سلیمانی

سلیمانی

ایران اور چین کے وزرائے خارجہ نے پچیس سالہ اسٹرٹیجک جامع تعاون کے معاہدے پر دستخط کر دیئے ہیں۔ 2015ء میں اس نوعیت کے معاہدے کا عندیہ دیا گیا تھا۔ 2019ء میں ایرانی وزیر خارجہ نے اپنے تمام متعلقہ اداروں سے گفت و شنید کے بعد ایک جامع دستاویز تیار کرکے چین کے حوالے کی تھی۔ طویل المدت معاہدے کے بارے ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بتایا ہے کہ ایران اور چین کا تعاون اب اسٹریٹیجک سطح پر پہنچ چکا ہے اور پچیس سالہ حالیہ معاہدہ اس میں مزید گہرائی کا باعث بنے گا۔

ایران اور چین کے درمیان تعلقات کو دو زاویوں سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ایران اور چین کے درمیان تین بڑی سطحوں یعنی سیاسی اقتصادی تعاون، سکیورٹی دفاعی اور جیوپولیٹیکل اسٹریٹیجک سطح پر تعلقات ہیں، جس کے لیے دونوں ملکوں کے درمیان پچیس سالہ تعاون کی جامع دستاویز پر دستخط ہونے سے صورتحال مزید واضح ہو جائیگی۔ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کا دوسرا زاویہ علاقائی اور عالمی مسائل پر سفارتی کوششیں ہیں، جس میں دونوں ممالک بہت سے مسائل پر مشترکہ موقف رکھتے ہیں۔

ایران اور چین علاقائی سلامتی بالخصوص خلیج فارس اور آبنائے ہرمز کی سکیورٹی پر یکساں موقف کے حامل ہیں۔ جس میں مزید پیشرفت کے لیے چینی وزیر خارجہ کا حالیہ دورہ تہران مزید موثر اور فائدہ مند ثابت ہوگا۔ البتہ پچیس سالہ اسٹریٹیجک جامع تعاون کے معاہدے نے امریکی ایوانوں میں ہلچل مچا دی ہے اور ایران کو عالمی سیاست میں تنہا کرنے والے اداروں میں صف ماتم بچھ گئی ہے۔
 
 
 

سعودی عرب نے 25 مارچ سن 2015 کو یمن کے نہتے عرب مسلمانوں کے خلاف بربریت اور جارحیت کا آغاز کیا سعودی عرب کو یمن پر جنگ مسلط کرنے کے سلسلے میں امریکہ نے ہری جھنڈی دکھائی۔ سعودی عرب نے یمن پر مسلط کردہ جنگ کو" عزم کے طوفان " کے نام سے موسوم کیا ، اور یمن کو دو ہفتوں کے اندر اندر فتح کرنے کا عزم ظاہر کیا لیکن دو ہفتوں کے بجائے یمن پر سعودی عرب کی مسلط کردہ جنگ آج ساتویں سال میں داخل ہوگئی ہے اور سعودی عرب اپنے کسی بھی شوم ہدف میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے۔ سعودی عرب نے یمن پر ظالمانہ جنگ مسلط کرکے سنگين جرائم کا ارتکاب کیا جن میں شہری آبادی ، مسجدوں، مدرسوں، اسپتالوں ، تاریخی عمارتوں پر سعودی عرب کی وحشیانہ بمباری تاریخ میں باقی رہےگی۔

سعودی عرب نے یمن پر مسلط کردہ ظالمانہ جنگ میں اپنے امریکی اور مغربی آقاؤں کے اشاروں پر اسلامی بیداری کی لہر کو روکنے کی بھر پور کوشش کی۔ لیکن اسے گذشتہ چھ برسوں میں تاریخی شکست کا سامنا ہے اور اسلامی مزاحمتی تنظیمیں خطے میں مزید مستحکم ہوگئی ہیں اب علاقائی عوام میں اسرائیل اور سعودی عرب کے وحشیانہ جرائم کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ پیدا ہوگیا ہے ۔ سعودی عرب نے یمن پر اسی طرح  مجرمانہ جرائم کا ارتکاب کیا جس طرح اسرائیل اس سے قبل فلسطین میں کرچکا ہے۔ سعودی عرب نے بڑی بے رحمی اور بے دردی کے ساتھ  یمن میں نہتے عرب مسلمانوں کا قتل عام کیا جن میں بچے عورتیں اور بزرگوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔

یمن پر سعودی عرب ، امارات  اور ان کے اتحادی ممالک کی مشترکہ اور متحدہ یلغار سے ثابت ہوگیا کہ یہ دونوں عرب ریاستیں خطے امریکی اور اسرائیلی آلہ کار ہیں اور ان کا کام امریکہ کے اشارے پر اسلامی ممالک میں  عدم استحکام پیدا کرنا اور دہشت گردی کو فروغ دینا ہے۔ اس سلسلے میں یمن کی اسلامی تنظیم انصار اللہ کے ترجمان محمد عبدالسلام کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات خطے میں امریکی اور اسرائیلی مزدور اور نوکر ہیں۔ محمد عبدالسلام نے متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان معاہدے پر دستخط کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی عرب اور امارات خطے میں امریکی اور اسرائیل پروجیکٹ کے سلسلے کی اہم کڑی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ سعودی عرب صدی ڈیل کو عملی جامہ پہنانے کا اصلی ٹھیکیدار ہے اور امارات کے بعد اب سعودی عرب کے اسرائیل کے ساتھ خفیہ تعلقات بھی طشت از بام ہوجائیں گے۔ اس نے کہا کہ سعودی عرب اور امارات اس دور کے یزید امریکہ کے اتحادی ہیں اور وہ معاویہ اور یزید کے راستے پر گامزن ہیں۔

عالمی ذرائع ابلاغ  نے یمن کی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے کہا ہے کہ یمنی کے نہتے عرب مسلمانوں کو سعودی عرب کی مسلط کردہ جنگ اور محاصرے کی وجہ سے اب قحط ، طبی مشکلات اور کورونا وائرس کا بھی سامنا ہے۔ برطانوی اخبا ر اینڈپینڈٹ  کے مطابق سعودی عرب کی امریکہ اور اسرائیل نواز آل سعود حکومت نے یمن کے نہتے عربوں پر گذشتہ 6 برس سے وحشیانہ اور ظالمانہ جرائم کا ارتکاب کیا ہے،  یمنی شہریوں کو اب سعودیہ کی مجرمانہ جنگ کے ساتھ قحط اور کورونا وائرس کا بھی سامنا ہے۔

برطانوی اخبار کے جائزے کے مطابق یمن کی آدھی آبادی کا انحصار غیر ملکی غذائی اشیاء پر ہے کورونا وباء کے پھیلنے کے بعد یمن کی صورتحال مزید پیچيدہ اور بحران سے دوچار ہوگئی ہے۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق رواں سال کے اختتام تک 2 ملین 400 سے زائد یمنی بچوں کے قحط میں مبتلا ہونے کا خدشہ ہے۔ بین الاقوامی امدادی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ یمنی عوام کو غذائی قلت کا سامنا ہے۔

ذرائع کے مطابق یمن میں سعودی عرب کے فوجی اتحاد کو عالمی اور انسانی قوانین کی سنگين خلاف ورزیوں کے ارتکاب میں مقدمات کا سامنا کرنا پڑےگا۔ ادھراقوامِ متحدہ نے بھی انسانی حقوق کی ہولناک خلاف ورزیوں کی مذمت کی ہے۔ سعودی عرب کے فوجی اتحاد نے یمن پر مسلط کردہ جنگ میں تمام بین الاقوامی ، انسانی اور اسلامی قوانین کو بری طرح پامال کیا۔ سعودی عرب نے گذشتہ 6 برسوں میں 45 ہزار سے زائد یمنی شہریوں کو اپنی بربریت کا نشانہ بنایا جن میں بڑی تعداد میں بچے اور خواتین شامل ہیں۔ سعودی عرب کے مجرمانہ ہوائي حملوں کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ ادھر یمنی فوج اور قبائل نے بھی جدید میزائلوں سے سعودی عرب کے اندر فوجی اور اقتصادی ٹھکانوں کو نشانہ بنانا شروع کردیا ہے جس کے بعد سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی چیخیں نکل رہی ہیں۔ یمنی فورسز اور قبائل نے جدہ میں سعودی تیل کی کمپنی آرامکو ، ملک خالد ايئر پورٹ ، ابہا ایئر پورٹ ، دارالحکومت ریاض میں سعودی عرب کے فوجی اور  اقتصادی ٹھکانوں کو نشانہ بنا نا شروع کردیا ہے جس کے بعد سعودی عرب پر لرزہ طاری ہوگیا ہے۔ عرب ذرائع کے مطابق یمن پر مسلط کردہ ظالمانہ جنگ میں سعودی عرب کی شکست یقینی ہے۔ سعودی اتحاد میں شامل دس سے زائد ممالک  کے خلاف یمن کے نہتے عربوں کی شاندار استقامت کو تاریخ میں سنہرے حروف سے یاد رکھا جائےگا۔

