سلیمانی

سلیمانی

عراقی ذرائع نے سیکورٹی کمیٹی کے حوالے سے بتایا ہے کہ چوبیس راکٹ اور ایک راکٹ لانچر صوبہ الانبار میں امریکی فوجی اڈے عین الاسد سے کچھ فاصلے پر کھڑی ایک مشکوک گاڑی میں نصب تھے۔

عراقی فوج اور سیکورٹی اداروں نے موقع پر پہنچ کر گاڑی کو اپنے قبضے میں لینے  کے بعد راکٹوں ناکارہ بنادیا۔
جمعرات کو عراق کے چند مسلح گروہوں نے ایک بیان جاری کیا تھا جس میں بغداد واشنگٹن اسٹریٹیجک مذاکرات کے تازہ دور کی جانب اشارہ کرتے ہوئے امریکی اہداف پر حملے کی دھمکی دی گئی تھی۔

پچھلے چند روز کے دوران عراق میں دہشت گرد امریکی فوج سینٹ کام کے متعدد لاجسٹگ کارروانوں کو حملوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

خانہ فرہنگ ایران لاہور میں علمائے اہلسنت و مشائخ  عظام نے ڈائریکٹر جنرل خانہ فرہنگ ایران جعفر روناس سے ملاقات کی۔ خانہ فرہنگ ایران لاہور میں مشائخ عظام اور اہلسنت  علمائے کرام  کے وفد نے ڈائریکٹر جنرل خانہ فرہنگ ایران جعفر روناس کو پاکستان میں خوش آمدید کہا۔ تلاوت قرآن کریم سے تقریب کا آغاز ہوا، پیر اختر رسول قادری، سجادہ نشین آستانہ عالیہ حق باہو والٹن لاہور نے تلاوت کی۔ اس کے بعد رضوان حسین نے نعت رسول مقبولﷺ پیش کی۔ دربار حضرت میاں میرؒ کے سجادہ نشین اور متولی پیر علی رضا شاہ گیلانی کا کہنا تھا کہ میں دربار عالیہ میاں میر سرکارؒ کا خدمتگزار ہونے کے ناطے آغا جان کو دوستوں کیساتھ پاکستان میں خوش آمدید کہتا ہوں۔ اس بزم کو سجانے میں شبیر احمد شگری کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے ہمیں دوبارہ اکھٹا کیا، ہماری خواہش ہے کہ یہاں پھر سے جشن اہلبیت کرام علیھم السلام، حسن قرات، تقریری مقابلوں کی محافل اور نمائشوں کی وجہ سے خانہ فرہنگ آباد ہو۔ یہاں موجود مشائخ اپنی اپنی جگہ بہترین مقام رکھتے ہیں اور ان میں سے ہر نفر کے پیچھے ہزاروں عقیدتمند موجود ہیں۔

امجد حسین چشتی جنرل سیکرٹری جمعیت علمائے پاکستان نیازی کا اس موقع پر کہنا تھا کہ ہم ڈائریکٹر جنرل خانہ فرہنگ ایران لاہور جعفر روناس کو پاکستان میں خوش آمدید کہتے ہیں۔ جب انقلاب اسلامی ایران آیا اور لوگوں نے امام خمینی ؒ کیخلاف باتیں کیں تو سب سے پہلے ہمارے قائد مولانا عبدالستار نیازی نے امام خمینیؒ کی حمایت کی، جو اس وقت ممبر اسبلی تھے۔ ہم قاسم سلیمانی کے چہلم کے موقع پر ایران گئے وہ صرف ایران کے نہیں ہر غیرتمند مسلمان کے لیڈر تھے۔ ہمارا یہ بھی مطالبہ ہے کہ پاک ایران گیس پائپ لائین کے منصوبے کو  بھی پورا کیا جائے۔ علمائے اہلسنت کونسل کے نائب صدر محمد حسین گولڑوی نے کہا کہ یہاں پر مشائخ عظام اور اتحاد بین المسلمین  کے قائدین موجود ہیں، ہم سب کی جانب سے ڈائریکٹر جنرل خانہ فرہنگ ایران لاہور جعفر روناس کو پاکستان اور شہر لاہور میں خوش آمدید کہتے ہیں۔ اس موقع پر محمد حسین گولڑوی نے پیر سید نصیر الدین نصیر کے فارسی میں خوبصورت اشعار اور نعتیہ کلام بھی پڑھا اور ساتھ ہی پیر مہر علی شاہ کے بارے میں بھی بتایا کہ وہ صرف صوفی نہ تھے بلکہ مدبر اور عالم دین بھی تھے، وہ شاعر ہفت زبان تھے اور ان کی فارسی کتاب "مجموعہ آغوش حیدر" تہران یونیورسٹی کے نصاب میں شامل ہے۔

