سلیمانی

سلیمانی

یہ بات ایڈمیرل "علی شمخانی" نے پیر کے روز اپنے ٹوئٹر پیج میں کہی۔
انہوں نے کہا کہ ایران، 4+1 گروپ اور یورپی یونین کے نمائندے کے درمیان ویانا مذاکرات شروع سے جاری ہیں اور یہ راستہ کسی نتیجے تک پہنچنے تک جاری رہے گا۔
ایڈمیرل شمخانی نے کہا کہ امریکہ کے ساتھ مذاکرات ایرانی ٹیم کے ایجنڈے میں شامل نہیں ہیں کیونکہ یہ کسی پیش رفت کا ذریعہ نہیں ہوگا۔
یہ ٹویٹ ایسے وقت میں آیا ہے جب ایران اور P4+1 - چین، فرانس، جرمنی، روس اور برطانیہ  ایران کے خلاف پابندیاں ہٹانے کے لیے امریکہ کی بالواسطہ شرکت کے ساتھ ویانا میں مذاکرات کر رہے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق، دوحہ کے دورے پر آئے ہوئے ایرانی صدر آیت اللہ سید "ابراہیم رئیسی" نےبروز پیر کو امیر قطر "تمیم بن حمد آل ثانی" سے ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران، امیر قطر سے ان کو دورہ دوحہ اور ورلڈ گیس سمٹ میں حصہ لینے کی دعوت کا شکریہ ادا کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ وہ آج دو مقاصد یعنی ایران اور قطر کے درمیان تعلقات کا فروغ اور گیس برآمد کرنے والے ممالک کے سمٹ میں حصہ لینے کیلئے دوحہ کے دورے پر آئے ہیں۔

ایرانی صدر نے امیر قطر سے اپنی حالیہ ملاقات کو "مثبت اور تعمیری" قرار دیتے ہوئے کہا  کہ اس ملاقات میں، ہم نے اتفاق کیا کہ دونوں ممالک مختلف شعبوں میں تعاون کو وسعت دینے اور تعلقات کو گہرا کرنے کے لیے موجودہ صلاحیتوں اور مواقع سے فائدہ اٹھائیں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایران اور قطر کی علاقائی قربت اور مشترکہ مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے، ہم نے تعلقات کو بڑھانے اور تعاون کے شعبوں کو متنوع بنانے کے لیے سنجیدہ اور نئے اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

صدر رئیسی نے دونوں ممالک کے درمیان سڑکوں، توانائی، تجارت، سرمایہ کاری، خوراک کی حفاظت، صحت اور ثقافت کے شعبوں میں تعاون کو سنجیدگی سے بڑھانے پرامیر قطر سے اتفاف کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ایران نے 2022 قطر فیفا ورلڈ کپ کے بہترین انعقاد میں ہر ممکن تعاون کے لیے اپنی تیاری کا اظہار کیا ہے۔

انہوں نے مختلف شعبوں میں ایران کی منفرد صلاحیتیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران علاقائی سطح پر تبدیلی اور ترقی کا خواہاں ہے اور یہ صلاحیتیں دوطرفہ، کثیر الجہتی تعاون اور علاقائی ترقی کی ضمانت دیتی ہیں۔

ایرانی صدر نے کہا کہ خطے کے ممالک کے درمیان تعاون کی سطح، موجودہ صلاحیتوں کے مطابق نہیں ہے ایران ہمسائیگی کی پالیسی کے فریم ورک کے اندر ان تعلقات کو مضبوط بنانے میں مدد کرنا چاہتا ہے اور ہم پڑوسی ممالک کے ساتھ ممکنہ حد تک تعاون کے خواہاں ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایران نے ثابت کیا ہے کہ وہ ہمیشہ آزاد ممالک کے مفادات کے ساتھ کھڑا ہے اور مشکل وقت میں ہم نے خطے کے تمام ممالک کے ساتھ اپنی دوستی کا ثبوت دیا ہے۔ خطے کے بہت سے ممالک اس حقیقت کو بھانپ چکے ہیں اور اس میدان میں مشترکہ تجربات رکھتے ہیں۔

آیت اللہ رئیسی نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران دونوں میدانوں یعنی دہشتگردی کیخلاف جنگ اور ملک کیخلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کی کاروائی میں فتح حاصل کی ہے اور امریکہ کو پابندیوں کی منسوخی کیلئے اپنا ارادہ ثابت کرنا ہوگا۔

انہوں نے مزید کہا کہ مغربی فریقین سے مذاکرات میں کسی معاہدے تک پہنچنے کا شرط ایرانی قوم کے مفادات کی فراہمی، پابندیوں کی منسوخی، صحیح ضانمت دینے اور سیاسی کیسز کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔

جدید تہذیب کو اپنے جن افکار و نظریات پر ناز تھا، وہ گذشتہ صدی میں ہی رفتہ رفتہ زوال کا شکار ہونے لگے۔ مغرب نے جب دو قطبی دنیا کا معرکہ بظاہر سر کر لیا تو اسے اپنے سرمایہ دارانہ نظام کی بقا اور سامراجی مقاصد کی تکمیل کے لیے ایک نئے عالمی دشمن کی ضرورت تھی۔ بظاہر اس کا دشمن تو کوئی نہیں تھا، اس لیے دشمن تراشی کا راستہ اختیار کیا۔ مغرب نے اسلام، اس کے مظاہر اور مسلمانوں کو اس مقصد کے لیے اختیار کیا۔ امریکا یہ بھی ضروری سمجھتا تھا کہ اپنی قیادت میں قائم فوجی اتحاد نیٹو کو بھی قائم رکھے، کیونکہ نیٹو کے ذریعے یورپ پر بھی اس کی بالادستی قائم ہے۔ لہذا نیٹو کو افریقا، ایشیاء اور دیگر خطوں میں مصروف رکھنا ضروری تھا۔ پھر دنیا میں جو کچھ ہوا، سب کے سامنے ہے۔ اسلام کو دہشت گردی کا مکتب قرار دیا گیا۔ اسلامی معاشروں کے اندر دہشت گرد اور انتہاء پسند گروہ پیدا کیے گئے اور انہی کے نعروں اور چہروں کو اسلام کا چہرہ قرار دیا گیا۔ اپنے معاشروں کو ان مقاصد سے ہم آہنگ و یکجا کرنے کے لیے طرح طرح کے اقدامات کیے گئے۔ رسول اسلامؐ، قرآن حکیم، مساجد کے مینار اور خواتین کا حجاب سب کے خلاف نفرت انگیز کارروائیاں عمل میں آنے لگیں۔ رحمت للعالمینؐ، سید المرسلین ؐکہلانے والی ہستی کے ایسے کارٹون شائع کیے گئے کہ جس سے وہ نعوذ باللہ ایک دہشت گرد راہنماء دکھائی دیں۔ ان کے خلاف کتابیں لکھی گئیں، ”آیات شیطانی“ ان میں سے ایک ہے۔

جب ان اقدامات کے خلاف مسلمانوں نے آواز بلند کی تو آزادی اظہار کے نام پر مغرب کی حکومتیں بھی مقابلے میں صف آراء ہوگئیں۔ معاملہ یہاں تک پہنچا کہ قرآن حکیم کو اعلانیہ جلانے کے اقدامات ہوئے۔ مسلمان عورتوں کو حجاب پہننے سے روکنے کے لیے طرح طرح کے اقدامات شروع ہوگئے۔ تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی، سرکاری اداروں میں حجاب پر پابندی، دفاتر میں حجاب پر پابندی، حجاب پہنے ہوئے عورتوں پر حملے اور بعض کا سرعام ہولناک قتل، یہ سارے واقعات مغرب میں ہو رہے تھے اور اب بھی ایسے واقعات ہو رہے ہیں۔ بعض انتہاء پسندوں نے مسجد کے میناروں کو بھی میزائلوں سے مشابہ کہہ کر انھیں بھی دہشت گردی کی علامت قرار دے دیا۔ سیاسی پارٹیوں نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے۔ جن معاشروں میں مسلمانوں کی تعداد انتہائی کم تھی، وہاں بھی اسلام دشمنی کی فضا پیدا کرکے ووٹ حاصل کرنے کی کوششیں کی گئیں اور اس طرح سے نفرت، بغض، حسد اور حرص سے بھرے ہوئے سیاست دان نما لوگ پارلیمانوں میں پہنچنے لگے۔

