سلیمانی

سلیمانی

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، صدر آیت اللہ رئیسی نے تحریک جہاد اسلامی فلسطین کے سربراہ زیاد النخالہ سے ملاقات کے دوران کہا کہ کائنات کا نظام حق پر مبنی ہے جس میں باطل کو قبول کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ایک زمانے میں سب کی نظریں مذاکرات پر مرکوز تھیں لیکن آج مذاکرات کے حامی بھی مقاومت کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ کامیابی مقاومت کو ملے گی یہی اللہ کا وعدہ ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ صبر اور استقامت کی وجہ سے فلسطینیوں کو غاصب صہیونی حکومت پر فتح نصیب ہوگی اور فلسطینی عوام سرخرو ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ صہیونی حکومت فلسطیقنی جوانوں کے اندر مایوسی پھیلانا چاہتی ہے۔ اسلامی ممالک کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کا مقصد فلسطینی علاقوں کی واپسی کو ناکام بنانا ہے لیکن صہیونی حکومت کو ان کوششوں میں ناکامی ہوگی کیونکہ اسلامی ممالک کے عوام صہیونی حکومت کے ساتھ تعلقات کے خلاف ہیں۔

صدر رئیسی نے مزید کہا کہ فلسطینی عوام پہلے سے عزم اور حوصلے کے ساتھ صہیونی حکومت کے سامنے کھڑے ہیں۔ آج دنیا کی نظریں فسلطینی عوام پر مرکوز ہیں۔ شہید قاسم سلیمانی سمیت مقاومت کے شہداء کا خون رنگ لائے گا اور کامیابی فلسطینی عوام کے قدم چومے گی۔

اس موقع پر تحریک جہاد اسلامی فلسطین کے سربراہ زیاد النخالہ نے فلسطین کی حمایت کرنے پر ایران کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ایران آج خطے اور عالمی سطح پر فیصلہ کن کردار ادا کررہا ہے۔ صدر رئیسی کے دورہ لاطینی امریکہ نے امریکی غیر منصفانہ پابندیوں کو بے اثر کردیا ہے۔ ہمیں ان کامیابیوں پر فخر ہے۔

انہوں نے حال ہی میں اسرائیل کے ساتھ ہونے والی پانچ روزہ جنگ کے بارے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ اس جنگ سے صہیونی حکومت کی کمزوریاں کھل سامنے آئی ہیں۔ یہ جنگ فسلطینی عوام کی صہیونیوں پر بڑی فتح تھی۔
 

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، بانی و سرپرست اعلیٰ مجمع علماءوخطباء حیدرآباد دکن حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا علی حیدر فرشتہ نے ایام حج کی مناسبت سے ایک پیغام جاری کیا ہے جس کا متن حسب ذیل ہے:

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
حج اصل میں اہل اسلام کے لئے عالمی اسلامی اسمبلی ہے۔ہر مسلمان پر فرض ہے کہ بشرط ِصحت و استطاعت زندگی میں ایک بار حج ِ بیت اللہ کے لئے ضرور سفر کرے۔اگر خدانخواستہ وجوب حج کے لئے شرائط ِ حج کی موجودگی کے باوجود کوئی مسلمان عمداً حج نہ کرے تو حدیثوں میں اس کی موت کو مسلمان کی موت نہیں بلکہ یہودی یا نصرانی کی موت بتایا گیا ہے۔قابل توجہ یہ امر ہے کہ جب کعبہ کی زیارت کی اتنی اہمیت ہے تو مولود کعبہ حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کی کتنی اہمیت ہوگی۔

حج میں سب سے پہلے حاجی کو جس چیز کا تجربہ ہوتا ہے وہ صعوبات سفر سے آشنائی ہے۔اہل و عیال، گاؤں گھر شہر ،دوست احباب،مال و منال سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر صرف اللہ کی محبت میں سفر کرنا نہایت صبر آزما مرحلہ ہو تا ہے۔اس کا مطلب ہے کہ سفر ِحج سفرِ آخرت کے لئے بہترین تربیت اور ٹریننگ ہے۔ حج راہ خدا میں بے مثل و بے نظیر عاشقانہ سفر ہے اورایک مرکز و محور پر دنیا بھر سے آئے ہوئے مسلمانوں کا روح پرور اجتماع ہےجس سے میدان ِمحشر پر عقیدہ مزید پختہ ہوتا ہے۔حج کے بے شمار فیوض و فوائد دنیوی بھی ہیں اور اخروی بھی ۔حج کا مکمل فلسفہ ہے جو انسانی فکر و شعور کو روشن و منور کرتا ہے۔دنیا میں کوئی شخص بلاوجہ بغیر کسی مقصد کے کہیں کا سفر نہیں کرتا ،عازمین ِحج کے سفر کا مقصد اتنا بلنداور قیمتی ہے کہ حاجی عشق الٰہی میں دنیاوی ہر چیز سے دست بردار ہوکر کفن بردار بن جاتے ہیں۔

