سلیمانی
فوجی شعبے میں ایران کا پہلا فضائی قدم
تحریر: رضا اصلانی
چند روز پہلے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ایران نے کامیابی سے اپنا پہلا فوجی سیٹلائٹ فضائی مدار میں قرار دے دیا ہے۔ یہ فوجی شعبے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی بہت بڑی کامیابی قرار دی جا رہی ہے۔ اس فوجی سیٹلائٹ کا نام "نور" ہے اور اسے "قاصد" نامی لانچر کے ذریعے فضا میں بھیجا گیا ہے۔ دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ لانچر اور سیٹلائٹ دونوں مکمل طور پر ایران کے تیار کردہ ہیں۔ نور سیٹلائٹ کو زمین سے 425 کلومیٹر کے فاصلے پر اپنے مدار میں قرار دیا گیا ہے۔ لانچنگ پیڈ سے فائر ہونے کے 90 منٹ بعد ہی نور سیٹلائٹ نے زمین پر سگنل بھیجنا شروع کر دیے تھے جس سے یقین ہو گیا کہ یہ سیٹلائٹ کامیابی سے اپنے مدار میں چلا گیا ہے۔ اس بارے میں ایک انتہائی اہم نکتہ یہ ہے کہ نور سیٹلائٹ کو فضا میں بھیجنے کیلئے جس لانچر کا استعمال کیا گیا اس کے بالائی حصے میں ٹھوس ایندھن کی ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے جو دنیا کی جدید ترین ٹیکنالوجی تصور کی جاتی ہے۔ یہاں یہ نکتہ بھی لازم الذکر ہے کہ ٹھوس ایندھن سے کام کرنے والے انجن کو کنٹرول کرنا بہت مشکل ہے اور اس کیلئے اعلی فنی صلاحیتوں کی ضرورت ہے۔
اس وقت دنیا میں بہت کم ایسے ممالک ہیں جو فضا میں سیٹلائٹ بھیجنے کیلئے ٹھوس ایندھن والے انجن کے حامل لانچر کا استعمال کرتے ہیں۔ اس ٹیکنالوجی کے حامل چند ایک لانچرز میں سے جاپان کا ایسیلیون لانچر، یورپین اسپیس ایجنسی کا ویگا لانچر اور امریکہ کے پاس موجود فوجی سیٹلائٹس فضا میں بھیجنے کیلئے مینماٹین لانچر قابل ذکر ہیں۔ ٹھوس ایندھن استعمال کرنے والے لانچرز کے شعبے میں جاپان سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک تصور کیا جاتا ہے۔ یوں اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے ٹھوس ایندھن سے کام کرنے والے لانچر "قاصد" کا استعمال فضائی شعبے میں ٹیکنالوجی کی اٹھان ہے۔ خاص طور پر جب ہم دیکھتے ہیں کہ ایران اس سے پہلے دو بار فضا میں سیٹلائٹ بھیجنے کی کوشش کر چکا ہے لیکن ناکام رہا ہے۔ دونوں بار اصل مسئلہ لانچر کے بالائی حصے میں تھا۔ لیکن فضا میں سیٹلائٹ بھیجنے کے حالیہ کامیاب تجربے کے بعد ایران اس مسئلے پر بھی قابو پانے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ اس وقت زمین کے اردگرد مختلف مداروں میں تقریباً دو ہزار سے زائد سیٹلائٹ موجود ہیں۔ لیکن ان میں سے بہت کم تعداد ایسے سیٹلائٹس کی ہے جنہیں باقاعدہ طور پر فوجی سیٹلائٹ قرار دیا گیا ہے۔
اس وقت جو فوجی سیٹلائٹس فضا میں موجود ہیں ان کی اکثریت امریکہ یا نیٹو نے فوجی مقاصد کیلئے فضا میں بھیج رکھا ہے۔ یہ نکتہ بھی شاید آپ کیلئے دلچسپ ہو کہ فضا میں موجود بین الاقوامی فضائی اسٹیشن بھیجے جانے والے بعض امریکی خلابازوں کو بھی فوجی نوعیت کی ذمہ داریاں سونپی جاتی ہیں۔ اسی طرح اس فضائی اسٹیشن پر امریکی اور روسی انٹیلی جنس، سکیورٹی اور فوجی اداروں نے بھی بڑی تعداد میں جاسوسی کے آلات نصب کر رکھے ہیں۔ ایران کی جانب سے فضا میں بھیجے جانے والا نور سیٹلائٹ اگرچہ فوجی اداروں سے متعلق ہے لیکن محض فوجی مقاصد سے مخصوص نہیں۔ نور سیٹلائٹ غیر فوجی مقاصد کیلئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے اور قدرتی آفات یا ماحولیات کے بارے میں بھی مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ فضا کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں تک رسائی حاصل کرنے کیلئے ایک ملک کو کسی دوسرے ملک کی اجازت درکار ہو۔ لیکن امریکہ اور دیگر عالمی طاقتیں فضائی ٹیکنالوجی کو اپنے ساتھ مخصوص رکھنا چاہتی ہیں اور دیگر ممالک کو اس شعبے میں داخل ہوتا نہیں دیکھ سکتیں۔ امریکہ اب تک کئی ممالک کی جانب سے فضا میں سیٹلائٹ بھیجنے کی راہ میں رکاوٹیں ایجاد کر چکا ہے جن میں جنوبی کوریا اور چین سرفہرست ہیں۔
امریکہ نے جنوبی کوریا کو فضائی شعبے میں ایک سے زیادہ تجربہ کرنے کی اجازت نہ دی۔ یہ ایک تجربہ بھی جنوبی کوریا کے دباو اور سیاسی عزم کا نتیجہ تھا۔ دوسری طرف چین نے 2007ء میں اپنا پہلا سیٹلائٹ فضا میں بھیجا۔ چین نے امریکہ کو خبردار کیا کہ وہ فضائی شعبے میں ترقی کی راہ پر چلنے کیلئے پرعزم ہے اور اگر امریکہ نے اس کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی تو اسے بھاری تاوان ادا کرنا پڑے گا۔ اب سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ایران کی جانب سے کامیابی سے پہلا فوجی سیٹلائٹ فضا میں بھیجنا دنیا والوں کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ ایران نے جدید ٹیکنالوجی کی چوٹی پر پہنچنے کا عزم راسخ کر رکھا ہے۔ دوسری طرف ایران نے اس بات پر بھی تاکید کی ہے کہ قاصد لانچر میں زیر استعمال ٹیکنالوجی اس کے میزائل پروگرام میں مفید ثابت نہیں ہو سکتی کیونکہ اصولی طور پر بین البراعظمی میزائلوں کی تیاری ایران کی دفاعی پالیسی کا حصہ نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نور سیٹلائٹ سائنس و ٹیکنالوجی کے تمام شعبوں میں ترقی کیلئے مفید واقع ہو گا۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے شدید اقتصادی پابندیوں کے باوجود یہ عظیم کامیابی حاصل کر کے ثابت کر دیا ہے کہ جو قوم اپنے پاوں پر کھڑی ہوتی ہے اسے دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔
اولاد کی تربیت میں محبت کا کردار
امریکہ نے غیر انسانی اقدامات کے ذریعہ دنیا میں کورونا وائرس پھیلانے میں مدد کی
