سلیمانی

سلیمانی

شیعیت نیوز: حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصراللہ کا ایندھن کے حامل ایرانی ٹینکروں کے لبنان پہونچنے کے مدنظر بیان سامنے آیا ہے۔

المنار کے مطابق بدھ کے روز جاری ہونے والے بیان میں سید حسن نصراللہ نے کہا کہ مجھے یہ اطلاع ملی کہ بعلبک الہرمل میں عوام جمعرات کو ایرانی ٹینکروں کے استقبال کے لئے اکٹھا ہوں گے، لیکن میں مذکورہ علاقے میں حزب اللہ کے ذمہ دار افراد اور عوام سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اپنی سلامتی کے پیش نظر اور ایندھن کے انتقال کے عمل کو آسان بنانے کے لئے بھیڑ کی شکل میں اکٹھا نہ ہوں۔

سید حسن نصراللہ نے پیر کے روز اپنی تقریر میں کہا تھا کہ پٹرولیم مصنوعات سے لدا پہلا جہاز رواں ہفتے شام کی بانیاس بندرگاہ پر پہونچ گیا ہے اور جمعرات سے ایندھن کے انتقال کا عمل شروع ہو جائے گا۔

دوسری جانب ایران کی طرف سے لبنان کے لئے بھیجا گیا ایندھن لبنان پہونچ گیا ہے۔

لبنان کے ٹی وی چوبیس نے ایک ویڈیو جاری کرکے اعلان کیا ہے کہ ایندھن لے جانے والے ٹینکر لبنان کے شہر الھرمل کے حوش السید علی علاقے میں داخل ہو چکے ہیں۔

 

 

حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ نے بدھ کی رات ایک پیغام میں کہا تھا کہ ہمیں عوام اور میڈیا کی جانب سے الھرمل کے بعبلک علاقے میں ایندھن کے حامل ٹینکروں کے استقبال کی تیاری کی خبریں ملی ہیں لیکن ہم عوام اورعلاقے میں حزب اللہ کے عہدیداروں سے چاہتے ہیں کہ وہ سب کی سیکورٹی، آسانی اور اچھی طرح منتقلی کے عمل کو آسان بنانے کے لئے کسی طرح کا عوامی اجتماع نہ کریں۔

سید حسن نصراللہ نے پیر کی شب اپنے ایک خطاب میں اعلان کیا تھا کہ ایندھن لانے والا پہلا ٹینکر اتوار کی رات، شام کی بانیاس بندرگاہ پہنچ چکا ہے اور لبنان کے لئے ایندھن کی منتقلی جمعرات سے شروع ہو جائے گی۔

حالیہ ہفتوں میں لبنان میں ایندھن کا بحران شدت اختیار کر گیا ہے یہاں تک کہ بعض اسپتالوں اور لازمی سروسزکے مراکز کی بجلی منقطع ہو گئی جس کے باعث لبنانی عوام نے ایک بار پھر مظاہرے شروع کر دیئے تھے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کا پہلا آئل ٹینکر ڈیزل لے کر شام کی بندرگاہ بانیاس پر لنگرانداز ہو گیا ہے۔ یہ آئیل ٹینکر حزب اللہ لبنان کی جانب سے  ایران سے خریدے گئے ان ٹینکرز میں سے ایک ہے جو ملک کو درپیش ایندھن کے بحران کے پیش نظر خریدے گئے ہیں۔ شام سے یہ ایندھن ٹینکرز کے ذریعے لبنان منتقل کیا جائے گا۔ ایندھن کی ایران سے لبنان کامیاب منتقلی امریکہ، اسرائیل اور لبنان کے اندر ان کی اتحادی قوتوں کیلئے ایک بڑی شکست قرار دی جا رہی ہے۔ اسی طرح یہ اقدام امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کی جانب سے ایران، شام اور لبنان کے خلاف جاری ظالمانہ اقتصادی محاصرہ ٹوٹ جانے کا بھی باعث بنا ہے۔ اس وقت لبنان میں امریکہ کی طاقت اور اثرورسوخ کم ترین سطح تک زوال کا شکار ہو چکا ہے۔
 
لبنان میں امریکہ کی متکبر سفیر دوروتی شیا نے بھی اپنی شکست تسلیم کر لی ہے اور میڈیا سے غائب ہو چکی ہے۔ دوروتی شیا اب تک لبنان کو اپنی رعایا تصور کرتی آئی ہیں اور سیاسی جوڑ توڑ کے دوران اپنے من پسند سیاست دانوں اور گروہوں کو عزت دیتی آئی ہیں جبکہ سیاسی مخالفین کی توہین میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ حال ہی میں حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے اپنی تقریر کے دوران اعلان کیا کہ ایران سے ایندھن لے کر آنے والا پہلا آئل ٹینکر شام پہنچ چکا ہے اور جمعرات 16 ستمبر تک یہ ایندھن لبنان پہنچ جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ جیسے ہی یہ ایندھن لبنان پہنچے گا اسپتالوں، اولڈ ایج ہاسٹلز اور دیگر ایسے مراکز جنہیں ایندھن کی اشد ضرورت ہے، کو بغیر کسی معاوضے کے مفت فراہم کیا جائے گا۔
 
