سلیمانی

سلیمانی

وفاق ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق ، وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے صدر آیت اللہ حافظ سید ریاض حسین نجفی ، سیئنر نائب صدر علامہ سید مرید حسین نقوی اور سیکرٹری جنرل علامہ محمد افضل حیدری نے کہا ہے کہ پاکستان اور ایران کے درمیان مضبوط تعلقات امت مسلمہ کے دل کی آواز ہے۔ ایران نے ہمیشہ پاکستان کا ساتھ دیا۔انقلاب اسلامی کے بعد ایران نے عالمی سطح پر جو دفاعی اور سیاسی قوت حاصل کی ہے، ہماری دعا ہے کہ باقی مسلم ممالک بھی اس سے فائدہ اٹھائیں۔

انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان گیس پائپ لائن منصوبہ طویل عرصے سے زیر التوا ہے، پاکستان توانائی کے بحران سے گذر رہا ہے، اسے بھی حل ہونا چاہیے۔ اسلا می جمہوریہ ایران کے صدر آیت اللہ ابراہیم رئیسی کا دورہ پاکستان خیر سگالی کا ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ پاکستان اور ایران مضبوط ہو جائیں تو امت مسلمہ کا توانا اورمضبوط بازوہوں گے۔

انہوں نے کہا حال ہی میں سعودی عرب کے پاکستان کے ساتھ سرمایہ کاری کے وعدے اور معاہدے خوش آئند ہیں۔ سعودی عرب کے بعد ایران کے صدرکا دورہ ترقی کے نئے مواقع پیدا کرے گا، اس سے دونوں ممالک مضبوط ہوں گے اور پاکستان کے معاشی مسائل بھی حل ہوں گے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر "آیت الله سید ابراهیم رئیسی" اس وقت اسلام آباد میں موجود ہیں، جہاں انہوں نے وزیراعظم پاکستان "میاں محمد شہباز شریف" کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس کی۔ اس موقع پر سید ابراہیم رئیسی نے ایرانی وفد کی میزبانی کرنے پر پاکستانی حکومت و وزیراعظم کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ آج مجھے اسلام آباد موجودگی پر خوشی ہو رہی ہے۔ میں یہاں سے پاکستان کے دین دار اور شریف عوام کو اپنی اور رہبر معظم انقلاب کی جانب سے سلام پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ میں اُس پاکستانی قوم کو سلام پیش کرتا ہوں جو ہمیشہ اسلام اور اسلامی اقدار کا دفاع کرتی ہے، جو مظلومین غزہ و فلسطین کے حق میں باہر آتی ہے، جو پاکستان کے گلی کوچوں میں قدس کی آزادی کے نعرے لگاتی ہے اور ہمیشہ حق و انصاف کے لئے آواز اٹھاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جس چیز نے دنیا بھر کے لوگوں کو مشتعل کر دیا ہے وہ یہ کہ انسانی حقوق کا دفاع کرنے والے نام نہاد بین الاقوامی ادارے اپنی ساکھ کھو چکے ہیں۔ سلامتی کونسل اپنا کام انجام نہیں دے رہی۔ دنیا کے مسلمان اور آزاد سوچ کے حامل اس سے تنگ آ چکے ہیں۔ اس عالمی بے انصافی پر پاکستان کی قوم اٹھ کھڑی ہو گی اور یہ امر عالمی انصاف کی بنیاد بنے گا۔

ایرانی صدر نے کہا کہ ہم اپنے دوست، بھائی اور پڑوسی پاکستان کے صرف ہمسایے ہی نہیں بلکہ ہمارے درمیان تاریخی، ثقافتی اور گہرا دینی رشتہ ہے جس نے ہم دو عظیم اقوام کو آپس میں جوڑے رکھا ہے۔ یہ رشتہ اٹوٹ انگ ہے۔ پاکستان اور ایران کے درمیان بے شمار مناسبتیں موجود ہیں کہ جن کے تبادلے سے دونوں ممالک اور عوام کو نفع پہنچایا جا سکتا ہے۔ سید ابراہیم رئیسی نے کہا کہ پاکستانی وزیراعظم کے ساتھ ملاقات میں یہ فیصلہ کیا کہ اقتصادی، سیاسی، تجارتی اور ثقافتی سمیت مختلف شعبوں کو وسعت دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی سے مقابلے کے لئے دونوں ممالک کا موقف ایک ہی ہے۔ ہم دونوں بدامنی، منظم منشیات فروشی اور دیگر جرائم سے لڑنے کے لئے پُرعزم ہیں۔ یہ ہمارا مشترکہ نقطہ نظر ہے۔ ایک جملے میں کہتا ہوں کہ انسانی حقوق کا دفاع دونوں ممالک کے درمیان تعاون کا محور ہے، چاہے یہ تعاون دوطرفہ ہو، علاقائی ہو یا بین الاقوامی۔ اس موقع پر انہوں نے پاک ایران تعاون کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ ممکن ہے کہ کچھ لوگ دونوں ممالک کے درمیان کوارڈینیشن کو پسند نہ کریں مگر یہ اہم نہیں۔ جو چیز اہم ہے وہ یہ کہ دونوں ممالک کے درمیان عوامی نمائندگی میں یہ تعاون جاری رہنا چاہئے اور ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اس تعاون کی سطح کو مزید بڑھائیں گے۔

آیت الله سید ابراہیم رئیسی نے دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی حجم کو ناکافی قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ پہلے مرحلے میں اس حجم کو 10 بلین ڈالر تک بڑھائیں۔ انہوں نے پاکستان اور ایران کے مابین بارڈر کی اہمیت کے حوالے سے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان طویل سرحد موجود ہے جو تجارتی ارتقاء کے لئے ہمارے پاس بہترین موقع ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ دونوں ممالک کی عوام بالخصوص سرحد پر رہنے والے لوگوں کی فلاح و بہبود پر دھیان دیا جائے۔ میں نے وزیراعظم کے ساتھ مل کر سرحد کا مختصر دورہ کیا تھا۔ یہ کام سرحدی منڈیوں میں وسعت کا باعث تھا۔ اس کام کو مزید بڑھایا جا سکتا ہے۔ ابھی تک اٹھائے گئے اقدامات کافی نہیں۔ ہمیں بارڈز کی سکیورٹی اور عوام فلاح کے لئے اقدامات کرنا ہوں گے۔ دوسری جانب میاں محمد شہباز شریف نے اس مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ پاکستان کی نئی حکومت کے انتخاب کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ کوئی اعلیٰ عہدے دار ہمارے ملک آ رہا ہے۔ یہ ہمارے لیے باعث فخر ہے۔ چشم ما روشن و دل ما شاد۔ انہوں نے کہا کہ غزہ میں عوامی قتل عام پر دونوں ممالک نے متعدد بار تشویش کا اظہار کیا اور اس بارے میں بات کی۔ ہم نے ایک آواز ہو کر اسرائیل کی مذمت کی۔ ہم دنیا کے ممالک سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ جلد از جلد اس فوجی کارروائی کو رکوائیں۔
 

