Super User
حکیمہ خاتون
تاریخ اسلام کی ایک اور عظیم و نامور خاتون فرزند رسول حضرت امام محمد تقی علیہ السلام اور جناب سمانہ کی صاحبزادی اور حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی پھوپھی " حکیمہ خاتون " ہیں۔
آپ تیسری صدی ہجری کی دوسری دہائی میں پیدا ہوئیں آپ راوی حدیث ، عابدہ ، مفکر ، اور معنویت و عرفان کی اعلی منزل پر فائز تھیں جناب حکیمہ خاتون فرزند رسول حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی ولادت کے وقت موجود تھیں آپ نے حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی زندگی اور اس کے بعد بھی اکثر و بیشتر حضرت امام مهدي علیہ السلام سے ملاقات کی تھی اور امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت کے بعد امام مهدي علیہ السلام کے سفیروں میں سے تھیں حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی جناب نرجس خاتون سے شادی اور امام مهدي علیہ السلام کی ولادت کے بارے میں جناب حکیمہ خاتون سے بے شمار روایتیں نقل ہوئی ہیں ۔
جناب حکیمہ خاتون دوسو چوہتر ہجری قمری کو وفات پاگئیں اور آپ کا مرقد مطہر حضرت امام حسن عسکری اور امام علی نقی علیہم السلام کے حرم میں آج بھی سامراء میں مرجع خلائق بنا ہوا ہے ۔
آبنائے ہرمز میں ایران و پاکستان کی فوجی مشقیں
اسلامی جمہوریۂ ایران اور پاکستان، آٹھ اپریل سے آبنائے ہرمز میں مشترکہ بحری فوجی مشقیں انجام دیں گے۔ ایرانی بحریہ کے شعبۂ تعلقات عامہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی بحریہ کا بیڑا، اسلامی جمہوریۂ ایران کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں انجام دینے کی غرض سے کل ہفتے کے روز جنوبی ایران کے شہر بندر عباس میں لنگر انداز ہوگیا۔ ایڈمیرل " شہرام ایرانی" کے بقول پاکستانی بحری بیڑا ، چار دنوں تک بندر عباس میں لنگر انداز رہے گا اور مشترکہ فوجی مشقوں میں شرکت کے علاوہ اس کے کمانڈرز ایران کے فوجی حکام سے، فوجی اور سمندری تعاون کے بارے میں مذاکرات کریں گے ۔ پاکستانی بحری بیڑے میں میزائل لانچر جنگي بحری جہاز، لاجسٹک جنگي بحری جہاز اور جدید آبدوز شامل ہیں ۔
ہر جارحیت کا منہ توڑ جواب دیں گے
حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصراللہ نے ہفتے کے دن ویڈیو کانفرنس کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملت لبنان کی اکثریت قانونی ٹائم کے اندر نیا صدر منتخب کۓ جانے کی خواہاں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ استقامت دفاعی اسٹریٹیجی اور دوسرے مسائل کے جائزے کے لۓ مذاکرات میں شرکت کر رہی ہے۔ حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصراللہ نے مزید کہا کہ صیہونی حکومت سب سے بڑا خطرہ ہے اور بعض حلقے اس خطرے کو نظر انداز کررہے ہیں۔ سید حسن نصراللہ نے مزید کہا کہ حزب اللہ ہرطرح کی جارحیت کا بھرپور جواب دے گي اور علاقے کی تمام قوموں بالخصوص ملت لبنان کے مقابل استقامت کے علاوہ کوئي اور چارہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ صیہونی حکومت کے خلاف جاری مزاحمت کے حزب اللہ کا شام کی جنگ میں شامل ہونے یا انیس سو بیاسی اور دوہزار چھ کی جنگوں سے کوئي تعلق نہیں ہے بلکہ استقامتارض فلسطین پر صیہونی حکومت کے قیام سے شروع ہوئي۔ سید حسن نصراللہ نے کہا کہ حزب اللہ کی دفاعی طاقت کے پیش نظر صیہونی حکومت دوبارہ حملے کرنے کی جرات نہیں کرے گی اور سب سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ صیہونی حکومت حزب اللہ کی طاقت اور توانائي سے بخوبی واقف ہے۔ انہوں نے شام کے بحران کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ شام کا بحران بیرونی مداخلت کی وجہ سے اس مرحلے تک پہنچا ہے اور حزب اللہ اور اسکی موجودگي سے اس کا کوئي تعلق نہیں ہے۔ سید حسن نصراللہ نے کہا کہ حزب اللہ نے ابتدا ہی سے شام کے بحران کے سیاسی راہ حل پرتاکید کی ہے لیکن کچھ عرب حلقوں نے شام کی حکومت کی سرنگونی پر اصرار کیا تھا۔سید حسن نصراللہ نے مزید کہا کہ لبنان کی استقامت ، فوج اور ملت نے لبنان اور اس ملک کے جنوبی علاقے کے دفاع میں کامیابی حاصل کی اور ان تینوں کو شکست نہیں دی جاسکتی ہے۔
حزب اللہ لبنان کے سربراہ نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ استقامت در اصل ایک کلچر اور جہادی کوشش کا نام ہے کہا کہ استقامت لبنان کے تمام گھروں ، شہروں ، دیہاتوں اور مساجد میں موجود ہے اور تاریخی دستاویزات سے اس بات کی تصدیق ہوجاتی ہے۔ سید حسن نصراللہ نے اس بات کو بیان کرتے ہوئے ، کہ استقامتکے بارے میں ہمیشہ قومی اتفاق رہا ہے اور حزب اللہ ماضی کی نسبت بہت زیادہ طاقتور ہوچکی ہے اور اسکی یہ ترقی تمام شعبوں میں دیکھی جاسکتی ہے، کہا کہ حزب اللہ ملت لبنان اور اپنے ملک کی سرزمین کے دفاع کے لئے ہمیشہ آمادہ و مستحکم باقی رہے گي۔
دریں اثناء لبنان کے دروزیوں کے رہنما اور ترقی پسند پارٹی کے سربراہ ولید جنبلاط نے صیہونی دشمن کے مقابلے کے لۓ استقامت کی حمایت پر زور دیا ہے۔ ولید جنبلاط نے زور دے کر کہا کہ دشمن نے بارہا لبنان کے خلاف جارحیت کی ہے لیکن ہر مرتبہ استقامت نے اسے شکست کا مزہ چکھایا ہے۔
واضح رہے کہ لبنان میں استقامت نے بہت کامیابیاں حاصل کی ہیں اور گزشتہ تیس برسوں کے دوران اس نے طاقت کا وہ توازن تبدیل کردیا ہے جو برسہا برس سے تسلط پسند طاقتوں نے قائم کر رکھا تھا۔
