Super User

Super User

 کمیل بن زیاد نخعی یمانی، تابعین کی ایک عظیم شخصیت اور حضرت علی علیہ السلام کے شجاع اور وفادار صحابی تھے۔ علم رجال کے ماہرین نے " شجاع"، " زاہد اور عابد" جیسی صفات سے ان کی تعریف کی ہے۔ وہ اپنے زمانہ کے کوفہ کے آٹھ مشہور عابدوں میں سے ایک شمار ہوتے تھے۔

   دعائے کمیل ، امام علی علیہ السلام کی یاد گار اور مشہور و معروف دعا ہے، جسے بہت سے مسلمان شب جمعہ میں پڑھتے ہیں۔ یہ دعا " دعائے حضرت خضر" کے نام سے بھی مشہور ہے، اور امام علی (ع) نے کمیل بن زیاد کو اس کی تعلیم دی ہے۔ امام (ع)، کمیل سے فرماتے ہیں:" ہر شب جمعہ یا ایک مہینہ میں ایک بار یا سال میں ایک بار یا پوری عمر میں ایک بار اسے پڑھنا، خداوند متعال تمھارے لئے چارہ جوئی کرے گا اور تمھاری مدد کرے گا اور تجھے رزق دے گا اور تجھے مغفرت الہی حاصل ہوگی۔" اس کے بعد کمیل سے فرمایا: لکھدو:" اللّھم انی اسالک برحمتک الّتی وسعت کلّ شیء۔ ۔ ۔"

 امام علی (ع) کی شہادت کے بعد، کمیل امام حسن مجتبی (ع) کے صحابی شمار ہوتے تھے اور آپ (ع) کے ساتھ تھے اور صلح امام حسن (ع) کے واقعہ میں مکمل طور پر امام (ع) کے مطیع اور فرمانبردار تھے۔

   امام حسن مجتبی (ع) کی شہادت کے وقت کمیل مدینہ میں نہیں تھے۔ کمیل کو امام حسین (ع) کے زمانہ میں گرفتار کیا گیا اور کربلا کے واقعہ کے بعد تک عبیداللہ بن زیاد کے زندان میں تھے۔

   انہوں نے زندان سے آزاد ہونے کے بعد کوفہ کے انقلابوں کے دوران حقائق کے سلسلہ میں افشا گری کی اور امام حسین (ع) کی خونخواہی میں مختار ثقفی کا ساتھ دیا اورامام (ع) کے قاتلوں سے جنگ کی۔

   جب حجاج بن یوسف عراق کا والی بن گیا، تو اس نے امام علی (ع) کے صحابیوں کا تعاقب کیا۔ ایک دن حجاج نے " ھیثم اسود" سے کمیل کا پتہ معلوم کیا تاکہ انھیں قتل کر ڈالے۔ اسود نے جواب دیا: وہ ایک بوڑھا ہے۔ حجاج نے کہا: میں نے سنا ہے کہ وہ لوگوں کے درمیان تفرقہ پھیلاتا ہے۔ اس کے بعد حکم دیا تاکہ کمیل کو گرفتار کریں۔ جب کمیل کو حجاج کے ارادہ کے بارے میں خبر ملی، تو کوفہ سے بھاگ گئے۔ جب حجاج انھیں پیدا نہ کرسکا، تو ان پر دباؤ ڈالنے کے لئے ان کے قبیلہ کے افراد کا بیت المال سے ملنے والا وظیفہ بند کیا، جب کمیل کو اس قضیہ کے بارے میں خبر ملی تو اس نے سوچا کہ اب میری زندگی کچھ سال سے زیادہ باقی نہیں بچی ہے، میں کیوں اپنے قبیلہ کے لئے روزی منقطع ہونے کا سبب بنوں! لہذا کوفہ میں داخل ہوئے اور دار الامارہ میں جاکر اپنے آپ کو پیش کیا، حجاج نے ان سے کہا: اے کمیل! میں نے تیرا کافی تعاقب کیا تاکہ تجھے سزادوں۔ جناب کمیل نے جواب میں کہا: جو چاہو کرو کہ میری عمر میں سے کوئی خاص مدت باقی نہ بچی ہے اور جلدی ہی میں اور تم خدا کی طرف پلٹنے والے ہیں، میرے مولانے مجھے خبر دی ہے کہ میرا قاتل تم ہوگے۔

