
سلیمانی
فلسطینی تنظیموں نے صیہونی حکام کو کھلی وارننگ دے دی
فلسطین کی مزاحمتی تنظیموں کے مشترکہ وار روم نے غزہ پٹی پر آج کے حملوں کے نتائج کا ذمہ دار غاصب صیہونی حکومت کے رہنماؤں کو ٹھہراتے ہوئے کہا ہے کہ وہ وہ اس کی قیمت ادا کرنے کے لیے تیار رہیں۔
فلسطین کی مزاحمتی تنظیموں کے مشترکہ وار روم نے غزہ پٹی پر صیہونی حکومت کی فوج کے فضائی حملوں پر ردعمل میں ایک بیان جاری کیا اور تاکید کی کہ غاصب صیہونی حکومت اس کی قیمت ادا کرے گی۔
اس بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم بچوں، خواتین اور جہاد اسلامی تحریک کے عسکری بازو سرایا القدس کے شہید کمانڈروں کا سوگ منا رہے ہیں۔
فلسطین کی مزاحمتی تنظیموں کے مشترکہ وار روم نے اس بیان میں مزید کہا کہ مشترکہ وار روم مجرم دشمن کو اس بزدلانہ جرم کے نتائج کا مکمل ذمہ دار سمجھتا ہے اور صیہونی حکام کو خبردار کرتا ہے کہ وہ خود کو اس کی قیمت چکانے کے لیے تیار رکھیں۔
جہاد اسلامی تحریک کے ترجمان طارق سلمی نے المسیرہ چینل سے گفتگو میں کہا کہ صیہونی دشمن کو اس جرم کی قیمت چکانی پڑے گی اور ہم اس جرم کا جواب دینے کا اپنا فرض ادا کریں گے۔
شام سے امریکہ کی دشمنی جاری، پابندیاں رہیں گی جاری
وائٹ ہاؤس نے اطلاع دی ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے شامی حکومت کے خلاف یکطرفہ پابندیوں کی مدت میں مزید ایک سال کی توسیع کا فیصلہ کیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق یہ فیصلہ واشنگٹن کی طرف سے 2004 سے 2012 تک دمشق کے خلاف عائد کی گئی متعدد پابندیوں کے قوانین پر مبنی ہے۔
ان پابندیوں میں خاص طور پر بعض افراد اور قانونی اداروں کے اثاثے منجمد کرنا اور شام کے لیے امریکی خصوصی اشیا اور خدمات کی برآمدات پر پابندی شامل ہے۔
اس بارے میں امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ میں شامی حکومت کے اقدامات کی وجہ سے شام کے حوالے سے ملک کی قومی صورتحال میں مزید ایک سال کی توسیع کر رہا ہوں۔
شام کی عرب لیگ میں واپسی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں وائٹ ہاؤس کی ترجمان کرین جین پیئر نے کہا کہ شام کے خلاف امریکی پابندیاں جاری رہیں گی اور واشنگٹن دمشق کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پر نہیں لائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ہم اس سلسلے میں اپنے دوستوں اور شراکت داروں سے ان کی سرگرمیوں اور منصوبوں کے بارے میں بات چیت کر رہے ہیں اور ہم واضح طور پر کہتے ہیں کہ ہم بشار الاسد کی صدارت میں دمشق کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پر نہیں لائیں گے۔
اسرائیل پہلے سے زیادہ منقسم ہے: ڈوئچے ویلے
سحر نیوز/ دنیا: جعلی اور غاصب صیہونی حکومت کے قیام کی 75ویں برسی کے موقع پر ڈوئچے ویلے خبر رساں ادارے نے رپورٹ دی ہے کہ یہ حکومت پہلے سے کہیں زیادہ منقسم ہے۔
اس جرمن خبر رساں ادارے نے اپنی رپورٹ کے مقدمے میں لکھا ہے کہ تل ابیب بظاہر ایک دوراہے پر کھڑا ہے اور صیہونی حکومت کی انتہائی دائیں بازو کی کابینہ کی عدالتی اصلاحات نے گہرے اختلافات کو جنم دے دیا ہے۔