بلاشبہ حزب اللہ لبنان کی قیادت میں لبنانی عوام کی صیہونیت مخالف استقامت صیہونی حکومت کی جارحیتوں کے مقابلے میں ایک سیسہ پلائی ہوئي دیوار شمار ہوتی ہے اور اس کو لبنان کے خلاف تسلط پسند طاقتوں کے خطرات اور سازشوں کی ناکامی کا سبب سمجھا جاتا ہے۔ ان امور کی بناء پر لبنان کے عوام اور خطے کی رائے عامہ میں حزب اللہ لبنان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ گزشتہ کئي برسوں میں استقامت نے صیہونی حکومت کو پے در پے شکستیں دے کر طاقت کا وہ توازن تبدیل کردیا ہے جو صیہونی حکومت اور اس کے حامیوں نے اس خطے میں برقرار کر رکھا تھا۔ صیہونی حکومت اور اس کے حامی خطے میں خوف و ہراس کی فضا قائم کر کے اور صیہونی حکومت کے ناقابل تسخیر ہونے کا پروپیگنڈہ کر کے اس حکومت کی توسیع پسندی اور خطے میں یورپ کی تسلط پسندی کے مقابلے میں ہر طرح کی استقامت کا خاتمہ کرنے کے درپے تھے۔ لیکن لبنان کی استقامت کے مقابلے میں صیہونی حکومت کی پے در پے شکستوں کے نتیجے میں لبنان اور خطے کے خلاف صیہونی حکومت اور امریکہ کی سازشیں نقش بر آب ہوگئيں۔ سنہ دو ہزار میں صیہونی حکومت کو استقامت سے ذلت آمیز شکست کے نتیجے میں لبنان کے مقبوضہ علاقوں سے پسپائي اختیار کرنا پڑی۔ اور اس کے بعد سنہ دو ہزار چھ میں تینتیس روزہ جنگ میں استقامت کے مقابلے میں صیہونی حکومت کی شکست کے ساتھ اس حکومت کے ناقابل شکست ہونے کا طلسم ٹوٹ گیا۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ جب تینتیس روزہ جنگ میں صیہونی حکومت کی شکست کے ساتھ نئے مشرق وسطی پر مبنی امریکہ کا منصوبہ بھی خاک میں مل گیا۔
مصر: نو ماہ میں تقریبا 500 افراد مارے گئے
مصر کی وزارت خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ اس ملک کے سابق صدر محمد مرسی کے تین جون کو ہونے والی معزولی کے بعد سے لیکر اب تک اس ملک میں57 عام شہریوں سمیت 496 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔فرانس پریس کی رپورٹ کے مطابق مصر کی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں اعلان کیا ہےکہ اس ملک کے معزول صدر "محمد مرسی" کی برطرفی کے بعد سے مصر میں 252 پولیس اہل کار اور 187 دوسرے سیکیورٹی اہل کار ہلاک ہوئے ہیں۔مصر کی وزارت خارجہ کے بیان میں آیا ہے کہ اس ملک کی سیکیورٹی فورسیز پر سب سے زیادہ حملے اس ملک کے علاقے صحرائے سینا میں ہوئے ہیں اور مسلح گروہوں نے اس علاقے میں سیکیورٹی فورسیز کے خلاف بھاری ہتھیار استعمال کیئے ہیں جبکہ اس علاقے میں دہماکہ خیز مواد کا استعمال بھی دوسرے علاقے سے زیادہ ہوا ہے۔
عراق: مذہبی اختلافات کو ہوا دینا حرام ہے
عراق میں اہل سنّت مفتی نے نظریاتی و مذھبی اختلافات سے اجتناب پر تاکید کرتے ہوئے کہا ہے کہ مذھبی اختلافات کو ہوا دینا حرام ہے۔ رپورٹ کے مطابق شیخ "مہدی احمد الصمیدعی" نے کہا کہ شیعہ و سنّی کو چاہیے کہ وہ ہر قسم کے اختلافی مسائل سے پرہیز کریں اور علماء کرام کو اس حوالے سے پیشقدم ہونا چاہیے اور اپنی ذمہ داریوں پر عمل کرنا چاہیے۔ عراق کے مفتی اہل سنّت نے تاکید کی کہ اہل سنّت کو حتمی طور پر یہ جان لینا چاہیے کہ ان کا اصلی دشمن صہیونی ہیں نہ شیعہ۔ عراق کے اس مذھبی رہنما نے اس امر پر تاکید کے ساتھ کہ مسلمانوں کو اپنے مشترکات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور جزوی مسائل اور اہمیت نہیں دینی چاہیے اور مذھب کے نام پر ایک دوسرے پر حملے اور قتل عام کسی صورت قابل قبول نہیں ہوسکتا اور مسلمان کا خون محترم ہے۔
قرب الٰھی کی اهمیت
اھم گفتگو یہ ھے کہ اس کمال نھائی کا مقام و مصداق کیا ھے؟ قرآن کریم اس کمال نھائی کے مصداق کو قرب الھی بیان کرتا ھے جس کے حصول کے لئے جسمانی اور بعض روحی کمالات صرف ایک مقدمہ ھیں اور انسان کی انسانیت اسی کے حصول پرمبنی ھے اور سب سے اعلی،خالص، وسیع اور پایدار لذت،مقام قرب کے پانے سے حاصل ھوتی ھے،قرب خدا کا عروج وہ مقام ھے جس سے انسان کی خدا کی طرف رسائی ھوتی ھے اور رحمت الھیسے فیضیاب ھوتاھے، اس کی آنکھ اور زبان خدا کے حکم سے خدائی افعال انجام دیتی ھیں۔ منجملہ آیات میں سے جو مذکورہ حقیقت پر دلالت کرتی ھیں درجہ ذیل ھیں:
۱۔إِنَّ المُتَّقِینَ فِی جَنّاتٍ وَ نَھَرٍ فِی مَقعَدِ صِدقٍ عِندَ مَلِیکٍ مُقتَدرٍ
بے شک پرھیزگار لوگ باغوں اور نھروں میں پسندیدہ مقام میں ھر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاھوں میں ھوں گے۔
۲،<فَاَمَّا الَّذِینَ آمَنُوا بِاللّٰہِ وَ اعتَصَمُوا بِہِ فَسَیُدخِلُھُم فِی رَحمَةٍ مِّنہُ وَ فَضلٍ وَ یَھدِیھِم إِلَیہِ صِرَاطاً مُّستَقِیماً>
پس جو لوگ خدا پر ایمان لائے اور اسی سے متمسک رھے تو خدا بھی انھیں عنقریب ھی اپنی رحمت و فضل کے بیخزاں باغ میں پھونچا دیگا اور انھیں اپنی حضوری کا سیدھا راستہ دکھا دے گا۔
اس حقیقت کو بیان کرنے والی روایات میں سے منجملہ حدیث قدسی ھے:
”ما تقرب إلیّ عبد بشیٍ احبّ إلیّ ممّا إفترضت علیہ و انّہ لیتقرب إلی بالنافلةحتیٰ احبہ فإذا احببتہ کنت سمعہ الذی یسمع بہ وبصرہ
الذی یبصر بہ و لسانہ الذی ینطق بہ و یدہ التی یبطش بھا“
کوئی بندہ واجبات سے زیادہ محبوب شی کے ذریعے مجھ سے نزدیک نھیں ھوتا ھے،
