سلیمانی

سلیمانی

علامہ سید ابراہیم رئیسی نے جمعہ کے روز اپنے پیغام میں مزاحمتی محاذ کی بہادرانہ مزاحمت کو سراہا جو کہ صیہونیوں کے ساتھ سمجھوتہ کرنے والوں کے مقابلے میں باوقار ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جعلی صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو فطری بنانا فلسطینیوں اور مزاحمتی محاذ کے ساتھ غداری کے مترادف ہے اور مزاحمتی محاذ اور وطن عزیز فلسطین کی پیٹھ پر خنجر گھونپنے کے مترادف ہے۔
عالمی یوم القدس کے موقع پر جمعے کی شام فلسطینی گروپوں کے رہنماؤں اور غزہ کے باشندوں کے اجتماع کے لیے بھیجے گئے ویڈیو پیغام میں صدر رئیسی نے ماہ رمضان میں روزہ دار فلسطینیوں کے لیے دعا کی ہے، اور دلیل دی ہے کہ اس مہینے میں امام علی علیہ السلام ایرانی قوم کے لیے نمونہ ہیں اور انہوں نے ہمیں نصیحت کی ہے کہ کبھی بھی ظالموں کا ساتھ نہ دیں جن کی زمینوں پر قبضہ کر لیا گیا ہے اور ہمیشہ مظلوم فلسطینیوں سمیت مظلوم عوام کی حمایت کریں اور یہ حمایت جاری رہے گی۔
ایرانی صدر نے کہا کہ فلسطینی قوم اگرچہ مظلوم ہے لیکن یہ مزاحمت کی ہیرو ہے اور فلسطینیوں کے نظریات کو عملی جامہ پہنانے اور مقبوضہ القدس کو آزاد کرانے کے لیے اس کی برسوں کی مثالی مزاحمت پوری انسانیت کے لیے قابل تعریف ہے اور یقیناً اس کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہے۔

یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ امت مسلمہ میں اتحاد اور وحدت، غاصب صیہونی رژیم کی شکست اور نابودی، مظلوم فلسطینی قوم کی فتح اور قدس شریف کی آزادی کی بنیادی شرط ہے۔ اسی وجہ سے غاصب صیہونی حکمران ہمیشہ سے مسلمانوں اور اسلامی ممالک میں اختلافات اور دشمنی پیدا کرنے کی سرتوڑ کرششیں کرتے آئے ہیں تاکہ یوں امت مسلمہ میں اتحاد اور وحدت پیدا ہونے سے روک سکیں۔ غاصب صیہونی حکام اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ جس دن خطے کے مسلمانوں اور مسلمان اقوام کے اندر باہمی اتحاد اور وحدت پیدا ہوئی وہ ان کی نابودی کا دن ثابت ہو گا اور اسرائیل نامی ناجائز ریاست کا بھی آخری دن ثابت ہو گا۔ لہذا اسرائیل اور اس کی حامی مغربی طاقتیں مختلف بہانوں سے امت مسلمہ میں اختلافات ڈال کر ان میں پھوٹ ڈالنے کی پالیسی پر گامزن ہیں۔
 
اسی اہمیت کے پیش نظر جب ایران میں اسلامی انقلاب کامیاب ہوا تو اس کے بانی اور قائد امام خمینی رح نے اتحاد بین المسلمین کو اپنی پہلی ترجیح قرار دیا۔ امام خمینی رح نے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے فوراً بعد 1980ء کے پہلے ماہ مبارک رمضان میں اس مقدس مہینے کے آخری جمعہ کو "یوم القدس" کا عنوان دے دیا۔ یہ اقدام بھی درحقیقت غاصب صیہونی رژیم اور اسرائیل نامی جعلی ریاست کا مقابلہ کرنے کیلئے امت مسلمہ میں اتحاد پیدا کرنے کی غرض سے انجام پایا تھا۔ امام خمینی رح انتہائی بابصیرت اور دوراندیش شخصیت کے حامل تھے اور دنیا خاص طور پر خطے کے سیاسی حالات سے پوری طرح آگاہ تھے۔ وہ بھی اس حقیقت کو اچھی طرح بھانپ چکے تھے کہ اسلامی دنیا میں اسرائیل نامی سرطانی غدے کو ختم کرنے کا واحد راستہ دنیا بھر کے مسلمانوں میں اتحاد اور وحدت پر مشتمل ہے۔
 
 لہذا گذشتہ چالیس برس سے ایران اور پوری اسلامی دنیا میں ہر سال یوم القدس پورے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ قبلہ اول مسلمین جہان کی مرکزیت میں شروع ہونے والی اس عظیم تحریک کا نتیجہ غاصب صیہونی رژیم کے خلاف مسلح مزاحمت اور جدوجہد کی صورت میں ظاہر ہوا اور فلسطین سمیت مختلف اسلامی ممالک میں اسلامی مزاحمتی گروہ تشکیل پائے۔ ان اسلامی مزاحمتی گروہوں نے غاصب صیہونی رژیم کے جارحانہ اقدامات کا بھرپور مقابلہ کیا اور اس کے مقابلے میں سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوئے۔ آج خطے میں اسلامی مزاحمتی محاذ ایک اہم فوجی طاقت بن کر سامنے آ چکا ہے اور اس نے غاصب صیہونی حکمرانوں اور ان کے اتحادیوں کو بے بس کر کے رکھ دیا ہے۔
 
اسلامی مزاحمتی گروہوں نے غاصب صیہونی رژیم کے مکمل خاتمے تک اپنی جدوجہد جاری رکھنے کی قسم کھا رکھی ہے اور اس راستے میں ہر قسم کی قربانی دینے کیلئے تیار دکھائی دیتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آج روز قدس  ظالم کے مقابلے میں مظلوم کے قیام اور مزاحمت کی علامت بن چکا ہے۔ مزید برآں، یوم القدس کو گذشتہ چند عشروں سے امریکہ اور مغربی طاقتوں کی غیر مشروط حمایت اور اسلحہ کے زور پر فلسطینیوں کی سرزمین پر ناجائز قبضہ قائم کی ہوئی غاصب صیہونی رژیم کے مقابلے میں امت مسلمہ کے اقتدار اور عظمت کی تجلی قرار دیا جا سکتا ہے۔ یوم القدس درحقیقت پوری دنیا میں حریت پسند اور ظلم سے نفرت کرنے والے انسانوں میں وحدت کا دن ہے۔ ایسے انسان جو عدل و انصاف کے پیاسے ہیں۔
 
یہ انسان ہمیشہ ہر قسم کے ظلم و ستم، خاص طور پر دنیا کی سب سے بڑی ظالم رژیم یعنی صیہونی رژیم کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لہذا دنیا کی تمام اسلامی اقوام کی شرعی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مظلوم فلسطینی قوم کی حمایت کریں اور آپس میں اتحاد کو فروغ دیں۔ امت مسلمہ کی جانب سے دنیا والوں کو یہ پیغام ملنا چاہئے کہ وہ نہ صرف مظلوم فلسطینی قوم بلکہ دنیا میں ہر مظلوم کی حامی ہے اور دنیا میں جہاں کہیں بھی کوئی انسان یا معاشرہ کسی طاقت کے ظلم و ستم کا نشانہ بن رہا ہے اس کی مدد اور حمایت کیلئے سر دھڑ کی بازی لگانے کیلئے تیار ہے۔ دوسری طرف عالمی استکباری طاقتیں، خاص طور پر امریکہ ظالم اور مظلوم کے درمیان جاری اس معرکے میں غیر جانبدار نہیں ہیں اور ہمیشہ کی طرح ظالم یعنی غاصب صیہونی رژیم کی ہر ممکنہ مدد جاری رکھے ہوئے ہیں۔
 
اگرچہ آج غاصب صیہونی رژیم اسلامی مزاحمت کی جدوجہد کی بدولت آخری سانسیں لے رہی ہے لیکن امریکہ اور مغربی طاقتیں اس کے بے جان بدن میں نئی روح پھونک کر اسے دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ لیکن اگر مسلمان آپس میں اتحاد اور وحدت برقرار رکھیں تو دشمن کی تمام سازشیں ناکامی کا شکار ہو جاِئیں گی۔ لہذا امت مسلمہ اور دنیا بھر کی مسلمان اقوام کو ہر گز مسئلہ فلسطین کو فراموش نہیں کرنا چاہئے اور اسلامی ممالک کے حکمرانوں کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی میں مسئلہ فلسطین کو پہلی ترجیح کا حامل مسئلہ قرار دیں۔ مسلمان اقوام اور اسلامی حکمرانوں کے درمیان یہی اتحاد فلسطین کے دفاع اور غاصب صیہونی رژیم کی نابودی کا ضامن ہے۔