حزب اللہ لبنان کے نائب سربراہ شیخ نعیم قاسم نے المنار کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ امریکہ نے اپنے نامعقول اور غیر انسانی اقدامات کے ذریعہ دنیا میں کورونا وائرس پھیلانے میں مدد کی ہے۔ مہر کے مطابق حزب اللہ لبنان کے نائب سربراہ نے اپریل سن 1996 میں جنوب لبنان پر اسرائیلی حملے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ لبنانی حکومت ، لبنانی قوم اور لبنانی فوج نے باہمی اتحاد ، یکجہتی اور استقامت کے ساتھ اسرائيل کو جنوب لبنان سے خارج ہونے پر مجبور کردیا۔ شیخ نعیم قاسم نے کہا کہ جنوب لبنان سے اسرائیلی فوج کا انخلا درحقیقت اسرائیل کی شکست کا آغاز اور اسلامی مزاحمت کے استحکام اور پائداری کا مظہر ہے۔ انھوں نے کہا کہ اگر اسرائیل مزید کوئي حملہ کرتا ہے تو اسے منہ توڑ اور دنداں شکن جواب دیا جائےگا۔ مہر کے مطابق شیخ نعیم قاسم نے دنیا میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ غیر انسانی طریقہ سے امریکہ کے اندر اور باہر کورونا وائرس کے پھیلنے میں مدد فراہم کررہا ہے۔ امریکہ کی ظالمانہ اور غیر انسانی پابندیاں کورونا وائرس کے پھیلنے میں مددگار ہیں ۔ امریکہ کے صدر پہلے کورونا وائرس کو چينی وائرس قراردیتے رہے اور کورونا وائرس کا مذاق کرتے رہے اور امریکی صدر کے غیر سنجیدہ اقدامات کی وجہ سے آج امریکی عوام کو شدید نقصان اور پریشانی کا سامنا ہے۔ شیخ نعیم قاسم نے کہا کہ امریکہ کورونا وائرس کے سلسلے میں ہونے والے تجربات کو اپنے کنٹرول میں لینے کی تلاش و کوشش کررہا ہے۔ حزب اللہ لبنان کے نائب سربراہ نے لبنان میں حزب اللہ کی طرف سے کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے کے سلسلے بہترین اقدامات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں حزب اللہ کا لبنانی حکومت کے ساتھ قریبی تعاون جاری ہے۔
امریکی پابندیوں کے نرغے میں سربلند "جمہوری اسلامی ایران"
ہر فرعون کے لئے ایک موسیٰ ہوا کرتا ہے۔ 1979ء تک امریکہ مشرق وسطیٰ کا فرعون بنا رہا، اسے کوئی روک ٹوک نہ تھی، اپنی مرضی سے آنا، اپنی مرضی سے جانا۔ مشرق وسطیٰ خصوصاً ایران کو وہ اپنی چھاونی سمجھتا تھا، جہاں کوئی اسے کوئی للکار نہیں سکتا تھا۔ خطے کے بڑے بڑے حکمران اس کے مقابل کھڑا ہونے کی جرات نہیں رکھتے تھے۔ شاہِ ایران خطے میں امریکی پولیس مین کا کردار ادا کر رہا تھا۔ سب کچھ امریکی مفادات کے حوالے سے اچھا چل رہا تھا کہ اچانک حالات نے پلٹا کھایا، 11 فروری 1979ء کا سورج انقلاب اسلامی کی نوید لیکر طلوع ہوا۔ مشرق وسطیٰ میں امریکی مفادات پہ کاری ضرب پڑی۔ امام خمینی موسیٰ کے روپ میں فرعونِ زمان کے مقابل کھڑے ہوگئے۔ امریکی پولیس مین راہ فرار اختیار کرچکا تھا۔ امریکہ اور اس کے حواری سمجھ گئے کہ جب تک خمینی و فرزندانِ خمینی موجود ہیں، خطے میں ہماری کامیابی ممکن نہیں۔ اسلام دشمنان سر جوڑ کر بیٹھ گئے کہ اس مشکل کا توڑ کیسے نکالا جائے۔
یہاں یاد دلاتا چلوں کہ موجودہ دور میں جس ملک و ملت پہ غلبہ کرنا مقصود ہو، اس پہ بجائے اس کے کہ جنگی جہازوں سے حملے کئے جائیں یا میزائل برسائے جائیں، اس کی اقتصاد پہ حملہ کیا جاتا ہے۔ اقتصادی لحاظ سے پابندیاں عائد کی جاتی ہیں، اس ملک کی معیشت کو تباہ کرکے اسے جھکنے پہ مجبور کیا جاتا ہے۔ لیکن انقلابِ اسلامی کا خطرہ امریکہ کے لئے اتنا بڑا تھا کہ اس نے دونوں طرف سے حملہ آور ہونے کا منصوبہ بنایا۔ ایک طرف جمہوری اسلامی کا اقتصادی پابندیوں سے گھیراو شروع کیا تو دوسری جانب صدام کے ذریعے ایران پہ حملہ آور ہوا۔ تاریخ گواہ ہے کہ ایران پر اقتصادی پابندیوں کا آغاز 1980ء سے ہوا، جب ایک طرف 22 مئی 1980ء کو امریکہ نے ایران کا اقتصادی گھیراو شروع کیا، دوسری طرف اپنے ایجنٹ صدام کے ذریعے 22 ستمبر 1980ء کو ایران پر ایک ایسی جنگ مسلط کی، جس کے نہ صرف یہ کہ دونوں مسلمان ممالک بلکہ مشرق وسطیٰ بھی قطعی طور پر ایسی کسی جنگ کا متحمل نہیں تھا۔ دونوں طرف سے بے گناہ انسان مارے جانے لگے۔
امریکہ نے دونوں جانب سے اپنا کھیل جاری رکھا۔ صدام اور صدامیوں کو اسلحہ بھی پہنچاتا رہا جبکہ دوسرے محاذ پہ ایران کو سخت ترین پابندیوں میں جکڑنے کا عمل بھی جاری رکھا۔ ان پابندیوں میں مزید سختی 1995ء میں دیکھنے میں آئی، جب بل کلنٹن نے امریکی تیل و گیس کمپنیوں کو ایرانی تیل کمپنیوں کے ساتھ معاہدے کرنے سے روک دیا۔ سال 2001ء میں ان پابندیوں میں تسلسل کے ساتھ ساتھ ایک تبدیلی یہ آئی کہ پہلے صرف ایرانی سرکاری افراد اور کمپنیوں کا گھیراو کیا جاتا تھا، اب غیر سرکاری افراد اور ادارے بھی ان پابندیوں کی زد میں آنے لگے۔ اس تبدیلی کی ایک اہم وجہ یہ تھی کہ ایران کا نیوکلیئر پروگرام جو آٹھ سالہ زبردستی مسلط کی گئی جنگ کی وجہ سے کمزور پڑ چکا تھا، اس میں دوبارہ طاقت آچکی تھی اور اس پہ زور و شور سے کام جاری تھا۔ طاقت کے توازن میں تبدیلی دیکھتے ہوئے امریکہ نے بھی پینترا بدلا اور غیر سرکاری افراد و کمپنیاں بھی اب زیرِ عتاب آنے لگے امریکہ کی دیکھا دیکھی اور اس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے یورپی یونین اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی انقلابِ اسلامی کو اپنے لئے بہت بڑا خطرہ سمجھتے ہوئے ایران پہ اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں، لیکن انقلاب کا جو بیج امام راحل نے بویا تھا، وہ اب ایک تن آور درخت بن چکا تھا۔
جمہوری اسلامی ایران نے رہبرِ حکیم کی سرپرستی میں اس شدید ترین اقتصادی محاصرے میں بھی ترقی کا عمل جاری و ساری رکھا۔ خود رہبرِ انقلاب، ان کے مشیران اور ایرانی وزیر خارجہ سمیت متعدد اہم افراد ان غیر قانونی و غیر انسانی پابندیوں کا شکار ہوئے، لیکن رہبرِ انقلاب نے ہمیشہ یہی فرمایا "محنت جاری رکھیں، یہ پابندیاں ہمارے لئے نعمت ثابت ہونگی۔" اوباما دور میں مذاکرات کا ڈھونگ رچا کر ایران کے ساتھ ایک معاہدہ تشکیل دیا گیا، جسے ٹرمپ نے آتے ہی منسوخ کیا اور یوں ٹرمپ دور میں جمہوری اسلامی پر پابندیوں کا شدید ترین دور شروع ہوا۔ 2018ء میں ٹرمپ انتظامیہ نے ایران کو دوائیں اور طبی آلات سپلائی کرنے پر پابندی عائد کر دی۔ بقول رہبر معظم انقلاب بظاہر پینٹ کوٹ پہنے اور خوشبو و ٹائی لگائے بظاہر مہذب نظر آنے والے اندر سے کتنے غیر مہذب ہیں، جنہیں دوائوں کے نہ ہونے کے باعث انسانی جانوں کے ضیاع کا کوئی احساس نہیں۔
