
سلیمانی
مزاحمت نے "گریٹر اسرائیل" کا جنازہ نکال دیا: سید حسن نصر اللہ
ایکنا انٹرنیشنل ڈیسک کے مطابق حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے صور اور النبطیہ میں منعقد ہونے والے انتخاباتی سیمینار سے خطاب میں کہا کہ بعض سیاسی گروہ مزاحمت کو غیر مسلح کرنے کے علاوہ کسی اور چیز کو اہمیت نہیں دیتے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس الیکشن میں مزاحمت ملک کے معاشی بحران کو حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حزب اللہ اپنی انتخابی کانفرنسوں میں لبنانی عوام کے بنیادی مسائل کو حل کرے گی۔ سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ بدقسمتی سے کچھ سیاسی گروہ اس مسئلے کو کم ترین ترجیحات سے بھی ہٹا کر دیکھتے ہیں۔
سید حسن نصر اللہ کا کہنا تھا کہ ان گروہوں نے کچھ مہینے پہلے کی مزاحمت کے ہتھیار کو اپنی انتخاباتی جنگ کے طور پر پیش کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا وہ لوگ جو مزاحمت کو غیر مسلح کرنا چاہتے ہیں اور حزب اللہ سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ فلسطین میں غاصب عبوری صیہونی حکومت وقت سے ہی جنوب کے مسائل سے آگاہ نہیں ہیں۔
حزب اللہ لبنان کے سکریٹری جنرل نے تاکید کی کہ انہیں ایام میں صیہونی حکومت کی تشکیل ہوئی تھی اور چند مہینوں کے بعد ہی "حولا" گاؤں میں قتل عام ہوا اور متعدد جنوبی دیہات غیر آباد ہو گئے لیکن کچھ سیاست دان اب بھی اسرائیل کو دشمن نہیں مانتے اور یہ قبول نہیں کرتے کہ وہ لبنانی پانی اور گیس پر نظر گڑائے ہوئے ہیں۔
سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ ان میں سے ایک سیاستدان نے 2006 میں ایک جلسے کے دوران کہا تھا کہ اسرائیل نے لبنان پر حملہ نہیں کیا ہے اور یہ لبنان کے لیے خطرہ نہیں ہے اور اسے اس سے کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے، یہ شخص یا تو جاہل ہے یا اس نے جاہل ہونے کا ڈرامہ کیا ہے۔
اسرائیلی فورسز کی فائرنگ سے الجزیرہ کی ممتاز خاتون صحافی جاں بحق
ایکنا انٹرنیشنل ڈیسک- جیو نیوز کے مطابق الجزیرہ اور فلسطین کی وزارت صحت نے شیریں ابو اقلاح کی موت کی تصدیق کر دی ہے۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فورسز کی جانب سے خاتون صحافی شیریں ابو اقلاح کو فائرنگ کر کے قتل کرنے کی وجوہات تو سامنے نہیں آ سکی ہیں تاہم سامنے آنے والی ویڈیوز کے مطابق خاتون صحافی کے سر پر گولی ماری گئی۔
صیہونی فورسز کی فائرنگ سے جاں بحق شیریں ابو اقلاح الجزیرہ کی عربی سروس کی ممتاز صحافی تھیں۔
غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ شیریں ابواقلاح کی فورسز کی فائرنگ سے موت پر اسرائیل کی جانب سے کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا گیا۔
عالم اسلام اور انہدام جنت البقیع
حوزہ نیوز ایجنسی । ہم روز انہدام جنت البقیع پر عالم اسلام کے تمام مسلمانوں کی خدمت میں تعزیت پیش کرتا ہیں۔کیا انہدام جنت البقیع کا مسئلہ کسی خاص گروہ سے مخصوص ہے ؟ کیا یہ صرف شیعوں سے مخصوص ہے ؟ یا ہر محب اہل ابیت علیہم السلام سے مربوط ہے ؟ بعض اسلامی دانشوروں کے بقول " انہدام جنت البقیع کا مسئلہ بھی روز قدس کی طرح صرف شیعوں سے مخصوص نہیں بلکہ یہ عالم اسلام سے مربوط ہے"۔تاریخ بتاتی ہے کہ وہابیوں نے مدینہ منورہ کا محاصرہ کرکے وہاں موجود قبرستان بقیع اور اس پر بنائے گئے مختلف روضوں کو خراب کر دیا تھا۔ ان بارگاہوں میں امام حسنؑ، امام سجادؑ، امام باقرؑ اور امام صادقؑ کے مزارات شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بعض اعداد وشمار کے مطابق ہزاروں صحابی اس مقدس زمین میں مدفون ہیں، ان میں سب سے پہلے نبی اکرم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چار معصوم اولاد ؛ حضرت امام حسن بن علی ابن ابی طالب علیھم السلام، حضرت علی ابن حسین سید ساجدین امام زین العابدین علیھماالسلام، حضرت محمد ابن علی الباقر علیھما السلام، اور حضرت جعفر ابن محمد الصادق علیھما السلام بھی اس ارض مقدس میں مدفون ہیں۔ ان چار معصوم اماموں کی قبور ایک ساتھ ہیں، ان کے علاوہ بھی بہت اہم اور بڑی شخصیات بھی وہاں مدفون ہیں جیسے حضرت عباس بن عبدالمطلبؓ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرزند ابراہیمؑ، حضرت محمد بن حنفیہؓ، حضرت حسن بن حسنؑ بن علیؑ، حضرت عقیلؓ بن ابی طالب حضرت عبداللہ بن جعفر طیارؑ، حضرت علیؑ کی زوجہ ام البنین فاطمہ ؓالکلابیہ۔ ان کے علاوہ بھی بہت سارے ابتدائی اصحابؓ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسے حضرت عثمان بن مضعونؓ، حضرت سعد بن معاذؓ، اسی طرح تمام ازواجؓ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبروں کو(سوائے ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؑ کی قبر جو جنت المعلیٰ مکہ میں موجود ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ محترمہ حضرت میمونہ ؓبنت حارث کی قبر جو کہ وادی سرف مکہ مکرمہ سے ۱۵ کلومیٹر کے فاصلہ پر شمال میں مدینہ منورہ کی طرف میں موجود ہے )بھی اس کے ساتھ ملحق کیا گیا ہے۔ اسی طرح بقیع میں پہلے صحابی حضرت اسعد بن زرارہ انصاری اور آخری صحابی سہل بن سعد الساعدی کی قبریں بھی موجود ہیں۔ پیامبر فرمایا کرتے تھے" کہ مجھ پر وحی آئی ہے کہ میں اس قبرستان میں جاوں اور مرحومین کے لئے دعا کروں"۔تاریخ گواہ ہے کہ وہابیوں کے ہاتھوں جنت البقیع دو بار تخریب ہوئی؛ پہلی بار سنہ 1220ھ میں اور دوسری بار سنہ 1344ھ میں۔ یہ کام انہوں نے مدینہ کے 15 مفتیوں کے فتوے پر عمل کرتے ہوئے انجام دیا جس میں قبور پر بارگاہیں بنانے کو بدعت قرار دیتے ہوئے ان کی تخریب کو واجب قرار دیا تھا۔ اس بنا پر شیعیان جہان ہر سال 8 شوال کو “یوم انہدام جنۃ البقیع” مناتے ہوئے اس کام کی پر زور مذمت اور سعودی عرب کی موجودہ حکومت سے اس قبرستان کی فی الفور تعمیر کا مطالبہ کرتے ہیں۔
شیعہ علماء نے جنت البقیع کے انہدام پر احتجاج اور اس واقعے کی مذمت کے علاوہ اس پر مختلف کتابیں بھی لکھی ہیں جن میں مذہبی مقامات کی تخریب کے سلسلے میں وہابیوں کے نظریات پر تنقید کرتے ہوئے وہابیوں کو مذہبی نظریات کی بنیاد پر مذہبی مقامات تخریب کرنے والا پہلا گروہ قرار دیئے ہیں۔ من جملہ ان کتابوں میں سید محسن امین کی کتاب کشف الإرتیاب اور محمد جواد بلاغی کی کتاب دعوۃ الہدی قابل ذکر ہیں۔
وہابیت کیا ہے اور اس کے عقاید کیا ہیں؟
انہدام جنت البقیع کو سمجھنے کے لئے وہابیوں کے عقاید کا جاننا بہت ضروری ہے وہابیت ایک تاریک وسیاہ فکر رکھنے والا فرقہ ہے جو خود گمراہ اور دوسروں کو گمراہ کرنے والا اعتقادات اور تبلیغات پر ایمان رکھتا ہے، اس کی بنیاد اور ترویج ایسے لوگوں نے رکھی اور جو کسی بھی صورت میں دین مقدس اسلام کی بھلائی اور خیرخواہی نہیں چاہتے تھے، انہوں نے اپنی فقہی مسائل اور طرز عمل میں کتاب الٰہی،اور سیرت وسنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے انحراف کیا، ایسے راستوں کا انتخاب کیا جس میں اپنی رائے اور فقہ سے اختلاف رکھنے والے باقی مسلمانوں کی تکفیر، قبروں کا انھدام، معصوم لوگوں کے سروں کو قطع کرنا، فصلوں اور نسلوں کو ختم کرنا جیسے دہشت اور وحشت پر مشتمل عقائد پائے جاتے ہیں اس کی واضح مثال آپ طول تاریخ میں خاص کر عصور متاخرہ اور حالیہ سالوں میں مشاہدہ کرسکتے ہیں، ان لوگوں نے اقوام عالم میں اسلام کا ایک مسخ شدہ چہرہ پیش کیا اور ہر طرح سے اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کوشش کی۔ زمان حال میں اگر ان کی تخریبی کاروائیوں اور انسانیت سوز مظالم کو ملاحظہ کیا جائے تو ان کے افکار اور عقائد بڑی آسانی سمجھ میں آسکتے ہیں۔