مغرب تو اپنی جدید تہذیب کو آزادی اظہار پر استوار قرار دیتا ہے، لیکن یہ آزادی اظہار مسلمانوں سے چھینی جا رہی ہے۔ مغربی تہذیب، مذہب کی آزادی کی دعویدار ہے، لیکن اسلام کی آزادی، اس سے مستثنٰی ہوتی جا رہی ہے۔ اگرچہ اس کے نتیجے میں خود مغربی معاشرے شدت پسندی کا شکار ہو رہے ہیں۔ بڑھتی شدت پسندی کسی وقت ہمہ گیر بھی ہوسکتی ہے، لیکن ابھی عالمی مقاصد اور مسلمان دنیا کے وسائل کی لوٹ مار کے سلسلے جاری ہیں۔ ابھی مسلمانوں کے پاس بہت سے خزانے باقی ہیں، جن پر ظالم اور بے رحم سرمایہ داری نظام کی نظریں گڑی ہوئی ہیں، لہذا ابھی معرکے کو جاری رکھنا ہے۔

بھارت تو پہلے ہی اسلام دشمنی میں شہرت رکھتا ہے۔ ماضی میں کانگریس کے راہنماؤں نے محمد علی جناح جیسے سفیر امن کے پیغام یکجہتی کو درخور اعتنا نہ جانا اور ہندو اکثریت کے گھمنڈ میں مسلمانوں کی دلجوئی کو بھی ضروری نہ سمجھا۔ ان کا یہ طرز عمل مسلمانوں کے لیے متبادل سیاسی پلیٹ فارم کے وجود میں آنے اور متحرک ہونے کا باعث بنا۔ ابھی جب ہندوستان کی تقسیم عمل میں نہیں آئی تھی تو انتخابات کے نتیجے میں مسلمانوں کو جو سیاسی حیثیت حاصل ہوئی، اس کو بھی بلڈوز کرنے کی کوشش کی گئی۔ ایسے ہی طرز عمل کے استمرار اور تسلسل کے نتیجے میں ہندوستان کا بٹوارہ ہوا۔ یہ بٹوارہ نئی معرض وجود میں آنے والی اکائیوں اور حقیقتوں کے لیے بھی عبرت آموز تھا۔ بھارت کے حکمران طبقے کو سوچنا چاہیے تھا کہ بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو اکثریت کے ساتھ جوڑ کر رکھنے میں نئے معرض وجود میں آنے والے بھارت کا مفاد مضمر ہے۔ اس کو کانگریس کی اس دور کی قیادت نے بظاہر محسوس بھی کیا، اسی لیے اس نے بھارت کے آئین کو سیکولر بنیادوں پر تشکیل دیا اور سیکولزم کے نعرے کو ایک عرصے تک نمایاں طور پر جاری رکھا گیا۔ اگرچہ پس منظر میں بہت سے ایسے واقعات اور اقدامات دکھائی دیتے ہیں، جو مسلم دشمنی کا شاخسانہ ہیں۔ کشمیر پر فوجی قبضہ اس کی ایک واضح مثال ہے۔

پاکستان دشمنی کو بھی بھارتی حکمرانوں کی ذہنیت کا عکاس کہا جاسکتا ہے۔ پاکستان سے ملنے والی ریاستوں جونا گڑھ اور حیدر آباد دکن پر فوجی قبضہ تقسیم ہند کے فارمولے کی پامالی کے مترادف تھا لیکن یہ سلسلہ رکا نہیں بلکہ 1971ء میں مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش میں تبدیل کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر مداخلت اور فوجی جارحیت، اس دشمنی کا ایک اور بہت بڑا مظہر ہے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان مستقبل میں ہم آہنگی کی آواز بلند کرنے پر انتہاء پسند ہندؤوں نے اپنے باپو گاندھی جی کو بھی خون میں نہلا دیا۔ وہ لوگ جنھوں نے گاندھی جی کا قتل کیا، آج وہی بھارت میں برسر اقتدار ہیں۔ بنگلہ دیش بنانے میں اپنے کردار پر فخر کا اظہار موجودہ بھارتی وزیراعظم ڈھاکہ میں جا کر کرچکے ہیں۔ دنیا میں ایسی ننگی جارحیت پر افتخار مودی جیسا قصاب ہی کرسکتا ہے۔ اسی نظریے کے علمبردار آج بھارت میں دندناتے پھرتے ہیں۔ ہندوتوا کا نظریہ کسی دوسرے مذہب کو قبول کرنے اور اسے احترام کا مقام دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ سکھوں کے ساتھ حال ہی میں جو سلوک روا رکھا گیا، وہ اسی دہشت گردانہ تعصب کا نتیجہ ہے۔ اب بھارت کی مسیحی آبادی بھی اس نفرت انگیزی کا شکار ہو رہی ہے۔

چند ہفتوں سے بھارت میں حجاب کے خلاف ایک عریاں جنگ جاری ہے، مغرب تو پہلے ہی حجاب کے خلاف ایک تحریک کی زد پر ہے۔ کئی ایک مغربی حکمران اور راہنماء بھی اس جنگ کا حصہ ہیں، لہذا اس سلسلے میں بھارت کو پوچھنے والا کون ہے؟ اگرچہ بھارت کے اندر اور باہر سے اکا دکا آوازیں اس اقدام کے خلاف اٹھ رہی ہیں، لیکن ان کی مثال نقار خانے میں طوطی کی آواز کی سی ہے۔ مسلمان بچیوں پر کئی ایک تعلیمی اداروں میں کلاس رومز میں حجاب پہننے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ ایسے اقدامات ان کے مستقبل کو تاریک کرنے کے مترادف ہیں، جو انھیں تعلیم کے حصول سے محروم کرسکتے ہیں۔

افسوس کی بات تو یہ ہے کہ بابری مسجد کے انہدام کو ہندوستان کا سپریم کورٹ جواز بخش چکا ہے۔ اسی طرح کرناٹک کی صوبائی عدالت حجاب پر پابندی کے اقدامات کی حمایت کرچکی ہے۔ گویا بھارتی ریاست کے بنیادی ادارے جن میں حکومت، انتظامیہ، پارلیمان کی اکثریت، عدالت، فوج اور میڈیا کا ایک بڑا حصہ شامل ہیں، اسلام دشمنی پر متحد ہوچکے ہیں بلکہ یوں کہا جائے کہ ”ہندتوا“ اور نئی اصطلاح کے مطابق ”مودتوا“ کی حمایت میں ریاستی اداروں کا یہ اتحاد سامنے آرہا ہے۔ بھارت کے اندر ملک کے بہت سے خیر خواہ اور وطن دوست آج یہ بات کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ اگر یہی طرز عمل جاری رہا تو بھارت پارہ پارہ ہو جائے گا، کیونکہ 21 کروڑ مسلمانوں کے علاوہ دیگر تمام اقلیتیں بھی اپنے آپ کو بھارت کے اندر غیر محفوظ سمجھنے لگی ہیں۔ بھارت کی اس صورتحال میں جو سبق پاکستان کے اداروں اور عوام کے لیے کار فرما ہے، اسے بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔

تحریر: ثاقب اکبر

ایکسپریس نیوز کے مطابق ریاست کرناٹک کے 5 سے زائد اضلاع کے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے جس میں تیزی اس وقت آگئی جب ایک کالج کی انتظامیہ نے حجاب نہ اتارنے پر 58 طالبات کو کالج سے نکال دیا۔

 

طالبات نے کالج سے باہر شدید احتجاج کیا جس پر کالج انتظامیہ نے ان طالبات کی رجسٹریشن معطل کردی اور رجسٹریشن کی بحالی تک کالج میں داخل ہونے پر پابندی ہوگی۔

 

کرناٹک میں دو ماہ سے حجاب پر پابندی کے باعث تعلیمی مدارس بند تھے تاہم تدریسی عمل شروع ہونے کے بعد بھی یہ تنازع اپنی جگہ کھڑا ہے۔ کرناٹک کی طالبات نے ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے جس پر اب تک فیصلہ نہیں آسکا ہے۔

 

عدالت میں حجاب پر پابندی کے خلاف درخواست دائر ہونے کے بعد باحجاب طالبات کے لیے علیحدہ کلاسوں کے انتظام کا کہا گیا تھا جس پر چند کالجز میں عمل بھی ہوا تاہم انتہا پسند ہندوؤں کے دباؤ پر یہ سلسلہ بند کردیا گیا۔

دوسری جانب حجاب پر پابندی اب کرناٹک سے نکل کر مدھیہ پردیش اور اترپردیش سمیت کئی ریاستوں میں پھیل گیا ہے۔

تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کی مہم بی جے پی نے چلائی ہے جو کرناٹک میں ہونے والے انتخابات میں ہندو ووٹرز کی حمایت حاصل کرنے کے لیے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہا ہے کہ اسرائیل کا وجود ناجائز ہے، عالمی استعمار مسلسل اس ناجائز ریاست کی پشت پناہی کئے ہوئے ہے،صیہونیت نے انسانیت سوز مظالم کی تمام حدیں پار کردی ہیں، اقوام متحدہ جیسے عالمی ادارے کی بھی ماننے کو تیار نہیں، کیا اب بھی ایسی ریاست کے وجود کا باقی رہنے کا جوا ز ہے ؟ عالمی طاقتیں پاکستان سمیت دنیا کے دیگر ملکوں پر بلاوجہ مختلف پابندیاں عائد کرتی ہیں مگر انہیں صیہونی مظالم کیوں نظر نہیں آتے ؟عالمی دہرا معیار عالمی امن کےلئے سب سے بڑا خطرہ بنتا جارہاہے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے اسرائیلی حکومت کی جانب سے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن سے تعاون نہ کرنے کے اعلان پر رد عمل دیتے ہوئے کیا۔ قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہاکہ اسرائیلی حکام نے خود اعتراف کیا کہ انہیں اقوام متحدہ کے ادارے میں”شیطانی ریاست“سے تعبیر کیا جارہاہے ، مسلسل فلسطینی عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں، اس کی بستیوں کو مسمار کرکے کھنڈرات میں تبدیل کردیاگیاہے، خواتین ، بچوں اور بزرگ شہریوں کے ساتھ بلا تفریق امتیازی سلوک و ظلم و جبر کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں تو کیا یہ ناجائز ریاست کو دوام بخشنے کےلئے شیطانی ریاستی ہتھکنڈے نہیں ہیں ؟عالمی استعمار مسلسل اس ناجائز ریاست کی پشت پناہی کئے ہوئے ہے کیا اسرائیل کا اقوام متحدہ کو صاف انکار کے بعد اب بھی کوئی توجیہ باقی ہے کہ اس صیہونی ریاست کی پشت پناہی کی جائے؟۔

قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے سوال اٹھاتے ہوئے کہاکہ پاکستان سمیت مختلف ممالک پر ایف اے ٹی ایف ، گرے لسٹ، معاشی پابندیوں سمیت دیگر پابندیاں بعض اوقات بلا وجہ عائد کرکے انہیں دبایا جاتا ہے مگر دوسری جانب انسانیت کے دشمن اسرائیل کو کھلی چھوٹ ؟یہ عالمی دہرا معیار کیوں؟

انہوں نے کہاکہ اگر عالمی طاقتوں نے اس دہرے معیار کو سنجیدہ نہ لیا تو عالمی امن کےلئے سب سے بڑا خطرہ یہی بنے گا۔ انہوںنے بعض مسلم ریاستوں کی جانب سے اسرائیل نوازی پر کہاکہ پہلے بہت کچھ درپردہ کیا جارہا تھا اور اب سرعام اس کا اظہار کیا جارہاہے جو اچنبے کی بات ہرگز نہیں البتہ ایک اہم ترین لمحہ فکریہ ہے۔

لبنان اور مقبوضہ فلسطین کے درمیان مشترکہ سرحد کی لمبائی 79 کلومیٹر ہے جو غاصب صہیونی رژیم کے تسلط پسندانہ عزائم کے سبب ہمیشہ شدید تناو کا شکار رہتی ہے۔ سن 2000ء میں جب غاصب صہیونی افواج نے جنوبی لبنان سے پسماندگی اختیار کی تب بھی اس کا یہ اقدام لبنان کے خلاف جارحانہ اقدامات کا اختتام ثابت نہیں ہوا بلکہ گاہے بگاہے صہیونی فورسز سرحد کے اس پار سے لبنانی سرزمین کو ظالمانہ اقدامات کا نشانہ بناتی رہتی ہیں۔ یوں حزب اللہ لبنان اور غاصب صہیونی رژیم کے درمیان موجود محاذ ہر لمحہ بارود کی بو دیتا ہے اور ایک چھوٹا سا واقعہ کسی بڑے واقعے کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ صہیونی حکمران سید حسن نصراللہ سے شدید خوفزدہ ہیں۔
 
سید حسن نصراللہ کی شخصیت انتہائی کاریزمیٹک شخصیت ہے اور اسرائیلی حکمران انہیں بہت اچھی طرح پہچانتے ہیں۔ انہوں نے جب اسرائیلی معاشرے کو مکڑی کے جال سے تشبیہہ دی اور یہ تاثر دیا کہ اسے اتنی آسانی سے نابود کرنا ممکن ہے تو ان کی یہ بات صہیونی حکمرانوں اور شہریوں کے ذہن میں پوری طرح بیٹھ گئی۔ صہیونی فوجی اس قدر حزب اللہ لبنان سے خوف کھاتے ہیں کہ خود کو حزب اللہ کے مجاہدین سے مقابلہ کرنے میں عاجز اور ناتوان محسوس کرتے ہیں۔ 2006ء میں حزب اللہ کے ساتھ جنگ کے بعد صہیونی اخبار ہارٹز نے اپنی ایک رپورٹ میں اعتراف کیا تھا کہ حسن نصراللہ عرب لیڈر ہیں لیکن عرب دنیا کے لیڈران سے بالکل مختلف ہیں۔ وہ بیہودہ بات نہیں کرتے اور جھوٹ نہیں بولتے اور ان کی باتیں قابل اعتماد ہوتی ہیں۔
 
حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے حال ہی میں اپنی تقریر میں صہیونی رژیم کو کئی پیغام پہنچائے۔ پہلا پیغام یہ تھا کہ حزب اللہ کے فوجی کارخانے عام بیلسٹک میزائلوں کو ٹھیک نشانے پر مار کرنے والے میزائلوں میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ دوسرا پیغام یہ تھا کہ حزب اللہ لبنان کے سکیورٹی مراکز اسرائیل کی جاسوسی کرنے میں بہت اعلی درجے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور انہیں ایسی معلومات حاصل ہوئی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ تل ابیب نے حزب اللہ کے میزائلوں کے ذخائر کا کھوج لگانے کیلئے جاسوس لبنان بھیجے ہیں۔ لہذا وہ ان کا مقابلہ کرنے کیلئے پہلے سے تیار ہیں۔ سید حسن نصراللہ کا تیسرا پیغام یہ تھا کہ حزب اللہ لبنان کی میزائل تیار کرنے والی فیکٹریاں ملک بھر میں پھیلی ہوئی ہیں اور ایک جگہ واقع نہیں ہیں۔
 
اس تقریر کے صرف دو دن بعد لبنان کی سرحد کے قریب واقع مقبوضہ فلسطین کے قصبے الجلیل میں خطرے کی گھنٹیاں بجنا شروع ہو گئیں۔ لبنان سے ایک ڈرون طیارہ مقبوضہ فلسطین میں داخل ہونے کی خبر ملی تھی جس کے نتیجے میں صہیونی سکیورٹی افراتفری کا شکار ہو گئی اور ان میں شدید ہلچل مچ گئی۔ صہیونی مسلح افواج کے ترجمان نے کہا کہ فولادی گنبد نامی فضائی دفاعی سسٹم اور جنگی طیارے اور فوجی ہیلی کاپٹر اس ڈرون طیارے کی تلاش میں مصروف ہیں۔ لیکن وہ مقبوضہ فلسطین میں داخل ہونے والے اس ڈرون طیارے کا سراغ نہ لگا سے۔ کچھ دیر بعد حزب اللہ لبنان نے ایک بیانیہ جاری کیا جس میں کہا گیا تھا کہ اسلامی مزاحمت نے "حسان ڈرون" نامی ایک ڈرون طیارہ مقبوضہ فلسطین بھیجا جو چالیس منٹ جاسوسی کرنے کے بعد واپس لوٹنے میں کامیاب رہا ہے۔
 
حسان ڈرون طیارہ چالیس منٹ تک مقبوضہ فلسطین کے شمالی حصے میں 70 کلومیٹر تک علاقے کی جاسوسی کرتا رہا اور صہیونی سکیورٹی فورسز کی تمام تر کوشش کے باوجود کامیابی سے صحیح حالت میں لبنان واپس پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ یہ اقدام ایک طرف حزب اللہ لبنان کی عظیم فوجی صلاحیتوں کو ظاہر کرتا ہے جبکہ دوسری طرف غاصب صہیونی رژیم کے کھوکھلے پن اور مکڑی کے جال جیسی کمزوری کا واضح ثبوت ہے۔ حزب اللہ لبنان لاجسٹک اور فوجی اعتبار سے صہیونی رژیم کا مقابلہ کرنے کیلئے پوری طرح تیار ہے۔ جب سید حسن نصراللہ یہ کہتے ہیں کہ صہیونی فوجی جنگ کیلئے تیار نہیں ہیں، تو خود صہیونی حکمران ان کی اس بات پر سب سے زیادہ یقین کرتے ہیں اور انہیں بخوبی علم ہے کہ یہ بات حقیقت کے عین مطابق ہے۔
 
