Super User

Super User

Wednesday, 09 April 2014 06:18

تحفظ پاکستان بل منظور

تحفظ پاکستان بل منظورپاکستان کی قومی اسمبلی نے تحفظ پاکستان ترمیمی بل 2014 ترامیم کے ساتھ منظور کرلیا ہے جس میں قومی سلامتی کو درپیش خطرات وضع کیے گئے ہیں جبکہ دہشتگردی کے خلاف تیز رفتار ٹرائل کیلئے بھی قانون سازی کی گئی ہے۔ اسلام آباد سے ہمارے زرائع کے مطابق قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت اجلاس میں تحفظ پاکستان ترمیمی بل 2014 پیش کیا گیا جس میں تحفظ پاکستان بل 2013 کی شقیں بھی شامل تھیں۔ تحفظ پاکستان بل کے مندرجات میں کہا گیا ہے کہ دہشتگردوں کے خلاف مقدمات کے ٹرائل کو تیز کیا جائیگا، دہشتگردی کے مقدمے کی تفتیش مشترکہ ٹیم کرے گی اور دہشت گردوں کے خلاف مقدمات کیلئے خصوصی عدالتیں بھی قائم ہوں گی جبکہ بل کے تحت سزا یافتہ شخص کو ملک کی کسی بھی جیل میں رکھا جاسکے گا۔ بل میں بتایا گیا ہے کہ کسی بھی مشتبہ دہشتگرد کو نوے روز کیلیے حراست میں رکھا جاسکتا ہے۔ بل کے مطابق مقدمے کی کارروائی آئین کے آرٹیکل 10 کے متصادم نہیں ہوگی جبکہ خصوصی عدالت کے فیصلے کیخلاف 15 دنوں میں سپریم کورٹ میں اپیل کی جاسکے گی۔

رہبر معظم نے صحت کی کلی پالیسیوں کا ابلاغ کردیا

۲۰۱۴/۰۴/۰۷ - رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای نے بنیادی آئين کی دفعہ 110 کی شق ایک کے نفاذ کے سلسلے میں مجمع تشخیص مصلحت نظام کے ساتھ صلاح و مشورے کے بعد صحت و سلامتی کی کلی پالیسیوں کا ابلاغ کردیا ہے۔

رہبر معظم نےصحت کی کلی پالیسیوں کے متن کو تینوں قوا کے سربراہان اور مجمع تشخيص مصلحت نظام کے سربراہ کو ابلاغ کردیا ہے۔ کلی پالیسیوں کا متن حسب ذیل ہے:

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

صحت کی کلی پالیسیاں

1۔ اسلامی اور انسانی اقدار کی بنیاد پر تعلیم ، تحقیق، صحت ، علاج، اور صحت کی بحالی کے سلسلے میں خدمات پیش کرنا اور اسے معاشرے میں فروغ دینا

1۔1۔ اساتید، طلباء اور مدیروں کے لئے تعلیم و تربیت ، تشخیص اور انتخاب کے نظام کے سلسلے میں ارتقاء اور اسلامی و طبی اخلاق و آداب کے اقدار کے متناسب یونیورسٹی اور علمی ماحول میں تغیر و تحول۔

1۔2۔ عوام کو اپنی سماجی ذمہ داریوں اور حقوق کے بارے میں آگاہ کرنا اور معاشرے میں اسلامی اخلاق و معنویت کے فروغ کے سلسلے میں حفظان صحت کے مراکز کی ظرفیت سے استفادہ کرنا۔

2۔ تمام قوانین میں صحتمند انسان اور صحت کے جامع نظام پر توجہ، اجرائی پالیسیوں اور قوانین و مقررات کی رعایت۔

2۔1۔ علاج و معالجہ سے پہلے بیماری کی روک تھام پر توجہ۔

2۔2۔ صحت اور علاج کے پروگراموں کو وقت کے مطابق قراردینا۔

2۔3۔ معتبر علمی شواہد کے پیش نظر صحت کو لاحق خطرات اور بیماریوں کو کم کرنے پر توجہ

2۔4۔ بڑے اور جامع منصوبوں کے لئے صحت کا پروگرام تیار کرنا۔

2۔5۔ جنوب مغربی ایشیائی علاقہ میں پہلا مقام حاصل کرنے کے لئے صحت کے معیاروں کے ارتقاء پر توجہ۔

2۔6۔ نگراں سسٹمز کی اصلاح و تکمیل، عوام اور بیماروں کے حقوق کی حفاظت کے لئےنگرانی ، تشخیص اور کلی پالیسیوں کا صحیح نفاذ۔

