سلیمانی

سلیمانی

ر

 ایک انٹرویو میں معروف امریکی سائنسدان اور تجزیہ کار نوم چومسکی نے امریکی قیادت میں 20 سال قبل شروع ہونے والی " دہشت گردی کے خلاف جنگ" کے تباہ کن اثرات پر زور دیا ۔

چومسکی نے نائن الیون کی 20 ویں برسی کے موقع پر ایک انٹرویو میں ٹراؤٹ آؤٹ (انٹرویو لینے والا) کو بتایا ، "9/11 پر واشنگٹن کا فوری جواب افغانستان پر حملہ کرنا تھا"۔

انہوں نے کہا کہ جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو بنیاد پرست دہشت گردوں (طالبان) کے ٹھکانے ایک کونے تک محدود تھے۔ اب یہ دھشتگردی پوری دنیا میں پھیل چکی ہے۔ وسطی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کی زیادہ سے زیادہ تباہی نے امریکی طاقت میں کوئی اضافہ نہیں کیا۔

انٹرویو کے ایک اور حصے میں چومسکی نے کہا کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے ہی امریکہ کی ’’ سافٹ پاور ‘‘ میں کمی آئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ایک اور جہت امریکہ کی نرم طاقت ہے۔ جس میں امریکہ شدید زوال کا شکار ہے، اور یہ ٹرمپ کی طرف سے ملکی ساکھ کو شدید نقصان پہنچانے سے بہت پہلے شروع ہو چکا تھا۔ کلنٹن کے دور میں بھی ، سیاسی سائنسدانوں نے محسوس کیا کہ دنیا کا بیشتر حصہ امریکہ کو دنیا کا سب سے باغی ملک اور ان کے معاشروں کے لیے سب سے بڑا بیرونی خطرہ سمجھتا ہے۔

چومسکی نے مزید کہا ، "اوباما کی صدارت کے دوران ، بین الاقوامی رائے عامہ کے جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ بجائے اس کے کہ قریبی حریف ہو عالمی امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔"

اپنی گفتگو کے ایک اور حصے میں ، امریکی سائنسدان اور تجزیہ کار نے کہا کہ نائن الیون کے واقعات کے بعد عراق اور افغانستان میں امریکی جنگ کی وجہ سے امریکہ کو 8 ٹریلین ڈالر سے زائد کا نقصان اٹھانا پڑا۔

چومسکی نے یہ بھی نوٹ کیا کہ امریکہ کے 9/11 سے پہلے طالبان کے ساتھ نسبتا اچھے تعلقات تھے۔ انہوں نے کہا نائن الیون کے بعد ، امریکہ نے اسامہ بن لادن کی حوالگی کا مطالبہ کیا ، اور جب طالبان راضی ہوئے تو واشنگٹن نے یہ پیشکش مسترد کرتے ہوئے کہا ، 'ہم ہتھیار ڈالنے کے لیے مذاکرات نہیں کر رہے ہیں۔'

انہوں نے کہا کہ افغانستان پر حملہ نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی تھی بلکہ اس کا کوئی معقول عذر بھی نہیں تھا۔ اس کے علاوہ ، اس بات کے کافی شواہد موجود ہیں کہ افغانستان اور القاعدہ بش ، ڈک چینی اور ڈونلڈ رمز فیلڈ کا بنیادی ہدف نہیں تھے۔ ان کے پیش نظر افغانستان سے بڑے اہداف تھے۔ "[افغانستان پر حملے کے بعد] عراق ان کا پہلا قدم تھا اور پھر پورا خطہ۔"

اس امریکی سائنسدان اور تجزیہ کار نے فروری 2020 میں طالبان کے ساتھ ڈونلڈ ٹرمپ کے معاہدے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ، "افغانستان سے نکلنے کے اپنے یکطرفہ معاہدے میں ، ٹرمپ نے سرکاری افغان حکومت سے مشاورت کی زحمت بھی نہیں کی۔ اس سے بھی بدتر ، ٹرمپ نے افغان حکومت کو مجبور کیا کہ وہ پانچ ہزار طالبان عسکریت پسندوں کو رہا کرے اور ان کے خلاف اقتصادی پابندیاں کم کرے"۔

