
سلیمانی
ایران اور چین کے درمیان 25 سالہ معاہدہ خطے کے لئے بہت ہی اہم اور مفید
پاکستان کے سینیٹر اور سینیٹ کی بین الاقوامی امور کی کمیٹی کے سربراہ مشاہد حسین سید نے ایران اور چین کے درمیان 25 سالہ معاہدے کو خطے کے لئے بہت ہی مفید اوراہم قراردیا ہے۔ مشاہد حسین سید نے سحر ٹی وی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں تیزی کے ساتھ تبدیلی رونما ہورہی ہے اور قدرت و طاقت کا توازن مغرب سے مشرق کی طرف منتقل ہورہا ہے۔ مشاہد حسین سید نے ایران اور چین کے درمیان 25 سالہ معاہدے کو خطے کے لئے مفید اور اہم قراردیتے ہوئے کہا کہ ایران اور چین کے پاکستان کے ساتھ دیرینہ، گہرے اور دوستانہ تعلقات ہیں اور چین اور ایران کے درمیان معاہدے پر پاکستان کوخوشی ہے ۔ مشاہد حسین سید نے امریکہ کی طرف سے چین کا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں اس قسم کے خصوصی اقتصادی متبادل منصوبے کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ اندرونی اور بیرونی سطح اضمحلال کا شکار ہے اور اس کے پاس نہ چين جیسی پالیسی ہے اور نہ ہی چین جیسے وسائل اور امکانات ہیں اور بیشک 21 ویں صدی ایشیاء کی صدی قرار پائے گي ۔
ایٹمی معاہدہ میں مرحلہ وار نہیں مکمل واپسی
ایران کے اس باخبر ذریعے اور اعلیٰ عہدیدار نے کہا ہے کہ بین الاقوامی ایٹمی معاہدے کے مشترکہ کمیشن کا کوئی بھی ایسا فیصلہ جو ایران کے خلاف امریکی پابندیاں رفتہ رفتہ ختم اور امریکہ کے ساتھ بالواسطہ طور پر مذاکرات پر مبنی ہوگا، قبول نہیں کیا جائے گا۔ ایران کے خلاف رفتہ رفتہ امریکی پابندیاں ہٹائے جانے سے متعلق ایٹمی معاہدے کے مشترکہ کمیشن کے بیان پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے تہران نے صراحت کے ساتھ اعلان کیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران ایسا کوئی منصوبہ قبول نہیں کرے گا، جس میں امریکی پابندیاں رفتہ رفتہ ہٹائے جانے کی بات رکھی جائے گی اور نہ ہی ایران امریکا سے کسی طرح کے مذاکرات انجام دے گا۔ دوسری جانب ایران کے نائب وزیر خارجہ نے امریکی پابندیوں کی منسوخی کو ایٹمی سمجھوتے کی بحالی کے لئے پہلا قدم قرار دیا ہے۔ ایران کے نائب وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے جو اس اجلاس میں ایرانی وفد کی سربراہی کر رہے تھے، ایک بار پھر ایران کے اصولی موقف کی وضاحت کی اور امریکی پابندیوں کی منسوخی کو ایٹمی سمجھوتے کی بحالی کی سمت پہلا قدم قرار دیا۔
سید عباس عراقچی نے کہا کہ ایران پابندیاں منسوخ ہوتے ہی ان تمام اقدامات کو روک دے گا، جو اس نے پابندیوں کی تلافی کے طور پر شروع کئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایٹمی سمجھوتے میں امریکہ کے واپس آنے کے لئے کسی گفتگو یا مذاکرات کی ضرورت نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ امریکہ جس طرح سمجھوتے سے باہر نکلا ہے، اسی طرح وہ ایٹمی سمجھوتے میں واپس آسکتا ہے اور جس طرح اس نے ایران کے خلاف غیر قانونی پابندیاں لگائی ہیں، اسی طرح انہیں ختم کرسکتا ہے۔ ایران کے ایٹمی توانائی کے ادارے کے سربراہ علی اکبر صالحی نے بھی جوہری معاہدے میں تعطل کے دور ہونے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب جوہری معاہدے میں گفتگو تکنیکی مرحلے میں داخل ہوگئی ہے اور ماضی جیسی صورتحال اب نہیں رہی، جس سے دکھائی دیتا ہے کہ تعطل دور ہونے والا ہے اور یہ ایک خوش آئند بات ہے۔ چنانچہ سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ، ایران کے خلاف پابندیوں اور زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کی اپنی شکست خوردہ پالیسیوں سے دستبردار ہونے پر تیار ہے۔؟؟
ایٹمی معاہدے کے مشترکہ کمیشن کے بارے میں ایران کے ردعمل کو دو زاویوں سے پرکھا جا سکتا ہے۔ پہلا زاویہ یہ ہے کہ ایران ایٹمی معاہدے کا حصہ ہے اور یہ معاہدہ ایک بین الاقوامی اور چند فریقی معاہدہ ہے، لہذا اس میں شریک تمام اراکین کے حقوق مساوی ہیں۔ اس معاہدہ کی دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس معاہدے کی عالمی ادارے سلامتی کونسل نے بھی قرار داد نمبر 2231 میں تائید کی ہے۔ ایران کی خواہش ہے کہ یہ معاہدہ جو اب ایک بند گلی میں پہنچ گیا ہے، اسے نتیجہ خیز بنائے۔ امریکہ نے ایک یکطرفہ فیصلہ کرکے اپنے آپ کو اس معاہدے سے نکال لیا ہے اور اس معاہدے کی روشنی میں ایران پر جو پابندیاں ختم ہوگئی تھیں، نہ صرف انہیں دوبارہ بحال کر دیا ہے بلکہ نئی پابندیاں عائد کرکے دوسرے ممالک پر بھی دبائو بڑھا رہا ہے۔
ایران نے عالمی جوہری معاہدے سے ہٹ کر کچھ اقدامات رضاکارانہ بنیادوں پر انجام دیئے تھے۔ اس عالمی معاہدے کی شق 26 اور 36 معاہدے کے شریک فریقوں کو اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ اگر کوئی فریق معاہدہ کی تمام شقوں پر عمل درآمد نہ کر رہا ہو تو وہ بعض شقوں پر عمل درآمد روک سکتا ہے۔ ایران نے بھی انہی شقوں کی روشنی میں معاہدے کی بعض شقوں پر عملدرآمد روک دیا ہے۔ بہرحال امریکہ نے معاہدے سے خارج ہو کر اور ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کرکے معاہدے کی خلاف ورزی کا ارتکاب کیا ہے اور اس کا واحد اور منطقی حل یہی ہے کہ وہ معاہدے میں واپس آجائے اور معاہدے کی تمام شقوں پر عمل کرے۔ اسی لیے تو رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے فرمایا ہے کہ ایران اس وقت ایٹمی معاہدے کی شقوں پر عمل کرے گا، جب امریکہ تمام پابندیوں کے خاتمے کو نہ صرف کاغذ پر بلکہ عملی طور پر ختم کرے گا نیز ان پابندیوں کے خاتمے کو ایران کے سامنے باقاعدہ جائزے اور تحقیق کے لیے پیش کیا جائے گا۔
