
سلیمانی
علامہ قاضی غلام مرتضیٰ مرحوم و مغفور کی قومی و ملی خدمات پر ایک طائرانہ نظر
مفسر قرآن علامہ شیخ محسن علی نجفی دام ظلہ کی صائب رہنمائی اور سرپرستی میں فروغ علم و فلاح انسانیت کا جو کارواں ملک بھر میں رواں دواں ہے ، جناب علامہ قاضی غلام مرتضیٰ مرحوم و مغفور اسی کارواں کے ایک نمایاں فرد تھے ۔آپ نے 1959 میں ضلع راولپنڈی کے گاؤں بگرہ سیداں میں آنکھ کھولی اور میٹرک کےبعد ابتدائی دینی تعلیم کے لیے جامعۃ المنتظر لاہور تشریف لے گئے جس کے کچھ عرصہ بعد آپ نے جامعہ اہلبیت اسلام آباد میں داخلہ لیا جہاں بہت جلد آپ کا شمار ہونہار اور باصلاحیت طلبہ میں ہونے لگا ۔اسی دوران آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے گریجوئیشن کی اور اپنے اُستاد محترم کے مشورے پرمزید تعلیم کے لیے قم (ایران) تشریف لے گئے جہاں آپ نے اعلیٰ دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ جامعہ المصطفیٰ العالمیہ ایران سے ایم فل کی ڈگری حاصل کی جس کے بعد 1988 میں آپ پاکستان تشریف لائے اور مدرسہ کلیہ اہلبیت ( چنیوٹ) میں پرنسپل شپ کی مسئولیت سنبھالی جسے آپ نے تا دمِ آخر نہایت ذمہ داری اور جانفشانی سے نبھا یا یہاں تک کہ 31 مارچ سنہ2020 کو طویل علالت کے بعد اسلام آباد میں داعی اجل کو لبیک کہا اور اب مدرسہ کلیہ اہلبیت چنیوٹ کے احاطے میں ابدی نیند سو رہے ہیں۔ آپ ہمیشہ اپنے استاد محترم مفسرقرآن علامہ شیخ محسن علی نجفی دام ظلہ کی اعلیٰ فکر و تدبر نظر کے مطابق شمع علم کو فروزاں اور امور فلاح انسانی کے عمل کو موثر اور وسیع تر کرنے کے لیے کوشاں رہے اس حیات مستعار کے دوران آپ کی بے لوث اور مخلصانہ جدوجہد جن اداروں کے شامل حال رہی ان کا اجمالی خاکہ کچھ اس طرح سے ہے۔
(1) پاک پولی ٹیکنیک انسٹیٹیوٹ :
قوم و ملت کے بچوں کو ہنر سکھانے اور انہیں معاشرے کا مفید حصہ بنانے کے لیے مفسر قرآن علامہ شیخ محسن علی نجفی دام ظلہ ہمیشہ فکر مند اور سرگرم عمل رہتے ہیں چنانچہ 2003 میں پاک پولی ٹیکنیک انسٹیٹیوٹ کا قیام بھی آپ کے اسی مشن کا آئینہ دار ہے جہاں مختلف شعبہ جات کی ورکشاپس اور ضروری آلات کے ذریعے بچوں کو ہنر مند بنانے کا عمل کامیابی سے جاری ہے۔اس ادارے سے اب تک 1800 سے زائد طلبہ و طالبات تعلیم مکمل کر کے باعزت روز گار سے وابستہ ہو چکے ہیں جبکہ حکومت پنجاب کے تعاون سے اب تک 4200 طلبہ و طالبات مختلف شعبہ جات کے شارٹ کورسز مکمل کرنے کے بعد قوم و ملک کی خدمت میں مصروف ہیں۔
(2) کلیۃ اہلبیت :
مفسر قرآن علامہ شیخ محسن علی نجفی مدظلہ العالی کی مساعی جمیلہ سے 1987 میں قائم ہوا یہ مدرسہ 24کنال رقبے پر محیط ہے جس کا ایک حصہ طلبہ کے لیے جبکہ دوسرا حصہ دانشگاہ بتول برائے طالبات کے لیے مختص قرار پایا اور علامہ قاضی غلام مرتضیٰ مرحوم و مغفور 1988 میں اس کی مدیریت سنبھالنے کے بعد تادمِ آخر اپنی مسؤلیت کو با احسن خوبی نبھاتے رہے۔اس مدرسے میں اس وقت 10 اساتذہ کرام کی زیر نگرانی کم و بیش 100 طلبہ اقامت پذیر ہیں جنہیں حوزوی تعلیم کے ساتھ ساتھ انٹر میڈیٹ اور کمپیوٹر کی بنیادی تعلیم بھی دی جاتی ہے ۔
(3) تعمیر مساجد پراجیکٹ :
اسلامی معاشرے میں مساجد کے قیام کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور یہ متبرک مقام دین اسلام کی ترویج و اشاعت میں نمایاں مقام و منزلت کا حامل ہے جبکہ مفسر قرآن علامہ شیخ محسن علی نجفی دام ظلہ اپنے تمام دینی و فلاحی اداروں کے قیام میں تعمیر و توسیع مساجد کو ہمیشہ فو قیت دیتے ہیں پس اسی پالیسی کے تحت علامہ قاضی غلام مرتضیٰ مرحوم و مغفور نے اپنی زندگی میں مختلف جگہوں پر مساجد کی تعمیر کو ممکن بنایا جن میں شہر چنیوٹ کی مرکزی جامع مسجد صاحب الزمان بھی شامل ہے جہاں 2000 سے زائد افراد کے نماز پڑھنے کی گنجائش ہے جبکہ یہ مسجد ادایئگی نماز جمعہ المبارک سمیت دروس قرآن ، محافل و مجالس اور قومی و ملی سرگرمیوں کا مرکز ہے اس کے علاوہ مختلف مقامات پر 15 مساجد کی تعمیر مکمل ہو چکی ہے جہاں نماز کے علاوہ قرآن سنٹر ز بھی قائم ہیں جن میں اِن علاقوں کے بچے قرآن اور بنیادی عقائد کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
(4) قرآن سنٹرز:
چینیوٹ کمپلیکس کے اس پراجیکٹ سے 100 سے زائد پیش نماز مربوط ہیں جو مختلف علاقوں میں100قرآن سینٹرز چلا رہے ہیں جن میں ہزاروں بچوں کو ناظرہ قرآن مجید اور دینیات کی تعلیم دی جاتی ہے۔قرآن سنٹرز کے یہ طلبہ وقتاً فوقتاً مقابلہ حسن قرائت اور اسلامی کیوز کے پروگرامز میں بھی شرکت کرتے ہیں۔
(5) حفظ القرآن ماڈل سکول :
دور حاضر کی آلودہ فضاء میں سانس لینے والی نئی نسل میں قرآن مجید سے دوری معاشرتی زوال کا بنیادی سبب ہے جسے دور کرنے ،قرآن فہمی کا شعور اُجاگر کرنے اور نئی نسل کو قرآن حفظ کرانے کے لیے 2007 میں حفظ القرآن ماڈل سکول کا قیام عمل میں لایا گیا ۔ اس ادارے میں قرآن مجید حفظ کرانے اور اس کے مفاہیم ذہن نشین کرانے کے ساتھ ساتھ مستقبل کے حفاظ کی قابل ذکر تعداد کو چھٹی تا مڈل کلاس کی عصری تعلیم سے بھی بہرہ مند کیا جا رہا ہے۔تا حال 427 طلبہ حفظ مکمل کر کے دیگر اداروں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔
(6) دانشگاہ بتول :
مومن بچیوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کرنے اور اُن کی عمدہ تربیت کے لیے دانش گاہ بتول کا قیام ایک انقلاب آفریں قدم ہے 1990 سے قائم اس ادارے میں دختران ِ قوم کی ایک بڑی تعداد دینی علوم کے ساتھ ساتھ عصری تقاضوں سے ہم آہنگ نصاب تعلیم سے بھی بہرہ مند ہو رہی ہے ۔ جبکہ سینکڑوں بچیاں اب تک فارغ التحصیل ہو کر معاشرے میں اسلامی قدروں کو فروغ دے رہی ہیں ۔دانشگاہ بتول میں طالبات کے لیے بہترین صحت مند ماحول اور سہولیات کو یقینی بنایا گیا ہے جہاں اس وقت 8 خاتون اساتذہ کی زیر نگرانی ایک سو سے زائد طالبات اقامت پذیر ہیں ۔
(7) کلیۃ العباس بھوانہ:
بھوانہ جیسے دور دراز علاقے میں اس دینی مدرسے کا قیام 2005 میں عمل میں لایا گیا جہاں اس وقت 40 طلبہ اقامت پذیر ہیں جنہیں دینی و عصری تعلیم دی جا رہی ہے جبکہ یہ ادارہ بھوانہ اور اس کے گردونواح کے عوام کے لیے دینی و شرعی مسائل سے آگاہی کا واحد مرکز ہے ۔
(8) دینی مدرسہ برائے طالبات :
پنڈی بھٹیاں میں ایک دینی مدرسہ طالبات کی دینی تعلیم و تربیت کے حوالے سے اہم خدمات انجام دے رہا ہے۔
(9) اُسوہ کالج بھوانہ :
چنیوٹ کے دور افتادہ اور پسماندہ علاقے بھوانہ میں طلبہ و طالبات کو معیاری تعلیم فراہم کرنے کے لیے کلیہ اہلبیت کی زیر نگرانی اس تعلیمی ادارے کا قیام 2018 میں عمل میں آیا ۔ اس وقت اس ادارے میں 350 طلبہ و طالبات کو محنتی اور تجربہ کار اساتذہ کرام کی زیر نگرانی ایف اے ۔ ایف ایس سی ۔ آئی سی ایس اور آئی ٹی کی تعلیم دی جار ہی ہے۔
(10) خدیجۃالکبریٰ ہسپتال :
صحت کی سہولت دور حاضر کی اولین ضرورت ہے اسی اہمیت کے پیش نظر فیصل آباد چنیوٹ مین روڈ پر 50 بستروں پر مشتمل اور جدید سہولیات سے آراستہ خدیجۃ الکبریٰ ہسپتال کا قیام عمل میں لایا گیا جہاں6 مستند ڈاکٹرز کی زیر نگرانی علاج معالجے اور ادویات کی فراہمی سمیت ہر قسم کے آپریشن اور نارمل ڈلیوری کی سہولت موجود ہے ۔ اس ہسپتال کا ایمرجنسی وارڈ دُکھی انسانیت کی خدمت کے لیے 24 گھنٹے کھلا رہتا ہے ۔ خدیجۃ الکبریٰ ہسپتال میں وقتاً فوقتاًمفت میڈیکل کیمپس کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے جن میں مریضوں کو مفید مشوروں اور علاج معالجے کی سہولت مہیا کی جاتی ہے ۔
(11) علی ہسپتال رجوعہ سادات:
رجوعہ سادات میں 4 کنال رقبہ پر مشتمل علی ہسپتال کا قیام علاقے کی طبی ضرورتوں کو پورا کرنے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ اس ہسپتال کی تعمیر حال ہی میں مکمل ہوئی ہے اور اس وقت یہاں تجربہ کار ڈاکٹرز کی زیر نگرانی گائنی ، آنکھوں کے علاج اور میڈیکل کے دیگر شعبہ جات کے ذریعے دکھی انسانیت کی شبانہ روز خدمت کی جارہی ہے ۔
(12) پیرا میڈیکل کالج :
اس ادارے کا شمار پولی ٹیکنیک انسٹیٹیوٹ کے بعد چنیوٹ کمپلیکس کے فعال ترین اداروں میں ہوتا ہے جہاں طلبہ و طا لبات کی ایک بڑی تعداد کو طبی شعبے کی خدمات کے لیے تیار کیا جاتا ہے اور انہیں ڈسپینسر ، ٹیکنیشن ، لیب ٹیکنیشن اور آپریشن تھیٹر ٹیکنیشن کی تعلیم دی جاتی ہے اب تک 250 طلبہ و طالبات فارغ التحصیل ہو کر مختلف ہسپتالوں و دیگر اداروں میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔
(13) فارمیسی کالج :
یہ ادارہ دوا سازی کے میدان میں سرگرم عمل ہے اور پیشہ وارانہ تربیت کے حوالے سے نمایاں حیثیت کا حامل ہے ۔جہاں پاکستان فارمیسی کونسل کے تحت فارمیسی ٹیکنیشن کی تعلیم دی جاتی ہے اور تعلیم کی تکمیل کے بعد کامیاب فرد میڈیکل سٹور کے لیے لائسنس حاصل کر سکتا ہے ۔ اب تک 100 طلبہ و طالبات فارغ التحصیل ہو چکے ہیں ۔
(14) نرسنگ کالج :
نرسنگ کالج چنیوٹ کمپلیکس کا ذیلی ادارہ ہے جہاں لیڈی ہیلتھ وزیٹر(LHV) اور سرٹیفائیڈ نرسنگ اسسٹنٹ (CNA)کے تربیتی کورسز کامیابی سے چلائے جارہے ہیں۔