انہوں نے مزید کہا: "انہوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ طالبان ہماری مدد کرنے والی حکومت اور ان بے گناہ لوگوں کے خلاف تشدد کا استعمال کر سکتے ہیں جنہوں نے امریکیوں کو محفوظ رکھنے میں ہماری مدد کی۔ طالبان کو اہم کام جو انجام دینا تھا وہ امریکی یا اس کی اتحادی افواج کو نشانہ بنانا بند کرنا تھا اور القاعدہ یا دیگر دہشت گرد گروہوں کو اجازت نہ دیں کہ وہ افغان سرزمین کو، امریکہ کو دھمکی دینے کے لیے استعمال کریں۔

افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی کے جانے کے بعد طالبان اتوار (15 اگست) کو کابل میں داخل ہوئے۔ تجزیہ کار طالبان کی افواج کی آمد کو امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی طرف سے افغانستان کی دوبارہ تعمیر کے لیے 20 سال کی کوشش کے اختتام کے طور پر دیکھتے ہیں جو مغربی طرز کے مطابق ہے۔

امریکہ اور طالبان کے درمیان فروری 2020 کے معاہدے اور دونوں فریقوں کے درمیان "امن معاہدے" پر دستخط کے بعد ، افغانستان سے امریکی فوجیوں اور اتحادیوں کا انخلا شروع ہوا۔

امریکہ اور نیٹو کے دیگر ارکان نے 2001 میں امریکہ پر نائن الیون حملوں کے جواب میں افغانستان پر حملہ کیا اور اس کے بعد سے افغانستان میں اپنی فوجی موجودگی اور قبضہ جاری رکھا ہوا ہے۔

امریکہ کے لیے طویل مدتی نتائج

ریپبلکن ریپبلک ہاؤس فارن افیئرز کمیٹی کے رکن مائیکل میک کویل نے چند روز قبل کہا تھا کہ افغانستان سے امریکی ناکام انخلا دنیا میں امریکی پوزیشن کے لیے طویل مدتی نتائج کا باعث بنے گا اور اس سے ایران ، روس اور چین کو فائدہ ہوگا۔

فاکس نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے میک کویل نے کہا کہ امریکہ کے پاس کابل ایئرپورٹ کے باہر کوئی معلومات نہیں ہے جو کہ طالبان ، روس ، چین اور ایران کی فتح ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں زمین پر ہونے والی پیش رفت کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہے۔ میں بالکل بے خبر ہوں۔ اگر ہم ہوائی اڈے [کابل] سے نکل جاتے ہیں تو ہم مکمل لاعلمی میں ہوں گے۔ یہ نہ صرف طالبان بلکہ روس ، چین اور ایران کی بھی فتح ہے کیونکہ ہم اب خطے میں ان کی سرگرمیاں نہیں دیکھ سکتے۔

مغربی اقدار مسلط کرنے کی کوشش

افغانستان میں ہونے والی پیش رفت نے دیگر ممالک پر مغربی اقدار اور طرز زندگی مسلط کرنے کی امریکی کوششوں پر بھی تنقید کی ہے۔ چین ان ممالک میں سے ایک ہے جنہوں نے اس حوالے سے امریکہ پر تنقید کی ہے۔

"امریکہ ، برطانیہ ، آسٹریلیا اور دیگر ممالک کو افغانستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے جوابدہ ہونا چاہیے ،" اقوام متحدہ میں چین کے نمائندے نے چند روز قبل افغانستان کے بارے میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں کہا۔
انہوں نے مزید کہا ، "امریکہ اور دوسرے ممالک ، جمہوریت اور انسانی حقوق کے بہانے ، دوسرے آزاد ممالک میں عسکری طور پر مداخلت کر رہے ہیں ۔"