تل ابیب بہت اچھی طرح اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ مستقبل کی جنگ میں اس کے فوجیوں کی بڑی تعداد ماری جائے گی اور اس کے اہم اور حساس مراکز شدید حملوں کا نشانہ بنائے جائیں گے اور اس کی اقتصاد اور معیشت مفلوج ہو کر رہ جائے گی۔ اور اگر یہ جنگ زیادہ مدت تک جاری رہی تو صہیونی رژیم کے انفرااسٹرکچر کو بھی شدید نقصان پہنچے گا۔ خود مختلف صہیونی حلقوں کے مطابق حزب اللہ لبنان کئی ہفتے تک جنگ کرنے کی طاقت رکھتی ہے اور اگر اس کے آدھے میزائل بھی فضا میں تباہ کر دیے جائیں تب بھی بہت زیادہ نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔ دوسری طرف صہیونی رژیم کے ایئر ڈیفنس سسٹم میں میزائلوں کی تعداد محدود ہے اور وہ صرف محدود حد تک ہی باہر سے آنے والے میزائلوں کا مقابلہ کر سکتا ہے

تحریر: علی احمدی

 حزب اللہ لبنان کے ڈرون طیارے نے 40 منٹ تک مقبوضہ فلسطین کے اندر 70 کلو میٹر تک پرواز کرکے اسرائيلی حکام میں ہلچل مچا دی ہے۔

حزب اللہ لبنان نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ آج اس کے ڈرون طیارے نے مقبوضہ فلسطین کے اندر پرواز کی یہ پرواز 40 منٹ تک جاری رہی۔  حزب اللہ کے ڈرون طیارے نے 70 کلو میٹر مقبوضہ فلسطین کے اندر پرواز کی۔

حزب اللہ کا کہنا ہے کہ حزب اللہ کے حسان ڈرون طیارہ اپنی ماموریت کو کامیابی کے ساتھ انجام دیکر اپنے مقام پر واپس پہنچ گيا ہے۔ اسرائیلی حکام نے حزب اللہ کے ڈرون طیارے کو روکنے میں اپنی ناکامی کا اعتراف کیا ہے۔

اسرائیلی فوج نے باضابطہ طور پر خبری ذرائع کی رپورٹ کی تصدیق کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ ایک ڈرون مقبوضہ فلسطین کی حدود میں داخل ہوا ہے اور ساتھ ہی آئرن ڈوم کو فعال کر دیا گیا ہے۔ گھنٹوں بعد، فوج نے ایک دوسرے بیان میں باضابطہ طور پر اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ وہ تمام انٹرسیپٹ استعمال کرنے کے باوجود ڈرون کو روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکی اور یہ کہ ڈرون لبنان میں  بحفاظت واپس آ گیا ہے۔

 

یمن کے ایک سیکورٹی ذریعے نے یمنی خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ سعودی امریکی لڑاکا طیاروں نے صنعا میں بنی مطر سیکشن پر گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران دو فضائی حملے کیے۔  

انہوں نے مزید کہا کہ سعودی امریکی جارحیت پسندوں نے الحدیدہ میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے اور حجہ، معارب اور نجران کے صوبوں میں 23 فضائی حملے کیے ہیں ۔

اس عرصے کے دوران دشمن کی جانب سے یمنی فضائی حدود کی 290 خلاف ورزیاں کی گئیں، جن میں سے ایک حیس پر فضائی حملہ اور الجبالیہ اور حیس پر جاسوس طیاروں کی پروازیں تھیں۔

حملہ آور افواج نے 109 توپ خانے اور راکٹ گولے داغے اور 184 اسالٹ رائفلز سے فائر کیا۔

سعودی لڑاکا طیاروں نے عباس کے علاقے بنی حسن پر آٹھ فضائی حملے کیے، حرد پر تین فضائی حملے اور حجہ صوبے کے التینا پر ایک فضائی حملہ، الجوبہ اور الوادی پر سات فضائی حملے، معارب پر دو فضائی حملے اور دو فضائی حملے۔ نجران میں اجشر پر انہوں نے دیا۔
 تقريب خبررسان ايجنسی

امام علی (ع) اور جناب سیدہ فاطمہ زہرا (س) کی بیٹی جناب حضرت زینب (س) کی ولادت پانچ جمادی الاولی پانچویں یا چھٹے سال کو مدینہ منورہ میں ہوئی، جناب سیدہ زینب سلام اللہ علیہا پانچ سال کی عمر میں اپنی والدہ سے محروم ہوگئیں اس طرح آپ بچپن سے ہی مصیبتوں میں گرفتار ہوئیں۔ آپ نے اپنی بابرکت زندگی میں بہت سے مصائب کا سامنا کیا، اپنے والدین کی شہادت سے لے کر اپنے بھائیوں اور بچوں کی شہادت تک اور اسیری جیسے تلخ واقعات بھی آپ سلام اللہ علیہا نے برداشت کئے، لیکن ان تمام سختیوں نے آپ سلام اللہ علیہا کو صابرہ اور بردبار بنا دیا۔(1) آپ سلام اللہ علیہا کے القابات: محدثہ، عالمہ اور فہیمہ ہے۔ آپ سلام اللہ علیہا متقی، عابدہ، زاھدہ، عارفہ، خطیبہ اور پاکدامن خاتون ہیں۔ نبوی اور علوی کی پرورش اور خدا کے فضل نے آپ کو نمایاں اوصاف و خصائل کی حامل بنا دیا، جس کی وجہ سے آپ کو "عقیلہ بنی ہاشم" کہا جاتا ہے۔ آپ سلام اللہ علیہا نے اپنے چچا زاد جناب حضرت "عبداللہ ابن جعفر" سے شادی کی اور اس شادی کے نتیجے میں اللہ نے انہیں اولاد جیسی نعمتوں سے نوازا جن میں سے دو (محمد اور عون) علیہما السلام نے کربلا میں حضرت ابا عبداللہ الحسین علیہ السلام پر اپنی جانیں نچھاور کیں اور امام علیہ السلام کے رکاب میں جام شہادت نوش فرمایا (2)۔

وفات:

آپ علیہا السلام 15 رجب 62 ہجری کو اس دار فانی سے رخصت ہوئیں۔
ہم اس مختصر مقالے میں آپ سلام اللہ علیہا کے بعض فضائل و مناقب کی طرف نہایت اختصار کے ساتھ اشارہ کریں گے:

1- باپ کی زینت:

عموماً والدین ہی بچے کا نام انتخاب کرتے ہیں لیکن حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی ولادت کے وقت ان کے والدین نے یہ کام آپ کے نانا جناب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سپرد کردیا اس دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سفر پر تھے، سفر سے واپسی کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کی ولادت کی خبر سنتے ہی امام علی علیہ السلام کے گھر جاکر نواسی کو گلے لگایا اور اس کا بوسہ لیا اس کے بعد وحی الہی کے مطابق زینب نام رکھا، جس کا مطلب ہے "باپ کی زینت" (3)۔

2- علم الہی:

دوسری مخلوقات پر انسان کی سب سے اہم برتری حتیٰ کہ فرشتوں پر بھی اس کا علم اور بصیرت ہے۔ ''وعلم آدم الاسماء کلها ثم عرضهم علی الملائکة فقال انبئونی باسماء هؤلاء ان کنتم صادقین . قالوا سبحانک لا علم لنا الا ما علمتنا انک انت العلیم الحکیم."اور آدم ع کو کچھ اسماء کی تعلیم دی گئی اور پھر اس نے انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور کہا اگر تم سچے ہو تو ان کے نام بتاؤ فرشتوں نے کہا کہ تو پاک ہے ہم سوائے ان چیزوں کے جن کی تو نے ہمیں تعلیم دی ہے نہیں جانتے۔ بیشک تو سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔ (4) اور اعلیٰ ترین علوم وہ علوم ہیں جو براہ راست ذات الٰہی سے انسان تک پہنچے ہوں یعنی ان کے پاس علم لدنی ہے۔ حضرت خضر علیہ السلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وعلمناه من لدنا علما."ہم نے خود اپنے پاس سے اسے بہت سے علوم سکھایا۔"(5) امام سجاد (ع) کی گواہی کے مطابق زینب (س) کے پاس ایسا علم ہے، یعنی علم لدنی جو خود ذات الہی سے کسب کیا گیا ہے۔ جہاں انہوں نے اپنی پھوپھی کو مخاطب کرکے فرمایا: ’’آپ عالمہ غیر معلمہ اور فھیمہ غیر مفھمہ ہے۔(6)