(15) فری میڈیکل کیمپس کا انعقاد :
کلیہ اہلبیت کی زیر نگرانی چینوٹ کے دور افتادہ و پسماندہ علا قوں میں وقتاً فوقتاً فری میڈیکل کیمپس کا انعقاد کیا جاتا ہے جن میں میڈیسن کے علاوہ فری ٹیسٹ بھی کیے جاتے ہیں ۔ ان میڈیکل کیمپس کے علاوہ ان علاقوں کے ہونہار طلبہ کو سکالرشپ ، کتب ، یونیفارم اور بیوگان کو ماہانہ راشن بھی فراہم کیا جاتا ہے۔
(16) ورچوئل سب کمپلیکس :
یہ ادارہ جدید برقیاتی تدریس کے آلات سے لیس ہے جہاں یونیورسٹی سطح کے طلباء کو علوم اداریہ، علوم تجاریہ ،اقتصادیات بینکاری، مالیات، ریاضیات، نفسیات کے علاوہ کمپیوٹر سائنس اور دیگر مضامین میں بی ایس اور ایم ایس کرنے کی سہولت میسر ہے اس وقت 4200 سے زائد طلبہ و طالبات ڈگری و ماسٹر لیول کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں جبکہ 450 طلبہ و طالبات اپنی تعلیم مکمل کر چکے ہیں۔
درج بالا کامیاب اداروں کا قیام اور قومی و ملی سرگرمیوں میں متحرک کردار مفسر قرآن علامہ شیخ محسن علی نجفی دام ظلہ کی محنت و تربیت اور علامہ قاضی غلام مرتضی مرحوم و مغفور کے اخلاص عمل کا منہ بولتا ثبوت ہے اگرچہ آج وہ ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں لیکن ان کی دینی و ملی خدمات ہمیشہ ہمیں ان کی موجودگی کا احساس دلاتی رہیں گی اس لیے کہ
مرتے نہیں ہیں وہ کبھی زندہ ہوں جن کے نیک کام
کورونا نے بہت کچھ بدل دیا ہے
تحریر: سید اسد عباس
کورونا اس وقت امریکہ اور یورپ میں خون آشامیاں جاری رکھے ہوئے ہے، امریکہ میں ہلاکتوں کی تعداد چند روز میں 6000 سے تجاوز کرچکی ہے، جبکہ دنیا میں کورونا وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد 55 ہزار 132 ہوگئی ہے اور اس سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد 10 لاکھ 41 ہزار سے تجاوز کرچکی ہے، جبکہ دنیا میں اب تک دو لاکھ 21 ہزار 262 افراد صحتیاب بھی ہوئے ہیں۔ اس مرض سے متاثر ہونے والے پانچ سرِفہرست ممالک کے اعداد و شمار امریکہ کی جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے مطابق کچھ یوں ہیں:
اٹلی: 13 ہزار 915 اموات، متاثرین ایک لاکھ 15 ہزار 242
سپین: 10 ہزار 935 اموات، متاثرین ایک لاکھ 17 ہزار 710
امریکہ: 6069 اموات، متاثرین دو لاکھ 45 ہزار 658
فرانس: 5398 اموات، متاثرین 59 ہزار 929
برطانیہ: 3605 اموات، متاثرین 38 ہزار 681
جہاں اس وائرس نے انسانی جانوں کو نگلنا شروع کیا ہے، وہیں اس کے معاشی اثرات بھی ہیں۔ امریکہ کے محکمہ لیبر کے اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق امریکہ میں 7 لاکھ نوکریوں کا خاتمہ ہوگیا ہے اور بے روزگار افراد کی تعداد تقریباً ایک کروڑ کے قریب ہے۔ امریکہ میں نوکریوں کا خاتمہ 1970ء سے آج تک دیکھا جانے والا سب سے بڑا اضافہ ہے۔ ماہرینِ اقتصادیات کو توقع ہے کہ آئندہ چند مہینوں میں بیروزگاری کی شرح دو ہندسوں میں داخل ہو جائے گی۔ جیسا کہ توقع تھی، نصف سے زائد ملازمتوں کا خاتمہ سیر و سیاحت کی صنعت میں ہوا ہے۔ تقریباً یہی حال دیگر یورپی ممالک کا ہے۔
دنیا بھر کے کئی ممالک میں لاک ڈاؤن ہے۔ شہروں کی مصروف زندگی رُک سی گئی ہے اور تعلیمی ادارے و دفتر بند ہونے کے ساتھ ساتھ اور عوامی اجتماعات پر بھی پابندی ہے۔ یہاں ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ کورونا وائرس کا امتحان کب ختم ہوگا؟ برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے کہا ہے کہ برطانیہ 12 ہفتوں میں اس کو شکست دے سکتا ہے۔ اسی طرح کئی ملکوں نے اپنے لاک ڈاؤن کی آخری تاریخ بھی دے رکھی ہے، لیکن آئندہ ہفتوں میں متاثرین کم ہونے کے باوجود شاید اس کا خاتمہ حتمی نہیں ہوگا۔ یہ سماج اور سائنس دونوں کے لیے ایک بڑا امتحان ہے۔
امریکہ اور یورپ میں متاثرین کی بڑھتی ہوئی تعداد اور ہلاکتوں نیز اس کے اقتصادی اثرات نے دنیا میں اٹھنے والی سازشی تھیوریوں کو بھی اپنی موت مار دیا، لیکن تھیوری ساز ذہنوں سے اللہ امان بخشے ایک دوست سے سوال کیا کہ امریکہ اور یورپ میں ہونے والی ہلاکتوں کو کس سطح تک پہنچنا ہے کہ امریکہ اس وائرس کی ویکسین جو پہلے سے تیار ہوچکی ہے، کو منظر عام پر لائے گا تو ان کا کہنا تھا کہ ابھی تو بہت سی اموات ہونی ہیں، اسی طرح جب یورپ اور امریکہ میں وائرس نیا نیا پھیلنا شروع ہوا تو ایک دوست سے سوال کیا کہ وائرس یورپ اور امریکہ جا رہا ہے، کیسے ممکن ہے کہ امریکہ ایسا وائرس ایجاد کرے، جو خود اس کے لیے نقصان دہ ہو تو ان کا کہنا تھا کہ یہ مکافات عمل ہے۔ اب اس کا کیا جواب دیا جائے۔
ہم دشمن کی درست شناخت بھی نہیں رکھتے، ہمیں حکومت اور عوام کو جدا کرکے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یقیناً امریکی حکومت اور یورپی حکومتیں مسلمانوں کے بہیمانہ قتل میں ملوث رہی ہیں، انہوں نے انسانی معاشروں پر بے پناہ ظلم کیا ہے، ان کے وسائل لوٹے ہیں، تاہم ان ممالک کے کورونا کا شکار ہونے والے شہری ہمدردی کے مستحق ہیں۔ ہمیں خوش نہیں ہونا چاہیئے کہ امریکہ یا یورپ میں زیادہ اموات ہو رہی ہیں۔ امریکی حکومت نے کرونا کے آغاز پر یہی غلطی کی۔ ٹرمپ نے سینے پر ہاتھ مار کر کہا تھا کہ کرونا امریکہ میں نہیں آسکتا ہے اور ہم اس چینی وائرس کو کنٹرول کر لیں گے۔ چینی وائرس کہتے ہوئے ٹرمپ کے لہجے میں جو رعونت اور تضحیک تھی، آج ذلت و رسوائی میں بدل چکی ہے۔ آج نیویارک کا گورنر دیگر ریاستوں سے مدد مانگنے پر مجبور ہے۔ ٹرمپ نے بجائے ایران میں ہونے والی اموات کو ایک انسانی المیہ سمجھنے کے ایران پر مزید اقتصادی پابندیاں لگانے کا اعلان کیا، اسے کیا معلوم تھا کہ امریکہ خود اس آفت کا شکار ہوگا۔
آج ٹرمپ اسی چین سے وینٹیلیٹر، ماسک اور حفاظتی لباس خریدنے پر مجبور ہے، جس کا چند روز قبل مذاق اڑا رہا تھا۔ کورونا نے دنیا میں بہت کچھ بدل کر رکھا دیا ہے، انفرادی زندگیوں سے اجتماعی امور تک بہت کچھ بدل چکا ہے۔ کورونا نے انسانوں کو کم ترین سطح پر جینے کا ہنر سکھا دیا ہے۔ دنیا میں سرمایے کے حصول کی بے ہنگم دوڑ تقریباً ختم ہوچکی ہے، تاہم اب بھی ہم خدا کے بجائے خبروں سے جی لگائے بیٹھے ہیں۔ گذشتہ ایک ماہ سے دنیا کا ہر میڈیا چینل فقط کورونا کی بات کر رہا ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انسانیت کسی بیرونی دشمن کے حملے کی زد پر ہے اور ان کے آپسی مسائل خواہ سیاسی ہوں یا سماجی، معاشی ہوں یا اقتصادی ختم ہوچکے ہیں یا آہستہ آہستہ بے معنی ہوتے جا رہے ہیں۔
کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ اس وائرس کے مکمل خاتمے تک مغرب سماجی، سیاسی اور معاشی لحاظ سے کس مقام پر ہو۔ امریکہ جیسا ملک اس آفت سے نمٹے کے لیے مدد مانگنے پر مجبور ہے۔ آئی ایم ایف کی ایم ڈی اس وقت کو زمانے کا سیاہ ترین دور قرار دے رہی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ انسانوں کو مل کر اس آفت سے نمٹنا ہوگا۔ سرمایہ دارانہ نظام اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لیے پوری طاقت سے میدان عمل میں کود چکا ہے، کیونکہ اگر یہ معاشی لاک ڈاون طوالت اختیار کرتا ہے تو پھر دنیا میں موجودہ معاشی نظام کو برقرار رکھنا ممکن نہیں ہوگا۔ یہ سب کچھ انسانوں کے لیے نیا ہے، ہمیں بھی بحیثیت انسان بدلنے کی ضرورت ہے۔ یہ نادیدہ دشمن پوری انسانیت کا دشمن ہے، یہ وقت ہے کہ ہم اپنی تعصبات کی عینکوں کو اتار پھینکیں اور باہم متحد ہوکر اس انسانیت دشمن وائرس سے مقابلہ کریں۔
ماہ شعبان کی فضیلت واعمال
معلوم ہونا چاہئے کہ شعبان وہ عظیم مہینہ جو حضرت رسول سے منسوب ہے حضور (ص) اس مہینے میں روزے رکھتے اور اس مہینے کے روزوں کو ماہ رمضان کے روزوں َ
سے متصل فرماتے تھے ۔ اس بارے میں آنحضرت کا فرمان ہے کہ شعبان میرا مہینہ ہے اور جو شخص اس مہینہ میں ایک روزہ رکھے تو جنت اس کیلئے واجب ہو جاتی ہے۔
امام جعفر صادق -فرماتے ہیں کہ جب شعبان کا چاند نمودار ہوتا تو امام زین العابدین- تمام اصحاب کو جمع کرتے اور فرماتے : اے میرے اصحاب ! جانتے ہو کہ یہ کونسا مہینہ ہے ؟ یہ شعبان کا مہینہ ہے اور رسول اﷲ فرمایا کرتے تھے کہ یہ شعبان میرا مہینہ ہے۔ پس اپنے نبی(ص) کی محبت اور خدا کی قربت کیلئے اس مہینے میں روزے رکھو ۔ اس خدا کی قسم کہ جس کے قبضہ قدرت میں علی ابن الحسین+ کی جان ہے میں نے اپنے پدر بزرگوار حسین ابن علی +سے سنا وہ فرماتے تھے میں نے اپنے والد گرامی امیر المومنین -سے سنا کہ جو شخص محبت رسول (ص) اور تقرب خدا کیلئے شعبان میں روزہ رکھے تو خدائے تعالیٰ اسے اپنا تقرب عطا کریگا قیامت کے دن اس کو عزت و احترم ملے گا اور جنت اس کیلئے واجب ہو جائے گی ۔
شیخ نے صفوان جمال سے روایت کی ہے کہ امام جعفر صادق -نے فرمایا: اپنے قریبی لوگوں کو ماہ شعبان میں روزہ رکھنے پر آمادہ کرو ! میں نے عرض کیا آپ پر قربان ہو جاؤں اس میں کوئی فضیلت ہے ؟آپ(ع) نے فرمایا ہاں اور فرمایا رسول اﷲ جب شعبان کا چاند دیکھتے تو آپ کے حکم سے ایک منادی یہ ندا کرتا :