بندہ ھمیشہ(درجہ بہ درجہ) مستحب کاموں سے(واجبات کے علاوہ) مجھ سے نزدیک ھوتا ھےحتی کہ میں اس کو دوست رکھتا ھوں اور جب وہ مرا محبوب ھوجاتا ھے تواسکا کان ھوجاتا ھوں جس سے وہ سنتا ھے اور اس کی آنکھ ھوجاتا ھوں جس سے وہ دیکھتا ھے اور اس کی زبان ھوجاتا ھوں جس سے وہ گفتگو کرتا ھے اور اسکا ھاتھ ھوجاتا ھوں جس سے وہ اپنے امور کا دفاع کرتا ھے۔
قربت کی حقیقت
اگر چہ مقام تقرب کی صحیح اور حقیقی تصویر اور اس کی حقیقت کا دریافت کرنا اس مرحلہ تک پھونچنے کے بغیر میسر نھیں ھے لیکن غلط مفاھیم کی نفی سے اس کو چاھے ناقص ھی سھی حاصل کیا جاسکتا ھے،
کسی موجود سے نزدیک ھونا کبھی مکان کے اعتبار سے اور کبھی زمان کے لحاظ سے ھوتاھے، یہ بات واضح ھے کہ قرب الٰھی اس مقولہ سے نھیں ھے اس لئے کہ زمان ومکان مادی مخلوقات سے مخصوص ھیں اور خداوندعالم زمان و مکان سے بالاتر ھے،اسی طرح صرف اعتباری اور فرضی تقرب بھی مد نظر نھیں ھوسکتا اس لئے کہ اس طرح کا قرب بھی اسی جھاں سے مخصوص ھے اور اس کی حقیقت صرف اعتبار کے علاوہ کچھ بھی نھیں ھے اگر چہ اس پر ظاھر ی آثار مترتب ھوتے ھیں، کبھی قرب سے مراد دنیاوی موجودات کی وابستگی ھے منجملہ انسان خداوندعالم سے وابستہ ھے اور اسکی بارگاہ میں تمام موجودات ھمیشہ حاضر ھیں جیسا کہ روایات و آیات میں مذکور ھے:
<وَ نَحنُ اَقرَبُ إِلَیہِ مِن حَبلِ الوَرِیدِ>
اور ھم تو اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ھیں۔
قرب کا یہ معنی بھی انسان کے لئے کمال نھائی کے عنوان سے ملحوظ نظر نھیں ھے اس لئے کہ یہ قرب تو تمام انسانون کے لئے ھے،
دوست،نزدیک تراز من بہ من است وین عجیب ترکہ من از وی دورم
”دوست مرے نفس سے زیادہ مجھ سے نزدیک ھے لیکن اس سے زیادہ تعجب کی یہ بات ھے کہ میں اس سے دورھوں“
بلکہ مراد یہ ھے کہ انسان اس شائستہ عمل کے ذریعہ جو اس کے تقویٰ اور ایمان کا نتیجہ ھے اپنے وجود کوایک بلند ی پر پاتاھے اور اسکا حقیقی وجود استحکام کے بعد اور بھی بلند ھوجاتاھے، اس طرح کہ اپنے آپ کو علم حضوری کے ذریعہ درک کرتا ھے اور اپنے نفسانی مشاھدے اور روحانی جلوے نیز خدا کے ساتھ حقیقی روابط اور خالص وابستگی کی بنا پر الہٰی جلوے کا اپنے علم حضوری کے ذریعہ ادراک کرتا ھے:
< وُجُوہٌ یَومَئِذٍ نَاضِرَةٌ . إلَیٰ رَبِّھَا نَاظِرَةٌ >۔
اس روز بہت سے چھرے حشاش و بشاش اپنے پروردگار کو دیکھ رھے ھوں گے۔
قرب الٰھی کے حصول کا راستہ
گذشتہ مباحث میں بیان کیا جا چکا ھے کہ انسانی تکامل،کرامت اکتسابی اور کمال نھائی کا حصول اختیاری اعمال کے زیر اثر ھے،لیکن یہ بات واضح رھے کہ ھر اختیاری عمل،ھرانداز اورھرطرح کے اصول کی بنیادپر تقرب کا باعث نھیں ھے بلکہ جیسا کہ اشارہ ھواھے کہ اس سلسلہ میں وہ اعمال، کار ساز ھیں جو خدا،معاد اور نبوت پر ایمان رکھنے سے مربوط ھوں اور تقوی کے ساتھ انجام دیئے گئے ھوں۔ عمل کی حیثیت ایمان کی حمایت کے بغیر ایک بے روح جسم کی سی ھے اور جو اعمال تقویٰ کے ساتھ نہ ھوں بارگاہ رب العزت میں قابل قبول نھیں ھیں:<إِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ المُتَّقِینَ> (خدا تو بس پرھیزگاروں سے قبول کرتا ھے)لہٰذا کھا جا سکتا ھے کہ خداوندعالم سے تقرب کے عام اسباب وعلل،ایمان اور عمل صالح ھیں،اس لئے کہ جو عمل تقوی کے ھمراہ نہ ھو خداوندعالم کے سامنے پیش ھونے کی صلاحیت نھیں رکھتا اور اسے عمل صالح بھی نھیں کھا جاسکتاھے۔
گذشتہ مطالب کی روشنی میں واضح ھوجاتا ھے کہ جوچیز حقیقت عمل کو ترتیب دیتی ھے وہ در اصل عبادی عمل ھے یعنی فقط خدا کے لئے انجام دینااور ھر عمل کا خدا کے لئے انجام دینا یہ اس کی نیت سے وابستہ ھے ”إنّما الاعمال بالنیات“ آگاہ ھو جاو کہ اعمال کی قیمت اس کی نیت سے وابستہ ھے اور نیت وہ تنھا عمل ھے جو ذاتاً عبادت ھے لیکن تمام اعمال کا خالصةً لوجہ اللہ ھونا، نیت کے خالصةً لوجہ اللہ ھونے کے اوپر ھے، یھی وجہ ھے تنھا وہ عمل جو ذاتاً عبادت ھوسکتا ھے وہ نیت ھے اور تمام اعمال، نیت کے دامن میں عبادت بنتے ھیں اسی بنا پرنیت کے پاک ھوئے بغیر کوئی عمل تقرب کا وسیلہ نھیں ھوسکتا ھے، یھی وجہ ھے کہ تمام با اختیار مخلوقات کی خلقت کا ھدف عبادت بنایا گیا ھے: <وَ مَا خَلَقتُ الجِنَّ وَ الإنسَ إِلا لِیَعبُدُونَ> (اور میں نے جنوں اور آدمیوں کو اسی غرض سے پیدا کیا ھے کہ وہمیری عبادت کریں۔
یہ نکتہ بھی قابل توجہ ھے کہ قرآن کی زبان میں مقام قرب الٰھی کو حاصل کرنا ھر کس و ناکس، ھر قوم و ملت کے لئے ممکن نھیں ھے اور صرف اختیاری ھی عمل سے(اعضاو جوارح کے علاوہ)اس تک رسائی ممکن ھے۔
مذکورہ تقریب کے عام عوامل کے مقابلہ میں خداوندعالم سے دوری اور بد بختی سے مراد ؛ خواھش دنیا، شیطان کی پیروی اور خواھش نفس(ھوائے نفس) کے سامنے سر تسلیم خم کردینا ھے،حضرت موسی(ع)کے دوران بعثت،یھودی عالم” بلعم باعور“ کے بارے میں جو فرعون کا ماننے والا تھا قرآن مجید فرماتا ھے:
<وَاتلُ عَلَیھِم نَبَاَ الَّذِی آتَینَاہُ آیَاتِنَا فَانسَلَخَ مِنھَا فاَتبَعَہُ الشَّیطَانُ فَکَانَ
مِنَ الغَاوِینَ وَ لَوشِئنَا لَرَفَعنَاہُ بِھَا وَ لٰکِنَّہُ اَخلَدَ إِلَیٰ الارضِ وَاتَّبَعَ ھَوَاہُ>
اور تم ان لوگوں کو اس شخص کا حال پڑھ کر سنادو جسے ھم نے اپنی آیتیں عطا کی تھیں پھر وہ ان سے نکل بھاگا تو شیطان نے اس کا پیچھا پکڑااور آخر کار وہ گمراہ ھوگیا اور اگر ھم چاہتے تو ھم اسے انھی آیتوں کی بدولت بلند مرتبہ کردیتے مگر وہ تو خود ھی پستی کی طرف جھک پڑا اور اپنی نفسانی خواھش کا تابعدار بن بیٹھا۔