امریکہ اور اسرائیل زوال اور نابودی کے دہانے پر/ یمن کی جنگ کا شیعہ سنی سے کوئی تعلق نہیں: سید حسن نصر اللہ
سید حسن نصراللہ نے بدھ کی شام شیخ القاضی احمد الزین کی برسی کے پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت استقامت کا محاذ اپنی تاریخ کے سب سے دشوار اور خطرناک مرحلے کو پیچھے چھوڑ چکا ہے اور اس نے خطروں کے مقابلے میں سنجیدہ اقدامات انجام دیے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ استقامتی محاذ نے اپنی صلاحیتوں کی تقویت کی ہے اور اسرائيلی، استقامت کے محاذ کی بڑھتی ہوئي طاقت سے سخت ہراساں ہیں اور جنگ کی دھمکی دے رہے ہیں جبکہ وہ جنگ سے سخت خوفزدہ ہیں۔
حزب اللہ لبنان کے سیکٹریٹری جنرل نے یمن میں امن مذاکرات کے بارے میں کہا کہ فریبی میڈیا، سعودی عرب کو مظلوم دکھانے کی کوشش کر رہا ہے اور یہ ظاہر کر رہا ہے کہ آل سعود امن کے خواہاں ہیں اور انصاراللہ امن کی پیشکش کو مسترد کر رہا ہے لیکن یمن میں جنگ کے بارے میں سعودی عرب کی نئي تجویز، یمن کے خلاف نئي میڈیا وار کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یمن کے لوگ سیاست اور عقلمندی میں کافی آگے ہیں اور انھیں سیاسی فریب نہیں دیا جا سکتا۔ سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ یمن کے محاصرے کے خاتمے کے بغیر فائر بندی کا مطلب یہ ہے کہ جارح افواج اس بات کی کوشش کر رہی ہیں کہ جو چیز وہ جنگ کے میدان میں حاصل کرنے میں ناکام رہی ہیں اسے سماجی دباؤ کے ذریعے حاصل کر لیں۔
حزب اللہ لبنان کے سیکریٹری جنرل نے کہا کہ یمن کے خلاف جنگ کا شیعہ سنی فرقوں سے کوئي تعلق نہیں ہے بلکہ یہ جنگ امریکہ کی خدمت اور خطے میں اس کی سازشوں کے تناظر میں شروع کی گئی ہے اور امریکی و صیہونی محاذ کے ترکش میں باقی بچا آخری تیرخطے میں فتنہ انگیزی اور یہاں جاری جنگوں کو فرقہ وارانہ رنگ دینا ہے۔
سید حسن نصراللہ نے کہا کہ صیہونی - امریکی محاذ بدستور نیل سے فرات تک کے خواب کو عملی جامہ پہنانا چاہتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ مسئلہ فلسطین کی حقانیت واضح اور ناقابل انکار ہے۔
حزب اللہ لبنان کے سربراہ نے کہا کہ ہر انصاف پسند کو ایران کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ شام کی جنگ کو دس سال کا عرصہ گزرنے کے بعد شامی عوام کے سامنے اس عالمی جنگ کے حقائق روز بروز مزید کھل کر سامنے آرہے ہیں۔
سنہری مسجد – لاهور ، پاکستان
پاکستان کے شھر لاھور میں سنھری مسجد کو اسلامی دنیا کی سب سے بہترین مساجد میں شمار کیا جاتا ہے۔
یہ خوبصورت مسجد لوگوں کے درمیان سنھری مسجد کے نام سے مشھور ہے، اور لاھور کے مشھور “کشمیری بازار ” کے وسط میں واقع ہے۔
یہ مسجد ۱۷۵۳ میں نواب میر سید خان جو کہ ادب، دین اور ھنر کے دلدادہ تھے نے تعمیر کی ہے ، مسجد کی چھت پر تین سھنرے گںبد سجائے گئے ہیں اور اسی وجہ سے اس مسجد کا نام سنھری مسجد رکھا گیا ہے۔
اس مسجد کے چاروں طرف ۵۴ میٹربلند چار مینار ہیں۔ جہاں سے پرانے زمانے میں جنگ کے ایام میں دیدہ بانی کا انجام دیا جاتا تھا، اس مسجد کی اندرونی دیواریں اور چھت کندہ کاری کے ذریعے پھولوں اور خوبصورت پودوں سے سجائے گئے ہیں۔
پنجاب میں سکھوں کے دور حکومت میں اس مسجد کو گوردوارہ میں تبدیل کیا گیا ، اور اس کے اطراف میں واقع بازار پر بھی سکھوں نے اپنا قبضہ جمایا۔
اس کے بعد دوبارہ مسجد کو واپس حاصل کیا ۔ لیکن اس کے اردگرد بازاروں پر سکھوں کا قبضہ جاری رہا ۔ البتہ حاکم نے اس شرط پر مسجد واپس کی کہ مسجد سے اذان کی آواز باہر سنائی نہ دی جائے۔
ھندوستان پر انگریزوں کی حکومت نے اس مسجد اور اس کے اردگرد بازاروں کو مسلمانوں کو واپس دیںے اور اس مسجد کی مناروں سے اذان کہنے کی اجازت دی تاکہ وہ مسلمانوں سے نزدیک ہوجائیں۔
اس مسجد کی بہترین معماری کے علاوہ ایک اور خصوصیت صوفیہ حضرات کے مختلف محافل کا انعقاد ہے ، جو محافل بہت سے لوگوں کو اپنی جانب جذب کرتی ہے
دشمن خواب میں بھی ایرانی قوم سے جنگ کا نہیں سوچ سکتا، جنرل سلامی
سردار حسین سلامی نےصوبہ یزد کے شہداء کی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یزد دارالعلوم اور دارالفقہ ہے اور یہ شہر ایسے جوانوں کا مسکن ہے جو ہمیشہ قوم کو پیش آنے والے امتحانات میں سرخرو رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یزد اسلامی فنون لطیفہ اور فن تعمیر کی سرزمین ہے جسے دار الفنون بھی کہا جاسکتا ہے۔ یزد روحانیت، اخلاقیات اور جذبات کی سرزمین ہے اور یہ 4000 شہداء اس بات کو ظاہر کرنے کے لئے کافی ہیں کہ اس سرزمین نے اسلام، اہل بیت اور ولایت کی خاطر ہمیشہ قربانی دی اور راستے کے ساتھ وفاداری کی اور اہل یزد ایران، ایران کی عزت و اقتدار اور استقلال وطن کے محافظ ہیں۔
ایران چائنہ معاہدہ امریکہ کو بڑا جھٹکا