   اس وقت حجاج نے امام علی علیہ السلام کا نام لیا تو کمیل نے صلوات بھیجی ۔ حجاج نے غیض و غضب میں آکر ان کو قتل کرنے کا حکم دیا اور انھیں شہید کیا گیا۔

   کمیل بن زیاد کو سنہ 82ھ  میں  نوے سال کی عمر میں شہید کیا گیا۔

کمیل کو شہید کئے جانے کے بعد سر زمین تویہ میں انھیں دفن کیا گیا۔ تو یہ، کوفہ کے اطراف میں ایک علاقہ تھا، جہاں پر خیرہ کے حاکم نعمان بن منذر کا زندان واقع تھا۔

   اس علاقہ میں بہت سے صحابی اور بزرگ شخصیتیں مدفون ہیں کہ اس وقت ان کی قبروں کے نام نشان موجود نہیں ہیں۔ اس سرزمین میں سپرد خاک کئے گئے بعض شخصیتیں حسب ذیل ہیں:

1۔ خبّاب بن اَرَث: وہ صدر اسلام کے ایک بزرگ صحابی تھے۔ انھوں نے مکہ میں کافی تکلفیں اٹھائی ہیں، یہاں تک کہ مشرکین نے ان کی پشت کو جلادیا۔ وہ مہاجرین میں ایک فاضل شخصیت شمار ہوتے تھے، جنھوں نے جنگ بدر کو درک کیا تھا۔ انھوں نے جنگ صفین اور نہروان میں بھی شرکت کی تھی۔ وہ سنہ 39ھ میں فوت ہوئے ہیں اور امام علی علیہ السلام نے ان کی نماز جناز پڑھی ہے۔ امام علی علیہ السلام ان کے بارے میں فرماتے ہیں:" خداوندا خبّاب بن اَرَث کو رحمت کرے، وہ اپنی مرضی سے مسلمان ہوا اور فرمانبرداری کے عنوان سے ہجرت کی اور قناعت سے زندگی بسر کی، راضی بہ رضائے الہی تھا اور مجاہدانہ زندگی کی۔"

2۔ جویرة بن مسہر عبدی: ابن زیاد کے حکم سے ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دئے گئے اور اس کے بعد کوفہ میں صلیب پر چڑھائے گئے۔

3۔ احنف بن قیص تمیمی: وہ جنگ صفین میں امام علی علیہ السلام کے صحابی تھے اور سنہ 67ھ میں کوفہ میں وفات پاگئے ہیں۔

4۔ سہل بن حنیف انصاری: وہ مدینہ منورہ میں امام علی علیہ السلام کے گورنر تھے۔ سنہ 38ھ میں کوفہ میں فوت ہوگئے اور امام علی علیہ السلام نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔

5۔ عبداللہ بن ابی اوفی:وہ  رسول (ص) کےبیعت رضوان کے  آخری صحابی تھے اور کوفہ میں سنہ 86ھ میں فوت ہوئے۔

6۔ عبداللہ بن یقطر: وہ امام حسین علیہ السلام کے رضاعی بھائی تھے، امام کی طرف سے کوفہ بھیجے گئے سفیر تھے۔ ان کو عبیداللہ بن زیاد نے قیس بن مسہر صیداوی کے مانند قصر کی چھت سے نیچے گرا کر شہید کیا۔

7۔ عبداللہ بن ابی رافع: امام علی علیہ السلام کے مخصوص کاتب تھے۔

   اس وقت مذکورہ بزرگوں میں سے کسی ایک کی قبر معلوم و مشخص نہیں ہے اور صرف معروف و مشہور کمیل بن زیاد کا مقبرہ موجود ہے۔

تہران کے خطیب جمعہ نے کہا ہے کہ تہران پابندیوں کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے گا اور مذاکرات میں پوری طاقت کے ساتھ موجود رہے گا-