تقرب خدا کے درجات
قرب الھی جو انسان کا کمال نھائی اور مقصود ھے خود اپنے اندر درجات رکھتا ھےحتی انسان کا سب سے چھوٹا اختیاری عمل اگر ضروری شرائط رکھتا ھوتو انسان کو ایک حد تک خداسے قریب کردیتا ھے اس لئے انسان اپنے اعمال کی کیفیت ومقدار کے اعتبار سے خداوند قدوس کی بارگاہ میں درجہ یا درجات رکھتا ھے، اور ھر فرد یا گروہ کسی درجہ یا مرتبہ میں ھوتا ھے:<ھُم دَرَجَاتٌ عِندَ اللّٰہِ> (وہ لوگ(صالح افراد)خدا کی بارگاہ میں(صاحب)درجات ھیں۔)اسی طرح پستی اور انحطاط نیز خداوندعالم سے دوری بھی درجات کا باعث ھے اورایک چھوٹا عمل بھی اپنی مقدار کے مطابق انسان کو پستی میں گراسکتا ھے، اسی بنا پر انسان کی زندگی میں ٹھھراو اور توقف کا کوئی مفھوم نھیں ھے،ھر عمل انسان کویا خدا سے قریب کرتا ھے یا دور کرتاھے، ٹھھراو اس وقت متصور ھے جب انسان مکلف نہ ھو، اور خدا کے ارادہ کے مطابق عمل انجام دینے کے لئے جب تک انسان اختیاری تلاش و جستجو میں ھے مکلف ھے چاھے اپنی تکلیف کے مطابق عمل کرے یا نہ کرے، تکامل یا تنزل سے ھمکنار ھوگا۔
<وَ لِکُلِّ دَرَجَ-اتٌ مِمَّا عَمِلُ-وا وَ مَا رَبُّ-کَ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعمَل-ُونَ>
اور جس نے جیسا کیا ھے اسی کے موافق(نیکوکاروں اور صالحین کے گروہ میں سے) ھر ایک کے درجات ھیں اور جو کچھ وہ لوگ کرتے ھیں تمھارا پروردگار اس سے بے خبر نھیں ھے۔
انسان کے اختیاری تکامل وتنزل کاایک وسیع میدان ھے؛ایک طرف تو فرشتوں سے بالا تر وہ مقام جسے قرب الہٰی اورجوار رحمت حق سے تعبیر کیا جاتا ھے اور دوسری طرف وہ مقام جو حیوانات و جمادات سے پست ھے اور ان دونوں کے درمیان دوزخ کے بہت سے طبقات اور بھشت کے بہت سے درجات ھیں کہ جن میں انسان اپنی بلندی و پستی کے مطابق ان درجات وطبقات میں جائے گا۔
ایمان ومقام قرب کا رابطہ
ایمان وہ تنھا شی ھے جو خدا کی طرف صعود کرتی ھے اور اچھا ونیک عمل ایمان کو بلندی عطا کرتا ھے:
<إِلَیہِ یَصعَدُ الکَلِمُ الطَّیِّبُ وَ العَمَلُ الصَّالِحُ یَرفَعُہُ>
اس کی بارگاہ تک اچھی باتیں پھونچتی ھیں اور اچھے کام کو وہ خوب بلند فرماتا ھے۔
انسان مومن بھی اپنے ایمان ھی کے مطابق خداوندعالم سے قریب ھے،اس لئے جس قدر انسان کا ایمان کامل ھوگااتناھی اس کا تقرب زیادہ ھوگا، اور کامل ایمان والے کی حقیقی توحیدیہ ھے کہ قرب الہٰی کے سب سے آخری مرتبہ پر فائز ھواور اس سے نیچا مرتبہ شرک و نفاق سے ملاھوا ھے جو تقرب کے مراتب میں شرک اورنفاق خفی سے تعبیر کیا جاتا ھے اور اس کے نیچے کا درجہ جو مقام قرب کے ماسواء ھے شرک اور نفاق جلی کا ھے اور کھا جا چکا ھے کہ یہ شرک ونفاق صاحب عمل وفعل کی نیت سے مربوط ھیں پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے ھیں:
”نیّة الشرک فی امتی اخفی من دبیب النملة السوداءِ علیٰ صخرة الصّافی اللیلة الظلماء“
میری امت کے درمیان نیت ِشرک، تاریک شب میں سیاہ سنگ پر سیاہ چیونٹیوں کی حرکت سے زیادہ مخفی ھے۔
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا انسانیت کی معراج
رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے خواتین کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے دختر رسول حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو انسانیت کی معراج قرار دیا اور فرمایا: میں اسلام کے نام سے اپنی بات کا آغاز کرتا ہوں اور اسلام کے پیغام کو عظیم پیغام مانتا ہوں۔ آپ جیسی خواتین پر مجھے فخر ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ جب بھی کوئي دعوی عمل کے مرحلے کے نزدیک پہنچ جاتا ہے تب اسے اس کی حقیقی اہمیت حاصل ہوتی ہے ہم ایک طرف تو خواتین کے مسئلے میں اور دوسری طرف علم و سائنس کے مسئلے میں جب کہ دوسرے پہلو سے انسانیت کی خدمت کے مسئلے میں خاص نقطہ نظر کے حامل ہیں۔
ہمارا نقطہ نظر اسلام کے تناظر میں ہے۔ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ ایک اچھے انسانی معاشرے میں عورتیں اس بات کی صلاحیت رکھتی ہیں اور انہیں اس کا موقع بھی ملنا چاہئے کہ، اپنے طور پر علمی، سماجی، تعمیری اور انتظامی شعبوں میں اپنی کوشش اور بھرپور تعاون کریں۔ اس زاویہ سے مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہئے۔ ہر انسان کی تخلیق کا مقصد پوری انسانیت کی تخلیق کا مقصد ہے، یعنی انسانی کمال تک رسائي ایسی خصوصیات اور صفات سے خود کو آراستہ کرنا جن سے ایک انسان آراستہ ہو سکتا ہے۔ اس سلسلے میں مرد اور عورت کے درمیان کوئي فرق نہیں ہے۔ اس کی سب سے واضح علامت پہلے مرحلے میں تو حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کی ذات با صفات ہے اور اس کے بعد انسانی تاریخ کی دیگر عظیم خواتین کا نام لیا جا سکتا ہے۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا آسمان انسانیت آفتاب کی مانند ضو فشاں ہیں کوئی بھی ان سے بلند و برتر نہیں ہے، ہم دیکھ سکتے ہیں کہ آپ نے ایک مسلمان خاتون کی حیثیت سے اپنے اندر یہ صلاحیت پیدا کی کہ خود کو انسانیت کی اوج پر پہنچا دیا۔ لہذا مرد اور عورت کے درمیان کوئي فرق نہیں ہے۔ شائد یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں جب اچھے اور برے انسانوں کی مثال دی ہے تو عورت اور مرد دونوں سے متعلق مثال پیش کی ہے۔اگر ایک جگہ فرعون کی بیوی کا تذکرہ فرمایا ہے تو دوسرے مقام پر حضرت لوط اور حضرت نوح کی بیویوں کا ذکر فرمایا ہے '' و ضرب اللہ مثلا للذین آمنوا امرءۃ فرعون " اس کے مقابلے میں برے انسانوں کے لئے حضرت نوح اور حضرت لوط کی بیویوں کی مثال دی ہے۔