ان مختصر الفاظ کے ساتھ ہم مجمع علماء وخطباء حیدرآباد کی جانب سے تمام حجاج کرام کو مبارکباد پیش کرتے ہیں ۔اور تمام مسلمانان عالم کی خدمت میں ’’پیغام حج ‘‘کے عنوان سے ذیل میں عرض ہے کہ مرحوم علامہ مجلسی ؒکی کتاب بحار الانوار میں آیا ہے حج کا فلسفہ یہ ہے کہ لوگ خداکا خا ص مہمان بن جائیں اور خدا سے رزق اورروزی میں کشادگی،علم میں ترقی اور اپنے گناہوں کی بخشش کے لئے دعا کریں ۔

عظمت اسلام کی سب سے بڑی علامت اور اسلام کے اہم تعلیمات زندگی میں سے ایک ،حج اور اس کے اعمال ہیں ۔اکثر لوگ ہر سال حج کی سعادت حاصل کرتے ہیں لیکن حج کے اعمال اور اسکے اسرار کے بارے میں بہت کم معلومات رکھتے ہیں اور اسکےاصل ہدف کی طرف توجہ نہیں دیتے ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ سے چاہتے ہیں کہ ہمارے تمام اعمال شرع مقدس اسلام کے احکام کے مطابق ہو ں اور فقہ اصغر (احکام ) کے ذریعے فقہ اکبر (حج) تک پہنچ جائے‘‘۔

فقط والسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

ایکنا- جیو نیوز کے مطابق سعودی وزیر اسلامی امور ڈاکٹر عبدالطیف آل الشیخ کا کہنا ہے کہ یہ اقدام لاکھوں عازمین کی سہولت کے لیے کیا گیا ہے، اس اقدام سے عازمین کو حرم تک آمد و رفت کی پریشانی نہیں ہوگی۔

 

وزیر اسلامی امور نے کہا کہ حج سیزن کے دوران جب لاکھوں کی تعداد میں عازمین حج مکہ مکرمہ میں موجود ہیں تو ایسے میں شہر میں قائم تمام چھوٹی اوربڑی مساجد میں جمعہ 16 جون سے حج سیزن کے اختتام تک جمعے کی نماز پڑھائی جائے۔

 

عرب میڈیا کے مطابق مکہ میں ایسی مساجد کی تعداد 554 ہے جہاں نماز جمعہ نہیں پڑھائی جاتی لیکن اب وہاں بھی نماز پڑھائی جائے گی۔

 

خیال رہے کہ مکہ مکرمہ میں مسجد الحرام کے نزدیک اور چھوٹی مساجد میں عام طورپرجمعہ کی نماز نہیں پڑھائی جاتی کیونکہ نماز جمعہ مسجد الحرام میں ادا کی جاتی ہے۔

تہران، ارنا - ایرانی صدر مملکت نے کہا ہے کہ جعلی صیہونی حکومت سمیت مسلمانوں کے دشمن اسلامی جمہوریہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان دوطرفہ اور علاقائی تعاون سے ناخوش ہے۔

یہ بات علامہ سید ابراہیم رئیسی نے ہفتہ کے روز تہران کے دورے پر آئے ہوئے سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان کے ساتھ ایک ملاقات کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کہی۔

انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران تمام مسلم ممالک کے ساتھ تعلقات کو بڑھانے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔

صدر رئیسی نے کہا کہ مختلف اسلامی ممالک نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بحالی کا خیر مقدم کیا ہے جو کہ عالم اسلام کی دو اہم ریاستیں ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ جعلی صیہونی حکومت سمیت صرف مسلمانوں کے دشمن ہی تہران اور ریاض کے درمیان دوطرفہ اور علاقائی تعاون کی توسیع سے ناخوش ہیں۔