تہران کے خطیب جمعہ حجۃ الاسلام والمسلیمن کاظم صدیقی نے ممکنہ سمجھوتے کے حصول کے لئے، مذاکرات کی معینہ مدت کے اختتامی دنوں میں گروپ پانچ جمع ایک کے ساتھ ایران کے ایٹمی مذاکرات جاری رہنے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ایران پابندیوں کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے گا اور مذاکرات میں بھرپور شرکت کرے گا- حجۃ الاسلام والمسلمین صدیقی نے ایٹمی مذاکرات کے بارے میں رہبر انقلاب اسلامی آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے حالیہ بیانات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ رہبر انقلاب کے بیانات نے حکام میں نیا ولولہ پیدا کیا ہے- تہران کے خطیب جمعہ نے کہا کہ ایرانی قوم ہرگز ذلت برداشت نہیں کرے گی اور نہ ہی وہ بعض ملکوں کی طرح استکباری طاقتوں کے سامنے سر تسلیم خم کرے گی- انہوں نے کہا کہ ایران پرامن ایٹمی ٹکنالوجی کے استعمال کے تعلق سے جتنا زیادہ مضبوط موقف کا حامل ہوگا، مذاکرات میں بھی اس کو اتنی ہی برتری حاصل رہے گی- اہنھوں نے کہا کہ ایرانی مذاکرات کاروں کو یہ جان لینا چاہئے کہ فریق مقابل کے تمام وعدے کھوکھلے ہیں کیوں کہ دشمن کے وعدوں پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا- تہران کے خطیب جمعہ نے کہا کہ علمی تحقیق اور ترقی و پیشرفت، ایٹمی مذاکرات کی ریڈ لائنز میں شامل ہے اور ایران کے خلاف عائد تمام پابندیاں سمجھوتے پر دستخط کے وقت ہی منسوخ کی جائیں اور انہیں التوا میں نہ ڈالا جائے- حجۃ الاسلام والمسلمین کاظم صدیقی نے سمجھوتے میں کئے گئے وعدوں پر عملدر آمد کو آئی اے ای اے کے دستخط سے مشروط قرار دینے کو بھی مسترد کیا اور کہا کہ آئی اے ای اے بڑی طاقتوں کی آلہ کار نیز اس کے اختیار میں ہے- تہران کے خطیب نماز جمعہ نے ماہ رمضان کی مناسبت سے کہا کہ یہ مہینہ خدا کی مہمانی کا مہینہ ہے جسے بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے کیوں کہ یہ مہینہ انسان کو کمال کی سمت لے جاتاہے اور خدا کا مقرب بندہ بناتا ہے-

 

Wednesday, 24 June 2015 05:58

سوره النصر


بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے

﴿1﴾ إِذَا جَاء نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ
(1) جب خدا کی مدد اور فتح کی منزل آجائے گی

﴿2﴾ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا
(2) اور آپ دیکھیں گے کہ لوگ دین خدا میں فوج در فوج داخل ہورہے ہیں

﴿3﴾ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا
(3) تو اپنے رب کی حمد کی تسبیح کریں اور اس سے استغفار کریں کہ وہ بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والا ہے

مصر کی  الازہر  یونیورسٹی کے سربراہ ’’ شیخ احمد الطیب ‘‘نے مسلمانوں کے اتحاد پر زور دیتےہوئے کہا ہےکہ شیعہ اورسنی دین مبین اسلام کے دواہم ستون ہیں ۔

انہوں نے مسلمانوں کو باہمی اتحاد کی تاکید کرتےہوئےکہاہےکہ دین مبین  اسلام کے پیروکار شیعہ و سنی ایک کشتی پر سوار ہوکر اس الیٰ دین کو دوام بخش سکتے ہیں ۔