3۔ اسلامی و ایرانی زندگی کی ترویج کے ساتھ معاشرے کی نفسیاتی صحت و سلامتی کا ارتقاء، خاندانی بنیاد کا استحکام، انفرادی اور اجتماعی زندگی میں کشیدگی پیدا کرنے والے عوامل کا خاتمہ ، اخلاقی و معنوی تعلیم کی ترویج اور نفسیاتی صحت کے معیاروں کے ارتقا پر توجہ۔

4۔ دواؤں، ویکسین،، حیاتیاتی مصنوعات اور بین الاقوامی معیاروں کے مطابق طبی وسائل و آلات کی پیداوار کے لئے خام مال کی تیاری کے سلسلے میں بنیادی ڈھانچوں کے استحکام پر توجہ۔

5۔ ڈیمانڈ اور مطالبہ کی تنظیم،غیر ضروری مطالبات کی روک تھام، اور طبی ہدایات اور نظام کی بنیاد پر تجویز کی اجازت، ملک کے قومی دوائی اور کلی منصوبے ، پالیسی سازی اوربرآمدات کے فروغ اور قومی پیداوار کی حمایت کے مقصد کے تحت دواؤں کی پیداوار ، استعمال ، ویکسین ، حیاتیاتی مصنوعات اور طبی وسائل و آلات کی پیداوار اور درآمدات پر مؤثر نگرانی۔

6۔ غذا و خوراک کی سکیورٹی پر توجہ، صحتمند ، مطلوب اور کافی غذا سے تمام افراد کو منصفانہ طور پر بہرہ مند بنانے پر توجہ، صاف پانی و ہوا، اور بین الاقوامی و علاقائي اور قومی معیاروں کی رعایت کے ساتھ سب کے لئے طبی مصنوعات اور کھیل کے وسائل کی فراہمی پر توجہ۔

7۔ ذمہ داریوں کی تقسیم، جوابدہی اورضروریات کو پورا کرنے کے مقصد کے تحت صحت کے شعبہ میں مالی خدمات اور وسائل کی فراہمی پر توجہ، مندرجہ ذيل طریقہ سے عوام کو انصاف پر مبنی طبی سہولیات کی فراہمی پر تاکید:

7۔1۔ اجرائی پالیسیوں پر مشتمل نظام صحت، مؤثر اور اسٹراٹیجک منصوبہ بندی، وزارت صحت کی جانب سے نگرانی اور تشخيص پر توجہ۔

7۔2۔ وزارت صحت کے محور پر بیمہ سسٹم کے ذریعہ صحت کے وسائل کی مدیریت،اور اس سلسلے میں تمام مراکز اور اداروں کا تعاون۔

7۔3۔ حکومتی، عمومی اور نجی شعبوں میں خدمت کرنے والوں کے ذریعہ خدمات کی فراہمی

7۔4۔ مذکورہ امور کی ترتیب و تنظیم اور ہمآہنگی کو قانون کے مطابق ہبنانا۔

8۔ طبی خدمات کی کیفیت، بہبود اور حفاظت میں اضافہ،اور عدل و انصاف کی بنیاد پر صحت و علاج کے منصوبوں کی دیکھ بھال،اور مندرجہ ذیل طریقہ سےگریڈنگ سسٹم کے مطابق جوابدہی، شفاف سازی ، اطلاع رسانی،تاثیر،کارکردگي ، پیداوار پر تاکید:

8۔1۔ حفظان صحت، تعلیم اور خدمات کے سلسلے میں صحت کے جامع معیاروں اور ہدایات کے ساتھ سائنسی اور علمی نتائج کی بنیاد پر اقدام اور فیصلہ کی ضرورت اور نظام صحت کے ارتقاء اور بیماریوں کی روک تھام اور خدمات کے سسٹم کی درجہ بندی اور پھر اس کے طبی تعلیمی نظام میں ادغام پر تاکید۔

8۔2۔ طبی ہدایات اور معیاروں کی ترجیحات اور قیام کے ساتھ حفظان صحت کی خدمات کی کیفیت میں اضافہ پر توجہ۔

8۔3۔ جانبازوں اور معذوروں کی بحالی صحت اور ان کی توانائی کے فروغ کے لئے جامع حمایتی اور مراقبتی پروگرام کی تدوین۔

9۔ صحت و علاج کے بیموں کے معیاروں اور مقدار کے فروغ پر تاکید:

9۔1۔ علاج کے بیمہ کو ہمہ گیر بنانے پر توجہ۔

9۔2۔ معاشرے کے ہر فرد کے لئے بیموں کے ذریعہ مکمل علاج ، اور علاج و معالجہ کے اخراجات میں اتنی کمی کہ بیمار کوصرف بیماری کا درد ہو کوئي اور درد و رنج محسوس نہ ہو ۔