3- عبادت اور بندگی:

حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے قرآن سے سیکھا تھا کہ انسان کی تخلیق کا مقصد خدا کی بندگی میں کمال تک پہنچنا ہے۔"ما خلقت الجن والانس الا لیعبدون."ہم نے جنوں اور انسانوں کو پیدا نہیں کیا سوائے میری عبادت کریں۔‘‘(7)
آپ سلام اللہ علیہا نے اپنے والدین کی عبادت اور نماز شب کو قریب سے دیکھا تھا۔ آپ سلام اللہ علیہا کربلا میں گواہ تھیں کہ آپ کے بھائی امام حسین علیہ السلام نے شب عاشورا جناب حضرت عباس علیہ السلام سے فرمایا: ارجع الیهم واستمهلهم هذه المشیة الی غد لقد نصلی لربنا اللیلة وندعوه ونستغفره فهو یعلم انی احب الصلوة له وتلاوة کتابه وکثرة الدعاء والاستغفار'' ان کے پاس جاؤ اور کل تک کے لیے آج کی رات مہلت لے لو تاکہ ہم اپنے خدا کے حضور آج کی رات دعا اور استغفار کرتے ہوئے گزار سکیں۔ "خدا جانتا ہے کہ مجھے نماز اور قرآن کی تلاوت سے کتنا عشق یے اور بہت زیادہ دعائیں اور استغفار کرنا مجھے پسند ہے۔"(8) ان جملوں میں ہم جناب امام حسین ع کی واجبات کی ادائیگی کی بات نہیں کر رہے ہیں بلکہ امام ع کو عبادت اور نماز سے جو عشق ہے اس کی بات کر رہے ہیں۔ حضرت زینب سلام اللہ علیہا بھی راتوں کو عبادت کیا کرتی تھیں اور کوئی بھی مصیبت انہیں عبادت سے نہیں روک سکی۔ امام سجاد (علیہ السلام) نے فرمایا: «ان عمتی زینب کانت تؤدی صلواتها، من قیام الفرائض والنوافل عند مسیرنا من الکوفة الی الشام وفی بعض منازل کانت تصلی من جلوس لشدة الجوع والضعف. میری پھوپھی زینب سلام اللہ علیہا تمام واجب اور مستحب نمازوں کو کوفہ سے شام تک کے راستے میں ادا کیا کرتی تھیں اور راستے میں بعض لوگوں کے گھروں میں بھوک اور کمزوری کی شدت کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھا کرتی تھیں۔"(9)
حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے اپنی زندگی کی حساس ترین رات جو کہ اپنے بھائی سے وداع کی رات تھی اس میں بھی نماز تہجد اور شب بیداری کو ترک نہیں کیا۔ فاطمہ بنت الحسین سلام اللہ علیہا سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:" واما عمتی زینب فانها لم تزل قائمة فی تلک اللیلة ای عاشرة من المحرم فی محرابها تستغیث الی ربها وماهدات لناعین ولا سکنت لنا زمرة. "میری پھوپھی زینب شب عاشورا پوری رات بیدار اور خدا کی عبادت اور راز و نیاز میں میں مشغول رہی جبکہ اس رات، ہم میں سے کوئی نہیں سویا اور ہماری آہیں بند نہیں ہوئیں۔"(10) امام حسین (ع) معصوم ہیں اور واسطۂ فیض الہی ہیں۔ آپ علیہ السلام نے اپنی بہن جو کہ عابدہ زاہدہ ہیں الوداع کرتے ہوئے فرمایا: یا اختاه لا تنسینی فی نافلة اللیل. بہن جان! " نماز شب میں مجھے مت بھولنا!"(11) اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جناب سیدہ زینب سلام اللہ علیہا بندگی اور عبادت کے اس اعلی مرتبے پر فائز تھیں۔

4۔عفت اور پاکدامنی:

عفت اور پاکدامنی عورت کی سب سے خوبصورت زینت اور ان کے لیے سب سے قیمتی جواہر ہیں۔ حضرت زینب (س) نے اپنے والد کے مکتب سے عفت کا سبق سیکھا تھا، جہاں انہوں نے فرمایا:"ما المجاهد الشهید فی سبیل الله باعظم اجرا ممن قدر فعف یکاد العفیف ان یکون ملکا من الملائکة. خدا کی راہ میں شہید ہونے والے مجاھد کو اس شخص سے زیادہ اجر نہیں دیا جاتا جس کے پاس طاقت ہے، لیکن وہ عفت اور پاکدامن ہے۔ عفت اور پاکدامنی کے مالک شخص فرشتوں میں سے ایک فرشتہ ہے۔"(12) زینب کبری سلام اللہ علیھا نے انتہائی مشکل اور دشوار حالات میں بھی اپنی عفت کا مظاہرہ کیا۔ اسیری کے دوران کربلا سے شام جاتے ہوئے اپنی عفت کا مظاہرہ کیا۔ مورخین نے لکھا ہے: "وهی تستر وجهها بکفها، لان قناعها قد اخذ منها."وہ اپنے چہرے کو اپنے ہاتھوں سے چھپاتی تھی، کیونکہ آپ کی چادر آپ سے چھین لی گئی تھی۔"(13)
زینب سلام اللہ علیہا کو وہ سب کچھ وراثت میں ملا جو آپ کی ماں جناب سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے پاس تھا۔سیدہ زینب سلام اللہ علیہا وہ خاتون تھیں جنہوں نے حیا و عفت کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے یزید کو للکارا: "امن العدل یا بن الطلقاء تحذیرک حرائرک و امائک و سوقک بنات رسول الله سبایا؟ قد هتکت ستورهن و ابدیت وجوههن. اے ناجائز ماں کے ناجائز بیٹے، کیا یہ انصاف ہے کہ تم اپنی ازواج اور کنیزوں کو پردے کے پیچھے رکھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹیاں اور ان کے خاندان کو قیدی بنائے؟ اور ان کے سروں سے چادریں چھینی جائے؟(14)

5- ولایت مداری:

قرآن بغیر کسی شرط کے، خدا کی مطلق اطاعت کے بعد، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے اہل بیت یعنی ائمہ (علیہم السلام) کی اطاعت کا حکم دیتا ہے: اطیعوا الله واطیعوا الرسول واولی الامر منکم. خدا کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور صاحبان امر کی اطاعت کرو۔ (15)
حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے ولایت مداری کے تمام پہلوؤں میں سات معصوم علیہم السلام سے کسب فیض کیا تھا (امام کی معرفت، تسلیم، رضا، ولایت کا تعارف اور اس کی راہ میں قربانی) یہ سب آپ سلام اللہ علیہا نے سات اماموں سے سیکھا تھا۔ حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا کہ کس طرح ایک ماں نے اپنے آپ کو اپنے زمانے کے امام پر قربان کردیا تھا اور اپنے امام سے مخاطب ہو کر فرمایا تھا کہ: روحی لروحک الفداء ونفسی لنفسک الوقاء"[اے ابوالحسن] میری جان آپ کی جان پر قربان ہو اور میری روح آپ کی روح کی ڈھال ہو۔"(17) آخرکار جناب سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے امام علی علیہ السلام کی حمایت میں اپنی جان قربان کر دی اور ولایت و امامت کی راہ میں شہید ہو گئیں۔ زینب (س) نے ولایت مدرای کا سبق اپنی والدہ سے سیکھا اور اس کا کربلا میں عملی طور پر مظاہرہ کیا، چنانچہ آپ سلام اللہ علیہا نے ایک طرف الزامات کی تردید کرتے ہوئے اور اہل بیت کے فراموش کیے گئے حقوق کی یاد دلا کر ولایت اور امامت کو متعارف کرانے کی کوشش کی؛ من جملہ، شہر کوفہ کے خطبے میں فرمایا۔ وانی ترحضون قتل سلیل خاتم النبوة ومعدن الرسالة وسید شباب اهل الجنة.
آخری نبی کے بیٹے اور جوانان جنت کے سردار کے قتل کا داغ آپ کیسے دھویں گے؟"(18)
آپ سلام اللہ علیہا نے ابن زیاد کے دربار شہر شام اور یزید کی مجلس شھرکوفہ میں بھی ولایت اور امامت کا بھر پور طریقے سے تعارف کرایا۔(19)
آپ امامت کے سامنے سر تسیلم خم کرتی تھیں چاہئے امام حسین علیہ السلام کا دور ہو یا امام سجاد علیہ السلام کا دور، حتیٰ کہ اس وقت جب خیمے کو آگ لگائی گئی تھی، یعنی امام سجاد علیہ السلام کی امامت کے آغاز میں، آپ س امام کے پاس آئی اور کہا: اے میرے بھائی کی یادگار دشمنوں نے خیموں کو آگ لگائی ہے ہم کیا کریں؟ امام ع نے فرمایا: علیکن بالفرار. فرار کریں۔(20) اور بھی کئی جگہوں پر زینب علیہا السلام نے امام سجاد علیہ السلام کی جان بچائی اور امامت کا دفاع کیا اور آخری دم تک امام ع کی حمایت کی:
1- عاشورہ کے دن؛ جب امام حسین علیہ السلام نے اتمام حجت کی خاطر مدد طلب کی تو آپ ع کے بیمار بیٹے امام زین العابدین علیہ السلام میدان کی طرف نکلے جناب زینب س نے امام کو میدان جنگ میں جانے سے روکنے کے لیے تیزی سے آگے بڑھیں۔ امام حسین علیہ السلام نے اپنی بہن سے فرمایا: بیٹا سجاد کو واپس لے جاؤ اگر وہ بھی شھید ہو گئے تو پیغمبر کی نسل زمین پر منقطع ہو جائے گی (21)۔
2- عصر عاشورا کے بعد جس وقت دشمنوں نے خیموں پر حملہ کیا، شمر نے امام سجاد علیہ السلام کو شہید کرنے کا فیصلہ کیا تھا، لیکن جناب زینب علیہاالسلام نے فریاد بلند کی اور کہا: جب تک میں زندہ ہوں، میں زین العابدین کی حفاظت کروں گی۔ اے شمر اگر تم اسے قتل کرنا چاہتے ہو تو پہلے مجھے قتل کرو، دشمن نے یہ حالت دیکھ کر امام کو قتل نہیں کیا۔ (22)۔
3۔جب ابن زیاد نے امام سجاد علیہ السلام کے قتل کا حکم دیا تو حضرت زینب علیہا السلام نے آپ کو گلے لگایا اور غضبناک ہو کر فرمایا: اے زیاد کے بیٹے! اپ بس کرو تم نے بہت خون بہایا ہے۔ ہمارے خاندان کو قتل کرنے کا سلسلہ بند کرو اور فرمایا: والله لا افارقه فان قتلته فاقتلنی معه. خدا کی قسم میں اسے کبھی نہیں چھوڑوں گی۔"اگر تم اسے شہید کرنا چاہتے ہو تو مجھے بھی ان کے ساتھ شہید کرو" ابن زیاد نے حضرت زینب س کی طرف دیکھا اور کہا: اس رشتہ داری سے حیران ہوں میں چاہتا ہوں اسے علی ابن الحسین کے ساتھ قتل کر دوں، البتہ ابن زیاد کے پاس اس بات کو سمجھنے کی اوقات نہیں تھیں کہ یہ حمایت صرف قرابت داری کی وجہ سے نہیں بلکہ ولایت اور امامت کے دفاع کے لیے بھی ہے، اگر بات صرف خاندان اور رشتہ داری کی ہوتی تو زینب (س) اپنے بچوں کی جان بچاتی اور انہیں میدان جنگ میں نہیں بھیجتی۔

6۔عظیم جذبہ اور بلند حوصلہ:

المناک واقعات اور مصیبتوں میں جو چیز انسان کے لیے سب سے زیادہ ضروری ہوتی ہے وہ حوصلہ اور جذبہ ہے اگر کسی شخص میں اہم اور حساس کام کرنے کا حوصلہ نہیں ہے تو وہ اس کام میں کامیاب نہیں ہو گا اور وہ ناکام ہو سکتا ہے۔ حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی سب سے اھم خصوصیات میں سے ایک ان کا عظیم جذبہ اور حوصلہ ہے۔ آپ نے اپنی والدہ کی شہادت کے بعد اپنے والد اور بھائیوں کو حوصلہ دیا اور ان کو دلاسہ دیا۔ امام حسن علیہ السلام کی شہادت میں آپ نے پسماندگان کو تسلی دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد اور اسیری کے دوران حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی یہ خصوصیت زیادہ ظاہر ہوئی۔ آپ سلام اللہ علیہا ہمیشہ غمخواروں کی مددگار اور اسیروں کے لیے پناہ گاہ تھی، کربلاء کی مقتل گاہ سے لیکر کوفہ کی تنگ و تاریک گلیوں تک، ابن زیاد کی مجلس سے لے کر یزید کے دربار، ہر جگہ اسیروں کو بچانے والی فرشتہ نما شخصیت زینب سلام اللہ علیہا تھی۔ آپ نے فرمایا: لا یجز عنک ما تری، فو الله ان ذلک لعهد من رسول الله الی جدک وابیک وعمک. اے بھائی کی یادگار! جو تم دیکھ رہے ہو (والد کی شھادت ) آپ کو بے صبری نہیں کرے۔ خدا کی قسم! "یہ رسول خدا کا اپنے آباؤ اجداد، باپ اور چچا سے وعدہ ہے۔"(23)

7۔صبر:

انسان کامل کی سب سے بڑی خصوصیت، زمانے کی نشیب و فراز اور سختیوں میں صبر کرنا ہے۔ قرآن کریم نے متعدد آیاتوں میں صابرین کے لئے عظیم اجر و ثواب کی بشارت دی ہے۔ (24) زینب سلام اللہ علیہا اس سلسلے میں کمال کے عروج پر ہیں۔ آپ سلام اللہ علیہا کے زیارت نامے میں، ہم پڑھتے ہیں:" لقد عجبت من صبرک ملائکة السماء"آپ کے صبر پر آسمان کے فرشتے حیران ہوئے۔" بالخصوص عاشورا کے دن، آپ سلام اللہ علیہا نے ایسے صبر و تحمل، تسلیم و رضا کا مظاہرہ کیا کہ اس پر خود صبر شرمندہ ہوا۔جب ابن زیاد ملعون جناب زینب سلام اللہ علیہا کے زخم پر نمک چھڑکنے اور آپ س کو اذیت پہنچانے کے لیے کہتا ہے: "کیف رایت صنع الله باخیک واهل بیتک." آپ نے اپنے بھائی اور خاندان کے ساتھ خدا کے کام کو کیسے پایا؟"درحقیقت وہ ملعون کہنا چاہتا ہے کہ آپ نے دیکھا کہ خدا نے آپ کے ساتھ کیا کیا؟ جناب زینب سلام اللہ علیہا جواب دینے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتیں، گویا آپ سلام اللہ علیہا نے اس ملعون کے منصوبوں کے بارے میں سوچ کر جواب تیار کر لیا ہے۔ اپنے دل میں صبر اور اطمینان کے پرسکون اظہار کے ساتھ، آپ نے فرمایا: ما رایت الا جمیلا."میں نے خوبصورتی کے سوا کچھ نہیں دیکھا۔"(25) ابن زیاد ایک اسیر عورت کے جواب پر حیران ہوتا ہے اور اس کے اس عظیم مصیبتوں پر صبر اور استقامت پر حیران ہوتا ہے، اور آپ سلام اللہ علیہا کے سامنے بے بس ہوجاتا ہے۔

8۔ایثار اور فداکاری:

بلند مرتبہ والے انسانوں کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ وہ دوسروں کو خود پر مقدم کرتے ہیں۔ امام علی علیہ السلام نے فرمایا: "الایثار اعلی الایمان." ایمان کا اعلیٰ ترین درجہ فداکاری اور ایثار ہے۔(27)؛ اور فرمایا: الایثار اعلی الاحسان. (28)؛ ایثار اور فداکاری سب سے بڑا احسان ہے۔ اس صفت میں جناب زینب سلام اللہ علیہا سب سے آگے ہیں۔ آپ سلام اللہ علیہا دوسروں کی جان بچانے کے لیے ہمیشہ خطرات مول لیتی ہیں اور واقعہ کربلا میں آپ سلام اللہ علیہا نے پانی بھی پیا اور بچوں کو دے دیا۔ کوفہ اور شام کے راستے میں اگرچہ آپ خود بھوکھی اور پیاسی تھیں لیکن اس کے باوجود آپ نے اپنے ایثار اور فداکاری کا مظاہرہ کیا۔ امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں: "انها کانت تقسم ما یصیبها من الطعام علی الاطفال لان القوم کانوا یدفعون لکل واحد منا رغیفا من الخبز فی الیوم واللیلة."میری پھوپھی زینب کو جو کھانا دشمن دیا کرتے اسے بھی بچوں میں تقسیم کیا کرتی تھیں چونکہ دشمن ھم میں سے ہر ایک کو دن رات ایک ایک روٹی دیتے تھے۔"