بہر حال ، جو بائیڈن نے افغانستان میں اپنے فیصلوں کا دفاع کیا ہے ، حالانکہ اس نے ملک میں جو کچھ ہورہا ہے اس کی ذمہ داری سے بچنے کی کوشش کی ہے اور اس ذمہ داری کو دوسروں پر منتقل کرنے کی کوشش کی ہے۔

جمعہ کی صبح (27 اگست) ایک تقریر میں امریکی صدر نے کہا کہ امریکی انٹیلی جنس نے اس طرح کے حملے کے امکان کی پیش گوئی کی تھی جب امریکی فوجیوں کو نکالا جائے گا۔ تاہم انہوں نے کہا کہ آنے والے دنوں میں انخلاء کی کارروائیاں جاری رہیں گی۔

گذشتہ منگل کو ، انہوں نے طالبان کے افغانستان کے تیزی سے اور مکمل تسلط کے لیے طالبان کو ذمہ دار ٹھہرایا ، ٹرمپ انتظامیہ کے طالبان کے ساتھ معاہدے کا حوالہ دیتے ہوئے ، اور مفرور افغان صدر اشرف غنی سے مایوسی کا اظہار کیا۔ بائیڈن نے گزشتہ منگل کی صبح ایک تقریر میں افغان نیشنل سکیورٹی فورسز کی کارکردگی پر بھی افسوس کا اظہار کیا ، جبکہ چند ہفتوں قبل انہوں نے کہا تھا کہ افغان سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ طالبان کے ممکنہ حملے کے خلاف ملک کا دفاع کر سکے گی۔

ایسے حال میں کہ امریکہ 2001 میں "پائیدار آزادی" نامی مشن کے ایک حصے کے طور پر افغانستان میں داخل ہوا، بائیڈن نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ افغانستان میں امریکہ کا مشن کبھی بھی ملک میں جمہوریت یا آزادی کے قیام کے لیے نہیں تھا۔

امریکی صدر کا عجلت میں افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلانے کا فیصلہ جو کہ کابل حکومت کے زوال اور طالبان کے قبضے کا باعث بنا ، امریکی عوام کی نظروں سے اوجھل نہیں رہا۔ ٹریفلگر گروپ کی جانب سے چند روز قبل کیے گئے ایک سروے سے پتہ چلا ہے کہ 69 فیصد امریکی بائیڈن کے افغانستان چھوڑنے اور انخلاء کے فیصلے سے مطمئن نہیں ہیں اور صرف 23 فیصد جواب دہندگان نے ان کے اقدامات کو منظور کیا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عراقی وزیر اعظم مصطفی الکاظمی کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر ایران سید ابراہیم رئیسی نے ایران اور عراق کے تعلقات کو انتہائی دوستانہ اور برادرانہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی میدان میں دونوں ملکوں کے تعلقات کے فروغ کی بے پناہ گنجائشیں موجود ہیں جن سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔

صدر ابراہیم رئیسی کا کہنا تھا کہ ایران عراق تعلقات صرف دو ملکوں کے تعلقات کی طرح نہیں ہیں بلکہ، علاقائی اور عالمی سطح پر بھی دونوں ممالک مؤثر کردار کے مالک ہیں۔

ایرانی صدر نے کہا کہ دونوں ممالک باہمی تعلقات کے فروغ کا پختہ ارادہ رکھتے ہیں اور عراقی وزیراعظم نے اربعین حسینی کے لیے ایرانی زائرین کا کوٹہ بڑھانے کا وعدہ کیا ہے۔ انہوں نے عراق کی جانب سے ایرانیوں کے لیے ویزے کی شرط ختم کیے جانے کا بھی خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ عراقی وزیراعظم نے یہ اچھی خبردی ہے۔

عراقی وزیر اعظم نے بھی اس موقع پر داعش کے خلاف جنگ میں مدد دینے پر اسلامی جمہوریہ ایران کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ عراقی عوام اور ہماری حکومت تمام مشکلات کے مقابلے میں ایرانی عوام اور حکومت کے ساتھ ہیں۔ عراقی وزیر اعظم نے دونوں ملکوں کے درمیان چودہ سو کلومیٹر طویل سرحدوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ باہمی تعلقات کی اہمیت کو ظاہر کرنے کے لیے دوسری بار ایران آئے ہیں۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ صدر جمہوریہ ایران سید اہراہمی رئیسی شنگھايی تعاون تنظیم کے سربراہان مملکت کے اجلاس میں شامل ہونے کے ارادے سے تاجکستان کا دورہ کریں گے۔

وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے پیر کے روز ورچوئل پریس کانفرنس میں صدر جمہوریہ سید ابراہیم رئیسی کے تاجکستان دورے کی اطلاع دی ہے۔

سعید خطیب زادہ نے ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبد اللھیان کے ہندوستان دورے کے بارے میں میڈیا میں آئی خبروں کے بارے میں کہا کہ یہ دورہ ایجنڈے میں تھا لیکن شنگھائی اجلاس، صدر جمہوریہ ایران کے دورہ تاجکستان اور خارجہ پالیسی سے مربوط کئی اہم اجلاس جیسے آپس میں مربوط کئی موضوعات ہونے کی بنا پر، یہ دورہ نہیں ہو پایا لیکن یہ دورہ جلد ہی نئے شیڈیول کے تحت انجام پائے گا۔

مہر خبررساں ایجنسی کے بین الاقوامی امور کے نامہ نگار کے ساتھ گفتگو میں امریکی یونیورسٹی مینہ سوٹا کے استاد ویلیم او بیمین نے 11 ستمبر 2001 کے واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ نے کبھی بھی دہشت گرد گروہوں کا سنجیدگی کے ساتھ  مقابلہ نہیں کیا اور مشرق وسطی میں امریکہ کی لشکر کش کا مقصد خاص گروہوں کو سکیورٹی اور تحفظ فراہم کرنا تھا۔

امریکہ ہر سال گیارہ ستمبر کی سالگرہ کے موقع پر اس واقعہ کے پوشیدہ پہلوؤں کو آشکار کرنے کی بات کرتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکہ  نے گذشتہ 20 برسوں میں کبھی بھی 11 ستمبر کے واقعہ کے مخفی پہلوؤں کو اجاگر نہیں کیا ۔ امریکہ نے 11 ستمبر کے واقعہ میں سعودی عرب کے کردار کو ہمیشہ پوشیدہ اور مخفی رکھنے کی تلاش و کوشش کی ہے۔

11 ستمبر سن 2001 میں امریکی سرزمین پر بظاہر دہشت گردانہ حملہ ہوا  جس کے نتیجے میں امریکہ اور عالمی سطح پر عوام کو اس کے سیاسی، اقتصادی  اور سکیورٹی نتائج کا سامنا رہا ، بعض تجزيہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ بھی امریکہ کی فوجی بندرگاہ پرل ہاربر پر حملے جتنا مہم تھا۔ امریکہ کی فوجی بندرگاہ پرل ہاربر پر حملہ امریکہ کی دوسری عالمی جنگ میں مداخلت کا سبب بن گیا۔

اطلاعات کے مطابق 11 ستمبر کے واقعہ میں 19 افراد ملوث تھے جن میں سے 15 کا تعلق سعودی عرب ، 2 کا تعلق متحدہ عرب امارات ، 1یک کا تعلق مصر اور ایک کا تعلق لبنان سے تھا۔ 11 ستمبر کی دہشت گرد ٹیم کا تعلق عرب ممالک اور القاعدہ سے تھا۔ لیکن امریکی صدر جارج بش نے افغانستان اور عراق کو نشانہ بنایا ، جن کا کوئی بھی فرد اس حملے میں ملوث نہیں تھا۔ امریکی صدر نے افغانستان اور عراق کو شرارت کا محور قراردیا اور انھیں عالمی امن کے لئے بہت بڑا خطرہ بنا کر پیش کیا۔

11 ستمبر کے کمیشن نے اپنی رپورٹ میں سعودی عرب کے سیاسی عناصر کی مداخلت کے واضح ثبوت پیش کئے اور بعد میں مائیکل مور نے اپنی دستاویزی فلم میں بھی اس کی طرف اشارہ کیا ۔