جمعیت علمائے پاکستان نیازی کے چئیرمین معصوم حسین نقوی کا کہنا تھا کہ جمعیت علمائے پاکستان علما و مشائخ کی سب سے بڑی جماعت ہے، آج یہان موجود افراد سے آپ اندازہ لگا لیں کہ ہم آپ سے کتنا پیار کرتے ہیں اور جس طرح گزشتہ دور میں پروگراموں کا سلسلہ تھا اسے دوبارہ شروع کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم آپ کو خانہ فرہنگ کا ڈائریکٹر نہیں بلکہ امت مسلمہ کا سفیر بھی سمجھتے ہیں، اس لئے آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ خانہ فرہنگ ایران کے ڈائریکٹر جنرل  آقای جعفر روناس نے اس موقع پر  فرداً فرداً تمام علماء اور مشائخ کی آمد کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ میں یہاں روحانی اور عرفانی چہرے دیکھ کر خوش ہوا ہوں، خانہ فرہنگ آپ کا اپنا گھر ہے یہاں آپ کو دعوت دینے کی ضرورت نہیں۔ ان شاءاللہ یہ محافل اور ملاقاتیں جاری رہیں گی۔ رمضان المبارک کی آمد بھی نزدیک ہے اور میں آپ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ رمضان المبارک میں قرآنی محافل کے پروگرام بھی ہوں گے جن میں آپ بھی شرکت کریں۔

ڈائریکٹر جنرل خانہ فرہنگ کا مزید کہنا تھا کہ جمعتہ الوداع یوم القدس مسلمانوں کا اہم دن ہے جسے ہم سب کو بھرپور انداز میں منانا چاہیئے۔ تقریب میں علامہ اصغر عارف چشتی ترجمان مذہبی امور پاکستان تحریک انصاف مشائخ ونگ، مفتی سید عاشق حسین شاہ مہتمم دارالعلوم  فاطمۃ الزھرا سلام اللہ علیھا، پپیر امیر سلطان سجادہ نشین اوگالی شریف وادی سون، خوشاب پنجاب، سید مناظر حسین گیلانی، سید عقیل حیدر رابطہ سیکرٹری جمعیت علمائے پاکستان نیازی، اور ماہر امور فرہنگی شبیر احمد شگری موجود تھے۔ جنھوں نے ترجمان کے فرائض ادا کئے۔ تقریب کے آخر میں دعائے خیر کی گئی اور وحدت و یکجہتی کا اظہار کیا گیا۔

عرب میڈیا کے مطابق وزارت حج وعمرہ کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق شرائط وضوابط کا اطلاق یکم رمضان سے ہوگا۔

وزارت حج وعمرہ کا کہنا ہے کہ حرم شریف اور مسجد نبویﷺ میں کورونا ویکسین کی دونوں خوراکیں لگوانے والے ہی جاسکیں گے، ویکسین کی دونوں خوراکیں لگوانے والے حرمین میں عمرہ، زیارت اور نمازیں بھی ادا کرسکیں گے۔

سعودی وزارت حج کے مطابق عمرہ، زیارت اور نمازوں کی ادائیگی کے اجازت نامے مقررہ ایپس کے ذریعے ہی جاری کیے جائیں گے۔

وزارت حج وعمرہ کا کہنا ہے کہ نمازی مقررہ ایپس کی مدد سے مرضی کی تاریخ اور وقت کا تعین کرسکیں گے۔

بحرین الیوم کے مطابق بحرینی شیعہ عالم آیت‌الله عیسی قاسم نے عوام سے کہا کہ وہ آل خلیفہ کے قید میں موجود اسیروں کی رہائی کے لیے مظاہرہ جاری رکھیں۔
 
شیعہ رھنما نے کہا کہ دنیا کو معلوم ہونا چاہیے کہ مظلوم عوام اپنے حق کے لیے کس طرح سے میدان میں نکل آتے ہیں جبکہ وہ  مذہب، عقل اور ادب کے دائرے سے نکلتے بھی نہیں۔
 