ایرانی صدر نے یہ بھی کہا کہ ناجائز صیہونی حکومت نہ صرف فلسطینیوں بلکہ تمام مسلمانوں کے لیے خطرہ ہے، جعلی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے سے سلامتی کے تحفظ میں مدد نہیں ملے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ علاقائی ممالک کو ان مسائل کو مذاکرات اور تعاون کے ذریعے حل کرنا چاہیے اور غیر ملکیوں کی مداخلت کی ضرورت نہیں ہے۔

اعلیٰ سعودی سفارت کار نے اپنی طرف سے اپنے ملک اور ایران کے درمیان تعلقات کی بحالی پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دونوں فریق اب سنہری مرحلے پر ہیں۔

فیصل بن فرحان نے سعودی فرمانروا کی جانب سے ایران کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے کے لیے مختلف ورکنگ گروپس کی تشکیل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب ایران کے ساتھ تعلقات کو اسٹریٹجک سطح تک بڑھانے کے لیے کوششیں کر رہا ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ دنیا کے کچھ ممالک نہیں چاہتے کہ مغربی ایشیا امن اور ترقی کا مشاہدہ کرے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر تمام اسلامی ممالک کے درمیان یکساں تعامل ہو جو ایران اور سعودی عرب کو حاصل ہے تو بڑی کامیابیاں حاصل ہوں گی جو ہمارے خطے میں کسی بھی بیرونی مداخلت کو روکنے کی ضمانت کے طور پر کام کرے گی۔

سحر نیوز/ دنیا: اسرائیل کے سیکورٹی ذرائع نے اعلان کیا ہے کہ اسرائیلی فوج نے گزشتہ برسوں کی بہ نسبت، حالیہ برس میں ویسٹ بینک کے شمالی علاقوں پر وسیع حملے کئے ہیں اور اس نے اس علاقے پر اپنی توجہ مرکوز کر رکھی ہیں۔

ویسٹ بینک میں اسرائیلی فوج کے اقدامات اور حملوں کی وجہ سے مستقبل قریب میں اسرائیلی فوج اس علاقے پر بڑا حملہ کر سکتی ہے۔

اسرائیل نے اپنے سیکورٹی اور فوجی ادارے کی مدد سے اسرائیلی فوجیاور صیہونی کالونیوں کے آبادکاروں کے مقابلے میں فلسطینی عوام کے مزاحمتی کارروائیوں کی سرکوبی کی کوشش کی اور اس کا مقصد ہے کہ وہ ویسٹ بینک کے شہروں میں فلسطینی مزاحمتی تنظیموں کو ٹارگٹ کرے۔

اسرائیلی ویب سائٹ  اسرائیل-24 نے بتایا کہ 2023 کی شروعات سے ویسٹ بینک اور غور الاردن میں فائرنگ کے واقعے میں 7 اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکت اور اسرائیلی فوجیوں اور اسرائیلی بستیوں کے آبادکاروں کی گاڑیوںپر فائرنگ کے چار واقعے انجام پائے۔

سعودی عرب کے وزیر خارجہ آج ہفتے کے روز تہران میں ایرانی حکام کے مہمان ہیں۔ سعودی عرب کے وزیر خارجہ فیصل بن فرحان کا یہ پہلا دورہ ایران ہے، جو اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان کی دعوت کے جواب میں انجام پا رہا ہے۔ گذشتہ چند مہینوں کے دوران ایران اور سعودی عرب قریبی سیاسی اور سکیورٹی تعلقات کی طرف بڑھے ہیں اور کئی بالمشافہ ملاقاتوں کے بعد دوطرفہ سیاسی اور سفارتی تعلقات کی بحالی پر ایک معاہدے پر پہنچ چکے ہیں۔ "رائے الیوم" اخبار نے لبنان کے بعض سیاسی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ "فیصل بن فرحان شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی جانب سے صدر ابراہیم رئیسی کے لیے خصوصی پیغام لائے ہیں، جس میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی ترقی و فروغ پر تاکید ہے۔" اس ذریعے نے مزید کہا ہے کہ بن فرحان اس سفر کے دوران ایران کے صدر اور کئی دیگر حکام سے ملاقاتیں اور بات چیت کریں گے، تاکہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کا جائزہ لیا جاسکے۔ سعودی وزیر خارجہ کا دورہ ایران ریاض اور تہران کے درمیان 7 سال کے وقفے اور اختلاف کے بعد تعلقات کی بحالی کی طرف ایک اور قدم ہے۔