مینہ سوٹا یونیورسٹی کے استاد نے  دہشت گردی کے سلسلے میں امریکہ کی کوششوں کی ناکامی کے بارے میں مہر نیوز کے نامہ نگار کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ 11 ستمبر کے واقعہ کا منصوبہ القاعدہ نے بنایا تھا  اور القاعدہ کے اصلی عناصر کا تعلق سعودی عرب سے تھا نہ افغانستان ، عراق یا ایران سے تھا۔ القاعدہ کو امریکہ نے سویت یونین کی روک تھام کے لئے تشکیل دیا تھا اور سویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد امریکہ نے اس گروہ کو رہا کردیا۔ القاعدہ کا امریکہ پر حملے کا مقصد اسے مشرق وسطی اور خاص طور پر سعودی عرب سے نکالنا تھا ۔ القاعدہ کا سعودی عرب کے شاہی خاندان سے اختلاف تھا اور آج بھی ہے لیکن اس حقیقت کو امریکہ اور سعودی عرب دونوں نے چھپا رکھا ہے۔ امریکہ نے 11 ستمبر کے واقعہ میں کبھی سعودی عرب کی مذمت نہیں کی بلکہ اس کے عوض اس نے سعودی عرب سے خطے کی جغرافیائی صورتحال اور حکومتوں کی تبدیلی کا معاملہ شروع کیا جس میں سعودی عرب نے امریکہ کے نقشے کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی، سعودی عرب نے 11 ستمبر کے واقعہ میں کلیدی نکات کو چھپانے کے سلسلے میں امریکہ کو بھاری مقدار میں تاوان ادا کیا ہے۔ باراک اوبامہ کی حکومت تک امریکہ نے القاعدہ کے خلاف کوئي سنجیدہ اقدام انجام نہیں دیا۔ امریکہ اب بھی طالبان، القاعدہ اور داعش کے خطرے کو سنجیدگي کے ساتھ نہیں لے رہا ہے کیونکہ یہ تنظیمیں امریکہ نے خود تشکیل د ی ہیں اور ان تنظیموں میں امریکہ کے اہم جاسوس موجود ہیں۔

مینہ سوٹا یونیورسٹی کے استاد نے امریکہ کے افغانستان سے 20 سال بعد خارج ہونے کے بارے میں مہر نیوز ایجنسی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں امریکہ نے کوئی خاص کام انجام نہیں دیا۔ اور طالبان کی پورے افغانستان پر کنٹرول کی کوشش ناکام ہوجائےگی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے ایک پیغام میں ایرانی بحریہ کے 75 ویں بحری بیڑے کے کمانڈر اور اہلکاروں کی بحر اوقیانوس کے اہم اورعظیم مشن سے مقتدارانہ اور عزتمندانہ واپسی پر مبارکباد پیش کی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے ایک پیغام میں  ایرانی بحریہ کے 75 ویں بحری بیڑے کے کمانڈر اور اہلکاروں کی بحر اوقیانوس کے اہم اورعظیم مشن سے مقتدارانہ اور عزتمندانہ واپسی پر مبارکباد پیش کی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: الحمد للہ ، آج اسلامی جمہوریہ ایران کی بحریہ بین الاقوامی سمندر میں اپنی توانائیوں سے استفادہ کررہی ہے اور ایرانی بحریہ کے غیور ، بہادر اور بابصیرت اہلکار ملک اور قوم کے دفاع اور انقلاب اسلامی کے اعلی اہداف  کے لئے ہر قسم کی قربانی پیش کرنے کے لئے آمادہ ہیں۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایرانی بحریہ کی مزيد پیشرفت پر تاکید کرتے ہوئے اس مشن  کے کمانڈر اور اہلکاروں کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔

ذرائع کے مطابق گذشتہ روز مقبوضہ فلسطین میں کئی مقامات پر اسرائیلی جیلوں میں قیدیوں کے اہل خانہ سے ملاقات پر پابندی اور جاری مظالم  کے خلاف مظاہرین نےاحتجاج کیا جس میں ہزاروں فلسطینی باشندوں نے شرکت کی۔
 