انکا مزید کہنا تھا: جو انصاف رکھتا ہے ظلم برداشت نہیں کرتا وہ آپ پر جاری ظلم سے انکار نہیں کرسکتا وہ نہیں دیکھتا کہ آپ کے قیدی کورونا بحران میں اسیر ہیں۔ 
 
آیت‌الله عیسی قاسم نے کہا کہ عوام دائرہ ادب میں رہتے ہوئے اپنے حق کے لیے آواز بلند کریں اور مظاہروں میں املاک کو کسی طور نقصان نہ پہنچائیں۔
 
اس سے پہلے بھی  شیخ عیسی قاسم مظاہروں کو جاری رکھنے کی تاکید کرچکے ہیں۔
 
بحرینی عوام دو اپریل سے جیلوں میں بند اسیروں کی رہائی کے لیے سڑکوں پر نکل چکے ہیں جو کورونا بحران میں قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کررہے ہیں۔
 
گذشتہ رات بھی مختلف شہروں میں عوام نے قیدیوں کی رہائی کے لیے مظاہرے کیے۔/

 

 
اسپوٹنیک نیوز کے مطابق سعودی حکام نے رمضان المبارک کی آمد کے حوالے سے اتوار سے غلاف کعبہ کی مرمت، آرایش اور سجاوٹ کا کام شروع کردیا ہے ۔
 
پانچ روزہ غلاف کعبہ مرمت کے حوالے سے پروگرام میں سعودی ماہرین صحت اور دیگر اعلی حکام شریک ہیں۔
 
غلاف کعبہ کمیٹی کے انچارج فهد بن حضیض الجابرنے کہا کہ غلاف کعبہ کی دھلائی، گولڈن اور سونے کی تاروں سے سلائی اور سجاوٹ کا پروگرام شامل ہے۔
 
انکا کہنا تھاکورونا کے پیش نظر اس بار مرمت سازی میں ماہرین صحت کو خصوصی طور پر شامل کیا گیا ہے۔
 
ادارہ امور مسجدالحرام و مسجدالنبی کے مطابق رمضان میں خصوصی طور پر علمی مقابلوں کا اہتمام بھی «مناره الحرمین الشریفین» کے عنوان سے کی جارہا ہے.
 

 فلسطینی مزاحمتی تحریک جہاد اسلامی کے سیکرٹری جنرل زیاد النخالہ نے تاکید کی ہے کہ خطے کی مظلوم اقوام کی حقیقی مدد کے میدان میں ایران امت مسلمہ کے لیئے عملی نمونے کی حیثیت رکھتا ہے۔ الجہاد الاسلامی فی فلسطین کے سربراہ نے عرب نیوز چینل المسیرہ کے ساتھ بات چیت میں ایران و یمن کے ساتھ فلسطین کے گہرے تعلقات اور بعض عرب ممالک کی جانب سے غاصب و بچوں کی قاتل صیہونی رژیم کے ساتھ دوستانہ تعلقات پر سیر حاصل گفتگو کی اور مظلوم یمنی عوام پر ہونے والے سعودی حملوں کو ناجائز قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ حملے یمنی شہریوں کے خلاف سعودی شاہی رژیم کی کھلی جارحیت ہیں۔ انہوں نے یمن کے ساتھ استوار فلسطین کے دوستانہ تعلقات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مزاحمت اور پائیداری کے حوالے سے یمن فلسطین کا جڑواں بھائی ہے جس نے ہمیشہ سے مسئلہ فلسطین کی نہ صرف زبان بلکہ عمل سے بھی بھرپور مدد کی ہے۔