اے اہل مدینہ! میں رسول خدا کا نمائندہ ہوں اور ان کا فرمان ہے کہ شعبان میرا مہینہ ہے ۔ خدا کی رحمت ہو اس پر جو اس مہینے میں میری مدد کرے ۔ یعنی روزہ رکھے۔ صفوان کہتے ہیں امام جعفر صادق -کا ارشاد ہے کہ امیر المؤمنین- فرماتے تھے جب سے منادی رسول (ص) نے یہ ندا دی اسکے بعد شعبان کا روزہ مجھ سے قضا نہیں ہوا اور جب تک زندگی کا چراغ گل نہیں ہو جاتا یہ روزہ مجھ سے ترک نہیں ہوگا نیز فرمایا کہ شعبان اور رمضان دو مہینوں کے روزے توبہ اور بخشش کا موجب ہیں۔
اسماعیل بن عبد الخالق سے روایت ہے کہ امام جعفر صادق -کی خدمت میں حاضر تھا، وہاں روزۂ شعبان کا ذکر ہوا تو حضرت نے فرمایا ماہ شعبان کے روزے رکھنے کی بہت زیادہ فضیلت ہے حتی کہ نا حق خون بہانے والے کو بھی ان روزوں سے فائدہ پہنچ سکتا ہے اور بخشا جا سکتا ہے۔
اس عظیم و شریف مہینے کے اعمال دو قسم کے ہیں :
’’اعمال مشترکہ او راعمال مختصہ‘‘
اعمالِ مشترکہ میں سے چند امور ہیں۔
﴿۱﴾ ہر روز ستر مرتبہ کہے :اَسْتغْفِرُ اﷲ وَ اَسْئَلُہُ التَّوْبَۃَ ﴿۲﴾ ہر روز ستر مرتبہ کہے : اَسْتغْفِرُ اﷲ الَّذِیْ لَا
بخشش چاہتا ہوں اﷲ سے اور توبہ کی توفیق مانگتا ہوں بخشش کا طالب ہوں اﷲ سے کہ جس کے سوا کوئی
اِلَہَ اِلَّا ھُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ وَ اَتُوْبُ اِلَیْہِبعضروایات میں الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ کے الفاظ
معبودنہیں وہ بخشنے والا مہربان ہے زندہ نگہبان ہے اورمیں اسکے حضور توبہ کرتا ہوں زندہ و پائندہ بخشنے والا مہربان
الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ سے قبل ذکر ہوئے ہیں۔
بخشنے والا مہربان
پس جیسے بھی عمل کرے مناسب ہے روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس ماہ کا بہترین عمل استغفار ہے اور اس مہینے میں ستر مرتبہ استغفار کرنا گویا دوسرے مہینوں میں ستر ہزار مرتبہ استغفار کرنے کے برابر ہے۔
﴿۳﴾ صدقہ دے اگرچہ وہ نصف خرما ہی کیوں نہ ہو، اس سے خدا اسکے جسم پر جہنم کی آگ کو حرام کردے گا ۔
امام جعفر صادق -سے ماہ رجب کے روزے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایاتم ماہ شعبان کے روزے سے کیوں غافل ہو ؟ راوی نے عرض کی ، فرزند رسول(ص) ! شعبان کے ایک روزے کا ثواب کس قدر ہے؟ فرمایا قسم بخدا کہ اس کااجر و ثواب بہشت ہے۔ اس نے عرض کی۔ اے فرزند رسول(ص) ! اس ماہ کا بہترین عمل کیا ہے؟ فرمایا کہ صدقہ و استغفار ، جو شخص ماہ شعبان میں صدقہ دے ۔ پس خدا اس صدقے میں اس طرح اضافہ کرتا رہے گا، جیسے تم لوگ اونٹنی کے بچے کو پال کر عظیم الجثہ اونٹ بنا دیتے ہو چنانچہ یہ صدقہ قیامت کے روز احد کے پہاڑ کی مثل بڑھ چکا ہوگا۔
﴿۴﴾ پورے ماہ شعبان میں ہزار مرتبہ کہے:
لاَ اِلٰہَ اِلَّا اﷲ وَلَا نَعْبُدُ اِلَّا اِیَّاہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکِیْنَ
اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور ہم عبادت نہیں کرتے مگر اسی کی ہم اس کے دین سے خلوص رکھتے ہیں اگرچہ مشرکوں پر ناگوار گزرے
اس ذکر کا بہت زیادہ ثواب ہے، جس میں ایک جز یہ ہے کہ جو شخص مقررہ تعداد میں یہ ذکر کرے گا اس کے نامہ اعمال میں ایک ہزار سال کی عبادت کا ثواب لکھ دیا جائے گا ۔
﴿۵﴾ شعبان کی ہر جمعرات کو دو رکعت نماز پڑھے ہر رکعت میں سورہ حمد کے بعد سو مرتبہ سورہ توحید پڑھے اور نماز کے بعد سو مرتبہ درود شریف پڑھے تاکہ خدا دین و دنیا میں اس کی ہر نیک حاجت پوری فرمائے واضح ہو کہ روزے کا اپنا الگ اجر و ثواب ہے اور روایت میں آیا ہے کہ شعبان کی ہر جمعرات کو آسمان سجایا جاتا ہے تو ملائکہ عرض کرتے ہیں ، خدایا آج کا روزہ رکھنے والوں کوبخش دے اور ان کی دعائیں قبول کر لے۔ ایک حدیث میں مذکور ہے کہ اگر کوئی شخص ماہ شعبان میں سوموار اور جمعرات کو روزہ رکھے تو خدا وند کریم دنیا و آخرت میں اس کی بیس بیس حاجات پوری فرمائے گا۔
﴿۶﴾ ماہ شعبان میں درود شریف بکثرت پڑھے۔
﴿۷﴾ شعبان میں ہر روز وقت زوال اور پندرہ شعبان کی رات کو امام زین العابدین- سے مروی صلوات پڑھے:
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ شَجَرَۃِ النُّبُوَّۃِ، وَمَوضِعِ الرِّسالَۃِ، وَمُخْتَلَفِ
اے معبود! محمد(ص) و آل محمد(ص) پر رحمت نازل فرما جو نبوت کا شجر رسالت کا مقام، فرشتوں کی آمد و رفت
الْمَلائِکَۃِ وَمَعْدِنِ الْعِلْمِ، وَٲَھْلِ بَیْتِ الْوَحْیِ ۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ
کی جگہ، علم کے خزانے اور خانہ وحی میں رہنے والے ہیں اے معبود! محمد(ص) وآل محمد(ص) پر رحمت نازل فرما
الْفُلْکِ الْجارِیَۃِ فِی اللُّجَجِ الْغامِرَۃِ، یَٲْمَنُ مَنْ رَکِبَہا، وَیَغْرَقُ مَنْ تَرَکَھَا، الْمُتَقَدِّمُ
جو بے پناہ بھنوروں میں چلتی ہوئی کشتی ہیں کہ بچ جائے گا جو اس میں سوار ہوگا اور غرق ہوگا جو اسے چھوڑ دے گا ان سے آگے نکلنے والا
لَھُمْ مارِقٌ، وَالْمُتَٲَخِّرُ عَنْھُمْ زاھِقٌ، وَاللاَّزِمُ لَھُمْ لاحِقٌ ۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ
دین سے خارج اور ان سے پیچھے رہ جانے والا نابود ہو جائے گا اور ان کے ساتھ رہنے والا حق تک پہنچ جائے گا اے معبود! محمد(ص)
وَآلِ مُحَمَّدٍ الْکَھْفِ الْحَصِینِ، وَغِیاثِ الْمُضْطَرِّ الْمُسْتَکِینِ، وَمَلْجَاََ الْہارِبِینَ
و آل محمد(ص) پر رحمت نازل فرما جو پائیدار جائے پناہ اور پریشان و بے چارے کی فریاد کو پہنچنے والے، بھاگنے اور ڈرنے والے کیلئے جائے
وَعِصْمَۃِ الْمُعْتَصِمِینَ ۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ صَلاۃً کَثِیرَۃً تَکُونُ
امان اور ساتھ رہنے والوں کے نگہدار ہیں اے معبود محمد(ص) و آل محمد(ص) پر رحمت نازل فرما بہت بہت رحمت کہ جوان کے لیے وجہ خوشنودی
لَھُمْ رِضاً وَ لِحَقِّ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ ٲَدائً وَقَضائً بِحَوْلٍ مِنْکَ وَقُوَّۃٍ یَا رَبَّ الْعالَمِینَ
اور محمد(ص) وآل محمد(ع) کے واجب حق کی ادائیگی اور اس کے پورا ہونے کاموجب بنے تیری قوت و طاقت سے اے جہانوں کے پروردگار
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ الطَّیِّبِینَ الْاَ بْرارِ الْاَخْیارِ الَّذِینَ ٲَوْجَبْتَ
اے معبود محمد(ص) و آل محمد(ص) پر رحمت نازل فرما جو پاکیزہ تر، خوش کردار اور نیکو کار ہیںجن کے حقوق تو نے واجب کیے
حُقُوقَھُمْ وَفَرَضْتَ طاعَتَھُمْ وَوِلایَتَھُمْ ۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَاعْمُرْ
اور تو نے ان کی اطاعت اور محبت کو فرض قرار دیا ہے اے معبود محمد(ص) و آل محمد(ص) پر رحمت نازل فرما اور میرے دل کو اپنی
قَلْبِی بِطاعَتِکَ وَلاَ تُخْزِنِی بِمَعْصِیَتِکَ وَارْزُقْنِی مُواساۃَ مَنْ قَتَّرْتَ عَلَیْہِ مِنْ رِزْقِکَ
اطاعت سے آباد فرما اپنی نافرمانی سے مجھے رسوا و خوار نہ کر اور جس کے رزق میں تو نے تنگی کی ہے مجھے اس سے ہمدردی کرنے کی
بِما وَسَّعْتَ عَلَیَّ مِنْ فَضْلِکَ، وَنَشَرْتَ عَلَیَّ مِنْ عَدْلِکَ، وَٲَحْیَیْتَنِی تَحْتَ ظِلِّکَ
توفیق دے کیونکہ تو نے اپنے فضل سے میرے رزق میں فراخی کی مجھ پر اپنے عدل کوپھیلایا اور مجھے اپنے سائے تلے زندہ رکھا ہے
وَھذا شَھْرُ نَبِیِّکَ سَیِّدِ رُسُلِکَ شَعْبانُ الَّذِی حَفَفْتَہُ مِنْکَ بِالرَّحْمَۃِ وَالرِّضْوانِ الَّذِی
اور یہ تیرے نبی(ص) کا مہینہ ہے جو تیرے رسولوں کے سردار ہیں یہ ماہ شعبان جسے تو نے اپنی رحمت اور رضامندی کے ساتھ گھیرا ہوا ہے
کانَ رَسُولُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَآلِہِ وَسَلَّمَ یَدْٲَبُ فِی صِیامِہِ وَقِیامِہِ فِی لَیالِیہِ
یہ وہی مہینہ ہے جس میں حضرت رسول اپنی فروتنی سے دنوں میں روزے رکھتے اور راتوں میں صلوٰۃ و قیام کیا کرتے تھے
وَٲَیَّامِہِ بُخُوعاً لَکَ فِی إکْرامِہِ وَ إعْظامِہِ إلی مَحَلِّ حِمامِہِ اَللّٰھُمَّ فَٲَعِنَّا عَلَی
تیری فرمانبرداری اور اس مہینے کے مراتب و درجات کے باعث وہ زندگی بھر ایسا ہی کرتے رہے اے معبود! پس اس مہینے میں ہمیں
الاسْتِنانِ بِسُنَّتِہِ فِیہِ، وَنَیْلِ الشَّفاعَۃِ لَدَیْہِ اَللّٰھُمَّ وَاجْعَلْہُ لِی شَفِیعاً مُشَفَّعاً،
ان کی سنت کی پیروی اور ان کی شفاعت کے حصول میں مدد فرما اے معبود؛ آنحضرت(ص) کو میرا شفیع بنا جن کی شفاعت مقبول ہے اور
وَطَرِیقاً إلَیْکَ مَھْیَعاً وَاجْعَلْنِی لَہُ مُتَّبِعاً حَتّی ٲَلْقاکَ یَوْمَ الْقِیامَۃِ عَنِّی راضِیاً، وَعَنْ
میرے لیے اپنی طرف کھلا راستہ قرار دے مجھے انکا سچا پیروکار بنادے یہاں تک کہ میںروز قیامت تیرے حضور پیش ہوں جبکہ تو مجھ
ذُ نُوبِی غاضِیاً، قَدْ ٲَوْجَبْتَ لِی مِنْکَ الرَّحْمَۃَ وَالرِّضْوانَ، وَٲَ نْزَلْتَنِی دارَ الْقَرارِ
سے راضی ہو اور میرے گناہوں سے چشم پوشی کرے ایسے میں تو نے میرے لیے اپنی رحمت اور خوشنودی لازم کر رکھی ہو اور مجھے
وَمَحَلَّ الْاَخْیارِ ۔
دارالقرار اور صالح لوگوں کے ساتھ رہنے کی مہلت دے
﴿۸﴾ابن خالویہ سے روایت ہے کہ امیرالمومنین -اور ان کے فرزندان ماہ شعبان میں روزانہ جو مناجات پڑھا کرتے تھے وہ یہ ہے:
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَاسْمَعْ دُعائِی إذا دَعَوْتُکَ، وَاسْمَعْ نِدائِی إذا
اے معبود! محمد(ص) و آل محمد(ص) پر رحمت نازل فرما اور جب میں تجھ سے دعا کروں تو میری دعا سن جب میں تجھے پکاروں تو میری
نادَیْتُکَ وَٲَ قْبِلْ عَلَیَّ إذا ناجَیْتُکَ فَقَدْ ھَرَبْتُ إلَیْکَ وَوَقَفْتُ بَیْنَ یَدَیْکَ مُسْتَکِیناً لَکَ
پکار کو سن جب میں تجھ سے مناجات کروں تو میری پر توجہ فرما کہ تیرے ہاں تیزی سے آیا ہوں میں تیری بارگاہ میں کھڑا ہوں اپنی بے
مُتَضَرِّعاً إلَیْکَ راجِیاً لِما لَدَیْکَ ثَوابِی وَتَعْلَمُ مَا فِی نَفْسِی وَتَخْبُرُ
چارگی تجھ پر ظاہر کر رہا ہوں تیرے سامنے نالہ و فریاد کرتا ہوں اپنے اس ثواب کی امید میں جو تیرے ہاں ہے اور تو جانتا ہے جو کچھ
حاجَتِی وَتَعْرِفُ ضَمِیرِی، وَلاَ یَخْفی عَلَیْکَ ٲَمْرُ مُنْقَلَبِی وَمَثْوایَ
میرے دل میں ہے تو میری حاجت سے آگاہ ہے اور تو میرے باطن سے باخبر ہے دنیا اور آخرت میں میری حالت تجھ پرمخفی نہیں اور
وَما ٲُرِیدُ ٲَنْ ٲُبْدِیََ بِہِ مِنْ مَنْطِقِی، وَٲَ تَفَوَّہَ بِہِ مِنْ طَلِبَتِی، وَٲَرْجُوھُ لِعاقِبَتِی، وَقَدْ
جس کا میں ارادہ کرتا ہوں کہ زبان پر لاؤں اور اسے بیان کروں اور اپنی حاجت ظاہر کروں اور اپنی عافیت میں ا س کی امید رکھوںتو
جَرَتْ مَقادِیرُکَ عَلَیَّ یَا سَیِّدِی فِیما یَکُونُ مِنِّی إلی آخِرِ عُمْرِی مِنْ سَرِیرَتِی
یقینا تیرے مقدرات مجھ پر جاری ہوئے اے میرے سردار جو میں آخر عمر تک عمل کروں گا میرے پوشیدہ اور ظاہرا کاموں میں سے
وَعَلانِیَتِی وَبِیَدِکَ لاَ بِیَدِ غَیْرِکَ زِیادَتِی وَنَقْصِی وَنَفْعِی وَضَرِّی إلھِی إنْ حَرَمْتَنِی
اور میری کمی بیشی اور نفع و نقصان تیرے ہاتھ میں ہے نہ کہ تیرے غیر کے ہاتھ میں میرے معبود! اگر تو نے مجھے محروم کیا
فَمَنْ ذَا الَّذِی یَرْزُقُنِی وَ إنْ خَذَلْتَنِی فَمَنْ ذَا الَّذِی یَنْصُرُنِی إلھِی ٲَعُوذُ بِکَ مِنْ
تو پھر کون ہے جو مجھے رزق دے گا اور اگر تو نے مجھے رسو کیا تو پھر کون ہے جو میری مدد کرے گا میرے معبود! میں تیرے غضب اور تیرا
غَضَبِکَ وَحُلُولِ سَخَطِکَ إلھِی إنْ کُنْتُ غَیْرَ مُسْتَٲْھِلٍ لِرَحْمَتِکَ فَٲَنْتَ ٲَھْلٌ ٲَنْ تَجُودَ
عذاب نازل ہونے سے تیری پناہ مانگتا ہوںمیرے معبود: اگر میں تیری رحمت کے لائق نہیں پس تو اس چیز کا اہل ہے کہ مجھ پر اپنے
عَلَیَّ بِفَضْلِ سَعَتِکَ إلھِی کَٲَ نِّی بِنَفْسِی واقِفَۃٌ بَیْنَ یَدَیْکَ وَقَدْ ٲَظَلَّہا حُسْنُ تَوَکُّلِی
عظیم تر فضل سے عطا و عنایت فرمائے میرے معبود! گویا میں خود تیرے سامنے کھڑا ہوں اور تجھ پر میرے حسن اعتماد اور توکل کا سایہ
عَلَیْکَ فَقُلْتَ مَا ٲَ نْتَ ٲَھْلُہُ وَتَغَمَّدْتَنِی بِعَفْوِکَ ۔ إلھِی إنْ عَفَوْتَ
پڑرہا ہے پس تو نے وہی کچھ کیا جو تیری شان کے لائق ہے اور تو نے مجھے اپنے دامن عفو میں لے لیا میرے معبود: اگر تو مجھے معاف
فَمَنْ ٲَوْلی مِنْکَ بِذلِکَ وَ إنْ کانَ قَدْ دَنا ٲَجَلِی وَلَمْ یُدْنِنِی مِنْکَ عَمَلِی فَقَدْ جَعَلْتُ
کرے تو کون ہے جو اس کا تجھ سے زیادہ اہل ہو اور اگر میری موت قریب آگئی ہے اور میرا کردار مجھے تیرے قریب کرنے والا نہیں تو
الْاِقْرارَ بِالذَّنْبِ إلَیْکَ وَسِیلَتِی ۔ إلھِی قَدْ جُرْتُ عَلی نَفْسِی فِی النَّظَرِ لَہا فَلَھَا
میں نے اپنے گناہ کے اقرار کو تیری جناب میں اپنا وسیلہ قرار دے لیا ہے میرے معبود! میںنے اپنے نفس کی تدبیر میں اس پر ظلم کیا
الْوَیْلُ إنْ لَمْ تَغْفِرْ لَہا ۔ إلھِی لَمْ یَزَلْ بِرُّکَ عَلَیَّ ٲَیَّامَ حَیاتِی فَلا تَقْطَعْ بِرَّکَ عَنِّی
اگر تو اسے بخشے تو یہ ہلاکت وبربادی ہے میرے معبود ایام زندگی میں تیرا احسان ہمیشہ مجھ پر ہوتا رہا پس بوقت موت اسے مجھ سے قطع
فِی مَماتِی ۔ إلھِی کَیفَ آیَسُ مِنْ حُسْنِ نَظَرِکَ لِی بَعْدَ مَماتِی وَٲَ نْتَ لَمْ تُوَلِّنِی إلاَّ
نہ فرما میرے معبود! میں مرنے کے بعد تیرے عمدہ التفات سے کیونکر مایوس ہوں گا جبکہ میں نے اپنی زندگی میں تیری طرف سے
الْجَمِیلَ فِی حَیَاتِی ۔ إلھِی تَوَلَّ مِنْ ٲَمْرِی مَا ٲَ نْتَ ٲَھْلُہُ، وَعُدْ عَلَیَّ بِفَضْلِکَ عَلی
سوائے نیکی کے کچھ اور نہیں دیکھا میرے معبود! میرے امور کا اس طرح ذمہ دار بن جو تیرے شایاں ہے اور مجھ گنہگار پر اپنے فضل
مُذْنِبٍ قَدْ غَمَرَھُ جَھْلُہُ ۔ إلھِی قَدْ سَتَرْتَ عَلَیَّ ذُ نُوباً فِی الدُّنْیا وَٲَ نَا ٲَحْوَجُ إلی
سے توجہ فرما جسے نادانی نے گھیر رکھا ہے میرے معبود! تو نے دنیا میں میرے گناہوں کی پردہ پوشی فرمائی جبکہ میں آخرت میں
سَتْرِہا عَلَیَّ مِنْکَ فِی الاَُْخْری إذْ لَمْ تُظْھِرْہا لاََِحَدٍ مِنْ عِبادِکَ الصَّالِحِینَ
اپنے گناہوں کی پردہ پوشی کا زیادہ محتاج ہوں میرے معبود! یہ تیرا احسان ہے کہ تو نے میرے گناہ اپنے نیک بندوں میں سے کسی پر
فَلا تَفْضَحْنِی یَوْمَ الْقِیامَۃِ عَلی رُؤُوسِ الْاَشْہادِ إلھِی جُودُکَ بَسَطَ ٲَمَلِی
ظاہر نہیں کیے پس روز قیامت بھی مجھے لوگوں کے سامنے رسوا و ذلیل نہ فرما میرے معبود! تیری عطا میری امید پر چھائی ہوئی ہے اور
وَعَفْوُکَ ٲَفْضَلُ مِنْ عَمَلِی إلھِی فَسُرَّنِی بِلِقائِکَ یَوْمَ تَقْضِی فِیہِ بَیْنَ عِبادِکَ
تیرا عفو میرے عمل سے برتر ہے میرے معبود! اپنی ملاقات سے مجھے شاد فرما جس روز تو اپنے بندوں کے درمیان فیصلے کرے گا
إلھِی اعْتِذارِی إلَیْکَ اعْتِذارُ مَنْ لَمْ یَسْتَغْنِ عَنْ قَبُولِ عُذْرِھِ فَاقْبَلْ عُذْرِی یَا ٲَکْرَمَ
میرے معبود! تیرے حضور میری عذر خواہی اس شخص کی طرح ہے جو قبول عذر سے بے نیاز نہیں پس میرا عذر قبول فرما اے سب
مَنِ اعْتَذَرَ إلَیْہِ الْمُسِیئُونَ۔ إلھِی لاَ تَرُدَّ حاجَتِی، وَلاَ تُخَیِّبْ طَمَعِی
سے زیادہ کرم کرنے والے کہ جس کے سامنے گنہگار عذر خواہی کرتے ہیں میرے مولا میری حاجت رد نہ فرما میری طمع میںمجھے
وَلاَ تَقْطَعْ مِنْکَ رَجائِی وَٲَمَلِی ۔ إلھِی لَوْ ٲَرَدْتَ ھَوانِی لَمْ تَھْدِنِی
ناامید نہ کر اور میں تجھ سے جو امید و آرزو رکھتا ہوں اسے قطع نہ کرمیرے معبود اگر تو میری خواری چاہتا ہے تو میری رہنمائی نہ فرماتا اور
وَلَوْ ٲَرَدْتَ فَضِیحَتِی لَمْ تُعافِنِی ۔ إلھِی مَا ٲَظُنُّکَ تَرُدُّنِی فِی حاجَۃٍ قَدْ ٲَفْنَیْتُ
اگر تو میری رسوائی چاہتا تو میری پردہ پوشی نہ کرتا، میرے معبود! میں یہ گمان نہیں کرتا کہ تو میری وہ حاجت پوری نہ کرے گا جو میں عمر
عُمْرِی فِی طَلَبِہا مِنْکَ ۔ إلھِی فَلَکَ الْحَمْدُ ٲَبَداً ٲَبَداً دائِماً سَرْمَداً یَزِیدُ وَلاَ یَبِیدُ
بھر تجھ سے طلب کرتا رہاہوں، میرے معبود! حمد بس تیرے ہی لیے ہے ہمیشہ ہمیشہ پے در پے اور بے انتہا جو بڑھتی جاتی ہے اور کم
کَما تُحِبُّ وَتَرْضی إلھِی إنْ ٲَخَذْتَنِی بِجُرْمِی ٲَخَذْتُکَ بِعَفْوِکَ وَ إنْ ٲَخَذْتَنِی
نہیں ہوتی جو تجھے پسند ہے اور تجھے بھلی لگتی ہے، میرے معبود! اگر تو مجھے جرم پر پکڑے گا تو میں تیری بخشش کا دامن تھام لوں گا اگر
بِذُنُوبِی ٲَخَذْتُکَ بِمَغْفِرَتِکَ، وَ إنْ ٲَدْخَلْتَنِی النَّارَ ٲَعْلَمْتُ ٲَھْلَھا ٲَ نِّی ٲُحِبُّکَ
مجھے گناہ پر پکڑے گا تو میں تیری پردہ پوشی کا سہارا لوں گا اور اگرتو مجھے جہنم میں ڈالے گا تو میں اہل جہنم کو بتاؤں گا کہ میں تیرا چاہنے
إلھِی إنْ کانَ صَغُرَ فِی جَنْبِ طاعَتِکَ عَمَلِی فَقَدْ کَبُرَ فِی جَنْبِ رَجائِکَ ٲَمَلِی
والا ہوں میرے خدا! اگر تیری اطاعت کے سلسلے میں میرا عمل کمتر ہے تو بھی تجھ سے بخشش کی امید رکھنے میں میری آرزو بہت بڑی
إلھِی کَیْفَ ٲَنْقَلِبُ مِنْ عِنْدِکَ بِالْخَیْبَۃِ مَحْرُوماً وَقَدْ کانَ حُسْنُ ظَنِّی بِجُودِکَ ٲَنْ
ہے، میرے خدا! کس طرح میں تیری درگاہ سے مایوسی میں خالی ہاتھ پلٹ جاوں جبکہ میں تیری عطا سے یہ توقع رکھتا ہوں کہ تو مجھے
تَقْلِبَنِی بِالنَّجاۃِ مَرْحُوماً إلھِی وَقَدْ ٲَ فْنَیْتُ عُمْرِی فِی شِرَّۃِ السَّھْوِ عَنْکَ، وَٲَبْلَیْتُ
رحمت و بخشش کے ساتھ پلٹائے گا، میرے خدا ہوا یہ کہ میں نے تجھے فراموش کرکے اپنی زندگی برائی میں گزاری اور میں نے اپنی
شَبابِی فِی سَکْرَۃِ التَّباعُدِ مِنْکَ ۔ إلھِی فَلَمْ ٲَسْتَیْقِظْ ٲَیَّامَ اغْتِرارِی بِکَ، وَرُکُونِی
جوانی تجھ سے دوری اور غفلت میںگنوائی میرے خدا؛ تیرے مقابل جرأت کرنے کے دوران میں ہوش میں نہ آیا اور تیری ناخوشی
إلی سَبِیلِ سَخَطِکَ إلھِی وَٲَنَا عَبْدُکَ وَابْنُ عَبْدِکَ قائِمٌ بَیْنَ یَدَیْکَ مُتَوَسِّلٌ بِکَرَمِکَ
کے راستے پر چلتا گیا پھر بھی اے معبود؛ میں تیرا بندہ اور تیرے بندے کا بیٹا ہوں اور تیرے ہی لطف و کرم کو وسیلہ بنا کر تیری بارگاہ
إلَیْکَ إلھِی ٲَنَا عَبْدٌ ٲَتَنَصَّلُ إلَیْکَ مِمَّا کُنْتُ ٲُواجِھُکَ بِہِ مِنْ قِلَّۃِ اسْتِحْیائِی مِنْ
میں آکر کھڑا ہوں، میرے خدا! میں وہ بندہ ہوں جو خود کو تیری طرف کھینچ لایا ہے جبکہ میں تیری نگاہوں کا حیا نہ کرتے ہوئے تیرے