خلیج فارس کی نئی تشکیل
ایران اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کا سیاسی معاہدہ ان بڑی تبدیلیوں کا حصہ ہے، جو ہم ان دنوں خلیج فارس میں دیکھ رہے ہیں۔ خلیج فارس کے تمام ممالک چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو گہرا کر رہے ہیں اور چین اب خطے کے ممالک کی توانائی کی سب سے بڑی منڈی بن رہا ہے۔ 2001ء میں سعودی عرب کی چین کے ساتھ تجارت صرف 4 بلین ڈالر تھی، جو کہ امریکہ اور یورپی یونین کے ساتھ سعودی عرب کی تجارت کا دسواں حصہ تھی، لیکن 2021ء میں سعودی عرب کی چین کے ساتھ تجارت تقریباً 87 بلین ڈالر تک پہنچ گئی، جو کہ سعودی عرب کی امریکہ اور یورپی یونین کے ساتھ تجارت سے دوگنی ہے۔ 2022ء اور 2023ء سے اقتصادی تعلقات تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق چین کے نہ صرف سعودی عرب کے ساتھ وسیع تعلقات ہیں بلکہ بیجنگ بیک وقت متحدہ عرب امارات میں بھی ایک بڑی فوجی تنصیب بنا رہا ہے۔

سعودی عرب اور خلیج فارس کے ممالک امریکہ سے مکمل طلاق و علیحدگی کے خواہاں نہیں ہیں بلکہ وہ صرف واشنگٹن پر انحصار کرنے کے بجائے خارجہ پالیسی میں آزادی اور اپنے غیر ملکی شراکت داروں میں تنوع چاہتے ہیں۔ خلیج فارس کے عرب ایک طرف چین اور روس کے ساتھ قریبی اقتصادی تعلقات کو اپنے لئے ایک موقع سمجھتے ہیں اور دوسری طرف وہ امریکہ کے ساتھ  ایران سمیت کسی بھی سیاسی کشیدگی میں نہیں پڑنا چاہتے۔ ریاض نے تہران کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے لیے واشنگٹن کی خواہشات کے خلاف قدم اٹھایا ہے اور ایران کے ساتھ تعلقات کی توسیع کا خیرمقدم کیا ہے۔ تہران کی طرف ریاض کے اس اقدام کا اندازہ بیجنگ اور ماسکو کے تہران کے ساتھ قریبی روابط کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔

دوسرے لفظوں میں ریاض، چین و روس اور ایران کے ساتھ اتحاد کے ساتھ مغرب کے ساتھ تعلقات بہتر رکھنے کی بھی کوشش کر رہا ہے، البتہ وہ چین اور روس کے ساتھ تعلقات میں بہتری کا خواہاں بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایران کے ساتھ تعلقات بھی اس کے ایجنڈے میں شامل ہیں۔ سعودی عرب سے پہلے پچھلے چند سالوں میں متحدہ عرب امارات، عمان اور قطر کے بھی تہران کے ساتھ قریبی تعلقات تھے۔ لہذا ریاض کا تہران سے دور رہنے کا مطلب  علاقائی ترقی سے دور رہنا تھا۔ ایسے حالات میں جب متحدہ عرب امارات، عمان، قطر اور حتیٰ کہ کویت تہران کے ساتھ سیاسی تعلقات کو وسعت دینے کی کوشش کر رہے ہیں، سعودی عرب کے لیے خطے میں اس سفارتی نقل و حرکت سے دور رہنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ اسی لیے ریاض بھی تہران کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے اور اس میں وسعت دینے کی طرف بڑھ رہا ہے۔