اسلام چاہتا ہے کہ تاریخ میں عورت کے سلسلے میں جو غلط تصور قائم رہا اس کی اصلاح کرے۔ مجھے حیرت ہے کہ معدودے چند مثالوں کے علاوہ ایسا کیوں ہے ؟ کیوں انسان نے مرد اور عورت کے مسئلے میں ہمیشہ غلط طرز فکر اختیار کیا اور اس پر وہ مصر رہا۔ آپ انبیا کی تعلیمات سے ہٹ کر دیکھیں تو عورتوں کے سلسلے میں جو بھی نظریات قائم کئے گئے ہیں ان میں مرد اور عورت کا مقام حقیقت سے دور ہے اور مرد و عورت کے درمیان جو نسبت بیان کی گئي ہے وہ بھی غلط ہے۔ حتی بہت قدیمی تہذیبوں میں بھی جیسے کہ روم یا ایران کی تہذیبیں ہیں، عورت کے سلسلے میں جو تصور اور نظریہ ہے درست نہیں ہے۔ میں تفصیلات میں نہیں جانا چاہتا، آپ خود ہی اس سے واقف ہیں اور خود جائزہ لے سکتے ہیں۔ آج بھی دنیا کی وہی حالت ہے۔ آج بھی عورتوں کی حمایت کے بڑے بڑے دعوے اور اس کی ذات کے انسانی پہلو پر تاکید کے نعروں کے باوجود عورتوں کے سلسلے میں جو نظریہ ہے وہ غلط ہے۔ چونکہ یورپی ممالک، مسلم ممالک کی مقابلے میں ذرا تاخیر سے اس بحث میں شامل ہوئے ہیں اس لئے خواتین کے مسئلے میں ذرا دیر سے جاگے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ گذشتہ صدی کے دوسرے عشرے تک یورپ میں کہیں بھی کسی بھی خاتون کو اظہار رائے کا حق نہیں ہوتا تھا جہاں جمہوریت تھی حتی وہاں بھی عورت کو اپنا مال خرچ کرنے کا اختیار نہیں ہوتا تھا۔ بیسوی صدی کے دوسرے عشرے سے یعنی سن انیس سو سولہ یا اٹھارہ سے رفتہ رفتہ یورپی ممالک میں فیصلہ کیا گيا کہ عورتوں کو بھی اپنے سرمائے کے سلسلے میں اپنی مرضی کے مطابق عمل کرنے کا اختیار دیا جائے اور وہ سماجی امور میں مردوں کے مساوی حقوق حاصل کرے۔ اس بنا پر یورپ بہت تاخیر کے ساتھ خواب غفلت سے جاگا اور بڑی دیر میں وہ اس مسئلے کو سمجھا۔ اور اب ایسا لگتا ہے کہ وہ کھوکھلے دعوؤں کا سہارا لیکر اپنے اس پسماندگی کی تلافی کرنا چاہتا ہے ۔ یورپ کی تاریخ میں کچھ ملکہ اور شہزادیاں گذری ہیں لیکن کسی ایک خاتون، ایک گھرانے، خاندان یا قبیلے کی عورتوں کا مسئلہ عورتوں کے عام مسئلے سے الگ ہے۔ تفریق ہمیشہ رہی ہے۔ کچھ عورتیں ایسی بھی تھیں جو اعلی مقام تک پہنچیں کسی ملک کی حاکم بن گئیں اور انہیں حکومت وراثت میں مل گئی، لیکن معاشرے کی سطح پر عورتوں کو یہ مقام نہیں ملا اور ادیان الہی کی تعلیمات کے برخلاف کہ جن میں اسلام کی تعلیمات سب سے زیادہ معتبر ہیں عورت ہمیشہ اپنے حق سے محروم رکھی گئی۔ آپ آج بھی دیکھ رہے ہیں کہ مغرب کی مہذب دنیا، عورتوں کے سلسلے میں اپنی شرمناک پسماندگي کی تلافی کرنے کے در پے ہے اور اس کے لئے ایک نیا طریقہ اختیار کر رہی ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ لوگ عورتوں کے انسانی پہلو کو سیاسی، اقتصادی اور تشہیراتی مسائل کی نذر کردیتے ہیں۔ یورپ میں روز اول سے ہی یہ صورت حال رہی۔ اسی وقت سے جب خواتین کو ان کے حقوق دینے کے مسئلہ اٹھا، انہیں غلط معیاروں کا انتخاب کیا گیا۔ جب ہم دنیا کے فکری اور نظریاتی نظام پر نظر ڈالتے ہیں اور پھر اسلام کی تعلیمات کا مشاہدہ کرتے ہیں تو بڑی آسانی سے یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ انسانی معاشرہ اسی صورت میں خواتین کے مسئلے میں اور مرد اور عورت کے رابطے کے تعلق سے مطلوبہ منزل تک پہنچ سکتا ہے، جب اسلامی تعلیمات کو من و عن قبول کرے اور بغیر کسی کمی بیشی کے ان تعلیمات پر عمل پیرا ہو۔ دنیا میں عورت کے تعلق سے ہمارا یہ خیال ہے۔ آج کی دنیا پرست تہذیبوں میں عورتوں کے سلسلے میں جو رویہ اختیار کیا جا رہا ہے ہم اس سے ہم متفق نہیں ہیں اسے ہم عورتوں کے لئے سودمند اور معاشرے کے لئے مناسب نہیں سمجھتے۔ اسلام چاہتا ہے کہ، خواتین، فکری، علمی، سیاسی اور سب سے بڑھ کر روحانی اور اخلاقی کمال کو پہنچیں۔ ان کا وجود معاشرے اور انسانی برادری کے لئے بھرپور انداز میں ثمر بخش ہو۔حجاب سمیت اسلامی تعلیمات کی بنیاد یہی ہے۔ حجاب، خواتین کو الگ تھلگ کر دینے کے لئے نہیں ہے۔ اگر کوئی حجاب کے سلسلے میں ایسا نظریہ رکھتا ہے تو یہ بالکل غلط اور گمراہ کن نظریہ ہے۔ حجاب در حقیقت معاشرے میں عورتوں اور مردوں کی جنسی بے راہ روی کو روکنےکے لئے ہے کیونکہ یہ صورت حال دونوں بالخصوص عورتوں کے لئے بہت خطرناک ہے۔ حجاب کسی بھی طرح سیاسی، سماجی اور علمی سرگرمیوں میں رکاوٹ نہیں ڈالتا اس کی زندہ مثال خود آپ لوگ ہیں۔ شائد کچھ لوگ حیرت میں رہے ہوں یا آج بھی حیرت زدہ ہوں کہ کسی بلند علمی مقام پر فائز کوئي خاتون اسلامی تعلیمات بالخصوص حجاب کی پابند ہو۔ یہ بات کچھ لوگوں کے لئے نا قابل یقین تھی اور وہ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ شاہ کی طاغوتی حکومت کے زمانے میں پردے کا مذاق اڑانے والوں کے ناروا سلوک کا تذکرہ تو چھوڑیں ۔اس زمانے میں یونیورسٹی میں بہت کم خواتین اور لڑکیاں با حجاب تھیں کہ جنہیں تمسخر اور استہزا کا شانہ بنایا جاتا تھا ۔ ہمارے اسلامی انقلاب کی جد وجہد میں عورتوں نے مرکزی کردار ادا کیا اور ان غلط نظریات پر خط بطلان کھیچ دیا۔ ہم نے مشاہدہ کیا کہ کس طرح خواتین نے انقلاب کے لئے بنیادی کردار ادا کیا اس میں میں کوئي مبالغہ آرائي نہیں کر رہا ہوں ۔ ہم نے انقلاب کے دوران دیکھا کہ ہمارے ملک میں خواتین نے ہراول دستے کی ذمہ داری سنبھالی۔ اگر خواتین نے اس انقلاب کو قبول نہ کیا ہوتا اور اس سے انہیں عقیدت نہ ہوتی تو یہ انقلاب کامیابی سے ہمکنار نہ ہو پاتا۔ مجھے یقین ہے کہ اگر خواتین نہ ہوتیں تو انقلابیوں کی تعداد خود بخود نصف ہو جاتی دوسری بات یہ ہے کہ ان کی عدم موجودگی کہ ان کے فرزندوں بھائیوں اور شوہروں پر بھی اثر پڑتا گھر کے ماحول پر اثر پڑتا کیوں کہ خواتین گھر میں اپنا خاص انداز رکھتی ہیں۔ خواتین کا بھرپور تعاون تھا جس کے نتیجے میں دشمن کی کمر ٹوٹ گئي اور ہماری تحریک آگے بڑھی۔ سیاسی شعبے میں بھی ہم نے خواتین کو دیکھا ہے اور دیکھ رہے ہیں، وہ مسایل کے حل میں خاص صلاحتیوں سے آراستہ ہیں اور اسلامی نظام میں اہم ذمہ داریاں ادا کرنے پر قادر۔ یہ سلسلہ جاری ہے اور جاری رہنا چاہئے۔ علمی میدان میں بھی، خواتین کی پیش رفت کا مصداق آپ خود ہیں اسی طرح آپ کی بہنیں ہیں جو دیگر شعبوں میں مشغول ہیں۔ ہمارے معاشرے میں علم کے مختلف موضوعات کی تعلیم جو معاشرے کی تعمیر کے لئے لازمی ہے ہر فرد کے لئے ضروری ہے۔ آج تحصیل علم سماجی ذمہ داری ہونے کے ساتھ ہی شرعی فریضہ بھی ہے۔ تحصیل علم صرف ذاتی خصوصیت نہیں ہے کہ جس کے سہارے کوئی شخص کسی خاص مقام پر پہنچ جائےاور اسے اچھی آمدنی ہونے لگے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جو افراد تحصیل علم پر قادر ہیں ان کے لئے تحصیل علم واجب ہے اسپشلائزیشن واجب ہے۔ بقیہ موضوعات کی مانند میڈیکل سائنس کی تعلیم مردوں کی لئے واجب ہے تو عورتوں کے لئے اس سے بڑھ کر واجب ہے۔ کیوں کہ معاشرے میں خواتین کے مقابلے میں کام کے مواقع محدود ہیں۔ ہمارے پاس خاتون ڈاکٹروں کی کمی ہے اس بنا پر اسلام کے نقطہ نظر سے یہ مسئلہ حل شدہ ہے اور ہمارے معاشرے کے لئے ترقی ضروری ہے۔
آپ اپنا عملی پیغام دنیا کو دیں۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ خواتین کے پاس دنیا کے لئے پیغام ہے۔ اس پیغام کو منظم شکل دیں اور دنیا کے سامنے پیش کریں۔ پیغام صرف تحریری اور زبانی نہیں ہے، بلکہ عملی پیغام ہے۔ ایرانی خواتین بالخصوص وہ خواتین جنہوں نے اسلام کے تناظر میں اور اسلامی احکامات پر عمل آوری خاص کر حجاب کی پابندی کے ساتھ، مختلف علمی میدانوں میں پیش رفت کی ہے، دنیا کی طالبات کو عملی پیغام دیں کہ علم اور سائنس کا مطلب بے راہ روی نہیں ہے سائنس کا مطلب مرد اورعورت کے درمیان رابطے میں اخلاقی اصولوں کو نظر انداز کرنا نہیں ہے۔ بلکہ ان اصولوں پر عمل آوری کے ساتھ ساتھ تعلیم جاری رکھی جا سکتی ہے اور اعلی علمی مدارج پر پہنچا جا سکتا ہے۔ آپ کا وجود اسلامی کے عالمی پیغام کا مظہر اور مصداق ثابت ہو سکتا ہے۔ میں آپ کی اس بات سے متفق ہوں کہ دنیا ادیان کا پیغام سننے کے لئے بیتاب ہے۔ آسمانی ادیان میں جو دین و دنیا کو معاشرے کو سنوار دینے کی صلاحیت رکھنے کا دعوی کرتا ہے وہ اسلام ہے۔ عیسائیت اور دیگر ادیان اس وقت یہ دعوی نہیں کر رہے ہیں لیکن اسلام اس کا دعویدار ہے کہ اس کے پاس ایک آئیڈیل معاشرے کی تشکیل کی بنیادیں اور ضروری عناصر موجود ہیں وہ ان بنیادوں اور ستونوں کے سہارے ایک مثالی سماجی نظام اور معاشرہ تشکیل دے سکتا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ تمام شعبوں میں بالخصوص علم و دانش کے شعبے میں اور خواتین کے تعلق سے یہ ثابت کریں کہ اسلام میں اس کی صلاحیت ہے۔
جناب سمانہ
فرزند رسول حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی شریکہ حیات اور حضرت امام علی نقی علیہ السلام کی مادرگرامی جناب " سمانہ " عالمہ ، فاضلہ اور ایک متقی و عبادت گذار خاتون اور زہد و تقوی میں بے نظیر تھیں آپ کی کنیت ام الفضل مغربی ہے آپ ہمیشہ مستحبی روزہ رکھا کرتی تھیں یہی وجہ ہے کہ بزرگوں نے آپ کو صدیقین اور صالحین کی ماں قراردیا ہے جناب سمانہ پروردگار عالم کی مخلص کنیز تھیں فرزند رسول حضرت امام علی نقی علیہ السلام آپ کے بارے میں فرماتے ہیں : میری مادر گرامی ہمارے حق سے آگاہ اور بہشتی عورتوں میں سے ہیں اور شیطان رجیم کبھی بھی ان کے قریب نہیں پہنچ سکتا اور نہ ہی آپ کو بہکا سکتا ہے کیونکہ خداوندعالم آپ کا محافظ و نگہبان ہے اور آپ کبھی بھی صدیقین اور صالحین کی ماؤں کے صف سے خارج نہیں ہوسکتیں ۔
جناب سمانہ ایک کنیز تھیں جنہیں حضرت امام محمد تقی علیہ السلام نے خرید کر آزاد کیا تھا اور پھر کچھ دنوں بعد وہ آپ کی ہمسری میں آگئیں حضرت امام محمد تقی علیہ السلام نے ان کی تربیت و تہذیب و اخلاق کی ذمہ داری خود ہی سنبھال رکھی تھی اور آپ کو اس گھر میں رکھاتھا جس گھر میں حضرت علی علیہ السلام کی پاک و پاکیزہ اولادیں جو ایمان و عفت میں بے مثال تھیں موجود تھیں جناب سمانہ پر ان خواتین کے اخلاق و کردار کا کافی اثر پڑا اور وہ عابدہ و زاہدہ اور قاری قرآن بن گئیں۔
جناب سمانہ اور حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی مقدس شادی کے نتیجے میں ان کے یہاں آٹھ اولادیں ہوئیں جن کے نام یہ ہیں ابوالحسن حضرت علی نقی علیہ السلام ، ابو احمد موسی مبرقع علیہ السلام، ابو احمد حسین ، ابو موسی عمران ، فاطمہ ،خدیجہ ، ام کلثوم اور حکیمہ ۔