نَظَرِکَ، وَٲَطْلُبُ الْعَفْوَ مِنْکَ إذِ الْعَفْوُ نَعْتٌ لِکَرَمِکَ ۔ إلھِی لَمْ یَکُنْ لِی حَوْلٌ
مقابل اکڑا ہوا تھا میں تجھ سے معافی مانگتاہوں کیونکہ معاف کردینا تیرے لطف و کرم کا خاصہ ہے میرے خدا! میں جنبش نہیں کرسکتا تا
فَٲَنْتَقِلَ بِہِ عَنْ مَعْصِیَتِکَ إلاَّ فِی وَقْتٍ ٲَیْقَظْتَنِی لَِمحَبَّتِکَ، وَکَما ٲَرَدْتَ ٲَنْ ٲَکُونَ
کہ تیری نافرمانی کی حالت سے نکل آؤں مگر اس وقت جب تو مجھے اپنی محبت کی طرف متوجہ کرے کہ جیسا تو چاہے میں ویساہی بن
کُنْتُ فَشَکَرْتُکَ بِ إدْخالِی فِی کَرَمِکَ، وَ لِتَطْھِیرِ قَلْبِی مِنْ ٲَوْساخِ الْغَفْلَۃِ
سکتا ہوں پس میں تیرا شکر گذار ہوں کہ تو نے مجھے اپنی مہربانی میں داخل کیا اور میں تجھ سے جو غفلت کرتا رہاہوں میرے دل کو اس
عَنْکَ ۔ إلھِی انْظُرْ إلَیَّ نَظَرَ مَنْ نادَیْتَہُ فَٲَجابَکَ، وَاسْتَعْمَلْتَہُ بِمَعُونَتِکَ
سے پاک کردیا میرے خدا! مجھ پر وہ نظر کر جو تو تجھے پکارنے والے پر کرتا ہے تو اس کی دعا قبول کرتا ہیپھر اس کی یوں مدد کرتا ہے گویا
فَٲَطاعَکَ، یَا قَرِیباً لاَ یَبْعُدُ عَنِ الْمُغْتَرِّ بِہِ، وَیا جَواداً لاَ یَبْخَلُ عَمَّنْ رَجا
وہ تیرا فرمانبردار تھا اے قریب کہ جو نافرمان سے دوری اختیار نہیں کرتا اور اے بہت دینے والے جو ثواب کے امیدوار کے کیے کمی
ثَوابَہُ ۔ إلھِی ھَبْ لِی قَلْباً یُدْنِیہِ مِنْکَ شَوْقُہُ، وَ لِساناً یُرْفَعُ إلَیْکَ صِدْقُہُ، وَنَظَراً
نہیں کرتا، میرے خدا! مجھے وہ دل دے جس میں تیرے قرب کاشوق ہو۔ وہ زبان عطا فرما جو تیرے حضور سچی رہے اور وہ نظر دے
یُقَرِّبُہُ مِنْکَ حَقُّہُ۔ إلھِی إنَّ مَنْ تَعَرَّفَ بِکَ غَیْرُ مَجْھُولٍ، وَمَنْ لاذَ بِکَ غَیْرُ مَخْذُولٍ
جس کی حق بینی مجھے تیرے قریب کرے، میرے خدا! بے شک جسے تو جان لے وہ نامعلوم نہیں رہتا جو تیری محبت میں آجائے وہ بے
وَمَنْ ٲَ قْبَلْتَ عَلَیْہِ غَیْرُ مَمْلُولٍ ۔ إلھِی إنَّ مَنِ انْتَھَجَ بِکَ لَمُسْتَنِیرٌ، وَ إنَّ مَنِ
کس نہیں ہوتا اور جس پر تیری نگاہ کرم ہو وہ کسی کا غلام نہیں ہوتا، میرے خدا! بے شک جو تیری طرف بڑھے اسے نور ملتا ہے اور جو تجھ
اعْتَصَمَ بِکَ لَمُسْتَجِیرٌ، وَقَدْ لُذْتُ بِکَ یَا إلھِی فَلا تُخَیِّبْ ظَنِّی مِنْ رَحْمَتِکَ،
سے وابستہ ہو وہ پناہ یافتہ ہے، ہاں میں تیری پناہ لیتا ہوں اے خدا؛ مجھے اپنے دوستوں میں قرار دے جن کا مقام یہ ہے
وَلاَ تَحْجُبْنِی عَنْ رَٲْفَتِکَ ۔ إلھِی ٲَقِمْنِی فِی ٲَھْلِ وِلایَتِکَ مُقامَ مَنْ رَجَا
کہ وہ تیری محبت کی بہت امید رکھتے ہیں، میرے خدا! مجھے اپنے ذکر کے ذریعے اپنے ذکر کا
الزِّیادَۃَ مِنْ مَحَبَّتِکَ ۔ إلھِی وَٲَ لْھِمْنِی وَلَہاً بِذِکْرِکَ إلی ذِکْرِکَ، وَھِمَّتِی فِی رَوْحِ
شوق اور ذوق دے اور مجھے اپنے اسمائ حسنیٰ سے مسرور ہونے اور اپنے پاکیزہ مقام سے دلی سکون حاصل کر
نَجاحِ ٲَسْمائِکَ وَمَحَلِّ قُدْسِکَ إلھِی بِکَ عَلَیْکَ إلاَّ ٲَلْحَقْتَنِی بِمَحَلِّ ٲَھْلِ طاعَتِکَ
نیکی ہمت دے میرے خدا تجھے تیری ذات کا واسطہ ہے کہ مجھے اپنے فرمانبردار بندوں میں شامل کرلے
وَالْمَثْوَی الصَّالِحِ مِنْ مَرْضاتِکَ، فَ إنِّی لاَ ٲَقْدِرُ لِنَفْسِی دَفْعاً، وَلا ٲَمْلِکُ لَہا نَفْعاً ۔
اور اپنی خوشنودی کے مقام تک پہنچادے کیونکہ میں نہ اپنا بچاؤ کرسکتا ہوں اورنہ اپنے آپ کو کچھ فائدہ پہنچاسکتاہوں ،
إلھِی ٲَ نَا عَبْدُکَ الضَّعِیفُ الْمُذْنِبُ، وَمَمْلُوکُکَ الْمُنِیبُ فَلا تَجْعَلْنِی مِمَّنْ صَرَفْتَ
میرے خدا؛ میں تیرا ایک کمزور و گنہگار بندہ اور تجھ سے معافی کا طلب گار غلام ہوں پس مجھے ان لوگوں میں نہ رکھ جن سے تو نے توجہ
عَنْہُ وَجْھَکَ وَحَجَبَہُ سَھْوُھُ عَنْ عَفْوِکَ ۔ إلھِی ھَبْ لی کَمالَ الانْقِطاعِ إلَیْکَ، وَٲَنِرْ
ہٹالی اور جن کی بھول نے انہیںتیرے عفو سے غافل کر رکھا ہے میرے خدا مجھے توفیق دے کہ میں تیری بارگاہ کا ہوجاؤں اور ہمارے
ٲَبْصارَ قُلُوبِنا بِضِیائِ نَظَرِہا إلَیْکَ، حَتَّی تَخْرِقَ ٲَبْصارُ الْقُلُوبِ حُجُبَ النُّورِ
اورہمارے دلوں کی آنکھیں جب تیری طرف نظر کریں تو انہیں نورانی بنادے تا کہ یہ دیدہ ہائے دل حجابات نور کو پار کرکے تیری
فَتَصِلَ إلی مَعْدِنِ الْعَظَمَۃِ، وَتَصِیرَ ٲَرْواحُنا مُعَلَّقَۃً بِعِزِّ قُدْسِکَ ۔ إلھِی وَاجْعَلْنِی
عظمت و بزرگی کے مرکز سے جاملیں اور ہماری روحیں تیری پاکیزہ بلندیوں پر آویزاں ہوجائیں میرے خدا؛ مجھے ان لوگوں میںرکھ
مِمَّنْ نادَیْتَہُ فَٲَجابَکَ، وَلاحَظْتَہُ فَصَعِقَ لِجَلالِکَ، فَناجَیْتَہُ سِرّاً
جن کو تو نے پکارا تو انہوں نے جواب دیا تو نے ان پر توجہ فرمائی تو انہوں نے تیرے جلال کا نعرہ لگایا ہاں تو نے انہیں باطن میں پکارا
وَعَمِلَ لَکَ جَھْراً ۔ إلھِی لَمْ ٲُسَلِّطْ عَلی حُسْنِ ظَنِّی قُنُوطَ الْاَیاسِ، وَلاَ انْقَطَعَ
اور انہوں نے تیرے لیے ظاہر میں عمل کیا ، میرے خدا؛ میں نے اپنے حسن ظن پر ناامیدی کو مسلط نہیںکیا اور تیرے
رَجائِی مِنْ جَمِیلِ کَرَمِکَ ۔ إلھِی إنْ کانَتِ الْخَطایَا قَدْ ٲَسْقَطَتْنِی لَدَیْکَ فَاصْفَحْ
لطف و کرم کی توقع قطع نہیں ہونے دی ہے، میرے خدا؛ اگر تیرے نزدیک میری خطائیں نظر انداز کردی گئی ہیںتو میری جو توکل تجھ
عَنِّی بِحُسْنِ تَوَکُّلِی عَلَیْکَ ۔ إلھِی إنْ حَطَّتْنِی الذُّنُوبُ مِنْ مَکارِمِ لُطْفِکَ فَقَدْ
پر ہے اس کے پیش نظر میری پردہ پوشی فرمادے، میرے خدا؛ اگر گناہوں نے مجھے تیرے کرم کی برکتوں سے دور کردیا ہے تو بھی
نَبَّھَنِی الْیَقِینُ إلی کَرَمِ عَطْفِکَ ۔ إلھِی إنْ ٲَنامَتْنِی الْغَفْلَۃُ عَنِ الاسْتِعْدادِ
یقین نے مجھے تیری عنایت و مہربانی سے آگاہ کر رکھا ہے میرے خدا؛ اگر میں نے خواب غفلت میں پڑکر تیری بارگاہ میں حاضری کی
لِلِقائِکَ فَقَدْ نَبَّھَتْنِی الْمَعْرِفَۃُ بِکَرَمِ آلائِکَ ۔ إلھِی إنْ دَعانِی إلَی النَّارِ عَظِیمُ عِقابِکَ
تیاری نہیں کی تو بے شک معرفت نے مجھے تیری مہربانیوں سے باخبر کردیا ہے، میرے خدا؛ اگر تیری سخت سزا مجھے جہنم کی طرف
فَقَدْ دَعانِی إلَی الْجَنَّۃِ جَزِیلُ ثَوابِکَ ۔ إلھِی فَلَکَ ٲَسْٲَلُ وَ إلَیْکَ ٲَبْتَھِلُ
بلارہی ہے تو بھی تیرا بہت زیادہ ثواب مجھے جنت کی سمت لیے جاتا ہے، میرے خدا؛ میں بس تیرا سوالی ہوں تیرے آگے زاری کرتا
وَٲَرْغَبُ، وَٲَسْٲَ لُکَ ٲَنْ تُصَلِّیَ عَلی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَٲَنْ تَجْعَلَنِی مِمَّنْ یُدِیمُ
ہوں تیرے پاس آیا ہوں اور تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ محمد(ص) و آل محمد(ص) پر رحمت نازل فرما اور یہ کہ مجھے ایسا قرار دے جو ہمیشہ تیرا
ذِکْرَکَ، وَلاَ یَنْقُضُ عَھْدَکَ، وَلاَ یَغْفُلُ عَنْ شُکْرِکَ، وَلاَ یَسْتَخِفُّ بِٲَمْرِکَ ۔
ذکر کرتا رہا، جس نے تیری نافرمانی نہیں کی، جو تیرا شکر ادا کرنے سے غافل نہیںہوا اور جس نے تیرے فرمان کو سبک نہیں سمجھا،
إلھِی وَٲَلْحِقْنِی بِنُورِ عِزِّکَ الْاَ بْھَجِ فَٲَکُونَ لَکَ عارِفاً وَعَنْ سِواکَ مُنْحَرِفاً، وَمِنْکَ
میرے خدا؛ مجھے اپنی روشن تر عزت کو نور تک پہنچادے تا کہ میں تجھے پہچان لوں، تیرے غیر کو چھوڑدوں اور تجھ سے
خائِفاً مُراقِباً یَا ذَا الْجَلالِ وَالْاِکْرامِ وَصَلَّی اﷲُ عَلی مُحَمَّدٍ رَسُولِہِ وَآلِہِ
ڈرتے ہوئے تیری جانب متوجہ رہوں اے سب مرتبوں اور عزتوں کے مالک اور اللہ اپنے رسول محمد مصطفی(ص) پررحمت نازل فرمائے
الطَّاھِرِینَ وَسَلَّمَ تَسْلِیماً کَثِیراً ۔
اور ان کی پاکیزہ آل(ع) پر اور سلام بھیجے کہ جو سلام بھیجنے کاحق ہے۔
اور یہ بہت جلیل القدر مناجات ہیں جو آئمہ کی طرف سے منسوب ہیں اور یہ دعا مضامین عالیہ پر مشتمل ہے جب انسان حضور قلب رکھتا ہو اس دعا کا پڑھنا مناسب ہے
اسلام ہي اصل تہذيب ہے
ہمت علي
سيّد قطب شھيد کي کتاب معالم في الطريق سے اقتباسات
اسلام ہي اصل تہذيب ہے
اِسلام صرف دو قسم کے معاشروں کو جانتا ہے۔ ايک اسلامي معاشرہ اور دوسرا جاہلي معاشرہ۔ اسلامي معاشرہ وہ ہے جس ميں انساني زندگي کي زمامِ قيادت اسلام کے ہاتھ ميں ہو۔ انسانوں کے عقائد و عبادات پر، ملکي قانون اور نظامِ رياست پر، اخلاق و معاملات پر غرضيکہ زندگي کے ہر پہلو پر اسلام کي عملداري ہو۔ جاہلي معاشرہ وہ ہے جس ميں اسلام عملي زندگي سے خارج ہو۔ نہ اسلام کے عقائد و تصورات اُس پر حکمراني کرتے ہوں، نہ اسلامي اقدار اور ردّو قبول کے اسلامي پيمانوں کو وہاں برتري حاصل ہو، نہ اسلامي قوانين و ضوابط کا سکہّ رواں ہو اور نہ اسلامي اخلاق و معاملات کسي درجہ فوقيت رکھتے ہوں
اِسلامي معاشرہ وہ نہيں ہے جو "مسلمان" نام کے انسانوں پر مشتمل ہو، مگر اسلامي شريعت کو وہاں کوئي قانوني پوزيشن حاصل نہ ہو۔ ايسے معاشرے ميں اگر نماز روزے اور حج کا اہتمام موجودبھي ہو تو بھي وہ اسلامي معاشرہ نہيں ہوگا، بلکہ وہ ايک ايسا معاشرہ ہے جو خدا اور رسول کے احکام اور فيصلوں سے آزاد ہو کر اپنے مطالبہ نفس کے تحت اسلام کا ايک جديد ايڈيشن تيار کرليتا ہے اور اُسے۔۔۔برسبيل ِمثال۔۔۔ "ترقي پسند اسلام" کےنام سے موسوم کرليتا ہے!
