Super User

Super User

Wednesday, 12 August 2015 04:37

ماسکو کی جامع مسجد - روس

 

ماسکو کی جامع مسجد روس کی اہم ترین اور سب سے بڑی مسجد شمار ہوتی ہے۔

یہ مسجد روس کی راجدھانی ، ماسکو میں واقع ہے اور ماسکو براعظم یورپ کا ایک بڑا شہر ہے  اور روس کا سب سے اہم شہر شمار ہوتا ہے۔

یہ مسجد تقریباً ایک سو سال پہلے تعمیر کی گئی ہے اور یہ روس کے مسلمانوں کے مذہبی مراکز میں سے ایک ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ جو بھی مسلمان ماسکو کا سفر کرتا ہے، وہ اس مسجد میں نماز پڑھنے کی کوشش کرتا ہے۔

روس کے مفتیوں کی شوری کے رئیس شیخ راویل عین الدین ، جو سنہ 1990ء کے اوائل میں ماسکو کی مسجد جامع کے امام تھے، کہتے ہیں: " گزشتہ ایک سو سال کے دوران جن ممالک کے سر براہ اس مسجد میں آئے ہیں، ان میں مصر کے کمال عبدالناصر، انڈونیشیا کے سوکارتو، لیبیا کے قرنل قذافی، ایران کے خاتمی، ترکیہ کے عبداللہ گل اور ملیشیا کے مہاتیر محمد وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اس مسجد میں ہرسال " روز قدس"بھی منعقد کیا جارہا ہے۔ اس مسجد میں آج تک فلسطین کے صدر محمود عباس اور رہبر حماس خالد مشعل نے بھی نماز پڑھی ہے۔

اس مسجد کی تعمیر کی ابتداء میں جو وقت لگ گیا اس نے تمام لوگوں کو حیرت اور تعجب میں ڈالا، کیونکہ مسجد جامع کی عمارت اس کا صحن، نمازخانہ اور خواتین کے لئے بالکونی سب کے سب صرف 5 مہینوں کے اندر تعمیر کئے گئے ہیں۔

27 نومبر سنہ 1904ء میں اس مسجد کے پہلے امام جماعت، بدرالدین حضرت علیموف نے حکام وقت سے اس مسجد میں مذہبی تقریباً منعقد کرنے کی درخواست کی۔

سوویت یونین کے سابقہ حکومت کے دوران لوگوں کے اعتقادات پر پابندی لگی تھی اور ان کے خلاف قانونی کاروائی کی جاتی تھی، اس لئے احمد زیان مصطفی اور رضا الدین بصیرت جیسے ائمہ جماعت مسلمانوں کے گھروں میں جاکر تبلیغ اور اسلامی تعلیمات کی ترویج کرتے تھے، کیونکہ انھوں نے بخارا کے مدرسہ میں دینی تعلیم حاصل کی تھی اور مسلمانوں کے درمیان عزت و احترام اور اعتبار کے مالک تھے۔

سنہ 1981ء  میں حالات نے کروٹ لے لی اور مسلمانوں کو اسلامی تعلیمات کی ترویج کے لئے ایک فرصت حاصل ہوئی۔ اس وقت اس مسجد کی مرمت کی وجہ سے صرف تقریباً 250 افراد، اس مسجد سے متعلق مدرسہ میں تعلیم حاصل کرنے میں مشغول ہیں۔

مسجد کی تعمیر نو

روس میں ایک مدت سے اس مسجد کی تعمیر نو کا مسئلہ زیر بحث تھا۔ روس کے صدر مملکت ولادیمیرپوتین اور شہر ماسکو کے حکام نے اس مسجد کی تعمیر نو کے سلسلہ میں مسلمانوں کی حمایت کی اور مئی سنہ 2004ء میں اس مسجد کے ایک سو سالہ جشن میں اس مسجد کی تعمیر نو کی سنگ بنیاد ڈالی گئی۔

مسجد جامع ماسکو میں حالیہ برسوں کے دوران نماز گزاروں کی تعداد، نماز جمعہ میں سات ہزار افراد تک اور نماز عیدین پر پچاس ہزار افراد تک کا اندازہ لگایا جاتا ہے ،لیکن اس مسجد کی قدیمی عمارت صرف 950 افراد کی گنجائش رکھتی تھی اور کبھی تین ہزار افراد تک جمع ہوتے تھے۔چونکہ قدیمی عمارت زیادہ گنجائش نہیں رکھتی تھی، اس لئے سنہ 2011ء کے عید قربان کے دن تعمیرات کے ماہرین نےخبردار کیا کہ اس عمارت میں 900 افراد سے زیادہ داخل نہ ہو جائیں، ورنہ عمارت گرنے کا خطرہ ہے۔