ایک عقلمند، طاقتور اور بہادر لیڈر ایسا لیڈر ہوتا ہے جو درست اور منطقی سوچ کی بنیاد پر صحیح فیصلے انجام دینے اور ان پر عملدرآمد کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ ایسے ہی لیڈر ہیں اور انہوں نے ایسا ہی کام کر دکھایا ہے۔ میں بارہا اس بات پر زور دے چکا ہوں اور ایک بار پھر تاکید کرنا چاہتا ہوں کہ سید حسن نصراللہ جو کہتے ہیں اس پر عمل کر کے دکھاتے ہیں۔ اسی طرح وہ لبنانی قوم کی فلاح و بہبود کو دیگر تمام امور پر ترجیح دیتے ہیں۔ لبنانی عوام بھوکے ہیں، روٹیاں پکنا بند ہو گئی ہیں، اکثر اسپتال ایندھن نہ ہونے کی وجہ سے بند پڑے ہیں، میڈیکل سنٹرز پر یہ بورڈ دکھائی دیتا ہے کہ "پابندیوں کے باعث دوائیاں ختم ہو گئی ہیں"۔
 
ایسے حالات میں لبنانی عوام کی نجات کیلئے کم ترین مدت میں موثر اقدام انجام دینے والی شخصیت سید حسن نصراللہ اور حزب اللہ لبنان ہے۔ ان کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتیں اور رہنما کیا کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنا منہ موڑ لیا ہے اور عوام کو شدید مشکلات میں دیکھ کر لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ وہ اپنے مغربی آقاوں کے حکم پر ملک میں خانہ جنگی کی سازشیں تیار کر رہے ہیں اور اس کے آغاز کا انتظار کر رہے ہیں۔ حزب اللہ لبنان کا یہ اقدام تین محاذوں پر امریکہ اور امریکی حکام، امریکی سفیر اور امریکی پابندیوں کے خلاف عظیم کامیابی ہے۔ پہلا محاذ ایران ہے جہاں سے ایندھن کے آئل ٹینکرز نے اپنے سفر کا آغاز کیا۔ دوسرا محاذ شام ہے جہاں یہ آئل ٹینکرز لنگرانداز ہوئے اور تیسرا محاذ لبنان ہے جہاں یہ ایندھن منتقل کیا گیا ہے۔
 
سید حسن نصراللہ نے ایران سے ایندھن کی خریداری کا اعلان کرنے کے ساتھ ساتھ اسرائیل سمیت تمام دشمن طاقتوں کو خبردار بھی کیا تھا کہ ہماری نظر میں یہ آئل ٹینکرز لبنانی سرزمین کا حصہ ہیں لہذا انہیں درپیش ہر قسم کا خطرہ لبنان کی قومی سلامتی کیلئے خطرہ تصور کیا جائے گا اور اس کا بھرپور انداز میں مقابلہ کیا جائے گا۔ یوں ان آئل ٹینکرز میں ایرانی ایندھن بھرا گیا اور ان کی حفاظت کی ذمہ داری اسلامی مزاحمت کے میزائلوں اور ڈرون طیاروں نے سنبھالی۔ ان آئل ٹینکرز نے ایران کے خلاف امریکہ کی ظالمانہ پابندیوں کو ناکارہ بنانے کے ساتھ ساتھ شام کے خلاف امریکہ کے ظالمانہ قانون قیصر کو بھی بے اثر کر دیا اور لبنانی قوم کے خلاف امریکہ کے ظالمانہ اقدامات کو بھی بے اثر کر دیا ہے۔
 
حزب اللہ لبنان کا یہ اقدام خطے میں امریکی اثرورسوخ کے زوال کا باعث بننے والے دیگر اقدامات پر مبنی سلسلے کی پہلی کڑی ہے۔ جس لمحے لبنان کے وزیراعظم نجیب میقاتی نے ایران سے خریدے گئے ایندھن کے لبنان میں داخلے کا خیر مقدم کیا اور اس اقدام کے مخالفین کو تنقید کرنے کی بجائے مناسب راہ حل تلاش کرنے کی کوشش کی تجویز دی، یہ حقیقت واضح ہو چکی ہے کہ ان کی سربراہی میں نئی کابینہ تشکیل بھی پا لے گی اور پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ لبنان گذشتہ چند سالوں سے سیاسی اور اقتصادی بحران کی لپیٹ میں رہنے کے بعد اب ان بحرانوں سے باہر نکلنے کا سفر شروع کرنے والا ہے۔ لبنان کی یہ نجات اسلامی مزاحمت اور سید حسن نصراللہ جیسی نڈر اور مخلص قیادت کی بدولت ہے۔

تحریر: عبدالباری عطوان (چیف ایڈیٹر اخبار رای الیوم)

 