9۔3۔ قانونی دستورات کے دائرے میں تکمیلی بیمہ کو بنیادی بیمہ سے مزید خدمات پیش کرنا جو ہمیشہ صاف و شفاف خدمات اور علاج کا آئینہ دار ہو۔

9۔4۔ وزارت صحت کی جانب سے بنیادی اور تکمیلی بیموں میں صحت اور علاج کے پیکیج کا تعین اور بیموں کی طرف سے اس پیکیج کی خریداری اور پیکیجوں کے نفاذ و اجراء پر دقیق نگرانی اور معائنہ میں غیر ضروری اخراجات کے حذف کا اقدام اور علاج تک بیماری کی تشخيص پر توجہ۔

9۔5۔ علاج کے انشورنس کی خدمات پیش کرنے کے سلسلے میں رقابتی بازار کی تقویت۔

9۔6۔ حکومتی اور غیر حکومتی شعبوں میں افزودہ قدر کی بنیاد پر اور موجود شواہد کی روشنی میں صحت کی دیکھ بھال اور طبی خدمات کے نرخوں کی تدوین۔

9۔7۔پسماندہ علاقوں میں بیماری کی روک تھام، صحت کے ارتقاء کے سلسلے میں فعالیتوں پر خاص توجہ اور خدمات پیش کرنے والے اداروں کی مثبت حوصلہ افزائی اور منصفانہ درآمد کی ایجاد ، کارکردگی اور عملی کیفیت پر مبنی ادائیگی کے سسٹم میں اصلاح پر توجہ۔

10۔ صحت کے شعبہ میں پائدار مالی وسائل کی فراہمی پر توجہ:

10۔1۔ درآمدات، اخراجات اور طبی فعالیتوں کو قانونمند طور پر شفاف بنانے پر تاکید۔

10۔2۔ حکومتی بجٹ اور ناخالص داخلی پیداوار سے طبی خدمات پیش کرنے میں متناسب کیفیت کا ارتقاء ،طویل مدت پالیسی کے اہداف کو محقق کرنے اور علاقائی ممالک کے اوسط درجہ سے بالاتر رہنے کے لئے صحت کے بجٹ میں اضافہ پر تاکید۔

10۔3۔ صحت کے لئے مضر محصولات، مصنوعات ، مواد اور خدمات پر ٹیکس میں اضافہپر تاکید۔

10۔4۔ کم درآمد ، ضرورتمند طبقات اور پسماندہ علاقوں میں صحت کے مسائل پر توجہ دینے اور انصاف کی فراہمی کے لئے صحت کے شعبہ میں دی جانے والی سبسیڈی کو بامقصد بنانے اور مزید سبسیڈی ادا کرنے پر تاکید۔

11۔ وزارت صحت کی نگرانی میں ملکی ذرائع ابلاغ، تعلیمی ، ثقافتی اداروں کی ظرفیتوں سے استفادہ کرتے ہوئےنظام صحت کے ارتقا اور حفاظت کے سلسلے میں معاشرے ، خاندان اور ہر فرد کی آگاہی ، ذمہ دار ی ، توانمندی اور شراکت پر تاکید۔

12۔ ایران کے سنتی طب کی پہچان، ترویج، تشریح اور فروغ کے سلسلے میں ٹھوس اقدام۔

12۔1۔ وزارت زراعت کے تحت جڑی بوٹیوں کی کاشت پر اہتمام اور وزارت صحت کے تحت سنتی مصنوعات اور محصولات کے نتائج ، پیداوار اور علمی فروغ کے اہتمام پر توجہ۔

12۔2۔ طب سنتی اور اس سے مربوط نتائج میں علاج اورتشخیص کے طریقوں کو معیاری اور وقت کے مطابق قراردینے پر توجہ۔

12۔3۔ طب سنتی کے سلسلے میں تمام ممالک کے تجربات پر تبادلہ خیال۔

12۔4۔طب سنتی کی دواؤں اور خدمات پر وزارت صحت کی نگرانی۔

12۔5۔ علاج کے طریقوں اور تجربات میں تعاون کے لئے جدید طب اور سنتی طب کے درمیان منطقی بات چیت اور تبادلہ نظر برقرار کرنے پر تاکید۔

12۔6۔ خوراک اور غذائی شعبہ میں زندگی کی روش میں اصلاح۔

13۔ ملک کے مختلف علاقوں کی ضروریات کے پیش نظراور اسلامی و اخلاقی توانائیوں اور مہارتوں کے پیش نظر کارآمد ، متعہد اور مفید افراد کی تربیت اور بامقصد طور پر طبی تعلیمی نظام کی کمیت و کیفیت کے فروغ پر تاکید۔

14۔ عالم اسلام اور جنوب مغربی ایشیائی ممالک میں ایران کوطبی مرکز میں تبدیل کرنے اور طبی خدمات پیش کرنے اور علوم و فنون میں مرجع بنانے کے حصول کے لئے منصوبہ بندی ، خلاقیت اور مؤثرطبی تحقیق پر تاکید۔