جاہلي معاشرہ مختلف بھيس بدلتا رہتا ہے، جو تمام کے تمام جاہليت ہي سے ماخوذ ہوتے ہيں۔ کبھي وہ ايک ايسے اجتماع کا لبادہ اوڑھ ليتا ہے، جس ميں اللہ کے وجود کا سرے سے انکار کيا جاتا ہے اور انساني تاريخ کي مادي اور جدلي تعبير ( nterpretational Dialectual) کي جاتي ہے اور "سائنٹيفک سوشلزم" کو نظامِ زندگي کي حثيت سے عملي جامعہ پہنايا جاتا ہے۔ وہ کبھي ايک ايسي جمعيت کے رنگ ميں نمودار ہوتا ہے جو خدا کے وجود کي تو منکر نہيں ہوتي، ليکن اُس کي فرماں روائي اور اقتدار کو صرف آسمانوں تک محدود رکھتي ہے۔ رہي زمين کي فرماروائي تعو اس سے خدا کو بے دخل رکھتي ہے۔ نہ خدا کي شريعت کو نظامِ زندگي ميں نافذ کرتي ہے ، اور نہ خدا کي تجويز کردہ اقدارِحيات کو جسے خدا نےانساني زندگي کے ليے ابدي اور غير متغير اقدار ٹھيرايا ہے فرماں روائي کا منصب ديتي ہے۔ وہ لوگوں کو يہ اجازت تو ديتي ہے کہ وہ مسجدوں، کليساؤں اور عبادت گاہوں کي چارديواري کے اندر خدا کي پوجا پاٹ کرليں، ليکن يہ گوارہ نہيں کرتي کہ لوگ زندگي کے دوسرے پہلوؤں کے اندر بھي شريعتِ الہيٰ کو حاکم بناليں۔ اس لحاظ سے وہ جمعيت تختہ زمين پر خدا کي الوہيت کي باغي ہوتي ہے کيونکہ وہ اُسے عملي زندگي ميں معطل کرکے رکھ ديتي ہے، حالانکہ اللہ تعاليٰ کا صريح فرمان ہے: وھو الذي في السمأٌ الہ و في الارض الہ (وہي خدا ہے جو آسمان ميں بھي الہٰ ہے اور زمين ميں بھي)۔ اس طرز عمل کي وجہ سے يہ معاشرہ اللہ کے اس پاکيزہ نظام کي تعريف ميں نہيں آتا جسے اللہ تعاليٰ نے آيت ذيل ميں "دين قيّم" سےتعبير فرمايا ہے:
حکم صرف اللہ کا ہے۔ اُسي کا فرمان ہے کہ اُس کے سوا کسي کي بندگي نہ کي جائے۔ يہي دين قيّم (ٹھيٹھ سيدھا طريقِ زندگي) ہے۔ (يوسف: 84)
يہي وہ اجتماعي طرزِعمل ہے جس کي وجہ سے يہ معاشرہ بھي جاہلي معاشروں صف ميں شمار ہوتا ہے۔ چاہے وہ لاکھ اللہ کے وجود کا اقرار کرے اور لوگوں کو مسجدوں اور کليساؤں اور صوامع کے اندر اللہ کے اگے مذہبي مراسم کي ادائيگي سے نہ روکے۔)
آغاز ميں ہم اسلامي معاشرہ کي جو تعريف کر آئے ہيں اُس کي بنا پر يہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ صرف اِسلامي معاشرہ ہي درحقيقت "مہذب معاشرہ" ہے۔ جاہلي معاشرے خواہ جس رنگ اور رو پ ميں ہوں بنيادي طور پر پسماندہ اور غير مہذب معاشرے ہوتے ہيں۔ اس اجمال کي وضاحت ضروري معلوم ہوتي ہے۔
ايک مرتبہ ميں نے اپني زير طبع کتاب کا اعلان کيا اوراُس کا نام رکھا:" نحو مجتمع اسلامي متحضر" ( مہذب اسلامي معاشرہ)۔ ليکن اگلے اعلان ميں ميَں نے "مہذب" کا لفظ حذف کرديا اور اس کا نام صرف "اسلامي معاشرہ" رہنے ديا۔ اس ترميم پر ايک الجزائري مصنف کي جو فرانسيسي زبان ميں لکھتے ہيں نظر پڑي اور انہوں نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اِس تبديلي کا محّرک وہ نفسياتي عمل ہے جو اسلام کي مدافعت کے وقت ذہن پر اثرانداز ہوتا ہے۔ موصوف نے افسوس کا اظہار کيا کہ يہ عمل جو ناپختگي کي علامت ہے مجھے اصل مشکل کا حقيقت پسندانہ سامنا کرنے سے روک رہا ہے۔ ميں اِس الجزائري مصّنف کو معذور سمجھتا ہوں۔ ميں خود بھي پہلے اُنہي کا ہم خيال تھا۔ اور جب ميں نے پہلي مرتبہ اس موضوع پر قلم اٹھايا تو اُس وقت ميں بھي اُسي انداز پر سوچ رہا تھا جس انداز پر وہ آج سوچ رہے ہيں۔ اور جو مشکل آج اُنہيں درپيش ہے وہي مشکل اس وقت مجھے خود درپيش تھي۔ يعني يہ کہ "تہذيب کسے کہتے ہيں" اُس وقت تک ميں نے اپني اُن علمي اور فکري کمزوريوں سے نجات نہيں پائي تھي جو ميري ذہني اور نفسياتي تعمير ميں رچ بس چکي تھيں۔ ان کمزوريوں کا ماخذ مغربي لٹريچر اور مغربي افکاروتصّورات تھے جو بلاشبہ ميرے اسلامي جذبہ و شعور کے ليے اجنبي تھے، اور اُس دور ميں بھي وہ ميرے واضح اسلامي رجحان اور ذوق کے خلاف تھے۔ تاہم ان بنيادي کمزوريوں نے ميري فکرکو غبار الود اور اُس کے پاکيزہ نقوش کو مسخ کررکھا تھا۔ تہذيب کا وہ تصّور جو يورپي فکر ميں پايا جاتا ہے ميري آنکھوں ميں سمايا رہتا تھا، اس نے ميرے ذہن پر پردہ ڈال رکھا تھا اور مجھے نکھري ہوئي اور حقيقت رسا نظر سے محروم کررکھا تھا۔ مگر بعد ميں اصل تصوير نکھر کر ميرے سامنے اگئي اور مجھ پر يہ راز کھلا کہ اسلامي معاشرہ ہي دراصل مہذب معاشرہ ہوتا ہے۔ ميں نے اپني کتاب کےنام پر غور کيا تو معلوم ہوا کہ اس ميں لفظ "مہذب" زائد ہے۔ اور اس سے مفہوم ميں کسي نئي چيز کا اضافہ نہيں ہوتا۔ بلکہ يہ لفظ الٹا قاري کے احساسات پر اُس اجنبي فکر کي پرچھائياں ڈال دے گا جو ميرے ذہن پر بھي چھائي رہي ہيں اور جنھوں نے مجھے صحّت مندانہ نگاہ سے محروم کررکھا تھا۔
اب موضوع زير بحث يہ ہے کہ "تہذيب کسے کہتے ہيں؟"۔ اس حقيقت کي وضاحت ناگريز ہوتي ہے۔
جب کسي معاشرے ميں حاکمّيت صرف اللہ کے ليے مخصوص ہو، اور اس کا عملي ثبوت يہ ہو کہ اللہ کي شريعت کو معاشرے ميں برتري حاصل ہو تو صرف ايسے معاشرے ميں انسان اپنے جيسے انسانوں کي غلامي سےکامل اور حقيقي آزادي حاصل کرسکتے ہيں۔ اسي کامل اور حقيقي آزادي کا نام "انساني تہذيب " ہے۔ اس ليے کہ انسان کي تہذيب ايک ايسا بنيادي ادارہ چاہتي ہے جس کي حدود ميں انسان مکمل اور حقيقي آزادي سے سرشار ہو اور معاشرے کا ہر فرد غير مشروط طور پر انساني شرف و فضيلت سے متمتع ہو۔ اور جس معاشرے کا ہر فرد کا يہ حال ہو کہ اُس ميں کچھ لوگ رب اور شارع بنے ہوں اور باقي اُن کے اطاعت کيش غلام ہوں، تو ايسے معاشرے ميں انسان کو بحثيت انسان کوئي آزادي نصيب نہيں ہوتي اور نہ وہ اُس شرف و فضيلت سے ہمکنار ہو سکتا ہے جو لازمہ انسانيت ہے۔
جاري۔۔۔
يہاں ضمناٌ يہ نکتہ بيان کردينا بھي ضروري ہے کہ قانون کا دائرہ صرف قانوني احکام تک محدود نہيں ہوتا، جيسا کہ آج کل لفظ شريعت کے بارے ميں لوگوں کے ذہنوں ميں محدود اور تنگ مفہوم پايا جاتا ہے۔ بلکہ تصورات، طريقہ زندگي، اقدار حيات، ردوقبول کے پيمانے، عادات و روايات يہ سب بھي قانون کے دائرے ميں آتے ہيں۔ اور افراد پر اثرانداز ہوتے ہيں۔ اگر انسانوں کا ايک مخصوص گروہ يہ سب بيڑياں يا دباؤ کے اساليب ہدايت الہيٰ سے بے نياز ہوکر تراش لے اور معاشرے کے دوسرے افراد کو ان ميں مقيد کرکے رکھ دے تو ايسے معاشرے کو کيوں کر آزاد معاشرہ کہا جاسکتا ہے۔ يہ تو ايسا معاشرہ ہے جس ميں بعض افراد کو مقام ربوبيت حاصل ہے اور باقي لوگ ان ارباب کي عبوديت ميں گرفتار ہيں۔ اس وجہ سے يہ معاشرہ پسماندہ معاشرہ شمار ہوگا يا اسلامي اصطلاحوں ميں اُسے جاہلي معاشرہ کہيں گے۔
صرف اسلامي معاشرہ ہي وہ منفرد اور يکتا معاشرہ ہے جس ميں اقتدارکي زمام صرف ايک الہٰ کے ہاتھ ميں ہوتي ہے۔ اور انسان اپنے ہم جنسوں کي غلامي کي بيڑياں کاٹ کر صرف اللہ کي غلامي ميں داخل ہوجاتے ہيں۔ اور يوں وہ کامل اور حقيقي ازادي سے جو انسان کي تہذيب کا نقطہ ماسکہ ہے ، بہرہ ور ہوتے ہيں۔ اس معاشرے ميں انساني فضيلت و شرف اسي حقيقي صورت ميں نورافگن ہوتي ہے جو اللہ تعالےٰ نے اس کےليے تجويز فرمائي ہے۔ اس معاشرے ميں انسان ايک طرف زمين پر اللہ کي نيابت کے منصب پر سرفراز ہوتا ہے، اور دوسري طرف ملاءاعليٰ ميں اس کے ليے غيرمعمولي اعزاز اور مرتبہ بلند کا اعلان بھي ہوجاتاہے ۔
جب کسي معاشرے ميں انساني اجتماع اور مدنيت کے بنيادي رشتے عقيدہ ، تصور ، نظريہ اور طريق حيات سے عبارت ہوں اور اُن کا ماخذ و منبع صرف ايک الہٰ ہو اور انسان نيا بت کے درجہ پر سرفراز ہو۔ اور يہ صورت نہ ہو کہ فرمانروائي کا سرچشمہ زميني ارباب ہوں اور انسان کے گلے ميں انسان کي غلامي کا طوق پڑا ہو۔۔۔۔ بلکہ اس کے برعکس انسان صرف ايک خدا کے بندے ہوں تو تبھي ايک ايسا پاکيزہ انساني اجتماع وجود ميں آسکتا ہے، جو ان تمام اعليٰ خصائص کي جلوہ گاہ ہوتا ہے جو انسان کي روح اور فکر ميں وديعت ہيں۔ ليکن اس کے برعکس اگر معاشرے کے اندر انساني تعلقات کي بنياد رنگ و نسل، اور قوم و ملک اور اسي نوعيت کے دوسرے رشتوں پر رکھي گئي ہو تو ظاہر ہے کہ يہ رشتے زنجير ثابت ہوتے ہيں اور انسان کے اعليٰ خصائص کو اُبھرنے کا موقع نہيں ديتے۔ انسان رنگ و نسل اور قوم و وطن کي حد بنديوں سے آزاد رہ کر بھي انسان ہي رہے گا مگر روح اور عقل کے بغير وہ انسان نہيں رہ سکتا۔مزيد براں يہ کہ وہ اپنے عقيدہ و تصور اور نظريہ حيات کو اپنے آزاد ارادے سے بدلنے کا اختيار بھي رکھتا ہے ، مگر اپنے رنگ اور اپني نسل ميں تبديلي پر قادر نہيں ہے، اور نہ اس بات کي اُسے قدرت حاصل ہے کہ وہ کسي مخصوص قوم يا مخصوص وطن ميں اپني پيدائش کا فيصلہ کرے۔ لہذا يہ ثابت ہوئي کہ وہ معاشرہ جس ميں انسانوں کا اجتماع ايک ايسي بات پر ہو جس کا تعلق اُن کي آزاد مرضي اور اُن کي پسند سے ہو وہي معاشرہ نور تہذيب سے منور ہے۔ اس کے برعکس وہ معاشرہ جس کے افراد اپنے انساني ارادے سے ہٹ کر کسي اور بنياد پر مجتمع ہوں، وہ پسماندہ معاشرہ ہے۔ يا اسلامي اصطلاح ميں وہ جاہلي معاشرہ ہے۔
تشیع اسلام کا ہم عمر
وما أرسلناك إلا رحمة للعالمين
رحمۃللعالمین
عبدالکریم پاک نیا
خداے رحمان و رحیم نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی رحمت مھربانی اور ومھر محبت کا مظہر بنا کر بھیجا ہے آپ کی شان میں ارشاد ربانی ہے "وما ارسلناک الا رحمۃ للعالمین
رحمۃ للعالمین
خداے رحمان و رحیم نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی رحمت مھربانی اور ومھر محبت کا مظہر بنا کر بھیجا ہے آپ کی شان میں ارشاد ربانی ہے "وما ارسلناک الا رحمۃ للعالمین "ہم نے تمہیں نہیں بھیجا مگر عالمین کے لۓ رحمت بنا کر ۔
متعدد آیات میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مھربانی دلسوزی اور بے پناہ عنایات کا ذکر کیا گيا ہے اور آپ کی حیات طیبہ کا جائزہ لینے سے یہ حقیقت اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خوان رحمت محبت و عطوفت و رافت سے نہ صرف اھل ایمان بہرہ ور ہیں بلکہ سارے انسان یہانتک کے موجودات بھی بہرہ مند ہیں ۔
رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت کا سرچشمہ ذات احدیت کی رحمت ہے اور اسی اسم مبارک(رحمان و رحیم ) سے قرآن کی تمام سورتیں شروع ہوتی ہیں ۔
خدا کے بارے میں رحمت کے معنی عطا،افاضہ اور حاجت و ضرورت پوری کرنے کے ہیں ،صفت رحمان و رحیم میں رحمت خدا کے معنی بے پناہ رحمت کے ہیں جو وسیع البنیاد اور دائمی ہے اور تمام موجودات عالم منجملہ انسانوں کو خواہ مومن ہوں یا کافر شامل ہے ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا وجود مقدس ،آپ کی رسالت اور پیغام وحی اور آپ کی تمام زحمتیں اور کوششیں سب خداے واحد و رحمان کی رحمت کا مظہرہیں خود آپ نے فرمایا ہے "مجھے رحمت کے لۓ مبعوث کیا گيا ہے "
توحیدی حکومت