9- ہمت اور بہادری:

اولیاء اللہ کی ایک نمایاں صفت یہ ہے کہ خدا ان کی نظروں میں بڑا ہے اور اس کے علاوہ باقی ساری چیزیں ان کی نظروں میں پست اور بے اثر ہیں۔ امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: "عظم الخالق فی انفسهم فصغر ما دونه فی اعینهم."خالق ان کی روحوں میں عظیم ہے اور خالق کے علاوہ باقی چیزیں ان کی نظروں میں کچھ بھی نہیں ہیں۔" اولیاء اللہ کی بلند ہمت کا راز یہی ہے۔ زینب سلام اللہ علیہا جو اس طرح کا نظریہ رکھتی ہیں اور ایک ہمت والے گھرانے میں پرورش پائی۔ اسی لیے آپ سلام اللہ علیہا قاتل کی خون آلود تلوار سے نہیں ڈرتی اور کہتی ہیں: کیا تم میں کوئی مسلمان نہیں؟ ابن زیاد کی مجلس میں اس کی ظاہری طاقت کی پرواہ کیے بغیر آپ سلام اللہ علیہا ایک کونے میں بیٹھ کر ابن زیاد کے سوالوں کو نظر انداز کر کے اسے ذلیل و خوار کرتی ہیں، اسے "بدکار" اور "فاسق و فاجر" کہتی ہیں اور خود کی پہچان اسطرح کرواتی ہیں: الحمدلله الذی اکرمنا بنبیه محمد صلی الله علیه و آله وطهرنا من الرجس تطهیرا وانما یفتضح الفاسق ویکذب الفاجر وهو غیرنا. خدا کا شکر ہے جس نے ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت سے نوازا اور ہمیں ہر قسم کی ناپاکی سے پاک کیا۔ "صرف فاسق ہی رسوا ہو گا اور فاسق جھوٹ بولے گا اور وہ ہمارے علاوہ ہے۔"(30)

10۔فصاحت و بلاغت:

کوئی بھی خطیب جو فصاحت و بلاغت سے بات کرنا چاہتا ہے، خدادادی صلاحیت کے باوجود اسے کئی بار مشق کرنی چاہیے، فصیح خطبہ دینے کے لیے ذہنی اور جسمانی طور پر مکمل طور پر تیار ہونا ضروری ہے اور سامعین کو اس کے ساتھ ہم آہنگ ہونا چاہیے، ورنہ وہ بولنے کے قابل نہیں رہے گا۔ جناب زینب سلام اللہ علیہا ان لوگوں سے مخاطب ہیں جو نہ صرف آپ کا خطبہ سن رہے ہیں بلکہ آپ پر پتھر مار رہے ہیں اور آپ بغیر کسی تیاری کے، پیاس، بھوک، اسیری کی حالت میں اور آپ کا پورا خاندان آپ کی آنکھوں کے سامنے شھید ہوگیا تھا، اس کے باوجود آپ سلام اللہ علیہا کی آواز بلند ہوتی ہے اور ایک تاریخی خطبہ دیا :اے اہل کوفہ! اے دھوکے باز اور بے وفا» حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے ایسا خطبہ دیا کہ لوگوں کے ضمیر کو بیدار کر دیا اور مرد و خواتین، بوڑھے اور جوان سب کے رونے کی آوازیں بلند ہوگئی۔ خزیم اسدی کہتے ہیں: میں نے زینب کو دیکھا، خدا کی قسم، میں نے کوئی ایسی عورت نہیں دیکھی جو سر سے پاؤں تک حیاء اور عفت اور پاکدامنی کی مالک ہو، ان سے زیادہ فصیح ہو، گویا زینب سلام اللہ علیها امام علی علیہ السلام کی زبان بول رہی ہو۔
ھومو کہتا ہے: میں نے ایک بوڑھے آدمی کو دیکھا، رونے کی وجہ سے اس کی داڑھی آنسوؤں سے تر تھی اور اس نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ کے بزرگان بہترین بزرگان ہیں، آپ کے جوان بہترین نوجوان ہیں، آپ کی خواتین بہترین خواتین ہیں،آپ کی نسلیں بہترین نسل ہیں،جو نہ ذلیل ہوئی اور انہوں نہ ہی شکست کھائی بلکہ آپ کامیاب ہوگئے۔(31)

حوالہ جات :

(1)۔شیخ ذبیح الله محلاتی، ریاحین الشریعة، (تهران، دار الکتب الاسلامیة) ج 3، ص 46 .
(2)۔شیخ ذبیح الله محلاتی، ریاحین الشریعة، (تهران، دار الکتب الاسلامیة) ج 3، ص 210
(3)۔شیخ ذبیح الله محلاتی، ریاحین الشریعة، (تهران، دار الکتب الاسلامیة) ج ص39۔
(4)۔سورہ بقرہ آیت32/31۔
(5)۔سورہ کہف آیت 65۔
(6)۔شیخ عباس قمی، منتهی الآمال، (تهران، علمیه اسلامیه، چاپ قدیم، 1331 ه . ش) ج 1، ص 2 98 .
(7)۔سورہ زاریات آیت 65۔
(8)۔محمد بن جریر طبری، تاریخ طبری، ج 6، ص 238 .
(9)۔ ریاحین الشریعه (پیشین)، ج 3، ص 62 .
(10)۔ ریاحین الشریعه (پیشین)، ج 3، ص 62 .
(11)۔ھمان۔
(12)۔نهج البلاغه، فیض الاسلام، حکمت 466 .
(13)۔جزائری، الخصائص الزینبیه، ص 345 .
(14)۔محمد باقر مجلسی، بحار الانوار، (بیروت، دار احیاء التراث العربی)، ج 45، ص 134 .
(15)۔سورہ نساء آیت /59 .
(17)۔الکوکب الدری، ج 1، ص 196.
(18)۔ بحار الانوار (پیشین)، ج 45، ص 110- 111 .
(19)۔بحار الانوار
(20) ۔ بحار الانوار، ج 45، ص 58، ومعالی السبطین، ج 2، ص 88۔
(21)۔بحار الانوار، (پیشین)، ج 45، ص 46 .
(22)۔بحار الانوار۔
(23)۔بحار الانوار.
(24)سورہ بقرہ آیت 154۔
(25)۔سورہ بقرہ
(26)۔ میزان الحکمة، ج 1، ص 4 .
(27)۔ میزان الحکمة، ج 1، ص 4 .
(28)۔ریاحین الشریعة، (پیشین)، ج 3، ص 62 .
(29)۔نهج البلاغه، فیض الاسلام، خطبه 182.
(30)۔زیارت نامه حضرت زینب علیها السلام
(31)۔

زیارت نامه حضرت زینب علیها السلام، ج 45، ص 108 و ص 110.

