سلیمانی

سلیمانی

،رہبر انقلاب اسلامی نے عالمی سامراج سے مقابلے کے قومی دن 13 آبان مطابق 4 نومبر کی مناسبت سے بدھ کے روز سیکڑوں طلباء سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں انھوں نے 13 آبان (چار نومبر) کے دن کو ایک تاریخی اور تجربہ سکھانے والا دن قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ امریکی اور امریکا کی طرف جھکاؤ رکھنے والے اس اہم دن اور اس کے اتحاد آفریں اجتماعات سے سخت برہم ہوتے ہیں کیونکہ یہ دن، امریکا کی مکاریوں اور شیطنت کے سامنے آنے کا بھی دن ہے اور اس کی کمزوری اور مغلوب ہونے کے امکانات کے برملا ہونے کا بھی دن ہے۔

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے چار نومبر کے تاریخی واقعات کا ذکر کرتے ہوئے 4 نومبر 1964 کو امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی حقائق سامنے لانے والی تقریر اور ان کی جلاوطنی کی طرف اشارہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ امام خمینی نے ایران میں تعینات دسیوں ہزار امریکیوں کو جرائم کے ارتکاب پر قانونی کارروائي سے مستثنی کرنے کے قانون کو، جسے اس وقت کی پارلیمنٹ نے محمد رضا پہلوی کے حکم پر پاس کیا تھا، تسلیم نہیں کیا اور اسی لیے انھیں جلاوطن کر دیا گيا۔

انھوں نے اسی طرح 4 نومبر 1978 کو تہران یونیورسٹی کے سامنے متعدد طلبہ کے قتل عام اور 4 نومبر 1979 کو امریکی سفارتخانے پر طلباء کے قبضے کے واقعات کی طرف اشارہ کیا اور کہا: اس حملے میں ظالم شاہی حکومت کے دوران امریکی حکومت کی جانب سے ایران کے خلاف غداری، مداخلت اور ذخائر کی لوٹ مار اور اسی طرح اسلامی انقلاب کے خلاف اس کی مختلف سازشوں کے بہت سارے دستاویزات اور شواہد ہاتھ لگے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے "جاسوسی کے اڈے (امریکا کے سابق سفارت خانے) پر حملے کے سبب ایران اور امریکا کے درمیان ٹکراؤ شروع ہونے" پر امریکیوں کے اصرار کو ایک بڑا جھوٹ قرار دیا۔ انھوں نے کہا یہ ٹکراؤ 19 اگست 1953 کو اس وقت شروع ہوا جب امریکا نے برطانیہ کی مدد سے مصدق کی قومی حکومت کو ایک شرمناک بغاوت کے ذریعے گرا دیا۔ مصدق نہ تو کوئي عالم دین تھے اور نہ ہی اسلام پسندی کے دعویدار تھے، ان کا جرم بس یہ تھا کہ وہ کہتے تھے کہ ایران کا تیل، انگریزوں کے ہاتھ میں نہیں بلکہ ایرانی قوم کے ہاتھ میں ہونا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ امریکیوں نے اپنے مفادات کی خاطر مصدق کو بھی برداشت نہیں کیا اور امریکا کی جانب سے مدد کی مصدق کی توقع کے برخلاف، انھوں نے ان کی پیٹھ میں خنجر گھونپ دیا اور پیسے بہا کر اور بعض غداروں اور غنڈوں موالیوں کی مدد سے ان کی حکومت کو سرنگوں کر دیا۔

انھوں نے ایرانی قوم کی حمایت کے بارے میں امریکی سیاستدانوں کے آج کل کے بیانوں کو ڈھٹائي اور دکھاوا قرار دیا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے ان امریکی سیاستدانوں کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا: ان چار عشروں میں کیا کوئي ایسا کام ہے جو تم ایرانی قوم کے خلاف کر سکتے تھے اور اسے تم نے انجام نہ دیا ہو؟ اگر براہ راست جنگ نہیں کی تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یا تو تم یہ کر ہی نہیں سکتے ہو یا ایرانی جوانوں سے ڈر گئے ہو؟