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِم مِّن كُلِّ أَمْرٍ سَلَامٌ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ
جس طرح شب قدر کا ادراک مشکل ہے اسی طرح اس کی منزلت کو سمجھنا بھی دشوار امر ہے جس کی حقیقت کو صرف وہی لو گ بیان کر سکتے ہیں جنہیں اس شب کا ادراک ہو چکا ہو ، کیوں کہ قرآن پیغمبر اکرم ص کو مخاطب کر کے فرماتا ہے :
وما ادراک ما لیلۃ القدر
اے پیغمبر! آپ کو کیا معلوم شب قدر کیا ہے ؟
اس کی عظمت کے لئے یہی کافی ہے کہ یہ رات "ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے ” ہزار مہینہ تریاسی سال بنتے ہیں یعنی ایک رات کی عبادت تریاسی سالوں کی عبادت سے افضل ہے اس کے علاوہ بھی اس کی دیگر فضیلتیں ہیں جن میں سے چند فضیلتیں مندرجہ ذیل ہیں:
قرآن کا نزول
پروردگار عالم کی سب سے باعظمت جامع و کامل کتاب جسے ہمیشہ باقی رہنا ہے وہ اسی شب میں نازل ہوئی جیسا کہ قرآن گواہی دیتا ہے۔
شهر رمضان الذی انزل فيه القرآن
(بقرہ ۱۸۵(
ماہ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ) لیکن رمضان کی کس شب میں قرآن نازل ہوا ؟ اس کا بیان دوسری آیت میں ہے۔
انا انزلناہ فی لیلۃ مبارکۃ
(دخان ،۳(
بیشک!ہم نے قرآن کو بابرکت رات میں نازل کیا ) اور سورہ قدر میں اس بابرکت رات کو اس طرح بیان کیا۔
انا انزلناه فی ليلة القدر
(قدر ۱(
بیشک! ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا ) لہذا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ قرآن کے نزول نے بھی اس شب کی عظمت میں اضافہ کیا ہے ۔
واضح رہے کہ قرآن کا یہ نزول دو طرح کا رہا ہے ایک نزول دفعی یعنی ایک بار نازل ہوا۔ شب قدر میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب مبارک پر ایک ساتھ نازل ہوا ہے اور دوسرا نزول ، نزول تدریجی ہے جو کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چالیس کی عمر میں بعثت کے دن نازل ہونا شروع ہوا اور آنحضرت کی عمر مبارک کے 63 ویں سال تک نازل ہوتا رہا ہے، جوکہ 23 سال نازل ہوتا رہا ہے۔ یعنی قرآن ایک ساتھ ایک بار شب قدر میں نازل ہوا ہے اور دوسری مرتبہ 23 سال آہستہ آہستہ نازل ہوتا رہا ہے۔
تقدیر کا معین کرنا
اس شب کو لیلۃ القدر کہنے کی وجہ کے بارے میں مختلف اقوال پائے جاتے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ یہ رات با برکت و با عظمت ہے۔
ليلة العظمة
(مجمع البیان ج۱، ص۵۱۸)
اور قرآن مجید میں لفظ قدر عظمت و منزلت کے لئے استعمال ہوا ہے جیسا کہ آیت میں ہے۔
ما قدروا الله حق قدره
(حج ۷۴)
انھوں نے اللہ کی عظمت کو اس طرح نہ پہچانا جس طرح پہچاننا چاہئے۔
قدر کے معنی تقدیر اور اندازہ گیری اور منظم کرنے کے ہیں ، اس معنی کو بھی اہل لغت نے بیان کیا ہے قرآن و روایات میں بھی یہ لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے ،راغب اصفہانی کہتے ہیں :
ليلة القدر ای ليلة قيضها لامور مخصوصة
(المفردات فی غریب القرآن ، ص۳۹۵)
شب قدر یعنی وہ رات جسے اللہ تبارک و تعالیٰ نے مخصوص امور کی تنظیم و تعیین کے لئے آمادہ کیا ہے ، قرآن کریم بھی ارشاد فرماتا ہے ۔
یفرق کل امر حکیم
(دخان ۴)
ہر کام خداوند عالم کی حکمت کے مطابق معین و منظم کیا جاتا ہے۔
امام صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں :
التقدیر فی لیلۃ القدر تسعۃ عشر والابرام فی لیلۃ احدیٰ و عشرین والامضاء فی لیلۃ ثلاث و عشرین
(وسائل الشیعہ ج۷،ص۲۵۹)
انیسویں شب میں تقدیر لکھی جاتی ہے ،اکیسویں شب میں اس کی دوبارہ تائید کی جاتی ہے اور تیئیسویں شب میں اس پر مہر اور دستخط لگائی جاتی ہے ۔ امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں :
یقدر فیھا ما یکون فی السنۃ من خیر او شر او مضرۃ او منفعۃ او رزق او اجل و لذالک سمیت لیلۃ القدر
(عیون اخبار الرضاج۲، ص۱۱۶)
شب قدر میں جو بھی سال میں واقع ہونے والا ہے سب کچھ لکھ دیا جاتا ہے نیکی ،برائی ، نفع و نقصان ،رزق اور موت اسی لئے اس رات کو لیلۃ القدر کہا جاتا ہے۔
اللہ نے انسان کو اپنی تقدیر بنانے یا بگاڑنے کا اختیار خود انسان کے ہاتھ دیا ہے وہ سعادت کی زندگی حاصل کرنا چاہے گا اسے مل جائے گی وہ شقاوت کی زندگی چاہے گا اسے حاصل ہو جائے گی۔
(یونس23)
لوگو! اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ تمہاری سرکشی صرف تمہیں نقصان پہچائے گی۔ جو کوئی سعادت کا طلبگار ہے وہ شب قدر میں صدق دل کے ساتھ اللہ کی بار گاہ میں توبہ کرے، برائیوں اور برے اعمال سے بیزاری کا عہد کرے گا۔
اللہ سے اپنے خطاؤں کے بارے میں دعا اور راز و نیاز کےذریعہ معافی مانگے گا یقینا اس کی تقدیر بدل جائے گی اور امام زماں ارواحنا فداہ اس تقدیر کی تائید کریں گے۔ اور جو کوئي شقاوت کی زندگی چاہے وہ شب قدر میں توبہ کرنے کے بجائے گناہ کرے ، یا توبہ کرنے سے پرہیز کرے ، تلاوت قرآن ، دعا اور نماز کو اھمیت نہیں دے گا ، اسطرح اس کے نامہ اعمال سیاہ ہوں گے اور یقینا امام زماں ارواحنا فداہ اس کی تقدیر کی تائید کریں گے۔
جو کوئی عمر بھر شب قدر میں سال بھر کے لئے سعادت اور خوش بختی کی تقدیر طلب کرنے میں کامیاب ہوا ہوگا وہ اسکی حفاظت اور اس میں اپنے لئے بلند درجات حاصل کرنے میں قدم بڑھائے گا اور جس نے شقاوت اور بد بختی کی تقدیر کو اختیار کیا ہوا وہ توبہ نہ کرکے بدبختی کی زندگی میں اضافہ کرے گا۔
شب قدر کے بارے میں اللہ نے تریاسی سالوں سے افضل ہونے کے ساتھ ساتھ اس رات کو سلامتی اور خیر برکت کی رات قرار دیا ہے۔اس رات میں صبح ہونے تک سلامتی ہی سلامتی ہے اس لئے اس رات میں انسان اپنے لئے دنیا اور آخرت کے لئے خیر و برکت طلب کرسکتا ہے۔
اگر دل کو شب قدر کی عظمت اور بزرگی کی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ جس شب کے بارے میں اللہ ملائکہ سے کہہ رہا ہے کہ جاو اور فریاد کرو کہ کیا کوئی حاجب مند، مشکلات میں مبتلا ، گناہوں میں گرفتار بندہ ہے جسے اس شب کے طفیل بخش دیا جائے ؟ اگر اس نقطے کی طرف توجہ کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں کہ یہ رات ایک عمر بھر کی مخلصانہ عمل سے افضل ہے۔
اس بات کو نہیں بھولتے ہیں کہ یہ رات تقدیر لکھنے کی رات ہے۔ یہی وہ رات ہے جس میں بندہ اللہ کی نظر رحمت کو اپنی طرف جلب کرکے سعادت دنیا اور آخرت حاصل کرسکتا ہے تو یقینا ہمیں شب قدر کے ثواب حاصل ہوں گے۔ اس لئے ہمیں چاہیے فراخدلی کے ساتھ اللہ کی بارگاہ میں تمام عالم کے لئے دعا کریں کہ اے اللہ تم اسے بھی عطا کرتے ہو جو تمہیں مانتا ہے اور اسے بھی عطا کرتا ہے جو تمہیں انکار کرتا ہے اس شب کے طفیل ہم سب کو صراط المستقیم کی طرف ھدایت فرما۔دنیا کے جس کونے میں جو کوئی بھی ظالم کے چنگل میں پھنسا ہے اسے آزادی نصیب فرما۔ عالم اسلام کےمشکلات کو برطرف فرما۔ فلسطین اور کشمیر کے مسئلے کو عوام کی امنگوں کے مطابق حل ہونے کے لئے راہ ھموار فرما۔ اسی طرح جامع الفاظ میں اللہ کی بارگاہ میں درخواست کریں کہ ہم سب کا دنیا اور آخرت آباد فرمائے۔ یہی تو رات ہے جس میں ہم سب اپنے اور دوسروں کے لئے سعادت اور خوش بختی طلب کرسکتے ہیں۔