زیاد النخالہ نے اپنے انٹرویو کے دوران فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی پر مبنی بہادر یمنی عوام کے ملین مارچوں کو سراہا اور ان مظاہروں کو فلسطینی عوام کے لئے انتہائی پرافتخار قرار دیتے ہوئے کہا کہ یمن نے نہ صرف خود سعودی محاصرے میں رہتے ہوئے صیہونی محاصرے کی شکار فلسطینی قوم کی ہر موقع پر مدد کی ہے بلکہ اس ملک نے بے شمار بے گھر فلسطینی شہریوں کو بھی اپنے ملک میں پناہ دے رکھی ہے جن کے ساتھ یمنیوں جیسا ہی سلوک کیا جاتا ہے۔ جہاد اسلامی کے سربراہ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ہم یمن میں موجود فلسطینی عوام کے مسائل سے مسلسل خبردار رہتے ہیں جس کے سبب ہم نے فلسطینیوں کے بارے یمنی حکام کے احساس ذمہ داری کو بطور احسن درک کیا ہے۔ انہوں نے عرب ممالک کو مخاطب کرتے ہوئے تاکید کی کہ وہ جارح سعودی اتحاد کو یمن ملنے والی شکست سے عبرت حاصل کرتے ہوئے معصوم یمنی عوام کے خلاف جارحیت سے ہاتھ اٹھا لیں۔ زیاد النخالہ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ فلسطینی عوام کو توقع تھی کہ سعودی فوجی اتحاد غاصب صیہونی جارحیت کے مقابلے میں فلسطینی عوام کو تحفظ فراہم کرے گا نہ یہ کہ عالمی استعماری قوتوں کے اشارے پر مسلم یمنی عوام کے خلاف جارحیت شروع کر کے صیہونی بمباری تلے فلسطینی عوام کو تنہا چھوڑ دے گا۔

الجہاد الاسلامی فی فلسطین کے سربراہ نے اپنے انٹرویو کے آخری حصے میں مسئلہ فلسطین کو حاصل بھرپور ایرانی حمایت کی جانب اشارہ کیا اور کہا کہ اس وقت ایران کو درپیش تمام مسائل کی اصلی وجہ ایران کی جانب سے فلسطین کی کھلی حمایت اور صیہونی سازشوں کی کھلی مخالفت ہے۔ زیاد النخالہ نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ مظلوم فلسطینی قوم کی بڑھ چڑھ کر حمایت میں ایران امت مسلمہ کے لئے علی نمونہ ہے، کہا کہ رضا شاہ پہلوی کے دور میں بعض عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ ساتھ ایران کی بھی مکمل اطاعت کیا کرتے تھے جس سے ظاہر ہے کہ اس وقت ایران سے ان کی کھلی دشمنی کی اصلی وجہ اسلامی انقلاب کے بعد صیہونی مخالف ایرانی سیاست ہے۔ انہوں نے سعودی عرب کی ایران مخالف پالیسی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ سعودی شاہی رژیم بے گناہ یمنی شہریوں پر برسائے جانے والے بموں کے عوض عالمی دہشتگرد امریکہ کو اسلامی بیت المال سے اربوں ڈالر ادا کرتا ہے لیکن مظلوم فلسطینی عوام کی مدد کے لئے معمولی سی رقم بھی ادا کرنے کے حق میں نہیں۔

جاہليت سے مالا مال عالمي استکبار بہت بڑي غلطي ميں ہے کہ جو يہ خيال کرتا ہے کہ ايک عورت کي قدرو قيمت اور بلند مقام اِس ميں ہے کہ وہ خود کو مردوں کيلئے زينت و آرائش کرے تاکہ آوارہ لوگ اسے ديکھيں، اُس سے ہر قسم کي لذت حاصل کريں اور اُس کي تعريف کريں۔ مغرب کي انحطاط شدہ اورمنحرف ثقافت کي جانب سے ’’آزادي نِسواں‘‘ کے عنوان سے جو چيز سامنے آئي ہے اُس کي بنياد اِس چيز پر قائم ہے کہ عورت کو مردوں کي (حيواني اور شہوتي) نگاہوں کا مرکز بنائيں تاکہ وہ اُس سے جنسي لذت حاصل کرسکيں اور عورت ، مردوں کي جنسي خواہشات کي تکميل کيلئے ايک آلہ و وسيلہ بن جائے، کيا اِسي کو ’’آزادي نسواں‘‘ کہا جاتا ہے؟

 

جو لوگ حقيقت سے جاہل اور غافل مغربي معاشرے اور گمراہ تہذيب و تمدن ميں اس بات کا دعويٰ کرتے ہيں کہ وہ انساني حقوق کے طرفدار ہيں تو درحقيقت يہ لوگ عورت پر ظلم کرنے والوں کے زمرے ميں شمار ہوتے ہيں ۔

 