اسوقت جبکہ دنیا بھر میں کورونا وائرس کا قہر جاری ہے، تقریباً 18 لاکھ افراد اس سے متاثر ہوچکے، جبکہ ایک لاکھ سے زائد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ جمہوری اسلامی ایران جو پہلے سے ان غیر قانونی و غیر انسانی پابندیوں کی زد میں تھا، کورونا کا شکار ہوا۔ 70 ہزار سے زیادہ افراد کورونا کا شکار ہوئے، جس میں سے چار ہزار سے زیادہ جان دے چکے ہیں، شدید ترین پابندیوں کے نرغے میں ہونے کے باوجود مریضوں کا علاج کامیابی سے جاری ہے۔ تقریباً 42 ہزار افراد اس وائرس سے صحتیاب ہوچکے ہیں۔ کورونا کے اوج کے دنوں میں بھی ایران میں غذائی اشیاء سمیت کسی چیز کی کمی محسوس نہیں کی گئی۔ عام دکانوں سے لیکر سپر مارکیٹس تک سب کچھ آسانی سے مل رہا تھا۔ یورپ، امریکہ و برطانیہ کا حال سب کے سامنے ہے۔ بڑی بڑی مارکیٹیں خالی ہوچکی ہیں۔ لوگوں کو غذائی اشیاء بھی نہیں مل رہیں۔
لیکن ان بدترین حالات میں بھی امریکی بدمعاشی جاری ہے، ہر چند ہفتوں بعد نئی پابندیاں لگ رہی ہیں، جبکہ پاکستان، روس، چین اور اقوام متحدہ سمیت متعدد ممالک و شخصیات امریکہ کی اس اقتصادی دہشتگردی کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ بہرحال جمہوری اسلامی ایران اپنے رہبرِ عظیم الشان حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کی قیادت و سرپرستی میں سربلند ہے۔ ان کا حکیمانہ قول حرف بہ حرف سچ ثابت ہو رہا ہے، پابندیاں نعمت بن چکی ہیں، جمہوری اسلامی تنِ تنہا کورونا وائرس کو شکست دینے کے انتہائی قریب پہنچ چکا ہے۔ بقول شاعر۔۔۔۔۔وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے
اہل بیت(ع) فاؤنڈیشن آف انڈیا کی جانب سے ضرورتمند مومنین کے درمیان اشیائے خوردنی تقسیم+
دنیا بھر میں کورونا وائرس (Covid-19) کے پھیلاؤ کی وجہ سے ایک لاکھ سے زیادہ افراد اس بیماری سے متاثر ہو چکے ہیں جبکہ ہزاروں اپنی جانیں گنوا بیٹھے ہیں۔
اس دوران بھارت میں بھی ۲۱ دن کے لیے لاک ڈٓاؤن جاری ہے جس کی وجہ سے تمام لوگ اپنے گھروں میں بند ہیں۔
ایسے دشوار حالات میں لاکھوں کی تعداد میں غریب و فقیر افراد جو روزانہ کی محنت و مزدوری سے اپنا اور اپنے اہل و عیال کا پیٹ بھرتے تھے بے روزگار ہو چکے ہیں اور تنگدستی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اہل بیت(ع) فاؤنڈیشن آف انڈیا نے ایک قابل قدر کاوش انجام دے کر کچھ بے سہارا مومنین کو امداد رسانی کی ہے اور کئی علاقوں میں اشیائے خوردنی کو مومنین تک پہنچایا ہے۔
فاؤنڈیشن کے صدر حجۃ الاسلام سید سرور عباس نقوی نے اس بارے میں کہا: تا حال ۲۰۰ سے زائد اشیائے خوردنی پر مشتمل پیکیج ضرورتمند مومنین کے گھروں پر پہنچائے جا چکے ہیں اور یہ سلسلہ ماہ مبارک کے آخر تک جاری رہے گا۔
آیت اللہ سید ابراہیم رئيسی : غزہ دنیا کا سب بڑا قید خانہ / غزہ کا محاصرہ اسرائیل کا ظالمانہ اقدام
ایرانی عدلیہ اور انسانی حقوق کونسل کے سربراہ آیت اللہ سید ابراہیم رئيسی نے فلسطینی تنظیم حماس کے سیاسی شعبہ کے سربراہ اور سابق وزیر اعظم اسماعیل ہنیہ کے ساتھ ٹیلیفون پر گفتگو میں غزہ کو دنیا کا سب سے بڑا قید خانہ قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل کی قید میں 5800 فلسطینی قیدی موجود ہیں جن میں 200 خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
ایرانی عدلیہ کے سربراہ نے بیت المقدس کی آزادی کو ایران اور مسلمانوں کی سب سے بڑی آرزو قراردیتے ہوئے کہا کہ آج اسرائیل نے غزہ کا ظالمانہ محاصرہ کررکھا ہے اور اسرائیل کا یہ ظالمانہ اقدام ناقابل قبول اور انسانی کرامت کے خلاف ہے۔
انسانی حقوق کونسل کے سربراہ نے غزہ میں طبی وسائل اور ادویات میں کمی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کا فلسطینیوں کے خلاف ظالمانہ اقدام بشریت کے خلاف جارحیت اور بربریت ہے غزہ کے فلسطینی مسلمانوں ابتدائی انسانی حقوق سے بھی محروم ہیں۔
ایرانی عدلیہ کے سربراہ نے کہا کہ آج شہید سلیمانی زندہ ہے دنیا کے گوشہ گوشہ میں کئی ملین سلیمانی موجود ہیں جو اپنی ذمہ داری پر عمل پیرا ہیں ۔آج ہر ایرانی، ہر لبنانی ، ہر فلسطینی اور ہر عراقی اسرائیل اور عالمی سامراجی طاقتوں کے خلاف سپاہ اسلام کے عظيم کمانڈر شہید سلیمانی کی ذمہ داری کو اپنے دوش پر اچھی طرح محسوس کررہا ہے۔
فلسطینی تنظیم حماس کے سابق وزیر اعظم اور سیاسی شعبہ کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے مسئلہ فلسطینی کے بارے میں ایرانی حکومت اور عوام کی بصیرت، آگاہی ، بیداری اور رہبر معظم انقلاب اسلامی کی طرف سے فلسطینی عوام کی بھر پور حمایت کو سلام پیش کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوں پراسرائيل کے بے رحمانہ مظالم اور عرب حمکرانوں کی مسئلہ فلسطین کے بارے میں سازش ،غفلت اور سستی کو تاریخ میں یاد رکھا جائےگا۔
کورونا وائرس نے امریکہ میں تباہی مچادی/ ایک ہی دن میں 2 ہزار افراد ہلاک