حوزہ نیوز ایجنسی

تحریر: عرفان حیدر بشوی

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اپنے خطاب میں کہا کہ کورونا، معاشی مشکلات، اغیار کے زہریلے پروپیگنڈوں اور بعض داخلی عناصر کی جانب سے ان پروپیگنڈوں کی افسوسناک مدد جیسے مختلف طرح کے مسائل سے گھرے ہونے کے باوجود عوام نے اسلامی انقلاب کی کامیابی کی سالگرہ پر ہر سال نکلنے والا عظیم الشان جلوس اس طرح سے نکالا کہ باوثوق رپورٹوں کے مطابق زیادہ تر صوبوں میں جلوس کے شرکاء کی تعداد پچھلے سال سے زیادہ تھی۔ انھوں نے کہا کہ اس سال اسلامی انقلاب کی کامیابی کی سالگرہ کا پروگرام واقعی بہت حیرت انگیز اور قابل تعریف تھا کیونکہ کورونا وائرس، معاشی مسائل اور دشمن کے جھوٹے پروپیگنڈوں کے باوجود عوام نے پچھلے سال سے زیادہ تعداد میں اس پروگرام میں شرکت کی۔

رہبر انقلاب اسلامی نے ملک کی موجودہ ضرورتوں کے ساتھ ہی آئندہ کی ضروریات پر توجہ دیے جانے پر ززر دیا۔ انہوں نے کہا: اگر آج ہم سائنسدانوں اور محققین کی تربیت، علمی و سائنسی تحریک کی مضبوطی، افزائش نسل اور ملک کی پیشرفت کے ضروری عنصر یعنی نوجوانوں کی تربیت جیسی مستقبل کی بنیادی ضروریات کی فکر میں نہ رہیں تو بیس سال بعد ہم مشکلات میں گھر جائيں گے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے پرامن ایٹمی توانائي کو آئندہ کی بنیادی ضروریات میں سے ایک قرار دیا اور کہا: ایٹمی مسئلے پر دشمن محاذ کے اڑ جانے، ہماری جانب سے پرامن استعمال کی اطلاع ہونے کے باوجود ظالمانہ پابندیاں عائد کرنے اور ایٹمی ہتھیار سے ایران کا فاصلہ کم ہونے جیسی بے بنیاد باتوں کا مقصد، ایران کی مستقبل کی ضروریات کی تکمیل کی ضامن ملک کی پیشرفت کو روکنا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اس سلسلے میں ایک مثال بیان کی جہاں کوتاہی اور غفلت، اگلے برسوں میں مشکلات پیدا ہونے کا سبب بنی۔ آپ نے ایٹمی معاہدے کی طرف اشارہ کیا اور کہا: سن دو ہزار پندرہ اور دو ہزار سولہ کے برسوں میں ایٹمی معاہدے کے سلسلے میں میرا اعتراض یہ تھا کہ اس معاہدے میں کچھ باتوں کا لحاظ کیا جانا چاہیے تھا تاکہ بعد میں مشکلات پیش نہ آئيں اور میں نے انھیں بار بار اس کی یاد دہانی کرائي لیکن ان میں سے بعض باتوں پر توجہ نہیں دی گئي اور بعد میں وہ مشکلات پیش آئيں جن کو سبھی دیکھ رہے ہیں۔ بنابریں، مستقبل پر نظر رکھنا ضروری ہے۔

آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے پچھلے چار عشروں کے دوران انجام پانے والی بے شمار سرگرمیوں اور کاموں کو انتہائي سودمند اور انقلاب کے تسلسل کا سبب بتایا اور کہا: موجودہ مشکلات کی وجہ سے یہ نہ ہو کہ ہم بے شمار بڑی بڑی پیشرفتوں کو بھول جائیں۔

انھوں نے مختلف شعبوں میں حیرت انگیز سائنسی پیشرفت اور عالمی اوسط سے ایران کی کئي گنا تیز سائنسی ترقی کے بارے میں عالمی اداروں کے اعتراف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: اسلامی انقلاب اسی طرح سڑک سازی، ڈیموں کی تعمیر، بجلی کی ترسیل، صحت و معالجے کی خدمات جیسے انفراسٹرکچر کے میدانوں میں بھی تعجب خیز پیشرفت کا سبب بنا اور اگر انقلاب اور جہادی سرگرمیاں نہ ہوتیں تو یقینی طور پر یہ ترقی و پیشرفت حاصل نہ ہو پاتی۔

رہبر انقلاب اسلامی نے انقلاب کے بعد ایران میں معاشی صورتحال کی بہتری کے سلسلے میں عالمی اداروں کے اعتراف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: اگرچہ سماجی انصاف، ثروت کی منصفانہ تقسیم اور کمزور طبقوں تک سہولتیں پہنچائے جانے کے سلسلے میں ہمیشہ میری طرف سے تنقید ہوتی ہے لیکن معیشت کے مسئلے میں بھی دنیا کے معروف معاشی مراکز کی رپورٹوں کے مطابق ایران میں بڑی پیشرفت ہوئي ہے اور اسی کے ساتھ بہت ساری چیزوں میں ہم خودکفیل ہوئے ہیں اور ملکی صنعت کاروں اور پیداوار کرنے والوں کی خود اعتمادی میں بھی اہم پیشرفت ہوئي ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے زور دے کر کہا کہ پیداوار کے شعبے میں انجام دیے جانے والے کارناموں کو لوگوں تک پہنچانے میں قومی میڈیا کی بڑی ذمہ داری ہے اور اس پر کما حقہ عمل نہیں ہوا ہے اور یہ کام ضرور انجام پانا چاہیے۔

انھوں نے کہا کہ مختلف میدانوں میں سرگرم سبھی افراد نے ان تینتالیس برسوں میں انقلاب کے جاری رہنے میں مدد کی ہے، البتہ کبھی کبھی کچھ غفلت، تساہلی اور بدنیتی کا بھی مشاہدہ کیا گيا ہے، اگر يہ چیزیں نہ ہوتیں تو ملک کی صورتحال اور بھی بہتر ہوتی۔

آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے مطابق انقلاب کے خلاف اتنی زیادہ دشمنی کی وجہ، اس انقلاب کا زندہ ہونا اور اس کی مسلسل پیشرفت ہے۔ آپ نے کہا: انقلاب کا زندہ ہونا یعنی انقلاب کے اہداف سے عوام اور نئي نسلوں کی وابستگی ہے اور اگر یہ وابستگي اور اس راہ میں استقامت نہ ہوتی تو دشمن کو اتنی زیادہ خباثت دکھانے کی ضرورت نہ ہوتی، بنابریں یہ دشمنی، قوم کی جانب سے انقلاب کے اہداف سے وفاداری اور اس کی پائيداری کی وجہ سے ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ ایرانی قوم کی قابل فخر استقامت و مزاحمت نہ صرف ملک کی پیشرفت کا باعث ہے بلکہ خطے پر بھی اس کے اہم اثرات ہیں۔ انھوں نے کہا کہ خطے میں روز افزوں استقامت نے سامراج کے جھوٹے بھرم کو پاش پاش کر دیا ہے اور امریکا کے مقابلے میں اقوام کو زبان کھولنے کی جرات عطا کی ہے اور ہمیں انقلاب کو جاری رکھ کر اس نعمت کی قدردانی کرنی چاہیے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے نوجوانوں کو ایک اہم نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ انھیں یہ دیکھنا چاہیے کہ دشمن نے کس جگہ کو نشانہ بنا رکھا ہے اور اس کے ٹھیک برخلاف کام کرنا چاہیے۔

انھوں نے کہا: دشمن نے آج رائے عامہ خاص طور پر نوجوانوں کے ذہن و فکر کو نشانہ بنا رکھا ہے تاکہ اربوں ڈالر خرچ کر کے اور اپنے تھنک ٹینکس میں مختلف طرح کی سازشیں تیار کرکے ایرانی قوم، خاص طور پر نوجوانوں کو انقلاب کی راہ سے برگشتہ کر سکے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے معاشی دباؤ اور میڈیا آپریشن کو، اسلامی نظام سے عوام کو دور کرنے اور ان کی سوچ خراب کرنے کے لئے استعمال ہونے والے سامراج کے دو اصلی ہتکھنڈے بتایا اور کہا: دروغگوئي اور انقلاب کے اہم ارکان نیز انقلاب کی پیشرفت میں مؤثر مراکز کے خلاف تہمت زنی، وہ روش ہے جو میڈیا آپریشن میں استعمال ہو رہی ہے۔

آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے اسی طرح سبھی لوگوں خاص طور پر نوجوانوں کو دعا، توسل اور رجب کی پندرھویں تاریخ کی برکتوں سے فائدہ اٹھانے کی نصیحت کی اور کہا: خدا سے رابطہ زندگی، ملک اور انقلاب کے مستقبل کو برکت عطا کرتا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اٹھارہ فروری سن 1978 کے تبریز کے عوام کے قیام کو ایرانی قوم کی عظیم تحریک کے تسلسل اور اسلامی انقلاب کی کامیابی کی تمہید قرار دیا۔ انھوں نے اس دن کو تبریز کی درخشندگي کا دن قرار دیا اور اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ اس دن تبریز کے عوام کی جدت عمل، قوم کی جدوجہد جاری رہنے اور انقلاب کے ثمربار ہونے کی وجہ بنی، کہا: یہ انقلاب بندوق، سیاست اور پارٹی بازی سے کامیاب نہیں ہوا بلکہ انقلاب کی کامیابی کی اصل وجہ، عوام کی میدان میں موجودگي تھی اور تبریز کے عوام نے اپنی جدت عمل سے انقلابی تحریک کو مہمیز کیا۔