Super User
معروف عالم دین کی شدید تنقید
بین الاقوامی گروپ : لبنان سے تعلق رکھنے والے اہل سنت کے معروف عالم دین "شیخ ماھر حمود" نے مراکش میں عرب لیگ کے اجلاس کے دوران لبنانی وزیر داخلہ کے ایران مخالف بیان کی شدید مذمت کی ہے ۔
ایران کی قرآنی خبر رساں ایجنسی (ایکنا) نے اطلاع رساں ویب سائیٹ " العالم " کے حوالے سے نقل کرتے ہوئے کہاہے کہ لبنان کے معروف عالم دین "شیخ ماھر حمود" نے لبنانی وزیر داخلہ "نہاد مشنوق" کے اس بیان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے جس میں انہوں نے ۱۴ مارچ نامی سیاسی جماعت کا حوالہ دیتے ہوئے ایران پر لبنان کے داخلی امور میں دخل اندازی کا الزام لگایا ہے ۔
انہوں نے مغرب نواز " ۱۴ مارچ " سیاسی پارٹی سے اپنے موقف میں نظر ثانی کرنے کا مطالبہ کیا کیونکہ ابھی تک انکو مزاحمتی تحریک کی شکست اور شامی حکومت کی سرنگونی جیسے اپنے شوم مقاصد میں بری طرح ناکامی کا سامنا کرن پڑا ہے لہذا بہتر ہے کہ یہ پارٹی اپنے موقف اور پالیسیوں پر نظر ثانی کرے ۔
صحابۂ رسول کی قبروں کی بے حرمتی کی ایران میں مذمت
اسلامی جمہوریہ ایران کے شمالی علاقے میں اسلامی مرکز اور علماء اھل سنت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعض صحابیوں کے مقبروں کی بے حرمتی کی مذمت کی ہے۔ ارنا کی رپورٹ کے مطابق شمالی صوبے گلستان کے اسلامی مرکز اور علماء اھل سنت نے ایک بیان جاری کرکے کہا ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کے مقبروں کی بےحرمتی کرنا دشمنان اسلام کی کمزوری کی علامت ہے اور عالمی اداروں کو اس سلسلے میں جواب دہ ہونا پڑے گا۔ اس بیان میں آیا ہے کہ مسلمانوں کی تاریخ ان مقدس مقامات سے جڑی ہوئي ہے اور ہم عالمی اداروں سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ آزاردی عقیدہ و مذہب کو یقینی بنائيں اور مقدس مقامات کی توہین کرنے والوں کے خلاف سخت اقدامات کریں۔ صوبہ گلستان کے علماء اھل سنت نے اس بیان میں کہا ہےکہ دین مبین اسلام میں ہر فرد کے حقوق پر تاکيد کی گئ ہے خواہ وہ زندہ ہویا مرچکا ہے۔ انہوں نے کہا ہےکہ جنازے اور مقبرے کی بے حرمتی کرنا اسلام میں مذموم ہے اور اسے جارحیت قراردیے کر اس کی مذمت کی گئي ہے۔ اس بیان میں کہا گيا ہےکہ صحابہ کرام کی قبروں کی بے حرمتی عالمی سامراج اور صیہونیت کی سازش ہے اور اس طرح سے امت مسلمہ کے درمیان تفرقہ پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ علماء اھل سنت نے اپنے اس بیان میں کہا ہے کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ متحد ہوکر اس سازش کو ناکام بنائیں۔
رہبر معظم نے نئے سال کو قومی عزم وجہادی مدیریت کے ساتھ ثقافت اور اقتصاد کے نام سے موسوم کیا
۲۰۱۴/۰۳/۲۱ -رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای نےاپنے پیغام میں نئے ہجری شمسی سال 1393 کے آغاز اور نوروز کی آمد کے موقع پر وطن عزیز اور دنیا بھر میں تمام ایرانیوں ،بالخصوص ایران و اسلام کےمجاہدین ، شہداء اور جانبازوں کے اہلخانہ کو مبارک باد پیش کی اور نئے سال کو قومی عزم وجہادی مدیریت کے ساتھ ثقافت اور اقتصاد و معیشت کے نام سے موسوم کیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اسلام کی عظیم اور بزرگ خاتون بی بی دو عالم حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کی شہادت کے ایام سے نئے سال کے تقارن کی طرف اشارہ کیا اور اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا کرتے ہوئے فرمایا: ایرانی قوم کے لئے یہ تقارن فاطمی برکات اور انوار الہی کی ہدایت کی بدولت دگنا اور مضاعف استفادہ کرنےکا باعث قرارپائے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے نئے سال میں " اقتصاد و معیشت اور ثقافت " کے دو مسئلوں کو تمام مسائل میں اہم قراردیتے ہوئے فرمایا: نئے سال کے نعرے " قومی عزم وجہادی مدیریت کے ساتھ ثقافت اور اقتصاد کے سال" کو عملی جامہ پہنانے کے لئے عوام اور حکام کے درمیان مشترکہ تلاش و کوشش ضروری ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملک کی تعمیر و ترقی میں عوام کی شرکت اور حضور کے بنیادی و اساسی اور ممتاز نقش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: عوام کی شرکت اور حضور کے بغیر اقتصاد و معیشت اور ثقافت میں کوئي کام نہیں ہوپائےگا اور عوام کے مختلف گروہوں کو پختہ قومی عزم و ارادے کے ساتھ اس میدان میں اپنا نقش ایفا کرنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: حکام کو اللہ تعالی کی ذات پر توکل اور عوام پر اعتماد رکھتے ہوئے معیشت اور ثقافت کے دونوں میدانوں میں مجاہدانہ طور پر وارد ہوجانا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: نئے سال میں جو مسائل ہمیں درپیش ہیں ان میں ایک مسئلہ معیشت کا ہے جسے حکام اور عوام کے باہمی تعاون سے فروغ ملےگا اور دوسرا مسئلہ ثقافت کا ہے جس کےذریعہ حکام و عوام کے تعاون سے ملک و قوم کی عظیم حرکت کی سمت و سو معین ہوگی ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مستقبل کے فیصلوں میں ماضی کے تجربات اور اسباق سے استفادہ کی ضرورت پر زوردیا اور " سیاسی و اقتصادی رزم و جہاد " کے نعرے کو عملی جامہ پہنانے کے بارے میں تجزيہ کرتے ہوئے فرمایا: حکام اور عوام کی تلاش و کوشش کے نتیجے میں سال 92 ہجری شمسی میں سیاسی رزم و جہاد انتخابات، مختلف ریلیوں اور دیگر مناسبتوں میں اچھی طرح محقق ہوا ، اور آرام و سکون کے ساتھ اجرائی قدرت منتقل ہوئی اور ملک کی مدیریت کے طویل سلسلے میں ایک نیا حلقہ تشکیل پایا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اقتصاد اور معیشت کے مسئلہ کو ملک و قوم کے لئے بہت ہی اہم مسئلہ قراردیا اور اقتصادی رزم و جہاد کے سلسلے میں بعض اہم اور قابل قدر کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: البتہ گذشتہ سال جس طرح کے اقتصادی رزم و جہاد کی توقع تھی وہ پوری نہ ہوئی اور نئے سال میں اقتصادی رزم و جہاد کو عملی جامہ پہنانا بہت ضروری ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے " پائدار اقتصاد و معیشت" کی پالیسیوں کو اقتصادی رزم و جہاد کے محقق ہونے کے لئے فکری و نظری دستاویز قراردیتے ہوئے فرمایا: ان پالیسیوں کے سائے میں اب مضاعف و دگنی تلاش و کوشش کے لئے راہیں ہموار ہوگئی ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے نوروز کے پیغام میں ایران کی مایہ ناز سرزمین کےتمام جوانوں ، بچوں، مردوں اور عورتوں کی صحت و سلامتی ، محبت و الفت، ترقی و پیشرفت اور سعادت کے لئے اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا فرمائی۔