انہوں نے سر عام اپنے عقیدے سے اختلاف رکھنے والوں کا قتل عام کیا، ان کے گھروں کو مسمار، انبیاء کرام علیھم السلام اور صلحاء کےمقدس مقامات کو منھدم، بے گناہ مجبور ومقہور خواتین کو اسیر، اور اسیروں کو زندہ جلانا جیسے مظالم کی انتہا کردی، جو دین اسلام کے مسلمہ اصولوں جیسے عفو درگزر، رحم، شفقت، احترام انسانیت، محبت واخوت وغیرہ کے سراسر خلاف تھے، ان تخریبی کاروائیوں کے ذریعے دین مقدس اسلام کے امن وآشتی اور محبت و احترام پر مبنی تعلیمات اور اصولوں کو غیر مسلمانوں کی نگاہ میں مشکوک قرار دیدیا اوران تمام تخریبی اور دہشت گردی کے جواز کے لیے دلیل کے طور شرک وکفر کا سہارا لیا، اور یہ اعلان کیا کہ توحید صرف وہی ہے جو ان کی سمجھ میں آئی ہوئی ہے، اس کے علاوہ جو بھی اسلامی فرقے ہیں وہ سب گمراہ اور شرک کے مرتکب ہوئے ہیں۔ جب کہ یہ سارے استعماری سازشوں اور اسلامی دشمنی میں سرانجام دیا گیا اور ظاہرا اسلام کو بدنام کرنے لیے اللہ اکبر کی صدائیں بلند کی گئیں۔
ان کی فکری پستی اور عقیدتی انحراف کی علامات اور نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ عمدا مسلمانوں کی قبروں کو منھدم اور سطح زمین کے برابر کرنے کے قائل ہیں چاہیے وہ جنت البقیع ہو، یا کوئی اور قبرستان، وہ قبروں کے نشانات کو مٹانے، لوگوں کو قبروں کی زیارات کرنے سے روکنے، اور مقدس مقامات کی توہین اور ہتک حرمت کو دین کا حصہ سمجھتے ہیں، اسی غلط عقیدہ کی وجہ سے ۱۲۲۰ ہجری میں مدینہ منورہ پر یلغار کیا، ان کے محافظین کو قتل، مقدس آثارِدینیہ کو منہدم، اور عظیم اسلامی تاریخی درسگاہوں کو کو تباہ کردیا۔ اس ناپاک اور مذموم مقاصد پر مشتمل حملہ آور ہجوم نے مسجد نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی نہیں بخشا، وہاں پر موجود تبرکات، قیمتی اشیاء، جواہرات کو لوٹ لیا، اور بقیع میں موجود تمام مقدس مقامات کو منھدم کردیا، من جملہ چار معصوم اماموں کے مقدس مزارات کو بھی تباہ کردیا۔ اسی طرح ایک اور تخریبی حرکت اور دھاوا سن !۱۳۴۴ ھجری میں بھی دہرایا گیا، اور پہلی تخریب کاری کے بعد جو مقدس مقامات دوبارہ سے تعمیر کی گئی تھی انہیں پھر سے منھدم کرکے سطح زمین کے برابر کردیا ۔یہاں تک مسجد نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قبہ اور ضریح مبارک کو منھدم کرنے کی دھمکی مسلسل دی گئی اور ابھی تک دی جارہی ہے، اگر باقی مسلمانوں کے رد عمل کا خوف نہ ہوتا تو شاید ابھی تک منھدم کرچکے ہوتے۔
اس بنا پر علماء اسلام نے آٹھ شوال کو یوم الھدم کے عنوان سے یاد کیا ہے اور یہ مسلمانوں کے دلوں میں زندہ رہے گا۔ وہ ہمیشہ مجالس عزا میں اس کا تذکرہ کرتے ہیں اور ہر سال آٹھ شوال کو مجالس کے انعقاد اور مرثیہ خوانی کے ذریعے آئمہ بقیع کی یاد مناتے ہیں اور اس انتظار میں ہیں کہ وہ وقت جلد آئے کہ جب مزارات کی تعمیر نو کا مطالبہ عملی ہو سکے۔
تحریر: محمد جواد حبیب
جامع مسجد دهلی نو
صدر رئیسی؛ ایرانی تیل کی فروخت دو گنی ہوچکی ہے/ ہمارا غیر ملکی تجارت کا حجم 100 ارب ڈالر ہے
ان خیالات کا اظہار سید "ابراہیم رئیسی" نے آج کی شام کو ٹیلی وژن سے عوام سے براہ راست خطاب کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ زرمبادلہ کے ذخائر اور ریال اور تیل کی فروخت کے بارے میں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے جو کہ دوگنا ہو چکے ہیں۔
ایرانی صدر نے کہا ہے کہ ہماری تیل کی فروخت دوگنی ہوچکی ہے اور ہمیں اس شعبے میں کوئی خدشہ نہیں ہےـ نیز ایرانی غیر ملکی تجارت کا حجم 100 ارب ڈالر ہے کہ گزشتہ کی صورتحال سے مختلف ہے اور ہمارا عقیدہ ہے کہ اس رقم میں اضافے کا امکان بھی ہے۔