وزیراعظم پاکستان نے کہا کہ فلسطین کا منصفانہ، تفصیلی اور دیرپا حل ناگزیر ہو چکا ہے۔ پاکستان بلا مشروط فلسطین کی حمایت کرے گا اور ایران کے تعاون سے آیک آزاد فلسطینی ریاست کے لئے کوشاں رہے گا جس کا دارالحکومت قدس ہو۔ انہوں نے رہبر مسلمین جہان "آیت الله سید علی خامنه‌ ای" کی جانب سے کشمیر کے عوام کی حمایت کرنے پر شکریہ ادا کیا۔ اس پریس کانفرنس میں شہباز شریف نے سید ابراہیم رئیسی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جناب صدر! آپ نے فقہ اور قانون میں تعلیم حاصل کر رکھی ہے۔ ہم اپنے لوگوں کی زندگیاں بہتر بنانے کے لئے ترقی کے اصول کو اپنائیں گے۔

 وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن ذُكِّرَ بِآيَاتِ رَبِّهِ ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْهَا إِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِينَ مُنتَقِمُونَ

(22 سجده) اور اس سے بڑا ظالم کون ہے جسے آیات هالہٰیہ کی یاد دلائی جائے اور پھر اس سے اعراض کرے تو ہم یقینا مجرمین سے انتقام لینے والے ہیں 

 اسرائیل پر ایران کے ڈرونز حملوں پر ایران کے مختلفف شہروں میں شہریوں نے جشن منانا شروع کر دیا۔ رپورٹ کے مطابق ایران کی جانب سے اسرائیل پر فائر کیے گئے ڈرونز اور کروز میزائلز کے حملوں کے بعد تہران میں ایرانی شہری خوشی مناتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔ عوام ایران کے پرچم لے کر سڑکوں پر آگئے اور جشن بھی منایا۔ دوسری جانب لبنانی دارالحکومت بیروت میں بھی اسرائیل پر ڈرونز حملوں کی خوشی میں ریلی نکالی گئی۔ واضح رہے کہ ایران نے اسرائیل پر 100 کے قریب ڈرونز اور کروز میزائلز فائر کر دیئے۔ایرانی پاسدران انقلاب نے اسرائیل پر حملے کی باضابطہ تصدیق کردی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایران نے اسرائیلی دفاعی تنصیبات کو نشانہ بنایا ہے، گولان کی پہاڑیوں اور شام کے قریب اسرائیلی فوجی ٹھکانوں کو بھی نشانہ بنایا۔

دیگر ذرائع کے مطابق اسرائیل پر حملے کے بعد ایران میں ہزاروں شہری جشن منانے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے اور اسرائیل کے خلاف نعرے بازی کی۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق تہران میں سینکڑوں ایرانی شہری اسرائیل پر حملے کی خوشی منانے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے اور "ڈیتھ ٹو اسرائیل" اور "ڈیتھ ٹو امریکا" کے نعرے لگائے۔ تہران میں برطانوی سفارت خانے کے باہر بڑی تعداد میں مظاہرین جمع ہوئے، ایران کے تیسرے بڑے شہر اصفہان میں بھی مظاہرہ کیا گیا، جہاں دمشق حملے میں شہید ہونے والے جنرلز میں سے ایک بریگیڈیئر جنرل محمد رضا زاہدی کو دفن کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ لبنانی دارالحکومت بیروت میں بھی اسرائیل پر ڈرونز حملوں کی خوشی میں ریلی نکالی گئی۔

واضح رہے کہ 13 اور 14 اپریل کی درمیانی شب ایران نے اسرائیل پر تقریباً 200 ڈرون اور کروز میزائل فائر کیے تھے، ایرانی پاسدران انقلاب نے اسرائیل پر حملے کی باضابطہ تصدیق کی تھی۔ حملے میں اسرائیلی دفاعی تنصیاب اور فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ ایرانی میڈیا کے مطابق یہ حملہ یکم اپریل کو اسرائیل کے دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر حملے کے جواب میں ہے، جس میں ایرانی پاسداران انقلاب کے لیڈر سمیت 12 افراد شہید ہوگئے تھے۔
 
 
 
سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ شام میں ایرانی سفارت خانے پر حملے اور کئی فوجی مشیروں کی شہادت کے بدلے میں ایران نے اسرائیل پر درجنوں ڈرون طیاروں اور میزائلوں سے حملہ کر دیا ہے۔ صہیونی ریڈیو اور ٹیلی ویژن تنظیم نے اسرائیلی اور امریکی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے اسرائیل پر ایرانی ڈرون حملہ شروع ہونے کا اعلان کیا ہے۔ اس سلسلے میں کئی ڈرون طیاروں کی فضاء میں نچلی سطح پر پرواز کرتے ہوئے تصاویر دکھائی گئی ہیں۔ اس حوالے سے عبرانی زبان کی نیوز سائٹ والا اینڈ ایکسیوس نے امریکی اور اسرائیلی حکام کے حوالے سے ایران کی جانب سے مقبوضہ فلسطین پر ڈرون حملے کے آغاز کا اعلان کیا ہے۔ صیہونی میڈیا نے بھی حنظلہ ہیکنگ گروپ کی طرف سے صیہونی حکومت کے ریڈاروں کی ہیکنگ کی خبر دی ہے۔

ایرانی سرکاری ذرائع ابلاغ کی تصدیق
اسلامی جمہوری ایران کے سرکاری ذرائع ابلاغ نے باقاعدہ تصدیق کی ہے کہ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی جانب سے مقبوضہ فلسطین میں اسرائیلی تنصیبات پر باقاعدہ اور وسیع ڈرون حملے شروع ہوگئے ہیں۔

صہیونی فضائی حدود بند
ایرانی ڈرون حملوں کے پیش نظر فضائی حدود کو صبح سات بجے تک کے لئے بند کردیا ہے۔ صہیونی فوج کے ریڈیو نے کہا ہے کہ ایران کا حملہ صرف ڈرون طیاروں تک محدود نہیں بلکہ کروز میزائل کی شکل میں بھی ہوگا۔ دوسری جانب صہیونی فوجی ترجمان نے کہا ہے کہ اسرائیلی فوج حملے کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہے، اس سلسلے میں امریکہ سے بھی مدد لی جا رہی ہے۔

ایران حملوں کی خبریں منتشر ہونے کے بعد مقبوضہ علاقوں میں ہنگامی حالت نافذ
صہیونی حکام نے مقبوضہ فلسطین میں ہنگامی حالت نافذ کرتے ہوئے لوگوں کی غیر ضروری رفت و آمد پر پابندی عائد کی ہے۔ اسرائیلی ذرائع ابلاغ کے مطابق بیرون ملک سفر کرنے والوں کو حکم دیا گیا ہے کہ اپنی روانگی ملتوی کر دیں۔ ذرائع کے مطابق کل بن گوریان ائیرپورٹ کے علاوہ حیفا، نتانیا اور اشدود کی بندرگاہیں بھی بند کرنے کا حکم جاری کیا گیا ہے۔