اب دنیا نے اس کو چیلنج کرنا شروع کر دیا ہے، انسانیت اس سے تنگ آچکی ہے۔ ہر قوم کا اپنا طرز زندگی ہوتا ہے، وہ اس کے مطابق اپنے مسائل کو حل کرنا چاہتی ہے، امریکی نظام اس کی اجازت نہیں دیتا۔ وہ ہر ایک سے یہ تقاضا کرتا ہے، اس کے نظام میں ڈھل جاو تو ٹھیک ہے، ورنہ سخت دنوں کے لیے تیار ہو جاو۔ امریکہ کے اس نظام کو بھی آزاد اقوام نے چیلنج کرنا شروع کر دیا ہے اور آج کی دنیا بھی چالیس سال پہلے والی دنیا نہیں ہے۔ ایشیا میں دنیا کی بڑی معیشتیں پنپ رہی ہیں اور بڑی تیزی سے وسائل پیدا کر رہی ہے۔ اب تو صورتحال یہ ہے کہ آزاد تجارت کے نعرے لگانے والے ٹیکسوں کی بھرمار کر رہے ہیں اور چیزوں کی درآمد و برآمد میں مسائل پیدا کر رہے ہیں۔ آزاد تجارت کا نعرہ تب تک درست تھا، جب تک غریب ممالک کے وسائل کا خون چوس رہا تھا، جب اس کے مقابل چینی معیشت نے مسابقت دکھانی شروع کی اور وسائل کا رخ چین کا طرف ہونے لگا تو مسائل گھڑے کئے جانے لگے ہیں اور ان کے خلاف بی بی سی، سی این این اور فوکس نیوز پر ہر تیسرے دن کوئی فرضی کہانی آئی ہوتی ہے۔
چینی وزیر خارجہ وانگ ای اور ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے ایک تاریخی معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ یہ معاہدہ خطے میں تجارت و معیشت سے لے کر سکیورٹی تک کی صورتحال تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی ایران کی طرف سے معاہدے کے لیے ایرانی پارلیمنٹ کے سابق سپیکر علی لاریجانی کو اپنے نمائندے کے طور پر نامزد کیا گیا تھا۔ پہلے یہ معاہدہ دس سال کے لیے کیا جانا تھا، مگر اب اس کی مدت کو پچیس سال تک بڑھا دیا گیا۔ اس معاہدے کی بنیاد چائنہ کے صدر کے 2016ء کے دورہ ایران کے موقع پر رکھی گئی، پھر فائیو پلس طاقتوں کے ساتھ معاہدے اور دیگر وجوہات سے یہ پس منظر میں چلا گیا، مگر ایرانی اور چینی قیادت اس پر مسلسل کام کر رہی تھی۔ اب اس معاہدے کا اعلان کیا گیا ہے اور دنیا بھر میں یہ موضوع بحث بن چکا ہے۔
اس معاہدے میں فوجی تربیت و مشقیں، ہتھیاروں کی تیاری اور اس سے متعلق تحقیقات میں تعاون، خفیہ معلومات کا تبادلہ، انسانی سگلنگ، ائرپورٹ، ہائی سپیڈ ٹرین، سب ویز، فری ٹریڈ زونز اور فائیو جی نیٹ ورک کا قیام شامل ہے۔ فائیو جی اور انٹرنیٹ کی چائییز نظام میں منتقلی سے سائبر سے متعلقہ معاملات میں مغرب پر انحصار ختم ہوگا۔ آج کی دنیا میں اصل جنگ سائبر کی دنیا میں لڑی جا رہی ہے اور مغرب اس پر اپنی اجارہ داری قائم کیے ہوئے ہیں۔ ایسے میں بہت ضروری ہوگیا ہے کہ ایشیائی ممالک اس میں بھی خود انحصاری کی طرف بڑھیں۔ امریکی اخبار نیو یارک پوائنٹ کا تجزیہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے:
the partnership would create new and potentially dangerous flash points in the deteriorating relationship between China and the United States اس شراکت داری سے چین اور امریکہ کے درمیان بگڑتے ہوئے تعلقات میں نئے اور ممکنہ طور پر خطرناک فلیش پوائنٹ کا اضافہ ہوگیا ہے۔
امریکہ خطے میں اپنی کٹھ پتلیوں کے ذریعے خطے کے وسائل کی لوٹ مار جاری رکھنا چاہتا ہے۔ امریکہ کو اب یہ بات سمجھ لینی چاہیئے کہ دھمکیاں اور پابندیاں قوموں کی دشمنیاں ہی لاتی ہیں، ان سے کبھی بھی خیر برآمد نہیں ہوتی۔ امریکی اداروں میں پسماندہ ممالک میں مداخلت کرکے من پسند افراد کو نوازنے کی غلط روایت موجود ہے، جس کا خمیازہ ان ممالک کو بھگتنا پڑتا ہے۔ امریکہ کو اب یہ بات سمجھ لینی چاہیئے کہ یہ تعاون اور باہمی مفادات کے تحفظ کا دور ہے، یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ اپنے مفادات کا تحفظ کریں اور دیگر اقوام کے ساتھ تیسرے درجے کا سلوک جاری رکھیں۔ معاشی دباو کی پالیسی کے نتائج آپ کے سامنے ہیں، اس نے آپ کے دوستوں میں کمی کی ہے اور دشمنوں میں اضافہ کیا ہے۔
چینی وزیر خارجہ ایران آنے سے پہلے سعودی عربیہ اور ترکی کا دورہ کرچکے ہیں اور ایران کے بعد عرب امارات، بحرین اور عمان کے لیے روانہ ہوں گے۔ یہ چائینہ کی اقتصادی سفارتکاری کے جارحانہ اظہار کا موقع ہے۔ چائنہ بڑی تیزی سے خظے میں اقتصادی رابطے کے لیے انفراسٹکچر پر کام کر رہا ہے۔ ون بیلٹ منصوبے میں چائینہ خلیجی ممالک کو شامل کرنا چاہتا ہے۔ چائینہ کے وزیر خارجہ نے پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ چائینہ کے خطے کے ممالک اور ایران میں بات چیت کرا سکتا ہے۔ اس معاہدے سے چار سو ارب ڈالر کی انویسمنٹ آئے گی، جہاں ایران کے داخلی مالی مسائل درست ہوں گے، وہیں یہ معاہدہ مڈل ایسٹ میں طاقت کے توازن کو تبدیل کرنے جا رہا ہے۔ یہ معاہدہ امریکی مقاصد پر کاری ضرب ہے، امریکہ یہ چاہتا تھا کہ ایران تنہائی کاشکار ہو جائے اور مالی مجبوریاں اسے امریکہ کے پاس لوٹنے پر مجبور کر دیں، مگر اس کے برعکس ہوا ہے، ایران مالی طور پر مزید مستحکم ہونے جا رہا ہے۔
شہداء کا پیغام خوف اور ناامیدی سے محفوظ رہنا ہے، آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے صوبہ یزد کے چار ہزار شہداء کی یاد میں منعقدہ کانفرنس کمیٹی کے اراکین سے ملاقات کی۔ اس اجلاس میں آیت اللہ خامنہ ای نے شہدائے یزد کانفرنس کے خوبصورت اور نئے انداز میں منصوبہ بندی جیسے پروگراموں کی تعریف کی جن میں شہداء کے نام پر پودے لگانا، جہیز کا اہتمام، مفت علاج، روزگار معاش اور ثقافتی پیکیج تیار کرنا اور قرآن خوانی وغیرہ جیسے پروگرامز شامل ہیں۔ آپ نے کہا کہ اہل یزد نے دفاع مقدس کےدوران بھی پانی کی کھدائی کے فن کا استعمال کرتے ہوئے زیرزمین نہروں کی کھدائی کرنا یا متعدد سلائی مرکز بنانا اور مجاہدین کو لباس مہیا کرنے میں خواتین کی شرکت وغیرہ جیسے نئے نئے منصوبہ انجام دیئے ہیں۔