اس رپورٹ میں مقبوضہ علاقوں میں اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نتن یاہو کی حکومت کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہروں کی طرف اشارہ کیا گیا اور لکھا گیا ہے کہ ہر ہفتے کی رات مقبوضہ علاقوں میں ہزاروں افراد نتن یاہو کی انتہائی دائیں بازو کی کابینہ کے عدالتی نظرثانی کے منصوبے کے خلاف مظاہرے کرتے ہیں۔
ہر ہفتے نتن یاہو مخالف مظاہروں میں حصہ لینے والے ایک ریٹائرڈ یہودی کیمسٹ نے ڈوئچے ویلے کو بتایا ہے کہ میں فطرت کے لحاظ سے بہت پر امید ہوں لیکن ان دنوں میں بہت مایوسی کا شکار ہوں، لیکن ہم ہار نہیں مان رہے ہیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ گزشتہ چار مہینوں میں اس متنازعہ منصوبے کے مخالفین اور حامیوں کے درمیان معاشرے میں تقسیم مزید بڑھ گئی ہے۔ اس منصوبے کے مخالفین کا کہنا ہے کہ عدالتی نظرثانی سے اسرائیل کی جمہوریت کو خطرہ ہے جبکہ حامیوں کا کہنا ہے کہ اس پر لگام لگانا ضروری ہے جسے وہ حد سے زیادہ طاقتور سپریم کورٹ قرار دیتے ہیں۔
مقبوضہ علاقے کے ایک صیہونی باشندے کا کہنا ہے کہ وہ اس حکومت کے مستقبل کے بارے میں بہت پریشان ہیں اور اس بات پر زور دیتے ہیں کہ عدالتی نظرثانی کے منصوبے پر تنازعہ "خانہ جنگی کا باعث بن سکتا ہے"۔
فلسطین اور شام کی اقوام نے حالات کو مزاحمتی محاذ کے حق میں تبدیل کردیا ہے، ابراہیم رئیسی
اسلام ٹائمز۔ ایران کے صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی نے کہا ہے کہ فلسطین اور شام کی اقوام نے حالات کو مزاحمتی محاذ کے حق میں تبدیل کردیا ہے اور آج صیہونی حکومت ہر زمانے سے زیادہ کمزور ہو چکی ہے۔ اپنے دو روزہ دورے کے دوران دمشق کے زینبیہ علاقے میں واقع روضہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا میں خطاب کرتے ہوئے ایرانی صدر کہا کہ دشمنوں نے بارہ سال تک فتنہ انگیزی کی، سازشیں رچیں، حرام پیسے دہشتگرد گروہوں اور داعش کو دیئے، شام کے مظلوم عوام کے خلاف سامراجی میڈیا کا بھرپور استعمال کیا، بچوں کو قتل کیا، خواتین کو بے گھر کیا، مگر ان تمام ہولناک ظلم و جبر کے باوجود آج شام سرفرازی کے ساتھ کھڑا ہوا ہے۔
صدر ایران نے کہا کہ شام اور عراق میں امریکیوں اور صیہونیوں کے بارہ برسوں پر محیط جرائم کے بالمقابل استقامت، پائیداری، حریم ولایت کے دفاع اور عالمی سامراج کے مقابلے میں ثبات و پامردی کا نورانی صفحہ رقم ہوا ہے۔ سید ابراہیم رئیسی نے مزید کہا کہ جس وقت شام اور عراق پر تکفیریوں کی یلغار شروع ہوئی تو بعض لوگ صورتحال کے بارے میں غلط اندازوں کا شکار ہوئے، مگر رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے اس کو صحیح طور پر سمجھا اور بتایا کہ یہ ایک صیہونی تحریک ہے اور اس صحیح تجزیے کے ساتھ تکفیریوں کے مقابلے میں استقامتی محاذ کو کھڑا کردیا۔ انہوں نے اسی طرح تکفیریوں کے مقابلے میں شامی عوام کی استقامت و پامردی کی قدردانی کی اور کہا کہ شام کی حکومت و عوام نے دوراندیشی کے ہمراہ اس فتنے کا خوب مقابلہ کیا ہے۔