ایرانی حملوں کا سو فیصد مقابلہ نہیں کرسکتے، صہیونی فوجی ترجمان
اسرائیلی فوجی ترجمان نے کہا ہے کہ ایران کے حملے کا جواب دینے کے لئے صہیونی آرمی اور فضائیہ مکمل الرٹ ہیں۔ اس حوالے سے امریکہ سے بھی مدد لی جا رہی ہے۔ ترجمان نے کہا ہے کہ ایرانی ڈرون طیاروں کو اسرائیل میں داخل ہونے سے روکنے کی کوشش کی جائے گی، تاہم عوام کو خبردار کرتے ہیں کہ ایرانی حملوں کا سو فیصد دفاع ممکن نہیں ہے۔

ایرانی وزیر دفاع
ہم ان ممالک پر بھی جوابی حملہ کریں گے، جو ایران پر حملہ کرنے کے لیے اسرائیل کو اپنی فضائی حدود یا سرزمین فراہم کریں گے۔

سپاہ پاسداران انقلاب کا بیان
سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ شام میں ایرانی سفارت خانے پر حملے اور کئی فوجی مشیروں کی شہادت کے بدلے میں ایران نے اسرائیل پر درجنوں ڈرون طیاروں اور میزائلوں سے حملہ کر دیا ہے۔ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے بیان کا متن درج ذیل ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
انَّا مِنَ الْمُجْرِمِینَ مُنْتَقِمُونَ
اسلامی جمہوری ایران کے شہید پرور عوام!
صہیونی شرپسند حکومت کی جانب سے شام میں ایرانی سفارت خانے پر حملے اور ایرانی فوجی مشیروں کی شہادت کا بدلہ لینے کے لئے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی فضائیہ نے صہیونی حکومت کو سبق سکھانے کے لئے "یارسول اللہ" کے رمزیہ نعرے کے تحت مقبوضہ فلسطین کے اندر درجنوں ڈرون طیاروں اور میزائلوں سے حملہ کیا ہے۔ قومی سلامتی کونسل اور ملکی مسلح افواج کی جانب سے فیصلے کے بعد ایرانی بہادر عوام کی حمایت کے تحت ایرانی مسلح افواج اور وزارت دفاع کی جانب سے ان حملوں کی تفصیلات جاری کی جائیں گی۔
وَمَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ الْعَزِیزِ الْحَکِیمِ
 
 
غزہ کی جنگ نے غاصب صیہونی رژیم کی فوج اور معیشت کو تباہ حال کر دیا ہے اور چھ ماہ تک فلسطینیوں کی مسلسل نسل کشی کے باوجود صیہونی رژیم کو نہ تو اس جنگ میں کامیابی کی کم ترین امید ہے اور نہ ہی صیہونی فوج اور معیشت اس سے پہلے کسی ایسی جنگ میں مبتلا ہوئی ہے جو چند دن یا چند ہفتے سے زیادہ طول پکڑ چکی ہو۔ صیہونی ذرائع ابلاغ کی رپورٹس اس جعلی رژیم کی ابتر صورتحال کی بہترین عکاسی کرتے دکھائی دیتے ہیں:
ریڈیو صیہونی فوج: جنگ شروع ہونے کے بعد پہلی بار ناحال بریگیڈ کے علاوہ پوری آرمی غزہ کی پٹی سے پسپائی اختیار کر چکی ہے۔
اسرائیل ہیوم: صیہونی فوج خان یونس میں اپنے یرغمالیوں کی بازیابی کے سلسلے میں کوئی کامیابی حاصل نہیں کر پائی ہے۔
 
صیہونی اخبار ہارٹز: صیہونی فوجی ایسی حالت میں جنوبی غزہ ترک کر رہے ہیں کہ اپنے مطلوبہ اہداف سے حتی قریب بھی نہیں پہنچے۔ فتح اتنی بھی قریب نہیں جس طرح نیتن یاہو کہہ رہا ہے۔ صیہونی فوج کے چند افسران نے کہا ہے کہ غزہ سے پسپائی کی وجہ جنگ میں شدید تھکاوٹ ہے اور اس کا مقصد حسن نیت یا قیدیوں کا تبادلہ نہیں ہے۔
صیہونی چینل 12: جنگ شروع ہوئے چھ ماہ گزر جانے کے باوجود اب بھی ایک لاکھ آبادکار جلاوطنی کی حالت میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور ان کی اپنے گھروں کو واپسی کی کوئی امید دکھائی نہیں دیتی۔
صیہونی چینل کان: اسرائیل کے پاس جنگ کیلئے کوئی حکمت عملی نہیں ہے لہذا وہ مذاکرات بھی آگے بڑھانے سے قاصر ہے۔
 
صیہونی چیف آف آرمی اسٹاف ہرٹزل ہالیوے: ہم ایسی جنگ میں مصروف ہیں جس کا تجربہ ہم نے اس سے پہلے نہیں کیا۔ ہم بھاری تاوان دے رہے ہیں اور ہمارے بہت سے فوجی اور افسر مارے جا چکے ہیں۔
صیہونی قومی سلامتی کونسل کا سابق مشیر: ایسے بہت سے شواہد موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ایران جوابی کاروائی ضرور کرے گا۔ اسرائیل اسٹریٹجک لحاظ سے اپنی تاریخ میں سب سے زیادہ کمزور پوزیشن میں ہے۔ لیکن ہماری حکومت نے احمقانہ طرز عمل اختیار کر کے ہمیں ہمیشہ سے زیادہ طاقتور، پیچیدہ اور پراسرار دشمن کے مقابلے میں شکست کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ سیاسی لحاظ سے امریکہ سے اختلافات اور عالمی سطح پر اسرائیل کے چہرے کو شدید نقصان پہنچنا۔ اسرائیل تاریخ میں پہلی بار عالمی عدالت انصاف میں انصاف کے کٹہرے میں کھڑا ہے۔ اسرائیلی اب تک بحران کی شدت نہیں سمجھ پائے۔
 