امریکہ میں گذشتہ 24 گھنٹوں میں 2 ہزار افراد کی ریکارڈ ہلاکتوں کے بعد کورونا وائرس سے مجموعی ہلاکتوں کی تعداد 18 ہزار 693 تک پہنچ گئی ہے۔ اطلاعات کے مطابق امریکہ پہلا ملک ہے جہاں کورونا وائرس سے ایک ہی دن میں 2 ہزار افراد ہلاک ہوگئے ہیں جبکہ کورونا وائرس میں مبتلا افراد کی تعداد 5 لاکھ سے زائد ہوگئی ہے۔ ذرائع کے مطابق امریکہ ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد میں بھی اٹلی کو پیچھے چھوڑ دےگا۔ اس وقت اٹلی میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 18 ہزار 849 ہے جبکہ امریکہ میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 18 ہزار 693 ہے اور اس طرح اٹلی اسوقت 200 افراد سے اگے ہے۔ اطلاعات کے مطابق امریکہ کچھ ہی گھنٹوں نے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد کے لحاظ سے اٹلی سے آگے بڑھ جائےگا۔ ذرائع کے مطابق دنیا پر دھونس جمانے والا امریکہ کورونا وائرس کے سامنے بے بس نظر آرہا ہے۔ امریکہ کو طبی وسائل کی شدید کمی کا سامنا ہے
امریکہ کو اپنی سرزمین پر مزید قبضہ برقرار رکھنے کی اجازت ہرگز نہیں دیں گے، حشد الشعبی
عراقی سرکاری افواج میں شامل عوامی مزاحمتی فورس حشد الشعبی نے جاری ملکی حالات پر غور و خوض کے بعد اپنے تمام ذیلی بریگیڈز اور عراقی مزاحمتی فورسز کے ہمراہ ایک مشترکہ بیان جاری کیا ہے جس میں عراقی صدر کی طرف سے وزارت عظمی کے لئے تازہ چنے گئے امیدوار "عدنان الزرفی" کی نامزدگی کو مسترد کرتے ہوئے تاکید کی گئی ہے کہ عراق کے اندر موجود غیرملکی قابض فورسز عراقی سرزمین سے فی الفور نکل جائیں۔ عراقی نیوز چینل السومریہ نے اس حوالے سے کہا ہے کہ پارلیمنٹ میں امریکی فورسز کے انخلاء پر مبنی قرارداد کے منظور ہو جانے کے بعد عراقی عوام نے اس قرارداد کی حمایت میں متعدد ملین مارچ منعقد کر کے اس پر مہر رضایت ثبت کر دی تھی۔
عراقی مزاحمتی فورس حشد الشعبی کے مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ عراق سے امریکی فورسز کے فوری انخلاء کے عوامی فیصلے بعد امریکی فورسز کو عراق سے نکل جانے کے لئے دی گئی مہلت کے دوران امریکی سرکشی میں کئی گنا اضافہ دیکھا گیا ہے جبکہ اس مدت کے دوران امریکی جارحیت نے عراقی سکیورٹی فورسز اور پولیس سے بڑھ کر عراقی عوام کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ حشد الشعبی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ان امریکی جارحانہ اقدامات کے بعد عراقی مزاحمتی فورسز کا ہنگامی اجلاس بلایا گیا جس میں تمام عراقی مزاحمتی فورسز نے مشترکہ طور پر حسب ذیل تاریخ ساز پیغام دیا ہے:
۱۔ عراقی قوم، حکومت اور پارلیمنٹ کے فیصلے سے امریکی روگردانی اور امریکیوں کی طرف سے عراقی حق حاکمیت کی مسلسل خلاف ورزی نے ثابت کر دیا ہے کہ امریکی فورسز عراق پر قابض ہیں اور طاقت کے علاوہ کوئی اور زبان نہیں سمجھتیں۔ حشد الشعبی کے بیان میں قابض امریکی فورسز کو مخاطب کر کے کہا گیا ہے کہ آج کے بعد تمہارے ساتھ تمہارے مزاج کے مطابق سلوک کیا جائے گا۔ اس بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکیو جان لو کہ آج تک تمہارے خلاف انجام پانے والے تمام اقدامات تمہاری جارحیت کا ایک چھوٹا سا جواب تھا کیونکہ تب تمہارے خلاف آپریشن کا فیصلہ نہیں کیا گیا تھا جبکہ تم ان سادہ سے اقدامات کا "جواب" اپنے فوجی اڈوں کو خالی کر کے ایک جگہ جمع ہونے کے علاوہ کچھ نہیں دے پائے۔ حشد الشعبی نے اپنے پہلے پیغام میں گزشتہ چند ہفتوں کے دوران عراقی مزاحمتی فورسز پر حملوں کی امریکی دھمکیوں کو امریکی فورسز کی طرف سے اپنی شکست پر پردہ ڈالنے کا اقدام قرار دیتے ہوئے کہا کہ امریکی فوجی عراقی مزاحمتی محاذ کے ساتھ الجھنے کی طاقت نہیں رکھتے۔
۲۔ حشد الشعبی نے اپنے مشترکہ بیان میں دوسرا پیغام عراقی سیاسی پارٹیوں کے نام دیتے ہوئے اس بات پر تاکید کی کہ امریکی جاسوس تنظیموں کے ساتھ منسلک عراقی وزارت عظمی کے امیدوار "عدنان الزرفی" کے خلاف اپنے اصولی اور ٹھوس موقف کا اعلان کرتے ہوئے صدر (برہم صالح) کو خبردار کرتے ہیں کہ وہ اس امیدوار (عدنان الزرفی) کو وزارت عظمی کے لئے نامزد کرنے کے اقدام کے ذریعے متعدد ملین مارچ منعقد کرنے والی عراقی عوام اور اعلی دینی مرجعیت کی خواہشات کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ حشد الشعبی نے عدنان الزرفی کو کرپشن کا ملزم اور متنازع امیدوار قرار دیتے ہوئے کہا کہ عراقی صدر نے عدنان الزرفی کو وزارت عظمی کے لئے نامزد کر کے عمدی طور پر عراق کے اندرونی امن و امان کو داؤ پر لگا دیا ہے جبکہ ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے اور ملک کے اندر استحکام اور امن و امان کی بحالی کی خاطر اپنی تمام کوششوں کو بروئے کار لائیں گے۔
۳۔ عراقی مزاحمتی فورس حشد الشعبی نے اپنے تمام بریگیڈز کے ہمراہ دیئے گئے مشترکہ بیان کے آخری پیغام میں عراقی قوم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم عہد کرتے ہیں کہ آپ کے دفاع میں ہمیشہ وفادار سپاہی باقی رہیں گے۔ حشد الشعبی نے کہا کہ ہم امریکہ کو اپنی پاکیزہ خاک پر مزید قبضہ برقرار رکھنے، ملکی دولت کو لوٹنے اور غاصب صیہونی رژیم (اسرائیل) کی خاطر ہمارے ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی اجازت ہرگز نہیں دیں گے۔ اس بیان میں عراقی قوم کو مخاطب کر کے کہا گیا ہے کہ آپ ہمیں جہاد کے ہر میدان میں حاضر پائیں گے۔
جنرل قاسم سلیمانی داعش کیخلاف جنگ میں ہماری مدد کرنیوالے پہلے شخص تھے، مسعود بارزانی
عراقی خودمختار ریاست کردستان کے سابق صدر اور کرد ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ مسعود بارزانی نے بین الاقوامی نیوز چینل ایم بی سی کو دیئے گئے اپنے انٹرویو میں شہید جنرل قاسم سلیمانی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے سال 2014ء میں داعش کے ساتھ مقابلے کے لئے بھیجے گئے اسلحے اور عسکری امداد پر ایران کا شکریہ ادا کیا ہے۔ مسعود بارزانی نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ امریکی دہشتگردانہ کارروائی میں شہید کر دیئے جانے والے ایرانی سپاہ قدس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی نے داعش کے حملے کے ابتدائی ایام میں میرے ساتھ رابطہ قائم کیا تھا۔ کرد رہنما کا کہنا تھا کہ شہید جنرل قاسم سلیمانی نے مجھ سے داعش کے بڑھتے حملوں سے مقابلے کے بارے میں سوال کیا جس پر میں نے جنرل قاسم سلیمانی سے اینٹی ٹینک اسلحے کا تقاضا کیا اور پھر ایران نے اسلحے سے بھرے 2 ہوائی جہاز ہماری مدد کو بھیج دیئے۔