سید ابراہیم رئیسی نے یہ بھی کہا کہ آج صیہونی حکومت ہر زمانے سے زیادہ کمزور اور قابل شکست ہو چکی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں حزب اللہ، مزاحمتی، انقلابی اور راہ خدا میں جاری تحریک ہر زمانے سے زیادہ مضبوط ہو چکی ہے۔ صدر ایران نے ایک بار پھر واضح کیا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی پالیسی مظلوم اقوام کی حمایت پر استوار تھی اور رہے گی اور ایران ہمیشہ شامی اور فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑا رہے گا۔ خطاب سے قبل صدر ایران نے بنت علی مرتضیٰ (ع) حضرت زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا کی ضریح اقدس پر جاکر زیارت کی اور ساتھ ہی شام کے مدافع حرم شہیدوں کے اہل خانہ سے ملاقات اور مختصراً گفتگو بھی کی۔
اپنے اہل و عیال کو بے جا سختیوں میں رکھنا
اپنے اہل و عیال کو بے جا سختیوں میں رکھنا
رسول خدا ؐنے فرمایا: بد ترین لوگ وہ ہیں جو اپنے اہل و عیال کو سختی میں رکھتے ہیں۔
مختصر وضاحت:
مومن، اللہ کے دیے ہوئے مال کو اپنی روزمرہ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے خرچ کرتا ہے۔ اگر اللہ زیادہ عطا کرے تو وہ اس مال کو کھلے دل سے اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتا ہے لیکن اگر تنگدست ہو تو قناعت اختیار کرتا ہے۔
جبکہ اس کے برعکس کنجوس انسان خود مال و دولت کو اپنے اہل و عیال پر ترجیح دیتا ہے۔ جس کے نتیجے میں اس کے اہل و عیال بنا بتائے اس کے مال میں تصرف کرنا شروع کردیتے ہیں حتی وہ مرد گھر والوں کی نظروں سے گر جاتا ہے کیونکہ وہ مال کو زیادہ اہمیت دیتا ہے۔
یوم استاد پر ٹیچروں سے رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب: ٹیچر، طلباء کے لیے بھی وہی آرزو رکھیں جو اپنے بچوں کے لیے رکھتے ہیں
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، آیت اللہ مرتضی مطہری کے یوم شہادت کے موقع پر منائے جانے والے یوم اساتذہ کی مناسبت سے اساتذہ اور ثقافتی امور کے فعال افراد سے خطاب کرتے ہوئے رہبر معظم نے فرمایا کہ اسکولوں میں زیرتعلیم بچوں کے اندر اسلامی اور ایرانی تشخص کو بھی زندہ کریں۔ بچوں کو ایرانی ہونے پر فخر کا احساس ہونا چاہئے۔
رہبر معظم نے شہید مرتضی مطہری کو حقیقی استاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کے اندر وہ تمام خصوصیات موجود تھیں جو ایک استاد کے اندر ہونا چاہئے۔ ان کے اندر علم، احساس ذمہ داری اور نظم و ضبط سمیت تمام خوبیان بدرجہ اتم موجود تھیں۔ ان کی شہادت کے اثرات معاشرے میں ظاہر ہوگئے ہیں۔ میری نصیحت یہی ہے کہ ان کے آثار کا مطالعہ کیا جائے۔
رہبر معظم نے اساتذہ کو انقلاب اسلامی کے گمنام سپاہی قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ملک کے دور دراز علاقوں میں خاموشی کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں انجام دینے میں مصروف ہیں۔ اس راہ میں موجود تمام مشکلات برداشت کررہے ہیں۔ حقیقت میں اساتذہ ہی ملت کے نونہالوں کی تعلیم و تربیت کا فریضہ انجام دے رہے ہیں اور روشن مستقبل کے لئے ان کو معاشرے میں تیار کررہے ہیں۔