رہبر معظم کا نئےہجری شمسی سال 1393 کے موقع پر مشہد مقدس میں عوام سے خطاب
۲۰۱۴/۰۳/۲۱ -رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے بہار کی آمد اور نئے ہجری شمسی سال 1393 کے پہلے دن حضرت امام رضا علیہ السلام کے حرم مبارک میں لاکھوں زائرین اور مجاورین کے عظیم اجتماع میں نئے سال کی دوبارہ مبارکباد پیش کی اور نئے سال " یعنی قومی عزم و جہادی مدیریت کے ساتھ ثقافت و معیشت کے سال" میں ملک کے طویل روڈ میپ کے مختلف پہلوؤں کی تشریح کی اور پائدار و مقاوم اقتصاد کے شرائط، ظرفیت اور حقیقت کی تشریح کے ساتھ ثقافت کے اہم شعبہ کے اوامر و نواہی کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: ہمیں خود کو اتنا قوی اور مضبوط بنانا چاہیے تاکہ عالمی منہ زور اور تسلط پسند طاقتیں ایرانی قوم کے کسی حق کو پامال اور نظر انداز نہ کرسکیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے نئے سال میں اپنی اصلی بات یعنی قوم و ملک کے قوی و مضبوط ہونے کی ضرورت اور قومی اقتدار میں اضافہ کی وضاحت فرمائي اور کمزور قوموں کے حقوق کو عالمی منہ زور اور تسلط پسند طاقتوں کی طرف سے ضائع کرنے کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: عالمی سطح پر چلنے والے مادی نظام میں سامراجی اور تسلط پسند طاقتیں اپنی مرضی کو کمزورممالک پر مسلط کرتی ہیں لہذا ہمیں قوی اور مضبوط ہونا چاہیے اور ترقی و پیشرفت کی سمت آگے بڑھنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے نئے سال کے نام " قومی عزم و جہادی مدیریت کے ساتھ اقتصاد و معیشت " کے انتخاب کو سن 1393 کا کلی روڈ میپ قراردیا اور ملک کی وسیع ظرفیتوں ،وسائل ، قوم کے کامیاب تجربات اور بلند گاموں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اس نعرے پر قوم اور حکام کی توجہ مرکوز ہونے کے ساتھ قومی اقتدار کا مایہ ناز راستہ برق رفتار کے ساتھ طے ہوگا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایک قوم کی قدرت و طاقت کے اصلی عناصر کی تشریح میں پیشرفتہ ہتھیاروں کے ہونے کو ضروری قراردیتے ہوئے فرمایا: اقتصاد ، ثقافت اور علم و دانش قومی اقتدار کے تین اصلی عناصر ہیں اور اللہ تعالی کی مدد و نصرت سے حالیہ بارہ برسوں میں علم و دانش کے بارے میں ہمیں خاطرخواہ اور درخشاں پیشرفت حاصل ہوئی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے قومی اقتدار کے دو باقی عناصر یعنی اقتصاد و ثقافت کے بارے میں سنجیدگی کے ساتھ اہتمام کو ضروری قراردیا اور اپنے خطاب کے پہلے مرحلے میں مسئلہ اقتصاد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ہمیں ایران کے اقتصاد اور معیشت کو اتنا قوی بنانا چاہیے تاکہ دنیا کا کوئي اقتصادی بحران،اور امریکہ اور غیر امریکہ سمیت کوئی شخص ایک نشست و برخاست میں ملک کی معیشت اور اقتصاد پر اثر انداز نہ ہوسکے اور یہ وہی پائدار اور مقاومتی اقتصاد و معیشت ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے پائدار اقتصاد و معیشت کی پالیسیوں کے ابلاغ اور تینوں قوا اور دیگر حکام کی طرف سے ان کے استقبال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین اہم سوال پیش کئے اور پھر ان کے جوابات بھی دیئے۔
1: پائدار اور مقاومتی اقتصاد کی سلبی اور ایجابی خصوصیات کیا ہیں؟
2: کیا اس ہدف تک پہنچنا ممکن ہے یا آرزو اور خام خیالی ہے؟
3: اگر اس ہدف تک پہنچنا ممکن ہے تو اس کے شرائط و خصوصیات کیا ہیں؟
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے پہلے سوال "یعنی پائدار اقتصاد کی خصوصیات " کے جواب میں فرمایا: پائدار اقتصاد ایک علمی نمونہ ہے جو ملک کی ضروریات کے متناسب ہے البتہ بہت سے دیگر ممالک بھی عالمی اقتصادی اور سماجی بحرانوں کے اثرات کم کرنے کے لئے اپنے خاص شرائط کے مطابق پائدار اقتصاد و معیشت پر عمل پیرا ہیں۔
بیرونی نگاہ کے ساتھ اندرونی پیداوار ، وسائل اور ظرفیتوں پر تکیہ اور دیگر ممالک کے اقتصاد کے ساتھ درست تعامل ،پائدار اقتصاد کی دوسری خصوصیت تھی جس کی طرف رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اشارہ فرمایا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: افسوس کے ساتھ بعض قلم اور زبانیں یہ شبہات پیدا کرنے کی تلاش کررہی ہیں کہ ایران کے اقتصاد کو محدود اور محصور بنا کر قوم و ملک کی سعادت اور پائدار اقتصاد کی راہ مسدود کی جارہی ہے جبکہ ایسا نہیں ہے بلکہ ملک کے پائدار اور مقاوم اقتصاد کا عالمی اقتصاد کے ساتھ صحیح اور درست تعامل ہوگا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے پائدار اور مقاومتی اقتصاد کی تیسری خصوصیت بیان کرتے ہوئے فرمایا: یہ اقتصاد حکومتی اقتصاد نہیں ہے بلکہ اس کا محور عوام ہیں۔ البتہ حکام کی ذمہ داری ہے کہ وہ شرائط ، ہدایت اور تعاون کی راہ ہموار کرکے عوام کی شراکت اور ان کی سرمایہ کاری کے لئے اسباب اور وسائل فراہم کریں ۔
صنعت و زراعت میں سرگرم افراد و ماہرین کے تجربات سے استفادہ کے ساتھ ساتھ اقتصاد کے علمی محور پر ہونے کی دوسری تعبیر تھی کہ جس میں رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مقاومتی اقتصاد کی خصوصیات کے مزید عام فہم بنانے کے لئے استفادہ پر تاکید فرمائي۔
عالمی سطح پر رائج اقتصادی معیاروں جیسے قومی رشد، ناخالص پیداوار اور پابندیوں اور غیر پابندیوں کے تمام شرائط میں پائدار اقتصاد کے مؤثر ہونے کے ساتھ سماجی اور اقتصادی انصاف پر توجہ آخری خصوصیت تھی جسے رہبر معظم انقلاب اسلامی نے پہلے سوال کے جواب میں پائدار اقتصاد و معیشت کی سلبی و ایجابی خصوصیات کے طور پر بیان کیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نےحرم رضوی کے زائرین اور مجاورین کے عظیم اجتماع سے خطاب میں ایک خاص سوال کے جواب کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا: کیا پائدار اور مقاومتی اقتصاد و معیشت ایک آرزو اور وہم و خیال نہیں ہے؟ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ٹھوس حقائق اور اطلاعات کی روشنی میں اس سوال کا جواب نفی میں دیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: عظیم ظرفیتوں کے ساتھ جوانوں کی افرادی قوت، یونیورسٹیوں کے دس ملین طلباء، مدارس کے 4 ملین سے زائد طلباء اور کئی ملین صنعتی و غیر صنعتی دیگر ماہرین و تجربہ کار افراد ، بہت ہی گرانقدر اور فراواں قدرتی وسائل، بے مثال جغرافیائی پوزیشن اور انفراسٹرکچرز کے سافٹ ویئر اور ہارڈ ویئر اس بات کا مظہر ہیں کہ پائدار اور مقاومتی اقتصاد و معیشت یقینی طور پر قابل عمل اور قابل تحقق ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: البتہ ممکن ہے کہ کوئی یہ بات کہے کہ اقتصادی پابندیاں ان ظرفیتوں اوروسائل سے استفادہ کرنے کی اجازت نہیں دیتی ہیں لیکن کیا ہم نے انہی شرائط میں سائنسی اور دفاعی شعبوں منجملہ نینو ٹیکنالوجی، سٹیم خلیات اور جوہری توانائی اور دفاعی صنعت اور میزائل سسٹم میں حیرت انگيز اورخيرہ کنندہ پیشرفت حاصل نہیں کی؟
