذن مولاھا؛ یعنی اس شخص کی اجازت کے بغیر جو اس پر اولی بالتصرف ہے۔ پس یہ کھنا صحیح نھیں ہے کہ مولا کے معنی اولی کے نھیں ھو سکتے اس لیے کہ مولا بر وزن مفعل ہے اور ولی فعیل کے وزن پرہے۔ مولا اسم ہے جو اولی کے معنی میں استعمال ھوتا ہے نہ اولی کی جگہ استعمال ھوتا ہے۔(۴۶)
علامہ میر حامد حسین نے ایک مکمل جلد کو اس بات سے مخصوص کیا ہے کہ مولا اولی کے معنی میں استعمال ھوتا ہے یا نھیں، وہ لوگ جنھوں نے یہ دعوی کیا ہے مولا " اولی" کے معنی میں استعمال نھیں ھوتا ان کے بارے میں تفصیل سے انھوں نے اس کتاب کے اندر بیان کیا ہے۔(۴۷)
مزید جانکاری کے لیے ان کی کتاب عبقات الانوار کی طرف رجوع کریں۔
۱۔ امدي، علي بن محمد؛ الاحكام؛ بيروت: مؤسسه النور، 1387ق.
۲۔ ابن ابي الحديد؛ شرح نهجالبلاغه؛ بيروت: داراحياء الكتب العربيه، (بيتا)۔
۳۔ ابن ابي شيبه كوفي؛ لامصنف؛ بيروت: دارالفكر، (بيتا)۔
۴۔ ابن اثير، علي؛ اسدالغابه؛ تهران: اسماعيليان، (بيتا)۔
۵۔ ابن الجارود نيشابوري؛ المنتقي؛ بيروت: مؤسسه الكتب الثقافيه، (بيتا)۔
۶۔ ابن الدمياطي، المستفاد؛ بيروت: دارالكتب العلميه، (بيتا)
۷۔ ابن حبان، عبدالله؛ البداية و النهاية؛بيروت: دارالحياء التراث العربي، (بيتا)۔
۸۔ تقريب التهذيب؛ بيروت، دارالمكتبة العلميه، 1995م.
۹۔ تهذيب التهذيب؛ بيروت: دارالفكر، 1984م.
۱۰۔ طبقات المحدثين؛ بيروت: مؤسسه الرساله، 1992م.
۱۱۔غريب الحديث؛ بيروت: دارالكتب العلميه، (بيتا)
۱۲۔ ابن حبان، علي بن بلياني؛ صحيح ابن حبان؛ الطبعة الثانيه، (بينا)،(بيتا) 1993م.
۱۳۔ ابن حجر عسقلاني، شهابالدين؛ فتح الباري؛ بيروت: دارالمعرفة، (بيتا)۔
۱۴۔ ابن حزم، ابومحمد علي؛ الفصل في الملل والاهواء؛ بيروت: (بينا)۔( بی تا) ۔
۱۵۔ ابنخلدون؛ تاريخ ابن خلدون؛ بيروت: مؤسسه الاعلمي، (بيتا)۔
۱۶۔ ابن خلكان، احمد بن محمد؛ وفيات الاعيان؛ بيروت: داراحياء التراث العربي، 1397م.
۱۷۔ ابن سعد، محمد؛ الطبقات الكبري؛ بيروت: دار صادر، (بيتا)۔
۱۸۔ ابن عساكر، ابوالقاسم؛ تاريخ مدينه دمشق؛ بيروت: دارالفكر، 1995م.
۱۹۔ ابن قتيبه دينوري؛ الامامة والسياسة؛ قم: شريف رضي، (بيتا)۔
۲۰۔ ابن كثير، اسماعيل؛ تفسير القرآن الكبير؛ بيروت: دارالمعرفة، 1992م۔
۲۱۔ ابن ماجه، محمد بن يزيد قزويني؛ سنن ابن ماجه؛ بيروت: دارالفكر، (بيتا)۔
۲۲۔ ابن نجار، محمد؛ ذيل تاريخ بغداد؛ بيروت: دارالكتب العلميه، (بيتا)۔
۲۳۔ ابن هشام، محمد؛ سيرة النبي؛ مصر: مكتبة محمد، (بيتا)۔
۲۴۔ ابن مزاحم منقري، نصر؛ واقعة الصفين؛ قاهر: مدني، (بيتا) ۔
۲۵۔ ابي داوود، ابن اشعث؛ سنن ابي داوود؛ بيروت: دارالفكر، (بيتا)۔
۲۶۔احمد بن حنبل؛ فضائل الصحابه؛ بيروت: دارالكتب العلميه، (بيتا)۔
۲۷۔ مسند احمد؛ بيروت: دار صادر، (بيتا) ۔
۲۸۔ اسكافي، ابوجعفر؛ المعيار والموازنه؛ قم: تحقيق محمدباقر محمودي، (بينا) (بيتا)۔
۲۹۔ اصفهاني، ابينعيم؛ ذكر اخبار اصبهان؛ ليدن: بريل، 1934م.
۳۰۔ الباني، محمدناصر؛ ارواءالغليل؛ بيروت: مكتبالاسلامي، (بيتا)
۳۱۔اميني، عبدالحسين(علامه)؛ الغدير؛ بيروت: دارالكتاب العربي، 1379ق.
۳۲۔ بخاري، محمد بن اسماعيل؛ تاريخ الكبير؛ دياربكر: مكتبةالاسلاميه، (بيتا)۔
۳۳۔ بلاذري، احمد؛انساب الاشراف؛ بيروت: مؤسسه الاعلمي،(بيتا)۔
۳۴۔ فتوح البلدان؛ مصر: لجنة البيان العربي، (بيتا)۔
۳۵۔ بيهقي، ابوبكر؛ سنن الكبري؛ بيروت: دارالفكر، (بيتا) ۔
۳۶۔ ترمذي، محمد بي عيسي؛ سنن ترمذي؛ بيروت: دارالفكر، (بيتا)۔
۳۷۔ حاجي خليفه؛ كشف الظنون؛ بيروت: دار احياءالتراث العربي، (بيتا)۔
۳۸۔ حاكم حسكاني، عبيدالله بن احمد؛ شواهد التنزيل؛ ايران: مجمع احياء الثقافة الاسلاميه، 1411ق.
۳۹۔ حاكم نيشابوري، محمد بن عبدالله؛ المستدرك؛ بيروت: دارالمعرفه، (بيتا) ۔
۴۰۔ معرفة علوم الحديث؛ بيروت: دارالافاقالجديد، (بيتا) ۔
۴۱۔ حموي، ياقوت؛ معجم البلدان؛ بيروت: داراحياء التراث العربي، 1979م.
۴۲۔ خطيب بغدادي، احمد بن علي؛ تاريخ بغداد؛ بيروت: دارالكتب العلميه، (بيتا)۔
۴۳۔ سورہ طہ،آیت ۔۶۷۔
۴۴۔ دينوري، ابن قتيبه؛ تأويل مختلف الحديث؛ بيروت: دارالكتب العلميه، (بيتا)۔
۴۵۔ ذهبي، ابوعبدالله؛ تذكرة الحفاظ؛ بيروت: داراحياء التراث العربي، (بيتا)۔
۴۶۔ سير اعلام النبلاء؛ بيروت: مؤسسه الرساله، (بيتا)۔
۴۷۔ رازي، محمد بن عمر؛ المحصول؛مؤسسه الرساله، (بيتا).
منبع: فصلنامہ علوم حدیث۔