رہبر معظم نے مزید فرمایا کہ سرکاری اسکولوں کی تعلیمی کیفیت میں کمی نہیں آنا چاہئے۔ اگر سرکاری اسکولوں میں اچھی تعلیم نہ دی جائے تو غریب کے بچے متاثر ہوں گے اس کے نتیجے میں وہ علمی میدان میں پیچھے رہ جائیں گے جو کہ ناانصافی ہے اور کسی بھی لحاظ سے قابل قبول نہیں ہے۔
انھوں نے ملک کے ذہین بچوں اور نوجوانوں میں ایرانی و اسلامی تشخص اور قومی شخصیت کے احساس کی بحالی کو ایک بنیادی ذمہ داری بتایا اور کہا کہ طلباء کو قابل فخر ہستیوں اور ان کے ثقافتی، علمی اور تاریخ ماضی سے حقیقی معنی میں روشناس کرانا چاہیے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ٹیچر سوسائٹی کے سلسلے میں حکومت کی جانب سے ذمہ داری کے بھرپور احساس کو ایک حقیقی ضرورت بتایا اور کہا کہ ٹیچروں کی معیشت بہت اہم ہے لیکن ٹیچروں کے صرف معاشی مسائل ہی نہیں ہیں بلکہ ان کا دائرہ بہت وسیع ہے جن میں مہارت کا حصول، تجربات کا حصول اور ٹیچرز یونیوسٹی پر توجہ جیسی باتیں بھی شامل ہیں۔
انھوں نے ملک کی ہمہ جہت پیشرفت کی دشوار وادیوں سے عبور کو، تعلیم و تربیت کے ادارے کی مدد اور اس کے رول کے بغیر ناممکن بتایا اور ملک کی مشکلات کو دور کرنے کے لیے اسکول کی مرکزی حیثیت پر مبنی متعدد ماہرین کے اتفاق رائے کی طرف اشارہ کرتے ہوے کہا کہ راہ حل، اسکولوں کی اصلاح کے لیے صحیح منصوبہ بندی اور عزم مصمم ہے اور تمام عہدیداران، فیصلہ کرنے والوں اور عوام کو، تعلیم و تربیت کے ادارے کی حیاتی اہمیت کو سمجھنا چاہیے۔
آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے تعلیم و تربیت کے مینجمنٹ میں عدم استحکام پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اتنے بڑے ادارے کو وزیر کی لگاتار تبدیلی سے نقصان پہنچتا ہے، خاص طور پر اس لیے بھی کہ وزیر کی تبدیلی کے ساتھ کبھی کبھی اس کے معاونین، اوسط درجے والے افسران یہاں تک کہ اسکولوں کے پرنسپل تک بدل دیے جاتے ہیں۔
انھوں نے تعلیم و تربیت کے ادارے کے ڈھانچے، نصاب اور تعلیمی سسٹم کو ملک کی ضرورتوں کے مطابق بنائے جانے کو بہت اہم بتایا اور زور دے کر کہا کہ ملک کو جتنی مفکرین اور دانشوروں کی ضرورت ہے، اتنی ہی کام کی ماہر افرادی قوت کی بھی ضرورت ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے تعلیم و تربیت کے ادارے کے بنیادی تغیرات کی دستاویز کے سلسلے میں بھی عہدیداران کو کچھ اہم سفارشیں کی۔
انھوں نے نصابی کتابوں کو اپ ٹو ڈیٹ اور زمانے کی تبدیلی کے لحاظ سے تبدیل کرنے کے سلسلے میں اسلامی تعلیمات اور مشہور اسلامی اور ایرانی شخصیات کو ان کتابوں میں شامل کرنا، ایک ضروری کام بتایا اور کہا کہ زمانے کی تبدیلی سے بعض لوگوں کی مراد اصولوں کی تبدیلی ہے جبکہ عدل و انصاف اور محبت جیسی بنیادی باتیں کبھی نہیں بدلتیں بلکہ تحریر اور بیان کے طریقے جیسے عمارت کے اوپری حصے بدل سکتے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں تعلیم و تربیت کے ادارے میں تربیتی امور کے اہتمام کو سراہتے ہوئے کہا کہ ان تربیتی امور کا اہتمام اسکولوں میں بھی کیا جانا چاہیے۔
اس ملاقات کے آغاز میں تعلیم و تربیت کی وزارت کے سرپرست جناب صحرائي نے، پچھلے ایک سال کی سرگرمیوں اور آئندہ کے پروگراموں کے بارے میں ایک رپورٹ پیش کی