شبیہ پیغمبر حضرت علی اکبر علیہ السلام

اس کائنات میں انسان جہاں تک نظر دوڑائے اسے ہر طرف ایک ہی معطی کے گوناگوں عطیات دیکھنے کو ملیں گی جو اُس وحدہ لا شریک ذات کے بے نیاز وجود کی ناقابل انکار آیات ہیں۔وہ وحدہ لا شریک ذات اس کائنات کی مالک اور خالق ہے اس نے ہی انسان کو اپنا خلیفہ بنا کر اس دنیا میں بھیجا اورایسابھی نہیں ہے کہ اس نے انسان کو ایسی وسعتوں بھری کائنات میں نعمتِ حیات دے کر بھیج دیا ہو کہ وہ حیران و پریشان رہےاورحقائق و دقائق کی معرفت حاصل نہ کرسکے اور انہی حالات میں موت کے حملے کا شکار ہوکر حیات سے ہاتھ دھوبیٹھے اس طرح نہیں ہے بلکہ وہ ذات بابرکات خود علیم و قدیر وحی و حکیم ہےاس کا انسان کو اس دنیا میں بھیجنے کےمخصوص اہداف تھے۔ وہ بذاتہ نور ہے اپنی مخلوقات کو ظلمات و توہمات میں سر گرداں نہیں دیکھنا چاہتی اس وجہ سے اس ذات خالق و احد نے انسان کی ہدایت کے لئے انبیا ءو اوصیاء کا عظیم سلسلہ مقرر فرمایا تاکہ انسان ان ذوات مقدسہ کی پیروی کر کے کمال و تکامل کے مراحل طے کرکے ان منازل پر فائز نظر آئے جو انسان کامل کا مقام ہے۔شیطان نے اگر انسان کو خد وند متعال کی راہ سے بھٹکانے کا سہرا اپنے سر لیا ہے لیکن وہیں پر ایک اعتراف عجز بھی اس کے دامن گیر ہواہےاور وہ یہ کہ خدا ونداتیرے مخلص بندوں پر میرا بس نہ چل پائے گا اور ان کو تیری عبادات کے زمرے سے نکال باہر لانا میرے لیے ممکن نہیں ہوگا۔ہر ذی شعور انسان پر واجب ہے کہ وہ ان خاص خدا شناس ہستیوں کی معرفت حاصل کرے ۔۔۔۔وہ کون ہیں؟’معطی انعام‘‘کی خاص عنایات و عطیات پانے والی باعثِ تخلیق کائنات ہستیاںجن کے چودہ انوار پانچ میں جمع ہوئے اور پنجتن کی وحدت ذاتِ رسالت قرار پائی صلی اللہ علیہ وعلیہم اجمعین۔ان انوار الہٰی کی مقدس ذوات کی معرفت و تعریفات کی کما حقہ شائستگی خالق کائنات کے علاوہ کون رکھتا ہے۔یہی ہیں جنہوں نے خود خداوند حیات و ممات کے عشق میں اس کے قسم خوردہ دشمن کو ایسا نامراد و ناکام کردیا کہ سب ملائکہ و انبیاء فراتِ حیرت میں غرقاب ہونے لگے۔تاریخ اسلام میں ایک ایسا بھی دور نظر آتا ہے جس میں بعد از رحلت سید المرسلین ﷺ تمام انبیا ءکی محنتوں پر پانی پھیرا جارہا تھا ، خدا کے حرام کو حلال اور حلال کو حرام کیا جا رہا تھا،دینی حدوں کو مسمار کیا جا رہا تھااس شیطانی ٹولے کی سوچ یہ تھی کہ نام تو دین کا رہے لیکن کام دین کا نہ رہے ۔دشمنانِ دین خدا یکجا ہوکر دولت و ثروت اور حکومت وامارات کے سبزباغات دکھا کر بندگان خدا کو اغوا کرتے جارہے تھے طوفانِ طغیان اپنے پورے زور و شور سے شجر اسلام کو آناً فاناً جڑوں سے اُکھاڑ پھینکنا چاہتا تھا لیکن اس وقت انہی ذوات مقدسہ میں سے ایک ہستی جن کااسم گرامی ‘ حسین ‘‘ہے
حسین ،کون حسین؟’حسین‘‘ روئے زمین پر حبیب خدا کا یکتا و تنہا نواسہ،’حسین‘‘بقاءدین کا مقدس ہدف رکھنے والا ،’حسین‘‘جس نےشجر دین مبین کو ظلم وستم کی ناقابل وصف تیز آندھیوں میں استحکام بخشا’حسین ‘‘جس نے دین مبین اسلام کے گرتے شجر کو سہارا دیا اور ایسا سہاراکہ قیامت تک کسی شیطانی ٹولے میں ہمت نہیں کہ اس کی طرف دست درازی کر سکے۔اس راہِ عشق کی پرخطر راہوں کے بے باک راہی امام حسین ؑکا ساتھ دینے کے لئے ایک مختصر مگر پختہ عزائم کے مالک افراد کا قافلہ بھی ہمراہی کررہا تھا۔کچھ اعوان و انصار بھی اپنے زمانے کے امام علیہ السلام کا ساتھ دینے کیلئے آمادہ ہوگئے تھےاور کچھ خوش نصیب ایسے بھی تھے جن کو وقت کے شہنشاہ نے بلوا یا تھا۔ان حالات میں دین کی حفاظت کا ذمہ دوش نواسہ رسولﷺ پہ تھا وگرنہ دشمن تو اس در پے تھا کہ شجر دین مبین اسلام کی جڑیں کاٹ دی جائیں !اس وقت اسلام در حسین علیہ السلام پہ سوالی بن کر آیا تھا اور یہ وہ در تھا جہاں سے دشمن بھی خالی ہاتھ نہیں جاتا۔امام حسین علیہ السلام نے رسول خدا ﷺ ، جناب فاطمہ زہرا اور امام علی مرتضیٰ علیہم السلام کی گود میں پرورش پائی تھی آپ کسی طرح بھی اسلام کو نابود ہوتا نہیں دیکھ سکتےتھے۔
 
۶۰ ہجری میں معاویہ کے اپنےناخلف و نامراد بیٹے یزید کو مسندخلافت پہ بٹھایاگیا اس نے امام حسین علیہ السلام سے بیعت کا مطالبہ کیا تو زمانے کے ولی نے فرمایا ‘مثلی لا یبایع مثلہ ‘‘( میرے جیسا یزید جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا)۔ تنگی حالات کی وجہ سے آپ نے ۲۸ رجب کو اپنے کریم نانا کا شہر چھوڑا مختلف منازل طے کرنے کے بعد ۲محرم الحرام ۶۱ ہجری آپ کو سرزمین نینوا پر ڈیرے لگانے پہ مجبور کر دیا گیا ۔ سال نو کے پہلے نو دن گزر گئے اور آل رسولعلیہم السلام کرب و بلا کے تپتے صحرا میں محصور ہے ایک رات کی مہلت لی گئی وہ بھی رب کی عبادت میں گزر گئی۔۔۔۔۔(۱۰)محرم کا دن تاریخی ہی نہیں بلکہ تاریخ ساز دن تھاجب تما م اعوان و انصاراپنے وعدےوفا کر چکے اب شجر دین کو ہاشمی خون کی ضرورت تھی تو سب سے پہلے حسینی کہکشاں کے مقدس ستارے جناب علی اکبر علیہ السلام نے طلوع میدان ہونے کی خواہش کی اگرچہ جناب اکبر جیسے جوان بیٹے کو اذن جہاد دینا؛ مولا کے لئے بہت مشکل تھا لیکن راہ عشق خدا میں یہ قربانی دینا قبول کیا افراد اہلبیت نے اپنے امام زمان علیہ السلام کی خوشنودی کےلئے اور بقا ء و حفظ دین میں اعلیٰ کردار ادا کیا اور آخر میں نواسہ رسولﷺ، دلبند بتول سلام اللہ علیہا اور فرزند امام علی علیہ السلام نے اپنی قربانی کا نذرانہ پیش کر کے دین مبین اسلام کو حیات جاوداں بخشی۔عاصی !وقت کے مصطفیٰ،یوسف زہراؑ،قطب عالم امکاں، حجت خدا امام زمانہ عجل اللہ شریف کے در پہ سوالی ہے کہ یہ در عطاؤں کا در ہے، یہاں پہ مقدر سنورتے ہیں ، مجھ جیسے عاصیوں کا آپ پہ بھرم ہے۔آپ کی چوکھٹ پر ایک سوالی ہے۔جو ہے،جیسا ہے آپ کا ہی نام لیوا اور موالی ہے۔اے سرزمین کرب و بلا میں ناحق بہائے جانے والے مقدس خون کے وارث،ہم پہ نگاہ کرم کیجیے؛ عاصی کربلا کے جوان جناب علی اکبر علیہ السلام کے فضائل و اوصاف حمیدہ کے بارے میں گدائی کر رہا ہے!
طلوع ستارہ کہکشاں حسینیرسول اکرم ﷺ کی مو لا حسین علیہ السلام کےساتھ محبت زبان زد عام و خاص ہے۔مشہور و معروف حدیث نبوی ہے:’حسین منی وانا من الحسین‘‘‘یعنی حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں۔حضرت امام حسین علیہ السلام بچپن ہی سے آغوش رسالت سے اس قدر مانوس تھے کہ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ’حسین رسول خدا کی زندگی میں انہیں بابا کہہ کرپکارتے تھے اور مجھے اباالحسن کہتے تھے۔جب رسول خدا ﷺ ظاہراًاس دنیا کو چھوڑ گئےتو پھر مجھے بابا کہنے لگے‘‘(۱)فراق جد میں نواسۂ رسول بہت مغموم و محزون رہاکرتےتھےکہ خداوند حکیم نے نواسۂ رسولﷺ کے گھر شبیہ رسول کو بھیج کر پھر سے وہ یادیں تازہ فرمادیں۔کہکشاں حسینی کا یہ عظیم ستارہ شعبان المعظم کی ۱۱ تاریخ کو صحن حسینی میں طلوع ہوا البتہ تاریخ میں سال ِطلوع کے بارے میں اختلاف ہے مشہور قول کے مطابق سال طلوع ۴۳ ہجری ہے(۲)
والد بزرگوارشہزادے کے والد بزرگوار محسن اسلام حضرت امام حسین ابن علی ابن ابیطالب علیہم السلام ہیں جو کسی تعارف کے محتاج نہیں جن کے بھائی امام حسن مجتبیٰ و ابوالفضل العباس علیہماالسلام۔۔۔، ہمشیرہ جناب عقیلۂ بنی ہاشم حضرت زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا،جن کی مادر گرامی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور نانا بزرگوار حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ ہیں۔المختصر یہ خاندان فضائل و مناقب کاسرچشمہ تھا۔
 