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ان حقائق کے پیش نظر اگر ہم اپنے عزم کو بالجزم کریں اور ایکدوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دیں اور دشمن کی طرف نہ دیکھیں کہ وہ کس وقت پابندیاں اٹھائے گا یا نہیں اٹھائے گا تو ہم دیگر شعبوں منجملہ اقتصاد کے شعبہ میں بھی یقینی طور پر قومی اقتدار تک پہنچ سکتے ہیں۔
تیسرا سوال پائدار اقتصاد کے محقق ہونے کے شرائط پر مبنی تھا اس کی اہمیت کے پیش نظر رہبر معظم انقلاب اسلامی نے نئے سال کے پہلے دن اپنے خطاب میں اس کی طرف اشارہ فرمایا۔
اس سلسلے میں رہبر معظم انقلاب اسلامی کا جواب 4 ضرورتوں پر مبنی تھا: 1۔ ملک کی پیشرفت کے بنیادی حلقہ کے عنوان سے قومی پیداوار پر حکام کی ہمہ گیر توجہ اور حمایت، 2۔ سرمایہ کاروں اور پیداوار میں مشغول افراد کی کارکردگی اور قومی پیداوار کو اہمیت دینا،3۔ سرمایہ کاروں کی غیر پیداواری شعبوں کے بجائے پیداواری شعبوں میں تشویق کرنا،4۔ قوم کی اندرونی اور داخلی پیداوار سے استفادہ پر تاکید۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے 4 نکات کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: ہم یہ نہیں کہتے کہ غیر ملکی چیزیں خریدنا حرام ہیں لیکن ملک کی پیشرفت اور اقتصاد کو مضبوط اور مقاوم بنانے کے لئے داخلی اشیاء کا مصرف ایک اہم ضرورت ہے اور تمام مسائل منجملہ روزگار کی فراہمی اور داخلی پیداوار کی کیفیت کی افزائش میں اس کا اثر مثبت ہوگا البتہ اس سلسلے میں دوسروں کی نسبت اعلی حکام اور اعلی عہدیداروں کی ذمہ داری بہت زیادہ ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس حصہ میں اپنے خطاب کو سمیٹتے ہوئے ملک کی معیشت اور اقتصاد کو مضبوط اور پائدار بنانے کے لئے حکام اور عوام کے درمیان تعاون پر تاکید کی اور ثقافت کے موضوع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ثقافت کا موضوع ، اقتصاد سے بھی کہيں زيادہ اہم ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ثقافت کی اہمیت کی علت کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: ثقافت ہوا کے مانند ہےچاہے ہم چاہییں یا نہ چاہییں ہمیں سانس لینے کی ضرورت ہے لہذا اگر ہوا صاف یا آلودہ ہو تو اس کے ملک اور معاشرے پر متفاوت اثرات مرتب ہوں گے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عوام کی نگاہ میں اندرونی پیداوار، قانون مداری، اور خاندانی مسائل کے سلسلے میں ثقافت کے بےمثال اثرات کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: عوام کی سیاسی ، سماجی اور اقتصادی مسائل کے سلسلے میں روزمرہ کی تمام عادات و رفتار ان کی ثقافت کا مظہر ہیں، لہذا تمام مسائل اور دیگر شعبوں پر ثقافتی اعتقادات کا اثر ہوتا ہے جو سب سے اہم ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ثقافت کے بارے میں دشمنوں کی توجہ کو ثقافت کی اہمیت کا مظہر قراردیتے ہوئے فرمایا: ثقافتی امور سے متعلق حکام کو چاہیے کہ وہ دشمنوں کی ثقافتی خلاف ورزیوں کے بارے میں آگاہ اور ہوشیار رہیں اور اس سلسلے میں اپنی دفاعی اور ایجابی ذمہ داریوں پر عمل کریں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ثقافت کے سلسلے میں اندرونی خامیوں اور کوتاہیوں کے منفی اثرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ثقافت کے میدان میں تمام مشکلات کی ذمہ داری دشمن پر عائد نہیں ہوتی لیکن گذشتہ 35 برس میں اس سلسلے میں دشمن کی سرگرمیوں اور فعالیتوں کا انکار اور انھیں نظر انداز بھی نہیں کیا جاسکتا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے آزادی کو اسلامی جمہوریہ ایران اور اسلامی انقلاب کے بنیادی اور اساسی نعروں میں شمار کرتے ہوئے فرمایا: حکام کی انحرافات اور مفاسد کے بارے میں حساسیت کا آزادی کے ساتھ کوئی تضاد نہیں کیونکہ آزادی اللہ تعالی کی ایک عظیم نعمت ہے آزادی اور انحراف ، فساد اور غیر اخلاقی حرکتوں کے درمیان مکمل طور پر بہت بڑا فرق اور تفاوت ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بغیر ضابطہ کے آزادی کو بے معنی قراردیا اورآزادی کے مدعی مغربی ممالک کی طرف سے قائم ریڈ لائنوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: یورپ میں کسی میں اتنی ہمت نہیں جو ہولوکاسٹ کے بارے میں شک و تردید ایجاد کرے جبکہ اس کی اصل حقیقت کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں ہے اس کے باوجود وہ ہم سے توقع رکھتے ہیں کہ ہم انقلاب اسلامی اور اسلام کی ریڈ لائنوں کو مد نظر نہ رکھیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بعض موجودہ مسائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اگر کوئی شخص قومی استقلال کی روح کا مذاق اڑائے، ، وابستگی کا ںظریہ بیان کرے، معاشرے کے اسلامی اور اخلاقی اصولوں کی توہین کرے، انقلاب کے اصلی نعروں کو اپنی یلغار کا نشانہ بنائے، فارسی زبان اور قومی عادات کو حقیر قراردے اور غیر اخلاقی حرکتوں کی ترویج کرے، ایرانی جوانوں کی قومی عزت و غیرت کو نشانہ بنائے تو کیا ایسی تخریبی سرگرمیوں کے مد مقابل بے تفاوت اور خاموش رہنا چاہیے؟
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حجاب جیسے مسائل کے بارے میں مغربی ممالک کے عدم تحمل اور بعض ممالک کے عوام کے بارے میں ان کے اندھے تعصب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: مغربی ممالک کے تحمل اور برداشت کے یہ شواہد اور علائم ہیں جبکہ بعض عناصر، ایران کی باثقافت اور نجیب قوم کو ان کی رغبت دلاتےہیں۔!