رہبر انقلاب نے شہدا کے پیغام کو زندہ رکھنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ شہدا عالم برزخ میں ایک خاص زندگی کے حامل ہیں اور ان کے راستے پر چلنے والوں کے لئے ان کا اہم پیغام خوف اور نا امیدی سے محفوظ رہنے کی بشارت ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے اس پُر امید پیغام کو دنیا طلب لوگوں کے فتنوں کا مقابلہ سمجھا اور مزید کہا کہ شہداء کے میدان جہاد میں حاضر ہونے کا مقصد جو خود شہدا کے وصیت ناموں میں ذکر ہوا ہے انقلاب کی حمایت، امام خمینی کی حمایت کا اعلان، حجاب، دشمن کی شرارت کا خاتمہ اور نظام کو اس کے اہداف کے حصول کے نزدیک کرنا تھا کہ ہمیں اس بات کی طرف متوجہ رہنا چاہئے کہ کچھ لوگوں کے ذریعہ ان نظریات کی تردید یا تحریف نہ ہو۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے نوجوانوں کو انقلاب کے راستے سے مایوس کرنے یا انہیں پیچھے ہٹانے کے لئے دشمن کی مستقل منصوبہ بندی کا ذکر کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ اس بات کی اجازت نہیں دینی چاہئے کہ دشمن اپنے فتنہ کیلئے نوجوانوں کو متاثر کر سکتے اور ان کو اپنا آلہ کار بنائے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے شہداء کے والدین اور ہمسران کی یادداشتوں کو محفوظ کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس خاندان اور خاندان کی خصوصیات جنہوں نے اپنے اعلی حوصلہ افزائی اور ایمان کے ساتھ اپنے بچوں کی اس انداز میں پرورش کی اسے محفوظ کیا جانا چاہئے۔
آخر میں رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوریہ کے سائے میں کام کرنے والے ایسے لوگوں پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ جو شہدا اور مجاہدین کی مجاہدت اور کی برکت سے اسلامی جمہوریہ کے زیر سایہ سلامتی اور آزادی کے ساتھ زندگی گذار رہے ہیں لیکن ان پاک شہدا کے مقاصد کے برخلاف فعالیت کر رہے ہیں۔ آپ نے کہا کہ ایسی کوششوں اور سازشوں کا مقابلہ کرنے کیلئے شہداء کے راستے پر اور حق کی خاطر (ہمیں بھی) اپنی کوششوں، فعالیت اور کام کو دو برابر کرنے کی ضرورت ہے۔
15 شعبان، یوم مستضعفین جہان
پندرہ شعبان کو اسلامی تاریخ میں منفرد حیثیت حاصل ہے۔ اہل اسلام کے مختلف فرقے اور مسالک اس دن کو اپنے اپنے عنوان سے مناتے ہیں۔ شب برات ہو یا شب نیمہ شعبان اس رات اور پندرہ شعبان کے دن کا انسانیت سے گہرا تعلق ہے۔ دنیا کا ہر آسمانی دین ایک نجات دہندہ کا منتظر ہے۔ عالم اسلام میں شیعہ مسلمان اس دن کو امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کے روز ولادت باسعادت کے عنوان سے مناتے ہیں۔ علمائے تشیع نے پندرہ شعبان کی رات اور دن کے لیے مختلف اعمال تعلیم کئے ہیں، لیکن عالم اسلام میں اسلامی حکومت تشکیل دینے والی عظیم الشان شخصیت یعنی بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینیؒ نے اس دن کو محروموں اور مستضعفوں کے عالمی دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا تھا۔ بانی انقلاب اسلامی کے اس فرمان کو مختلف حلقوں میں شایان شان طریقے سے پذیرائی ملی تھی۔
لیکن آج کے دور میں اس کی اہمیت میں دو چند اضافہ ہوگیا ہے۔ عالمی سامراجی طاقتوں نے دنیا کو تیسری دنیا، ترقی پذیر، ترقی یافتہ اور غریب و محروم ممالک میں تقسیم کر رکھا ہے۔ نام نہاد سپرپاورز انسانیت کے استحصال میں مصروف ہیں۔ طاقت اور اقتصاد کے بل بوتے پر مخالفین پر پابندیاں عائد کی جاتی ہیں۔ ڈکٹیشن قبول نہ کرنے والے ممالک کو دیوار سے لگانے کے لیے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں، یہ سلسلہ عرصے سے جاری ہے۔ کرونا وائرس کے حالیہ حملے نے اس دنیا اور اس میں بڑی طاقت ہونے کا چرچا کرنے والی ریاستوں کے مکروہ اور کریہیہ چہرے سے مزید پردہ اتار دیا ہے۔ آج دنیا محروموں اور مستکبروں کے دو بلاکوں میں تقسیم ہونے کی طرف جا رہی ہے۔
آج مستضعف اور محروم انسان سے جینے کا حق چھینا جا رہا ہے۔ اس صورت حال میں محرومین اور مستضعفین کو بلاتفریق مذہب، دین، قوم، ملت، رنگ، نسل اور علاقے کے ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ جب تک تمام محروم اور مستضعف یک زبان ہو کر وقت کے طاغوتوں، مستکبروں اور سامراجی طاقتوں کے خلاف آواز نہیں اٹھائیں گے، عدل و انصاف کا سورج طلوع نہیں ہوگا۔ پندرہ شعبان کو یوم مستضعفین جہاں یعنی محروموں کا عالمی دن قرار دینے کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ عالم انسانیت کو جس نجات دہندہ کی ضرورت اور انتظار ہے، اس کا ظہور قریب ہے، اگرچہ مخالفین اس کے برعکس کہتے ہیں۔
امام مھدی علیہ السلام
"وَ نُرِيدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَ نَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَ نَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ"(سورہ قصص آیت نمبر5) اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ جن لوگوں کو زمین میں کمزور بنا دیا گیا ہے ان پر احسان کریں اور انہیں لوگوں کا پیشوا بنائیں اور زمین کا وارث قرار دیدیں۔ ذرا تصور کریں کہ ہم اپنی پوری زندگی کسی ایسی جگہ پر بسر کرتے ہیں جہاں سورج ہمیشہ بادلوں کے پیچھے رہتا ہے۔ آپ کے والدین اور دادا دادی بھی یہاں رہتے تھے، اور ان کے والدین اور دادا دادی بھی اسی طرح رہتے تھے۔ آپ کے پاس مناسب رزق ہے اور جو کام آپ کو کرنا سکھایا گیا ہے وہ آپ کرتے رہتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ سورج اس حقیقت کی وجہ سے ہے کہ آپ زندہ رہتے ہیں۔ امام قائم منتظر مہدی جن کے ساتھ عالم کی امیدیں وابستہ ہیں، انہی کے وجود سے دنیا باقی ہے۔