چونکہ اس مسجد کی عمارت سنہ 1904 ء میں تعمیر کی گئی تھی، اس کی مرمت میں اس کی سابقہ شکل و صورت کو حفظ کرنا ممکن نہیں تھا اس لئے نئی مسجد تعمیر کرنے میں اس مسجد کی معماری کے تمام اسلوب کی رعایت کی گئی اور حتی مسجد کے قدیمی رنگ کی بھی رعایت کی گئی۔

اس وقت اس کی تعمیرات شروع ہوئی ہیں اور اس کا کنکریٹ ڈھانچہ اور اس کے 72 میٹر بلند دو مینار کھڑے کئے گئے ہیں۔ یہ عمارت چھ طبقات پر مشتمل ہوگی۔ اس عمارت کی تعمیر معماری کی جدید ٹیکنالوجی کے مطابق انجام پائی جارہی ہے۔ اس عمارت میں 9 لفٹ ہوں گے اور اس کا کانفرنس ہال ، بیک وقت چار زبانوں میں ترجمہ کے وسائل سے مجہز ہوگا۔

اس مسجد میں 10ہزار افراد کی گنجائش کو مدنطر رکھا گیا ہے۔ اس مسجد کے قریب میں ایک عمارت تعمیر کی جائے گی، جس میں مفتیوں کی شوری کے رئیس کے لئے سکونت کے علاوہ مدرسہ اور حلال گوشت کی دوکان وغیرہ کا اہتمام ہوگا۔

روس کے وزیر اعظم دمیری مد دوف نے سنہ 2009ء میں اس مسجد کا مشاہدہ کرنے کے بعد کہا کہ : " اس وقت اس مسجد کی تعمیر نو کا عظیم کام انجام دیا جارہا ہے، یہ ہماری طرف سے مسلمانوں کی میراث کو اہمیت دینے کی گواہی ہے اور یہ اس کی دلیل ہے کہ مملکت روس ایک کثیر الملل اور کثیر المذہب ملک ہے اور روس میں مسلمانوں کا احترام کیا جاتا ہے۔"

اس مسجد کی تعمیر میں بعض مسلمان ممالک نے بھی رول ادا کیا ہے۔

اس وقت مسلمان ایک عارضی ہال میں نماز پڑھتے ہیں جو مسجد کے قریب تعمیر کیا گیا ہے۔

مسجد جامع ماسکو کا افتتاح سنہ 2015ء میں کیا جائے گا،

حماس نے انروا کی طرف سے فلسطینیوں کی مدد میں کمی پر تشویش کا اظہار کیا ہے-

فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے سینئر رکن خلیل الحیہ نے فلسطینی پناہ گزینوں کے لئے کام اور امداد رسانی کی اقوام متحدہ کی ایجنسی، انروا، کی طرف سے فلسطینیوں کے لئے مدد میں کمی پر تشویش کا اظہار کیا ہے- اطلاعات کے مطابق خلیل الحیہ نے انروا کی طرف سے کئے گئے فیصلوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی پناہ گزینوں کے لئے اس ایجنسی کی امداد میں کمی کا خطرہ غزہ پٹی کے محاصرے سے کم نہیں ہے اور اس سے فلسطینیوں کی زندگی ہر لحاظ سے متاثر ہو رہی ہے- انہوں نے کہا کہ انروا کی طرف سے فلسطینی پناہ گزینوں کی مدد میں کمی کی وجہ سے فلسطینیوں کو تعلیم، صحت، رہائش اور غذا سمیت ہر شعبہ زندگی میں سنگین مشکلات کا سامنا ہے اور انروا کے اس اقدام پر پی ایل او کی خاموشی کا کوئی جواز نہیں ہے- خلیل الحیہ نے مطالبہ کیا کہ مصری حکام کو چاہیے کہ وہ رفح گزرگاہ کو غزہ پٹی کے لوگوں کی آمد و رفت کے لئے ہمیشہ کے لئے کھول دیں-

پاکستان کے وزیر اعظم کے مشیر برائے خارجہ امور و قومی سلامتی سرتاج عزیز نے پاکستان اور ہندوستان کے باہمی اختلافات مذاکرات کے ذریعے حل کئے جانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