والدہ ماجدہشہزادے کی والدہ ماجدہ حضرت لیلیٰ بنت ابی مرہ بن عروہ بن مسعود ثقفی ہیں۔آپ کے نانا عروہ بن مسعود ثقفی قریش میں عظیم المرتبت شخصیت تھے وہ قریش مکہ کی طرف سے حضرت پیغمبر اکرم ﷺکی خدمت میں صلح نامۂ حدیبیہ کی موافقت کے لیے بھیجے گئے۔عروہ اہل طائف تھے اور انہوں نے ۹ ھ میں اسلام قبول کیا پھر اپنی قوم کی ہدایت اور دین اسلام کی تبلیغ کے لیے ان کی طرف گئے لیکن اسی قوم کے ہاتھوں نماز سے پہلے اذان کہتے ہوتے تیر ستم سے مرتبۂ شہادت پرفائز ہوئے۔پیغمبر خدا ان کی شہادت پر بہت افسردہ ہوئے اور اس شہید کے بارے میں فرمایا:لیس مثلہ فی قومہ الا کمثل صاحب یاسین فی قومہ(۳)یعنی عروہ صاحب یاسین کی مثل ہیں جو اپنی قوم کے لیے ہدایت کا فریضہ انجام دیتے تھے(اور اسی راہ میں شہید ہوئے)۔ابن جزری نے اسد الغابہ میں بروایت ابن عباس جناب رسول اکرم ﷺ کا یہ ارشاد نقل کیا ہےکہ آپ ﷺ نے فر مایا:اربعۃ سادۃ فی الاسلام بشر بن ھلال العبدی وعدی بن حاتم و سراقہ بن مالک المدنجحی و عروہ بن مسعود ثقفیاسلام میں چار سردار ہیں بشر بن ہلال العبدی، عدی بن حاتم، سراقہ بن مالک المدنجحی اور عروہ بن مسعود ثقفی
سن مبارکشہزادے کے سال ولادت میں اختلاف کی وجہ سے سن مبارک میں بھی اختلاف ہے اور یہ اختلاف تاریخ و مؤرخین کے اس باب میں شدت ضعف پر دلیل ہے کیونکہ اس بارے میں متعلقہ کتب میں اقوال عجیب و غریب ہیں۔ ان مختلف اور متعدد اقوال کی وجہ سے انسان حیران و پریشان ہوکررہ جاتا ہے لیکن کچھ تحقیق اور دقت سےمعلوم ہوتا ہے کہ اہم اختلاف دو تین اقوال میں ہے بہرحال بحمد اللہ قول مشہور ہمیں اس تعدد و کثرت سے وحدت پر لاتا ہےیہ قول دلالت کرتا ہے کہ شہزادۂ کربلا حضرت علی اکبر علیہ السلام کا سن مبارک ۶۱ ہجری کربلا میں ۱۸ برس کا تھا۔حضرت علی اکبرعلیہ السلام کے سن مبارک میں مشہور قول درست ہےاورظاہراً تمام اسلامی ممالک میں بھی یہی قول شہرت کا حامل ہےبالخصوص برصغیر میں جناب علی اکبر علیہ السلام (نثر و نظم میں) مشہور و معروف قول یہی ہے۔مقتل کی تمام کتب میں موجود ہے کہ جب حضرت امام حسین علیہ السلام اپنے فرزند دلبند کو میدان کی طرف روانہ کرنے لگے تو بارگاہ خدا میں یوں گویاہوئے:اللھم اشھد علی ھؤلاء القوم فقد برز الیھم غلام اشبہ الناس خلقا و خلقا و منطقا برسولک صلی اللہ علیہ وآلہ۔۔۔۔۔’بارالہٰا! گواہ رہنا اس قوم ستمگر سے جنگ کرنے کے لیے ایسا جوان جارہا ہے جو خلقت و اطوار،رفتار و گفتار میں تمام لوگوں سے زیادہ تیرے رسولﷺکے ساتھ شباہت رکھتا ہے۔۔۔۔۔‘‘(۴)لسان امامت سے ادا کیا ہوا لفظِ مبارک’غلام ‘‘یعنی جوان،نوخیز،اسی مطلب پر دلالت کررہا ہےکہ شہزادہ سن کے اعتبار سے ابھی سنِ جوانی سے متجاوز نہیں ہوا تھا،جہاں تک تأویلات و توجیہات کا تعلق ہے تو اصل کلام اور اول کلام کو حقیقت پر ہی حمل کیا جاتا ہے اور یہاں پر کوئی قرینہ صارفہ بھی نہیں کہ حقیقت کی بجائے مجاز کی نوبت آئے لہٰذا غلام سے مراد یہی تازہ جوان ہی ہے جو کہ اقوال میں سے ۱۸ سال سن کے ساتھ زیادہ موافقت و مطابقت رکھتا ہے۔بزرگ محقق علماء جیسے شیخ مفید،شیخ طوسی وسید ابن طاؤوس رحمہم اللہ تعالیٰ نے اپنے اپنے آثار میں حضرت علی اکبر علیہ السلامکا سن مبارک کربلا میں اٹھارہ سال قلمبند فرمایا ہے۔(۵)مؤلف خورشید جواناننے اس قول کے قبول کرنے کو‘‘ تاریخی احتیاط’ سے تعبیر کیا ہےاگرچہ ان کےاپنے دلائل کا ماحصل اس قول کے خلاف ہے لیکن اس بات کے قائل نظر آتے ہیں کہ بزرگ ومحقق شخصیات نے جس قول کو اختیار کیا ہےتو یقیناً ایسے بزرگان علم کے دلائل پختہ اور قوی تر ہوں گے کہ انہوں نے ۱۸ سال والا قول اختیار کیا ہے لہٰذا احتیاط تاریخی اس امر کی مقتضی ہے کہ ان کے قول کی مخالفت نہ کی جائے اور اسی مشہور قول کو قبول کرلیا جائے کیونکہ ہوسکتا ہےکہ ان بزرگان کے پاس موجود دلائل ہمارے قیل و قال سے مافوق ہوں۔اس محقق مؤلف نے اس بحث کے آخر میں اضافہ کیا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ لقب’اکبر‘‘چھوٹے شہزادے علی اصغر علیہ السلام کے لقب ‘اصغر‘‘سے قیاس کرتے ہوئے ملا ہو۔(۶)
 
محقق تفریشی نے بھی اپنے استدلال میں سابق الذکر بزرگان کے قول کی تائید کی ہے لہٰذا ان کے نزدیک بھی شہزادے کا سن مبارک ۱۸ سال ہے۔(۷)اس قول کی تائید میں کتاب مستطاب’ثمرات الاعواد‘‘کے مؤلف بزرگوار یوں رقمطراز ہیں:’حضرت علی اکبر علیہ السلام اپنی جدہ مظلومہ حضرت فاطمہ زہراسلام اللہ علیہا کے ساتھ اس لحاظ سے شباہت رکھتے ہیں کہ ان دونوں کی عمریں کم تھیں اور دونوں ہی اٹھارہ سالگی میں شہادت کی سعادت پر فائز ہوئے۔‘‘(۸)حضرت امام حسین علیہ السلام کے کلمات وارشادات پر مبنی کتاب’موسوعۃ کلمات الامام الحسین علیہ السلام‘‘میں شہادت اہل البیت علیہم السلام کے تحت بحث کی ابتدا میں اعیان الشیعہ سے منقول قول میں بھی شہزادے کے۱۸ سال والےقول کو ٹھکرایا نہیں گیابلکہ ان کے مطابق حضرت علی اکبر علیہ السلام کا سن مبارک ۱۸ سال،۱۹ سال یا ۲۵ سال ہے اور وہ آل ابو طالب کے پہلے شہید ہیں(۹)کتاب شریف مصابیح الہدیٰ میں حضرت علی اکبر علیہ السلام کا سن مبارک ۱۹ سال نقل ہوا ہے اسی کتاب اور نیز تمام کتب مقاتل میں شہزادے کے مبارزطلبی کے اشعار موجود و محفوظ ہیں۔شہزادے نے جب پہلی مرتبہ قوم اشقیاء پر حملہ کیا تو شہزادے کا رجز یہ تھا:(۱۰)أناعلیبنالحسینبنعلینحنوبیتاللہاولیٰبالنبیتاللہلایحکمفیناابنالدعیاضرببالسیفأحامیعنأبضربغلامھاشمیقرشییہاں ہماری شاہد بحث شہزادے کے رجز کا آخری مصرعہ ہے جس میں خود فرمارہے ہیں کہ ‘‘میری ضرب، ہاشمی قرشی جوان کی ضرب ہے’اس کلمۂ غلام سے بھی شہزادے کا جوانسال ہوناظاہر ہوتاہےشبیہ پیغمبرﷺ جناب علی اکبر ؑمیدان کربلا میں بروز عاشورہ امام حسین علیہ السلام سے ان کے کڑیل جوان بیٹےنے اذن جہاد مانگا تومولا نے اشکبار آنکھوں کے ساتھ اجازت دی اور لسان عصمت و طہارت سے یہ الفاظ جاری ہوئے :اللھماشھد،فقدبرزالیھمغلاماشبہالناسخلقاوخلقاومنطقابرسولکصلیاللہعلیہوآلہ،وکنااذااشتقناالینبیکنظرناالیہ
‘خداوندا!گواہ رہنا،ان کی طرف ایسا جوان جارہا ہے جو خلق ،خلق اور منطق میں تمام لوگوں میں سے تیرے رسول ﷺسے زیادہ شباہت رکھتا ہے۔۔۔ہمیں جب بھی تیرے نبی کی زیارت کا اشتیاق ہوتا تو ہم اس جوان کو دیکھ لیتے تھے‘‘۔(۱۱)شباہت ایسی چیز ہے کہ جس کی موجودگی میں دیکھنے والے کو مشبّہ پر مشبہ بہ کا گمان ہونے لگتا ہے اب یہ وجہ شباہت جس قدر زیادہ ہوگی اتناہی یہ منظر شدید اورواقعی لگے گا ۔ پھر جب شباہت کا یہ عالم ہو کہ ایک معصوم امام جناب حسین علیہ السلام کو اپنے نانا کی یادستائے اور اس تشنگی کو زیارت علی اکبر علیہ السلام سے سیراب فرمائیں تو اندازہ کیجیئے کہ جناب علی اکبر علیہ السلام رسول معظم ﷺ سے کس قدر شباہت رکھتے تھے۔ اما م کے فرمان کے مطابق شہزادہ حبیب خداﷺ سے تین قسم کی شباہتیں رکھتے تھے۔خلقی،خُلقی،منطقی۱۔شباہت خلقی سے مراد قد و قامت اور صورتاً مشابہ ہونا ۔ جناب علی اکبر علیہ السلامقد وقامت اور شکل و صورت میں رسولِ خدا ﷺکے ساتھ شباہت رکھتے تھے۔ معروف ہے کہ حضرت ابوالفضل العباس علیہ السلام اور شہزادہ علی اکبر علیہ السلام جب مدینے کی گلیوں میں نکلتے تھے تو لوگ فقط ان کے دیدار کی خاطرجمع ہو جاتےتھے۔ جناب علی اکبر ؑ اس قدر خوبرو تھے کہ ان کو دیکھ کر زمانے کو رسول خدا یاد آ جاتے تھے۔
 