کم تناؤ، زیادہ متحرک معیشت
یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان سیاسی تعلقات کی بحالی سعودی معیشت کی ترقی اور توسیع کے لیے محمد بن سلمان کے اقتصادی تسلسل اور ویژن 2030ء کو مکمل کرتی ہے۔ ریاض کے رہنماء اس بات سے آگاہ ہیں کہ ان کے ملک میں اقتصادی ترقی علاقائی امن اور جنگ سے دور رہنے کی صورت میں ہی ممکن ہے۔ ریاض اپنے جنوبی پڑوسی ملک یمن کی افواج کے میزائلوں کے مسلسل خطرے میں نہیں رہ سکتا، اسی لئے ریاض کے رہنماء یمن میں جنگ کے معاملے کو بند کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سعودیوں کو اس بات کا علم ہے کہ یمن سے جنگ بندی کا راستہ تہران سے ہوکر جاتا ہے۔ تہران کے ساتھ اختلافات کو دور کرکے ہی وہ اس مقصد تک پہنچ سکتا ہے۔ سعودی عرب یمن کے حالات کو پرسکون کرکے اس جنگ کی دلدل سے نکلنے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔

یمن کی جنگ سے ریاض کی دستبرداری سعودی عرب کی بڑھتی ہوئی معیشت میں نئی ​​جان ڈالے گی اور سعودی عرب کو 2030ء کے لیے محمد بن سلمان کے بلند و بالا اقتصادی اہداف کے قریب لے آئے گی۔ گذشتہ سات برسوں کے دوران شام، لبنان، یمن اور عراق میں تہران کے ساتھ ریاض کی علاقائی کشیدگی کا نہ صرف سعودیوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ بعض صورتوں میں سعودی اثر و رسوخ میں کمی اور لبنان جیسے ممالک میں اس کی پسپائی کا باعث بنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ریاض کے حکام تہران کے ساتھ اپنے تعلقات بحال کرنے کے ساتھ ساتھ شام اور یمن سمیت خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ اپنے علاقائی تعلقات کو کشیدگی اور تنازعات سے پاک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہتے ہیں۔

ترتیب و تنظیم: علی واحدی

تہران، ارنا –2016 میں ایرانی سپاہ پاسداران انقلاب کی جانب سے غیر قانونی طور پر ایران کے سمندری پانیوں میں داخل ہونے والے امریکی ملاحوں کو گرفتار کرنے اور تذلیل کے بعد 2023 میں ایک چینی جنگی جہاز نے آبنائے تائیوان میں ایک امریکی بحری جہاز کا راستہ روک دے کر علاقے میں ان کی غیر قانونی موجودگی کے بارے میں خبردار کیا۔

تہران، ارنا - ایک ڈنمارکی شہری تھامس کیمس جسے نومبر 2022 میں ایران میں حالیہ بدامنی کے دوران گرفتار کیا گیا تھا، ہفتے کے روز 3 جون کو یورپ پہنچ گیا۔ رہائی کے بعد انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا کہ"ایران میں میرے ساتھ ایک مہمان جیسا سلوک کیا گیا۔ انہوں نے مہمان نوازی میں میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ کوئی جسمانی اذیت اور تشدد نہیں تھا۔"

سحر نیوز/ ایران: اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج کے چیف آف اسٹاف جنرل محمد باقری نے وزارت دفاع کے اعلی عہدے داروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت دنیا، ایک نئے نظام میں داخل ہو رہی ہے۔ ایسا نظام کہ جس میں امریکہ، طاقت کی بلندیوں سے نیچے اتر چکا ہے اور صیہونی حکومت زوال سے دوچار ہے اور مدمقابل اسلامی جمہوریہ ایران ہے جو مزید طاقتور ہونے کے راستے پر گامزن ہے اور اپنی صلاحیتوں اور گنجائشوں کی بنیاد پر ہر شعبے میں تیز رفتار ترقی کر رہا ہے۔

انہوں نے امریکی فوجیوں کے افغانستان سے فرار، عراق سے بھاگ نکلنے اور علاقے سے بڑے پیمانے پر انخلا کو واشنگٹن کی یک قطبی پالیسیوں کی شکست کا منہ بولتا ثبوت جبکہ اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کے بحری بیڑے کے پوری دنیا کے سفر کو، ایران کی عزت و وقار اور ملک کی مسلح افواج کے استحکام اور جغرافیائی دائرے میں اضافے کا واضح نمونہ قرار دیا۔

- خاندان معاشرے کی اہم ترین اکائی شمار کی جاتی ہے جس کی کافی اہمیت واضح ہے اور ہر انسان کو اس پر توجہ کی ضرورت ہے اور اس میں رابطہ و تعلق سے افراد خانوادہ پر گہرا اثر پڑتا ہے۔