 
 
 صہیونی فوج کی جانب سے مظاہرین کو منتشر کر نے کے لیے بھاری مقدار میں آنسو گیس کی شیلنگ کی گئی  تاہم مظاہرین نے نعرے بازی جاری رکھی جس کے نتیجے میں صہیونی فوج نے فلسطینیوں پر لاٹھی جارج کی  اور  بے دریغ ہر عمر کے افراد کو تشدد کا نشانہ بنایا۔

ذرائع کے مطابق گذشتہ روز مقبوضہ فلسطین میں کئی مقامات پر اسرائیلی جیلوں میں قیدیوں کے اہل خانہ سے ملاقات پر پابندی اور جاری مظالم  کے خلاف مظاہرین نےاحتجاج کیا جس میں ہزاروں فلسطینی باشندوں نے شرکت کی۔

احتجاج میں شریک فلسطینیوں نے ہاتھوں میں صہیونی ریاست کے خلاف پلے کارڈاور فلسطینی جھنڈے اٹھا رکھے تھے جبکہ مظاہرین کی جانب سے قابض ریاست اور فوج کے خلاف شدید نعرے بازی کی گئی۔

صہیونی فوجی تشدد کے باعث  28 سے زائد فلسطینی باشندوں کو  سنگین نوعیت کی چوٹین آئیں جس کے باعث انہیں اپنی مدد آپ کے تحت ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے ۔

اب تک کی موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق  زخمی فلسطینیوں میں سے 6 افراد کی ہڈیوں کو شدید نقصان پہنچا ہے جبکہ دیگر فلسطینیوں کو  ابتدائی طبی امداد فراہم کرنے کے بعد گھروں کو بھیج دیا گیا ہے۔

 عرب ویب سائٹ البوابہ الاخباریہ الیمنیہ کی رپورٹ کے مطابق ریاض نے صوبہ مارب سے پسپائی کے دوران بھاری ہتھیاروں و جنگی ساز و سامان کو نکالنا شروع کر دیا ہے۔ اس صوبہ میں صنعاء کی فورسز نے مضبوط دفاع کےساتھ اسنیپ اٹیکس کا عمل شروع کر رکھا ہے۔

حالیہ دنوں میں یمنی فوج اور صنعاء میں نیشنل سالویشن گورنمنٹ سے وابستہ عوامی افواج نے سعودی اتحادی افواج سے صوبہ مارب کے جنوب مغرب میں واقع رحبہ شہر کو صاف کرانے میں کامیابی حاصل کر لی تھی اور صوبہ مارب کے دارالحکومت مارب کو مکمل طور پر آزاد کرانے کی پوزیشن میں ہیں۔

مارب میں قبائلی ذرائع نے البوابہ الاخباریہ کو بتایا کہ جن مسلح افراد نے سعودی فورسز پر گھات لگا کر کاروائی کی ہے وہ غالبا صنعا کی مسلح افواج کے ہی مختلف گروپس تھے۔

 

یاد رہے اس سعودی قافلے میں سعودی فوجی افسر، سپاہی اور فوجی سازوسامان شامل تھا جو القرون علاقے کو عبور کرتے ہوئے وادی عبیدہ میں الرویک اور غوبریان کیمپوں کے نزدیک مسلح فورسز کا نشانہ بنا۔

ان ذرائع کے مطابق، اس حملہ میں جو گھات لگا کر کیا گیا ہے متعدد سعودی فوجی ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں جبکہ قافلہ میں موجود فوجی سازوسامان تباہ ہو گیا۔

 

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ فوجی کاروائی مارب کی آزادی کے لیے جنگ کی شدت کو ظاہر کرتی ہے کیونکہ صنعا افواج نے آخری جنگی معرکہ کے قریب ہوتے ہوئے مختلف جنگی حربے استعمال کرنا شروع کر دیئے ہیں۔