ایسا دھچکہ جو سینکڑوں یا شاید ہزاروں صیہونیوں کو پہنچنے والا ہے کیونکہ وہ جس ملک میں بھی قدم رکھیں گے گرفتار ہونے کے خطرے سے روبرو ہوں گے۔ فوجی لحاظ سے صیہونی فوج شدید ترین بحران کا شکار ہے۔ چیف آف آرمی اسٹاف، پورا آرمی اسٹاف اور اکثر اعلی سطحی فوجی سربراہان شکست کے ذمہ دار ہیں۔ امریکہ اور ہمارے دیگر دوست ممالک غزہ میں ہماری فوجی شکست کی شدت سے چونک گئے ہیں۔ ہماری فورسز چھ ماہ بعد بہت خستہ حال ہو چکی ہیں اور ریزرو فورس بھی شدید نفسیاتی دباو کا شکار ہے۔ اگرچہ نیتن یاہو حکومت یہ ظاہر کر رہی تھی کہ غزہ میں مزاحمت کچل دی گئی ہے لیکن گذشتہ چند دنوں میں مزاحمتی کاروائیاں دوبارہ شدت اختیار کر گئی ہیں اور ایک دن میں 14 صیہونی فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔ دوسری طرف حزب اللہ لبنان اور عراقی مزاحمت نے گولان ہائٹس سے لے کر ایلات بندرگاہ تک میزائل حملے شروع کر رکھے ہیں۔
 
سابق صیہونی وزیراعظم ایہود براک: "ہمیں انتہائی پیچیدہ اور انوکھی صورتحال کا سامنا ہے۔ ایران اور حزب اللہ لبنان اپنے حملے جاری رکھے ہوئے ہیں اور حماس کی شکست بھی ابھی بہت دور ہے۔ اس صورتحال کے پیش نظر نیتن یاہو حکومت کل یا اس سے بھی پہلے ختم ہو جانی چاہئے۔" ایسی صورتحال میں ایران کی جانب سے دمشق میں اپنے قونصل خانے پر اسرائیلی جارحیت میں شہید ہونے والے فوجی کمانڈرز کے خون کا بدلہ لینے کے عزم نے اسرائیل کی مشکلات دوچندان کر دی ہیں۔ صیہونی حکمران ایک طرف دھمکی آمیز لہجے میں بات کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف ان کے ذرائع ابلاغ ان کا بھانڈا پھوڑ رہے ہیں۔ صیہونی اخبار یروشلم پوسٹ نے دعوی کیا ہے: "ایران نے عمان کے ذریعے امریکہ کو یہ پیغام دیا ہے کہ غزہ میں مستقل جنگ بندی اور رفح پر حملہ نہ کرنے کی صورت میں وہ جوابی کاروائی انجام نہیں دے گا۔"
 
اسرائیلی ویب سائٹ ٹیرر الارم بھی لکھتی ہے: "اگر ایران تل ابیب یا حیفا پر حملہ کرتا ہے تو اسرائیل ایران کے 9 مقامات پر حملہ کرے گا۔ ایران نے اسرائیل کو اطلاع دی ہے کہ وہ جوابی کاروائی انجام نہیں دے گا۔" ان ذرائع ابلاغ کی نفسیاتی جنگ کے برعکس ایرانی صدر کے مشیر نے اعلان کیا ہے: "ایران نے ایک خط کے ذریعے امریکی حکام کو پیغام دیا ہے کہ وہ نیتن یاہو کے جال میں مت پھنسے۔ خود کو غیر جانبدار کر لے تاکہ اسے نقصان نہ پہنچے۔ اس کے جواب میں امریکہ نے ایران سے درخواست کی ہے کہ وہ امریکی مراکز کو نشانہ نہ بنائے۔" ایرانی وزیر خارجہ امیر عبداللہیان نے عمان کے ہم منصب سے ملاقات میں کہا: "ایران قانونی اقدامات انجام دینے کے علاوہ جارح قوتوں کو سزا بھی دے گا۔" انہوں نے دمشق میں مزید وضاحت سے کہا: "صیہونی رژیم نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ کسی بین الاقوامی قانون کی پابند نہیں ہے۔ اسے سزا ملے گی اور جواب دیا جائے گا۔"
 
 
تحریر: علی احمدی

ایران میں تیل کی کہانی
برسوں پہلے قاجار حکمرانوں کی طرف سے مسلط کردہ فکری محرومیوں کی وجہ سے اہل ایران کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ ان کے قدموں تلے کون سی قیمتی چیزیں چھپی ہوئی ہیں۔ ایرانی تیل کی قیمت کو سمجھنے والے انگریزوں نے اسے لوٹنے کے لیے سب سے پہلے اسے بدبودار، بیکار اور فضول چیز کے طور پر متعارف کرایا۔ جب وقت آگے بڑھا اور لوگوں کو سمجھ میں آیا کہ یہ  تو کالا سونا ہے اور بہت قیمتی ہے تو اس بار سامراجی  طاقتوں نے دھونس دھاندلی سے اس پر قبضہ کر لیا اور اس قومی دولت کو یک طرفہ ٹھیکے دے کر معمولی قیمت پر اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ ان ایام میں جب بھی ایران کے باشعور اور روشن خیال لوگوں نے شکایت کی تو انہوں نے حقارت سے جواب دیا کہ تیل کیسے نکالو گے۔؟ کیا آپ کے پاس علم اور مہارت ہے اور کیا ایسے وسائل، امکانات اور آلات موجود ہیں، جس سے تم تیل زمین کی گہرائیوں سے باہر نکال سکو۔؟ تیل کی کہانی میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ برطانوی استعمار نے اس وقت تک روڑے اٹکائے، جب تک کہ لوگوں کو اس قیمتی مادے کی قیمت معلوم نہ ہوگئی۔

مضبوط ایران اور مقامی جوہری علم و ٹیکنالوجی
جوہری صنعت کی بھی بالکل وہی کہانی ہے، جو تیل سے متعلق تھی۔ ایک زمانے تک ایٹمی ٹیکنالوجی کے فوائد سے انکار کیا گیا اور اب بھی بعض افراد کہتے ہیں کہ ایٹمی توانائی پر اتنا خرچ کیوں کیا جائے؟ یہ شکوک و شبہات   ایک طرف مغرب کا پروپگینڈا ہے تو دوسری طرف لوگوں کی زندگیوں میں جوہری توانائی کے ثمرات اور اس کے استعمال سے لاعلمی بھی ہے۔ معاشرے کے بعض طبقوں کی ایٹمی توانائی کے فوائد سے لاعلمی اور دشمن کی سازشوں کی وجہ سے ایران کی جوہری پروگرام کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی  گئی ہیں۔ ان سازشوں میں ایران کے ایٹمی پروگرام کے خلاف نفسیاتی جنگ  شروع کرنا اور فوائد کو جھٹلانا اور اسے مہنگا ثابت کرنا بھی شامل ہے۔ دوسری طرف یہ جھوٹا دعویٰ بھی کیا گیا کہ ایران کا جوہری پروگرام پرامن نہیں ہے اور ایران کے خلاف عالمی اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔

جوہری پروگرام کے بہانے ایرانی قوم پر پابندیاں اور اقتصادی دباؤ ڈالنا، سائنسی پابندیاں نیز ایٹمی سائنسدانوں کا قتل بھی اس سلسلہ کی کڑیاں ہیں۔ ایٹمی پروگرام کو روکنے کے لیے مذاکرات کے ساتھ ساتھ  گاجر اور چھڑی کی پالیسی استعمال کی گئی۔ گذشتہ دو دہائیوں میں ایران کی ایٹمی صنعت کو روکنے اور تباہ کرنے کے مغرب کے اقدامات کی ایک طویل فہرست ہے۔ ایٹمی صنعت ایک قیمتی سرمایہ ہے اور اگر آج اسے غیر ملکی دشمن کے پروپیگنڈے کی وجہ یا کسی غفلت یا بے حسی کی وجہ سے نظر انداز کیا گیا تو مستقبل میں یقیناً اس قومی سرمائے کے حصول اور استعمال کے بارے میں مشکلات میں اضافہ ہی ہوگا۔

ایٹمی صنعت ملک کے لیے کیوں اہم ہے؟
ملک کے لیے جوہری صنعت کی اہمیت جاننے کے لیے ہمیں تیل کی کہانی کی طرف واپس جانا ہوگا۔ آج بہت کم محب وطن ایرانی ایسے ہیں، جو تیل نکالنے اور پیداواری صلاحیت میں ایران کی مقامی پیش رفت سے انکار یا شک کرتے ہیں اور تیل کی صنعت کو قومیانے کو ملک کا اعزاز نہیں سمجھتے۔ یہ جاننا دلچسپ ہے کہ آج تیل کے شعبے بالخصوص ریفائنریوں میں ستر فیصد تک جدید ترین جوہری آلات استعمال کئے جاتے ہیں۔ اس لیے آج جوہری آلات کے بغیر تیل کی صنعت نہیں ہوسکتی۔ کان کنی، تیل اور پیٹرو کیمیکل کی صنعتوں میں جوہری علم کا استعمال ضروی ہوگیا ہے۔ یورینیم کی کانوں کی دریافت اور "ایئر بورن جیو فزکس ٹیکنالوجی" کے ذریعے تیل کے کنوؤں کی دریافت جوہری صنعت کی اہم سائنسی کامیابیوں میں سے ایک ہے۔ نئی ٹیکنالوجی سے 15 ہزار میٹر گہرائی تک مختلف بارودی سرنگوں اور تیل کے کنوؤں کا پتہ لگایا جا سکتا ہے۔

 ایٹمی صنعت، توانائی کے بحران سے نکلنے کا راستہ
توانائی کی قیمتوں میں بڑھاوا، تیل اور گیس کی منڈی میں عدم استحکام اور توانائی کی طلب میں غیر معمولی اضافے کی وجہ سے پیدا ہونے والے عالمی بحران کی وجہ سے آج سلامتی اور وسائل کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے مختلف ممالک کو اپنی مطلوبہ توانائی حاصل کرنے کے لیے وسیع مسابقت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ دوسری طرف ایندھن کے زیر زمین ذخائر محدود ہیں، لہذا متبادل ذرائع کی تلاش ضروری ہے۔ جوہری توانائی کا حامل ہونے سے نیز جوہری ایندھن کے ذریعے توانائی کی فراہمی کے میدان میں خود کفالت حاصل کرنا نہ صرف علم اور ٹیکنالوجی میں ترقی کا باعث بنے گا اور بلکہ اس سے مستقبل میں توانائی اور سکیورٹی کے شعبوں میں ایران کی پوزیشن بہتر ہوگی۔ اس وقت ایران کے جنوبی اور شمالی ساحلوں میں پاور پلانٹس کی تعمیر، چھوٹے اور مقامی پاور پلانٹس کی تعمیر اور بوشہر میں واٹر ڈی سیلینیشن کمپلیکس کی تعمیر نیز توانائی اور پانی کے شعبے میں کامیابی کی چند مثالیں ہیں۔ اس  ترقی سےجوہری توانائی کے شعبے کی کامیابیوں میں ایرانی سائنسدانوں کی تکنیکی طاقت کا بخوبی ادراک کیا جا سکتا ہے۔

مقامی جوہری علم
اسلامی انقلاب کے بعد ایران میں جوہری ٹیکنالوجی کے میدان کی سب سے اہم خصوصیات میں سے ایک اس علم کی لوکلائزیشن یعنی مقامی ہونا ہے۔ یعنی اب ایسا نہیں ہے کہ ہمارے پاس جوہری پاور پلانٹ ہو، لیکن اس کا مینیجر کوئی غیر ایرانی ماہر ہو۔ آج ان امور میں خودکفالت جہاں ملک کے لیے ایک بہت بڑا اعزاز اور خود اعتمادی کی علامت ہے، وہاں دوسری طرف ملکی تعلیمی اور سائنسی ڈھانچے کی ترقی کی علامت اور ثبوت بھی ہے۔ ایک ایسا تعلیمی نظام جو نہ صرف وفادار نوجوانوں کی غیر معمولی صلاحیتوں پر بھروسہ کرکے، ان کی تربیت کرنے کا باعث بنا ہے بلکہ یہی نظام سائنس و ٹیکنالوجی کی پیداوار کو صنعتی مراحل تک پہنچانے اور آخرکار اس صنعت میں مغربی ممالک کی اجارہ داری کو ختم کرنے کے قابل ہوا ہے۔

 آج ایران کا نیوکلیئر فیول سائیکل مکمل ہے، جس کا مطلب یورینیم کی دریافت، زرد کیک کی تیاری، یورینیم پروسیسنگ، افزودگی، سینٹری فیوجز سلاخوں اور فیول کمپلیکس کی تیاری میں خود کفالت ہے۔ ایٹمی ری ایکٹر کے قلب میں جوہری ایندھن کا دخول اور ری ایکٹر کے فضلے کا انتظام، سبھی ملک کے اندر اور مقامی ماہرین کے زیر نگرانی انجام پا رہا ہے۔ اگرچہ ابھی تک اس صنعت کی کمرشلائزیشن کے میدان میں مزید سنجیدہ اور آپریشنل اقدامات کی ضروت ہے۔

ایٹمی میڈیسن کی تیاری میں کامیابیاں
"Tellurium 130 isotope" کی تیاری جوہری صنعت کے نوجوان سائنسدانوں کی کامیابیوں میں سے ایک ہے، جو 20 سینٹری فیوج مشینوں کی تعمیر اور ترتیب سے حاصل کی گئی ہے۔ آج طبی میدان میں، خاص طور پر ریڈیو فارماسیوٹیکل کے خام مال کی تیاری اور مختلف قسم کے کینسر، لاعلاج بیماریوں کی تشخیص اور دواسازی میں نیوکلیئر سائنسز کا وسیع پیمانے پر استعمال ہوتا ہے، جس میں ایران نے قابل رشک پیشرفت کی ہے۔ ارضیات، زراعت جیسے شعبوں میں جوہری محققین نے کارہای نمایاں انجام دئیے ہیں۔ ایران نے پچاس  سے زیادہ فالج سے متعلق تشخیصی، ریڈیو فارماسیوٹیکل تیار کرنے میں کامیاب حاصل کی ہے۔ طب کے میدان میں "Hemostat" یا "خون کا جمنا" جیسی بیماریوں کے علاج کے لئے پاؤڈر کی تیاری جوہری ٹیکنالوجی کی کامیابیوں میں سے ایک ہے۔ یہ ٹیکنالوجی خون کو روکنے کے لیے سرجریوں میں بہت زیادہ استعمال ہوتی ہے۔ ایران ان پانچ ممالک میں شامل ہے، جو ان طبی مصنوعات کو تیار کرنے کا تکنیکی علم رکھتے ہیں۔