زائر رسول ﷺکا بیہوش ہوناجناب علی اکبر علیہ السلامکے زمانے میں ایک عرب شخص حبیب خداﷺ کی زیارت کا بہت مشتاق تھا۔ اسی اشتیاق میں گریہ کناں رہتا تھااسے بتلایا گیاکہ پریشان ہونےکی ضرورت نہیں اگرچہ رسولِ خدا ﷺ اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں لیکن شہزادۂ حسینی جناب علی اکبرعلیہ السلام ہوبہو شکل و صورت میں پیغمبر لگتے ہیں ۔ جاؤ جا کر مدینہ میں شہزادے کی زیارت کرلو،رسولِ خدا کی زیارت ہوجائے گی۔وہ عرب شخص امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا،ماجرا عرض کیا۔مولا امام حسین علیہ السلام نے شہزادے کو آوازدی ۔جناب علی اکبر تشریف لائے،جب بابا کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تواس عرب شخص نے جناب علی اکبر علیہ السلام کو دیکھا تو اسے ایسا محسوس کیا کہ میں رسول معظم ﷺ کی زیارت کر رہا ہوں اورتاب نہ لاتے وہ عرب ہوئے بے ہوش ہوگیا(۱۲)(اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس شخص نے اس سے پہلے رسول اکرم ﷺ کی زیارت کی ہوئی تھی)۲۔ شباہت خُلقی سے مراد یہ کہ کسی سے اخلاق میں مشابہ ہونا۔ جناب علی اکبر علیہ السلام کی نسبت ایک معصوم امام کی زبانی خلق عظیم کے مالک سے دی جارہی ہے اور رسول معظم ﷺ کے اخلاق کی اوج کی تصدیق ذات کردگار کے کلام سے ہوتی ہے۔انک لعلیٰ خُلق عظیم(۱۳)’ آپ بے شک عظیم اخلاق کی بلند ترین منزل پر فائز ہیں‘‘اسی خلق وخو کی ہوبہو عکاسی آ پ کو جناب علی اکبر علیہ السلام کے اخلاق میں ملے گی ۔اس عظیم اخلاق کی جھلک شہزادے میں اس قدر نمایاں تھی کہ شہزادے کے سلام کرنے سے لوگوں کو پیغمبر کا سلام کرنا یاد آجاتا تھا۔ غرباء و فقراء و مساکین کے ساتھ حسن سلوک سے رفتار نبوی کی یادیں تازہ ہوجاتی تھیں۔کتب تاریخ میں موجود ہے کہ ہمشکل پیغمبر شہزادہ علی اکبر علیہ السلام نے مدینہ میںغریبوں اور مسکینوں کے لیے ایک بہت بڑا مہمان خانہ بنا رکھا تھا جس میں ہر روزوشب کھانے کھلانےکا انتظام کیا کرتے تھے اور تمام لوگ شہزادۂ کرم کے دستر خوان سے استفادہ کرتے تھے۔(۱۴)حضرت امام حسین علیہ السلام نے اس وجود نازنین کو وداع کے وقت بارگاہ احدیت میں راز و نیاز اور اور مناجات میں اس انداز سے پیش کیا کہ اے پروردگار ! تیرے حبیب کا سا اخلاق رکھنے والا یہ جوان تیرے دین کی حفاظت کے لیے اس بدبخت قوم کے سامنے بھیج رہا ہوں لیکناس صورت وسیرت پیغمبر ﷺکے آئینہ دار شہزادے کو دیکھ کر بھی ان کی قساوت و شقاوت میں کمی نہیں آرہی۔۳۔شباہت منطقی سے مراد گفتار میں کسی کے مشابہ ہونا۔لسانِ عصمت میں منطق علی اکبر علیہ السلام کو منطق رسول خدا ﷺسے تعبیر فرمایاگیااورقرآن کریم منطق نبوی کے بارے میں یوں گویا ہے:وما ینطق عن الھویٰ ان ھو الا وحی یوحیٰ(۱۵)’یعنی رسول خدا ہواوہوس سے کوئی کلام نہیں کرتے ان کا کلام تو صرف وحی الہٰی ہوتا ہے‘‘امام حسین علیہ السلام کو جب بھی اپنے نانا کی آواز سننے کا شوق ہوتا آ پ جناب علی اکبر علیہ السلام سے کہتے کہ بیٹا اذان و اقامت کہو اور پھر راز ونیاز اور عبادات و مناجات میں مشغول ہو جاتے اسی وجہ سے ۱۰ محرم الحرام کی صبح کو بھی جناب علی اکبر علیہ السلام سے اذان دلوائی گئی تا کہ لہجہ رسولﷺ سن کر شاید ان قسی اور شقی لوگوں کے دلوں پہ اثر پڑےلیکن۔۔۔۔!!!!!!!!!!کردار ورفتارو گفتار میں جناب علی اکبر علیہ السلام رسول معظم ﷺ کے اتنے مشابہ تھے کہ ان کو دیکھ کر لوگ رسول اکرم ﷺ کو یاد کرتے تھے۔
 
معاویہ لعینکی زبانی جناب علی اکبر علیہ السلام کی تعریفابو الفرج اصفہانی مغیرہ سے روایت کرتا ہے ایک دن معاویہ نے اپنے ہم درباریوں سے پوچھا من احق بھذا الامر؟ تم لوگوں کے نزدیک اس خلافت کا حق دار کون ہے؟سب نے کہا!انت۔ہمارے نزدیک اس منصب کے لائق صرف آپ ہیں، معاویہ کہنے لگالا،اس طرح نہیں ہے جس طرح تم لوگ سوچتے ہو بلکہاولی الناس بهذالامر علی بن الحسین بن علی جده رسول الله وفیه شجاعه بنی‏هاشم و سخاه بنی امیه و زهو ثقیف.اس منصب کےسب سے زیادہ سزاوار علی بن حسین ہیں جن کے جد رسول خداﷺ ہیں جنہوں نے کی شجاعت و دلیریبنی ہاشم سے ، سخاوت بنی امیہ سے اور زیبائی اور فخر و مباہات ثقیف سے پائی ہے(۱۶)
شہزادہ علی اکبر علیہ السلام کےکمال ایمان و ایقان کا ایک واقعہجناب علی اکبر علیہ السلام کا سینہ معرفت خداوندی سے پرتھا جس نے جنت کے سرداروں سے تعلیم و تربیت حاصل کی تو ایسی ہستی کاعلم و ایقان بھی اوج ثریا پہ ہوگا آپ کی دینی و سیاسی بصیرت کا علم سفر کربلا سے عیاں ہوتا ہے جیسا کہ سفر کربلا میں ایک واقعہ ملتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی منزل قصر بنی مقاتل پر آنکھ لگ گئی جیسے ہی آپ نیند سے بیدار ہوئے تو فوراً کلمہ استر جاعانا لله و انا الیه راجعون پڑھا ۔ آپ نے تین مرتبہ اس جملے کو دوہرایا اور خداوند متعال کی حمد کی۔ جناب علی اکبر علیہ السلام نے آپ سے کلمہ استرجاع کی وجہ پوچھی تو امام حسین علیہ السلام نے فرمایا کہ بیٹا! میں نے خواب میں ایک گھوڑا سوار کو دیکھا ہے جو کہہ رہا تھا کہ یہ قافلہ موت کی جانب رواں دواں ہے۔ اس پر شہزادے نے پوچھا : بابا کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟آپ ؑ نے فرمایا کیوں نہیں ہم حق پر ہیں۔تو شہزادے نے فرمایا : فاننا اذن لا نبالى ان نموت محقین پھر ہمیں موت کی کیا پرواہ ہے؟ شہزادے کا یہ مخلصانہ جواب سن کر سید الشہداء نے ان کو دعائے خیر دی جزاک اللہ من ولد خیر ما جزی ولداً عن والدہ(۱۷)
شجاعت شہزادہ علی اکبر علیہ السلامجناب علی اکبر علیہ السلامفرزند علی علیہ السلام کے پروردہ تھے آپ کو شجاعت اپنے دادا مولا علی مر تضیٰعلیہ السلام شیر خدا سے ورثے میں ملی تھی۔علامہ مجلسی نقل فرماتے ہیں:بروز عاشورہ آپ جس طرف رخ فرماتے لو گوں کو خاک ہلاکت میں ملاتے جاتے تھے۔فلم یزل یقاتل حتّٰی ضجّ النّاس من کثرۃ مَن قتل منھم و روی اَنّہ قتل علی عطشہ ماۃوعشرین رجلاً ثم رجع الی ابیہ فلم یزل یقاتل حتٰی قتل تمام الما تینآپ نے اسقدر شجاعت علوی کا مظاہرہ کیا کہ مقتولین کی کثرت پر لوگ گریہ و شیون کرنے لگے اور روایت میں ہے کہ علی اکبر نے پیاس کی شدت کے باوجود ایک سو بیس افراد کو تہ تیغ کیا۔پیاس کی وجہ سے آپ والد گرامی کی طرف گئے پھر دوبارہ میدان میں اترے اور اس قدر جنگ کی کہ مرنے والوں کی تعداد دوسو تک پہنچ گئی۔(۱۸)
حوالہ جات:(۱)موسوعۃ کلمات الامام الحسین علیہ السلام ص۴۰(۲)فضائل ،مصائب و کرامات حضرت علی اکبر علیہ السلام ص۳۱،خورشید جوانان ص۲۰(۳)خورشید جوانان ص۳۲ از اصابہ ج۴ص۱۷۷(۴)سحاب رحمت ص۴۵۸(۵)خورشید جوانان ص۲۹(۶)ایضاً ص۳۰ (۷)ایضاً ص۲۸(۸)ایضاً از ثمرات الاعواد ص۲۲۸(۱۰)مصابیح الہدیٰ ص۲۱۶(۱۱)سوگنامہ ٔ کربلا متن لھوف سید ابن طاووس ص۲۰۸(۱۲)فضائل ،مصائب وکرامات حضرت علی اکبر علیہ السلام تألیف عباس عزیزی ص۳۴(۱۳)سورہ ٔقلم آیت ۴ (۱۴)خورشید جوانان ص۴۱(۱۵)موسوعۃ کلمات امام الحسین علیہ السلام(۱۶)حیاۃالامام امالحسین،ج ۳،ص ۲۴۵.(۱۷) بحار الأنوار،ج ۴۵،ص .۴۳۔ نفس المہموم ص ۱۰۸ (۱۸)ایضاً


 