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد امریکا کے جرائم اور سازشوں کا ذکر کرتے ہوئے، انقلاب کی شروعات میں واشنگٹن کی جانب سے ایران میں علیحدگي پسندوں کی حمایت، ہمدان کی نوژہ چھاؤنی میں بغاوت، منافقین (ایم کے او) کی دہشت گردی کی حمایت، جس میں ملک کے گوشہ و کنار میں ہزاروں افراد شہید ہوئے، مسلط کردہ جنگ میں درندے صدام کی بھرپور حمایت، خلیج فارس کے اوپر ایران کے مسافر بردار طیارے پر میزائل حملے جس میں تقریبا 300 افراد جاں بحق ہوئے اور اسے مار گرانے والے بحری جنگي جہاز کے کمانڈر کو میڈل دینے کی شرمناک حرکت، انقلاب کی کامیابی کے پہلے سال سے ہی ایرانی قوم پر پابندیاں لگانے، حالیہ برسوں میں تاریخ کی سب سے شدید پابندیاں عائد کیے جانے اور ایران میں فتنے پھیلانے اور ہنگامے کرنے والوں کی حمایت کی طرف اشارہ کیا۔ انھوں نے کہا: 2009 میں، جبکہ اس سے پہلے اوباما نے ہمیں دوستی کا خط لکھا تھا، امریکیوں نے واضح الفاظ میں فتنوں کی حمایت کی اس امید پر کہ شاید اس طریقے سے اسلامی جمہوریہ کو ختم کر سکیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی تقریر کے ایک حصے میں شہید جنرل قاسم سلیمانی اور ان کے ساتھیوں کے قتل کے بہیمانہ جرم کی طرف بھی اشارہ کیا اور امریکیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: تم امریکیوں نے واشگاف الفاظ میں ہمارے شجاع کمانڈر کو قتل کرنے کا اقرار کیا اور اس پر فخر بھی کیا، تم نے کہا کہ اس کا حکم تم نے دیا تھا۔ شہید قاسم سلیمانی صرف ایک قومی ہیرو نہیں تھے، وہ پورے خطے کے ہیرو تھے۔ علاقے کے کئي ممالک کے مسائل کو حل کرنے میں شہید سلیمانی کا کردار بڑا عظیم اور بے نظیر تھا۔ ہم شہید قاسم سلیمانی کی شہادت کو ہرگز فراموش نہیں کریں گے، ہم نے اس سلسلے میں ایک بات کہی ہے اور ہم اپنی بات پر قائم ہیں۔ ان شاء اللہ صحیح وقت پر اور صحیح جگہ وہ کام انجام پائے گا۔

انھوں نے ایک بار پھر واشنگٹن کے حکام کو مخاطب کیا اور کہا: تم نے ہمارے ایٹمی سائنسدانوں کے قاتلوں یعنی صیہونیوں کی حمایت کا اعلان کیا اور امریکا اور دیگر ملکوں میں ایرانی قوم کے اربوں ڈالر کے اثاثوں کو منجمد کر کے ان اثاثوں سے اس قوم کو محروم کر دیا ہے۔ ایران کے خلاف ہونے والے اکثر واقعات میں تمھارا ہاتھ واضح طور پر دکھائي دیتا ہے اور پھر تم بڑی ڈھٹائي اور بے شرمی سے سفید جھوٹ بولتے اور دعوی کرتے ہو کہ ایرانی قوم کے ہمدرد ہو؟ البتہ تمھاری خواہش کے برخلاف ایرانی قوم نے تمھارے دشمنانہ اقدامات میں سے زیادہ تر کو ناکام بنا دیا ہے۔

آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے امریکا کے زوال کی نشانیوں کی طرف اشارہ کیا اور کہا: اس زوال کی علامتوں کو امریکا کے کم نظیر داخلی معاشی، سماجی اور اخلاقی مسائل سے لے کر اندرونی تشدد آمیز اختلافات تک میں بہت واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔

انھوں نے امریکا کے زوال کی ایک اور علامت، دنیا کے مسائل کے بارے میں واشنگٹن کے اندازوں کے غلط ثابت ہونے کو قرار دیا اور کہا: اندازے کی اس غلطی کی ایک مثال، طالبان کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے بیس سال قبل افغانستان پر امریکا کا حملہ ہے جس میں بے شمار جرائم اور قتل عام ہوئے لیکن بیس سال بعد مسائل کو صحیح طریقے سے سمجھ نہ پانے کے سبب امریکی افغانستان سے نکلنے پر مجبور ہو گئے اور اس ملک کو طالبان کے حوالے کر گئے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے عراق پر حملے اور اپنے مدنظر اہداف کے حصول میں امریکا کی ناکامی کو، امریکیوں کے اندازے کے غلطی کی ایک اور مثال بتایا اور کہا: امریکی شروع سے ہی اپنے لوگوں یا اپنے مہروں کو لانے کے چکر میں تھے اور عراق کی موجودہ صورتحال اور انتخابات کے ذریعے عراقی سیاستدانوں کا اقتدار میں آنا کبھی بھی ان کی نظر سے خوش آئند نہیں تھا لیکن یہاں بھی انھیں منہ کی کھانی پڑی۔

انھوں نے اسی طرح شام اور لبنان میں امریکا کی شکست خاص طور پر گيس پائپ لائن کے حالیہ مسئلے میں اس کی ناکامی کو، اندازوں کی غلطی کے سبب امریکا کی ناکامیوں کی ایک اور مثال بتایا اور کہا: امریکا کے زوال کی ایک اور نشانی، عوام کی جانب سے موجودہ اور سابق صدر جیسے افراد کو ووٹ دینا ہے۔ پچھلے الیکشن میں ٹرمپ جیسا شخص صدر منتخب ہوا جسے سبھی پاگل سمجھتے تھے اور اس الیکشن میں بھی ایک ایسا صدر اقتدار میں آيا ہے جس کی حالت سبھی جانتے ہیں۔

آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ملک میں پچھلے کچھ ہفتوں سے جاری ہنگاموں میں دشمن کے واضح رول کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: پچھلے کچھ ہفتوں کے واقعات، صرف سڑک پر ہونے والا ایک ہنگامہ نہیں تھا، یہ بہت گہری چال تھی، دشمن نے ایک ہائيبرڈ وار شروع کی، دشمن یعنی امریکا، اسرائيل، بعض موذی اور خبیث یورپی طاقتیں، بعض گروہ اور گینگ، سبھی نے اپنے وسائل میدان میں اتار دیے۔

انھوں نے اپنی تقریر کے ایک حصے میں شاہچراغ کے سانحے اور بے گناہ افراد اور بچوں کے قتل عام کے واقعے کو ایک بہیمانہ جرم بتایا اور کہا: اسکول جانے والے ان بچوں نے کیا قصور کیا تھا جو اس سانحے میں شہید ہوئے؟ اس بچے نے کیا گناہ کیا ہے جس نے اپنے ماں باپ اور بھائي کو اس ہولناک جرم کے نتیجے میں کھو دیا؟ اس دیندار اور اللہ کی راہ پر چلنے والے نوجوان دینی طالب علم، آرمان نے کیا گناہ کیا تھا جسے تہران میں ایذائيں دے دے کر شہید کر دیا گيا اور اس کی لاش کو سڑک پر پھینک دیا گيا؟

رہبر انقلاب اسلامی نے ان جرائم پر انسانی حقوق کے دعویداروں کی خاموشی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ان دعویداروں نے شیراز کے سانحے کی مذمت کیوں نہیں کی اور وہ کیوں ایک جھوٹے واقعے کو ہزاروں بار انٹرنیٹ پر اپنے پلیٹ فارمز پر دوہراتے ہیں لیکن 'آرشام' کے نام پر پابندی لگا دیتے ہیں؟ کیا واقعی یہ دعویدار لوگ، انسانی حقوق کے حامی ہیں؟

انھوں نے اپنی تقریر کے آخری حصے میں کہا: اسلامی انقلاب نے نوجوانوں کو بیدار کر دیا ہے اور انھیں تجزیے کی قوت عطا کر دی ہے۔ تحریک کے دوران بھی اور تحریک کے بعد سے لے کر آج تک ہمارے جوان روز بروز پیشرفت کرتے رہے ہیں۔ ہمارے جوانوں کی اس خصوصیت کو ختم کرنے کے لیے دشمن، فکری اور ذہنی مواد تیار کرنا شروع کرتا ہے، سائبر اسپیس اور سوشل میڈیا پر اتنی بڑی مقدار میں جھوٹ، اسی وجہ سے پھیلایا گيا ہے۔ اسی لیے میں مسلسل تشریح کے جہاد پر زور دیتا ہوں۔ اس سے پہلے کہ دشمن جھوٹے اور گمراہ کن مواد تیار کرے، آپ سچے اور حقیقی مواد تیار کیجیے اور جوانوں کے ذہنوں تک پہنچائيے۔

ایرانی سپریم لیڈر کے سربراہ نے کہا ہے کہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ امریکہ ایک لازوال طاقت ہے جبکہ وہ مکمل طور پر کمزور ہے۔

یہ بات آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے آج بروز بدھ طلبہ کے دن اور عالمی استکبار سے مقابلے کے قومی دن 4 نومبر کے ‏موقع پر ملک بھر سے آئے ہوئے ہزاروں طالب علموں سے ملاقات میں کہی۔

انہوں نے کہا کہ4 نومبر کے دن کو امریکہ کی شرارت اور امریکہ کی شکست کا دن قرار دیتے ہوئے کہا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ امریکہ ایک لازوال طاقت ہے جبکہ وہ مکمل طور پر کمزور ہے اور مستقل آپ (جوانوں) کا ہے۔

ایرانی سپریم لیڈر نے 4 نومبر کو ایک تاریخی اور سبق آموز دن قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس دن میں کہ اس دن کے واقعات تاریخ میں باقی رہیں گے اور ہمیں انہیں فراموش نہیں کرنا چاہیے۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، سعودی لیکس نامی ویب سائٹ نے خبر دی ہے کہ انسانی حقوق کی تنظیم یورپ-سعودی عرب نے ایک بیان میں اعلان کیا ہے کہ سعودی عرب میں آزادی اظہار رائے کے 15 قیدیوں کو سزائے موت سنائی گئی ہے جس سے سعودی عرب میں سزائے موت پانے والے افراد کی تعداد 53 ہوگئی ہے۔

بیان میں آزادی اظہار کے لئے سرگرم سعودی شہریوں کے قتل عام کے حوالے سے خبردار کرتے ہوئے اعلان کیا گیا ہے کہ سزائے موت پانے والوں میں کم از کم 8 سعودی بچے بھی شامل ہیں۔

مذکورہ بین الاقوامی تنظیم نے تمام علاقائی اور بین الاقوامی اداروں اور قوتوں سے کہا ہے کہ وہ سعودی عرب میں سزائے موت پانے والوں کی مدد کریں اور ان غیر منصفانہ سزاؤں پر عمل درآمد کو رکوائیں۔