آپ عورت کو ايک بلند مرتبہ و مقام کے حامل انسان کي حيثيت سے ديکھئے تاکہ معلوم ہو کہ اُس کا کمال ، حق اور اس کي آزادي کيا ہے؟آپ عورت کوعظيم انسانوں کے سائے ميں پرورش پانے والے اور اصلاح معاشرہ کيلئے ايک مفيد عنصر کي حيثيت سے ديکھے تاکہ يہ معلوم ہو کہ اُس کا حق کيا ہے اور وہ کس قسم کي آزادي کي خواہاں ہے ( اور کون سي آزادي اُس کے انساني مقام ومنصب سے ميل کھاتي ہے)۔

 

آپ عورت کو ايک گھرانے اور خاندان کي تشکيل دينے والے بنيادي عنصر کي حيثيت سے اپني توجہ کا مرکز قرار ديں۔ درست ہے کہ ايک مکمل گھرانہ مرد اور عورت دونوں سے تشکيل پاتا ہے اور يہ دونوں موجود خاندان کي بنياديں رکھنے اور اُس کي بقا ميں موثر ہيں، ليکن ايک گھرانے کي آسائش اور آرام و سکون عورت کي برکت اور صنفِ نازک کے نرم و لطيف مزاج کي وجہ ہي سے قائم رہتا ہے-

 

اس زاويے سے عورت کو ديکھئے تاکہ يہ مشخص ہو کہ وہ کس طرح کمال حاصل کرسکتي ہے اور اُس کے حقوق کن امور سے وابستہ ہيں۔

 

اہل يورپ نے جديد ٹيکنالوجي کو حاصل کرنا شروع کيا اور انيسويں صدي کے اوائل ميں مغربي سرمايہ داروں نے جب بڑے بڑے کارخانے لگائے اور جب اُنہيں کم تنخواہ والے سستے مزدوروں کي ضرورت ہوئي تو انہوں نے ’’آزادي نسواں‘‘ کا راگ الاپنا شروع کرديا تاکہ اِس طرح خواتين کو گھروں سے نکال کر کارخانوں کي طرف کھينچ کر لے جائيں، ايک سستے مزدور کي حيثيت سے اُس کي طاقت سے فائدہ اٹھائيں، اپني جيبوں کو پُرکريں اور عورت کو اُس کے بلند مقام و مرتبے سے تنزُّل ديں۔ مغرب ميں آج جو کچھ ’’آزادي نسواں‘‘ کے نام پر بيان کيا جارہا ہے ، اُس کے پيچھے يہي داستان کار فرماہے ،يہي وجہ ہے کہ مغربي ثقافت ميں عورت پر جو ظلم و ستم ہوا ہے اور مغربي تمدن و ادب ميں عورت کے متعلق جو غلط افکار و نظريات رائج ہيں اُن کي تاريخ ميں مثال نہيں ملتي۔

ے شک دور حاضر میں مسلمانوں کے درمیان اتحاد کی اشد ضرورت ہے۔ ہم تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ اپنے جزئی اختلافات کو ہوا نہ دیکر کلی مشترکات کی بنیاد پر متحد رہیں، انھیں مشترکات میں سے ایک مہدی موعود کا انتظار ہے۔ مقالہ ھذا میں اسی بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ کس طرح ہم آپ کے انتظار کی بنیاد پر متحد ہوسکتے ہیں۔