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حکومت سےمتعلق مستقیم یا غیر مستقیم ثقافتی اور تبلیغاتی اداروں کے حکام کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: غیر ملکی ذرائع ابلاغ یا اغیار کے ہمدرد ذرائع ابلاغ کے مکر و فریب سے ہرگز نہ گبھرائیں اور اپنی رفتار کو ان کی رفتار سے ملانے کی کوشش نہ کریں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ثقافتی اداروں کے حکام کی سنگين ذمہ داریوں اور وظائف کی تشریح کے بعد فرمایا: ثقافت کے بارے میں میرا اہم نکتہ ان انقلابی اور مؤمن جوانوں سے خطاب ہے جو ملک بھر میں ذاتی جوش و ولولہ کے ساتھ ثقافتی سرگرمیوں میں مشغول ہیں اور انھوں نے اس سلسلے میں بہت اچھے اور نمایاں کام انجام دیئے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے جوانوں کو تاکید کرتے ہوئے فرمایا: میرے عزیزو آپ اپنے کام کو سنجیدگی کے ساتھ جاری رکھیں کیونکہ آپ کی ثقافتی سرگرمیوں نے انقلاب کے آغاز سے ہی ملک کی پیشرفت اور استقامت میں اہم نقش ایفا کیا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ثقافتی مراجع منجملہ علماء ، اساتید، اسلامی مفکرین، اور متعہد ہنرمندوں کو ایک اہم سفارش کرتے ہوئے فرمایا: ثقافتی حالات کے بارے میں اپنی تنقیدی نظر کو برقرار رکھیں اور واضح اور صریح بیان و منطق کے ساتھ حکام کی توجہ اس امر کی طرف مبذول کرتے رہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: اس سلسلے میں الزام تراشی ، شور و غل اور تکفیر سے بالکل پرہیز کرنا چاہیے۔اور ملک کے انقلابی مجموعہ منجملہ انقلابی جوانوں اور ممتاز شخصیات کو اپنے محکم و مضبوط اور منطقی دلائل کے ساتھ حکام کے بارے میں تنقید کرنی چاہیے اور ثقافت کے سلسلے میں یہ وہی قومی عزم اور جہادی مدیریت ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے سال 92 کو سیاسی اور اقتصادی رزم و جہاد کے نام سے موسوم کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: عوام سے سیاسی رزم و جہاد کے سلسلے میں جو توقع تھی وہ انھوں نے پوری کی اور عوام نے دو موقعوں پر یعنی گیارہویں صدارتی انتخابات اور 22 بہمن کی عظیم ریلیوں میں سیاسی رزم کو عملی جامہ پہنایا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے گیارہویں صدارتی انتخابات اور 22 بہمن کی عظیم ریلیوں کے دو واقعات کو عالمی میڈیا کی یلغار کے مقابلے میں ایرانی قوم اور ملک کے حقائق کے سلسلے میں ہمہ گیر ذرائع ابلاغ قراردیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: اسلامی نظام میں انتخابات کے سلسلے میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ انقلاب کے آغاز سے لیکر اب تک متعدد اور مکرر انتخابات میں عوام کی شرکت کا حد نصاب کم نہیں ہوا اور گیارہویں صدارتی انتخابات میں بھی عوام کی شرکت کا حد نصاب 72 فیصد رہا ہے جو ایک ممتاز نصاب کے طور پر ثبت ہوگیا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: میدان میں عوام کی مسلسل و پیہم موجودگی کا مطلب ، اسلامی جمہوریہ ایران میں دینی عوام زندگی کا نظام ہے اور اس نعمت کی قدر کرنی چاہیے لیکن افسوس کے بعض افراد نے 1388 کے انتخابات میں اس نعمت کی قدر و قیمت کو نہیں پہچانا اور اس عظیم نعمت پر شکر ادا نہیں کیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس کے بعد 22 بہمن سنہ 1392 ہجری شمسی کی عظیم ریلیوں میں عوام کی وسیع پیمانے پر شرکت کی طرف اشارہ کیا اور ایرانی عوام کے خلاف سامراجی طاقتوں کی پالیسیوں اور ایرانی قوم کے بارے میں امریکہ کے غیر مہذبانہ اور توہین آمیز رویہ کو عوام کی اس موجودگی کا اصلی سبب قراردیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ایک طرف ایٹمی مذاکرات جاری تھے اور دوسری طرف امریکی حکام نے غیر مہذبانہ ، غیر مؤدبانہ اور توہین آمیز لہجہ میں یہ ظاہر کرنے کی تلاش و کوشش کی کہ ایرانی عوام اپنے اہداف اور اصول سے منحرف ہوگئے ہیں لیکن ایرانی قوم نے مزید غیرت اور حساسیت کے ساتھ میدان میں حاضر ہو کر واضح کردیا کہ ایرانی قوم اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ ہے اور اپنی تمام توانائیوں کے ساتھ اسلامی نظام اور اسلام کے پرچم کے ساتھ کھڑی رہے گی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے خطاب کے اختتام میں فلسطین، شام، عراق، افغانستان ، پاکستان اور دنیا کے دیگر علاقوں میں امریکہ کی شکست اور ناکامی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: عالمی حالات و حقائق امریکہ کے مرضی کے مطابق آگے نہیں بڑھ رہے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ایران کے ساتھ بھی دشمنون کی عداوت و دشمنی کا سلسلہ 35 برس سے جاری ہے لیکن ایرانی عوام کی ہوشیاری اور میدان میں موجودکی کی وجہ سے دشمن کسی نتیجے تک نہیں پہنچ سکا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: امریکی حکومت کے اہم و مؤثر افراد نے واضح طور پر کہا ہے کہ ہم نے ایرانی قوم کے خلاف پابندیاں اس لئے عائد کی ہیں تاکہ وہ اسلامی انقلاب کے خلاف سڑکوں پر نکل آئیں اور ہم انقلاب کی جڑیں اکھاڑ دیں گے لیکن عوام کی ہوشیاری اور آگاہانہ موجودگی نے دشمن کے شوم منصوبوں کو ایک بار پھر ناکام بنادیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے اختتام پر فرمایا: اس سرزمین کا تابناک اور درخشاں مستقبل اس کے جوانوں سے متعلق ہے اور دشمنوں کو اسی طرح شکست و ناکامی نصیب ہوگی۔
اس ملاقات سے قبل صوبہ خراسان رضوی میں ولی فقیہ کے نمائندے اور حرم امام رضا (ع) کے متولی آیت اللہ واعظ طبسی نے قومی عزت اور استقلال کے راستے پر عوام کی حرکت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: عوام اور حکام کی ہمت اور تلاش و کوشش کی بدولت نئے سال کا نعرہ "قومی عزم و جہادی مدیریت کے ساتھ ثقافت اور معیشت " محقق ہوجائے گا ۔
رہبر معظم کا آبادان کا محاصرہ توڑنے والی فوجی کارروائیوں کے علاقہ میں راہیان نور قافلوں سے خطاب