جناب سمانہ کا انتقال حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کے بیت اقدس میں ہوا اور آپ کی قبر مبارک سامرہ میں آپ کے فرزند امام علی نقی علیہ السلام کے روضہ مبارکہ میں ہے اور مرجع خلائق بنی ہوئی ہے ۔
مغربی ممالک میں اسلام کا فروغ
خداوند عالم نے انسان کی سرشت وطبیعت کو اس طرح سے خلق کیا ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے اطراف کے مسائل کے بار ےمیں حققیت کے حصول کا درپے رہتا ہے جب انسان پیدا ہوتا ہے اور جب تک موت کی ننید نہيں سوتا اس وقت تک حقیقت کی تلاش و جستجو میں رہتا ہے ۔ البتہ یہ کوشش ، اس کے ماحول ، سن اور جسمی توانائی و فکری حالات کے تناسب سے ہوتی ہے ۔ بالفاظ دیگر خداوند عالم نےانسانوں کو کمال و سعات اور حقائق و معارف کو درک کرنے کے لئے کافی استعداد اورصلاحیتیں عطا کی ہیں تاکہ انہیں بروئے کار لاتے ہوۓ انسان اپنی خلقت کے ہدف و مقصد کو پاسکے ۔ اس سلسلے میں ایسے بہت سے افراد ہیں جنہوں نے تحقیق و جستجو کے ذریعے اپنی توانائیوں سے استفادہ کیا ہے اور انہوں نے راہ سعادت و کمال کو حاصل بھی کیا ہے ۔ ان ہی ميں سے ایک امریکی مسلمان خاتون محترمہ " سوزان ابری" ہیں ۔ آج ہم اس نومسلم خاتون کے افکار سے آشنا ہوں گے ۔
محترمہ سوزان ابری نے کیتھولیک اور مذہبی خاندان میں آنکھیں کھولیں ۔ ان کے والد اہل مطالعہ تھے ۔ اسی بناء پر انہيں عیسائیت کے اصولوں اور نظریات سے مکمل آشنائی تھی اور ان کا عقیدہ تھا کہ دین مسیحیت میں بہت زیادہ تحریفات انجام پائی ہیں ۔ وہ اپنے والد کے بارے میں کہتی ہیں ، میرے والد نے علم کلام میں پی ایچ ڈي کیا تھا اور ان کا شمار کلیسا کے پادریوں میں ہوتا تھا ۔وہ معتقد تھے کہ جو انجیل لوگوں کے ہاتھ میں ہے ، اس انجیل سے مختلف ہے جو ویٹیکن میں موجود ہے ۔ انہوں نے ویٹیکن کی انجیل بھی پڑھی تھی اور کہتے تھے اس میں " احمد " کا، آخری پیمغبر کے عنوان سے ذکر کیا گيا ہے ۔ ان دنوں میں میں اپنے والد کی باتیں اچھی طرح سے نہیں سمجھتی تھی لیکن کلیسا میں ان کی باتیں اس بات کاباعث بنی تھیں کہ حکومت کے دباؤ میں رہتے تھے اور کئی بار اسی سبب سے وہ جیل بھی گئے " ۔
سوزان کے والد کی باتوں نے انہیں اس بات پر مجبور کیا کہ وہ اس آخری پیغمبر کےبارے میں تحقیق کریں کہ جس کا ذکر انجیل میں آیا ہے ۔ وہ جب آخری پیغمبر الہی کی شناخت ميں کوشاں ہوتی ہیں اور تحقیقات انجام دیتی ہيں تو آخرکار ، اسلام سے آشنا ہوجاتی ہیں اور اس بات کو سمجھ جاتی ہیں کہ جس دین کا پیغمبر ختمی مرتبت (ص) نے تعارف کرایا ہے وہ دین اسلام ہے ۔ وہ کہتی ہیں ميں نے اس سےقبل بعض مواقع پر اسلام کا نام سنا تھا ۔ اور اسے امریکہ میں تشدد پسند دین کا نام دیا جاتھا تھا ۔ لیکن ميں نے اسلام کے خلاف ہونے والے منفی پروپگنڈوں کے باوجود یہ فیصلہ کیاکہ اصلی اور حقیقی منبع و مآخذ کے پیش نظر اسلام کے بارے میں اپنے مطالعے اور تحققیات کو شروع کروں اور میں نے ایسا ہی کیا چنانچہ مجھے میرے بہت سے سوالوں کے جواب مل گئے ۔ اسلام اور اس کی تعلیمات ، حقیقت میں ہمارے لئے بہت جاذب اور پرکشش تھیں۔
ایران کے اسلامی انقلاب نے اسلامی اور دینی بنیادوں پر نہ صرف ان نظریات کو ، جو دین کو معاشرے کی نابودی اور تباہی کا عامل قرار دیتے ہیں ، باطل قرار دیا ، بلکہ یہ انقلاب لوگوں میں شناخت پیدا کرنے اور فکرکی گہرائی کاسبب بنا۔ آج ، ایران کے اسلامی انقلاب کی برکت سے پوری دنیا بخوبی حریت پسند اور علم و آگہی سے سرشار دین سے آشنا ہوئی ہے اور اس انقلاب نے صدیاں گذرجانے کے بعد بھی ، اسلام کے حقیقی تشخص اور رنگ کو ، جو انقلاب سے قبل کی حکومتوں میں ماند پڑگياتھا، پھر سے ابھار دیا ۔فرانس کے مشہور فلاسفر " میشل فوکو" اسلامی انقلاب کا تجزیہ و تحلیل کرتے ہوئے لکھتے ہیں ایران کے عوام نے اصلاح کے راستے کو اسلام میں پالیا ۔ اسلام ان کے لئے انفرادی اور اجتماعی مسائل و مشکلات کے لئے راہ حل تھا۔
محترمہ سوزان ابری " کا خیال ہے کہ ایران کے اسلامی انقلاب نے انہیں اسلام کی بہتر اور حقیقی شناخت میں مدد کی ۔ وہ کہتی ہیں "امام خمینی اور ایران کا اسلامی انقلاب مجھے اسلام سے آشنا ہونے کا اہم ترین عامل بنا" جب ميں نے ٹیلیویزن سے امام خمینی کاچہر دیکھا توان کے نورانی چہرے نے مجھے اپنی سمت جذب کرلیا اورمیں نے تو یہ تصور کرلیا گویا حضرت عیسی (ع) لوٹ آئے ہیں ۔ رفتہ رفتہ جب ميں امام خمینی اور ان کے افکار سے آشنا ہوئي تو یہ سمجھ گئی کہ اسلام، کس طرح سے ایک معاشرے کی ہدایت اور آزادی کا سبب قرار پا سکتا ہے ۔