لیلۃ القدر دلیل امامت
شب قدر کو شب امامت اور ولایت بھی کہا جاتا ہے کیونکہ خود قرآن کہتا ہےکہ اس رات میں فرشتے ، ملائکہ اور ملائکہ سے اعظم ملک روح بھی نازل ہوتے ہیں۔ اس نقطے کو سمجھنا ضروری ہے کہ نازل ہوتے ہیں ، نازل ہوئے نہیں۔
کیونکہ ارشاد باری تعالی ہے : تنزل فعل مضارع ہے یعنی نازل ہوتے ہیں نازل ہوئے نہیں کہا گیا ہے۔ تو یہ جاننا ضروری ہے کہ کس پر نازل ہوتے ہیں۔ آپ اور مجھ پر تو فرشتے نازل نہیں ہوتے ہیں۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں تو آنحضرت پر نازل ہوتے تھے آنحضرت کے بعد کس پر نازل ہوتے ہیں؟
ظاہر سی بات ہے اس پر نازل ہوں گے جو پیغمبر کے بعد پیغمبر کا جانشین ہوگا ، جو معصوم ہوگا ، جو صاحب ولایت ہو۔جی ہاں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام پر نازل ہوتے تھے اور حضرت علی علیہ السلام کے بعد حضرت حسن مجتبی اور آپ کے بعد حضرت حسین اور آپ کے بعدحضرت علی زین العابدین اور آپ کے بعد حضرت محمد باقر اور آپ کے بعد حضرت جعفر صادق اور آپ کے بعد حضرت موسی کاظم اور آپ کے بعد حضرت علی الرضا اور آپ بعد حضرت محمد جواد اور آپ کے بعد علی النقی اور آپ کے بعد حسن عسکری علیہم السلام اور آپ کے بعد قطب عالم امکان مھدی آخر الزمان ارواحنافداہ کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں اور انسانوں کے سال بھر کے مقدرات بیان کرتے ہیں۔
شب قدر امامت اور اس کی بقاء اور جاودانگی پر سب سے بڑی دلیل ہے ، متعدد روایات میں وارد ہوا ہے کہ شب قدر ہر زمانے میں امام کے وجود پر بہترین دلیل ہے اس لئے سورہ قدر کو اہلبیت ع کی پہچان کہا جاتا ہے ،جیسا کہ بعض روایات میں بھی وارد ہوا ہے ۔
امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ مولائے کائنات اکثر فرمایا کرتے تھے :
جب بھی تیمی اور عدوی پیغمبر ص کے پاس ایک ساتھ آتے تو پیغمبر اکرم ص ان کے سامنے سورہ انا انزلناہ کی تلاوت بڑے خضوع کے ساتھ فرماتے اور گریہ کرتے تھے ، وہ پوچھتے تھے کہ آپ پر اتنی رقت کیوں طاری ہوتی ہے تو پیغمبر اکرم ص فرماتے کہ ان باتوں کی وجہ سے جنہیں ہماری آنکھوں نے دیکھا اور میرے دل نے سمجھا ہے اور اس بات کی وجہ سے جسے یہ علی علیہ السلام ہمارے بعد دیکھیں گے ، وہ پوچھتے کہ آپ نے کیا دیکھا ہے اور یہ کیا دیکھیں گے ؟
پیغمبر ص نے انھیں لکھ کر دیا
تنزل الملائکة والروح فيها باذن ربھم من کل امر
ملائک اور روح اس رات میں خداوند عالم کے اذن سے ہر کام کی تقدیر کے لئے نازل ہوتے ہیں ) پھر پیغمبرص نے دریافت کیا کہ کیا "کل امر” (ہر کام ) کے بعد کوئی کام باقی رہ جاتا ہے ؟ وہ کہتے تھے نہیں ، پھر حضرت فرماتے تھے : کیا تمہیں معلوم ہے کہ جس پر تمام امور نازل ہوتے ہیں وہ کون ہے ؟ وہ کہتے کہ ،آپ ہیں یا رسول اللہ!
پھر رسول ص سوال کرتے کہ کیا میرے بعد شب قدر رہے گی یا نہیں ؟ وہ کہتے تھے ، ہاں !
رسول ص پوچھتے کہ کیا میرے بعد بھی یہ امر نازل ہوں گے ؟ وہ کہتے تھے ہاں !
پھر رسول پوچھتے کہ کس پر نازل ہوں گے ؟ وہ کہتے کہ ہم نہیں جانتے ۔ پھر حضرت میرا (علی )سر پکڑتے اور میرے سر پر اپنا ہاتھ رکھ کر فرماتے : اگر نہیں جانتے تو جان لو ! وہ شخص یہ ہے ۔
پھر مولائے کائنات نے فرمایا: اس کے بعد یہ دونوں پیغمبر اکرم ص کے بعد بھی شب قدر میں خوفزدہ رہا کرتے تھے اور شب قدر کی اس منزلت کو جانتے تھے ۔
(اصول کافی ،ج۱ص۳۶۳،۳۶۴)
ایک دوسرے مقام پر علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ در حقیقت شب قدر ہر سال آتی ہے اور امر خدا ہر سال نازل ہوتا ہے اور اس امر کے لئے صاحب الامر بھی موجود ہے ۔
جب دریافت کیا گیا کہ وہ صاحب الامر کون ہے تو آپ ع نے فرمایا
انا و احد عشر من صلبی ائمة محدثون
(اثبات الھداۃ ، ج۲، ص۲۵۶)
میں اور میرے صلب سے گیارہ دیگر ائمہ جو محدث ہیں ) محدِّث یعنی ملائکہ کو آنکھوں سے نہیں دیکھتے لیکن ان کی آواز سنتے ہیں ۔
اس سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ شب قدر شب ولایت اور امامت ہے اور جن روایات میں شب قدر کی تفسیر فاطمہ زہرا(س) سے کی گئی ہے ان کا بھی معنیٰ واضح ہے کہ شب قدر ولایت اور امامت کی شب ہے اور امامت و ولایت کی حقیقت فاطمہ زہرا (س) کی ذات گرامی ہے ۔
گناہوں کی بخشش
شب قدر کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس شب میں گناہگاروں کی بخشش ہوتی ہے لہذا کوشش کریں کہ اس عظیم شب کے فیض سے محروم نہ رہیں، وائے ہو ایسے شخص پر جو اس رات میں بھی مغفرت و رحمت الٰہی سے محروم رہ جائے جیسا کہ رسول اکرم کا ارشاد گرامی ہے :
من ادرک ليلة القدر فلم يغفر له فابعده الله
(بحارالانوار ،ج۹۴ ص۸۰ ح ۴۷)
جو شخص شب قدر کو درک کرے اور اس کے گناہ نہ بخشے جائیں اسے خداوند عالم اپنی رحمت سے دور کر دیتا ہے ۔
ایک اور روایت میں اس طرح وارد ہوا ہے ۔
من حرمھا فقد حرم الخیر کلہ ولا یحرم خیرھا الا محروم
(کنز العمال ج۸ص۵۳۴ ح۲۸ و ۲۴)
جو بھی شب قدر کے فیض سے محروم رہ جائے وہ تمام نیکیوں سے محروم ہے ، اس شب کے فیض سے وہی محروم ہوتا ہے جو خود کو رحمت خدا سے محروم کر لے ۔
بحارالانوار کی ایک روایت میں پیغمبر اکرم (ص) سے اس طرح منقول ہے :
من صلّیٰ لیلۃ القدر ایماناً و احتساباً غفر اللہ ما تقدم من ذنبہ
(بحارالانوار ج۹۳ ،ص۳۶۶ ، حدیث ۴۲)
جو بھی اس شب میں ایمان و اخلاص کے ساتھ نماز پڑھے گا خداوند رحمٰن اس کے گزشتہ گناہوں کو معاف کر دے گا ۔
شب قدر کے بہترین اعمال کیا ہیں؟
شب قدر کے اعمال بہت سارے ہیں یہاں پرہم بعض کاتذکرہ کریں گے۔
الف : شب قدر کی فرصت کو غنیمت سمجھنا
خداوند معتال نے قرآن کریم میں حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مخاطب ہو کر فرمایا :
انّاانزلناہ فی ليلة القدر، وما ادراک ما ليلة القدر
ہم نے قرآن کو شب قدر نازل میں کیا ہے مگر آپ کیا جانتے ہیں کہ شب قدر کیا ہے ؟
شب قدر کی فضیلت کے لئے اتنا کافی ہے کہ یہ رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے اس شب میں انسان کی تقدیر لکھی جاتی ہے اور جو انسان اس سے با خبر ہو وہ زیادہ ہو شیاری سے اس قیمتی وقت سے استفادہ کرے گا ۔لہٰذا شب قدر کے بہترین اعمال میں سے ایک عمل یہی ہے کہ انسان اس فرصت کو غنیمت سمجھے یہ فرصت انسان کو ہر بار نہیں ملتی ہے ۔
(ب) توبہ :
اس شب کے بہترین اعمال میں سے ایک عمل توبہ ہے جیسا کہ شہید مطہری فرماتے ہیں: خدا کی قسم ایک ورزش ایک دن کی ہے اس کا ایک گھنٹہ ایک گھنٹہ ہے اگر ایک رات کی تاخیر کریں تو اشتباہ کیا ایسا مت کہے کہ کل کی رات تئیسویں کی رات ہے شب قدر کی ایک رات ہے اور توبہ کے لئے بہتر ہے کہ نہیں ۔آج کی رات کل کی رات سے بہتر ہے آج کا ایک گھنٹہ آنے والے کل کے گھنٹہ سے بہتر ہے ہر ایک لمحہ آنے والے لمحہ سے بہتر ہے عبادت توبہ کے بغیرقبول نہیں ہوتی پہلے توبہ کرلینا چاہیے ،پہلے اپنے آپ کو دھونا چاہیے پھر اس پاک و پاکیزہ جگہ میں وارد ہونا چاہیے ہم تو بہ نہیں کرتے ہیں تو کیسی عبادت کرتے ہیں ؟ !ہم توبہ نہیں کرتے ہیں اور روزہ رکھتے ہیں ؟! توبہ نہیں کرتے ہیں اورنماز پڑھتے ہیں ؟!توبہ نہیں کرتے ہیں اورحج پر چلے جاتے ہیں ؟! توبہ نہیں کرتے ہیںاور قرآن پڑھتے ہیں ؟! توبہ نہیں کرتے ہیں اورذکر کہتے ہیں؟! توبہ نہیں کرتے ہیں اور ذکر کی مجلسوں میں شرکت کرتے ہیں ! خدا کی قسم اگر آپ پاک ہونے کے لئے ایک توبہ کریں تاکہ پھر توبہ اور پاکیزکی کی حالت میں ایک دن اور ایک رات نماز پڑھیں وہی ایک دن رات کی عبادت آپ کو دس سال آگے بڑھائے گی اور پروردگا کے مقام قرب کے قریب پہنچائے گی ہم نے دعا کے سوراخ کو گم کیا ہے اور اس کے راستے کو بھی نہیں جانتے ہیں ۔ امام علی توبہ کے چھ رکن بیان کرتے ہیں :
١۔ اپنے گناہوں پر پشیمان ہونا۔
٢۔ ارادہ کرے کہ اب دوبارہ کبھی بھی گناہ نہیں کرے گا۔
٣۔ حقوق الناس ادا کرنا۔
٤۔ حقوق الہیٰ ادا کرنا ۔
٥۔ جو گوشت رزق حرام سے بدن پر چڑھا ہے وہ پگھل کے رزق حلال سے نیا گوشت بدن پر چڑھے ۔
٦۔ جس طرح بدن نے گناہوں کا مزہ چکھا ہے اس طرح اطاعت کا مزہ چکھنا چاہیے پس اسی صورت میں خدا نہ صرف اس کو دوست رکھتا ہے بلکہ اپنے محبوب بندوں میں اسے قرار دیتا ہے۔
(نہج البلاغہ، حکمت ٤١٧)
(ج)دعا:
اب جبکہ بندہ گمراہی اور ضلالت کے راستے کو چھوڑ کے ہدایت اور نور کے راستے کی طرف چل پڑا ہے اور اپنے خدا کی جانب روا ںدو اںہے اب خدا کو پکارے اور اس کے ساتھ ارتباط بر قرار کرے دعا کرے دعا کے اصل معنی یہی ہیں کہ انسان اپنے دل کا حال بیان کرکے در واقع خدا سے ارتباط پیدا کرے ۔
(د) تفکر اور معرفت :
اس کے بعد کہ انسان نے فرصت کو غنیمت سمجھ کے اپنے افکار اور اعمال کے اشتباہات سے واقفیت حاصل کرکے یہ ارادہ کر لیا کہ اب کبھی بھی گناہ نہیں کرے گا اپنی اصلاح کرے گا دل شناحت اور معرفت کے لئے آمادہ ہوجاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی معرفت سب سے بڑی معرفت ہے اور اس سے دل نوارنی ہو جاتا ہے اور حقیقی معرفت انسان کو بندگی کے اعلیٰ مرتبے تک پہنچا کے خلافت الہی کا وارث بنا دیتی ہے البتہ خود شناسی اس معرفت حقیقی کے لئے پیش خیمہ ہے جیسا کہ حدیث میں بھی آیا ہے:
من عرف نفسہ فقد عرف ربہ
یعنی خود شناسی خداشناسی کا سبب بنتی ہے
(شب قدر ،پاسخھای دانشجوئی)
ذرائع:
فاضل لنکرانی ڈاٹ کام