نسل پرست صیہونی حکومت کے بارے میں امریکی عوام کا رویہ بدل گیا ہے: ایران
تہران، ارنا - ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے صیہونی حکومت کی طرف امریکہ میں رائے عامہ کی شدید تبدیلی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا ہے کہ امریکیوں بالخصوص اشرافیہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے ملک کی غاصب حکومت کی حمایت پر سوال اٹھائیں جو ان کے اپنے مفادات کی قیمت پر آتی ہے۔
یہ بات ناصر کنعانی نے اتوار کے روز اپنے ٹویٹر پیج میں کہی۔
انہوں نے کہا کہ رائے عامہ کے تازہ ترین سروے پورے امریکہ میں رائے عامہ میں جعلی صیہونی حکومت کی نسل پرستانہ نوعیت کی طرف مضبوط تبدیلی کو ظاہر کرتے ہیں۔
کنعانی نے اس معاملے پر امریکی عوام کے رویوں پر یونیورسٹی آف میری لینڈ کے ایک حالیہ سروے کا بھی اشارہ کیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ 20 فیصد ریپبلکن اور 44 فیصد ڈیموکریٹس نے اسرائیل کو نسل پرست حکومت کے طور پر بیان کیا جو کہ نسل پرستی کی طرح ہے۔
انہوں نے کہا کہ انتخابات کی بنیاد پر بائیکاٹ، ڈیوسٹ اور پابندیاں تحریک کی حمایت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ یقیناً اس جعلی اسرائیلی حکومت کی نوعیت اور وجود کے خلاف مزید حیران کن نتائج برآمد ہوں گے اگر صیہونیوں کے خلاف آزادی اظہار کے لیے زمین ہموار کی جائے، امریکا کو صیہونی لابی کے قبضے سے آزاد کر دیا جائے اور اس سے زیادہ وسیع اور آزاد سروے کیا جائے۔ ا
ایرانی محکمہ ترجمان نے کہا کہ امریکہ میں عام عوام اور اشرافیہ دونوں اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے حقدار ہیں کیونکہ امریکی انتظامیہ نے غصہ کرنے والی، رنگ برنگی، غیر جمہوری، اور زوال پذیر صیہونی حکومت کے فائدے کے لیے اپنے ملک اور دسیوں دوسرے ممالک کے عوام کے مفادات کو قربان کر دیا ہے جنہیں وہ بظاہر "اتحادی" کہتے ہیں۔
واضح رہے کہ اکانومسٹ میگزین نے ایک تجزیاتی رپورٹ میں صیہونی حکومت کو درپیش خطرات کا ذکر کیا ہے اور ان میں سے اہم ترین اندرونی تنازعات کو قرار دیا ہے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسرائیل کے موجودہ غیر لبرل سیاسی راستے میں، امریکہ میں اس کی عوامی حمایت کمزور ہو جائے گی اور مزید دھڑے بندی ہو جائے گی۔ تاکہ چار میں سے ایک امریکی یہودی کہے کہ اسرائیل ایک نسل پرست ادارہ ہے۔
ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے
جمہوریت کے گہوارے میں برتنوں کے ذریعے احتجاج
کچھ دن پہلے کی بات ہے جب پیرس کے سیکٹر 10 میں حکومت مخالف مظاہرین دیگچیاں، فرائی پین اور مختلف قسم کے چمچ اور دھاتی برتن لے کر سڑکوں پر نکل آئے۔ اس کے بعد اب تک شہر کے مختلف حصوں میں ان برتنوں کے ٹکرانے کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔ یوں فرانس میں احتجاج کے طور پر دھاتی برتنوں کو آپس میں ٹکرانے کی روایت دوبارہ زندہ ہو چکی ہے اور وزراء جہاں بھی جاتے ہیں ان آوازوں سے روبرو ہوتے ہیں۔ دوسری طرف میکرون حکومت اس قسم کے احتجاج کو روکنے کیلئے عجیب قسم کے اقدامات انجام دینا شروع ہو گئی ہے۔ مثال کے طور پر عوامی مظاہروں میں دھاتی برتن لانا قانون کی خلاف ورزی قرار دے دیا گیا ہے۔ فرانس کی پولیس نے اعلان کیا ہے کہ اگر مظاہرے میں کسی کے پاس دھاتی برتن پائے گئے تو اس سے ضبط کر لئے جائیں گے۔