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای نے کارون کے مشرق میں آبادان کا محاصرہ توڑنے والی فوجی کارروائیوں کے علاقہ میں راہیان نور کے ہزاروں زائرین کے اجتماع سے خطاب میں راہیان نور قافلوں کے مثبت و مفید اثرات اور دفاع مقدس کی مختلف کارروائيوں کےدوران ممتاز شخصیات، اعلی کمانڈروں اور دلیر سپاہیوں کی قربانیوں اور جانفشانیوں کی یاد ہمیشہ زندہ رکھنے پر دوبارہ تاکید کرتے ہوئے فرمایا: دفاع مقدس کا سب سے بڑا درس یہ تھا کہ ایک قوم اتحاد، ایمان،اللہ تعالی پر حسن ظن اور اللہ تعالی کے سچے وعدوں پر اعتقاد کے سائے میں تمام مشکل گھاٹیوں سے عبور اور دشمن کے مد مقابل استقامت کے جوہر دکھا کر دشمن کو پیچھے ہٹنے اور شکست دینے پر مجبور کرسکتی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے نوروز کی چھٹیوں اور سال کے دیگر ایام میں دفاع مقدس کے جنگی علاقوں اور فوجی کارروائيوں کے علاقوں میں عوام کے مختلف طبقات کے حضور کو پسندیدہ ، صحیح اور عقلمندانہ اقدام قراردیتے ہوئے فرمایا: دفاع مقدس کے تمام علاقہ منجملہ خوزستان، مجاہدت، فداکاری اور ایثار کےممتاز میدانوں میں سے ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آبادان کے محاصرے کو توڑنے کے لئے حضرت امام (رہ) کے فرمان اور کارون کے مشرق میں مارد علاقہ میں سن1360 ہجری شمسی مہر ماہ میں ثامن الآئمہ فوجی کارروائیوں کے پروگرام اور منصوبے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اسلام کے بہادر سپاہیوں کا یہ کامیاب آپریشن ، طریق القدس، فتح المبین اور الی بیت المقدس آپریشنز کا آغاز اور پیش خیمہ ثابت ہوا جو اسی سال مسلط کردہ جنگ کے خاتمہ کا سبب بن سکتا تھا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اسلامی نظام کے مخالف اور دشمن محاذ یعنی یہی یورپی ممالک اور امریکہ ، صدام کی بعثی حکومت کو پیشرفتہ ہتھیار اور جنگی وسائل فراہم کرکے اسے جنگ جاری رکھنے کی تشویق کرتےتھے اور یہی مسئلہ جنگ کے 8 سال تک طولانی ہونے کا باعث بن گیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے سامراجی طاقتوں کی جانب سے صدام کی بعثی حکومت کی مکمل حمایت اور اس کو کامیاب بنانے اور ایرانی قوم اور اسلامی نظام کو ضعیف اور کمزور کرنے کے سلسلے میں دشمن کی کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالی نے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھایا، اور الہی سنت نے اپنی آہنی مشت کے ساتھ اسلامی جمہوریہ ایران کے دشمنوں کے منہ توڑ دیئے اور ان کی ناک کو زمین پر رگڑ دیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: کیونکہ اسلامی نظام عوام کے احساسات ، جذبات اور ایمان پر استوار ہے اور آٹھ سالہ دفاع مقدس میں ایرانی قوم نے ثابت کردیا کہ دنیا کی مادی طاقتوں کے مقابلے میں اپنا دفاع کیا جاسکتا ہے اور اسی طرح انھیں عجز و ناتوانی کا اظہار کرنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مسلط کردہ جنگ میں دشمن کے ایک ہدف کو دنیا کی مادی طاقتوں کے مقابلے میں ایرانی قوم کی عدم استقامت ظاہر کرنے کی کوشش قراردیتے ہوئے فرمایا: کسی قوم کی شکست اس وقت ہے جب اسے یقین ہوجائے کہ وہ کوئی کام انجام نہیں دےسکتی لیکن ایرانی قوم نے مسلط کردہ جنگ کے دوران اس برخلاف عالمی سطح پر یہ ثابت کردیا کہ وہ اپنا مکمل طور پر دفاع کرسکتی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: تاریخ میں اور اسی طرح قوموں کے درمیان کسی قوم کی سربلندی و عزت کا اصلی راز مختلف سماجی، علمی اور اقتصادی میدانوں میں تلاش و کوشش اور سب سے بڑھ کر قربانیوں کے لئے آمادہ رہنے پرمنحصر ہوتا ہے ۔
حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: انقلاب اسلامی کا ایرانی قوم کے لئے سب سے بڑا درس یہ تھا کہ اعلی اہداف تک پہنچنے کے لئے ان اہداف کے سلسلے میں جد وجہد، تلاش و کوشش ، جانفشانی اور استقامت ضروری ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے 8 سالہ دفاع مقدس اور مسلط کردہ پر رمز و راز جنگ کو ایرانی قوم اور ملک کے جوانوں کی استقامت اور سامراج اور کفر محاذ کے مقابلے میں ان کی پائداری کا مظہر قراردیتے ہوئے فرمایا: دفاع مقدس کی یاد ہمیشہ زندہ رکھنی چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ایرانی قوم کے معاندین اور اسی طرح بعض دیگر افراد اس تلاش میں ہیں کہ دفاع مقدس کی فداکاریوں اور اہم شخصیات کے فعال نقش کو فراموش کردیا جائے اور اسی وجہ سے ان کی تلاش و کوشش ہے کہ اس راہ کو فراموش کردیا جائے جسےدفاع مقدس کی قربانیوں اور جسے الہی حکیم و بصیر انسان حضرت امام خمینی (رہ )نے معین و مشحض کیا تھا ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: دفاع مقدس کا ہر لحظہ ایرانی قوم کے لئے ناقابل فراموش ہے اور ایرانی قوم کی اعلی اہداف کی سمت حرکت میں اس کے گہرے اور مؤثر اثرات ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے اختتام پر راہیان نور قافلون کا شکریہ ادا کیا جو دفاع مقدس کے دوران جنگی کارروائیوں کے علاقوں کا قریب سے مشاہدہ کرنے کے لئے ان علاقوں میں حاضر ہوئے ہیں۔ اور اس امید کا اظہار کیا کہ اس معنوی سفر کا توشہ، الہی انوار و بصیرت اور سیکھنے کابہترین تجربہ قرارپائے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی آبادان کا محاصرہ توڑنے والے آپریشنز کے علاقہ میں پہنچنے سے پہلے دفاع مقدس کے نوگمنام شہیدوں کے مزار پر حاضر ہوئے اور ان کے درجات کی بلندی کے لئے سورہ فاتحہ کی تلاوت فرمائی۔
رہبر معظم سے ادارہ راہیان نور کے اہلکاروں کی ملاقات
۲۰۱۴/۰۳/۱۷- رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ملک کے راہیان نورکیمپ اور ادارے کے اعلی حکام اور اہلکاروں کے ساتھ ملاقات میں ملک کی جوان نسل اور عوام کو دفاع مقدس کے عظیم اور تاریخی واقعہ کے بارے میں آشنا بنانے کے اقدام کو ایک الہی ، انقلابی اور ممتاز اقدام قراردیتے ہوئے فرمایا: اس عظیم تاریخی واقعہ کی کمین میں فراموشی اور تحریف جیسے دو بڑے خطرے موجود ہیں اور دفاع مقدس کے میدان سے آشنا ممتاز ماہرین اور اہلکاروں کو چاہیے کہ وہ اس عظیم ثقافتی خزانہ اور ذخیرہ کو پہچنوانے کے ساتھ تحریف اور فراموش جیسے خطرات سے اسے محفوظ رکھنے کی بھی تلاش و کوشش کریں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دفاع مقدس کے سلسلے میں شائع ہونے والے تحریری اور ہنری آثار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: دفاع مقدس ایک ایساعظیم اور شاندار پینل ہے جسے دیکھنے والا جتنا اس کے قریب ہوتا جائے گا اتنا ہی اس کے اجزاء اور ترکیب کے بارے میں غور و فکر کرےگا اور اس کے جدید اور حیرت انگیز پہلوؤں تک پہنچ جائے گا۔