جہاں تک علی او راسلام کے باہمی ارتباط کاتعلق ہے تو ہم اس مقام پر مصر کے اسکالر "عقاد”کے ساتھ ہم نوا ہوکر کہیں گے :
"انّ علیا کا المسلم الخالص علی سجیّته المثلی و انّ الدین الجدید لم یعرف قظّ اصدق اسلاما منه ولا اعمق نفاذا فیه۔
(عبقریۃ الامام ۔ازاستاد عقاد ص ۱۳)
علی (علیہ السلام) اپنی آئیڈیل فطرت کی وجہ سے مسلم خالص تھے اور نئے دین نے علی (ع) سے بڑھ کر کسی کے سچے اورگہرے اسلام کا مشاہدہ نہیں کیا تھا ۔
ڈاکٹر طہ حسین اپنی کتاب الفتنتہ الکبری ،عثمان بن عفان صفحہ ۱۰۱پر لکھتے ہیں :- جب رسول خدا(ص) نے اعلان نبوت فرمایا تو علی (ع) اس وقت بچے تھے ۔انہوں نے فورا اسلام قبول کیا اور اسلام کےبعد وہ رسول خدا (ص) اور حضرت خدیجۃ الکبری کی آغوش میں پرورش پاتے رہے ۔انہوں نے پوری زندگی میں کبھی بھی بتوں کے سامنے سر نہیں جھکایا تھا ۔
سابقین اولین اور علی علیہ السلام میں سب سے واضح فرق یہ ہے کہ انہوں نے منزل وحی میں پرورش پائی اور یہ شرف ان کے علاوہ کسی اور کو نصیب نہیں ہوا ۔اسی تربیت وکفالت کا اثر تھا کہ علی ایک عدیم المثال شخصیت بن کر ابھرے ۔بہر نوع علی علیہ السلام کی ذات کا مطالعہ علم النفس یا علم الاجتماع جس بھی حوالے سے کیاجائے علی ہر لحاظ سے لاجواب ،بینظیر اور لا شریک ہو کر سامنے آتے ہیں ۔
علی علیہ السلام کی ذات کو سمجھنے کے لئے درج ذیل مثالوں کو مدنظر رکھیں ۔علی علیہ السلام کی جانثاری اور فداکاری کیلئے شب ہجرت کے واقعات کا تصور کریں ۔
۱:- شب ہجرت
ابن ہشام لکھتے ہیں :- جب قریش نے دیکھا کہ اسلام روزبروز ترقی کر رہا ہے اور اسلام کے پیرو اب مکہ کے علاوہ دیگر شہروں بالخصوص یثرب میں بھی ہیں اور حضور کے کافی پیروکار ہجرت کرکے یثرب روانہ ہوچکے ہیں ۔اس کے ساتھ انہیں یہ یقین ہوگیا کہ رسول خدا (ص) بھی مکہ چھوڑ کر کسی وقت یثرب چلے جائیں گے ۔ اس مسئلہ کو حل کرنے کیلئے انہوں نے اپنے بزرگوں کو دارالندوہ میں دعوت دی ۔
کفار مکہ کے سربراہوں میں عتبہ ،شیبہ اور ابو سفیان بھی تھے ۔دوران بحث یہ مشورہ دیا گیا کہ حضور اکرم (ص)کو قید کیا جائے یا انہیں یہاں سے نکال دیا جائے ۔لیکن ان کے دونوں باتوں کو کثرت رائے سے مسترد کردیا گیا ۔چنانچہ رائے یہ قرار پائی کہ مکہ کے ہر قبیلہ کا ایک ایک فرد لیا جائے اور ایک مخصوص شب میں حضور (ص) کو قتل کردیا جائے ۔قتل میں زیادہ قبائل کی موجود گی کا یہ فائدہ ہوگا کہ عبد مناف کی اولاد بدلہ نہیں لے سکے گی ۔اور یوں ان کا خوف رائگاں ہوجائیگا ۔جب حضور نے متفرق قبائل کے افراد کو اپنے دروازے پہ دیکھا تو علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ ان کے بستر پر انہی کی چادر تان کر سوجائیں۔(سیرت ابن ہشام جلد دوم، ص ۹۵)
ابو طالب کے فرزند کے لئے قتل گاہ قریش گل تھی ۔جب رسولخدا(ص) نے فرمایا کہ میری جان کو خطرہ ہے تم میرے بستر پر سوجاؤ تو اس وقت علی (ع) نے بڑے جذباتی انداز میں پوچھا : یا رسول اللہ کیا میرے سونے سے آپ کی جان بچ جائیگی ؟ آپ نے فرمایا ہاں ! پھر حضور اکرم (ص) نے علی(ع) کو حکم دیا کہ وہ اہل مکہ کی تمام امانتیں ان تک پہنچائیں ۔
حضرت علی (ع) رسول خدا (ص) کی ہجرت کے بعد تین دن تک مکہ میں رہے اور کفار ومشرکین کی امانتیں واپس کیں ۔جب اس فریضہ سے فارغ ہوگئے تو پیادہ پا چلتے ہوئے مدینہ آئے اور پیدل چلنے کی وجہ سے انکے پاؤں متورم ہوچکے تھے۔ (تاریخ ابن خلدون جلد دوم ص ۱۸۷ و ابن اثیر الکامل فی التاریخ جلد دوم ص ۷۵)
۲:-موخات
ہجرت کے بعد رسول خدا (ص) نے مہاجرین وانصار کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا ۔
جب علی علیہ السلام نے موخات کا یہ منظر دیکھا تو آبدیدہ ہوگئے ۔رسول خدا (ص) نے ان سے رونے کاسبب دریافت کیا تو انہوں نے عرض کیا آپ نے اپنے اصحاب کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا ۔لیکن مجھے کسی کا بھائی نہیں بنایا ۔ تو رسول خدا(ص) نے فرمایا "انت اخی فی الدنیا و الآخرۃ ” تو دنیا اور آخرت میں میر ا بھائی ہے۔
(سیرت ابن ہشام جلد دوم ص ۹۵-۱۱۱)
۳:- جنگ احد اور علی (علیہ السلام)
جنگ احد میں جب اسلامی لشکر کو پسپائی ہوئی اور صحابہ کرام پہاڑوں پر چڑھ رہے تھے تو اس وقت حضرت علی (ع) پوری جانفشانی سے لڑتے رہے اور کوہ استقامت بن کر دشمنوں سے نبرد آزمائی کرتے رہے ۔ الغرض ابو طالب کا بیٹا پورے میدان پر چھا گیا اسی مقام پر ہاتف غیبی نے ندا دی تھی "لا سیف الّا ذولفقار ولا فتی الاّ علی ” اگر تلوار ہے تو ذولفقار ہے اور اگر جواں مرد ہے تو حیدر کرار ہے ۔
الغرض اسلام اور رسول اسلام کی حفاظت کے بعد جب واپس گھر آئے تو اپنی زوجہ حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کو اپنی تلوار پکڑاتے ہوئے یہ شعر کہے :-
افاطم هاک السیف غیر ذمیم فلست برعدیر ولا بملیم
لعمری لقد قاتلت فی حب احمدوطاعة رب بالعباد رحیم
فاطمہ ! یہ تلوار لو ،یہ تلوار تعریف کے قابل ہے ۔میدان جنگ میں میں ڈرنے اور کانپنے والا نہیں ہوں ۔
مجھے اپنی زندگی کی قسم میں نے محمد مصطفی کی محبت اور مہربان اللہ کی اطاعت میں جہاد کیا ہے۔
(تاریخ طبری جلد سوم ص ۱۵۴ ومروج الذہب مسعودی جلد دوم ص ۲۸۴)
۴:- علی(ع) اور تبلیغ سورہ براءت
محمد بن حسین روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ احمد بن مفضل نے بیان کیا وہ کہتے ہیں یہ روایت اسباط نے سدی سے کی ہے سعدی کہتے ہیں :-
جب سورہ براءۃ کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں تو رسول خدا نے حضرت ابو بکر کو امیر حج بنایا اور وہ آیات بھی ان کے حوالے فرمائیں اور ارشاد فرمایا کہ تم حج کے اجتماع میں یہ آیات پڑھ کرسناؤ ۔