صدر رئیسی نے مزید کہا کہ اُسی وقت حکومت کی پہلی فکر؛ ویکسین کی فراہمی، ویکسینیشن اور عوام کی جانوں کا تحفظ تھی، جو اللہ رب العزت کی مدد اور ایرانی حکومت اور عوام کے تعاون سے اس شعبے میں کامیاب ہوگئے اور آج کورونا سے متاثرہ افراد کی روزانہ شرح اموات 700 سے 7 تک پہنچ گئی ہے۔
انہوں نے کامیاب اور موثرعوامی ویکسینیشن کے بعد کاروبار اور سائنسی اور تعلیمی مراکز کے دوبارہ کھلنے کا ذکر کرتے ہوئے مزید کہا کہ آج درآمدات سے مناسب ویکسین فراہم کرنے کے علاوہ، ہمارے پاس ویکسین تیار کرنے اور یہاں تک کہ برآمد کرنے کی بہت زیادہ صلاحیت بھی ہے جو کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے لیے ایک اعزاز ہے۔
صدر رئیسی نے کہا کہ 13ویں حکومت کے پہلے دنوں کی ایک اور تشویش اشیا کے ذخیرے کے بارے میں تھی جو کہ حکومت کی کوششوں سے بنیادی اشیا کے ذخیرے کی پریشانیوں کو مختصر مدت میں ختم کر دیا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کے ابتدائی دنوں میں ملکی ریال اور زرمبادلہ کے ذخائر پر بھی شدید خدشات پائے جاتے تھے اور کوششوں اور اقدامات سے یہ مسئلہ حل ہو گیا۔
65 برس سے زائد عمر کے افراد پر حج کرنے پر پابندی
جدہ : سعودی حکومت نے رواں سال 65 برس سے زائد عمر کے افراد پر حج کرنے پر پابندی لگادی۔ سعودی وزارت حج و عمرہ کے نئے قواعد و ضوابط کے مطابق رواں سال صرف حج ویزہ پر گئے ہوئے غیر ملکیوں کو سنتِ ابراہیمی ادا کرنے کی اجازت ہوگی۔ وزٹ ویزہ یا ٹوور ویزہ حج کے لیے کارآمد نہیں ہوں گے۔ تمام حجاج کیلئے ویکسین سرٹیفکیٹ لازمی قرار دیا گیا ہے جبکہ عمر کی زیادہ سے زیادہ حد 65 برس مقرر کی گئی ہے اس سے زائد عمر کے افراد حج کے اہل نہیں ہوں گے۔
بشار اسد تہران میں
ایکنا نیوز- امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے بانی رہنما، ممتاز معالج، سفیر انقلاب شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی ستائیسویں برسی کی مناسبت سے لاہور کی محمدی مسجد میں خصوصی سیمینار کا اہتمام کیا گیا۔
تقریب کا اہتمام "محمد علی نقوی ویلفیئر ایسوسی ایشن" (ماوا) کی جانب سے کیا گیا۔ سیمینار میں ڈاکٹر ثاقب اکبر نقوی، سید وجاہت حسین نقوی، سید علی رضا نقوی، علامہ غلام شبیر بخاری، احمد رضا خان، افسر رضا خان، کرنل (ر) عارف حسین، علامہ محمد رضا عابدی، سید امجد کاظمی ایڈووکیٹ، سید نثار ترمذی، اقرارالحسن، علامہ حسن رضا ہمدانی سمیت شہید کے رفقاء، سینیئر رہنماوں اور عمائدین کی کثیر تعداد نے شرکت کی جب کہ نقابت کے فرائض سید انجم رضا نے ادا کئے۔
مقررین نے شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی انسانیت کیلئے خدمات پر روشنی ڈالی۔ مقررین کا کہنا تھا کہ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی نے پاکستان میں سب سے پہلے مردہ باد امریکہ کا نعرہ متعارف کروایا، انہوں نے قوم کی بیداری کیلئے خاطر خواہ خدمات سرانجام دیں، بش جب دورہ پاکستان پر آیا تو شہید نے مال روڈ پر الفلاح بلڈنگ پر مردہ باد امریکہ کو طویل بینرز لہرا کر اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا، شہید نے نوجوانوں میں انقلابی روح بیدار کی، جس کی بدولت آج بھی پورے پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں صالح اور باکردار نوجوان انسانیت کی خدمت میں مصروف عمل دکھائی دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شہید نے آئی ایس او پاکستان کی شکل میں ایسا پودا لگایا جو آج ایک گھنا اور تناور درخت بن کر نسل نوء کو ٹھنڈی چھاوں فراہم کر رہا ہے۔