کرد ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ مسعود بارزانی نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ماضی میں بھی دہشتگرد گروہ موجود رہے ہیں لیکن داعش انتہائی عجیب دہشتگرد تنظیم تھی کیونکہ دیکھتے ہی دیکھتے 24 گھنٹوں کے دوران ہزاروں کلومیٹر سرحدی علاقے پر اس کا قبضہ ہو چکا تھا اور ہمارے پاس اس سے مقابلے کے لئے کچھ بھی نہیں تھا جبکہ امریکہ نے داعش کے خلاف لڑنے والوں کو اسلحہ کی ترسیل پر پابندی عائد کر رکھی تھی۔ انہوں نے داعش کے حملے کے زیراثر عراقی فوج کی فوری عقب نشینی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ (حشد الشعبی کے برخلاف) سابقہ عراقی فوج ملکی دفاع اور قوم سے وفاداری کے اصول پر تشکیل نہیں دی گئی تھی لہذا داعش نے وحشتناک طریقے سے اس کا شیرازہ بکھیر دیا۔ واضح رہے کہ داعش نے عراق و شام پر 2014ء میں حملہ کر کے دونوں ممالک کے آدھے سے زیادہ رقبے پر قبضہ کر لیا تھا جس کو سال 2017ء میں جنرل قاسم سلیمانی نے مکمل شکست دے کر دونوں ممالک کو نئی زندگی بخشی تھی۔
نیمئہ شعبان، شیعہ سنی دونوں کے ہاں متبرک
تحریر و ترتیب: ساجد حسین
نیمئہ شعبان میلاد نور آمد امام زمان (عج) کی رات یا شب برات کی اہمیت احادیث و روایات سے واضح ہے، اور یہ رات مسلمانوں کے جملہ مکاتب فکر کے ہاں اہم ترین رات ہے۔ اللہ کی شان دیکھئے کہ امام مہدی عج کی ولادت باسعادت کی خوشی کو کائنات حتی کہ تمام مسلمانوں خواہ شیعہ ہو یا سنی کو میلاد اور خوشی کی کیفیت میں رکھا ہے۔ شیعہ مسلمان اس مبارک رات کو میلاد نور کے طور پر مناتے ہی ہیں، تو دوسری طرف سنی مسلمان بھی اس رات کو شب برات کے عنوان سے متبرک جان کر میلاد اور خوشی میں شریک ہیں۔ اگرچہ شب قدر رمضان کی مبارک رات کی موجودگی میں شب برات کا بھی اسی عنوان سے منانا کوئی معنی نہیں رکھتا، لیکن شاید اللہ کا یہ اہتمام ہو کہ امام مہدی عج کی ولادت باسعادت کی خوشی ہر ایک مسلمان منائے، چاہے وہ امام مہدی عج کی نیمئہ شعبان تاریخ ولادت کا قائل ہو یا نہ ہو۔
سنی مکتب فکر کے ہاں کچھ روایات کے مطابق اس مبارک رات میں سال بھر کے اعمال کا حساب و کتاب اور قسمت کے فیصلے ہوتے ہیں، جب کہ بعض معتبر روایات کے مطابق کہ جو تمام مکاتب فکر کے ہاں تواتر سے درج ہوئی ہیں، اس مبارک رات کو منجئی بشریت عالمی نجات دہندہ امام مہدی عج کی ولادت با سعادت کا موقع ہے۔ اگر کوئی شخص عقیدہ مہدویت عج منجئی بشریت عالمی نجات دہندہ امام مہدی عج کے حوالے سے مزید معلومات کا خواہاں ہو تو وہ چالیس سے زیادہ بین الاقوامی زبانوں میں موجود اس ویب سائٹ سے استفادہ کرے۔
www.imamalmahdi.com
مہدی عج موعود کا عقیدہ مسلمانوں کے مسلمہ اور ناقابل انکار عقائد میں شمار ہوتا ہے اور تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ «مہدیؑ» نامی امام جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہم نام ہیں، آخرا لزمان میں ظہور فرمائیں گے، دنیا کو عدل و انصاف سے پر کریں گے جس طرح کہ یہ ظلم و جور سے پر ہوگئی ہوگی اور دین اسلام کو دنیا میں رائج و نافذ کریں گے۔ اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے متواتر احادیث نقل ہوئی ہیں۔ مہدی موعود عج کے بارے میں کم ہی ایسی حدیث نقل ہوئی ہوںگی جس کی سطح حد تواتر سے نیچے ہو، اور متواتر حدیث شیعہ اور سنی مکاتب میں ناقابل انکار ہے۔ جیسے مشہور حدیث «قال رسول اللہ (ص): من مات و لم یعرف امام زمانہ مات میتة الجاہلیة = جس نے اپنے زمانے کے امام کو پہچانے بغیر موت کو گلے لگایا وہ جاہلیت کی موت مرا۔
امام مہدی عج اہل سنت و اہل تشیع کی نگاہ میں:
امام مہدی عج اللہ فرجہ الشریف کا موضوع ایسا موضوع نہیں ہے کہ محض اہل تشیع اس پر ایمان رکھتے ہیں بلکہ اس موضوع پر تمام اسلامی دانشور خواہ وہ کسی بھی مذہب اور مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہوں سب متفق ہیں، نیز سب کا اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ وہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ کے خاندان اہلبیت اطہار ع سے ہوں گے، ان کے ہم نام ہوں گے اور علی ع و فاطمہ س کی نسل مبارک سے ہوں گے اور جب ظہور فرمائیں گے تو وہ دنیا کہ جو ظلم و جور سے پر ہوچکی ہوگی اسے عدل و انصاف سے پر کریں گے اور اسلامی مفکرین اور دانشوروں کا یہ اتفاق اس بناء پر ہے کہ امام مہدی عج کے حوالے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ سے احادیث متواتر بلکہ ان سے بڑھ کر احادیث وارد ہوئی ہیں۔ ہاں البتہ اس حوالے سے اہل سنت میں اختلاف نظر موجود ہے کہ آیا وہ امام حسن ع کی اولاد میں سے ہوں گے یا امام حسین ع کی اولاد میں سے ہوں گے یا یہ کہ آیا وہ پیدا ہوچکے ہیں یا پیدا ہوں گے؟
اہل سنت کے وہ علماء اور مفکرین جو شیعہ علماء کی اس بات سے اتفاق رکھتے ہیں کہ امام مہدی عج پیدا ہوچکے ہیں اور ابھی زندہ ہیں اور امام حسن عسکری ع کے فرزند ارجمند ہیں، ان کی اچھی خاصی تعداد ہے، مثلاً ان میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ ابوسالم کمال الدین محمد بن طلحہ بن محمد قرشی شافعی اپنی کتاب مطالب السؤل فی مناقب آل رسول میں۔
۲۔ ابو عبداللہ محمد بن یوسف محمد گنجی شافعی اپنی کتاب البیان فی اخبار صاحب الزمان میں۔
۳۔ نور الدین علی بن محمد بن الصباغ مالکی اپنی کتاب الفصول المھمۃ میں۔