11 شعبان المعظم وہ تاریخ ہے جب امام حسین علیہ السلام کی آغوش مبارک میں علی اکبر جیسا فرزند آیا، جس نے دنیا میں محض اٹھارہ بہاریں گزاریں اور اپنی پوری زندگی اپنے بابا کے مقصد پر یوں قربان کر دی کہ آج کے جوانوں کے لئے نمونہ بن گیا اور اسی بنیاد پر آج کی تاریخ کو اسلامی دنیا میں علی اکبر علیہ السلام سے منسوب کرتے ہوئے “یوم جوان” کے نام سے جانا جاتا ہے۔
 یوں تو ہر دن ہی جوانوں کا ہے کہ ان کے وجود میں حرکت ہوتی ہے، شادابی و فرحت سے انکا وجود سرشار ہوتا ہے اور ہر آنے والے دن کو وہ اپنی توانائیوں کی بنیاد پر یادگار بنا دیتے ہیں لیکن آج کی تاریخ اس لئے اہم ہے کہ اس جوان کی ولادت سے منسوب جس نے اپنی جوانی کو آئینہ بندگی بنا دیا ایسا آئینہ جو رہتی دنیا تک لوگوں کو منزل کی نشاندہی کرتا رہے گا ،
چنانچہ روز جوان جہاں جوانوں کی اہمیت کو بیان کرتا ہے، وہیں علی اکبر جیسے جوان کی یاد بھی دلاتا ہے جس نے اپنی جوانی دین پر لٹا دی اور ہر شریف النفس جوان کے دل کی دھڑکن بن گیا، اور یہی وجہ ہے کہ آج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ شام میں حق و باطل کے درمیان سجے معرکہ میں جوانوں کا جوش و ولولہ کیا ہے؟ ان جوانوں کےعزم و انکی  ہمت کو ہمارا سلام،جو کرونا جیسی خطرناک وبا کے دوران بھی دشمن کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں  ۔
علی اکبر علیہ السلام کی راہ پر چلتے ہوئے اپنی جوانی کو راہ اسلام پر لٹا دینے والے ان جوانوں کو سلام، جنہوں نے دنیا کی زرق برق کو ترک کر کے دفاع حرم زینب سلام اللہ علیہا کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا لیا، یہی وجہ ہے کہ شہداء حرم بی بی زینب سلام اللہ علیہا کی ایک بڑی تعداد ہمیں ان جوانوں پر مشتمل نظر آتی ہے جنکا سن جناب علی اکبر علیہ السلام کے برابر ہے  یقینا کل اگر جناب علی اکبر علیہ السلام نے حقانیت کی راہ پر مر مٹ کر امر ہو جانے کا سبق نہ دیا ہوتا تو آج یہ روح پرور سماں نہ ہوتا، جو ہم شام وعراق کے میدانہائے جنگ میں دیکھتے آئے ہیں ۔اور کرونا جیسی عالمی وبا کے دوران مختلف علاقوں میں ان جوانوں کے متحرک کردار کی صورت دیکھ رہے ہیں جو ہر منزل پر آواز دے رہے ہیں کہ انسانیت کی خدمت کرنے کا طریقہ ہم نے علی اکبر سے سیکھا ہے لہذا ہمیں موت کا خوف نہیں ہمارے لئے یہی کافی ہے کہ ہم راہ حق پر گامزن ہیں ۔۔۔
 ہمارا کروڑوں سلام و درود حسین ابن علی علیہ السلام کے اس جوان بیٹے علی اکبر (ع) پر جس نے “اولسنا علی الحق” کہہ کر ہمارے جوانوں کو سمجھا دیا کہ تم اگر حق پر ہو تو پرواہ نہیں ہونی چاہیئے کہ تم موت پر جا پڑو یا موت تم پر آ جائے۔ آج جہاں ایک طرف جوانوں سے منسوب اس دن میں ذکر و یاد علی اکبر سزاوار ہے، وہیں بہت مناسب ہے کہ ہم اپنے سماج اور معاشرہ میں غور کریں کہ جوانوں کے مسائل کیا ہیں اور انکی دشواریاں کیا ہیں؟
جوانوں کے مسائل اور انکو در پیش چیلنجز:
یقینا موجودہ دور میں ہمارے جوانوں کے ساتھ بڑی دشواریاں ہیں، انہیں نہیں معلوم وہ کس طرف جائیں کہیں جھوٹے عرفان کا بازار سجا نظر آتا ہے تو کہیں تصوف و طریقت کی باتیں ہیں، کیا ایسے میں ضروری نہیں کہ ہم اپنی جوان نسل پر ایک ذرا توجہ دیں کہ وہ کہاں جا رہی ہے؟ 
کیا یہ بات قابل غور نہیں کہ آج ہمارے جوان سرگردان و حیران ہیں، کہیں وہ کسی پیر سے اپنے مسائل کا حل ڈھونڈتے نظر آتے ہیں، کہیں کسی خود ساختہ صوفی و عارف کے جال میں پھنسے نظر آتے ہیں اور ان سب سے بچ بھی جائیں تو مغربی تہذیب کا غول پیکر دیو انہیں نگل لینے کے درپے نظر آتا ہے، 
وہ دور جو کامیابی کا دور ہوتا ہے اگر اس دور میں کوئی جوان منحرف ہو جائے تو پوری زندگی تباہ ہو جاتی ہے، اس لئے کہ جوانی زندگی کا ایک ایسا مرحلہ ہے کہ جس میں انسان کے پاس قوت، قدرت اور نشاط و فرحت سبھی۔ چیزوں کی فراوانی ہوتی ہے، 
خودجوانی کوطاقت اور اُمید کا سرچشمہ بیان کیا گیا ہے۔ 
جوان کے اندر جذبہ و ارادہ ہوتا ہے، سب کچھ کر گزرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے، بھرپور توانائیوں اور جرات کے ساتھ زندگی کی مشکلات کا سامنا کر نے کا ہنر ہوتا ہے۔ 
اب ایسے میں تمام تر توانائیاں اگر صحیح سمت و صحیح ڈائریکشن نہ ملنے کی بنا پر تباہی کی طرف چلی جائیں اور جوانی کا جوش و جذبہ تعمیر کی بجائے تخریب پر لگ جائے تو انسان اندازہ لگا سکتا ہے کہ کتنی خرابی معاشرہ میں پھیل سکتی ہے۔
مقام افسوس:
کیا یہ مقام افسوس نہیں کہ جن جوانوں کا نمونہ عمل و آئیڈیل جناب علی اکبر و جناب قاسم کو ہونا چاہیئے تھا وہ جوان آج اپنا آئیڈل مغربی سراب میں تلاش کر رہے ہیں، یہ مغرب کی تقلید کو اپنے لئے ٖباعث فخر سمجھتے ہیں جبکہ مغرب کی کھوکھلی تہذیب کا اژدھا جو بھی سامنے آئے اسے نگل رہا ہے، اقدار ہوں تو وہ نہیں بچتے، رشتوں کا تقدس ہو تو وہ نہیں بچتا، انسانی شرافت و کرامت کی تو بات ہی کیا، آج ہماری نئی نسل جس مغرب کے پیچھے بھاگ رہی ہے وہاں کے سمجھدار باسی تو خود اپنے رہن سہن سے پریشان ہیں۔ آج روز روشن کی طرح یہ بات بالکل واضح ہے کہ مغرب نے صرف اور صرف معاشي ترقي پر دھيان ديا اور اپني نوجوان نسل اور معاشرے کو معاشرتي اور اخلاقي لحاظ سے پوري طرح سے تباہ و برباد کرکے رکھ ديا۔ مغربي معاشرہ تمام اخلاقي اقدار اور انساني سعادت مندی کے آثار کھو چکا ہے، ماديت کی چکا چوند نے آنکھوں پر پردہ ڈال ديا ہے ليکن افسوس ہماري نوجوان نسل اب اسي فرسودہ تہذيب و ثقافت کو روشن خيالي، ترقي پسندي اور عظمت سمجھنے لگي ہے جبکہ مغربي تہذيب کا جس نے بھی ذرا گہرائی سے مطالعہ کیا ہو وہ اقبال کی صورت کہتا 
نظر آئیگا:
اٹھا کر پھينک دو باہر گلي ميں نئي تہذيب کے انڈے ہيں گندے
یہ جو آپ روز مغرب کے سلسلہ میں سنتے رہتے ہیں، فلاں جوان نے خودکشی کی اور اپنی خودکشی کے مناظر کو فیس بک پر لائیو ٹیلی کاسٹ کیا، یا پھر ایک جوان نے اپنے سارے بہن بھائیوں کو ایک ہال میں کھڑا کر کے گولیوں سے بھون دیا اور خود کو بھی مار لیا، یا پھر کسی جوان نے اپنے اسلحے سے اپنے کلاس روم کے بچوں کو خاک و خون میں غلطاں کر دیا، یہ مغربی تہذیب کے کھوکھلے پن کی وہ علامتیں ہیں جن کے لئے
 اقبال بہت پہلے کہہ گئےتھے:

تمہاري تہذيب اپنے خنجر سے آپ ہي خودکشي کریگي۔جو شاخ نازک پر آشيانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا
کیا یہ حیف و افسوس کی جگہ نہیں کہ وہ تہذیب جو خودکشی کے دہانے پر ہو ہمارے یہاں اس کی تقلید ہو رہی ہے؟۔۔۔ اور ہمارا جوان مغربی کلچر کے پیچھے پاگلوں کی طرح گھوم رہا ہے۔؟
 آج ہمارے تعليمي نصاب، پرنٹ اور اليکٹرانک ميڈيا پر غير ديني عناصر اثر انداز ہيں اور وہ غلط، فاسد اور اخلاق سوز مفاہيم اور مناطر کو اس قدر دلچسپ، جاذب النظر اور قابل تقليد بنا کر پيش کرتے ہيں کہ نئي نسل کو ان کي تقليد کے بارے ميں کہنے کي ضرورت ہي نہيں رہتي بلکہ وہ خود اس غير اسلامي مغربي ثقافت اور تہذيب کو پسند کرنے لگتي ہے اور اسي کو جديد، دلچسپ، قابل عمل اور اعلٰي تہذيب و ثقافت سمجھ کر تقليد کرتي ہے۔ نئي نسل کو اس ثقافتي يرغمالي سے بچانا يقينا تمام صاحبان دين و دانش اور وارثان انبياء عليہم السلام کي اولين ذمہ داري ہے۔ ان غير ديني عناصر کو جديد اور موثر ذرائع سے ہي شکست دے کر آئندہ نسل کو بچايا جا سکتا ہے۔ اس کے لئے ہر ايک کو اپني بساط کے مطابق قيام کرنا چاہيئے۔ ضررت اس امر کي ہے کہ مسلم ممالک ميں حکومتي سطح پر ايسے اقدامات اٹھائے جائيں جو نہ صرف اسلامي معاشرے کو مغربي ثقافت کي يلغار سے محفوظ رکھيں بلکہ نوجوان نسل کي بہتري کے ليۓ صحت مند سرگرمياں فراہم کي جائيں اور اسلامي ماحول ميں رہتے ہوئے ايک مسلمان نوجوان کو تفريح کے تمام مواقع فراہم کئے جائيں، آج جبکہ عریانیت چہار سو اپنے جالوں کو بچھائے، جوان نسل کو کھوکھلا کرنے کے درپہ ہے اور مغربی کلچر بری طرح انہیں تباہ کر رہا ہے ہم سب کے لئے ضروری ہے کہ اپنے جوانوں اور بچوں کی تربیّت قرآن و سنّت کے سائے میں کریں، انہیں اسلامی معارف سکھائیں تاکہ ہماری یہ نئی نسل مستقبل میں کچھ کر سکنے کے قابل ہو سکے۔
 لہذٰا ملّت اسلامیہ کے فرد فرد کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ امّت مسلمہ کے روشن مستقبل کی خاطر اپنی سب سے زیادہ توجہ نئی نسل کی تعلیم و تربیّت پر مرکوز کریں  کہ امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں، “جوان کا دل خالی زمین کی مانند ہے۔ آپ اس میں جو بات بھی ڈالیں وہ قبول کرے گا، پس اُسے ادب سکھائیں، اس سے پہلے کہ اس کا دل سخت ہو جائے”۔ {نہج البلاغہ خط ۳۱}۔ اس لئے کہ ایک نیک، صالح، قرآنی معاشرے کا قیام پاکیزہ اور دیندار جوانوں کے بغیر ممکن نہیں۔ ہمیں چاہیئے کہ نکاح سے لے کر ولادت تک اور ولادت سے لے کر بلوغ تک کے مراحل میں لمحہ بہ لمحہ قرآن و سنّت کا دامن تھامے رکھیں تاکہ ہمارا مستقبل تیرہ و تار ہونے سے بچ سکے۔
ایک نوجوان قلمکار نے کیا ہی خوب بات کہی ہے: “اسلام آباو اجداد کی اندھی تقلید سے پھیلنے والا جامد نظام حیات نہیں، بلکہ تحقیق و تجربے کی بنیاد پر پھیلتی ہوئی ارتقاءِ انسانیت کی علمی و فکری، تہذیبی و ثقافتی اور سیاسی و اجتماعی تحریک کا نام ہے۔ اس ہمہ جہتی تحریک کی نشوونما میں جہاں انبیاء کرام کے علم و فضل، آئمہ اہلبیت {ع} کے عرفان امامت اور علماء کرام کی جدوجہد کا عمل دخل ہے، وہیں پر اسلامی جوانوں کے خون کے نذرانے بھی تاریخ اسلام کے ماتھے کا جھومر ہیں۔  دنیاوی معاملات کی انجام دہی آج جوانوں کی توانائیوں پر منحصر ہے ۔بڑے بڑے کارخانوں اور فکٹریوں میں جوان ہی کام کرتے نظر آتے ہیں انہیں پر بڑی بڑی کمپنیاں سرمایہ کاری کرتی ہیں کسی بوڑھے پر کوئی انوسومنٹ نہیں کرتا جبکہ اسلام میں بھی جوانی ہی کی عبادت کو بہترین عبادت کہا گیا ہے۔ بقول معروف “در جوانی توبہ کردن شیوہ پیغمبری است”  جوانی میں توبہ و خدا کی طرف بازگشت کو شیوہ پیغمبرانہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
کل اور آج کے زمانے کا فرق:
کچھ  لوگ بجائے اس کے کہ جوانوں کی رہنمائی کریں انکو درپیش چیلنجز کا جواب دیں یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ہم تو اپنی جوانی کے دور میں اتنے آزاد خیال نہ تھے، ہم نے بھی جوانی کا دور دیکھا ہے ہم تو ایسے لا ابالی نہ تھے، ہم تو اتنے غیر ذمہ دار نہ تھے، آج کے جوانوں سے تو اللہ کی توبہ، اس طرح کی باتیں جو ہمارے بزرگ کرتے ہیں تو انہیں ذرا اپنا دور بھی دیکھنا چاہیئے، انکے دور میں اور آج کے دور میں بہت فرق ہے، کل نہ سوشل میڈیا پہ گونا گوں قسم کے مسائل تھے اور نہ اس کا وجود، کل نہ اتنے ٹی وی چینلز تھے اور نہ نیٹ کی آج جیسی سہولت، کل ضروری باتوں کو جاننے کے لئے ایک ہی طریقہ تھا کہ کسی ماہر کے پاس جایا جائے، آج ہر فلیڈ اور ہر میدان کی بیسک و بنیادی معلومات سے دقیق مفاہیم تک چھوٹے سے موبائل اسکرین پر نیٹ کے ذریعہ دسستیاب ہیں، کل خود کو گناہوں سے بچانا آسان تھا کہ اپنے آپ کو ایسی جگہوں پر لے جانا پڑتا تھا جہاں انسان گناہ کر سکے، آج ہر قسم کے گناہ کے لئے محض انسان کو تنہائی کی ضرورت ہے اور وہ انٹرنیٹ کے ذریعہ کہیں بھی پہنچ سکتا ہے اور بڑے سے بڑے گناہ کی منصوبہ بندی کر سکتا ہے۔ کل گناہ کار و مجرم لوگوں کے علاقوں کو بدنام شمار کیا جاتا تھا اور ایسے علاقوں میں جانے والوں کی روک تھام کی جا سکتی تھی، آج برقی لہروں نے ہر قسم کے حصار جرم کو توڑ دیا ہے نہ کوئی جغرافیہ ہے نہ کوئی سرحد ہے، انسان کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا موبائل ہے اور وہ جہاں چاہے جا سکتا ہے اوپر سے ایسے مجرم و خطرناک قسم کے موذی لوگ موجود ہیں جو سیدھے سادے جوانوں کے لئے جال بچھائے بیٹھے ہیں کہ انکے جال میں کوئی پھنسے، تو اپنے شکار کو من چاہے انداز میں حلال کریں۔ اس تمام صورتحال کو سمجھتے ہوئے ہمارے ماں باپ اور بزرگوں کے لئے ضروری ہے کہ اپنے جوانوں کو لاحق خطرات کو باریکی کے ساتھ دیکھیں اور متوجہ ہوں کہ انکی دنیا بہت مختلف ہے اور وہ جس دنیا میں رہ رہے ہیں اس سے ہم بہت دور ہیں اور ہم اندازہ بھی نہیں لگا سکتے کہ آج کے دور کے جوان کو کتنے چلینجز کا سامنا ہے، لہذٰا صبر و تحمل اور بردباری سے کام لیتے ہوئے جوانوں کو تھوڑا وقت دینے کی ضرورت ہے، انکے مسائل کو درک کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے ماں باپ کی ذمہ داری ہے کہ اپنی جوان نسل کی صحیح رہنمائی کی جائے تاکہ یہ لوگ زندگی میں کامیاب و سربلند ہو سکیں اور کیا ہی بہتر ہو کہ رہنمائی اپنے تجربات کے ساتھ دین کے ان اصولوں کی روشنی میں ہو جو جاوداں ہیں اور جنکی پیروی کرنے سے نہ صرف انسان سکون حاصل کرتا ہے بلکہ سربلندی کو کامیابی کو بھی اپنا مقدر بنا لیتا ہے۔ امید کہ جناب علی اکبر علیہ السلام کی ولادت کی مناسبت ایک بہانہ بن جائے اور ہم اپنی زندگی کی روزمرہ کی مصروفیات سے تھوڑا وقت نکال کر اپنی جوان نسل کے مسائل پر بھی غور کریں گے کہ یہی ہمارا مستقبل ہیں اور ہماری زندگی کی کامیابی ان کی کامیابی سے جڑی ہے

 تحریر: سید نجیب الحسن زیدی

 اسلامی جمہوریہ ایران کے وزير خارجہ محمد جواد ظریف نے اپنے ٹوئیٹرپیغام میں یوم پاکستان کی مناسبت سے پاکستانی عوام اور حکومت کو مبارکباد پیش کی ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے پاکستان کو ایران کا دوست، برادر اور بہرتین ہمسایہ ملک قراردیتے ہوئے کہا کہ ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ پاکستان ہمارا ہمسایہ ، برادر اور دوست ملک ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے پاکستانی حکومت اور عوام کے لئے خوشحالی اور ترقی کی دعا کی ۔ واضح رہے کہ 65 سال قبل پاکستان کانام اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھا گیا۔

اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے انسانی حقوق کونسل کے 46 ویں اجلاس میں ایران میں انسانی حقوق کے بارے میں قرارداد پیش کرنے پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئےکہا ہے کہ دیگر اقوام کے حقوق کو پامال کرنے والے ممالک انسانی حقوق کے مدعی نہیں ہوسکتے اور نہ ہی انھیں دیگر ممالک میں انسانی حقوق کے بارے میں قضاوت کرنے کا حق حاصل ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایران کے خلاف پیش کی گئی قرارداد کو عالمی اجماع حاصل نہیں ہے اور نہ ہی سیاسی بنیادوں پر پیش کی گئي قرارداد کی کوئی اہمیت ہے۔ سعید خطیب زادہ نے کہا کہ  دوسری اقوام  کے حقوق کو پامال کرنے والے ممالک کو انسانی حقوق کے بارے میں قضاوت کرنے اور انسانی حقوق کا مدعی ہونے کا کوئي حق نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس قرارداد کی حمایت کرنے والے ممالک دنیا میں سب سے زیادہ انسانی حقوق کو پامال کررہے ہیں لہذا ایسے ممالک کو مدعی ہونے کے بجائے دنیا میں اپنے سنگین جرائم کے بارے میں جواب دہ ہونا چاہیے۔

 کابل شھر کے مصروف تجاری مرکز میں،جہاں ہر جگہ گاڑیوں اور انسانوں کی بھیڑ رہتی ہے ، نئے تعمیر شدہ اور پرانے مکانوں کے درمیان ایک منفرد چیز ہر دیکھنے والے کی آنکھوں کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے جو ہر لحاظ سے منفرد ہے۔ ایک فیروزہ رنگ کا گنبد اور دو مینارے ، کابل کے خشک شدہ دریا کے کنارے واقع یہ مسجد کابل شھر کی سب سے پہلی مسجد ہے۔

” مسجد شاہ دو شمشیر ” ایک ایسی مسجد اور زیارت گاہ جو بدھ کے دن لوگوں سے کھچا کھچ بھر جاتی ہے۔

“شاہ دو شمشیر” مسجد ایک تاریخی جگہ ہے جس نے اپنے طور سے کابل کی عظمت کو دو چندان کیا ہے اور اس مسجد کو افغانستان کے اندرونی لڑائیوں میں کسی قسم کا نقصان نہیں پہونچا ہے۔

یہ مسجد کابل شھر کے دل میں واقع ہے اور اصل میں یہ ایک ایسی زیارت گاہ ہے جو مسجد میں تبدیل ہوئی ہے۔ آج کے دور میں کابل کے لوگ اسے مسجد کے طور پر جانتے ہیں۔

 

اس مسجد کے دروازے کے دائیں طرف ایک تختی لگائی گئی ہے جس پر یہ آیہ شریف لکھی ہوئی ہے ﴿يٰأَيُّهَا ٱلَّذِينَ آمَنُواْ ٱرْكَعُواْ وَٱسْجُدُواْ وَاعْبُدُواْ رَبَّكُمْ وَٱفْعَلُواْ ٱلْخَيْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُون﴾  سورہ حج /۷۷

 

اس مسجد کے ارد گرد کابل کے لوگوں کی آمد و رفت ہوتی ہے  اسی وجہ سے اور تاریخی ہونے کے اعتبار سے یہ مسجد کافی مشہور ہے، بہت کم ایسے سیاح ہیں جو کابل آئیں لیکن اس مسجد کی زیارت نہ کریں۔

 ” مسجد شاہ دو شمشیر” کا نام کئی مرتبہ تاریخ میں بدل گیا ہے اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے تاریخ نگاروں کے مطابق یہ جگہ ایک ایسی زیارتگاہ ہے  جھان پر پہلا عرب شھید کیا گیا ہے۔

 

پہلی مرتبہ سپاہ اسلام نے ۳۶ ھجری میں بست باستان پر حملہ کیا اور اس کے بعد کابل کا رخ کیا۔ اس سپاہ کا ایک کمانڈر  “لیث بن قیس بن عباس” تھا جو سپاہ کے ایک حصے کا سالارتھا۔

یہ سپاہ جب کابل کی عظیم دیواروں سے گزری تو کابل میں گھمسان کا رن ہوا اس جنگ میں “لیث” شھید ہوا اسے اسی جگہ پر جہاں ” مسجد شاہ دوشمشیر” ہے سپرد خاک کیا گیا۔

اس مسجد اور زیاررت گاہ کے نام رکھنے کی اصلی دلیل یہ ہے کہ جب ” لیث بن قیس” کابل میں داخل ہوا وہ جنگ میں دونوں ہاتھوں سے تلوار چلاتا تھا اسی وجہ سے اس زیارتگاہ کا نام ” شاہ دو شمشیر” رکھا گیا ہے۔