واضح رہے کہ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں نے اس سے قبل سعودی عرب میں انسانی حقوق کی ابتر حالت کے بارے میں خبردار کیا تھا اور اعلان کیا تھا کہ محمد بن سلمان کچھ دکھاوے کی آزادیوں کی پیشکش کر کے اس ملک میں انسانی حقوق کی نامناسب حالت سے توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

سعودی عرب میں آزادی اظہار کے 53 قیدیوں کی پھانسی کا خطرہ/ سزا پانے والوں میں 8 بچے بھی شامل

امریکہ میں جو بائیڈن حکومت پر اس بات کیلئے شدید دباو ڈالا جا رہا ہے کہ وہ ایران میں ہنگاموں کی اس طرح حمایت کرے، جس کا نتیجہ حکمفرما سیاسی نظام میں تبدیلی کی صورت میں ظاہر ہو۔ دوسری طرف بائیڈن حکومت میں شامل امریکی حکام اس بات کا اظہار کر رہے ہیں کہ وہ بھی "یہی چاہتے ہیں" لیکن ایسا ہونا بہت ہی دور از امکان ہے اور وہ اس بارے میں بات کرنا بھی نہیں چاہتے۔ وائٹ ہاوس مسلسل مختلف لابیز کی جانب سے اس دباو کا سامنا کر رہا ہے کہ ایران میں انجام پانے والے ہنگاموں کا دائرہ مزید شہروں تک بڑھا دیا جائے اور امریکی حکومت اعلانیہ طور پر ان ہنگاموں اور ان میں ملوث عناصر کی حمایت کا اعلان کرے۔ لیکن امریکی حکمران اپنی حمایت کی سطح بڑھانے میں ہچکچا رہے ہیں، کیونکہ انہیں کامیابی کی کوئی امید دکھائی نہیں دیتی۔

اگرچہ امریکہ کی روایتی سیاست تہران میں حکومت کو کمزور کرنے پر استوار ہے، لیکن اس کے باوجود جب وہ ایران میں زمینی حقائق کا جائزہ لیتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ موجودہ ہنگامے اور ان کے پس پردہ عوامل سے کسی بڑی کامیابی کی امید رکھنا بیہودہ ہے۔ کچھ دن پہلے امریکی صدر جو بائیڈن نے ایران میں جاری ہنگاموں کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے ایران کے خلاف کچھ نئی پابندیوں کا اعلان کیا تھا۔ سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ ایران میں ہنگاموں کی حمایت میں اس سے آگے نہیں بڑھے گا۔ وائٹ ہاوس سے قریب تصور کی جانے والی تجزیاتی ویب سائٹ پولیٹیکیو نے حال ہی میں ایک رپورٹ شائع کی ہے، جس میں اس بات کی جانب اشارہ کیا گیا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن مختلف حلقوں کی جانب سے دباو کے باوجود کھلم کھلا ایران میں سیاسی تبدیلی کی حمایت کا اعلان نہیں کریں گے۔

پولیٹیکیو نے امریکہ کے چھ اعلیٰ سطحی عہدیداروں سے انٹرویو لیا ہے، جنہوں نے اس مشترکہ نکتے پر زور دیا ہے کہ بائیڈن حکومت ہرگز ایرانی حکومت کو گوشنہ نشین کرنے اور اس سے جاری جوہری مذاکرات مکمل طور پر ترک کرنے کی پالیسی اختیار کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔ پولیٹیکیو نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا ہے کہ عنقریب وہ عناصر جو امریکی حکومت سے ایران میں سیاسی نظام کی تبدیلی کیلئے کھلم کھلا حمایت کی امید رکھتے ہیں، مایوسی کا شکار ہو جائیں گے۔ دو ہفتے پہلے امریکہ کے سابق صدر براک اوباما نے ایک امریکی ویب سائٹ سے انٹرویو میں کہا تھا کہ جب 2009ء میں ایران میں شدید ہنگامے شروع ہوئے تو امریکی حکام کے درمیان ان ہنگاموں کی حمایت کے بارے میں اختلاف پایا جاتا تھا۔ لیکن موجودہ حکومت اس بات پر متفق ہے کہ اسے ایران میں رجیم چینج کی کھلم کھلا حمایت نہیں کرنی چاہیئے۔

جو بائیڈن حکومت کی جانب سے ایران سے واضح مخالفت کے باوجود رجیم چینج پر مبنی پالیسی اختیار نہ کرنے کی مختلف وجوہات ہیں۔ امریکی حکام بارہا اس بات کا اعتراف کرچکے ہیں کہ وہ ایران میں سیاسی نظام میں تبدیلی کے خواہاں ہیں اور یہ ان کی دلی خواہش ہے، لیکن جب زمینی حقائق کا جائزہ لیتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ ایسا ہونا تقریباً ناممکن ہے، لہذا یہ آپشن قابل قبول نہیں ہوسکتا۔ بعض امریکی حکام نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ وہ حتی اس آپشن کے بارے میں اظہار خیال کرنا بھی پسند نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ حتی سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جنہوں نے 2015ء میں یکطرفہ طور پر ایران سے جوہری مذاکرات سے دستبرداری اختیار کی اور ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباو پر مبنی پالیسی اختیار کی، انہوں نے بھی ایران میں رجیم چینج پالیسی کی حمایت کا اعلان نہیں کیا۔