انہی کی برکت سے مخلوق روزی پا رہی ہے اور ان کے وجود سے زمین و آسمان قائم ہیں اور انہی کے ذریعے خدا زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا جب کہ وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی۔ آپ کو نظریہ توحید کی تعلیم دی گئی ہے اور اگرچہ آپ کے ارد گرد اللہ کے وجود کا کافی ثبوت موجود ہے، آپ کی خواہش ہے کہ ایسے شخص کو دیکھیں اور سنیں جو جس پر شک کیا ہے۔ روح میں بےچینی اور غم ہے کہ اللہ کی حجت غائب ہے، کیوںکہ امام بادل کے پیچھے سورج کی مانند ہیں۔ ہم ان کے ظہور کے منتظر ہیں کیونکہ یہ حتمی ثبوت حجت ہیں۔ اس دنیا کو ڈیزائن کے ذریعہ تخلیق کیا گیا ہے اور واقعتا اس کا مقصد پورا ہوگا۔ توحید غالب آئے گی اور اللہ کا وعدہ پورا ہوگا۔ امام حسن عسکری علیہ السلام کا نکاح روم کے شہنشاہ کی بیٹی حضرت نرجس سلام اللہ علیھا سے ہوا۔
امام مہدی علیہ السلام کی پیدائش جمعہ 15 شعبان 255 ہجری کو سامرہ میں ہوئی۔ سیدہ حکیمہ (دسویں امام کی بہن) بیان کرتی ہیں کہ وہ 14 شعبان کو افطاری کے بعد اپنے بھتیجے (گیارہویں امام) کے گھر گئی تھیں اور انہیں بتایا گیا کہ وہ ان کے گھر میں ہی رہیں کیونکہ ان کے ہاں بچے کی ولادت متوقع ہے۔ سیدہ حکیمہ نے رات قیام کیا اور انہیں امام حسن عسکری علیہ السلام نے بتایا تھا کہ سورہ قدر کی تلاوت کریں۔ فجر کے وقت سیدہ حکیمہ نے یہ سن کر حیران ہو گئیں کہ سیدہ نرجس کے شکم سے سورۃ القدر کی تلاوت ہو رہی تھی۔ امام مہدی پندرہ شعبان کی فجر کو اس دنیا میں تشریف لائے۔ سیدہ حکیمہ بچے کو لے کر امام حسن عسکری (ع) کے پاس آئیں۔
شیر خوار بچے نے تلاوت کی: "بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيم وَ نُرِيدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَ نَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَ نَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ"(سورہ قصص آیت نمبر5)۔ اللہ کے نام سے جو سب سے زیادہ مہربان اور رحم کرنے والا ہے اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ جن لوگوں کو زمین میں کمزور بنا دیا گیا ہے ان پر احسان کریں اور انہیں لوگوں کا پیشوا بنائیں اور زمین کا وارث قرار دیدیں۔ امام حسن عسکری علیہ السلام نے امام مہدی کی ولادت کی خبر کو ان کی حفاظت کے لئے عام نہیں کیا۔ صرف کچھ قابل اعتماد پیروکاروں کو بتایا۔ جن میں ابو ہاشم الجعفری احمد بن اسحاق، سیدہ حکیمہ، سیدہ خدیجہ (ایک اور خالہ)۔ ابو دیوان نے گیارہویں امام سے پوچھا کہ آپ کے بعد کون امام ہوگا؟ اچانک ایک پردہ اٹھا اور اس نے ایک چمکدار چہرے والے ایک چھوٹے بچے نے جس کی عمر تین سے چار سال تھی کو دیکھا۔ امام حسن عسکری (ع) نے بھی منتخب مومنین کو قم سے دعوت دی اور 12ویں امام کی ولادت کا بتایا۔
امام حسن عسکری کی شہادت:
8 ربیع الاول کو امام مہدی (ع) نے اپنے والد بزرگوار کی جنازہ نماز پڑھوائی۔ امام مہدی (ع) اپنے والد کے ایک خادم کے پاس پہنچے جس کا نام ادیان تھا اور اس سے ایک خط مانگا جو اس کے پاس آپ کے والد گرامی کی جانب سے تھا۔ گیارہویں امام نے ادیان کو ایک خط کیساتھ بغداد بھیجا تھا اور اس کو جواب کے ساتھ واپس آنے کو کہا تھا اور کہا کہ اگر اس دوران وہ فوت ہو جائیں تو یہ خط ان کی نماز جنازہ پڑھانے والے کے حوالے کر دینا ہے۔ تو وہ کون ہوگا وہ ہی ان کا جانشین اور وقت کا امام ہوگا۔
غیبت صغری کا آغاز:
یہ وہ وقت ہے جب امام غیبت صغری میں چلے گئے اور نمائندے مقرر کیے (نائب، سفیر ......)۔ امام کا لوگوں کی درخواستوں کو جواب بذریعہ لفظ یا دستخط شدہ نوٹ "توقیع" کے نام سے جانا جاتا ہے جس سے امام کی ہینڈ رائٹنگ مشہور تھی۔
1۔ امام کے پہلے نمائندے عثمان بن سعید عمری تھے۔
2۔ امام کے دوسرے نمائندے محمد بن عثمان سعید عمری تھے۔
3۔ امام کے تیسرے نمائندے حسین بن روح نوبختی تھے۔
4۔ امام کے چوتھے نمائندے علی بن محمد سمری تھے۔
عثمان بن سعید وہ امام کا پہلا نمائندہ تھا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ گیارہ برس کے سن سے نویں امام، امام علی نقی (ع) کے گھر میں خادم تھے، امام کا ان پر اعتماد تھا۔ وہ دسویں اور گیارہویں امام کے ساتھ ریے اور اسی اعتماد کو قائم رکھا۔ امام نے لوگوں کو بتایا کہ ان کے بعد لوگ امام کو نہیں دیکھ سکیں گے اور انہیں عثمان کی اطاعت کرنی ہو گی۔ گیارہویں امام کی شہادت کے بعد عثمان بغداد چلے گئے اور مکھن بیچنے والے کے بھیس میں، انہوں نے امام کے لئے خمس کو جمع کیا۔ عثمان بن سعید امام نے 18 ماہ تک 11ویں امام کی خدمت کی اور امام کی طرف سے ان کی وفات کے قریب ایک خط موصول ہوا جس میں کہا گیا تھا کہ وہ اپنے بیٹے محمد بن عثمان کو امام کا اگلا نمائندہ مقرر کرے اور اسے بتائے کہ اس کے والد کی طرح ان کا بیٹا خوش قسمت ہے۔
محمد بن عثمان سعید عمری:
محمد بن عثمان بھی اپنے والد کے نقش قدم پر چلے اور مکھن بیچنے والے کی حیثیت سے کاروبار جاری رکھا۔ اس وقت کے حکمران المتعمد نے امام کی تلاش شروع کی اور امام سے معمولی سی مشابہت رکھنے والے لاتعداد معتقدین کو شہید کروا دیا۔ دعائے سمات محمد بن عثمان کے ذریعہ پہنچی ہے۔ جیسا کہ امام نے ہدایت کی انہوں نے حسین بن روح نوبختی کو امام کا نائب مقرر کیا۔ محمد بن عثمان کی وفات 305 ہجری میں ہوئی۔ ان کی وفات کے بعد حسین بن روح کو اگلا نمائندہ مقرر کیا۔ انہیں مشرقی بغداد (خلیلانی میں) میں دفن کیا گیا ہے۔
حسین بن روح نوبختی:
اس کی کنیت ابوالقاسم تھی، وہ نوبختی خاندان سے تھے، ان کی ملنسار طبیعت کیوجہ سے انہوں نے بہت عزت حاصل کی۔ وہ اپنی سرگرمیاں برقرار رکھنے میں کامیاب رہے۔ ہم امام کو بھیجنے والے 'عریضہ' کے ذریعے ان سے خطاب کرتے ہیں۔ انہوں نے وفاداری سے خدمت کی یہاں تک کہ شعبان 326ء میں وفات پائی۔ انہوں نے علی بن محمد سمری کی تقرری کا انکشاف کیا۔
علی بن محمد سمری:
انہوں نے صرف تین سال خدمات انجام دیں۔ اپنی موت سے ایک ہفتہ پہلے ان کو مام کی طرف سے ایک خط موصول ہوا، جس میں آپ کو ان کے بعد آنے والی بات بتائی گئی کہ ان کے بعد امام کا کوئی نمائندہ نہیں ہوگا۔ سمری کی نیابت کا دور حکومت وقت کی کڑی نگرانی اور سخت دباؤ کا شکار رہا، جس نے انہیں اس وکالتی نظام میں وسیع سرگرمیوں سے باز رکھا۔ علی بن محمد سمری کے نام امام زمانہؑ کی توقیع، جس میں آپ نے ان کی موت کی خبر دینے کے ساتھ ساتھ نیابت خاصہ کے دور کے اختتام اور غیبت کبری کے آغاز کی خبر دی جو امام زمانہؑ کے آخری نائب خاص کی زندگی کے اہم واقعات میں سے ہیں۔ انہوں نے 15 شعبان 329 ہجری میں وفات پائی۔
غیبت کبری:
غیبت کبری کے دوران امام نے اپنے پیروکار کی رہنمائی کی۔ اسحاق بن یعقوب، شیخ مفید وغیرہ کے ذریعہ متعدد خطوط لکھے گئے ہیں۔ امام جعفرصادق (ع) سے اطلاع ملتی ہے کہ پوری دنیا میں 30 افراد سے باقاعدگی سے ملتے ہیں۔ وہ لازمی طور پر مجتہدین نہیں ہیں بلکہ وہ عام مومنین ہیں۔ امام مہدی (ع) کی سیرت میں پڑھا ہے کہ امام تین مواقع پر مومنین سے ملاقات کرتے ہیں۔
1۔ مشکلات کے وقت
2۔ حج کے موقع پر
3۔ ان مومنین کی نماز جنازہ میں شرکت کرتے ہیں جن کے اوپر شرعی ذمہ داریاں پینڈنگ میں نہ ہوں جیسے، نماز، روزہ اور خمس۔ میرا اپنے آپ سے سوال ہے کہ کیا میں نے اپنے آپ کو اس لائق بنایا ہے کہ امام میرے جنازہ میں بھی شریک ہوں؟
ظہور:
تو کیا ہوگا؟ اپنے آپ کو ایک ایسے دور کی طرف لے جائیں جب دنیا میں بدامنی اور انارکی پیدا ہو، ایسا دور جہاں اسلام پر دو جہتی حملہ ہو گا۔
اول۔ مشرق وسطی (پیش گوئی شدہ سفیان) کے اندر راستباز لیکن بے رحم ہونے والے شخص سے، جو فلسطین سے شام ، فلسطین اور اردن پر حملہ کرے گا اور اپنا کنٹرول حاصل کرے گا۔ اور دمشق کو اپنے اقتدار کی نشست بنائے گا۔ اور وہاں سے عراق اور اس کے بعد مدینہ اور مکہ پر اپنی نظریں جما کر رکھے گا۔
دوم۔ دجال جس کا مطلب ہے دھوکہ دہی کرنے والا یا مسلط کرنے والا اور جیسا کہ سید محمد اصدر نے اپنی کتاب تاریخ الغیبت الکبری میں کہا ہے کہ شاید ایک ایسے نظریئے کی نمائندگی ہے جس کو ایک لفظی شخص کی بجائے بہت سارے ممالک نے تسلیم کیا ہو گا، جو مسلمان کو دھوکہ دینے کی کوشش کرے گا۔ دنیا کو یہ ماننا ہوگا کہ ان کی معیشتیں اس پر بھروسہ کرتی ہیں یا اس کے مرہون منت ہیں۔ وہ حرمین کو تباہ کرے گا ۔
سوم: بغداد پر مغرب کی فوج کا قبضہ ہوگا اور یہ شہر انتشار کی حالت میں ہوگا۔
چہارم سعودی عرب میں اقتدار کا خلا ہوگا۔
پنجم: انسان کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعہ بےمثال طاقت اور موقع ملیں گے۔ اتنے کہ دنیا میں کہیں بھی کیا گیا اعلان سب اپنی زبان میں اور اسی وقت سن لیں گے۔ اسی وقت، امام حسن علیہ السلام کی اولاد کے تحت ایران سے آنے والی ایک فوج، جسے احادیث میں سید حسنانی کے نام سے جانا جاتا ہے کو متحرک کیا جائے گا وہ اسلام پر حملوں کا مقابلہ کریں اور یہ فوج بصرہ کے راستے عراق میں داخل ہوگی۔ 313 رہنما (جن میں 50 خواتین بھی شامل ہیں) ایک دوسرے کے ساتھ روحانی علم کا تبادلہ کریں گے ، اور ہر جگہ دوسرے افراد کو بااختیار اور متحد کریں گے۔ امام علی (ع نہج البلاغہ کے (خطبہ 149) میں فرماتے ہیں، اس کے بعد ایک قوم پر اس طرح سیقل کی جائیگی جس طرح لوہار تلوار کی دہار کو سیقل (تیز) کرتا ہے۔۔ ان لوگوں کی آنکھوں کو قرآن کے ذریعے روشن کیا جائیگا۔ ان کے کانوں میں مسلسل تفسیر کو پہنچایا جائیگا۔ انہیں صبح و شام مسلسل حکمت کے جاموں سے سیراب کیا جائیگا۔
ظہور 2 مراحل میں ہو گا:
پہلا مرحلہ:
اس کی ابتداء ذوالحجہ کے مہینے میں ہوگی جب 40 مجاہدین ظہور کی نزاکت کا احساس کریں گے اور حج سے گھر واپس نہیں آئیں گے۔ وہ حرم جائیں گے اور کعبہ کے نزدیک امام کے ساتھ سامعین کے لئے اللہ سے التجا کریں گے۔ ان میں سے ایک کو امام بلائیں گے اور اس گروپ کی نمائندگی کرنے کو کہا جائے گا۔ اس نمائندے کے توسط سے انہیں ملاقات کی دعوت دی جائے گی، امام ان میں سے کسی ایک کو اپنے نزدیک ظہور کا اعلان خانہ کعبہ کے دروازے پر کرنے کو کہیں گے۔ اعلان کرنے والا مارا جائے گا۔ وہ نفس زکیہ ہوگا جس کا خون کعبہ کو چھوئے گا جس کا ذکر بہت ساری پیشگوئیوں میں کیا گیا ہے۔ (بحار انوار جلد 13)
دوسرا مرحلہ:
15 دن کے بعد جب امام زمانہ رسول اکرم (ص) کی عبا پہن کر، کعبتہ اللہ کی دیوار کیساتھ، جو عاشور کا دن ہو گا امام زمانہ دنیا کو خطاب کریں گے جو دنیا کے تمام افراد اپنی اپنی زبانوں میں سنیں گے، امام کہیں گے۔ یا ایھا العالم! اے جہاں کے رہائشی یا باسیو، سورہ ھود کی آیت نمبر 86 پڑییں گے کہ "بَقِيَّتہ اللَّهِ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ " اللہ کی طرف کا ذخیرہ تمہارے حق میں بہت بہتر ہے اگر تم صاحبِ ایمان ہو۔ کوئی اعلان کرنے والا کہے گا کہ سورہ اسرا کی آیت نمبر 81 "وَ قُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُ ۚ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا" اور کہہ دیجئے کہ حق آ گیا اور باطل فنا ہو گیا کہ باطل بہرحال فنا ہونے والا ہے۔
.