تاریخ میں شاہ دو شمشیر کی زیارت گاہ کافی نشیب و فراز سے گزری ہے ، یہ مسجد کئی مرتبہ شھید کردی گئی ہے، لیکن آخری مرتبہ ” ملکہ سوریا” افغانستان کے پہلے پادشاہ ” امان اللہ خان ” کی بیگم کے ذریعے تعمیر کی گئی۔

 ” مسجد شاہ دو شمشیر” افغانستان میں معماری کی  ثقافت کی علامت جانی جاتی ہے۔  یہ مسجد آخری صدی کی معماری کی ظرافت کی عکاس ہے۔

 

“مسجد شاہ دو شمشیر” آج کے دور میں کابل کے مکینوں کی میزبان مسجد ہے ، اس مسجد میں نماز جمعہ اور نماز عید منعقد ہوتی ہے۔

اس کے علاوہ کابل کے لوگ اپنی دینی مناسبتوں کو یہی منعقد کرتے ہیں ، اور اس کی سب سے اہم دلیل کابل کے لوگوں کےلئے اس مسجد کا مکمل تعارف ہے، یہ مسجد کابل شھر کے مرکز میں واقع ہے اس لحاظ سے کابل کا ہرشھری اس سے قریب ہے۔ی

اس زیارت گاہ کے اردگرد بہت سے سفید کبوتروں کو دیکھا جا سکتا ہے جنہوں نے اس زیارت گاہ کی خوبصورتی کو دو چندان کیا ہے۔

اس مسجد کا خوبصورت منظر اور کابل کے دریا پر واقع ہونا، اور اس زیارت گاہ کا قدیمی ہونا اور اس کا مرکزی کردار اس بات کا سبب بنا ہے کہ ہر دن اس مسجد کے  زائروں کی تعداد جو داخل اور بیرون افغانستان سے آتے ہیں ، روز بروز بڑھتی جاتی ہے۔

 

اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر حسن روحانی نے اپنے ایک پیغام میں پاکستان کے وزير اعظم عمران خان کی صحتیابی کے لئے دعا کی ۔پاکستانی وزير اعظم کورونا وائرس کا شکار ہونے کے بعد قرنطینہ میں چلے گئے ہیں۔

صدر حسن روحانی نے پاکستانی عوام اور حکومت کو نوروز کی مناسبت سے مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ دنیا کو کوروناوائرس کی مہلک وباء  سے جلد از جلد نجات عطا فرمائے۔

صدر حسن روحانی نے کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں ایکدوسرے کے تجربات سے استفادہ کرنے کے سلسلے میں بھی تاکید کی۔


23 مارچ 1940ء کو قرارداد پاکستان لاہور میں منظور ہوئی۔ اس قرارداد کو برصغیر کے مسلمانوں کی پرجوش حمایت حاصل تھی۔ پورے ہندوستان میں انگریزوں سے آزادی کی عوامی تحریک چل رہی تھی۔ ہندو مسلم انگریزوں سے آزادی کے لیے متحد تھے، تاہم مسلمان انگریزوں کے انخلا کے بعد مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل اپنے لیے علیحدہ وطن کے خواہاں تھے۔ اسی آرزو کو 23 مارچ 1940ء کو قائداعظم کی قیادت میں مسلم لیگ کے عظیم الشان تاریخی جلسے میں ’’قرارداد لاہور‘‘ کی شکل دی گئی۔ پھر سات برس تک برصغیر کے مسلمانوں نے ایک ولولہ انگیز تحریک برپا کی۔ کانگریس اور اس کے حواریوں نے اس کی شدت سے مخالفت کی، لیکن عوام کی زور دار اور بے تابانہ خواہش کے آگے کون بند باندھ سکتا تھا۔ آخرکار کانگریس اور انگریزوں کو اس کے سامنےجھکنا پڑا اور ہندوستان کے بٹوارے کا فیصلہ ہوگیا۔ ہندوستان: بھارت اور پاکستان دو ریاستوں میں تقسیم ہوگیا۔

ہندوستان انگریزوں سے فوجی طاقت سے آزاد نہیں کروایا گیا تھا اور نہ ہی پاکستان کانگریس اور انگریزوں کے مقابلے میں لشکر کشی سے حاصل کیا گیا تھا۔ یہ آزادی بھرپور عوامی تحریک کے نتیجے میں حاصل ہوئی۔ ہماری سوچی سمجھی رائے ہے کہ عوام کی پرزور حمایت اور ریاست پر اعتماد سے ہی یہ آزادی محفوظ رہ سکتی ہے اور محفوظ رکھی جا سکتی ہے۔ اس کا ایک اور ثبوت مشرقی پاکستان کا بنگلہ دیش کی صورت اختیار کر لینا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بنگلہ دیش کے قیام میں عالمی سازشوں اور بھارتی ریشہ دوانیوں نے نہایت اہم کردار ادا کیا تھا، تاہم اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ عوام کی ایک بڑی تعداد کو پاکستان سے بدظن کیا جاچکا تھا۔ عوام کی اکثریت کو پاکستان کی ریاست پر اعتماد ہوتا اور وہ اس سے پرجوش طور پر وابستہ ہوتے تو مشرقی پاکستان کو پاکستان سے جدا نہیں کیا جاسکتا تھا۔

فوجوں کی کامیابی اور ریاستوں کی بقاء و حفاظت کا دار و مدار عوام کی حمایت اور اعتماد پر ہوتا ہے۔ فوج اہم ہوتی ہے، نہایت اہم ہوتی ہے اور ہر ریاست کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن فوج کو عوام کی طرف سے حمایت اور اعتماد حاصل نہ ہو تو وہ دشمن کے مقابلے میں معرکہ سر نہیں کرسکتی۔ یہ بات پاکستان کے لیے بھی اتنی ہی سچی ہے، جتنی کسی بھی اور ریاست کے لیے۔ پاکستان کے 22 کروڑ عوام اگر اس ریاست سے محبت کرتے ہوں، اس میں ان کی جان، مال اور آبرو محفوظ ہو، انھیں ترقی کے مناسب مواقع حاصل ہوں، انھیں قانونی مساوات دکھائی دیتی ہو، اچھی حکمرانی میسر ہو اور فوج انھیں اپنی لگتی ہو تو وہ اس ریاست سے والہانہ محبت کیوں نہیں کریں گے۔ وطن کی محبت کے فطری جذبے کو عدل و انصاف کی فطری ضرورت پورا کرکے محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔ جان، مال اور عزت کی حفاظت ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ مساوی شہری حقوق کا حصول ہر شہری کی فطری آرزو ہے، اس آرزو کی تکمیل وطن سے اس کے رشتے کو پائیدار اور محکم کر دیتی ہے۔

ایک ہی ملک کے اندر علیحدگی کی تحریکیں یا کسی ملک سے وسیع پیمانے پر ہجرتیں وطن سے متعلق جذبوں کے سرد پڑ جانے یا اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھنے کی وجہ سے ظہور میں آتی ہیں۔ خود پاکستان کی تحریک اس کی شاہد ہے۔ مسلمانوں نے انگریزوں کے جانے کے بعد کے ہندوستان میں اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھا، اسی لیے تحریک پاکستان برپا ہوئی۔ کانگریس کی قیادت کو کئی ایک مواقع ملے، جن میں وہ مسلمانوں کے لیے اپنی خیر خواہی کو ثابت کرسکتی تھی۔ اس کی قیادت نے تنگ نظری، شدت پسندی اور تعصب کے ایسے ایسے مظاہرے کیے کہ مسلمانوں کو یقین ہوگیا کہ متحدہ ہندوستان میں ان کا مستقبل محفوظ نہیں ہوگا۔ آزادی کی خاطر مسلمانوں نے جو عظیم قربانیاں دیں، وہ اسی شعور اور احساس کی بدولت تھیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر 22 کروڑ عوام پاکستان کے ساتھ گہری محبت رکھتے ہوں اور اس کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے کو تیار ہوں تو دنیا کی کوئی طاقت اس قوم کو غلام بنا سکتی ہے اور نہ اس میں دراڑیں ڈال سکتی ہے۔ پاکستانی عوام کو یہ احساس دلانا ضروری ہے یا دلائے رکھنا ضروری ہے کہ اس ملک کی فوج ان کی ہے، ان کے ارمانوں کی محافظ ہے، اس ملک کے آئین، قانون اور مفادات کی نگہبان ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ پاکستان کے عوام کی آرزوئوں کی ترجمان پارلیمان اور حکومت جو فیصلے اس ملک کے مفاد میں کرے، فوج ان کا ساتھ دے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی عوامی نمائندگان اور عوامی حکومت ہی کو طے کرنا چاہیے۔ امریکہ ہو یا چین، بھارت ہو یا ایران، سعودی عرب ہو یا امارات، بحرین ہو یا اردن، اسرائیل ہو یا فلسطین تمام امور میں فیصلے کرنے کا حق اور پالیسی طے کرنے کا حق عوام کا ہے، جسے جائز طریقے سے معرض وجود میں آنے والی پارلیمان ہی بیان کرسکتی ہے۔

یہ تاثر درست نہیں کہ پاکستان ایک کلائنٹ ریاست (Client State) ہے، دوسری ریاستوں یا عالمی طاقتوں کے ایما پر فیصلے کرتی ہے۔ ماضی میں افغانستان کے بارے میں کیے گئے فیصلوں اور امریکی ایما پر جنگی حکمت عملی پر خود موجودہ وزیراعظم عمران خان بارہا تنقید کرچکے ہیں۔ اپنے عوام کو اعتماد میں نہ لے کر ان امور میں کیے گئے فیصلے ریاست کے استحکام پر اثرا نداز ہوتے ہیں۔ ماضی کے فیصلوں کے برے اثرات سے ہم ابھی تک نہیں نکل سکے۔ یہی حال عالمی اداروں سے لیے گئے قرضوں کی دلدل کا ہے۔ اس میں سے نکلنے کے لیے ہم ایک پائوں اٹھاتے ہیں تو دوسرا زیادہ دھنس جاتا ہے۔ ایف اے ٹی ایف جیسے عالمی اداروں جنھیں استعماری جال ہی کہنا چاہیے، نے ہمیں الگ جکڑ رکھا ہے۔ ایسے میں پاکستان آزادانہ فیصلے کرنے کی صلاحیت سے محروم نظر آتا ہے۔

جو ریاست آزادانہ فیصلے نہ کرسکے، اسے کس طرح سے اور کس معنی میں آزاد کہا جا سکتا ہے۔ ہم پاکستان کے عوام کو اعتماد میں لے کر ان زنجیروں کو توڑ سکتے ہیں۔ قرض کی زنجیر اور غلط خارجہ پالیسی کی رسی ہے، جس نے ہمیں ایک طرف سے کھینچا تو ہم کوالالمپور کانفرنس میں نہیں جا پائے۔ کیا اسی کو آزاد ریاست کہتے ہیں۔؟ آزادی کا ایک نیا شعور اور ولولہ پیدا کرکے اور ایثار و قربانی کے لیے قوم کو آمادہ کرکے ہم اس غلامی کے بندھن کو توڑ سکتے ہیں۔ عالمی سامراجی جال ہمیں ہمیشہ الجھائے رکھے گا۔ استعماری قرضوں کے بارے میں ہمیں جرات مندانہ فیصلے کرنے ہوں گے۔ سود کی ادائیگی کو ترک کرکے اصل زر کی واپسی کا اصول اختیار کرنا پڑے گا۔ اس کے لیے عوام کو ایثار اور امتحان کے لیے آمادہ کرنا ضروری ہوگا۔