رہبرمعظم انقلاب اسلامی نے شہیدوں کے وصیت ناموں کے مطالعہ پر حضرت امام خمینی (رہ) کی تاکید و سفارش کو اسی حقیقت کا مظہر قراردیتے ہوئے فرمایا: شہیدوں کا وصیت نامہ در حقیقت ایسے دلیر سپاہیوں کے معنوی حالات سمجھنے کا دریچہ ہے جنھوں نے نمایاں کارنامے اور شاندار کامیابیاں حاصل کیں اور جن کے عظیم کارناموں کا دنیا کے فوجی اور مادی سسٹم سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کو جاری رکھتے ہوئے دنیا کے عظیم واقعات کو درپیش دو خطروں سے آگاہ کیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فراموشی کو دنیا کے عظیم واقعات کو درپیش اہم خطرہ قراردیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس سلسلے میں مسئلہ فلسطین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: آج تسلط پسند سامراجی طاقتیں فلسطین کے مقامی لوگوں کو شہروں اور دیہاتوں سے جلاوطن کرنے کے عظیم واقعہ کو کمرنگ بنا پر پیش کرنے اور اسے فراموش کرنےکی تلاش و کوشش کررہی ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حالیہ برسوں میں مسئلہ فلسطین کے زندہ رہنے اور مسئلہ فلسطین کو فراموش کرنے کے سلسلے میں استکباری طاقتوں کی سازشوں کی ناکامی کو ایران کے اسلامی انقلاب اور حضرت امام خمینی (رہ) کی مخلصانہ کوششوں اور نعروں کا مرہون منت قراردیتے ہوئے فرمایا: دفاع مقدس کے عظیم واقعہ کو بھی فراموش کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تحریف اور تغییر کو دنیا کے بڑے واقعات اور حوادث کے لئے دوسرا بڑا خطرہ قراردیا ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انقلاب اسلامی اور دفاع مقدس کو تحریف سے لاحق خطرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: بعض ثقافتی اور ہنری آثار یا سمینارجو دفاع مقدس کے نام سے شائع اور منعقد ہوتے ہیں انھیں انقلاب اور دفاع مقدس کی حقیقت سے متضاد نہیں ہونا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے راہیان نور کیمپوں اور جنگی علاقوں کے دورے کو تحریف اور فراموشی کے دو خطرات سے بچنے کے لئے بہترین سنت قراردیتے ہوئے فرمایا: ان کیمپوں میں کبھی ناگوار حوادث پیش آتے ہیں ان کی روک تھام کرنی چاہیے لیکن اس قسم کے واقعات کو اصل کام پر سوالیہ نشان لگآنے کے لئے بہانہ نہیں بنانا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: راہیان نور کیمپوں میں سب سے اہم اور اصلی نکتہ ،معرفت کے ساتھ زیارت کی راہ ہموار کرنا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے معرفت کے ساتھ زیارت کی راہ فراہم کرنے کا ایک ذریعہ دفاع مقدس اور جنگی علاقوں کے شناسنامہ کے عنوان سے جزوات کی تیاری اور تحریر کو قرار دیتے ہوئے فرمایا: دفاع مقدس کے موضوع پر اچھی اور بہترین کتابیں تحریر کی گئی ہیں جن کو اچھی اور جذاب فلموں میں تبدیل کیا جاسکتا ہے اور اسی طرح تمام جنگی علاقوں اور دفاع مقدس کی ہر ایک کارروائی کے بارے میں بہترین اور فاخر اثار تیار کئے جاسکتے ہیں۔
عوامی مجموعات کو فعال رکھنے پر تاکید، گروہی سفر کو جاری رکھنے کی سفارش اور دفاع مقدس کے حساس اور فیصلہ کن ایام کو قریب سے درک کرنے والے راویوں کا انتخاب دیگر سفارشات تھیں جن کے بارے میں رہبر معظم انقلاب اسلامی نے راہیان نور ادارے کے اہلکاروں کو آگاہ فرمایا۔
اس ملاقات کے آغازمیں ادارہ نور کے سربراہ جنرل کارگر نے اس ادارے کے اقدامات اور پروگراموں کےبارے میں رپورٹ پیش کی۔
تہران ؛ بائسویں بین الاقوامی قرآنی نمائش میں شرکت کے لیے دعوت عام
قرآنی سرگرمیوں کا گروپ : اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت مذہبی امور سے وابستہ قرآن و عترت مرکز کی جانب سے بائیسویں بین الاقوامی قرآنی نمائش میں شرکت کے لیے دعوت عام کا اعلان کیا گیا ہے ۔
رپورٹ کے مطابق نمائش کی آرگنائزنگ کمیٹی نے ڈیزائنرز اور صاحب نظر افراد کو دعوت دی ہے کہ اپنے مناسب پیٹرن اور آراء کے ذریعے اس عظیم نمائش کو کامیاب بنانے میں بھر پور کردار ادا کریں ۔
اسی طرح اعلان میں اس بات کی جانب اشارہ کیا گیا ہے کہ قرآن کریم کے ساتھ عقیدت رکھنے والے ہنر مند اور مفکرین حضرات اپنے آثار اور متفاوت طرز فکر کے ذریعے اس نمائش میں عاشقان قرآن کریم کی زیادہ سے زیادہ شرکت کو یقینی بنائیں۔
خواہشمند حضرات نمائش میں حصہ لینے کے لیے مندجہ ذیل ایڈریس پر اپنے آثار ارسال کرسکتےہیں :
تہران ، خیابان ولی عصر (عج) ، بلاک ۱۵
یا پھر This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it. پر میل کر یں ۔
الازہر اور ویٹیکن کے توسط سے اسلامی- مسیحی انجمن کا قیام
ایران کی قرآنی خبر رساں ایجنسی (ایکنا) اطلاع رساں ویب سائیٹ کے حوالے سے نقل کرتے ہوئے کہاہے کہ ویٹیکن میں مصر کے جامعہ الازہر اور برطانوی کلیسا کے نمائندوں سمیت "انڈرو فارسٹ" نامی معروف آسٹریلین تاجر کی موجودگی میں اس معاہدے پر دستخط کیے گئے ہیں ۔
واضح رہے کہ ۲۰۲۰ تک فعالیت کرنے والی اس انجمن کا اصلی ہدف دنیا میں پروان چڑھتی ہوئی دور جدید کی غلامی اور مختلف ممالک میں جاری جبری مشقت جیسے مسائل کا مقابلہ کرنا ہے ۔
آسٹریلین تاجر انڈرو فارسٹ نے کہا : پہلے مرحلے میں اسلام اور مسیحیت سے تعلق رکھنے والے تقریبا تین ارب لوگ اس انجمن کا حصہ بنیں گے لیکن دیگر ادیان کے پیروکار بھی اس عظیم منصوبے میں شامل ہو سکتے ہیں ۔
نیکی کا راستہ
انسان کی ایک اہم ترین اور بااثر دعا، خدا سے اپنی عاقبت بخیر ہونے کی درخواست کرنا ہے ۔ عاقبت کے معنی کام کا انجام اور اختتام ہے ۔ اور عاقبت بخیر ہونے کامطلب، ان تمام سرگرمیوں اور تمام امور کا بخیر انجام پانا ہے کہ جسے وہ انجام دے رہا ہے ۔ عاقبت بخیر ہونے کے معنی یہ ہیں کہ خدا کے فیض و رحمت سے متصل ہونا اور قربت الہی کی اس منزل تک رسائی حاصل کرنا ہے جس سے انسان خدا کی خوشنودی حاصل کرسکے ۔
مجموعی طورپر انسانوں کی تقسیم چار حصوں میں ہوتی ہے : پہلا گروپ ان کا ہے جو اپنی عمر کے آغاز سے انجام تک، نیک کام انجام دیتے اور اچھے اخلاق اور صحیح راستے کو اپنی زندگی کا لائحۂ عمل قرار دیتے ہیں ۔ اس قسم کے افراد بہت کم ہیں اور ان کی واضح مثال انبیاء و ائمہ اور اولیاء الہی ہیں یہ افراد یقینا نیک انجام کے حامل ہیں.