امت اسلامیہ کو قرآن اور حدیث کی روشنی میں جس چیز کی سب سے زیادہ ضروت ہےوہ’’اتحاد امت‘‘ہے امت اسلامیہ سے مراد،قرآن کو آخری الٰہی کتاب،پیغمبر(ص)کو خاتم الانبیاءاور اسلام کو قیامت تک کے لئے اللہ کا آخری دین ماننے والا گروہ مراد ہے۔جیسا کہ حدیث میں ان چیزوں پر ایمان رکھنے والے کو مسلمان کہا گیا ہے،جو بھی ان اصولوں پر اعتقاد رکھتا ہو وہ امت اسلامیہ میں شامل ہے اور اسی گروہ کو خدا نے ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا ہے:یقیناًتمام مومنین آپس میں بھائی ہیں،لہذا تم اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کرادیا کرو،(الحجرات۔۱۰)
اور ایک جگہ دین اسلام کو حقیقی دین قرار دیتے ہوئے خدا فرماتا ہے:بے شک تمہارا یہ دین’’اسلام‘‘ایک ہی دین ہے اورمیں تمہارا پروردگار ہوں تو میری ہی عبادت کرو۔(انبیاء ۔۹۲)
اس امت کا ہدف اور منزل اسلام کی نگاہ میں ایک ہے لہٰذا اپنے اہداف کے حصول کے لئے امت کا اتحاد ایک دینی اصل اورعقلی ضرورت ہے،اسلام کے مایہ ناز علماء نے اسی کی ضرورت اور اہمیت پر زور دیا ہے اور عملی طور پر بھی کوشش کرتے رہے ہیں۔
اتحاد کا مقصد مسلمانوں کا اپنے افکار اور نظریات سے دستبردار ہو کر دوسروں کے افکار کو قبول کرنا نہیں بلکہ تمام مسلمانوں کا اپنی مذہبی شناخت کو محفوظ رکھتے ہوئے،مشترکہ عقائد اور نظریات پر متحد ہونا،دشمنوں کے مقابلے میں مشترکہ مؤقف اپنانے اور ایک دوسرے کے مقدسات کا مکمل احترام کرناہے۔اختلافی موضوعات پر اپنے “مذہب کو نہ چھوڑیں اور دوسروں کے مسلک کو نہ چھیڑیں” کے اصول پر عمل پیرا ہوں یا احترام اوردلائل کے ساتھ اپنے نظریات کو دلیل، منطق اور دوسروں کے افکار کا احترام کرتے ہوئے دوستی اور بھائی چارگی کے ماحول میں گفتگو کی جانب قدم بڑھایاجائے۔
قرآن کریم نے واضح طور پر اتحاد پر زور دیا ہے!’’اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور آپس میں تفرقہ نہ پیدا کرو اور اللہ کی نعمت کو یاد کرو کہ تم لوگ آپس میں دشمن تھے اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کردی تو تم اس کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے اور تم جہنم کے کنارے پر تھے تو اس نے تمہیں نکال لیا اور اللہ اسی طرح اپنی آیتیں بیان کرتا ہے کہ شاید تم ہدایت یافتہ بن جاؤ۔(آل عمران۔۱۰۳)
حبل اللہ سے مراد اللہ کی کتاب،رسول اکرمؐ اور دین اسلام ہے جو انسان کو خدا تک پہنچاتا ہے،جو انسان کے دلوں کو آپس میں جوڑتے ہیں اور سب کو ایک ہی آئین کا پابند بنا کر ایک دوسرے کے لئے قربانی دینے کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ عزت ،سربلندی اور سرفرازی ایسے معاشروں کے لئے ہے جہاں افراد ایک ہوں،تفرقہ اورجدائی سے پرہیز کرتے ہوں اور سینوں سے کدورتوں اور کینوں کو اکھاڑ پھینکتے ہوں۔
پیغمبر(ص)کی ایک حدیث میں تمام مسلمانوں کو جسد واحد قرار دیا گیا ہے جس کے ایک عضو کی تکلیف پورے جسم کو درد میں مبتلا کردیتی ہے ۔آپ ؐنے فرمایا کہ:
ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اس کے اوپر ظلم نہیں کرتا ہے اور اسے تنہا نہیں چھوڑتا ہے جو شخص اپنے بھائی کی حاجت روائی میں مشغول ہوتا ہے خدا اس کی حاجت پوری کرتا ہے اور جو کسی مسلمان کا کوئی غم دور کر دیتا ہے خداقیامت کے دن اس سے قیامت کا غم دور کر دے گا۔اور جو کسی مسلمان کو لباس پہناتا ہے خدا قیامت کے دن اس کو لباس پہنائے گا۔
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔اس کی تعلیمات کا احیا اور معاشرے میں فروغ اور ایک اسلامی معاشرے کا قیام مسلمانوں کی آپس میں ہم بستگی اور وحدت سے ہی ممکن ہے۔
استعمار اور اسلام دشمن عناصر کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ مسلمانوں کے درمیان اختلاف اور انتشار پھیلائے اور کبھی امت ایک نکتہ پر متحد نہ ہوجائے۔اس لئے مختلف جزوی مسائل اور اختلاف کے ذریعے مسلمانوں کو اپنے اعلیٰ اہداف اور اصلی مقصد سے دور رکھنے کی کوشش کی جس میں ایک حد تک وہ وہ کامیاب ہوئے۔
آج جب کہ ہر طرف سے اسلام دشمن طاقتیں مختلف طریقوں سے مسلمانوں کی جان، مال،عزت وآبرو کے ساتھ کھیلنے میں مشغول ہیں ، چاہے وہ اسلامی ممالک پر ناجائز قبضوں کی صورت میں ہو یا اسلام، قرآن کی توہین کے ذریعے اور مسلمانوں کے وسائل کو لوٹنے کے ذریعے۔ آج فلسطین سمیت بہت سے اسلامی ممالک دشمنوں کے چنگل میں گرفتار ہیں اور ہر قسم کی زیادتی وہاں کے مسلمانوں کے ساتھ جاری ہے۔ ایسے میں امت کے درمیان اخوت،بھائی چارگی اور کفر کے خلاف متحد ہونے کے بجائے خود آپس میں دست وگریبان ہونالمحہ فکریہ ہے۔علماء اور دینی شخصیات کا امت کے درمیان،اتحاد ویکجہتی کی دعوت، صلح وصفائی اور حق وحقیقت پر مبنی دوٹوک مؤقف اپنانا بنیادی فریضہ ہے۔وحدت امت اور بھائی چارگی کی فضاء کو قائم رکھنے میں اپنا کردار ادا کریں،کیونکہ امت مسلمہ ایک نہایت مشکل دور سے گزر رہی ہے جہاں عالم استعمار نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک ثقافتی اور عملی جنگ قائم کی ہوئی ہے.اس سے مقابلہ کے لئے واحد ہتھیار وحدتِ امت ہے۔
مسلمان معاشرہ میں جہاں مشترکہ نکات پر گفتگو کے ذریعے وحدت تک پہنچنے کی ضرورت ہے وہاں اختلافی مسائل پرمناظرہ سمیت مختلف  منطقی کوششوں سے نتیجہ پر پہنچنے کی کوشش بھی مستحسن عمل ہے۔مگر زمانے کے تقاضوں ،معاشرے کی ذہنیت،مقام ومکان کی صورتحال کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے۔
فی الوقت داخلی اختلاف اور تنقید کافائدہ مسلمانوں کی کمزوری اور دشمن کے لئے فائدہ کاسبب بن رہاہے۔اس لئے قائدین کو ہوشیاری کے ساتھ اقدام اٹھانا وقت کی ضرورت ہے۔تاکہ امت مسلمہ اپنی توانائیوں کو امت کی سربلندی،مشترکہ دشمنوں کے عزائم کوناکام بنانے میں استعمال کرے۔اس وقت عالمی استکبار امریکہ اوراسرائیل کی شکل میں عالم اسلام کے خلاف برس رپیکار ہے۔