دھاتی برتنوں پر پابندی کے قانون نے فرانسیسی صدر ایمونوئیل میکرون اور ان کی حکومت کو تمسخر آمیز بیانات کا نشانہ بنا دیا ہے۔ فرانس کی کمیونسٹ پارٹی کے ترجمان نے کہا ہے کہ انہیں ایسا قانون بنائے جانے کی توقع نہیں تھی جس میں فرائی پین پر پابندی عائد کی گئی ہو۔ گرین پارٹی کی معروف رکن پارلیمنٹ سینڈرین روسو نے کہا: "کیا فرائی پین پر پابندی عائد کر کے جمہوری بحران سے نمٹا جا سکتا ہے؟" اسی طرح ذرائع ابلاغ کی بڑی تعداد نے مظاہرین کے مقابلے میں پولیس اور میکرون کے ردعمل کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ مثال کے طور پر برطانوی اخبار "ٹائمز" نے اس بارے میں ایک کارٹون شائع کیا جس میں دکھایا گیا ہے کہ دھاتی برتن فرانسیسی صدر ایمونوئیل میکرون کے اقتدار کیلئے چیلنج بن چکے ہیں۔
فرانس میں گذشتہ چند ہفتوں سے عوامی احتجاج جاری ہے۔ یہ احتجاج اس وقت شروع ہوا جب حکومت نے ریٹائرمنٹ کی عمر میں چند سال کا اضافہ کر دیا۔ فرانس کی وزیراعظم الزبتھ بورن نے صدر میکرون کے حکم پر کہا تھا کہ آئین کی شق 43 کے پیراگراف تین کی روشنی میں اس قانون کی تشکیل کیلئے حکومت کو اسے پارلیمنٹ سے منظور کروانے کی ضرورت نہیں ہے۔ یوں فرانسیسی حکومت نے 14 اپریل کے دن ریٹائرمنٹ کی عمر 62 سال سے بڑھا کر 64 سال کر دی۔ اب ایمونوئیل میکرون نے اپنے ٹی وی خطاب میں وزیراعظم کو حکم دیا ہے کہ وہ اگلے سو دن کے اندر اندر ملک بھر میں جاری احتجاجی مہم کو کنٹرول کریں۔ فرانسیسی اخبار "لومونڈ" نے موجودہ صورتحال کے تناظر میں ایمونوئیل میکرون کو "بحرانوں کا صدر" قرار دیا ہے۔
معروف فرانسیسی سیاست دان میرین لوپن کا کہنا ہے کہ صدر ایمونوئیل میکرون نے ریٹائرمنٹ کا نیا قانون تشکیل دے کر اپنے اور عوام کے درمیان گہری خلیج پیدا کر دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب وہ وزیراعظم سے اگلے سو دن کے اندر اندر ملک بھر میں جاری عوامی مظاہرے کنٹرول کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ یاد رہے ریٹائرمنٹ کے نئے قانون کی تشکیل کے بعد فرانسیسی حکومت بری طرح متزلزل ہوئی تھی اور اسے عدم اعتماد کی تحریک کا سامنا کرنا پڑ گیا تھا۔ البتہ بہت کم ووٹوں سے یہ تحریک کامیاب نہیں ہو سکی۔ ایک سروے کے مطابق 74 فیصد فرانسیسی شہریوں کا خیال ہے کہ صدر ایمونوئیل میکرون نے عوامی غیض و غضب سے بچنے کیلئے فوری طور پر اس متنازعہ قانون کو منظور کر کے لاگو کر دیا ہے۔