امریکی حکمرانوں کے اس اعتراف کی ایک بنیادی وجہ ایرانی عوام کی موجودہ اسلامی جمہوریہ نظام کی بھرپور حمایت اور اس سے والہانہ عقیدت ہے۔ ترکی کی آناتولی یونیورسٹی کے پروفیسر مصطفیٰ کنر اس بارے میں کہتے ہیں: "ایران میں کوئی انقلاب رونما ہونے کیلئے خاص قسم کے حالات کی ضرورت ہے، جو اس وقت موجود نہیں ہیں۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ موجود ہنگامہ آرائی کسی بھی قسم کی قیادت سے محروم ہے اور کوئی بھی محبوب لیڈر، کونسل، پارٹی یا تنظیم نہیں پائی جاتی، جو ان کی قیادت کرے۔" وہ مزید کہتے ہیں: "دوسری بات یہ ہے کہ ان ہنگاموں میں شامل ہر گروہ اور جتھہ اپنے مخصوص اہداف اور ایجنڈے کا حامل ہے۔ مزید برآں، ان مختلف اہداف اور ایجنڈوں کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم میں ڈھالنے کا بھی کوئی بندوبست نہیں پایا جاتا، لہذا ان سے کسی واحد سیاسی اقدام کی توقع رکھنا بے جا ہے۔"

موجودہ امریکی حکومت کی جانب سے ایران میں ممکنہ سیاسی تبدیلی سے مایوسی کا اظہار اس قدر شدید ہے کہ امریکہ کے بعض اندرونی شدت پسند حلقے اس پر اسلامی جمہوریہ کی حمایت کا الزام عائد کر رہے ہیں۔ ٹیکساس سے امریکی سینیٹر ٹڈ کروز جو ایران کے خلاف شدید منافرت پھیلانے میں مشہور ہے، انہوں نے حال ہی میں جو بائیڈن حکومت کے بارے میں کہا ہے: "بائیڈن حکومت حقیقی معنوں میں ایرانی رجیم کی بقاء کیلئے کوشاں ہے، کیونکہ وہ ایران سے تیل حاصل کرنا چاہتے ہیں، تاکہ یوں امریکہ میں انرجی کی مصنوعات پیدا کرنے والی کمپنیوں کو درپیش بحران حل کرسکے۔" حقیقت یہ ہے کہ ایران میں حکمفرما اسلامی جمہوریہ نظام کی جڑیں عوام کے اندر بہت مضبوط ہیں۔ یہ وہ زمینی حقیقت ہے، جس کا مشاہدہ جو بھی کرتا ہے، وہ اس نظام کی تبدیلی سے مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔

تحریر: حامد خبیری

ایران کے شہر شیراز میں حضرت شاہ چراغ کے مزار پر داعش سے وابستہ تکفیری دہشت گرد کے حملے کے بعد ہمسایہ اور دوست ممالک سمیت دنیا کے مختلف ممالک سے اظہار ہمدردی اور تسلیت کے پیغامات آنا شروع ہو گئے۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ایک بھی مغربی ملک نے نہ تو اس دہشت گردی کی مذمت کی اور نہ ہی شہید ہونے والے افراد کے اہلخانہ سے اظہار ہمدردی کیا۔ یہ بات اس وقت زیادہ عجیب محسوس ہوتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ مغربی ممالک خود کو دنیا میں انسانی حقوق کا علمبردار ظاہر کرتے ہیں۔ شیراز میں حضرت احمد ابن موسی کاظم علیہ السلام کے مزار پر اس دہشت گردانہ حملے میں پندرہ کے قریب افراد شہید جبکہ دسیوں زخمی ہو گئے تھے۔ یہ حملہ ایسے وقت انجام پایا جب اس مزار میں نماز باجماعت منعقد کی جا رہی تھی۔
 
داعش سے وابستہ تکفیری دہشت گرد کی جانب سے ایک مقدس مقام میں عبادت میں مصروف عام نہتے شہریوں کو گولیوں کا نشانہ بنانے کا واقعہ اس قدر افسوسناک اور المناک تھا کہ دنیا کے مختلف ممالک کے سربراہان مملکت اس کی مذمت کئے بغیر نہ رہ سکے۔ روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے ایرانی صدر کے نام اپنے پیغام میں اس حملے کی شدید مذمت کی اور تسلیت کا اظہار کیا۔ ان کے پیغام میں کہا گیا تھا: "میں دہشت گردی کے خلاف مختلف شعبوں میں روس اور ایران کے درمیان دوطرفہ تعاون کو فروغ دینے کا خواہش مند ہوں۔" اسی طرح چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان ماو ننگ نے بھی شیراز میں دہشت گردی کے واقعے پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا: "چین کو اس حملے سے صدمہ ہوا ہے اور اس کی شدید مذمت کرتا ہے۔"
 