حضرت ابراهیم(ع) کی تربیتی روش میں اہم ترین چیز میں خاندان پر توجہ نظر آتی ہے۔ قرآن کریم میں

حضرت ابراهیم(ع) کے حوالے سے اس پہلو کو اجاگر کیا گیا ہے۔

پہلے حصے میں ابراہیم ایک جوان فرد ہے جو اپنے چچا آزر کو گمراہ دیکھتا ہے اور دوستانہ انداز میں نصیحت کرتا ہے، دوسرے حصے میں حضرت ابراهیم(ع) ایک باپ ہے جو اپنی اولاد کو نصیحت کرتے دیکھائی دیتا ہے اور اپنے اولاد کے لیے دعا کرتے نظر آتے ہیں۔

 

  1. ابراهیم بعنوان فرزند

اس تصویر میں حضرت ابراهیم(ع) اپننے چچا کو بت پرستی سے روکتے ہیں مگر وہ جواب دیتا ہے: «قَالَ أَرَاغِبٌ أَنتَ عَنْ ءَالِهَتىِ يَإِبْرَاهِيمُ لَئنِ لَّمْ تَنتَهِ لَأَرْجُمَنَّكَ وَ اهْجُرْنىِ مَلِيًّا؛ کہا: اے ابراهيم! کیا تم میرے معبود سے رو گردان ہو؟! اگر (اس کام) سے ہاتھ نہ روکو گے تو تم کو سنگسار کرونگا!  اور طولانی دور کے لیے مجھ سے دور ہوجا»(مریم:46).

تاہم حضرت ابراهیم ناراض ہونے یا ضد بازی کی جگہ خیرخواہانہ انداز میں فرماتے ہیں،: «قالَ سَلَامٌ عَلَيْكَ سَأَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبىّ إِنَّهُ كاَنَ بىِ حَفِي؛ (ابراهيم) نے کہا: سلام ہو تم پر! میں جلد اپنے رب سے تمھارے لیے بخشش طلب کرونگا؛ کیونکہ وہ ہمیشہ مجھ پر مہربان رہا ہے!»(مریم:47). ابراہیم انکے مقابل جھگڑے کی بجائے بہترین انداز اختیار کرتا ہے۔

  1. ابراهیم بعنوان والد

حضرت ابراهیم (ع) باپ کے عنوان سے دو اہم شعبوں پر توجہ دیتے ہیں:

الف. عاقبت اولاد کے لیے طلب دعا

حضرت ابراهیم(ع) قرآن میں نظر آتے ہیں کہ وہ دعاوں میں صرف اپنی زات پر توجہ نہیں کرتے بلکہ دعاوں میں اپنی اولاد اور نسل کے لیے بھی خدا سے خیر طلب کرتا ہے اور ہمیں درس دیتا ہے کہ اپنی اولاد اور نسلوں کے لیے بھی دعا کرنی چاہیے۔

«رَبّ‏ اجْعَلْنىِ مُقِيمَ الصَّلَوةِ وَ مِن ذُرِّيَّتىِ رَبَّنَا وَ تَقَبَّلْ دُعَاء ؛ (ابراهیم نے کہا) پروردگارا! مجھے نماز قایم کرنے والا بنا، اور میری اولاد  (بھی)، پروردگارا! میری دعا قبول فرما»(ابراهیم:40).

 

ب. اولاد کو آخری عمر میں وصیت

قرآن میں حضرت ابراهيم کی تصویر کشی سے دوسروں کو بتایا گیا ہے کہ وہ ابراهیم(ع)، کی طرح اولاد کے مستقبل پر توجہ کریں. اپنی اولاد کی صرف دنیا پر نہیں بلکہ آخرت اور معنوی امور پر کو بھی اہمیت دیں۔

«وَ وَصىَ‏ بهِا إِبْرَاهِمُ بَنِيهِ وَ يَعْقُوبُ يَابَنىِ‏ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى‏ لَكُمُ الدِّينَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَ أَنتُم مُّسْلِمُون ؛ اور ابراهيم و يعقوب (نے آخری اوقات میں،) اپنی اولاد کو اس آئین پر نصیحت کی؛ (اور اولادوں سے کہا:) «میرے بچو! خدا ن تمھارے لیے اس پاک قانون کو چنا ہے؛ اور تم صرف اسلام [خدا کے برابر تسلیم] کے بغیر دنیا سے مت جانا!»(بقره:132)