انہوں نے ذرائع ابلاغ کے ان پر وپگنڈوں جن میں وہ دین اسلام کی شبیہ بگاڑنے کی خاطر امت مسلمہ کے مختلف فرقوں کے درمیاں تنازعات اور فسادات کو ہوا دیتے ہیں کی مذ مت کر تے ہوئے کہا ہے کہ  دشمنان اسلام اپنی نا پاک سا زشوں کے  ذریعےامت مسلمہ کو تقسیم کرنے اور انکے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کرنے کے درپے ہیں  ۔

موصوف  سربراہ نے زوردیکر کہاہےکہ عصرحاضر امت مسلمہ کے یکجا ہونے کا وقت ہے اور مسلمانوں کو دشمنوں کی سازشوں کو سمجھ کر فتنوں اور تنازعات سے باز رہنا چاہئے ۔

شیخ احمد الطیب نے مزید امت مسلمہ کے نوجوانوں کو تاکید کی ہے کہ وہ ان اقدام سے گریز کریں جو امت مسلمہ کے تفرقہ، انتشار اور تقسیم کا باعث بنیں ۔

 

۲۰۱۵/۰۶/۲۳-رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے  رمضان المبارک کی مناسبت  سے تینوں قوا کے سربراہان ، اعلی حکام اور اہلکاروں کے ساتھ ملاقات  میں  مزاحمتی اور مقاومتی اقتصاد اور معیشت  کو عملی جامہ پہنانے کے طریقوں، چيلنجوں اور مثبت نتائج کی تشریح کے ضمن میں ایٹمی مذاکرات کے سلسلے میں فیصلہ کن نکات بیان کئے اور ایٹمی پروگرام کے سلسلے میں ایران کی ریڈ لائنوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: امریکہ ایران کی ایٹمی صنعت کو نابود اور ویران کرنے کی تلاش و کوشش میں ہے جبکہ ایران کے تمام حکام ریڈ لائنوں اور ایران کے مفادات اور مصلحتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اچھے ،منصفانہ اور عزتمندانہ معاہدے کی تلاش میں ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آغاز میں رمضان المبارک کو ماہ تقوی قراردیا اورتقوی کی  ذاتی اور سماجی دو قسموں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ذاتی تقوی در حقیقت وہ دائمی حالت اور مراقبت ہے جو انسان کو معنوی مہلک اور خطرناک چوٹیں کھانے سے محفوظ  رکھتی ہے البتہ دنیاوی امور میں بھی اس کے اثرات بہت زیادہ ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے معاشرتی تقوی کو عام سماجی اور اقتصادی مسائل میں جاری و ساری  قراردیتے ہوئے فرمایا: اقتصادی مسائل میں معاشرتی تقوی درحقیقت وہی مزاحمتی اقتصاد ہے جو ملک کو عالمی حوادث اور زلزلوں کے مقابلے میں یا عالمی زہرآلودہ  تیروں اور معاندانہ پالیسیوں کے مقابلے میں محفوظ بناتا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اقتصادی طاقتوں کے مقابلے میں ملک کو مضبوط و مستحکم بنانے کے سلسلے میں گذشتہ سالوں میں اپنے مکرر انتباہات کی طرف اشارہ کرتے ہوئےفرمایا: حالیہ برسوں میں حکام نے اپنی توانائی اور طاقت کے مطابق اچھی کوششیں کی ہیں لیکن مزاحمتی اقتصاد کو عملی جامہ پہنانے کے سلسلے میں ملک کی تمام توانائيوں اور ظرفیتوں سے بھر پور استفادہ کرنا چاہیے ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بعض ممالک میں مزاحمتی اقتصاد کے نفاذ اور اس کے مثبت اثرات کی طرف اشارہ کیا اور مزاحمتی اقتصاد کو اندرونی پیداوار اور اندرونی توانائیوں پر استوار قراردیتے ہوئےفرمایا: اندرونی پیداوار کا مطلب تنہائی اور الگ تھلگ ہونا نہیں ہے بلکہ بیرونی نگاہ کے ساتھ اندرونی ظرفیتوں اور توانائیوں پر توجہ  دینا اور اعتماد کرنا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مزاحمتی اور مقاومتی اقتصاد کی کلی پالیسیوں کی تدوین کو طویل مشوروں اور خرد جمعی کی کوششوں کا  نتیجہ قراردیتے ہوئےفرمایا: مزاحمتی اقتصاد کی کلی پالیسیوں کے ابلاغ کے بعد بہت سے اقتصادی ماہرین نے ان پالیسیوں کی تائید کی  اور اب مزاحمتی اقتصاد ملک کی مروجہ  اقتصادی ثقافت اور ادبیات کا حصہ بن گیا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مزاحمتی اقتصاد کے ماڈل کو تیسری دنیا پر بڑی طقاتوں کے قدیم اور مسلط کردہ ماڈل کے مد مقابل قراردیتے ہوئے فرمایا: قدیم ماڈل کی نگاہ ملک سے باہرمرکوزہے جبکہ مزاحمتی اقتصاد داخلی اور اندرونی ظرفیتوں پر مشتمل ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ممکن