انہوں نے مزید کہا: "ہم ہر قسم کی دہشت گردی کے شدید مخالف ہیں اور دہشت گردی اور شدت پسندی کے خلاف جنگ میں ایرانی عوام اور حکومت کی حمایت کرتے ہیں۔" اخبار انڈیپنڈنٹ کے مطابق مصر حکومت نے بھی اس بارے میں ایک بیانیہ جاری کیا ہے جس میں ایران کے شہر شیراز میں اہل تشیع کے مقدس مقام پر دہشت گردانہ حملے کی مذمت کی گئی ہے۔ مصر کی وزارت خارجہ نے اس بیانیے میں دہشت گردانہ حملے میں شہید ہونے والے افراد کے اہلخانہ سے تسلیت کا اظہار کیا اور زخمیوں کی جلد از جلد شفایابی کی دعا کی۔ اس بیانیے میں دہشت گردی کی تمام اقسام کا مقابلہ کرنے عالمی سطح پر کوشش کرنے اور مہم چلانے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ اسی طرح لبنان کی وزارت خارجہ نے بھی اس حملے کی مذمت کی اور تسلیت کا اظہار کیا۔
 
شیراز میں حضرت شاہ چراغ کے مزار پر دہشت گردانہ حملے کی مذمت کرنے والے دیگر ممالک میں بحرین، یمن، ترکی، فلسطین کے اسلامی مزاحمتی گروہ حماس اور اسلامک جہاد، پاکستان، آذربائیجان، متحدہ عرب امارات وغیرہ شامل ہیں۔ یمن کی اعلی سیاسی کونسل کے رکن محمد علی الحوثی نے اپنے پیغام میں رہبر معظم انقلاب اور شہداء کے اہلخانہ سے تسلیت کا اظہار کیا۔ حماس اور اسلامک جہاد نے بھی اس دہشت گردانہ حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ بحرین کی وزارت خارجہ کے بیان میں آیا ہے: "بحرین شیراز میں ایک مذہبی مقام پر دہشت گردانہ حملے کی شدید مذمت کرتا ہے۔" ترکی کے وزیر خارجہ مولود چاوش اوگلو نے ٹویٹر پر اپنے پیغام میں لکھا: "ہم شیراز شہر میں اہل تشیع کی زیارتگاہ پر ظالمانہ دہشت گردی کی شدید مذمت کرتے ہیں اور شہداء کیلئے رحمت الہی جبکہ زخمیوں کیلئے شفا کے طالب ہیں۔"
 
عالمی سطح پر شیراز میں حضرت شاہ چراغ کے مزار پر دہشت گردانہ حملے کی شدید مذمت اور متاثرین کیلئے اظہار ہمدردی کے باوجود انسانی حقوق کا دفاع کرنے کے دعویدار مغربی ممالک نے اس افسوسناک واقعے پر پراسرار انداز میں چپ سادھ رکھی ہے۔ اگرچہ برطانیہ اور جرمنی نے سفیر کی حد تک اور فن لینڈ نے وزارت خارجہ کی سطح پر اس حملے کی مذمت کی ہے لیکن اکثر یورپی ممالک اور امریکہ کی جانب سے اس سانحے پر کوئی موقف سامنے نہیں آیا۔ یورپی یونین جو ہمیشہ انسانی حقوق کے دفاع اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دعوے کرتا دکھائی دیتا ہے اس المناک واقعے پر خاموش دکھائی دیتا ہے۔ یہ خاموشی ایسے وقت سامنے آئی ہے جب ایک ماہ قبل یورپی یونین کے سیکرٹری خارجہ جوزف بورل نے ایران میں ہنگاموں پر سیاست کرتے ہوئے ایرانی وزیر خارجہ کو فون کیا اور مہسا امینی کے قتل کی مذمت کی اور انارکی پھیلانے والوں کے حقوق کا احترام کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
 
گذشتہ چند ہفتوں کے دوران مغربی ممالک نے ایران میں ہنگاموں کی حمایت کرتے ہوئے ایران پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے الزامات عائد کئے۔ جرمنی ایران میں انارکی پھیلانے والوں کے اصلی حامیوں میں سے ایک تھا۔ اس نے اپنے ملک میں انقلاب مخالف عناصر کو مظاہروں کی کھلی چھٹی دے رکھی تھی۔ اب شیراز کے دہشت گردانہ واقعے پر مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔ امریکی حکام نے اعلانیہ طور پر ایران میں بدامنی پھیلانے والے عناصر کی حمایت کی ہے۔ جان بولٹن نے سعودی ٹی وی چینل الحدث کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہمارا فائدہ ایران میں مخالفین کی حمایت کر کے ایرانی معاشرے میں دراڑ ڈالنے میں ہے۔ امریکہ اور مغربی ممالک جو ایران میں بدامنی پھیلانے والوں کے حقوق کیلئے پریشان تھے اب شیراز میں مذہبی مقام پر عبادت میں مصروف نہتے شہریوں کے وحشیانہ قتل عام پر چپ ہیں۔ یہاں سے مغرب کے انسانی حقوق سے متعلق دوہرے معیار اور دوغلی پالیسیاں واضح ہو جاتی ہیں۔
تحریر: علی احمدی
 
 
 