مقررین کا کہنا تھا کہ جو قوم شہادت سے خوفزدہ ہو جائے اس کی بقاء خطرے میں پڑ جاتی ہے، قوم میں شہادت کو شوق بیدار کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی شہادت حادثاتی نہیں تھی بلکہ یہ شہادت اختیاری تھی، انہیں علم تھا کہ انہیں شہید کر دیا جائے گا، اس کے باوجود وہ دن رات انسانیت کی خدمت میں مصروف رہے۔ مقررین کا کہنا تھا کہ شہید کی شہادت کے بعد پتہ چلا کہ وہ بیک وقت درجنوں منصوبوں پر کام کر رہے تھے، کم سونا اور کم کھانا ان کی عادت بن چکی تھی اور وہ خدا کے حقیقی اور سچے عاشق بن کر وہ قرب خدا حاصل کر چکے تھے۔
مقررین کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید نے جو فکر دی، آج اس پر عمل پیرا ہونیوالے سست روی کا شکار ہو چکے ہیں، ڈاکٹر محمد علی نقوی تنتالیس برس کی عمر میں شہید ہو گئے، مگر ان کے منصوبوں کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ وہ کیسے فرد واحد ہو کر اتنے بڑے بڑے منصوبے چلا رہے تھے۔
مقررین کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر نقوی نے جو فکر دی اس پر عمل کیلئے ہمیں کردار ادا کرنا ہوگا، ہمیں بیدار ہونا ہوگا اور اس فکر کو مزید آگے بڑھانا ہوگا، ہم فکرِ شہید کے امین ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شہید تمام شعبوں کیساتھ ساتھ ذرائع ابلاغ کی اہمیت سے بھی مکمل آگاہ تھے، وہ چاہتے تھے، ملی اخبارات و جرائد بھی ملک کی تربیت اور آگاہی میں کردار ادا کریں، یہی وجہ ہے کہ وہ ہمیشہ ہفت روزہ "رضا کار" کے آفس میں آکر ٹیم کی حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ شہید کے تعلیمی میدان میں منصوبے لائق تحسین ہیں، طب کے شعبہ میں بھی ان کی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہین۔
مقررین نے کہا کہ شہید آج بھی اپنے رفقاء کیساتھ رابطے میں ہیں، شہید زندہ ہوتا ہے اور وہ زندہ ہیں، ہمیشہ اپنے ساتھیوں کی رہنمائی کرتے ہیں، ان کے درمیان موجود ہیں۔
"جو قوم شہادت سے خوفزدہ ہو جائے اس کی بقاء کی ضمانت نہیں دی جا سکتی"
ایکنا نیوز- امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے بانی رہنما، ممتاز معالج، سفیر انقلاب شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی ستائیسویں برسی کی مناسبت سے لاہور کی محمدی مسجد میں خصوصی سیمینار کا اہتمام کیا گیا۔
تقریب کا اہتمام "محمد علی نقوی ویلفیئر ایسوسی ایشن" (ماوا) کی جانب سے کیا گیا۔ سیمینار میں ڈاکٹر ثاقب اکبر نقوی، سید وجاہت حسین نقوی، سید علی رضا نقوی، علامہ غلام شبیر بخاری، احمد رضا خان، افسر رضا خان، کرنل (ر) عارف حسین، علامہ محمد رضا عابدی، سید امجد کاظمی ایڈووکیٹ، سید نثار ترمذی، اقرارالحسن، علامہ حسن رضا ہمدانی سمیت شہید کے رفقاء، سینیئر رہنماوں اور عمائدین کی کثیر تعداد نے شرکت کی جب کہ نقابت کے فرائض سید انجم رضا نے ادا کئے۔
مقررین نے شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی انسانیت کیلئے خدمات پر روشنی ڈالی۔ مقررین کا کہنا تھا کہ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی نے پاکستان میں سب سے پہلے مردہ باد امریکہ کا نعرہ متعارف کروایا، انہوں نے قوم کی بیداری کیلئے خاطر خواہ خدمات سرانجام دیں، بش جب دورہ پاکستان پر آیا تو شہید نے مال روڈ پر الفلاح بلڈنگ پر مردہ باد امریکہ کو طویل بینرز لہرا کر اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا، شہید نے نوجوانوں میں انقلابی روح بیدار کی، جس کی بدولت آج بھی پورے پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں صالح اور باکردار نوجوان انسانیت کی خدمت میں مصروف عمل دکھائی دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شہید نے آئی ایس او پاکستان کی شکل میں ایسا پودا لگایا جو آج ایک گھنا اور تناور درخت بن کر نسل نوء کو ٹھنڈی چھاوں فراہم کر رہا ہے۔