ہے بعض افراد یہ کہیں کہ مزاحمتی اقتصاد کا ماڈل اچھا اور پسندیدہ ہے لیکن اس کو عملی جامہ پہنانا ممکن نہیں ہے لیکن میں قطع و یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ ملک کی تمام داخلی ظرفیتوں  اور توانائیوں سے استفادہ  کرکے مزاحمتی اقتصاد کو عملی جامہ پہنانا ممکن ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس مقدمہ کے بعد ملک میں موجود بعض ظرفیتوں  کو بیان کیا جو مزاحمتی اقتصاد کو عملی جامہ پہنانے کے سلسلے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔ ماہر اور خود اعتمادی کے جذبے سے سرشار اور پڑھے لکھے افراد پہلی ظرفیت تھی جس کی طرف رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ملک میں ماہرین اور پڑھے لکھے افراد کی اتنی بڑی تعداد میں موجود افرادی قوت ،انقلاب اسلامی کے برکات میں شامل ہے بشرطیکہ غلط پالیسیاں معاشرے کے پیر ہونے اور جوانوں کی کمی کا موجب نہ بنیں ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انقلاب کے اوائل کی نسبت 25 گنا زیادہ  یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل 10 ملین جوانوں اور یونیورسٹیوں میں مشغول 4 ملین سے زائد جوانوں  کی موجودگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ماہرین اور تحصیل کردہ جوانوں کی اتنی بڑی تعداد اسلامی نظام کے لئے فخر کا  باعث ہے اور یہ ایک عظیم فرصت بھی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملک کے اقتصادی مقام کو دوسری اہم ظرفیت قراردیتے ہوئے فرمایا: عالمی اعداد و شمار کے مطابق دنیا کے اقتصاد اور معیشت میں ایران کا بیسواں رتبہ ہے اور استفادہ نشدہ ظرفیتوں سے استفادہ کی صورت میں ایران دنیا کے اقتصاد کے بارہویں رتبے تک پہنچ سکتا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے گیس اور تیل کے ذخائر میں مجموعی طور پر ایران کے پہلے مقام کو مزید ایک اہم ظرفیت قراردیا اور  شمال سے جنوب اور مشرق سے مغرب تک ارتباط کو ملک کی ممتاز جغرافیائی پوزیشن  قراردیتے ہوئے فرمایا: ایران کے پڑوس میں 15 ممالک ہیں جن کی آبادی 370 ملین ہے اور ایران کے قریب میں یہ ایک اہم بیرونی بازار ہے اور اسی طرح خود ایران کی آبادی 70 ملین سے زائد ہے جو ایک بڑا داخلی اور اندرونی بازار ہے اور اگر اسی اندرونی بازار پر توجہ مبذول کی جائے تو پیداوار کی صورتحال دگرگوں ہوجائے گی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انرجی، روڈ اینڈ ٹرانسپورٹ، ارتباطات ،بجلی گھروں ، ڈیموں کے سلسلے میں ملکی تعمیرات اور اسی طرح ملک میں مدیریتی تجربہ کو ایک اور ظرفیت شمار کرتے ہوئےفرمایا: ہمیں ان ظرفیتوں سے مناسب اور درست استفادہ کرنا چاہیے کیونکہ ملک کی مشکل اچھے منصوبوں اور اچھی اور ماہرانہ باتوں میں کمی نہیں ہے بلکہ اصلی مسئلہ اور اصلی مشکل ان منصوبوں اوران  اچھی باتوں سے درست استفادہ نہ کرنے کا مسئلہ ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بعض مشکلات کو ملک کے اندرونی چیلنجوں کی وجہ سے قراردیا اور بعض چیلنجوں کے بارے میں بیان کرتے ہوئے فرمایا: عمل میں غفلت،سادگی اور مسائل پر سطحی نظر رکھنے جیسے امور ملک کے لئے بہت بڑا چیلنج ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئےفرمایا: لفظی بحثوں اور روشنفکری سے کام آگے نہیں بڑھےگا بلکہ مسائل اور بلند مدت امور کے حل کے لئے اقدام ، عمل اور جدوجہد ضروری ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بعض بڑے امور کو پایہ تکمیل تک پہنچانے  کے لئے طویل عرصہ اور ایک نسل کے برابر مدت گزرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اس دور میں جب ملک کی علمی تحریک اور یونیورسٹیوں کے بارے میں گفتگو ہوتی تھی شاید کسی کو یہ یقین نہیں تھا کہ 10 یا 15 سال کے بعد ملک کی موجودہ علمی تحریک  باصلاحیت اساتید اور جوانوں کی ہمت سے پیدا ہوجائے گی اور گذشتہ سالوں کی نسبت آج ملک کی علمی پیشرفت اور ترقی پر ہم حیران اور خیرہ کنندہ ہیں۔