ارنا کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی وزیر اعظم کے مشیر برائے خارجہ امور و قومی سلامتی سرتاج عزیز نے اتوار کے دن کہا کہ پاکستان اور ہندوستان اپنے مسائل کو صرف مذاکرات کے ذریعے ہی حل کر سکتے ہیں۔ سرتاج عزیز نے دونوں ممالک کے قومی سلامتی کے مشیروں کی سطح پر نئی دہلی میں مذاکرات کئے جانے سے متعلق ہندوستان کی تجویز کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ابھی تک اس دورے کے لئے کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔ سرتاج عزیز نے افغانستان امن مذاکرات کے بارے میں بھی کہا کہ اسلام آباد کو امید ہے کہ ان مذاکرات کا دوسرا دور بہت جلد انجام پائے گا۔ ہندوستانی حکومت نے حال ہی میں کہا ہے کہ وہ تیئیس اگست تک پاکستان کے ساتھ قومی سلامتی کے مشیروں کی سطح پر مذاکرات کی میزبانی کی آمادگی رکھتی ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان امن مذاکرات جنوری سنہ دو ہزار تیرہ سے لائن آف کنٹرول پر کشیدگی میں شدت پیدا ہونے کی وجہ سے تعطل کا شکار ہیں۔ مسئلہ کشمیر پاکستان اور ہندوستان کے درمیان سب سے بڑا متنازعہ مسئلہ ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان اسی مسئلے پر جنگیں بھی ہو چکی ہیں۔

اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کی ترجمان نے افغانستان کے دارالحکومت کابل میں کئے جانے والے حالیہ دہشت گردانہ حملوں کی مذمت کی ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کی ترجمان مرضیہ افخم نے افغانستان کے دارالحکومت کابل میں کئے جانے والے حالیہ دہشت گردانہ حملوں کےخلاف اپنا رد عمل ظاہر کیا ہے۔ مرضیہ افخم نے کہا ہے کہ کابل میں کئے جانے والے حالیہ دہشت گردانہ حملوں سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ دہشت گرد اپنے مذموم عزائم کے حصول کے لئے کسی بھی اقدام سے دریغ نہیں کریں گے۔ مرضیہ افخم کا مزید کہنا تھا کہ اسلامی جمہوریہ ایران دہشت گردی کو تمام ممالک کا مشترکہ دشمن جانتا ہے اور اسی بنا پر وہ علاقائی اور عالمی سطح پر اس مشترکہ خطرے کے مقابلے کے لئے اپنی آمادگی کا اعلان کرتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کی ترجمان نے افغانستان کی حکومت، عوام اور دہشت گردانہ حملوں میں جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔ واضح رہے کہ جمعے اور ہفتے کے دن افغانستان کے دارالحکومت کابل میں دہشت گردانہ حملوں میں کم از کم پینتیس افراد جاں بحق اور سیکڑوں زخمی ہوئے تھے۔

ہندوستان میں شدید بارشوں اور زمین کھسکنے کے نتیجے میں انسٹھ افراد ہلاک ہو گئے-

مشرقی ہندوستان میں گذشتہ دو دنوں کے دوران شدید بارشوں، دریاؤں میں طغیانی اور زمین کھسکنے کے واقعے میں انسٹھ افراد ہلاک ہو گئے- ہندوستان کی ریاست بنگال میں گذشتہ اٹھارہ گھنٹوں کے دوران ہونے والی شدید بارش اور زمین کھسکنے کے واقعے میں اٹھارہ لاکھ سے زیادہ افراد متاثر ہوئے ہیں- انھوں نے کہا کہ بارشوں کے نتیجے میں انتالیس افراد ہلاک ہوئے ہیں- ہندوستانی حکام، امدادی کارروائیوں اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں سے لوگوں کو منتقل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں- مغربی بنگال کی وزیر اعلی نے کہا کہ بنگال کی ریاستی حکومت نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں نو سو چھالیس امدادی کیمپ قائم کئے ہیں اور دس لاکھ سے زیادہ افراد اس کیمپوں میں منتقل ہو چکے ہیں- رپورٹ کے مطابق شہر کلکتہ میں بھی گذشتہ چوبیس گھنٹے کے دوران شدید بارش کے نتیجے میں مختلف علاقوں میں سیلاب آگیا ہے اور گاڑیوں کی آمد و رفت میں مشکلات پیش آرہی ہیں- مشرقی ہندوستان کی ریاست منی پور کے مقامی حکام نے بھی اعلان کیا ہے کہ گذشتہ تین دنوں سے شدید بارشوں اور "جومل" کے علاقے میں زمین کھسکنے کے نتیجے میں بیس افراد ہلاک ہوئے ہیں جبکہ بڑی تعداد میں رہائشی مکانات تباہ ہوئے ہیں- ہندوستان میں مانسون یعنی شدید موسمی بارشوں کے نتیجے میں اب تک ایک سو تیس سے زیادہ افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں- ہندوستان میں مانسون کی بارشیں معمولا جولائی سے ستمبر ماہ تک جاری رہتی ہیں اور اس سے ہر سال بالخصوص دیہی علاقوں میں بھاری جانی و مالی نقصانات ہوتے ہیں-

بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ الازہر جناب ڈاکٹر احمد الطیب صاحب
سلام علیکم و رحمۃ ا۔۔۔
عید سعید فطر کی مناسبت سے مبارک باد پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہوں۔
سب سے پہلے آپ کا اس بات پر شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے اس سال ماہ مبارک رمضان میں ’’حدیث شیخ الازہر‘‘ کے عنوان سے امامت اور صحابہ کے موضوع پر شیعہ سنی اختلافات کے بارے میں ٹیلیویزن پر مسلسل گفتگو کی۔ مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور یکجہتی پیدا کرنے کے لیے آپ کی تلاش و کوشش قابل قدر ہے۔
ہم آپ کی بعض باتوں پر بہت خوش ہیں جو آپ نے ان پروگراموں میں بیان کیں جیسے’’ شیعہ سنی، امت مسلمہ کے دو پر ہیں اور اس وقت جو شیعوں اور سنیوں کے درمیان ہو رہا ہے یہ مذہب کے نام پر مسلمانوں کو نابود کرنے کی سازش ہے‘‘، ’’ جب تک شیعہ و سنی شہادتین پر ایمان رکھتے ہوں تو الازہر شیعہ و سنی کے درمیان کسی طرح کے فرق کی قائل نہیں ہے‘‘۔ یہ آپ کی وہ باتیں ہیں جو فکری اور اعتقادی میدان میں الازہر کے اعتدال پسندانہ رویہ کی عکاسی کرتی ہیں۔ لیکن اجازت دیں آپ کے ان پروگراموں میں بیان کی گئیں کچھ دیگر باتوں کی طرف بھی اشارہ کریں:
پہلی بات یہ کہ صحابہ کو گالیاں دینے اور لعن طعن کرنے کا مسئلہ جو آپ نے بعض شیعہ افاضل کی طرف منسوب کیا اس کے بارے میں کہا جائے کہ تمام شیعہ مراجع اس کام ( صحابہ کو گالیاں دینا) سے طلب برائت کرتے ہیں۔ صرف بعض شیعہ عوام جو قابل توجہ بھی نہیں ہیں اس طرح کے کاموں میں سبقت اختیار کرتے ہیں۔
دوسری بات یہ کہ ہمارا یہ ماننا ہے کہ شیعہ عقائد کے بارے میں جو باتیں آپ نے ان پروگراموں میں بیان کیں وہ قابل بحث و تنقید ہیں۔
ہم اس احترام کے ساتھ جو آپ کی نسبت قائل ہیں یہ کہنا چاہیں گے کہ اس طرح کی باتیں میڈیا کے راستے سے بیان کرنا شیعوں اور سنیوں کے درمیان اختلافات کو مزید ہوا دینے کے علاوہ کوئی فائدہ نہیں رکھتیں اور بہت سارے اسلام دشمن ان باتوں کو اپنے مقاصد کے لیے ہھتکنڈہ بنانے کی کوشش کریں گے۔
اے کاش کہ یہ مسائل، علمی اور خصوصی جلسوں اور شیعہ سنی علماء کی موجودگی میں بیان کئے جاتے نہ میڈیا پر۔
بنابرایں، ہم یہاں پر ایک تجویز پیش کرتے ہیں کہ شیعہ اور سنی دونوں مذاہب کے بزرگ علماء کی موجودگی میں ایک علمی کانفرنس منعقد کی جائے تاکہ اس میں اسلامی اتحاد کی راہ میں پائی جانے والی اہم ترین رکاوٹوں کی چھان بین کی جائے اور دوسری جانب سے اسلامی وحدت کو تقویت پہنچانے والے اہم ترین اقدامات عمل میں لائے جائیں اور آخر میں اس علمی کانفرنس کے نتائج کو لازم الاجرا ہونے کے طور پر تمام امت مسلمہ کے لیے بیان کئے جائیں۔
ہمیں امید ہے کہ آپ ہماری اس تجویر کو قبول کریں گے تاکہ شیعہ حضرات مجبور نہ ہوں آپ کی جانب سے شیعوں پر لگائے گئے اتہامات کا میڈیا اور سیٹلائٹ چینلز کے ذریعے جواب دیں۔
آخر میں ایک بار پھر آپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد کی فضا قائم کرنے میں اپنی کوشش جاری رکھیں گے۔ خداوند عالم سے آپ کے لیے مزید توفیقات کے خواہاں ہیں۔
قم ــ ناصر مکارم شيراز