۴۔ فقیہ واعظ شمس الدین ابوالمظفر یوسف بن قزغلی بن عبد اللہ بغدادی حنفی جو کہ سبط ابن جوزی کے نام سے مشہور ہیں۔
۵۔ محی الدین عربی حاتمی اندلسی اپنی کتاب الفتوحات المکیہ میں۔
۶۔ نور الدین عبد الرحمن بن احمد بن قوام الدین دشتی جامی شرح کافیہ ابن حاجب کے مصنف اپنی کتاب شواھد النبوۃ میں۔
۷۔ شیخ عبد الوھاب بن احمد بن علی شعرانی مصری اپنی کتاب الیواقیت والجواھر میں۔
۸۔ جمال الدین عطا اللہ بن سید غیاث الدین فضل اللہ اپنی کتاب روضۃ الاحباب فی سیرۃ النبی والال والاصحاب میں۔
۹۔ حافظ محمد بن محمد بن محمود بخاری کہ جو خواجہ یارسا کے نام سے مشہور ہیں اپنی کتاب فصل الخطاب میں۔
۱۰۔ عبد الرحمن جو کہ مشایخ صوفیہ میں سے تھے اپنی کتاب مرآۃ الاسرار میں۔
۱۱۔ شیخ حسن عراقی۔
۱۲۔ ابو محمد احمد بن ابراھیم بلاذری حدیث مسلسل میں۔
۱۳۔ ابو محمد عبداللہ بن احمد بن محمد بن خشاب کہ جو ابن خشاب کے نام سے مشہور ہیں اپنی کتاب تواریخ موالیہ الائمہ و وقیاتھم میں جناب علامہ سید محسن امین شامی کتاب اعیان الشیعہ جلد۲ صفحہ ۶۴ سے ۷۰ تک میں ان تیرہ افراد کا ذکر کرتے ہیں اور اس کے بعد فرماتے ہیں ان کے علاوہ دیگر اھل سنت کہ جو امام مہدی عج کے موجود ہونے کے قائل ہیں ان کی تعداد بہت زیادہ ہے اور جو بھی ان علماء کے بارے میں جاننا چاہتا ہے وہ ہماری کتاب البرھان علی وجود صاحب الزمان اور علامہ نوری کی کتاب کشف الاستار کی طرف رجوع کرے۔
نہج البلاغہ کے شارح ابن ابی الحدید کہتے ہیں:
اس جہان کے ختم ہونے سے پہلے مہدی موعود منتظر کے آنے کا مسئلہ مسلمانوں میں مورد اتفاق ہے، ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ ج۲ ص ۵۳۵
قاضی بہلول بہجت افندی اپنی کتاب تشریح و محاکمہ در تاریخ آل محمد علیہ صلی اللہ علیہ و آلہ میں اس حوالے سے یوں لکھتے ہیں: امام ابوالقاسم محمد المھدیؑ ابھی تک زندہ ہیں اور جب اللہ تعالی اذن فرمائے گا، ظہور فرمائیں گے چونکہ امت کے درمیان امام کا ظہور مورد اتفاق ہے لہذا اس کے دلائل کی وضاحت کے ہم محتاج نہیں ہیں قاضی بہلول بہجت افندی، تشریح و محاکمہ در تاریخ آل محمد ص چاپ ہفتم ص ۱۳۹ الی ۱۴۱
اس اتفاق کی بنیاد وہ بہت ساری احادیث ہیں کہ پیغمبر اسلام ص سے امام مہدی عج کے بارے میں وارد ہوئی ہیں اور علماء کرام نے انہیں اپنی اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے اور ان کے متواتر ہونے کی وضاحت کی ہے۔ بہت سے علماء نے تو اس موضوع پر مستقل کتابیں تحریر کی ہیں، تو ان فراوان احادیث اور کتب کے ہوتے ہوئے شیعہ سنی علماء اور محققین کبھی بھی اس مسئلہ میں شک و تردید کا شکار نہیں ہوسکتے سوائے ایسے عقل و خرد سے بیگانے اور دشمن دین خدا کہ جو اس موضوع کو واضح اور روشن دیکھنے سے محروم ہیں اور اپنے خود ساختہ خیالات میں ہاتھ پاؤں مارتے رہتے ہیں ورنہ اگر دیکھا جائے تو ان بے شمار احادیث جو کہ متواتر بلکہ تواتر سے بھی بالاتر ہیں ان کی تصدیق عقیدہ نبوت کی اہم جزو ہے اور ان کا انکار گویا نبوت کا انکار ہے۔
اسی لئے جب ایک بزرگ عالم دین سے پوچھا گیا کہ آیا مہدی منتظر عج کا ظہور دین کی ضروریات میں سے ہے اور اس کا انکار مرتد ہونے کا سبب ہے یا نہ؟ تو انہوں نے جواب دیا: یہ اعتقاد دین کی ضروریات میں سے ہے اور ان کا انکار موجب کفر ہے فاضل مقداد اللوامع الھیہ چاپ تبریز پاورقی صفحہ ۲۸۹
حجاز کی ایک برجستہ علمی شخصیت اور مدینہ یونیورسٹی کے پروفیسر شیخ عبد المحسن عباد اپنی ایک تقریر کہ جو عقیدہ اھل سنۃ والاثر فی المھدی المنتظر کے عنوان سے مدینہ یونیورسٹی کے رسالہ میں بھی آئی ہے اس میں کہتے ہیں: میں ان پچیس اصحاب کے نام کہ جنہوں نے پیغمبر اسلام سے مہدی عج کے بارے میں احادیث نقل کی ہیں آپ کے سامنے پیش ہیں:
۱۔ عثمان بن عفان ۲ علی بن ابی طالب ۳طلحہ بن زبیر ۴عبدالرحمن بن عوف ۵الحسین بن علی ۶ام سلمہ ۷ام حبیبہ ۸عبد اللہ بن عباس ۹عبد اللہ بن مسعود ۱۰عبد اللہ بن عمر ۱۱عبد اللہ بن عمرو ۱۲ابوسعید الخدری ۱۳جابر بن عبداللہ ۱۴ابوھریرہ ۱۵انس بن مالک ۱۶عمار بن یاسر ۱۷عوف بن مالک ۱۸پیغمبر اسلام کے خادم ثوبان ۱۹قرۃ ابن ایاس ۲۰علی الھلالی ۲۱حذیفہ بن الیمان ۲۲عبد اللہ بن حارث بن حمزہ ۲۳عمران بن حصین ۲۴ابوالطفیل ۲۵جابر الصدفی۔ کتاب مصلح جھانی۔
وہ مزید اپنی بات بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ آئمہ کہ جن سے صحاح، سنن، لغت ناموں اور مسانید وغیرہ میں مہدی کے حوالے سے احادیث نقل ہوئی ہیں وہ تحقیق کے مطابق ۳۸نفر ہیں اور وہ یہ ہیں:
۱۔ ابوداؤد اپنی سنن میں، ۲۔ ترمذی اپنی جامع میں، ۳۔ ابن ماجہ اپنی سنن میں، ۴۔ نسائی کی سفارینی نے اسے لوامع الانوار البھیۃ میں ذکر کیا ہے اور منادی نے فیض القدیر میں ذکر کیا ہے جب کہ میں نے اسے صغری میں دیکھا شاید کبری میں ہو، ۵۔ احمد اپنی مسند میں، ۶۔ ابن حیان اپنی صحیح میں، ۷۔ حاکم اپنی مستدرک میں، ۸۔ ابوبکر بن شیبہ المصنف میں، ۹۔ نعیم بن حماد کتاب الفتن میں، ۱۰۔ حافظ ابو نعیم کتاب المھدی در الحلیۃ میں، ۱۱۔ طبرانی الکبیر والاسط والصغیر میں، ۱۲۔ دارقطنی الافراد میں، ۱۳۔ بارودی معرفۃ الصحابہ میں، ۱۴۔ ابویعلی اسامہ اپنی مسند میں، ۱۵۔ بزاز اپنی مسند میں، ۱۶۔ حارث بن ابی اسامہ اپنی مسند میں، ۱۷۔ خطیب تلخیص المتشابہ اور المتفق والمتفرق میں، ۱۸۔ ابن عساکر اپنی تاریخ میں، ۱۹۔ ابن مندہ تاریخ اصفہان میں، ۲۰۔ ابوالحسن حربی اول من الحربیات میں، ۲۱۔ تمام الرازی اپنی فوائد میں، ۲۲۔ ابن جریر تھذیب الآثار میں، ۲۳۔ ابوبکر مقری اپنی معجم میں، ۲۴۔ ابو عمر والد انی اپنی سنن میں۔