موازی، آسان اور مہلک راستے ایک اور اندرونی چیلنج تھا جس کی طرف رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: بعض اوقات ضروری اشیاء کی فراہمی دو راستوں  سے ممکن ہے ایک راستہ یورپ کا راستہ اور آسان راستہ ، جبکہ دوسرا راستہ غیر یورپی راستہ اور سخت راستہ، پہلا راستہ انسان کو مشکل میں مبتلا کردےگا اور دوست اس کو کمزور اور دشمن اس کو قوی بنا دیں گے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: داخلی سطح پر ایک اور بڑا چیلنج جو درپیش ہے وہ عظیم  اور اساسی اشتباہ  ہے کہ کوئی یہ سوچ لے کہ اسلامی نظام اور عقائد پر مبنی اصولوں سے دور رہنے کی وجہ سے تمام راہیں کھل جائیں گی ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: حکومت میں مشغول افراد خدمتگزار اور انقلاب اسلامی کے اصولوں پر اعتقاد رکھتے ہیں اور میرا ان سے کوئی گلہ اور شکوہ نہیں ہے لیکن مجموعی طور پر بعض یہ تصور کرتے ہیں کہ دشمن کے سامنے سے پیچھے ہٹنے یا اسلامی اصولوں کو نظر انداز کرنے سے تمام دروازے کھل جائیں گے حالانکہ حالیہ برسوں میں بعض ممالک میں اس غلط فکر کے برے نتائج ہم مشاہدہ کرچکے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اسلامی اصولوں پر استقامت اور پائداری ، پیشرفت اور ترقی کا واحد راستہ ہے۔

 

Tuesday, 23 June 2015 04:10

سوره الکافرون

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ


عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے

﴿1﴾ قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ
(1) آپ کہہ دیجئے کہ اے کافرو


﴿2﴾ لَا أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ
(2) میں ان خداؤں کی عبادت نہیں کرسکتا جن کی تم پوجا کرتے ہو


﴿3﴾ وَلَا أَنتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ
(3) اور نہ تم میرے خدا کی عبادت کرنے والے ہو


﴿4﴾ وَلَا أَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدتُّمْ
(4) اور نہ میں تمہارے معبودوں کو پوجا کرنے ولا ہوں


﴿5﴾ وَلَا أَنتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ
(5) اور نہ تم میرے معبود کے عبادت گزار ہو