سکندر علی بہشتی

فلسطینی قیدیوں کی حمایت میں مظاہرہ کرنے والوں نے واشنگٹن میں اسرائیلی سفارت خانے پر درجنوں چمچے پھینکے ہیں۔

مظاہرین اسرائیلی جیل سے چمچے کے ذریعے سرنگ کھود کر فرار ہونے والے فلسطینی قیدیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے واشنگٹن میں اسرائیلی سفارت خانے کے سامنے جمع ہوئے تھے۔

یورپ اور بحیرہ روم ہیومن رائٹس واچ کے ‎سربراہ رامی عبدہ نے فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کے حوالے سے بالکل مختلف تصویر شیئر کی ہے۔

انہوں نے اس تصویر کے نیچے لکھا ہے کہ مظاہرین نے فلسطینی قیدیوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے درجنوں چمچے واشنگٹن میں اسرائیلی سفارت خانے پر پھینکے ہیں۔

واضح رہے کہ چھے فلسطینی چھے ستمبر کو مقبوضہ فلسطین کی انتہائی حفاظتی بندوبست والی جیل سے سرنگ کھود کر فرار ہوگئے تھے۔

اسرائیلی سیکورٹی اداروں نے ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے بعد ، چھے میں سے صرف چار فلسطینی قیدیوں کو دوبار گرفتار کرسکے ہیں۔

 

دوسری جانب امریکہ کی ڈائریکٹر نیشنل انٹیلی جنس ارویل ہینس کا کہنا ہے کہ افغانستان اب بین الاقوامی دہشت گردی کے لیے بڑا خطرہ نہیں رہا۔

امریکی ڈائریکٹر نیشنل انٹیلی جنس ارویل ہینس نے سالانہ انٹیلی جنس اور نیشنل سکیورٹی سمٹ میں شرکت کی جس دوران ان کا کہنا تھا کہ انٹیلی جنس کمیونٹی اب افغانستان میں دہشت گرد تنظیموں کی ممکنہ تشکیل نو پر نظر رکھ رہی ہے۔

ارویل ہینس کا کہنا تھا کہ افغانستان بین الاقوامی دہشت گردی کے لیے بڑا خطرہ نہیں رہا، عالمی سطح پر زیادہ خطرہ اب صومالیہ،یمن،عراق، شام اور خاص طور پر داعش سے ہے۔

ڈائریکٹر نیشنل انٹیلی جنس ارویل ہینس نے تسلیم کیا کہ امریکی انخلا کے بعد افغانستان سے ملنے والی انٹیلی جنس معلومات اب کم ہوگئی ہیں لیکن امریکہ کو افغان سرزمین سے دہشت گردی کا فی الحال خطرہ نہیں۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر سید ابراہیم  رئيسی اور روس کے صدر ولادیمیر پوتین نے ٹیلیفون پرگفتگو میں عنقریب ملاقات کرنے کی امید ظاہر کی ہے۔