میکرون نے ریٹائرمنٹ سے متعلق قانون کی تشکیل کے مسئلے میں اس حقیقت کو واضح کیا ہے کہ وہ اپنے مطلوبہ اہداف کے حصول کیلئے قانون کو بھی بالائے طاق رکھنے پر تیار ہیں۔ اخبار ایکسپریس نے اپنی ایک رپورٹ میں میکرون کو زبردستی اقدامات والا صدر قرار دیا اور لکھا: "جب انہوں نے یہ اعلان کیا کہ ریٹائرمنٹ کے قانون میں اصلاحی تبدیلی ایک مجبوری تھی اور اس سے زیادہ بہتر راستہ موجود نہیں تھا تو انہوں نے اپنے بارے میں ایک ایسی تصویر پیش کی جو مختلف سیاسی مسائل میں نظر آنے والی ان کی ہمیشہ کی تصویر سے بہت مختلف تھی۔ یوں دکھائی دیتا ہے کہ فرانس کے صدر نے اپنی حالیہ تقریر میں پانچ سالہ منصوبے کے دیگر حصوں پر توجہ مرکوز کرنے کی کوشش کی ہے اور وہ قانون میں مذکورہ بالا تبدیلی کو حتمی تصور کرتے ہیں۔"
کئی سروے رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایمونوئیل میکرون کی محبوبیت 26 فیصد کی کمترین حد تک آن پہنچی ہے۔ ریٹائرمنٹ قانون میں اصلاحات کے بعد ان کی محبوبیت میں شدید کمی واقع ہوئی ہے۔ یہ سروے ان کی اس حالیہ تقریر کے بعد انجام پائے ہیں جس میں انہوں نے وزیراعظم کو عوامی مظاہرے ختم کرنے کیلئے سو دن کی ڈیڈ لائن دی ہے۔ ماہر تاریخ پیپر روزنوالون کے بقول فرانس حکومت نے اپنے اقدامات کے ذریعے قانون کی روح کی بے حرمتی کی ہے اور یوں ملک کو الجزائر جنگ کے خاتمے کے بعد شدید ترین جمہوری بحران کا شکار کر دیا ہے۔ عوامی مظاہرین کے خلاف حکومتی اقدامات سے واضح ہوتا ہے کہ جمہوریت کا گہوارہ ہونے جیسے عناوین محض دکھاوا ہیں اور جمہوریت، آزادی اور انسانی حقوق جیسے خوبصورت نعرے کوئی حقیقت نہیں رکھتے۔
تحریر: فاطمہ محمدی
مغرب کا من گھڑت نظریہ آزادی
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے منگل کے دن یونیورسٹی طلباء کے ایک گروپ سے ملاقات میں آزادی کی اہمیت پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ آزادی مختلف جہتوں کی حامل ہے اور اسے انسانی عظمت کا باعث بننا چاہیئے۔ آزادی ان محوروں میں سے ایک ہے، جس کو مغربی طاقتیں اپنے لیے پروپیگنڈے نیز اپنے مخالف ممالک پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ اس کی ایک مثال اسلامی جمہوریہ ایران ہے، جس کے خلاف مغرب آزادی کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ مغربی نقطہ نظر سے آزادی کی مرکزی علامت و مفہوم انفرادیت اور دنیا پرستی ہے۔ مغرب سیاسی میدان میں آزادی کو بس اس حد تک قبول کرتا ہے، جب تک وہ مغربی اقدار اور اصولوں سے متصادم نہ ہو اور خود اسے چیلنج نہ کرے۔
آزادی کی اس تعریف اور فہم کو اسلام قبول نہیں کرتا۔ اسلام انسانوں کی آزادی پر زور دیتے ہوئے، نسل، مذہب اور رنگ وغیرہ کے لحاظ سے انسانوں میں فرق نہیں کرتا۔ اسلام کے مطابق آزادی کی دنیاوی اور اخروی دونوں جہتیں ہیں اور اس میں دنیا اور آخرت دونوں کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ آزادی کو صرف دنیوی زندگی کی حدود میں بیان کرنا آزادی کو پست و حقیر کرنا ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر سے آزادی کا حتمی مقصد انسان کا کمال اور اس کی سربلندی ہے، نہ کہ انسان کو شہوت و عارضی لذتوں میں مصروف رکھنا آزادی ہے۔