حزب اللہ طاقتورنامزد صدارتی امیدوار کی حمایت کریگیحزب اللہ لبنان کے سیکریٹری جنرل نے کہا ہے کہ حزب اللہ اس ملک کے صدارتی انتخابات میں طاقتور اور عزم و ارادے کے حامل نامزد امیدوار کی حمایت کرے گی۔ حزب اللہ لبنان کے سیکریٹری جنرل "سید حسن نصراللہ" کے لبنانی اخبار السفیر کو دیئے گيئے انٹرویو کا دوسرا حصہ کہ جو آج کے السفیر اخبار میں شائع ہوا ہے، حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل نے اس انٹرویو میں اس بات پر تاکید کے ساتھ کہ لبنان کا عام ماحول ، اس ملک کے صدارتی انتخابات کے انعقاد کا ماحول ہے کہا کہ حزب اللہ ایسے طاقتور نامزد امیدوار کہ جوقومی مفادات کو عملی جامہ پہنائے حمایت کرے گی۔ "سید حسن نصراللہ" نے مزید کہا کہ آج لبنان کے داخلی گروہ ، ہر زمانے سے زیادہ صدارتی انتخابات میں موثر ہیں اور اس وقت لبنان کے نئے صدر کے انتخاب کے لئے ماحول ساز گار ہے۔ حزب لبنان کے سیکریٹری جنرل نے اسی طرح لبنان کی حکومت کی جانب سے اس ملک کے شمال و مشرق میں کیئے جانے والے سیکیورٹی انتظامات کو سراہا۔ "سید حسن نصراللہ" نے وضاحت کی حزب اللہ کی جانب سے حالیہ قومی مذاکرات کے بائیکاٹ کی ایک وجہ ، لبنان کے صدر کا موقف تھا اور اس موقف سے قومی مذاکرات میں "میشل سلیمان" کی حیثیت پر سوالیہ نشان لگ گیا تھا۔ حزب اللہ لبنان کے سیکریٹری جنرل نے مزید کہا کہ لبنان میں سیاسی مفاہمت اور سیاسی گروہوں کے درمیان حقیقی آشتی کو اہمیت دیتی ہے ، سیاسی گروہوں اور جماعتوں کے درمیان باہمی گفتگو پر تاکید کرتی ہے۔

توہین کرنے کا یورپی پارلیمنٹ کو کوئی حق نہیں پہنچتااسلامی جمہوریہ ایران کے صدر نے کہا ہے کہ یورپی پارلیمنٹ کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ ایران کی غیور و عظیم قوم کی توھین کرے۔ صدارتی پریس نوٹ کے مطابق صدر مملکت ڈاکٹر "حسن روحانی" نے آج نوروز کی مناسبت سے ایران کے اعلی حکام ، ارکان پارلیمنٹ اور سیاسی شخصیات کے ساتھ ملاقات میں ، ایران کے خلاف یورپی پارلیمنٹ کی حالیہ قرار داد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس قسم کی قراردادوں کی کوئی اہمیت نہیں اور گذشتہ چار برسوں میں یورپی پارلیمنٹ کی جانب سے ایران کے خلاف حالیہ قرارداد سے زیادہ تند و تیز لہجے پر مبنی 60 قراردادیں جاری کی جاچکی ہیں ، جن کی کوئی قدر و قیمت نہیں اور کسی نے ان کی طرف توجہ تک نہیں دی۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر "روحانی" نے مزید کہا کہ یورپی پارلیمنٹ کی قرارداد کی شقیں مذاکرات اور جوہری پروگرام کے سیاسی راہ حل پر تاکید پر مبنی ہیں کہ جو امریکہ کے بعض حکمرانوں کے "تمام آپشن میز پر رکھے رہنے" جیسے بیانات سے متصادم ہے۔صدر مملکت "حسن روحانی" نے دنیا کے ساتھ ایران تعلقات کے فروغ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جوہری مسائل کے حوالے سے جامع سمجھوتے کے حصول کے لئے غیرملکی فریقوں کے ساتھ ایران کی مذاکراتی ٹیم کے مذاکرات پیچیدہ و دشوار ہیں لیکن امید کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں اور ان مذاکرات کو متاثر کرنے کے لئے بھی بعض عناصر کوشش کررہے ہیں۔