اطلاعات کے مطابق روس کے صدر پوتین نے ایرانی صدر کو ٹیلیفون کیا اور کہا کہ میں کورونا وائرس میں مبتلا ہونے کی وجہ سے قرنطینہ میں جارہا ہوں اور میں نے حکم دیا ہے کہ دونوں ممالک کے صدور کے درمیان ملاقات کا پروگرام اولین فرصت میں طے کیا جائے۔

روسی صدر نے کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں ماسکو اور تہران کے درمیان تعاون اور مشترکہ طور پر اسپوٹنک ویکسین تیار کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان باہمی تعاون کا سلسلہ جاری رہےگا۔

ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی نے بھی باہمی گفتگو میں دونوں ممالک کے درمیان قریبی تعاون کو جاری رکھنے پر تاکید کی۔

عراق کے صوبہ القادسیہ میں امریکہ کے دو لیجسٹک کاروانوں کو حملوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

بغداد الیوم کی رپورٹ کے مطابق دہشتگرد امریکی فوج کے ان لیجسٹک کاروانوں پر منگل کو صوبہ قادسیہ کے دیوانیہ اور سمارہ اضلاع میں حملے کئے گئے ہیں۔ اب تک کسی بھی گروہ یا شخص نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔

حالیہ مہینوں میں عراق کے مختلف علاقوں میں کئی بار دہشتگرد امریکی فوج کے کاروانوں کو حملوں کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔

عراق کے مختلف علاقوں میں دہشتگرد امریکی فوجیوں پر حملوں کے باوجود واشنگٹن، عراق سے امریکی فوجیوں کے انخلاء سے متعلق اس ملک کی پارلیمنٹ کے بل پر عمل کرنے سے گریز کررہا ہے۔ غاصب امریکی فوجی دو ہزارتین سے عراق میں تعینات ہیں ۔

عراقی عوام ، اپنے ملک سے امریکی فوجیوں کے باہر نکلنے کے خواہاں ہیں ۔ عراقی پارلیمنٹ پانچ جنوری دو ہزاربیس کو اس ملک سے امریکی فوجیوں کے باہر نکلنے کا بل بھی منظور کرچکی ہے۔

افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے ملک میں وسیع البنیاد حکومت کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

 افغان آوا پریس کی رپورٹ کے مطابق سابق صدر حامد کرزئی نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ایک وسیع البنیاد حکومت ہی ملک میں امن و استحکام کی ضامن ہوسکتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ طالبان نے جو عبوری حکومت تشکیل دی ہے ، اس کے بارے میں بھی توقع تھی کہ وسیع البنیاد ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ اب بھی کوشش کی جارہی ہے کہ وسیع البنیاد حکومت تشکیل پائے۔

 سابق صدر حامد کرزئی نے کہا کہ عبوری حکومت کے اعلان کے بعد انھوں نے طالبان رہنماؤں سے بات چیت کی تو ان کا کہنا تھا کہ  کوشش ہورہی ہے کہ حکومت وسیع البنیاد ہو۔ سابق افغان صدر کا کہنا تھا کہ انھوں نے طالبان کو مشورہ دیا ہے کہ جلد سے جلد وسیع البنیاد حکومت بنائی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ افغان عوام، حکومت میں اپنی شمولیت کو جتنا زیادہ محسوس کریں گے  حکومت اتنی ہی مستحکم اور ملک میں ثبات و استحکام قائم کرنے پر قادر ہوگی۔

اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق میشل باشلہ نے کہا ہے کہ طالبان نے اپنے وعدوں پر عمل نہیں کیا اور افغانستان خطرناک مرحلے میں داخل ہوگیا ہے۔ اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے 48 ویں اجلاس سے خطاب میں طالبان پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان کے نزدیک افغان شہریوں کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے اور طالبان کے نزدیک  افغان عوام کی مشارکت اور آراء کی بھی کوئی حیثیت نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ طالبان عملی طور پر افغانستان میں جامع اور وسیع البنیاد حکومت کی تشکیل کے خلاف ہیں، اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے کہا کہ طالبان نے عبوری حکومت کو تشکیل دیکر اپنے مؤقف کو واضح کردیا ہے کہ وہ اپنے علاوہ کسی دوسرے کو برداشت نہیں کریں گے۔ طالبان کی حکومت میں خواتین کا بھی کوئی حصہ نہیں۔ اور ایسے معتبر  شواہد موجود ہیں کہ طالبان اپنے مخالفین اور سابق حکومت کے ساتھ تعاون کرنے والے افراد کو بے دردی کے ساتھ قتل کررہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی برائے انسانی حقوق کونسل کا اجلاس 8 اکتوبر تک جاری رہےگا۔

 جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے اپنے ایک ٹوئیٹر بیان میں  کہا ہے کہ انھوں نے برطانوی وزیر خارجہ سے ٹیلیفون پر گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ برطانیہ کو ایران کا پرانا قرضہ فوری طور پرادا کرنا چاہیے۔ امیر عبداللہیان نے اپنے ٹوئیٹر بیان میں مشترکہ ایٹمی معاہدے کو عملی جامہ پہنانے کے سلسلے میں یورپی ممالک کی عہد شکنی پر بھی شدید تنقید کی ہے۔ امیر عبداللہیان نے کہا کہ برطانوی وزير خارجہ پر واضح کیا ہے کہ افغانستان کی موجودہ صورتحال کا اصلی ذمہ د ار امریکہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ میں برطانوی وزیر خارجہ سے کہا ہے کہ برطانیہ کو ایران کا پرانا قرضہ فوری طور پر ادا کرنا چاہیے۔

مندرجہ بالا جملہ جب سے میں نے ایک عالم دین کی کتاب میں پڑھا تو ایک لگن پیدا ہو گئی کہ میں بھی امام کے بارے میں کچھ معلومات جمع کر کے مومنین کے بچوں کے لئے پیش کروں ۔آپ ؑ کے تمام اقدامات خواہ کسی صورت کے ہوں بالکل اسی طرح واجب الاحترام اورمطابق ِعقل و شرع ہیں جس طرح امام حسین ؑ کے تمام اعمال وافعال میزان ِ عقل و شرع میں نہایت موزوں اور قابل ِتعریف ہیں۔ صلح حسن نے دراصل امام حسین کی آنے والی قربانی اور ذبح عظیم کی گہری تاثیر کی داغ بیل ڈالی ۔ چنانچہ جب حسین ؑمظلوم کی شہادت عظمیٰ کا امام حسن ؑ کی شہادت کے دس سال بعد وقت آگیا تو امام حسین نے بڑی آن بان سے اس امتحان میں کامیابی حاصل کرلی تو اس درخت میں ثمر آیا جو امام حسن نے لگایاتھا۔اوراسلام کے بھیس میںاسلام کشی کا جو بھوت بنایا گیا تھا اس کا پردہ چاک ہو گیا۔اور دنیا والوں نے دیکھ لیا کہ محمد اور آل محمد ؑ کیا چاہتے ہیں اور سلطنتوں کا بہاو ¿ کس طرف تھا۔
امام حسن ؑ کی صلح شیعہ حضرات کے نزدیک کسی طرح بھی قابل اعتراض نہیں ۔وہ انہیں امام ۔جانشین رسول ۔ صاحب اعجاز ۔علم وہبی کے مالک مانتے ہیں۔ ایک بڑے عالم دین سے ان کے شاگردوں نے پوچھا کہ حسن ؑ اور حسین ؑ کی طرز زندگی بالکل مختلف بتائی جاتی ایک نے صلح اختیار کی اور دوسرے نے جنگ۔وہ بزرگ ایک موٹی سی چادر لے کر دریا پر گئے اور اس کو دریا کے پانی میں خوب اچھی طرح سے ڈبویا ۔اس کے بعد چونکہ پانی کے وزن سے چادر بہت بھاری ہو گئی تھی لہٰذا ایک شاگرد کو ایک سرا پکڑوایا اور خود دوسرا سرا پکڑا اور کہا اسے نچوڑو۔اب شاگر د ہاتھ دائیں طرف گھما کر پانی نچوڑ رہا تھا اور قبلہ کا ہاتھ ادہر سے اگر دیکھا جائے تو مخالف سمت میں چل رہا تھا تاکہ پانی نچوڑتا رہے ۔ جب چادر کا پانی نکل گیا تو مولانا نے شاگردوں سے پوچھا ۔کیا بات تم لوگوں کی سمجھ میں آئی۔ دیکھو چادر کو سکھانے کے لئے ایک کا ہاتھ CLOCKWISE اور دوسری سمت والے کا اس کی مخالف سمت میں چل رہا ہے مگر مقصد دونوں کا ایک ہی ہے کہ کپڑے سے پانی نکال دیا جائے۔اسی طرح سے دونوں شہزادوں کا ایک ہی مقصد تھا کہ نانا کے دین اسلام کو کسی طرح سے بچا لیا جائے ۔ایک نے صلح کا طریقہ استعمال کیا دوسرے نے کربلا میں روز عاشورہ جنگ کر کے اور قربانیاں دے کر اسلام کو بچایا۔ اور حسین ؑ بھی بھائی حسن ؑ کی ۰۵ ہجری میں شہادت کے بعد ۰۱ سال تک صبر کا مظاہرہ کرتے رہے۔
بحکم حق کہیں پر صلح کر لیتے ہیں دشمن سے کہیں پر جنگ ِ خاموشی جواب ِ جنگ ہوتی ہے
زمانہ یہ سبق لے فاطمہ ؑکے دل کے ٹکڑوں سے کہاں پر صلح ہوتی ہے کہاں پر جنگ ہوتی ہے
امام حسن ؑ ایک ایسے ہادی اور رہنما تھے کہ جنہوں نے بچپن ہی سے دین کی تبلیغ اور رہنمائی کا کا م شروع کر دیا تھا۔ آپ نے ایسے کارہائے نمایاں انجام دئیے کہ سرکار رسالت کو گود میں لے کر کہنا پڑا کہ یہ دونوں میرے فرزند امام ہیں چاہے کھڑے رہیں یا بیٹھ جائیں ۔ یہ دونوں جوانان ِ جنت کے سردار ہیںاور ان کا باپ ان سے بھی افضل ہے ۔ اب اگر امت کے بوڑھے بھی جنت میں جانے کے خواہش مند ہوں گے تو ان کو ان شہزادوں کو جنت کا سردار ماننا پڑے گا اور ان کے بابا کو افضل ماننا پڑے گا۔جنت ان کے قبضے میں ہے اور کوثر ان کے باپ کے قبضے میں ہے۔ ان کی ماں خاتون جنت ہے ۔ ان سے واسطہ رکھنا ہی پڑے گا. جب ہی تو اصحاب کبار اپنے بچوں کی شکایت کے جواب میں کہا کرتے تھے کہ اگر حسن ؑ ابن علی ؑ تم کو غلام زادہ کہتے ہیں تو ان سے لکھوا لاو ¿۔ہم ان کے غلام بن کر جنت میں چلے جائیں گے۔