ایران کی وزارت انٹیلی جنس اور سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی انٹیلی جنس تنظیم نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا جس میں ایران میں حالیہ ہنگامہ آرائیوں اور فسادات کے مختلف پہلوؤں کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ ایک سال کی "مسلسل اور درست" انٹیلی جنس نگرانی کے ساتھ ساتھ حالیہ ہنگامہ آرائیوں اور بدامنی کے دوران حاصل کیے گئے شواہد اور دستاویزات اور بحران کے بعد کے مرحلے کے لیے دشمن کے منظرناموں سے حاصل کردہ معلومات سے فسادات اور بدامنی کی منصوبہ بندی، اس پر عمل درآمد اور اسے برقرار رکھنے میں امریکی دہشت گرد حکومت کے ہمہ جہت کردار کی بے شمار مثالوں اور ناقابل تردید حوالہ جات کا پتہ چلتا ہے۔

بیان میں حالات کو تین قسموں میں بانٹا گیا ہے اور "بدامنی سے پہلے"، "بدامنی کے دوران" اور "بدامنی کے بعد" کے حقائق پیش کرتے ہوئے اس معاملے کی مزید وضاحت کی گئی ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی حکومت نے سرکاری تحقیقات کے اعلان سے پہلے مہسا امینی کی المناک موت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک "پہلے سے منصوبہ بند" منصوبے کا آغاز کیا۔

بیان میں صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے گھناؤنے سعودی جرم یا غاصب اسرائیلی حکومت کے ہاتھوں صحافی شیرین ابو عاقلہ کے جان بوجھ کر قتل کو نظر انداز کرنے کی تاریخ رکھنے کے باوجود اپنے سیاسی مفادات کے لیے واشنگٹن کی جانب سے اس سانحے کے استحصال کی مذمت کی گئی ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ انٹیلی جنس شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ سی آئی اے نے اپنے اتحادی جاسوسی اداروں اور رجعت پسندانہ پراکسیز کے تعاون سے فسادات اور بدامنی شروع ہونے سے پہلے ایک وسیع منصوبہ تیار کیا تھا تاکہ ملک گیر ہنگامہ آرائیاں اور افراتفری شروع کی جائے جس کا مقصد عظیم ایرانی قوم اور ملک کی علاقائی سالمیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کرنا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ بڑھتے ہوئے غیر ملکی دباؤ کے لیے زمین ہموار کرنا بھی اس منصوبے کا حصہ تھا۔

بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ دستیاب معلومات کے مطابق سی آئی اے نے مرکزی کردار ادا کیا جبکہ برطانیہ، اسرائیلی حکومت اور سعودی عرب کے جاسوسی اداروں کے ساتھ قریبی تعاون کیا۔

بیان میں فسادات اور بدامنی کی تیاری کے سلسلے میں مذکورہ ایجنسیوں کے کچھ اقدامات کا حوالہ دیا گیا ہے جیسے کہ انسانی حقوق کی نام نہاد کانفرنسوں کا انعقاد اور ہر واقعے کو موقع کے طور پر استعمال کرتے ہوئے ایرانی حکومت کی نااہلی کو ظاہر کرنا۔

بیان میں کہا گیا کہ مذکورہ جاسوس ایجنسیوں نے کئی ممالک میں تربیتی کیمپوں کا اہتمام کیا تاکہ افراد کو ہائبرڈ اور نرم جنگ کی تربیت دی جا سکے۔ بیان میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جن افراد نے ہسپتال میں مہسا امینی کی پہلی تصویر لی اور وائرل کی، ساتھ ہی وہ جنہوں نے مخصوص تصاویر پوسٹ کر کے امینی کے اہل خانہ کو اکسایا، نے ان کورسز میں خصوصی تربیت حاصل کی تھی۔

ایرانی انٹیلی جنس اداروں نے یہ بھی کہا کہ دشمنوں نے ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے ایران کے خلاف "عالمی میڈیا جنگ" کا منصوبہ بنایا اور اس پر عمل درآمد کیا۔

ایرانی اینٹلی جنس اداروں کے مطابق ٹویٹر اور انسٹاگرام نے "جعلی خبروں" کے پھیلاؤ کو تیز کرنے کی راہ ہموار کرنے کے لیے اپنے ضابطوں کو نظر انداز کیا۔

بیان میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ ان تمام کوششوں کے باوجود، دشمن "اپنے پہلے سے طے شدہ مقاصد میں سے کوئی بھی حاصل کرنے میں ناکام رہے" کیونکہ "ایران کو تباہ کرنے کے منصوبے کو ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔"

خیال رہے کہ 22 سالہ مہسا امینی کے پولیس اسٹیشن میں گرنے اور انتہائی طبی امداد کے باوجود ہسپتال میں دم توڑنے کے بعد ایران میں فسادات پھوٹ پڑے تھے۔ ایران کی قانونی ادویات کی تنظیم کی ایک سرکاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امینی کی متنازعہ موت سر یا جسم کے دیگر اہم اعضاء پر مبینہ ضرب کے بجائے بیماری کی وجہ سے ہوئی۔