طلباء سے ملاقات میں رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: “آزادی بہت اہم ہے، اسلام میں نظریہ آزادی کا سب سے اہم حصہ اس مادی فریم ورک سے آزادی ہے۔ یہ مادی فریم کہتا ہے کہ تم پیدا ہوئے، تم چند سال زندہ رہو، پھر تم فنا ہو جاؤ گے، گویا ہم سب کو فنا ہونے کی سزا ہے۔ مادہ پرست اس مادی پنجرے میں کچھ آزادی دیتے ہیں، وہ آزادی ہوس و شہوت کی آزادی، غصے کی آزادی، جبر کی آزادی، یہ آزادی حقیقی آزادی نہیں ہے۔ حقیقی آزادی اسلامی آزادی ہے۔ اسلام ہمیں اس فریم ورک میں رکھتا ہے، جو مادیت کے پنجرے میں بند نہیں کرتا۔۔۔۔ مرنا اختتام نہیں؛ مرنا ایک نئے مرحلے کا آغاز ہے، (اور درحقیقت) اہم مرحلہ کی طرف سفر ہے۔ جب آزادی کو اس طرف دیکھو گے تو آپ کا افق و ویژن بلند ہوگا۔ آپ اپنی ترقی کے لیے خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہیں گے۔ آپ کی فضیلت کی کوئی حد نہیں ہوگی، یہ آزادی ہے۔”
قائد انقلابو ملک کو مثالیت، امید اور عقلانیت کی ضرورت ہے
ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ مغربی دنیا میں سیاسی آزادیوں اور انسانی حقوق کے دعوے اس وقت تک معنی خیز ہیںو جب تک وہ دنیا میں مغرب کے سیاسی اور ثقافتی اثر و رسوخ کو چیلنج نہیں کرتے۔ مغرب میں اسلامو فوبیا اور پیغمبر اسلام اور قرآن پاک کی توہین اور مغربی حکومتوں کی طرف سے ایسے اقدامات کی حمایت مغرب کے اس طرز عمل کی مثالیں ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مغربی معاشروں میں سیاسی آزادی عملی طور پر محض دعویٰ اور پروپیگنڈہ ہے۔
درحقیقت مغرب اپنی بیان کردہ سیاسی آزادی کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کا بھی استعمال کرتا ہے، جس کی تعریف وہ اپنے نظریات کے مطابق کرتا ہے اور اسے دوسرے ممالک پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال بھی کرتا ہے۔ طلباء کے ساتھ ملاقات میں رہبر انقلاب نے شخصی آزادی اور اظہار رائے کی آزادی کے ساتھ ساتھ دقیانوسیت، جمود، مختلف پسماندگیوں، غیر ضروری تعصبات، سپر پاورز اور آمروں کی قید سے آزادی پر زور دیا ہے اور اس بات پر تاکید کی کہ آزادی کا حقیقی مفہوم یہ ہے نہ کہ مغرب کا من گھڑت نظریہ آزادی۔
تحریر: سید رضی عمادی
ایرانی وزیر خارجہ کا فلسطینی مزاحمت اور قوم سے ایران کی حمایت جاری رکھنے پر زور
حسین امیرعبداللہیان نے پیر کے روز اسماعیل ہنیہ کے ساتھ ایک ٹیلی فونک رابطے کے دوران عید الفطر کی آمد پر مزاحمتی تحریک اور فلسطینی قوم کو مبارکباد پیش کی۔
ایرانی وزیر خارجہ نے یوم القدس کے موقع پر رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے خطاب میں قوم اور فلسطینی مزاحمت کی اہمیت کا حوالہ دیتے ہوئے فلسطینی مزاحمت اور قوم سے ایران کی روحانی- سیاسی حمایت پر زور دیا۔
تحریک حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نےعید الفطر کی آمد پر ایرانی حکومت اور قوم کو مبارکباد دیتے ہوئے ایرانی سپریم لیڈر اور صدر کو گرمجوشی سے سلام پیش کیا۔
حماس کے سیاسی دفتر کے سربراہ نے قابض حکومت کی جارحیت کے خلاف فلسطینی گروہوں اور عوام کی مزاحمت جاری رکھنے کے پختہ عزم پر زور دیا۔
ہنیہ نے ایران اور سعودی عرب کے حالیہ معاہدے کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس معاہدے کو دونوں ممالک اور پورے خطے کے مفاد میں قرار دیا اور کہا کہ البتہ صہیونی رجیم اس معاہدے سے ناراض ہے۔