شہزادہ ءصلح و امن ۔۔سردار جوانان ِ جنت ۔ سبط رسول ۔جانِ بتول۔ علی ؑ کا لاڈلا۔امام امت ۵۱ رمضان ۳ ہجری کو اس دنیا میں تشریف لائے۔۷ سال رسول کے زیر سایہ گزارا۔ نانا کے بعد ۰۹ دن یا ۵۷ دن خاتون جنت کا ساتھ رہا۔ماں کے بعد ۰۳ سال کا عرصہ بابا علی ِ ؑمرتضیٰ کے ساتھ گزارا۔ سنہ ۰۴ ہجری میں باپ کی شہادت کے بعد دس سال تک بیٹھ کر دین اسلام کی خدمت کی۔جن میں آپ کے چھوٹے بھائی امام حسین ؑ شریک کار رہے۔۷۴ سال کی عمر میںمعاویہ ابن سفیان نے جعدہ بنت اشعث کے ذریعے زہر دے کر آپ کو شہید کر دیا ۔آپ کی شہادت کی تاریخ وہی ہے جو نانا رسول خدا کی تھی یعنی ۸۲ صفر ۰۵ ہجری۔
رسول ٓللہ نے اپنے قول وفعل سے امام حسن ؑ کے فضائل بیان کئے ہیں۔نواسہ مسجد میں آجائے تو منبر سے اتر کر گودی میں بٹھا لیا کرتے تھے۔سجدے میں آجائے تو سر نہ اٹھاتے تھے۔عید کا دن تھا تو کاندھے پر بٹھا کر ناقہ بن گئے۔مباھلے کادن آیا تو انگلی پکڑ کر لے چلے۔تطہیر کی منزل آئی تو گلے سے لگا کر ضعف رسالت کو قوت میں تبدیل کر دیا۔ عید کا دن آیا تو بیٹی زہرا ؑ کی دہلیز پر بیٹھ کر امام حسن ؑ کے دہن اقدس کے بوسے لئے۔اور ہرنی کا بچہ آیا تو اسے شہزادے کے حوالے کر دیا۔
امیر امومنین ؑ علی ؑ ابن ابی طالب ؑ کے زمانے میں بھی اگر کوئی مسئلہ پوچھنے آتا تو آپ ؑ امام حسن ؑ سے ہی جواب دلواتے تھے۔سب ہی کی کتابوں میںہے کہ امام حسن ؑ گہوارہ سے ہی لوح محفوظ کا مطالعہ کیا کرتے تھے۔
امام حسن ؑ کے کردار پر نظر کی جائے تو اخلاق میں نبی کا انداز نظر آتا ہے ۔کردار میں علی ؑ کا انداز۔شجاعت میں ھاشم ؑ کا جلال ۔استقلال میں ابو طالب ؑ کے تیور ۔ ایمان و یقین میں عبدالمطلب ؑ کا نقشہ۔ خاندان کی عزت ۔ بزرگوں کی یادگار۔مذہب کا ذمہ دارا۔ اسلام کا خطیب۔صلح کا نقیب۔قرآن کامفسر۔اُمت کا مصلح۔کعبہ کا محافظ۔ اور سیرت رسول کا ایسا ورثہ دار کہ کہ ہجوم ِ مصائب میں طعن و طنز کے باوجود حدیبیہ کی تاریخ دہرا کر صلح کر لی اور اسلام کو ایک بڑے خطرے سے بچالیا۔قدرت کو یہ ادا اتنی پسند آئی کہ دونوں کی تاریخ وفات کو ایک کر دیا ۔ یعنی ۸۲ صفر۔ جس تاریخ کو پہلا مصلح دنیا سے گیا تھا اسی تاریخ کو دوسرا شہزادہ صلح بھی دنیا سے رخصت ہوا۔
قرآن مجید کی آیتیں اور مرسل اعظم ؑکے ارشادات امام حسن کی عظمت کی گواہی دے رہے ہیں ۔ آیة تطہیر عصمت کا اعلان کر رہی ہے۔ آیت مباھلہ صداقت کا اعلان کر رہی ہے۔ آیت صلح کردار پر روشنی ڈال رہی ہے ۔اور سورة دہر آپ کی سخاوت کا قصیدہ پڑھ رہی ہے ۔امام حسن امام معصوم ہیں ان کا ہر قول و فعل ، حرکت و سکون میزان عصمت میں تلا ہوا ہے۔، اور اعتراض سے بالا تر ہے۔ مستحق اتباع و تحسین ہے ممکن ہے کہ ہماری سمجھ میں کسی فعل کی مصلحت نہ آتی ہو۔
آئمہ علیہم السلام کے علم اللہ کے خاص عطا کردہ تھے انہوں نے کسی اسکول میں نہیں پڑھا تھا۔ ایک دفعہ بادشاہ روم نے حاکم ِ شام سے دو سوال کے جواب مانگے تھے وہ عاجز آگیا تو اس نے مسئلے کو امام حسن ؑ کے سامنے پیش کیا اور آپ نے بتا دیا کہ زمین پر وہ جگہ جو آسمان کے ٹھیک وسط میں واقع ہے وہ پشت ِ خانہ ءکعبہ ہے ۔ اور زمین کا وہ خطہ جس پر سورج کی روشنی صرف ایک بار پڑی وہ نیل کی گہرائی ہے جس پر ایک دفعہ حضرت موسیٰ کے گزرتے ہوئے سورج کی روشنی پڑی تھی اور اس کے بعد پھر دریا حائل ہوگیا۔
امام حسن ؑ کا دستر خوان مدینہ منورہ میں بہت مشہور تھا ۔ ایک شخص مہمان آیا اورجب وہ کھانے بیٹھا تو ایک لقمہ کھاتا تھا اور ایک لقمہ بچا کر رکھ لیتا تھا ۔امام نے فرمایا تو صاحب عیال ہے َ؟ اس نے کہا۔ نہیں ۔ میں نے مسجد میں ایک شخص کو جو کی سوکھی روٹیاں کھاتے دیکھا ہے چاہتا ہوں کہ اس کی بھی کچھ مدد کر دوں۔ امام نے فرمایا ۔ بھئی وہ میرے با با علی ؑ مرتضےٰ ہیں ۔ان کی زندگی کا یہی معمول ہے ۔ہم اہل بیت جو دنیا کو کھلاتے ہیں وہ اور ہوتا ہے اور جس پر خود اپنی زندگی گزارتے ہیں وہ اور ہوتا ہے۔ہمارے لئے نعمتوں کا دسترخوان اللہ نے آخرت میں بچھایا ہے۔
ایک دفعہ معاویہ نے مدینہ آکر اعلان کیا کہ لوگ بادشاہ کو آکر سلام کریں اور بادشاہ سب کو انعام و اکرام تقسیم کرے گا۔ یہانتک کہ امام حسن ؑ کو اس کے کارندے مجبور کر کے اس کے پاس لے آئے۔ امام حسن جب پہنچے تو اس نے ارکان سلطنت سے کہا کہ حسن اس لئے دیر سے آئے ہیں کہ میرا خزانہ ختم ہو جائے۔ لہذا میں نے بھی فیصلہ کیا ہے کہ صبح سے سارا دن جتنا مال ،سارا اہل مدینہ کو انعام دیا ہے اس سے زیادہ ان کو دوں۔ یہ کہہ کر اس نے خزانہ منگوایااور کہا یہ آپ کا حصہ ہے۔ امام جب جانے لگے تو معاویہ کے ایک ملازم نے آپ کی جوتیاں سیدھی کر دیں ۔مولا نے حکم دیا کہ یہ سب دولت میری جوتی سیدھی کرنے کے عوض اس ملازم کو دے دی جائے۔ مولا کی سخاوت پر حضرت معاویہ کا منہ حیرت سے کھلا کا کھلا رہ گیا۔