جسد ملت میں فرقہ پرستی اور تفرقہ پروری کا زہر اس حد تک سرایت کرچکا ہے کہ نہ صرف اس کے خطرناک مضمرات کا کما حقہ احساس و ادراک ہر شخص کے لئَے ضروری ہے بلکہ اس کے تدارک اور ازالہ کے لئَے مؤثر منصوبہ بندی کی بھی اشد ضرورت ہے۔
ہمارے گردوپیش تیزی سے جو حالات رونما ہورہے ہیں، انکی نزاکت اور سنگینی اس امر کی متقاضی ہے کہ ہم نوشتہ دیوار پڑهیں اور اپنے درمیان سے نفرت، بغض ، نفاق اور انتشار و افتراق کا خاتمه کر کے باہمی محبت و مودت، اخوت و یگانگی، یک جہتی اور اتحاد بین المسلمین کو فروغ دینے کی ہر ممکنہ کوشش کریں کیونکہ اسی میں ہماری بقاء اور فلاح و نجات مضمر ہے۔
چنانچہ ارشاد خداوندی ہے، “وَ لا تَكُونُوا كَالَّذينَ تَفَرَّقُوا وَ اخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ ما جاءَهُمُ الْبَيِّناتُ وَ أُولئِكَ لَهُمْ عَذابٌ عَظيمٌ” اور خبردار ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائو کہ جنهوں نے تفرقہ ایجاد کیا اور واضح نشانیوں کے آجانے کے بعد بھی اختلاف کیا، ان کے لئے عذاب عظیم ہے. [۱]
اس آیت میں خداوند عالم مسلمانوں کو حکم دے رہا ہے کہ ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائو جنھوں نے اپنے دین کو فرقہ فرقہ میں بانٹ دیا، اس سے مراد یہودی اور عیسائی ہیں [مجمع البیان ج۲ ص۸۰۷] آپس میں اختلاف کرانا یہودیوں اور عیسائیوں کا پرانا طریقہ ہے کہ یہودی، جناب موسی کے بعد ۷۱ فرقوں میں ہوگئے اور عیسائی، جناب عیسی کے بعد ۷۲ میں، قیامت یہ ہے کہ مسلمان اتنی ہدایت کے باوجود ۷۳ فرقوں میں تقسیم ہوگئے، تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ جن اسباب کی بناء پر یہودیوں پر عالمگیر تباہی کے سائے مسلط کردیئے گئے تھے اگر وہی اسباب امت مسلمہ میں جمع ہوگئے تو پھر یہ بات یقینی ہے کہ ویسی ہی بلکہ اس سے بھی بڑھ کر تباہی امت مسلمہ کا مقدر بن سکتی ہے۔
حقیقت امر یہ ہے کہ دور حاضر میں یہود و نصاری اپنے مذہب کے  کلی اختلافات  کے باوجود متحد ہیں لیکن مسلمان اپنے مذہب کے کلی مشترکات  کے باوجودبھی متفرق ہیں۔
اگر تاریخ ادیان کا بغور مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ مسلمانوں کے اتحاد کے لئے بہت سے محور موجود ہیں جیسے وحدانیت خدا، رسالت، کعبہ، قبلہ اور  انھیں میں ایک انتظار مہدی موعود ہےجن پر تمام مسلمان متحد ہوسکتے ہیں ۔
 عقیدہ مہدویت مسلمانوں کے درمیان  صدر اسلام سے مشہور ہے اور پیغمبر اکرم نے متعدد مرتبہ امام مہدی (عج) کے وجود کی خبر دی ہے اور امام مہدی کی حکومت ، اسم ،کنّیت کو بھی بیان فرمایا ہے ، اسکے علاوہ آپ کے انتظار کی فضیلت ، اصحاب کی خصوصیات اور آخری زمانے کی حالت کو مشخص فرمایا ہے، جس کے لئے آپ اسی سائٹ پر دوسرے مقالات کا مطالعہ فرما سکتے ہیں مقالہ کی تنگی کی بناء پر انھیں یہاں ذکر نہیں کیا جاسکتا ہے۔[۲]
 لیکن قابل غور بات یہ  ہے کہ مہدویت کا عقیدہ تمام مسلمانوں کے درمیان موجود ہے، ممکن ہے کوئی جزوی فرق ہو (اور جزوی فرق بھی امام زمانہؑ کی پیدائش کے متعلق ہے جسے بہت سے علماء اہل سنت قبول کرتے ہیں کہ امام کی پیدائش ہو چکی ہے ،[۳])لیکن عقل کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ ایک انسان عاقل، کلی کو چھوڑ کر جزوی پر جھگڑا کرے، جبکہ مسلمانوں کے قسم خوردہ دشمن اپنے مسیح کے انتظار اور ان کے لئے زمین ہموار کرنے کے لئے کلی اختلافات کو چھوڑ کر جزوی پر اتحاد کئے ہوئے  ہیں ۔مثلا  دنیا میں ۱۹ اور۲۰ صدی میں یهود او ر مسیحي، دونوں اپنی دیرینه دشمنی کے باوجود اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ منجی“مسیحا ”کے ظهور کے لئے سیاسی سطح پر زمین ہموار کرنے اور سیاسي پشتپناہی کے طور پر ایک مشترکه حکومت جو صھونیزم کی بنیاد پر قائم ہو، وجود میں لائی جاۓ– اور اس سیاسی طرز فکر کے نتیجہ  میں اسرائیلی غاصب حکومت فلسطینیون کے آبائی سر زمین پر وجود میں لائی گئی  اور اسی نظریہ کے پیچھے آمریکا و یورپی ممالک کے سینکڑون کنیسا اور مسیحی تنظیموں نے اسرائیل کے جارحانه مظالم اور غاصب حکومت کی حمایت بھی کی.
سن ۱۹۸۰ ء میں انٹرنیشل  ام. بی. سی .اف .”کرچچن “قدس میں تاسیس هوئی جسکا اصلی هدف کچھ اس طرح  بتایا گیاہے  “هم إسرائیلیوں سے زیاده صھونیزیم کے پابند هیں اور قدس وہ شہر هے جس پر اﷲ تعالی نے اپنا خاص کرم کیا هے اور اسے تا ابد اسرائیلیوں کے لیے مخصوص کر رکھا هے– اس کرچچن سفارت کے اراکین کا یه عقیده هے،اگر اسرائیل نهیں  هے تو “جناب مسیح” کی بازگشت کا کوئی امکان نہیں  هے چنانچه اسرائیل کا وجود مسیح منجي عالم کےلیے ضروری هے ۔[۴]
تو جب یھود اور نصاری عقیده انتظار کے سیاسي پهلو کے پرتو میں اپنی دیرینه دشمنیوں کو بھولا کر اسلام اور مسلمین کے خلاف ایک غاصب حکومت وجود میں لا سکتے  هیں، تو کیاهم مسلمانوں کو نهیں چاہئے کہ خود ساخته اور بناوٹی  اختلافات کو بالائے طاق رکھکر اور ایک پلٹ فارم پر جمع هو کر اس آفاقی الهی نظام کے لیے ماحول سازی کریں۔
  ایسے نظام کو عالمي سطح پر وجود میں  لانے کیلیے، انتظار کے سیاسي پهلو پر کام کرنے کی اشد ضرورت هے تاکه خود بخود إصلاحی تحریک شروع هو جاۓ اور رفته رفته پوری دنیا کو اپنے لپیٹ میں لے لے، إسلامی جمهوري ایران کا انقلاب، اس حقیقت پر ایک واضح  دلیل هے که جسے امام خمینی(رحمۃ اللہ علیہ) اور ایراني قوم نے انتظار کے سیاسي پهلو پر عمل کرتے هوۓ اُس آفاقي الهي نظام کے مقدمے کے طور پر اسلامی قوانین پر مبنی، اسلامي جمهوریت کو وجود میں لائے  هیں اور اُمید هے که دنیا کے دوسرے مسلمان بھی بیدار هو جائیں اور اس بابرکت إصلاحی قدم سے قدم ملاتے ہوئے، عصر ظھور کے لیے ماحول فراهم کرنے میں شریک بنیں، انشاء اﷲ وعده  إلهي کا تحقق نزدیک هو گا –