ابو بکر آیات لے کر روانہ ہوئے ،جب وہ مقام ذی الحلیفہ کے درختوں کے قریب پہنچے تو پیچھے سے علی (ع) ناقہ رسول پر سوار ہو کر آئے اور آیات ابو بکر سے لے لیں ۔حضرت ابو بکر رسول خدا(ص) کی خدمت میں واپس آئے اور عرض کیا: یارسول اللہ ! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں کیا میرے متعلق کوئی آیت نازل ہوئی ؟ آپ نے فرمایا نہیں ۔میری طرف سے پیغام کو یا میں خود پہنچاسکتا ہوں یا علی (ع) پہنچاسکتے ہیں ۔( تاریخ طبری جلد سوم ص ۱۵۴)
۵:- علی (ع) تبلیغ اسلام کے لیے یمن جاتے ہیں
رسول خدا نے یمن میں تبلیغ اسلام کے لئے خالد بن ولید کوروانہ فرمایا لیکن اس کی دعوت پر کوئی بھی شخص مشرف بہ اسلام نہ ہوا ۔تو اس کے بعد حضور اکرم(ص) نے حضرت علی (ع) کو اسلام کو مبلغ بنا کر یمن روانہ کیا اور انہیں حکم دیا کہ وہ خالد اور اس کے ساتھیوں کو واپس بھیج دیں ۔
حضرت علی نے جاتے ہی خالد کو اس کے دوستوں سمیت واپس روانہ کردیا اور اہل یمن کے سامنے رسول خدا(ص) کا خط پڑھ کرسنایا ۔جس کے نتیجہ میں قبیلہ ہمدان ایک ہی دن میں مسلمان ہوگیا۔ (ابن اثیر الکامل فی التاریخ جلد دوم ص ۳۵)
۶:- ہارون محمدی
حضرت علی (ص) غزوہ تبوک کے علاوہ باقی تمام جنگوں میں شریک ہوئے اور غزوہ تبوک کے موقع پر بھی جناب رسولخدا(ص) نے انہیں مدینہ میں اپنا جانشین بنا کر ٹھہرایا ۔
امام مسلم بن حجاج نے اس واقعہ کو یوں نقل کیا ہے :
حدثنا یحیی التمیمی وابو جعفر محمد بن الصباح وعبد الله القواریری وسریح بن یونس عن سعید بن المسیب عن عامر بن سعد بن ابی وقاص عن ابیه قال قال رسول الله (ص) لعلی (ع) انت منی بمنزلة هارون من موسی غیر انه لانبی بعدی
وحدثنا ابوبکر بن شبیه عن سعد بن ابی وقاص قال خلف رسول الله (ص) علیا ،فی غزوه تبوک فقال یارسول الله (ص)تخلفنی فی النساء والصبیان ؟ قال اما ترضی ان تکون منی بمنزلة هارون من موسی غیر انه لانبی بعدی
سعد بن ابی وقاص بیان کرتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے علی (ع) سے فرمایا تم کو مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسی سے تھی ۔ فرق یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے ۔
سعد بن ابی وقاص بیان کرتے ہیں کہ رسول خدا نے غزوہ تبوک کے موقع پر علی (ع) کو مدینہ میں ٹھہرنے کا حکم دیا تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں ٹھہرکر جارہے ہیں ؟
رسول خدا(ص) نے فرمایا : کیا تم اس اس بات پر راضی نہیں کہ تم کہ مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسی سے تھی مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے ۔
۷:- فاتح خیبر
جب صحابہ کرام خیبر فتح کرنے میں ناکام ہوئے اور لشکر یہود کے سامنے کئی دفعہ پشت دکھائی رسول خدا(ص) نے اعلان فرمایا :-لاعطین هذه الرّایة رجلا یحب الله ورسوله ویحبه الله ورسوله یفتح الله علی یدیه ۔”
"کل میں اسے علم دونگا جو مرد ہوگا ۔اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوگا اور اللہ اور رسول بھی اس سے محبت کرتے ہوں گے ۔اللہ اس کے ہاتھ سے خیبر فتح کرائے گا "۔
حضرت عمر کہتے ہیں کہ میں نے پوری زندگی میں بس اس دن امارت کی تمنا کی تھی اور ساری رات نوافل میں گزاری کہ شاید صبح علم اسلامی مجھے مل جائے ۔
جب صبح ہوئی تو رسول خدا(ص) نے علی (ع) کو بلایا اور انہیں علم عطا فرمایا۔ (صحیح مسلم جلد دوم ص ۳۲۴)
ان سب حقائق کے علاوہ منصب خلافت بلافصل کے لئے علی (ع)کی اہلیت کے لیے درج ذیل امور بھی مد نظر رکھنے چاہییں:-
الف :- حضرت علی (ع) دین اسلام کے جوہر کو خوب سمجھنے والے تھے ۔وہ ایمان کے جملہ اطراف وآفاق کا احاطہ رکھتے تھے ۔علی اکثر رسول خدا (ص) کے ساتھ خلوت میں بیٹھ کر گفتگو کیا کرتے تھے اور لوگوں کو اس گفتگو کوئی علم نہیں ہوتا تھا ۔
آپ قرآن مجید کے معانی ومفاہیم کے لئے رسول خدا(ص) سے زیادہ سے زیادہ استفسار کرتے تھے ۔
اور اگر علی سوال میں ابتدا نہ کرتے تو رسول خدا خود ہی ابتدا کردیتے ،جب کہ علی کے علاوہ باقی لوگ چند قسموں میں تقسیم تھے ۔
۱:- کچھ ایسے تھے کہ حضور اکرم سے سوال کرتے ہوئے گھبراتے تھے اور ان کی تمنا ہوتی تھی کہ کوئی اعرابی یا مسافر آکر حضور سے کچھ پوچھے اور وہ سن لیں ۔
۲:- کچھ ایسے تھے کہ حضور اکرم سے سوال کرتے ہوئے گھبراتے تھے اور ان کی تمنا ہوتی تھی کہ کوئی اعرابی یا مسافر آکر حضور سے کچھ پوچھے اور وہ سن لیں ۔
۳:- کچھ لوگ عبادت یا دنیاوی کاروبار کی وجہ سے فہم وادراک کی نعمت سنے خالی تھے ۔
۴:- کچھ اسلام سے عداوت وبغض کو چھپائے تھے اور وہ دینی مسائل کے یاد رکھنے کو وقت کا ضیاع تصور کرتے تھے۔ (ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ جلد سوم ص ۱۷)
ب:- رسول خدا (ص) آپ کو جانشین بنانے کے لئے اور خود اعتمادی پیدا کرنے کی غرض سے آپ کو اہم مقامات پر روانہ کیا کرتے تھے ۔ جہاں سے آپ ہمیشہ مظفرمنصور ہوکر لوٹا کرتے تھے ۔
رسول خدا (ص) نے جب بھی کوئی مہم روانہ فرمائی تو اگر اس مہم میں علی (ع) شامل ہوتے تھے تو علی اس مہم کے امیر اور انچارج ہوا کرتے تھے ۔رسول خدا (ص) کی پوری زندگی میں علی (ع) کسی کی ماتحتی میں کبھی روانہ نہیں ہوئے اور اس کے برعکس حضرت ابو بکر وحضرت عمر کو متعدد مرتبہ لوگوں کی ماتحتی میں روانہ کیا گیا ۔
تاریخ کی ستم ظریفی دیکھیے کہ حضرت ابو بکر نے اپنے دور خلافت میں حضرت عمر کی ذہنی وعملی تربیت کی تھی ۔چنانچہ جس شخص کی انہوں نے خود تربیت کی تھی ۔اس کی خلافت کے لئے نامزدگی کا انہوں نے اعلان کردیا اور لوگوں نے بھی ان کی خلافت کو تسلیم کرلیا ۔ لیکن جس شخصیت کی تربیت معلم اعظم جناب رسول خدا نے کی انہیں لوگوں نے خلافت سے محروم کردیا ۔