پچھلے چند گھنٹوں میں، صنعاء کی افواج مختلف اطراف سے صوبہ مارب کے دارالحکومت کے قریب پہنچ چکی ہیں اور موجودہ صورتحال کے تناظر میں صنعاء کی افواج جلد ہی اس صوبے پر قبضہ مکمل کر لیں گی۔ یمن کا یہ صوبہ گیس اور تیل کے ذخائر سے مالا مال ہے۔

 
 

بحرین نے اسرائیلی ریاست کےساتھ نام نہاد امن معاہدے کے بعد اسرائیلیوں کے لیے اپنے دروازے کھول دیے ہیں۔

جمعرات کو بحرینی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ منامہ نے اسرائیلی شہریوں کے لیے ویزے جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

عبرانی ریڈیو کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلیوں کے ویزوں کے اجرا کا فیصلہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب دونوں ملکوں کی جانب سے ایک دوسرے کے لیے فضائی سروس شروع کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔

 

دوسری طرف سے بحرین نے باضابطہ طورپر اسرائیلیوں کے لیے ویزے جاری کرنے کی خبر پرکوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔

خیال رہے کہ خلیجی ریاست بحرین نے اکتوبر 2020ء کو اسرائیل کے ساتھ امریکہ کی ثالثی کے تحت امن معاہدے کا اعلان کیا تھا۔ بحرین کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کیے جانے پر فلسطین میں شدید رد عمل سامنے آیا اور اس اقدام کو فلسطینی قوم کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے کے مترادف قرار دیا تھ

 صیہونی وزیر خارجہ کی بکواس پر اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے تہران جواب کا حق اپنے لئے محفوظ رکھتا ہے۔

ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے جمعہ کو ایک ٹویٹ میں کہا: قوانین کی دھجیاں اڑانے والی صیہونی حکومت اپنے ایٹم بم سے ایران کو ایسی حالت میں دھمکی دے رہی ہے کہ وہ این پی ٹی میں شامل نہیں ہے جبکہ ایران این پی ٹی کا رکن اور اسکی جوہری تنصیبات معائنہ شدہ ہیں۔

ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ مغرب کے اس منھ لگے کو پھروتی کی عادت پڑ گئی ہے لیکن اب دنیا اسکی اصلیت کو سمجھ چکی ہے۔ دنیا سمجھ گئی ہے کہ وہ اس وقت عالمی سطح پر عدم استحکام کا باعث ایک عنصر ہے۔

سعید خطیب زادے نے کہا کہ ایران کے پاس جواب دینے کا حق محفوظ ہے۔

شیعیت نیوز: افغانستان کے بارے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس کے شرکاء نے تاکید کی ہے کہ اس بین الاقوامی ادارے کو چاہئے کہ طالبان کے زیرکنٹرول افغانستان کے لئے انسان دوستانہ امداد کی فراہمی جاری رکھے۔

اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل مندوب مجید تخت روانچی نے افغانستان کے بارے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس سے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ افغانستان اس وقت ایک بحرانی دور سے گزر رہا ہے۔انھوں نے کہا کہ افغانستان کی یہ صورت حال امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی براہ راست مداخلت اور پھر افغانستان سے غیر ذمہ دارانہ انخلا کا نتیجہ ہے۔

اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل مندوب نے کہا کہ امریکی اور دیگر مغربی ممالک، جب افغانستان میں داخل ہوئے تو اس ملک کے عوام کے لئے مشکلات ساتھ لائے اور جب اس ملک سے انخلا کیا تو المیہ چھوڑ کرگئے ۔انھوں نے کہا کہ ایران، افغانستان کے لئے اپنے ملک کی بندرگاہوں، ہوائی اڈوں، ریلوے لائنوں اور سرحدی گذرگاہوں کے ذریعے انسان دوستانہ امداد منتقل کرنے میں سہولیات فراہم کرنے کے لئے آمادہ ہے۔

مجید تخت روانچی نے کہا کہ عالمی برادری سے امید کی جاتی ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو سمجھے گی اور اس پر عمل کرے گی اور پناہ گزینوں کے لئے امداد کی فراہمی کے لئے مزید اقدامات عمل میں لائے گی۔