عظمت حضرت فاطمہ زہراسلام اللہ علیہا آیت اللہ شہید مرتضیٰ مطہری کی نظر میں

حضرت صدیقہ طاہرہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے بارے میں قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے کہ ''' انا اعطیناک الکوثر''' کوثر سے بالاتر کوئی کلمہ نہیں ۔اس زمانہ میں جب کہ عورت کو شر مطلق اور گناہ و فریب کا عنصر سمجھا جاتا تھا ، بیٹیوں کو زندہ دفن کر دینے پر فخر کیا جاتا تھا اور خواتین پر ظلم کو اپنے لئے شرف شمار کیا جاتا تھا ایسے زمانہ میں ایک خاتون کے لئے قرآن مجید نہیں کہتا '' خیر''' بلکہ کہتا ہے کوثر یعنی ''خیر کثیر'' ۔

حضرت صدیقہ طاہرہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور حضرت علی علیہ السلام گھر کے کاموں کو ایک دوسرے کے درمیان تقسیم کرنا چاہتے تھے لیکن اس بات کو پسند نہیں کرتے تھے کہ رسول خدا ۖ اس بارے میں اظہار نظر فرمائیں ۔لہذا رسول خدا ۖ سے عرض کرتے ہیں : یا رسول اللہ ہمارا دل چاہتا ہے کہ آپ فرمائیں گھر کا کون سا کام علی کریں اور کون سا میں انجام دوں ؟ رسول خدا ۖ نے گھر کے کام حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے سپرد کئے اور گھر کے باہر کے کاموں کی ذمہ داری علی علیہ السلام کو سونپ دی۔ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا فرماتی ہیں کہ میری خوشی کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ میرے بابا نے مجھے گھر کے باہر کے کاموں سے سبکدوش کیا ۔ عالم و با شعور عورت کو ایسا ہونا چاہئے جسے گھر سے باہر نکلنے کی حرص و ہوس نہ ہو ۔

ہمیں دیکھنا چاہئے کہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی شخصیت کس درجہ بلند ہے؟ ان کے کمالات اور صلاحیتیں کیسی ہیں ؟ان کا علم کیسا ہے ؟ان کی قوت ارادی کس قدر ہے ؟ اور انکی خطابت و بلاغت کیسی ہے؟

حضرت زہرا سلام اللہ علیہا جوانی کے ایام میں اس دنیا سے رخصت ہو گئیں اور انکے دشمن اس قدر زیادہ تھے کہ ان کے علمی آثار بہت کم ہم تک پہنچے ہیں لیکن خوش قسمتی سے ان کا ایک طولانی اور مفصل خطاب تاریخ میں ثبت ہوا ہے جسے صرف شیعوں نے ہی نقل نہیں کیا بلکہ بغدادی نے تیسری صدی میں اسے نقل کیا ہے ۔ یہی ایک خطبہ اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ مسلمان عورت خود کو شرعی حدود میں رکھتے ہوئے اور غیروں کے سامنے خود نمائی کئے بغیر معاشرہ کے مسائل میں کس قدر داخل ہو سکتی ہے۔

حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کا خطبہ توحید کے بیان میں نہج البلاغہ کی سطح کا ہے ۔ یعنی اس قدر بلند مفاہیم کا حامل ہے کہ فلاسفہ کی پہنچ سے بالاتر ہے ۔ جہاں ذات حق اور صفات باری تعالیٰ کے بارے میں گفتگو ہے وہاں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کائنات کی سب سے بڑی فلسفی محو سخن ہے۔ پھر فلسفہ احکام بیان کرتی ہیں :خداوند عالم نے نماز کو اس لئے واجب کیا ،روزہ کو اس مقصد کے تحت واجب قرار دیا ، حج و امر بالمعروف و نہی از منکر کے وجوب کا فلسفہ یہ ہے ۔ پھر اسلام سے قبل عربوں کی حالت پر گفتگو کرتی ہیں کہ تم عرب لوگ اسلام سے پہلے کس حالت میں تھے اور اسلام نے تمہاری زندگی میں کیسا انقلاب برپا کیا ہے۔ مادی اور معنوی لحاظ سے ان کی زندگی پر اشارہ کرتی ہیں اور رسول خدا ۖکے توسط سے انہیں جو مادی اور معنوی نعمتیں میسر آئیں انہیں یاد دلاتی ہیں اور پھر دلائل کے ساتھ اپنے حق کے لئے احتجاج کرتی ہیں ۔

حضرت امام خامنہ ای کی زبان سے انقلاب اسلامی کی یادیں

رہبر معظم انقلاب اسلامی، حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے ۱۴ جنوری ۱۹۸۴ کو عشرہ فجر کے ایام میں ایک نامہ نگار کو انٹرویو دیتے ہوئے انقلاب اسلامی کی کامیابی کے دنوں کی یادوں کا تازہ کرتے ہوئے کہا:

میں ایک دلچسپ بات بتاوں آپ کو سن کر تعجب ہو گا:

۲۲ بھمن (انقلاب اسلامی کی کامیابی کا دن) کے کچھ دن گذرنے کے بعد میں اس فکر میں تھا کہ کیا میں سو رہا ہوں یا جاگ رہا ہوں۔ و میں کوشش کر رہا تھا کہ اگر سو رہا ہوں تو اٹھ جاوں۔ ایک ایسی خوشگوار خواب کی طرح جسے انسان چاہتا ہے کہ دیکھتا رہے اگر جگ گیا تو وہ منظر نہیں دیکھ پائے گا۔ اتنا یہ مسئلہ حیرت انگیز تھا۔

سجدہ شکر۔۔۔

اس وقت جب ریڈیو نے سب سے پہلی مرتبہ کہا: ’’انقلاب اسلامی کی آواز‘‘ میں گاڑی میں تھا کارخانہ سےرہائشگاہ امام کی طرف جا رہا تھا، ایک کار خانہ تھا جس میں کچھ فتنہ پرور افراد جمع تھے اور ایک ہنگامہ وہاں کھڑا کر رکھا تھا انقلاب کے شروع کے دن تھے شاید سترہواں اٹھارہوں دن تھا، مشکلات اپنی اوج پر تھیں۔ ابھی کوئی بھی کام انجام نہیں پایا تھا۔ کچھ بلیکمیل کرنے والے لوگ وہاں کارخانہ میں جمع تھے اور کچھ ھنگامہ کھڑا کرنے جا رہے تھے، ہم وہاں گئے تاکہ انہیں سمجھا بجھا کر ادھر ادھر کریں۔ تو واپسی پر میں گاڑی میں تھا ڈرائور نے ریڈیو چلایا تو ایک مرتبہ ’’ انقلاب اسلامی کی آواز‘‘ ریڈیو سے نشر ہوئی۔ میں نے فورا گاڑی کو رکوایا اور نیچے اتر کر سجدہ شکر بجا لایا۔ یعنی اس قدر ہمارے لیے ناقابل تصور تھا یہ مسئلہ۔ نا قابل یقین تھا۔ اس وقت کا ہر لمحہ ایک یادگار ہے۔ مثلا اگر میں چاہوں انقلاب کے پہلے بیس دنوں کی یادوں کو بیان کروں تو میں بیان نہیں کر پاوں گا، اس احساس کو بیان نہیں کر سکوں گا جو احساس ان دنوں میں ہمارے وجود میں پایا جاتا تھا۔

امام کا ایران میں داخل ہونا

جس دن امام کو آنا تھا ہم یونیورسٹی میں بند تھے ہم وہاں سے نکلے اور راستے میں گاڑی میں لوگ خوش ہو رہے تھے ہنس رہے تھے لیکن میں امام کی وجہ سے نگران تھا کہ کبھی کوئی برا حادثہ نہ ان کے ساتھ پیش نہ آ جائے اس لیے کہ کچھ افرد نے دھمکیاں دی تھیں اس وجہ سے میری آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔

ہم ایئرپورٹ میں داخل ہوئے امام اس عظیم استقبال کے ساتھ ایران میں داخل ہوئے جب امام کو میں نے آرام و سکون کے ساتھ آتے ہوئے دیکھ لیا تو میں بھی مطمئن ہو گیا۔ میرا اضطراب ختم ہو گیا۔ اور شاید بہت سارے دوسرے لوگ بھی جو مضطرب تھے مطمئن ہو گئے ہوں گے۔

کئی سال بعد بھی جب میں امام کی زیارت کرتا تھا تو وہ لمحات میری آنکھوں کے سامنے مجسم ہو جاتے تھے۔

اس کے بعد جب ایئرپورٹ سے شہر میں داخل ہوئے تو وہ کیسا منظر تھا جو سب کو یاد ہو گا کوئی بھی اسے بھول نہیں سکتا ہے اس کے بعد بھشت زہرا میں گئے اور امام کی تقریر کے بعد آقائے ناطق نوری انہیں آرام کرنے کے لیے ایک نامعلوم جگہ لے گئے چونکہ امام پچھلی رات سے مسلسل جاگ رہے تھے بالکل آرام نہیں کیا تھا۔

امام مدرسہ رفاہ میں

ہم مدرسہ رفاہ میں کچھ انتظامات کرنے کے لیے پہلے سے گئے ہوئے تھے امام کے آنے سے پہلے ہم وہاں دوستوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے اور امام کے قیام و ان کے آنے کے بعد کے بارے میں پروگرام ترتیب دے رہے تھے ان دنوں میں ایک عجیب احساس تھا۔