آخرکار تحقیقات اورمطالعے کےبعد سوزان نے یہ فیصلہ کیا کہ اسلام کو اپنے دین کے طور پر انتخاب کریں اور انہوں نے اپنا نام " جمیلہ الفرقان " رکھ لیا ۔ لیکن ایک غیر اسلامی ملک میں اس آسمانی دین کو قبول کرنا ان کے لئے انتہائی سخت تھا اسی لئے وہ کہتی ہیں بہت سی چیزیں میرے لئے سخت تھیں ۔ میں عربی سے واقف نہیں تھی اور ابھی حال ہی میں اسے سیکھا ہے اس لئے تاکہ نماز پڑھ سکوں ۔ میں یہ محسوس کرتی تھی کہ جب تک کہ نماز میں استعمال ہونے والے الفاظ کے معانی کو بخوبی نہ سمجھ لوں ، اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے کہ صرف اٹھا بیٹھی کروں ۔ میں بہت افسردہ رہتی تھی کیوں کہ ميں چاہتی تھی کہ جلد از جلد نماز پڑھنا شروع کردوں ۔ ایک دن شہر کی ایک دکان میں گئی وہاں ایک کتاب دیکھی جو انگریزی زبان میں تھی جس کا عنوان تھا " نماز کیسے پڑھوں " ۔ ميں بہت خوش ہوئی جب میں نے چاہا کہ کتاب خریدوں تو جو بک سیلر تھا وہ بھی مسلمان تھا اس نے مجھے وہ کتاب ہدیہ کردی ۔ پھر میں نے اس کتاب سے نماز یاد کی اور سیکھ لی ۔ نماز پڑھنے سے خالق ہستی کی عبودیت اور عبادت کا حسین تصور میرے سامنے آجاتا تھا اور میں اپنے انتخاب سے مطمئن ہوجاتی تھی ۔اوائل میں تو میرا حجاب کامل نہیں تھا صرف ایک اسکارف باندھتی تھی اور پھر بعد میں یہ حجاب مکمل ہوگيا ۔ ان دنوں ، میں ایک ہسپتال میں مڈ وائف تھی ۔وہاں مختلف افکار ونظریات کے لوگ پائے جاتےتھے مثلا وہاں ایک یونیورسٹی پروفیسر تھے جو میرے حجاب کی تعریف کیا کرتے تھے لیکن جو ہیڈ آف ڈپارٹمنٹ تھی اسے میرے پردے پراعتراض تھا اس نے مجھ سے کہا تھا کہ ماہ رمضان کے بعد اس پردے کو تم اتار دینا کیوں کہ وہ یہ سمجھ رہی تھی کہ میں صرف اس مہینے میں ہی سر پر اسکارف باندھتی ہوں لیکن میں نے اس کے جواب میں کہا کہ یہ حجاب میرے دین کا ایک جز ہے اورمیں ہرگز ایسا نہیں کروں گي ۔ نتیجے میں بہت زیادہ مشکلات مجھے پیش آئیں لیکن حقیقت میں پردے کی میری نظر میں بہت اہمیت اور عظمت تھی اور میں اس کے لئے تمام مشکلات اور سختیاں برداشت کرنے کے لئے تیار تھی ۔
آخرکار محترمہ جمیلہ الفرقان نے ، جو مذہب تشیع کی گرویدہ ہوچکی ہیں ، خداوند عالم پر توکل اور اہل بیت پیغمبر سے توسل اور ان سے امداد طلب کرنے کے ذریعے اپنی مشکلات پر قابو پالیا۔ اور اس وقت وہ ایک دیندار مسلمان کی حیثیت سے اپنے انفرادی اور اجتماعی کاموں کو بنحو احسن انجام دے رہی ہیں ۔
محترمہ سوزان کہتی ہیں گذشتہ دہائیوں میں خواتین سے متعلق مختلف مسائل منجملہ مذہب کے بارے میں بہت زيادہ تبدیلیوں کا میں نے مشاہدہ کیا لیکن جو مسئلہ میری نظر میں مغربی محققین کی جانب سے تشنہ رہ گیا ہے اور اس کاجواب نہیں دیا گيا ہے ، اسلام کی جانب ، مغربی خواتین کے روز افزون رجحان کا مسئلہ تھا ۔
بہت سے مغربی باشندوں کا خیال ہے کہ اسلام ایک محدود دین ہے اور یہ دین خواتین کو، خواہ وہ ان کی انفرادی زندگي میں ہو یا اجتماعی زندگی میں ، مردوں میں محصور اور ان کا مطیع بناد یتا ہے ۔ اس کے باوجود تعجب آور بات یہ ہے کہ سرکاری اعداد وشمار سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ بہت سی مغربی، خاص طور پر امریکی خواتین نے اسلام کو قبول کرلیاہے ۔ درحقیقت امریکیوں کی ایک تعداد نے ،کہ جس ميں روز بروز اضافہ ہورہا ہے ، دین اسلام کو ، ایک باضابطہ دین اور اپنی زندگي گذارنے کی روش کے طور پر انتخاب کیا ہے اور ان کے درمیان خواتین کی تعداد زیادہ ہے ۔ امریکہ میں مسلمانوں کی بڑھتی تعداد سے متعلق اعداد وشمار مختلف ہيں لیکن " حقائق " کیلنڈر ( the Alamance book of facts ) میں شائع ہونے والے اعدادو شمار کے مطابق ، جو ایک معتبر کیلینڈر ہے ، صرف ریاستہائے متحدہ امریکہ ميں سالانہ ایک لاکھ افراد دین اسلام قبول کررہے ہيں ۔ اور امریکہ اور پوری دنیا میں، اس تعداد میں روز افزوں اضافے کے پیش نظر ، دین اسلام اور اس کی حیات آفریں تعلیمات کی حقانیت کو درک کرنے کی ضرورت ہے۔
مسجد عماد الدولہ – کرمانشاہ، ایران
“ مسجد عماد الدولہ“ نام کی مسجد ایران کے شہر کرمانشاہ میں واقع ہے۔ یہ مسجد دورہ قاچاریہ کے آثار قدیمہ میں سے ہے۔ اس مسجد کی پہلی عمارت 1285 ہجری قمری میں، امام قلی میزا عماد الدولہ ﴿ والی غرب و سرحد دار عراقین﴾ نے تعمیر کی ہے۔ اس وقت اس عمارت سے علوم دینی کے مدرسہ کے عنوان سے بھی استفادہ کیا جاتا ہے اور اس کے اخراجات پورے کرنے کے لئے قابل توجہ دوکانیں اور کاروان سرائے عماد الدولہ وقف کئے گئے ہیں۔
مسجد عماد الدولہ، چار ایوانوں کی صورت میں تعمیر کی گئی ہے اور یہ عمارت، صدر دروازہ، صحن، ایوان، ستون والے شبستان اور کئی کمروں پر مشتمل ہے۔
مسجد کے ایوان کی ٹائیلوں پر ایک کتبہ ہے، جس پر بادشاہ وقت، ناصرالدین شاہ، کا نام، مسجد کو تعمیر کرنے والے کا نام اور تاریخ 1285 ہجری قمری لکھی گئی ہے۔ مسجد کے صحن کے مشرقی ایوان کے اوپر لکڑی کا ایک کمرہ بنایا گیا ہے۔ اس مسجد میں داخل ھونے کا دروازہ اس کے مشرقی ایوان کی طرف ہے۔ یہ دروازہ لکڑی کا بنا ھوا ایک بڑا دروازہ ہے، جو کرمان شاہ کے زرگروں کے بازار کی طرف کھلتا ہے۔
اس مسجد کو تعمیر کرنے کے بعد، اس کے بانی نے، امام علی علیہ السلام کے حرم کے ایک دروازہ کو کرمانشاہ لاکر اس مسجد میں نصب کیا اور اس کے بدلے میں چاندی کا ایک دروازہ حرم امام علی ﴿ع﴾ کے لئے وقف کیا۔ آج یہ دروازہ زرگروں کے بازار کی طرف سے مسجد کا صدر دروازہ ہے، اور “ بقائے شاہ نجف” کے دروازہ کے نام سے مشہور ہے۔ لکڑی کا یہ دروازہ صفویوں کے دور سے تعلق رکھتا ہے۔ اس مسجد کا دوسرا دروازہ اس کے جنوب مغربی ضلع میں واقع ہے، جو ایک ڈالان کے ذریعہ زرگروں کے بازار اور بازار حوری آباد کے تقاطع سے متصل ھوتا ہے۔ یہ تقاطع“ میدان” کے نام سے مشہور بازار کے سب سے بڑے گنبد کے نیچے واقع ہے۔




















![جناب خدیجہ کبری[س] کی سیرت](/ur/media/k2/items/cache/ef2cbc28bb74bd18fb9aaefb55569150_XS.jpg)