دوسرا گروہ ان افراد کا ہے جو زندگي کے اوائل میں نیک راستے پر چلنے والے ہیں لیکن نفسانی خواہشات پر عدم تسلط اور ناپسندیدہ صفات میں آلودہ ہونے کے سبب ، رفتہ رفتہ انحراف سے دوچار ہوجاتے ہيں اور آخر کار وہ ایمان کے بغیر اور گناہ میں آلودہ ہوکر موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں ، اس قسم کے افراد بری عاقبت والے کہلاتے ہیں ۔ لیکن ایک اور گروہ ، جو زندگی کے اوائل میں غفلت و نادانی کے سبب گناہ اور معصیت سے دوچار رہتا ہے لیکن وقت گذرنے اور شعور پیدا ہونے کے ساتھ ہی، دھیرے دھیرے صحیح راستہ پالیتا ہے اور آخر کار اپنے نیک اعمال اور توبہ و استغفار کے سبب ، اس دنیا سے مومن اور عاقبت بخیر اٹھتا ہے ۔
قرآن کریم کی متعدد آيات میں لوگوں سے یہ مطالبہ کیا گيا ہے وہ مسلمان مریں اور ان کا انجام بخیر ہوچنانچہ سورۂ آل عمران کی آيت 102 میں مومنین کو اس طرح سے تلقین کی جارہی ہے کہ اے ایمان والو اللہ سے اس طرح سے ڈرو جو ڈرنے کاحق ہے اورخبردار اس وقت تک نہ مرنا جب تک مسلمان نہ ہوجاؤ ۔ اسی طرح جناب ابراہیم اوریعقوب علیھما السلام اپنی زندگي کے آخری لمحات میں اپنے فرزندوں کو اسی بات کی وصیت کرتے ہیں اور اپنے ہرفرزند سے فرماتے ہيں ، میرے فرزندوں اللہ نے تمہارے لئے دین کو منتخب کردیا ہے لہذا اس وقت تک دنیا سے نہ جانا جب تک کہ واقعی مسلمان نہ ہوجاؤ۔ نیک انجام اور عاقبت بخیر ہونے کی اہمیت پر متعدد روایات موجود ہیں پیغمبر اکرم (ص) سے اسی طرح روایت نقل کی گئی ہے کہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان لوگوں کی نظروں میں اہل بہشت کا کام کرتا ہے لیکن درحقیقت وہ جہنمیوں میں سےہے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان لوگوں کی نظروں میں جہنمیوں کا کام انجام دیتا ہے جبکہ حقیقت میں وہ اہل بہشت ہے" کیوں کہ بعض افراد بظاہر اعمال نیک انجام دیتے ہیں لیکن اپنی عمرکے آخر میں برے انجام اور عاقبت سے دوچار ہوجاتے ہیں ۔ جیسا کہ خداوندمتعال سورۂ کہف کی آيات 103 اور 104 ميں ارشاد فرماتا ہے ۔ پیغمبر کیا ہم آپ کو ان لوگوں کے بارے میں اطلاع دیں جو اپنے اعمال میں بدترین خسارے ميں ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کی کوشش، زندگانی دنیا میں بہک گئي ہے اور یہ خیال کرتے ہیں کہ اچھے اعمال انجام دے رہے ہیں ۔
البتہ یہ تصور نہ کیا جائے کہ صرف گنہگاروں کو ہی عاقبت بخیر ہونے کی دعا اور آرزو کرنی چاہئے ۔ شیطان ترجیح دیتا ہےکہ ہم پوری عمر عبادت کریں اور وہ زندگي کے آخر میں دین وایمان کو تباہ کردے اور ہمیں دوزخ میں لے جائے ۔ اس بناء پر مومنین ہمیشہ برے انجام سے خوف کھاتےہیں ۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بیوی ، بیٹے ، دوست ، پڑوسی اور گمراہ ساتھی بھی انسان کی نیک عاقبت سلب ہونے کاباعث بن جاتے ہیں ۔ اسی لئے پیغمبر اکرم (ص) اپنی نمازوں میں اس دعا کی تلاوت فرمایا کرتے تھے " خدایا مجھے ایک لمحہ بھی میرے حال پر مت چھوڑنا " جب ان کی کسی زوجہ نے آنحضرت کے اعلی مقام و منزلت کا ذکر کرتے ہوئے اس دعا کا سبب پوچھا تو آپ نے فرمایا خداوند عالم نے میرے بھائی یونس کو ایک لمحہ ان کے حال پر چھوڑ دیا تو ان کا کیا انجام ہوا ۔
اسی طرح روایت میں ہے کہ پیغمبر اعظم (ص) ماہ رمضان کی آمد پر خطبۂ شعبانیہ پڑھنے کے بعد گریہ کرنا شروع کردیتے ہیں تو اس موقع پر حضرت علی (ع) نے عرض کی اے رسول خدا آپ گریہ کیوں کررہے ہیں ؟ فرمایا اے علی میں جو گریہ کررہا ہوں ، وہ اسی ماہ رمضان میں تمہارے ساتھ پیش آنے والے واقعے پرہے ۔ گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ تم اپنے پروردگار کی بارگاہ ميں نماز پڑھ رہے ہو اور اسی حالت نماز میں تمہیں ایک شقی ترین انسان ، تمہارے سر پر ضربت مار رہا ہے جس کے باعث تمہاری داڑھی خون سے خضاب ہوجاتی ہے ۔ حضرت علی (ع) فورا سوال کرتے ہیں اے رسول خدا (ص) کیا یہ شہادت اس حال میں ہوگي کہ میرا دین و ایمان سالم رہے ؟ گا پیغمرنے فرمایا ہاں اےعلی تم ایمان کامل کے ساتھ دنیا سے جاؤگے ۔ اسی بناء پر حضرت علی (ع) کو اپنی شہادت سے کوئی خوف نہيں تھا بلکہ مولا علی کا سارا ہم و غم یہ تھا کہ دنیا سے مومن اور مسلمان اٹھیں ۔ اس لئے ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ کامیاب زندگی کاہنر یہ ہے کہ انسان اپنے دین و ایمان کا تحفظ اپنی عمر کے آخری لمحات تک کرے اور مسلمان دنیا سے اٹھے ۔ لہذا ہم یہ دیکھتے ہیں کہ نیک انجام سے آراستہ نہ ہونے کی تشویش دنیا کی برگزیدہ اور انسان ساز شخصیتوں ميں بھی پائی جاتی تھی ۔ وہ ایک لمحہ بھی اپنے نیک اعمال پر مغرور نہیں ہوتے تھے اور ہمیشہ زیادہ سے زیادہ نیک اور اچھے اعمال بجا لانے کی فکر میں رہتے ہیں ۔
زندگی کے سرانجام سے تشویش کا، انسان پر بہت زیادہ اثر ظاہر ہوتا ہے۔ درحقیقت پروردگار کی محبت کی چاشنی سے فیضیاب ہونے کا سب سے خوبصورت ، آسان اور تیز رفتار راستہ ، اپنے انجام اور عاقبت سے خوف و تشویش لاحق ہونا ہے ۔ جس بندے کو اپنےانجام کا خوف ہوتا ہے وہ مغرور اور اپنے اعمال کا فریفتہ نہیں ہوتا بلکہ اس کے دل کو خدا کی پناہ میں آرام اور قرار ملتا ہے اور خداوندعالم بھی اسے آرام و سکون عطا کرتا ہے ۔ ساتھ ہی یہ کہ انسان مومن ، پیہم اپنے اعمال و افکار کا محافظ ہوتا ہے تاکہ کہیں خدا کی یاد سے غفلت ، اسے برےانجام ميں مبتلا نہ کردے ۔