مؤلف: سید نزر عباس ذرائع: MATAMDARI.COM

شہادت امام حسن

 امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ امام حسن اپنے اہلبیت سے فرمایا کرتے تھے کہ میں بھی زہر سے اسی طرح شہید کیا جاو ¿ں گا جس طرح رسول ِ خدا ۔ لوگوں نے پوچھا ایسا کام کون کرے گا ۔آپ نے فرمایا میری زوجہ جعدہ بنت اشعث بن قیس۔معاویہ اس کے پاس پوشیدہ طریقے سے زہر بھجوائے گا اور حکم دے گا کہ وہ مجھ کو کھلا دے۔۔۔۔۔(جلاءالعیون ۔قطب راوندی) ۔۔جعدہ سے یہ معاویہ نے وعدہ کیا تھا کہ تجھ کو ایک لاکھ درہم دوں گا اور اپنے بیٹے یزید سے تیری شادی کر دوں گا۔ (مروجالذہب مسعودی)
معاویہ نے امام حسن ؑ کو زہر دینے کے بعد علیٰ الاعلان خوشی منائی اور آواز ِ تکبیر بلند کی۔ امام کا جنازہ جب قبر رسولؑ پر لے گئے تو انتہائی دردناک منظر پیش آیا جس پر مومنین قیامت تک روئیں گے۔ بلکہ انسانیت ماتم کرے گی۔مردہ جسم پر تیروں کی بارش کی گئی حتیٰ کہ میت کے جسم سے متعدد تیر نکالے گئے۔امام کو اپنے نانا کے پہلو میں دفن نہیں کرنے دیا گیا ۔ اور آپ کو جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