جوہری توانائی کے ساتھ خوراک اور ماحولیاتی تحفظ کو یقینی بنانے میں بھی ایٹمی ٹیکنالوجی کا اہم کردار ہے۔ آج ایرانی سائنسدانوں کی غیر معمولی کوششوں سے ایٹمی علم تین شعبوں "پلازما، حیاتیاتی اور تابکاری" میں اہم کردار ادا کر رہا ہے اور زراعت اور خوراک کی حفاظت میں مددگار ہے۔ زرعی کیڑوں سے نمٹنا، اناج اور خوراک کو جراثیم سے پاک کرنا اور ان کی شیلف لائف کو بڑھانا زرعی شعبے میں جوہری علم کی اہم ترین خدمات میں سے ایک ہے۔ اس کے علاوہ صنعت اور ماحولیاتی تحفظ میں جوہری علم کا استعمال ایک اور کارنامہ ہے۔ ربڑ اور پولیمر کی صنعتوں میں استعمال ہونے والے صنعتی فضلے کے خطرات سے بچنے کے لیے "الیکٹرو سٹیٹک الیکٹران" ایکسلریٹر سسٹم کے ڈیزائن اور تعمیر نے ان شعبوں میں ایک بنیادی تبدیلی پیدا کی ہے۔

نفسیاتی کارروائیوں کو شکست دینے کیلئے جوہری کامیابیوں کی وضاحت
یہ ایک فطری بات ہے کہ ایٹمی صنعت کی ان تمام کامیابیوں اور ترقی سے ایرانی قوم کے بدخواہ غصے میں آجائیں اور ایران کی ترقی کی راہ میں روڑے اٹکائیں۔ استعماری طاقتیں اور استکباری ممالک سائنس و ٹیکنالوجی پر اپنی اجارہ داری ختم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ایران کے دشمنوں نے ایران کی ایٹمی صنعت کی ترقی کو کم کرنے یا روکنے کے لیے (دھمکیاں، لالچ) تمام تر سازشیں اور حربے استعمال کیے ہیں۔ ایرانی سائنسدانوں کو قتل کیا گیا، بین الاقوامی دباؤ ڈالا گیا اور ایرانی قوم پر اقتصادی پابندیاں عائد کی گئیں۔ دشمن چاہتے تھے کہ ایرانی عوام اپنے ناقابل تنسیخ اور مسلمہ حق سے دستبردار ہو جائیں، لیکن وہ ایسا نہیں کرسکے۔ ایران کو جوہری ٹیکنالوجی سے روکنے کے لئے پروپیگنڈہ جنگ کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔ دشمن ایٹمی صنعت کو ایک مہنگا اور ناقابل حصول مسئلہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتا رہا اور اب بھی اسے ترقی کے راستے کے سامنے کھڑا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

رہبر انقلاب کے بقول ہمیں اس مذموم منصوبے کے خلاف کھڑا ہونا چاہیئے۔ "اگر آپ ایک مضبوط ایران چاہتے ہیں، ہر کوئی ایران سے محبت کرتا ہے، ہر کوئی اسلامی جمہوریہ سے محبت کرتا ہے، ہر کوئی قوم سے محبت کرتا ہے اور اس ملک کی مضبوطی کا مطالبہ کرتا ہے تو آپ کو سائنسی، تحقیقی، صنعتی اور کاروباری کوششوں اور سرگرمیوں کے اس حصے پر توجہ دینی چاہیئے۔ (3/21/1402) جوہری صنعت کے حکام کو بھی اس عظیم صلاحیت کو لوگوں کے ساتھ شیئر کرنا چاہیئے۔ "لوگوں کی زندگی کے تمام حصوں میں، یہ صنعت ایک مؤثر اور مفید موجودگی رکھ سکتی ہے۔ یہ بات لوگوں کو بتائیں، تاکہ لوگ اس صنعت کی تعریف کریں اور کہیں کہ "یہ ہمارا مسلمہ حق ہے"، وہ واقعی جان لیں کہ یہ ان کا مسلمہ حق ہے۔ (21/3/1402)

آخری بات یہ ہے کہ لوگوں کی زندگیوں میں جوہری صنعت کی کامیابیوں اور ایک مضبوط و طاقتور ایران کے لئے ایٹمی توانائی کے کردار کی اہمیت کو لوگوں کو بتایا جائے، تاکہ اسلامی جمہوریہ کی پرامن ایٹمی سرگرمیوں کو سیاہ بنا کر پیش کرنے کی دشمن کی وسیع نفسیاتی کارروائیاں ناکام ہو جائیں۔ ایران کے آج اور کل کو تعمیر کرنے کے لئے ایرانی عوام نے ماضی کی تاریخ سے سبق سیکھ  لیا ہے۔ ایرانی عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ جوہری ترقی کے موجودہ دشمن وہی عناصر ہیں، جو ماضی میں ایران کے تیل کی لوٹ مار میں ملوث تھے، البتہ آج انہوں نے اپنا روپ بدل لیا ہے۔

 شیعہ علماء کونسل پاکستان کی جانب سے جاری ایک پیغام میں کہا گیا ہے کہ تمام عالم اسلام کو عید سعید الفطر کے پرمسرت موقع پر مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ عید “مظلوم مسلمانوں” کی یاد میں منائیں، ان سے اظہار یکجہتی کریں۔ پورے دنیا کو پیغام دیں اور عید کے اجتماعات میں خصوصی دعائوں کا اہتمام کریں

اسلام ٹائمز۔ رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے بدھ 10 اپریل 2024ء کی صبح ملک کے اعلی رتبہ حکام، تہران میں متعین اسلامی ملکوں کے سفراء اور عوامی طبقوں کی ایک تعداد سے ملاقات کی۔ انہوں نے اس موقع پر اپنے خطاب میں عالمی یوم قدس کی ریلیوں میں ایرانی قوم کی حیرت الگيز موجودگی کو سراہتے ہوئے کہا کہ یوم قدس کی ریلی ایک حیرت انگيز سیاسی اور بین الاقوامی اقدام تھا اور ماہر افراد کی رپورٹ کے مطابق لوگوں کی زبردست اور پچھلے برسوں سے زیادہ شرکت حقیقی معنی میں ایک اجتماعی گھن گرج میں تبدیل ہو گئی۔ رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ غزہ کا مسئلہ نظر انداز کیے جانے کے لائق نہیں، یہ عالم اسلام کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اور ہم سب کو غزہ کے سلسلے میں ذمہ داری کا احساس کرنا چاہیئے۔

آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے اس سلسلے میں کہا کہ اقوام یہاں تک کہ غیر مسلم اقوام کے دل بھی فلسطین اور غزہ کے مظلوموں کے ساتھ ہیں جس کی نشانی افریقا، ایشیا، یورپ یہاں تک کہ خود امریکا میں صیہونیوں کے جرائم کے خلاف بے مثال ریلیاں ہیں۔ انہوں نے عالمی میڈیا پر صیہونیوں کے طویل مدتی کنٹرول اور ان کی جانب سے فلسطین کی آواز اور پیغام کو دوسری جگہوں تک پہنچنے سے روکنے کے باوجود سب سے اہم موضوع کی حیثیت سے مسئلۂ فلسطین پر اقوام کی توجہ کو عالم اسلام میں نئی تبدیلیوں کا غماز بتایا اور کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ اقوام کی جانب سے ذمہ داری محسوس کیے جانے کے باوجود حکومتیں اپنی ذمہ داریوں پر عمل نہیں کر رہی ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے بچوں اور عورتوں کے خلاف صیہونی حکومت کے جرائے کے اوج پر ہونے کے باوجود بعض اسلامی ملکوں کی جانب سے اس حکومت کی مدد کو زیادہ افسوسناک حقیقت قرار دیا۔ انہوں نے صیہونی حکومت سے اسلامی حکومتوں کے سیاسی اور معاشی روابط کے خاتمے کو اسلامی جمہوریہ ایران کی حتمی تجویز اور توقع قرار دیا۔ انہوں  نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ اسلامی ملکوں میں ریفرنڈم کرائے جانے کی صورت میں تمام مسلم اقوام اس توقع پر متفق ہوں گی، کہا کہ کم ترین توقع یہ ہے کہ اسلامی ممالک عارضی طور پر سہی صیہونی حکومت کے جرائم جاری رہنے تک اس سے اپنے تعلقات ختم کرلیں اور اس کی مدد نہ کریں۔

 غزہ اس وقت ایسا میدان جنگ ہے، جس میں مظلوم فلسطینی اور ظالم صیہونی ناجائز ریاست اسرائیل برسر پیکار ہیں۔ فلسطینیوں پر ہر وقت موت کے سائے منڈلا رہے ہیں۔ آبادیاں کھنڈرات بن چکی ہیں۔ ہسپتالوں پر بھی حملے جاری ہیں۔ مسلم عرب ریاستیں قریب ہی موجود تو ہیں مگر مدد کی جرات نہیں رکھتیں۔ مزاحمتی تحریک حماس کے مجاہدین اپنی طاقت کے مطابق اسرائیلی مظالم کا جواب دے رہے ہیں۔ دنیا بھر میں عوام سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں مگر حکمران بے حسی اور بے شرمی کی چادر لئے سو رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی طرف سے جنگ بندی کی قراردادیں بھی ظالم اسرائیل نے ہوا میں اڑا دی ہیں۔ گویا عالمی طاقتیں بھی اسرائیل کے سامنے بے بس دکھائی دیتی ہیں۔ تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق 7 اکتوبر 2023ء کو طوفان الاقصیٰ کے نام سے اسرائیل میں آپریشن شروع کرنیوالی حماس کے مجاہدین بڑی تعداد میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں، جبکہ فلسطینی عوام کی قربانیوں کا لفظوں میں احاطہ کرنا ممکن نہیں۔ بہادری اور صبر کی تصویر یہ فلسطینی عوام کہ جنہیں پتہ ہے کہ اگلے ہی مرحلے میں اسرائیلی بمباری میں مارے جائیں گے لیکن وہ اپنی سرزمین کو چھوڑنے کو تیار نہیں۔

ماہ رمضان المبارک کا آخری عشرہ بھی اپنے اختتام کو بڑھ رہا ہے۔ گذشتہ 44 سال سے جمعة الوداع بانی انقلاب اسلامی امام خمینیؒ کی اپیل پر یوم القدس کے طور پر منایا جا رہا ہے۔ فلسطینیوں سے عالمی سطح پر اظہار یکجہتی کا آغاز انقلاب اسلامی کے ابتدائی دنوں میں ہی 1979ء میں شروع ہوگیا تھا۔ رہبر امت کی دوراندیشی کے باعث عالمی سطح پر مسلمانوں کو ہم آواز کرنے کا آغاز بھی انقلاب اسلامی کیساتھ ہی کر دیا گیا تھا۔ اس کے فکری اثرات دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی مرتب ہوئے۔ سرور کائنات خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یوم ولادت باسعادت عید میلادالنبیﷺ کے عنوان سے پاکستان میں جس جوش و جذبے سے منایا جاتا ہے، اس کی مثال شاید کہیں اور نہیں ملتی۔ برادران اہلسنت کے مطابق 12 ربیع الاول اور شیعہ نقطہ نظر سے 17 ربیع الاول کو یوم ولادت سید المرسلین پر اختلاف ہے، لیکن رہبر انقلاب امام خمینیؒ نے امت مسلمہ کو اختلافی نقطے پر متحد کرنے کی ابتدا 12 ربیع الاول سے 17 ربیع الاول تک "ہفتہ وحدت" کا نام دے کر دی۔ دنیا بھر میں اعلان کیا کہ عید میلادالنبیﷺ کو پورے ہفتہ منائیں گے۔

میں تحریک جعفریہ کے کارکن کے طور پر اہلسنت برادران کی طرف سے منعقد کئے گئے عید میلاد النبیﷺ کے جلوسوں میں شریک ہوتا رہا ہوں۔ اس حوالے سے ریلوے اسٹیشن پر جناب آفتاب ربانی کی قیادت میں عید میلاد النبیﷺ کے پروگرام کا انعقاد اور بعد ازاں درود و سلام کا ورد کرتے ہوئے جلوس کا داتا دربار پر اختتام، شرکاء جلوس کی دستار بندی رسول اللہﷺ سے عقیدت کا ایک انداز تھا۔ امام خمینیؒ کی وفات کے بعد بھی اسلامی جمہوریہ ایران نے بانی انقلاب اسلامی کے مشن کو جاری رکھا۔ اتحاد امت کی فضا کے قیام کیلئے "ہفتہ وحدت" کی مناسبت سے ماہ ربیع الاول میں تہران میں کانفرنس کا انعقاد اور اس میں دنیا بھر سے سنی شیعہ علماء کی شرکت اتحاد کے عملی اظہار کا بہترین موقع ہوتا ہے۔ اسی طرح ماہ رمضان المبارک میں حسن قرات کے مقابلے کی میزبانی ایران کا اچھا اقدام ہے۔ حال ہی میں مانسہرہ کے ایک نوجوان قاری ابوبکر بن ثاقب ظہیر یہ مقابلہ جیت کر آئے ہیں۔