کتاب ” المیہ جمعرات” سے اقتباس

مؤلف: محمد تیجانی سماوی

Monday, 10 April 2023 20:33

گھرانے کی محور

رھبر مسلمین جہان امام خامنہ ای مدظلہ العالی:

*عورت گھر کے اندر کی ذمہ داری کو اپنی پہلی اور اصلی ذمہ داری سمجھے ، بنی نوع انسانی کی بقاء اور اس کی پوشیدہ صلاحیتوں کا نکھار اسی پر منحصر ہے۔ سماج کی نفسیاتی صحت اسی سے وابستہ ہے ، بے چینی و بے قراری کے مقابلہ میں سکون واطمینان اسی سے وابستہ ہے۔ اسے ہمیں بھولنا نہیں چاہیے۔

یہ بات بریگیڈئیر جنرل سید عبدالرحیم موسوی نے پیر کے روز صہیونی فوج کے چیف آف سٹاف کے جواب میں کہی۔
صہیونی فوج کے چیف آف سٹاف نے کہا کہ اسرائیل ایران پر حملہ کرنے کے لیے تیار ہے اور امریکہ کی حمایت کے بغیر بھی ایسا کر سکتا ہے۔
جنرل موسوی نے کہا کہ ان ریمارکس کا مقصد اسرائیلی فوجیوں کے "حوصلے کو بڑھانا" ہے تاکہ حکومت اپنی اندرونی پریشانیوں کو دور کر سکے۔
انہوں نے کہا کہ جو بھی فریقین کے عسکری امور سے تھوڑی سی بھی واقفیت رکھتا ہے وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ ناجائز صیہونی ریاست ہمارے دفاع مقدس کے آٹھ سالوں کے دوران کارروائیوں کے تازہ ترین سائز اور پیمانے کے برابر ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ناجائز صیہونی حکومت جو اپنے مسائل میں ڈوبی ہوئی ہے، اسلامی جمہوریہ ایران کے لیے خطرہ تصور کرنے کے لیے بہت چھوٹی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس حکومت کے حکمرانوں کے غیر معقول اقدامات ان کے خاتمے کے عمل کو تیز کریں گے۔

ہران، ارنا – ایرانی صدر مملکت نے اپنے ترکمان ہم منصب کے ساتھ گفتگو میں مسجد الاقصی، فلسطین اور لبنان کے عوام کے خلاف صیہونی حکومت کے حالیہ جرائم کیے جانے والے جرائم کا ذکر کرتے ہوئے اسلامی ممالک کےمزید اتحاد کی ضرورت پر زور دیا۔

یہ بات آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی نے جمعہ کے روز اپنے ترکمان ہم منصب سردار بردی محمد اف کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو میں کہی۔

انہوں نے رمضان المبارک کے مقدس مہینے کی آمد پر مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ مسجد الاقصی، فلسطین اور لبنان کے عوام کے خلاف صیہونی حکومت کے حالیہ جرائم کا ذکر کرتے ہوئے اسلامی ممالک کے مزید اتحاد کی ضرورت پر زور دیا۔

رئیسی نے ایران اور ترکمانستان کے درمیان دوطرفہ تعلقات کی توسیع کو جاری رکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔

اس موقع پر ترکمانی صدر سردار بردی محمد اف نے رمضان المبارک کے مہینے کو مبارکباد پیش کرنے کےساتھ ساتھ مختلف سیاسی اور اقتصادی شعبوں میں تہران اور اشک آباد کے درمیان تعلقات پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ

ترکمانستان دونوں ممالک کے مفادات کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ تمام شعبوں میں تعلقات کو فروغ دینے کے لیے پرعزم ہے۔

خداوند متعال کی نظر میں سب سے بڑا گناہ ظلم و ستم ہے جو بعض انسانی معاشروں میں قبیح ترین عمل بھی جانا جاتا ہے۔ قرآن کریم اور احادیث معصومین علیہم السلام میں بھی بہت مقامات پر ظلم کی شدید مذمت کی گئی ہے اور اس کے خلاف جدوجہد اور قیام واجب قرار دیا گیا ہے۔ مسئلہ فلسطین بھی ظلم و ستم کا ایک واضح مصداق ہے جو مغربی استعماری قوتوں کی جانب سے غاصب صیہونی رژیم جیسی جعلی ریاست کی تشکیل سے شروع ہوا اور اب تک جاری ہے۔ اس ناجائز ریاست کو تشکیل پائے 70 برس کا عرصہ گزر چکا ہے جس میں فلسطین کے مقامی باشندوں کی تاریخ، تشخص اور آزادی پر مسلسل ڈاکہ ڈالا گیا ہے۔ لیکن خدا کا وعدہ ہے ظلم کبھی بھی ہمیشہ کیلئے باقی نہیں رہتا جبکہ انسانی تاریخ بھی اس حقیقت کی گواہ ہے۔

خداوند متعال نے تمام انسانوں کو آزاد، برابر اور برادر پیدا کیا ہے اور ان کی ایکدوسرے پر برتری کا واحد معیار تقوی ہے۔ تقوی کے علاوہ کوئی چیز کسی انسان کی دوسرے انسان پر برتری کا معیار قرار نہیں پا سکتی چاہے وہ دین ہو، مذہب ہو، نسل ہو یا ثقافت ہو۔ لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ خداوند متعال کی جانب سے بھیجے گئے انبیاء کا ایک اہم ترین مقصد ظلم و ستم کا مقابلہ کرنا تھا۔ اسی مقصد کو مدنظر قرار دیتے ہوئے امام خمینی رح نے ماہ مبارک رمضان کے آخری جمعہ کو “روز قدس” قرار دیا اور اس دن پوری امت مسلمہ پر مظلوم فلسطینی قوم کے حق میں آواز اٹھانے کی تاکید کی۔ امام خمینی رح کے اس اقدام کا مقصد امت مسلمہ میں اتحاد اور ہم آہنگی کو فروغ دینا تھا۔ گذشتہ چالیس برس سے اسلامی دنیا میں ہر سال روز قدس بھرپور مذہبی جوش اور جذبے سے منایا جاتا ہے۔

روز قدس وہ دن ہے جب باطل کے مقابلے میں حق کا محاذ استقامت اور پائیداری کا مظاہرہ کرتا ہے اور یوں اسلام دوبارہ زندہ ہو جاتا ہے۔ یہ دن، دنیا بھر میں حریت پسند افراد کی وحدت کا مرکز اور جہاد فی سبیل اللہ کا واضح مصداق ہے۔ اس دن دنیا بھر میں عدل و انصاف کے حامی انسان مظلوم فلسطینی قوم کا دفاع کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں۔ اسی طرح یوم القدس کے دن دنیا بھر میں غاصب صیہونی رژیم کے ظالمانہ اقدامات کی مذمت کی جاتی ہے اور اس سے بیزاری کا اظہار کیا جاتا ہے۔ آج روز قدس کے انعقاد کو چالیس برس کا عرصہ بیت چکا ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ اس کی برکت سے پوری دنیا میں مسئلہ فلسطین اجاگر ہوا ہے اور نہ صرف اسلامی ممالک بلکہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی مظلوم فلسطینی قوم کے حق میں آواز اٹھی ہے۔

ابتدا میں مظلوم فلسطینیوں کے پاس اپنے جائز حقوق کا دفاع کرنے کیلئے کوئی وسائل نہیں تھے۔ دھیرے دھیرے اسے عالمی سطح پر حمایت حاصل ہونا شروع ہوئی اور اقوام متحدہ میں بھاری اکثریت سے فلسطین کی خودمختار ریاست کو تسلیم کر لیا گیا۔ فلسطینی جوان شروع میں غاصب صیہونی رژیم کے ظلم کا مقابلہ کرنے کیلئے پتھروں کا سہارا لیتے تھے جبکہ آج وہ جدید ترین فوجی ہتھیاروں سے لیس ہو چکے ہیں۔ اسی طرح خطے کے دیگر ممالک میں بھی اس سرطانی غدے سے مقابلہ کرنے کی جرات پیدا ہوئی۔ جیسا کہ گیس اور تیل کے قدرتی ذخائر پر مبنی اپنے حقوق کا دفاع کرنے کیلئے لبنان نے اسرائیل سے ٹکر لی یا فٹبال ورلڈ کپ کے دوران قطر نے ملک میں صیہونیوں اور صیہونی میڈیا کے داخلے پر پابندی عائد کر دی۔ متحدہ عرب امارات کی جانب سے اسرائیلی وزیراعظم کا دورہ منسوخ کئے جانا بھی ایک مثال ہے۔

ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد امام خمینی رح اور ان کے بعد امام خامنہ ای مدظلہ العالی نے ہمیشہ سے مسئلہ فلسطین کو اپنی پہلی ترجیح قرار دیا ہے۔ یہ کام صرف نعرے کی حد تک نہیں رہا بلکہ عملی میدان میں بھی ایران نے فلسطینی مجاہدین کی ہر لحاظ سے بھرپور مدد کی۔ یہی وجہ ہے کہ غاصب صیہونی رژیم نے اسرائیل کو دنیا میں اپنا سب سے بڑا دشمن قرار دے رکھا ہے اور آئے دن ایران کے خلاف نت نئی سازشیں کرتا رہتا ہے۔ دوسری طرف خطے کے بعض حکمران بھی بظاہر فلسطین کی حمایت کا دعوی کرتے ہیں لیکن جب ان کے مفادات خطرے میں پڑتے ہیں تو فوراً پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ چند سال پہلے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اس بات پر زور دیا تھا کہ فلسطین کی آزادی کیلئے مغربی کنارے میں بھی غزہ کی طرح مسلح جدوجہد کا آغاز ضروری ہے۔

گذشتہ کچھ ماہ سے مغربی کنارے میں بھی مسلح مزاحمت میں تیزی آئی ہے اور کئی اسلامی مزاحمتی گروہ تشکیل پائے ہیں۔ اس وقت موجودہ صیہونی حکومت کئی بحرانوں سے روبرو ہے۔ خطے کے بعض ممالک سے اس کے تعلقات کشیدہ ہیں جبکہ اندرونی سطح پر بھی وہ شدید بحران کا شکار ہے۔ لہذا مقبوضہ فلسطین میں اسلامی مزاحمتی گروہوں کی تشکیل اور پھیلاو کیلئے یہ مناسب ترین موقع ہے۔ اگر غزہ کے ساتھ ساتھ مغربی کنارے اور مقبوضہ بیت المقدس میں بھی مسلح جدوجہد کی شدت میں تیزی آتی ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ فلسطین کی آزادی یقینی ہو جائے گی۔ اگرچہ ولی امر مسلمین امام خامنہ ای مدظلہ العالی نے چند سال پہلے یہ پیشن گوئی کی تھی کہ اسرائیل آئندہ 25 سال میں نابود ہو جائے گا لیکن مقبوضہ فلسطین میں بڑھتی ہوئی مزاحمتی کاروائیوں کے تناظر میں یوں دکھائی دیتا ہے کہ یہ پیشن گوئی بہت جلد حقیقت کا روپ دھار لے گی۔ انشاءاللہ

تحریر: ڈاکٹر محمد مہدی جہان پرور

صلح امام حسنؑ اور حقائق:
شیعہ اور اہل سنت منابع کے مطابق امیر المؤمنین حضرت علیؑ کی شہادت کے بعد سنہ 40 ھ کو مسلمانوں نے حسن بن علیؑ کی بعنوان خلیفہ بیعت کی۔ بلاذری (متوفی 279ھ) کے مطابق عبید اللہ بن عباس پیکر امام علیؑ کو دفن کرنے بعد لوگوں کے درمیان آئے اور آپ کی شہادت سے لوگوں کو باخبر کرتے ہوئے کہا: "آپ ایک شایستہ اور بردبار جانشین ہماری درمیان چھوڑ کر گئے ہیں۔ اگر چاہیں تو ان کی بیعت کریں۔" کتاب الارشاد میں آیا ہے کہ 21 رمضان جمعہ کے دن صبح کو حسن بن علیؑ نے مسجد میں ایک خطبہ دیا، جس میں اپنے والد کی شایستگی اور فضائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ اپنی قرابتداری، اپنے ذاتی کمالات نیز اہل بیت کے مقام و منزلت کو قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں بیان فرمایا۔ آپ کی تقریر کے بعد عبداللہ بن عباس اٹھ کھڑے ہوئے اور لوگوں سے یوں مخاطب ہوئے: "اپنے نبی کے بیٹے اور اپنے امام کی جانشین کی بیعت کریں۔" اس کے بعد لوگوں نے آپ کی بعنوان خلیفہ بیعت کی۔ منابع میں آپ کی بیعت کرنے والوں کی تعداد 40 ہزار سے بھی زیادہ بتائی گئی ہے۔ بعض منابع کے مطابق قیس بن سعد بن عبادہ جو لشکر امام علیؑ کے سپہ سالار تھے،انہوں نے سب سے پہلے امام حسنؑ کی بیعت کی۔

حسین محمد جعفری اپنی کتاب تشیع در مسیر تاریخ میں کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرمؐ کے بہت سارے اصحاب جو اس وقت کوفہ میں مقیم تھے، انہوں نے امام حسنؑ کی بیعت کی اور انہیں بطور خلیفہ قبول کیا۔ جعفری بعض قرائن و شواہد کی بنا پر کہتے ہیں کہ مکہ و مدینہ کے مسلمان بھی حسن بن علیؑ کی بیعت میں عراق والوں کے ساتھ موافق تھے اور صرف آپ کو اس مقام کیلئے سزاوار جانتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ یمن اور فارس کے لوگوں نے بھی اس بیعت کی تائید کی تھی یا کم از کم اس کے مخالف نہیں تھے۔ یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ صلح صرف امام حسن  ؑسے ہی منسوب نہیں بلکہ خود آنحضرت ؐ نے بھی بعثت کے اوّل سالوں سے آخر تک صلح کی ہیں، جب تک آپؐ مکہ میں رہے اور ظاہراً مدینہ میں داخلے کے دوسرے سال تک آپ کی روش مشرکین کے مقابل مصالحت کی ہے، مشرکین کی طرف سے جتنی بھی تکلیفیں پہنچیں، یہاں تک کہ بعض مسلمان مشرکین کی قید میں مر بھی جاتے اور مسلمان جہاد و جنگ کی اجازت چاہتے تھے، اسکے باوجود آپؐ نے انہیں جنگ کی اجازت نہیں دی بلکہ ہجرت کی اجازت دی۔

اس کے بعد پھر ہم رسول خدا ؐ کو دیکھتے ہیں کہ مدینہ کی ہجرت کے بعد ایک موقع پر مشرکین اور یہود و نصاریٰ سے جنگ کرتے ہیں اور دوسرے موقع پر مشرکین مکہ سے جو کہ رسول خدا کے سب سے سخت ترین دشمن تھے، صلح حدیبیہ کی قرارداد پر دستخط کرتے ہیں اور اس کے بعد بھی مدینہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ آپ مدینہ کے یہودیوں سے قرارداد عدم تعرض پر دستخط کرتے ہیں۔ جب ہم امام حسن ؑ کے حالات کا امام حسین ؑ کے حالات سے موازنہ کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ یہ کسی بھی لحاظ سے قابل مقایسہ (موازنہ) نہیں اور آخری وجہ جو قیام امام حسین ؑ کا سبب بنی، وہ ظالم حکومت کے خلاف امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی شرط تھی جبکہ امام حسن ؑ کے لئے ابھی یہ مسئلہ پیدا نہیں ہوا تھا، امام حسن ؑ کے لئے زیادہ سے زیادہ یہ مسئلہ ہے کہ اگر یہ لوگ آگئے تو اس کے بعد ایسا کریں گے، ویسا کریںگے جبکہ یہ بات اس سے جدا ہے کہ کسی نے ایسا کام کیا ہے اور اب ہم اس کے جواب میں قیام کے لئے سند و صحت رکھتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ جو یہ کہتے ہیں کہ صلح امام حسن ؑ نے امام حسین ؑ کے قیام کے لئے بنیاد فراہم کی، ضروری تھا کہ امام حسن ؑ کچھ عرصہ کنارہ کشی اختیار کریں، تاکہ بنی امیہ کی اصلیت جو کہ لوگوں سے چھپی ہوئی اور مخفی تھی، آشکار ہو جائے اور بعد میں وہ قیام جس کی ضرورت ہے، انجام پاسکے اور از نظر تاریخ قیام موجھہ ہو، (یعنی قیام وجہ رکھتا ہو) اس قرارداد (صلح) کے بعد جب لوگوں نے دیکھا کہ معاویہ اس قرارداد پر کاربند نہیں تو شیعوں میں سے کچھ لوگ امام حسن ؑ کے پاس آئے اور آپ سے قیام کے بارے میں عرض کیا، آپ نے فرمایا ’’نہیں قیام معاویہ کے بعد کے لئے ہے‘‘ یعنی کم و بیش انہیں اتنی مہلت دی جائے، تاکہ وہ اس کی اصلیت و حقیقت کو خوب اچھی طرح لوگوں کو پہچنوا دیں، وہ وقت وقت قیام ہے۔ اس جملہ کے معنی یہ ہیں کہ اگر امام حسنؑ معاویہ کے بعد تک زندہ ہوتے اور اس صورتحال سے دوچار ہوتے کہ جس سے امام حسین ؑ دوچار ہوئے تو یقیناً قیام کرتے۔