ہنگامہ آرائیوں اور فسادات نے سیکورٹی فورسز اور بے گناہ لوگوں کی درجنوں جانیں لی ہیں کیونکہ کچھ عناصر نے ملک کے نظام پر حملہ کرنے کے لیے احتجاج کو پٹڑی سے اتار دیا۔ بہت سے مغربی ممالک نے ان کارروائیوں میں بلوائیوں اور فسادیوں کی حمایت کا اظہار کیا ہے جنہیں تہران تشدد اور نفرت کو "بھڑکانے" کے اقدامات قرار دیتا ہے۔

مہر خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق سپاہ پاسداران انقلاب کے کمانڈر جنرل حسین سلامی نے ہفتہ کے روز حضرت شاہ چراغ کے حرم پر دہشت گردی کے واقعہ میں شہید ہونے والوں کی نماز جنازہ کی میں شرکت اور عوامی اجتماع سے خطاب کیا۔
جنرل سلامی نے کہا کہ رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای جہاد کے مرکز میں کھڑے ہیں اور ایران کے عوام نے ہر قسم کی دشمنی کے مقابلے میں امام خامنہ ای کو تنہا نہیں چھوڑا اور اپنے امام کی پشت پناہی کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے اس واقعے کے شہداء نے ایک خاص اور عظیم مقصد کے لیے اپنی پیاری جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔

سردار سلامی نے اس بات پر زور دیا کہ اگر اسلامی ایران کے عوام امام حسین (ع)کے زمانے میں ہوتے تو کسی کو بھی فرزند رسول (ع) کی توہین کی اجازت نہ دیتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج ایران کے عوام کو امام کے برحق نائب کی حفاظت اور حمایت کرنی چاہیے اور دشمن کو ایرانیوں کے چہرے سیاہ ظاہر کرنے اجازت نہیں دینی چاہیے۔

انہوں نے شیراز حملے کے شہداء کی نماز جنازہ میں شاندار شرکت پر ایرانی عوام کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ آج کا واقعہ حقیقی ایران کو ظاہر کرتا ہے جو شاندار اسلامی انقلاب کی نمائندگی کرتا ہے اور چند فریب خوردہ عناصر کی شرارتوں سے اسے کبھی نقصان نہیں پہنچے گا۔انہوں نے زور دے کر کہا کہ امریکہ اپنی منصوبہ بندیوں، سازشوں اور فتنہ انگیزیوں کے ذریعے ایرانی عوام کا دین اور مذہب چھیننے کی کوشش کر رہا ہے۔

انہوں نے دشمنوں کی سازشوں کے فریب میں نہ آنے اور انہیں ناکام بنانے پر ایرانی عوام کی بھی تعریف کی۔

میجر جنرل سلامی نے مزید کہا کہ ہماری سرزمین پر ان دنوں اور راتوں میں جو سازشیں چل رہی ہیں، وہ امریکہ، برطانیہ، سعودی عرب اور صیہونی حکومت کے گٹھ جوڑ کا نتیجہ ہے۔

فلسطین کی مزاحتمی تنظیموں کے مشترکہ کمیٹی کے جاری کردہ بیان میں ،شیرازشہرمیں واقع شاہ چراغ کے روضے پر دہشت گردانہ حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس طرح کے گھناونے فعل کا ارتکاب اور اس کا حکم دینے والوں کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ 
بیان میں کہا گیا ہے کہ فلسطین کی مزاحمتی تنظیموں کی مشترکہ کمیٹی ایران کی سلامتی کو نشانہ بنانے والے ہر اقدام کی مذمت کرتی ہے اور مشکل کی اس گھڑی میں اپنے ایرانی بھائیوں کے ساتھ کھڑی ہے۔
بیان میں دہشت گردی کے مقابلے میں ایران کی حکومت اور عوام سے مکمل یکجہتی کا اعلان کیا گیا ہے۔ 

طالبان کی وزارت داخلہ کے ترجمان عبدالنافع تکور نے بتایا ہے کہ یہ دہشت گردانہ حملہ شیخ محمد روحانی نام کی مسجد میں ہوا ہے جو کہ کابل کے پانچویں ڈسٹرکٹ میں واقع ہے۔ عبدالنافع تکور نے بتایا ہے کہ اس حملے میں سات لوگ زخمی ہوئے ہیں تاہم مقامی ذرائع نے دس لوگوں کے زخمی ہونے کی اطلاع دی ہے۔ 
یاد رہے کہ اگست دو ہزار اکیس میں جب طالبان نے اقتدار پر قبضہ کیا تھا تو داعش سمیت مختلف دہشت گرد گروہوں اور عناصر کے حملوں کو روکنے کا عہد کیا تھا تاہم اب تک یہ وعدہ پورا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔

پچھلے مہینوں کے دوران داعش نے کابل سمیت افغانستان کے مختلف شہروں میں انتہائی خوفناک دہشت گردانہ حملے کرکے سیکڑوں افغان شہریوں کو خاک و خون میں غلطاں کردیا ہے۔

داعش کی طرف سے خاص طور پر شیعہ مسلمانوں کے مقدس مقامات اور اسی طرح تعلیمی مراکز کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