اسی طرح اپنے انجام کار سے تشویش ، عجب اور غرور کا قلع قمع کردیتی ہے ۔ عجب، انسان کے اچھےاور نیک اعمال کی تباہی و بربادی کا سبب بنتا ہے ۔ چنانچہ اسی سلسلے میں پیغمبر اکرم (ص) فرماتے ہیں ۔ اگر کوئی گناہ نہ کرو پھر بھی میں تمہارے لئے اس چیزسے ڈرتا ہوں کہ جو معصیت اور گناہ سے بدتر ہے اور وہ عجب اور غرور ہے ۔ ( معراج السعادہ ص 199) آنحضرت (ص) کا یہ بیان اس امر کا آئینہ دار ہے کہ عجب ایسی بدترین صفت ہے جو گناہ انجام دینے سے بدتر ہے ۔ عجب یہ ہے کہ انسان اپنے عمل صالح کو زیادہ اور عظیم شمارکرے اور اس پرخوشحال بھی ہو ۔ جو شخص عجب اور غرور میں مبتلا ہوجاتا ہے وہ دوسروں کو حقارت اور جہالت کی نظر سے دیکھتا ہے جب کہ پرہیزگار انسان سب سے ، حتی کہ گناہگاروں کے ساتھ بھی مہربان ہوتا ہے اور انہیں بھی اپنے سے کم نہیں سمجھتا ۔ کیوں کہ کوئی بھی انسان مومن اپنے انجام کار سے مطمئن نہيں ہے ۔ اپنے انجام سے تشویش لاحق ہونے کا ایک بنیادی فائدہ بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ عاقبت بخیر ہونے کی تشویش کے سبب امید ہے کہ انسان آخر الزمان کے فتنوں سے محفوظ سے رہے اس لئے کہ آخرالزمان میں سقوط اور تباہی کی دلیل ، دین سے ہاتھ دھو بیٹھنا ہے ۔ کیوں کہ آخرالزمان میں کہ جب دین کے حوالے سے خطرات بڑھ گئے ہيں ایسے میں اس بات کا زيادہ امکان ہے کہ انسان اپنے ایمان سے دور ہوجائے اس لئے مومن کو ہمیشہ اور خاص طور پر اس آخری زمانے میں دیگر زمانوں سے زیادہ اپنے عاقبت بخیر ہونے کی فکر لاحق ہونی چاہئے ۔
بندگي کا سلسلہ دائمی اور پائيدار ہے جو ایک دن ، ایک مہینے اور ایک سال ميں ختم نہيں ہوتا ۔ اگر اس درمیان کوئی خطا و لغزش انجام پاجائے تو انسان کے اعمال کو نقصان پہنچتا ہے ۔ شیطان ہر لمحہ کمین میں بیٹھا ہوا ہے تاکہ انسان کے دین کو نابود کردے سورۂ مبارکہ حجر کی آیات 39 اور 40 میں ارشاد ہوتا ہے ۔ ابلیس نے کہا کہ پروردگار جس طرح تونے مجھے گمراہ کیا ہے میں ان بندوں کے لئے زمین میں سازو سامان آراستہ کروں گا اور سب کو اکٹھا گمراہ کروں گا علاوہ تیرے ان بندوں کے ، جنہیں تونے خالص بنا لیا ہے ۔ انسان جتنا زیادہ بندگي کے مراحل کو طے کرتا ہے شیطان بھی مضبوط حیلوں اور بہانوں سے داخل ہوتا ہے اور کبھی بھی انسان ، اپنے اس قسم خوردہ دشمن سے مکمل طور پر آرام سے نہیں رہے گا۔ اس بناء پر بندۂ مومن اپنی زندگي کے آخری لمحات تک اپنی عاقبت سے تشویش میں مبتلا رہتا ہے اور ہیمشہ خداوندمتعال سے عاقبت بخیر ہونے کی دعا کرتا ہے ۔ انسان اپنے پروردگار کے سامنے جتنا زیادہ خاضع اور متواضع ہوگا اتنا ہی زیادہ محبوب ہوگا اور یہ تواضع اس کو اخروی سعادت اور انجام بخیر ہونے کی ضمانت فراہم کرنے میں موثر ثابت ہوگا ۔ انسان کو ہمیشہ خداوندعالم کی خوشنودی کے حصول میں کوشاں رہنا چاہئے اور نیکی کے راستے پر گامزن رہنے کے لئے اس سے مدد کا طالب ہونا چاہئے ۔
قبور کي زيارت
بعض لوگ عورتوں پر قبور کي زيارت حرام قرار ديتے ہيں اور مندرجہ ذيل دو حديثوں کو اپني دليل قرار ديتے ہيں:۱۔ "لعن اللہ زوارات القبور"(۱)۔ ٢۔ دوسري روايت ميں "زائرات القبور" ذکر ہوا ہے(٢)۔ "خدا زائر عورتوں پر لعنت کرے۔" کيا عورتوں کو قبور کي زيارت سے نہي کرنا صحيح ہے؟
جواب:
اس ميں حديث سے استدلال کيلئے شرط لازم مفقود ہے، کيونکہ گزشتہ ذکر کئے گئے دلائل کو مدنظر رکھتے ہوئے اس روايت کو منسوخ جاننا چاہيے اور اتفاق سے بعض اہل سنت بهائيوں کے محدثوں نے اسے منسوخ کہا بھي ہے، مثلاً ترمذي (اس حديث کے ناقل) کا کہنا ہے: اس حکم ميں مرد اور عورتيں برابر ہيں(۳)۔ قرطبي کہتے ہيں: يہ حکم ان عورتوں کے متعلق ہے جو اپنا اکثر وقت قبرستانوں ميں گزارتي ہيں اور اس طرح سے اپنے شوہروں کے حقوق پامال کرتي ہيں اور اس کي دليل يہ ہے کہ پيغمبر (ص) نے اس حديث ميں صيغہ مبالغہ "زوارات القبور" کو استعمال کيا ہے۔ ابن ماجہ، علي بن ابيطالب (ع) سے نقل کرتا ہے: ايک دن پيغمبر (ص) گھر سے باہر گئے تو ديکھا کہ عورتيں بيٹھي ہوئي ہيں، پيغمبر نے پوچھا: کيوں بيٹھي ہو؟ انھوں نے کہا: ہم جنازے کا انتظار کررہے ہيں۔ فرمايا: غسل دو گي؟ عرض کيا: نہ، فرمايا: جنازہ اٹھاؤ گي؟ عرض کيا: نہ، فرمايا: اسے قبر ميں رکھو گي؟ عرض کيا: نہ فرمايا: جاؤ، تم گنہکار ہو نہ کہ ثواب اور نيکي کرنے والي۔ يہ حديث بھي سند اور دلالت کے لحاظ سے مشکل رکھتي ہے اور ناقابل استدلال ہے کيونکہ اس کي سند ميں دينار بن عمرو ہے کہ جسے علماء رجال نے مجہول اور متروک کے طور پہ پہچنوايا ہے۔ جس حديث کا راوي اس حد تک ضعيف ہو، کيا اس کي حديث سے استدلال کيا جا سکتا ہے؟ اس کے علاوہ (اگر فرض کر ليا جائے کہ اس کي سند صحيح ہے) اس حديث کا متن بھي زيارت سے غير مربوط ہے کيونکہ پيغمبر(ص) ايسي خواتين سے مخاطب ہيں جو جنازے کا تماشا ديکھنے آئي تھيں اور کسي قسم کا کام انجام دينے نہيں آئي تھيں اور اس عمل کا زيارت قبور سے کوئي رابطہ نہيں ہے۔ ادھر ايک نکتے کا ذکر کرنا ضروري ہے اور وہ يہ کہ دين اسلام فطرت کے مطابق اور سہل و آسان ہے۔ پيغمبر اسلام(ص) نے فرمايا: آئين اسلام ايک مستحکم آئين ہے اور اس سے رفق و مدارا کے ساتھ سلوک کرو۔ فرض کريں، ايک مومنہ ماں کے جواں سال بيٹے کا انتقال ہوگيا اور اسے کئي خروار مٹي کے نيچے دفن کرديں تو روشن ہے کہ اس کا دل تڑپ رہا ہے اور اس بے تاب اور بے قرار ماں کي تسلي کيلئے ايک ہي راستہ ہے کہ اپنے بيٹے کي قبر کي زيارت کرے۔ اس صورت ميں ماں کو ايک ايسے عقلي اور عقلائي عمل سے روکنا (جو ساري دنيا ميں رائج ہے) اس کے روح پہ فشار لانے کا سبب بنے گا۔ اگر اسلام ايسے عمل سے نہي کرے تو کيا ايسے دين کو سہل اور آسان سمجھا جائے گا؟ اصولي طور پہ قبور کي زيارت،عبرت اور آخرت کو ياد کرنے کا بہترين وسيلہ ہے اور زيارت ميں ہميشہ اقربا کے ايصال ثواب کيلئے تلاوت قرآن اور فاتحہ خواني کي جاتي ہے۔ پھر کيسے ممکن ہے کہ عورتوں کو اس فيض سے محروم کيا جائے؟ دوسرے الفاظ ميں زيارت قبور کا فلسفہ آخرت کي ياد اور عبرت ہے جو قابل تخصيص نہيں ہے۔ ہاں يہ زيارت ہر قسم کے گناہ اور خطا سے پاک اور منزہ ہو اور اگر فرض کر ليا جائے کہ عورتوں کو زيارت سے نہي کي گئي ہے، يہ نہي شائد اس لئے کي گئي ہو کيونکہ اس زمانے ميں عورتيں ان شرائط کا خيال نہيں رکھتي تھيں۔
منابع اور مآخذ:
۱) سنن ابن ماجہ: ج۱، ص۵۰۳ ۔
٢) سنن ابو داؤد: ج۳، ص۲۱۸۔
۳) سنن ترمذي: ج۳، ص۳۷۱۔




















![جناب خدیجہ کبری[س] کی سیرت](/ur/media/k2/items/cache/ef2cbc28bb74bd18fb9aaefb55569150_XS.jpg)