مجھے یاد ہے کہ امام خمینیؒ کے فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے پیغام کی روشنی میں پاکستان میں قائد ملت اسلامیہ نمائندہ ولی فقیہ علامہ عارف حسین الحسینیؒ کی اپیل پر پاکستان میں یوم القدس کے جلوس نکالنے کی ابتدا کی گئی۔ تحریک جعفریہ اور امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن نے لاہور میں ناصر باغ سے پنجاب اسمبلی ہال چوک تک پہلا جلوس نکالا تو پولیس نے مظاہرین پر لاٹھی چارج کر دیا۔ اسی جلوس میں ہمارے دوست سید غضنفر علی بخاری بھی شامل تھے۔ جب پولیس سے ہمارا آمنا سامنا ہوا تو انہوں نے پولیس سے ڈنڈے چھین کر انہیں پر برسائے اور پھر پولیس نے بھی ہم پرتشدد کیا۔ کارواں چلتا رہا، قیادت تبدیل ہوئی۔ ایران میں امام خمینیؒ کی جگہ آیت للہ سید علی خامنہ ای اور پاکستان میں علامہ عارف حسین الحسینیؒ کی جگہ علامہ ساجد علی نقوی قائد منتخب ہوئے تو انہوں نے بھی فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے سلسلے کو آگے بڑھایا۔ جو آج تک جاری ہے۔ یوم القدس کے جلوسوں کو منظم کرنے میں شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی اور آئی ایس او کے نوجوانوں کا قابل فخر کردار ہمیشہ ناقابل فراموش رہا ہے۔

مجھے یہاں حماس کی جراتمندانہ جدوجہد کو سلام ضرور پیش کرنا ہے کہ جس نے فلسطینیوں کی آواز بن کر اسرائیل کی سینے پر چڑھ کر اسے باور کروایا ہے کہ فلسطین کی سرزمین پر اسرائیلی قبضے کو تسلیم نہیں کیا جائے گا اور پھر اس نے اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کے دعوے کو بھی جھوٹا ثابت کر دیا ہے۔ اسی طرح حزب اللہ لبنان امت مسلمہ کا جرات مند بازو ثابت ہوا ہے، جس نے حماس کے شانہ بشانہ فلسطینی مسلمانوں کیلئے اسرائیل کیخلاف اپنا عسکری کردار ادا کیا ہے۔ یمن کے بہادر حوثیوں کی تنظیم انصاراللہ نے سمندر میں امریکی بحری بیڑوں پر حملے کرکے اسرائیل کی مدد کرنیوالوں کیلئے مشکلات پیدا کی ہیں اور مظلوم فلسطینی مسلمانوں کی مدد کیلئے آنیوالے مجاہدین کی فہرست میں اپنا نام لکھوا لیا ہے۔ البتہ عوام یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ افغانستان اور عراق میں خود کو مجاہدین کہنے والے عسکری گروہ داعش، طالبان، القاعدہ مظلوم فلسطینیوں کی حمایت میں اسرائیل کیخلاف لڑتے کہیں نظر کیوں نہیں آرہے۔؟

افسوس ہے ان عرب ریاستوں اور مسلمان ممالک پر، جنہوں نے اسرائیل کو تسلیم کرکے فلسطین کے کیس کو عالمی سطح پر کمزور کیا۔ اطلاعات ہیں کہ امریکہ مزید مسلم ریاستوں پر دباو بڑھا رہا ہے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کریں۔ حماس کو جب محسوس ہوا کہ متحدہ عرب امارات کے بعد مزید کئی عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کرنے جا رہے ہیں تو فلسطینی مزاحمتی تحریک نے ”اب نہیں تو کبھی نہیں“ نعرے کے تحت طوفان الاقصیٰ آپریشن شروع کرکے ان ریاستوں کے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے عزائم کو بے نقاب کرکے شرمندہ تعبیر ہونے کا عمل روک دیا۔ 1967ء میں عرب ممالک نے اسرائیل سے اپنے علاقے واپس لینے کے لیے جنگ کی، مگر اسے سات دن سے زیادہ جاری نہ رکھ سکے تھے، مگر 7 اکتوبر سے تادم تحریر اسرائیل کی اکیلے حماس سے جنگ جاری ہے۔ اس میں ابھی تک اسرائیل کو بہت زیادہ مشکلات کا سامنا ہے، حالانکہ پورا عالم کفر صیہونی ریاست کی پشت پناہی کر رہا ہے، مگر وہ حماس کو شکست نہیں دے سکا۔ ہاں شہادتیں ہوئی ہیں، مزید بھی ہوں گی لیکن یہ حقیقت ہے کہ کوئی آزادی شہادتوں کے بغیر حاصل نہیں کی جا سکتی۔ مظلوم فلسطینیوں کا خون اور سسکیاں ضرور رنگ لائیں گی۔

بحیثیت پاکستانی مسلمان، مجھے شرم محسوس ہو رہی ہے کہ یورپ کا کوئی ایک ملک بھی نہیں کہ جس میں فلسطین کی حمایت میں اسرائیلی مظالم پر عوام نے احتجاج نہ کیا ہو، مگر مسلم ممالک نے چپ سادھ رکھی ہے۔ پاکستان میں توقع تو یہ کی جا رہی تھی کہ حماس کے لیے مالی امداد ادویات اور خوراک بھیجی جائے گی۔ مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ نہ حکومت کی سطح پر حماس کے نوجوانوں کی حمایت میں کوئی اعلان کیا گیا اور نہ ہی فلسطین کے لاکھوں زخمیوں کے علاج کیلئے کوئی میڈیکل ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں، جو کہ ان مظلوم انسانوں کے علاج کیلئے مددگار ثابت ہوتیں۔ ہاں جماعت اسلامی کی الخدمت فاونڈیشن کی خدمات غزہ میں قابل تعریف ہیں، جبکہ اس سال یوم القدس کے موقع پر جماعت اسلامی کا جلوس بھی فلسطینیوں کی حمایت میں اضافے کا باعث ہوگا۔ آج میں پاکستان کے عوام سے گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ یوم القدس کے جلوسوں میں بلا تفریق مذہب و مسلک تمام بنی نوع انسان جو انسانیت میں رواداری کو ترجیح دیتے اور مظلوموں کے ساتھی ہیں، وہ فلسطین پر ہونیوالے ظلم وستم، ریاستی دہشت گردی، خواتین اور نوزائیدہ بچوں کے قتل کیخلاف سڑکوں پر نکلیں اور مظلوموں کے ساتھ اظہار یکجہتی کریں۔

تحریر: سید منیر حسین گیلانی