 29 رمضان المبارک 1436

پاکستان میں سیلاب کے باعث ایک سو نو افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

پریس ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی نے کہا ہے کہ ملک کے مختلف علاقوں میں سیلاب آنے کے باعث تقریبا سات لاکھ افراد کی زندگیاں متاثر ہوئی ہیں۔ پاکستان کی نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کے حکام کا کہنا ہے کہ کوہستانی علاقوں میں ٹوٹنے والی سڑکوں اور پلوں کی مرمت کے لئے ماہرین اور امدادی ٹیموں کو ان علاقوں میں روانہ کر دیا گیا ہے۔ ان حکام نے پاکستان میں سیلاب میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد میں اضافے کا امکان بھی ظاہر کیا ہے۔ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے وزیر اعلی شہباز شریف نے جمعرات کے دن ڈیرہ غازی خان میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے حکام سے کہا تھا کہ وہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں امداد اور نجات کی کارروائیاں تیز کر دیں۔ دریں اثنا پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہیں ۔ میانوالی میں بارشوں کے بعد ندی نالوں میں طغیانی سے سیکڑوں دیہات زیر آب آ گئے ہیں ۔حالیہ بارشوں کے بعد دریائے سندھ میں چشمہ کے مقام پر پانی کی سطح میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ چشمہ بیراج سے چھ لاکھ دس ہزار کیوسک پانی کا بڑا ریلہ ضلع لیہ سے گزر رہا ہے اور تحصیل کروڑ لعل عیسن میں اونچے درجے کا سیلاب ہے جس کی وجہ سے متعدد بستیاں زیر آب آ گئی ہیں۔ راجن پور میں دریائے سندھ میں کوٹ مٹھن کے مقام پر پانی کی سطح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، کوہ سلیمان کے سیلابی ریلے سے مزید پانچ بستیاں زیر آب آ گئی ہیں ۔ اب تک دریائے سندھ اور کوہ سلیمان سے آنے والے سیلابی ریلوں سے ایک سو پچاسی بستیاں زیر آب آ چکی ہیں۔ ۔ڈیرہ غازی خان میں درجنوں دیہات پانی میں گھرے ہوئے ہیں جبکہ رابطہ سڑکیں اور چھوٹے پل بہہ گئے ہیں، سکھر بیراج پر اونچے درجے کے سیلاب کے پیش نظر بیراج کے پل کو ہر قسم کی ٹریفک کے لئے بند کر دیا گیا ہے۔

امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ ویانا ایٹمی معاہدے کے باوجود ایران پاکستان گیس پائپ لائن پر عائد پابندی ابھی تک برقرار ہے۔

فارس خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان مارک ٹونر نے پاکستانی وزیر اعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی کی جانب سے گروپ پانچ جمع ایک اور ایران کے ایٹمی معاہدے کا خیر مقدم کئے جانے پر رد عمل ظاہر کیا ہے۔ مارک ٹونر نے اپنے رد عمل میں کہا ہے کہ ابھی تک ایران کے ساتھ تجارت پر عائد پابندیاں ختم نہیں ہوئی ہیں۔ پاکستانی وزیر اعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی نے گزشتہ ہفتے واشنگٹن میں ایک تھنک ٹینک سے کہا تھا کہ پاکستان ایران اور گروپ پانچ جمع ایک کے معاہدے کی حمایت کرتا ہے کیونکہ اس معاہدے سے ایران کے ساتھ اقتصادی تعاون خصوصا قدرتی گیس کی درآمدات کے لئے گیس پائپ لائن کی تعمیر کے سلسلے میں باہمی تعاون کا راستہ ہموار ہو گا۔

عراق کی پارلیمنٹ کے ڈپٹی اسپیکر نے جوہری مذاکرات میں ایران کی کامیابی کو عالم سیاست میں ایک انقلاب سے تعبیر کیا ہے۔