متن قرارداد صلح امام حسن ؑ:
اب ہم صلح کی قرار دادوں میں سے کچھ کا جائزہ لیتے ہیں، تاکہ معلوم ہو کہ وضع قرارداد کیا تھی۔ (یعنی قرارداد میں کون سی شرایط تھیں)
1۔ حکومت معاویہ کو دی جاتی ہے، اس شرط پر کہ کتاب خدا، سنت پیغمبر اور سیرۃ خلفاء پر عمل کرے گا (یہاں پر اس امر کا بیان ضروری ہے) کہ امیر المومنین کی ایک منطق تھی اور وہ کہتے تھے کہ میں اس لئے کہ میں خلیفہ بنوں، باوجود اس کے کہ خلافت میرا حق ہے، قیام نہیں کروں گا۔ یہ لوگوں کا فرض ہے، میں اس وقت قیام کروں گا، جب جس نے خلافت پر قبضہ کیا ہے، وہ کاموں کو خلاف شرع انجام دے، جیسا کہ نہج البلاغہ کے خطبہ 72میں فرماتے ہیں: "جب تک ظلم صرف مجھ پر ہے اور میرا حق مجھ سے چھینا ہے اور اس کے علاوہ سارے کاموں میں درست ہے، میں خاموش رہوں گا۔ میں اس وقت قیام کروں گا کہ جب مسلمانوں کے امور کا نظم و نسق برقرار نہ رہے۔" اور امام حسن ؑ بھی دراصل اس طرح کی قرارداد کرتے ہیں کہ جب تک ظلم مجھ پر ہے اور صرف مجھے میرے حق سے محروم کیا گیا ہے، لیکن دوسری طرف وہ غاصب امور مسلمین کو صحیح طرح سے چلا رہا ہے تو میں اس شرط پر حکومت سے الگ ہونے پر تیار ہوں۔

2۔ قراردادوں میں ایک قرارداد یہ تھی کہ معاویہ کے بعد حکومت امام حسن ؑ کا حق ہے اور اگر ان کو کوئی حادثہ پیش آجائے تو امام حسین ؑ کا حق ہے۔ اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ صلح ایک مدت تک تھی، نہ کہ امام حسن ؑ نے کہہ دیا کہ اب اس کے بعد حکومت سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ یہ صلح صرف معاویہ کے دور تک تھی اور معاویہ یہ حق نہیں رکھتا تھا کہ اپنے بعد کے زمانے کے لئے کسی کو اپنا جانشین مقرر کرے۔
3۔ ایک قرارداد  امیرالمومنین علی ابن ابی طالب پر کئے جانے والے تبرا کے رکوانے کی تھی، جو کہ معاویہ نے شام میں شروع کر رکھا تھا۔ اس صلح نامہ میں ایک قرارداد یہ تھی کہ معاویہ نمازوں میں امیر المومنین ؑ علی پر کی جانے والی لعنت کو بند کرے اور علی ؑ کو نیکی کے علاوہ یاد نہ کرے اور معاویہ نے اس شرط کو بھی مان لیا تھا (لیکن افسوس اس پر بھی اس نے عمل نہ کیا اور اس کے بعد بھی نوے سال تک یہ عمل قبیح جاری رہا)

4۔ بیت المال کوفہ کہ جس کی آمدنی پانچ ملین درہم ہے، مستثنیٰ ہوگا اور حکومت کو نہیں دیا جائے گا اور معاویہ ہر سال دو ملین درہم امام حسن ؑ کے لئے بھیجے گا، تاکہ شیعہ حکومت معاویہ کے محتاج نہ ہوں اور بخشش و ہدیوں میں بنی ہاشم کو بنی امیہ پر امتیاز دے اور ایک ملین درہم (دس لاکھ درہم) امیر المومنین ؑ کے ساتھیوں جو کہ جنگ جمل و صفین میں شہید ہوگئے ہیں، ان کے خاندانوں میں تقسیم کرے۔
5۔ خدا کی زمین پر ہر جگہ چاہے شام ہو یا عراق، یمن ہو یا حجاز لوگ امن و امان سے رہیں اور سیاہ پوست اور سرخ پوست سب امن و امان سے رہیں اور معاویہ ان کی غلطیوں سے چشم پوشی کرے، مخصوص وہ کینہ ہے، جو معاویہ ان سے جنگ صفین میں معاویہ کے خلاف لڑنے کی وجہ سے رکھتا تھا اور نہ عراق کے لوگوں سے اور نہ علی ؑ کے اصحاب سے، چاہے وہ جہاں کہیں بھی ہوں، پچھلے زمانے کی غلطیوں کا مواخذہ کرے گا اور جو کچھ اصحاب علی ؑ کے پاس ہے، وہ ان سے نہ لے گا اور اہل بیت رسول ؐ اور حسن ؐ و حسین ؐ کی جانوں کے خلاف کوئی سازش نہ کرے گا۔

یہ تھیں قراردادِ صلح کی شرایط کہ جن شرایط پر امام حسن ؑ نے معاویہ سے صلح کی اور معاویہ نے ان تمام شرایط کو بہت زیادہ قسموں کے ساتھ قبول کیا تھا کہ میں خدا اور پیغمبر کو ضامن بنا کر کہتا ہوں کہ ان پر عمل کروں گا اور اگر عمل نہ کروں تو یہ ہو۔۔ وہ ہو۔۔ پس ان تمام حالات و واقعات اور شرایط سے ظاہر (واضح) ہوتا ہے کہ امام حسن ؑ جن حالات میں زندگی گزار رہے تھے، ان حالات کا تقاضا یہی تھا کہ صلح کی جائے اور یہ کہ صلح امام حسن ؑ کا قیام امام حسین  ؑ سے مقایسہ کرنا درست نہیں، کیونکہ دونوں کے زمانے کے حالات بہت مختلف تھے اور دونوں کا اپنے اپنے وقت کے حساب سے فیصلہ بالکل درست اور حالات کے تقاضوں کے عین مطابق تھا بلکہ اگر امام حسن ؑ کے بجائے امام حسین ؑ معاویہ کے دور میں ہوتے تو وہ بھی صلح نامہ پر دستخط کرتے اور اسی طرح اگر امام حسین ؑ کی جگہ امام حسن ؑ ہوتے تو وہ یزید کیخلاف ضرور قیام کرتے۔

منابع میں آیا ہے کہ امام حسنؑ کی طرف سے صلح قبول کرنے پر آپ کے بعض پیروکاروں نے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا۔ یہاں تک کہ بعض لوگوں نے اس کام پر آپ کی سرزنش بھی کی اور بعض آپ کو "مذلّ المؤمنین" (مؤمنین کو ذلیل و خوار کرنے والا) کہہ کر پکارنے لگے۔ امامؑ نے اس حوالے سے ہونے والے اعتراضات اور سوالات کا جواب دیتے ہوئے "امام" کی اطاعت کے ضروری ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے صلح کے علل و اسباب کو بعینہ صلح حدیبیہ کے علل و اسباب بیان کرتے ہوئے اس کام کو حضرت خضر اور حضرت موسیٰ کی داستان میں حضرت خضر کے کاموں کی طرح قرار دیا، جہاں حضرت موسیٰ ان کاموں کے فلسفے سے آگاہ نہ ہونے کی وجہ سے ان کاموں پر اعتراض کرتے ہیں۔ متعدد تاریخی منابع میں آیا ہے کہ معاویہ نے اس صلح کے مندرجات پر عمل نہیں کیا اور حجر بن عدی سمیت بہت سارے شیعوں کو قتل کر ڈالا۔

تاریخ میں آیا ہے کہ معاویہ صلح کے بعد کوفہ چلا گیا اور لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا: "میری طرف سے رکھے گئے تمام شرائط کو واپس لیتا ہوں اور جو وعدہ دیا تھا، ان سب کی خلاف ورزی کرونگا۔" اسی طرح اس نے مزید کہا: "میں نے تم لوگوں سے نماز، روزہ اور حج کی انجام دہی کی خاطر جنگ نہیں کی، بلکہ تم لوگوں پر حکومت کرنے کیلئے میں نے جنگ کی ہے۔" آئمہ طاہرین کی حیات مبارکہ کو پڑھ کر ہم یہ جان سکتے ہیں کہ ہمارے آئمہ نے مظلوموں کو مقتدر قوتوں سے ان کا حق دلوانے کیلئے عظیم جدوجہد کی اور اس راہ میں قربانیوں سے دریغ نہیں کیا، مشکلات جھیلیں اور مسائل کا شکار رہے اور وقت کے حاکموں سے ٹکرانے سے گریز نہیں کیا۔ یقیناً ان کا اسوہ و سیرت ہمارے لیئے نمونہ عمل ہے۔

تحریر: ارشاد حسین ناصر

اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے آج، غاصب صہیونیوں کی جانب سے مسجد الاقصیٰ میں نہتے فلسطینی نمازیوں پر حملے میں شدت کے پیش نظر، اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھا ہے کہ صہیونی، عالم اسلام میں اتحاد و وحدت کی لہر اور اندرونی تباہی کے واضح امکانات سے سخت پریشان ہیں۔

انہوں نے مزید کہا ہے کہ مسجد الاقصیٰ میں نمازیوں کی جعلی اور غاصب اسرائیلی حکومت کی فورسز کی بے حرمتی اور رات گئے کے مجرمانہ حملوں سے دردناک مناظر پیدا ہوئے جو کہ یقیناً صہیونی دہشت گردوں کے غیر انسانی جرائم پر خاموش تماشائی بنے ہوئے انسانی حقوق کے دعویداروں کی خاموشی کا نتیجہ ہیں۔

واضح رہے کہ صہیونی افواج نے گزشتہ دنوں متعدد بار مسجد الاقصی کی بے حرمتی کرتے ہوئے فلسطینی نمازیوں پر حملہ کرکے بے شمار نہتے فلسطینی نمازیوں کو زخمی کیا ہے ان حملوں میں کئی فلسطینیوں کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ آج علی الصبح صہیونی حکومت کے جنگجو طیاروں نے غزہ کی پٹی پر فلسطینی مزاحمتی و مقاومتی ٹھکانوں پر بمباری بھی کی ہے۔