امام اپنا تعارف کروائیں گے "انا بقیتہ اللہ" 313 افراد کا نیٹ ورک پہلے ہی امام کے ہاتھ پر بعیت کیلئے آچکا ہے۔ امام مہدی (ع) ان سے وہی عھد لیں گے جو امیر المومنین علی ابن ابی طالب (ص) اپنے سپاہیوں سے لیا تھا۔ 25 شرائط میں وہی عہد جو اس نے دیا تھا
1۔ چوری نہ کریں
2۔ زنا نہ کرنں
3۔ کسی مسلمان کو گالی نہیں دینا
4۔ غیر قانونی طور پر کسی کا قتل نہیں کرنا
5۔ کسی کی عزت کی خلاف ورزی نہیں کرنا
6۔ کسی کی رہائش گاہ پر حملہ نہ کرنا
7۔ کسی کو تکلیف نہیں پہنچانا
8۔ سونے، چاندی، گندم اور جو کو جمع نہ کرنا
9۔ کسی یتیم کی جائداد غصب نہ کرنا
10۔ جھوٹی گواہی نہ دیں
11۔ مسجد کو ترک نہ کریں
12۔ شراب یا نشہ نہیں پینا
13۔ ریشم یا سنہری دھاگے کا لباس نہ پہنیں
14۔ سونے کا بیلٹ نہ پہنیں
15۔ ڈکیتی نہیں کرنی
16۔ مسافروں پر حملہ نہ کریں
17۔ ہم جنس پرستی میں ملوث نہ ہوں
18۔ کھانے کے ذخیرہ کو ضائع نہ کریں
19۔ تھوڑے پر راضی رہیں
20۔ خوشبو اور عطر استعمال کریں
21۔ ناپاکی سے دور رہیں
22۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کریں
23۔ آسان لباس پہنیں
24۔ مٹی کے تکیے پر آرام کرو
26۔ 1للہ کے راستہ میں جہاد کرو جس طرح اس کا حق ہے
امام (ع) اس بات کا عہد لیں گے کہ جو وعدہ کریں کہ:
وہ ان کے ساتھ رہیں گےا
وہ ان کی طرح لباس پہنیں گے
وہ ان جیسی سواری رکھیں گے۔
وہ ان کی مرضی کے مطابق کام کریں گے
وہ تھوڑی پہ راضی رہیں گے۔
وہ اللہ کی مدد سے دنیا کو مساوات اور انصاف سے بھریں گے۔
وہ اللہ کی عبادت کریں گے جیسا کہ اس کا حق ہے
ان کو بغیر انٹرمیڈیٹ براہ راست رسائی دی جائیگی
ان کی برادریوں یا نیٹ ورکس کو برقرار رکھیں گے باخبر اور متحرک ہوکر انہیں امام کے پاس بلایا۔
سفیانی اپنی میڈیا مشین کو عملی جامہ پہنائیں گے۔ امام کا سب سے پہلا مقابلہ مکہ مکرمہ میں ہوگا، وہ ایک گورنر مقرر کرے گا اور مدینہ کی طرف جائیں گے جس کو تباہ کیا جائیگا۔ امام مدینہ کو اس کی سابقہ عظمت میں بحال کروائیںگے اور آگے بڑہیں گے۔ امام کوفہ کی طرف جائیں گے جہاں سید حسنانی کی فوج سے ملیں گے۔ امام دجال کی فریب کاری اور فوج کا مقابلہ فلسطین میں کرنے کے بعد، وہ آگے بڑھیں گے اور شام جائیں گے شام سفیانی کے تعاقب میں۔ وہ فرار ہو جائے گا۔ وہاں جب اس کی پوری فوج کو بائیدہ کے قریب مدینہ، مکہ جاتے ہوئے صحرا میں بے حد نقصانات اٹھانا پڑیں گے۔ شام کے ساتھ عراق کی سرحد پر، امام حضرت عیسٰی علیہ السلام کے لئے انتظار کریں گے، فجر سے پہلے اور امام نماز فجر کی امامت کروائیں گے۔ پھر لڑائی میں مصروف ہونگے۔
امام کی فوج فاتح ہوگی لیکن سفیانی یروشلم فرار ہوگا، امام اس کا تعاقب کریں گے اور اس کو حضرت عیسیٰ (ع) کے ہاتھوں شکست ہوگی۔ امام مسجد اقصٰی کو دوبارہ تعمیر کریں گے جس کو تباہ کر دیا گیا تھا۔ امام کے زیر اقتدار مشرق وسطٰی کے ساتھ کوفہ میں حکومت قائم کریں گے عراق کی تعمیر نو کریں گے۔ امام کا انقلاب دانشورانہ اور عاقلانہ ہوگا۔ فہد بن یاسر نے امام باقر (س) کو یہ کہتے سنا، "جب ہمارے قائم اٹھ کھڑے ہوں گے تو وہ زیادہ مشکلات کا سامنا کریں گے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایام جاہلیت میں بھی برداشت نہیں کی ہونگی۔ امام نے بیان کیا جب پیغمبر نے اپنے مشن کا اعلان کیا تو اس زمانے میں لوگ پتھروں اور لکڑی کی پوجا کرتے تھے۔ جب امام اٹھ کھڑے ہونگے تو لوگ قانون کی ترجمانی اللہ کی اس کی تفسیر کے خلاف کریں گے اور اس پر بحث کریں۔ امام ان کے درمیان قرآن کے ذریعے اس طرح انصاف کریں گے کہ انصاف ان کے گھروں میں اس طرح داخل ہوگا جیسے گرمی اور سردی داخل ہوتی ہے۔
امام اپنے مددگار/ آزاد کنندگان کو مشرق اور مغرب میں بھیجیں گے، جس طرح ہمارے 5ویں اور چھٹے اماموں نے کہا ہے، وہ اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے جب تک کہ اللہ کی رضا حاصل نہ ہو جائے۔ دوسرے الفاظ میں، جب تک ساری زمین پر اللہ کا پیغام پہچائیں۔ وحدانیت، توحید۔ امام علی (ع) کا 20 قول ہے کہ امام مھدی کی حکومت میں کیا ہوگا؟ ایک عالمی حکومت تشکیل دی جائے گی، جو مطلق طاقت ہوگی اور وہ خود مختاری کی نئی وضاحت کرے گی۔ شہید مطہری نے اپنی کتاب ‘The awaited savior’ نجات دہندہ میں کہا ہے جب ایسا ہوگا:
1۔ راستبازی، فضیلت، امن، انصاف، آزادی اور سچائی کی حتمی فتح ہوگی۔ انا پرستی ، ظلم، دھوکہ دہی کا خاتمہ ہوگا۔
2۔ عالمی حکومت کا قیام۔
3۔ پوری زمین پر کوئی علاقہ ضائع نہیں رہے گا۔
4۔ انسان کی ذات اپنی مکمل معقولیت کے ساتھ معراج پر ہو گی، غیر مناسب معاشرتی پابندیاں ہونگی ہی نہیں۔
5۔ زمین اپنے خزانہ تحائف کا زیادہ سے زیادہ استعمال کریگی۔
6۔ دولت اور املاک کی تقسیم تمام انسانوں کے درمیان برابری کی بنیاد پر ہوگی۔
7۔ سود، نشہ آور اشیا، غداری، چوری کا استعمال اور قتل اور مکمل گمشدگی، غیر معمولی پیچیدہ، بددیانتی اور ناجائز خواہشات جیسی تمام برائیوں کا مکمل خاتمہ۔
8۔ امن، دوستی، تعاون اور احسان کی بحالی ہوگی اور جنگ کا خاتمہ
9۔ انسان اور فطرت کے مابین مکمل ہم آہنگی ہوگی۔
امریکہ کی روز افزوں تحقیر کا سلسلہ جاری(1)