عراق کی پارلیمنٹ کے ڈپٹی اسپیکر ہمام حمودی نے ایران کے ادارہ اوقاف کے سربراہ علی محمدی سے گفتگو کے دوران اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کی چھے بڑی طاقتوں کے مقابلے میں ایرانی مذاکراتی ٹیم کا عزم، قابل دید اور قابل فخر تھا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ان مذاکرات میں ایران کی کامیابی، ایک تاریخی واقعہ ہے جس سے دشمنوں کو شدید دھچکہ پہنچا ہے۔ ہمام حمودی نے مزید کہا کہ دو سال کی انتھک کوششیں سرانجام رنگ لے آئیں اور دنیا، ایران کے ایٹمی حق کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئی۔ عراق کی پارلیمنٹ کے ڈپٹی اسپیکر نے ایران اور عراق کے مثالی تعلقات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ عراق، ایران کا عالم عرب میں داخل ہونے کا راستہ بن سکتا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ایران اور عراق کی قومیں، ایک ملت کی مانند ہیں، جو ایک ہی کشتی پر سوار ہیں۔ ایران کے ادارہ اوقاف کے سربراہ علی محمدی نے بھی ایران اور عراق کے تعلقات کو انتہائی اہم قرار دیا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ایران، دنیا کے تمام علاقوں کے مظلوموں کی حمایت کرتا رہا ہے اور یہ حمایت آئندہ بھی جاری رہے گی۔ علی محمدی نے کہا کہ وقف املاک اور زیارت کے مقامات، دونوں ممالک کے رابطے کے محور کی مانند ہیں۔ انہوں نے اس شعبے میں معاہدے کے ذریعے تعاون کو مزید فروغ دیئے جانے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔

Sunday, 02 August 2015 07:28

مسجد زاہر – ملیشیا

   مسجد زاہر، ملیشیا کی ریاست کداح کے دارالخلافہ شہر الورستار میں واقع ہے۔ یہ مسجد، بیسویں صدی ہجری کی ابتداء میں تعمیر کی گئی ہے۔ یہ مسجد اپنی نوعیت کی معماری کے علاوہ ملیشیا میں قرات قرآن کے سالانہ مقابلے منعقد ہونے کے مرکز کی حیثیت سے بھی مشہور ہے۔

   یہ مسجد، ریاست کداح کا ایک مشہور ترین اور ممتاز ترین معماری کا نمونہ ہے۔ مسجد کداح کو اس کے باشکوہ میناروں اور سیاہ رنگ کے گنبدوں کی وجہ سے ملیشیا کی اسلامی معماری کا نمونہ سمجھا جاتا ہے۔

   ملیشیا کی مسجد زاہر کو سنہ 1912 ء میں ریاست کداح کے جنگجوؤں کے مقام پر تعمیر کیا گیا ہے۔ جو ساکنان صیام کے مقابلے میں اس ریاست کا دفاع کرتے ہوئے سنہ 1821ء میں وفات پائے ہیں۔

   اس مسجد کی معماری کے سلسلہ میں، سوماترا کے شمال میں موجود مسجد عزیزی سے الہام لیا گیا ہے۔ اس مسجد کے پانچ بڑے گنبد ہیں، جو اسلام کے پانچ اصلی ارکان کی علامت ہیں۔ اس مسجد کا اصلی گنبد اس عمارت کے شمال مشرقی حصہ میں واقع ہے۔

   ملیشیا کی مسجد زاہر کا باقاعدہ طور پر 15 اکتوبر سنہ 1915ء مین افتتاح کیا گیا ہے۔

   یہ مسجد گیارہ ہزار مربع میٹر کی مساحت پر تعمیر کی گئی ہے۔

  اس مسجد کا اصلی شبستان 3844 مربع میٹر مساحت پر مشتمل ہے اور اس کا ایوان 4/2 میٹر بلند ہے۔ یہ مسجد چار مؤذّ نوںوالے مخصوص چار حصوں پر مشتمل ہے اور اس کے ہر حصہ کے اوپر ایک گنبد ہے۔

   یہ مسجد ملیشیا کی سب سے بڑی اور قدیمی ترین مسجد ہے کہ قرآن مجید کے سالانہ مقابلے اس میں منعقد کئے جاتے ہیں۔ مسجد زاہر دنیا کی 10 مشہور مساجد میں سے ایک شمار ہوتی ہے۔