مقررین کا کہنا تھا کہ جو قوم شہادت سے خوفزدہ ہو جائے اس کی بقاء خطرے میں پڑ جاتی ہے، قوم میں شہادت کو شوق بیدار کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی شہادت حادثاتی نہیں تھی بلکہ یہ شہادت اختیاری تھی، انہیں علم تھا کہ انہیں شہید کر دیا جائے گا، اس کے باوجود وہ دن رات انسانیت کی خدمت میں مصروف رہے۔ مقررین کا کہنا تھا کہ شہید کی شہادت کے بعد پتہ چلا کہ وہ بیک وقت درجنوں منصوبوں پر کام کر رہے تھے، کم سونا اور کم کھانا ان کی عادت بن چکی تھی اور وہ خدا کے حقیقی اور سچے عاشق بن کر وہ قرب خدا حاصل کر چکے تھے۔
مقررین کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید نے جو فکر دی، آج اس پر عمل پیرا ہونیوالے سست روی کا شکار ہو چکے ہیں، ڈاکٹر محمد علی نقوی تنتالیس برس کی عمر میں شہید ہو گئے، مگر ان کے منصوبوں کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ وہ کیسے فرد واحد ہو کر اتنے بڑے بڑے منصوبے چلا رہے تھے۔
مقررین کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر نقوی نے جو فکر دی اس پر عمل کیلئے ہمیں کردار ادا کرنا ہوگا، ہمیں بیدار ہونا ہوگا اور اس فکر کو مزید آگے بڑھانا ہوگا، ہم فکرِ شہید کے امین ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شہید تمام شعبوں کیساتھ ساتھ ذرائع ابلاغ کی اہمیت سے بھی مکمل آگاہ تھے، وہ چاہتے تھے، ملی اخبارات و جرائد بھی ملک کی تربیت اور آگاہی میں کردار ادا کریں، یہی وجہ ہے کہ وہ ہمیشہ ہفت روزہ "رضا کار" کے آفس میں آکر ٹیم کی حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ شہید کے تعلیمی میدان میں منصوبے لائق تحسین ہیں، طب کے شعبہ میں بھی ان کی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہین۔
مقررین نے کہا کہ شہید آج بھی اپنے رفقاء کیساتھ رابطے میں ہیں، شہید زندہ ہوتا ہے اور وہ زندہ ہیں، ہمیشہ اپنے ساتھیوں کی رہنمائی کرتے ہیں، ان کے درمیان موجود ہیں۔
اسلام میں شادی کی اہمیت
شادی انسانی حیات اور زندگی کے اہم مسائل کا حصہ اور لازمہ ہے، قران کریم ، مرسل اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و الہ وسلم اور دیگر معصوم اماموں علیھم السلام سے منقول روایتوں میں شادی کی کافی ترغیب دلائی گئی ہے ، قران کریم کا اس سلسلہ میں ارشاد ہے کہ " وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَىٰ مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ ۚ إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ ۗ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ " (۱) اور اپنے غیر شادی شدہ آزاد افراد اور اپنے غلاموں اور کنیزوں میں سے باصلاحیت افراد کے نکاح کا اہتمام کرو کہ اگر وہ فقیر بھی ہوں گے تو خدا اپنے فضل و کرم سے انہیں مالدار بنادے گا کہ خدا بڑی وسعت والا اور صاحب علم ہے ۔ اور رسول خدا (ص) کا اس سلسلہ میں ارشاد ہے کہ " تَنَاكَحُوا تَنَاسَلُوا تَكْثُرُوا فَإِنِّي أُبَاهِي بِكُمُ اَلْأُمَمَ يَوْمَ اَلْقِيَامَةِ وَ لَوْ بِالسِّقْطِ " (۲) نکاح (شادی) کرو، نسلوں کو بڑھاو کہ میں قیامت کے دن اپنی امت کی کژت پر فخر و مباہات کروں گا ولو ساقط شدہ بچہ ہو۔ ایک دوسری روایت میں آنحضرت سے منقول ہے کہ اپ نے فرمایا " اذا تزوج الرجل احرز نصف دینه ، جس انسان نے شادی (نکاح) کرلیا اس نے اپنا آدھا ایمان محفوظ کرلیا ۔ (۳) نیز رسول اسلام (ص) نکاح اور شادی کی اھمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا : یفتح ابواب السماء بالرحمة فی اربع مواضع: عند نزول المطر، و عند نظر الولد فی وجه الوالدین، و عند فتح باب الکعبة، و عند النکاح ۔ (۴) چار موقع پر رحمت الھی کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں :
۱: بارش کے وقت ۔
۲: جب اولاد ماں اور باپ کے چہرہ کو بغور دیکھتی ہے ۔
۳: جب خانہ کعبہ کا دروازہ کھولا جاتا ہے ۔
۴: جب عقد اور شادی کی رسم اجرا ہوتی ہے ۔
اور امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے شادی کی اہمیت کے سلسلہ میں فرمایا "افضل الشفاعات ان تشفع بین اثنین فی نکاح یجمع الله بینهما ؛ بہترین وساطت یہ ہے کہ لڑکے اور لڑکی کے درمیان [ یا اسکے گھرانے و خاندان] کے درمیان وساطت کی جائے تاکہ دونوں کی شادی ہوسکے ۔ (۵) اور امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس سلسلہ میں فرمایا کہ "من ترک التزویج مخافة الفقر فقد اساء الظن بالله - عزوجل - ان الله- عزوجل - یقول: «ان یکونوا فقراء یغنهم الله من فضله ؛ اگر کوئی فقر و تنگدستی کی وجہ سے شادی نہ کرے تو گویا ہو لطف الھی اور خداوند متعال کی بہ نسبت بدگمان ہوا ہے کیوں کہ اس نے فرمایا ہے کہ اگر وہ فقیر بھی ہوں گے تو خدا اپنے فضل و کرم سے انہیں مالدار بنادے گا ۔ (۶) اور امام کاظم علیہ السلام اس سلسلہ میں فرماتے ہیں کہ " ثلاثة یستظلون یظل عرش الله یوم القیامة، یوم لا ظل الا ظله: رجل زوج اخاه المسلم او اخدمه او کتم له سرا " (۷)
تین گروہ ایسا ہے جو قیامت کے دن کہ جس دن خدا کے سوا کوئی انسان کا پشت و پناہ اور اس کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا ، خدا کے زیر سایہ اور اس کی پشت پناہی میں ہوں گے :
۱: جو کسی مسلمان کی شادی کا زمینہ فراھم کرے ۔
۲: جو اپنے مسلمان بھائی کی خدمت کرے ۔
۳: جو مسلمان بھائی کے سر پر سائبان تنے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: قران کریم ، سورہ نور ، ایت ۳۲
۲: شعیری ، شیخ تاج الدین محمد ، جامع الأخبار، ج۱ ، ص ۱۰۱
۳: نوری ، میرزا حسین ، مستدرک الوسائل، ج ۱۴، ص ۱۵۴
۴: مجلسی ، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۱۰۳، ص ۲۲۱
۵: شیخ طوسی ، تهذیب، ج ۷، ص ۴۰۵ ۔
۶: شیخ صدوق ، من لا یحضره الفقیه، ج ۳، ص ۲۵۱
۷: شیخ حر عاملی ، وسائل الشیعه، ج ۲۰، ص ۴۶
اسلامی مزاحمت کی بڑھتی ڈرون طاقت اور صہیونی رژیم کی بے بسی
غاصب صہیونی رژیم کے خلاف برسرپیکار قوتوں پر مشتمل اسلامی مزاحمتی بلاک خطے کی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے۔ ایک زمانہ تھا جب فلسطین میں سرگرم اسلامی مزاحمتی قوتوں کے پاس سب سے بڑا ہتھیار پتھر تھا۔ دھیرے دھیرے خطے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی سربراہی میں اسلامی مزاحمتی بلاک طاقتور ہونے کے نتیجے میں فلسطین میں اسلامی مزاحمتی گروہوں کی طاقت میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ آج فلسطینی مزاحمتی گروہ جدید ترین فوجی ہتھیاروں سے لیس ہیں جن میں ٹھیک نشانے پر مار کرنے والے میزائل اور مختلف قسم کے ڈرون طیارے شامل ہیں۔ حال ہی میں فلسطین میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس کے ملٹری ونگ "سرایا القدس" نے ایک نئے قسم کا ڈرون طیارہ متعارف کروایا ہے جس کا نام "جنین" رکھا گیا ہے۔ حماس کا دعوی ہے کہ یہ ڈرون طیارہ مکمل طور پر مقامی سطح پر تیار کیا گیا ہے۔
اس ڈرون طیارے کی نقاب گشائی کے بعد غزہ میں "القسام بریگیڈز" کے بعد سرایا القدس دوسری بڑی ڈرون طاقت بن کر سامنے آئی ہے۔ حماس کے اس اعلان کے بعد اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کو درپیش خطرات میں اضافہ ہو گیا ہے اور اب اسے مستقبل کی ممکنہ جنگوں میں اسلامی مزاحمت کی میزائل طاقت کے ساتھ ساتھ ڈرون طاقت کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ گذشتہ برس بھی سیف القدس معرکے میں اسلامی مزاحمت نے غاصب صہیونی رژیم کے خلاف ڈرون طیاروں کا استعمال کیا تھا۔ اگرچہ اسلامی مزاحمتی گروہوں کے پاس موجود یہ ڈرون طیارے ٹیکنالوجی کے لحاظ سے ابتدائی نوعیت کے ہیں لیکن اس کے باوجود صہیونی دشمن کو خوف و ہراس میں مبتلا کرنے کیلئے کافی ہیں۔ یہ ڈرون طیارے غاصب صہیونی رژیم کے سکیورٹی نظام کو شدید چیلنجز سے روبرو کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