تقریباً دس سال پہلے اسلامی جمہوریہ ایران نے غیر قانونی طور پر اپنی حدود میں داخل ہونے پر امریکہ کا جدید ترین ڈرون طیارہ آر کیو 170 کامیابی سے ہیک کرکے نیچے اتار لیا اور اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔ اس وقت یہ واقعہ خبر کی دنیا میں ایک بم بن کر پھٹا اور عالمی میڈیا میں تہلکہ خیز ثابت ہوا۔ اس واقعے نے امریکہ کے کھوکھلے دبدبے اور طاقت کی قلعی کھول دی۔ اس کے بعد امریکہ کی جھوٹی طاقت کے سامنے ایران کی مسلسل استقامت اور پائیداری سیاسی، فوجی اور سفارتی میدان میں امریکہ کی تحقیر کے ایسے سلسلے کا باعث بنی، جو اب تک جاری ہے۔ ایران کے اس جرات مندانہ اقدام نے امریکہ کے خلاف دیگر اقوام کو بھی جرات بخشی اور انہوں نے بھی اپنے جائز حقوق کے دفاع کیلئے امریکہ کے خلاف شجاعانہ اقدامات کا آغاز کر دیا۔
مثال کے طور پر حال ہی میں یمن کی مسلح افواج کے ترجمان بریگیڈیئر بحییٰ سریع نے اعلان کیا ہے کہ یمن کے فضائی دفاع نے امریکہ کا ڈرون طیارہ ایم کیو 9 مار گرایا ہے۔ یاد رہے یہ ڈرون طیارہ سعودی عرب کی سربراہی میں عرب اتحاد کی تحویل میں تھا اور ان کیلئے یمن کی فضائی حدود میں جاسوسی کرنے میں مصروف تھا۔ تحریر حاضر میں ہم نے گذشتہ چند سالوں کے دوران خطے کی حریت پسند اقوام کی جانب سے امریکہ کے خلاف چند ایسے بڑے جرات مندانہ اقدامات کا ذکر کیا ہے، جن کی مثال ماضی بعید میں بہت کم ملتی ہے لیکن اب روزمرہ کا معمول بنتے جا رہے ہیں۔
1)۔ امریکی ڈرون گلوبل ہاک کی تباہی
20 جون 2019ء کی صبح امریکہ کا ایک اور جدید ڈرون طیارہ "گلوبل ہاک" خلیج فارس میں ایرانی حدود میں داخل ہوا، جس پر ایران نے اسے نشانہ بنا کر مار گرایا۔ اس وقت امریکی خبر رساں ادارے سی این این نے ایک رپورٹ شائع کی، جس کا عنوان تھا "جو کچھ امریکہ کے 110 ملین ڈالر قیمتی ڈرون کو مار گرانا ایران کے بارے میں کہتا ہے۔" اس رپورٹ میں کہا گیا: "گرد و غبار چھٹ جانے کے بعد یہ بات واضح ہوئی ہے کہ گذشتہ ہفتے ہمیں زمین سے 22 ہزار پائی کے فاصلے پر ایک نہ بھولنے والا سبق سکھایا گیا ہے۔" امریکی میڈیا نے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ایران کی جانب سے ایران ساختہ "تین خرداد" نامی میزائل ایئر ڈیفنس سسٹم کے ذریعے امریکہ کے ڈرون طیارے گلوبل ہاک آر کیو 4 اے کو مار گرائے جانے کو اہم قرار دیا اور واضح کیا کہ یہ فضا میں پینٹاگون کے جاسوسی پرندے کی تباہی کا پہلا واقعہ ہے۔
امریکی میڈیا نے اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ فضا میں گلوبل ہاک نامی ڈرون طیارے کو کامیابی سے نشانہ بنا کر تباہ کر دینا، فوجی شعبے میں ایران کی اعلیٰ صلاحیتوں اور ترقی کا واضح ثبوت ہے۔ دفاع کے شعبے میں شائع ہونے والے امریکی ماہانہ میگزین جینز ڈیفنس کے چیف ایڈیٹر جیریمی بینی نے ایران کے فضائی دفاعی نظام کے بارے میں لکھا: "یہ (ایرانی فضائی دفاعی نظام) بہت موثر ہے۔ یہ حادثہ (گلوبل ہاک کی تباہی) ظاہر کرتا ہے کہ جب ایرانی کسی کام پر سرمایہ لگاتے ہیں تو اس کے نتائج بھی حاصل ہوتے ہیں۔" جیریمی بینی نے مزید کہا: "ہم اس سے پہلے ایران کے بیلسٹک میزائلوں کے بارے میں یہ جانتے تھے، لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایران کا فضائی دفاعی نظام بھی ایسا ہی ہے۔"
2)۔ عین الاسد امریکی فوجی اڈے پر میزائل حملہ
8 جنوری 2020ء اسلامی جمہوریہ ایران اور خطے کی تاریخ میں ایک انتہائی اہم دن ہے۔ اس دن ایران نے امریکہ کی جانب سے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ کا بدلہ لیتے ہوئے "فاتح 313" نامی تیرہ بیلسٹک میزائل بغداد کے قریب واقع امریکہ کے فوجی اڈے عین الاسد پر داغ دیئے۔ عین الاسد عراق اور خطے میں امریکہ کی مرکزی کمان کا حامل انتہائی اہم فوجی اڈہ تھا۔ ایران کی اس جوابی کارروائی کا نتیجہ نہ صرف خطے بلکہ عالمی سطح پر امریکہ کے کھوکھلے رعب اور دبدبے کی حقیقت واضح ہو جانے کی صورت میں ظاہر ہوا۔ ایران کی یہ جوابی کارروائی ایسے وقت انجام پائی جب امریکہ کے تمام فوجی اڈے ہائی الرٹ تھے اور ایران نے انتقامی کارروائی کی دھمکی دے رکھی تھی۔
یاد رہے 3 جنوری 2020ء کے دن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے براہ راست حکم پر امریکی ڈرون طیارے نے جنرل قاسم سلیمانی اور حشد الشعبی کے نائب کمانڈر ابو مہدی المہندس کی گاڑی کو میزائل حملے کا نشانہ بنایا، جس میں دونوں موقع پر ہی شہید ہوگئے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے امریکہ کو ان شہداء کا انتقام لینے کی کھلی دھمکی دی اور چند دن بعد ہی بغداد سے 170 کلومیٹر فاصلے پر واقع عین الاسد امریکی فوجی اڈے کو میزائل حملوں سے نشانہ بنایا گیا۔ ہائی الرٹ کے باوجود امریکی حتی ایک میزائل کو بھی فضا میں تباہ نہ کرسکے اور تمام میزائل ٹھیک نشانے پر لگے اور بڑے پیمانے پر تباہی پھیلائی۔ اس حملے نے ایک طرف ایران کی بھرپور میزائل طاقت کو ثابت کر دیا اور دوسری طرف امریکہ کے غبارے سے ہوا نکال دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