ان دنوں میں ہم ایک رسالہ نکالتے تھے جس میں بعض خبریں چھاپتے تھے اسی مدرسہ رفاہ سے سے یہ رسالہ نکلتا تھا۔ میں واپس آیا کہ دیکھوں کیا خبر ہے حالات کی عکاسی کروں اور اس رسالہ میں خبر دوں۔ امام آرام کرنے کے لیے گئے ہوئے تھے۔ رات کے تقریبا دس بج رہے تھے میں خبریں ترتیب دینے میں مشغول تھا اتنے میں دیکھا کہ اسی مدرسہ رفاہ کے سامنے گلی کے سرے سے ہا ہو کی آوازیں آ رہی تھیں میں نے سوچا خدا نہ کرے کوئی حادثہ ہو گیا ہو میں اور ایک اور صاحب اٹھ کر کھڑکی سے دیکھنے لگے اتنے میں دیکھا کہ امام اکیلے مدرسہ میں داخل ہوئے کوئی ان کے ساتھ نہیں تھا۔ صرف چند سپاہی جو وہاں باہر تھے انہوں نے جونہی امام کو دیکھا تو وہ بھی مبہوت ہو گئے کہ کیا کریں صرف امام کو اطراف سے گیر لیا۔ امام پورے دن کی تمام تھکاوٹ کے باوجود ان سے کھڑے ہو کر باتیں کر رہے تھے انہوں نے امام کے ہاتھ چومے۔ شاید وہ دس پندرہ افراد تھے سارے، امام اسی طرح مدرسہ میں داخل ہوئے اور پہلے طبقہ کے زینہ پر پہنچے زینہ چڑھنے کے بعد پہلا وہی کمرہ تھا جہاں میں کام کر رہا تھا میں کمرہ سےنکل کر ہال میں آیا جہاں چند مدرسہ کے لڑکے تھے اور امام انہیں دیکھ کر ان کی طرف چلے گئے سب نے امام کے ہاتھ چومنا شروع کر دئے۔

میں بھی نزدیک ہو کر ہاتھ چومنا چاہتا تھا لیکن یہ سوچ کر کہ مزید امام کے لیے مزاحمت ہوجائے گی نزدیک نہیں گیا۔ میں کنارہ پر کھڑا ہو گیا اور امام میرے سامنے سے گذر گئے۔

میں نزدیک نہیں گیا چونکہ دیکھا کہ امام کو پہلے سے لڑکوں نے گیرے میں لے رکھا ہے اور اسی آرزو اور احساس کو میں ایئرپورٹ پر بھی رکھتا تھا لیکن وہاں بھی نزدیک نہیں جا پایا۔ اپنے آپ کو روک لیا کہ امام کے لیے مزید مزاحمت ایجاد نہ کروں دوسروں کو بھی نزدیک جانےسے روک رہا تھا۔

امام زینہ چڑھ کر اوپر جانا چاہتے تھے لیکن یکدم وہیں زمین پر بیٹھ گئے اور تیس چالیس لوگ جو اطراف میں تھے سب بیٹھ گئے ایک طالبعلم نے نامنظم طریقہ سے خیر مقدم پیش کیا چونکہ امام بغیر کسی پروگرام کے اچانک مدرسہ میں داخل ہو گئے تھے کسی کو یہ تصور بھی نہیں تھا۔ اس کے بعد کچھ منٹ امام نے گفتگو کی اس کے بعد اوپر جا کر ایک کمرہ میں آرام کرنے لگے۔

سيد حسن نصر اللہ: شام کی حکومت کا گرانا اب ممکن نہیں

حسن نصر اللہ نے اس انٹرویو میں شام کے حالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : شام میں بشار الاسد کی حکومت کی سرنگونی کا خطرہ اب ختم ہو گیا ہے اب بشار الاسد کی حکومت کو گرانا ممکن نہیں۔

لبنان کے اخبار السفیر نے حزب اللہ کے جنرل سیکریٹری سید حسن نصر اللہ کے ایک انٹرویو کو شائع کیا ہےجو حالیہ دنوں میں انہوں نے علاقے کے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے دیا ہے۔ حزب اللہ کے سکریٹری جنرل نے اس انٹرویو میں لبنان، شام، صہیونی حکومت اور اسلامی بیداری کے سلسلے میں تفصیلی گفتگو کی ہے۔

اخبار السفیر میں حسن نصر اللہ کے انٹرویو کے شائع شدہ ایک حصے میں آیا ہے کہ سید حسن نصر اللہ نے کہا ہے کہ لبنانی فوج کی کوششوں سے لبنان میں بم دھماکوں کا سلسلہ کافی کنٹرول ہو گیا ہے۔

انہوں نے اس انٹرویو میں شام کے حالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : شام میں بشار الاسد کی حکومت کی سرنگونی کا خطرہ اب ختم ہو گیا ہے اب بشار الاسد کی حکومت کو گرانا ممکن نہیں۔