۲۵۔ ابو غنم کوفی کتاب الفتن میں، ۲۶۔ دیلمی مسند الفردوس میں، ۲۷۔ ابوبکر الاسکاف فوائد الاخبار میں، ۲۸۔ ابوالحسین بن المنادی کتاب الملاحم میں، ۲۹۔ بھیقی دلائل النبوۃ میں، ۳۰۔ ابوعمر والقری اپنی سنن میں، ۳۱۔ ابن الجوزی اپنی تاریخ میں، ۳۲۔ یحیی بن عبد الحمید الحمانی اپنی مسند میں، ۳۳۔ رویانی اپنی مسند میں، ۳۴۔ ابن سعد طبقات میں، ۳۵۔ ابن خزیمہ، ۳۶۔ احسن بن سفیان، ۳۷۔ عمرو بن شبیہ، ۳۸۔ ابوعوانہ مصلح جھانی ص ۱۰۹ و ۱۱۰ امام مہدی ع ص ۱۴۹ الی، ۵۳۔ مسجد نبوی کے بعض مضافات کہ جو آل سعود کے دور حکومت میں کچھ عرصہ قبل تعمیر ہوئے ہیں ان عمارتوں کی چھتوں کو اس طرح بنایا گیا ہے کہ روشنی ان سے گزرتی ہےان عمارتوں کی دیواروں پر بارہ ائمہؑ کے اسماء کا مشاھدہ کیا جاتا ہے اور امام مہدی عج کا نام یوں لکھا ہوا ہے محمد بن الحسن العسکری ع اور یہ اس مسلمہ عقیدے کا ثبوت ہے کہ امام زمانہ امام مہدی عج امام حسن عسکری علیہ السلام کے فرزند ہیں۔
منجئی بشریت عالمی نجات دہندہ امام مہدی عج کے ظہور و انقلاب کی اہم علامات:
دنیا میں كوئی بھی طوفان ایكا ایكی نہیں آتا ھے۔ سماج میں انقلاب رونماء ھونے سے پہلے اس كی علامتیں ظاھر ھونے لگتی ھیں، حتی کہ ان علامات میں مشرق وسطی میں حالیہ بحرانات، سید یمانی و سید خراسانی کی آمد اور باطل کی طرف سے سفیانی کی آمد (شیعہ، سنی متفقہ روایات میں سفیانی کو سفیانی اسلئے کہتے ہیں کہ وہ اسلام کے اولین دشمن ابو سفیان کی اولاد میں سے ہوگا اور امام مہدی عج و حضرت عیسیؑ کے مقابلے میں آئے گا)۔
اسلامی روایات میں اس عظیم انقلاب كی نشانیوں كا تذكرہ ملتا ھے۔ یہ نشانیاں اور علامتیں دو طرح كی ھیں:
1) عمومی علامتیں جوھر انقلاب سے پہلے (انقلاب كے تناسب سے) ظاھر ھوتی ھیں۔
2) جزئیات جن كو معمولی و اطلاع كی بنیاد پر نہیں پركھا جاسكتا ھے بلكہ ان جزئیات كی حیثیت ایك طرح كی اعجازی ھے۔
ظلم و فساد كا رواج:
سب سے پہلی وہ علامت جو عظیم انقلاب كی آمد كی خبر دیتی ھے۔ وہ ظلم و فساد كا رواج ھے۔ جس وقت ھر طرف ظلم پھیل جائے، ھر چیز كو فساد اپنی لپیٹ میں لے لے۔ دوسروں كے حقوق پامال ھونے لگیں، سماج برائیوں كا گڑھ بن جائے، اس وقت عظیم انقلاب كی آھٹ محسوس ھونے لگتی ھے۔ یہ طے شدہ بات ھے كہ جب دباؤ حد سے بڑھ جائے گا تو دھماكہ ضرور ھوگا، یہی صورت سماج كی بھی ھے، جب سماج پر ظلم و فساد كا دباؤ حد سے بڑھ جائے گا تو اس كے نتیجہ میں ایك انقلاب ضرور رونماء ھوگا۔
اس عظیم عالمی انقلاب اور حضرت مھدی عج كے ظھور كے بارے میں بھی بات كچھ اسی طرح كی ھے۔ منفی انداز فكر والوں كی طرح یہ نہیں سوچنا چاھیے كہ ظلم و فساد كو زیادہ سے زیادہ ھوا دی جائے تاكہ جلد از جلد انقلاب آجائے بلكہ فساد اور ظلم كی عمومیت كو دیكھتے ھوئے اپنی اور دوسروں كی اصلاح كی فكر كرنا چاھیے، تاكہ صالح افراد كی ایك ایسی جماعت تیار ھوسكے جو انقلاب كی علمبردار بن سكے۔
اسلامی روایات میں اس پہلی علامت كو ان الفاظ میں بیان كیا گیا ھے: كما ملئت ظلما وجوراً …" جس طرح زمین ظلم و جور سے بھر چكی ھوگی۔ یہاں ایك سوال یہ اٹھتا ھے كہ "ظلم و جور" مترادف الفاظ ھیں یا معانی كے اعتبار سے مختلف۔ دوسروں كے حقوق پر تجاوز دو طرح ھوتا ھے۔ ایك یہ كہ انسان دوسروں كے حقوق چھین لے اور ان كی محنت سے خود استفادہ كرے اس كو "ظلم" كہتے ھیں۔ دوسرے یہ كہ دوسروں كے حقوق چھین كر اوروں كو دے دے، اپنے اقتدار كے استحكام كے لئے اپنے دوستوں كو عوام كے جان و مال پر مسلط كردے اس كو "جور" كہتے ھیں۔
ان الفاظ كے مد مقابل جو الفاظ ھیں وہ ھیں ظلم كے مقابل "قسط" اور جور كے مقابل "عدل" ھے۔ اب تك بات عمومی سطح پر ھورھی تھی كہ ھر انقلاب سے پہلے مظالم كا وجود انقلاب كی آمد كی خبر دیتا ھے۔ قابل غور بات تو یہ ھے كہ اسلامی روایات نے سماجی برائیوں كی جزئیات كی نشاندھی كی ھے۔ یہ باتیں اگر چہ 13۔ 14 سو سال پہلے كہی گئی ھیں لیكن ان كا تعلق اس زمانے سے نہیں ھے بلكہ آج كل ھماری دنیا سے ھے۔ یہ جزئیات كچھ اس طرح بیان كیے گئے ھیں گویا بیان كرنے والا اپنی آنكھوں سے دیكھ رھا ھو، اور بیان كررھا ھو۔ یہ پیشین گوئیاں كسی معجزے سے كم نہیں ھیں۔ اس سلسلے میں ھم متعدد روایتوں میں سے صرف ایك روایت كا ذكر كرتے ھیں۔ یہ روایت حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل ھوئی ھے۔ اس روایت میں سیاسی، سماجی اور اخلاقی مفاسد كا ذكر كیا گیا ھے۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے بعض اصحاب سے ارشاد فرمایا ھے:
1۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ ھر طرف ظلم و ستم پھیل رھا ھے۔
2۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ قرآن فرسودہ كردیا گیا ھے اور دین میں بدعتیں رائج كردی گئی ھیں۔
3۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ دین خدا اس طرح اپنے مفاھیم سے خالی ھوگیا ھے جس طرح برتن الٹ دیا گیا ھو۔
4۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ اھل باطل صاحبانِ حق پر مسلط ھوگئے ھیں۔
5۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ مرد مرد پر اور عورتیں عورتوں پر اكتفا كر رھی ھیں۔
6۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ صاحبانِ ایمان سے خاموشی اختیار كرلی ھے۔
7۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ چھوٹے بڑوں كا احترام نہیں كر رھے ھیں۔
8۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ رشتہ داریاں ٹوٹ گئی ھیں۔
9۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ چاپلوسی كا بازار گرم ھے۔
10۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ شراب اعلانیہ پی جارھی ھے۔
11۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ خیر كے راستے اُجاڑ اور شر كی راھیں آباد ھیں۔
12۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ حلال كو حرام اور حرام كو حلال كیا جارھا ھے۔
13۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ احكامِ دین كی حسبِ منشا تفسیر كی جارھی ھے۔
14۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ صاحبان ایمان ھے آزادی اس طرح سلب كرلی گئی ھے كہ وہ اپنے دل كے علاوہ كسی اور سے اظھار نفرت نہیں كرسكتے۔
15 جس وقت تم یہ دیكھو كہ سرمایہ كا بیشتر حصّہ گناہ میں صرف ھورھا ھے۔
16۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ حكومتی ملازمین كے درمیان رشوت عام ھوگئی ھے۔
17۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ حساس و اھم منصبوں پر نااھل قبضہ جمائے ھیں۔
18۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ (بعض مرد) اپنی عورتوں كی ناجائز كمائی پر زندگی بسر كر رھے ھیں۔
19۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ قمار آزاد ھوگیا ھے (قانونی ھوگیا ھے)
20۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ ناروا تفریحیں اتنی عام ھوگئی ھیں كہ كوئی روكنے كی ھمّت نہیں كر رھا ھے۔
21۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ قرآنی حقائق كا سننا لوگوں پر گراں گذرتا ھے۔
22۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ پڑوسی پڑوسی كی زبان كے ڈر سے اس كا احترام كر رھا ھے۔
23۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ مسجدوں كی آرائش كی جارھی ھے۔
24۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ غیر خدا كے لئے حج كیا جارھا ھے۔
25۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ عوام سنگ دل ھوگئے ھیں۔
26۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ عوام اس كے حامی ھوں جو غالب آجائے (خواہ حق پر ھو خواہ باطل پر)
27۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ حلال كے متلاشی افراد كی مذمّت كی جائے اور حرام كی جستجو كرنے والوں كی مدح۔
28۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ لہو و لعب كے آلات مكّہ مدینہ میں (بھی رائج ھوں۔
29۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ مسجد ان لوگوں سے بھری ھے جو خدا سے نہیں ڈرتے۔
30۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ لوگوں كی ساری توجہ پیٹ اور شرمگاہ پر مركوز ھے۔
31۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ مادی اور دنیاوی وسائل كی فراوانی ھے، دنیا كا رخ عوام كی طرف ھے۔
32۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ اگر كوئی امر بمعروف اور نہی از منكر كرے تو لوگ اس سے یہ كہیں كہ یہ تمھاری ذمہ داری نہیں ھے۔
33۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ عورتیں اپنے آپ كو بے دینوں كے حوالے كر رھی ھیں۔
34۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ حق پرستی كے پرچم فرسودہ ھوگئے ھیں۔
35۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ بربادی آبادی پر سبقت لے جارھی ھے۔
36۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ بعض كی روزی صرف كم فروشی پر منحصر ھے۔
37۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ ایسے افراد موجود ھیں جنھوں نے مال كی فراوانی كے باوجود اپنی زندگی میں ایك مرتبہ بھی زكات نہیں دی ھے۔
38۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ لوگ صبح و شام نشہ میں چور ھیں۔
39۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ لوگ ایك دوسرے كو دیكھتے ھیں اور بروں كی تقلید كرتے ھیں۔
40۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ ھر سال نیا فساد اور نئی بدعت ایجاد ھوتی ھے۔
41۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ عوام اپنے اجتماعات میں خود پسند سرمایہ داروں كے پیروكار ھیں۔
42۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ جانوروں كی طرح سب كے سامنے جنسی افعال انجام دے رھے ھیں
43۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ غیر خدا كے سلسلے میں زیادہ سے زیادہ خرچ كرنے میں كوئی تكلف نہیں كرتے لیكن خدا كی راہ میں معمولی رقم بھی صرف نہیں كرتے۔
44۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ ایسے افراد بھی ھیں كہ جس دن گناہ كبیرہ انجام نہ دیں اس دن غمگیں رھتے ھیں۔
45۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ حكومت عورتوں كے ھاتھوں میں چل گئی ھے۔
46۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ ھوائیں منافقوں كے حق میں چل رھی ھیں، ایمان داروں كو اس سے كچھ حاصل نہیں ھے۔
47۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ قاضی احكامِ الٰہی كے خلافِ فیصلہ دے رھا ھے۔
48۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ بندوں كو تقویٰ كی دعوت دی جارھی ھے مگر دعوت دینے والا خود اس پر عمل نہیں كر رھا ھے۔
49۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ لوگ اوقات نماز كو اھمیت نہیں دے رھے ھیں۔
50۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ ضرورت مندوں كی امداد بھی پارٹی كی بنیاد پر كی جارھی ھے، كوئی خدائی عنصر نہیں ھے۔
اسلئے ہم سب کی یہ ذمہ داری ہے کہ اس عالمی انقلاب کے لئے عملی کام کرکے راہ ہموار کرنکے امام مہدی ؑ کے سپاہیوں میں اپنا نام درج کروائیے۔ بقول فارسی شاعر
جہاں در انتظار عدالت
عدالت در انتظار مہدی(ع)
اور بقول علامہ اقبال(رہ)
دنیا کو ہے اس مہدی (ع) برحق کی ضرورت
ہو جس کی نگہ، زلزلئہ عالم افکار
یا
کبھی اے حقیقت منتظر (ع) نظر آ لباس مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبین نیاز میں
اللہ پاک بحق اہلبیت اطہار (ع) ہمیں امام مہدی (ع) کے انقلاب کو سمجھ کر اس میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)




















![جناب خدیجہ کبری[س] کی سیرت](/ur/media/k2/items/cache/ef2cbc28bb74bd18fb9aaefb55569150_XS.jpg)