العربی الجدید نیوز ویب سائٹ نے اسلامی مزاحمتی گروہوں کے پاس موجود ڈرون طیاروں کی تیاری کا تاریخی جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے: "اگرچہ گذشتہ برس سیف القدس معرکے کے دوران اسلامی مزاحمتی گروہوں نے صہیونی دشمن کے خلاف ان ڈرون طیاروں کا بھرپور استعمال کیا تھا لیکن اسلامی مزاحمت کی جانب سے ڈرون طیاروں کی تیاری کا سلسلہ 2006ء سے شروع ہوا۔ اس سال حماس نے ڈرون طیاروں کی تیاری کیلئے پہلا قدم اٹھایا۔ 2008ء میں فلسطینی انجینئرز کی ایک ٹیم تشکیل دی گئی جس کی سربراہی تیونس کے شہری محمد الزواری کر رہے تھے۔ یہ ٹیم فلسطین سے باہر رہ کر 30 ڈرون طیارے تیار کرنے میں کامیاب ہوئی۔ 2016ء میں صہیونی جاسوسی ادارے موساد نے تیونس کے انجینئر محمد الزواری کو صفاقس میں واقع ان کے گھر کے سامنے شہید کر ڈالا۔"
العربی الجدید اس بارے میں مزید لکھتا ہے: "فلسطینی سرزمین کے اندر تیار ہونے والے پہلے ڈرون طیارے کا نام "ابابیل" تھا۔ یہ ڈرون طیارہ 2014ء میں غاصب صہیونی رژیم کے خلاف جنگ میں بروئے کار لایا گیا۔ اس سال القسام بریگیڈز نے سرکاری طور پر اعلان کیا کہ اس کے پاس تین ابابیل ڈرون طیارے کے تین مختلف ماڈل موجود ہیں۔ ایک ماڈل جارحانہ، دوسرا خودکش اور تیسرا جاسوسی مقاصد کیلئے ہے۔ حماس کی جانب سے اس سال جو خبر دنیا والوں کی حیرت کا باعث بنی وہ "الکریاہ" میں واقع غاصب صہیونی رژیم کی وزارت جنگ کی عمارت کو کامیابی سے اس ڈرون طیارے سے نشانہ بنانا تھا۔ اسلامی مزاحمت نے ڈرون طیاروں کی تیاری کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ حالیہ سیف القدس معرکے میں بھی القسام بٹالینز نے ایک نئے قسم کا ڈرون طیارہ تیار کرنے کا اعلان کیا جس کا نام "شہاب" ہے۔"
شہاب ڈرون طیاروں کے ذریعے اسلامی مزاحمت نے مختلف کاروائیاں انجام دی ہیں جن میں سے النقب صحرا میں "نیر عوز" قصبے میں صہیونی آئل ریفائنری پر حملہ قابل ذکر ہے۔ فوجی ماہرین کے مطابق شہاب ڈرون طیارہ، ابابیل ڈرون طیارے سے زیادہ ترقی یافتہ ہے۔ یہ ڈرون طیارہ دشمن کے دفاعی نظام اور ریڈار سے بچ نکلنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ شہاب ڈرون طیارے کی تیاری کے کل اخراجات صرف 300 ڈالر ہیں جس کی بدولت ضرورت پڑنے پر ایسے ہزاروں ڈرون طیارے بنائے جا سکتے ہیں۔ اسی وجہ سے صہیونی رژیم سے وابستہ سکیورٹی ذرائع نے اس بارے میں گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے اس امکان کا اظہار بھی کیا ہے کہ ممکن ہے اسلامی مزاحمت کے پاس ایسے سینکڑوں ڈرون طیارے موجود ہو سکتے ہیں۔
غاصب صہیونی رژیم اور خطے کے امور کے ماہر مصنف اور تجزیہ نگار حسن لافی اس بارے میں کہتے ہیں: "غاصب صہیونی رژیم کی جانب سے شدید فضائی دفاعی اقدامات کی بدولت اسلامی مزاحمت کے پاس ترقی یافتہ ڈرون طیاروں کی موجودگی فوجی میدان میں ایک اہم پیشرفت جانی جاتی ہے۔ اس بارے میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ فلسطین میں اسلامی مزاحمت ان ڈرون طیاروں کو مقامی سطح پر ہی تیار کر رہی ہے اور خود فلسطینی جوان ان کی تیاری میں مصروف ہیں۔ یوں یہ ڈرون طیارے غاصب صہیونی رژیم کیلئے ایک بہت بڑا چیلنج بن چکے ہیں۔ اسلامی مزاحمت کی جانب سے فوجی شعبے میں جدید ٹیکنالوجیز کی جانب گامزن ہونا ظاہر کرتا ہے کہ وہ ہر قیمت پر غاصب صہیونی رژیم کی فوجی برتری کا مقابلہ کرنے کا عزم کر چکی ہے۔"
تحریر: علی احمدی