حزب اللہ کے جنرل سیکریٹری نے واضح کیا ہے کہ اس وقت اکثر ممالک کی کوشش ہے کہ بحران شام کے حل کے لیے کوئی سیاسی راہ حل نکلنا چاہیے۔ شام میں جنگ چھیڑنے کا مقصد ڈیموکریسی اور عدالت قائم کرنا نہیں ہے بلکہ اقتدار کی کرسی حاصل کرنا ہے۔

انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ شام کے حالات میں بہتری اسرائیل کے لیے باعث نگرانی ہے کہا ہم جنوبی شام اور سرحدی علاقوں میں فتنے کی آگ بھڑکانے والوں کو خوب جانتے ہیں۔

سید حسن نصر اللہ نے مزید کہا: ایران کی نسبت اسرئیل کی بے چینی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔

جوہری مذاکرات کے بارے میں بیان باری غیر سنجیدہ عملاسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کی ترجمان مرضیہ افخم نے ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان ماہرین کی سطح کے نئے مرحلے کے مذاکرات سے متعلق بعض شدت پسند امریکی حکام اور گروہوں کی جانب سے منفی تبصرے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ کے بعض حکام کی جانب سے جوہری مذاکرات کے بارے میں بیان باری غیر سنجیدہ عمل ہے۔ وزارت خارجہ کے پریس نوٹ کے مطابق محترمہ مرضیہ افخم نے کہا کہ ایرانی قوم دھمکیوں اور دباؤ سے متاثر نہیں ہوتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ صرف و صرف باہمی احترام اور ایرانی قوم کے حقوق کے اعتراف کی بنیاد پر ہی مذاکرات نتیجہ خیز ہو سکتے ہیں۔ ایرانی وزارت خارجہ کی ترجمان کا کہنا تھا کہ ایران، جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے این پی ٹی کے قوانین کے تحت اپنے جوہری حقوق حاصل کرنا چاہتا ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ سال نومبر میں جنیوا میں تاریخی عبوری جوہری معاہدے طے پانے کے بعد ایران اور چھ عالمی طاقتیں ایک جامع جوہری معاہدے تک پہنچنے کے لیے مذاکرات میں مصروف ہیں۔

افغانستان ،کامیاب صدارتی انتخابات کی عالمی پیمانے پر ستائشافغانستان میں صدارتی انتخابات کے کامیاب انعقاد اور بھاری ووٹرزٹرن آؤٹ کی افغان اور مغربی رہنماؤں نے تعریف کی اور اسے ایک بڑی کامیابی قراردیا ہے جب کہ پولنگ کے بعد اب ووٹوں کی گنتی کا عمل جاری ہے ۔

افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے صدارتی انتخابات کے انعقاد کو ایک عظیم کامیابی قراردیا اور کہا کہ افغان عوام نے دنیا کے سامنے جمہوریت کے لئے حمایت ظاہر کردی ہے افغانستان کے الیکشن کمیشن کے مطابق ایک کروڑ بیس لاکھ ووٹر میں سے 70 لاکھ سے زائد افغان عوام نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیاہے ۔

ادھر وہائٹ ہاؤس سے جاری بیان کے مطابق امریکی صدر باراک اوباما نے بھی انتخابات کی تعریف کی اورکہا کہ ہم انتخابات کے لئے ٹرن آؤٹ پر افغان عوام ، سیکورٹی فورسز اور الیکش حکام کو خراج تحسین پیش کرتے ہيں ،برطانیہ کے وزیرخارجہ ولیم ہیگ نے ایک بیان میں کہا کہ یہ افغان عوام کی ایک عظیم کامیابی ہے کہ تشدد کے خطروں کے باوجود بچے ، بوڑھے ، جوان ،مرد اور خواتین اتنی بڑی تعداد میں نکلے اور ملک کے مستقبل کے لئے اپنی رائے کا اظہار کیا ۔

آیت اللہ بشیر نجفی کی جسمانی حالت بہتر

آیت اللہ بشیر نجفی کسی بیماری کے باعث نجف اشرف کے ایک پستپال میں زیر علاج ہیں۔

آیت اللہ العظمیٰ بشیر نجفی کے بیٹے نے بتایا کہ موصوف کی جسمانی حالت اب بہتر ہو گئی ہے تاھم ہسپتال میں زیرنگرانی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق نجف اشرف کے مرجع تقلید آیت اللہ حافظ بشیر نجفی جسمانی ناراحتی اور بیماری کے باعث نجف اشرف کے ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔

موصوف کے بیٹے نے ان کی حالت کو بہتر بتاتے ہوئے کہا کہ ابھی ہسپتال میں ہی ڈاکٹروں کی نگرانی میں ہیں اور انشاء اللہ جلدی انہیں گھر روانہ کر دیا جائے گا۔