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت کا ایک اہم ترین جلوہ مدینہ منورہ میں اسلامی حکومت کی تشکیل ،ترویج توحید، سلامتی عدل و انصاف قائم کرنا اور مسلمانوں کی فلاح وبہبود کے کام کرنا ہے آپ نے مدینے میں اسلامی حکومت قائم کرنے کے بعد دین اسلام کو دنیا بھر میں پھیلانے کا عزم فرمایا اور اگر کچھ مسائل پیش نہ آتے اور مسلمان آپ کی بتائي ہوئي راہ پر گامزن رہتے تو ساری دنیا توحیدی حکومت کی نعمتوں سے بہرہ مند ہوتی جیسے کہ انشاء اللہ آپ کے آخری جانشین حضرت مھدی علیہ السلام کی حکومت میں مھر نبوی، عدل مھدوی اور دیگر نعمات خداوندی سے فیضیاب ہوگي دعاے ندبہ میں ہم پڑھتے ہیں کہ "خداونداہمیں امام زمانہ علیہ السلام کی رحمت ورافت دعا وخیر عنایت فرما تاکہ ہم اس کے ذریعے تیرے دریاے رحمت سے متصل اور تیرے حضور کامیاب ہوں "بنیادی طور پر سرزمین حجازمیں رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ کا مبعوث ہونا سارے انسانوں کے لۓ رحمت ہے کیونکہ آنحضرت نے مبعوث برسالت ہوکر جاھلیت کے غلط آداب اور خرافات کو مٹایا عورتوں اور دیگر پسماندہ لوگوں کو حقوق دلواے ظلم وستم و استثمارسے مقابلہ کیا قبیلوں کو آپسی جنگ وخونریزی سے روکا عدل وانصاف ومساوات قائم کی تمام قبیلوں قوموں اور حکومتوں کو پیغام وحی پہنچایا ،اپنے ساتھیوں کی ایسی تربیت کی کہ وہ فداکار مومن مدبر و اسلامی و انسانی اخلاق سے آراستہ ہوگۓ اخلاقی و روحانی فضائل سے انسانوں کو آراستہ کیا توحید و اتحاد کے ساے میں انسانوں کو عزت وآزادی عطاکی مخلوق و خالق کے درمیان مستحکم رابطہ قائم کیا یہ سب چیزیں رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت کا مظہرنہیں ہیں تو پھر کیا ہیں؟
وجود مقدس رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت سے سب سے زیادہ فائدہ مومنین کو پہنچتا ہے کیونکہ مومنین اپنی ذاتی اھلیت و لیاقت سے آپ کے توحیدی پیغام کو اچھی طرح سمجھنےکی صلاحیت رکھتے ہیں اور سعادت و رستگاری کی راہ پر گامزن ہوجاتے ہیں اسی بناپر خدا نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مومنین کے لۓ خاص سفارشیں کی ہیں سورہ شعراء میں ارشاد ہوتا ہےکہ اے رسول جو مومنین تمہارے پیرو ہوگۓ ہیں ان کے لۓ اپنا بازو جھکاو یعنی فروتنی سے پیش آؤ۔
اسی طرح سورہ حجر میں ارشادہوتا ہے "ایمان داروں سے جھک کرملاکرو"۔
رسول اکرم نے بھی مومنین کے سروں پر اپنا سایہ رحمت و رافت اور محبت و توضع پھیلادیا تھا ،رسول اکرم کے اس عمل کو سراھتے ہوۓ خدا فرماتا ہے "تو اے رسول یہ بھی خدا کی مھربانی ہےکہ تم جیسا نرم دل سردار ان کو ملا اور اگر تم بدمزاج اور سخت دل ہوتے تو تب یہ لوگ تمہارے پاس سے تتربتر ہوجاتے ۔
بے شک رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت مومنین کے شامل حال تھی اور مومنین بھی آپ کو دل سے چاہتے اور آپ پر اپنی جان نچھاور کیاکرتے تھے آّپ کی راہ میں اپنا سب کچھ لٹانے کو تیاررہتے اور آپ کے سامنے سرتسلیم خم تھے ۔
مثال کے طور پر ابوذر غفاری نے شدید تشنگي برداشت کی لیکن رسول اکرم کے پانی پینے کے بعد ہی پانی پیا ،بلال نے شدید ترین ایذائيں برداشت کیں لیکن آپ کی راہ سے منہ نہیں موڑا اسی طرح سلمان فارسی نے آپ کی محبت میں لمبی مسافت طے کی اور سفر کی طرح طرح کی صعوبتیں برداشت کیں ان سب سے بڑہ کر حضرت علی علیہ السلام نے بارھا اپنی جان پر کھیل کر آنحضرت کی نصرت کی ۔
فرشتوں کو بھی رسول اکرم کی رحمت سے فیض پہنچتاہے امین وحی جب یہ آیت وما ارسلناک الارحمۃ للعالمین لیکر آے تو رسول نے پوچھا کہ کیا اس رحمت سے تمہیں بھی فیض پہنچے گا تو جبرئيل نے کہا کہ میں اپنی عاقبت کے بارے میں تشویش میں مبتلا تھا لیکن اس آيت کے نازل ہونے کےبعد مجھے اطمئنان ہوگیا ۔
مخالفین کے کو بھی آنحضرت کی رحمت سے فیض پہنچتاہے اگر مخالفین و کفار اھلیت و لیاقت کا ثبوت پیش کرتے تو بے شک رحمت نبوی سے استفادہ کرکے اخروی اور معنوی مقامات تک پہنچ سکتے تھے لیکن انہوں نے رسول اسلام کی محبت و مھربانی کو نظراندازکیا بلکہ آپ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوے لہذا اس سنہری موقع سے فائدہ نہ اٹھاسکے رسول اکرم انہیں توحید کی دعوت دیتے تھے لیکن وہ انکار کرجاتے تھے لیکن مشرکین کی ایذارسانیوں کے باوجود رسول اسلام نے فتح مکہ کے دن اپنی رحمت و مھربانی کا مظاہرہ کرتے ہوۓ انہیں معاف فرمادیا ۔
ہجرت کے آٹھویں سال رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فاتح کی حیثیت سے مکہ مکرمہ میں داخل ہوۓ ،مشرکین و کفاراور آپ کے دشمنوں نے برسوں اسلام کو مٹانے کی کوشش کی تھی اور آپ پر اور آپ کے ساتھیوں کو شدید ترین مصائب و ظلم و ستم کا نشانہ بنایا تھا ان ہی لوگوں نے بارھا آپ کے قتل کا منصوبہ بنایاتھا اور کئی مرتبہ ان منصوبوں پر عمل بھی کیاتھاان ہی لوگوں نے آپ کے بہترين ساتھیوں کو خاک وخون میں غلطان کیاتھا اور جب انہوں نے فتح مکہ کے دن آپ کی عظمت وشوکت دیکھی تو رعب وحشت وخوف سے لرزنے لگے ان کا خیال تھا کہ رسول اسلام ان سے انتقام لیں گے لیکن رسول رحمت نے ہرگزان سے انتقام نہیں لیا بلکہ قرآن کی یہ آیت تلاوت فرمائی" آج سے تم پر کچھ الزام نہیں خدا تمہارے گناہ معاف فرماۓ "(یوسف 92)اور یہ معروف جملہ فرمایا کہ جاؤ زندگي کی طرف لوٹ جاؤ تم آزاد شدہ ہو۔
ماہ مبارک رجب کا آخری عشرہ
: ماہ مبارک رجب کا آخری عشرہ اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ اپنے دامن میں اپنی معنویت کے ساتھ کچھ اہم مناسبتوں کو بھی سمیٹے ہوئے ہے ایسی مناسبتیں جو تاریخ اسلام کے اہم موڑ سے گزرنے کی یاد دلاتی ہیں ۔
جہاں ان تاریخوں میں نام کے ان مسلمانوں کے قلعی کھلتی نظر آتی ہے جنہیں اپنی بہادری پر بڑا ناز تھا اور اسلام کی خاطر جان کی بازی لگا دینے کا انہوں نے ہمیشہ نعرہ دیا لیکن جب میدان ِعمل میں قدم رکھا تو ساری پول کھل کر سامنے آ گئی کہ کتنا دین کی خاطر قربانی کا جذبہ ہے اور کتنا خود کوہر قیمت پر بچانے لے جانے کی تمنا جہاں ایسے لوگوں کے چہروں سے نقاب اٹھتی ہے وہیں ماہ مبارک رجب کا یہ آخری عشرہ تاریخ اسلام کے اس سورما کی شجاعت کی یادگار بھی ہے جس نے فتح و ظفر کی ایک لازوال تاریخ رقم کر کے بتایا کہ انسان اگر خدا و رسول سے واقعی محبت کرتا ہوگا اور اس کے پیش ِ نظر خدا ہوگا تو کبھی بھی اس کے قدم کسی میدان سے پییچھے نہیں ہٹ سکتے ۔
ان ایام میں ۲۴ رجب کی تاریخ جہاں اس لحاظ سے اہم ہے کہ فتح خیبر کی یاد گار ہے وہیں ۲۲ رجب کی تاریخ جنگ خیبرمیں نمایاں شخصیتوں کے میدان چھوڑ کر بھاگنے کی یاد دلاتی ہے چنانچہ ملتا ہے کہ ۲۲ رجب ہی کی تاریخ میں جب ایک طرف یہودی خیبر نامی مضبوط قلعے کی پناہ میں تھے اور مسلمان سرداران لشکر قلعہ کو فتح کرنے کے لئے نکلے تو ایک بہت ہی نمایاں شخصیت اپنے پیروں کو جنگ میں جما نہ سکی پرچم ہاتھ میں لیکر نکلنے کے بعد بھی یہودیوں کے قلعہ پر پرچم نہ لہرا سکی [۱]۔
[۱:۵۵ بعدازظهر, ۱۳۹۹/۱/۳] +98 921 011 3821: یوں تو تاریخ ایک آئینہ ہے جس میں ہم اپنے حال کی تصویر کو دیکھ سکتے ہیں لیکن یہ تب ہوگا جب ہم اس سے عبرت لیں گے اور تاریخ کے ان کرداروں کو پہچانیں گے جنہوں نے دین کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دیا ، تاریخ میں ان لوگوں کا کردار بھی ہے جنہوں نے دین کے نام پر قوم کو لوٹا اور ان لوگوں کا کردار بھی ہے جنہوں نے دین کےلئے سب کچھ لٹا دیا وہ لوگ بھی ہیں جو بڑے دین کا درد رکھنے والے بنتے تھے لیکن جب دشمن سے مقابلہ پر آئے تو انکے چھکے چھوٹ گئے اور میدان چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے اور وہ بھی ہیں جنہوں نے کبھی کوئی بڑا دعوی نہیں کیا انکا ہر عمل دین کی تقویت کا سبب بنا اور انہوں نے اپنے ہر ایک عمل کو خدا سے منسوب کر کے اپنے ایمان اور اپنے خلوص کو واضح کیا ، وہ جو کچھ کرتے گئے یہ کہہ کر کرتے گئے کہ یہ سب رب حقیقی کی عنایتوں میں سے ہے ہم نے کیا کیا ہے اسی خضوع اور اسی انکساری نے انہیں دنیا میں سربلند کر کے علی ع بنا دیا وہ علی ع جسکی فکر بھی بلند ، جسکا عمل بھی بلند جسکا نام بھی بلند ی و کمال کا استعارہ قرار پایا ، جہاں یہ رجب کا آخری عشرہ نام کے مسلمانوں کی بہادری کی پول کھولنے والی مناسبتوں کو ہمارے سامنے پیش کر رہا ہے وہیں اسلام کے حقیقی جانثاروں ، حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام اور جناب جعفر سے جڑی مناسبتوں کو بھی پیش کر رہا ہے ایک مناسبت وہ ہے جہاں امام علی علیہ السلام نے خیبر کے قلعہ کو فتح کر کے اسلام کی ایک نئی تاریخ رقم کی تو دوسری مناسبت وہ ہے جہاں جناب جعفر کی حبشہ سے سربلند بازگشت کی بنا پر سرکار رسالت مآب کے لبوں پر مسکراہٹ آئی ، یہ ایام اسلام کے مثبت اور منفی دونوں ہی طرح کے کرداروں کو پیش کر رہے ہیں لیکن جن منفی کرداروں کو تاریخ نے پیش کیا ہے اور انکی حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے وہاں ہمیں ٹہر کر اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے ، انہیں صرف اس لئے پیش نہیں کیا گیا کہ ہم اسلام و مسلمانوں کی شرمساری کا سبب بننے والے اور میدان جنگ سے بھاگ کھڑے ہونے والے لوگوں کے سیادہ کارناموں کو ہم سن کر انہیں کھری کھوٹی سنا دیں کہ کتنے بیہودہ لوگ تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہوتے ہوئے یہودیوں کے سامنے نہ ٹک سکے ،یقینا انکا یہ عمل لائق مذمت ہے اور انکی شرمناک حرکت قابل ملامت ہے لیکن محض اتنا ہی نہیں کہ ہم دوسروں کی ملامت کرتے رہیں ہم ہی کیا ان پر تو پوری تاریخ ملامت کر رہی ہے اہم یہ ہے کہ ہم یہ طے کریں کہ آج کے خیبر میں ہم کہاں ہیں آج جب یہودیوں کی جانب سے مسلسل مسلمانوں کے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں تو ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ؟ میدان میں ہیں بھی یا نہیں ۲۲ رجب کی تاریخ ہمارے سامنے یہ سوال رکھتی ہے کہ کل جو بھاگے تھے وہ تو بھاگے ہی تھے آج ہم کہاں پر
اسلام نے 1400 سال قبل آزادی اور اجتمای عدالت جیسے مفاہیم سے انسانیت کو روشناس کروایا ہے ایران کے دشمنوں میں بدترین امریکہ ہے کیونکہ امریکی حکام دھوکہ باز اور دہشتگرد ہیں، آیت اللہ خامنہ ای عین ممکن ہے کہ امریکی دواؤں سے وائرس مزید پھیلے
اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے "عید سعید مبعث رسول اکرم(ص)" اور نئے ایرانی سال کے آغاز کی مناسبت سے ٹیلیویژن پر قوم سے خطاب میں اللہ تعالی کی بارگاہ میں کرونا وائرس کے وبائی مرض کے جلد خاتمے کی دعا کرتے ہوئے پوری دنیا کے انسانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ طبی ہدایات پر عمل کریں اور صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھیں۔
آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے 27 رجب المرجب کے روز حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر پہلی وحی کے نزول کی مناسبت سے منائی جانے والی عید مبعث رسول خدا(ص) کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت رسول خدا(ص) کی بعثت پر مبنی حقائق کو پوری تاریخ میں انسانیت کی نجات کا ذریعہ قرار دیا اور کہا کہ بعثت کی حقیقتوں پر عمل، خصوصا صبر و استقامت ہی ایرانی قوم کے ترقی اور قوت کی چوٹیوں تک پہنچنے کا واحد رستہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت کا واقعہ اتنا عظیم ہے کہ خداوند متعال نے اس کے حوالے سے قرآن مجید میں تمام بڑے انبیاءؑ سے عہد لیا ہے کہ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت کے موقع پر وہ آپؐ پر ایمان لائیں اور آپؐ کی امت کے ایمان میں لانے مدد کریں۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے دین مبین اسلام کے عظیم و الہی پیغام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ آزادی اور اجتماعی عدالت جیسے مفاہیم کا سرچشمہ مغربی دنیا ہے جبکہ مغربی دنیا صرف 3 یا 4 صدیوں سے ہی ان عظیم مفاہیم سے آگاہ ہوئی ہے البتہ اسلام وہ دین ہے جس نے آج سے 1400 سال قبل انسانیت کو یہ گراں بہا مفاہیم عطا کئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نہ صرف یہ کہ اسلام نے آج سے 1400 سال قبل انسان کو ان مفاہیم سے روشناس کروایا ہے بلکہ، مغرب کے جھوٹے دعووں کے برعکس، اسلام نے ہر جگہ پر ان مفاہیم کو عملی جامہ بھی پہنایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی معارف سے پروان چڑھنے والے اسلامی احکام نہ صرف اسلامی اقدار کے مطابق ہیں بلکہ بلندیوں کی طرف انسان کے سفر میں ممد و معاون بھی ہیں۔
ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ نے اسلام کے سیاسی پہلو اور اسلامی حکومت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر (اسلامی) سیاسی طاقت تشکیل نہ پائے تو غنڈے، مستکبر اور آزادی و اجتماعی عدالت کی مخالف تمام قوتیں (اسلامی) مفاہیم، اقدار اور احکام کو ہرگز عملی جامہ پہنانے نہ دیں جبکہ اس صورت میں انسان نجات و ترقی کے راستے پر گامزن ہونے سے قطعی طور پر محروم ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مدینہ کی طرف ہجرت کے بعد پہلی فرصت میں اسلامی حکومت کو تشکیل دیا۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ امام خمینیؒ نے اسلامی حقائق کو انتہائی گہرائی کے ساتھ درک کرتے ہوئے "بعثت" پر پوری طرح عمل پیرا ہو کر اپنے گہرے ایمان، خدا پر توکل اور ایرانی عوام کے سہارے کرپٹ، ظالم اور استکباری طاقتوں کے کٹھ پتلی پہلوی شہنشاہی نظام کو ختم کر کے اس کی جگہ اسلامی حکومتی نظام کو رائج کیا تاکہ "بعثت" کے معارف، اقدار اور احکام کی بنیاد پر ایرانی قوم کو فلاح و بہبود کی طرف ہدایت کر سکیں۔
مرجع عالیقدر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے قرآن کریم کے اندر انبیاءِ الہی اور خصوصا حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ برتی گئی وسیع دشمنیوں اور اسلامی نظام حکومت کے ساتھ برتی جانی والی دشمنی میں پائی جانے والی مشابہت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایرانی دشمنوں میں امریکہ سب سے زیادہ خبیث اور کینہ پرور ہے کیونکہ اس کے حکام کے اندر جھوٹ، بے ایمانی، لالچ، گستاخی اور چرب زبانی و مکاری جیسی انواع و اقسام کی اخلاقی برائیاں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صرف یہی نہیں بلکہ امریکی حکام انتہائی ظالم، دہشتگرد اور پرلے درجے کے بے رحم و سنگدل بھی ہیں۔ آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے اس حوالے سے حضرت رسول خدا(ص) کی بعثت کے پیغام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالی نے اپنے حبیب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بعثت کے شروع سے ہی دشمنیوں سے نمٹنے کے لئے ایک خاص اصول عطا فرمایا تھا جو "صبر" یعنی؛ "قیام"، "مزاحمت"، "اپنے حساب کتاب کو دشمن کی دھوکہ بازی سے تبدیل نہ کرنا"، "اختیار کردہ اعلی اہداف کے حصول کے لئے عزمِ راسخ کے ساتھ جدوجہد کرنا" اور "اپنے رستے پر گامزن رہنا" ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے ایرانی عوام کو دی جانے والی دھوکہ و فریب پر مبنی امریکی مدد کی متعدد پیشکشوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکی حکام کے یہ بیانات مضحکہ خیز ہیں کیونکہ وہ خود اس بیماری (کرونا وائرس) کی دواؤں اور متعلقہ طبی سازوسامان کی شدید کمی کا شکار ہیں۔ انہوں نے کہا بعض امریکی حکام نے کھل کر اعتراف بھی کیا ہے کہ امریکہ میں دواؤں اور طبی سامان کی کمی "وحشتناک" ہے لہذا (انہیں ہمارا جواب یہ ہے کہ) اگر ان کے پاس وسائل موجود ہیں تو وہ امریکی عوام کی مدد کریں۔ انہوں نے کہا کہ دوسرے یہ کہ جب امریکہ اس خطرناک وائرس کے بنائے اور پھیلائے جانے کا "ملزم" ہے تو کون سا عقلمند شخص امریکی حکام کی مدد کو قبول کر سکتا ہے۔ آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے کہا کہ امریکی حکام کسی طور اعتماد کے قابل نہیں کیونکہ عین ممکن ہے کہ امریکہ سے بھیجی جانے والی امدادی دوائیں ایران میں اس وائرس کو مزید پھیلانے یا لمبے عرصے تک باقی رہنے کا باعث بنیں یا ان کی طرف سے بھیجے جانے والے طبی ماہرین ایرانی عوام پر اس وائرس کے اثرات کی تحقیق کرنے کا ہدف رکھتے ہوں کیونکہ اس وائرس کے بارے میں محققین کی ایک رائے یہ بھی ہے کہ اس کی ایک قسم خصوصی طور پر ایرانی عوام کے لئے بنائی گئی ہے۔
آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے اسلامی نظام حکومت کے ساتھ عالمی استکباری طاقتوں کی 40 سالہ دشمنی کے تجربے اور ایران کے اندر ان دشمنیوں اور مشکلات سے مقابلے کی موجود بھرپور صلاحیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران کے اندر خدادادی صلاحتیں بہت زیادہ ہیں جبکہ انہیں ٹھیک طرح پہچاننے اور ان سے بہتر استفادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں عالمی وبا "کرونا وائرس" سے بچاؤ کے حوالے سے طبی ہدایات پر عملدرآمد کو "شرعی ذمہ داری" قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان طبی ہدایات پر عملدرآمد کی خاطر حتی دینی اجتماعات اور اہلبیت علیہم السلام کے حرم مبارک بھی بند کر دیئے گئے ہیں جبکہ پوری تاریخ میں پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا۔ انہوں نے بچاؤ اور احتیاطی تدابیر کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسے اقدامات اٹھائے گئے ہیں کیونکہ اس کے علاوہ کوئی اور رستہ موجود نہیں تھا اور اسی میں عوام کی مصلحت پوشیدہ ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کو اللہ تعالی سے اس دعا پر تمام کیا کہ اللہ تعالی سب مسلمانوں اور دنیا بھر کے انسانوں کو اس مصیبت سے جلد از جلد چھٹکارا عطا فرمائے۔
مشرق وسطیٰ اور مقاومتی بلاک
تحریر: اکبر حسین مخلصی
مقاومتی بلاک کے نام سے ہم سب آشنا ہیں، لیکن فقط نام تک کی آشنائی کافی نہیں، اگر ہم مشرق وسطیٰ میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی شکست کو سمجھنا چاہتے ہیں تو ہمارے لئے مقاومتی بلاک کی اصطلاح، قیام اور حکمت عملی کو سمجھنا ضروری ہے۔ مقاومتی بلاک کی تشکیل کا خلاصہ یہ ہے کہ غربی استعمار کی جارحانہ عسکری اور ثقافتی یلغار نے مستضعف قوموں کو non aligned movement جیسے کاونٹر فورم اور اسلامی مقاومتی بلاک کی تشکیل پر مجبور کیا۔ یہ اتحاد مشرق وسطیٰ میں مغرب اور اس کے اتحادیوں کو شکست سے دوچار کر رہا ہے۔ سامراجی قوتیں استقامتی بلاک کو داخلی خلفشار کی خلیج میں دھکیلنے کے لیے وار آن ٹیرر کا ڈرامہ رچا رہی ہیں۔ اس پلان کو حاصل کرنے کے لیے خطے کے عرب آمروں کو 34 ملکی اتحاد کا برگ حشیش دے کر مسلم دنیا کی آنکھوں میں وار آن ٹیرر کی دھول جھونکی جا رہی ہے۔ لیکن یہ پالیسی غیر متوقع حد تک ناکام ہوتی نظر آرہی ہے، کیونکہ مقاومتی بلاک کے تزویراتی اقدامات زیادہ موثر اور فیصلہ کن نتائج رکھتے ہیں۔
عرب خطے کی عوامی قوتیں مغرب کے اخلاقی دوہرے پن اور انسانی حقوق کے پرفریب نعروں کو تہذیبوں کے تصادم جیسے انتہاء پسندانہ پس منظر کی حامل نفسیاتی جنگ کے حربے کے طور پر دیکھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے خلاف استعماری قوتوں کا منفی پروپیگنڈا عالمی سطح پر نہ صرف فلاپ ہوا ہے بلکہ معکوس نتائج دینے لگا ہے۔ اسی لیے پسماندہ ترین سیاسی نظام رکھنے والے عرب ممالک کی رائے عامہ مغربی استکبار کے سیاسی دوغلے پن کو جمہوریت مخالف رویئے کے طور پر لیتی ہے۔ عرب رائے عامہ میں پائی جانے والی یہ تشویش بتدریج مغرب مخالف تحریکوں کی شکل اختیار کرکے عرب ممالک میں آمریت نوازی کے سامراجی پلان کو چیلینج کرتے ہوئے مقاومتی بلاک کی کاونٹر پالیسی کو تزویراتی بیک اپ دے گی۔ یوں استقامتی بلاک مشرق وسطی میں دفاعی پوزیشن سے اقدامی پوزیشن کی طرف سفر کریگا، جس کے ابتدایی نتائج شام، عراق اور یمن کے محاذ میں مقاومتی بلاک کی عسکری حکمت عملی کی واضح کامیابی کے طور پر سامنے آنے لگے ہیں۔
گریٹر مشرق وسطیٰ کا ناقوس بجانے والی غربی، عبری اور عربی ٹرائیکا یمن کی دلدل میں پھنس چکی ہے اور پراکسی وار کی بحرانی کیفیت سے نکلنے کے لیے شام میں سیف زون کا اسٹریٹیجک محاذ کھول کر مقاومتی بلاک کو انگیج رکھنا چاہتی ہے۔ جس کے لیے ترکی کو خلافت کا جھانسہ دے کر میدان میں اتارا گیا ہے، جو فلسطینی انتفاضہ کی مزاحمتی طاقت کو مضمحل کرکے اسرائیل کے مفادات کو تحفظ دے گا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ سیف زون کا کیموفلاج جہاں اسرائیل کو وقتی طور پر تحفظ دے گا، وہیں فلسطین کاز کے حل کے لیے استقامتی بلاک کو مزاحمتی سرگرمیوں کے لیے وسیع میدان بھی فراہم کرے گا، جس سے غاصب صہیونی دجالیت کو عبرتناک انجام تک پہنچانے میں بنیادی مدد ملے گی۔ البتہ اس پس منظر میں مخصوص مسلکی رجحانات کی حامل تکفیری قوتوں کے منافقانہ کردار کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ جو امپورٹیڈ جہادی عناصر کے ذریعے مقاومتی بلاک کو داخلی محاذ میں الجھانے کا ٹاسک رکھتی ہیں۔
جس کا اہم ہدف ایران فوبیا کے نفسیاتی داو پیچ استعمال کرکے عرب دنیا کی مزاحمتی قوتوں کو مقاومتی بلاک سے جدا کرنا ہے، لیکن وہ کامیاب نہیں ہو رہی، کیونکہ خطے کی رائے عامہ عرب آمریتوں کے جہادی ایجنڈے کی حقیقت کا بخوبی ادراک رکھتی ہے۔ اس تناظر میں معروضی حقائق اس بات کا کھلا اشارہ دے رہے ہیں کہ نیو ورلڈ آرڈر کی عالمگیریت کا خواب، مغرب کو ناگزیر طور پر نظام مہدویت سے براہ راست محاذ آرایی کی طرف لے جا رہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں، اب وہ دن دور نہیں کہ اسرائیل جیسا غاصب اور جارح ملک جلد ہی ہمیشہ کے لیے مشرق وسطیٰ کے نقشے سے معدوم ہونے والا ہے۔ البتہ اس کیلئے سارے مسلمانوں کو ایران فوبیا سے نکلنا ہوگا، چونکہ مشرق وسطیٰ میں اسوقت ایران ہی مقاومتی بلاک کا مرکزی ستون ہے۔
یورپ کی نام نہاد جمہوری حکومتیں اور خلیجی ممالک کی آمریتیں اسرائیل کے تحفظ کے لیے تکفیری جہادیوں کو مجاہدین کا لقب دے کر مشرق وسطیٰ میں مضبوط کر رہی ہیں۔ تاکہ یہ باور کرایا جا سکے کہ فلسطین کی آزادی کا حل مقاومت نہیں بلکہ پرامن ٹیبل ٹاک ہے۔ دو ریاستی حل جیسے امریکی ایجنڈے کو مسلم دنیا کے ردعمل سے بچنے کے لیے غیر سفارتی انداز میں پروموٹ کیا جا رہا ہے۔ پی ایل او اور الفتح جیسی تنظیمیں مجوزہ حل کے تباہ کن نتائج کو نظرانداز کرکے سکیورٹی کونسل سے آس لگائے بیٹھی ہیں۔ یہ عمل درحقیقت اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کو قانونی جواز فراہم کرکے فلسطینیوں کو اپنی دھرتی سے محروم کرنے کے صہیونی ایجنڈے کی تکمیل کا باعث بنے گا۔
ایسے حساس سناریو میں مقاومتی بلاک ہی وہ واحد طاقت ہے، جو انتفاضہ کی ڈگمگاتی قیادت کو روشن مستقبل کی امید دلا کر مظلوم فلسطینی نسلوں میں آبرومندانہ آزادی کی امنگ پیدا کر رہا ہے اور اسرائیل کی نابودی کے لیے کاونٹ ڈاون ایکسپیڈیشن لانچ کر رہا ہے۔ اگر استقامت جاری رہی تو ایک دن ارض مقدس سے صہیونی تسلط کے سیاہ بادل چھٹ جائیں گے اور بیت المقدس کے افق پر آزادی کی کرنیں جگمگائیں گی۔ یوں صہیونی سامراج کا نیو ورلڈ آرڈر، مقاومتی بلاک کے ہاتھوں عبرتناک انجام کو پہنچے گا اور فلسفہ انتظار مقتدرانہ حیثیت میں عالمی نجات دہندہ کے ظہور کی زمینہ سازی کے لیے راہ ہموار کرے گا۔ نتیجتاً عالمی معاشرے کا انسان نظام مہدویت کے سائے میں حقیقی سعادت سے بہرہ مند ہوگا۔ بقول اقبال رہ:
شب گریزاں ہوگی آخر جلوہ خورشید سے
یہ چمن معمور ہوگا نغمہ توحید سے