﴿6﴾ لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ

(6) تمہارے لئے تمہارا دین ہے اور میرے لئے میرا دین ہے

روس کے صدر نے کہا ہے کہ اب ایران اور روس کے تعلقات نئے مرحلے میں داخل ہونے چاہئیں-

اسلامی جمہوریہ ایران کے نیشنل ڈیویلپمنٹ فنڈ کے سربراہ ڈاکٹر سید صفدر حسینی سینٹ پیٹرز برگ میں عالمی اقتصادی فورم میں شرکت کی غرض سے روس کے دورے پر ہیں- انھوں نے اس اجلاس میں شریک پچیس ممالک کے نیشنل ڈیویلپمنٹ فنڈز کے سربراہوں کے علاوہ روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن سے بھی ملاقات کی۔ اس ملاقات میں سید صفدر حسینی نے پابندیوں کے دوران ایران کو حاصل ہونے والے تجربات کی جانب اشارہ کیا اور کہا کہ روس بھی ان تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے استقامتی معیشت کی بنیاد پر اپنا اقتصادی روڈ میپ تیار کر سکتا ہے۔ اس موقع پر روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے بھی کہا کہ ایران اور روس کے درمیان ایک صدی سے زیادہ سفارتی تعلقات قائم ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایران کے ساتھ ہمارے بڑے اچھے تعلقات ہیں اور ضروری ہے کہ ان تعلقات میں توسیع لائی جائے اور ان کو نئے مرحلے میں داخل کیا جائے- واضح رہے کہ روس کے نائب وزیر اعظم کی تقریر کے ساتھ سینٹ پیٹرز برگ میں عالمی اقتصادی اجلاس کا آغاز ہوا ہے۔

ایران میں ہندوستان کے سفیر ڈی پی شری واستو نے اصفہان صوبے کے دورے میں کہا ہے کہ ان کا ملک اصفہان صوبے کے ساتھ تجارت میں فروغ کا خواہاں ہے-

ایران میں ہندوستان کے سفیر ڈی پی شری واستو نے اصفہان کے چیمبر آف کامرس کے سربراہ عبدالوہاب سہل آبادی سے بھی ملاقات کی۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان، ایران کے صوبے اصفہان کے ساتھ تجارتی تعلقات میں فروغ کا خواہاں ہے۔ انہوں نے کہا ہندوستان لوہے اور ٹیکسٹائل کی صنعت میں اصفہان صوبے کے ساتھ تعاون کا خواہاں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان کی کمپنیاں اس صوبے میں ہوٹل کی عمارتوں کی تعمیر میں بھی سرمایہ کاری کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اس ملاقات میں اصفہان کے چیمبر آف کامرس کے سربراہ عبدالوہاب سہل آبادی نے بھی صوبے اصفہان میں موجود متعدد یونیورسٹیوں اور دو ہزار ٹیکسٹائل کے کارخانوں سمیت آٹھ ہزار صنعتی مراکز کو ایران اور ہندوستان کے مابین تجارتی تعلقات میں فروغ کا ایک اہم ذریعہ قرار دیا۔

افغان صدر اشرف غنی نے ایران کے اسکولوں میں افغان مہاجر بچوں کے داخلے کا حکم دینے پر رہبر انقلاب اسلامی کا شکریہ ادا کیا ہے-

اطلاعات کے مطابق افغانستان کے صدر اشرف غنی نے ایک وڈیو پیغام جاری کیا ہے- اس پیغام میں رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی طرف سے یوم پناہ گزیناں کے موقع پر ایرانی اسکولوں میں افغان مہاجر بچوں کے داخلے کے حکم پر آپ کا شکریہ ادا کیا گیا ہے- افغان صدر کے پیغام میں آیا ہے کہ میں رہبر انقلاب اسلامی ایران کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے ایرانی اسکولوں میں افغان مہاجر بچوں کے داخلے کا حکم صادر کیا- قابل ذکر ہے کہ رہبر انقلاب اسلامی نے تقریبا" ایک ماہ قبل حکم صادر کیا تھا کہ کوئی بھی افغان بچہ، حتی جو افغان مہاجرین غیرقانونی طور پر(غیر رجسٹرڈ) بھی ایران میں رہ رہے ہیں، ان کے بچوں کو بھی تعلیم سے محروم نہیں کیا جانا چاہئے۔ رہبر انقلاب اسلامی کے اس حکم پر ایرانی حکام اور افغان مہاجرین نے مثبت ردعمل ظاہر کیا تھا-