ایرانی حکومت کے ترجمان علی ربیعی ویانا میں ایران اور گروپ 1+4 کے درمیان مذاکرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ویانا میں ایران اور امریکہ کے درمیان مذاکرات انجام پذير نہیں ہوں گے۔

انھوں نے کہا کہ ویانا اجلاس میں مشترکہ ایٹمی معاہدے میں واپس آنے اور اس پر عمل کرنے کے بارے میں تبادلہ خیال کیا جائےگا، لیکن اس اجلاس میں امریکہ اور ایران کے درمیان براہ راست یا غیر مستقیم مذاکرات کا کوئی پروگرام نہیں ہے۔ ربیعی نے کہا کہ مشترکہ ایٹمی معاہدے میں واپس آنے کے لئے ضروری ہے کہ امریکہ تمام غیر قانونی پابندیوں کو ختم کردے اور بین الاقوامی قوانین کا احترام کرتے ہوئے مشترکہ ایٹمی معاہدے میں واپس آجائے۔ انھوں نے کہا کہ ویانا اجلاس میںم شترکہ ایٹمی معاہدے پر عمل کے سلسلے میں تبادلہ خیال کیا جائےگا۔ ایران اور امریکہ کے نمائندوں کے درمیان کسی قسم کے مذاکرات نہیں ہوں گے۔