یہ عوام آزادی کے موقع پر جتنی بڑی قربانی دے چکے ہیں، وہ تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے۔ یہی عوام آج بھی عظیم قوم میں ڈھلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انقلابی جذبے میں تعمیر کی بھی بے پناہ صلاحیت ہوتی ہے۔ 22 کروڑ عوام میں پیدا ہونے والی بیداری دنیا میں نئے معجزات رقم کرسکتی ہے۔ ہمارے چھوٹے چھوٹے مسائل اس بیداری کی وجہ سے ختم ہوسکتے ہیں۔ اس سارے عمل میں عوامی رضاکار فورس کی شدید ضرورت ہوگی۔ بڑے پیمانے پر عوام کی ابتدائی فوجی تربیت کا اہتمام کرنا پڑے گا، چونکہ حالیہ تاریخ کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ استعماری سازشوں کے مقابلے کے لیے باقاعدہ افواج کو ناگزیر طور پر عوامی رضاکاروں اور انقلابی تربیت یافتہ محافظین وطن کی ضرورت پڑتی ہے۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کی حفاظت فرمائے اور اسے ایک مثالی فلاحی اور مضبوط مملکت بنانے میں ہماری راہنمائی فرمائے۔

تحریر: سید ثاقب اکبر

 شعبان کا مہینا عظمتوں اور برکتوں والا مہینا ہے۔جس میں انسان اگر چاہے تو وہ اپنے چھوٹے اور بڑے گناہوں کی بخشش کروا سکتا ہے۔ لکین شرط یہ ہے کہ انسان اپنے پرودگار کی عبادت کرے اور اپنے گناہوں کی بخشش کی طلب کرے۔ اور جو اعمال اس مہینے میں بتائے گئے ہیں ان اعمالوں کو سرانجام دے۔

شعبان مہینے کی فضیلت روایات کی روشنی میں: 

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
رجب خدا کا مہینہ ہے، شعبان میرا مہینہ ہے، اور رمضان میرے امت کا مہینہ ہے۔
ایک اور جگہ پر ارشاد فرمایا:
شعبان میرا مہینہ ہے اور خدا رحم کرے اس پر جو اس مہینے میں میری مدد کرے۔ 
امام علی علیہ السلام نے فرمایا:
شعبان کا مہینہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا مہینہ ہے۔  

شعبان کے مہینے میں روز رکھنے کا ثواب اور اجر:

شعبان وہ عظیم مہینہ ہے جو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب ہے۔ حضور اس مہینے میں روزے رکھتے اور اس مہینے کے روزوں کو ماہ رمضان کے روزوں سے متصل فرماتے تھے۔ اس بارے میں آنحضرت کا فرمان ہے کہ شعبان میرا مہینہ ہے اور جو شخص اس مہینے میں ایک روزہ رکھے تو جنت اس کے لیے واجب ہو جاتی ہے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جب ماہ شعبان کا چاند نموردارہوتا تو امام زین العابدین علیہ السلام تمام اصحاب کو جمع کرتے اور فرماتے : اے میرے اصحاب ! جانتے ہو کہ یہ کونسا مہینہ ہے؟ یہ شعبان کا مہینہ ہے اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ شعبان میرا مہینہ ہے۔ پس اپنے نبی کی محبت اور خداکی قربت کے لیے اس مہینے میں روزے رکھو۔ اس خدا کی قسم کہ جس کے قبضہ قدرت میں علی بن الحسین کی جان ہے، میں نے اپنے پدربزرگوار حسین بن علی علیہما السلام سے سنا۔ وہ فرماتے تھے میں اپنے والدگرامی امیرالمومنین علیہ السلام سے سنا کہ جو شخص محبت رسول اور تقرب خدا کے لیے شعبان میں روزہ رکھے توخدائے تعالیٰ اسے اپنا تقرب عطا کرے گا قیامت کے دن اس کو عزت وحرمت ملے گی اور جنت اس کے لیے واجب ہو جائے گی۔

 

شیخ نے صفوان جمال سے روایت کی ہے کہ امام جعفرصادق علیہ السلام نے فرمایا: اپنے قریبی لوگوں کو ماہ شعبان میں روزے رکھنے پر آمادہ کرو! میں نے عرض کیا، اس کی فضیلت کیا ہے؟ فرمایا حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ جب شعبان کا چاند دیکھتے تو آپ کے حکم سے ایک منادی یہ ندا کرتا:
” اے اہل مدینہ ! میں رسول خدا کا نمائندہ ہوں اور ان کا فرمان ہے کہ شعبان میرا مہینہ ہے خدا کی رحمت ہو اس پر جو اس مہینے میں میری مدد کرے یعنی روزہ رکھے۔
صفوان کہتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے تھے جب سے منادی رسول نے یہ ندا دی ہے، اس کے بعد شعبان کا روزہ مجھ سے قضا نہیں ہوا اور جب تک زندگی کا چراغ گل نہیں ہو جاتا یہ روزہ مجھ سے ترک نہ ہوگا۔ نیز فرمایا کہ شعبان و رمضان دومہینوں کے روزے توبہ اور بخشش کا موجب ہیں۔

اسماعیل بن عبدالخالق سے روایت ہے کہ میں امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر تھا جب کہ روزہ شعبان کا ذکر ہوا۔ اس وقت حضرت نے فرمایا: ماہ شعبان کے روزے رکھنے کی بہت زیادہ فضیلت ہے۔

اعمال ماہ شعبان (اعمال مشترک)
1۔ روزہ رکھنا۔
2۔ صلوات بھیجنا۔
3۔ صدقہ دینا۔
4۔ مناجات شعبانیہ کا پڑھنا
5۔ روزانہ 70 مرتبہ اَسْتَغْفِرُاللهَ وَ اَسْئَلُهُ التَّوْبَةَ کہنا۔
6۔ روزانہ 70 مرتبہ اَسْتَغْفِرُاللهَ الَّذى لااِلهَ اِلاّ هُوَ الرَّحْمنُ الرَّحیمُ الْحَىُّ الْقَیّوُمُ وَ اَتُوبُ اِلَیْهِ کہنا۔
7۔ اس مہینے میں ہزار دفعہ لا اِلهَ اِلا اللهُ وَلا نَعْبُدُ اِلاّ اِیّاهُ مُخْلِصینَ لَهُ الدّینَ وَ لَوُ کَرِهَ الْمُشْرِکُونَ کہنا۔
8۔ اس مہینے کی ہر جمعرات کو دو رکعت نماز پڑھنا جس کی ہر رکعت میں سورہ حمد کے بعد 100 مرتبہ سورہ توحید اور سلام کے بعد 100 مرتبہ صلوات بھیجنا۔
9۔ ظہر کے وقت اور نصف شب، صلوات شعبانیہ کا پڑھنا جو امام سجاد(ع) سے منقول ہے اور وہ یہ ہے:
اَللّهُمََّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ و َآلِ مُحَمَّدٍ شَجَرَةِ النُّبُوَّةِ وَ مَوْضِعِ الرِّسالَةِ وَ مُخْتَلَفِ الْمَلاَّئِکَةِ وَ مَعْدِنِ الْعِلْمِ وَ اَهْلِ بَیْتِ الْوَحْىِ. اَللّهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ و َآلِ مُحَمَّدٍ الْفُلْکِ الْجارِیَةِ فِى اللُّجَجِ الْغامِرَةِ یَامَنُ مَنْ رَکِبَها وَ یَغْرَقُ مَنْ تَرَکَهَا الْمُتَقَدِّمُ لَهُمْ مارِقٌ وَالْمُتَاَخِّرُ عَنْهُمْ زاهِقٌ وَاللاّزِمُ لَهُمْ لاحِقٌ. اَللّهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ الْکَهْفِ الْحَصینِ وَ غِیاثِ الْمُضْطَرِّ الْمُسْتَکینِ وَ مَلْجَاءِ الْهارِبینَ وَ عِصْمَةِ الْمُعْتَصِمینَ. اَللّهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ صَلوةً کَثیرَةً تَکُونُ لَهُمْ رِضاً وَ لِحَقِّ مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ اَداَّءً وَ قَضاَّءً بِحَوْلٍ مِنْکَ وَ قُوَّةٍ یا رَبَّ الْعالَمینَ. اَللّهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ الطَّیِّبینَ الاْبْرارِ الاْخْیارِ الَّذینَ اَوْجَبْتَ حُقُوقَهُمْ وَ فَرَضْتَ طاعَتَهُمْ وَ وِلایَتَهُمْ. اَللّهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَاعْمُرْ قَلْبى بِطاعَتِکَ وَلا تُخْزِنى بِمَعْصِیَتِکَ وَارْزُقْنى مُواساةَ مَنْ قَتَّرْتَ عَلَیْهِ مِنْ رِزْقِکَ بِما وَسَّعْتَ عَلَىَّ مِنْ فَضْلِکَ وَ نَشَرْتَ عَلَىَّ مِنْ عَدْلِکَ وَ اَحْیَیْتَنى تَحْتَ ظِلِّکَ وَ هذا شَهْرُ نَبِیِّکَ سَیِّدِ رُسُلِکَ شَعْبانُ الَّذى حَفَفْتَهُ مِنْکَ بِالرَّحْمَةِ وَالرِّضْوانِ الَّذى کانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَ آلِه وَ سَلَّمَ یَدْاَبُ فى صِیامِهِ وَ قِیامِهِ فى لَیالیهِ وَ اَیّامِهِ بُخُوعاً لَکَ فى اِکْرامِهِ وَاِعْظامِهِ اِلى مَحَلِّ حِمامِهِ. اَللّهُمَّ فَاَعِنّا عَلَى الاِْسْتِنانِ بِسُنَّتِهِ فیهِ وَ نَیْلِ الشَّفاعَةِ لَدَیْهِ اَللّهُمَّ وَاجْعَلْهُ لى شَفیعاً مُشَفَّعاً وَ طَریقاً اِلَیْکَ مَهیَعاً وَاجْعَلْنى لَهُ مُتَّبِعاً حَتّى اَلْقاکَ یَوْمَ الْقِیمَةِ عَنّى راضِیاً وَ عَنْ ذُنُوبى غاضِیاً قَدْ اَوْجَبْتَ لى مِنْکَ الرَّحْمَةَ وَالرِّضْوانَ وَ اَنْزَلْتَنى دارَ الْقَرارِ وَ مَحَلَّ الاْخْیارِ.