   مسجد کبود، افغانستان کے شہر مزار شریف میں واقع ہے۔ بعض برادران حنفی یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ امام علی بن ابیطالب (ع) کا مزار یہاں پر ہے۔ اسی وجہ سے سالانہ ہزاروں افراد اس جگہ کی زیارت کرنے کے لئے مزار شریف کا سفر کرتے ہیں۔

   البتہ قابل ذکر ہے کہ اکثر مسلمانوں کا اعتقاد یہ ہے کہ امام علی بن ابیطالب (ع) کا مرقد مملکت عراق کے شہر نجف میں واقع ہے

   گزشتہ کئی صدیوں کے دوران مذکورہ مسجد مختلف نشیب و فراز سے گزری ہے۔

   یہ جگہ کئی بار ویران اور پھر سے تعمیر کی گئی ہے۔ پوری تاریخ میں گزشتہ کئی صدیوں کے دوران بہت سے بادشاہ اس جگہ پر حاضر ہوئے ہیں، من جملہ سلطان سنجر، سلطان حسین بایقرا وغیرہ نے اس جگہ کو دیکھا ہے۔

   سلطان حسین کے دور میں اس جگہ پر گنبد و بار گاہ تعمیر کی گئی ہے۔ اس نے ابتداء میں کئی عمارتیں اور ایک بازار تعمیر کیا اور ہرات کے ایک سو بزرگوں کو وہاں پر منتقل کیا اور دریائے بلخ سے ایک ندی بھی کھود کر وہاں تک پانی لایا اور یہ ندی " نہر شاہی" کے نام سے مشہور ہے ۔ ۔ ۔ لوگ بھی اطراف سے آکر وہاں پر بسنے لگے، بالآخر ایک بڑا شہر تشکیل پایا جو مزار شریف کے نام سے مشہور ہے۔

   گیارہویں شیبانی امیر عبدالمؤمن خان ازبک کے زمانہ میں اس جگہ پر ایک گنبد تعمیر کیا گیا۔

   جانی خاندان کے دوسرے امیر محمد خان نے اس عمارت کی مرمت کرا کے اسے مزین کیا اور اس کے اطراف میں کئی باغ بنوائے۔

   محمد مقیم خان کے زمانہ میں اس کی تعمیر نو ہوئی اور امیر علم خان اور امیر عبدالرحمن خان کے زمانہ میں بھی اس جگہ پر کچھ تعمیرات انجام پائیں اور افغانستان کے آخری بادشاہ محمد ظاہر شاہ کے زمانہ میں اس عمارت کے صدر دروازوں کو مزین کیا گیا اور اس میں کچھ جدید تعمیرات کا اضافہ کیا گیا۔

   بہت سے لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ مسجد کبود، مزار شریف کےامام علی علیہ السلام سے منسوب ہونے کی وجہ سے محترم ہے۔

   مسجد کبود مزار شریف کا صدر دروازہ اور عبدالرحمن جامی کا ایک شعر

   مذکورہ مسجد ٹائیلوں سے بنی ہے اور اس کا ایک وسیع صحن ہے اور اس کے کاشی کاری شدہ چار دروازے ہیں، اور ان میں سے ہر دروازہ ایک سڑک کی طرف کھلتا ہے اور عمارت کے اندر خوبصورت نقاشی کی گئی ہے جسے محمد ظاہر شاہ کے حکم سے انجام دیا گیا ہے۔

 مذکورہ جگہ پر نماز جماعت قائم ہے اور اس کے قبلہ کی طرف قرآن مجید کے نفیس نسخے موجود ہیں جن کی لوگ تلاوت کرتے ہیں۔